Professional Documents
Culture Documents
پروف ریڈنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عالمہ شہباز انجم قادری کمپوزنگ وسیٹنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عالمہ محمد وقار امینی نقشبندی
باہتمام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بزم
ا نتساب
قارئین ! کچھ عرصہ سے اہل سنت کے خالف کچھ حضرات کی طرف سے مسلسل کتب کا اجراء کیا جارہا تھا،ان میں ایک کتاب
دست و گریباں کے عنوان سے شائع ہوئی،اس کتاب پہ دیوبندی حضرات ہی کچھ زیادہ ہی نازاں تھے ،الحمد ہللا بندہ ناچیز نے اس
کتاب کی پہلی جلدکا دندان شکن جواب ’’دست و گریباں کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ‘‘ ہدئیہ قارئین کیا تو اسے بہت پسند کیا
گیا،اندرون بیرون ملک سے بہت حضرات نے نہ صرف رابطے کئے بلکہ کتاب مذکورہ پہ مبارکباد اور ڈھیر ساری دعائوں سے
نوازا۔ ہللا رب العزت ان تمام حضرات کی دعائوں کو میرے حق میں قبول فرمائے ۔اس سلسلہ کی اب دوسری جلد پیش خدمت ہے ۔
مگر کتاب سے قبل چند اہم گزرشات پیش کرنا ضروری ہیں۔سب سے اول تو ہم اس راز سے پردہ اٹھانا چاہتے ہیں کہ ’’دست و
گریباں‘‘مرتب کرنے کا شرف جناب ابو ایوب صاحب کو نہیں بلکہ یہ کسی اور صاحب کی تالیف ہے ،مفتی حماد لکھتے ہیں:۔
کسی نے تفصیل دیکھنی ہو تو بندہ کے ہونہار شاگرد سفیان قادری کی کتاب’’دست و گریباں ‘‘کا مطالعہ کرے ۔بریلویوں کی باہمی’’
خانہ جنگی پر اس سے بہترین کتاب ابھی تک نہیں لکھی گئی‘‘(بریلوی ترجمہ قرٓان کا علمی تجزیہ ص )۷۹
اس حوالہ حقیقت سے نقاب الٹ گیا کہ مرتب صاحب جو بزعم خود مناظر بن کر اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی سعی نامشکور کرتے
پائے جاتے ہیں،ان میں اتنی قابلیت نہیں کہ وہ اس قسم کی کاوش سر انجام دے سکیں،پھر خود لکھتے ہیں:۔
یہ اس کی دوسری جلد ہے ہم نے اس کی تیاری میں اپنے اکابر کی بالخصوص متکلم اسالم حضرت موالنا الیاس گھمن صاحب ’’
حفظہ ہللا کی کتب سے اور رئیس المناظرین حضرت االستاذموالنا منیر احمد اختر صاحب کی توجہات اور افادات سے کافی فائدہ
اٹھایا ہے ‘‘(دست و گریبان ج ۲ص)۷
ہم نے اس کتاب کی تیاری کے لئے پیر و مرشد متکلم السال م حضرت موالنا محمد الیاس گھمن صاحب زید معالیہ المبارکہ کی کتب
سے بہت سارا استفادہ کیا ہے اور دیگر اکابر کی کتب سے حسب wضروروت مواد لیا ہے ‘‘(دست و گریباں ج ۲ص )۱۰
تفصیلی کالم اگر دیکھنا ہوتو متکلم اسالم حضرت موالنا محمد الیاس گھمن صاحب مرشدما کے توحید و سنت اسباق میںمالحظہ ’’
فرمایا جا سکتا ہے جس سے ہم نے بھی استفادہ کیا ہے اور علمی و عوامی انداز سے بھر پور ہے ‘‘(دست و گریباں ج ۳ص )۲۰۵
نیز:۔
اس طرح کے کئی جھوٹ ہم اور بھی دکھا سکتے ہیں تفصیل کے استاذ یم متکلم اسالم موالنا محمد الیاس گھمن صاحب کی حسام ’’
الحرمین کا تحقیقی جائزہ پڑھیں ہم نے بھی اسی سے چند باتیں نقل کر دی ہیں‘‘(دست وگریباں ج ۳ص )۲۸۸
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کتاب مذکورہ میںکچھ نیا پیش نہیںکیاگیا ،بلکہ وہی چبائے ہوئے چنے پیش کرنے کا ہی شرف
حاصل کیا گیا ہے جن کا جواب بھی صفحہ ہستی پہ وجود پا چکا ہے(نوٹ:حسام الحرمین پہ تحقیقی جائزہ کا جواب مفتی انس
صاحب کے قلم سے حسام الحرمین اور مخالفین کے عنوان سے منظر عام پہ ٓاچکا ہے)،مگر جناب کی تعلیاں بھی قابل دید
ہیں،لکھتے ہیں:۔
میں نے بریلوی مناظرین سے خود سنا ہے کہ ’’اس کتاب نے ہمارا جنازہ نکال دیا‘‘(دست و گریباں ج ۴ص’’)۱۴
خدا جانے موصوف کی اس کتاب میں کو نسی ایسی ’’گیڈر سنگھی ‘‘ہے جو اس قدر موثر ثابت ہوئی ،مگر تضادات ،کتر و بیونت
،غیر معتبر حوالہ جات اور تفردات پہ مشتمل یہ مغلوبہ تو منہ لگانے کے بھی قابل نہیں،چہ جائیکہ اس سے ایسی امیدیں لگائیںجائے
،پھر موصوف اپنی اس کتاب کی نوعیت کے متعلق کچھ یوں گویا ہیں:۔
ہم نے ہللا کی توفیق اور اس کی مہربانی اور اس کے احسان و امتنان سے ایک سلسلہ شرو ع کیا تھا کہ اہل بدعت ٓاپس میں ایک ’’
دوسرے کی تکفیر و تضلیل میں مصروف ہیں اور یہ بات زیر قلم النی اس لئے بھی ضروری تھی کہ دنیا سمجھ لے کہ جو لوگ کل
تک اکابر دیوبند کا کفر کہنے والے تھے وہ ٓاج اپنے بڑے چھوٹوں سب کو ہی کفر کے گھاٹ اتار چکے ہیں۔۔یہ بعد کی بات ہے مگر
اکابر دیوبند کی طرف رخ کرنے کی اب انہیں ضرور ت ہی نہیں رہے گی‘‘(دست و گریبان ج ۳ص)۹
ٰ
دعوی ہی ہے ،جناب کے اکثر پیش کر دہ حوالہ جات سے تکفیر الزم ہی نہیں ٓاتی ۔پھر دلچسپ بات ٰ
دعوی نرا لیکن موصوف کا یہ
یہ بھی ہے کہ موصوف نے گوھر شاہی جیسے شخص کو بھی بریلوی بنا کر پیش کیا ہے ،جب اس کے نظریات نہ صرف اہل سنت
بلکہ اہل اسالم سے ہی منافی ہیں،اور اس کی اجماعی تکفیر بھی ثابت ہے ،مگر جناب اسے بریلوی ثابت کرنے پہ مصر ہیں،لیکن
اگر معاصرانہ چپقلش سے بقول جناب کے کسی کی تکفیر کالعدم ہوجائے گی ،تو اس طرح کسی کو بھی کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جو اعتراض موصوف ٓاج کر رہے ہیں،اس قسم کے اعتراضات مرزائی و شیعہ حضرات نے ان سے قبل کر چکے ہیں،کہ اہل اسالم
ٰ
فتوی باز ی پہ مشغول ہیں،ہللا وسایا لکھتے ہیں:۔ خود ایک دوسرے پہ
ٰ
فتوی لگاتے ہیں ،وہ خود آاپس میں قادیانی اپنے کفر بواح سے توجہ ہٹانے کے لئے مغالطہ دیتے ہیں کہ جو علماء ہم پر کفر کا
ایک دوسرے کو کافر دیتے ہیں،لہذا ان فتوئوں کا اعتبار اٹھ گیا(ٓائنیہ قادیانیت ص )223
ٰ
فتوی بازی کے باوجود یہ سب ان حضرات کو جوجواب ہمارے معاندین کی جانب سےدیا گیا تھا وہی پیش خدمت ہے کہ ٓاپس کی
ٓاپ کے کفر پہ متفق ہیں،اسی طرح بالفرض اہل سنت کے اندر بھی اختالفات ہوں،تو یہ سب ٓاپ کی تکفیر پہ متفق نظر ٓاتے ہیں،جس
کا اقرار خود مرتب صاحب کو بھی ہے ،چنانچہ لکھتے ہیں:۔
ساری دنیا کو معلوم ہے کہ اعلی ٰ حضرت سے لیکر ادنی حضرت تمام بریلوی علماء دیوبند کو کافر کہتے ہیں‘‘(پانچ سو با ادب ’’
سواالت ص )9
اگر اس کے باوجود بھی موصوف مصر ہوں تو ہم عرض کرتے ہیں کہ اس طرح کسی کی بھی تکفیر ممکن نہیں،کیونکہ معاصرانہ
چپقلش سے تو صحابہ تک مفید نہ تھے۔ثاقب رسالپوری لکھتے ہیں:۔
ملک صاحب wنے اصحاب صفین کے بارے میں عمار بن یاسر ؓ کا ایک قول بھی نقل کیا ہے کہ :۔’’یہ نہ کہو کہ اہل شام نے کفر ’’
کیا ،لیکن یہ کہو کہ انہوں نے فسق یا ظلم کیا‘‘لیکن اول تو صحابہ کرام کے باہمی منازعات میںانہی کا ایک دوسرے کے بارے میں
تبصرے کو محل استدالل بناناہی درست نہیں‘‘(حضرت امیر معاویہ اور تاریخی روایات ص )۱۷۶
اس حوالہ سے یہ بات واضح ہوئی کہ حضرت عمار ؓ نے حضرت معاویہ ؓ کو فاسق wکہا،مگر کیونکہ یہ معاصرانہ چپقلش تھی اس
لئے حجت نہیں۔کیا دیوبندی حضرا ت محض اس بناء پہ صحابہ کو دست و گریباں قرار دینے کے لئے تیار ہیں؟ان کے درمیان ہونی
والی جنگیں کیا دست و گریباں نہیں کہالئیں گی؟اگر لفظی جنگ دست و گریباں گردانی جا سکتی ہے تو تیر وتلوار کے ساتھ باہم
لڑائی دست و گریباں کیوں نہیں؟کیا اس جنگ کی بنیاد پہ مسیلمہ کذاب سے لڑے جانے والی بھی بے فائدہ قرار پائے گی؟کیا کوئی
ٰ
دعوی کر سکتا ہے کہ صحابہ کیونکہ ٓاپس میں دست و گریباں تھے اس لئے ان کا مسیلمہ سے جہاد دلیل نہیں بن مرزائی کل کو یہ
سکتا۔پھربات بات پہ چیلنج کرنے والے حضرات کو ہمارا بھی چیلنج ہے کہ حضرت عمار ؓ کا رجوع ثابت کریں؟اگر نہ کر سکیں تو
کیا یہ حضرات محض اس بناء حضرت معاویہ ؓ فاسق کے لفظ سے منسوب کریں گے ؟۔پھر عالمہ ابن حجر فرماتے ہیں:۔
یو ہیں صحابہ و تابعین و تبع تابعین ؓ کے کلمات ہمچشمیوں کا ایک دوسرے پر طعن کرنا بہت سا مذکور ہے ۔جس کی طرف ایک ’’
عالم نے بھی التفات نہ کیا نہ اس کا خیال کیا کیونکہ وہ بھی بشر ہیں۔ٓاپس میں کبھی ایک دوسرے سے خوش رہتے ہیں ۔اور کبھی
ناراض ہوتے ہیں۔اور رضا مندی کے وقت کی بات اور ہوتی ہے ۔اور ناراضی کے وقت کی دوسری ۔تو جو شخص علماء میں سے
تعالی عنہم میں ایک کی تشنیع دوسرے کے حق میں قبول
ٰ ایک کا طعن دوسرے پر قبول کرے ۔اس کو چاہئے کہ صحابہ رضی ہللا
کرے ۔اور یوہیں تابعین و تبع تابعین و ائمہ مسلمین ؓ میں بھی بعضوں کا اعتراض بعضوں کے حق میں مان لے اگر ایساکوئی کرے
گا تو غایت درجہ گمراہ اور نہایت ہی نقصان میں ہوگا‘‘(الخیرات الحسان ص )۱۸۱
اس کتاب کا ترجمہ خود دیوبندی حضرات کی طرف سے عبد الغنی طارق صاحب کے قلم سے معرض وجود میں ٓاچکا ہے ،جسے
سرتاج محدثین کے نام سے موسوم کیاگیا ہے اور کتاب اپنے ٓاغاز میں امین صفدر صاحب کے مقدمہ سے مزین ہے،اس کے صفحہ
نمبر ۲۷۰پہ یہی عبارت موجود ہے ۔اس عبارت سے یہ بات واضح ہوئی کہ معاصرانہ چپقلش صحابہ کے دور سے جاری ہے ،اگر
ٰ
فتاوی جات لگانے کا شوق ہے تو سب سے پہلے صحابہ کرام اس کی زد میں ٓاتے ہیں،اور اس بناء پہ دست و گریباں و گمراہیت کے
اہل اسالم دست و گریباں قرار پاتے ہیں،اس لئے موصوف کی کتاب کی بنیاد ہی غلط ہے اور اگر اسے تسلیم کیاجائے تو صحابہ کے
ایک دوسرے کے متعلق الفاظ کو تسلیم کرنا پڑے گا،جس کے متعلق محض ایک مثال ہم عرض کر چکے ہیں،مزید عرض کر نے
سے بوجہ تحفظات احتراز برتتے ہیں،خیر ہم عرض کرتے ہیں کہ اگر موصوف اس پہ قائم رہیں تو کیا حضرت امام ابو حنیفہ ؓ پہ ان
کے معاصرین کی جانب سے تنقید نہیں کی گئی؟عبد القدوس قارن لکھتے ہیں:۔
حافظ ابو بکربن ابی شیبہ ؓالمتوفی ۲۳۵ھ نے ایک سو پچیس مسائل کا ذکر کیا کہ ان میں امام ابو حنیفہ نے حدیث کی مخالفت کی ’’
ہے ‘‘(امام ابو حنیفہ کا عادالنہ دفاع ص)۴۴
اس کے عالوہ خطیب بغدادی نے جو کچھ ٓاپ ؓ کے متعلق نقل کیا ،اس سے رجوع قیامت wتک نہیں دکھالیا جاسکتا،کیا امام غزالی ؓ
ٰ
نصاری اور امام الحرمین ؓ کی تکفیر کا فریضہ ابن تیمیہ نے سر انجام نہیں دیا؟کیا عالمہ علی قاری کے قلم نے ابن عربی ؒ کو یہودو
ٰ
فتوی نہیں لگا؟کیاشیخ مجدد الف ثانی کی تکفیر نہیں کی گئی ؟کیا عالمہ ٓالوسی نے علی قاری سے بدتر نہیں لکھا؟کیا موالنا روم پہ
پہ سخت تنقید نہیں کی؟کیا شاہ ولیؒ اس کا شکار نہیں ہوئے ؟(نوٹ :۔ ان سب کا تذکرہ دیوبندی کتب میں موجود ہے )جب یہ سب کچھ
موجود ہے ،تو کیا اسے دست و گریباں قرار دیا جائے گا؟اگر یہ دست و گریباں نہیں تو علماء اہل سنت کی تنقید بھی دست و گریباں
نہیں۔ایسے ہی اسماء الرجال کی کتب میں روات کے متعلق مختلف بیانات موجود ہیں،امین صفدر کی افادات میں ہے:۔
اس حدیث کا راوی محمد بن اسحق ہے،جس کے ابرے میں محدثین میں شدید اختالف پایا جاتا ہے ۔امام شعبہ تو اس کے بارے میں
فرماتے ہیں امیر المومنین فی الحدیث ۔امام مالک ،امام ہشام بن عروہ ،سلیمان تمیمی ،امام احمد ؒ اس کو دجال اور کذاب فرماتے
ہیں(انوارات صفدر ص )106
کیا موصوف اسے بھی دست و گریباں اور گمراہیت سے تعبیر کریں گے ،ہمارے نزدیک تو موصوف کو ان کتب کا ترجمہ فرما کر
اسالمی دست و گریباں کے نام سے سلسلہ شروع کرنا چاہئے جس سے سو سے بھی زائد جلدیں معرض وجود میں ٓاجائیں گی۔پھر
غالم مہر محمد میانوالوی لکھتے ہیں:۔
جب ٓاپ حضرت عثمان کے دشمن ہیں اور صحابہ کے بھی دشمن ہیں تو و ہ باہم صلح کریں یا لٹریں ٓاپ کو دخل دینے کا کوئی حق
نہیں ہے (معراج صحابیت ص )155
لہذا موصو ف کو بھی ان کے اپنے اصول سے ہمارے اختالفات میں دخل دینے کا حق حاصل نہیں۔
جہاں تک دفاع کی بات ہے تو ہم نے موجودہ دور میں اپنا طرز تھوڑا سا تبدیل کیا ہے اور وہ یہ کہ ہم نے عبارات کے موضوع پر
ان بریلویوں کو یہ نسخہ دیا ہے کہ وہ ٓاپ خود ہی ایک دوسرے کو کافر کافر کہہ کر پورے فرقہ کو برباد کر چکے ہیں لہذا جب
تک اس باہمی تکفیر کی جنگ میں لگے رہیں گے اور جب تک اس سے جان نہیں چھڑاتے ہماری عبارتوں کو ہاتھ لگانے کی
اجازت نہ ہوگی (دفاع اہل السنۃ ج 1ص)18
اور ارق سابقہ میں جس قدر وضاحت ہوچکی ہے ،اس کی بدولت مزید کچھ کہنے کی حاجت نہیں،مگر التوں کے بھوت کیوں کہ
باتوں سے نہیں مانتے ،اس لئے ان کی زیافت wکے لئے کچھ اور چیزیں پیش کی جاتی ہیں۔موصوف کے ممدوح لکھتے ہیں:۔
ٰ
دعوی باالجماع کفر ہے ‘‘(تذکیر شرح نحو مال علی قاری حنفی شر ح فقہ االکبر میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ہمارے نبی کے بعد نبوت کا
میر ص)۴۰
پھر اگر تم سچے مسلمان اور پکے مومن ہو تو ابن عربی کی جماعت کے کفر میں شک نہ کرواور اس گمراہ قوم اور بے وقوف
گرہ کی گمراہی میں توقف نہ کرو ،پھر اگر تم پوچھو ،کیا انہیں سالم کہنے کی ابتدا کی جاسکتی ہے ؟میں کہتا ہوںنہیں نہ ان کے
سالم کا جواب دیا جائے بلکہ انہیں وعلیکم کا لفظ بھی نہیں کہنا چاہئے کیونکہ یہ یہودیوں اور نصرانیوں سے زیادہ برے ہیں اور ان
کا حکم مرتدین کا حکم ہے (الرد علی القائلین بو حدہ الوجود ص)155
ٰ
فتوی کالعدم قرار پائے گا؟کیا مرزائی یہ کہ سکتے کیا ابن عربی کی تکفیر کرنے کی وجہ سے مال علی قاری رحمۃ ہللا علیہ کا یہ
ہیں کہ جناب پہلے ٓاپسی تکفیر کا معاملہ طے فرمائیں،پھر ہمارے متعلق کچھ عرض کیجئے گا؟ایسے wہی گستاخ رسول کے متعلق
فتوی نقل کیا جاتا ہے ،جب کہ انہی سے امام غزالی کی تکفیر منقول ہے ۔اب کیا گستاخ رسول یہ کہہ سکتا ہے کہ جب ٰ ابن تیمیہ کا
فتوی نہیں۔اب جو جواب ابو ایوب صاحب دیں گے وہی ہماری طرف سے سمجھاw ٰ تک ٓاپسی تکفیر کو نہیں سلجھاتے، wہم پہ کوئی
ٰ
فتوی ٰ
فتاوی جات شیعہ و مرزائیہ پہ کالعدم قرار پائیں گے کیونکہ یہ خود ایک دوسرے پہ جائے ۔اس طرح تو دیوبندی حضرات کے
بازی میں مشغول ہیں،کچھ جھلک ہم نے پہلی جلد میں دیکھائی ہے ،مزید معروضات یہاں پیش کی جاتی ہیں۔
قاسم نانوتوی
مختلف اقتباسات ٓاپ ؒ کی کتب سے ناظرین دیکھ چکے ہیں مفصل بحث حضرت کی کتب سے دیکھ کر سمجھ wسکتے ہیں۔پھر اب یہ
سمجھائیں کہ حضرت نانوتوی رحمہ ہللا اسی متعارف معنی کی رو سےموت نبی کے قائل ہیں یا موت کے کوئی معنی لے رہے
ہیں اس معنی کو لے کر موت کا انکار نہیں ہو سکتا تو خاتم النبیین کی قادیانی تفسیر اختیار کر کے ختم نبوت کا انکار نہیں
ہوسکتا(ندائے حق ص)575
اور بانی دیوبند کے ساتھ مخالف کرتے ہیں پھر ٓاپ پکے دیوبندی یہ منطق ہماری سمجھ میں کیا ٓائے گی کسی عقلمند کی سمجھ میں
نہیں ٓاسکتی خصوصا جبکہ بانی دیوبند کا قول محترم جناب موالنا کی تحریر کی روشنی میںقرٓان و حدیث کی نصوص و اشارات کے
بھی سراسر خالف ہو (ندائے حق ج 1ص)722
ایسے ہی لکھا:۔
لیکن حضرت نانوتوی کا یہ نظریہ صریح خالف ہے اس حدیث کے جو امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں نقل فرمایا ہے (ندائے
حق ص ج 1ص )636
حد تو یہ ہے کہ تحریک کو ظلما،کچل دینےواال وہ شخص تھا جو چکن کی مایہ دار ٹوہی ،سیاہ چہرے ،موٹی اور اکڑی ہوئی گردن
واال اور ایجنسیوں کا ٓالہ کار تھا،جس نے تحریک کے رہنمائو ں کے خالف خوجہ ناظم الدین کو جا کر یہ تاثر دیا کہ یہ صرف
احرار کی یورش ہے ،علمااس کے ساتھ نہیں۔یہ راز اس وقت کھال جب خواجہ ناظم الدین سے عداللت نے پوچھا کہ ایک اسالمی
مطالبہ کے ٓائینی حل کے لئے ٓاپ نےے کوشش کیوں نہیں کی ؟تو اس نے جواب میںکہا کہ میری حکومت دنیائے السام کے مقتدر
علماء کو بال کر یہ مسئلہ حل کرنا چاہتی تھی مگر ہمیں ایک عالم دین نے مشورہ دیا کہ یہ صرف احرار کی شورش ہے ،اسے دبا
دیا جائے ۔وکیل نے پوچھا وہ کون عالم دین تھے ؟عدالت نے جواب میں کہا وہ ۔۔تھا؟تو خواجہ ناظم الدین نے اثبات میں سر ہال دیا۔
یہی وہ پاک باز مخبر تھا جس نے اس زمانہ میں ظفر ہللا قادیانی کے ساتھ ایک نکاح میں ساتھ بیٹھنے میں عار محسوس نہ کی (ایک
گمنام خط اور تلخ حقائق ص )24-23
جس کے بڑے زکام کا بہا نہ بنا کر کے وعدہ خالفی کے عادی تھے ،جنہوں نے اپنے قائم کر دہ دارلعلوم سے موالنا بدر عالم
میرٹھی ،موالنا عبد لرحمان کامل پوری،موالنا محمد یوسف بنوری کو نکال باہر کیا اور ٓاج اس کی انانیت و فرعونیت کی نحوست
نے مدرسہ کی عمارت میں چمگادڑوں کی شکل کر کے دارلعلوم کو کسی کافر کی قبر کی طرح ویران کر دیا ہے (ایک گمنام خط
اور تلخ حقائق ص )26
اب اس سے کون مراد ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے دیوبندی مولوی صاحب فرماتے ہیں:۔
ان سطو ر میں اس حرام الدہر احراری کی منہ کے راستے اجابت کا روایتی انداز اور وہ ہزیان گوئی اور بکواس جوحکیم االمت
حضرت تھانوی کے بھانجے اور شیخ االسالم عالمہ عثمانی کے سیاسی جانشین موالنا احشتام الحق تھانوی کی شان اقدس میں کی
گئی (ایک گمنام خط اور تلخ حقائق ص)24
ٓاپ کے خط کے بہت سے بے جوڑ اجزاء ہیں مگر انہیں سمیٹنے سے دوباتیں اصل مدعا معلوم ہوتی ہیں۔ایک بھٹو کی حمایت پر
مالمت، wدوسری قومی اتحاد کی مخالفت پر سوء خاتمہ کا اندیشہ (ایک گمنام خط اور تلخ حقائق ص )35
یہ تو تم ہی ناعاقبت اندیش اور خوف خدا اور فکر ٓاخرت سے عاری لوگ ہو جنہوں نے صاحب اعالء السنن ۔۔حضرت موالنا ظفر
احمد عثمانی تھا نوی رحمہ ہللا کو ابو المرتد اور ابن المرتد کہا اور سن 1970ء میں کو ثر نیازی کے ساتھ پیپلز پارٹی (جو اس وقت
خالص سوشلزم کا نعرہ لگانے والی تھی)اس اسالم دشمن ہارٹی کے مشترکہ اسٹیج پر موالنا ضیا القاسمی نے دارلعلوم کراچی کے
دروازہ کے سامنے بھرے جلسہ میں کہا تھا کہ بھٹو کا پیشاب موالنا احتشام الحق تھانوی ؒ ،مفتی محمد شفیع اور موالنا ظفر احمد
عثمانی (رحہہم ہللا )کی داڑھیوں سے زیادہ مقدس اور پاک ہے (ایک گمنام خط اور تلخ حقائق ص)43
قاری طیب
ان کے سب سے بڑے حریف نے ایک موقع پر تقریر کرتے ہوئے یہاں تک کہہ ڈاال کہ:مجھے اندیشہ ہے کہ مہتمم صاحب کا خاتمہ
ایمان پر نہ ہوگا(مقاالت حکیم االسالم )23
نیز:۔
اسی حریف کو بنگلہ دیش میں عام و خاص نے گھیر کر پوچھا کہ مہتمم صاحب جیسے دیرینہ خادم کو دارلعلوم سے کیوں جدا کیا؟
ٰ
دعوی نبوت کیا تھا (مقاالت حکیم تو ظالم کا جواب تھا کہ :مہتمم صاحب دارلعلوم سے نکالنا دینی فرض ہوگیا تھا چونکہ انہوں نے
االسالم ص)24
تیسرے دارلعلوم کے خزانے سے ایک االکھ چھتیس ہزار روپے کی چوری کے مرتکب خود مہتمم صاحب تھے(،مقاالت حکیم
االسالم ص )24
اگر دیوبندیوں کی ٓاپس میں یہ چیزیں قبول نہیں تو ہم موصوف کے اصول سے کہہ سکتے ہین کہ ہمارے یا شیعوں کے خالف بھی
ٰ
فتاوی جات کالعدم قرار پائیں گے ۔خیر ہم اسی پہ اکتفاء کرتے ہیں،مزید تفصیل اگلی جلد کے لئے موخر کرتے ہیں۔ ان کے
موصوف کے اس سلسلہ کی جلد چہارم دیکھنے کا اتفاق ہوا،مقدمہ میں یوں تو کئی باتیں قابل تبصرہ ہیں،جن پہ تفصیل اپنے مقام پہ
ہدئیہ قارئین کی جائے گی ،سر دست ہم ان کے ایک شبہ کا ازالہ کئے دیتے ہیں،موصوف کہتے ہیںکہ ان کی کتاب الزامی ہے اور
جن کتب کے جواب میں یہ کتاب ترتیب دی گئی ہے ان میں فروعی مسائل کو چھیڑا گیا ہے ،اس لئے اگر انہوں نے بھی چھیڑ لیا
ہے تو اتنا واویال کیوں ؟۔عرض ہےکہ موصوف غصہ کو تھوک دیں،اور تھوڑا تحمل سے غور کریں تو ان کے اس مغالطہ کا ازالہ
ٰ
فتوی داغا خود بخود ہوجائے گا۔اس لئے کہ کیا ان کتب میں فروعی مسائل کو دست و گریباں سے تعبیر کیا گیا ہے ؟اور گمراہیت کا
دعوی ہی ہے کہ ان کی کتاب الزامی ہے ،کیونکہ ان کتب میںٰ ٰ
دعوی محض گیا ہے ؟اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر موصوف کا یہ
فروعی مسائل کی بحث ضرور ہے ،مگر اسے دست و گریباں سے تعبیر نہیں کیاگیا،اس لئے ان حضرات کا فروعی مسائل کو زیر
بحث النا موصوف کو مفید اور ہمیں مضر نہیں۔
قبلہ عالمہ ابو حامد رضوی صاحب نے اپنی شاندار کتاب یہ ٓائینہ انہی کے لئے ہے میں دیوبندی حضرات کی کتب سے تناقص کی
چند شرائط پیش کی تھیں،جس سے موصوف کافی جز بجز ہوئے،اور یہ کہنے لگے :۔
اس سے یہ بات بھی ختم ہوجاتی ہے کہ جی تناقص کی شرائط دست و گریباں میں نہیں پائی جاتی؟کیونکہ زلزلہ ،لطائف دیوبند
،علمائے دیوبند کی کرامات وغیرہ میں کیا یہ شرائط ملحوظ رکھیں گئیں ہیں؟؟چونکہ ہم نے تو الزامی جواب دیا ہے (دست و گریباں
ج 4ص )16
موسوف کا اپنی کتاب کو الزامی جواب قرار دینا درست نہیں،اس پہ ہماری چند معروضات مالحظہ ہوں۔جناب نے اپنے تائیں اپنی
اس جسارت سراپا شرارت کو الزامی جواب قرار دیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:۔
۔زلزلہ1
۔دیوبند سے بریلی4
۔دیوبندی مذہب5
۔کلمہ حق6
۔لطا ئف دیوبند8
اب پہلی دلیل ہماری اس سلسلہ میں یہ ہے کہ موصوف کی کتاب کے تقریظ نگار نے یہ رقم کیا کہ :۔
گمراہی کا پہال زینہ ٓاپسی مذموم اختالفات ہیں اور انہیں کو دست و گریباں میں عوام کے سامنے الیا گیا ہے ،موصوف کی متعین
ٰ
دعوی سے خالی ہیں۔ان میں سے کسی کتاب میں صاحب کتاب نے یہ ہرگز نہیں رقم کیا کہ گمراہی کا پہال زینہ ٓاپسی کردہ کتب اس
اختالفات ہیں ،اس لئے یہ الزامی جواب ہرگز نہیں۔
پھر بقول اسی مقرظ صاحب کے کہ دست و گریباں میں مذموم اختالفات wکی نشاندہی ہے اور جناب نے ا س میں فروعی اختالفات پہ
ٰ
دعوی نہیں کیا کہ ٓاپسی بحث کی ہے اور انہیں اپنے تائیں مذموم اختالف قرار دیا ہے جبکہ ان کتب کے مصنفین نے کہیں بھی یہ
فروعی اختالفات مذموم اور گمراہی کا سبب ہے ،اس لئے اس رو سے بھی موصوف کی کتاب کو محض اہلسنت کے اصولوںتک
محدود نہیں کیاجا سکتا ۔تیسری دلیل اس سلسلہ میں یہ ہے کہ موصوف نے ٓاپسی تکفیر سے یہ استدالل کیا :۔
ہم نے ہللا کی توفیق اور اس کی مہربانی اور اس کے احسان و امتنان سے ایک سلسلہ شرو ع کیا تھا کہ اہل بدعت ٓاپس میں ایک ’’
دوسرے کی تکفیر و تضلیل میں مصروف ہیں اور یہ بات زیر قلم النی اس لئے بھی ضروری تھی کہ دنیا سمجھ لے کہ جو لوگ کل
تک اکابر دیوبند کا کفر کہنے والے تھے وہ ٓاج اپنے بڑے چھوٹوں سب کو ہی کفر کے گھاٹ اتار چکے ہیں۔۔یہ بعد کی بات ہے
مگر اکابر دیوبند کی طرف رخ کرنے کی اب انہیں ضرور ت ہی نہیں رہے گی‘‘(دست و گریبان ج ۳ص)۹
ٰ
دعوی بھی موصوف کی متعین کردہ یعنی جناب کے نزدیک ٓاپسی تکفیر سے دیگر فرقوں کی تکفیر کالعدم قرار پاتی ہے ،جبکہ یہ
کتب میں مفقود ہے ،اس لئے جناب کا بار بار یہ رٹ لگا کہ ہماری کتاب الزامی ہے ،درست نہیں۔اب جب یہ ثابت ہوا کہ جناب کی
کتاب الزامی نہیں،اس لئے عالمہ ابو حامد کے پیش کردہ حوالہ جات درست ٹھہرے اور موصوف ان کا جواب دینے سے قاصر
رہے ۔اس کے بعد موصوف لکھتے ہیں:۔
ہندو کی ہولی،دیوالی کا پرشاد وغیرہ جائز ہے (مگر فاتحہ و نیاز کا تبرک ناجائز ہے )۔۔۔۔۔۔اہل بدعت سے ہمارا سوال ہے کہ کیا
تناقص کی شرائط ان میں پائی جاتی ہیں؟اگر نہیں تو ٓاپ نے اپنے مولویوں کو طعن و تشنیع کیوں نہیں کیاکیا یہی دیانت داری ہے؟
ـ(دست و گریباں ج 4ص)16
ہمارے قارئین!ایک دفعہ پھر موصوف کی اس عبارت کو ذرا تعمق کے ساتھ مکرر مالحظہ کریں ،موصوف کی بوکھالہٹ کا بخوبی
اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔علماء اہلسنت بالخصوص عالمہ اختر رضا خان مصباحی ،عالمہ ابو حامد اور بندہ ناچیز کے دالئل سے جو
ضربیں لگیں ہیں ان سے موصوف کے ذہن کو کافی صدمہ پہنچا ہے ،جس سے جناب کی حالت قابل رحم ہے ۔موصوف فرمارہے
ٰ
دعوی ہی کہ کوکب صاحب نے تو تناقص کی شرائط کا لحاظ نہیں رکھا تو ان پہ طعن کیوں نہیں؟تو بھلے مانس انہوں نے تناقص کا
کب کیا ہے ؟انہوں نے تو ان سب عبارات کو ٓاپ کے عقائد کے تحت نقل کیا ہے،اور ٓاخر میں رقم طراز ہیں:۔
اس طرح کی اور بہت سی بکواسات اور ایمان شکن باتوں سے ان دیوبندی وہابی تبلیغی علمائ کی کتابیں بھری پڑیں ہیں(دیوبند سے
بریلی ص)27
دعوی ہی نہیں تو اس کی شرائط کو ملحوظ خاطر کیوں رکھ جائے ؟اس لئے موصوف کے اس قسم کے شگوفے ٰ لہذا جب تناقص کا
دیکھ کر ہم تو یہ کہنے پہ مجبور ہیں کہ شاید زاغ کے شوربے نے کچھ زیادہ ہی اثر دکھا دیا ہے جو جناب ہوش و حواس سے
بیگانہ ہوکر کچھ بھی لکھتے جارہے ہیں ،بقول شاعر
اس حوالہ سے بھی جناب کی تلمالہٹ کافی دیدنی ہے ،موصوف لکھتے ہیں:۔
تو جب اہل بدعت نے معتبر اور غیر معتبر کا فرق نہیں کیا اس وقت تمہاری زبانیں گنگ کیوں تھیں؟کیا تم گیارہویں کی کھیر چاٹنے
میںیا قبروں کی مٹی چاٹنے میں مصروف تھے اور جب ہماری باری ٓائی تو شور شروع کر دیا(دست و گریباں ج 4ص)18
اس جگہ موصوف نے اس بات کا واضح اقرار کر لیا ہے کہ انہوں نے غیر معتبر کتب کے حوالہ جات ہیں،ہاں یہ کہا کہ الزاما
دئیے ہیں تو اس پہ ہم عرض کر یں گے کہ:۔
ٰ
دعوی کے مطابق نہیں۔ اب موصوف کا یہ کہنا کہ الزاما پیش کئے ہیں یہ بھی درست نہیںکیونکہ موصوف کے پیش کردہ دالئل
موصوف نے پہلی دلیل بلغۃ الحیران کے حوالہ سے پیش کی اور کہا کہ یہ کتاب غیر معتبر ہے اور علماء اہلسنت نے اس کتاب سے
استدالل کیا ہے ،جب عرض ہے کہ موصوف کا یہ قول ان کے اپنے اکابر کے اقوال کی روشنی میں درست نہیں۔اس لئے کہ جس
عبارت پہ اوکاڑوی صاحب نے نقدوارد کیا ہے اس پہ خود علماءدیوبند کا دفاع منقول ہے حوالہ جات کے لئے ہماری کتاب رد
اعتراضات مخبث کی طرف رجوع کیا جائے ،لہذاموصوف ا سے جان نہیں چھڑوا سکتے ۔پھر اس کتاب کو علماء دیوبند کی تفسیر
ی خدمات میں شمار کیا گیا ہے،اور الیاس گھمن لکھتے ہیں:۔
ایسے پہ جواہر القرٓان کو بھی علمی خدمات wمیں شمار کیا گیا اور اس کے متعلق موجود ہے :۔
نہایت عمدہ اور بیش بہا علمی فوائد پہ مشتمل ہے (مقاالت حبیب ج 1ص)75
اب جہاں تک بات مودودی صاحب کی ہے تو کئی علماء دیوبند ان کے ممدوح ہیں،جنا ب نے خود عامر عثمانی کو مودودی کا مداح
قرار دیا ہے جبکہ سرفراز نے باوجود اس موافقت کے اسے دیوبندی تسلیم کیا ہے (اہل سنت کی پہچان )ایسے ہی مفتی محمد یوسف
اور عدنان کاکاخیل بھی مودودی کی زلفوں کے اسیر تھے ،اس لئے اگر غیرمعتبر ہیں تو ایسے جان نہیں چھوٹے گی کیونکہ بقول
نور محمد ترنڈی :۔
جوہر صاحب !صرف ان کو متروک کہہ کر ٓاپ جان نہیں چھڑا سکتے جس طرح علمائے دیوبند کا نام لیکر شرک و کفر کی
ٰ
فتوی زنی کی ہے یہاں بھی علمائے اہلحدیث کا نام لیکر کہووحید الزماں مشرک ہے (سوال گندم جواب چنا ص)36
ٰ
فتوی لگانا ہوگا جو لہذا جناب مرتب دست و گریبان صاحب صرف غیر معتبر کہنے سے جان نہیں چھوٹے گی ان سب پہ بھی وہی
[ ٓاپ مودودی پہ لگاتے ہیں۔] یہ گفتگو خالصتا موصوف کے مسلمات wکی روشنی میں ہے
قارئین !سب سے اوال یہ بحث یاد رہے کہ انگریز ی اقتدار سے قبل ہندوستان کی سرزمین جن نظریات کی امین تھی ،انہیں اگر کسی
مسلک سے موسوم کیا جائے تو وہ موجودہ حنفی سنی بریلوی ہی ہے ،ثناء ہللا امرتسری لکھتے ہیں:۔
امرتسر میں مسلم ٓابادی ،غیر مسلم ٓابادی کے مساوی ہے ،اسی سال قبل تقریبا تمام مسلمان اسی خیال کے تھے ،جن کو ٓاج کل حنفی
بریلوی خیال کیا جا تا ہے(شمع توحید ص )40
یہ عبارت 1938کی ہے اور اسی سال قبل سے مراد انگریزی اقتدار سے پہلے کا دور مراد ہے ،جس میں سب حنفی سنی بریلوی
تھے ،خالدمحمود صاحب عبارت باال پہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
اس پر خوش ہونے کی کوئی بات نہیںکہ ہندوستان میں سب لوگ پہلے تو بریلوی تھے کیونکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ پہلے سب لوگ
یہاں ہندو تھے ہرے رام ہرے رام جاتے جاتے ہی جاتا ہے ۔ہندو اثرات سے بریلویت نے ترتیب پائی (مطالعہ بریلویت ج 3ص
)332
مرتب مطالعہ اس بات کا اقرار تو کر گئے کہ انگریز ی اقتدار سے قبل سب بریلوی تھے ،ہاں مگر یہ شوشہ بھی چھوڑ دیا کہ
بریلویت ہندو اثرات سے ممیز ہے ،تو اس کی حثیت اس لئے بھی نہیں کہ شاہ ولی ہللا صاحب، wشاہ عبد الحق،قاضی ثناء ہللا یہ سب
ہندوستان کے ہی با شندے تھے ،کیا یہ سب بھی ہندومت سے متاثر تھے؟بہرحال ان حوالہ جات سے یہ واضح ہوا کہ انگریز سے
قبل جو مسلک موجود تھا اس کا موجودہ نام سنی حنفی بریلوی ہے۔لہذا جب یہ نگریز کے سے ہی پہلے تھے تو انہیں انگریز کا
ایجنٹ کا کہنا خود ہی بے سود ہے ۔پھر اعلی حضرت ؒ سے قبل دیوبندی حضرات کی تکفیر ہوئی جس پہ مفصل حوالہ جات جلد اول
میں موجود ہیں،کیا موصوف ان سب کو انگریز کا ایجنٹ کہیں گے یا یہ تسلیم کریں گے کہ انگریزی اقتدار کے زیر اثر تو خود ان
کے اپنے اکابر تھے ،جس کی تفصیل اسی کتاب میں موجود ہے ۔پھر موصوف نے اپنے اکابر کو فکر ولی اللہی سے وابستہ قرار
دیا ،جبکہ یہ درست نہیں۔
ہم شاہ صاحب کی کتب سے ان کے نظریات ہدئیہ قارئین کرتے ہیں،جس سے واضح ہو جائے گا کہ اکابر دیوبند کا مسلک شاہ ولی
ہللا صاحب سے یکسر مختلف ہے ٓ،اپ رقم طراز ہیں:۔
علی صاحبہا الف الف صلوۃ و الف الف تسلیم کی زیارت سے مشرف ہوا تو جس وقت میں مدینہ منورہ حاضر ہوا ور روضہ اقدس ٰ
میں نے روح مبارک و مقدس ﷺکو ظاہرا و اعیانادیکھا۔نہ صرف عالم ارواح میں بلکہ عالم مثال میں ان ٓانکھوں
سے قریب تو میں سمجھ گیا کہ یہ جو عوام میں مشہور ہے کہ حضور اکرم ﷺ نمازوں میں حاضر ہوتے ہیں اور
لوگوں کی امامت فرماتے ہیں وغیر ذلک یہ سب اسی دقیقہ کی باتیں ہیں(فیوض الحرمین ص)82-81
در تشبیب بذکر بعض حوادث زمان کہ در ٓاں حوادث ال بداست از استمداد بر روح ٓانحضرت ﷺو تخلص بذکر مناقبw
ٓانحضرت ﷺ
ترجمہ:۔اس تمہید میں زمانہ کے حوادثات کا تذکرہ ہے کہ ان حوادثات سے نجات کے لیے اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں کہ
حضور نبی مکرم ﷺکی روح پر فتوح سے مدد طلب کی جائے اور ٓانحضرت ﷺکے مناقب اور
کمال کا ذکر کے ان سے نجات حاصل کی جائے (اظیب النغم ص)26-25
نیز:۔
یعنی بنظر نمی ٓاید مرا مگر ٓانحضرت ﷺکہ جائے دست زدن اندوہ گیں است در ہر شدتے ۔و جائے طلب کردن
مغفرت است بنسبت ہر توبہ کنندہ (اطیب النغم ص)32
ترجمہ:۔مجھے wتو حضور کے عالوہ اور کوئی نظر نہیں نہیں ٓاتا جس کے دامن کو کوئی غمزدہ ہر ٰ
مصبت کے وقت پکڑ کر پناہ لے
سکے اور ہر تائب حصول مغفرت کے لئے جس کی بارگاہ اقدس کا ﷺصد کرے
ان حوالہ جات سے شاہ صاحب ؒ کا یہ عقیدہ روز روشن کی مانند واضح ہوجاتا ہے کہ ٓاپ کے نزدیک زندگی کے حوادث و ٓاالم سے
نجات کا ذریعہ کا حضور ﷺ کی استمداد و اعانت ہے ۔ایسے ہی رقم طراز ہیں:۔
یعنی بہترین خلق خدا است در خصلت در شکل و نافع ترین ایشاں است مرد مان رانزدیک ہجوم حوادث زماں
تعالی نے اپنے محبوب ﷺ کو اس بات سے خبر دار کیا کہ ٓاپ کی حکومت مشرق و مغرب ان عالقوں تک
ٰ ہللا
تعالی اے حبیب ﷺ ٓاپ کو دکھادئیے (اطیب النغم ص )114 ٰ پہنچے گی جوج ہللا
نیز:۔
تعالی کی تمام مخلوق سے حضور ﷺباعتبار سینہ و باعتبار عطیات سب سے زیادہ سخی ہین اور ہر سائل کے
ٰ ہللا
لئے ٓاپ کا دست کرم سب سے زیادہ کشادہ wہے(اطیب النغم ص)57
ایک دفعہ میں نے ٓانحضرت ﷺ کو خواب میں دیکھا اور اس نکتہ کے متعلق میں نے پوچھا ،فرمایا ہللا نے میرا
جمال غیرت کی وجہ سے لوگوں کی نظر سے پوشیدہ رکھا ہے (انفاس العارفین ص)73
لیکن صفات بشری (جو انبیاء میں ہیں)ان کے جمال باکمال کے لئے حجاب ہیں (الفوزالکبیر ص 9مترجم رشید احمد )
نیز:۔
فقیر کا اعتقاد یہ ہے کہ ہر وہ نامکن بات جس کی طرف حضور ﷺ متوجہ ہوں ممکن ہوجاتی ہے (انفاس العارفین
ص)73
نیز:۔
)نبی کریم شہنشاہ( wامیر) ہیں اورابو و عمر دونوں ٓاپکے وزیر ہیں العقیدۃ الحسنہ ص96
اور اسمیں جہل اور کذب بھی روا نہیں یعنی کذب اور جہل کا صدور اس سے محال ہے(العقیدۃ الحسنہ ص)80
نبی کریم ﷺ کی حقیقت اول مخلوقات اور اعظم میں سے ہے جیسا کہ قوم نے رسول ہللا ﷺکے اس
فرمان کے متعلق بیان کیا ہے کہ اول ماخلق ہللا نوری(فیوض الحرمین ص)296
مشائخ کے عرس کی حفاظت کی جاتی ہے اور ان کی قبور کی زیارت پر مداومت اور ان کی فاتحہ پڑھنے اور ان کے واسطے
صدقہ دینے کا التزام کیاجاتا ہے اور انکے ٓاثار اور اوالد اور منتسبان کی تعظیم کی طرف یہایت توجہ کی جاتی ہے (ہمعات ص
)43
میرے والد بزرگوار نے مجھے خبر دی ،فرمایاکہ میں میالد النبی ﷺکے روز کھانا ہکوایا کرتا تھا میالد پا ک کی
خوشی میں۔ایک سال میں اتنا تنگدست تھا کہ میرے پاس کچھ نہ تھا مگر چنے بھنے ہوئے،وہی میں نے لوگوں میں تقسیم کئے تو کیا
دیکھتا ہوں کہ ٓانحضرت ﷺ کے رو برو بھنے ہوئے چنے رکھے ہوئے ہیں اور ٓاپ بہت شادو بشاش ہیں ہیں(در
الثمین )
مکہ معظمہ میںٓانحضرت ﷺ کے مولد مبارک میں واالدت کے روز حاضر تھا اور لوگ نبی اکرم
ﷺپر درود بھیج رہے تھے اور ٓاپ کے ان معجزات کا تذکرہ کر رہے تھے جو والدت باسعادت کے وقت ظاہر
ہوئے اور ان مشاہدات کو بیان کر رہے تھے جو بعثت سے پہلے ظاہرہوئے تو میں نے دیکھا کہ اچانک بہت سے انوار ظاہر
ہوئے(فیوض الحرمین ص )81-80
ایسے ہی شاہ صاحب wرحمۃ ہللا علیہ نے تفصیل قصہ ردا لشمس بیان کیا ہے (ازالۃ الخلفاء ص 528تا )530
شیخ احمد قشا شی ،محمد بن یونس انقشاشی المعروف بعبد النبی ابن شیخ احمد الدجانی کے فرزند تھے ۔۔۔۔اور شیخ یونس کو عبد
النبی اس لئے کہتے تھے کہ وہ لوگوں کو اجرت دے کر مسجد میں بٹھا تے تاکہ وہ نبی ﷺپر درود پڑھیں (انفاس
العارفین ص)275
نیز:۔
کان الشیخ عبد القادر یحضر مجلس االنبیا ء و االولیاء کی تشریح میں حضرت شیخ ابو رضاء فرماتے تھے کہ ٓاپ حقیقت روح جو کہ
تمام کائنات میں جاری و ساری ہے ،واصکل تھے،پس ٓاپ اسی مرکز ہدایت سے گفتگو کرتے تھے جہاں سے انبیاء علیہم السام اور
اور اولیاء گفتگو کررتے تھے ۔۔۔چونکہ ٓانجناب کو عالم ارواح میں مکمل تمکین حاصل تھا اس لئے تدلیات اور ارواح انبیاء
واولیاء اپنے وجود مثالی سے ٓاپ پر نزول کرتی تھیں(انفاس العارفین ص)185-184
گر اہل زمانہ کسی امر مستحب کا سنت موکدہ کی طرح التزام کر لیں یا کسی اچھے کام کی خاص صورت اور ہئیت کو اپنے ذمہ
الزم کر لیں اور اس کو دانتوں سے مظبو ط پکڑ لیں تو اس کو بدعت حسنہ کہتے ہیں جس طرح وظائف و اوراد کی ایجاد ہے اور
اس قسم کے امور پر ثواب مرتب وتا ہے(ازالۃ الخلفاء ج 1ص )346
ہم کہتے ہیں کہ اگر اس کے متعلق کوئی اثر یا معتبر خبر ہو تو سر ٓانکھوں پر ور نہ سکی چیز میں حرمت کا حکم نہیں لگایا جائے
گا کیونکہ اشیاء میںا صل ان کی اباحت ہے جیسا کہ علماء نے کہا(انفاس العارفین ص )218
ٓاخر کار مجھے یاد ٓایا کہ ایک بار حضرت اقدس نے فرمایا تھا کہ پریشانی اور مشکل پڑنے کے وقت مجھے یاد کر لیناجیسے ہی
میں نے حضرت اقدس کا نام لیکر مدد طلب کی ،دیکھا کہ حضرت اقدس تشریف الئے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے دونوں کان پکڑ
کر میرے سامنے سے بھگا دیااور مجھے اس ٓافت سے نجات دی(االقول الجلی ص )171-170
نیز:۔
ایک دن ارشاد فرمایا کہ ایک بارارواح اکابر سالسل قدس اسرار ہم ظاہر ہوئیں اور فرمایا کہ تو اس عالم میں ہمارا نمونہ ہے پس
فتوح و نذر ہماری طرف سے لیتے رہو(القول الجلی ص)227
اور امت کے اولیائے عظام میں سے راہ جذب کی تکمیل کے بعد جس شخس نے کامل و مکمل طور پر نسبت اویسیہ کی اصل کی
طرف رجوع کر کے وہاں کامل استقامت سے قدم رکھا ہے وہ حضرت شیخ محی الدین عبد القادر جیالنی ہیں ۔اور اسی وجہ سے
کہتے ہیں کہ ٓاں جناب اپنی قبر شریف میں زندوں کی طرح تصرف فرماتے ہیں (ہمعات ص)11
شاہ صاحب اپنی اس کتاب کو الہامی قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:۔
نیز سلوک کا وہ طریق تعالی کی مرضی ہے اور جو اس دور میں کامیاب wہوسکتا ہے مجھے اس کا لہام فرمایا
ٰ جس میں حق
گیا اور میں نے اس طریق کو اپنے دو رسالون ہمعات اور الطاف القدس میں قلم بند کر دیا ہے (رسائل شاہ ولی ہللا ج 1ص)7
مگر بعض اکابر سے اظہار تصرف کا ظہور اس وقت ہوتا ہے جب وہ معمور ہوتے ہیں۔بعض فقراء مغلوب النسبت ہو کر ایسے ٓاثار
دیکھاتے تھے اور بعض ایسے کاملین ہو گزرے ہیںجو جب چاہتے یہ تصرف دکھا سکتے تھے(انفاس العارفین ص)120
مجدد صاحب کے نظریات بھی بال تبصر ہ پیش خدمت ہیں۔وہ لکھتے ہیں:۔
جو لوگ محجوب تھے انہوں نے رسول ہللا ﷺ کو بشر کہا اور دوسرے انسانوں کی طرح ان کو تصور کیا تو انہوں
نے ان کا انکار کر دیا اور صاحب دولت لوگ کہ جنہوں نے رسول ہللا ﷺ کو رسالت اور رحمت عالمیان کے عنوان
سے جانا اور دوسرے لوگوں سے ان کو ممتاز جانااور دوسرے ولوگں سے ان کو ممتاز دیکھاوہ ایمان کی دولت سے مشرف ہوئے
اور اہل نجات ٹھہرے (مکتوب نمبر 64دفتر سوم)
حضور علیہ الصلوۃ والسالم با وجود عنصری رکھنے کے نور حق تعالی سے پیدا ہوئے ہیں ۔۔۔اس بنا پر ٓاپ کے جسم شریف کا سیاہ
نہیں تھا(مکتوب نمبر 100دفتر سوم )
تاکہ ان کی بشری صفات ان کے کماالت کا پر دہ بنی رہیں ،تاکہ اس طرح لوگوں کے امتحان و ٓازمائش کی صورت پیدا ہو(مکتوب
نمبر 33دفتر دوم)
اسی قبیلہ سے اولیاء کرام کی ارواح مقدسہ کی امداد و اعانت ہے جو سجمانی امداد کی طرح اثر دکھاتی ہے ۔جیسے دشمنوں کو
ہالک کرنااور دوستوں کی مدد کرنا ،مختلف وجوہ اور مختلف طریقوں سے (دفتر اول مکتوب نمبر )239
میری قبلہ گاہ فرماتے تھے کہ حضور غوث پاک قدس سرہ نے اپنی بعض تصنیفات میں فرمایا ہے کہ تقدیر مبرم تبدیل کرنے کی
طاقت و مجال کسی کو نہیں۔مگر میں اس کو بھی تبدیل کر سکتا ہوں(مکتوب نمبر ،217دفتر اول)
یہ حالت ایک مدت تک رہی ۔پھر اتفاقا ایک ولی اللی کے مزار مبارک کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہوا اور اس معاملہ میں اس
مدفون والی ہللا سے میں نے مدد و اعانت طلب کی ۔چنانچہ اس دوران ہللا جلشانہ ،کی عنایت شامل حال ہوگئی،اور معاملہ کی حقیقت
پورے طور پہ منکشف ہوگئی اور عین اس وقت حضور خاتم المر سلین رحمت اللعالمینﷺکی روح مبارک بھی
تشریف الئی اور میرے دل غمگین کو تسلی دی(مکتوب نمبر 220دفتر اول)
اس حدیث میں اس امر کی خبر دی گئی ہے کہ ٓاپ اپنے اور امت کے حاالت سے کسی وقت بھی غافل نہیں ہیں۔اسی وجہ سے نیند
ٓاپ کے وضو کو نہیں توڑتی تھیاور چونکہ نبی کریم ﷺاپنی امت کی نگہداشت اور محافظت wمیں شبان کی مانند
ادنی سی غفلت بھی ٓاپ کے منصب نبوت کے شایان نہیں ہے ( مکتوب 99دفتر اول)
ہیںاس لیے ٰ
حروف مقطعات قرٓانی سارے کے سارے حاالت کی حقیقتوں اور اسرار کی باریکیوں کے متعلق رموز و اشارے ہیں جو محب wو
محبوب کے درمیان وارد ہیں(مکتوب نمبر 100دفتر ثالث)
مجلس میالد شریف میں اگر اچھی ٓاواز کے ساتھ قرٓان پاک کی تالوت کی جائے اور حضور ﷺ کی نعت شریف اور
منقبت کے قصیدے پڑھے جائیں تو اس میں کیا حرج ہے ؟(دفتر سوم مکتوب )72
حضرت خواجہ قدس سرہ کے عرس شریف کے دنوں میں دہلی حاضر ہو کر ارادہ تھا کہ ٓاپ کی خدمت wعالی میں بھی پہنچےکہ
اسی اثنا میں کوچ کی خبر پھیل گئی (مکتوب نمبر 233دفتر اول)
قبروں سے امدا د و اعانت طلب کتنے کے متعلق فقہا میں اختالف پایا جاتا ہے ۔ان کے ہاں انبیاء کرام کے عالوہ تمام لوگوں کی
قبروں کی زیارت محض عبرت اور موت کییاد تازہ کرنے کے لیے ہے۔۔مشائخ صوفیاء کہتے ہیں کہ بعض اولیاء ہللا کا تصرف عالم
برزخ میں باقی رہتا ہے ۔اور ان کی ارواح مقدسہ سے استمداد و استعانت فائدہ من ہوتا ہے۔حجۃ االسالم امام محمد غزالی رحمۃ ہللا
علیہ نے کہا ہے کہ جو حضرات بحالت زندگی برکات دیا کرتے تھے وہ بعد از وفات توسل و برکت دینے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔
کیونکہ مرنے کے بعد روح کا باقی رہنا حدیثوں اور اجماع امت سے ثابت ہے ۔اور بحالت حیات اور بحالت وفات پر حالت میں روح
تعالی ہی ہے ۔(تکمیل االیمان ص)123-117 ٰ کام کرتا رہتا ہے ،بدن کو تصرف سے کوئی تعلق نہیں ۔اور متصرف حقیقی تو ہللا
اہل کشف اور محققین کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ زیارت کرنے والے کی روح اہل مزار کی روح سے اسرار و انوار کا عکس
قبول کرتی ہے ۔جیسے ایک ٓائینے کہ مقابلے میں دوسرا ٓائینہ رکھاجائے ۔اور اس میں عکس پڑے ۔اولیاء ہللا کے مثالی بدن بھی
ہوتے ہیں۔جن سے ظاہر ہوکر وہ طالبان امداد کی دستگیری کرتے رہتے ہیں جو لوگ اس بات کے منکر ہیں ان کے پاس کوئی دلیل
نہیں ہے (تکمیل االیمان ص )129-126
نیز:۔
حضور نبی کریم ﷺ کی جناب میں تو سل و استغاثہ اور استمداد از انبیاء و مرسلین و متقدمین و متاخرین بزر گوں کا
فعل ہے ،خواہ یہ ٓاپ کے عالم وجود میں ٓانے سے پہلے ہو یا اس کے بعد ،حیات دنیویہ ہو یا عالم بزرخ ،خواہ میدان قیامت ہو کہ
جس دن انبیاء و مرسلین کو دم مارنے کی جگہ نہ ہوگی اس وقت حضور ﷺنبی کریم باب شفاعت کھلوا کر اولین و
ٓاخرین کو نعمت کے دریائوں و رحمت کے انوار سے مستفیض فرمائیں گے اور حضور ﷺ سے استمداد حاصل
کرنے میں ان چاروں مقامات wکے لئے بہت سے اخبار و ٓاثار موجود ہیں (جذب القلوب ص )294
فرمایا کہ جب بھی ہللا سے کوئی چیزمانگو تو میرے وسیلہ سے مانگو تاکہ مراد پوری ہو،اور فرمایا کو کسی مصیبت میں میرے
وسیلہ سے امداد چاہے تو اس کی مصیبت دور ہو ،اور جو کسی سختی میں میرا نام لے کر پکارے اسے کشادگی حاصل ہو،اور جو
میرے وسیلہ سے ہللا کے سامنے اپنی مرادیں پیش کرے تو پوری ہوں(اخبار االخیار ص )54
اے خدا کے حبیب ! جنا لیجئے کہ حروف مقطعات wخدا کے خزنوں میں سے ہیں جو رسول اکرم ﷺ کے حوالہ کئے
گئے ہیں ان کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو ان کے عالوہ اور کوئی نہیں جانتا (اخبار االخیار ص )442
صحیح اور مختار مذہب یوں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو احکام تفویض فرمائے گئے ٓاپ ﷺ
جسے چاہیں جو چاہین عطا فرمائیں ،ایک فعل ایک کے حق میں حرام قرار دیں اور دوسرے کے حق میں وہی فعل مباح فرما دیں
،ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسا کہ حق کی اتباع کرنے والوں پہ یہ بات پوشیدہ نہیں ہے(مدارج النبوۃ ج 2ص )343
نورث سے مراد نبی علیہ السالم ہوں کہ ہم نے ان کو جنت کا وارث بنادیا اب ان کو اختیار ہے کہ جس کو چاہیں جنت میں ٓانے دیں
اور جس کو چاہیں روک دیں وہ دنیا اور ٓاخرت کے بادشاہ ہیں انہی کے لیے دنیا ،جنت اور مشاہدات ہیں(اخبار االخیار ص )444
نیز واقعہ یہ ہے کہ رسوک اکرم ﷺ تمام ارواح کے ابو االرواح ،معدن انوار اور منشاء موجودات ہیں اس وجہ سے
تمام ارواح بمنزلہ جسم کے ہیں اور رسول اکرم ﷺ جان ہیں ٓ،اپ تمام ارواح سے وہی تعلق ہے جو جان کو جسم سے
ہوتا ہے ۔نیز ٓاقائے کائنات کو روح علوی،تمام موجودات اور ان کے باہمی تعلققات پر کامل قبضہ و تصرف اور اختیار و اقتدار
حاصل ہے (اخبار االخیارص)504
اس نظریہ کے ثبوت سے انبائے کرام کے معجزات اور اولیائے عظامکے کرامات کا ثبوت ملتا ہے ،نبی اور ولی کا نفس جیسا اپنے
جسم میں تصرف کرتا ہے اسی طرح خارج میں بھی تصرف کرتا ہے جبکہ نبی کریم ﷺ کی روح تمام عالم کی جان
ہے اس لیے ٓاپ سارے عالم میں تصرف کر سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ چاند ایک اشارہ سے دو ٹکڑے ہوگیا ،گویا کہ ناخن کے میل
کو ناخن سے جد اکیا(اخبار االخیار ص )505
شیخ عقیل منجی سے روایت ہے(اور یہ شیخ عقیل ان چار بزرگوں میں سے ہیں جو بقول شیخ علی قریشی عراق کے مشائخ کبار
میں شمار ہوتے تھے )کہ میں نے چار بزرگون کو دیکھا ہے جس کا تصرف قبروں میں بھی جارہ و ساری رہتا ہے ۔یہ تصرف
زندگی کی تمام قوتوں کی طرح ہوتا ہے ۔یہ بزرگ شیخ عبد القادر جیالنی ،شیخ معروف کرخی ،شیخ عقیل منجی اور شیخ حیات بن
قیس حرانی ہیں(زبد ۃآالثار ص)31
شیخ خلیفہ شہر ملکی سے یہ روایت منسوب ہے کہ جناب غوث االعظم کو دنیا کے تمام اولیاء ابدال اور اقطاب کے احوال و اسرار
سپرد کر دیے گئے تھے ۔ٓاپ کی نگاہ جالل جب کائنات ارضی کے کسی گوشے پر پڑتی تو ساکنان ارضی سظح ارض سے لے کر
ٰ
الثری تک لرزہ بر اندا م ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔شیخ ابو البرکات صخراموی نے کہا ہے کہ حضرت سید عبد القادر ہر ولی کے ظاہری تحث
و باطنی احوال پر نگاہ رکھتے ہیں۔کوئی ولی ہللا اپنے ظاہری یا باطنی احوال میں ٓاپ کی اجازت کے بغیر تصرف نہیں کر سکتا۔
ایسے ولی ہللا جو بارگاہ الہی میں ہمکالم ہونے کے مرتبہ عالی پر فائز ہیں وہ بھی حضر ت غو ث اال عظم کی اجازت کے بغیر دم
نہیں مار سکتے ۔ان اولیائے وقت پر موت سے پہلے اور موت کے بعد بھی ٓاپ ہی کا تصرف رہتا ہے (زبد ۃ آالثار ص )39
حضرت شہاب الدین عمر سہر وردی کہتے ہیں؛شیخ عبد القادر سلطان الطریق تھے اور ان کا تصرف تمام موجودات پہ حاوی ہے
(زبد ۃ آالثار ص )42
یہ کرامات بعض دفعہ تو ٓاپ کے اپنے ارادہ و اختیار سے رونما ہوتی تھیں لیکن بعض اوقات ٓاپ کے اختیار و خواہش کے بغیر بھی
رونما ہوتی رہتیں(زبد ۃ آالثار ص )29
حقیقت یہ ہے کہ نبی سے جو چیز معجزہ ظاہر ہوتی ہے وہ ولی ہللا سے بطریق کرامت ظاہر ہوسکتی ہے ۔اختیار یا عدم اختیار کی
قید و تخصیص ضروری نہیں ۔بعض کرامات اختیاری اور بعض کرامات غیر اختیاری ہوتی ہیں(تکمیل االیمان ص )183
اس جگہ مناسب wہوتا معلوم ہوتا ہے کہ ایک شبہ کا ازالہ بھی کر دیا جائے ،کچھ حضرات ٓاپ کی ایک عبارت پیش کرتے ہیں جس
میں موجود ہے کہ چنانچہ معجزہ کا فعل ہے نہ کہ رسول کا(تکمیل االیمان ص )111
جبکہ اس مجمل عبارت کی وضاحت ان کی مندرجہ ذیل عبارت سے بخوبی ہوجاتی ہے :۔
ان دونوں ٓایات میں اعمال کے پیدا کرنے کو اپنی طرف منسوب کیا۔مگر عمل کے ارتکاب کو اپنے بندوں سے نسبت دی ہے ۔ایمانی
نقطہ نظر سے یہ دونوں باتیں درست ہیں اور یہ بات کتی درست ہے کہ ہللا ہر چیز کا خالق ہے ۔مگر اسے کرنا انسان سے ہی
وابستہ ہے (تکمیل االیمان ص )63
اس عبارت باال کی روشنی میں اس مجمل عبارت کی وضاحت ہوجاتی ہے جس کے بعد اسے معجزہ میں رادہ کی نفی پہ محمول
کرنا درست نہیں ،مگر بالفرض محال کوئی اسے محمو ل کرے بھی تو اس سے مراد وہ معجزات ہیں جو ارادہ و اختیار سے صادر
نہیں ہوتے ،جیسا کہ خود شیخ نے تصریح کر دی ،کیونکہ معجزہ و کرامت کی تین اقسام ہیں ،جن میں ایک ارادہ و علم دونوں کو
محیط ہوتی ہے ،دوسری صرف بال راداہ صادر ہوتی ہے مگر علم ہوتا ہے ،اور تیسری علم و ارادہ دونوں کے بغیر ہوتی ہے ،اس
لئے اس عبارت کو تیسری قسم پہ بھی حمل کیا جاسکتا۔پھر خواجہ ابو طالب کے حوالہ سے جو شیخ کی گفتگو نقل کی جاتی ہے اس
کا جواب یہ ہے کہ رسول ہللا ﷺ کے اختیارات خدا کےا ذن کے ساتھ مشروط ہیں ،اگر سکی کی تقدیر میں ہللا نے
ہی کفر لکھا ہو ،تو اس کے خالف کرنے کا اختیار سرکار دو عالم ﷺ کے لئے ہم ثابت نہیں کرتے ،کیونکہ ٓاپ کے
اختیارات کو محدود مانتے ہیں،باقی جہاں تک لفظ مختار کل ہے تو وہ مخلوق کے لحاظ سے ہے۔
ٓاپ ﷺ کے انوار نے تمام عالم کو گھیرا ہوا ہے اور تمام عالم کو رشن کیا ہے ٓاپ کے ظہور کی مثل کسی کا ظہور
نہیںٓاپ ﷺ کے نور کیمثل کوئی نور نہیںٓ،اپ ﷺکے اسرار باطن ہیں،کسی شخص کو ٓاپ کے حال
کی حقیقت کا ادراک نہیں،دور نزدیک کی ہر شے حضور ﷺ کے کمال وجمال کے نظارہ میں حیران ہیں(مدارج
النبوۃ ج 1ص)2
علمائے امت کے کثیر مذاہب اور اختالفات wکے باوجود کسی ایک شخص کا بھی اس مسئلہ میں اختالف نہیں ہے کہ نبی کریم
ﷺ تاویل و مجاز کے شائبہ کے بغیر حقیقی حیات کےکے wساتھ دائم و باقی اور اعمال امت پر حاضر وناظر ہیں
(مکتوبات ص )109
کچھ بدعات حسنہ مستحن و مستحب ہیں(اشعۃ اللمعات wج 1ص )422
پیر و مرشد فرماتے تھے کہ درویش جو ذکر اور حلقہ وغیرہ کرتے ہیں اگر چہ اس کی سند سنت نبوی سے نہیں ملتی تاہم مشائخ کا
یہ عمل مستحن ہے (اخبار االخیار ص )532
مجھے wدعائے سیفی پڑھنے کی اجازت ملی ہے جس کی سند بہت بڑی ہے (اخبار االخیار ص )532
البتہ مجھ فقیر حقیر کا ایک عمل صرف تیری ذات پاک کی عنایت کی وجہ سے بہت شاندار ہے اور وہ یہ ہے کہ مجلس میالد کے
موقع پر میں کھڑے ہوکر سالم پڑھتا ہوں اور نہایت ہی عاجزی و انکساری محبت و خلوص کے ساتھ تیرے حبیب پاک
ﷺ پر دورود و سالم بھیجتا رہا ہوں ۔اے ہللا وہ کونسا مقام ہے جہاں میالد بارک سے زیادہ تیری خیر و برکت کا
نزول ہوتا ہے ؟اس لیے اے ارحم الرحمین مجھے wپکا یقین ہے کہ میرا یہ عمل کبھی بیکار نہ جائے گابلکہ یقینا تیری بارگاہ میں
مقبول ہوگا اور وج وکوئی درود و سالم پڑھے اور اسے کے ذریعہ دعا کرے وہ کبھی مسترد نہیں ہو سکتی (اخبار االخیار ص
)605
قارئین ! یہ ان بزرگان دین کے مذکورہ باال اقتباسات wانگریزی اقتدار سے قبل نظریات کا اظہار کرتے ہیں ،اور یہی نظریات ٓاج جس
مسلک کے ہیں اسے سنی حنفی بریلوی کہا جاتا ہے،لہذا جس طرح علماء دیوبند کی تکفیر امام اہلسنت سے پہلے ہے اسی طرح ٓاپ
بزرگان دین کے ہی نظریات پہ کار بند تھے ،جبکہ دیگر فتنے بعد کی پیدا وار ہیں ،اس کے بعد موصوف نے موصوف نے مسلک
ارباب حق کی ایک عبارت پیش کی جو کہ غیر معتبر ہے ،جبکہ دیوبندی معتبر و مستند کتاب میں محمد علی جالندھری صاحب اعلی
حضرت کے اس عمل تکفیر کے حوالے سے لکھتے ہیں:۔
اس حوالہ سے باال سے واضح ہوگیا کہ امام اہلسنت ؒ نے تکفیر انگریز کی ایماپہ نہیں بلکہ عشق رسول ﷺ کی
بناء پہ کی تھی جس کی گواہی خود ان کے معاند نے دی ہے ،اور تھانوی صاحب کےمتعلق دیوبندی کتب میں موجود ہے :۔
حضرت رسول ہللا ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دونوں نہایت نیک انسان ہیں اور جو کچھ کہتے ہیں اور لکھتے ہیں اور
حق ہیں(عشق رسول اور علماء حق ص )208
اس کے بعد سوانح حیات اعلی حضرت کی عبارت پیش کی کہ اعلی حضرت کی مساعی سے دومکتبہ فکر قائم ہوئے درست نہیں
اور نہ ہی مکمل طور پہ اس سے تاریخی حقائق کی روشنی میں اتفاق ممکن ہے ۔کیونکہ ہم حوالہ جات سے اس بات کی وضاحت
کرچکے ہیں کہ امت میں افتراق و انتشار کا ذمہ دار اگر کوئی شخص ہے تو اسے دنیا اسماعیل دہلوی کے نام سے جانتی ہے ،اس
کے بعد معین الدین ندوی صاحب کی کچھ عبارات پیش کی جو کہ مخالف ہیں جس کی بات خود دیوبندی حضرات کے نزدیک حجت
نہیں ہوتی ،پھر عالمہ ابن حجر لکھتے ہیں:۔
علماء کی گواہی علماء کے حق میں جائز نہیں،اس لئے کہ وہ ٓاپس میں سب سے زیادہ حسدی اور ایک دوسرے سے بہت بغض
رکھنے والے ہیں(الخیرات الحسان ص)183
چیلنج کا جواب
اس کے بعد موصوف نے چیلنج کیا کہ انگریز نے کہیں اعلی حضرت کو اپنا مخالف کہا ہو،جناب انگریز کی طرف جانے کی کیا
ضرورت ہے ہم ٓاپ کے گھر سے ہی تشفی کئے دیتے ہیں ،مولوی منظور نعمانی رقم طراز ہیں:۔
کیونکہ حضرات بد ایوں ،علماء فرنگی محل۔۔۔۔حتی کے موالنا احمد رضا خان کے بھی متعدد خلفا ء موالنا مختار احمد میرٹھی
وغیرہ اس وقت موالنا ٓازاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے ساتھ انگریزی حکومت کے خالف جنگ میں ایک صف میں کھڑے ہوگئے ۔(شیخ محمد بن
عبد الوہاب اور ہندستان کے علمائے حق ص )۹۰
لہذا موصوف کے گھر سے ہی ثابت ہو گیا کہ اہلسنت انگریز کے مخالف تھے اور دیوبندی حضرات کی انگریز نوازی پہ حوالہ
جات ٓائندہ ٓاتے ہیں۔
رام کہانی
اس کے بعدموصوف نے اپنے ایک دوست کی کہانی عرض کی کہ انہوں نے برٹش الئبریری میںملکہ وکٹوریہ کے خطوط دیکھے ،
جس میں اسالم کے خالف جن حضرات کا استعمال کیا گیا ان کا تذکرہ موجود تھا(مخلصا)
جس پہ عرض ہے کہ یہ ساری رام کہانی جھوٹ ہونے کے ساتھ ان حضرات کی جہالت کا بھی نہ بولتا ثبوت ہے ۔کیا خفیہ چیزیں
یوں الئبریوں کی زینت بنائیں جاتیں ہیں؟ٓاج کل کیمرہ کا دور ہے کیونہ ان چیزوں کو منظر عام پہ الیا جائے ؟مگر جو چیز ہو ہی
جھوٹ وہ منظر عام پہ کیسے ٓائے ؟اور جہاں تک انگریزوں کے اقتباسات wپیش کئے تو عرض ہے کہ خود دیوبندی اسے حجت نہیں
مانتے ،دیوبندی مصنف لکھتے ہیں:۔
اس کے بعد ثبوت میں پیش کیا تو ایک انگریز کی تحریر ۔اگر اسی طرح کسی بات کو ثابت کیا جائے اور اسی کا نام منطق اور ’’
استدالل رکھا جائے تو ہماری سمجھ میں نہیں ٓاتا کہ فریب دھوکہ دہی ،جھوٹ اور غلط شہادت کے معنی لغت میں کیا
ہونگے‘‘(زلزلہ در زلزلہ ص )۴۶
اور جہاں تک تحریک خالفت کی بحث ہے تو اس پہ تفصیل ہم محاکمہ دیوبندیت میں عرض کریں گے یہاں اتنا عرض ہے کہ خود
تھانوی صاحب نے اس کی مخالفت کی ہے جس پہ حوالہ جات ہم جلد اول میں دے چکے ہیں،اگر اس بناء پہ انگریز کا ایجنٹ کہنا
ہے تو خود دیوبندی حضرات کےممدوح انگریزی ایجنٹ قرار پائے گیں۔
قبلہ میثم عباس رضوی صاحب نے ایک عدد رسالہ ترتیب دیا تھا،جس میں غیر مقلدین حضرات کے قلم سے علماء دیوبند کی
گستاخانہ عبارات پہ تنقید پیش کی گئی تھی اور اسے حقانیت امام اہلسنت امام احمد رضا سے تعبیر کیا گیا تھا،اس پہ جناب جو کہ
ذاتیات پہ تبصرہ کرنے پہ ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں،کافی چیں بہ چیں ہوئے ۔مگر موصوف کی یہ تلمالہٹ مناسب wنہیں،اس لئے
کہ مرتب دست و گریباں لکھتے ہیں:۔
ٰ
فتوی لگایا معاذہللا اور انہیں کافر قرار دیا ۔بریلوی حضرات یہ بتا دیں کہ ’’ بریلوی علماء نے علماء دیوبند پر گستاخ رسول ہونے کا
علماء دیوبند کی گستاخیاں کیا صرف علماء بریلی ہی کو نظر ٓائیں یا اہل السنت والمجاعت کا کوئی اور فقہ بھی ا سے متفق
ہے‘‘(پانچ سو باادب سواالت ص۱۲۔)۱۳
اب کیونکہ غیر مقلدین کو دیوبندی حضرات اہل سنت میں سے تسلیم کرتے ہیں ،جیسا کہ تقی عثمانی لکھتے ہیں:۔
‘ ‘ اس وقت اہل سنت ان مکاتب فکر کے مجموعہ سے عبارت ہے جو دیوبندی،بریلوی اور اہل حدیث کے ناموں سے معروف ہیں’’
اس لئے ان کے اس مطالبے کو پورا کیا گیا ،پھر امین صفدر اوکاڑوی صاحب افادات میں ہے :۔
ہمارا دوست ہے بشیر احمد ہے،بڑا مزاحیہ ہے ،مجھے wکہنے لگا کہ ٓاج جمہوریت کا دور ہے میں تو ٓاج کل مسئلے جمہوریت ’’
سے حل کرتا ہوں،کہنے کگا بریلوی بھی کہتے ہین کہ ہم قرٓان و حدیث کو مانتے ہیںمدیوبدنی بھی کہتے ہیں کہ ہم قرٓان و حدیث کو
مانتے ہیں ۔غیر مقلدبھی یہی کہتے ہیں کہ ہم قرٓان و حدیث کو مانتے ہیں۔ان میں سے جس طرف دو ہوجائیں وہ مسئلہ سچا ہوتا
ہے ،واقعی اصول اس کا صحیح ہے ‘‘(انوارات صفدر ص )۳۷۸
لہذا اس اصول سے دیوبندی حضرات کی عبارات گستاخانہ قرار پاتی ہیں۔اس کے بعد موصوف نے اپنے تائیں ایسی عبارات پیش
کیں ہیں،جن میں ان کے مطابق حسام الحرمین کی مخالفت ہے ،جس پہ تفصیلی تبصرہ اگلی جلد تک موخر کرتے ہیں،سر دست اتنا
عرض ہے کہ :۔
اعلی حضرت سے کے کر ادنی حضرت تک تمام بریلوی علماء دیوبند کو کافر کہتے ہیں (پانچ سو بادب
ٰ ساری دنیا کو معلوم ہے کہ
سواالت ص )9
مفتی اقتدار احمد نعیمی صاحب کے متعلق عرض ہے کہ ٓاپ کا شمار مسلمہ شخصیات میں نہیں ہوتا،اگر ٓاپ کو کسی نے سنی عالم
دین لکھا ہے تو ٓاپ کا انکار بھی کیا گیا ہے (ہدیہ بریلویت)۔اس لئے جب موصوف کی شخصیت مسلم نہیں تو ٓاپ خود بقول دیوبندی
حضرات کے ٓاپ کا شمار معتبر علماء کرام میں نہیں ہوتا۔پھر جن حضرات نے ٓاپ کی تائید کی ہے ان کا ٓاپ کے تفرادات پہ مطلع
ہونا بھی ثابت نہیں اور نہ ہی ان سے اکابر مخالف موقف کی تائید ثابت ہے ،یہ سب جناب کی ذاتی ٓاراء ہیں جنہیں اکابرین کے
بلمقابل پیش نہیں کیا جا سکتا۔
بالفرض اگر انہیں معتبر تسلیم بھی کر لیا جائے تو عرض ہے کہ اکابرین امت کے بلمقابل کسی کے تفرادات حجت نہیں۔ایسے ہی
موصوف کی ذاتی ٓاراء جو اسالف کے خالف ہیں ان کی کوئی اہمیت چہ جائیکہ اسے دست و گریباں سے تعبیر کیا جائے ۔
خیرکتاب ہذا کی تیاری میں جن احباب کی طرف سے تعاون کیاگیا میں ان کا شکر گزار ہوں،خاص طور پہ قبلہ کاشف اقبال مدنی
،عالمہ احمد رضا قادری سہارنپوری ،موالنا شہباز انجم ،اور عبد القادر بھائی صاحبان کا جنہوں نے کتب کی دستیابی کے لئے
خاطر خواہ تعاون فرمایا۔
اور موالناا حمد رضا قادری سہارنپوری اس لئے بھی شکریے کے ممستحق ہیں کہ جناب نے اس کتاب کی جلد اول کی تیاری میں
اپنی مصروفیات سے خاصہ وقت نکال کر نہ صرف کتاب کو مالحظہ کیا بلکہ کئی حوالہ جات کے سلسلہ میں بھی معاونت فرمائی ۔
ہللا رب العزت اس تحریر کو نافع بنائے ،اور جو کوئی اس سے فائدہ اٹھائے مجھ ناچیز کے لئے دعا کرے ،ہللا ہم سب کا حامی و
ناصر ہو۔
جب سے ہندوستان کی سرزمین پر انگریز کے ناپاک و منحوس قدم لگے ہیں یہاں فتنوں کے دروازے کھل گئے ‘‘(دست و گریباں’’
ج ۱ص )۲۲
جناب کے بیان کے مطابق انگریز کی ٓامد نے ہندوستان میں مختلف فتنوں کو جنم دیا،اور ان میں سے ایک فتنہ دیوبند کے نام سے
بھی موسوم ہوا،جس پہ خود علماء دیوبند کی کتب شاہد ہیں،مگر ان تاریخی حوالہ جات کا انکار کرتے ہوئے ،اور حقائق سے منہ
موڑتے ہوئے کچھ دیوبندی حضرات کے مضامین منظر عام پہ ٓائے ،جن میں اس بدیہی حقیقت کا انکار کیاگیا ہے ،اور گھر کے
حوالہ جات سے جان چھڑوانے اور ان کی ال یعنی تاویالت کرنے کے لئے اوراق کو سیا ہ کیا گیا ہے ،انہیں حضرات میں سے ایک
صاحب کی کتاب سرسری دیکھنے کا اتفاق ہوا،جس میں موصوف نے اپنے تمام اکابر کی تحقیقات کو جمع کر کے خود مصنف
بننے کی سعی مذموم کی ہے ،اس میںکوئی شک نہیں کہ کسی بھی کتاب کی تیاری میں اس موضوع پہ پہلے سے موجود کتب سے
استفادہ کیا جاتا ہے ،مگر یوں صفحات کے صفحات کو اپنے نام پہ شائع کرنا ہرگز تحقیق کے کہالنے کے الئق نہیں۔خیر موصوف
نے جو گھر کی کتب کا انکار کیا ہے اور ان کے متعلق تاویالت رکیکہ سے کام لیا ہے ،ان سب شبہات wکا ازالہ ذیل میں پیش خدمت
ہے ۔اس سے قبل ہم اپنے مضمون ’’جی ! ہاں علمائے دیوبند انگریز کے ایجنٹ ہیں‘‘میں بھی ان تاویالت فاسدہ کا پوسٹ مارٹم کر
چکے ہیں،مگر کیونکہ ہم نے اس کتاب میں دیوبندی حضرات کو انگریز نواز کہا ہے ،اس لئے اس مسئلہ پہ دالئل پیش کرنا بھی
ضروری ہے ،اس کے ساتھ ساتھ ان دالئل پہ کے متعلق پیدا کئے گئے شبہات کا ازالہ بھی قارئین کی زیافت طبع کے لئے پیش
کیاجاتا ہے ۔
دیکھئے حضرت موالنا اشرفعلی صاحب تھانوی رحمۃ ہللا علیہ ہمارے ٓاپ کے مسلم بزرگ و پیشوا تھے ۔ان کے متعلق بعض ’’
لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ اون کو چھ سو روپیہ ماہوار حکومت کی جانب سے دئیے جاتے تھے ۔اسی کے ساتھ وہ یہ
بھی کہتے تھے کہ گو موالنا تھانوی رحمۃ ہللا علیہ کو اس کا علم نہیں تھا کہ روپیہ حکومت دیتی ہے مگر حکومت ایسے عنوان
سے دیتی تھی کہ ان کو اس کا شبہ بھی نہ گذرتا تھا ۔اب اسی اگر حکومت مجھے wیا کسی شخص کو استعمال کرے مگر اس کو یہ
علم نہ ہو کہ اسے استعمال کیا جا رہا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ شرعا اس میں ماخوذ نہیں ہو سکتا ‘‘(مکالمۃ الصدرین ص ۹۔)۱۰
اس حوالہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اشرف علی تھانوی صاھب کو انگریز وں کی جانب سے چھ سو روپیہ عطا کیا جاتا تھا،مگر ان
کے نیاز مند حضرات یہ تاویل کرتے ہیں کہ مکالمۃ الصدرین غیر مستند ہے ،جوابا عرض ہے کہ جب انسان شخصیت پرستی کا
شکار ہونے کے ساتھ متعصب بھی ہو تو ذہن بدیہی حقائق کو بھی محض اس لئے قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے کہ کہیں اس
سے میرے ممدوح کی شخصیت مجروح نہ ہوجائے ،یہی حال ہمارے معاندین کا ہے جو اس حوالہ باال کی بدولت تھانوی صاحب
کے دامن پہ لگے سیاہ دھبوں کو صاف کرنے کی خاطر کتاب مذکورہ کا معتبر ہونا ہی تسلیم کرنے سے عاری ہے ،جبکہ یہ بات
درست نہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس حقیقت کا تذکرہ محض مکالمۃ الصدرین میں ہی نہیں بلکہ دیگر کتب میں بھی مرقوم
ہے ،خود تھانوی صاحب فرماتے ہیں:۔
ایک شخص نے مجھ سے دریافت wکیا تھا کہ اگر تمہاری حکومت ہو جائے تو انگریزوں کے ساتھ کیسا برتاو کرو گئے ؟میں نے کہا
کہ محکوم بنا کر رکھیں گے۔کیوں کہ جب خدا نے حکومت دی تو محکوم ہی بنا کر رکھیں گے ۔مگر ساتھ ہی اس کے نہایت ٓارام
وراحت سے رکھا جائے گا اس لئے کہ انہوں نے ہمیں ٓارام پہنچایا ہے ۔( ملفوظات حکیم االمت ج ۶ص )۱۰۲
اس جگہ جناب تھانوی صاحب خود اپنے منہ سے برمالیہ اظہار فرما رہے ہیں کہ انہیں انگریزی حکومت کی جانب سے ٓارام و
راحت سے رکھا گیا،اور مکالمۃ الصدرین کے حوالہ سے اس امر کی نہ صرف تصدیق ہوتی ہے بلکہ ٓارام پہنچانے کی نوعیت بھی
فتوی صادر کرنے سے تھانوی صاحب دامن صاف نہیں ہوسکتا۔ ٰ معلوم ہوجاتی ہے ۔اس لئے محض مکالمۃ الصدرین پہ غیر معتبر کا
پھر مرتب دست و گریباں رقم طراز ہیں:۔
باقی تمہارا یہ کہنا کہ اس نے رجوع کر لیا تھاتو اس پر دلیل چاہئے کہ اس نے خود لکھ کر دیا ہو‘‘(دست و گریباں ج ۳ص’’
)۳۲۱
لہذا اگر موصوف کو تردید دکھالنے کا شوق دامن گیر ہے تو جناب عثمانی صاحب کے اپنے بیان سے ان کے اس موقف کی تردید
کو ہدئیہ قرطاس کریں،لیکن موصوف خود تسلیم کر چکے ہیں:۔
حضرت موالنا شبیر احمد عثمانی رحمۃ ہللا علیہ کے بارے میں ٓاتا ہے کہ انہوں نے مکالمۃ الصدرین کی تائید کی ہے اور انہی کی’’
تائید کرتے ہوئے ان کے شاگرد انوار الحسن شیر کوٹی ؒ نے بھی اس کی تائید کی بلکہ خطبات عثمانی میں تو اس مکمل مکالمۃ
الصدرین کو نقل کر دیا‘‘(دفاع اہل السنۃ ج ۲ص)۴۴۷
موصوف کا یہ اقرار اس بات کی وضاحت کے لئے کافی ہے کہ اس بیان کی تائید خود شبیر احمد عثمانی صاحب wنے کی ہے ،پھر
قارئین کی دلچسپی کے لئے یہ بات قابل ذکر معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح موصوف نے یہاں عثمانی صاحب کی تصدیق کا اقرار کیا
ہے ،اسی طرح کچھ سطر قبل یہ بھی لکھ چکے ہیں:۔
یعنی حضرت عالمہ عثمانی ؒ کا اس پر دستخط نہ کرنا ہی اس چیز کی دلیل ہے کہ یہ رسالہ ان کا مصدقہ نہیںبلکہ مخالفین نے ان ’’
برزگوں کے درمیان مزید بعد پیدا کرنے کے لئے اس کی نسبت حضرت عالمہ عثمانی ؒ کی طرف کر دی ہے ‘‘(دفاع اہل السنۃ ج ۲
ص)۴۴۶
یہاں موصوف اس امر کو باور کرانے کے مدعی ہیں کہ زیر بحث رسالہ عثمانی صاحب کی تصدیق سے محروم ہے ،مگر صرف
ایک ہی صفحہ کے بعد موصوف کا قلم یہ بھی لکھتا ہے :۔
پس اسے حضرت کی سادگی کہئے یا کچھ اور اپنے اسی مزاج کی وجہ سے ہم نشینوں کی بات میں ٓاکر اس مکالمۃ الصدرین کی ’’
بھی حمایت کر دی ‘‘(دفاع اہل السنۃ ج ۲ص)۴۴۷
اس جگہ تصدیق و تائید اور حمایت کا واضح اقرار موصوف کی ذہنی حالت کی خوب خبر گیری کر رہا ہے ،مگر ان اوراق کا راقم
موصوف اس کی ذہنی حالت پہ تبصرہ کرنے کی بجائے فیصلہ قارئین پہ چھوڑتا ہے ۔خیر یہ بات واضح ہو گئی کہ شبیر احمد
عثمانی صاحب کا یہ اپنا بیان ہے اور اس بیان کو ان کی تائید حاصل ہے۔پھر انہوں نے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کو یہ کہتے
ہوئے سنا گیا ہے اور مرتب مطالعہ بریلویت لکھتے ہیں:۔
جو بات یہ عام شہرت پالے وہ ٓاوازہ خلق خدا سمجھی جاتی ہے مثل مشہور ہے کہ ٓاواز خلق کو نقارہ خدا سمجھو‘‘(مطالعہ ’’
بریلویت ج ۱ص)۸۷
اس عبارت باال کی روشنی میں عثمانی صاحب کے بیان کی سچائی پہ مزید مہر ثبت ہوجاتی ہے کہ خلق کی ٓاواز نقارہ خدا ہے ،لہذا
تھانوی صاحب انگریز کی طرف سے نوازے جاتے تھے ،اب ہم اس بات کی بھی وضاحت کئے دیتے ہیں کہ ٓاخر وہ کونسی خدماتw
تھی جن کے بدلے یہ نوازش ان پہ کی جاتی تھی ،تو اس سلسلہ میں صوفی عبد الحمید سواتی لکھتے ہیں:۔
تھانوی کے ایک بھائی مظہر علی انگریز کے (سی ٓائی ڈی) کے محکمہ میں تھے اور انہوں نے ’’ؒ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ موالنا
ٓازادی پسند مسلمانوں کو نقصان بھی پہنچا ہے ،لیکن موالنا تھانوی اس بھائی کے زہر اثر نہیں تھے ،جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان
ہے ‘‘(موالنا عبید ہللا سندھی علوم و افکار ص)۱۲۴
اب یہاں خلق خدا ہی کا تذکرہ ہے جو بقول مرتب مطالعہ بریلویت اصل میں نقارہ خدا ہے ،پھر سواتی صاحب wتو کھل کر اقرار نہ
کر سکے مگر حبیب الرحمٰ ن لدھیانوی رقم طراز ہیں:۔
میں اور موالنا حفظ الرحمن صاحب سہارنپور میں ٓاپ کے اس بیان کا ذکر کر رہے تھے کہ موالنا حفظ الرحمان کے ٓانسو ٓاگئے ’’
اور انہوں نے کہا کہ ٓاگے حضرت تھانوی رحمۃ ہللا علیہ کے ذریعے سے ہمارے اور اسالم کے دشمن ہم کو ذبح کرتے تھے ،اب
ٓاپ نے ان کی جگہ لے لی ہے‘‘(انوار عثمانی ص)۱۹۳
اس حوالہ سے واضح ہو گیا کہ تھانوی صاحب نے انگریز نوازی کا کردار کرتے ہوئے دیوبندی حضرات کو نقصان پہنچایا ،اس پہ
تفصیل کے شائق قبلہ میثم عباس رضوی کی کتاب ’’کیا مکالمۃ الصدرین جعلی کتاب ہے؟‘‘کی طرف مراجعت کریں،موصوف نے
نہ صرف مکالمۃ الصدرین کے معتبر ہونے پہ حوالہ جات کا انبار لگایا ہے ،بلکہ مزید حوالہ جات سے بھی تھانوی صاحب کی
انگریز نوازی پہ بحث کی ہے ۔اس کے بعد موصوف کی جانب سے یہ کہا گیا کہ اگر اس کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو کچھ مضائقہ
نہیں کیونکہ عثمانی صاحب الزام نقل فرمارہے ہیں جبکہ یہ بات بھی درست نہیں ۔ اس لئے کہ عثمانی صاحب ک نزدیک اگر یہ
محض الزام ہوتا تو جناب اس کی یوں تاویل نہ فرماتے :۔
۔اب اسی اگر حکومت مجھے یا کسی شخص کو استعمال کرے مگر اس کو یہ علم نہ ہو کہ اسے استعمال کیا جا رہا ہے تو ظاہر ’’
ہے کہ وہ شرعا اس میں ماخوذ نہیں ہو سکتا‘‘(مکالمۃ الصدرین ص )۱۰
ان کی یہ تاویل ہی اس بات کی وضاحت کے لئے کافی ہے کہ وہ اسے الزام نہیں سمجھتے وگر نہ تاویل کرنے کی بجائے تردید
کرتے ۔اس لئے موصوف کی یہ تاویل بھی درست نہیں۔اس کے بعد تھانوی صاحب کی جناب بزعم خود اس الزام کی تردید میں حوالہ
جات پیش کئے گئے ،وہ بھی موصوف کو سود مند نہیں۔اس لئے کہ وہاں کہیں بھی واضح تردید موجود نہیں بلکہ لفظی ہیر پھیر
ہے ۔جبکہ ہم اس کے بمقابل غیر مبہم عبارت سے ان کا انگریزی حکومت سے راحت و ٓارام پانا ذکر کردیا ہے ،اس لئے یہ ثابت ہوا
کہ موصوف انگریز نواز اور انگریزی ایجنٹ تھے ۔اس کے بعد موصوف نے خطیب کی معاصرانہ چپقلش کا تذکرہ کیا ،جس کا
سردست جواب یہ کہ موصوف کی ممدوح کتاب کے نزدیک یہ باہم دست و گریبان ہونا ہے جو گمراہ اشخاص کا وطیرہ ہے ،اور
دیوبندی معامالت wکو بھی موصوف نے اسی پہ قیاس کیا ہے جس سے دیوبندی حضرات کا گمراہ ہونا ثابت ہوگیا۔پھر عثمانی صاحب
کی تھانوی صاحب سے معاصرانہ چپقلش نہ تھی بلکہ انہیں تھانوی صاحب کے گروپ کا ممبر ہی شمار کیا جاتا ہے ،اس لئے
معاصرانہ مخاصمت wپہ مشتمل حوالہ جات کو اس کے مقابل پیش نہیںکیا جاسکتاجب اس کی تائید میں دیگر بیانات بھی موجود ہوں۔
پھر موصوف نے جو اعلی ٰ حضرت کی ذات واال صفات پہ کیچڑ اچھالے ہیں ،ان پہ تبصرہ ہماری کتاب محاکمہ دیوبندیت‘‘میں
موجود ہے ،قارئین وہی مراجعت کریں۔
حوالہ نمبر :۲۔موالنا الیاس صاحب رحمۃ ہللا علیہ کی تبلیغی تحریک کو بھی ابتدا حکومت کی جانب سے بذریعہ حاجی رشید احمد
صاحب کچھ روپیہ ملتا تھا پھر بند ہوگیا‘‘(مکالمۃ الصدرین ص)۸
اس پہ بھی جناب نے مختلف قسم کی تاویالت ہیں ،مگر حقیقت خود بخود ٓاشکار ہوجاتی ہے ،خود دیوبندی مفتی سعید صاحب لکھتے
ہیں:۔
بتایا گیا کہ تبلیغی جماعت اس وقت مرزائی قادیانی کی تعلیمات کا پرچار کروارہی ہے اور اپنے قادیانی نظریات انگریز گورنمنٹ ’’
کے سائے میں یہ جماعت پھیال چکی ہے ‘‘(سنگین فتنہ ص )۲۹
اس کے بعد موصوف نے ’’ھوالمعظم ‘‘نامی کتاب کا حوالہ پیش کیا ،جب یہ کتاب غیر مستند ہے ،اور خود موصوف لکھتے ہیں:۔
ٰ
دعوی کی بنیاد رکھنا ہی درست نہیں‘‘(دفاع اہل السنۃ ج ۲ص’’)۴۶۶ وہ غیر معتبر کتاب ہے لہذا اس پر کسی
پھر تبلیغی جماعت جو دین کی خدمت کرتی ہے ،اس کی حقیقت بیان کرتے ہوئے ٓاپ اپنے حضرات لکھتے ہیں:۔
س جماعت کی بنیاد تو جذبہ جہاد کو مٹانے کے لئے تھی تبلیغ کا لبادہ تو لوگوں کو پھانسنے کے لئے نقل کی تھی۔(انکشاف حقیقت’’
ص )۱۳
اب موصوف بتالئیں کیا جذبہ جہاد کو ختم کرنا یہ دین متین کی خدمت wہے ،تھانوی صاحب کے خلیفہ لکھتے ہیں:۔
ــ’’دین ہی کے نام سے عام امت محمدی wکو دین کے راستے سے بہکانے اور ہٹا ڈالنے کا کام تبلیغ رکھا گیا ہے ‘‘(شاہراہ تبلیغ ص
)۳۶
جو خود بے علم ہو کر حق و باطل میں تمیز کرنے سے محروم امت مر حومہ میں گمراہی پھیالنے کو ٓاج اعلی سے اعلی خدمت
دین کے منصب دار بن جاتے ہیں(شاہراہ تبلیغ ص)۳۸
کیوں جناب !ا ٓپ کے گھر والے ہی اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ تبلیغی جماعت گمراہی پھیالرہی ہے ۔ٓائیے ذارا تھوڑا سا
تعارف اور مالحظہ کر لیں۔ٓاپ کے موالنا صدیق صاحب کلمۃ الہادی کتاب پر تقریظ میں لکھتے ہیں :۔
اب اس جماعت سے ایسے لوگ پیدا ہوں ،جومدارس کے دشمن ،علماء کے دشمن ،درس قرٓان کے دشمن ،جہاد کے منکر اعمال
کے پابند اور عقائد سے عاری ہوتے ہیں ،دشمنان صحابہ ہوتے ہیں(کلمۃ الہادی ص )۳۸
حوالہ نمبر :۳۔پروپیگنڈہ کے زور پہ یہ بات باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ علماء دیوبند نے شاملی کے میدان میں انگریز وں
سے جہاد کیا ،مگر یہ محض افسانہ ہے جس کا حقیقت سے کچھ عالقہ نہیں،اس افسانہ کی حقیقت عاشق الہی میرٹھی صاحب نے
اپنی کتاب’’تذکرۃ الرشید ‘‘میں طشت از با م کر دی ،جس کی بدولت علماء دیوبند کافی تشویش میں مبتال ہیں،خیر پہلے ہم تذکرۃ
الرشید کے دو ٹوک حوالہ جات ہدئیہ قارئین کرتے ہیں،پھر اس پہ کی گئی تاویالت کا منہ توڑ جواب بھی نقل کئے دیتے ہیں۔عاشق
الہی صاحب یوں عنوان قائم کرتے ہیں:۔
یعنی یہ محض الزام ہے کہ علماء دیوبند نے انگریز کے خالف بغاوت کی تھی بلکہ وہ تو سچے خیر خواہ تھے ،چنانچہ لکھتے ہیں:۔
شروع ۱۲۷۶ہجری نبوی ۱۸۵۹ھ وہ سال تھا جس میں حضرت امام ربانی قدس سرہ پر اپنی سرکار سے باغی ہونے کا الزام لگایا’’
گیا اور مفسدوں میں شریک رہہنے کی تہمت باندھی گئی ‘‘(ایضا)
یعنی گنگوہی صاحب پہ اپنی مہربان سرکا ر سے بغاوت اور ان سے فساد کرنے کا قصہ محض افسانہ و تہمت سے زیادہ کی حثیت
نہیں رکھا۔اس جگہ اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ لفظ سرکار کی تاویل کرتے ہوئے علماء دیوبند نے انہتائی مضحکہ خیز
تعالی کی ذات مراد ہے ،اور اس پہ ایک صاحب اعلی حضرت رحمۃ ٰ گفتگو کی ہے ،ان کے نزدیک یہاں لفظ سرکار سے یہاں خدا
ہللا علیہ سے یہ نقل کیا کہ گورنمنٹ کو سرکار کہنا منع ہے ،جبکہ موصوف اتنا نہ سمجھ wسکے کہ بحث یہ نہیں ہے کہ گورنمنٹ کو
سرکار کہنا جائز ہے یا ناجائز،گفتگو تو یہ کی جارہی ہے کہ مصنف تذکرۃ الرشید نے سرکار سے مراد انگریزی حکومت کو لیاہے
یانہیں،پھر ا س جگہ بھی ہم گھر کا اقرار پیش کئے دیتے ہیں،سرفراز خان لکھتے ہیں:۔
اور مولف تذکرۃ الرشید جیسے لفظ سرکار انگریز پہ اطالق کرتے ہیں‘‘(اظہار العیب ص’’)۱۰۸
اور پھر مولف تذکرذۃ الرشید جس طرح لفظ سرکار کا انگریز پر اطالق ہیں‘‘(ہدئیہ بریلویت ص ’’)۴۹۵
عبارات کی مماثلت کس بات کی چغلی کھا رہی ہے ،اس سے غض بصر کرتے ہوئے فی الحال اتنا عرض ہے کہ دوراز کی تاویالت
کے باوجود ان حضرات کا قلم یہ ماننے پہ مجبور ہوا کہ مصنف نے سرکا رسے انگریز کو بھی مراد لیا ہے ،ایسے ہی مناظر احسن
گیالنی تذکرۃ الرشید کی اس قسم کی عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:۔
بظاہر اس سے بھی یہی کچھ سمجھ میں ٓاتا ہے کہ عام بغاوت کے پھوٹ پڑنے کے بعد بھی سرکا ر یعنی حکومت مسلطہ کے ساتھ’’
بہی خواہی اور مصالحت پسندی کا رشتہ جن لوگوں نے قائم کر رکھا تھا ‘‘(سوانح قاسمی ج ۲ص )۱۱۳
خیر اس ضمنی بحث کے بعد اب دوبارہ ہم تذکرۃ الرشید کی عبارات کی جانب اپنی قارئین کی توجہ کو منعطف کرتے ہیں،وہ مفسدین
کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
جن کے سروں پر موت کھیل رہی تھی انہوں نے کمپنی کے امن و عافیت کا زمانہ قدر کی نظر سے نہیںدیکھا اور اپنی رحم دل ’’
گورنمنٹ کے سامنے بغاوت کا علم قائم کیا ،فوجیں باغی ہوئیں،حاکم wکی نافرمان بنیں،قتل و قتال کا بند بازار رکھوال اور جوانمردی
کے غزہ میں اپنے پیروں پر خود کلھاڑیاں ماریں‘‘(تذکرۃ الرشید ص )۱۱۳
اس حوالہ سے یہ بات واضح ہو گئی کہ شاملی کے میدان کے قصہ محض افسانہ ہی ہے ،اصل میں تو ان حضرات نے اپنی مہربان
گورنمنٹ کی تائید میں تلوار کو تھاما تھا؟ایسے ہی لکھتے ہیں:۔
ٓاپ حضرات اپنی ہربان سرکار کے دلی خیر خواہ تھے تازیست خیر خواہ ہی رہے ‘‘(تذکرۃ الرشید ص’’)۱۲۰
جب بغاوت و فساد کا قصہ فرووہوا اور رحمدل گورنمنٹ کی حکومت نے دوبارہ غلبہ پاکر ؓاغیوں کی سرکوبی شروع کی تو جن ’’
بزدل مفسدوں کو سوائے اس کے اپنی رہائی کا کوئی چارہ نہ تھا کہ جھوٹی سچی تہمتوں اور خبری کے پیشہ سے سرکاری خیر
خواہ اپنے کو ظاہر کریںا نہوں نے اپنا رنگ جمایااور ان گوشہ نشین حضرات پر بھی بغاوت کا الزام لگایا‘‘(تذکرۃ الرشید ص
)۱۱۶
اس جگہ جہاں علماء دیوبند کے جہاد کے فسانہ کا بھرم کھل جاتا ہے ،وہی میرٹھی صاحب کا مجاہدین ٓازادی کو باغی کہنا بھی ان
کی ذہنی ساخت کا پتہ دیتا ہے،ابو بکر غازیپوری رقم طرازہیں:۔
مفسد و باغی کا یہ خطاب ان سرفراشان اسالم اور ناموس دین کی حفاظت کی خاطر اپنی جان و مال کی بازی لگادینے اور ’’
سامراجی استعمار کی طاغوتی طاقت ست ٹکرانے والے مجاہدین اسالم کو دیا جارہا ہے جنہوں نے تختہ دار پر چرح کر اور جام
شہادت پی کر اور سینوں پر گولیاں کھا کر اور ٓاگے کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں جل کر خباب و بالل کا نمونہ پیش کیا تھا اور
لوح تاریخ پر جاں فروشی و جاں سپاری کا نقش قائم کیاتھا۔ثبت است بر جریدہعالم دوام ما۔دین فروشی ،ضمیر فروشی ایمان فروشی
کی اس سے بدتر مثال اور کیا ہوسکتی ہے ‘‘(غیر مقلدین کی ڈائری ص )۶۶
خیر عاشق الہی میر ٹھی صاحب ایسے ہی نقل کرتے ہیں:۔
جب حقیقت میں سرکار کا فرمانبردار رہاہوں تو جھوٹے الزام سے میرابال بھی بیکا نہ ہوگا اور اگر مارا بھی گیا تو سرکار مالک ’’
ہے اسے اختیار ہے جو چاہے کرے اپنا تو بال برابر بھی فکر نہ تھا ‘‘(تذکرۃ الرشید ص)۱۲۱
ان حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ رشیدصاحبان نہ صرف انگریز کے خیر خواہ تھے بلکہ ان حضرات نے اپنے رحمدل گورنمنٹ
کی خاطر جنگ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا،یہ یاد رہے کہ کتاب مذکورہ کے متعلق مناظر احسن گیالنی لکھتے ہیں:۔
حضرت گنگوہی رحمۃ ہللا علیہ کی مستند سوانح عمری تذکر ۃ الرشید کے حاشیہ میں جو خبر دی گئی ہے ‘‘(سوانح قاسمی ج ’’ ۲
ص)۹۱
بظاہر انگریز کی تائید میں علماء حق اور مورخین سے جوالفاط منقول ہیں وہ سب توریہ ہیں‘‘(اظہار العیب ص ’’)۱۲۲
دیوبندی حضرات کی یہ قالبازیاں بھی قابل دید ہیں پہلے تو سرے سے ہی ایسے الفاظ کی موجودگی کے منکر نظر ٓاتے ہیں،پھر
جب دالئل سے ان کا رد کیا جاتا ہے،تو ان کے پنڈورا بکس سے نئی تاویل یہ سامنے ٓاتی ہے کہ یہ تو تسلیم ہے کہ ہمارے اکابر نے
انگریزوں کی حمایت میں بیانات دئیے اور ان کے سوانح نگاروں کی تصنیف کردہ کتب کی روشنی میں وہ برٹش سرکار کے خیر
خواہ قرار اپاتے ہیں مگر یہ سب حقیقتا نہیں بلکہ توریہ کے طور پہ تھا،خیر اس توریہ کی کہانی کا پوسٹ مارٹم بھی ہم علماء دیوبند
کے قلم سے پیش کئے دیتے ہیں،مناظر احسن گیالنی لکھتے ہیں:۔
حضرت گنگوہی رحمۃ ہللا علیہ کی مستند سوانح عمری تذکر ۃ الرشید کے حاشیہ میں جو خبر دی گئی ہے کہ ’’سنایا گیا ہے کہ ’’
ہمارے اکثر دینی حضرات نے اس کاروائی سے منع کیا‘‘ج ۱ص ۷۴یہ یا اس قسم کی باتیں کتابوں میں جو ملتی ہیں ،ان کو محض
وقتی مصلحت اندیشوں کا نتیجہ قرار دے کر خوامخواہ اس پر اصرار کرنا کہ کسی باضابطہ پروگرام کو طے کر کے ٓازادی کی یہ
جدوجہد ہندوستان میں شروع ہوئی تھی ،شاید درست نہ ہوگا‘‘(سوانح قاسمی ج ۲ص )۹۲
اس عبارت سے اوال تو یہ معلوم ہوا کہ ان بیانات کو وقتی مصلحت یا توریہ پہ حمل کرنا درست نہیں،اور شاملی کے میدان جنگ
کے عنوان سے جو بیعت لیے و دیگر لوامات پہ مشتمل داستان جوکتب میں رقم ہے وہ محض کذب کاپلندہ ہے ،خیر اسی توریہ کی
تاویل پہ برستے ہوئے ابو بکر غازیپوری لکھتے ہیں:۔
میں کہتا ہوں جن حاالت میں جو لکھا اور کہاہو ،لکھا اور کہا وہی ہے جو یہاں پیش کیا جارہا ہے ۔غیر مقلدوں کو معلوم ہونا ’’
چاہئے ارباب عزیمت حاالت کے سامنے سپر اندازی نہیں کرتے اور خود سپردگی کا ان کا شیوہ نہیں ہوتا ،اس لئے اس بارے میں
غیر مقلدین کا کوئی عذر مسموع نہ ہوگا‘‘(غیر مقلدین کی ڈائری ص )۶۸
پھر جب ۱۸۵۷کا ہولناک حادثہ ختم ہوا تو حکومت برطانیہ نے ہر اس شخص کو تختہ دار پر لٹکا دیا یا گولی کا نشانہ بنا دیا جس
کے متعلق ذارا بھی شبہ تھا ۔چناچہ حاجی صاحب قاسم نانوتوی اور گنگوہی کے وارنٹ جاری کیے گئے،حضرت حاجی صاحبw
مکہ مکرمہ ہجرت فرما گئے اور حضرت گنگوہی و نانوتوی روپوش ہو گئے لیکن مخبر کی خبر رسانی سے ٓاپکوگرفتار کیا گیا ۔۔
باالخر جب حکومت کوکوئی ثبوت ٓاپ کے خالف نہ مال تو رہا کر دیا گیا (پچاس جلیل القدر علما ص )۳۵
اب میرا سوال ہے کہ تاریخ کے ادنی طالب علم کو تو پتہ ہے کہ گنگوہی صاحب نے انگریزوں کے خالف جہاد کیا۔مگر حکومت
برطانیہ کو کوئی ثبوت نہ مل سکا۔پھر جس کے متعلق شبہ بھی تھا اس کو بھی قتل کر دیا۔مگر انگریزوں کے خالف جہاد کرنے
والے کھلے عام گھومنے لگے ۔جیساکہ دیوبندیوں نے لکھا کہ نانوتوی ۳دن روپوش ہونے کے بعد کھل کر گھومنے لگ گئے تھے۔
لہذا یہ کہنا کہ انہوں نے انگریز کے خالف جہاد کیا یہ حقائق کو مسخ کرناہے۔عاشق الہی صاحب لکھتے ہیں:۔
ٓاخر جن تحقیقات اور پوری تنقیش و چھان بین سے کالشمس فی النہار ثابت ہو گیا کہ ٓاپ پر جماعت مفسدین کی شرکت کا محض
الزام ہی الزام اور بہتان ہی بہتا ن ہے۔(تزکرۃ الرشید ج1ص)120
لہذا الزام کو حقیقت بنا کر پیش کرنا محض کذب و افترا کے سوا کچھ نہیں۔ٓاخر میں موصوف نے ہمارے خالف اپنے گھر کے حوالہ
جات پیش کئے ،جن کے متعلق ابوبکرغازیپوری لکھتے ہیں:۔
ہے کچھ ٹھکانا اس حماقت wکا،ان ٹیچر صاحب کو یہ کون بتالئے کہ فاضل صاحب کو تو حق ضرور ہے کہ وہ ٓاپ پر ٓاپ کی ’’
کتابوں سے حجت قائم کریں مگر ٓاپ کو یہ حق نہ ہوگا کہ اپنی کتابوں سے ان فاضل صاحب wپر حجت قائم کریں‘‘(غیر مقلدین کی
ڈائری ص )۸۳
اب جہاں تک پروفسیر ایوب قادری صاحب کی بات ہے ،تو ان کے متعلق دیوبندی حامد میاں صاحب لکھتے ہیں:۔
پروفیسر محمد ایوب قادری مرحوم نے تصنیفی خدمات خصوصا شخصیات اور تاریخ پر انجام دیں ہیں۔۔موصوف کی بزرگان دین ’’
پر خدمت کو دیکھتے ہوئے بریلوی مکتبہ فکر کے پاکستانی کارندوں نے یہ سمجھا کہ وہ بھی قادری ہونے کے ناتے بریلوی
ہیں،حاالں کہ یہ غلط بات ہے ۔موصوف دیوبند مسلک کے علمی ٓادمی تھے ‘‘(فاضل بریلوی کے ترجمہ قرٓان اور فقہی مقام کی
حقیقت ص )۲۰۵
حوالہ نمبر :۴۔شاہ اسماعیل نے انگریز کی حمایت میں لڑنے کا فتوی دیا (حیات طیبہ ص )۳۶۴
شبہ:سیرت سید احمد شہید سے چندحوالہ جات نقل کر کے کہا کہ ان حوالہ جات سے ثابت ہو گیا کہ سید صاحب کی جماعتw
انگریزوں کے خالف تھی۔اور مرزا حیرت دہلوی اس بیان کو نقل کرنے میں منفرد ہیں۔اور اگر اس کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو شاہ
صاحب ۱۸۵۷سے پہلے ہی شہید ہو چکے تھے لہذا پہلے والے حاالت کو بعد پر فٹ کرنا بے سوداور نرا دجل و فریب ہے۔
لجواب۔پہلی بات تو مرزا حیرت دہلوی منفرد نہیں بلکہ یہ حوالہ سوانح احمدی ص ۵۷میں بھی موجود ہے۔عبارت مالحظہ ہو۔۱
یہ بھی صحیح روایت ہے کہ اثنائے قیام کلکتہ میں جب ایک روز موالنا اسماعیل دہلوی وعظ فرما رہے تھے ،تو ایک شخص نے
موالنا سے یہ فتوی پوچھاکہ سرکا ر انگریزی پر جہاد کرنا درست ہے کہ نہیں ؟اس کے جواب میں موالنا نے فرمایا کہ ایسی بے
ریا اور غیر متعصب سرکار پر کسی طرح بھی جہاد درست نہیں۔(سوانح احمدی ص )۵۷
اس سوانح اور مکتوبات منسلکہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سید صاحب کا سرکار انگریزی سے جہاد کرنے کا ہر گز ارادہ نہیں’’
تھا ‘‘(سوانح احمدی ص )۳۶۶
دوسری کتاب مرزا حیرت مرحوم کی حیات طیبہ ہے جو شاہ اسماعیل کی نہایت مسبوط سوانح عمری ہے (الفرقان شہید نمبر
۱۳۵۵ھ ص )۵۵
ابوالحسن ندوی نے بھی اس مستند تسلیم کیا اور اسکے مطالعہ کی طرف رغبت دالئی ۔(تقویۃ االیمان ص)۷
اسی طرح مولوی سرفراز نے اپنی کتاب عبارات اکابر میں اس کتاب کو معتبر قرار دیتے ہوئے بطور ثبوت پیش کیا ہے (عبارات
اکابر ص )۵۶،۵۸،۶۲
سوانح احمدی و تواریخ عجیبہ اردو،پہلی سیدصاحب کے حاالت میں مشہور کتا ب ہے جس سے سید صاحب کے حاالت کی بہت
اشاعت ہوئی(سیرت سید احمد از ابوالحسن ندوی ص )۸
مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری جو حضرت سید صاحب کے نہایت مستند سوانح نگار ہیں‘‘(نقش حیات ص’’)۴۱۸
۔باقی ا ٓپ کے پیش کردہ حوالوں کا جواب اپنے ہی گھر کے مولف سے سنئے ۔۲
ڈاکٹر ہنٹر صاحب اور دوسرے متعصب wمولفوں نے سید صاحب جیسے خیرخواہ اور خیرا ندیش سرکار انگریزی کے حاالت کو بدل
کر ایسے مخالفت کے پیرائے میں دیکھالیا ہے کہ جس سے ہماری فاتح قوم کو ٓاپ کے پیرو لوگوں سے سخت نفرت ہو گئی (سوانح
احمد ص )۲۲۶
اب گزارش ہے کہ خدارا سید صاحب کو انگریز کا مخالف ثابت کا ظلم مت کریں۔اور تاریخ کو مسخ مت کیجئے۔نقش حیات کے
حوالہ جات کی بنیاد یہی ڈاکٹر ہنٹر صاحب wہیں ،اس لئے ان کا حوالہ خو ددیوبندی مذہب میں قابل قبول نہیں۔ایسے ہی دیوبندی
مصنف لکھتے ہیں:۔
اس کے بعد ثبوت میں پیش کیا تو ایک انگریز کی تحریر ۔اگر اسی طرح کسی بات کو ثابت کیا جائے اور اسی کا نام منطق اور ’’
استدالل رکھا جائے تو ہماری سمجھ میں نہیں ٓاتا کہ فریب دھوکہ دہی ،جھوٹ اور غلط شہادت کے معنی لغت میں کیا
ہونگے‘‘(زلزلہ در زلزلہ ص )۴۶
۔اگلی بات غالم مہر صاحب وہ پہلے مورخ جنہوں نے سید صاحب کو انگریزوں کے خالف ثابت کرنے کی کوشش کی۔اس سلسلہ ۳
میں ان کا بیان بھی پیش خدمت ہے :۔
میں مجاہدین کی شان و ٓابرو بہر حال قائم رکھنے کا قائل ہوں اگرچہ وہ بعض سابقہ بیانات اورتوجیہات سے عین مطابق نہ ’’
ہو‘‘(افادات مہر ص )۲۳۱
لہذا ایسے معتصب wمورخ کی بیان کردہ بات خود بخود ہی غیر معتبر ہو گئی۔اور پھر سوانح احمدی وغیرہ کا مستند ہونا ہم ٓاپ کے
گھر سے پیش کر چکے ۔اور پھر اوپر بیان ہو چکا کہ وہ لوگ جو سید صاحب کو انگریزوں کے خالف ثابت کرتے ہیں معتصب
ہیں۔لہذا متعصب مورخین کے مقابلے میں مستند چیزوں کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
۔چوتھی بات یہ کہنا کہ اس وقت کے حاالت کے مطابق جہاد کا فتوی درست نہیں تھا تو ٓاپ کے مسلک کے ایک پیر صاحب ۴
لکھتے ہیں :۔
چنانچہ ۱۷۷۲ء میں شاہ عبد العزیز نے انگریزوں کے خالف جہاد کا فتوی دے دیا(علمائے دیوبند کا تاریخی پس منظر ص )۸
اس سے ثابت ہوا کہ اس وقت جہاد درست تھا۔اور ٓاپکی تاویل تفل تسلی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
جن لوگوں نے مسلمانوں کے اس مرکزی اعتماد کو ٹھیس پہنچائی اور انگریزوں کو خوش کرنے کے لئے ہندوستان کو دار السالم
ٹھہرایا ۔انہوں نے شاہ عبدالعزیز کے فتوے کو غلط قرار دیا اور موالنا اسماعیل شہید کی تحریک جہاد کی مخالفت کی اور مسلمانوں
میں دو محاذ قائم کر دیے۔(شاہ اسماعیل ص )۱۶
اس عبارت میں خالد محمود صاحب نے لکھا کے انگریز کے حامیوں نے تین کا م کیے
۔ہندوستان کو دارالسالم کہا ۔۱
قطع نظر اس کے یہ تینوں باتیں شاہ اسماعیل میں پائیں جاتیں ہم صرف دوسری چیز پر توجہ دالنا چاہتے ہیں ہو ہے تحریک جہاد
کی مخالفت۔یعنی بقول خالد محمود صاحب جن لوگوں نے اس وقت تحریک جہاد کی مخالفت کی وہ انگریز کے حامی تھے اوراوپر
ہم حوالہ جات نقل کر ٓائے کہ اسماعیل نیانگریزوں کے خالف جہاد کی مخالفت کی۔اب پرستان دیوبند کا یہ کہنا کہ جی پہلے کے
حاالت کو بعد پر فٹ کر دجل و فریب ہے یہ ان کا اپنا فراڈ و دجل ہے۔کیونکہ بقول خالد محمود اس وقت جہاد جائز تھا۔اس لئے تو
اس کا مخالف انگریز کا ایجنٹ ٹھہرا۔اور پھر پیر صاحب نے بھی شاہ عبد العزیز کے فتوی جہاد کا ذکر کیا۔
پھر جہاں تک ہندوستان کو داراسالم کہنے کی بات مرزا حیرت دہلوی شاہ اسماعیل کا بیان نقل کرتے ہیں:۔
ایک تو ہم ان رعیت ہیں۔دوسرے ہمارے مذہبی ارکان ادا کرنے میں وہ ذارا بھی دست اندازی نہیں کرتے ۔ہمیں ان کی حکو مت میں
ہر طرح ٓازادی ہے (حیات طیبہ ص )۲۹۶
اور سرفراز صفدر صاحب wنے دارالسالم کی یہی تعریف نقل کی ہے۔(ازالۃ العیب ص )۱۰۷
اسی طرح جہاں تک امت کو دو محاذ میں لڑانے کی بات تو ٓائیے ہم اس پر ٹھوس حوالہ پیش کر کے بات ختم کرتے ہیں۔
افسوس ہے کہ اس کتاب(تقویتہ االیمان )کی وجہ سے مسلمانان ہند و پاک جن کی تعداد بیس کروڑ سے زیادہ ہے اور تقریبانوے ’’
فی صد حنفی المسلک ہیں ،دو گروہ میں بٹ گے ہیں ،ایسے اختالفات کی نظیر دنیائے اسالم کے کسی خطے میں بھی ،ایک امام اور
ایک مسلک کے ماننے والوں میں موجود نہیں ہے۔(انوار الباری ج ۱۱ص ) ۱۰۷
اسماعیل دہلوی نے تقویتہ االیمان لکھی ہی اس لئے تھی تاکہ مسلمانوں کو ٓاپس میں لڑا کر فرقوں میں تقسیم کیا جائے ۔اس بات کا
اقرارخود اسماعیل دہلوی نے کیا اور دیوبندیوں کے حکیم االمت ،مجدد ،مفسر اشرفعلی تھانوی نے اپنی کتاب میں لکھا:۔
اسماعیل دہلوی نے کہا کہ’’ مجھے اندیشہ ہے کہ اس[تقویتہ االیمان] کی اشاعت سے شورش ضرور ہو گی… گو اس سے شورش
ہو گی مگر توقع ہے کہ لڑ بھڑ کر خود ٹھیک ہو جائیں گے۔ (ارواح ثالثہ ص
اسی طرح محاسن موضح قرٓان کے مصنف نے بھی اقرار کیا کہ شاہ اسماعیل کی تحریک کے نتیجے میں دو جماعتیں قائم ہو گئی
تھیں۔(محاسن موضح قرٓان ص )۵۰
پھر موصوف نے جو محمود احمد عباسی کے حوالہ جات نقل کئے ،اس پہ عرض ہے کہ ان کے متعلق دیوبندی مصنف لکھتے ہیں:۔
حکیم سید محمود احمد برکاتی صاحب معروف طبیب ہیں نہایت سنجیدہ و متدین عالم و فاضل ہیں ،عمدہ صاحب wقلم اور نقادہیں،دین’’
کے شیدائی اور جری و حق گو ہیں(‘‘،محمود احمد عباسی کے نظریات کا تحقیقی جائزہ ص )۱۳۹
لہذا موصوف ہم پہ حجت نہیں،بلکہ دیوبندی حضرات کے عقیدت مند اور ممدوح ہیں۔پھر جناب شیخ محمد اسماعیل پانی پتی رقم
طراز ہیں:۔
حضرت سید احمد بریلوی اور حضرت شاہ صاحب کی عملی زندگی سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔چنانچہ ان حضرات ‘‘
کے انگریزوں سے جیسے اچھے تعلقات تھے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں،اور سرسید کی اس عبارت کا سیاق وسباق بھی بتاتا
ہے کہ یہ لوگ صرف اسی خیال سے سرحد جاتے تھے کہ سکھوں کے خالف جس تحریک کو ہمارے پیر و مرشد نے شروع کیا
تھا اسے جاری رکھا جائے ‘‘(مقاالت سر سید ج ۱۶ص)۳۱۸
حوالہ نمبر : 5یہ مدرسہ خالف سرکار نہیں بلکہ ممدومعاون سرکار ہے۔(سوانح قاسمی ص )۹۴
شبہ:پہلی بات تو یہ کی کہ انگریز اہل مدرسہ سے ملنے ٓایا تھا لڑنے نہیں۔اور دوسری بات یہ کہ معائنہ کی تحریر ہی اس بات کے
لئے کافی ہے کہ یہ مدرسہ سرکار کے خالف تھا کیونکہ حقیقت میں اگر مدرسہ معاون سرکار ہوتا تو معاہدہ میں اس کا اظہارنے
معنی ہوتا(ہدیہ بریلویت )۴۹۳
ازالہ:جوابا عرض ہے کہ وہ سی ٓائی ڈی کا ٓادمی تھا۔جب مخالفین مدرسہ نے جھوٹی شکایتوں کے ذریعہ سے حکومت کو مدرسہ
سے مدگمان کیا تو انہوں نے تنقیش کے لئے گورنر نے اسے بھیجا ۔جیساکہ خود مجاہد صاحب نے قاری طیب کا بیان نقل کیا کہ
مخالفین مدرسہ نے ہمیشہ اس کو حکومت کی نظروں میں مشتبہ کرنا چاہا۔اس لئے ضابطے کے طور پر گورنر کے ٓادمی نے
شکائیتوں کی انکوائری رپورٹ میں اس کے سوا اور لکھنا ہی کیا تھا کہ یہ مدرسہ معاون سرکار ہے؟۔
اور ہو سکتا ہے کہ مدرسہ کے وہ ممبران جوسرکار انگریزی کے جانے مانے نمک خو ار تھے انہوں نے یہ تحریر لکھوائی ہو
تاکہ اپنی وفاداری بھی ریکارڈ کا حصہ رہے اور بوقت ضرورت کام ٓائے۔
حوالہ نمبر :6مدرسہ دیوبند کے کارکنوں میں اکثریت ایسے بزرگوںکی تھی جو گورنمنٹ کے قدیم مالزم اور حالی پنشزز تھے۔
(سوانح قاسمی ص)۹۵
شبہ:یہ کہا کہ کیونکہ قاسم wصاحب انگریز کے مخالف مشہور تھے تو مصلحتا ان کوپیچھے اور ایسے لوگوں کو ٓاگے رکھا جاتا تھا
جو انگریز کے نمک خوار تھے۔یہ بھی کہا گیا کہانگریزوں نے مسلمانوں پر بہت مظالم ڈھائے تھے ایسے میں کون مسلمان
انگریزوں سے تعلق کا روا دار ہو گا۔
ازلہ:بجائے اس کے ہم کچھ جواب عر ض کریں مناظر احسن گیالنی کا یہ بیان ہی جھوٹ کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہے ۔
لکھتے ہیں:۔
دیوبند میںمدرسہ عربی قائم ہوا تھا اس سے اپنے تعلق کو سید امام الکبیر قطعا پوشیدہ نہیں رکھنا چاہتے تھے جن مجلس شوری کے
ارکان کے میں شریک تھا وہی طبع بھی ہوا اور شائع بھی ہوا تو یہ کہنا کہ ابتداء میں حضرت واالسیاسی مصلحت کے پیش نظر اس
مدرسہ سے تعلق نہیں رکھنا چاہتے تھے ۔جس پرحکومت کی نظر پڑ سکتی ہو ۔بجز ایک خود تراشیدہ مفروضہ کے اور بھی کچھ
ہو سکتا ہے(سوانح ج ۲ص )۲۴۶
اور اگر بالفرض قاسم wنانوتوی صاحب کا نام ابتداء میں نہیں ٓایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخ ان کو مدرسے کا بانی تسلیم نہیں
کرتی ۔مناظر صاحب لکھتے ہیں:۔
سچی بات یہی ہے ،یہی واقعہ ہے اور اس کو واقعہ ہونا بھی چاہیے کہ جب جامعہ قاسمیہ یا دیوبند کے دارلعلوم کی جب بنیاد پڑی
تو سید اال ما م الکبیر اس وقت مدرسہ میں موجود نہ تھے۔(سوانح قاسمی ج ۲ص )۲۴۸
پھر اگر قاسم نانوتوی صاحب اتنے ہی بدنام تھے تو ان کو میرٹھ سے بطور صدر مدرس کیوں بالیا گیا (ج ۲ص )۲۵۰
اور ایک غور طلب بات یہ بھی ہے کہ غدر ۱۸۵۷میں ہوا اور دیوبند کا مدرسہ قائم ہو ا ۱۸۶۷میں۔تو درمیان میں ۱۰سال تھے ۔
اور غدر کے دو سال کے اندر ہی یہ سب بے قصورثابت ہو کررہا ہوگئے تھے اور قاسم نانوتوی تو گرفتار بھی نہیں ہوئے تھے اس
لئے کہ حکومت کی نظر میں ا ن خالف کوئی الزام ہی ثابت نہ ہو سکا تھا ۔اور یہاں سوال شخصیات کا نہیں ادارے کی پالیسیوں کا
ہے ۔اگرواقعی یہ مدرسہ برطانوی سامراج کے خالف سرگرمیوں کا اڈا تھا تو کب تک حکومت کی نظروں سے پوشیدہ رہ سکتا تھا۔
ایک طرف تو جس پر شبہ بھی تھا اسے بھی قتل کر دیا گیا۔مگر انگریز کے خالف جہاد میں سپہ ساالروں کے خالف کوئی ثبوت نہ
مال اور اس کے بعد وہ مدرسہ میں بھی یہ کام سرانجام دیتے رہے ۔تو ان سب باتوں کا جواب ہم مولف تزکرۃ الرشید کے الفاظ میں
دیے ہیں کہ یہ صرف الزام اور تہمت تھی حقیقت میں تو وہ اپنی سرکار کے دلی خیر خواہ تھے۔
مولوی قاسم صاحب اگرحکومت کے باغیوں میں سے تھے تو پولیس کا محکمہ ان کا اس قدر فرمانبردار کیوں تھا؟
یوں تھا کہ وہ ہللا کے تابع فرمان تھے ۔جو ہللا تعالی کے تابع فرمان ہو جائیں ان کی یہی شان ہو تی ہے پھر یہ کہاکہ
اس قصبے کے ایک عام سے تھانیدار نے بات مان لی تو اس یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ ان کا تعلق انگریز سے ہے۔(ہدیہ بریلویت
صفحہ )۵۰۲
الجواب:سبحان ہللا کیا جواب ہے ۔میں کہتا ہوں کہ نانوتوی صاحب اتنے ہی ہللا والے تھے تو انہیں بقول قاری طیب دس سال چھپنے
کی کیا ضرورت تھی۔؟اور ٓاپ خودلکھ ٓائے کہ مصلحت کے پیش نظر ان کا نام پوشیدہ رکھا گیاکیوں؟کیا وہ اس وقت ہللا کے تابع
فرمان نہیں تھے؟جہاں تک دوسری بات کا تعلق کہ یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ انکا تعلق انگریز سے ہے تو جناب اگر ٓاپ نے تعصب
کے بغیر اس واقعہ کو پڑھا ہوتاتو معاملہ صاف ہو جاتا کیونکہ قاسم صاحب کہہ رہے ہیں کہ
اتنا یقین کامل کیسے کہ اسکی نوکری نہیں جائے گی؟یہ بات اس کی وضاحت کر رہی ہے کہ تعلق اوپر تک ہیں۔
حوالہ نمبر 8۔پھر سوانح قاسمی سے ایک روایت نقل کی گئی جس میں ہے کہ شاہ فضل الرحمن گنج مراد ٓابادی نے انگریزوں کی
صفوں میں خضر کو دیکھا تو اس پر یہ تنقید نقل کی گئی
جب حضرت خضر کی صورت میں نصرت حق انگریزوںکے ساتھ تھی تو ان باغیوں کے لئے کیا حکم ہے جو حضرت خضر کے
مقابلے میںلڑنے ٓائے تھے۔(ہدیہ ص )۵۰۴
شبہ:جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ان پر وہی حکم ہے جو سعیدی صاحب حضرت موسی پر لگائیں گے جو حضرت خضر سے لڑ
جاتے تھے؟
ازالہ:ہم یا سعیدی صاحب کون ہوتے ہیں حکم لگانے والے ہاں بطور امر واقعہ اتنا عرض کیا جا سکتا ہے کہ جس چیز کو انہوں نے
شریعت کے خالف سمجھا wٹوکا۔اور جب انہیں پتہ چال کہ یہ حکم ربی ہے تو اس کے باوجود بھی انہوں نے ناراضگی کا اظہار کیا
ہو تو اس کا ثبوت ٓاپ کے ذمے ہے۔لیکن یہاں فضل الرحمن گنج مراد ٓابادی کے ذریعے خضر کی صورت میں خدا کا حکم معلوم ہو
جانے کے بعد بھی جو لوگ انگریزوں کے خالف لڑتے رہے ہمارا سوال انہیں کے متعلق ہے ۔پھر یہ کہا کہ چلیں ٓاپ نے یہ مان لیا
کہ دیوبند والے انگریز کے خالف لڑے تھے۔جناب یہ واقعہ ٓاپ کے گھر کا ہے اور اس پر ہم الزام قائم کیا ہے تسلیم نہیں کیا ۔اور یہ
سب کچھ ٓاپ کے کہنے سے الزم ٓاتا ہے۔اس حوالے کوپیش کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہاں دشمنی کی ٓاڑ میں دوستی نبھائی
جا رہی ہے۔جب یہ مان لیا کہ انگریز کو تائید ایزدی حاصل ہے تو پھر ان کے خالف جہاد کیسا؟ان تمام حوالہ جات سے واضح ہو
گیا کہ دیوبندی اپنی رحمدل گورنمنٹ کے دلی خیر خواہ تھے اور ان کو انگریز کا مخالف کہنا یہ ان پر الزام و تہمت ہے اور
تاریخی حقائق کو مسخ کرنا ہے۔(زیر و زبر)
حوالہ نمبر :9مولوی سرفراز نے عاشق الہی میرٹھی کے بارے میں لکھا کہ
یہ عبارت موالنا گنگوہی کی نہیں بلکہ یہ مولف تذکر ۃ الرشید کی اپنی ہے اور یہ ان کا ذاتی نظریہ اورعندیہ ہے ،جو برطانیہ کے
وفادار اورخیر خواہ تھے۔(اظہار العیب ص ،۱۰۳ایضاح سنت ص)۱۱۱
اصلی سبب وہ امر ہے جس کی بنا پر مسٹن گورنر یوپی دیوبند اور دارلعلوم میں گیا تھااور مہتمم صاحب کو شمس العلما ء کا
خطاب مال تھا (نقش حیات ص )۶۶۱
دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ ہر دور میں انگریز دشمنی کے باغیانہ جذبات ابھر رہے تھے لیکن اتفاق سے دونوں درس گاہوں ’’
ب اختیار سرکار پرست تھے۔ اب یہ کہنا بڑا المیہ تھا کہ موالنا محمد قاسم جو انگریزوں کے خالف ب اہتمام اور اصحا ِ
کے اربا ِ
1857ء میں لڑتے (کون سے محاذ پرلڑے اس کی وضاحت درکار ہے۔) ان کے صاحب زادے حافظ محمد احمد جو دارالعلوم دیوبند
کے مہتمم تھے ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب قبول کرتے ہیں اور انگریزی حکومت کی طرف سے ان کے لئے اڑھائی سو روپے(
) -/ 250ماہانہ وظیفہ مقرر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں گورنر یو۔پی دارالعلوم میں گیا۔ ‘‘ (افادات ملفاضات امام عبیدہللا سندھی ص
)307
کتاب ہذا کو عبید ہللا سندھی کی تائید حاصل ہے ،مسعود ندوی لکھتے ہیں:۔
اور ہمیں یہ معتبر ذریعے سے معلوم ہوا ہے کہ موالنا اس کتاب سے بالکل مطمئن ہیں(موالنا عبید ہللا سندھی کے افکار ص)236
کفایت شعار انگریز نے انعامات wکا بار اپنے بجٹ پر ڈالنا مناسب wنہ سمجھا wاور وفا شعار نیاز مند اس پر خوش ہوگئے۔چنانچہ ایک ’’
عرصہ تک خطابات کی گرم بازاری رہی۔خان صاحب ،رائے صاحب ،خان بہادر،رائے بہادر ،راجہ ،مہاراجہ ،سر وغیرہ درجہ
بدرجہ خطابات تھے۔جو نہ صرف وفاداری ،بلکہ عموما ًضمیر فروشی کے معیار پر دیئے جاتے تھے۔ایک طرف وفاداری ٓ،استانہ
بوسی ،اورکاسہ لیسی کی یہ فزا تھی جو پورے ملک پر چھائی ہوئی تھی مگردوسری طرف وہ سخت بالکش بھی تھے جن کی
‘‘ زبانیں اگرچہ بند مگر جذبات ٹھنڈے نہیں ہوئے تھے
اس جلسے جلوس کے بعد حافظ محمد احمد صاحب کو گورنمنٹ برطانیہ کی طرف سے ایک ماہ بعد شمس العلما کا خطاب بھی مل’’
‘‘ گیا
اب اس پر بجائے اس کے کہ ہم کچھ تبصرہ کریں دیوبندی مصنف کا حیرانی و پریشانی سے بھرپور تبصرہ پیش خدمت ہے لکھتے
ہیں
if the footnote is by Hadrath madni ,then also we are not ready to believe that Hazrath Mohtamim and
)deputy mohtamim favoured the English by their heart.(Silk Letter Movement page no 72
اس کے عالوہ خود محمد میاں نے بھی اس مہتم دالعلوم کے انگریزی وفادار ہونے کا تزکرہ ان الفاظ میں کیا۔
Nevertheless,the fact is that the two mohtamims had contacts with authorities of the government during
the time of this movement ,even they invited the Governer of UP to Darul uloom Deoband and presented
him preceptiom .Because of this relation ,Hafiz Ahmad was awarded with the titel of Shams ul
) Ulama(Silk Letter Movement page no 71
نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے
ہم ان دس حوالہ جات پہ اکتفاء کرتے ہوئے بحث ختم کرتے ہیں۔
قارئین !اہل حرمین سے محبت یہ اہل اسالم کے قلوب میں شامل ہے،اور ان سے محبت کا درس احادیث نبویہ میں موجود ہے،لیکن
موجودہ دور کی حکومت نجدی حضرات کی ہے ،جن کی مذمت خود رسول ہللا ﷺ نے فرمائی تھی ،امین صفدر
اوکاڑوی رقم طراز ہیں:۔
چھٹی حدیث پیغمبر ﷺ کا معجزہ ہے جو کہ بارہ سو برس کے بعد ظاہر ہوا۔چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ّّ
تعالی عنہ سے روایت ہے کہا ٓانحضرت ﷺ نے فرمایا۔ ٰ عبد ہللا بن عمر رضی ہللا
یعنی اے ہللا برکت دے ہمارے ملک شام میں اور ملک یمن میں ۔وہاں کچھ نجد کے لوگ تھے،سو انہوں نے عرض کیا و فی نجدنا ۔
یعنی ملک نجد کے واسطے بھی دعا فرمائیے ۔مگر ٓاپ ﷺ پھر بھی دعائے برکت شام ویمن کی فرمائی،پھر انہوں
نے باصرار واسطے دعائے برکت نجد کے عرض کیا ،تو ٓاپ ﷺ نے تیسری مرتبہ اس کے حق میں۔ھناک الزالزل
ٰ
الشیط ن۔یعنی ملک نجد میں زلزلے ہوں گے اور فتنے اٹھیں گے اور اس سے نکلئے گی امت شیطان کی۔ و الفتن وبھا یطلع قرن
سو موافق اس خبر مخبر صادق ﷺ کے گروہ وہابیہ نے جو محمد بن عبد الوہاب کے پیروکار ہیں1221ھ میں جب
دیکھا کہ روم کی سلطنت کے انتظامی امو ر میں کچھ خرابی واقع ہوگئی ہے ،محمد بن عبد الوہاب کے صالح و مشورہ سے حر مین
کی جانب چڑجائی اور ایک نیا مذہب ٓازادی اسالم کے پردے میں بغرض ملک گیری ظاہر کیا ،اور بذریعہ اعالن عمل بالسنۃ کے
تمام مقابر شہداءو مزارات اولیاء کو منہدم کر کت ان مسلمانون پر جہاد کا حکم جاری کر دیا جو حرمین میں رہائش پذیر تھے ،اور
ان کے مال کی لوٹ اور قتل کو جائز رکھا اور ان پر بڑا ظلم کیا (انوارات صفدر ص )115
جب ان کے مظالم کا علم سلطان ترکی کو ہوا تو انہوں نے اپنی فوج کے ذریعے اس فتنہ کا قلع قمع کیا ،مگر اانگریز کی ایما پہ ایک
بار پھر ان حضرات نے سلطنت عثمانیہ کی وحدت کو پارہ کرنے کے لئے حرمین پہ دوبارہ قبضہ کیا،ان واقعات کی تفصیل کے
لئے تاریخ نجدو حجاز کا مطالعہ کریں ۔اور اگر اس بات کی تفصیل مطلوب ہو کہ کس طرح ان حضرات کو انگریز نے اپنے مقاصد
کے لئے استعمال کیا ،تو ال رنس ٓاف عربیہ کا مطالعہ کریں۔خیر ان حضرات نے دوبارہ قبضہ کر نے کے بعد پھر بہت سے مظالم
ڈھائے ،مسلمانوں کا قتل عام کرنے کےساتھ wمقدس مقامات wکو بھی گرا ڈاال،ان دلخراش واقعات کی تفصیل جہاں تاریخ نجد و حجاز
میں منقول ہے ،وہی بڑے دلسوز انداز میںخاک حجاز کے نگہبان میں بھی اس کا تذکرہ مرقوم ہے اور شورش کاشمیری دیوبندی نے
بھی اپنی کتاب شب جائے کہ من بودم میں تفصیل سے ان مظالم کا ذکر کیا ،جس کا تذکرہ ہمارے مقاالت میں موجود ہے ۔خیر ان
نجدی قبضہ گروپ کو علماء حرمین میں شمار کرنا درست نہیں،جب کہ خود حضور ﷺ نے انہیں امت شیطان قرار
دیا ہے ،اس لئے جن احادیث میں عرب کی محبت کا ذکر ہے ،اس کا مصداق یہ حضرات نہیں،اور ان کے دیگر عقائد و اعمال سے
قطع نظر ،امت مسلمہ کی اکثریت کو مشرک قرار دینا ان کی سب سے بڑی جسارت wہے۔تو مسلمان کو کافر کہنے کے سبب بمطابق
فتوی لوٹتا ہے ،اس لئے یہ ہمارے نزدیک بطور احتیاط ان کے پیچھے نماز درست نہیں.اس کے عالوہ حجاز پہ مختلف مکتبہ ٰ حدیث
خیال کے حضرات حکومت کر چکے ہیں،جن میں فاطمی شیعہ ،عثمانی ترک جو کہ مسلک صوفی بریلوی تھےاور موجودہ نجدی
ہیں،اس لئے اگر محض حکومت کی بناء پہ اگر کسی کے عقائد کو درست قرار دینا ہے تو ان سب کے نظریات درست قرار پاتے
ہیں،اگر اس سے معاندین کو اتفاق نہ ہو ،تو پھر ان کا اصول باطل ہے ۔اب ہم مرتب صاحب کے اٹھائے ہوئے شبہات پہ تبصرہ کئے
دیتے ہیں۔مرتب صاحب رقم طراز ہیں:۔
بریلوی علماء ائمہ حرمین اور علماء دیوبند کو کافر قرار دیتے ہیں اور ان پیچھے نماز پڑھنے کو حرام قرار دیتے ہیں ‘‘(دست و ’’
گریباں ج ۲ص)۸
محترم قارئین !علماء دیوبند کے متعلق ٓاخر یہ سخت موقف کیوں ہے ،اس کی تفصیالت ہم جلد اول میں درج کر چکے ہیں،یہاں اعادہ
ٰ
فتوی نجدی علماء پہ ہے جو اس وقت حرمین شریفین کی حاجت wنہیںاور جہاں تک علماء حرمین کی بابت گفتگو ہے تو عرض ہے کہ
پہ قابض ہیں،منظور نعمانی لکھتے ہیں:۔
نجد و حجاز کی موجودہ سعودی حکومت بھی ٓال سعود کی اسی حکومت کی گویا وارث اور جانشین ہے اور شیخ محمد بن عبد ’’
الوہاب کو اُسی طرح اپنا دینی رہنما اور امام سمجھتی ہے جس طرح ان کے پیشرو سمجھتے تھے‘‘(شیخ محمد بن عبد الوہاب اور
ہندوستان کے علماء حق ص)۲۰۱:
عبد العزیز ابن سعود نے موجودہ امیر نجد نے مکہ معظمہ پر قابض ہونے کے بعد اپنے مخصوص عقائد کے پرو پیگنڈا کے ’’
سلسلہ میں کتاب ’’مجموعۃ التوحید کو شائع کر کے گزشتہ حج کے موقع پر مفت تقسیم کیا ‘‘(فتنہ نجدیت کے ڈھول کے پول ص
)۱۳
اور ان نجدی وہای حضرات کو حرمین پہ قبضہ انگریزوں کی چاپلوسی کی بدولت مال،مشہور دیوبندی مورخ پروفیسر محمد ایوب
قادری دیوبندی ’’وہابیت‘‘کو انگریز کا کاشتہ پودا قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
تقسیم ہند تک مسلمانان ہند کا اس بات پر اتفاق رہا کہ فرقہ وہابیہ ،انگریز کاکا شت کردہ پودا ہے ،جس کی ٓابیاری اس نے نہایت ’’
(،ہوشیاری سے کی اور اس سے پورا فائدہ اٹھایا‘‘ (مقدمہ حیات سید احمد ص ۲۶
بہأو الحق قاسمی wوہابیوں نجدیوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ’’ہم پہلے ہی اس کے قائل ہیں کہ نجدی [وہابی]انگریزوں اور
نصرانیوں کے ممدوح ہیں…نجدی[وہابی] انگریزوں کے صرف ممدوح ہی نہیں بلکہ دام افتادہ غالم بھی ہیں (نجدی تحریک پر ایک
نظر صفحہ )۳
ان حضرات پہ تنقید خود دیوبندی حضرات نے بھی کی ہے ،چند حوالہ جات مالحظہ ہوں۔حسین احمد مدنی لکھتے ہیں:۔
صاحبو محمد بن عبدالوہاب نجدی ابتداء ً تیرھویں صدی میںنجد عرب ظاہر ہوا۔اور چونکہ یہ خیاالت فاسدہ اور عقائد باطلہ رکھتا ’’
تھااس لئے اس نے اہل سنت والجماعت سے قتل وقتال کیاان کو بالجبر اپنے خیاالت کی تکلیف دیتا رہاان کے اموال کو غنیمت کا مال
اور حالل سمجہا wگیا ان کے قتل کرنے کو باعث ثواب و رحمت شمار کرتا رہااہل حرمین کو کو خصوصا ً اور اہل حجاز کو
عموما ًاس سے تکالیف شاقہ پہنچائیں۔سلف صالحین اور اتباع کی شان میں نہایت گستاخی اور بے ادبی کے الفاظ استعمال کئے بہت
سے لوگوں کو بوجہ اس کی تکالیف شدیدہ کے مدینہ من ّورہ اور مکہ معظمہ چھوڑنا پڑااور ہزاروںٓادمی اس کے اور اس کی فوج
کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔الحاصل وہ ایک ظالم وباغی خونخوار فاسق شخص تھااسی وجہ سے اہل عرب کو خصوصاًاس کے اور
نصاری سے نہ مجوس سے نہ ہنود سے ٰ اس کے اتباع سے دلی بغض تھا اور ہے،اور اس قدر ہے کہ اتنا قوم یہود سے ہے نہ
اعلی درجہ کی عداوت ہے اور بے شک جب اس نے ایسی ٰ غرض کہ وجوہات مذکورۃالصدر کی وجہ سے ان کو اس کے طائفہ سے
ونصاری سے اس قدر رنج وعداوت نہیں رکھتے جتنی کہ وہابیہ سے ٰ ایسی تکالیف دی ہیں تو ضرور ہونا بھی چاہئے۔وہ لوگ یہود
رکھتے ہیں‘‘(شہاب wالثاقب ص)۱۲۲
ٰ
صاحبہاالصلوۃ والسالم نہایت گستاخی کے کلمات استعمال کرتے ہیںاور اپنے ٓاپ کو مماثل ذات علی
شان نبوت و حضرت رسالت ٰ
سرور کائنات خیال کرتے ہیںاور نہایت تھوڑی سی فضیلت زمانہ تبلیغ کی مانتے ہیں اور اپنی شقاوت قلبی اور ضعف اعتقادی کی
وجہ سے جانتے ہیں کہ ہم عالم کو ہدایت کرکے راہ پر ال رہے ہیںان کا خیال ہے کہ رسول مقبول علیہ السالم کا کوئی حق اب ہم پر
نہیں اور نہ کوئی احسان اور فائدہ ان کی ذات پاک سے بعد وفات ہے اور اسی وجہ سے توسل دعا میں ٓاپ کی ذات سے بعد وفات
ٰ
الصلوۃوالسالم ناجائز کہتے ہیں ان کے بڑوں کا مقولہ ہے۔معاذہللا نقل کفر نقل نباشد۔کہ ہمارے ہاتھ کی الٹھی ذات سرور کائنات علیہ
سے ہم کو زیادہ نفع دینے والی ہے ہم اس سے کتے کو بھی دفع کر سکتے ہیں اور ذات فخر عالمﷺ سے تو یہ بھی
نہیں کر سکتے‘‘( الشاہب الثاقب ص)189
:مزید پڑھئے
ٓایا یہی طریقہ وہابیہ کا ہے کیا یہی خیال نجدیہ کاہے ہر گز نہیں،جس کا جی چاہے ان کے الفاظ ان کے کلمات زبانی یاتحریری ’’
سے سنے کہ کسقدر گستاخی اور بے ادبی ان کی گفتگو میں پائی جاتی ہے‘‘(الشہاب ثاقب ص)۹۲۲
اسی طرح اسی کتاب میں محمد بن عبد الوہاب اور اس کے اتباع کو وہابی،خارجی اور نبوت کا گستاخ قرار دیا،اس کتاب کے حوالے
سے دیوبندی حضرات تاویالت فاسدہ کا سہارا لیتے ہیں اس لئے اس پہ بھی مختصر کالم ناظرین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔
حضرت موالنا حسین احمد مدنی ؒنے ایک کتاب لکھی الشہاب الثاقب اس میں بہت سے مسائل لکھے کہ ہمارا ان سے
(وہابیوں)اختالف ہے ان مسائل میں لہذا ہم کو ان کے طرف منسوب کرنا ٹھیک نہیں غلط ہے۔(مسلک علمائدیوبند اور حب رسول ص
)67
سیّد احمد رضا بجنوری کے خراج عقیدت کا انداز کچھ اس طرح کا ہے :۔
ہمارے استاذ شیخ االسالم حضرت مدنی نے ’’الشہاب‘‘لکھ کر وہابیہ نجدیہ اور فرقہ رضا خانیہ واہل بدعت کا بھی مکمل ومدلل ’’
رد کر دیا ہے ساتھ ہی اکابر دیوبند کے عقائد حقہ کا احقاق بھی بایدوث پر فرما دیا ہے۔جزاہم ہللا خیر الجزاء‘‘(انوار الباری ج 16ص
)457
عقائد کے سلسلہ میں ٓاپ کی مشہورمعروف کتاب ’’الشہاب‘‘بار بار شائع ہو چکی ہے جس میں ٓاپ نے عقائد اہل سنت اکابر ’’
دیوبندوغیرہ اور عقائد فرقہ نجدیہ وہابیہ کو تفصیل و تشریح کے الگ الگ مدون کر دیا ہے‘‘(انوار الباری ج 16ص )452
:نیز
حضرت شیخ االسالم استاذنا العالم موالنا حسین احمد مدنی نے عالّمہ ابن تیمیہ کی تالیفات قلمی و مطبوعہ کامطالعہ فرمایا تھااس ’’
لئے علی وجہ البصیرت نقد فرمایا کرتے تھے اور ’’الشہاب‘‘ تو نہایت تحقیقی تالیف ہے‘‘(انوار الباری ج 18ص )311
سوال’’-:محمد بن عبدالوہاب حالل سمجھتا wتھا مسلمانوں کے خون اور ان کے مال و ٓابرو کو اور تمام لوگوں کو منسوب کرتا تھا
شرک کی جانب اور سلف کی شان میں گستاخی کرتا تھا،اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے اور کیا سلف اور اہل قبلہ کی تکفیر
کو تم جائز سمجھتے wہو یا کیا مشرب ہے؟
جواب’’-:ہمارے نزدیک ان کا حکم وہی ہے جو صاحب در مختار نے فرمایااور خوارج کی ایک جماعت wہے شوکت والی جنہوں
نے امام پر چڑھائی کی تھی تاویل سے کہ امام کو باطل یعنی کفریا ایسی معصیت کا مرتکب سمجھتے تھے جو قتال کو واجب کرتی
ہے اس تاویل سے یہ لوگ ہماری جان و مال کو حالل سمجھتے ہیں اور ہماری عورتوں کو قید بناتے ہیںٓاگے فرماتے ہیں ،ان کا حکم
باغیوں کا ہے اور پھر یہ بھی فرمایا کہ ہم ان کی تکفیر صرف اس لئے نہیں کرتے کہ یہ فعل تاویل سے ہے اگرچہ باطل ہی سہی
اور عالمہ شامی نے اس کے حاشیے میں فرمایاہے ’’جیسا کہ ہمارے زمانے میں عبدالوہابکے تابعین سے سرزد ہوا کہ نجد سے
نکل کر حرمین شریفین پر متغلب ہوئے اپنے کو حنبلی مذہب بتاتے تھے مگر ان کا عقیدہ یہ تھا کہ بس وہی مسلمان ہیںاور جو ان
کے عقیدہ کے خالف ہو وہ مشرک ہے اور اسی بنا پر انہوں نے اہل سنت اور علما اہل سنت کا قتل مباح سمجھ رکھا تھا یہا ں تک کہ
تعالی نے ان کی شوکت توڑ دی۔اس کے بعد میں کہتا ہوں کہ عبدالوہاب اور اس کا تابع کوئی شخص بھی ہمارے کسی سلسلہٰ ہللا
مشائخ میں نہیں نہ تفسیر و فقہ وحدیث کے علمی سلسلہ میں ،نہ تصوف میں‘‘(المہند علی المفندص ۵۳تا)۷۳
:نیز یہ بھی دیکھئے کہ اس کتاب پر دستخط کرنے والے علما کس مقام کے حامل ہیں۔احمد رضا بجنوری صاحب لکھتے ہیں کہ
ان جوابات پر(مع دیگر جوابات کے)حضرت شیخ الہند موالنا محمود حسن صدراالساتذہ دارالعلوم دیوبند ،حضرت موالنا احمد حسن
امروہی۔حضرت موالنا مفتی عزیز الرحمٰ ن صاحب صدر مفتی دارالعلوم دیوبندو سہارنپور،حضرت موالنا اشرف علی صاحب
تھانوی،حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوری،اور دوسرے ۲۲۱اکابر دیوبند و سہارنپور کے تصدیقی دستخط ہیں،پھر ان جوابات
پرتصدیقی و تائیدی بیانات اور دستخط بڑی تعداد میں اکابر علماء حرمین شریفین کے۔پھر علما ازہر مصرو حضرات علماء شام کے
ہیں (کل تعداد ستر ہے)(انوار الباری ج 18ص )238
اکابر اہل سنت والجماعت علماء دیوبند کی متفقہ عقائد ی اور مسلکی دستاویز کتاب ’’المہند‘‘ میں جو عقائد درج ہیں وہ قرٓان و ’’
سنت اور اجماع امت کے عین مطابق اور اہل سنت والجماعت کی کتب میں صدیوں سے موجود ہیں‘‘(اکابر دیوبند اور عشق رسول
ص)۵۱
حضرت موالناخلیل احمد صاحب مح ّد ث سہارنپوری نے علمائے حرمین کو صورتحال سے ٓاگا ہ کیاتو ان حضرات نے حسّام
ٰ
فتوی اور دستخط فرمائے حضرت مح ّدث سہارنپوری الحرمین کے الزامات wکی سخت تردید فرمائی اور علمائے دیوبند کے حق میں
کی اس تصنیف کانام المہند علی المہند ہے جو بارہا چھپ چکی ہے ‘‘(مطالعہ بریلویّت ج ۱ص)۲۷۴
المہند علی المفند موالنا خلیل احمد محدث wسہارنپوری نے موالنا احمد رضاخان کی تکفیری دستاویز حسام wالحرمین کے جواب میں’’
۳۲۵اھ میں ہنگامی حاالت میں لکھی اس میں علمائے حرمین کے اٹھائے ہوئے چھبیس سواالت کے بڑے واضح جوابات
ہیں‘‘(مطالعہ بریلویت ج ۸ص)۲۷۷
دور اول()کے اکابر کے تھے اور ’’ المھند علی المفند‘‘پر دور ثانی()کے تمام اکابر (دیوبند)کے دستخط ہیں،یہی عقائد ِ
دور رابع کے اکابر چلے ٓائے ہیں۔اس لئے ’’المھند‘‘میں درج شدہ عقائد پر تمام اکابرین[دیوبند] کا اجماع
انہی پر دور ثالث اور ِ
ہے ،کسی دیوبندی کو ان سے انحراف کی گنجائش نہیں،اور جو ان سے انحراف کرے ،وہ دیوبندی کہالنے کا مستحق نہیں‘(ٓاپ کے
مسائل اور ان کا حل :جلد دوم ص )۶۰۱
اس لیے یہ مجموعہ علماء دیوبند کے مسلک و مشرب اور ان کے عقائد معلوم کرنے کے لئے ایک تحریری دستاویز اور متفقہ ’’
مسلکی وثیقہ ہے اور مسلک دیوبند کے دیکھنے اور جانچنے کے لیے بمنزلہ اور کسوٹی کے لیے ہے ،اور ساتھ ہی یہ ہر اس
شخص کا جواب بھی ہے جو علماء دیوبند کی طرف کسی بھی عقیدہ اور مسلک و مشرب کو غلط طور پر منسوب کرے ‘‘(تحفظ
عقائد اہل سنت ص )۶۰۴
المہند تو ایک اجماعی دستاویز ہے مشائخ دیوبند کی۔اور اکابرین کے اس پر دستخط موجود ہیں‘‘(تنبیہ الناس ص ’’)۶۶
مکہ معظمہ اور طائف شریف پر نجدیوںکا قبضہ کیا ہوا گویا ایک خوابیدہ فتنہ تازہ ہو گیا ۔دبی ہوئی چنگاریوں سے پھر ’’
ایک دفعہ شعلے اور شرارے اٹھنے لگے …میں اس اثنامیں ایک مختصر سا ٹریکٹ لکھ چکا ہوں جسمیں نجدیوں کی اسالم ُکش
نصاری پرستی کے چند واقعات لکھنے کے بعد ان کے ناقابل برداشت مذہبی تشدد کے بعض ثبوت پیش کئے ٰ حکمت عملی اور
ہیں‘‘(نجدی تحریک پرایک نظر )۲
میں علی وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ وہابی تحریک کا ثمرہ کافر سازی ،مشرک گری ،اسالمی سلطنتوں کی تباہی و ’’
بربادی ،مقامات wمقدسہ کی توہین اور انصارے کی غالمی کے سوا کچھ نہیں ‘‘(نجدی تحریک پر ایک نظر )۷
ٰ
فتوی دیا :۔ عبد الحق حقانی نے شیخ نجد کے خالف
محمد بن عبد الوہاب النجدی ایک متشدد قسم کا مذہبی ٓادمی تھا اور اس کے پیرو کار بھی اس کے نظریات کی ’’
روشنی میں لوگوں کی تکفیر میںبہت جلد بازی سے کام لیتے ہیں ،حضرات علماء دیوبند اس کے عقائد اور نظریات سے اتفاق نہیں
رکھتے اور نہ ہی اس کی اور اس کے پیروکاروں کی تکفیر کے قائل ہیں،عوام الناس کو اس کے عقائد و نظریات سے اجتناب کرنا
)ضروری ہے‘‘فتاوی حقانیہ جلد ۱ص ۳۸۰
محمد بن عبد الوہاب کو اپنا امام اور پیشو و مقتدا مسائل فروع مسائل فروع یا اعتقادیات میں تسلیم کرنے واال دیوبندی ’’
نہیں ہو کستا ۔دیوبندی کو ئی مذہب نہیں ہے بلکہ اھل السنۃ والجماعۃ اور خالص حنفی مسلک ہے (فتاوی مفتی محمود ج ۱صفحہ
)۳۱۸
سیّد فردوس علی قصوری جو مرتب مطالعہ کے استاد بھی ہیں منظور نعمانی سے بغاوت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔’’
اس قسم کے وہابی لوگ ہمارے نزدیک خارجیوں کی قسم سے ہیں۔شامی نے کہا کہ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے پیرو نجد سے ’’
نکلے اور حنبلی مذہب کا بہانہ کرتے تھے حرمین شریفین پر غلبہ حاصل کیا وغیرہ علم فقہ ،علم حدیث ،علم تفسیر ،تصوف وغیرہ
کسی چیز میں یہ وہابی ہمارے استاد نہیں ہیں اور جب تک کوئی شخص ضروریات دین کا انکار نہ کرے ہم اس کو کافر نہیں
‘‘کہتے
ایک شخص گذرا ہے عرب میں ،نام اس کا محمد بن عبدالوہاب اس نے ایک تحریک اٹھائی جس میں ظاہر یہ کیا کہ ہم سنت کا اتباع
کریں گے ،بدعت کو مٹائیں گے ،نافرمانیوں کو ختم کریں گے۔چنانچہ ان کے ساتھ بہت سارے ٓادمی ہوگئے ،اور جو شخص بھی یہ
بات کہے اس کے ساتھ حسن ظن قائم ہو ہی جاتا ہے۔اور یہ ایسی بات ہے کہ اگر کوئی شخص ٓاپ کو بھی یہ کہے گا کہ میں بدعتوں
کو مٹأوں گا اور نافرمانیوں کو ختم کروں گا اور حضور صلے ہللا علیہ وسلم کی سنتوں کو زندہ کروں گا تو ٓاپ کو بھی حسن ظن
قائم ہوگا کہ بہت اچھا کام ہے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔اتباع انھوں نے کیا مگر ان کے پاس علم کم تھا۔انھوں نے پڑھا کہ حضور اقدس
صلی ہللا علیہ وسلم نے بیت ہللا کا طواف اونٹنی پر سوار ہوکر کیا۔انھوں نے کہا میں بھی اونٹنی پر سوار ہوکر طواف کروں گا۔یہی
سنت ہے۔حاالنکہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی شان تو یہ تھی کہ اتنی دیر تک اونٹنی مسجد میں رہی نہ پیشاب کیا ،نہ پاخانہ ،نہ
اپنا لعاب ڈاال۔اور انھوں نے جو طواف کیا اپنی اونٹنی پر چڑھ کر ،اونٹنی نے پیشاب بھی کردیا پاخانہ بھی کردیا ،مسجد کو خراب
کردیا۔تو ان کے پاس علم کم تھا ،اتباع سنت کا شوق زیادہ تھا۔بعد میں یہ بھی پتہ چال کہ وہ تو حکومت پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔اس
زمانے کی حکومت نے ان کو شکست دیدی(مسلک علماء دیوبند اور حب رسول صلی ہللا علیہ وسلم ص )44
نیز:۔
کیونکہ یہ فرقہ سلفیہ وہابیہ خیر القرون کے کسی امام پر اعتما د نہیں کرتا ۔ اور ائمہ نے قرٓان و حدیث کی جو تشریح کی ہے یہ
فرقہ ناواقف لوگوں کو اس تشریح پر بد ظن کرتا ہے اوراپنی تشریح کی طرف دعوت دیتا ہے یہ فرقہ تقلید شخصی کو شرک کہتاہے
اور ائمہ دین کو ارباب من دون ہللا کہتے ہیں اور ناواقف لوگوں کا یہ ذ ہن بناتے ہیں کہ امام اعظم رحمۃ ہللا علیہ وغیرہ رائے کو
ٰ
(فتاوی فریدیہ ج1 حدیث پر مقدم رکھتے تھے حاالنکہ تقلید شخصی کی مشروعیت قرٓان و حدیث اور تعامل خیرالقرون سے ثابت ہے
ص )279
ٰ
صاحبہاالصلوۃ والسالم نہایت گستاخی کے کلمات استعمال کرتے ہیںاور اپنے ٓاپ کو مماثل ذات علی
شان نبوت و حضرت رسالت ٰ
سرور کائنات خیال کرتے ہیںاور نہایت تھوڑی سی فضیلت زمانہ تبلیغ کی مانتے ہیں اور اپنی شقاوت قلبی اور ضعف اعتقادی کی
وجہ سے جانتے ہیں کہ ہم عالم کو ہدایت کرکے راہ پر ال رہے ہیںان کا خیال ہے کہ رسول مقبول علیہ السالم کا کوئی حق اب ہم پر
نہیں اور نہ کوئی احسان اور فائدہ ان کی ذات پاک سے بعد وفات ہے اور اسی وجہ سے توسل دعا میں ٓاپ کی ذات سے بعد وفات
ٰ
الصلوۃوالسالم ناجائز کہتے ہیں ان کے بڑوں کا مقولہ ہے ۔معاذہللا نقل کفر نقل نباشد۔کہ ہمارے ہاتھ کی الٹھی ذات سرور کائنات علیہ
سے ہم کو زیادہ نفع دینے والی ہے ہم اس سے کتے کو بھی دفع کر سکتے ہیں اور ذات فخر عالمﷺ سے تو یہ بھی
نہیں کر سکتے ‘‘(الشہاب ثاقب ص)۲۲۶
ایسے ہی لکھا:۔
وہابیہ بارگاہ نبوت میں گستاخانہ کلمات استعمال کرتے رہتے ہیں‘‘(نقش حیات ج ۱ص’’)۱۲۳
نیز لکھا:۔
ٓایا یہی طریقہ وہابیہ کا ہے کیا یہی خیال نجدیہ کاہے ہر گز نہیں،جس کا جی چاہے ان کے الفاظ ان کے کلمات زبانی یاتحریری ’’
سے سنے کہ کسقدر گستاخی اور بے ادبی ان کی گفتگو میں پائی جاتی ہے ‘‘(الشہاب ثاقب ص)۲۲۹
اس جگہ مصنف شہاب wالثاقب نے واضح لکھا کہ وہابی حضرات شان نبوت میں گستاخانہ الفاظ استعمال کرتے ہیں،اب گستاخ رسول
کے متعلق خود علماء دیوبند کا موقف بھی ہم پیش کئے دیتے ہیں،انور شاہ کاشمیری لکھتے ہیں:۔
رسول ہللا ﷺ پر سب و شتم یا ٓاپ ﷺ کی توہین و تنقیص کرنےواال کافر ہے ،جو اس کے کفر میں
شک کرے وہ بھی کافر ہے (اکفار الملحدین ص )136
جو الفاظ موہم تحقیر سرور کائنات ﷺ ہوں ،اگرچہ کہنے والے نے نیت حقارت کی نہ کی ہو ،مگر ان سے بھی
کہنے والا کافر ہو جاتا ہے (الشہاب الثاقب ص )20
شان اقدس صلی ہللا علیہ وسلم میں (العیاذ باہلل ) گالی بکے ،یا ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم کی شان میں (نعوذ باہلل)
اگر کوئی شخص ِ
ً ً
گستاخانہ کلمات کہے مثالیہ کہے کہ ٓاپ شہوت پرست تھے وغیرہ ،توشرعا ایسا شخص مرتد اور خارج ازاسالم ہے،اس کو توبہ،
تجدی ِد ایمان اور تجدی ِد نکاح الزم ہے اور اگر وہ توبہ نہ کرے تو واجب القتل ہے(محقق و مدلل جدید مسائل ج 1ص )61
الیاس گھمن لکھتے ہیں:۔
قرٓان کریم ،احادیث مبارکہٓ ،اثار صحابہ ،اور اجماع امت کے مطابق گستاخ رسول کی سزا قتل ہے۔ اسی بنا پر فقہ حنفی میں بھی
گستاخ رسول کی سزا موجود ہے اور وہ قتل ہے(جی ہاں فقہ حنفی قرٓان و حدیث کا نچوڑ ہے ص )262
ایسے ہی شیخ نجدی کی جانب سے رسول ہللا ﷺ کو کس طرح اذیت دی گئی ،اس دلخراش واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے
مولف انوار لباری لکھتے ہیں:۔
حضرت شاہ صاحب نے شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کا بھی ذکر کیااور بتالیا کہ انہوں نے اپنے دور تسلط میں ہاون دستہ لے ’’
کر روضہ عزاز نبوی کے پاس بیٹھ کر زور زوار سے کوٹاوہ لوگ حافظ ابن تیمیہ کے اتباع میںحضور ﷺکی
تعالی رحم فرمائے‘‘(انوار الباری ج 13ص )362
ٰ زندگی و بعد وفات میں فرق بتالنے کے لئے ایسا کرتے تھے ،ہللا
قارئین ایک طرف یہ ظلم مالحظہ کریں کہ حضور ﷺ کو اذیت پہنچانے کے لئے دانسۃ طور پہ شور پیدا کیا جارہا
ہے ،اور دوسری طرف سلطنت عثمانیہ کے عشاق کا طرز عمل ہے کہ جب مسجد نبوی کی تعمیر کے لئے پتھروں کی کٹائی شہر
سے بارہ میل کے فاصلے پہ کی گئی جس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے کاٹنے کے سبب جو شور پیدا ہوگا وہ حضور
ﷺ کو اذیت پہنچائے گا،مگر یہ نجدی حضرات اس عمل قبیح سے بھی ابز نہیں آائے ۔
اب ان غیر مقلدوں کا کیا کہنا کہ جس طرح محمد بن عبد الوہاب نجدی نے ٓانحضرت کے مزار شریف کو اسی کج فہمی کے سبب
تعالی مانعین زیارت نبوی پر
ٰ صنم اکبر قرار دیکر انہدام کا حکم لگا دیا تھا یہ بھی ویسا ہی کیا چاہتے ہیںاور یہ خبر نہیں کہ خود حق
لعنت فرماتا ہے (شرعی فیصلے ص)۶۵۴
یہاں تو علمائے دیوبند کی طرف سے محمد بن عبد الوہاب کے نظریہ کی بظاہر تغلیط ہے ،اور مولف مذکور اس عقیدہ پہ کافی
برہمی کا اظہار فرمارہے ہیں ،مگر یہی عقیدہ ان کے اپنے حضرات کا بھی ہے ،مہر محمد میانوالوی صاحب اس عقیدہ کے متعلق
رقم طراز ہیں:۔
سوا دو سال پہلے کے اس حنبلی بزرگ بہادر عالم دین سے ہمیں کئی باتون میں اختالف تو ہے اور تعبیر مسئلہ میں ہم اس سے زیادہ
مئودب ہیں ۔مگر نفس مسئلہ تو قرٓان و سنت سے ثابت ہے (ایمانی دستاویز ص )308
ایسے ہی مملکت سعودیہ کی طرف سے مفت تقسیم کیا جانے والی کتاب میں ہے :۔
تعالی مملکت سعودی کو توفیق دے کہ اسے سنت کے مطابق کر دیں جیسا کہ یہ عہد صحابہ میں قائم تھے یعنی گند خضراءٰ ہللا
زمین بو س کر دیں اور مسجد نبوی شریف اور ٓاپ ﷺ کی قبر کے درمیان فصل کر دین تاکہ اصحاب بدع و خرافات
مردوں کو میت مسجد میں دفن کرنے اور قبروں و مزاروں پر قبے ،گنبد وغیرہ بنانے پر دلیل نہ پکڑ سکیں (زیارۃ مسجد الرسول
ﷺ ص )146
پس ہمارے اس دور کے مشرکین ان ولیاء کو اپنے اور ہللا کے درمیان وسیلہ اور مشرکین عرب ان کو الہ کہتے تھے اور واسطہ ’’
حقیقت میں الہ ہی کو کہتے ہیں ۔لہذا کسی شخص کا کلمہ توحید ال الہ اال ہللا کا اقرار کرنا وسیلہ کی نفی ہے ‘‘(الجامع الفرید ص
)۷۶
اسیے ہی بہاء الحق قاسمی صاحب نے بھی وہابی حضرات کے انکار توسل و شفاعت کاتذکرہ کیا ہے (فتنہ نجدیت کے ڈھول کا پول
ص )۱۴
اہل السنت والجماعت حضور ﷺ کی شفاعت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو شفاعت و توسل کا انکار کرے اہل سنت ’’
ایسوں کو حق پر نہیں مانتے ‘‘(حقیقی دستاویز ص )۳۶۰
اس عبارت کا واضح مطلب یہی ہے کہ دیوبندی حضرات کے نزدیک منکر توسل و شفاعت اہل سنت سے خارج ہے ،ایسے ہی
وہابی حضرات بھی تو سل و شفاعت کا انکار کرکے اہل سنت سے خارج قرار پائے ۔
غرض یہ کہنا کہ انبیاء علیہم السالم مٹی میں مل کر مٹی ہوگئے۔العیاذباہلل۔یہ نجدیوں کا عقیدہ ہے۔ہمارا عقیدہ نہیں‘‘(خطابت حکیم ’’
السالم )۷/۹۱
ٰ
فتاوی جات بھی مالحظہ ہوں۔جناب ہللا یار خان صاحب لکھتے ہیں:۔ اب اس عقیدے پہ دیوبندی
ان فرقوں کی تقلید میں ٓاج کل کے اہلسنت والجماعت ہونے کا دعوی کرنے والے یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ انبیا مر کر مٹی ’’
ہوگئے ہیں۔۔۔ان لوگوں کا عقیدہ اجماع امت کے مخالف ہے۔جو شخص اجماع امت کا مخالف ہے وہ درحقیقت امت محمدیہ کا فرد نہیں
اس امت سے خارج ہے‘‘(عقائد و کماالت wعلمائے دیوبند ص )۵۱
عرصہ پہلے وہاں امام اہل سنت موالنا احمد شاہ اجنالوی اور امام اہل سنت موالنا عبد الشکور لکھنوی کے شاگرد مناظر اسالم بانی
سلسلہ اویسیہ نقشبندیہ موالنا ہللا یار خان صاحب المتوفی 1984ء چکڑالہ ضلع میانوالی پندرہ روز ہ رسالہ الفارو نکاال کرتے تھے
(ایمانی دستاویز ص )45
فاتح اعظم موالناہللا یار خان صاحب ٓاف چکڑالہ (مناظرہ باگڑ سرگانہ ص)9
عبد الجبار سلفی صاحب نے بھی اپنی کتاب تعویذالمسلمین کے صفحہ نمبر 76موصوف کو رئیس المناظرین تسلیم کیا ہے اور جناب
کی مداح کی ہے ۔پھرغالم غوث ہزاروی لکھتے ہیں:۔
یہ دیکھو مسلمانوں میرے ہاتھ میں تذکرہ ہے اس میں لکھا ہے کہ رسول ہللا ﷺ مر کر مٹی ہوگئے۔کیوں مسلمانوں ’’
یہ رسول ہللا ْﷺکی توہین ہے یا نہیںسب مسلمانوں نے بیک ٓاواز کہا:توہین ہے توہین ہے‘‘ ( سوانح غالم غوث ہزار
وی ص )199
نجدی اور اس کے اتباع کا اب تک یہی عقیدہ ہے کہ انبیاء علیہم السالم کی حیات فقط اسی زمانہ تک ہے جب تک وہ دنیا میں تھے۔
بعد ازاں وہ اور دیگر مومنین موت میں برابر ہیں(الشہاب الثاقب ص )187
عبد االحد قاسمی صاحب ان کے عقائد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
وہ حیات النبی کے منکر ہیں جبکہ ہم زور شور سے اس کے قائل ہیں اب تک اس عقیدے کے ثبوت پر ہمارے علماء کئی مناظرے
کر چکے ہیں‘‘(داستان فرار ص )157
دیوبندی مفتی لکھتے ہیں:۔
میرا اور میرے اکابر کا عقیدہ ہے کہ ٓانحضرت ﷺ روضہ اطہر میں حیات جسمانی کے ساتھ حیات ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔جو
شخص اس کے خالف عقیدہ رکھتا ہے وہ میرے اکابر کے نزدیک گمراہ ہے اس کی اقتداء میں نماز جائز نہیں(ٓاپ کے مسائل اور ان
کا حل)
ان کی قتل وغارت کی کہانی حسین احمد مدنی یوں بیان کرتے ہیں:۔
محمد بن عبدالوہاب نجدی کی اس جماعت نے چونکہ اہل مدینہ اور اہل مکہ و حجاز کے عام باشندوں کو اس مدت اقامت حجاز ’’
میں بہت ستایا تھالوگوں کو قتل کرنا ،مار پیٹ ،لوٹناذلیل کرنا وغیرہ وغیرہ عمل میں التے رہتے تھے جیسا کہ وہاں مشہور ہے اور
صاحب ردالمحتار لکھتا ہے کہ یہ لوگ صرف اپنی جماعت wکو مسلمان سمجھتے تھے اور دوسری جماعتوں کو مشرک اور غیر
مسلم کہتے تھے اور ان کے اموال اور جانوں کو لوٹنا اور ضائع کرنا حالل جانتے تھے اس لئے اہل حرمین کو وہابیوں سے انتہائی
عداوت اور نفرت تھی‘‘(نقش حیات ج ۱ص)۴۳۲
وہابی کا لفظ خواہ مخواہ میں ہی ایک گالی کا درجہ اختیا ر نہیں کر گیا تھا بلکہ اس کے پس منظر میں ان کے یہ عقائد و نظریات
:تھے جن کو ان کے موالنا ٹانڈوی عالّمہ شامی کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ
صاحب ردالمحتار لکھتا ہے کہ یہ لوگ صرف اپنی جماعت کو مسلمان سمجھتے wتھے اور دوسری جماعتوں کو مشرک اور غیر ’’
مسلم کہتے تھے اور ان کے اموال اور جانوں کو لوٹنا اور ضائع کرنا حالل جانتے تھے اس لئے اہل حرمین کو وہابیوں سے انتہائی
عداوت اور نفرت تھی‘‘(نقش حیات ج ۱ص)۴۳۲
نیز
وہابی مسلمانوں کوذرا ذرا سی بات میں مشرک اور کافر قرار دیتے ہیںاور ان کے مال اور خون کو مباح جانتے ہیںجیسا کہ عالّمہ ’’
شامی نے ردالمحتا رمیں لکھاہے ‘‘(نقش حیات ج ۱ص)۱۲۶
نجدی طائفہ مسلمانوں کو کافر بنانے کا جس قدر شوق رکھتا ہے ۔وہ تمام کافر گروں کی جذبات تکفیر سے بڑھ چڑ ھ کر ہے ،ان ’’
کے مخترعہ عقائد کی کسوٹی پر نہ صرف بریلوی ،نہ صرف دیوبندی ،نہ صرف فرنگی محلی ،بلکہ ہمارے ہاں کے غیر مقلدین
،کارکنان خالفت اور حامیان نجدیہ بھی مسلمان ثابت نہیں ہوسکتے ‘‘((فتنہ وہابیت کے ڈھول کا پول ص )۱۴
ایسے ہی امام فخر الدین رازی،صاحب قصیدہ بردہ ؒ اور دیگر اکابر کی تکفیر کا تذکرہ کیا(ایضا ص ۱۵ا۔)۱۶
تقلید کا انکار
عبد الوہاب نجدی تقلید سے منکر ہیں۔کیونکہ وہ اپنی تصنیف الجامع الفرید مجموعہ ٓاٹھ رسائل میں تحریر فرماتے ہیں۔کہ مشرکین نے
اپنے مذھب کے کئی اصول بنا رکھے تھے جن میں سر فہرست تقلید تھی۔(اظہار الحق ص)26
جو غیر مقلد حنفیہ کو مشرک کہتے ہیں اور تقلید شخصی کو شرک بتاتے ہیں بے شک فاسق wہیں،سو ان کی امامت مکروہ تحریمی
ہے۔اور ان کو دانستہ امام بنانا حرام ہے (تذکرۃ الرشید )1/139
ٰ
فتاوی جات سے واضح ہو گیا کہ نجدی حضرات کے پیچھے نماز ہر گز نہیں ہوتی،اب جہاں تک ا لمعتمد المستند کی بات تو لہذا ان
وہاں بھی نجدی حضرات کا رد ہے جو علمائے حرمین کے خالف تھے اور ان کا قتل بلیغ کیا،جیسا کہ المہند کے حوالے سے
وضاحت ہو گئی،نجدی گروپ قبضہ گروہ ہے نہ کہ علمائے حرمین،لہذا ان کے عقائد کی روشنی میں ان حضرات کے پیچھے نماز
نہیں ہوتی۔اب تصویر کا دوسرا رخ بھی مالحظہ ہو،دیوبندی مفتی لکھتا ہے:۔
ہماری معلومات کے مطابق موجودہ امام کعبہ عقیدتا حنبلی اہل سنت والجماعت میں سے ہے،لہذا ان کے پیچھے نماز پڑھنا درست ’’
ہے‘‘( ارشاد المفتین ج ۱ص )۳۴۳
ٰ
(فتاوی ’’ بظاہر یہ شخص سلفی اور نجدی معلوم ہہوتا ہے۔پس اگر یہ حیقت ہوتو ایسے شخص کو باقاعدہ امام مقرر کرنا مکروہ ہے
ٰ
فتاوی دیوبند پاکستان ج ۲ص )۱۸۳ فریدیہ المعروف
مرتب دست و گریباں کو چاہئے کہ کم ازکم اسے بھی دست و گریباں قرار دے ،یا پھر اہل حق پہ اعتراض کرنے سے باز رہیں۔خیر
اس ساری گفتگو سے یہ بات واضح ہوئی کہ علماء نجدیہ کے عقائد و نظریات گستاخانہ ہیں،جس کی بدولت ان کے پیچھے نماز ادا
کرنا درست نہیں۔
مرتب دست و گریباںتنویر الحجہ کے حوالہ سے حج کے ساقط ہونے کا تذکرہ کرنے کے بعد یوں گویا ہوئے :۔
علمائے بریلوی ائمہ حرمین کو اور علمائے دیوبند کو کافر قرار دیتے ہیں ۔ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو حرام قرار دیتے تھے ’’
اور حج کے فریضہ کو ختم قرار دیتے ہیں‘‘(دست و گریباں ج ۲ص)۱۳
موصوف نے اس جگہ انتہائی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ،حقیقی صورتحال یہ ہے کہ اس
ٰ
فتوی دیا گیا تھا ،جس اس دور کے مخصوص حاالت کے پیش نظر دور میں امن و امان مفقود ہونے کے سبب حج کی ممانعت wکا
تھا،امین صفدر اوکاڑوی رقم طراز ہیں:۔
محمد بن عبد الوہاب کی جماعت نے عرب میں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا ۔بہت سے مزارات کو گرایا ۔’’اور ’’’’
سعودنے قبہ مزار نبی ﷺ کو ڈھانے کا قصد کیا مگر اس کا مرتکب نہ ہوا اور حکم کیا کہ بیت ہللا کا حج سوائے
وہابیوں کے اور کوئی نہ کرے اور عثمانیوں کو حج سے مانع ہوا ۔اور کئی برس حج سے بہر لوگ محروم رہے اور شام اور عجم
کے لوگوں کو حج نصیب نہ ہوا ۔ترجمان وہابیہ ص ۳۶۔اور اس نے عرب کے رہنے والوں خصوصا َ حرمین شریفین کے رہنے
( والوں کو بہت تکالیف دیں۔ص ۴۰۔اس لئے عالم اسالم میں ان کے خالف کافی برہمی تھی (تجلیات صفدر جلد پنجم ص ۳۴۷
اس حوالہ سے معلوم ہوا کہ اس دور میں وہابی حضرات نے قتل و غارت کی ،اور دیگر عازمین حج کو نقصان پہنچایا کرتے
ٰ
فتوی دیا گیا،مگر یہ بات بھی وہاں موجود تھی کہ:۔ تھے ،اسی لئے مذکورہ باال
جناب نے تصویر کے دوسرے رخ کے حوالے سے جتنے بھی حوالہ جات نقل کئے ان میں سے کسی میں بھی اس بات کی صراحت
موجود نہیں کہ وہابیہ نجدیہ کا شمار حرمین طبین کے علماء میں ہوتا ہے ،بلکہ یہ تمامی حضرات نجدی ہیں ،جنہوں حرمین شریفین
پہ بزور شمشیر قبضہ کیا ،جیسا کہ اوراق سابقہ پہ گزر چکا۔لہذا موصوف کے پیش کر دہ حوالہ جات ان کو مفید نہیں۔اب جہاں تک
’’کرم الدین دبیر صاحب کا حوالہ جس میں حرمین میں فقط اہل سنت کی حکومت کا تذکرہ ہے ،تو ان کی مکمل عبارت خود اس
اشکا ل کو حل کئے دیتی ہے ،وہ لکھتے ہیں:۔
ٓایت میں یرث کا لفظ موجود ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اس سرزمین پاک پر وارثانہ قبضہ صالح بندوں کا ہوگا ۔اگر کوئی فاسق ’’
فاجر یا بد مذہب شخص یا قوم تھوڑے دنوں کے لئے وہاں غاضبانہ حکومت قائم کر لے اور کچھ دنوں کے بعد وہاں سے دھتکار کر
نکال دیا جائے ۔تو وہ یرث کا مصداق ہرگز نہیں ہوسکتا۔یزید کا قضبہ غاضبانہ گنتی کے دن رہا۔پھر اس کا ایسا استیصال ہوا کہ دنیا
ٰ
نصاری کو دخیل رکھا تو اس کا بھی وہی حشر ہوا۔وہابی پہلے بھی میں لعنت کے سوا اس کا نصیب نہ رہا۔شریف حسین نے اگر
کچھ عرصہ حکومت کر چکے ہیں،پھر ان کا نام ونشان مٹ گیا ۔اب انہوں نے جو دخل حاصل کیا ہے ،میرا ایمان ہے کہ یہ بھی چند
روز کی بات ہے وہاں سے ی ہلوگ بھی اسی ذلت و خواری کے ساتھ نکال دئیے جائینگے ‘‘(ٓافتاب صداقت ص ۸۲۔)۸۳
بہر حال یہ بات ذہن نشین رہے کہ محض حرمین پہ حکومت ہونے کی وجہ سے کسی کا حق ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوتا
یزید کی حکومت
زید اور بکر دونوں کا قول قابل اصالح ہے زید کا قول اس لئے قابل اصالح ہے کیونکہ اس نے یزید کی امارت کو خالفت حقہ قرار
دیا ہے ،جبکہ اس زمانہ کے بڑے بڑے صحابہ اس کی خالفت کے مخالف تھے ،اس کا پورا دور خالفت خونریزی کا دور رہا
ہے ،اسی کی خالفت میں حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے خاندان واوالد وں کے خون کا دریا بہاہے ،اہل بیت کے سینکڑوں افراد
کو شہید کیا گیا اس نے چند بچوں کو چھوڑ کر سب کو ذبح کرایا ،مدینہ طیبہ پر لشکر کشی کرائی ،سینکڑوں صحابہ اور تابعین کا
خون بہایا ،اس کی فوج نے مدینہ منورہ کی عورتوں کی ایسی عصمت دری کی ہے کہ مدینہ کی ایسی ایک ہزار لڑکیاں حاملہ
ہوگئیں جو بے شوہر کے تھیں ،شوہروں والی کتنی عورتوں کے ساتھ عصمت دری کی گئی اس کا کوئی حساب نہیں ایسی تباہ کن
حکومت کو خالفت wحقہ کہنا اس زمانہ کے حاالت سے ناواقفیت پر مبنی ہے ۔(فتاوی قاسمیہ ج 2ص )401
ت حسین ہے رضی ہللا عنہ اور اُس کا ٓاخری کام جو ہے وہ یہ ہے کہ حرم ِ مدینہ منورہ یزید کا دور ٓایا تو اُس میں اِبتداء میں تو شہاد ِw
میں اُس نے بہت ظلم کیا بہت ظلم کیا ہے اُس نے یہ حر ہ کا قصہ کہالتا ہے اور مسلم اِبن عُقبہ ُمری اُس کی طرف سے سردار تھا
جیش کا ،حرہ کی لڑائی تو ایک ِد ن میں ختم ہوگئی تھی مدینہ منورہ فتح ہوگیا تھا لیکن یزید کو غصہ تھا اُس نے بعد میں یہ حکم دیا
تھا کہ تین ِدن مدینہ منورہ تمہارے لیے حالل ہے اَ َم َرہ اَ ْن یَّ ْستَبِی َْح ْال َم ِد ْینَۃ ثَالَثَۃَ اَی ٍَّام ۔
ایک صحابی کا ذکر ہے میں رات ہی پڑھ رہا تھا یعنی پرانے صحابہ میںبڑی عمر کے صحابی اِسی طرحاُن کے لڑکے بھی اور یہ
یزید کے دوست بھی تھے اُن کو(مسلم بن عقبہ نے) بالیا کہا کہ بیعت کرو ع َٰلی اَنَّ ُک ْم َخ َول َو َعبِیْد لِیَ ِز ْی َد یہ بیعت کرو کہ تم خادم ہو
غالم ہو یزید کے ،عجیب بات تھی یہ ،اُنہوں نے کہا کہ وہ ہللا کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلے گا اور سنت ِ رسول ۖ پر چلے گا تو
میں اُس کے ساتھ ہوں اِس پر میں بیعت کرتا ہوں اور میں اَمیر المومنین مانتا ہوں۔۔اس نے کہا کہ تونے نہیں کی بیعت ! تو جالد
سے کہا گردن اُڑادو اِس کی ۔ یہ مروان (اِس مجلس میں موجود تھا )مدینہ منورہ میں گورنر رہا تھا وہاں کا اَمیر المدینہ رہا تھا وہ
ص ِد ْیقًا لِّیَ ِز ْی َد تو مروان صحابی جانتا تھا اِن(صحابی) کو ،یزید سے اِن کی دوستی تھی یہ بھی جانتا تھا اور بہت اچھی دوستی تھی َکانَ َ
سے چمٹ گیا کھڑے ہو کر اور اُس نے کہا کہ نہیں ِاسے نہیں مارو ،اِس نے کہا کہ میں ضرور ما ُروں گا قسم کھالی اور یہ حکم دیا
میر جیش جو تھا وہ مسلم اِبن عُقبہ تھا تو کہ اِسے قتل کرو کیونکہ اِس وقت مروان گورنر تھا نہیں وہ توساتھ تھا مشوروں میں تھا ،اَ ِ
حکم اُس کا چل رہا تھا اِس کی تو گزارش چل سکتی تھی اُس نے کہا کہ یا تو یہ اَلگ ہوجائے اس سے ،الگ نہیں ہوتا تو دونوں کو
َ ُ
ماردو حاالنکہ جرم کچھ بھی نہیں نکال ،وہ صحابی کہتے ہیں میں نے بغاوت کی ٹھیک ہے میں اُس سے تائب ہوتا ہوں رُجوع کرتا
اہل مدینہ میں سے سب نے کی تھی بغاوت یزید سے بیعت کی اور پھر اِنکار کردیا کہ ہم اِسے حاکم نہیں مانتے خَ لَعُوْ ا یَ ِز ْی َد یہ ہوں ِ
جرم میں نے کیا تھا مگر میں اَب بیعت کر رہا ہوں مگر ع َٰلی ُسنَّ ِة ہّٰللا ِ َو ُسنَّ ِة َرسُوْ لِہ ۖ ،اور یہ کہ وہ اَمیر المومنین رہے میں اُسے مانتا
ہوں اَمیر المومنین ،لیکن وہ نہیں مانا حتی کہ مروان نے جب سمجھا wکہ میں بھی مارا ہی جأوں گا کیونکہ ایسے تو تھا ہی نہیں سلسلہ
کہ وہ حکم دیں اور ذرا دیر لگے ،حکم دیا ہے تو بس مارو نہیں مارے گا تو وہ اُسے مارے گا وہ مجرم ہے کورٹ مارشل ہوجائے
گا فو ًرا ہی۔ تو نتیجہ یہ ہوا کہ مروان نے اُنہیں چھوڑ دیا اور وہ ماردیے گئے ہاتھ پأوں بندھے ہوئے تھے اُن کے یعنی ع َْن َّم ْن قُتِ َل
ص ْبرًا ""کا مطلب یہی ہے کہ اُس کو رسیوں سے باندھ رکھا تھا َکانَ َم ْکتُوْ فًا اور اِس طرح سے اُن کو شہید کیا۔ یہ کار ص ْبرًا اور "" َ
َ
روائی کر کے اس نے بہت بڑا ظلم کیا ہے اور بڑی توہین کی ہے مدینہ منورہ کی ،اِس بناء پر بعض علماء نے تکفیر کی ہے یزید ُ
کی۔ بہرحال فسق تو مانا ہی جاتا ہے کہ یہ بہت بڑا فسق ہے(ماہنامہ انوار مدینہ اگست 2014ص14۔)15
اہل تشیع کی حکومت
اس زمانہ میں مسجد نبوی اور مدینہ شریف پر رافضیوں کا قبضہ تھا ،قاضی شہر اور مسجد نبوی کے امام و خطیب سب روافض
ہی تھے ،یہاں تک کہ ابن فرحون کا بیان ہے کہ کوئی شخص مدینہ منور ہ میں اہل سنت و جماعت wکی کتابوں کو اعالنیہ پڑھ نہیں
سکتا تھا (وفا ء الوفا ج 1ص )429
دولت فاطمیہ کی سیاسی تاریخ مجمل طور پر یہ ہے کہ شمالی افریقہ کے ایک شیعی خاندان نے قبل اس کے کہ اسماعیلی داعی اپنا
عقیدہ پھیالتے ،حکومت قائم کی (تاریخ دولت فاطمیہ ص )14
نیز لکھا:۔
ان حاالت میں بغیر کسی فوج کے بغیر کسی سازو سامان کے ،مختصر سی مدت میں فاطمی حکومت کا نمودار ہونا ،قوت حاصل
کرنا ،بحر و بر پہ چھا جانا ٓ،اگے بڑھ کر مصر و شام اور حجاز تک حدود مملک کی توسیع کر لینا،اگر اسماعیلیوں کے لئے معجزہ
ہے تو ہمارے لئے بھی وہ ایک سیاسی معجزہ ہے (تاریخ دولت فاطمیہ ص )1
اب شیعہ کے متعلق دیوبندی ٓارا ء بھی پیش خدمت ہیں،عبد الشکور لکھنوی لکھتے ہیں:۔
شیعو!جبکہ تم خود اپنے عقائد فاسدہ wکی شہادت اور اپنے ائمہ کے ارشادات اور اپنے مجدد مائۃ حاضرہ کے فتووں کے مطابق ٓاج
کے نہیں تیرہ سو برس کے کہنہ مشق کافر و مرتد ہو (ارتداد شیعہ ص )31
کیا اب ہمارے معاندین محض حکومت کی بناء ان حضرات کا حق ہونا تسلیم کریں گے ؟اگر نہیں،تو یہ بات واضح ہوگئی کہ حق
ہونے کا فیصلہ حکومت نہیں عقائد کرتے ہیں۔پھر ابو ایوب قادری لکھتے ہیں:۔
کیا ہللا عاجز ٓاگیا ہے کہ کافر اس کے گھر حرم پاک میں زمانہ اسالم کے اندر نمازیں اور حج پڑھائیں۔اگر علمائے حرمین کافر ہیں
تو ہللا اپنے گھر کو ان سے پاک کیوں نہیں کرتا؟(پانچ سو باادب سواالت ص )10
نیز:۔
احادیث میں یہ بات واضح ہے کہ مدینہ پاک ہمیشہ اسالمکا مرکز رہے گا۔اور قیامت کے نزدیک اسالم پوری دنیا سے سمیٹ کر
مدینہ میں ایسے ٓاجائے گا جیسے سانپ اپنی بل میں ٓاجاتا ہے۔عجیب بات ہے کہ بریلوی حضرات نے مدینہ سے اسالم کا خاتمہ پہلے
ہی کر دیا۔اگر مدینہ والے کافر ہیں تو کیا العیاذباہلل نبی ﷺ کے ارشادات غلط تھے؟(پانچ سوبا ادب سواالت ص )10
حکومت سعودیہ کی وزارت حج و اوقاف نے کنزاالیمان و خزائن العرفان پر پابندی لگاتے ہوئے مذکورہ باال دونوں حضرات کو ’’
مشرک اور بدعتی قرار دیا ہے ‘‘(دست و گریباں ج ۲ص)۱۸
قارئین! سعودی عرب کے ان غیر مقلدین نے جو پابندی عائد کی ہے اس کی وجہ بقول مرتب یہ ہے کہ ان کے نزدیک ہمارے عقائد
شرکیہ ہیں۔جب کہ یہ لوگ شرک کے معاملے میں تشدد کرتے ہیں،سرفراز صاحب wلکھتے ہیں:۔
موجودہ زمانے کے نجدی علماء جو اکثر رسومات بدعیہ پر بھی بال جھجک شرک کا اطالق کرنے سے نہیں چوکتے ‘‘(سماع
الموتی ص )۲۹
ٰ
ٰ
فتوی شرک چسپاں کیا ٰ
فتوی شرک ہم پہ حجت نہیں،پھر ان حضرات نے تو شامی و دیگر کتب موئید عقیدہ اہل سنت پہ بھی لہذا ان کا
ہے،سرفراز صاحب المبرد المبکی کے حوالے سے سعودی حکومت کا رویہ واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
نہایت افسوس ہے کہ سودی حکومت نے،جس پر نجدی خیاالت کا غلبہ ہے،جو حافظ ابن تیمیہکے مسلک کے پیروہیں،اس کتاب کا
الموتی ص )۱۴۰
ٰ داخلہ ہی حجاز میں ممنوع قرار دیا ہے جیسا کہ شامی جیسی مفید کتاب ممنوع الدخول ہے ‘‘(سماع
انور شاہ کاشمیری کے ملفوظات میں ’’داالئل الخیرات ‘‘کے متعلق یو ں مرقوم ہے :۔
دالئل میں جو ’’حتی الیبقی من علمک شئی ‘‘ہے اس کی وجہ سے ابن سعود نے اس کا داخلہ حجاز میں بند کر دیااور کہا کہ یہ ’’
شرک وکفر ہے۔میں کہتا ہوں اس قسم کے الفاظ دالئل کے درست ہیں‘‘(ملفوظات محدث کاشمیری ص)۲۰۲
اس حوالہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جس چیز کو نجدی حضرات شرک کہتے ہیں ،وہ خود علماء دیوبند کے نزدیک شرک
نہیں،اس لئے ان کی لگائی گئی پابندی بھی حجت نہیں۔پھراگر ان کا پابندی لگانا اتنا ہی معتبر ہے ،تو ٓائیے ذارا ہم ان کو گھر کی
سیر کروائیے دیتے ہیں،موجودہ سلفی حضرات عقیدہ توسل کو کفر و شرک گردانتے ہیں،چنانچہ ان کے اس عقیدہ کے متعلق خود
علمائے دیوبند لکھتے ہیں:۔
یہی وہ توسل ہے جسے سلفی علماء شرک قرار دیتے ہیں‘‘(کچھ دیر غیر مقلدین کے ساتھ ص’’)۱۴۸لیکن ابن تیمیہ اور سلفیوں ’’
ٰ
فتاوی حرم مکی میں ہے :جو توسل ممنوع ہے وہ یہ ہے کہ انسان مخلوق کو کو اس میں تردد ہے اور ان کے نزدیک یہ شرک ہے
وسیلہ بنائے ،یہ ناجائز و حرام ہے ‘‘[جلد ۱ص ]۱۵۰فتاوی ابن العثیمین میں ہے :۔’’مردوں سے سوال کرنا اور ان سے وسیلہ پکڑنا
حرام اور از قبیل شرک ہے ‘‘[جلد ۱ص(‘‘]۲۴۳کچھ دیر غیر مقلدین کے ساتھ ص)۲۱۸
انبیاء اور اولیاء سے انکی زندگی اور وفات کے بعد توسل کے بارے میں یہ ہے غیر مقلدین کا عقیدہ !ان کا اس بات پر اتفاق ہے’’ؔ
کہ غیر ہللا سے توسل جائز ہے ،چاہے وہ نبی ہو یا ولی ہو ،زندہ ہو یا مردہ ہو۔اب ٓاپ ہی بتائیے کہ کیا شیخ ابن عبد الوہاب کی
جماعت کا یہ عقیدہ ہے ؟شیخ ابن عبد الوہاب نے اپنی کتاب ’’کتاب التوحید ‘‘میں اس مسئلہ کے بارے میںکالم کیا ہے اور غیر ہللا
سے توسل کو انہوں نے امر منکر قرار دیا ہے ۔اسی طرح شیخ سلیمان بن عبد ہللا محمد بن عبد الوہاب نے اپنی کتاب ’’تیسیر العزیز
فی شرح کتاب التوحید‘‘میںا س مسئلہ پر بحث ہے اور توسل لغیر ہللا کے جواب کے قائلین کی انہوںنے گردن کاٹ کر رکھ دی ہے ۔
توسل کے بارے میں غیر مقلدین کا عقیدہ ٓاپ کے سامنے wہے ،یہ بات صرف عقیدہ کی حد تک محدود نہیں بلکہ اس پر ان کا عمل
بھی چال ٓارہا ہے ،یہاں ہم انکے اس عقیدہ پر عمل کے چند نمونے پیش کرتے ہیں،وہی عقیدہ جو شیخ محمد بن عبد الوہاب اور تمام
سلفیوں کے ہاں شرک اکبر ہے ‘‘(کچھ دیر غیر مقلدین کے ساتھ ص)۲۲۱
اس عبارت میں موالنا نے انبیاء ،صلحاء اور مقرب فرشتوں کی ارواح کو وسیلہ بنا کر دعا کی ہے نیز حضرت امام حسن ،شیخ ’’
عبد القادر جیالنی ،عالمہ ابن تیمیہ اور حضرت مجدد الف ثانی کی اروح کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔اس طرح کا توسل
سلفیوں کے مذہب میں شرک ،کفر ،بدعت و گمراہی ہے ‘‘(کچھ دیر غیر مقلدین کے ساتھ ص )۲۲۲
جبکہ علماء دیوبند توسل کے قائل ہیں،چند حوالہ جات مالحظہ ہوں،حسین احمد مدنی لکھتے ہیں:۔
یہ مقدس اکابر ہمیشہ اولیاء کرام و انبیاء عظام سے توسل کرتے رہتے ہیں اور اپنے مخلصین کو اس کی ہدایت کرتے رہتے ہیں ’’
جس کووہابیہ مثل شرک ناجائز و حرام جانتے ہیں ۔حضرت موالنا نانوتوی رحمۃ ہللا علیہ نے ایک قصیدہ طویلہ دربارہ توسل مشائخ
سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ تحریر فرمایا ہے ‘‘(الشہاب الثاقب ص )۱۹۹
موالنا گنگوہی قدس سرہ العزیز متروسلین کو ہمیشہ توسل اولیاء طریقت کا ارشاد فرماتے رہے اور شجرہ طیبہ خاندان چشتیہ ’’
قدوسیہ امدادیہ ان کو عطا فرماتے تھے ‘‘(الشہاب الثاقب ص ،۱۹۹ادارہ تحقیقات اہل سنت بالل پارک،بیگم پورہ،الہور)
اور حقیقی طور پر ہللا کے سوا کسی کو حاجت روا نہ سمجھے اور کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے ۔کسی نبی یا ولی ’’
تعالی سے دعا مانگنا اس کے منافی نہیں ہے ‘‘(معارف القرٓان ج ۱ص )۲۹
ٰ وغیرہ کو وسیلہ قرار دے کر ہللا
چنانچہ حضرت موالنا اشرف علی تھانوی ؒ توسل کے مسئلہ کی تفصیل کرتے ہوئے اور اس کی قسمیں بیان کرتے ہوئے ٓاخر میں ’’
تعالی سے مانگے اور اسےٰ رقم طراز ہیں:۔اور توسل کی تیسری صورت یہ ہے کہ کسی مقبول مخلوق کی برکت کے ساتھ ہللا
جمہور نے جائز قرار دیا ہے ‘‘[البوادر النوادر ص ]۴۶۱اس سے معلوم ہواکہ توسل کی یہ صورت جمہور علماء کرام کے نزدیک
جائز ہے بزرگان دین اور صحیح اکعقیدہ مسلمانوں کا توسل اسی صورت میں ہوتا ہے جس کے جواز میں کالم نہیں‘‘(تسکین
الصدور ص ،۴۰۷طبع اپریل ٍ۲۱۰۷مکتبہ صفدریہ ،نزد نصرۃ العلوم گھنٹہ گھر گوجرانوالہ )
حضور ﷺ کی زندگی میں ٓاپ ﷺکے توسل سے اور ٓاپ ﷺکے انتقال کے بعد ’’
ٓاپ ﷺ کی حرمت اور ٓاپ کی عظمت شان کے توسل سے دعا مانگنا صحیح احادیث شریفہ سے ثابت ہے ؛لہذا ٓاپ
ٰ
‘‘(فتاوی قاسمیہ ج ۱ص )۴۵۰ کے توسل سے دعا کرنا جائز ہی نہیں بلکہ قبول دعا کا موجب بھی ہے
لہذا اولیاء ہللا اور پیغمبر علیہ الصلوۃ والسالم کے وسیلے سے دعامانگنا جائز ہے ‘‘(کتاب النوازل ج ۱ص’’)۳۴۷
ساجد خان صاحب ’’یارسول ہللا ﷺ‘‘کے متعلق رقم طراز ہیں:۔
کوئی محض شوقیہ طور پر عشق و محبت میں یا بطور توسل ان الفاظ کو پڑھتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں‘‘(تذکیر شرح ’’
نحو میر ص )۱۲۸
ٰ
فتاوی جات کا یہ سلسلہ یہی ختم نہیں ہوتا،علماء دیوبند قبور سے فیض کے قائل ہیں۔المہند میں ہے :۔
اب رہا مشائخ کی روحانیت سے استفادہ اور ان کے سینوں اور قبروں سے باطنی فیوض پہنچنا سو بے شک صحیح ہے ‘‘(المہند ’’
علی المفند یعنی عقائد علماء اہل سنت دیوبند ص،۷۴ادارۃ الرشید کراچی)
جبکہ سلفیوں کا عقیدہ واضح کرتے ہوئے ابو بکر غازیپوری لکھتے ہیں:۔
قبروں اور اصحاب قبور سے طلب فیض جو صوفیاء کے ہاں معروف ہے سلفیوں کے نزدیک حرام اور اعمال شرکیہ میں سے ’’
ہے ‘‘(کچھ دیر غیر مقلدین کے ساتھ ص )۲۱۴
جھاڑ پھونک ،تعویذات و عملیات کے باب میں ابن تیمیہ اور ان کے اصحاب نیز عرب سلف مشائخ کا کیا عقیدہ ہے ،جن حضرات ’’
کو ان کی کتابوں کے مطالعہ کا اتفاق ہوا ہے وہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ ان حضرات کے نزدیک تعویذ گنڈوں نیز دیگر عملیات
کے ذریعہ مصیبتوں،بیماریوں اور ٓافتوں میں راحت چاہناخالص مشرکانہ عمل ہے ‘‘(کچھ دیر غیر مقلدین کے ساتھ ص)۱۸۶
جبکہ دیوبندی حضرات کے نزدیک تعویذات کرنا درست ہے ،مفتی شبیر احمد قاسمی لکھتے ہیں:۔
تعویذ گنڈے کرنا قرٓان و حدیث کی روسے قرٓان کی ٓایتوں اور حدیث کی دعائوں کے ذریعہ سے اسالمی حدود میں رہ کر جائز ’’
ٰ
ہیں‘‘(فتاوی قاسمیہ اور درست ہے ،حدیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے ،ہمارے ہندی علماء اسی پہلوسے تعویذ گنڈے کی اجازت دیتے
ج ۴ص)۱۵۷
تعویذ پر اجرت لینا درست ہے ،بشرطیکہ دھوکہ بازی نہ کرے اور خالف شرع تعویذ نہ کرے ،لہذا ایسے شخص کے پیچھے نماز’’
ٰ
فتاوی قاسمیہ ج ۶ص)۳۱۷ بھی درست ہے ‘‘(
ٰ
‘‘(فتاوی’’ تعویذ پر پیسہ لینے کی گنجائش تو ہے مگر نہ لینا بہتر ہے ،اور ایسے امام کے پیچھے نماز بہر حال صحیح ہوجائے گی
قاسمیہ ج ۶ص)۳۱۸
تیسری بحث یہ ہے کہ اسے تعویذ بنا کر گھروںمیں حفاظت کے لئے لٹکانا کیسا ہے جیسا کہ ٓاج کل اس کا وراج عام ہے ۔اور کہیں’’
ٰ
‘‘(فتاوی دارلعلوم زکریا ج ۱ص)۳۲۱ یہ بدعت تو نہیں ہے۔تو معلوم ہونا چاہئے کہ ایسا کرنا جائز ہے
ٰ
فتوی علماء دیوبند کے حق میں بھی قبول ہونا چاہئے ،خیر ہم نے اختصار کے لہذا اگر ہمیں مشرک گرادننے کا شوق ہے ،تو یہی
ساتھ چند معروضات پیش کر دیں ہیں،اس پہ تفصیل ہماری کتاب’’کنز االیمان اور مخالفین ‘‘میں موجود ہے ۔
قارئین ! اس جگہ وہابی نطریات سے ٓاگاہی کے بعد اس بعد کا تذکرہ ضروری ہے کہ جہاں ان حضرات کی علماء دیوبند نے تردید
کی ہے ،وہاں ریالوں کی خاطر ان کا قلم مداح وہابیہ کرنے سے بھی نہیں چوکا،رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں
محمد بن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیںان کے عقائد عمدہ تھے اور مذہب ان کا حنبلی تھاالبتہ ان کے مزاج میں شدت ’’-
تھی مگر وہ اور ان کے مقتدی اچھے ہیں مگرہاں جو حد سے بڑھ گئے ان میں فساد ٓاگیا ہے اور عقائد سب کے متحد ہیںاعمال میں
ٰ
‘‘(فتاوی رشیدیہ ص)۲۳۵ فرق حنفی ،شافعی ،مالکی حنبلی کا ہے
وہابی دراصل شیخ محمد بن عبدالوہاب کے پیرؤوںکو کہتے ہیںیہ لوگ مقلد ہیںاور اہل سنت والجماعت یہ حضرت امام احمد بن ’’
حنبل کی فقہ کے پیرو ہیں‘‘(ٓاثارالتشریع ازمرتّب مطالعہ بریلویّت ج ۱ص)۳۷۵
خانہ کعبہ ہمارا صرف قبلہ نماز نہیں سمت ہدایت بھی ہے ۔ہم سعودی عرب کو اپنا دینی مرکز سمجھتے wہیں۔یہ سر زمین اب قیامت’’w
تک کے لئے دار االیمان ہے یہ کفرستان نہیں ہو سکتی ۔یہاں حق ہمیشہ کے لئے داخل ہوا ہے اور کفر ہمیشہ کے لئے بھاگا
ہے‘‘(عقیدۃ االمت فی معنی ختم النبوت ص ۹۵۔)۹۶
شیخ محمد بن عبد الوہابؒ ٓاج عرب کے ماتھے کا جھومر اور گمراہی کی تاریک راہوں میں تعلیم و تربیت کا ستارہ ہے ،ان کی کتابیں’’
سعودی عرب کے نصاب تعلیم کی زینت ہیں اسی وجہ سے عرب کا چھوٹے سے چھوٹا بچہ عقائد توحید و سنت میں اس قدر وثوق
اور اعتماد سے معمور نظر ٓاتا ہے کہ بسا اوقات ان کے یقان و اذعان کی اس حالت پر نہ صرف یہ کہ حیرت ہونے لگتی ہے بلکہ
ہمارے ہاں بعض عالم بھی علمی اعتراف کے باوجود یقین کی ایسی دولت سے محروم نظر ٓاتے ہیں‘‘(فیصل ایک روشن ستارہ ص
)۱۰۴
خلیل احمد سہارنپوری کے یہ الفاظ نقل کئے گئے :۔
الغرض میں جہاں تک خیال کیا اہل سنت کے عقائد سے ذرا بھی انحراف نہیں‘‘(شیخ محمد بن عبد الوہاب اور ہندوستان کے ’’
علمائے حق ص)۴۳
حسین احمد مدنی کا جو رجوع پیش کیا گیا ،اس کے الفاظ یوں ہیں:۔
بہت سی باتیں کچھ اصل بھی رکھتی ہیں مگر نہ ایسی کہ جن کی وجہ سے ان کو فرقہ ناجیہ سے نکالنا جائز ہو سکے یا جمہور اہل
ٰ
جائے(فتاوی شیخ االسالم ص )178 سنت و جماعت کا مخالف قرار دے کر ان پر تبرہ کیا
حضرت شاہ ولی ہللا ؒ کے ایک نامور معاصر اور عظیم مصلح ،نجد کے ایک ممتاز عالم اور صاحب عزیمت داعی و مصلح شیخ ’
محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان التمیمی ،الحنبلی (۱۱۱۵۔۱۲۰۶ھ)(۱۷۰۳۔۱۷۹۲ء )ہیں ‘‘(تاریخ دعوت وعزیمت ج ۵ص)۳۹۴
ہماری نظر میںسعودی حکومت ممالک عرب بلکہ اسالمی دنیا میں ایک بہترین حکومت ہے ۔وہاں دینی نظام علمائے دین کے متعلق
ہے اور اس کا تمام تر انحصار علماء و مشائخ کے مشوروں پر ہے (مودودی صاحب کے افکار و نظریات ص )56
قارئین یہ تضاد بیانی علماء دیوبند میں کافی پریشانی کا سبب بنی،اب اس تضاد کے الزام کو اٹھانے کے ئے علماء دیوبند نے مختلف
حضرات کے رجوع کروانے شروع کر دئیے کسی نے گنگوہی صاحب کا رجوع کروایا اور کسی نے حسین احمد مدنی کے متعلق
یہ افواہ پھیالئی ،خیر ہم تفصیل سے اس دلچسپ کہانی کو علماء دیوبندکے حوالہ جات کی روشنی میں بطور تاریخی ریکارڈ ہدئیہ
قرطاس کئے دیتے ہیں۔ہم گنگو ہی صاحب کا بیان اوراق سابقہ پہ نقل کر چکے کہ :۔
محمد بن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیںان کے عقائد عمدہ تھے اور مذہب ان کا حنبلی تھاالبتہ ان کے مزاج میں شدت ’’-
تھی مگر وہ اور ان کے مقتدی اچھے ہیں مگرہاں جو حد سے بڑھ گئے ان میں فساد ٓاگیا ہے اور عقائد سب کے متحد ہیںاعمال میں
ٰ
‘‘(فتاوی رشیدیہ ص)۲۳۵ فرق حنفی ،شافعی ،مالکی حنبلی کا ہے
اس بیان کی تائید کرتے ہوئے سرفراز خان صفدر لکھتے ہیں:۔
لیکن ان ے بارے صحیح نظریہ وہی ہے جو عالمہ ٓالوسی اور حضرت گنگوہی کا ہے (تسکین الصدور ص )266
ٰ
فتاوی رشیدیہ میں فرماتے ہیں کہ نجدیوں کے عقائد عمدہ ہیں(رضاخانیت اور تقدیس حرمین ص حضرت موالنارشید احمد گنگوہی ؒ
)6
اس جگہ علماء دیوبند کی جانب سے رشید احمد گنگوہی صاحب کی تائید کی جارہی ہے ،مگر دوسری جانب گنگوہی صاحب کے
رجوع کی کہانی بھی قلم سے قرطاس پہ منتقل ہوتی نظر آاتی ہے ،دیوبندی مصنف لکھتے ہیں:۔
ٰ
فتاوی رشیدیہ میں ابن عبد الوہاب کی توثیق کی ہے تو اس کا’’ اگر کوئی یہ شبہ پیش کرے کہ موالنا رشید احمد گنگوہی صاحب wنے
جواب یہ ہے کہ موالنا رشیداحمد گنگوہی نے اس قول سے الکوکب الدری ص ۳۴۵ج ۲میں رجوع کیا ہے اور اعتبار مرجوع الیہ
قول کو ہوتا ہے نہ قول مرجوع عنہ کو۔ (پنجپیری دیوبندی نہیں :ص )۱۱
ان حوالہ جات سے واضح ہوا کہ کوئی گنگوہی صاحب کا رجوع کروانے پہ مصر ہے اور کسی صاحب کے نزدیک ان کی
معلومات درست نہیں،خیر ایسے ہی حسین احمد مدنی کا بھی رجوع کروایا گیا،اور پیش کر دہ رجوع 1925کا ہے(اکمل البیان ص
ٰ
،فتاوی شیخ اال سالم ص )178،9سفید و سیاہ پہ ایک نظر ص،55شیخ محمد بن عبد الوہاب اور ہندوستان کے علماء حق ص93
جبکہ اس وقت ہمارے سامنے مکتوبات شیخ االسالم کی جلد نمبر دو موجود ہے ،اس میں ٹانڈوی صاحب سے سوال کیاجاتا ہے کہ
کیا ٓاپ کا شیخ محمد بن عبد الوہاب کے متعلق وہی مسلک ہے یا رجوع کر لیا ،تو موصوف لکھتے ہیں:۔
اس مکتوب کے ٓاخر میں 1370ھ مرقوم ہے(مکتوبات شیخ االسالم ج 2ص ، )346جو 1949یا 1950بنتا ہے ،یعنی رجوع کے
پچاس سال بعد حسین احمد ٹانڈوی صاحب wکی اس تردید فرما رہے ہیں،لہذا ان صاحبان کا پیش کر دہ رجوع جعلی ہے۔
اس پر ٓاشوب زمانہ میں جب کہ مذہب مقدس پر ہر طرف سے ناپاک حملے ہورہے ہیں ملت اسالمیہ اور ملک پاکستان کے تحفظ ’’
کے لئے نہایت ضروری ہے کہ مسلمان اب خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں۔حفاظت اسالم کو اپنی حقیقی نصب العین قرار دیں۔ہونا تو
یہی چاہئے مگر افسوس اور بدقسمتی ٓاج کے اس دور میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں ،جن کے پاس کوئی حالل ذریعہ معاش
نہیں اور نہ ہی خدا کی رزاقی پر بھروسہ ہے ان کی روزی یہی ہے کہ مسلمانوں کو ٓاپس میں لڑائیں اور خانہ جنگیوں میں مبتال
کریں‘‘(دست و گریباں ج ۲ص)۲۳
مرتب صاحب نے اس جگہ خود کو اتحاد امت کا داعی بنا کر پیش کیا ہے ،جو صرف مگر مچھ کے ٓانسو ہیں اور ان کا مقصد
صرف سادہ لوح عوام کو دھوکہ دینا ہے ،جیسا کہ خود ان کے اپنے لکھتے ہیں:۔
جھوٹے ٓانسوئو ں اور جھوٹی ٓاۃوں سے ہللا کے نیک اور بھولے بندوں کو متاثر کرنا مکاری کا ایک فن ہے ‘‘(فیصلہ کن مناظرہ ’’
ص ،۱۹ادارہ اشاعت االسالم ،جامع مسجد الئل پور)
یدطولی رکھتے ہیں اور خود کو عامۃ الناس کی نگاہ میں امت کے دردر سے لبریز مسیحا کے روپ میں
ٰ موصوف بھی اس فن میں
پیش کرنا چاہتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ امت میں افتراق و انتشار کا بیج بونے والے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے خود
دیوبندی حضرات ہیں ۔یہ بات محض الزام یا کسی مسلکی تعصب کا شاخسانہ نہیں بلکہ مبنی بر حقیقت ہے ،جسے خود علماء دیوبند
نے بغیر کسی فرو گذاشت کے ٓاشکار کیا ہے ،دیوبند ی حضرات کے اکابر ین میں سے ایک نام اسماعیل دہلوی صاحب کا بھی
ہے ،اور امت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا سہرا انہیں صاحب کے سر ہے۔موصوف کی تالیف کر دہ کتاب’’تقویۃ االیمان‘‘نے
امت کی متحد اکثریت کو دوٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ،سید احمد بجنوری دیوبندی ’’تقویۃ الایمان ‘‘کے متعلق رقم طراز ہیں:۔
افسوس ہے کہ اس کتاب کی وجہ سے مسلمانان ہندو پاک جن کی تعداد بیس کڑوڑ سے زیادہ ہے اور تقریبا نوے فیصد حنفی ’’
المسلک ہیں ،دوگروہ میں بٹ گئے ،ایسے اختالفات کی نظیر دنیائے اسالم کے کسی خطے میں بھی ،ایک امام اور ایک مسلک کے
ماننے والوں میں موجود نہیں ہے ‘‘(انوار الباری ج ۱۱ص )۱۰۷
حضرت موالنا اسماعیل صاحب شیہد کا رسالہ رد بدعت ’’ایضاح الحق الصریح‘‘ بہت اچھا ہے اور میں تقویۃاالیمان سے زیادہ ’’
راضی نہیں ہوں غالبا ً ضرورت وقت کے ماتحت لکھی تھی حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب،حضر ت شاہ محمد یعقوب صاحب
،مومن خاں شاعر( جامع عالم تھے اور اسی خاندان کے شاگردتھے)پانچواں نام احقر کو یاد نہیں رہا(ارواح ثالثہ ص۶۱میں بھی یہ
قصہ ہے اور نام زیادہ ہیں)ان پانچ اشخاص کو یہ کام سپرد ہوا تھاکہ تقویۃاالیمان کے الفاظ ع مضامین پر غور کریںاور بدلنے کا بھی
اختیار دیا گیا تھا،ان میں سے تین کی ایک جماعت ہوگئی او ر دو کی ایک جماعت wہوگئی،ایک نے کہاایسے الفاظ مناسب
نہیں،دوسرے نے کہا کہ بات س ّچ ی صاف صاف کہنی چاہئے اور بغیر تیز کالمی کے نکھار پیدا نہیں ہوتا۔حضرت کے سامنے اس
رسالہ کی مح ّد ثانہ نقطہ نظر سے بھی خامیاں ضروررہی ہوں گی۔پھر حضرت نے فرمایا کہ میں راضی نہیںہوں کہ محض ان
عبارات کی وجہ سے بہت جھگڑے ہوگئے ہیں ۔اس کے عالوہ منصب اِمامت اور اصول فقہ کا رسالہ بھی بہت اچھا لکھا ہے ٗ اور
یہی بات کہ ’’میں راضی نہیں ہوں اس رسالہ سے ‘‘مجھے wمرحوم موالنا نانوتوی سے بھی پہنچی ہے،حاالنکہ وہ ہالک تھے موالنا
عبدالعزیزصاحب اور شاہ عبدالقادرصاحبؒ سے wہے اسی خاندان میں سے
ؒ اسماعیل کی محبت میںاورمجھے wسب سے زیادہ محبت شاہ
مذکورہ باال قصہ مجھ کو نہایت موثق ذرائع سے پہنچا ہے اس سے زیادہ ممکن نہیں‘‘(ملفوظات مح ّدث کشمیری ص)178
انگریزوں نے مسلمانوں میں سر پھٹول پیدا کرنے کے لئے کسی کم علم دیہاتی مولوی سے گنواری اردو میں یہ کتاب لکھوائی ’’
‘‘(غلغلہ ص)۱۸
ان حوالہ جات سے واضح ہوا کہ تقویۃ االیمان امت مسلمہ میں افتراق و انتشار کا سبب ہے ،اور اس کے کتاب کے متعلق علماء
دیوبند کے قطب االقطاب کے ریمارکس بھی قابل مطالعہ ہیں ،وہ لکھتے ہیں:۔
کتاب تقویۃ االیمان نہایت عمدہ کتاب ہے اور رد شر ک وبدعت میں الجواب ہے۔استدالل اس کے بالکل کتاب ہللا اور احادیث سے ہیں
(فتاوی رشیدیہ ج 1ص،21ج3ص)16 ٰ اور اس کا رکھنا اور پڑھنا اور عمل کرنا عین اسالم ہے
ٰ
فتوی دیں،پھر اب ہمارے قارئین بتائیں جو حضرات امت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے والی کتاب کے متعلق عین اسالم ہونے کا
اتحاد امت کے داعی کے طور پہ اپنا تعارف کروائیں تو اسے اداکاری ہی کہا جائے گا،لہذا موصوف اقرار ی مجرم ہونے کے
باوجود اداکاری کرنے میں مصروف ہیں،اور دوسروں کو اس کا مرود الزام کا ذمہ دارٹھرا رہے ہیں ،لیکن بقول تھانوی صاحب :۔
یہ بھی ایک بڑا مرض ہے کہ دوسروں کے اقوال افعال قصے جھگڑے لئے پھرتے ہیں ارے پنی خبر لو دوسروں کے تو صرف ’’
مکھیاں بھنک رہی ہیںاس پر اعترا ض ہے اور اپنے کیڑے پڑ رہے ہیں ان کی بھی فکر نہیںانسان کو اپنی فکر ضروری ہے
‘‘(ملفوظات حکیم االمت ج ۸ص)۸۷
اس وقت سب سے خطرناک فتنہ ’’فتنہ تکفیر‘‘امت ہے ۔جس کا صحیح مصداق مصداق ملت بریلویت کے علماء و مفتیان کرام و ’’
مشائخ عظام ہیں‘‘(دست و گریباں ج ۲ص )۲۳
ٰ
دعوی ایمان کا رکھتے ہیں سو وہ شرک میں گرفتار ہیں ‘‘(تقویۃ االیمان ص ،۹شمع بک ایجنسی الہور)’’ یعنی اکثر لوگ جو
تو یہ ممکن ہے کہ ایک شخص ہللا پر ایمان رکھتا ہو،رسول کریم ﷺ کی امت کا فرد ہو ،اور پھر بھی مشرک
ہو،انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ٓاج یہ ممکن ہی نہیں بلکہ اکثر ہے ‘‘(توحید و شرک کی حقیقت ص ،۳۵عمر فاروق پبلشرز ۔اردو
بازار ،الہور)
ان حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوئی کہ امت مسلمہ کو شرک کے تغمہ سے نواز نے کا اعزا خانوادہ دیوبند کو ہے اور اس عمل
قبیح کو سر انجام دینے کے لئے نصوص نیں تاویل سے بھی گریز نہ کیا گیا،اسماعیل دہولی صاحب فرماتے ہیں:۔
میں نے یہ کتاب لکھی ہے اور میں جانتا ہوں کہ اس میں بعض جگہ ذرا تیز الفاظ بھی ٓاگئے ہیں اور بعض جگہ تشدد بھی ہوگیا ’’
ہے مثال ان امور کی جو شرک خفی تھے شرک جلی لکھ دیا ہے ‘‘(ارواح ثالثہ ص ٓ،۶۸اپ بیتی ج 2ص)194
ٰ
فتوی صادر کرنے کے لئے اگر نصوص کی تاویل کرنی پڑی ،شرک خفی کو جلی لکھنا پڑا تو اس یعنی امت مسلمہ پہ شرک کا
سے بھی جناب نہیں چوکے۔لہذا امت کی تکفیر کا فریضہ تو خود مرتب صاحب کے اپنوں نے سر انجام دیا ہے ۔اس کے بعد مرتب
لکھتے ہیں:۔
ٰ
فتوی لکھا تھا جس میں حجۃ االسالم موالنا محمد قاسم نانوتوی ؒپر معاذہللا انکار ’’ موالنا احمد رضا خان ۱۳۲۳ء میں ایک تکفیری
ختم نبوت کا الزام لگایا تھا اور حسام الحرمین کے نام سے چھاپ wکر شائع کیا ۔اس میں علماء اسالم کے بارے میں لکھا کہ یہ قطعی
کافر دائرہ اسالم سے خارج ہیں‘‘(دست و گریباں ج ۲ص)۲۳
مرتب اس جگہ حقائق سے غض بصر کرتے ہوئے مظلوم بننے کی سعی ناکام میں ملوث پائے گئے ہیں،اگر انہوں نے تکفیر کا
تذکرہ کیا تھا تو بقول عامر عثمانی اس کی معقول وجوہات کا ذکر بھی ضروری تھا۔موصوف درد مند انداز سے اتحاد کا ذکر تو
کرتے ہیں مگر یہ بتالنے کی زحمت گوارا کیوں نہیں کرتے کہ ٓاخر اس اتحاد کی راہ میں رکاوٹ کون ہے؟اگر کسی پہ کفر جیسا
ٰ
فتوی کا مستحق ٰ
فتوی لگایا گیا ہے تو ٓاخر اس سے ایسا کونسا سنگین جرم صادر ہوا جس کی بناء پہ وہ اس سخت قسم کے سنگین
ٹھہرا؟۔قارئین تاریخ کا طالب علم اس بات سے بخوبی ٓاغاہ ہے کہ برٹش گورنمنٹ نے اقتدار حاصل کرنے اور اسے دوام دینے کے
لئے غدار پیدا کئے ،جنہون نے ملت اسالمیہ کا شیرازہ بکھیرتے ہوئے ان کی وحدت کو پارہ پارہ کیاتاکہ مسلمان کبھی متحد ہو کر
ان کے خالف نبر د ٓازما نہ ہوسکیں ۔ہندوستان کے خاص حاالت کے تناظر میں ایک نام مولوی اسما عیل دہلوی کا ہے جس نے نا
صرف تقویۃ الیمان نامی کتاب لکھ کر مسلمانوں کو دست و گریباں کیا بلکہ عمال بھی انگریزوں کی حمایت کا حق ادا کیا،جس پہ
خود علماء دیوبند کی کتب شاہد ہیں [تفصیل عرض کی جاچکی ہے]خیر بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم قارئین کی توجہ ایک اہم نقطہ کی
جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں ۔جناب نے اپنی کتاب ’’تقویۃ الیمان ‘‘میں ایک عبارت لکھی:۔
اس شاہنشاہ کی تو یہ شان ہے کہ ایک ٓان میں ایک حکم کن سے اگر چاہے تو کڑوڑوں نبی اور ولی اور جن و فرشتہ اور محمد ’’
)ﷺ کے برابر پیدا کر ڈالے ’’تقویۃ االیمان ص ۴۱
اس عبارت جو لکھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ نئے نبی کا راستہ صاف کیا جاسکے ،اس لئے اس کتاب میں انبیاء کئے مرتبہ کو
بہت گرا کر پیش کیا ،ان کی شامن اقدس میں طرح طرح کے نازیبا الفاظ استعمال کئے اور انہیں بطور ڈاکیہ اور عام ٓادمی کے
متعارف کرانے کی سعی فرومایہ سر انجام دی ۔مثال یہ صاحب لکھتے ہیں:۔
سب انبیاء و اولیاء اس کے رو برو ایک ذرہ ناچیز سے بھی کم تر ہیں‘‘(تقویۃ االیمان ص ’’)۷۴
یعنی میں بھی ایک دن مر کر مٹی میں ملنے واال ہوں ‘‘(تقویۃ االیمان ص)’’
مگر دوسری طرف اپنے پیر کی شان کو بڑھاتے چڑھا کر پیش کیا گیا،لکھتے ہیں:۔
پھر ٓاپ کی اجازت اور استفسار کے لئے جناب حق میں متوجہ ہوئے ۔اور عرض کیا کہ بندگان درگاہ سے ایک بندہ اس امر کی
درخواست کرتا ہے کہ مجھ سے بیعت کرے ،اور ٓاپ نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا ہے ۔اور اس جہان میں جو کوئی کسی کا ہاتھ پکڑتا ہے
ہمیشہ دستگیری کی پاس کرتا ہے اور حضرت حق کے اوصاف کو اخالق مخلوقات کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں ۔پس اس معاملہ میں
کیا منظور ہے اس طرف سے حکم ہو ا کہ جو شخص تیرے ہاتھ پر بیعت کرے گا ۔اگر چہ وہ لکھو کھا ہی کیوں نہ ہوں۔ہم ہر ایک
کو کفایت کریں گے ‘‘(صراط مستقیم ص،۲۲۲مکتبہ الحق )
قارئین اس ستم ظریف کا حوصلہ مالحظہ کریں کہ ایک طرف تو قلم یہ لکھتا ہے کہ محمد ﷺ کچھ کر نہیں سکتے
کسی کو نفع نہیں دینے سے قاصر ،مگر دوسری طرف یہ عقیدہ کہ پیر صاحب کے سارے مرید کامیاب ہونگے ،خیر اس مقصد
صرف اور صرف نئے نبی کی رواہوں کو ہموار کرنا تھا ۔محمد علی جالندھری صاحب لکھتے ہیں:۔
انگریز ملک پر قابض ہوا ۔ ۱۸۵۷سے ۱۸۶۹ء تک پارہ سال کے عرصہ کے بعد انگریزوں نے لندن سے ایک کمیشن بھیجا تھا ’’
ہندوستان میں اس بات کی تحقیق کے لئے کہ ’’ہم نے جنگ جیت لی۔ہمارا ہندوستنا پرقبضہ ہوگیا۔اس بارہ سال کے عرصہ میں
مسلمانوں نے ہماری حکومت مان لی یانہیں ۔وہ جو ہمارے ساتھ ٓازادی کی جنگ انہوں نے لڑی تھی ۔اس کے اثرات کیا ہیں،اور ان
کے دلوں کے کیا جذبات ہیںاور ان کے حاالت کیا ہیں‘‘اس کمیشن نے ایک سال ہندوستنا کا دورہ کیا۔اس کے بعد وہ کمیشن واپس
چال گیا ۔ہندوستان میں ۱۸۷۰ء میں وانٹ ہال میں میٹنگ ہوئی ۔جس میںا نہوں نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ ۔۔۔کمیشن کی رپورٹ یہ
تھی کہ مسلمانوں کا یہ مذہبی عقیدہ ہے کہ کسی غیر ملکی کے ماتحت نہیں رہ سکتے ۔ان کا مذہب اجازت نہیں دیتا کہ وہ مسلمان
غیر مسلم حکومت کے تابع رہیں۔ہندوستان کے مسلمانوں کے دلوں میں ولولہ جہاد موجود ہے ۔یہ کسی طرح کسی درجے تک بھی
کم نہیں ہوا۔ ۱۸۵۷ء میں جو جذبہ جہاد ان لوگوں کے دلوں میں پایا جاتا تھا وہ جوں کا توں موجود ہے ۔جب بھی کوئی لیڈر مسلمانوں
کو مل گیا تو ۱۸۵۷ء والے حاالت پیدا ہوجائیں گے ‘‘(پادریوں کی رپورٹ )پادریوں کی رپورٹ مندرجہ ذیل ہے ’’ہندوستنا کے
مسلمان پیروں کو بہت مانتے ہیں ۔ہم نے ہندوستان پر قبضہ جب کیا تھا تو مسلمانوں میں کچھ غدار تالش کئے تھے ۔ان غداروں کے
مل جانے کی وجہ سے ہم ہندوستان پر قابض ہوئے تھے ۔وہ غدار سیاسی اور فوجی حثیت کے تھے جو حاصل کئے گئے تھے ۔۔۔۔
اب قبضہ ہمارا ہو چکا ہے اور ہندوستان کے ہرچپہ چپہ پر ہم قابض ہوچکے ہیں۔اب ضرورت اس امنر کی ہے کہ مذہبی نقطہ نگا ہ
ٰ
دعوی کرا دیا جائے اورر اس کی نبوت سے مسلمانوں میں غدار تالش کیا جائے ۔اگر کوئی غدار مل جائے تو اس سے نبی ہونے کا
کو سرکاری امداد سے کامیاب wکیا جائے ۔اس صورت میں ہندوستان کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے ‘‘(خطبات ختم نبوت ج ۲ص ۲۰۷تا
)۲۰۹
انگریز نے ۱۸۵۷ء کی جنگ ٓاذادی کے بعد جب برصغیر میں اپنا پنجہ استبداد اچھی طرح گاڑ لیا۔تو انگریز نے اپنے قبضہ کو ’’
طول دینے اور استحکام حاصل کرنے کی خاطر کئی مختلف اقدامات wکئے ۔اس نے ایک کمیشن مقر ر کیا ۔سر ولیم ہنٹر کمیشن کی
رپور ٹ کے مطابق انہیں ایک ایسے ٓادمی کی ضرورت محسوس ہوئی جو مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد ختم کرے اور زبان و
قلم سے جہاد کی منسوخی کا اعالن کرے ۔اور انگریز کی اطاعت فرض قرار دینے کی خدمت wسر انجام دے ۔اس خدمت کے لئے ان
مرتضی کا بیٹا ٓانجہانی مرزا غالم احمد قادیانی تھا جس نے
ٰ کی نظر انتخاب قادیان کے ایک قدیم وفادار خاندان پر پڑی ۔مرازا غالم
انگریز کی اس طلب پر لبیک کہی ‘‘(مقاالت ختم نبوت ص )۵۳
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ برٹش گورنمنٹ نے مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے اور جذب جہاد ختم کرنے
کے لئے ایک نبی کھڑا کیا،مگر اس سے پہلے اس کی راہ ہموار کی گئی ،اسی سلسلہ کی ایک کڑی تحذیر الناس ہے ،اس رسالہ کا
بظاہر پس منظر یوں ہے کہ دہلوی صاحب کی عبارت جو ہم اوراق سابقہ پہ نقل کر چکے حضور ﷺ کے نظیر کے
ممکن ہونے پہ داللت کرتی تھی ،اس وجہ سے عبارت مذکور کا رد اہل سنت کی جانب سے کیا گیا ،اسی بحث کے دوران قائلین
نظیر نے اثر ابن عباس کو پیش کیا ،جو کہ شاذ اور مردود ہے ،اس کے متعلق ہم خود دیوبندی حضرات کی ٓاراء پیش کئے دیتے
ہیں۔سیف الرحمٰ ن قاسم لکھتے ہیں:۔
اس حدیث کا مفہوم ظاہر نظر میں عقیدہ ختم نبوت کے معارض ہے۔۔۔اب اگر اس حدیث کو لیا جائے تو ختم نبوت کا انکات نظر ٓاتا ’’
ہے ‘‘(حضرت نانوتوی اور خدمات wختم نبوت ص)۲۷۴
جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے ۔۔تو محدثین کے اصول سے یہ روایت شاذ ہے ،قابل اعتبار اور صحیح نہیں شمار کی گئی ’’
‘‘(کشف الباری ،جز بداء الخلق ص )۱۱۲
اسالم کی دعوت اس زمین کے سوا دیگر طبقات ارض میں کتاب و سنت سے کہیں ثابت نہیں اگر ہوتی تو ضرور اس بارۃ میں ’’
کوئی نص وارد ہوتی اور ٓانحضرت ﷺ ضرور اس کو بیان فرماتے اس بناء پر علماء نے اس اثر کو باوجود صحیح
االسناد ہونے کے شاذ بتالیا ہے ‘‘(معارف القرٓان ج ۸ص )۱۶۰
محدثین و اصولیین کے ایک مسلمہ قانون کے پیش نظر کہ یہ حدیث دیگر احادیث معروفہ کے خالف ہے اس وجہ سے شاذ اور ’’
معلول ہے اور احادیث شاذہ کو محدثین نے حجت نہیں سمجھا‘‘(معارف القرٓان ج ۸ص )۱۶۰
ان حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوئی کہ یہ اثر نہ ہی قابل حجت ہے اور نہ ہی اس سے کوئی مسئلہ اخذ کیا جاسکتا ہے ،اور یہ اثر
ختم نبوت کے بھی خالف ہے ۔مگر نانوتوی صاحب نے ا س اثر کے متن کو صحیح تسلیم کرکے تحذیر الناس لکھی ،جس میں خاتم
النبیین کے معنی ٓاخری نبی کا انکار کیا گیااور کہا کہ حضور ﷺ کے بعد بھی کوئی نبی پیدا ہوجائے تو خاتمیت
محمدیہ ﷺ میں کوئی فرق نہیں ٓاتا۔اس بناء پہ اسی دور میں موصوف کی مخالفت ہوئی ،مناظر احسن گیالنی لکھتے
ہیں:۔
اسی زمانہ میں ’’تحذیر الناس ‘‘نامی رسالہ کے بعض دعاوی کی وجہ سے بعض مولویوں کی طرف سے خود سید نا االمام ’’
الکبیر پر طعن و تشنیع کا سلسلہ جاری تھا‘‘(سوانح قاسمی ج ۱ص ،۳۷۰مکتبہ رحمانیہ اقراء سنٹر غزنی سٹریٹ اردوبازار،الہور)
ٓاپ(نانوتوی) کے زمانہ میں ہی یہ کتاب معرکۃ آالراء بن گئی تھی۔متعدد حضرات نے اس پراعتراضات کئے تھے‘‘ (ندائے ’’
دارلعلوم ۱۴۳۶ھصفر ص )۳۸
جس وقت موالنا (نانوتوی)نے تحذیر الناس لکھی ہے کسی نے ہندوستان بھر میں موالنا کے ساتھ موافقت نہیں کی بجز موالنا عبد ’’
الحئی کے (ملفوظات حکیم االمت ج ۵ص ،۲۹۶افاضات الیومیہ ج ۵ص ،۲۵۲سن طباعت ۹۸۸ائادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان )
اسی طرح موالنا محمد قاسم نانوتوی نے کتاب تحذیر الناس لکھی تو سب نے موالنا محمد قاسم نانوتوی کی مخالفت کی ‘‘(قصص ’’
االکابر ص ا،۴۶سن طباعت ۴۳۲اھ ،ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان)
یہی تھانوی صاحب لکھتے ہیںکہ
موالنا نانوتوی ؒ ایک بزرگ سے ملنے کے لئے ریاست رامپور تشریف لے گئے ۔۔۔۔۔جب رام پور پہنچے تو وہاں وارد و صادر کا ’’
نام اور پوراپتہ وغیرہ داخلہ شہر کے وقت لکھا جاتا تھا حضرت نے اپنا نام خورشید حسن( تاریخی نام )بتایا اور لکھا دیا اور ایک
نہایت ہی غیر معروف سرائے میں مقیم ہوئے۔اس میں بھی ایک کمرہ چھت پر لیا یہ وہ زمانہ تھا کہ’’تحذیر الناس‘‘کے خالف اہل
بدعات میں ایک شور برپا تھا ۔موالنا کی تکفیریں تک ہو رہی تھیں‘‘(ارواح ثالثہ ص ا،۲۰حکایت نمبر ،۲۶۳اسالمی کتب
خانہ،اردوبازار الہور)
خود قاسم نانوتوی دیوبندی نے بھی اپنی تکفیر کا تذکرہ کیا ہے،چنانچہ کہتے ہیںکہ
ٰ
فتوی دیا ہے ‘‘(قاسم العلوم ص ۳۰۸۔’’ دہلی کے اکثر علماء (موالنا نذیر حسین محدث کے عالوہ)نے اس نکارہ کے کفر پر
،۳۰۹حضرت نانوتوی اور خدمات ختم نبوت ص )۳۳۲
مفتیان دہلی وغیرہ جو کچھ میری نسبت بوجہ تحذیر الناس فرماتے ہیں تہمت ہی لگاتے ہیں ،یہ شور عالمگیر جس میں بجز تکفیر و’’
تضلیل قاسم wگناہ گار اور کچھ نہیں‘‘(تنویر النبراس ص ،۲۳حضرت نانوتوی اور خدمات wختم نبوت ص ا)۳۳
جن حضرات نے تکفیر کی تھی ان کے متعلق بھی نانوتوی صاحب کے ریمارکس قابل غور ہیں،وہ فرماتے ہیں:۔
کیونکہ میں ان(لوگوں ) کو اس زمانے کے اہل ایمان کا رہنما جانتا ہوں‘‘(قاسم wالعلوم ص’’)۳۰۹
خالد محمود دیوبندی صاحب نے رسالہ ابطال اغالط قاسمیہ کے حوالے سے لکھاکہ
حضرت موالنامحمد wقاسم نانوتوی کی بعض نادر تحقیقات اورعلمی ترقیقات بعض علماء کو پسند نہ ٓائیں یاا نہوں نے بعض روایات ’’
کو کمزور جانا اور نہ چاہا کہ ان سے استدالل کیا جائے تو انہوں نے حضرت کے خالف رسالہ ابطال اغالط قاسمیہ لکھا جو ۳۰۰اھ
میں بمبئی کے ایک مطبع سے شائع ہوا موالنا ارشاد حسین رام پوری اور موالنا فضل رسول بد ایونی کے جانشین موالنا عبد القادر
ٰ
فتوی کفر نہیں دیانہ انہیں ختم نبوت بد ایونی کے بھی اس پر دستخط ہیں ان میں سے کسی صاحب نے موالنا محمد قاسم صاحب پر
کا منکر کہالے دے کر بعض عبارات کا لزوم ثابت کیا‘‘(مطالعہ بریلویت ج ۳ص )۲۹۸
ٰ
فتوی تو دیا تھا اور جہاں تک یہ مغالطہ کہ انہوں نے ختم نبوت ڈاکٹر صاحب نے یہ تو اقرار کر لیا کہ ان حضرات نے لزوم کفر کا
کا منکر نہیں کہا تو اس پر عرض ہے کہ جناب پھر انہوں نے لزوم کفر کس چیز کا ثابت کیا ہے ذارا اس پر سے بھی پردہ
اٹھائیے ،اور اگر ڈاکٹر خالد محمود دیوبندی نے اس رسالہ مذکور کا مطالعہ کیا ہوتا تو ایسی غیر تحقیقی بات نہ کرتے ،اس رسالہ
میں واضح طور پہ موجود ہے کہ
در معنی منکر ختم نبوت اند‘‘(رسالہ ابطال اغالط قاسمیہ ص’’)۷
کیوں ڈاکٹر صاحب !کچھ ٖا فاقہ ہوا یا مرض جو ں کا توں برقرار ہے ،اس پہ عبد الحی لکھنوی صاحب کے دستخط بھی موجود
ہیں(ابطال اغالط قاسمیہ ، )۳۹یہاں بتالنا فقط یہ مقصود ہے کہ امام اہلسنت ؒ سے قبل ہی نانوتوی صاحب کی تکفیر و مخالفت کی گئی
تھی ،اس لئے مرتب کا محض امام اہلسنت کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں،اور صرف حسام الحرمین ہی نہیں بلکہ کئی ایک رسائل
تحذیر الناس کے رد پہ تصنیف ہوئے جس کی تفصیل کتاب ’’احسن نانوتوی ‘‘از ایوب قادری میں مالحظہ کی جا سکتی ہے ۔
ٰ
دعوی کا ڈھانچہ تیار میں کرنے معاونت کی ۔ الغرض یہ تحذیر الناس ہی تھی جس نے مرازا غالم احمد قادیانی اور اپنے
پیر کرم شاہ صاحب کو دیوبندی مولوی کامل الدین رتوکالوی ‘‘نے خط لکھا ،اور پیر صاحب سے ’’تحذیر الناس ‘‘نامی کتاب کے
متعلق تاثرات مانگے ،پیر صاحب اس خط کا تذکرہ یوں کرتے ہیں:۔
ٓاج سے تقریبا اکیس بائیس سال قبل موضع رتوکاال کے ایک مولوی مامل دین صاحب نے مجھے wخط لکھا اور استفسار کیا کہ ’’
میںموالنا محمد قاسم صاحب نانوتوی کی کتاب ’’تحذیر الناس‘‘کے بارے میں اپنی رائے سے انہیں ٓاگاہ کروں‘‘(تحذیر الناس میری
نظر میں ص)۴
جوابا پیر صاحب نے اپنے تاثرات رقم فرمائے،اور جوابی خط ارسال کیا ،جس کے کچھ اقتباسات wپیش خدمت ہیں:۔
حضرت قاسم العلوم کی تصنیف لطیف مسمٰ ی بہ تحذیر الناس کو متعدد بار غور و تائمل سے پڑھا اور ہر بار نیا لطف و سرور ’’
‘‘حاصل ہوا
جہاں تک فکر انسانی کا تعلق ہے حضرت موالنا قدس سرہ کی یہ نادر تحقیق کئی شپرہ چشموں کے لیے سرمئہ بصیرت کاکام دے’’
‘‘ سکتی ہے
موالنا خاتم النبیین کی صفت کی تخلیق فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ختم نبوت کے دو مفہوم ہیں ایک وہ ہے جہاں تک عوام کی ’’
عقل وخرد کی رسائی ہے اور دوسرا وہ ہے جسے خواص ہی خداد نور فراست سے کچھ سمجھ سکتے۔عوام کے نزدیک تو ختم نبوۃ
کا اتنا ہی مفہوم ہے کہ حضور پرنور ﷺ ٓاخری نبی ہیں ۔اور حضور کے بعد کوئی نبی نہیں ٓاسکتااور بے شک یہ
درست ہے اس میں کسی کو کالم نہیں اور نہ کسی کو مجال شک ہے اور اس میں شک کرنے واالدائرہ اسالم سے اسی طرح خارج
‘‘ہے جس طرح دوسری ضروریات دین سے انکار کرنے واال
پیر صاحب کا یہ خط بہت سی دیوبندی کتب میں موجود ہے ۔اس خط میں پیر صاحب نے یہ بات تسلیم کر لی کہ قاسم نانوتوی ختم
نبوت کا منکر نہیں بلکہ اس کا قائل ہے اور منکر کو کافر سمجھتا wہے ۔پیر صاحب wکے اس خط کی وجہ سے اہل سنت میں تشویش
کی لہر دوڑ گئی۔اور اس خط کے اکیس سال بعد ’’پیر صاحب ‘‘نے ایک کتاب بنام ’’تحذیر الناس میری نظر میں‘‘تصنیف کی۔پیر
صاحب فرماتے ہیں:۔
مجھے wافسوس ہے کہ جب پہلی بار میں نے تحذیر الناس کا مطالعہ کیا تو میری توجہ ان خطرناک نتائج کی طرف مبذول نہ ہوئی ’’
جو موالنا کی بعض عبارات پر مرتب ہوتے ہیں جن کا ذکر اب کیا جارہا ہے‘‘(تحذیر الناس میری نظر میں ص)۴۴
اب وہ خطرناک نتائج کیا تھے ،ان کے متعلق پیر صاحب لکھتے ہیں:۔
بنظر انصاف دیکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحذیر الناس میں متعدد قمامات اور متعدد ایسی عبارات ہیں جنہیں پیش کرکے ’’
دشمنان ختم نبوت مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈال سکتے ہیں(تحذیر الناس میری نظر میں ص)۳۳
ان احادیث قطعیہ کے مقابلے میں اپنی طرف سے ایک تفسیر کا اضافہ ایک اچنبہ ہے ۔اس پر بس نہیں بلکہ یہ تصریخ کرنا کہ ’’
خاتم النبین کا مفہوم اگر ختم نبوت زمانی لیا جائے تو نہ ٓایت میں استدراک درست ہوگا اور نہ ٓایت مقام مدح کے لئے موزوں ہوگی
ایک طرفہ تماشا ہے (تحذیر الناس میری نظر میں ص)۳۹
اس عبارت کے پڑھنے سے سب سے پہلے عقیدہ ختم نبوت کے اس مفہوم کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے جس پر ٓاج تک امت خاتم ’’
النبین کا اجماع رہا‘‘(تحذیر الناس میری نظر میں ص۳۴۔)۳۵
ناظرین۔ان خطرناک نتائج کی طرف توجہ مبذول کروانے کے باوجود اور یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ ’’تحذیر الناس‘‘میں اس
ختم نبوت کے اس مفہوم کا انکار ہے جس پہ امت کا اجماع ہے ،جناب پیر صاحب یہ لکھ بیٹھے کہ:۔
لیک مندرجہ ذیل اقتباسات پڑھنے کے بعد یہ کہنا درست نہیں سمجھتا کہ موالنا نانوتوی ختم نبوت کے منکر تھے ‘‘(تحذیر الناس ’’
میری نظر میں ص )۵۸
پیر صاحب کی یہ عبارت انتہائی درجہ کی خطرناک تھی ،اور اس کی بنیاد پہ ان کی تکفیر تک کی گئی ،پیر صاحب نے جس
اقتباس کی بناء پہ یہ فیصلہ صادر فرمایا ،شاید ان پہ اس کی حقیقت واضح نہ ہوسکی یا نانوتوی کی محبت سے سرشار ہونے کے
تعالی ہی جانتا ہے ،ہم یہاں مذکورہ اتقباس کی حقیقت ہدئیہ قارئین کرتے
ٰ سبب تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کیا،حقیقت حال توخدا
ہیں،نانوتوی صاحب لکھتے ہیں:۔
سو اگر اطال ق اور عموم ہے تب تو ثبوت خاتمیت زمانی ظاہر ہے ورنہ تسلیم لزوم خاتمیت زمانی بداللت التزامی ضرور ثابت ’’
موسی اال انہ ال نبی بعدی او کماقال ،جو بظاہر بطرز مذکور اسی لفظ خاتم
ٰ ہے۔ادھر تصریحات نبوی مثل انت منی بمنزلۃ ھارون من
النبیین سے ماخوذ ہے اس باب میں کافی ۔کیونکہ یہ مضمون حد درجہ تواتر کو پہنچ گیا ہے،پھر اس پر اجماع بھی منعقد ہوگیا ۔گو
الفاظ مذکور بسند تواتر منقول نہ ہوں۔سویہ عدم تواتر الفاظ باوجود تواتر معنوی یہاں ایسا ہی ہوگا ۔جب تواتر عدد رکعات فرائض و
وتر وغیرہ باوجود یکہ الفاظ حدیث مشعرہ تعداد رکعات متواتر نہیں،جیسا ان کا منکر کافر ہے ایسا ہی اس کا منکر بھی کافر
ہوگا‘‘(تحذیر الناس ص )۵۶
اس اقتباس کو اکثر پرستان تحذیر الناس ،نانوتوی صاحب کی صفائی میں پیش کرتے ہیں،مگر شومئی قسمت کہ یہ اقتباس خود متضاد
ہے،اس سے قطعی کاعقیدہ قطعا ثابت نہیں ہوسکتا،نانوتوی صاحب اس اقتباس میں فرماتے ہیں کہ عقیدہ ختم نبوت کا منکر اسی
طرح کافر ہے جیسے فرض اور وتر کی رکعات wکا منکر،اب یہ تو مسلمہ بات ہے کہ فرض کی رکعات تواتر سے ثابت ہے مگر
وتر کی رکعات wمیں اختالف ہے ،اور اس کے منکر کو کافر نہیں کہا جاتا ،اب اس وضاحت کی روشنی میں نانوتو ی صاحب کی
عبارت کا مطلب یہ ہوا کہ حضور ﷺ کے ٓاخری نبی ہونے کا منکر اسی طرح کافر ہے ،جس طرح فرائض کی
رکعات کامنکر،مگر کافر نہیں جیسے وتر کی رکعات کا منکر کافر نہیں ہے ۔لہذا یہ عبارت متضاد ہے جو کسی دعوے کی دلیل
ہرگز نہیں بن سکتی۔بہرحال پیر صاحب کی اس قابل مذمت کاروائی کے بعد اہلسنت میں ایک تحریر کا چرچا ہوا جس میں سنی کی
یہ تعریف کی گئی تھی کہ جو امام احمد رضا کے عقائد مانتا ہو،اس پہ پیر صاحب نے دستخط کئے۔اب کیوں کہ امام احمد رضا تو
قاسم نانوتوی اور دیگر حضرات جنہوں نے گستاخانہ عبارات لکھیں ہیں کو کافر مانتے ہیں،اس لئے اس تحریر کو رجوع سے تعبیر
کیا گیا،اس تحریر کے متعلق کوکب نورانی صاحب لکھتے ہیں:۔
جسٹس پیر محمد کرم شاہ ازہری نے سنی کنونشن منعقدہ الہور کے موقع پر اعلی حضرت مجدد بریلوی علیہ الرحمہ کی تحریروں’’
کی تائید کرتے ہوئے جو دستخط فرمائے وہ تحریر بھی کہیں شائع نہیں کی گئی ‘‘(الخطیب ،کتابی سلسلہ ۲۵،واں ،صفحہ نمبر ۷ا)
کیونکہ یہ تحریر شائع نہیں کی گئی اس لئے معاملہ شک میں پڑ گیا،مگر عدم رجوع کے قائلین کے نزدیک پیر صاحب ٓاخری دم
تک اپنی تحریروں پہ جمے رہے اور ان سے انحراف نہیں کیا،جبکہ رجوع کے قائلین اس تحریر اور چند دیگر شہادتوں کی بنیاد پہ
رجوع کے قائل ہیں۔
مختلف لوگوں کی معلومات اور اطالعات کسی شخص کے بارے میں مختلف ہو سکتی ہیں،اُس کی وجہ سے راویوں کا مختلف ہو
جانا قدرتی بات ہے،اور ایسا اختال ف باپ بیٹوں اور استادوں،شاگردوں میں بھی ہو سکتا ہے‘‘(شیخ محمد بن عبد الوہاب اور
ہندوستان کے علمائے حق صفحہ )۷۲،۸۲
یعنی ایک ہی شخص کے بارے راویوں کے اختالف کی وجہ سے ٓارا مختلف ہو سکتی ہیں۔تو اسی طرح پیر صاحب کے بارے میں
بھی ٓاراء مختلف ہیں ،جہاں ان کے عدم رجوع قائلین ہیں وہاں کئی حضرات ان کا رجوع بھی مانتے ہیں (،رسائل اوکاڑوی،حسامw
الحرمین کے سو سال ص،۲۷،۲۸مفتاح سنت ج ۱ص )۱۷۹اس لئے یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے ،خود علمائے دیوبند نے بھی ان کے
رجوع کا تذکرہ کیا ہے ،سعید الرحمن علوی نے لکھا :۔
لیکن ضیا القرٓان کی پہلی جلد کے پہلے ایڈیشن میں جو پیر صاحب اہلسنت کے مقتدر علما کرام جنہیں عرف عام میں دیوبندی اکابر
کہا جاتا ہے کو پاکبازان امت لکھ کر اب سے استفادہ کرتے نظر ٓاتے تھے وہ اب ایک روایتی فرقہ پرست کا روپ دھار کر فتنہ
تکفیر کے بانی اعلیحضرت فاضل بریلوی کا دفاع کرنے میں مشغول ہی نہیں بلکہ ضیا القرٓان سے وہ حصے نکال چکے ہیں جن
سے علمائے دیوبند کی عظمت سامنے ٓاتی ہے (بریلوی ترجمہ قرٓان کا علمی تجزیہ ص )۸
خالد محمود نے بھی مطالعہ بریلویت ج 1میں اسی بات کو تسلیم کیا ہے ،ابتقی عثمانی لکھتے ہیں:۔
بعض فرقے ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا کفر بالکل واضح ہوتا ہے اور اس میں کوئی شبہ کی بات نہیں ہوتی ،اب اگر کوئی اس ’’
صورت میں اختالف کرے تو پھر وہ مالمت کا موجب ہے ،لیکن جہاں وضاحت نہیں ہوتیاور دونوں طرف دالئل ہوتے ہیں تو اس
ٰ
فتوی دیتا ہے اور دوسرا نہیں دیتا تواب اس کونہ چاہیے کہ اس پر مالمت کرے اور نہ اس کو چاہے صورت میں ایک مفتی کفر کا
کہ اس پر مالمت wکرے ۔بلکہ دونوں اپنے اپنے مسلک پر رہیں اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں‘‘(انعام الباری ج ا ص ا)۳۳
لہذا جانبین میں سے کسی کو بھی کچھ نہیںکہا جائے گا۔اب ٓاخر میں ہم یوسف لدھیانوی کا حوالہ پیش کرکے اس بحث کوختم کرتے
ہیں۔ان سے سوال ہوا کہ انور شاہ کاشمیری نے عبید ہللا سندھی کو کافرکہا wگیا،تو جوابا حضرت لکھتے ہیں:۔
دونوں نے ان معلومات کے بارے میں رائے قائم کی جو ان تک پہنچی تھیں،ہرشخص اپنے علم کے مطابق حکم لگانے کا مکلف ’’
ہے ،بلکہ ایک ہی شخصکی رائے کسی بارے میں دو وقتوں میں مختلف ہو سکتی ہے،پھر تعارض کیسا ہوا؟(ٓاپ کے مسائل اور ان
کا حل ج ۲ص )۶۰۲
لہذا اگر کسی نے تکفیر کی ہے تو اس نے اپنی معلومات کی بناء پہ کی ہے ،اور یہ ہرگز ’’دست و گریبان‘‘نہیں۔
تصدیقات کا جواب
موصوف نے جتنی بھی تصدیقات پیش کی ہیں ،ان میں سے کسی نے بھی پیر صاحب کے تحذیر الناس کے متعلق متنازعہ بیان کی
تائید نہیں ،اس لئے کہ اکثر اس بیان سے ٓاگاہ نہیں اور اگر بالفرض کسی کو ٓاگاہی ہو بھی تو وہ رجوع کا قائل ہے لہذا یہ تصدیقات
ہمیں مضر اور موصوف کو مفید نہیں۔
موالنا احمد رضا خان نے اس تکفیری واردات میں جو ہتھیار استعما ل کیے ان کا پردہ چاک کرنے کے لیے تین بزرگ ٓاگے ’’
بڑھے ۔انہوں نے بڑی جرات سے خان صاحب کے خالف قلم اٹھا یا اور انہیں مجرم اور خائن قرار دیا‘‘(()۱عمدۃ المحدثین موالنا
مرتضی چاندی
ٰ خلیل احمد سہارنپوری()۲شیخ االسالم موالنا حسین احمد مدنی صدر مدرس دیوبند()۳سلطان المناظرین موالنا سید
پوری ،چوتھی شخصیت موجودہ دور میں پیر کرم شاہ صاحب االزہری ہیںجنہوں نے بے خوف و خطر حسام الحرمین کی تردید
فرمائی اور حجۃ االسالم موالنا محمد قاسم نانوتوی کو پاکان امت اور مقبول بارگاہ صمدیت قرار دیا اور صاف الفاظ میں خان بریلوی
کی تردید کرتے ہوئے موالنا قاسم wنانوتوی کو ختم نبوت کا نہ صرف قائل بلکہ اس ضمن میںٓاپ کا شمار مقبوالنبارگاہ صمدیت میں
کیا جیسا کہ عکسی خط سے بالکل ظاہر ہے (دست و گریباں ج ۲ص )۴۸
اعلی حضرت ؒ پہ الزام تو اس وقت درست ہوتا جب ٓاپ سے پہلے تکفیر موجود نہ ہوتی ،جبکہ علماء دیوبند کے ممدوح حضرات نے
بھی یہ فریضہ انجام دیا اور ٓاج خود دیوبندی حضرات ان عبارات پہ تحفظات کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں،اور جہاں تک
موصوف کے ذکر کر د ہ حضرات ہیں تو تفصیل کا موقع نہیں ہم جستہ جستہ کچھ تبصرہ ان تمامی حضرات پہ ہدئیہ قارئین کیے
دیتے ہیں۔
موصوف نے حسام الحرمین کے جواب میں ایک کتاب المہند علی المفند ‘‘ترتیب دی جو خود علماء دیوبند کے درمیان متنازعہ
ہے ،کتاب کے ہذا کے متعلق تفصیل تو ’’قہر خدا وندی بر فرقہ دیوبندی‘‘کی دوسری جلد میں موجود ہے ،سردست ہم چند چیزیں
عرض کرتے ہیں۔موصوف نے اعلی حضرت ؒ پہ خیانت کا الزام تو لگایا ہے مگر دلیل دینے سے قاصر رہے ،جبکہ یہی کام
موصوف کے ممدوح سے سرزد ہوا ہے ۔حسام الحرمین کے جواب میں لکھی جانے والی کتاب میں متنازعہ فیہ عبارات کو پیش کر
نے کی بجائے اپنی طرف سے منگھڑت خالصے لکھے گئے ،چنانچہ خلیل صاحب لکھتے ہیں:۔
جوکچھ موالنا نے اپنے رسالہ ’’تحذیر الناس‘‘میں بیان فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے ‘‘(المہند علی المفند ص ،۷۹ادارۃ الرشید ’’
کراچی)
یعنی دوسروں پہ خیانت کا الزام لگانے والے خود اس جرم میں ملوث ہیں،ایسے ہی موصوف نے اس کتاب میں جگہ جگہ غلط بیانی
سے کام لیا اور حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے سادح لوح حضرات کو فریب دینے کی کوشش کی،مثال لکھا:۔
فتوی جو طبع ہوکر شائع بھی ہوچکا ہے ‘‘(المہند ’’ؔؔ
ٰ قادیانی کے کافر ہونے کی بابت ہمارے حضرت موالنا رشید احمد گنگوہی کا
علی المفند ص )۱۰۶
ٰ
فتوی کا کوئی وجود نہیں،اور نہ ہی کوئی دیوبندی اس کا وجود ثابت کر سکتا ہے ۔ایسے ہی موصوف کی یہ خیانت جبکہ ایسے کسی
بھی قابل دید ہے کہ جناب نے حفظ االیمان کی عبارت لکھتے وقت ’’ایسا علم غیب ‘‘کے الفاظ حذف کر دئیے اور اپنی طرف سے
تاویالت پہ مشتمل عبارت پیش کی ،ایسے ہی جن حضرات نے اس کتاب پ ثبت تقریظات کو واپس لے لیا تھا موصوف نے ان کی
اجازت کے بغیر ہی شائع کر دیا ،چنانچہ خود لکھتے ہیں:۔
مخالفین نے اپنی سعی مخالف وغیرہ میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا تھا اور اس وجہ سے جناب مفتی مالکیہ اور ان کے بھائی ’’
صاحب نے بعد اس کے کہ تصدیق کر دی تھی ،مخالفین کی سعی وجہ سے اپنی تقریظ کو بحیلہ تقویت کلمات لے لیا اور پھر واپس
نہ کیا ،اتفاق سے ان کی نقل کر لی گئی تھی ،سو ہدئیہ ناظرین ہے ‘‘(المہند ص )۱۲۹
اب کذب و خیانت کی ایسی دیدہ زیب امثال پہ مشتمل کتاب کو جاندار جواب کہنا یہ مرتب صاحب کا ہی کام ہے ،حقائق سے اس کو
کچھ عالقہ نہیں۔
موصوف نے ’’الشہاب الثاقب ‘‘کے نام سے ایک کتاب تالیف کی ،جس کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ کتاب مذکور گالیوں سے پر
ہے ،چند ایک مالحظہ ہوں:۔
چونکہ شرم و حیا کا جامہ اتار رکھا ہے اذا لم تستحی فا فعل ما شئت پر عمل ہے جو چاہا زبان سے بک دیا‘‘(الشہاب ثاقب ص’’
)۲۶۵
خدا ورسول سے شرم تو تھی نہیں خلق سے بھی شرم نہیں کرتے‘‘(الشہاب wثاقب ص’’)۲۸۱
یہ انتہا درجے کا دجل اور فریب ہے جس کو مولف کذاب نے بے حیائی کے ساتھ دلیر بن کا گانٹھا اور مہتاب ہائے ہندوستان پر ’’
بے اصل اورخارج از عقل الزام اور اتہام لگائے اگر صحیح النسب ہے تو بہت جلد ان علماء حقانی کی کتابوں رسالوں فتاوائوںمیں یہ
بات دکھالدے‘‘(الشہاب ثاقب ص)۲۵۰
عوام کو دھوکہ دینے کے لئے اور اپنے شیطانی جال میں پھنسانے کے لئے بریلوی نے محض افترا?کیاتنہا تو اس کی کیا حقیقت
ہے اگر اس کی تمام فوج شیطانی بھی ٓاجائے‘‘ (الشہاب wثاقب ص)۲۵۰
کذاب نے ان کے ساتھ مکر کیا اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اس وجہ سے کوئی فائدہ مجدد بریلوی کونہیں ہوابلکہ بوجہ اس افترا? ’’
کے خود طوق لعنت میں گرفتا ہوا اور موافق حدیث نبوی مالزم کفر ہوا‘‘(الشہاب wثاقب ص)۲۵۵
یہ عیاری او رافترا بندی کی ہے اور حضرت علیہ السالم قبر میں زندہ ہیں ان کے روضہ اقدس پر اس رسالہ کو لیجا کر اپنی
خواہش شیطانی کو پورا پس اس کی تکفیر میں اور حضرت موالنا نانوتوی کی برا?ت میں خود حضرت رسول ﷺ
شاہد ہوئے‘‘(الشہاب ثاقب )۲۵۵
مجدد بریلوی عذاب الیم کا مستحق ہوا لعنۃ ہللا علی الکاذبین‘‘(الشہاب ثاقب ص’’)۲۵۵
مجدد صاحب بریلوی شیطان سے بڑھے ہوئے ہیں‘‘(الشہاب wثاقب از موالنا مدنی ص’’)۱۹۵
اپنی مقصد براری کے لئے بے شک مجدد صاحب کو طرح طرح کی تکلیفیں و مشقتیں و بے عزتیاںو بدنامیاں اٹھانی‘‘(الشہاب ’’
ثاقب از موالنا مدنی ص)۲۰۰
جو مجدد المضلین کا دعوی ہے یہ عقیدہ خالف اہل سنت والجماعت اہل ضالل کا ہے‘‘(الشہاب wثاقب ص’’)۲۱۱
اور یہ گئے بہ نیت مکر افتراء جانے سے نہ جانا بہتر ،ودنیا کی رسوائی اورٓاخرت کا وبال ساتھ الئے ،بریلوی،بریلوی ’’
مجددالمفترین نے خدا سے خوف کیا نہ رسول ہللا ﷺسے شرم کی مکہ معظمہ و مدینہ طیبہ میں شیطنت کا جال
پھیالیا‘‘(الشہاب ثاقب ص)۲۱۸
یہ فریب اور مکر بہت ہی بڑا دجال المجددین اور اس کے اتباع کا ہے‘‘(الشہاب ثاقب ص’’)۲۲۱
البتہ مجدد الدجالین اور ان کے اتباع بے شک وہابیہ کے قدم بہ قدم ہیں‘‘(الشہاب wثاقبص)۲۲۳
بریلوی اور اس کے اذناب نے محض افتراء پردازی کر رکھی ہے سوائے خبث باطنی اور دروح گوئی کے کوئی چیز ان کے پاس’’
مایہء افتخار نہیں ہے‘‘(الشہاب ثاقب ص)۲۶۰
دجال بریلوی نے یہاں پر محض بے سمجھی اور بے عقلی سے کام لیا ہے‘‘(الشہاب wثاقب ص’’)۲۶۶
بریلوی مجدد نے بوجہ اس کے کہ عقل اور حیا پر پردے پڑے ہوئے ہیں‘‘(الشہاب wثاقب ص’’)۲۷۰
البتہ کج فہم بریلوی بوجہ بے عقلی وبے علمی کے اتنا شعور نہیں رکھتا کہ ایسی باتیں سمجھے‘‘(الشہاب ثاقب ص’’)۲۸۳
جملہ اعتراضات مجدد التضلیل عبد الدینار و الدراہم کے عناد و افترا? یا کج فہمی ہ کم عقلی پر مبنی ہیں‘‘(الشہاب wثاقب ص’’)۲۸۹
قارئین کرام !جب انسان دالئل کا جواب دینے سے عاجز ٓاجائے تو پھر وہ یہی زبان استعمال کرتا ہے جو حکیم صاحب کررہے ’’
موسی تجھ پر جادو ہوگیا
ٰ یموسی ،مسحورا ‘‘میرے گمان کے مطابق تو اے ٰ ہیں۔ٓاخر فرعون نے بھی تو کہہ دیا تھا ’’انی ال ظنک
ہے اور مزید کہا ’’ان رسولکم الذی ارسل الیکم لمجنون ‘‘تمہارا پیغام النے واال جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ضرو بائو ال ہے
تعالی نے فرمایا ’’ما انت
ٰ ،ترجمہ شیخ الہند ،نیز مشرکین مکہ ٓانحضرت ﷺ کو (العیاذ باہلل)دیوانہ کہتے تھے ہللا
بنعمت ربک بمجنون تو نہیں اپنے رب کے فضل سے دیوانہ ۔تو یہ سلسلہ ابتداء سے چال ٓارہا ہے اہل باطل جب دالئل کا توڑ نہ کر
تعالی کے برگزیدہ بندے یعنی انبیاء علیہم السالم ہی کیوں نہ ہوں ۔تو پھر ماہ شما کی
ٰ سکے ،بیہودہ زبان پر اتر ٓائے ۔مدمقابل خواہ ہللا
!کیا حقیقت ہے ؟لہذا ہمیں اس سے کوئی پریشانی نہیں ہے ۔ٓاپ اپنا کام کرتے جائیں ہم اپنا
یعنی جو شخص دالئل سے عاری ہو ،وہ اس قسم کی بیہودہ زبان کا استعمال کرتا ہے ،جس سے کتاب مذکورہ کا دالئل سے خالی
ہونا ثابت ہوا۔ایسے ہی موصوف نے اپنی تائید میں منگھڑت کتب کے حوالہ جات دینے سے بھی دریغ نہیںکیا،ان چیزوں کا تذکرہ
کرتے ہوئے منظور نعمانی لکھتے ہیں:۔
ال ّش ہاب ثاقب اپنے مواد کے لحاظ سے بڑی قیمتی کتاب تھی ’’رجوم المدنیین‘‘کے ابتدائی واقعاتی ح ّ
صہ کے عالوہ ٓاگے جوابی ’’
حصّہ میںہمارے بزرگوں کے جوواقعات اور قصائد وغیرہ نقل کئے ہیںوہ مقصد کے لئے بہت مفید ہیںلیکن اس کی زبان اور حضرت
موالنا کی غیر معمولی مزاجی ش ّد ت کی وجہ سے اس سے زیادہ فائدہ نہیں ہو سکااس کے عالوہ اس میں خاص کمزوری یہ ہے کہ
اس میں ’’سیف النقی‘‘ کے اعتماد پردو حوالیغلط دیئے گئے ہیں‘‘(نقوش رفتگان از تقی عثمانی ص )۳۹۹
یعنی گھر والوں کا اقرار ہے کہ کتاب مذکور زیادہ فائدہ مند ثابت نہ ہو سکی ،اس لئے اسے جاندار جواب کہنا محض مغالطہ ہے ۔
پھر یہی صاحب لکھتے ہیں:۔
مجدد صاحب کو غیظ و غضب اہل ضالل سے نہیں ایسا ہوتا تو نیچریہ کے اقوال کو سراسر دہریت سے پر اور ان کے رئیس کی
تفسیر کی نصوص کو جو صراحتا ً قطعیات wکی مخالفت سے بھرے ہیں ضرور ذکر کرتے۔‘‘(الشہاب ثاقب از موالنا مدنی ص)۱۸۱
موصوف کا یہ قول بھی محض تعصب پہ مبنی ہے ،جس کا رد خود ان کے اپنے حضرات کے قلم نے کیا ہے مولوی عبدالحق خان
بشیر فرماتے ہیں:۔
ٰ
فتوی دیا گیا کہ ال تو?کلو ھم وال تشاربو ھثم وال تجالسوھم وال تناکحوھم واذا مرضوفال تعودھم و اذاماتو فال تشھد وھم ’’ اس میں یہ
وال تصلوا علیھم والتصلو معھم۔ان کے ساتھ کھانا نہ کھاو?ان کے ساتھ پانی نہ پیو۔ان کے پاس نہ بیٹھو۔ان سے رشتہ نہ کرو۔وہ بیمار
پڑیں تو پوچھنے نہ جاو?۔مر جائیں تو جنازہ پر نہ جاو?نہ ان کی نماز پڑھو۔نہ ان کے ساتھ نماز پڑھو‘‘( اظہارالعیب ص۱۴۵۔)۱۴۶
ٰ
فتوی ٓاپ پہلے دیکھ ٓائے ہیں:جو شخص پیر نیچر کے کفریات قطعیہ یقینیہ میں کسی ایک کفر پر مطلع ہونے کے بریلویوں کا یہ
بعداس کے کافر مرتد ہونے میں شک رکھے یا اس کو کافر مرتدہونے میں توقف کرے وہ بھی بحکم شریعت مطہرہ قطعا ً یقینا کافر
مرتد اور بے توبہ مرا تو مستحق عذاب ابدی ہے‘‘(مطالعہ بریلویت جلد ۱ص۲۶۰۔)۲۶۱
لہذا اعلی حضرت پہ الزامات لگانے والے خوداپنے ہم مشرب حضرات ک نزدیک مجروح ہیں،اس سے ٓاپ رحمۃ ہللا علیہ کی ذات
پہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ایک دوسری قسم کے القابات بھی نکلے ہیں جن کی نسبت میں کہا کرتا ہوں کہ ٓادمی ہو کر جانوروں کے نام اختیار کئے گئے ’’
کوئی بلبل ہند ہے۔کوئی شیر پنجاب ہے کوئی طوطی ہند ہے۔ اب ٓاگے کوئی گرگ ہندہو گا کوئی اسب ہند۔ کوئی فیل ہند۔ کوئی خرہند۔
‘‘کیا خرافات ہیں
ایک دوسری قسم کے القابات بھی نکلے ہیںجن کی نسبت میں کہا کرتا ہوں کہ ٓادمی ہو کر جانوروں کے نام اختیار کئے گئے کوئی’’
بلبل ہند ہے۔کوئی شیر پنجاب ہے کوئی طوطی ہند ہے۔ اب ٓاگے کوئی گرگ ہندہو گا کوئی اسب ہند۔ کوئی فیل ہند۔کوئی خرہند۔ کیا
‘‘خرافات ہیں
پھر ہم ان صاحب سے نقل کر چکے اعلی حضرت تکفیرنہ کرتے تو خود کافر ہوجاتے ،اس لئے جو شخص شکست مان گیا ہو ،اس
کے جواب کو جاندار کہنا چہ معنی وارد؟
سو عوام کے خیال میں تو رسول ہللا صلعم کا خاتم ہونا بایں معنے کہ ٓاپ کا زمانہ انبیا سابق کے کے بعد اور ٓاپ سب میں ٓاخری ’’
نبی ہیں۔مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔پھر مقام مدح میں ولکن رسول ہللا وخاتم
النبین فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہیے اور اس مقام کو مقام
مدح نہ قرار دیجیئے تو البتہ خاتمیت با عتبار تاخر زمانی صحیح ہو سکتی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسالم میں سے کسی کو یہ
بات گوارا نہ ہوگی کہ اس میں ایک تو خدا کی جانبب نعوذباہلل زیادہ گوئی کا وہم ہے ۔ٓاخر اس وصف میںاور قد و قامت و شکل و
رنگ و حسب wو نسب وسکونت وغیرہ اوصاف میں جن کو نبوت یا فضائل میں کچھ دخل نہیں ،کیا فرق ہے جو اس کو ذکر کیا،اور
روں کو ذکر نہ کیا۔دوسروے رسول ہللا ﷺ کی جانب نقصان قدر کا احتمال کیونکہ اہل کما ل کے کماالت کا ذکر کیا
کرتے ہیں اور ایسے ویسے لوگوں کے اس قسم کے احوال بیان کرتے ہیں۔اعتبار نہ ہوتو تاریخوں کو دیکھ لیجئے۔‘‘(تحذیر الناس
ص)۴۳
نانوتوی صاحب ’’خاتم النبیین ‘‘کے معنی ٓاخری نبی کا انکار کرتے ہوئے کہ یہ محض عوام کا خیال ہے کیونکہ لفظ ’’خاتم
النبیین‘‘مقام مدح یعنی تعریف کے لئے ٓایا ہے جبکہ ٓاخر میں ٓانا اپنے اندر کوئی فضیلت نہیں رکھتا ،اس لئے اگر اسے تعریف کا
مقام بہ مانا جائے تب تو یہ معنی درست ہے مگر اہل اسالم کو یہ بات اس لئے گوارا نہ ہوگی کیونکہ اسے سے ایک تو کدا کی
طرف زیادہ گوئی کا وہم ہوگا اور ثانیا حضور ﷺ کی طرف نقصان قدر کا احتمال ہوگا کہ ٓاپ ﷺ کا
رتبہ کم ہوجائے گا۔لہذا خاتم النبیین سے ٓاخری نبی مراد نہیں ۔اس کے بعد ساری بحث کا خالصہ یہی ہے کہ خاتم النبیین کا اصل
معنی خاتم مرتبی ہے اور اس کو ختم زمانی الزم ہے ،ان کے اسی عقیدہ کی وضاحت کرتے ہوئے سرفراز خان صاحب لکھتے
ہیں:۔
ٓانحضرت ﷺ بایں معنی خاتم النبیین ہیں کہ نبوت کے تمام مراتب ٓاپ پر ختم ہیں اور تمام مخلوق میںا ٓپ کے اوپر ’’
کسی اور کا رتبہ نہین اور چونکہ ٓاپ وصف نبوت کے ساتھ بالذات متصف ہیں اور باقی انبیاء کرام علیہم الصلوۃوالسالم بالعرض
متصف ہیں،اس لیے اگر ان مراتب میں سے صرف ایک لیا جائے تو دلیل مطابقی کے پر لفظ خاتم النبیین ختم نبوت مرتبی پر داللت
کرتا ہے اور ختم نبوۃ زمانی کاثبوت دلیل التزامی سے متحقق ہے‘‘(بانی دارلعلوم ص)۶۳
اس سے واضح ہوا کہ نانوتوی صاحب خاتم النبیین کا معنی خاتم رتبی کرتے ہیں،اور ان کے نزدیک اس معنی کو خاتم زمانی الزم
ہے ۔جبکہ خاتم النبیین کا حقیقی معنی ٓاخری نبی ہے ،جو تواتر سے ثابت ہے ،اور اس کا انکارکرنا خود علماء دیوبند کے نزدیک
کفر ہے ۔مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:۔
الحاصل لفظ خاتم کی دونون قراتوں اور ان کے معانی لغویہ پر مفصل بحث کا نتیجہ انشاء ہللا تعالی ٰناظرین کرام نے یہ نکال لیا ’’
ہوگا کہ اگر قرٓان و حدیث کی تصریحات اور صحابہ و تابعین کی تفاسیر اور ائمہ سلف کی شہادتوں سے بھی قطع نظر کر لی جائے
اور فیصلہ صرف لغت عرب پر رکھ دیا جائے تب بھی لغت عرب یہ فیصلہ دیتا ہے کہ ٓایت مذکور ہ کی پہلی قرات پر دومعنی
ہوسکتے ہیں ٓ،اخر لنبیین اور نبیوں کے ختم کر نے والے اور دوسری قرات پر ایک معنی ہوسکتے ہیں یعنی ٓاخر النبیین ۔لیکن اگر
حاصل معنی پر غور کیا جائے تو دونوں کا خالصہ صرف ایک ہی نکلتا ہے ،اور بہ لحاظ مراد کہا جا سکتا ہے کہ دونوں قراتوں
میں ٓایت کے معنی لغتا یہی ہیں کہ ٓاپ ﷺ سب انبیاء علیہم السالم کے ٓاکر ہیں‘‘(ختم نبوت کامل ص ۶۴حصہ ۱ول)
لغت عرب کے تتبع(تالش)کرنے سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ لفظ خاتم بالکسر یا بالفتح کسی قوم کی طرف یا جماعت wکی طرف ’’
مضاف ہو تو اس کے معنی ٓاخر ہی کے ہوتے ہیںٓ،ایت مذکورہ میں بھی خاتم کی اضافیت جماعت نبیین کی طرف ہے ،اس لئے اس
کے معنی ٓاخر النبیین اور نبیوں کے ختم کرنے والے کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتے ‘‘(ختم نبوت ص)۶۷
اے عقل کے مدعی !اسالم کے دم بھرنے والو!تمہیں اب بھی یقین ہوا کہ ٓایت میں خاتم النبیین کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں(ختم’’
نبوت ص)70
خالصہ یہ کہ ٓایت خاتم النبیین کے معنی جو خود نبی کریم ﷺ نے ہمیںبتالئے وہ یہی ہیں کہ ٓاپ ﷺ’’
سب انبیاء میں ٓاخری نبی اور تمام انبیاء کے ختم کرنے والے ہیں‘‘(ختم نبوت ص)۸۴
اس کے عالوہ جب خاتم النبیین کے معنی خود قرٓان مجید کی ایک سو ٓایات نے واضح طور پر بتال دئیے ہیں ،جس میں کسی قسم ’’
کے مجاز اور مبالغہ کو دخل نہیں دیا ،اور پھر نبی کریم ﷺ نے دوسو دس احادیث میں اس کی ایسی شرح کی ہے
جس میں کوئی خفا باقی نہیں رہا،اور پھر اجماع صحابہ اور اقوال سلف نے اس کے ظاہری اور حقیقی معنی مراد لینے پر مہر
کردی،تو پھر کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اس کے خالف کوئی مجازی معنی مرادلے ،اگرچہ الفاظ میں اس کا احتمال بھی ہو
،عجب ہے کہ خود متکلم ج ّل مجدہ اپنے کالم کے ایک حقیقی معنی بیان فرماتا ہے ،اور پھر اس کت رسول ﷺ جن
پر کالم نازل ہوا ،اس معنی کی انتہائی وضاحت کرتے ہیں،اور پھر اس کے رسول کریم ﷺکے شاگرد صحابہ کرام
اور پھر تمام علمائے سلف اسی کے معنی کو بیان کرتے ہوئے تصریح کرتے ہیںکہ یہ کالم اپنے ظاہری اور حقیقی معنی پر محمول
ہے ‘‘(ختم نبوت ص)۱۱۳
ٓاپ ﷺ کے بعد کسی اور نبی کا پیدا ہونا اگر ممکن مانا جائے تو قرٓانی الفاظ ولکن رسول ہللا کے ساتھ خاتم ’’
اعلی درجے کے پیغمبر ہیں اور ہمیں ختم نبوت مرتبیٰ النبیین کا کوئی جوڑ نہیں بیٹھتا ۔حضور ؑﷺ بیشک سب سے
سے انکار بھی نہیں ہے ۔ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ٓاپ کے کماالت wنبوت سے کاملین امت فیض ملتا ہے ۔لیکن ٓایت مذکورہ میں
جس سیاق سباق سے ٓاپ ﷺ کے روحانی باپ ہونے کااعالن ہے اس کے ساتھ خاتم النبیین کا لفظ ٓاپ
ﷺ کی کثرت امت کا بیان ہے اور اس کی داللت یہی ہے کہ اب قیامت تک پیدا ہونے والے انسان ٓاپ کی ہی امت
ہوں۔ٓاپ ﷺ کے بعد نہ کوئی نبی پیدا ہو نہ کوئی نئی امت بنے اور ختم نبوت کی اساس پر ٓاپ ﷺ کی
روحانی اوالف قیامت تک جاری رہے ۔خاتم النبیین کے اس معنی کے سوا کوئی اور معنی و مراد اس ٓایت کے سیاق سباق کے ساتھ
چسہاں نہیں ہوتے ‘‘(عقیدہ االمت فی معنی ختم النبوت ص )۱۳۲
یہ اسالم کی پہلی ٓاٹھ صدیوں کی بے الگ شہادت ہے۔امت نے اپنے اس پہلے دور میں لفظ خاتم النبیین سے کبھی یہ نہیں سمجھا ’’
کہ اس سے صرف تشریعی نبوت کا ختم مراد ہے اور اس ٓایت میں یہ تخصیص ہے ۔سب نے باالتفاق اس سے یہی مراد سمجھی کہ
اس میں نبوت اور رسالت ہر دور کے ختم کا کھال اعالن ہے اور یہ ختم نبوت پر نص ہے ‘‘(عقیدہ االمت فی معنی ختم النبوت ص
)۱۳۵
جوختم نبوت کا اس تفصیل سے اقرار نہیں کرتا ،اس میں تخصیص کا مدعی ہے وہ ختم نبوت کا منکر ہے مہر گز اس کا قائل نہیں’’
۔حضور ﷺ کا خاتم النبیین ہو نا قرٓان کی نص ہے اور وہ نص کا منکر ہے ‘‘(عقیدہ االمت فی معنی ختم النبوت ص
)۱۳۶
ٓاپ نے خاتم النبیین کے معنی یہی بیان فرمائے کہ ٓاپ کے بعد کوئی پیدا نہیں ہوگا۔کیونکہ لفظ خاتم النبیین جس سیاق و سباق میں ’’
وارد ہے اس کے معنی ٓاخری نبی کے سوا ہو ہی نہیں سکتے ‘‘(عقیدہ االمت ص )۱۶۵
خاتم ،بفتح تا و بکسر تا ہر دوطرح استعمال ہوتا ہے لیکن تاء فتحہ کے ساتھ حسن بصری اور امام عاصم ؒ پڑھتے ہیں باقی تمام ’’
قراء تا کے زیر پر اتفاق کئے ہوئے ہیں ،اعراب کے اس اختالف سے مفہوم میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی معنی وہی رہیں گے کہ
نبی اکرم ﷺ ٓاخری نبی ہیں اور ٓاپ کے بعد کوئی دوسرا نبی ٓانے واال نہیں ‘‘(نقش دوام ص ،۳۷۶ادارہ تالیفات
اشرفیہ ،چوک فوارہ ملتان پاکستان)
خاتم النبیین کے معنی جو خود نبی اکرم ﷺ نے بتائے ہیں وہ یہی ہیں کہ ٓاپ سب انبیاء میں ٓاخری ہیں اور انبیاء ’’
کے سلسلہ کو ختم کرنے والے ہیں‘‘(نقش دوام ص )۳۷۸
ٓایت مذکورہ میں چونکہ خاتم کی اضافیت نبیین کی طرف ہورہی ہے اسلئے اس کے معنی ٓاخر النبیین اور تمام نبیوں کے ختم ’’
کرنے والے کے ہوں گے ‘‘(ختم نبوت ص)۱۶
خاتم بکسر تا پڑھا جائے تو صفت کا اظہار کرتا ہے جو محمد ﷺ کو انبیاء میں سب سے ٓاخر بیان کرتی ہے ۔جس ’’
ٰ
دعوی کرتا ہے تو وہ ایک ایسی چیز کا مطلب ہے کہ ٓاپ کے بعد کوئی شخص مقام نبوت کو نہیں پہنچ سکتا ۔لہذا اگر کوئی نبوت کا
کا مدعی ہے جو اس کی رسائی سے باہر ہے ۔اسی لفظ کو بفتح تا خاتم پڑھا جائے تو بھی عرب علماء لغت کے مطابق اس کے یہی
معنی و تعبیر وہوگی ،حقیقت میں مفسرین و محققین نے اس کا یہی مطلب لیا ہے اور سنت صحیحہ نے بھی اسی کی تصدیق کی
ہے‘‘(احتساب قادیانیت ج ۳۵ص )۵۴
ان تمام حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ خاتم النبیین کے حقیقی معنی ٓاخری نبی کے ہیں ،جبکہ نانوتوی صاحب اس معنی کا
انکار کرتے ہیں،ہم ان کا اقتباس نقل کر چکے جناب کے نزدیک خاتم النبیین کا معنی ٓاخری نبی کرنا یہ عوام کا خیا ہے جبکہ اہل فہم
کہ نزدیک یہ معنی درست نہیں،اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خاتم النبیین کا لفظ مقام مدح میں ہے جبکہ ٓاخر میں
ٓانا کچھ فضیلت نہیں ،جبکہ موصوف کا یہ کہنا درست نہیںٓ،اخری نبی ایک فضیلت ہے ،جس کا اظہار خود نبی
پاکﷺ نے فرمایا ہے ٓ،اپ ﷺ کا ارشاد ہے :۔
بے شک رسول ہللا ﷺنے فرمایا چھ باتوں کی مجھ کو دوسرے انبیاء پر فضیلت حاصل ہے ۔۔۔۔میرے ساتھ انبیاء ’’
ختم کیے گئے ہیں‘‘(خیر المفاتیح ج ۶کتاب الفتن ص)۲۱۴
خاتم ۔۔۔الذی ختم النبیین ۔یہ ٓاپ ﷺ کی سب سے اعلی صفت اور افضل فضیلت ہے ‘‘(روضۃ المسلم ص ’’)۴۳
اس روایت سے معلوم ہوا کہ ٓاپ کا نبیوں میں ٓاخر ہونا صرف ایک زمانی تاخر نہیںبلکہ خدا کے نزدیک وہ خاص فضیلت ہے جو ’’
دیگر انبیاء علہیم السالم کے خصوصیات کے بالمقابل ٓاپ کو مرحمت ہوئی ہے ۔‘‘(احتساب قادیانیت ج ۴ص)۳۸۸
جب سرکار دوعالم ﷺنے ٓاخر االنبیاء ہونے کو فضیلت قرار دیا ہے تو کسی کو کیا حق ہے کہ اس کو نقص ’’
ٹھہرائے ‘‘(دالئل ختم نبوت ص)۴
پھر جناب کا یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ رنگ و حسب و نسب کو کماالت wنبوت میں دخل نہیں،حافظ اسلم لکھتے ہیں:۔
حضرت محمد کریم ﷺخود فرمایا کرتے تھے کہ تمام انبیاء علیہم السالم شریف النسب ہوتے ہیں[بخارہ حدیث نمبر’’
(‘‘]۴۵۵۳حضرت محمد ﷺ کا بچپن ص )۴۰
تعالی کا شاگرد ہوتا ہے ۔پیغمبر ہر مجلس،ہر محفالور ہر سوسائٹی میں بے داغ ہوتا ہے ۔حسب و نسب اور خاندان کے ’’
ٰ پیغمبر ہللا
اعتبار سے سر بلند ہوتا ہے ‘‘(خطبات امیر شریعت ص)۴۱
تاویالت کا ازالہ
یہ عبارت اپنے مفہوم میں واضح ہے مگر پرستان تحذیر الناس مختلف قسم کی تاویالت سے نانوتوی صاحب کو بچانے کی کوشش
کرتے ہیں ،ہم ان پہ بھی تبصرہ قلمبند کئے دیتے ہیں۔
تاویل اول :۔
تحذیر الناس پر اصل اعتراض یہ ہے کہ اس نے ختم نبوت کے متواتر معنی یعنی ٓاخری نبی کو عوام کا خیال کہ کر اس کی تغلیط
کی ہے اور اس پہ بزعم خود دالئل پیش کئے ہیں۔اس کے جواب میں پرستان تحذیر الناس کہتے ہیں کہ یہاں حصر کرنے کو یعنی
صرف یہی معنی کرنے کو عوام کا خیال کہا گیا ہے (الشہاب الثاقب،بانی دارلعلوم دیوبند،دفاع ختم نبوت صفحہ )۳۶۱
الجواب:ہم پہلے واضح کرٓائیں ہیں کہ یہاں حصر کی بحث نہیںبلکہ اس نے اس معنی کو ہی عوام کا خیال کہا ہے۔کیونکہ وہ کہتا
ہے :۔
خاتمیت با عتبار تاخر زمانی صحیح ہو سکتی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسالم میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی۔ (تحذیر
الناس مع تکملہ ص )۵
اب اس عبارت کو پرستان تحذیر الناس بار بار پڑھیں اور بتائیں کہ اس نے حصر پر بحث کی ہے کہ خاتم النبین بمعنی تاخر زمانی
پر۔اور ٓاگے اس نے جو اعتراض واراد کئے ہیں کہ ایک تو ہللا کی طرف زیادہ گوئی کا وہم ہو گا اور اس وصف کو نبوت یا فضائل
میں کچھ دخل نہیں اور رسوالہلل ﷺ کیجانب نقصان قدر کا احتمال یہ سب اعتراض اس نے تاخر زمانی پر کئے ہیں۔
لہذا یہ کہنا کہ اس نے حصر کرنے کو عوام کا خیال کہا یہ تفل تسلی و دھوکہ کے سوا کچھ نہیں۔بنیادی طور پہ نانوتوی صاحب کو
خاتم النبین کا معنی ٓاخری نبی لینے پہ جو اشکاالت ہیں ان کا خالصہ یہ ہے کہـ:۔
خاتم النیبین مقام مداح ہے اور ٓاخری ہونا اپنی ذات میں کچھ فضیلت نہیں رکھتا۔)(۱
خاتم النبین کے معنی ٓاخری نبی کو اس ٓایت میں موجود جملوں سے ربط نہیں۔)(۲
اگر مجھ سے پوچھتے ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دوسروں کی نبوت نبوت حضرت محمد ﷺ سے فیض یاب ہے
اور ٓانحضرت کی نبوت دنیا میں دوسروں کی نبوت سے فیضیاب نہیں ہے۔
معنی خاتم النبین اور ختم نبوت کے یہ ہیں کہ نبی اکرم کی نبوت ٓافتاب کے نور کی طرح زاتی ہے اور جیسا کہ ٓافتاب کا نور کسی
اور سے حاصل نہیں ہوتا اسی طرح حضورﷺ کی نبوت بھی کسی اور سے حاصل نہیں ہوئی (قاسم العلوم ص )۵۵
اس سے بھی یہ ثابت ہو گیا کہ وہ اس کا معنی صرف ختم کما الت کر رہا ہے ٓاخری نبی نہیں۔
ٓاگے سنو کامل الدین نانوتوی کی عبارت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے :۔
جو معنی عام لوگوں نے اس لفظ کے سمجھے وہ ٹھیک نہیں (ڈھول کی ٓاواز ص )۵۵
اس عبارت سے بالکل واضح ہوگیا کہ نانوتوی حصر پر نہیں معنی پر اعتراض کر رہا ہے۔ہم ٓاخر میں اتمام حجت کے موصوف کی
دوٹوک عبارت پیش کئے دیتے ہیں ۔جناب لکھتے ہیں:۔
اس کے بعد گذارش ہے کہ خاتم النبیین کا خاتمیت زمانی پر بالمطابقۃ داللت کرنا وہ بھی بطور حقیقت کوئی بیوقوف ہی سمجھے تو’’
سمجھے wعقالء سے تو یہ امید بے جا ہے‘‘(تنویر النبراس ص )۴۶
یعنی اگر کوئی شخص خاتم النبیین کا حقیقی معنی ٓاخری نبی سمجھتا ہے ،وہ بے و قوف ہے ۔اس عبارت کے ہوتے ہوئے اب بھی
پرستان تحذیر الناس کا یہ راگ الپنا کہ نانوتوی صاحب wاس معنی کو تسلیم کرتے ہیں ،درست نہیں۔پھر ایسے ہی لکھا:۔
عوام کے نزدیک مدلول مطابقی خاتم ،خاتمیت زمانی ہے ‘‘(تنویر النبراس ص ’’)۳۳
تاویل دوئم
حضرت موالنا نے جس کو خود اپنا مختار بتالیا ہے وہ یہ ہے کہ خاتمیت وہ یہ ہے کہ خاتمیت کو جنس مانا جائے اور ختم زمانی’’
و ختم ذاتی کو اس کی دونوعین قرار دیا جائے ،اور قرٓان عزیز کے لفظ خاتم سے یہ دو نوعیں بیک وقت مراد لے لی جائیں
‘‘(تحذیر الناس ص )۱۱۹
ختم نبوت کو مطلق اور عام رکھا جائے اور ختم نبوت زمانی اور ختم نبوت مرتبی کو اس کی مختلف قسمیں قرار دے کر سب ’’
قسموں کا ختم ٓایت خاتم النبیین کا مدلول مطابقی قرار دیا جائے ۔اس دوسری تقریر کو ہی موالنا نے اپنا مختار قرار دیاہے۔(عقیدہ
االمت فی معنی ختم النبوت ص )۲۳۶
عالء دیوبند کی یہ ژولید گی بھی قابل دید ہے ،صاحب تحذیر الناس کو بچانے کے نئی سے نئی تاویالت کی جاتی ہیں،مگر ان
تاویالت کے چکر میں دیوبندی حضرات کچھ اس طرح پھنسے ہیںکہ نکلنا اب بہت مشکل ہے ۔ہم صاحب تحذیر کا موقف سرفراز
صاحب سے نقل کر چکے کہ وہ خاتم النبیین کا معنی خاتم رتبی تسلیم کرتے ہیں ،مگر کیونکہ ان کے نزدیک خاتم رتبی زمانی کو
الزم ہے اس لئے وہ زمانی کے بھی معترف ہیں۔جبکہ دوسری طرف نعمانی اور خالد محمود صاحبان ایوں نغمہ سر ا ہیںکہ
نانوتوی صاحب خاتم سے بیک وقت دونوں طرح کی خاتمیت کو تسلیم کرتے ہیں،اگر اس تاویل کو مان بھی لیا جائے تو ہم یہی کہہ
گے کہ:۔
تفصیل اس کی یوں ہے کہ اگر خاتمیت سے مراد بیک وقت دونوں نوعیں لی جائیں ،تو نانوتوی صاحب کو اس بھنور سے نکالنا پھر
بھی کھٹن ہے ،کیونکہ وہ لکھ چکے ہیں کہ :۔
بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی ﷺ کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی wمیں چکھ فرق نہیں ٓائے ’’
گا‘‘(تحذیر الناس ص )۸۵
اس لئے اگر خاتمیت سے تمام انواع مراد لی جائیں ،تو اس عبارت کا سادہ سا مطلب یہی ہے کہ حضور ﷺ کے بعد
کوئی نبی ٓابھی جائے تو کسی قسم کی خاتمیت میں فرق نہیں ٓائے گا،جبکہ دیوبند حضرات کے نزدیک خاتمیت زمانی میں فرق ٓاتا
ہے ،مثال ابو ایوب لکھتے ہیں:۔
نبی ٓاجائے تو پھر ختم نبوت زمانی زمانی پر اثر پڑے گا‘‘(ختم نبوت اور صاحب تحذیر الناس ص ’’)۲۲۰
امام قاسم wالعلوم نے امکان عقلی یا ذاتی کی بات کی ہے ‘‘(ختم نبوت اور صاحب تحذیر الناس ص ’’)۲۶۰
بالفرض محال اگر دیوبندی حضرات کی طرف سے کی جانے والی اس امکان عقلی اور امکان وقوعی کی تقسیم کو تسلیم بھی کر
لیاجائے تو بھی نانوتوی صاحب کی کشتی کنارے نہیں لگتی ،اس لئے کہ موسوف کی ساری ژاژخائی کا محور اثر ابن عباس ہے
،اور اثر ابن عباس میں انبیاء کے امکان کا نہیں وقوع کا ذکر ہے ،اور اس وقوع کو مان کر ہی نانوتوی صاحب wنے خاتمیت کے
متعلق اپنی معروضات پیش کی ہیں،اس لئے یہ کہنا کہ وہ وقو ع تسلیم نہیں کرتا ،محض طفالنہ مغالطہ سے زیادہ کی حثیت نہیں
رکھتا۔
تاویل سوئم
اعلی و ’’
ٰ حضرت نانوتوی فرماتے ہیںکہ ختم نبوت سے نبی کریمﷺکے ٓاخری نبی ہونے کے ساتھ ساتھ ٓاپ کا
افضل نبی ہونا بھی سمجھٓ wاتا ہے‘‘(حضرت نانوتوی اور خدمات ختم نبوت ص)۲۷۷
یہ بات بھی درست نہیں اسلئے کہ ہم ثابت کر چکے کہ وہ خاتم النبین کے معنی ٓاخری نبی ہونے کے منکر ہیں،پھر جہاں تک خاتم
النبیین کا معنی افضل کرنے کا تعلق ہے تو اس پہ خودعلماء دیوبند کی عبارات پیش کی جاتی ہیں،ہللا وسایا دیوبندی لکھتے ہیں:۔
زبان عرب کے جملہ محققین میں سے کسی ایک نے بھی لفظ خاتم کا معنی افضل نہیں لکھا۔خواہ ت زبر کے ساتھ ہویا زیر کے ’’
ساتھ ہو ‘‘(قادیانی شبہات wکا ازالہ ج ۱ص)۴۶
پھر شاہد بشیر قادیانی نے کہا کہ لفظ خاتم کا ترجمہ ہے افضل اور خاتم النبیین کا مطلب ہے ،تما م نبیوں سے افضل ۔میں عرض ’’
کیا کہ یہی ٓاپ کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔دنیا کی سکی لغت یا ڈکشنری سے دکھا دیں ٓاپ کو منہ بوال انعام دوں گا‘‘(کامیابw
مناظرہ ص )۹۱
جب خاتم النبیین کے معنی افضل الر سل یا زینت انبیاء یا نبی گر ہوئے تو اگر کوئی جھوٹی موٹی شریعت لے ٓائے اور بعض احکام’’
کی مصالح رکیکہ کی وجہ سے ترمیم کر دے تو ٓاپ کس ٓایت سے اس کا منہ بند کریں گے ۔جب وحی الہی ٓاسکتی ہے جس سے
انکار سے انسان کافر ہوجاتا ہے تو بعض احکام جدید النے والے کے انکار سے بھی تو کا فر ہی ہوگا۔پھر نئی شریعت کیوں نہیںا
ٓسکتی‘‘(احتساب قادیانیت ج ۳۰ص )۳۵۷
مرزا قادیانی کے متبعین خاتم النبییین کا معنی افضل النبیین کرتے ہیں اور طرح طرح کی تاویل اور تحریف کر کے ا س متاثر ’’
ہونے والے شخص کو اپنا جیساملحد اور کافر بنا لیتے ہیں‘‘(احتساب قادیانیت ج ۳۹ص )۲۹۸
تاویل چہارم
اوال تو انہوں نے خاتم النبیین کے تحت تسلیم نہیں کیا ،اور اصل اختالف یہی ہے کہ وہ خاتم النبییین کے معنی ٓاخری نبی نہیں
مانتے ،اس لئے یہ اقرار انہیں مفید نہیں،دوئم ختم نبوت زمانی سے وہ کیا مراد لیتے ہیں ،اس کاتعین بھی ان کی کتب میں موجود ہے
،وہ لکھتے ہیں:۔
خاتم مراتب نبوت کے اوپر اور کوئی عہدہ نہیں یا مرتبہ نہیں ہوتا جو ہوتا ہے اس کے ماتحت ہوتا ہے اس لئے اس کے احکام ’’
اوروں کے ناسخ ہونگے۔اوروں کے احکام اس کے احکام کے ناسخ نہ ہونگے اور اس لئے یہ ضروری ہے کہ وہ خاتم زمانی بھی
ہو‘‘(مباحثہ شاہجہانپور ص )۵۲
تحذیر الناس کی عبارات کی تاویل کرتے ہوئے ایک صاحب لکھتے ہیں:۔
ٓاپ کا دین افضل و اکمل تھا اور دیگر جملہ ادیان کا ناسخ تھا اس لئے منسوخ ادیان کو پہلے ال کر ناسخ کو زمانی اعتبار سے بھی
ٓاخر میں کر دیا گویا فضیلت حقیقی تو مرتبی خاتمیت ہی سے تھی مگر حسب ضرورت زمانی خاتمیت بھی ٓاپ ہی کو عطا فرما
دی‘‘(تحذیر الناس ایک تحقیقی مطالعہ ص)۵۴
اب غور کیجئے کہ نانوتوی صاحب کس معنی میں خاتمیت زمانی مانتے ہیں،پھر دو ٹوک واضح لکھتے ہیں:۔
کماالت wانبیا سابق اور انبیا ماتحت کماالت محمدی سے مستفاد ہیں(تحذیر الناس ص )۸۹
:ایسے ہی لکھا
ٓاپ ﷺ کا بہ نسبت انبیاء ماتحت wبھی خاتم زمانی ہونا ثابت ہوتا ہے(تنوایر النبراس ص )۵۲
اب یہاں اب انبیاء ماتحت wمان کر خاتمیت زمانی کا باقی رہناتسلیم کیا جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ حضور ﷺ کا
دین ٓاخری ہے اور حضور ﷺ کی شریعت پہ عمل پیرا نبی ٓاسکتا ہے اور اس سے ٓاپ ﷺ کی
خاتمیت میں فرق نہیں ٓاتا،یہ ہے نانوتوی صاحب کاا عقیدہ جس سے ختم نبوت کا انکار نکلتا ہے،لہذا یہ تاویل بھی سود مند نہیں۔ ہم
نے انتہائی اختصار کے ساتھ نانوتوی صاحب کے عقیدہ کی وضاحت کر دی ہے ،اب ہم ابو ایوب صاحب کے شبہات کا مختصر
ازالہ بھی کئے دیتے ہیں،موصوف نے مقدمہ بہاولپور سے چند اقتباسات پیش کئے ،جوابا عرض ہے کہ اسی مناظرہ بہاولپور میں
موجود ہے :۔
اس ٓایت کے متعلق ضروری گذارشات یہ ہیںکہ خاتم النبیین کا معنی تمام محدثین علمائے لغت نے ٓاخر النبیین لکھے ہیں اور کتب ’’
لغات میں سے کوئی حوالہ ایسا نہیںکہ جس سے قطعا اور یقینا یہ ثابت ہوا کہ اس کے معنی اور بھی ہوسکتے ہیں۔پس لغت اور
قواعد عربیہ کے لحاظ سے اس کے معنی ٓاخر النبیین کے ہی ہوتے ہیں‘‘(مقدمہ بہاولپور ج ۱ص)۳۰۷
پھر اس میں دونوں معنوں کو تسلیم کیا گیا ہے ،جبکہ نانوتوی صاحب خاتم النبیین بمعنی ٓاخری نبی کے منکر ہیں جسکی تفصیل گزر
چکی ،اس لئے یہ حوالہ جات انہیں مفید نہیں اور ہمیں مضر نہیں۔
جناب نے المہند کی تائید علمائے اہلسنت سے ثابت کرنے کے لئے جو حوالہ جات پیش کئے وہان عقائد کی بات ہے دیوبندی عبارات
کو درست ہرگز نہیں کہا گیا،کیونکہ المہند مین ہمارے عقائد کو تسلیم کیا گیا ہے۔قارئین ’’رد المہند‘‘مالحظہ کریں المہند کا سارا
پول کھول دیا گیا ہے،پھر المہند میں کہیں بھی نانوتوی صاحب کی عبارات کا تذکرہ نہیں بلکہ من گھڑت خالصہ پیش کیا گیا ہے
چنانچہ خلیل احمد لکھتا ہے:۔
‘‘قال فی رسالۃ االمسماۃ ’’بتحذیر الناس‘‘ما حاصلہ ان الخاتیمیہ جنس تحتہ حاصلہ
‘‘جو کچھ موالنا نے اپنے رسالہ ’’تحذیر الناس‘‘میں بیان فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے
المہند ص
تو المہند میں عبارات ہر گز پیش نہیں کی گئیں بلکہ حاصل اور من گھڑت خالصہ نقل کیا گیا،پھر المہند میں ’’نبوت بالعرض‘‘کو
وسیلہ ظاہر کیا گیا جبکہ نانوتوی صاحب نے وصف نبوت کی دو قسمیں کی ہیں اور نبوت بالذات سے مراد حقیقی جبکہ بالعرض
سے مراد مجازی نبوت لی ہے،چنانچہ وہ خود بالعرض اور بالذات کے معنی بیان کرتے ہہوئے لکھتے ہیں:۔
مگر ناظرین اوراق گذشتہ کواس مین تامل نہ رہا ہوگا کہ موصوف بالعرض موصوف حقیقی نہیں ہوتا۔موصوف حقیقی وہ موصوف
‘‘بالذات ہی ہوتا ہے
جبکہ المہند میں ایسی کوئی بات موجود نہیں اس لئے المہند سے ’’تحذیر الناس‘‘کا وزن ہر گز کم نہیں ہوتا۔اسی طرح جن حضرات
نے بھی حضور ﷺ کی نبوت کو دیگر انبیاء کے لئے واسطہ قرار دیا ہے انہوں نے نبوت میں تفضیل تسلیم نہیں
کی،نہ ہی خاتم النبین بمعنی ٓاخری نبی انکار کیا ہے اور نہ ہی حضور ﷺ کے بعد کسی نبی کی ٓامد کو جائز قرار
دے کر یہ کہا کہ اس سے حضورﷺ کی خاتمیت میں فرق نہیں ٓاتا،یہ سب نانوتوی صاحب کا جرم ہے،اس لئے ان
ٰ
فتوی الزم نہیں ٓاتا۔پھر بالذات اور بالعرض کے متعلق انور شاہ کاشمیری لکھتے ہیں:۔ سب پہ کسی قسم کا کوئی
حضرت موالنا محمدقاسم wصاحب ہمارے اکابر دیوبند میں نہایت عظیم و جلیل شخصیت تھے اور علوم و حقائق کے بحر ناپید کنار
،ہمارےحضرت شاہ صاحب بھی ان کی علمی تحقیقات بڑی عظمت و اہتمام کے ساتھ بیان فرمایاکرتے تھے مگر بعض چیزوں پر نقد
فرمایا کرتے تھے مثالً فرمایا کہ حضرت موالنا قدس سرہ نے بالذات و بالعرض کو ہر کتاب میں چھیڑا ہےاور بالعرض کے عالوہ
ٰ
صلوۃ امام کو بالذات کہا ،نیز حضور ٰ
صلوۃ مقتدین کو مجاز اور مجاز اور واسطہ فی العروض کا لفظ بھی اطالق کیا ہے ،چنانچہ
علیہ السالم کی نبوت کو بالذات کہا اور بقیہ انبیا علیہم السالم کی نبوت کو بالعرض کہا ہے ،اس پر کسی عالم نے اعتراض بھی کیا
کہ پھر تو اور انبیا کی نبوت ہی نہ رہی۔مجھ سے حضرت االستاذ موالنا محمودحسن صاحب نے بیان کیا تو میں نے یہی کہا کہ
اعتراض تو قوی ہے باقی ختم نبوت کا انکار موالنا کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا کیونکہ موالنانے خود لکھ دیا ہے کہ ختم زمانی
کاانکار مجمع علیہ ہونے کی وجہ سےکفر ہے۔اس پر موالنا خاموش ہوگئے۔غرض میری رائے ہے کہ بالذات و بالعرض کے الفاظ
خواہ منطقی اصطالح سے یا اور وجہ سے مناسب نہیں ہیں ۔انبیاء علیہم السالم سب مستقل ہیں
نبوت بالذات اور بالعرض کی تعبیربھی مجھے اوپری لگتی ہے“(انوارالباری جلد نمبر 16صفحہ نمبر)464
ہو سکتا ہے یہ حوالہ موصوف کی بلباہٹ میں اضافہ کا سبب ہو اور جناب اس سے جان چھروانے کی سعی ناکام کریں،ہم کتاب
مذکور اور اس کے مصنف کی تائید نقل کئے دیتے ہیں،سرفراز خان صفدر لکھتے ہیں:۔
میرے رفیق محترم جناب موالنا سید احمد رضا صاحب بجنوری جن کو امام العصر موالنا محمد انور شاہ صاحب رحمہ ہللا کا نہ ّّ
صرف شرف تلمذ حاصل ہے بلکہ فرزند نسبتی کا شرف بھی حاصل ہے جن کے قلم سے صحیح بخاری کی محققانہ اردو شرح
انوار الباری وجود میں ٓارہی ہے(تسکین الصدور ص )24
عالمہ انور شاہ کشمیری رحمہ ہللا کے داماد اور شاگرد خاص موالنا احمد رجا بجنوری نے انوار الباری شرح صحیح بخاری جلد
نمبر 19میںبخاری شریف کی اس ٓاخری کتاب کی شرح کی ہے جو بے نظیر شرح ہے ۔عقائد کے حوالہ سے ہر شخس کو دیکھنی
چاہئے۔ویسے تو ساری انوار الباری بخاری کی بہترین شرح ہے کاش یہ مکمل ہوجاتی ۔شروع لے کر کتاب الوتر تک ہے ،یا پھر یہ
ٓاخری حصہ ہے ۔موالنا احمد رضا بجنوری حنفی اپنے زمانہ کے اہل السنت و الجماعت حنفی مسلک کے ترجمان مانے گئے
ہیں(المہند پہ اعتراضات کا جائزہ ص )30
اس کے بعد جو خواجہ قمر الدین سیالوی صاحب کے حوالہ سے گفتگو کی گئی وہ بھی موصوف کو مفید اور ہمیں مضر
نہیں،کیونکہ وہ دو معنی تسلیم کرتے ہیں ،جیسا کہ خود جناب نے لکھا:۔
بلکہ اگر کوئی دونوں معنی مراد لیتا ہے تو ٹھیک ہے جیسا کہ خواجہ قمر الدین سیالوی کے حوالے سے گزر چکا ہے‘‘(ختم ’’
نبوت اور صاحب wتحذیر الناس ص )۲۵۱
جبکہ نانوتوی صاحب خاتم النبیین بمعنی ٓاخری نبی کے منکر ہیں،لہذا یہ حوالہ بھی جناب کو سود مند نہیں۔
ناظرین !جناب نے یہاں اشرف سیالوی صاحب و دیگر کی جو عبارات نقل کیں جن کا خالصہ یہ ہے کہ اگرٓاپ کو عالم ارواح میں
نبی مانا جائے تو ٓاپ خاتم النبین تھے تو پھر ٓاپ کے بعد انبیاء کا ٓانا کیسے درست ہو سکتا ہے (دست و گریبان )2/65
الجواب:۔یہ ان حضرات کا ذاتی موقف ہے جسے خود دیوبندی حضرات کےاصول سے پیش نہیں کیا جا سکتا۔ہم ا س مسئلہ پہ
اختصار کے ساتھ چند گزرشات پیش کرتے ہیں۔حضور ﷺ کا اول ہونا نبوت ملنے اور ٓاخر ہونا بعثت کے لحاظ سے
ہے جس کے متعلق خود حضور ﷺ نے صراحت کی ہے ۔قاری طیب لکھتے ہیں:۔
اور پھر نبوت کی اس اولیت و ٓاخریت و خاتمیت کے ان دو متضاد پہلوئوں کو ایک ذات میں جمع کرنے کی صورت یہ فرمائی :۔انا
اولھم خلقا و اخر ھم بعثا ۔میں خلقت کے لحاظ سے سب سے پہال ہوں اور بعثت کے لحاظ ٓاخری ہوں (ٓافتاب نبوت ص )83
اور ان بعثت کے الفاظ کی تشریح کرتے ہوئے نسیم الریاض میں ہے :۔
ٰ
الھدی و الرشاد ج 1ص )83 فھو اولھم خلقا و ٓاخر ھم بعثا وھو ٓاخر النبیین باعتبار ان زمانہ تاخر عنھم (سبل
و اولست در نبوت کہ کنت نبیا ان ٓادم لمنجدل فی طینتہ ۔۔۔۔با وجود سبقت و اولیت ٓاخر ست در بعثت ورسالت(مدارج النبوۃ ج 1ص
)2
سب سے پہلے نبوت ٓاپ کو عطا ہوئی ۔۔۔سب سے ٓاکر حضور کا ظہور ہوا۔خاتم النبین ٓا پ ہی کا لقب ہوا (شان حبیب الرحمٰ ن )26
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ اگرچہ ٓاپ بباعث بعض حکمت اور مصلحت کے اس عالم دنیا میں سب انبیاءکے بعد پیدا کئے گئے اور
سب سے پیچھے ٓاخر زمانے میں ہدایت عالم کے لئے بھیجے گئے لیکن ٓاپ اس عالم میںدرگاہ خداوند کریم سے خلعت نبوت سب
سے اول پہن چکے تھے (رسائل میالد حبیب ص)33
اور نبوت کی ابتداء بھی ٓاپ سے ہے اور نبوت کی انتہا بھی ٓاپ پر ہے (تبیان القرٓان ج 1ص)151
تعالی نے ٓاپ کو سب نبیوں سے پہلے پیدا کیا اور ٓاخر میں مبعوث فرمایا (رسائل قادریہ ص )143
ٰ ہللا
میں تمام انبیاء سے پیدائش میں مقدم ہوں،اول ہوں ۔اور مبعوث ہونے میں ٓاخر ہوں(مقیاس نور ص)34
ان تمام حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حضور ﷺ کا اول النبین ہونا خاتم النبین ہونے کے منافی اور اس
کے برعکس موقف تفرد ہے جو ہمارے نزدیک مردود ہے،اس کی کوئی حثیت نہیں۔گھمن صاحب لکھتے ہیں:۔
فتوی دیا ہے اور اسی مسلک کے دوسرے عالم نے اپنیٰ اگر کسی مسلک کے عالم نے اپنے علم کے مطابق ایک بات لکھی ہے یا
مفتی بہ اور معمول بہ ہوگی اس کو مذہب قرار دیا جائے گا اور دوسرے کو شاذ یا
ٰ ٰ
فتوی دیا ہے تو جو بات تحقیق کے مطابق دوسرا
غلط یا منسوخ سمجھا جائے گا۔(جی ہاںفقہ حنفی قرٓان و حدیث کا نچوڑ ہے ص )23
پھر جمہور اہلسنت حضور ﷺ کو عالم ارواح میں نبی تسلیم کرتے ہیں(سیرت رسول عربی ص ،402+16بیانات
عطاریہ ج 3ص ،7مدارج النبوۃ ج 1ص ، 12ج 2ص ،14الیواقیت والجواہر ص ،401تخلیق کائنات صدقہ حضور کا ص ،77نبی
،فتاوی رضویہ ج 30ص +149+138ٰ ،مصطفی جان رحمت ج 3ص 905
ٰ مصطفی ص102+108+247
ٰ االنبیاء ص ،11انوار جمال
،245حدائق بخشش ص ،34تفریح الخواطر ص ،300مقیاس النور ص ،52جواہر البحار ص ،268میالد النبی ص +11
،13انبیاء سابقین بشارات سید المر سلین ص ،22تحقیقات ص ،16حسام الحرمین اور مخالفن ص،333مقام والیت و نبوت ص 15
،فتاوی شارح بخاری ج 1ص،416+379+375+356+352گلدستہ ٰ ،اثبات علم غیب ص ،51الشریعہ ص ،347بہار شریعت ص 85
عقائد و اعمال ص ،16شرح فقہ اکبر ص ،244جاء الحق ص ،345+392+742+754رسائل نعیمیہ ص ،472علم خیر االنام ص
،فتاوی اجملیہ ج 1ص ،48سامان بخشش ص ،102سرور القولب ص ،221رشد االیمان ص ،57نزھۃ القاری ج 1ص ٰ 307
،241ردشہاب ثاقب ص ،456نور محمدی ص ،8اسالمی عقائد ص ،151نور البصار ص ،15الخصائص ج 1ص ،44صراط الجنان
ج 9ص،714مباحث wسیرت ص،81فیضان فرض علوم ج 1ص ،25مکتوبات امام ربا نی ،مکتوب نمبر ،209مکتوب نمبر ،44جواہر
البحار ج 3ص،96شرح شفاء ج 1ص )247
قارئین!اس سے قبل کہ ہم جناب معترض کے پیش کردہ اشکاالت پہ اپنی معتروضات پیش کریں،ہم عالمہ اشرف سیالوی صاحب کا
عقیدہ واضح کرنا چاہتے ہیں۔ٓاپ ؒفرماتے ہیں:۔
نیز وہ نبوت اور تھی جو صرف مالئکہ اور ارواح انبیاء علیہم السالم تک محدود رہی اور اس عالم عناصر میں ظہور ہونے کے ’’
بعد والی نبوت اور تھی کو سب مکانوں کو بھی اور مکینوں کو بھی محیط ہوگئی (تحقیقات ص ،۱۴۶اشاعت ثانی )
جن حضرات نے ارشادنبوی کنت نبیاء و ٓادم بین الروح والجسد ظاہری معنی پر محمول کیا ہے اور ٓاپ کے لیے عالم ارواح میں ’’
بالفعل اور عملی نبوت تسلیم کی ہے اور مالئکہ اور ارواح انبیاء علیھم السالم کے لیے فیض رسان اور مربی ہونا تسلیم کیا ہے انہوں
نے ُٓا کے لئے دو نبوتیں اور دو رسالتیں تسلیم کی ہیں پہلی عالم ارواح کے اعتبار سے اور دوسری عالم اجسام اور ابدان کے اعتبار
سے (تحقیقات ص )۱۴۶
اسی طرح عالمہ جمل ؒ کی عبارت نقل کرنے کی بعد بطور فائدہ لکھتے ہیں:۔
عالمہ سلیمان جمل نے بھی دوسری جسمانی نبوت چالیس سال کی عمر میں تسلیم فرمائی ہے اور پہلی روحانی نبوت کو بھی دائم ’’
اور باقی اور مستمر تسلیم کیا ہے اس کے سلب ہوجانے کا شائبہ بھی نہیں ظاہر نہیں ہونے دیابلکہ روح مجرد اور روح بدن کے
حلول اور عالم اجسام کی طرف نزول کا فرق واضح کیا ہے کہ روح اقدس کی ارواح کے لئے نبوت کا معاملہ الگ ہے اور بدن
اقدس سے تعلق حلولی کے بعد ابدان و اجسام انسانیہ کے لئے نبی و رسول ہونے کا معاملہ جدا گانہ ہے (تحقیقات ص )۱۴۸
مندرجہ باال اقتباسات wسے یہ بات واضح ہوئی کہ سیالوی صاحب حضور ﷺ کے لئے دونبوتیں تسلیم کر تے ہیں،اور
عالم ارواح والی نبوت یعنی روحانی نبوت کو دائم اور مستمر سمجھتے wہیں،اور عالم اجساد میں چالیس سال کی عمر جسمانی نبوت
کا عطا ہونا تسلیم کرتے ہیں۔یہی بات عالمہ نذیر سیالوی نے بھی لکھی ہے ،چناچہ فرماتے ہیں:۔
دو مرتبہ نبوت و رسالت عطا کیا جانا حضور سید المرسلین ﷺ کے خصائص سے ہے ۔پہلی مرتبہ عالم ارواح میں’’
اور دوسری مرتبہ عالم اجساد میں عمر شریف کے چالیس برس پورے ہونے پر (نبوت مصطفی ص )۲۱
مگر اس کے ساتھ تحقیقات میں کچھ خطرناک قسم کی عبارات بھی موجود ہیں،جو غیر محتاط ہیں،جن کی نشاندہی ’’نبوت
مصطفی‘‘از مفتی نذیر احمد سیالوی اور ’’نبوت مصطفی ہر ٓان ہر لحظہ حصہ دوئم ‘‘از پروفیسر عرفان بٹ میں موجود ہے ۔مگر
کیونکہ سیالوی صاحب پہ حجت تمام نہ ہو سکی اس لئے ان کی تکفیر ممکن نہیں ۔جناب نذیر سیالوی صاحب لکھتے ہیں:۔
تصریحات بجواب نظریہ و تحقیقات کے ذریعہ اتمام حجت اور قبول حق کی دعوت ،اصل مقصود میں شامل ہے اور صاحب ’’
تحقیقات کو اس حقیقت سے ٓاگاہ کرنا بھی مقصود تھا کہ ان کے نام سے منظر عام پر ٓانے والی بعض کتب میں اہل اسالم کے ساتھ
کسی قدر بے رحمی کا سلوک کیا جارہا ہے ۔لیکن تصریحات کی طباعت صاحب تحقیقات کی عاللت کے ایام میں ہوسکی اور کچھ
ایام کے بعد ان کا انتقال ہوگیا جس کی وجہ سے موقع نہ ٓاسکا کہ کتاب مذکور انہیں بجھوائی جاسکتی ۔(محاکمہ عطائیہ کا مصنفانہ
جائزہ ص )۱۰۳
اس لئے ان احباب نے اپنی کتب میں واضح لکھا کہ یہ سب چیزیں سیالوی صاحب کے قول سے الزم ٓاتی ہیں،اور ایسا لکھنا بقول
ٰ
فتوی نہ لگانے کے مترادف ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:۔ خالد محمود کسی قسم کا
ٰ
فتوی کی زبان استعال نہ کی اور کوئی ’’ لیکن یہ الزام کیونکہ بطریق لزوم تھا بطریق التزام نہ تھا اس لئے ان حضرات کے خالف
ٰ
فتوی نہ دیا ‘‘(مطالعہ بریلویت ج ۸ص ۲۷۷۔)۲۷۸
ہم عرض کر چکے ہیں کہ تحقیقات سیالوی صاحب کا تفرد ہے ،خود ان کو بھی تسلیم ہے ،چنانچہ فرماتے ہیں:۔
معترضین سے میری گزارش ہے کہ اگر ٓاپ کو یہ راہ،راہ راست معلوم ہو اور اس پر گامزن ہونے کو جی چاہے تو فبہا،ورنہ جس
راہ کو موزوں سمجھیں ادھر رجوع کر لیں (تحقیقات ص 60۔)61
اس لئے ان کے نزدیک تکفیر تو کجا ان کے موقف سے محض اتفاق بھی ضروری نہیں۔
تحقیقات پہ اصل اعتراض یہ تھا کہ سیالوی صاحب کی عبارات سلب نبوت کے عقیدے کا اظہار کرتی ہیں۔قارئین عرض ہے کہ سلب
نبوت اس وقت الزم ٓاتا جب مصنف تحقیقات عالم ارواح میں نبی مانتے ہا پپیدائش سے پہلے تو نبی تسلیم کرتے مگر بعد میں انکار
کرتے،۔ابو ایوب صاحب لکھتے ہیں:۔
اشرف سیالوی حضور ﷺ کی نہ صرف پیدائشی نبو ت کے منکر ہیں بلکہ پیدائش سے پہلے بھی ٓاپ کی نبوت و
رسالت کے منکر ہیں‘‘( دست و گریبان ج ۲ص )۴۷
معترض کا یہ قول ہرگز درست نہیں،کیونکہ سیالوی صاحب عالم ارواح میں بھی نبی اکرم ﷺ کو نبی تسلیم کرتے
ہیں اور اس نبوت کو عالم اجسام میں بھی مستمر مانتے ہیں ،اور چالیس سال سے پہلے جس نبوت کا انہوں نے انکار کیا ہے وہ
جسمانی نبوت ہے ،جیسا کہ ہم نقل کر چکے ہیں۔اور معترض صاحب کوئی بھی ایسی عبارت پیش کرنے سے قاصر رہے جس میں
عالم ارواح والی نبوت ا انکار ہو،اس کے برعکس تحقیات میں ایسی عبارات موجود ہیں جو واضح کرتی ہیں کہ سیالوی صاحب ؒ
حضور نبی کریم ﷺ کو عالم ارواح میں نبی مانتے ہیں ہاں عالم اجسام میں اس نبوت کا مستوراور بالقوۃہونا تسلیم
کرتے ہیں ،چنانچہ فرماتے ہیں:۔
لہذا وہاں جو نبوت بالفعل تھی اور اس کے ٓاثار عملی طور پہ ظاہر تھے ،وہ بشریت کے پردہ اور حجاب کی مغلوب و مستور ہو ’’
گئی تھی اور فقط روحانی اور باطنی رہ گئی تھیاور جسمانی طور پہ بالقوۃ روگئی تھی‘‘ (تحقیقا ت ص )۶۰
لہذا یہ کہ کہنا سیالوی صاحب عالم ارواح والی نبوت کے منکر تھے درست نہیں ،ہاں چالیس سال سے پہلے وہ حضور
ﷺ کو بالفعل نبی تسلیم نہیں کرتے ،جیسا کہ ہماری نقل کردہ عبارت سے ظاہر ہے ،اور اس نبوت کو عالم اجسام
میں موثر نہیں مانتے ،جس پہ مزید شواہد بھی پیش خدمت ہیں۔ٓاپ رقم طراز ہیں:۔
اگر صحابہ کرام علیھم الرضوان ٓاپ کو وقت والدت سے نبی مانتے ہوتے تو پھر بت پوجنے اور شراب پینے کے بارے میں سوال’’
کیونکر کرتے ؟نیز ٓاپ نے یہ کیوں نہ فرمادیا کہ میں بچپن سے نبی تھا اور نبیوں سے ایسے ناپسندیدہ امور کیسے سرزد ہو سکتے
ہیں ؟(تحقیقات ص )۱۶۶
اگر ٓاپ ٓاغاز’’ والدت سے ہی بالفعل اور عملی طور پہ نبی تھے تو چالیس سال بعد اس کے حصول اور وصول کے لیے اس
خلوت کو ارہاص و اساس اور مبدا و بنیاد بنانے کی کیا ضرورت ہو سکتی تھی ؟(تحقیقات ص )۲۰۷
نیز نبی مکرم ﷺعالم ارواح میں بالفعل نبی ﷺ تھے ۔اور ارواح انبیاء علیہم السالم اور مالئکہ کو ’’
افادہ و افاضہ فرماتے رہے ،تو لباس بشری ،میں ملبوس ہونے پر وہ نبوت سلب تو نہیں ہوگئی تھی ،اگرچہ اس پر بشریت ایک طرح
کا ستر اور پردہ بن گئی تھی ۔اور پہلی نورانیت اور ضیاء پاشی وقتی طور پر پس پردہ چلی گئی ،لیکن اس قدر مغلوبیت بھی طاری
نہیں ہوئی تھی کہ بالکلیہ غفلت اور العلمی اور بے خبری اور بے شعوری والی کیفیت الحق ہوجاتی تو یہ وحی خفی اور کشف
صادق اس نبوت روحانیہ کا ثمرہ اور نتیجہ تھا نہ کہ یہاں عالم اجسام میں نئی نبوت ٓاپکو عطا ہو گئی تھی (تحقیقات ص ۳۵۱۔)۳۵۲
محمد اشرف سیالوی عفی عنہ نبی مکرم ﷺ کو عالم ارواح میں بالفعل نبی بھی مانتا ہے اور والدت پاک سے ’’
اعالن نبوت تک اس روحانی نبوت کے زوال پذیر ہونے یا سلب ہونے کا قائل بھی نہیں ہے بلکہ اس دوروان ٓاپ کو بالقوۃ نبی مانتا
ہے ‘‘(نظریہ ص )۲۱
اگر ٓانحضرت ﷺٓاغاز والدت سے ہی نبی ہوتے یا عالم ارواح والی نبوت دائم اور مستمر ہوتی اور ٓاپ کو اس
کے احکام مستحضر ہوتے تو علمائے کرام کے اذہان میں یہ سوال ہی کیو ں پیدا ہوتا کہ ٓاپ کسی شریعت پر عمل پیرا تھے یا نہیں ؟
(تحقیقات ص )۲۳۸
اس قسم کی عبارات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ سیالوی عالم ارواح میں حضور ﷺ کو بالفعل نبی تسلیم کرتے ہیں
،مگر عالم اجسام میں اس نبوت کو بالقوۃ مانتے ہیں،جس سے سلب نبوت کا قول الزم ٓاتا ہے ،چنانچہ نذیر سیالوی صاحب لکھتے
ہیں:۔
اور چونکہ منصب نبوت کا زوال اور سلب شرعا و عقال جائز اور ممکن نہیںہے اس لیے منصب نبوت جب ایک دفعہ حقیقتا اور ’’
بالفعل ثابت و متحقق ہو گیا تو ہمیشہپ wہمیشہ کے لئے بالفعل ہی رہے گا ‘‘(تصریحات ص )۸۵
اگر مطلق نبوت ہو تی تو عظیم معترض صاحب کا ارشاد صحیح ہے کہ نبوت تو نبی کریم ﷺ کو عالم ارواح سے ’’
ہی نبوت بالفعل حاصل ہے تو چالیس سال تک بالقوۃ ماننے سے نبوت کا زوال الزم ٓائے گا ‘‘(ارفع الدرجات ص )۱۹۶
ٰ
دعوی ’’ پس ثابت ہوا کہ شیخ الحدیث صاحب نبی کریمﷺ کو قبل از بعثت جسمانی طور پر بالقوۃ نبی مانتے ہیں اور
کرتے ہیں کہ جو نبوت عالم ارواح میں بالفعل تھی وہی جسمانی طور پر بالقوہ ہوگئی ،یعنی بہ قول عالمہ صاحب زوال کا شکار ہو
گئی (معاذ ہللا)(نبوت مصطفی ہر ٓان ہر لحظہ ص )۲۰۴
اپنے اپنے موقف پر استدالل کے حوالہ سے فریقین کی اس مضحکہ خیزی کے عالوہ بے احتیاطی ،بے انصافی اور ایک دوسرے’’
کے خالف رسہ کشی کی مشتے نمونہ از خروارے یہ کہ فریق اول نے نبی اکرم رحمت عالم ﷺ کی نبوت کے اس
استمرار سے بھی انکار کیا ہے جو ٓاغازٓادمیت سے بھی پہلے شروع ہو کر وقت بعثت تک مستمر رہی ہے (الرسائل و المسائل ج۲
ص ۸۰۔)۸۱
ان تمام مندرجہ باال اقتباسات سے یہ واضح ہوا کہ اشرف العلماء کے کالم سے سلب نبوت کا قول الزم ٓاتا ہے ،مگر کیونکہ الزم
ٰ
فتوی نہیں۔ قول ،قول نہیں ہوتا،اس لئے کوئی
اس لئے جناب نے سیالوی صاحب رحمۃ ہللا علیہ پہ جتنی جرح بھی پیش کی ہء وہ لزوم کے درجہ میں ہے۔عالمہ عبدالمجید سعیدی
لکھتے ہیں:۔
لیکن مخفی نہ رہے کہ حضور ﷺ کی نبوت مقدسہ کی شان اولیت کے منکر کا جو حکم کتاب ہذ ا میں جہاں کہیں ’’
بھی مذکور ہے ،وہ لزومی ہے ،التزامی نہیں کیونکہ التزام کے لئے جو امور درکار ہوتے ہیں یا شرائط ملحوظ ہوتی ہیں ،تادم تحریر
ان میں کامیابی نہیں ہوسکی ‘‘(تنبیہات ص )۱۰۹۶
نفس مسئلہ کے ظنی ہونے میں طرفین متفق ہیں ،مفتی نذیر صاحب wلکھتے ہیں:۔
عالم ارواح میں حضور سید المرسلین ﷺکا بالفعل نبی ہونا نصوص ظنیہ سے ثابت ہے‘‘ (نبوت مصطفی ص )۶۰۵
اس لئے کہ حضور سید المرسلین ﷺ کی عالم ارواح والی نبوت ہماری نسبت دالئل ظنیہ سے ثابت ہے ‘‘(نبوت ’’
مصطفی ص )۲۰
جہاں تک نفس مسئلہ کا تعلق ہے تو وہ ضروریات دین یا ضرورویات اہل سنت سے نہیںکہ جن کے منکر کو کافر یا گمراہ کہا جاتا’’
ہے بلکہ اس کی نوعیت مختلف فیھا بین اھل السنۃ ہے ،پس وہ قطعی طور پر مسائل کی قسم ثالث اور باب فضائل سے ہے جن کے
انکار پر تکفیر و تضلیل تو کجا تفسیق بھی نہیں ہوتی‘‘(تنبیہات ص )۶۵
مسائل تین طرح کے ہوتے ہیں۔ضروریات دین۔ضروریات عقائد اہل سنت اور مختلف فیہ فیمان بین اہل السنہ‘‘(تحقیقات ص’’)۳۱
نیز:۔
مقدمہ ثالثہ کے پیش نظر اس مسئلہ کی حثیت متعین کرنا ضروری ہے تو المحالہ یہ تیسری قسم میں شمار کیا جائے گا کیوں کہ ’’
خود اکابرین اہل سنت اور ہمارے اسالف کام کا اس میں اختالف کہ ٓاپﷺعالم ارواح میں بالفعل نبی تھے یا
نہیں؟‘‘(تحقیقات ص)۲۳
موالنا کے پاس اگر فرصت کے اتنے لمحات تھے تو ایک ظنی مسئلہ پر طبع ٓازمائی کے بجائے ہللا تعالی ،رسول ہللا
ﷺ اور دین اسالم کے خالف کاسہ لیسیوں اور ریشہ دوانیوں میں معروف فتنہ پرور لوگوں کا رد بالغ کرتے
‘‘(نبوت مصطفی ہر ٓان ہر لحظہ ج ۱ص )۱۸
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ نفس مسئلہ ظنی ہے اور یہی جمہور کا مقف ہے ،اور اس کے بلمقابل کوئی دوسرا موقف
قابل قبول نہیں۔عالمہ رحمت ہللا کیرانوی رحمۃ ہللا علیہ لکھتے ہیں:۔
اور اس جا پادری لوگ مغالطہ دینے کو بعض اہل تشیع کا قول نقل کردیتے ہیں۔اور جو اس قول کو اہل تشیع کے خود ہی جمہور ’’
علماء محققین رد کرتے ہیں تو وہ قول ہرگز اس قابل نہیں کہ اس سے ہم پر استدالل کیا جاسکے ‘‘(ازالۃ الشکوک ج ۲ص)۴
شیعہ فرقہ امامیہ اثنا عشریہ کے جمہور اور محققین علماء کے نزدیک قرٓان مجید تغیر و تبدل سے محفوظ ہے ۔اور اگر اس فرقہ ’’
ٰ
دعوی کرتا ہے تو اس کا قول ان جمہور علماء اثنا عشری کے نزدیک مردود اور ناقابل قبول کا کوئی شخص قرٓان میں کمی بیشی کا
ہے ‘‘(اعجاز عیسوی ص)۵۸۸
عالوہ ازیں یہ امر مسلم ہے کہ کوئی کتنا ہی بڑا محقق جمہور کے خالف قول کرے تو اس کا اتباع جائز نہیں،مسلک جمہور ہی کا’’
ٰ
الفتاوی ج ۴ص)۱۸۷ واجب االتباع ہے ‘‘(احسن
جناب نے مفتی نذیر صاحب کی عبارت پیش کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ نبوت سے قبل ولی تسلیم کرنا قطعیات کا انکار
ہے ،جبکہ مکمل عبارت یوں ہے :۔
ہاں البتہ عالم ارواح میں حضور سید المرسلین ﷺ کا بالفعل نبی ہونا تسلیم کرنے کے باجود اس بالفعل نبوت کے ’’
استمرار و دوام کی نفی اور زوال کا اعتقاد کر کے قبل از بعثت صرف ولی تسلیم کرنا ضرور قطعیات کا انکار ہے ‘‘(نبوت
مصطفی ص )۹۷
اس مکمل حوالہ سے واضح ہوا کہ جناب کس قدر اممانت و دیانت کا خون کرتے ہوئے عبارات میں قطع و برید کرنے میں ملوث
ہیں،ثاقب رسالپوری لکھتے ہیں:۔
دیانت داری کا تقاضا یہ تھا کہ ملک صاحب نے موطا امام محمد کی جو عبارت نقل کی ہے اس کے ساتھ پیوستہ عبارت بھی نقل ’’
کر دیتے ،شاید ملک صاحب اس کے نقل کرنے سے چشم پوشی اس لئے بھرتی ہے کہ اس کی وجہ سے ملک صاحب کی ساری
محنت پر پانی پھر جاتا ہے ‘‘(حضرت امیر معاویہ اور تاریخی روایات ص )۳۳
معترض نے ’’تحقیقات ‘‘کے متعلق ایک خواب نقل کیا کہ حضور ﷺ نے اس کی تصدیق کی ہے ،تو جوابا عرض
ہے کہ جب صوفی اقبال صاحب نے خواب نہیں بلکہ کشف پیش کیا تو اس کے معتقل قاضی مظہر حسین لکھتے ہیں:۔
شرعی مسائل ’’داالئل ‘‘سے ثابت ہوتے ہیں نہ کہ الہامات و مکاشفات سے ‘‘(تحفظ عقائد اہلسنت ص ،۴۰۵جامعہ حنفیہ فیصل ’’
ٓاباد)
تحقیقات کس کی تصنیف
اس مسئلہ میں کوئی شک نہیں کہ تحقیقات کا سیالوی صاحب کی قطعیت کے ساتھ تحریر ہونا ثابت نہیں ۔اور یہ صرف مفتی نذیر
صاحب ہی نہیں بلکہ مفتی عبد المجید سعیدی صاحب نے بھی لکھا ہے :۔
ور انہ ان کی ایسی تحریر مل سکی جسے قطعیت کے ساتھ ان کی تحریر قرار دیا جا سکے ‘‘(تنبیہات ص ’’ٓ)۱۰۹۶
لیکن کیونکہ سیالوی صاحب wرحمۃ ہللا علیہ کی طرف سے واضح تردید بھی موجود نہیں ،اس لئے انہیں بر ی الذمہ بھی قرار دیا
نہیں جا سکتا۔
لمحہ فکریہ!؟
جناب نے اس کے بعد یہ ثابت کرنے سعی کی کہ سیالو ی صاحب پانے مخالفین کو دائرہ اسالم سے خارج اور گستاخ کہتے ہیں
جبکہ جناب کی نقل کر دہ عبارت اس قسم کی تصریح سے یکساں خالی ہے ۔اور ہم مسئلہ ہذا کی نوعیت کے عنوان سے مفصل لکھ
چکے کہ نفس مسئلہ ظنی ہے یہی جمہور کا موقف ہے اس سے ہٹ کر کوئی بات حجت نہیں۔
ٰ
دعوی پہ بطور ثبوت پیش کی :۔ جناب معترض نے مفتی نذیر صاحب کی مندرجہ ذیل عبارت اپنے
اور جس عقیدہ پر اپنے مشائخ اور اساتذہ کو پا یا تھا اور خود بھی ساری عمر (عملی زندگی ) اسی کا پرچار کرتے رہے ،اب اس ’’
نظریہ اور عقیدہ کا بیان کرنا امت کو گمراہ کرنا قرار دے دیا اور تنقید و طعنہ زنی میں غیر محتاط لوگوں کے جواب میں( جب کہ
ان لوگوں کا رویہ بھی نہایت گھٹیا اور سراسر حماقت wپر مبنی تھا) اس نظریہ اور عقیدہ کے حاملین اور معتقدین کی قطعی تکفیر کر
الی تضلیل االمۃ (تکلمہ تحقیقات ص ،۴۰۱اشاعت دوم )
دی اور لکھ دیا ۔و کذلک نقطع بتکفیر کل قائل قال قوال بتوصل بہ ٰ
اور یہ نہ سوچا کہ اس تکفیر کی زد میں اپنے مشائخ اور اساتذہ سمیت wخیر القرون تک جمہور علمائے امت ٓارہے ہیں اور مزید وہ
سگینی ہے جس کو لکھنے کی سکت نہیں (نبوت مصطفی ص )۲۸۵
نیز جو حضرات یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہودیوں نے سرکار علیہ الصلوۃ والسالم ﷺ کو بچپن سے نبی مانا ،جو بچپن’’
سے نبی نہ مانے وہ یہودیوں سے بھی بدتر ہے ،ان کو شفا شریف کی اس عبارت پر غور کرناچاہیے و کذلک نقطع بتکفیر کل قائل
الی تضلیل االمۃ (تکلمہ تحقیقات ص ،۴۰۱اشاعت دوم )
قال قوال بتوصل بہ ٰ
ٰ
فتوی ہے ٰ
فتوی لگائے ،اس پہ اس عبارت کا واضح مطلب ہے کہ جو چالیس سے قبل نبوت نہ ماننے والوں پہ یہودیت یا تکفیر کا
،اور ہم واضح کر چکے کہ جمہور کے نزدیک یہ مسئلہ ظنی ہے ،اور اس کے انکار سے قائل کی تکفیر الزم نہیں ٓاتی ،لہذا ان پہ
ٰ
فتوی بھی نہیں۔
جناب نے ’’مسئلہ نبوت عند الشیخین ‘‘سے مندر جہ ذل عبارت کی نقل کی :۔
موالنا نے ملتان کے اپنے اس بیان میں نہایت ہی خطرناک طرز پر اپنے سامعین کو مخاطب کرکے ان سے سوال کیا کہ بتائو اگر ’’
حضور ﷺ کو پہلے نبی مان لیا جائے تو ختم نبوت کا کیا مطلب ہوگا یعنی ٓاپ خاتم النبیین کیو نکر ہو سکیں
گے‘‘(مسئلہ نبوت عند الشیخین ص)۲۵
جب علماء کی موجود گی مین قبلہ مناظر اسالم سے اس کی بابت دریافت کیا گیا تو ٓاپ نے فرمایا کہ ختم نبوت کا انکار اس صورت
میں ہے جب عالم ارواح میں وحی جلی اور بشریت تسلیم کی جائے جبکہ علماء اہلسنت میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں لہذا کسی
ٰ
فتوی نہیں۔ قسم کا کوئی
پھر جناب نے مفتی عبد المجید صاحب کی عبارت نقل کرنے میں بھی خیانت سے کام لیا،ان کی مکمل عبارت کچھ یوںہے:۔
بلکہ خود اسی حدیث۔۔۔کو موصوف سید ی عالم کے اول الخلق ہونے اور زمانہ قبل تخلیق ٓادم علیہ السالم بمعنی حقیقی خاتم النبین
قرار دیئے جانے کی دلیل کے طور پر پیش کر چکے ہیں اور اپنا عقیدہ و ایمان کہہ چکے ہیں (مسئلہ نبوت عند الشیخین ص)30
ٰ
فتوی لگا رہے ہیں۔ اس عبارت میں مفتی عبد المجید صاحب مجیب کے سابقہ عقیدہ پہ طنز کر رہے ہیں،نہ کہ اپنی طرف سے کوئی
شائق صاحب نہ تو ہمارے ہاں معتمد علیہ ہیں اور نہ ہی ان کا موقف جمہور کے مطابق ہے بلکہ انہوں نے اس مسئلہ میں شدت کی
راہ اختیار کی ہے ،اور خود دیوبندی حضرات کے نزدیک متشدد کی جرح قبول نہیں ۔الیاس گھمن لکھتے ہیں:۔
ایک بار ضمنا عرض کرتا جائوں ۔اسماء الرجال میں جرح اس ٓادمی کی لی جاتی ہے جو متسشدد wنہ ہوگا ،اگر متشدد ہوگا تو جرح ’’
کوئی نہیں دیکھتا ‘‘(حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ ص )۱۵۸
جناب نے مفتی اقتدار صاحب کی عبارت پیش کی کہ انہوں نے درود ابراہیمی کو ’’مکروہ تحریمی‘‘کہا ہے،جبکہ ہم پہلے ہی
واضح کر چکے ہیں کہ اما نووی نے ایسے دورود کو جو سالم کے بغیر ہو مکروہ لکھا ہے اس لئے اقتدار صاحب نے ان کے
حوالے سے کروہ لکھ دیا ہے اب دیوبندی حضرات امام نووی پہ سیدھا اعتراض کریں،اور پھر خود یہ حضرات ایسے دورود کو
ناقص اور شیعی درود کہتے ہیں اس کے متعلق بھی جناب کچھ لب کشائی کریں۔
یہ کتاب عرفان بٹ صاحب کی ہے جو دوحصوں پہ مشتمل ہے ۔کتاب ہذا کا پہال حصہ مفتی شعیب کے مضمون پہ تنقید ہے جبکہ
’’تحقیقات ‘‘پہ بھی مختصر تبصرہ موجود ہے ۔جیسا کہ لکھتے ہیں:۔
راقم الحروف کے دوست احباب نے فرمایا کہ اس مضمون کا جائزہ لوں جو موالنا شعیب اور عالمہ غالم نصیر الدین سیالوی ’’
صاحب کی تحقیقات پر مبنی ہے اور اس کا مناسب جواب لکھو‘‘(نبوت مصطفی ہر ٓان ہر لحظہ ص ۱۸۔)۱۹
اس لئے پلے حصہ میں موجود تنقید کا تعلق مفتی شعیب کے مضمون سے ہے ،جنہوں نے بعد از تنقید قابل اعتراض عبارات کو
ٰ
فتوی موجود نہیں۔ نکال دیا تھا،جبکہ دیگر عبارات پہ تنقید لزوم کے درجہ میں ہے ،اور کہیں بھی سخت
خود دیوبندی حضرات کے اندر بھی یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے،چنانچی اکرام علی صاحب بھا گلپوری لکھتے ہیں:۔،
کیونکہ قبل از نبوت بھی ٓاپ (ﷺ)ولی تھے بلکہ مسلم ہے کہ ہر نبی قبل از نبوت ولی ہوتا ہے‘‘(نفع المسلم ص’’
)۹۸۳
مزید لکھا:۔
حضور ﷺ نبوت سے قبل بھی ذہد و ریاضت کی وجہ سے غیر معممولی طاقت رکھتے تھے‘‘ (نفع المسلم ص’’
)۲۹۳
مکہ مکرمہ میں ٓانحضرت ۳۵سال تک رہے چالیس سال بعد نبوت ملی نبوت ملنے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ٓاپ گناہون سے
‘‘پاک تھے
حضورﷺ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی (انواررات صفدر ص )408
چالیس سال بعد نبوت ملتی ہے (خطبات ربیع اول 1/91مرتب حافظ ندیم قاسمی مکتبہ عشرہ مبشرہ)
اس قسم کے اقوال دراصل اس غلط فہمی کا نتیجہ ہیں کہ وہ انبیاء علیھم السالم کو قبل از نبوت وصف نبوت سے بلکہ وصف والیت
سے بھی عاری سمجھتے ہیں مگر درراصل یہ ان کے قصور فہم کا نتیجہ ہے اور اہل غرض اس قسم کے لوگوں کے اقوال سے
استناد کر کے امت کو غلط راستے پر ڈالنے کے مرتکب ہورہے ہیں اور ظلم کی حد یہ ہے کہ اس قسم کے اقوال اہل سنت
والجماعت کے حوالے سے پیش کیئے جا رہے ہیں حا النکہ اہل سنت والجماعت انبیاء علہیم السالم کو قبل از نبوت تو درکنار قب از
ہی(عصمت انبیاء ص )40 پیدائش عالم ارواح میں بھی نبی مانتے ؐ
تو جناب مفتی مدار ہللا مدار کیے نزدیک ایسے لوگ جو انبیاء کو پیدائشی نبی نہ مانے وہ اہل سنت سے خارج ہیور ان کا یہ قول
مردود ہے۔پھر جمہور محققین اہلسنت نے اس مسئلہ میں سیالوی صاحب کی تکفیر نہیں کی،خود قادری صاحب نذیر سیالوی صاحب
کے متعلق لکھتے ہیں:۔
ٓاپ صاف اسے کافر کہنے کی جسارت کیوں نہیں کرتے ‘‘(دست و گریبان ج ۲ص’’)۵۷
صاحب کی تکفیر نہیں کی گئی تو اسے دست و گریباں سے گرادننا بھی ہرگز درست نہیں،پھر اعجاز احمد
ؒ جب واضح ہوا کہ سیالوی
اشرفی لکھتے ہیں:۔
حافظ ابن تیمیہ کی نظر میں امام الحر مین ؒ اور امام غزالی ؒ کے عقائد کفریہ تھے اور تمام علماء وقت کے متفقہ مطالبہ کو ٹھکر ّّ
کر ان سب کو بھی مرتد و زندیق بتالیا گیا(روشن حقائق ص)19
اب ہم مرتب سے پوچھتے ہیں کہ وہ اہل اسالم کے دست و گریباں ہونے پہ کب مواد ترتیب دے رہے ہیں؟؟؟
اس جگہ نہایت مختصر طور پہ مناظرہ جھنگ پہ ہونے والے اعتراضات کا جواب پیش خدمت wہے ،جس میں حافظ اسلم صاحب wکے
اعتراضات کے عالوہ دیگر دیوبندی حضرات کے اعتراضات کا بھی مختصر پوسٹ مارٹم موجود ہے۔
اعترض:۔’’گستاخ رسول کون‘‘کے موضوع پر ہونے والے سات wگھنٹے کے مناظرے میں سیالوی صاحب بریلویوں کی گستاخانہ
عبارات کا جواب دینے میں بری طرح ناکام رہے ۔اس کا ثبوت پیش کیاجاتا ہے :۔
موسی علیہ السالم کے کالم اور عمل میں فرق ٓاگیا اور وپ اپنے مقصد میں ناکام ہوگئے (مقیاس حنفیت))ب(
ٰ حضرت
جب یہ گستاخانہ عبارات پیش کی گئیں (مناظرہ جھنگ ص،۱۳۳ص)۱۹۹تو سیالوی صاحب جب جواب دینے سے عاجز ٓاگئے تو
ٓاخر کار سیالوی صاحب نے اپنے مولوی کو غیر معتبر مان کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ مولوی عمر اچھروی تو میرا ہم
عصر ہے ارو اس سے بریلوی مسلک کا تشخص قائم نہیں(مناظرہ جھنگ ص)۲۰۳مولوی عمر اچھروی کو بریلوی شیخ الحدیث عبد
الحکیم شرف قادری نے اپنے اکابر میں شمار کیا ہے (تذکرہ اکابر اہلسنت )
سب سے پہلے عرض ہے کہ یہ جناب کا سخت جھوٹ ہے کہ سیالوی صاحب نے عمر صاحب کو غیر معتبر کہا بلکہ صرف اکابر
میں سے نہیں بلکہ معاصرین میں سے شمار کیا پھر خود دیوبندی مانتے ہیں کہ ہر معاصر اکابر میں سے نہیں ابو ایوب صاحب
لکھتے ہیں:۔
جو کہ ہمارے اکابرین و بزرگوں میں سے نہیں بلکہ معاصر میںسے ہیں (فضل خدا وندی ص )54
اور جہاں تک عبارات کی بات ہے تو ان پہ بھی مختصر بحث پیش خدمت ہے ۔مولوی حق نواز نے اعتراض کیا تھا:۔
اور میں اپنی ا سی ٹرن میں جاء الحق اور انوار شریعت کے حوالے کے ساتھ ساتھ ایک اور حوالہ پیش کرنا چاہتا ہوں کہ جس ’’
میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر کوئی کتے کو مان لے کہ اس پر قرٓان اترا ہے اگر کوئی کتے کو نبی مان لے کہ یہ میرا پیغمبر ہے اور
کتے کی طرح عو عو کرتا پھرے تو مقیاس الحنفیت میں موالنا عمر اچھروی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کرے تو
‘‘غالمان مصطفی کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں ملے گا اور نہ وہ عذاب الیم میں گرفتار ہوگا
ناظرین اس پہلے کہ اچھروی صاحب کی عبارت اور سیالوی صاحب کے جواب کے متعلق کچھ عرض کیا جائے ،مختصر سی
تمہید پیش کی جاتی ہے تاکہ ساری بحث سمجھنے wمیں ٓاسانی ہو۔تھانوی صاحب نے لکھے تھا:۔
ٓاپ (ﷺ)کی ذاتت مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہو تو دریافت طلب امر یہہے کہ کہ اس
غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کل غیب ؟اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس مین حضور کیا تخصیص ہے ایسا علم غیب تو
زید ،و عمر بلکہ ہر صبی ومجنون بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لئے بھی حاصل ہے‘‘( حفظ االیمان)
اس عبار ت میں تھانوی نے صاحب کے نزدیک حضور ﷺ کو جتنا علم علم غیب ہے اس میں ٓاپ
ﷺ کی کوئی تخصیص نہیں بلکہ اس جیسا علم غیب تو جانورو ں اور پاگلوں کو بھی ہے ،اور حضور
ﷺ کے علم غیب کو قرٓان کہا گیا ہے ،تو جب تھانوی صاحب نے حضور جیسا علم غیب تسلیم کیا تو المحالہ انہوں
نے ان چیزوں پہ قرٓان کا نزول مان لیا اس پہ عمر اچھروی صاحب نے الزاما یہ بات کہی تھی ،فرماتے ہیں:۔
تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ قرٓان مجید جو ٓاپ کی طرف وحی کر ر ہے ہیں یا رسول ہللا یہ تمام غیبی خبریں ہیں اور مصنف ٰ ہللا
حفظ االیمان نے یہ کہا ہے کہ ایسے علوم غیبیہ تو صبی ومجنون اور کتے بلے خنزیر کو بھی حاصل ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے
کہ بعض علوم غیبیہ جن کو قرٓانا شریف کہا جاتا ہے ہر فرد حیوان اور صبی اور مجنون پر بھی نازل ہیں تو میرے خیال میں
مصنف مذکور کو جو قرٓان شریف نبی ﷺ پر اترا ہے اس کی اتباع کی کیا ضرورت ہے کسی لٹرکے یا دیوانے یا
مصطفی کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہ ملے
ٰ کتے وغیرہ کے نازل شدہ قرٓان پر ہی ایمان لے ٓائے اور ٓائو ٓائو کرتا پھرے تا کہ غالمان
‘‘
تو کتے پہ قرٓان نازل ہوا ہے یہ تھانوی کی عبارت سے الزم ٓاتا ہے اور عالمہ عمرا چھروی نے صرف الزام قائم کیا ہے ،ا س
مسئلہ کی مکمل وضاحت سیالوی ساحب wنے کی تھی ۔چنانچہ مناظری جھنگ میں موجود ہے :۔
جب ان غیوب کی خصوصیات کا انکار کیا گیا تو گویا ان قرٓاںی علوم کا حامل ان کتوں وغیر ہ کو بھی اسی طرح تسلیم کر لیا گیا ’’
ہے تو اس میں نبی کریم ﷺ کے وصف نبوت کے ایک خاص مابہ االمتیاز امر یعنی علوم غیبہ کے ادراک و حصول
کو ان بچوں پاگلوں اور جانوروں میں تسلیم کر لیا گیا اورر علوم غیبہ کا حصولکا ذریعہ کیا تھا قرٓان مجید تو جب علوم غیبیہ غیر
میں میں تسلیم کر لئے گئے تو ذریعہ کو ماننا بھی الزم ٓاگیا
جب کہ اس چیز کو دیوبندی مناظر نے چھوا تک نہیں اور صرف مشورہ پہ اعتراض کرتا رہا ،اور اس اعتراض کا بھی سیالوی
صاحب نے مکمل جواب دے دیا تھا (مناظرہ جھنگ ص۱۳۸۔)۱۳۹اور پھر مزید ٓاگے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا :۔
اور ان کی عبارت میں تو ’’ہو‘‘ہے ’’ہوگا‘‘نہیں ہے وہ اپنے طور ہ یہ خبر نہیں دے رہے ہیں یہ غلط ہے بلکہ موالنا اشرفعلی ’’
تھانوی کی کالم سے یہ بات الزم ٓاتی ہے (مناظرہ جھنگ ص)۱۴۹
اس ساری گفتگو کا دیوبندی مناظر نے کوئی جواب نہیں دیا اور بار بار ایک ہی اعتراض دہراتا رہا،اسبن ساری بحث کو حافظ اسلم
صاحب کوے کا شوربہ سمجھ کر ہڑپ کر گئے ۔
مقیاس الحنفیت کی اس عبارت پہ جو اعتراض کیا گیا تھا اس کا جواب شاہ عبد الحق اور رشید احمد گنگوہی سے دیا گیا تھا ()(۲
موسی و خضر کے واقعے سے جواب دیا گیا جس ٰ ۱۹۲۔)۱۹۵پھر جو قول وعمل میں تضاد کے حوالے سے اعتراض تھا اس کا بھی
کا تعلق نسیان سے تھا (مناظرہ جھنگ ۔ص )۲۰۳،۲۰۸ان میں کسی بات کا جواب حق نواز نہ دے پائے اور دیوبندی معترض نے
بھی ان کو چھپانے میں عافیت سمجھی۔
ان کتب کا یہ جواب دیا دیا گیا تھا کہ یہ کتب ومصنفین معتبرنہیں،اور ان کو شرئط مناظرہ کی رو سے پیش نہیں کیا جاسکتا۔خود
دیوبندی مولوی حق نواز نے بھی تقویۃ االیمان کا انکار کیا تھا:۔
قابل صد احترام سامعین تقویۃا الیمان شاہ اسمعیل صاحب کی کتاب کے حوالہ جات پیش کئے گئے تو میں واضح کر دینا چاہتا ہوں
کہ ہماری طرف سے ہمارے شیخ العرب وا لعجم حضرت حسین احمد مدنی نے اس تقویۃ االیمان بارے مین لکھا ہے کہ غیر معتبر
کتاب ہے (مناظرہ جھنگ ص )۱۶۱
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اس نے جدلی یا الزامی طور پہ نہیں بلکہ مکتوبات شیخ االسالم کے حوالہ سے اس کا غیر معتبر ہونا بتالیا
ہے ،جس میں موجود ہے :۔
تقویۃ االیمان حضرت گنگوہی رحمۃ ہللا علیہ کی کتاب نہیں ہے ،یہ کتاب حضرت موالنا محمد اسمعیل شہید رحمۃ ہللا علیہ کی ّ
طرف نسبت کی جاتی ہے ]جس کی نسبت میں بھی لوگوں کو کالم ہے[ (مکتوبات شیخ االسالم ج 2ص)206
رسالہ تقویۃ االیمان حصہ دوم اردو یہ موالنا شہید کا قطعا نہیں ہے(مککتوبات شیخ االسالم ج 2ص)205
ایسے ہی لکھا:۔
اسیطرح یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ تقویۃ االیمان موالنا شہید کی ہے مگر موالنا نے فرصت نہیں پائیکہ اس پر نظر ثانی فرماتے
(مکتوبات شیخ االسالم ج 2ص)206
لہذا یہ تاویل بالکل ہی بوگس ہے،اب جب جناب نے تقویۃ االیمان کو غیر معتبر کہا تو سیالوی صاحب نے اس پہ گرفت کی اور
حوالہ جات سے ثابت کیا کہ یہ معتبر کتا ب ہے (مناظرہ جھنگ ص )۱۶۶تو اس گرفت سے گھبر اکر حق نواز کو یہ کہنا پڑا کہ
ترجمہ خود نہیں کیا تھا جبکہ ارواح ثالثہ میں ترجمہ کے متعلق بھی یہی تصریح ہے کہ یہ ترجمہ خود دہلوی نے کیاتھا۔اب جس
طرح سیالوی صاحب نے تقویۃ االیمان کا معتبر ہونا ثابت کیا تھا جناب حق نواز صاحب wبھی ان حضرات کا جن کو غیر معتبر کہا
گیا تھا معتبر ہونا ثابت کرتے لیکن وہ اس قسم کاکوئی حوالہ پیش نہ کر سکے ،اب ان کے حواریوں کا ان حوالہ جات کو پیش کرنا
مقصود نہیں کیونکہ بحث کا تعلق مناظرہ جھنگ میں دئیے گئے دالئل سے ہے ۔پھر مزید عرض ہے کہ علماء اہل سنت کی گرفت
کی بدولت اس تقویۃ االیمان کا انکار اور اس میںا لحاق دیگر حضرات نے بھی لکھا ہے،ابو السعد احمد خاں فرماتے ہیں:۔
اگر ان کی ایک معتبر کتاب سے یہ ثابت ہو کہ وہ ایک کامل صوفی اور پورے متادب بآادب طریقت تھے تو پھر ان کے نام سے
تقویۃ االیمان کی نسبت غلط قرار پائے گی کہ نہیں(تحفہ سعدیہ ص)278
حضرت کے اس قیاس کی تائید بعض محققین کے خیال سے بھی ہوتی ہے چنانچہ حال میںموالنا حکیم عبد الشکور صاحب مرزا
پوری نے ایک رسالہ بنام التحقیق الجدید علی ٰ تصنیف الشہید تالیف کیا ہے ،جس میں ثابت کیا ہے کہ تقویۃ االیمان شاہ اسمعیل کی
تالیف نہیں۔یہ رسالہ کتب خانہ خانقاہ سراجیہ مین موجود ہے (تحفہ سعدیہ ص)279
۔اگال اعتراض مجیب کا فوائد فریدیہ کی عبارات کے حوالے سے ہے کہ ان کا جواب نہیں دیا گیااور انکار کردیا۴
الجواب:۔ یہ بھی جناب کے کذاب ہونے کی ایک دلیل ہے کیونکہ سیالوی صاحب نے واضح طور کلمہ کے حوالے سے جواب دیتے
ہوئے کہا تھا ’’اگر تم خواجہ ہند کو علماء بریلوی کے کھاتے میں ڈالتے ہو تو بے شک ہم ان کے اس قول کا جواب دینے کے لئے
تیار ہیں‘‘(مناظرہ جھنگ ص )۲۱۸پھر ٓاگے وضاحت کی تھی ’’ٓاپ یہاں حضرت خواجہ معین الدین اجمیری (رضی ہللا عنہ)کی بات
پیش کر رہے ہیں ،فقراء سکر کے اند ر(انا الحق )بھی کہہ جاتے ہیں ان کو سولی پر لٹکایا دیا جاتا ہے وہ ایک الگ معاملہ ہے
ٰ
فتوی نہیں ‘‘(مناظرہ جھنگ ص )۲۱۹یعنی انہوں نے وضاحت کر دی تھی کہ ان عباراے کا تعلق سکر و مستی سے ہے اور ان پہ
لگتا اور پھر جوابا تھانوی کا حوالہ بھی دیا تھا (ایضا)لہذا یہ کہنا کہ ان کا انکار کر دیا اور عبارات کا جواب نہیں دیا یہ سختw
جھوٹ ہے،خود دیوبندی مفتی نے لکھا:۔
نویں عبارت فوائد فریدیہ کی تھی ۔سیالوی ساحب wاس کی بھی کوئی وضاحت نہ کر سکے صرف ایک کلمہ دانی عبارت کا جواب ’’
‘‘دینے کی ناکام کوشش کرتے رہے
اب ساون کے اندھے کا کوئی عالج نہیںاور وہ کوشش کامیاب تھی یا ناکام اس کا فیصلہ تو مصنفین نے کردیا ،مگر یہ تسلیم کر لیاگیا
کہ سیالوی ساحب نے جواب دیا تھا اب حافظ صاحب کا یہ کہنا کہ بالکل جواب نہیں دیا کذب اور غلط بیانی کے سوا کچھ نہیں۔
حافظ اسلم نے چار عبارات نقل کر کے کہا کہ ان کاجواب بالکل نہیں دیا گیا (دست وگریبان ج ۲ص)۹۹جبکہ سفیا ن معاویہ لکھتا
ہے :۔
ان تین عبارات کا مناظرے میں بالکل جواب نہیں دیا گیا ‘‘(مناظرہ جھنگ نمبرص)۱۱۳لہذا اب ان دونوں میں سے جھوٹا کون ہے’’
اس کو فیصلہ تو دیوبندی حضرات کریں گے،یہاں یہ عرض ہےکہ اگر وقت کی قلت کی بنا پہ کچھ عبارات کا جواب نہ دیا جائے
اور بقول دیوبندی یہ شکست کی دلیل ہے تو سب سے پہلے یہ دلیل ٓاپ کے حق نواز پہ الگو ہوتی ہے ۔جناب نے بھی مندرجہ ذیل
عبارات کو کوئی جواب نہیں دیا تھا
سیالوی صاحب نے تقویۃ االیمان کی عبارت پیش کی تھی کہ انبیاء اولیاء ذرہ ناچیز سے بھی کم تر ہیں(مناظرہ جھنگ ص)(۱
)۱۵۹اس کا دیوبندی مناظر نے کوئی جوااب نہیں دیا
سیالوی صاحب نے براہین قاطعہ کی عبارت کہ ’’مجھ کو دیوار کے یچھے کا علم نہیں‘‘پیش کی تھی (مناظرہ جھنگ ص (۲))۲۲۶
سیالوی صاحب اسی براہین قاطعہ سے عبارت پیش کی جسکا خالصہ یہ تھا کہ حضورﷺ کو اردو زبان )(۳,
دیوبندی حضرات سے معاملہ کے بعد ٓائی ہے(مناظرہ جھنگ ص )۲۳۷
مزید اسی براہین قاطعہ سے ایک عبارت پیش کی گئی تھی جس میں حضور ﷺ کی والدت کا جشن منانا سانگ )(۴
کنہیا کے مانند ہے(مناظرہ جھنگ ص )۲۵۱ان عبارات کا حق نواز ساحب نے کوئی جواب نہیں دیا اور دیوبندی اصول سے یہ ان
کی شکست کی دلیل ہے۔
ٰ
فتوی لگا دیا اعتراض :۔مجیب نے اعتراض کیا کہ سیالوی صاحب نے انوار شریعت والے کو غیر معتبر کہا پھر اس پہ
ٰ
فتوی جاری کیا تھا کہ ’’اگر تحقیق سے یہ اس پہ عرض ہے کہ سیالوی صاحب پس منظر سے ٓاگاہ نہ ہونے کی وجہ سے مشروط
بات ثابت ہو جائے کہ موالنا نظام الدین نے یہ الفاظ کہے ہیں‘‘(مناظرہ جھنگ ص)۱۹۰یعنی فتوی ٰ اس صورت میں ہے جب موالنا
ٰ
فتوی نہیں لگتا۔اور جہاں تک اس عبارت کا کہ الفاظ اپنے ہوں جبکہ یہ بات انہوں نے مرازئیوں کے حوالیس ے کہی ہے لہذا ان پہ
تعلق ہے تو ناظرین!انوار شریعت کی عبارت میں مرزائیوں کو الزامی جواب دیا گیا ہے ،خالد محمود لکھتے ہیں:۔
تو جو بات مفتی نظام الدین صاحب نے کی ہے یہ ان کا اپنا عقیدہ نہیں بلکہ یہ سب کچھ مرزائیوں کے عقیدے پہ الزام ہے ،کیونکہ
عیسی ناکام ہوگئے تھے ،چنانچہ مرزا غالم احمد لکھتا ہے :۔
ٰ ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت
یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح جسمانی بیمارون کو اس عمل کے ذریعے اچھا کرتے رہے ،مگر ہدایت اور توحید اور دینی
استقامتوں کی کامل طور پر دلوں میں قائم کرنے کے بارے میں ان کی کاروائی کا نمبر ایسا کم درجہ کا رہا کہ قریب قریب ناکام
کے ہے
لہذا ثابت ہوا کہ یہ عبارت مفتی نظام الدین کی اپنی نہیں بلکہ مرزائیوں کے عقیدے سے یہ سب الزم ٓاتا ہے ۔اور جہاں تک سیالویْْْ
فتوی مشروط ہے ۔سیالوی صاحب wفرماتے ہیں:۔ ٰ صاحب کے فتوے کا تعلق ہے تو وہ
اگر تحقیق سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ نظام الدین صاحب نے یہ الفاظ کہے (مناظرہ جھنگ ص )181
ٰ
فتوی اس صورت میں ہے جب یہ الفاظ نظام الدین صاحب wنے خود کہے ہوں اور جب یہ ان کے اپنے نہیں بلکہ مرزائیوں کے یعنی
عقیدے سے یہ سب کچھ الزم ٓاتا ہے ۔لہذا اس فتوے کا مفتی صاحب ْسے کچھ تعلق نہیں۔
اگر سکی جگہ میرے قلم سے کوئی ایسا لفظ نکل جائے جو عیسائیوں کی کسی مسلمہ لتاب کی نسبت یا ان کے کے کسی پیغمبر ْْْ
کے متعلق بے ادبی اور گستاخی کا شبہ پیدا کرتا ہو تو ناظرین اس کو اس کتاب کی یا نبی ٔو کی نسبت بد اعتقادی پر محمول نہ
تعالی مجھ
ٰ فرمائیں ،کیونکہ میری نزدیک خدا کی کسی کتاب یا اس کے کسی پیغمبر کی شان میں بے ادبی کرنا بدترین عیب ہے،ہللا
کو اور تمام مسلمانوں کو اس سے محفوظ رلھے،مگر چونکہ وہ کتابیں جو عیسائیوں کے نزدیک مسلم اور انبیاء کی جانب منسوب
‘‘ ہیں
عیسی علیہ السالم کے جو ملحدانہ تقریر لکھی وہللا صرف الزاما لکھی اور ہللا عنایت سے میرے دل میںّّّ
ٰ میں نے بہ نسبت حضرت
اس کا وسوسہ بھی نہیں چہ جائیکہ گمان
ان دونوں حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ الزامی جواب نہ ْتو عقیدہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی ذمہ داری مصنف ہی عائد
ہوتی ہےبلکہ اس کا ذمہ دار وہی شخص ہے جس کے عقیدے سے یہ سب کچھ الزم ٓارہا ہے ۔اب ہم الزامی جوابات کی کچھ مثالیں
بال تبصرہ ہدیہ قارئین کرتے ہیں۔
۔ایک پادری صاحب دہلی میں مباحثہ کے لئے ٓائے مسٹر مٹکف صاحب بہادر ایجنٹ گورنر نے پادری صاحب سے کہا کہ شرط
مقرر کرنی چاہیے جو کوئی ہار جائے گا اس سے دو ہزار روپے لیے جاویں گے۔اگر مولوی صاحب ہار گئے تو میں دوں گا ،کس
واسطے کہ وہ فقیر ہیںاور پادری صاحب کو حضرت (شاہ عبد العزیز ؒ)کی خدمت میں الئے اور سب حال بیان کیا،بعدہ پادری صاحب
نے کہا کہ ہم سوال کرتے ہیں اور جواب اس کا معقول ہونا چاہتے ہیں،منقول نہ ہو۔جب یہ بات ٹھہر گئی تو ادری صاحب نے سوال
کیا کہ تمہارے پیغمبرﷺ حبیب ہللا ہیں ؟ٓاپ نے فرمایا ہاں!پادری صاحب نے کہا کہ تمہارے پیغمبر نے بوقت قتل
تعالی ضرور توجہ فرماتا،جناب موالنا نے جواب دیا کہ
ٰ امام حسین ؑ فریاد نہ کی ۔،حا النکہ حبیب کا محبوب،محبوب تر ہوتا ہے،خدا
پیغمبر صاحب جو فریاد کے واسطے تشریف لے گئے ،ردہ غیب سے ٓاوز ٓائی ہاں تمہاری قوم نے تمہارے نواسے پر قوم نے ظلم
‘‘ کر کے شہید کیالیکن ہم کو اس وقت اپنے بیٹے عیسی ؑکا صلیب پر چڑھانا یاد ٓایا ہوا ہے یہ سن کر پیغمبر صاحب wخاموش ہوگئے
جو تمام والیتوں کے لوگوں کے نامزد دین میں امام ہیں ۔۔بھنگی اور چمار بھی اس سہولت سے بیٹی نہیں دیتا ۔جس طرح حضرت
امیر نے اپنی دختر ۔۔کو حضرت عمر کے حوالہ کر دیا ٓ،اپ بھی یکھتے رہے (ہدایۃ الشیعہ ص 164۔)165
بانی دیوبند جناب قاسم wنانوتوی صاحب مزید لکھتے ہیں :۔
دعوی محبت حضرت عیسی علیہ السالم کرتے ہیں تو حقیقت میں ان سے محبت نہیں کرتے ،کیونکہ دار ومدار ان کی ’’ ٰ ٰ
نصاری جو
عیسی میں تو معلوم البتہ ان کے خیال میں تھی ۔اپنی خیالی تصویر کوپو جتے
ٰ حضرت بات یہ ۔سو ہے پر ہونے بیٹا کا خدا کا محبت
‘‘اور ااسی سے محبت رکھتے ہیں
جناب مسیح کے ہمراہ بہت سی عورتیں چلتی تھیں اور اپنا مال انہیں کھالتی تھیں۔فاحشہ عورتیں ٓانجناب کے پائو ں چومتی تھیں ’’
‘‘ اور ٓانجناب مرتا مریم کو دوست رکھتے تھے اور خوددوسرےلوگوں کو پینے کے لئے شراب عطا کرتے تھے
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ دیوبندی حضرات تو الزامی جواب کی بھی تاویل نہیں کر سکتے ،کیونکہ ان کے نزدیک الزامی جواب
میں بھی گستاخی کرنا کفر ہے ،چنانچہ خالد محمود لکھتے ہیں:۔
یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ پیغمبر کی توہین کسی طرح بھی جائز نہیں۔نہ تحقیقا نہ الزاما۔سو بریلویوں کا یہ عذر کسی طرح الئق
پذیرائی نہیںہے۔یغمبر کی بے ادبی کسی پہلو سے کی جائے اس کے کفر ہونے میں شبہ نہیں
ان عباراتا کا مفصل جواب جناب نے سیالوی صاھب نے دی اتھا،دس د منٹ کی چار تقریروں میں الجواب گفتگو کی گئی تھی جس
کے کسی ایک حوالے کو بھی دیوبندی مولوی ہاتھ نہ لگا سکا ،اور جہاں تک کوکب صاحب و دیگر حوالہ جات کی بات ہے تو
ادنی میں غرض تشبیہ کو دیکھا جاتا ہے اگر وہ تشبیہ کسی خصوصیت کے انکار کے لئے ہو
اعلی بہ ٰ
ٰ مختصر عرض ہے کہ تشبیہ
تو وہ گستاخی ہے اور اگر وہ کسی خصوصیت کو اجاگر کرنے اور واضح کر نے کے لئے ہو تو وہ ہر گز گستاخی نہیں۔گھمن
صاحب لکھتے ہیں:۔
بغرض سمجھانے wمخاطب wکو تشبیہ دے سی جائے تو اس کو توہین و تنقیص نہیں کہا جاسکتا (حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ صّّّ
)191
اور مفتی صاحب کی عبارات حضور ﷺ کی خصوصیات کو واضح کرنے کے لئے ہیں لہذا یہ گستاخی کے ذمرے
میں نہیں ٓاتیں۔ اور ’’شکاری والی عبارت ‘‘کی وضاحت بھی ہم جلد اول میں کر چکے ہیں۔اور جہاں تک پیر نصیر صاحب کی تو
جمہور اہلسنت نے انہیں معتبر تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کا شمار اکابرین میں سے ہوتا ہے پھر وہ مخالف ہیں سیالوی صاحب کے،
اس لئے دیوبندی اصول سے ان کی جرح کا چنداں اعتبار نہیں۔اور جہا ں تک طاہر القادری کی بات تو اس کا مناظرہ کے بعد جانا یا
معافی مانگنا یہ مناظرہ ہارنے کی کس طرح دلیل ہے اور پھر ڈاکٹر صاحب ابن لوقت ہیں اس لئے ان سے کچھ بعید نہیں کہ انہوں
نے ایسا کیا ہو اور ان کا ایسا کرنا ہم پہ حجت نہیں،ثانیا بقول خود دیوبندی موصوف مسلک اعلی حضرت سے انحراف کر چکے
ہیں،تو ایسے شخص ہم پہ ہرگز حجت نہیں۔
جواب:۔عرض یہ ہے کہ اگر وہ ہمارے اکابرین تھے تو حق نواز کو چاہیے تھا کہ وہ ثابت کرتا کہ یہ لوگ تمہارے اکابرین ہیں جن
سے تم انکار کررہے ہو جیسے سیالوی صاحب نے تقویۃ االیمان کے معتبر ہونے پپہ حوالہ جات دیئے تھے،پھر اس قسم کا اختالف
معلومات کی بناء پہ ہوتا ہے منظور نعمانی لکھتا ہے :۔
مختلف لوگوں کی معلومات اور اطالعات کسی شخص کے بارے میں مختلف ہو سکتی ہیں ،اُس کی وجہ سے راویوں کا مختلف ہو
جانا قدرتی بات ہے ،اور ایسا اختال ف باپ بیٹوں اور استادوں ،شاگردوں میں بھی ہو سکتا ہے‘‘(شیخ محمد بن عبد الوہاب اور
ہندوستان کے علمائے حق صفحہ )۲۷،۲۸
لہذا اس قسم کا اختالف ہر گز مناظرے میں ہار نے کی دلیل نہیں،یہ دلیل اس وقت ہوتی جب حق نواز ان کو معتبر ثابت کر تا،پھر ہللا
ودھایا ،موالنا ذاکر صاحب، wموالنا غالم جہانیان ،قاضی عبد النبی کوکب ،او ر موالنا اسلم علوی کا شمار’’بریلوی اکابر علماء‘‘ میں
نہیں ہوتا۔
منصفین پہ اعتراض
ناظرین مناظرہ میں شکست کے بعد منصفین کو جانبدار کہنا یہ دیوبندی حضرات کی پرانی عادت ہے ،بہاولپور کے مناظرے میں
منصفین نے مناظرہ نے جب خلیل احمد کی شکست کا اعالن کیا تو اس کے بعد ان حضرات نے منصفین پہ کیچڑ اچھاال ،عاشق
الہی میرٹھی لکھتے ہیں:۔
ٰ
فتوی جس پر جناب میا ں صاحب کی تصدیق ہے اگر بالفرض ان کی طرف سے ہی سمجھا wجائے اور خیال کیا ٰ رہا یہ کہ اگر یہ
فیص ہ ہے تو تاوقتیکہ یہ فیصلہ حسب شرائط بدالئل صحیحہ مدلل نہ ہو اور تمام دالئل کا مفصل جواب
جائے کہ یہ ان کی طرف سے ؒ
نہ ہو ہرگز قابل اعتبار فیصلہ نہیں(تذکرۃ الخیل ص )146
ایسے ہی خواجہ غالم فرید صاحب پہ کیچڑ اچھالتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:۔
اول جناب میاں صاحب کہ بچن میں کچھ کتابیں صرف ونحو کی پڑھی تھیں پھر فقیری کی طرف متوجہ ہوئے اب محض خاندانی
درویش ہیں(تذکرۃ الخلیل ص)149
جب کہ مناظرہ سے قبل خلیل احمد سہارنپوری صاحب ،خواجہ صاحب کی مداح میں یوں رطب اللسان ہیں:۔
از جناب قدسی ایات فیض انتساب قدوۃ الواصلین زبدۃ العارفین عارج معارج والیت ناہج مناہج انوار ہدایت ٓاموز گار تلقین وتسلیم مرشد
صراط مستقیم پیشوائے اصحاب طریقت مقتداے حقیقت گرم رفتار منازل ملت و دین قافلہ ساالر مراحلہ حق الیقین مجاز شناسحققیتw
دان خلوت پسند جلوت بیان جرعہ نوش وحد ت الوجود والتجرید شیخینا شیخ غالم فرید صاحب (ہدایات الرشید ص ،884طباعت
1306ھ)
یعنی جن حضرات کی تعریف کی یہ حضرات رطب اللسان تھے بعد از مناظرہ انہیں پہ کیچڑ اچھالنا شروع کر دیا،ایسے ہی مناظرہ
جھنگ میں جن مناظرین کے متعلق یہ کہا گیا:۔
بریلوی مناظر اپنے طبقہ کی قد ٓاور شخصیت تھی جبکہ امیر عزیمت اس وقت اپنی صالحتیوں کو اجاگر کرنے کے ابتدائی دور ’’
میں تھے ۔۔۔۔مگر ثالثوں نے قدٓاور شخصیت کا لحاظ رکھتے ہوئے بریلوی مناظر کا پلہ بھاری قرار دے دیا مگر امیر عزیمت کی
شکست کا فیصلہ وہ بھی نہ دے سکے‘‘(مناظرہ جھنگ نمبر ص)۴۱
لہذا یہاں واضح تسلیم کر لیا کہ منصفین ہرگز جانبدار نہیں تھے بلکہ صرف قد ٓاور شخصیت کا لحاظ رکھا ،اس سے فیصلہ پہ کئے
گئے اعتراضات کا بھی جواب ہوگیا۔
الزامی جواب
اس جگہ ہم قارئین کی زیافت wطبع کے لئے ایک دلچسپ حوالہ پیش کرتے ہیں،ایک مناظرہ میں جب ثالث پہ دیوبندی ہونے کا شبہ
ظاہر گیا تو دیوبندی حضرات یوں تبصرہ کرتے نظر ٓائے :۔
بہر حال جناب محمد شبیر کو صرف منصفانہ فیصلہ دے دینے کی وجہ سے دیوبندی کہہ دینا ایسا ہی ہے جیساکہ یہود مدینہ حضرت
عبد ہللا بن سالم کو خیرنا و ابن خیرنا کہتے تھے لیکن جیسے ہی انہوں نے اسالم قبول کیا تو وہی کذاب یہودی کہنے لگے شرنا و
ابن شرنا (یعنی یہ تو ہم میں بدترین شخص ہے اور اس کا باپ بھی ایسا ہی خراب تھا)(بریلویت سے چند یادگار مناظرے ص)225
اور دیوبندی حضرات بھی یہود کی پیروی میں منصفین پہ جانبداری کا الزام لگانے پہ مصر ہیں۔
لفظ موالنا اور ذنب کی نسبت ،شیطان کا علم وغیرہ کا جواب دیا جاچکا ہے ۔کرنل انور مدنی و ہمنوا غیر معتبر ہیں جس کی تفصیل
جلد اول میںموجود ہے اور خواجہ قمر الدین سیالوی کی ناراضگی مناظرہ جھنگ سے ۱۶سال پہلے ہوئی (انور قمریہ )۳/۲۴۰اس
کا مناظرہ جھنگ سے کیا تعلق ؟پھر بعد ازاں یہ ناراضی نبھی ختم ہوگئی تھی۔بہر حال مصفنین کے متفقہ فیصلہ سے اہل سنت
بریلوی فاتح قرار پائے اور دیوبندی حضرات کے شکست خوردہ مناظر نے پھر بریلویوں کے خالف محاظ ٓارائی سے توبہ کر لی
اور اس فیصلہ کو تسلیم کر لیا۔اس کے خطبات میں ہے :۔
تم بتالئو اہل حدیثو!تم بتالئو یہ رونا میں کس کے دروازے پر روئوں اگر تمہارے دروازے ر نہ روئو ں،میں بریلوی،دیوبندی اہل ’’
حدیث نزاع مطلقا چھوڑ چکا ہوں۔اس لئے چھوڑا ہے کہ میری نگاہ میں یہ کفریات ہیں(جو شیعہ نے بکے ہیں )اور ان کی روک تھام
کے لئے امت مسلمہ کا اتحاد ضروری ہے (خطبات جھنگوی ص )۴۴
حق نواز نے منطور نعمانی کی طرح نہ صرف رد بریلویت سے توبہ کر لی بلکہ ان کو امت مسلمہ میں شمار کر کے فیصلے کو
عمال تسلیم بھی کر لیا۔اگر بریلوی گستاخ رسول ہیں تو پھر ان کو امت مسلمہ میں شمار کر نے کا کیا مطلب؟کیا گستاخ بھی امت
مسلمہ کا حصہ ہوتا ہے؟بہرحال یہ اعالن اہل سنت کی مناظرہ جھنگ میں فتح کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اور جو دیگر بات جناب نے پیش
کیں ان کا مناظرہ جھنگ سے کوئی تعلق نہیں۔اور ٓاج دیوبندی بھی تسلیم کر چکے ہیں یہ تمام عبارات مئو ل ہیں ان کی بنیاد پہ تکفیر
نہیں ہوتی،دیوبندی مولوی عبد االحد قاسمی لکھتے ہیں:۔
لیکن چونکہ اکثر عبارات میں کچھ نہ کچھ تاویل (خواہ تاویل بعید ہی کیوں نہ ہو)کا امکان ہے اس ان کی بنیاد پر احتیاطاتکفیر نہیں
کی جاتی (داستان فرار ص)49
شرک کی تعریف
االشراک ھو اثبات الشریک فی االلوھیۃ بمعنی وجوب الوجود کما للمجوس او بمعنی استحقاق العبادۃ کما لعبدۃ االصنام (شرح عقائد ص
)16
یعنی شرک یہ ہے کہ شریک میں الوہیت بمعنی وجوب الوجود ثابت کی جائے جیسے مجوس کرتے ہیں یا انہیں مستحق عبادت
سمجھا جائے جیسے بت پرست کرتے ہیں۔اب موصوف نے شرک کی تعریف کے حوالہ سےکچھ حوالہ جات پیش کئے ،ان پہ
،تبصرہ پیش خدمت wہے
سب سے پہال حوالہ پیر محمد کرم شاہ صاحب wکا دیا گیا ،کتاب مذکور تالش بسیا ر کے باجود دستیاب نہ ہو سکی ،اس لئے وثوق)(1
کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔پھر پیش کر دہ عبارت میں غیر ہللا کی محبت کو دل بسانے کو شرک سے تعبیر کیا گیا ہے ،یہ اس
صورت میں جب کسی صفات الوہیت سے متصف مان کر اس سے محبت کی جائے ،وگرنہ غیر ہللا صرف مطلق محبت کا ثبوت تو
قرٓان و حدیث اور احادیث نبویہ سے میں واضح موجود ہے ۔
اس کے بعد موصوف نے شیخ جیالنی کی کتاب فتوح الغیب سے دو عبارات پیش کی ہیں،جن کا خالصہ یہ ہے کہ غیر ہللا کی )(2
،طرف توجہ و میالن شرک ہے
اب غیر ہللا کون ہیں اس کی وضاحت کرتے ہوئےخود رقم طراز ہیں:۔
جب بندہ کسی آزمائش میں مبتالء کیا جاتا ہے‘ تو پہلے خود اپنے نفس کے ذریعہ وہ عالج کا متالشی ہوتا ہے۔ جب وہ اس سے
رستگاری(رہائی‘ نجات) نہیں پاتا‘ تو پھر کسی دوسری مخلوق کی طرف استعانت کرتا ہے‘ مثالً بادشاہ‘ حکام‘ دنیادار‘ مالدار‘
اورمرض ودرد جان کر طبیبوں کی طرف رجوع کرتا ہے۔ جب ان میں سے کوئی بھی اسے چھٹکارا نہیں دالتا تب وہ اپنے رب اﷲ
عزوجل کی طرف دعا‘ ثناء اور گریہ وزاری کے ذریعہ رجوع کرتا ہے(فتوح الغیب )33
جب بندہ کویہ صفائے باطن اور نورانیت قلب حاصل ہو جاتی ہے‘ تو اس وقت حقیقت کار اس پر منکشف ہو جاتی ہے‘ پھر وہ بجز
فعل خدائے عزوجل کے کچھ نہیں دیکھتا‘ تو اس وقت وہ یقینی طور پر بالبداہت موحد ہو جاتا ہے‘ یعنی توحید خالص‘ بطریق ہدایت
وجدان بے اختیار فکر ونظر پالیتا ہے(فتوح الغیب ص )34
۔ ہاں یہ اعتقاد رکھو کہ بغیر قدرت ٰال ہی کے بندوں کے افعال پورے نہیں ہوتے‘ تاکہ تم ان کو معبود جا کر پرستش نہ کرنے لگو‘
اور خدا کو فراموش کر جأو اور یہ بھی اعتقاد نہ رکھو کہ خالق کے افعال محض ان کی قدرت سے بغیر قدرت ٰالہی کے ہیں (اگر
ایسا اعتقاد رکھا) تو تم کافر ہو کر ؎ ۳قدری بنا جأو گے لیکن یہ کہو اور اعتقاد رکھو کہ افعال خلق کی پیدائش وتخلیق تو اﷲ ہی کی
طرف سے ہے بندہ کے لئے کسب ہے(فتوح الغیب ص)71
تعالی
ٰ مولی کے سوا جو کچھ بھی ہے‘ وہ اس کا غیر ہے‘ پس اپنے پر کسی غیر کو اثر انداز نہ کرو‘ کیونکہ اﷲ
ٰ ۔ خبردار! تمہارے
نے تمہیں اپنی ہی عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے تو اپنی جان پر ظلم نہ کرو کہ اس کے حکم سے روگردانی کر کے غیر کے ساتھ
شغل رکھو۔ پھر وہ تمہیں اپنی اس آگ میں جھونک دے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ اس وقت تم شرمندہ ہو گے(فتوح الغیب ص
)82
ان عبارات سے شیخ جیالنی رحمۃہللا علیہ کے موقف کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ ان کے نزدیک غیر ہللا سے مراد ہر وہ چیز ہے
جو خدا سے دور کرے ،اور شرک اس صورت میں جب اسے فاعل حقیقی سمجھا wجائے،وگر نہ ٓاپ ؒ مقبوالن بارگاہ خداوندی کا
تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
دعوی مت کرو۔ تم تو ہوائے نفس کو پوجتے ہو‘ حاالنکہ وہ ٰ اے ہوائے نفس کے مالکو! طالبان حق‘ اور واصل باﷲ قوم کی حالت کا
مولی کے بندے اور غالم ہیں۔ تمہاری نسبت اور چاہت تو دنیا میںہے(کہ تمہیں مال ومنال اور جاہ ومنصب ملے) اور اس گروہ ٰ
عقبی اور آخرت میں ہے۔ تم دنیا کو دیکھتے ہو‘ اور وہ آسمان وزمین کے رب کودیکھتے ہیں اور تمہاری محبت ٰ رغبت کی باصفاء
خلق سے ہے اور ان کی محبت حق سے ہے اور تمہارا دل جو زمین میں ہے اس میں اٹکا ہواہے‘ اور ان کے قلوب رب عرش سے
تعلق رکھتے ہیں۔ تمہاری حالت تویہ ہے کہ جو تمہیں دیکھتا ہے وہ تم کو شکار کر لیتا ہے‘ اوروہ اسے نہیں دیکھتے جسے تم
تعالی بچشم سر) دکھائی نہیں دیتا۔ پس وہ گروہ
ٰ دیکھتے ہو‘ بلکہ اشیاء کے پیدا کرنے والوں کو دیکھتے ہیں‘ حاالنکہ وہ (یعنی اﷲ
باصفاء تو کامیاب ہو گیا اور ان کو دنیا وآخرت میں نجات حاصل ہو گئی‘ مگر تم دنیا کی حرصوں اور اس کی خواہشوں میں پھنس
کر قیدی بنے رہے‘ لیکن وہ قوم خلق‘ ہوائے نفس‘ ارادہ اور آرزو سے فانی ہو گئی‘ اور وہ بلند وباال بادشاہ تک پہنچ گئی۔ پھر اس
مولی نے ان کو اس غرض وغایت پر واقف کر دیا جو انہیں منظور تھا۔ وہ طاعت‘ حمد ‘ ثناء اور شکر ہے۔ یہ اﷲ کا فضل ہے ٰ
جسے وہ چاہتا ہے نوازتا ہے۔ چنانچہ انہوںنے اسے الزم کر کے اﷲ کی توفیق اور اس کی بے رنج ومشقت آسانی سے ہمیشہ طاعت
کرتے رہے۔ اب گویا طاعت ان کی روح اور غذا بن گئی‘ اور اس وقت دنیا ان کے حق میں نعمت وسرور بن گئی گویا دنیا ان کے
لئے جنت ہے‘ اس لئے کہ جب وہ کسی چیز کو دیکھتے ہیں‘ تو اس سے پہلے اس کے فاعل کو دیکھ لیتے ہیں‘ جس نے اسے پیدا
کیا ‘ اور پروان چڑھایا‘ تو اس گروہ باصفاء کی بدولت زمین وآسمان قایم ہے‘ اور مردوں اور زندوں کو قرار حاصل ہے‘ کیونکہ ا
ﷲ نے ان کو اپنی اس زمین میں جسے اس نے بچھایا ان کو ’’اوتاد‘‘ یعنی میخ بنا یا۔ پس ان میں سے ہر ایک مانند پہاڑ کے ہے‘
جو اپنی جگہ مستحکم ہے‘ تو اب ان کی راہ سے یک طرف اور یکسو ہو جأو‘ اور تم ان کے مزاحم نہ بنو جن کو آباء واوالد نے
اپنے ارادہ سے انہیں روک نہ رکھا۔ پس وہ بہتر ہیں ؎۱اس سے جسے میرے رب نے پیدا کیا اور زمین میں بسایا اور پھیالیا۔ جب
تک زمین وآسمان ہے ان پر اﷲ سالمتی ‘ تحیتیں اور برکتیں ہیںـ(فتوح الغیب ص )86-85
اگر غیر ہللا توجہ ان کے نزدیک مطلقا شر ک ہوتی ،تو شیخ کی طرف مراجعت اور وصال حق کے لئے مرید کا محتاج ہونا بیان نہ
کرتے ،چنانچہ لکھتے ہیں:۔
پس ہر ایک رسول ونبی اور ہر ولی کے ساتھ جناب باری عزاسمہ کی قربیت کے لئے ایسے اسرار ہیں جنہیں ان کے سوا کوئی
حتی کہ بعض اوقات مرید کے لئے بھی س ّر ہوتا ہے جس پر اس کا شیخ بھی مطلع نہیں ہوتا۔ اسی طرح
دوسران پر مطلع نہیں ہوتا‘ ٰ
شیخ کے لئے بھی سر ہوتا ہے‘ جس پر اس کا مرید مطلع نہیں ہوتا۔ حاالنکہ مرید کی سیر اپنے شیخ کے دروازے کی دہلیز کے
قریب پہنچ چکی ہوتی ہے(فتوح الغیب ص )97-96
اے ابن آدم! میں ہی اﷲ ہوں‘ میرے سوا کوئی معبود نہیں ‘ میں کسی شے کو کہتا ہوں ہو جا! تو وہ ہو جاتی ہے تو تم میری
فرمانبرداری کرو‘ تاکہ میں تمہیں اس صفت سے نوازوں کہ تم کسی شے سے کہو کن(ہو جا) فیکون (فتوح الغیب ص )83
ہر مراد اسی مراد یعنی امر کے تابع ہو‘ اور ہر کرامت اسی مکروہ یعنی نہی کے تابع۔ پس جب تم امر ٰالہی کے ہو گئے‘ تو ساری
کائنات تمہارے حکم میں ہو گی(فتوح الغیب ص)82
تعالی کی طرف سے تصرف عطا ہوتا ہے ،مگر فاعل حقیقی خدا ہی ٰ خیر ان حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ مقبوالن بارگاہ الہی کو خدا
ہے ،اس لئے مذکورہ تصرف کا عقیدہ شرک نہیں۔ہم نےکچھ تفصیل اس مسئلہ پہ اس لئے عرض کی ہے کہ کچھ لوگ شیخ جیالنی
کی ادھوری عبارات سے عامۃ الناس کے اذہان کو تشویش میں مبتال کرنے کی سعی ناکام کرتے نظر ٓاتے ہیں،لہذا ہم نے بھی یہاں
قلم سے تفصیل رقم کر دی ہے ،تاکہ تشویش میں مبتال حضرات راہ حق پا سکے ۔
اس جگہ عبد الحی لکھنوی صاحب کا حوالہ دیا گیا جس میں حاضر و ناظر ماننے اور دور سے سننے کا اعتقاد رکھنے کو )(4
شرک سے تعبیر کیا گیا ،جبکہ ہمارے نزدیک اس ے مراد مستقل طور پہ اس صفت سے کسی کو متصف ماننا ہے ،وگر نہ اکابرین
ٰ
فتوی کی زد میں ٓاتی ہیں،چنانچہ شیخ ابن حجر عسقالنی لکھتے ہیں:۔ اسالم بھی اس
اور ٓاپ اتنے دور کے فاصلے سے سن لیتے تھے جہاں سے دوسرے نہیں سن سکتے تھے(تفسیر عزیزی ج 4ص)415
ٰ
فتاوی کی چند عبارات پیش خدمت ہیں:۔ پھر اسی
سوال :حضور کا نام اذان اور غیر ازان میںسنکر انگوٹھے چومنا کیسا ہے
جواب:بعض فقہا ء کے نزدیک مستحب wہے ۔۔۔۔۔اذان میں پہلی شہادت wکو سنکر قرۃ عینی بک یارسول ہللا اور پھر الھم متعنی بالسمع
والبصر کہنا مستحب ہے اسکے بعد دونوں ہاتھوں کے دونوں ناخنوں کو ٓانکھونپر رکھے ۔پس ٓانحضرت ااس شخص کو جنت میں
لیجائیں گے۔
جواب ۔صاحب تفسیر مظہری نے نا جائز لکھا ہے اور شیخ عبد الحق محدث wدہلوی نے ماثبت من الشنہ میں اپنے شیخ سے نقل کیا
ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ یہ عرس زمانہ سلف میں نہ تھا متاخرین کے مستحنات میں سے ہے اور شاہ عبد العزیز محدث دہلوی
اپنے مکاتیب میں لکھتے ہیں اور تعین عرس اس لئے ہے کہ وہ دن ان کی موت کو یاد دالتا ہے کہ ٓاج کی تاریخ یہ صاحب دنیا سے
رخصت ہوئے ورنہ جس دن عرس کیا جائے فالح و نجات کا باعث ہے۔۔۔۔۔(ٓاگے حدیث نقل کی ہے جس کے ہم ترجمہ نقل کرنے پر
بخوف طوالت اکتفاء کرتے ہیں)ابن جریر نے محمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ ہر سال کے شروع
میں قبور شہدا پر جاتے اور سالم ٓاہ (تمپر سالمتی ہو اسلیے کہ تم نے صبر کیا پس دار ٓاخرت بھی کیا خوب ہے )فرماتے اور
تعالی عنہم ٓاپ کے ہمراہ ہوتے (فتاوی عبد الحی ج ۱ص )۴۳۹
ٰ ابوبکر اور عمر اور عثمان رضی ہللا
ابولہب کی لونڈی ثوبیہ نے جب حضورنبی کریم علیہ الیحیۃواتسلیم کی والدت کی خبر ابو لہب کو پہنچائی تھی تو اس نے خوش ہو
کر ثوبیہ کو ٓازاد کر دیا تھا مرنے کے بعد لوگوں نے اس کو خواب میں دیکھ کر حال پوچھا اسنے کہا جب سے مرا ہوں عذاب میں
گرفتا ر ہوں مگر دوشنبہ کی شب کو چونکہ میں نے میالد نبوی کی خوشی کی تھی عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے پس جب ابولہب
جیسے کافر بدبخت پر ٓاپ کی والدت کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو گئی تو جو کوئی امتی ٓاپ کی والدت کی خوشی
اعلی مرتبہ کو نہ پہنچے گا(مجموعہ الفتاوی از موالنا عبد
ٰ کرے اور اپنی قدرت کے موافق ٓاپ کی محبت میں خرچ کرے کیونکر
الحی فرنگی محلی ص)۳۴۴
س خیال سے کہ یہ طریقہ زمانہ نبوی میں نہ تھا اس کو بدعت کہہ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔مگر چونکہ یہ طریقہ خیر ہے اور اس میں کسی
طرح کا گناہ نہیں ہے اور احادیث میں فرحت اور سرور کے لئے لوگوں کو جمع کرنا ثابت ہے اور حضرت بال رضی ہللا عنہ نے
حضور ﷺ کے حکم سے ٓاپ کے وعظ اور بیان کی منادی کوچہ و بازار میں کی ہے لہذا اہل شرع نے اس کی
اجازت دی ہے اور اس کو بدعت مندوبہ لکھتے ہیں اور اس کے فاعل کو مستحق ثواب جانتے ہیں (مجموعہ الفتاوی ج ۲ص )۳۴۵
اب مہینہ دن تاریخ اور وقت کی تعین کا حال سننا چاہیے کہ جس زمانے میں بطرز مندوب محفل میالد کیجائے باعث ثواب ہے اور
حرمین بصرہ یمن شام اور دوسرے ممالک کے لوگ بھی ربیع االول کا چاند دیکھکے خوشی اور محفل میالد اور کار خیر کرتے
ہیں اور قرائت اور سماعت میالد میں اہتمام کرتے ہیں اور ربیع االول کے عالوہ دوسرے مہینوں میں بھی ان ممالک میں میالد کی
ٰ
الفتاوی ج ۲ص )۳۴۷ محفلیں ہوتی ہیں(مجموعہ
یعنی ٓائمہ اصحابب روایت نے ذکر میالد کے وقت قیام کو مستحن جانا ہے پس اسکے لئے خوشی ہو جس کا مقصد ٓاپ کی تعظیم
ہو(مجموعہ الفتاوی ج ۲ص )۳۴۷
یہ جو مشہور ہے کہ نبی کریم علیہ التحیۃ واتسلیم خدا کے نور سے پیدا کئے گئے ہیں اس سے یہ مراد نہیں ہی ہے کہ نور الہی نور
محمدی ﷺ کا مادہ ہی بلکہ اسمیں اضافت بغرض شرفہ ہے جسس طرح کعبہ کو بیت ہللا اور عیسی ٰ علیہ اسالم کو
روح ہللا کہتے ہیں اور چونکہ نور محمدی ﷺ تمام انبیاعلیہم اسالم کے انوار سے پہلے پیدا کیا گیا تھا اور اسپر
ٰ
الفتاوی ج ۲ص ۲۸۶۔ خاص عنایات مواہیب ربانی تھیں لہذا یہ کہا گیا کہ حضور ﷺ خدا کے نور سے ہیں(مجموعہ
)۲۸۷
ہم نے سر سری تالش کے بعد یہ عبارات عرض کر دیں،اور امید کرتے ہیں کہ موصوف صرف شرک کی تعریف سے ہی نہیں بلکہ
عالمہ صاحب کے مذکوری عقائد سے بھی متفق نظر ٓائیں گے ()5اس جگہ پیر نصیر صاحب wکی عبارت نقل کی جو کچھ مکمل یوں
ہے :۔
تعالی ہی ہے۔
ٰ معنی کے لحاظ سے غوث اعظم ہللا کی ذات ہے کسی اور کو یہ قلب دینا شرک ہے بلکہ حقیقی غوث بھی ہللا
ٰ حقیقی
معنی کے لحاظ سے حضرت امام ابو حنیفہ کو امام اعظم کہنااور مسٹر محمد علی جناح کوقائد اعظم کہنابھی
ٰ اسی طرح حقیقی
صریح کفر ہے (اعانت و استعانت کی شرعی حثیت ص)18
اور یہ عبارت ہمارے کسی عقیدہ کے خالف نہیں،اس لئے جناب کو مفید نہیں۔
یہ عبارت بھی پیر نصیر صاحب کی ہے ،جس کا خالصہ یہ ہے کہ مجاز دستگیر کہنا روا ہے مگر بلند مرتبہ صوفیا ء اسے )(6
شرک سے تعبیر کرتے ہیں،جبکہ سرفراز صاحب لکھتے ہیں:۔
ٓاپ جانیں اور صوفیاء کرام کی رطب و یابس باتیں اور کہانیاں(تفریح الخواطر ص)92
احکام شریعت سے ناواقف نیم صوفیوں نے حضرات اولیاء کرام کے لئے بھی علم غیب وغیرہ کی شرط لگائی ہے اور ان کا یہ
عقیدہ اور نظریہ غالی رافضیوں سے ماخوذ ہے(تفریح الخواطر ص )93
بہر حال صوفیاء کی عبارات خود دیوبندی اقوال کے تحت حجت نہیں ہوتیں،اور نہ ہی ان سے عقائد کے معامالت میں استدالل ممکن
ہے ۔
اس کے بعد فتاوی مسعودی سے نقل کیا کہ حاضر و ناظر کہنا شرک ہے ،جبکہ اسی جگہ یہ صراحت موجود ہے :۔)(7
ٰ
(فتاوی مسعودی ص)539 بالذات حاضر و ناظر صرف ہللا ہے
اس لئے یہاں کیونکہ بالذات حاضرو ناظر ماننے کی نفی ہے ،اس لئے یہ عبارت ہمیں مضر اور موصوف کو مفید نہیں۔
اگلی عبارت مفتی اقتدار صاحب wکی جنہوں نے غیر ہللا کی قسم کو شرک لکھا ہے جبکہ غیر ہللا قسم کھانا شرک خفی ہے ،شرک)(8
جلی نہیں
پھر ڈاکٹر مسعود صاحب کی عبارت پیش کی کہ اعراس میں بالعموم شرکیہ افعال کا ارتکاب ہوتا ہے ،جبکہ اسی جگہ یہ بھی )(9
موجود ہے :۔
بہر حال فاضل بریوی کے نزدیک اس قسم کے اعراس قطعا ناجائز ہیں(فاضل بریلوی علماء حجاز کی نظر میں ص)53
اس کے بعد موالنا نقی علی خان ؒ کا حوالہ ہے کہ حضور ﷺ سجدہ عبادت شرک ہے ،تو یہ بات درست ہے ۔)(10
پھر پیر صاحب کی عبارت پیش کی گئی جبکہ عبارت مذکور ہ میں عامۃ الناس کا سجدہ اور طواف کرنے کا ذکر ہے ،جو )(11
بہرحال ناجائز و حرام کے زمرے میں ٓاتے ہیں،فاضل بریلوی لکھتے ہیں:۔
ٰ
(فتاوی رضویہ ج 9ص )522 مزار کو نہ ہاتھ لگائے نہ بوسہ دے اور طواف باالتفاق ناجائز اور سجدہ حرام
اس کے بعد تذکار بگویہ کی عبارت پیش کی ،جبکہ کتاب مذکور ہمارے نزدیک حجت نہیںاور سرفراز خان لکھتے ہیں:۔)(12
ٰ
دعوی کی بنیاد رکھنا ہی سرے سے غلط ہے (اظہار العیب ص)101 تو جب یہ ایک غیر مستند کتاب ہے تو اس پر کسی
اس کے بعد انوار ساطعہ کی عبارت نقل کی جس میں واضح مووج دہے :۔)(13
پس اس سے صاف معلوم ہوا کہ اگر ٓادمی جنکو حضرت ﷺ نظر نہیں ٓاتے وہ بھی درخواست کریں اور کہیں؎ذرا’’
چہرہ سے پردہ کو اٹھائو یا رسول ہللا :مجھے دیدار تم اپنا دکھائو یا رسول ہللا ،تو صحیح اور جائز ہے اگر نیم مال خطرہ ایمان اس
تعالی
ٰ تعالی ہے لیکن ہللا
ٰ کو شرک بتا دے اور یہ کہے کہ تم رسول ہللا کو عالم الغیب جانتے ہو کہدو کہ اصل عالم الغیب بالذات ہللا
اپنے رسولوں کو خبر دیتا ہے تو انکو خبر ہوجاتی ہے ‘‘(براہین قاطعہ ص )۲۲۶
اس کے بعد مقابلیس المجالس کاحوالہ پیش کیا ،پہلی بات تو یہ ہے کہ کتاب مذکور حضرت خواجہ غالم فرید صاحب کی اپنی )(14
تالیف نہیں ،بلکہ ان کی وفات کے بعد مولوی رکن الدین نے انہیں جمع کیا ہے ،جس کی وجہ سے یہ کتاب ملفوظات کی قبیل سے
ہے ،جس میں سامع یا جامع کی غلطی کا احتمال بہرحال ہوتا ہے ،اس لئے اس کی مکمل ذمہ داری خود علماء دیوبند کے نزدیک
صاحب ملفوظ پہ نہیں ڈالی جا سکتی ۔پھر اس کتاب میں مرزا قادیانی کو عبا دالصالحین میں شمار کیا گیا ہے جبکہ ان اپنے ہاتھ سے
لکھی کتاب فوائد فریدیہ کے صفحہ نمبر 53پہ مرزا کے ماننے والوں کو جہنمی فرقہ میں شمار کیا ہے ۔پھر موصوف نے جو
عبارت پیش کی اس میں مدد مانگنے کو شرف مگر اپنے ہاتھ سے لکھی کتاب فوائد فریدیہ میں لکھتے ہیں:۔
۔2۔خارجیہ 3۔وہابیہ جو کہتے ہیں کہ اولیاء ہللا کہ حضور ااکرم لیکن باطیل مذاہب میں سے چار بہت ہی عام ہیں1:۔رافضیہ
ﷺ بھی وفات کے بعد قبر شریف میں زندہ نہیں ہیں۔نیز یہ بھی کہتے ہیں کہ قبروں کے نزدیک دعا مانگنے واال
کافر ہے (فوائد فریدیہ ص)55
مرزائیوں نے اپنی روایتی فریب کاری سے گذشتہ ایام میں حضرت خواجہ غالم فرید صاحب رحمۃ ہللا علیہ کی نسبت جھوٹ و افترا
کا ایک پلندہ شہادات فریدی سابق ریاست بہاولپور میں بہ تعداد تقسیم کیا ہے (احتساب wقادیانیت ج 1ص)212
حضرت خواجہ صاحب کی تصنیف کے مقابل رکن الدین مولف اشارات فریدی اور غالم احمد مرزائی ساکن اوچ کے دجل و فریب
اور جعلی شائع خطوط و ملفوظات کی کوئی حثیت نہیں(احتساب wقادیانیت ج 1ص )223
اس لئے ہم بھی کہتے ہیں کہ خواجہ صاحب کی تصنیف کے بلمقابل مقابلیس المجالس کی کوئی حثیت نہیں۔
اگلہ حوالہ سید احمد کبیر رفاعی کا پیش کیا ،جن کی عبارت کچھ یوں ہے :۔)(15
جب تم اولیاء کرام سے تعاون چاہوتو اولیاء سے مدد نہ مانگو نہ ہی ان سے فریاد کرو اس لئے کہ یہ شرک ہے ‘‘(البرہان الموید ’’
ص ۴۴ا)
اس عبارت میں بھی حقیقی طور پہ فریاد ماننے کی نفی ہے کیونکہ اس سے متصل ہی یہ بات موجود ہے :۔
کتنے ہی پراگندہ اور غبار ٓالود بالوں والے ،پھٹے پرانے کپڑوں والے ایسے ہیں جنہیں دروازوں سے دھکا دیا جاتا ہے (لیکن رب’’
تعالی ان کی قسم پوری کر
ٰ تعالی کی محبت کے پیش نظر قسم کھالیں تو ہللا
ٰ کی بارگاہ میں انکی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ )اگر ہللا
تعالی نے انہیں کائنات میں تصرف عطا کیا ہے اور ان کی تکریم کے لئے حقائق کو پلٹ دیتا ہے اور ایسا مرتبہ و مقام ٰ دیتا ہے ۔ہللا
عطا فرمایا ہے کہ جب یہ کسی چیز کو کہتے ہیں کہ ہوجا تو ہ ہوجاتی ہے (ملفوظات رفاعیہ ص ۲۳ا،رفاعی فائونڈیشن الہور)
البرھان الموید کی تصوف کی ان کتب میں سے ہے جن میں قرٓان و حدیث کی روح کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے ’’
‘‘(ملفوظات رفاعیہ ص ا )
لہذا جب یہ تصوف کی کتاب ہے تو ہمارے معاندین کے اپنے اصول وقوانین کے مطابق یہ عقائد کے معاملہ میں حجت نہیں۔
مناظرہ جھنگ میں پیش کردہ دیوبندی عبارات کی تاویالت پہ ایک نظر
۔مناظرہ جھنگ میں سب سے پہلی عبارت صراط مستقیم کی پیش کی گئی ،اس عبارت کے متعلق تاویالت کا ازالہ مفتی اختر 1
رضا خان صاحب دامت برتہم کی کتاب میں ٓارہا ہے قارئین وہاں مالحظہ کریں۔یہاں ہم اپنے ایک مضمون پہ ایک صاحب کی تنقید
کا مختصر جواب عرض کئے دیتے ہیں۔معترض نےہماار کالم اعتراض کے عنوان سے نقل کیا ،ہم نے ان کے کالم کو تاویل کے
عنوان سے نقل کر کے ازالہ کے عنوان سے اس کا جواب عرض کیا ہے ۔
تاویل:۔یہ الزام صریح بہتان ہے ۔۔۔۔ہم تو منکر صرف ہمت کے ہیں اور ایسی تعظیم کے ہیں جو نماز سے مقصود سے ہے ہمت ہے
تو کسی ایک بزرگ کا حوالہ پیش کرو وہ نماز میںنبی کریم ﷺکی طرف صرف ہمت کرتے تھے
ازالہ :۔یہ بہتان نہیں حقیقت ہے ۔آاپ کے پیر حسین علی واں بھچروی کہتے ہیں کہ
ٰ
منادی کو بالفاظ خطاب ذکر کرنا ’’ اس کا یہ معنی نہیں کہ یہ شخص ُمنا ِدی ِبالکسر ُ ،م ٰ
نادی بِالفتح کی شکل خیال کرے ،بلکہ اسی
ہے ،واگرنہ تو لفظ ایھا النبی سے تحیہ میں نماز فاسد wہو جائے گی (بلغۃ الحیران ص )۳۳۷
دل میں گدھے کاخیال ٓاجائے اس لئے نماز ہوگی کہ گدھے میں معبود بننے کی صالحیت نہیں ہے ،نبی ﷺکا خیال
ٓانے سے نماز اس لئے نہیں ہوگی کہ پیغمبر ﷺ میںمعبود بننے کی صالحیت ہے (خلفائے راشدین ص)227
تقضائے ظلمات بعضھما wفوق بعض زنا کے وسوسے(سے)اپنی بی بی کی مجامعت کا خیال بہتر ہے ۔اورشیخ یا اسی جیسے اور
بزرگوں کی طرف ،خواہ جناب ِ رسالت مٓاب[ﷺ] ہی ہوں ،اپنی ہمت کو لگا دینا اپنے بیل اور گدھے کی صورت میں
مستغرق ہونے سے بُرا ہے ۔کیونکہ ۔شیخ کا خیال تو تعظیم اور بزرگی کے ساتھ انسان کے دل میں چمٹ جاتا ہے ۔اور بیل اور
گدھے کے خیال کو نہ تو اس قدر چسپیدگی ہوتی ہے اور نہ تعظیم بلکہ حقیر اور ذلیل ہوتا ہے ۔اور غیر کی یہ تعظیم اور بزرگی جو
نماز میں ملحوظ ہو وہ شرک کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہے ۔حاصل کالم اس جگہ وسوسوں کے مرتبوں کے تفاوت کا بیان کرنا
مقصود ہے‘‘(صراط مستقیم ص )۱۱۸
اس عبارت کا مطلب بیان کرتے ہوئے محمد علی جالندھری دیوبندی فرماتے ہیںکہ
ادنی چیز یعنی کتے بلے یا چوڑھے چمار کا خیال ٓاجائے تو ٓادمی فورا اس خیال کو جھٹک ’’
چنانچہ نماز کے دوران دنیا کی کسی ٰ
دے گا اور اپنا تعلق پھر ہللا سے جوڑے گا لیکن اگر نماز میں کسی پیاری ہستی یعنی ماں باپ پیر و مرشد یا حضور
ﷺ کا خیا ل ٓاگیا تو چونکہ ان سے پوری دنیا سے بڑھ کر محبت ہے اس لیے ان کے خیال سے پلٹ کر ٓانا ذرا
‘‘مشکل ہوجائے گا۔
)موالنا محمد علی جالندھری،سوانح و افکار ص ،۲۷۷عالم مجلس ختم نبوت ملتان(
جب ایک شخص عمدا حضور ﷺ کا خیال الئے گا تو اس کی توجہ خدا سے ہٹ کر ٓاپ کی طرف مبذول ہوگی۔تو
اخالص اور عبادت میں خلل اور نقصان ہوگا۔‘‘ (حقیقی دستاویز ص )۳۲۵
اردو طرز تحریر میں بھی اس قسم رعایت پائی جاتی ہے مثال کسی نے کہا
اس عبارت میں تدبر ،غور و فکر سوچنے ،دھیان لگانے ،سب ایک دوسرے کے مرداف ہیں۔اسی طرح مامور حکم ،فرمان کہہ دیا
سب مترادف ہیں اور سب کا معنی ایک ہی ہے۔ اب کوئی یہ کہے کہ جی تدبر کا معنی عبادت غور وفکر کے فالں فالں جس میں
سوچنے کا کوئی مطلب نہیں ،تو دنیا اس کو مسٹر کے لباس میں دیکھے گی تو احمق الدین کہے گی اور گر مولوی کے لباس میں تو
حاجی بغلول کہے گی۔یہی حال صراط مستیقم کی عبارت کا ہے وسوسہ ،ہو یا خیال ،صرف ہمت ہو یا استغراق ،دیکھنے میں چار
لفظ ہیں مگر مطلب سب کا ایک ہے ورنہ لفظ استغراق تو باب استفعال کا مصدر ہے ،جس کی خاصیت طلب ہے ۔اس کے معنی ہوں
گے کہ پو رے شوق طلب کے ساتھ خود نخود خیال ٓاجانا نہیں بلکہ کو شش کرے گا ئے گدھے کا خیال النا۔اور صرف خیال ہی نہیں
بلکہ اس خیال میں ڈوب جانا ،محو ہو جانا ،ساری ماز اس کی محویت کی بھینٹ چڑھا دینا ،اس کو بہتر کہا گیا ہے تو صراط مستقیم
کا مصنف بے ساختہ چیخ پڑے گا کہ خدارا مجھ پر رحم کرو اور ایسی ٓافرینی نہ کرو جو میرے حاشیہ خیال میں بھی نہیں ہے۔میں
نے چار لفظ بولے اور صرف خیال کے معنی مراد لیے۔اور مصنف پر کیا موقوف ہے جو لوگ اس کی عصمت پر ایمان ال چکے
ہیں شاید وہ بھی برداشت نہ کر سکے گے کہ استغراق کے حقیقی معنی قبول کریں اور صاف کہیں گے کہ یہ تو محض تفنن عبارت
ہے ۔ورنہ استغراق کے معنی یہاں بطور خیال کے ہیں ۔تو پھر صرف ہمت کو خیال سے زیادہ قرار دینا اسکی وجہ اس کے سوا کیا
ہو سکتی ہے ہے کہ مصنف کی عصمت پر ایما ن ال چکے ہیں(ماخوذ)۔عالوہ ازیں ہم خود مصنف کے چاہنے والوں سے اس
عبارت زیر بحث کا مطلب پیش کر چکے ،یہ حضرات بھی صرف ہمت سے خیال ہی مراد لے رہے ہیں،اس لئے یہی تاویل محض
طفالنہ مغالطہ ہے۔
خیر ہم اسی پہ ہی اکتفاء کرتے ہیں ،بزرگان دین کے حوالہ جات اور صرف ہمت کی تفصیل مفتی اختر رضا خان مصباحی کی
کتاب میں مالحظہ کریں۔ہم اس جگہ اپنے ایک مضمون پہ اعتراضات کا جواب نقل کئے دیتے ہیں۔
اعتراض:۔صراط مستقیم میں نبی کریم ﷺ کے نام ساتھ گدھے کا ذکر ہے اور یہ توہین ہے
تاویل :۔کسی بات کو سمجھانے کے لئے کسی عظیم شےکے ساتھ حقیر کا ذکر کرنا وہ اسلوب ہے جس کا ثبوت قرٓان حدیث میں بھی
ملتا ہے (دفاع اہل السنۃ ج 1ص)525
ازالہ:۔اس بات سے قطع نظر کہ ہم نے مطلقا یہ بات نہیں لکھی ،مگر اس پہ خود دیوبندی گھر کا حوالہ پیش خدمت ہے ۔خالد محمود
لکھتے ہیں:۔
غور کیجئے قرٓان کریم کا نام کتے کے نام کے ساتھ ذکر کر کے مولوی محمد عمر صاحب اچھروی نے قرٓان کی کتنی بے ادبی کی
(مطالعہ بریلویت ج 2ص )411
اور جہاں تک معترض کی پیش کردہ عبارات ہیں تو جناب یہ سب عبارات ٓاپ کے اپنے اصول سے سمجھانے wکے لیئے ہیں ،اور ہم
اس کے ہرگز قائل نہیںکہ صرف ساتھ ذکر کرنا بے ادبی ہے ۔اس کی مکمل وضاحت مناظرہ جھنگ میں سیالوی صاحب wنے کی ہے
،وہی مراجعت کی جائے ۔
ازالہ :۔اول تو یہ جس کی بھی عبارت ہو یہ کتاب دیوبندی مذہب کی مسلمہ ہے ۔دوئم اس کا لکھنے واال کوئی بھی ہو کافر ہے ۔پھر
اس کتاب کی کانٹ چھانٹ اسماعیل نے بھی کی اس لئے اسے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔پھر مفتی مجاہد لکھتے ہیں:۔
یہ حصہ ثانی شاہ اسماعیل شہید کا لکھا ہے ۔(ہدیہ بریلویت ص )360
باقی اس عبارت کو خود دیوبندی حضرات نے بھی اسماعیل سے منسوب کیا ہے ،جس پہ تفصیلی حوالہ جات مفتی صاحب کی کتاب
میں مالحظہ کریں۔
اعتراض:۔دیوبندیوںہمارے اعتراضات کا جواب دینے کے بجائے ہمت کرتے رہے ،صرف ہمت کے حقیقی معنی توجہ کرنے کے
ہیں۔
تاویل :لعنۃ ہللا الکاذبین ۔۔۔نیز اگر ٓاپ کو یہ گلہ ہے کہ صرف ہمت کے معنی توجہ کرنے کے ہی ہیں اور اسی سے صراط مستقیم
ٰ
فتوی ہے ؟ میں منع کیا ہے تو ا س توجہ سے منع اشرف سیالوی اور نقی علی خان نے بھی کیا ہے ان پر کیا
ازالہ:۔اس لعنت کو ہم تھانوی صاحب کی روح کو ایصا ل کرتے ہیں ،صرف ہمت پہ ہم کالم کر چکے ،جہاں تک جناب کے پیش
کردہ حوالہ جات کی بات ہے تو یہ معترض صاحب کی بات درست نہیں ،عالمہ اشرف سیالوی لکھتے ہیں:۔
تصور سے منع کر دیا جاتا کہ حضور کا خیال ہی نہ ٓانے دیا جائے اور نماز کے اندر سرکار کی طرف توجہ نہ کی جائے کیونکہ
تعالی کی توحید میں خلل ٓائے گا اتنا ہی کہ دینا کافی تھا مسئلہ سمجھانےw
ٰ مصطفی ﷺ پید اہوگی ہللا ٰ اس میں تعظیم
کے لئے یہ الفاظ موجود تھے یا یوں کہہ دیا جاتا کہ اگر چہ سرکار کا خیال ہی کیوں نہ ہو ۔اس طرف متوجہ نہیں ہونا چاہیے ادھر
سے توجہ ہٹا لینی چاہئے تا کہ ایسی تعظیم الزم نہ ٓائے جو توحید کے منافی ہو لیکن اس کا موازنہ اس کے ساتھ کرنا کہ یہ خیال
کتے اور گدھے کے خیال میں غرق ہونے سے بد جہا برا ہے ٓاپ مجھے جواب دیں کہ یہ موازنہ بے ادبی ہے کہ نہیں؟(مناظرہ
جھنگ ص )109
سیالوی صاحب اس جگہ اپنا موقف پیش نہیں کر رہے بلکہ ی سمجھا wرہے کہ اگر حضور ﷺ کے خیال سے تکلیف
ہی تھی تو موازنہ کے بغیر بھی اس کا اظہا کر سکتے تھے ۔ان کا اپنا موقف بالکل واضح ہے ۔ٓاپ فرماتے ہیں:۔
تو میں پوچھنا چاہوں گا کہ اگر نماز کے اندر سرکار کی طرف متوجہ ہونا گدھے اور بیل کے خیال میں غرق ہونے سے برا ہے تو
پھر نبی پاک ﷺ کو یہ سمجھانا wچاہئے تھاکہ نماز کے اندر غیر کی تعظیم شرک بن جاتی ہے لہذا ایسی تعظیم نہیں
تعالی عنہ
ٰ ہو نی چاہئے نہ تو نبی کریم علیہ افضل الصلوۃ صحابہ کو فرماتے ہیں کہ تم نے غلط کیا ہے اور نہ صدیق اکبر رضی ہللا
کو فرماتے ہیں کہ تم نے غلط کیا ہے بلکہ فرماتے ہیں اے صحابیو! تم نے تالیاں کیوں بجائیں اگر نماز کے اندر کسی کو ایسا معاملہ
پیش ٓاجائے ۔۔تو چاہئے کہ وہ سبحان ہللا کہے۔کیونکہ جب وہ سبحان ہللا کہے گا تو اس کی طرف لوگ متوجہ ہوجائیں گے (بخاری
شریف جلد اول صفحہ ) 162اگر تم اپنے امام کو متوجہ کرنا چاہتے تھے تو سبحان ہللا کہہ دیتے امام تمہاری طرف متوجہ ہوجاتا
تالیاں تو عورتوں کے لئے ہوا کرتی ہیں تو ایسی صورت میں میں ٓاپ سے یہ پوچھوں گا کہ مصلے چھوڑنا تعظیم ہے کہ نہیں؟
صحابہ کرام تالی سرکار کے لیے بجا رہے تھے یا خدا کے لئے بجا رہےتھے ؟تو عین نماز میں یہ تالیاں بجانا سرکار کی خاطر ہے
ٓاپ کی تعظیم کی خاطر ہے اور نعوذ باہلل ٓاپ کے سامنے غیر شرعی کام ہوا اور ٓاپ نہ روکیں تو کیا یہ صاحب شرع کی طرف سے
مداہنت فی الدین الزم ٓاتی ہے کہ نہیں؟کہ وہ غیر شرعی معاملہ پر سکوت اختیار فرماتے ہیں پھر ہللا رب العزت بھی نہیں ٹوکتا کہ
میں نے تو حید سکھا نے کے لئے اور انہیں صحیح نماز کے طریقے سمجھانے کے لئے بھیجا تھا تو انکو شرک کے اندر مبتال کر
مصطفی ﷺ نے ٹوکا (مناظرہ جھنگ ص 84۔)85 ٰ دیا نہ خدا نے ٹوکا نہ پیارے
اب میں یہ پوچھتا ہوں کہ یہ تعظیم ٓاپ کے منصب رسالت کے لحاظ سے تھی یا منصب الوہیت کے لحاظ سے ؟الوہیت کے لحاظ
سے کسی غیر کی تعظیم نماز میں ہو یا باہر ہر حالت میں شرک ہے تو حالت نماز کی تخصیص کا کیا مطلب ہوگا؟اور اگر منصب
رسالت کے لحاظ سے ہے تو تعظیم عین نماز میں ہی کیوں نہ ہو عین اسالم بن جاتی ہے وہ شرک قرار نہین دی جا سکتی (منا ظرہ
جھنگ ص )92
اعتراض:۔عبارت میں صرف ہمت سے مراد وسوسہ ہے
تاویل :۔اس سے مراد صرف ہمت ہی ہے خود مصنف نے صراحت کی ہے (مخلصا دفاع اہل لسنۃ ج 1ص)529
ازالہ:۔ہم صرف ہمت پہ کافی سے زائد اوراق سابقہ میں گفتگو کر چکےہیں،اس جگہ صرف اتنا عرض ہے کہ معترض صاحب اگر
ٓاپ کو اپنی پیش کردہ عبارت نظر ٓاگئی تھی تو اس کے قریب یہ بھی تو موجود تھی :۔
اہل مکاشفات یہ خیال نہ کریں کی نماز میں شیخ کے تصور یا ارواح اور فرشتوں کی مالقات کی طرف توجہ کرنا بھی اسی نماز کا
صاصل کرتا ہے جو مومنوں کے لئے معراج ہے نہیں ہرگز نہیں نماز میں یہ توجہ بھی شرک کی ایک شاخ ہے (صراط مستقیم ص
)117
خالد محمود صاحب کہتے ہیں کہ خیال النا مضر ،ناجائز و شرک ہے چنانچہ لکھتے ہیں کہ’’علمائے دیوبند جسے جائز کہہ رہے
ہیں وہ خیال کا (خود بخود)ٓانا ہے ۔خیال کا (جان بوجھ کر)النا نہیں …حضرت موالنا اسمعیل شہید کے ذمہ یہ با ت لگانا کہ ٓاپ نماز
میں حضور ﷺ کے خیال ٓانے کو بُرا کہہ رہے ہیں محض افترااور بہتان ہے ۔ٓاپ جہاں بھی شرک کی مذمت کرتے
ہیں خیال باندھنے کا ذکر کرتے ہیں خیال ٓانے کا نہیں‘‘ (مطالعہ بریلویت جلد 1ص )۲۹۲
لیکن اس کے برعکس دیوبندی مولوی منظور نعمانی صاحب کہتے ہیں’’ بہرحال صراط مستقیم میںحضور ﷺکے
خیال مبارک ٓانے یا حسب موقع اس کے النے کو مضر یا منافی نماز نہیں بتایا گیا‘‘ (حضرت شاہ اسماعیل شہید اور معاندین
اہل بدعت کے الزامات wصفحہ ۲۱منظور نعمانی )
معترض صاحب دوسروں پہ پھبتیاں کسنے کی بجائے اگر غور کرنے کی زحمت کر لیں تو معاملہ واضح ہوجائے گا۔خالد محمود
نے دو ٹوک خیال النے کو منع کیا ہے ،اور منظور نعمانی صاحب اسے جائز قرار دے رہے ہیں،اس لئے یہ کہنا کہ ٹکرائو نہیں
صرف دل بہالنے والی بات ہے ۔اس کے بعد جو نماز میں تعظیم کا شرک ہونے کے حوالہ سے جو بحث ہے یا دیگر ابحاث وہ ٓاپ
عالمہ اختررضا کی کتاب میں مالحظہ کریں گے ۔
۔ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا وہ ہللا کی شان کے ٓاگے چمار سے بھی زیادہ ذلیل ہے2
سقم:۔
تقویۃ االیمان سامنے wپڑی ہے اگر وہاں نبی اقدس ﷺ کا نام مبارک دکھا دیں تو مناظرہ ختم اور میں جھوٹ اہوں گا۔
انہوں نے یہی کہا ہے کہ رسول اقدس ﷺ کو نعوذباہلل چوڑھا چمار کہا گیا ہے ۔اگر یہ وہاں نبی اقدس
ﷺ کا نام مبارک دکھا دیں تو یہ سچے میں جھوٹا اور میں ابھی لکھ دوں گا کہ شاہ اسماعیل شہید کافر ہے مرتد ہے
(بریلویت سے چند یادگار مناظرے ص )309
اس تفصیل کے بعد اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں کہ مذکورہ باال عبارت مین نہ تو انبیاء علیہم السالم اور نہ ہی اولیاء رحمہم
ہللا کی صراحت ہے نہ ذکر بلکہ مطلقا ایک بات ہے (دفاع اہل السنۃ ج 1ص )547
ازالہ:۔بندہ ناچیز عرض کرتا ہے کہ خود مصنف نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ بڑے سے مراد کیا ہے ۔ شاہ اسماعیل دہلوی
نے اپنی کتاب تقویتہ االیمان میں مخلوقات کو صرف اور صرف دو اقسام ہی میں تقسیم کیا ہے
( تقویتہ االیمان مع تذکیر االخوان صفحہ ٭شاہ صاحب کہتے ہیں کہ ’’انبیاء و اولیاء کو جو ہللا نے سب لوگوں سے بڑا بنایا ہے‘‘
)۳۲
اس سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السالم و اولیاء عظام رحمۃ ہللا علیہم اجمین کو اسماعیل
دہلوی بڑے لوگ یعنی بڑی مخلوق مانتے ہیں ۔
٭پھر کہتے ہیں کہ’’جیسا ہر قوم کا چودھری اور گأوں کا زمیندار سوا ن معنوں کر ہر پیغمبر اپنی امت کا سردار ہے…یہ بڑے
‘‘لوگ اول ہللا کے حکم پر ٓاپ قائم ہوتے ہیں اور پیچھے اپنے چھوٹوں کو سیکھاتے ہیں
ایسے ہی لکھا:۔ہر بندہ بڑا ہو یا چھوٹا نبی ہو یا ولی (تقویۃ االیمان مع تذکیر االخوان ص )39
ان باتوں میں سب بندے بڑے ہوں یا چھوٹے سب یکساں بے خبر اور نادان ہیں۔‘‘(تقویۃ االیمان ص ’)25
پتہ چال کہ دہلوی نے تقویتہ االیمان میں مخلوقات کی صرف دو ہی اقسام کیں ۔بڑی اور چھوٹی ۔بڑی مخلوق سے مراد انبیاء کرام
علہیم الصلوۃ السالم و اولیاء رحمۃ ہللا علیہم اجمین ہیں اور چھوٹی سے مراد عام لوگ ہیں۔
پھریوبندی وہابی علماء نے ’ تقویتہ االیمان مع تذکر االخوان‘‘ میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ
تو اس سبب سے صاحب تقویتہ االیمان علیہ الرحمۃ والغفران نے ایسے عوام لوگوں کے گمان باطل کرنے کو جو بزرگان دین ’’
اور اولیاء اﷲ کو سمجھتے ہیں کہ جو چاہیں سو کریں لکھا کہ ہر مخلوق بڑاہو یا چھوٹا اﷲ کی شان کے ٓاگے چمار سے بھی ذلیل
‘‘ہے
تو اس عبارت سے بالکل واضح ہو گیا کہ خود اسماعیل وہلوی کے پیرو کاروں کو بھی تسلیم ہے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا اس
میں انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السالم اور اولیاء رحمۃ ہللا علیہم اجمین سب ہی شامل ہیں ۔لہذا عموم نہیں خود ان کے نزدیک بھی
تخصیص ہے۔
٭اسی طرح دیوبندی امام رشید احمد گنگوہی صاحب سے کسی سائل نے(اسماعیل دہلوی کی ) اسی مذکور عبارت کو لکھ کر سوال
‘‘پوچھا کہ ’’ اس عبارت کے مضمون کا کیا مطلب ہے موالنا علیہ الرحمۃ نے کیا مراد لیا ہے۔
لہذا جہاں شاہ اسماعیل دہلوی نے’’بڑی چھوٹی مخلوق کی‘‘ خود تخصیص فرما دی وہیں ان کے ماننے والوں نے بھی یہی مراد
لی ۔ لہذا عبارت کو عمومی قرار دینا غلط ہے۔
تعالی کی حکمتوں اور قدرت کاملہ کو ٰ تاویل :۔اہل علم پر یہ بات خوب واضح ہے کہ شاہ اسمعیل شہید رحمۃ ہللا علیہ کا مقصد ہللا
بیان کرنا ہے اور اس کے مقابلے میں مخلوق کی عاجز ی کو بیان کرنا ہے ۔حضرت شاہ صاحب نےاپنی بات کو بیان کرنے کے
لئے جس پیرایہ کو اختیار کیا ہے وہ ہرگز کسی ولی یا نبی کی توہین پر منبی نہیں۔دیکھیںاہلل تعالی عیسائیوں کے فاسد wعقائد کو رد
يح ا ْبنَ َمرْ يَ َم َؤُا َّمهُ
ك ْال َم ِس َ
ك ِمنَ هَّللا ِ َش ْيئًا إِ ْن َٔا َرا َد َٔان يُ ْهلِ َ
کرتے ہوئے فرماتا ہے لَّقَ ْد َكفَ َر الَّ ِذينَ قَالُوا إِ َّن هَّللا َ ه َُو ْال َم ِسي ُح ابْنُ َمرْ يَ َم ۚ قُلْ فَ َمن يَ ْملِ ُ
عیسی اور ان کی والدہ معاذہللا قابل ہالکت اور عذاب ٰ ض َج ِميعًا جن کو خدا نے عقل دی ہے وہ جانتے ہیں کہ حضرت َو َمن فِي أَاْلرْ ِ
تعالی نے صرف ایسے معتقدوں کے گمان فاسد کے رد کیلئے ایسی تنبیہ اور زجر فرمائی ہے کہ وہ لوگ عقیدہ ٰ کے نہیں ہیں ہللا
باطل سے توبہ کریں اور خدائے قہار و جبار کا حکم بجا الئیں تو صاحب تقویۃ االیمان نے جاہل عوام کے گمان باطل اور زعم فاسدw
کا رد کیا ہےکہ جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ فالں مخلوق یا فالں ہستی جو چاہیں سو کریں کوئی ان کا پوچھنے واال نہیں وہ مختار کل
تعالی کی ٰ ہیں خدائی اختیار کے مالک ہیں تو ایسے گمان کو رد کرتے ہوئے شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ہر مخلوق بڑا یا چھوٹا ہللا
شان کے ٓاگے چمار سے بھی ذلیل ہیں (ـ تذکیر االخوان ص )408
ازالہ:۔معترض صاحب نے یہاں ہاتھ کی صفائی کا شاندا ر استعمال کرتے ہوئے دلیل ہی نہیں بلکہ تبصرہ بھی سرقہ کیا ہے
،دوسروں پہ سرقہ کی پھبتی کسنے والے یہ گھرکے محقق صاحب اس قابل بھی نہیں کہ خود تبصرہ کر سکیں ،یہ تاویل ان کی اپنی
نہیں ،بلکہ موصوف نے تقویۃ االیمان مع تذکیر االخوان کے صفحہ نمبر 408سے چرائی ہے ،اور جن الفاظ میں اولیاء کا تذکرہ تھا
اس کو جناب گول کر گئے ،خیر اب ہم معترض کی پیش کر دہ اس ٓایت کا مختصر جواب پیش کرتے ہیں۔معترض کہتے ہیں کہ
حضرت عیسی ٰ اور ان کی والدہ عذاب کے مستحق تو نہیں لیکن ہللا چاہے تو انہیں عذاب میں مبتال کر دے ۔اول تو اس ٓایت میں کہیں
بھی حضرت عیسی علیہ السالم کو نہ تو چمار سے زیادہ ذلیل کہا گیا ہے اور نہ ہی یہاں ہالک کا لفظ عذاب کے معنی میں ہے ۔شبیر
احمد عثمانی لکھتے ہیں:۔
ٓایۃ کی اس تقریر میں ہم نے ہال ک کو موت کے معنی میں لیا ہے(تفسیر عثمانی ص )146
لہذا ٓایت کا مطلب ہوا کہ ہللا چاہے تو ٓاپ علیہ السالم کو زائقہ موت چکھا دے ،اب اس ٓایت کو دہلوی صاحب کی عبارت سے کیا
عالقہ ہے ،اس میں تو ہللا رب العزت کی موت پہ قدرت کا بیان ہے ،اور معترض کا بیان کردہ معنی ہرگز درست نہیں۔
تاویل:۔چنانچہ وہ خود اپنی شان کے متعلق فرماتا ہے کہ ان کل من فی السموت واالرض اال اتی الرحمن عبد ااسی ٓایت کی تفسیر میں
ابو البرکات عبد ہللا بن محمود النسفی فرماتے ہیں :۔ای خاضعا،ذلیالمنقادا (تفسیر نسفی ج 2ص)354اور صاحب جاللین نے تو صاف
تصریح کر دی کہ ان میں حضرت عیسی ٰ علیہ السالم اور حضرت عزیر علیہ السالم بھی داخل ہیں چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ ای
ٰ
فتوی کیوں نہیں لگاتے جو ان ذلیال خاضعا یو م القیا مۃ منھم عزیر و عیسی (جاللین ص ٓ)460اخر یہ معترضین صاحب جاللین پہ
اولو العزم انبیاء کا نام لیکر لفظ کی نسبت ان کی طرف کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ان پر فتوے کیوں نہیں۔۔؟؟(دفاع اہل السنۃ ج 1ص539۔
)540
ازالہ:وکیل صفائی اگر زیادہ جذباتی نہ ہوں تو ہم عرض کرتے ہیں ٓاپ کے پیش کردہ دالئل انتہائی پھسپھسے اور موضوع سے
بُعدرکھتے ہیں ۔قارئین ہللا کے روبرو خود کو عاجز و لیل سمجھنا ایک الگ مسئلہ ہے اور خود ذلیل ہونا ہونا یہ الگ ہے۔جناب کی
تعالی کے بندے بروز قیامت اس کے روبرو حاضر ہونگے تو عاجزی و انکساری ظاہر ٰ پیش کردہ ٓایت کا مطلب یہ ہے کہ ہللا
لریں گے ،خواہ وہ ہللا کے نزدیک برگزیدہ ہو یا ذلت والے ہوں ،دیوبندی حضرات نے جو تفسیر نسفی کا ترجمہ کیا ہے ،اس میں
ہے :۔
یہ حال ،عاجز ،ذلیل ،مطیع ہو کر مطلب یہ ہے کہ جو بھی ٓاسمانوں و زمین میں ہیں خواہ مالئکہ ہوں اور لوگ ہوں مگر وہ قیامت
کے دن ہللا کی عبودیت کا اقراری بن کر ٓائیں گا(تفسیر مدارک ج 2ص)550
معترض نے جو جاللین کی عبارت پیش کی اس کا ترجمہ خود دیوبندی حضرات نے یوں کیا:۔
جتنے جو کوئی بھی ٓاسمان اور زمین میں ہیں سب خدائے رحمٰ ن کے روبرو عبد کی حثیت سے حاضر ہوتے ہیں (یعنی قیامت ے دن
عیسی علیہماالسالم بھی ہیں (کمالین ج 4ص )96
ٰ سب کے سب غالمانہ حثیت سے حاضر ہونگے ۔انہیں میں عزیز و
ٓاسمانوں میں اور زمین میں جو بھی ہے سب رحمٰ ن کے حضور میں بندہ بنے حاضر ہونگے (سب ہللا کے بندے ہیں اور بندگی کی
تعالی کے حضور میں حاضر ہونگے (انوار لبیان ج 6ص )54
ٰ حالت میں ہللا
لہذا واضح ہوا کہ اس جگہ خود کو عبد بنانے کی ،بطور غالم حاضر ہونے کی گفتگو ہورہی ہے،اس سے ان سب کا ذلیل ہونا الم
نہیں ٓاتا ۔
تاویل :۔امام غزالی رحمۃ ہللا علیہ اس قہار و جبار کی کبریائی اور مخلوق کی بے چارگی ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:۔۔۔۔معرفت کی
دوسری صورت یہ ہے کہ اپنے عیوب اور معاصی کے باعث یہ خوف نہ ہو بلکہ وہ جس سے ڈرتا ہے اس کی بے باکی اور قدرت
اس کی معرفت کا سبب بنی ہو ،مثال جب کوئی ٓادمی شیر کے پنجے میں گرفتا ر ہوجاتا ہے تو اس وقت وہ اپنی غلطی اور کوتاہی
کے سبب سے نہیں ڈرتا بلکہ اس بات سے ڈر رہا ہوتا ہے کہ شیر درندہ جانور ہے اور اس کو پنجے میں گرفتار ہونے والے کی
کمزوری کی کچھ پرواہ نہیں ،یہ خوف بہت فضیلت رکھتا ہے ،پس جس نے ہللا کی صفت قدرت کو پہچانا اس کی بزرگی قوت ارو
بے پروائی کو جانا اور سمجھ wگیا اگر وہ سارے عالم کو ہالک کر دے اور ہمیشہ کے لئے دوزخ میں رکھے تو اس کی بادشاہت میں
ایک ذرہ بھی کم نہیں ہوگا اور بے جا نرمی اور شفقت بے جا سے اس کی ذات پاک ہے تو یقینا وہ ڈرے گا ایسا خود انبیاء کرام کو
بھی ہوتا ہے اگر چہ وہ معصوم اور گناہوں سے پاک ہیں ،اور جس شخص کو یہ درجہ معرفت جس قدر زیادہ حاصل ہوگا وہ اسی
قدر (اس ذات بے نیاز سے )زیادہ ڈرنے واال ہوگا اسی لئے تو رسول ہللا ﷺ نے فرمایا کہ میں تم میں سب سے زیادہ
اپنے رب کی معرفت رکھنے واال ہوں۔۔۔۔الخ امام غزالی کی روحانی و علمی وجاہت کا کوئی جاہ ہی منکر ہو سکتا ہے جب
انہوں نے ہللا قدرت کاملہ اور اس کی بے پرواہ ذات کی بڑا ئی و کبریائی کو ثابت کر نے کیلئے بھیڑئیے اور درندے کی مثال دے
دی اور نبی کریم ﷺ اور حضرت دائو علیہ السالم کے ناموں کی تصریح کر دی تو اگر شاہ صاحب wنے مخلوق کے
لئے چمار کی مثال دے دی یا ذلیل کا لفظ استعمال کر لیا تو کسی کو کیا تکلیف(دفاع اہل السنۃ ج 1ص542۔)543
جواب:۔ہم اس جگہ انتہائی افسوس ہے کہ وکیل صفائی اپنے بڑوں کی محبت میں اس قدر غرق ہوچکے ہیںکہ انبیاء اولیا ء کو ذلیل
ثابت کرنے پہ کمر باندھے کھڑے ہیں اور اپنے تائیں حوالہ جات کا انبار لگا رہے ہیں چہ جائیکہ اس کا نفس مسئلہ کے ساتھ کچھ
عالقہ بھی نہ ہو۔وکیل صفائی کی پیش کردہ عبارت میں کہیں بھی نہ تو ہللا کے روبرو انبیاء کو ذلیل کہا گیا اور نہ ہی اس میں
موازنہ موجود ہے ،بلکہ اس میں ہللا رب العزت کے خوف کی گفتگو ہے ،اس کا تعلق بھی بندوں سے ہے ،ہللا کے ہاں ان کے مقام
سے نہیں۔ہللا سے ڈرنا یہ اس کے عبد کا فعل ہے ،پھر اس عبارت میں تو حضور ﷺ کی شان بیان ہورہی ہے کہ
جس کو ہللا کی معرفت زیادہ ہوگی وہ اسی قدر ہللا کا ڈر رکھے گا۔اور حضور ﷺ کو سب سے زیادہ خدا وند قدوس
کی معرفت ہے اور ٓاپ ہللا سے ڈرتے ہیں،اس سے ان کا ذلیل ہونا کیسے الزم ٓاگیا؟وکیل صفائی یا تو اسماعیل دہلوی کی عبارت کو
سمجھے wنہیں یا پھر ان کی محبت میں اس قدر غرق ہو چکے ہیں کہ سمجھنا چاہتے ہی نہیں۔
ذلت کے معنی
تاویل:۔اسی طرح ذلت کے لفظ کے متعلق وضاحت کردوں کہ ذلت کے معنی ضعف کمزوری اور قلت کے ہیںامام راغب اصفہانی
فرماتے ہیں :الذل ماکان عن القہر ۔۔یقال الذلو والقل ،والذلۃ والقلۃ (مفردات القرٓان ،ص )136غرض ذلت کے معنی کمزور ،عاجز
ناتواں ہونا دوسرے کے مقابلے میں ،اور عزت کے معنی قوت امام فخر الدین رازی رحمۃ ہللا علیہ قرٓان پاک کی ٓایت ۔۔۔۔۔اس حوالے
سے صاف ظاہر ہے کہ مخلوق خالق بدیع السموات کے قوت و غلبہ و عز کے مقابلے میں بال ریب ذلیل ہے (دفاع اہل السنۃ ج 1
ص)544
وکیل صفائی کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ بات درست ہے کہ عربی زبان میں لفظ ذلیل کمزور کے معنی استعمال ہوتا ہے ،مگر
اس سے یہ کب الزم ٓاگیا کہ اردو میں بھی اس کے یہی معنی ہوں؟عالمہ اشرف سیالوی اس قسم کے شبہ کا جواب دیتے ہوئے
لکھتے ہیں:۔
اب رہ گیا یہ معاملہ کہ ؒذ لیل کا لفظ عربی میں فالں معنی میں استعمال ہوتا ہے تو عربی کے اندر الفاظ اور معنوں میں ٓاسکتے ہیں
مثال (کل شئی ھالک )ہر چیز ہالک ہونیوالی ہے یہ عربی کے اندر ہے لیکن کسی کو کہا جائے کہ تو ہالک ہوجائے تو یہ بے ادبی
بن جائے گی اور وہ اس کو برا مانے گا (کل من علیھا فان )قرٓان مجید میں ہے لیکن اگر کسی کو کہا جائے کہ تو فنا ہوجائے تو اس
عبارت کے اندر سختی ٓاجائے گی لہذا عربی محاورات کو اردو محاورات پر قیاس کرنا قطعا غلط ہے (مناظرہ جھنگ ص )167
پھر دیوبندی عالم سے سوال ہوا کہ پشتو زبان میں حضور ﷺ کی طرف لفظ کمینہ کی نسبت کیسی تو لکھتے ہیں:۔
پشتو زبان کے محاورے کے مطابق کمینہ کا لفظ متواضع اورمنکسر المزاج شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے (الہذا اس کا قائل
ٰ
نہیں)(فتاوی حقانیہ ج 1ص )170 گنہگار
اب ہم وکیل صفائی سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کیا محترم اردو زبان میں یہ لفظ حضور ﷺ کے لیے ٓاپ لکھ
سکتے ہیں ؟اگر نہیں تو معلوم ہواکہ ایک زبان کے محاورے کو دوسرے پہ ہرگز قیاس نہیں کیا جاسکتا۔مفتی کفایت ہللا لکھتے ہیں:۔
مگر عرفی بے ادبی کا مدار عرف عام پر ہے ۔اور اسی پر حکم دائرہ ہوتا ہے (کفایت المفتی ج 1ص )126
لہذا واضح ہوا کہ گستاخی معیار عرف ہے ،اس لئے محترم کو یہ حوالہ جات بھی مفید نہیں۔
تاویل:۔تقویۃ االیمان میں بریلوی مولوی اکثر برا چھوٹا کے لفظ سے دھوکہ دیتے ہیں ۔۔حاالنکہ چھوٹا بڑے سے مراد عوام اور بادشاہ
بھی ہوسکتے ہیں ،طاقتور اور کمزور بھی چھوٹا بڑا کہالئے جا سکتے ہیں۔۔۔۔۔اگر کفر ایسے ہی ثابت ہوتا ہے تو احمد رضا خان کا
ایک شعر مالحظہ ہو :واہ کیا مرتبہ ہے غوث ہے باال تیرا۔۔اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلی تیرا ۔۔اب کوئی کہے کہ یہاں
اس شعر میں اونچے سے مراد تو اولیاء ہللا ہیں اور اس اونچوں سے بھی اونچوں سے مراد انبیاء علیہم السالم ہیں گویا احمد رضا
خان صاحب کے نزدیک شیخ جیالنی رحمۃ ہللا علیہ کا معاذہللا انبیاء سے بھی بڑھ کر ہے ۔کیا کوئی بریلوی ہماری اس تشریح کو
تسلیم کرے گا (دفاع اہل السنۃ ج)546
چھوٹا برا سے کیا مراد ہے اس کی وضاحت ہم کر چکے ہیں،لیکن وکیل صفائی عجیب قسم کے مخمصے کا شکار ہیں،کبھی تو
انبیاء کو ذلیل ثابت کرنے کے لئے ورق پہ ورق سیاہ کئے جاتے ہیں ،اور پھر خود مانتے ہیں کہ اس عبارت میں تذکرہ نہیں۔خیر
جہاں تک معترض کا پیش کردہ شعر ہےاس شعر کو پیش کر کے معترضعین نے جس جہالت کا مظاہرہ کیا وہ کسی اہل علم پر
مخفی نہیں ہے ۔اور معترضعین نے یہاں وہی انداز اختیار کیا ہے جو اندازتفضیلی حضرات اختیار کیا کرتے ہیں ۔اور تفضیلی
حضرات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے معترضعین حضرات نے بھی اپنی جہالت و علمی کا مظاہرہ کیا ۔ٓائیے ذرا
معترضعین[ وہابیوں] اور تفضلیوں دونوں کی جہالت ٓاپ کے سامنے رکھتے ہیں تاکہ حقیقت ٓاپ پر منکشف ہو جائے۔
تعالی نے قرٓان پاک میں امیر المومنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی ہللا عنہ کی شان اس طرح بیان فرمائی کہ
ٰ ’٭ہللا
ہم سنیوں کے مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ اتقی سے مراد ابو بکر رضی ہللا عنہ ہیں(التفسیر الکبیر جلد )۲۰۵ /۳۱۔
تعالی
ٰ علماء اہل سنت و جماعت نے جب اس ٓایت مبارکہ سے یہ استدالل کیا کہ امیر المومنین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی ہللا
تعالی عنہ پر فضلیت حاصل ہے اور اس پر اپنے دالئل پیش کیے تو’’ تفضیلیہ نے کہا کہ اتقی بمعنی
ٰ عنہ کو حضرت علیرضی ہللا
معنی نہ ہو تو اسم تفضیل کے اطالق کے سبب صدیق ٰ تقی ہے اور وہ (اسم تفضیل)معنی تفضیل سے مجرد ہے اسلئے کہ اگر یہ
تعالی عنہ) کی فضلیت نبی ﷺ کو شامل ہو گی تو الزم ٓائیگا کہ صدیق (حضرت ٰ (حضرت صدیق اکبر رضی ہللا
َ
تعالی عنہ) نبی ﷺ سے اتقی ہوں اور یہ قطعا اجماعی طور پر باطل ہے‘‘ ۔ ٰ صدیق اکبررضی ہللا
جب تفضیلیہ (عرف عام شیعہ) نے یہ باطل استدال کیا تو اکابرین علماء اہل سنت و جماعت wنے ان کو منہ توڑ جواب دیا جیسا کہ
حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ ہللا علیہ نے اپنی تفسیر میں اس کا ذکر فرمایا ہے ۔
وما ذکروا من الضرورۃ مندفع بان الکالم فی سائر الناس دون االنبیاء علھیم الصلوۃ والسالم لما علم من الشریعۃ ان االنبیاء اعلی ’’
تعالی فال یقاسون بسائر الناس وال یقاس سائر الناس بھم فعرف الشرع حین جریان الکالم فی ٰ کرامۃ و اشرف مکانۃ عند ہللا تبارک و
مقام التفاضل و تفاوت الدرجۃ یخصص امثال ھذا الفظظ با المہ و التخصیص العرفی اقوی من التخصیص الذکری کقول القائل خبز
القمح احسن خبر لن یفہم منہ تفضیلہ علی خبز اللوز الن استعمالہ غیر متعارف وھو خارج عن المبحث اذا الکالم انما انتظم العبوب
‘‘دون الفواکہ
اور جو ضرورت تفضیلیہ نے ذکر کی وہ مندفع ہے اس لئے کہ کالم انبیاء علہیم الصلوۃ والسالم کو چھوڑ کر باقی لوگوں میں ہے
کیونکہ شریعت سے معلوم ہے کہ انبیاء کی عظمت سب سے زیادہ ہے اور انکا مرتبہ سب پر ہے تو انھیں باقی لوگوں پر قیاس نہ
کیا جائے گا ،نہ باقی لوگ ان پر قیاس کئے جائینگے ۔
تو شریعت کا عرف مقام فضلیت اور تفاوت مراتب کی جاری گفتگو میں ایسے الفاظ کو امت کے ساتھ خاص کر دیتا ہے۔
اورتخصیص ذکری سے زیادہ قوی ہے جیسے کوئی کوئی کہے کہ گہیوں کی روٹی سب سے اچھی ہے ،اس سے گہیوں کی روٹی
کی فضلیت بادام کی روٹی پر نہ سمجھی جائیگی اس لئے کہ اس کا استعمال متعارف نہیں ہے اور وہ بحث سے خارج ہے اس لئے
کہ کالم اناج کو شامل ہے نہ کہ میووں کو ۔
۔)تفسیر فتح العزیز تحت آالیۃ ۹۲/۱۷پ عم ص ۳۰۴۔فتاوی رضویہ جلد ۲۸صفحہ (۶۰۵
اسی طرح شیعہ حضرات کا یہ بھی اعتراض ہے کہ تم سنی لوگ صدیق کو صدیق اکبر(سب سے بڑا سچا)کہہ کرہللا و رسول پر
فضلیت دینے کر مرتکب ہوتے ہو۔اسلئے کہ ہللا و رسول سچے یعنی صدیق ہیں۔ہللا و رسول صدیقوں ہی میں شامل ہے خارج تو نہیں
تو جب تم سنی یہ کہتے ہووہ ابو بکر ’’صدیق اکبر ‘‘ ہیں تو یہاں ہللا و رسول کو صدیقیت سے کیونکر خارج کر سکتے ہو۔ تو شاہ
عبد العزیز رحمۃ ہللا علیہ کے مذکورہ باال تحریر سے شیعوں کے اس اعتراض کا جواب بھی ہو گیاپھر ایسا استدالل خود ان کے
اپنے بھی خالف ہے کیونکہ خود وہابی حضرات بھی سنیوں کی طرح بہت ساری اصطالحات استعمال کرتے ہیں ۔ جیسے خود
اعلی حضرت‘‘ کا لقب دیا اور غیر مقلدین
ٰ علمائے دیوبند نے اپنے پیر و مرشد حضرت امداد ہللا مہاجر مکی رحمۃ ہللا علیہ کو’’
اہلحدیث نے اپنے امام نذیر حسین دہلوی کو ’’شیخ الکل ‘‘ کا لقب دیا ۔
تو کیا وہ نبی پاک ﷺ یا صحابہ کرام علہیم الرضوان کو حضرت یا شیخ نہیں سمجھتے ؟ یقینا سمجھتے wہیں تو کیا ان
القابات کو استعمال کرنے سے امداد ہللا مہاجر مکی اور نذیر حسین دہلوی کی فضلیت نبی کریم ﷺ یا صحابہ کرام
:علہیم الرضوان پر ثابت ہو گی؟جواب نمبر 4
الحمد ہلل عزوجل ! ہماری اس مذکورہ باال تفصیل سے اہل علم حضرات پر وہابیت کی جہالت واضح ہو چکی ہے ۔لیکن وہابی
حضرات کے لئے مزید تفصیل پیش خدمت ہے ۔
اعلی تیرا
ٰ اونچے اونچوں کے سروں سے قدم
اعلی حضرت رحمۃ ہللا علیہ کا یہ شعر اولیاء اکرام کے مشہور قول
ٰ ٭اوالَ تو عرض ہے کہ
‘‘قد می ھذ ٰ
اعلی رقبۃ کل ولی اﷲ''
کی بنا پر ارشاد فرمایا گیا۔اس میں اونچے اونچوں(اولیاء) کے بارے میں خود اعلیحضرت رحمۃ ہللا علیہ نے دو ٹوک وضاحت فرما
دی کہ
اس لفظ (اولیاء )کا تیسرا اطالق اخص اور ہے جس میں صحابہ بلکہ تابعین کو بھی شامل نہیں رکھتے کہ وہ اسمائے خاصہ سے ’’
اصطالح مشائخ
ِ ممتاز ہیں ،جیسے کہتے ہیں اس مسئلہ پر صحابہ وتابعین واولیائے امت وعلمائے ملت کا اجماع ہے اس وقت یہ لفظ
تعالی عنہ سیداالولیاء ہیںال یخص منہ نفس االان یقوم
ٰ معنی پر بیشک حضور غوث اعظم رضی ہللا
ٰ وصوفیہ کاہم عناں ہوتا ہے ،اس
معنی کہ اولیاء میں آپ بال تخصیص سب کے سردار ہیں بغیر دلیل کسی ولی کی تخصیص نہ ہوگی)تو فرمان واجب دلیل (اس ٰ
اعلی رقبۃ کل ولی اﷲ(میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے) میں تخصیص بال مخصص کی اصالً حاجت نہیں ‘‘االذعان’’قد می ھذ ٰ
ٰ
فتاوی رضویہ جلد نمبر ۱۰صفحہ (۸۱۰۔)
لہذا جس قول کی بنا پر اعل ٰیحضرت رحمۃ ہللا علیہ نے یہ شعر ارشاد فرمایا،جب wاس قول کی وضاحت ہو گی کہ اس سے میں انبیاء
کرام علیہم الصلوۃ والسالم اور صحابہ کرام علہیم الرضوان اجمعین شامل نہیں ہے بلکہ اُن اولیاء جن کے مقام و مرتبے سے حضور
غوث پاک رضی ہللا عنہ کی ذات کو بتایا جا رہا ہے وہ مشائخ و صوفیہ ہیں ۔لہذا جب قول میں تخصیص ہے تو پھر شعر میں بھی
تخصیص ہی ہو گی لہذا عمومی بات ہی نہ رہی ۔
٭پھر امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا رحمۃ ہللا علیہ نے یہ شعر اس وقت لکھا جب بعض لوگوں نے اپنے پیروں و مشائخ کو
اعلی حضرت رحمۃ ہللا علیہ کی خدمت میں یہ سوال پیش کیا گیا کہ
ٰ حضور غوث اعظم رضی ہللا عنہ پر فضلیت دی۔ جیسا کہ
زید کہتا ہے کہ جناب قطب االقطاب غوث الثقلین میراں محی الدین ابو محمد سید عبد القادر جیالنی قدس سرہ اپنے وقت میں غوث ’’
یا قطب االقطاب نہیں تھے بلکہ جناب سید احمد کبیر رفاعی رحمۃ ہللا علیہ قطب االقطاب اور غوث الثقلین تھے …عمرو کہتا ہے کہ
سیدنا احمد کبیر رفاعی کی والیت اور قطبیت میں ہمیں بالکل کالم نہیں ،مگر ان کی تفضیل سیدنا جناب عبد القادر جیالنی قدس سرہ
‘‘ پر نہیں ہو سکتی… اس مضمون پر بڑودہ میں خفیہ خفیہ بحثیں ہوا کرتی ہیں
یعنی سانپوں(موذیوں)کو دور کرنا اس ہادی کی بارگاہ سے جس نے امام رفاعی کو رفعت بخشی ‘‘ نامی مکمل کتاب تحریر فرمائی۔
اعلی حضرت رحمۃ ہللا علیہ نے فرمایا کہ ’’حضرت رفاعی اور ان کے امثال قبل و بعد کے قطبوں کو حضور(شیخ عبد
ٰ جس میں
تعالی۔
ٰ ہوس باطل و نقصان دینی ہے۔ والعیاذ باہلل
ِ القادر رحمۃ ہللا علیہ) پر تفضیل دینی
اور پھر گیارہ روایات حضور غوث اعظم رضی ہللا عنہ کی فضلیت کی بیان فرما کر حضرت رفاعی جیسے بزرگوں پر حضور
غوث اعظم کی فضلیت ثابت کی۔ اور معترضعین کے اسے نظریے کے رد کر کے یہ شعر ارشاد فرمایا کہ
معنی امام ائمہ وسیدنا االولیاء حضور اقدس سرور دو عالم ﷺ ہیں وبس ،اور اگر امت میں لیجئے تو ٰ ورنہ بایں
دودمان مصطفوی حضرت بتول زہرا ہیں۔اور اوپر سے لیجئے تو
ِ ٰ
حضرت صدیق اکبر رضی ہللا تعالی عنہ ۔ اسی طرح خالصہ
تعالی عنہم اجمعین۔
ٰ مجتبی رضی ہللا
ٰ حضرت موال مشکل کشا ء اور نقادہ خاندان مرتضوی حسن
پس واضح ہو گیا کہ طور متعارف پر حضرات ٓال ِ اطہار کو خالصہ مخلوق کہنا بہت صحیح ہے اور اس سے ان کی فضیلت انبیاء
ومرسلین بلکہ خلفائے ثالثہ رضوان ٰ
تعالی علیہم اجمعین پر الزم نہیں آتی کہ جو امور عقائد حقہ میں مستقر ہوچکے وہ خود ایضاح
‘‘مراد کو بس ہی ہیں
ٰ
فتاوی رضویہ جلد نمبر ۱۰صفحہ (۸۱۰)
تعالی عنہ کو حضور ﷺ سے افضل ٰ پھر معترض کا یہ کہنا اعلی حضرت رحمۃ ہللا علیہ غوث پاک رضی ہللا
سمجھتے ہیں بہتان ہے ،اعلی حضرت تو صحابہ تک سے افضل سمجھنے پہ دوٹوک یوں لکھتے ہیں:۔
تعال ی عنہ حضرت جناب افضل االولیاء المحمدیین سیدنا صدیق اکبر ’جس کا عقیدہ ہو کہ حضور پرنورسید نا غوث اعظم رضی ہللا ٰ
تعال ی عنہ سے افضل ہیں یا ان کے ہمسر ہیں(،وہ) گمراہ بد مذہب ہے ۔ سبحان ہللا ،اہل سنت کا اجماع ہے کہ حضور رضی ہللا ٰ
ٰ ٰ
صدیق اکبررضی ہللا تعال ی عنہ حضرت امام اولیاء مرجع العرفاء امیر المومنین مولی المسلمین سیدنا مولی علی کرم ہللا وجہہ سے
بھی اکرم وافضل واتم واکمل ہیں جو اس کا خالف کرے اسے بدعتی ،شیعی ،رافضی مانتے ہیں ،نہ کہ حضورغوثیت مٓاب رضی ہللا
ٰ
تعال ی عنہ کی تفضیل دینی کہ معاذہللا انکار ٓایات قرٓانیہ واحادیث صحیحہ وخرق اجماع امت مرحومہ ہے الحول وال قوۃ االباہلل العلی
العظیم۔یہ مسکین اپنے زعم میں سمجھا wجائے کہ میں نے حق محبت حضورپر نور سلطان غوثیت رضی ہللا ٰ
تعالی عنہ کا ادا کیا کہ
حضور کو ملک مقرب پر غالب یا افضل بتایا ،حاالنکہ ان بیہودہ کلمات سے پہلے بیزار ہونے والے سیدنا غوث اعظم رضی ہللا
ٰ
التوفیق۔(فتاوی رضویہ نمبر ۲۸کتاب الشتی صفحہ ۴۱۳تا )۴۱۶۔ ٰ
تعالی عنہ ہیں ،وباہلل
اعلی حضرت رحمۃ ہللا علیہ کا نظریہ بالکل واضح و دو ٹوک ہے کہ حضور غوث اعظم رحمۃ ہللا علیہ کو صحابہ ٰ الحمد ہلل عزوجل
کرام علہیم الرضوان پر بھی فضلیت حاصل نہیں ۔بلکہ جو ایسا بہودہ نظریہ پیش کرے وہ گمراہ و بد مذہب ہے۔پھر دیوبندی مولوی
صاحب عالمہ مخشری کے متعلق لکھتے ہیں:۔
زمخشری نحو ،لغت ،ادب و تفسیر کے بڑے ماہر تھے ،عربی زبان وادب میں ان کی رائے استشہاد کا درجہ رکھتی
ؒ عالمہ
ہے(محاضرات علوم قرٓان ص )145
جبکہ ان کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے دیوبندی مولوی لکھتا ہے :۔مخشری نے اس مقام پر حضرت جبرئیل امین ؑکو،حضرت رسالت پناہ
سے ﷺسے افضل قرار دیا(فرمودات ج 1ص )3
تاویل:۔حضرت خواجہ نظام الدین رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں :۔کسی شخص کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک اس کے
سامنے ساری خلقت اسی طرح ظاہر نہ ہو گویا وہ اونٹ کی مینگنی ہے(فوائد الفواد ص )223پشاور کے معروف بریلوی عالم پیر
محمد چشتی صاحب لکھتے ہیں:۔تمام مخلوق میں وہ (یعنی ذوات قدسیہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسالم ) بھی شامل ہیں (اصول تکفیر ص
) 197جواب دیں کیا اس اصول کے تحت ساری خلقت کے لفظ میں انبیاء مر سلین شمال نہیں؟(دفاع اہل السنۃ ج 1ص)547
ہر مخلوق کا لفظ اپنے عموم میں انبیا کوبھی شامل ہے لیکن اس قسم کے عام حکم میںانبیا اور اولیا ء کو صراحت کے ساتھ داخل
کرنا بے ادبی ہے (شاہ اسماعیل ص )۱۲۴
یعنی ہر مخلوق کے عمو م میں انبیاء بھی شامل ہیں،مگر عام حکم میں صراحت کے ساتھ داخل کرنا بے ادبی ہے ،جبکہ فوائد الفواد
کی عبارت میں یہ صراحت موجود نہیں۔پھر اس قسم کی کتب ملفوظات کی قبیل سے ہونے کی وجہ سے خود وکیل صفائی کے
نزدیک حجت نہیں۔اور ہمارے علماء نے بھی اسے مد سوس قرار دیا ہے ۔
تاویل:۔احمد رضاخان اپنے شاعرانہ مجموعے حدا ئق بخشش میں حضور ﷺ کے بارے میں ایک شعر یوں بیان
کرتے ہیں :۔
کثرت بعد قلت پہ اکثر درود عزت بعد ذلت پہ الکھوں سالم (حدائق بخشش حصہ دوئم ،مدینہ پبلشنگ کراچی )
غور فرمائیں کس واضح انداز میں یہاں حضور ﷺ کے لئے کہا جارہا ہے کہ پہلے ٓا پ ذلیل تھے معاذ ہللا ذلت میں
تعالی علیہم اجمعین کی کثرت ہوئی تو ٓاپ کو عزت ملی (دفاع اہل السنۃ ج1ص )548
ٰ تھے بع میں جب صحابہ کرام رضوان ہللا
اس شعر کےمصرعوں میں موجود اوصاف حضور ﷺ کے لئے نہیں بلکہ ٓاپ کی امت کے لئے ہیں ۔اور عبارت
میں حذف مضاف ہے ۔مطلب یہ ہے کہ ٓاپ ﷺ کی امت کےلئے پہلے قلت تھی جو بڑھ کر کثرت میں تبدیل ہوگئی
ض تَخَافُونَ َٔان
تعالی ہے َو ْاذ ُكرُوا إِ ْذ َٔانتُ ْم قَلِي ٌل ُّم ْستَضْ َعفُونَ فِي أَاْلرْ ِ
ٰ تعالی کے اس قول سے لیا گیا ہے ارشاد باری ٰ اور یہ مضمون ہللا
ت لَ َعل ُك ْم تَ ْش ُكرُونَ (اے امت محمدیہ ﷺیاد کرو جب تم تعداد َّ يَتَخَ طَّفَ ُك ُم النَّاسُ فَٓا َوا ُك ْم َو يَّ َد ُكم بِنَصْ ِر ِه َو َرزَ قَ ُكم ِّمنَ الطيِّبَا ِ
َّ َٔا
تعالی
ٰ میںتھوڑے تھے زمین میں کمزور سمجھے wگئے تھے تم ڈرتے تھے کہ (کافر)لوگ تمہیں بردستی اٹھا کر نہ لے جائیں پھر ہللا
نے تمہیں ایک محفوظ جگہ عطا فرمائی ۔اور اپنی نصرت سے تمہیں قوت بخشی )
ہماری مندرجہ باال معروضات سے یہ بات واضح ہوئی کہ سالم کے زیر بحث شعر میں قلت و ذلت کا تعلق حضور
ﷺ کے ساتھ نہیں ،بلکہ دونوں مصرعوں مین ایک ایک سبب کی نسبت ہے ،اور وہ سبب کثرت و عزت
ہیں،حضرت عمر رضی ہللا تعالی ٰ عنہ کا قول ہے کہ اے ابو عبیدہ ہم ذلیل قوم تھے ہم عزت اسالم کے صدقے ملی ہے ،اسی تناظر
میں یہ شعر ہے،اس لئے قابل اعتراض نہیں۔اس کے بعد موصوف نے پیر نصیر الدین صاحب wگولڑوی کی تشریح سالم کے زیڑ
بحث شعر کے متعلق پیش کی ۔جس پہ عرض ہے کہ اس بات سے انکار نہیں کہ پیر صاحب کا مطالعہ وسیع تھا ،مگر سطحی تھا
اور پیر صاحب مظطرب شخصیت تھے ،انوار ساطعہ کی عبارت کو براہین قاطعہ کا سمجھ جاتے ہیں ،اور اسی کیفیت اظطراب میں
واضح حقائق کی بھی تردید کر جاتے ہیں،مثال لکھتے ہیں:۔
میں نے کہا کہ ہمارے حضرت پیر سید مہر علی شاہ قدس سرہ کسی کلمہ گو کو کافر یا مشرک کہنے کے حق میں نہیں تھے (راہ و
رسم منزل ہا ص )266
جبکہ اس بات کا خود وکیل صفائی کے اپنوں کا اقرار ہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ ہللا علیہ نے اہل تشیع کی تکفیر کی ہے
،اس لئے پیر صاحب کی شخصیت wمظطرب ہونے کی بناء پہ من و عن حجت نہیں۔
تاویل :۔صاحبزادہ الحاج غالم جیالنی سلطان صاحب کی اجازت اور اہتمام سے حضرت سلطان باہو کی ایک کتاب کا اردو ترجمہ
شائع کیاگیا ہے اس کی ایک عبارت مالحظہ فرمائیںٓ:ادم عیلہ السالم کی ذلت شہوت کی وجہ سے تھی (اسرار قادری ص )60معاذہللا
عبارت کو بار بار پڑھئیے اور پوچھئے بریلوی حضرات سے کیا کسی عاشق رسول ﷺ نے کبھی اس کتاب کے
شائع کرنے والوں اور اس کو پڑھ کر ابھی تک خاموش رہنے والوں کے خالف قلم اٹھا یا ہے ۔۔؟(دفاع اہل السنۃ ج 1ص)550
ازالہ:جوابا عرض ہے کہ ایک سو سات سال پرانے نسخہ میں یہ عبارت کچھ یوں ہے :۔
لہذا جناب کا اعتراض سرے سے ہی لغو ٹھہرا۔اس کے بعد جو تفسیری عبارات پیش کیں ،ان کا جواب ہم عرض کر چکے ،غالم
نصیر الدین کا کالم الزامی ہے ،اور جہاں تک بات اوراق غم کے حوالہ کی تو اس کا مفصل جواب ہم جلد اول میں دے چکے ہیں
مصطفی کا جو حوالہ دی اگیا ہے اس میں کہیں بھی انبیاء کو چمار سے ذلیل نہیں کہا گیا اور ہی اس قسم کی کوئی
ٰ ،پھر رضائے
گفتگو ہے جس سے کسی کا مقام ذلت میں متعین ہو۔رہ گئی سبع سنابل کی عبارت تو اس میں عبادت میں تذلل کا تذکرہ ہے جس سے
کسی کا ذلیل ہونا الزم نہیں ٓاتا۔یہی حال موالنا نقی علی خان کی پیش کر دہ عبارت کا ہے ،اس کا مفصل جواب ہماری کتاب
رداعتراضات مخبث میں موجود ہے ۔
پھر معترض نے جو الفتح الربانی کا حوالہ پیش کیا تو عرض ہے کہ اول تو یہ کتاب نہ تو حضرت شیخ عبد القادر جیالنی قدس سرہ
کی تصنیف ہے ۔اور نہ ہی ان پر ان کی کوئی تصدیق ہے اور نہ یہ کتاب علماء میں متدا ول ہے کہ اکثر علماء اس کو پڑھتے
پڑھاتے بھی نہیں(عزت رسول ص) 394پھر موصوف کی پیش کردہ عبارت میں بھی یہ بات موجود نہیں حضرت یوسف علیہ السالم
ہللا کے روبرو ذلیل ہے ،اور نہ ہی ان کے مقام و مرتبہ کی وہاں گفتگو ہو رہی ہے،اس لئے یہ عبارت بھی ان کو مفید نہیں۔مکتوب
عبد القدوس گنگوہی میں بھی عبادت کا تذلل مراد ہے ۔خیر ہم نے انتہائی اختصار کے ساتھ اس عبارت پہ موصوف کی تاویالت کا
جواب عرض کر دیا ہے ۔تفصیل کے لئے قارئین عزت رسول از مفتی اقبال سعیدی رحمۃ ہللا کی طرف مراجعت کریں۔
عبارت نمبر : 3۔سب انبیاء و اولیاء اس کے روبرو ایک زرہ ناچیز سے بھی کم تر ہیں(تقویۃ الایمان مع تذکیر االخوان ص )74
تبصرہ:۔جن کو منصب نیابت اور منصب رسالت کے لئے منتخب کیا گیا ہے ان کو ذرہ ناچیز سے بھی کم تر قرار دینا کس قدر
زیادتی ہے (مناظرہ جھنگ ص )159
تاویل:۔ذرہ ناچیز والی عبارت کے متعلق رضا خا نی یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ ہللا کے ہاں ذرہ کا کوئی مقام تو ہے
تعالی
ٰ مگر انبیاء ذرہ ناچیز سے بھی گئے گزرے ہیں ان کا کوئی مقام نہیں العیاذ باہلل۔حاالنکہ یہ صریح دھوکا ہے وہاں تو صاف ہللا
کی عظمت کبرائی اور بڑائی کا ذکر ہو رہا ہے (دفاع اہل السنۃ ج 1ص)556
ہم عرض کرتے ہیں کہ وکیل صفائی صاحب اگر یہ دھوکہ ہے تو یہ دھوکہ اسماعیل دہلوی نے دیا ہے ۔عبارت ہم نے نقل کی ہے
کوئی بھی اردو دان اس کا ٓاسانی سے مفہوم سمجھ سکتا ہے ،جہاں تک موصوف کا یہ کہنا کہ ہللا کی کبرائی کا بیان ہورہا ہے تو یہ
بات مسلم ہے کہ توحید کی ٓاڑ میں محبوبان خدا کی گستاخی یہ وہابیہ کا شعار ہے ۔دیوبندی مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ’’ہمارے
ملک میں دیوبندیت کو ان نواصب کے عالوہ جس مسلک یا عقیدے نے بہت نقصان پہنچایا ہے ،وہ وہابیت ہے ۔ اسی کا اثر ہے کہ
اب بیعت کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ۔اس مسلک کے علماء بھی اب اول تو بیعت نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو ذکر اور سلوک
کے اسباق کی طرف توجہ نہیں دیتے ۔اولیاء ہللا کا توسل،اہل ہللا کا ادب،شعائر wہللا کا احترام اور چھوٹے بڑے کی تمیز اٹھ جانے کا
ایک سبب وہ وہابیت کا اثر ہے ،جو ہمارے مدارش میں گھس ٓائی ہے۔ اور توحید کے نام پر طلباء،حضرات اولیاء کرام رحمہم ہللا کو
گستاخ ٓامیز جملوں کا نشانہ بنانے لگے ہیں (دیوبندیت کی تطہیر ضروری ہے صفحہ14۔)
اس حوالہ باال یہ بات واضح ہوئی کہ دیوبندی حضرات کا یہ شعار ہے کہ وہ خدا وند قدوس کی توحید کا سہارا لیکر محبوبان خدا پہ
تنقید کے نشتر چالتے ہیں ،اس لئے خدا کی عظمت کا بیان ایک الگ مسئلہ ہے ،اور انبیاء کی تو ہین کرنا یہ الگ مسئلہ ہے ۔پھر یہ
کتاب انبیاء کی توہین سے پر ہے ۔کہیں انہیں العلم ثابت کیا گیا ہے کہیں ان سے اختیار کی مطلقا نفی کی گئی ،کہیں بد حواس کہا تو
کہی مر کر مٹی کے الفاظ سے زہر اگال گیا ہے ،لہذا یہ تو حید نہیں بلکہ توہین ہے ۔
تاویل:۔بریلوی صدر االفاضل نعیم الدین بریلوی لکھتا ہے :۔حضور اقدس کے علیہ الصلوۃ والسالم کے علم کو علم الہی سے کوئی
نسبت نہیں ذرہ کو ٓافتاب سے اور قطر ہ کو سمندر سےجو نسبت ہے وہ بھی یہاں متصور نہیںکہاں خالق اور کہاں مخلوق مماثلث و
مساوات کا تو ذکر ہی نہیں(الکلمۃ العلیاء ص 3۔)4۔۔نعیم الدین مراد ٓابادی لکھتا ہے کہ حضور ﷺ کے علم کو ہللا کے
علم سے وہ نسبت بھی نہیں جو ذرہ کو ٓافتاب سے اور قطرے کو سمندر سے ،یہ انداز بیان ان کے نزدیک حضور
ﷺ کی توہین نہیں مگر شاہ مظلوم ہللا کی عظمتون کے مقابلے میں انبیاء اولیاء کی عظمتوں کو ذرے سے کمتر کہہ
دیں تو کفر کے فتوے (دفاع اہل السنۃ ج 1ص556۔)557
اسس کے بعد جو اعلی حضرت ؒ کا جو حوالہ دیا اس کا بھی وہی جواب ہے جو ہم عرض کر چکے ہیںکہ یہاں حضور
ﷺ کے علم کی نسبت علم الہی سے ہےٓ،اپ کی ذات کا تذکرہ نہیں۔
4
۔مولوی رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں:۔
ٰ
(فتاوی رشیدیہ ج 2ص )9 لفظ رحمۃ للعالمین صفت خاصہ رسول ہللا ﷺکی نہیں ہے
مسلمانوں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ رحمۃ اللعالمین ٓانحضرت کا وہ ممتاز لقب ہے جو ٓانحضرت کے سوا ،اولین و ٓاخرین میں کسی کو
عطا ہوا،نہ ہوگا۔۔۔مرزا صاحب نے اس تحریف سے ایک تو یہ ثابت کیا کہ رحمۃ للعالمین ،حضرت محمد ﷺ کا لقب
خاص نہیں(تحفہ قادیانیت ج 4ص)171
لیکن ٓاپ نے تو تما م انبیاء بالخصوص نبی ٓاخر الزماں ﷺ کی تنقیص شان میں بھی کچھ کسر باقی نہیں چھوڑی ۔
چنانچہ الہامات ذیل پر غور کیجئے ۔() 1وما ارسلنک اال رحمۃ للعالمین (ہم نے تجھے مرزا کو)رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے(حقیقۃ
الوحی ص )83۔۔۔۔۔غور کیجئے نمبر اول میں مرزا جی حضور ﷺ کے خطاب رحمۃ للعالمین کے جو ٓاپ سے
مختص ہے،کے غاضب بنتے ہیں(تازیانہ عبرت ص )60
ان دونوں حوالہ جات سے یہ بات ثابت وہ گئی کہ رحمۃ للعالمین حضور ﷺ کی صفت خاصہ ہے اور رشید احمد
گنگوہی صاحب نے اس کا انکار کر کے گستاخی کا ارتکاب کیا ہے ۔اب جہاں تک وکیل صفائی کے پیش کر دہ حوالہ جات ہیں تو ان
کا جواب دیتے ہوئے عالمہ اشرف سیالوی فرماتے ہیں:۔
فتاوی رشیدیہ کی پیش کر دہ عبارت یعنی (رحمۃ للعمین نبی اکرم ﷺ کی صفت خاصہ نہیں)۔۔کا جواب صرف چند ٰ
ملفوظات سنا کر دینے کی سعی الحاصل کی گئی حاالنکہ ہم نے اعتراض کیا تھا کہ مولوی رشید احمد صاحب نے نبی کریم
ﷺ کی صفت خاصہ کا انکار کر کے سخت بے ادبی کا ارتکاب کیا ہے ۔یہ قطعا نہیں کہا تھا کہ سرے سے فنا فی
الراسول ہونے کی وجہ سے مجازا اولیائے کرام پر اس کا اطالق بھی کفر ہے ۔یا بے ادبی و گستاخی ۔لہذا یہ ساری تقریر اصل
جواب سے کوئی تعلق نہیں رکھتی ۔کیا ان ھضرات میں سے کسی نے اس کے صفت خاصہ ہونے کا انکار کیا ہے (مناظرہ جھنگ
ص )180
۔جس کا نام محمد یا علی ہے وہ کسی چیز کا مختار نہیں (تقویۃ االیمان ص 5)55
تبصرہ :۔ اہل سنت کا مذہب ہے کہ ملک و اختیار باالستقالل تو خاصٔہ خداوندی ہے اور ملک و اختیار ذاتی کسی فرد مخلوق کے
تعالی کا دیا ہوا اختیار اور اس کی عطا کی ہوئی ملک عام انسانوں کے لئے دالئل شرعیہ سے ثابت ہے اور
ٰ لئے ثابت نہیں لیکن ہللا
یہ ایسی روشن اور بدیہی بات ہے کہ جس کے تسلیم کرنے میں کوئی مخبوط الحواس بھی تامل نہیں کر سکتا۔ چہ جائیکہ سمجھ wدار
ٓادمی اس کا انکار کرے۔ حضور ﷺ کے حق میں علی االطالق یہ کہہ دینا کہ وہ کسی چیز کے مالک و مختار نہیں،
شان اقدس میں صریح توہین ہے اور ان تمام نصوص شرعیہ اور ادلہ قطعیہ کے قطعا ً خالف ہے ،جن سے حضور
تعالی کی دی ہوئی ملک اور اختیار ثابت ہوتا ہے۔(الحق المبین)
ٰ ﷺ کے لئے ہللا
تاویل:۔خالصہ یہ ہے کہ معترض کہتے ہیں کہ تقویۃ االیمان میں صرف اسی تصرف کا انکار ہے جس میں یہ عقیدہ رکھا جائے کہ
ہللا نے اپنے بندوں کو کن فیکونی تصرف دے دیا ہے اب وہ اپنے ارادے سے تصرف کر سکتے ہیں ،یہی بات شاہ ولی ہللا اور
قاضی ثناء ہللا نے لکھی ہے اور جو بات شاہ اسماعیل نے لکھی وہ عقیدہ زہ عبد العزیز کا بھی ہے (مخلصا دفاع اہل السنۃ )
الجواب:۔ہم عرض کرتے ہیں کہ معترض کہ یہ تاویل انتہائی بوگس ہے ۔اول تو تقویۃ الایمان میں مطلقا اختیارات کی نفی ہے ،چنانچہ
لکھتے ہیں:۔
یعنی جن کو لوگ پکارتے ہیں ان کو ہللا نے کچھ قدرت نہیں دی نہ فائدہ پہنچانے کی نہ نقصان کر دینے کی (تقویۃ االیمان ص)(1
)10
قدرت تصرف کی ثابت کرنی سو ان باتوں سے شرک ثابت ہوجاتا ہے (تقویۃ االیمان ص (2))12
سو انہوں نے بیان کر دیا کہ مجھ کو کچھ نہ کچھ قدرت ہے نہ کچھ غیب دانی میر ی قدرت کا حال تو یہ ہے کہ اپنی جان تک )(3
کے بھی نفع نقصان کا مالک نہیں(تقویۃ االیمان ص )33
فقط پیغمبری کا دعوی ہے مجھ کو اور پیغمبر کا اتناہی کام ہے کہ برے کام پر ڈرا دیوے اور بھلے کام پر خوش خبری سنا )(4
دیوے (تقویۃ االیمان ص )33
اور دوسرے کچھ قدرت نہیں رکھتے اگر کوئی قیامت تک ان کو پکارے تو وہ کچھ نہیں کر سکتے (تقویۃاالیمان ص (5))32
سو اب بھی جوکوئی مخلوق کو عالم میں متصرف ثابت کرے اور اپنا وکیل ہی سمجھ کر اس کو مانے سوا س پر شرک ثابت )(6
ہو جاتا ہے (تقویۃ االیمان ص )37
یعنی ہللا صاحب نے اپنے پیغمبر کو حکم کیا کہ لوگوں کو سنا دیں کہ میں تماہرے نفع و نقصان کا کچھ مالک نہیں (تقویۃ االیمان)(7
ص )38
ان تمام عبارات سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ دیوبندی حضرات مطلقا اختیارات کے منکر ہیں،اور جس ٓایت کا سہارا لیا جاتا ہے ،اس
کے تحت شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں:۔
اس ٓایت میں بتالیا گیا ہے کہ کوئی بندہ خواہ کتنا ہی بڑا ہو ،نہ اپنے اندر مستقل اختیار رکھتا ہے نہ ہی علم محیط سید االنبیاء صلعم
جو علوم اولین و ٓاخرین کے حامل اور خزائن ارضی کی کنجیوں کے امین بنائے گئے تھے ان کو یہ اعالن کرنے کا حکم ہے کہ
میں دوسروں کو کیا خو اہنی جان کو بھی کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا ،نہ کسی نقصان سے بچا سکتا ہوں،مگر جس قدر ہللا چاہے اتنے
ہی پر میرا قابو ہے (تفسیر عثمانی ص )231
اس عبارت میں شبیر احمد صاحب نے حضور ﷺ کے اختیار ات کا واضح تذکرہ کیا ہے کہ سرکار دو عالم
ﷺ مطلقا بے اختیار نہیں بلکہ ان کے لئے اختیار ثابت ہیں ۔جسٹس تقی عثمانی لکھتے ہیں:۔
ترجمے کے نمایاں الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ رسالت ماب نبی اکرم ﷺکے فرائض مین سے ایک یہ بھی ہے کہ
اچھی چیزوں کو جائز اور خراب چیزوں کو ناجائز قرار دیں(حجیت حدیث ص)63
جیسا کہ قرٓان پاک ۔۔کے ساتھ اس صفت کا اعالن کرتا ہے۔یعنی نبی کریم ﷺ ان کے لئے طیبات کو حالل اور خبیث
اشیاء کو حرام ٹھہرائیں گے (حجیت حدیث و سنت ص)10
تحلیل و تحریم یعنی اشیا ء کو حالل و حرام کرنا ٓاپ ﷺ کے منصب میں داخل تھا (تاریخ تدوین حدیث ص )28
نیز:۔
ان ٓایت سے معلوم ہوا کہ ٓانحضرت ﷺ نے جس قدر امت کو ہدایتیں دیں ،جو جو چیزیں ان سے بیان فرمائیں اور
کتاب و حکمت کی تعلیم کے ذیل میں جو کچھ ارشاد فرمایا ؛جن چیزوں کو حالل اور جن کو حرام ٹھہرایا (تاریخ تدوین حدیث ص
)31
عاشق الہی لکھتے ہیں:۔
اس ٓایت میں ٓانحضرت کو حالل قرار دینے واال اور حرام قرار دینے واال بتا یا گیا ہے (فتنہ انکار حدیث ص )31
بعض محققین کا قول ہے کہ عارف را ہمت نباشد یعنی عارف میں ہمت نہیں ہوتی۔یعنی وہ تصرف کرنے کو بے ادبی سمجھتا ہے)(1
۔انبیاء سے زیادہ کس کے دل کو قوت ہو گی ۔پتھر کھائے سب ہی کچھ مصائب اٹھائے مگر تصرف نہیں کیا ہاں دعا کرتے تھے۔
ہدایت کی توجہ نہیں ڈالی ۔اگر توجہ ڈالتے تو کیا ابو جہل ایمان سے باز رہتا ہرگز نہیں۔(ملفوظات حکیم المت ج۱۹ص )۳۰۷
اول تو مجھ میں قوت باطنی ہے نہیں ہاں قوت بطنی تو ہے دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا لیکن میں یہ کہتا ہوں اگرقوت )(2
باطنی بھی ہوتی تو بھی میں اس سے کام نہ لیتا اس لیے کہ یہ انبیاء علیہم السالم کی سنت نہیں ،مجال تھی کہ ابو لہب اور ابو جہل
ایمان سے رہ جاتے اگر حضور ﷺ قوت باطنی سے کام لیتے ( ملفوظات حکیم االمت ج 4ص )291
حضور ﷺ سے بڑھ کر کس کی توجہ اور تصرف ہو سکتا تھا اگر اس سے کام لیا جاتا تو حضور )(3
ﷺ کی ایک نظر میں عالم کا عالم زیر و زبر ہوجاتا اور دنیا میں ایک کافر بھی نظر نہ ٓاتا سب کے سب مسلمان اور
ایمان والے ہی ہوتے مگر حضور ﷺ تو کوئی کام بدون ازن نہ کرتے تھے جس جگہ قوت کے استعمال کا حکم دیا
جاتا حضور ﷺ نے اسی قوت سے کام لیا (ملفوظات حکیم االمت ج 6ص )236
اور حضور ﷺ کی شان یہ ہے کہ حضرت عائشہ ۃرضی ہللا عنہا فرماتی ہیں کہ انی اری ربک یسارع فی ھواک )(4
تعالی کو دیکھتی ہوں کہ ٓاپ کی خواہش کو بہت جلد پورا کر دیتے ہیں اور بھال حضور کی یہ شان کیوں نہ ہو ،جب
ٰ کہ میں خدا
؎ ادنی ادنی مقبولیں کی یہ شان ہے کہ تو
می و ہد یزداں مراد متقین (اشرف الجواب ص )594 چنیں خواہی خدا خواہد چنیں
خالد محمود دیوبندی لکھتے ہیں:۔’ہر نعمت چھوٹی ہو یا بڑی روحانی ہو یا جسمانی ازل سے ابد تک ساری کائنات پر ٓانحضرت
ﷺ کے صدقہ فیضان سے منقسم ہو رہی ہے‘‘(عقیدۃ االمت ص )۲۱۷
ایسے ہی ایک صاحب کرامت میں ارادے کے دخل کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
ایک یہ کہ علم ہو اور ارادہ ہو جیسے حضرت عمر کے فرمان مبارک سے دریائے نیل کا جاری ہونا۔(اظہا ر الحق ص ’)۹۹
مگر ٓاپ ﷺ کو چند تشریعی اختیارات سے بھی نوازا گیا ہے ٓاپﷺ کی ہاں بھی شریعت اور نہ )(1
بھی شریعت ہے‘‘( رحمت کائنات ص )۲۶۷
فقہا اور محدثین حضرات کی علمی ابحاث سے قطع نظر یہ ثبات ہوتا ہے کہ سید دو عالم ﷺ تشریعی احکام میں )(2
جو ارشاد فرمائیں وہ شریعت ہے ( رحمت کائنات ص )۲۶۹
تعالی نے)(3
ٰ ان واقعات سے معلوم ہوا کہ ٓاپ ﷺ شریعت ساز بھی ہیں۔اسی طرح تکوینی امور میں بھی ہللا تبارک و
ٓاپ ﷺ کو خصوصیت عطا فرمائی تھی ( رحمت کائنات ص ۲۶۹۔)۲۷۰
اسی طرح بعض بیباک یہ بھی کہنےمیں باک نہیں رکھتے ٓاپ کا کام صرف اتنا ہی تھا کہ ہللا کریم کا پیغام پہنچا دیا (رحمت )(4
کائنات ص )364
اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ صاحب تقوی ۃ االیمان نے مطلق اختیار کا انکار کیا ہے جبکہ حضور ﷺ مطلقا
بے اختیار نہیں اور دیوبندی مولوی لکھتا ہے :۔
جو فضیلت ثابت ہو اس کو نہ ماننا بھی گستاخی ہے (عقیدہ حیات النبی اور صراط مسقتیم ص )102
ؒ
عبارت شاہ ولی ہللا صاحب کی
ایسے ہی بادشاہ علی ال طالق جل مجدہ نے بھی اپنے خاص بندوں کو رتبہ الوہیت کے خلعت سے سرفراز کیا ہے اور ایسے لوگوں
کی رضا مندی و ناراضی دوسرے بندوں کے حق میں میں موثر ہے اس لئے وہ ان بندگان خاص کو تقرب کو ضروری خیال کرتے
تھے تا کہ بادشاہ حقیقی کی درگاہ میں مقبولیت کی صالحیت پیدا ہوجائے اور جزا ءاعمال کے وقت ان کے حق میں شفاعت درجہ
قبولیت حاصل کرے ۔اور ان خیالی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے وہ لو گ ان کو سجدہ کرنا اور ان کے لئے قربانی کرنا اور ان کے
نام کی قسم کھانا اور ضروری امو ر میں ان کی قدرت کن فیکون سے مدد لینا جا ئز سمجھتے wتھے (الفوذ الکبیر ص )8
یہاں واضح موجود ہے کہ مشرکین اپنے بتوں میں الوہیت مانتے تھے ،انہیں الہہ سمجھتے wتھے ،اور یہی بات نور الحسن بخاری یوں
لکھتے ہیں:۔
ور تعدد الہ و کثرت الوہیت کے نہ صرف مقر و متعرف تھے بلکہ اس پر سخت مصر تھے(تو حید و شرک کی حقیقت ص )69
لہذا یہ عبارت ہمارے خالف نہیں۔پھر شاہ صاحب رحمۃ ہللا علیہ مزید فرماتے ہیں:۔
شرک کی حقیقت یہ ہے کہ انسان بزرگوں کے بارے میں یہ عقید ہ رکھ لے کہ ان سے جو عجیب عجیب ٓاثار و کرامات wصادر ہوتی
ہیں وہ اس لئے صادر ہوئیں کہ وہ ان صفات کمال سے موصوف ہیں جو کہ جنس انسان میں نہیں ہوتے بلکہ واجب جل مجدہ کے
تعالی غیر پر خلعت الوہیت ڈال دے یا وہ حیر
ٰ ساتھ ہی مخصوص ہیںاور غیر ہللا میں صرف اس صورت میں پائے جاتے ہیں کہ ہللا
ہللا کے ذات کے ساتھ فنا اور اس کی ذات کے ساتھ باقی ہوجائے یا ایسا کوئی دوسرافاسد اور خرافاتی عقیدہ رکھ لے (حجۃ البالغہ
ص )158
موصوف نے قاضی صاحب کا بھی حوالہ پیش کیا،جو ہمارے خالف نہیں اس میں بھی مستقل و ذاتی کی نفی ہے ،وگرنہ وہ خود
لکھتے ہیں:۔
میں فرشتہ ہوں ہللا نے مجھے تیرے پاس بھیجا ہے تا کہ تجھے ایسا فرزند تیرے کرتے میں پھونک مار کر عطا کروں کو گناہوں
سے معصوم اور پاک ہوگا(تفسیر مظہری ج 7ص)187
بغوی کی روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس کے نزدیک وہ مالئکہ مراد ہیں جب کے سپرد کچھ کام بحکم خدا کر دئیے گئے ہیں
اور ان کو انجام دینے کا طریقہ ہللا نے انکو بتادیا ہے (تفسیر مظہری ج 12ص)191
پھر اگر قاضی صاحب جناب کے نزدیک حجت ہیں ہی تو ذرا انکے دیگر عقائد بھی مالحظہ ہوں ،حضرت یعقوب کے علم کے
متعلق لکھتے ہیں:۔
یعنی یوسف کے زندہونے اور اس سے مالقات ہونے کی اطالع میں نے تم کو پہلے ہی دے دی تھی (تفسیر مظہری ج 6ص)137
ازروئے الہام یوسف کے زندہ ہونے سے جو میں واقف ہوں تم واقف نہیں(تفسیر مظہر ی ج 6ص )131
صحیح بات وہی ہے جو ہم نے سورہ بقرہ کے اول میں لکھ دی ہے کہ ہللا اور ہللا کے رسول کے درمیان مشتابہات ایک راز ہیں۔۔۔
رسول ہللا ﷺاور آاپ کے بعض کاامتیوں کو ہی بتانا مقصود ہوتا ہے (تفسیر مظہری ج )125
اب اگر لفظ رسول اولیاء کو شامل مانا جائے اوراولیاء کو بطور کرامت علم غیب حاصل ہوجائے تو کوئی خرابی نہیں(تفسیر مظہری
ج 12ص )97
شاہ صاحب رحمۃ ہللا علیہ کی عبارت پیش کی گئی جس میں رسول ہللا ﷺ سے امور تشریعہ کی نفی ہے ،جو خود
علماء دیوبند کے بھی خالف ہے ،اگر اس عبارت کو ظاہر پہ رکھا جائے تو یہ منکرین حدیث کے عقیدہ کی تقویت کے لئے کافی ہے
،اسی عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے علماء دیوبند نے رسول ہللا ﷺ کے تشریعی اختیارات کو تسلیم کیا ہے ،شاہ
صاحب کی عبارت یوں ہے :۔
امر تشریعی حوالے پیغمبر کے نہیں ہوتے ۔کیونکہ منصب پیغمبری و منصب رسالت پہنچ دینا نہ نیابت خدا اور نہ شرکت کارخانہ
خدا میں(تحفۃ اثنا ء عشریہ)
اس عقیدہ کی تغلیط خود علماء دیوبند نے کی ہے ،قاضی زاہد الحسینی لکھتے ہیں:۔
اسی طرح بعض بیباک یہ بھی کہنےمیں باک نہیں رکھتے ٓاپ کا کام صرف اتنا ہی تھا کہ ہللا کریم کا پیغام پہنچا دیا (رحمت کائنات
ص )364
ٰ
فتوی لگانا پسند فرمائیں گے ؟پھر عاشق الہی میرٹھی اب کیا ہمارے معاند اس جگہ شاہ صاحب رحمۃ ہللا علیہ پہ بیباک ہونے کا
لکھتے ہیں:۔
قرٓان نے تو رسول ہللا ﷺکو بھی حالل اور حرام قرار دینے واال بتایا ہے (فتنہ انکار حدیث ص)29
کیا اب شاہ صاحب پہ قرٓان کی مخالفت کا الزام لگایا جائے گا،یا یہی کہا جا ئے گا کہ عبارت ہذا الحاقی ہے ،کیونکہ الحاقات wکا تذکرہ
خود شاہ صاحب نے کیا جس کاحوالہ ہم جلد اول میں درج کر چکے ہیں،اگر موصوف مصر الحاق کا انکار کریں تو عرض ہے کہ
تعالی عنہ کے بارے میں ہے :۔
ٰ اسی تحفہ میں حضرت معاویہ رضی ہللا
اب ہم اس بات پر ٓائے کہ جب اس کو باغی اور متغلب جانتے ہیں تو لعنت کیوں نہیں کرتے ۔اس کا جواب اہل سنت کے نزدیک یہ
ہے کہ جو مرتکب گناہ کبیرہ کا ہے اس پر لعنت جائز نہیںاور باغی بھی مرتکب کبیرہ کا ہے پھر اس ہر کیونکر لعنت جائز ہو(ہدیہ
مجیدیہ ترجمہ تحفۃ اثنا ء عشریہ ص،363تحفۃ اثناء عشریہ ترجمہ از خلیل الرحمٰ ن نعمانی ص360
امام حسن نے جب امامت سپرد کر دی تو اس وقت وہ بادشاہ ہوئے یا ان کی حثیت کے لئے زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ
ایک عام بادشاہ تھے (تحفۃ ص)360
حضرت امیر و زریۃ طاہرہ اور تمام امت بر مثال پیران و مراشدان میپرسنتدو امور تکوینیہ را بایشاں وابستہ میدانند(تحفۃ اثنا ص
)323
جو میری نیابت کرے اور زمین کی چیزوں میں تصرف کرے ۔اور ن زمین کی چیزوں میں تصرف ان چیزوں کے اسباب میں جو کہ
ٓاسمان کے ساتھ مربوط ہیں تصرف کے بغیر ممکن نہیں (تفسیر عزیزی ج 1ص )322
پانچواں مرتبہ یہ ہے کہ کمال کی ساری حدوں کو عبور کرکے تکمیل کی حدتک پہنچ جائے اور اس کام میں مقتدا اور مشکل کشا بن
جائے کہ دوسرے اس سے مشکالت کا حل چاہیںاور اس صنعت میںمشورہ اور تدبیر کے لئےاس کی طرف رجوع کریںاور اس حالت
کی تعبیر اس عبارت کے ساتھ فرمائی گئی ہے فالمدبرات امرا (تفسیر عزیز ی ج 4ص)46
ان عبارات سے شاہ صاحب رحمۃ ہللا علیہ کا عقیدہ واضح ہوجاتا ہے ۔پھر ان کے ممدوح کہتے ہیں:۔
مولوی صاحب کہتے ہیں کہ ٓائو میرے پاس ہدایۃ الحکمۃ پڑھو میں کہتا ہوں کہ مولوی صاحب مجھے wقرٓان و حدیث سنائو ّّ
ہدایۃ الحکمہ اپنے پاس رکھو قبر و حشر میں ہدایۃ الحکمۃ نہیں قرٓان و حدیث کام ٓائے گا (تاریخی مناظرہ علم غیب ص )113
اس شاہنشاہ کی تویہ شان ہے کہ ایک ٓان میں ایک حکم کن سے اگر چاہے تو کروڑوں نبی اور ولی اور جن و فرشتہ جبرئیل اور
محمد ﷺ کے برابر پیدا کر ڈالے (تقویۃ االیمان ص)41
تبصرہ:۔اہل سنت کے نزدیک حضرت محمد مصطفی ﷺ کی مثل و نظیر کے پیدا کرنے سے قدرت و مشیت ایزدی
کا متعلق ہونا محال عقلی ہے کیونکہ حضور ﷺ پیدائش میں تمام انبیاء سے حقیقتا ً اول ہیں اور یہ بعثت میں تمام
انبیاء سے ٓاخر اور خاتم النبیین ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس طرح اول حقیقی میں تعدد محال بالذات ہے اسی طرح خاتم النبیین میں بھی تعدد
ممتنع لذاتہ ہے اور اس بناء پر قدرت و مشیت خداوندی کا ناقص ہونا الزم نہیں ٓاتا بلکہ اسی امر محال کا قبیح و مذموم ہونا ثابت ہوتا
تعالی کی قدرت و مشیت اس سے متعلق ہو سکے(الحق المبین) ٰ ہے کہ وہ اس بات کی صالحیت ہی نہیں رکھتا کہ ہللا
ہم عرض کر چکے ہیں کہ حضور ﷺ کا نظیر پیدا ہونا یہ محال ہے ،اور محال زیر قدرت الہیہ نہیں۔دیوبندی مولوی
لکھتے ہیں:۔
زمانہ طالب علمی مین حضرت کی کتاب انتصار االسالم کے مطالعہ کا موقع مال تو اس سے پتہ چال کہ شریک باری تحت القدرۃ
نہیں اور یہ ہللا کے قادر مطلق ہونے کے ہرگز خالف نہیں(حضرت نانوتوی اور خدمات wخد مت نبوت ص )366
تعالی کے زیر قدرت نہ ہونا ہللا رب العزت کی قدرت کے خالف نہیں تو حضور ﷺ کے نظیر ٰ لہذا اگر شریک باری
کا بھی زیر قدرت نہ ہونا ہرگز قدرت الہی ٰہ کے خالف نہیں۔پھرفقیر محمد جہلمی لکھتے ہیں:۔
مولوی محمد اسماعیل کا یہ قول کہ ’’اگر خدا چاہے تو ایک ٓان میں محمد ﷺ جیسے کڑوں محمد پیدا کر دے ‘‘۔ٓایات
و احادیث مذکورہ کے سراسر مخالف ہے اول اس لئے کہ خدا تو یہ فرماتا ہے کہ ہم نے نہ اب نہ ٓائندہ کو محمد ﷺ
جیسا ور کوئی بھیجنا چاہا ہے اورٓاپ کے پیشوا یہ کہہ کر کہ خدا چاہے تو محمد ﷺ جیسے کروڑوں پیدا کر ڈالے
خوامخواہ خدا کی مشیت کو حضرت جیسا پیدا کر نے کے متعلق کر کے ٓانحضرت کی خاتمیت میں لوگوں کو شبہ میں ڈالتے
ہیں(ٓفتاب محمدی ص)۲۴
قول مذکور ثابت کرتا ہے کہ حضرت جیسا پیدا ہونا ممکن ہے گو وقوع میں نہ ٓوے اس کو بھی علما ء کرام نے باالتفاق کفر لکھا
ہے (ضرب محمدی wص )۲۵
حضرت موالنا فقیر محمد صاحب جہلمی نے ۳اذی الھضہ ۳۰۳ا ھ میں جہلم سے ایک ہفتہ وار پرچہ ’’سراج االخبار کے نام سے
جاری کیا ۔اس اخبار نے اپنے دور کے اعتقادی فتنوں خاص طور پہ فتنہ مرازئیت کی تردید میں بڑا کام کیا ۔مرزا قادیانی اور اس
کے حواری ’’سراج االخبار کے کارناموں سے سٹپٹا اٹھے ۔چناچہ انھوں نے ہر امکانی کوشش سے ’’سراج االخبار‘‘کو بند کرانے
کے حربے استعمال کیے ۔ٓاپ اور ٓاپ کے رفیق کار حضرت موالنا محمد کرم الدین صاحب دبیر پر مقدمات wکا دور شروع ہوا ،مگر
یہ عالی قدر ہستیاں مقدمات سے کب گھرانے والی تھیں ۔ابتال و ٓازمائش کی ٓاندھیاں ان کے پائے استقالل میں کوئی لغزش پیدا نہ کر
سکیں ۔گور داسپور کی عدالت میں مقدمہ چالجو قادیانی اور اس کے حواریوں کی شکست پہ منتج ہوا ۔مراز قادیانی کی خوب گت
تعالی نے مجاہد اسالم فقیر محمد جہلمی اور موالنا کرم کرم دین صاحب wکو باعزت بری فرمایا۔ٓاپ نے بڑی اہم کتابیں
ٰ بنی اور ہللا
یادگار چھوڑیں ہیں ۔جن میں ’’حدائق حنفیہ ‘‘کو خاص شہرت حاصل ہوئی(تحفظ ختم نبوت کی صد سالہ تاریخ ص۲۷ا،انٹرنیشنل
ختم نبوت موومنٹ)
لہذا دیوبندی حضرات کے ’’مجاہد االسالم ‘‘کے فتوے سے اسماعیل دہلوی صاحب کافر ٹھہرے۔اب ہم جناب کی پیش کردہ عبارات
کا جواب عرض کرتے ہیں۔
یہ ٓایت دالالت کرتی ہے کہ قدرت رکھنے کے اس بات پر ہللا بھیجے ہر بستی میں ڈرانے واال مثل محمد ﷺ ۔۔۔الخ
جوابا عرض ہے کہ سورہ فرقان مکی ہے اور سورہ احزاب مدنی ہے اور مکی سورۃ کا احتمال مدنی سورۃ سے منسوخ ہوگیا ۔پھر
یہ مثل صرف انذار یعنی ڈرانے میں ہے اور ہم حضور ﷺ کی ختم نبوت اور اولیت وغیرہ لوازم مخصوصہ ذات
شریف میں امتناع مثل کے قائل ہیں ،اور فقط نذارت جو تمام نبیوں میں بلکہ ٓاپ کے خلفاء میں بھی موجود ہے اس میں امکان مثل
میں کیا مضائقہ ہے ۔(تقدیس الوکیل)پھر اس پہ قرینہ خود تفسیر کبیر کی عبارات ہیں ،مفسر رازی لکھتے ہیں:۔
اس عبارت سے یہ بات واضح ہوئی کہ یہاں مثل کا مطلب یہی ہے کہ ہللا چاہتا تو ڈرانے والے ہر شہر میں بھیج دیتا ،مگر اس نے
تمام عالم کے لئے حضور ﷺ کو بھیجا ،اس لئے یہاں مثلیت کا تعلق صرف انذار سے ہے۔خود شبیر احمد عثمانی
اس ٓایت کے تحت لکھتے ہیں:۔
یعنی نبی کا ٓانا تعجب کی چیز نہیں ہللا چاہے تو اب بھی نبیوں کی کثرت کر دے کہ ہر بستی میں علیحدہ نبی ہو ۔مگر اس کو منظور
ہی یہ ہوا کہ اب ٓاخر میں سارے جہان کے لئے اکیلے محمد رسول ہللا صلعم کو نبی بنا کر بھیجے (تفسیر عثمانی ص )486
لہذا اس جگہ صرف نبیوں کی بات ہورہی ہے ،جن کی صفت انذار کا ذکر ہے ،اور امام رازی رحمۃ ہللا نے بھی نذیر مثل محمد لکھا
ہے ،یعنی جیسے حضور ﷺ کی یہ صفت ہے ایسے ہی اسی صفت سے موصوف اور لوگ بھی ٓا سکتے ہیں،اس
سے یہ ہرگز نہیں ثابت نہیں ہوتا ٓاپ مثلیت کے قائل ہیں۔تفصیل کے لئے تقدیس الوکیل مالحظہ کریں،ہم مختصر جواب پیش کردیا
ہے ۔
صوفیاء کی عبارات
کی احادیث اور اجماع امت ہے اور aسب سے پہلے یہ بات قابل ذکر ہے کہ دین کا اصل سرچشمہ قرٓان کریم ،سرکارسرکار دوعالم
اکاّدکا ّ افراد کی ذاتی ٓاراء اس مسئلے پر کبھی اثر انداز نہیں ہوسکتیں۔ جو دین کے ان بنیادی سرچشموں میں وضاحت کے ساتھ بیان
ہوا ہو۔ خاص طور سے نبوت ورسالت جیسا بنیادی عقیدہ تو خبرواحد سے بھی ثابت نہیں ہوتا۔ چہ جائیکہ اسے کسی انفرادی تحریر
سے ثابت کیا جائے۔ اس لئے اس مسئلے میں قرٓان وحدیث کی متواتر تصریحات اور اجماع امت کے خالف اگر کچھ انفرادی
تحریریںثابت ہو بھی جائیں تو وہ قطعی طور پر خارج از بحث ہیں اور انہیں بطور استدالل پیش نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰ ذا جن صوفیاء
کے مبہم جملوں سے مرزائی صاحبان سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں ان کی تشریح وتوجیہہ سے ہمارا یہ مقصد ہر گز نہیں ہے
کہ اگر بالفرض ان کی تحریروں کا مفہوم عقیدہ ختم نبوت سے متضاد ثابت ہو جائے تو اس مستحکم اور مسلمہ عقیدے کو کوئی
نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ بلکہ جس کسی نے ان کے کالم کی صحیح تشریح پیش کی ہے اس کا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ ان
پر ایک غلط الزام لگایا گیا ہے۔ جسے انصاف اور دیانت کی رو سے رفع کرنا ضروری ہے۔ بہ الفاظ دیگر ان حضرات کی
تحریروں کو ختم نبوت سے متصادم بنا کر پیش کرنے سے عقیدٔہ ختم نبوت پر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا۔ بلکہ ان بزرگوں پر یہ الزام
عائد ہوتا ہے۔ 2007یہی وجہ ہے کہ جہاں تک دین کے بنیادی مسائل ،عقائد اور عملی احکام کا تعلق ہے۔ وہ نہ علم تصوف کا
موضوع ہیں اور نہ علمائے امت نے تصوف کی کتابوں کو ان معامالت میں کوئی مٔاخذ یا حجت قرار دیا ہے۔ اس کے بجائے عقائد
کی بحثیں علم کالم میں اور عملی احکام وقوانین کے مسائل علم فقہ میں بیان ہوتے ہیں اور انہی علوم کی کتابیں اس معاملے میں
معتبر سمجھی جاتی ہیں۔ خود صوفیائے کرام ان معامالت میں انہی علوم کی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور یہ تصریح
کرتے ہیں کہ جو شخص تصوف کے ان باطنی اور نفسیاتی تجربات سے نہ گزرا ہو۔ اس کے لئے ان کتابوں کا دیکھنا بھی جائز
نہیں۔ بسااوقات ان کتابوںمیں ایسی باتیں نظر ٓاتی ہیں جن کا بظاہر کوئی مفہوم سمجھ میں نہیں ٓاتا۔ بعض اوقات جو مفہوم بادی النظر
میں معلوم ہوتا ہے وہ بالکل عقل کے خالف ہوتا ہے۔ لیکن لکھنے والے کی مراد کچھ اور ہوتی ہے۔ اس قسم کی عبارتوں کو
’’شطحیّات‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس لئے کسی بنیادی عقیدے کے مسئلہ میں تصوف کی کتابوں سے استدالل ایک ایسی اصولی غلطی ہے
جس کا نتیجہ گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔(قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر بحث کی مصدقہ رپورٹ ج 4ص241۔)242
صوفیاء کرام کے یہاں ایک باب ہے جس کو شطحیات کہتے ہیں۔ شطحیات ،شطحی یا شطح کی جمع ہے۔ اصطالح صوفیاء میں
شطح کی تعریف یہ ہے کہ جو بات غلبہ حال کی وجہ سے بے اختیار زبان سے نکل جائے اور بظاہر قواعد شریعت کے خالف
معلوم ہوتی ہے اس کو شطح کہتے ہیں۔ ایسے شخص پر نہ کوئی گناہ ہے اور نہ دوسروں کو اس کی تقلید جائز ہے۔خود حضرات
صوفیاء نے اس کی تصریح فرمادی ہے کہ ان شطحیات پر کسی کو عمل پیرا ہونا جائز نہیں بلکہ جس شخص پر یہ احوال نہ گزرے
ہوں وہ ہماری کتابوں کا مطالعہ بھی نہ کرے ،تاکہ فتنہ میں مبتال نہ ہو۔(احتساب قادیانیت ج 2ص155۔)156
عقائد و عملی احکام ،علم تصوف کا موضوع نہیں،اس لئے بعض صوفیاء کی کوئی بات از قسم شطحیات عقائد و اعمال میں کوئی
حجت نہیں (ٓائینہ قادیانیت ص)246
باقی کسی صوفی اور مشائخ میں سے کسی نے ایسی بات اگر لکھ دی تو وہ قطعا حجت نہیں کیونکہ دین میں فقہا ء کی بات معتبر
ٰ
فتوی نہیں لگائیں کہ شاید اس پر ہوتی ہے نہ کہ صوفیاء کی۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہم اس صوفی بزرگ کا احترام کر کے اس پر
حال ٓایا ہو جو ایک خاص کیفیت ہو تی ہے جس میں ہو ش و ہواس نہیں رہتے (نور سنت کا کنز االیمان نمبر ص )140
ٰ
فتاوی فیض الرسول کی عبارت
وکیل صفائی نے ادھوری عبارت پیش کی ،اس جگہ دوٹوک موجود ہے :۔
لیکن سرکار اقدس خاتم النبیین ﷺ کے بعد دوسرا خاتم االنبیاء پر پیدا ہونا محال ہے ۔۔۔اسی لئے وصف ختم نبوت میں
ٰ
ہے(فتاوی فیض الرسول ص )9 سرکار اقدس ﷺ کا نظیر و مثل محال بالذات
ٰ
فتاوی افریقہ کی عبارت
معترض نے ہم پہ مرزائیت کا الزام لگایا،خیر اس سلسلہ میں موصوف نے دوسری جلد میں کچھ گفتگو بھی کی ہے ،جس کا جواب
ٰ
فتاوی افریقہ کی عبارت پیش کی ،بعینہ یہی بات شیخ محدث الحق نے بھی ہم نے ٓاخر میں شامل کتاب کر دیا ہے،،موصوف نے جو
لکھی ہے ،چنانچہ فرماتے ہیں:۔
لیکن حضرت شیخ میں اور ہی قسم کا جمال و کمال ہے اور حضرت شیخ کا جمال دراصل حضور ﷺ کا جمال اور
ان کا کمال درحقیقت رسالت پناہ کا کمال ہے (اخبار االخیار ص )28
خود فخر عالم علیہ السالم فرماتے ہیں’’ ،وہّٰللا ال ادری ما یفعل بی وال بکم‘‘ اور شیخ عبد الحق روایت کرتے ہیں کہ ’’مجھ کو )۔(78
دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں۔‘‘(البراہین قاطعہ ص )55
تبصرہ :۔اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ رسول ہللا ﷺ صرف اپنی ہی نہیں بلکہ تمام مومنین و کفار کی بھی عاقبت کا
حال جانتے ہیں اور زمین و ٓاسمان کا کوئی گوشہ نگا ِہ رسالت سے مخفی نہیں۔’’وہّٰللا ال ادری‘‘ والی حدیث سے رسول ہللا
ﷺ کے اپنے اور دوسروں کے انجام کار سے العلم ہونے پر استدالل کرنا انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ کیا قرٓان کریم
ک ِمنَ ااْل ُوْ ٰلی‘‘ وارد نہیں ’’ولَـاْل ٰ ِخـ َرۃُ َخــ ْیـ ٌر لَّـ َ
ک َمقَا ًما َّمحْ ُموْ دًا‘‘ اور َ میں حضور ﷺ کے لئے ’’ع َٰسی اَ ْن یَّ ْب َعثَ َ
ک َربُّ َ
ت تَجْ ِریْ ِم ْن تَحْ تِہَا ااْل َ ْنہَا ُر ٰخلِ ِد ْینَ فِ ْیہَا ّ ٰ
ن ج ت َا ن م ْٔو م ْ
ال
ِ ِ َ ُ ِ ِ نَ َ ُ ِ ِ َ ٍ و ْ
ی ن م ْٔوم ْ
ال ل خدْ ُ ی ل ’’ میں حق )االیۃ( ‘‘oہوا۔ کیا مومنین کے قرٓان مجید میں موجود ٰ
نہیں؟پھر سمجھ wمیں نہیں ٓاتا کہ حضور کے علم کی نفی کس بنا پر کی جاتی ہے۔ حدیث ’’ال ادری‘‘ کے معنی صرف یہ ہیں کہ میں
بغیر تعلیم خداوندی کے محض اٹکل سے نہیں جانتا کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا ہو گا۔ وہی حدیث جو بحوالہ روایت شیخ عبد
الحق صاحب رحمۃ ہللا علیہ پیش کی گئی ہے اس کے متعلق پہلے تو یہ عرض ہے کہ شیخ عبد الحق صاحب رحمۃ ہللا علیہ نے اگر
اس حدیث کو لکھا ہے تو وہ بطور نقل و حکایت کے تحریر فرمایا ہے اس کو روایت کہنا اپنی جہالت کا ثبوت دینا ہے۔ پھر لطف یہ
ہے کہ یہی شیخ عبد الحق محدث دہلوی اپنی کتاب ’’مدارج النبوۃ‘‘ میں اس روایت کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں’’جوابش ٓانست
ت علمی کا کہ ایں سخن اصلے ندارد و روایتے بداں صحیح نشدہ‘‘ایسی بے اصل روایتوں سے حضور ﷺ کے کماال ِ
انکار کرنا اہل سنت کے نزدیک بدترین جہالت و ضاللت ہے۔(الحق المبین)
تاویل:اول بات تو یہ ہے کہ موالنا خلیل احمد سہارنپوری نے اس حدیث کو اپنی کتاب میں مدارج النبوۃ کے حوالے سے نقل نہیں
کیابلکہ مطلقا شیخ کی طرف منسوب کر کے نقل کیا ہے لہذا اب اگر شیخ کی کسی کتاب سے اس روایت کا ثبوت مل جائے تو
ہمارے لئے کافی ہے (دفاع اہل السنۃ ج 1ص)787
الجواب:۔وکیل صفائی کی خدمت wمیں عرض ہے کہ بالفرض اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ پھر اعتراض رفع نہیں
ہوتا،کیونکہ خلیل احمد صاحب نے اس عبارت کو نقل کرتے وقت دیانت دارانہ رویہ اختیار کرنے سے گریز کیا اور موصوف نے
ادھوری عبارت نقل کی،اس جگہ یہ بھی موجود ہے بے نانیدن حق سبحانہ (اشعۃ اللمعات ج 1ص )365
تعالی کے بتالئے بغیر ،اور اس بات کا کوئی قائل ہی نہیں۔مگر کیونکہ اس عبارت کو نقل کرنے سے خلیل صاحب wکے
ٰ یعنی حق
نظریہ پہ زد پڑتی تھی اور موصوف مطلقا حضور ﷺ کے علم کا انکار پہ مصر تھے ،اگر یہ بات نقل کر دیتے تو
دعوی سے مطابقت نہ ہونے کی وجہ سے غیر متعلق قرار نہیں پاتی ،اس لئے موصوف نے ٰ جناب کی پیش کر دہ دلیل ان کے
روایت کو ادھورا نقل کرنے پہ ہی اکتفاء کیا۔لہذا وکیل صفائی صاحب کی محنت بھی جناب خلیل صاحب کو اس اعتراض سے بری
نہ کر سکی۔جہاں تک موصوف کی پیش کر دہ عبارات ہیں تو جوابا عرض ہے کہ اول تو ان میں مطلقا علم کی گفتگو ہی
نہیں،کیونکہ خلیل احمد صاحب کا مقصد ان عبارات سے مطلقا علم نبوی ﷺ کی نفی ہے ،جیسا کہ ان حضرات کا
عقیدہ ہے ،چنانچہ تقویۃ االیمان میں موجود ہے :۔
جو کوئی بات کہے کہ پیغمبر خدا یا کوئی امما یا بزرگ غیب کی بات جانتے تھے اور شریعت کے ادب سے منہ سے نہ کہتے تھے
سو وہ بڑا جھوٹ اہے بلکہ غیب کی بات ہللا کے سوا کوئی جانتا ہی نہیں(تقویۃ االیمان ص )35
ہللا صاحب نے فرمایا کہ اپناحال لوگوں کے ٓاگے صاف بیان کر دیں تا کہ سب لوگوں کا حال معلوم ہوجاوے سو انہوں نے بیان کیا
کر دیا کہ مجھ کو نہ کچھ قدرت ہے نہ کچھ غیب دانی (تقویۃ االیمان ص )33
سب بندے بڑے ہو ن یا چھوٹے یکساں بے خبر اور نادان (تقویۃ االیمان ص )33
ان عبارات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ دیوبندی حضرات مطلقا منکر ہیں ،اس لئے خلیل صاحب نے ان دالئل سے استفادہ کیا،اور
جناب کی پیش کر دہ عبارات میں مطلقا علم کی نہیں موجود نہیں،پھر موصوف کا حدیث نبوی کہ میں دنیا کو رائی کی طرح دیکھتا
ہوں کے حوالہ سے بھی اعتراض درست نہیں۔اس لئے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ حضور ﷺ کے علم نزول قرٓان کے
بعد مکمل ہوگیا ،اس سے قبل اس قسم کے واقعات wہمیں مضر نہیں۔جہاں تک ملفوظات کی بات ہے تو میں اس میں سوال ہے ،اور
پوچھنا علم کی نفی کے مترادف نہیں۔
حتی کے غیر
پھر اہل سنت کی طرف سے جب دیوبندی حضرات کے حوالہ جات پیش کئے جاتے ہیں کہ ان نزدیک ان کے ولیوں ٰ
مسلم حضرات کو دیوار کے پیچھے کا علم حاصل ہوجاتا ہے تو موصوف جوابا لکھتے ہیں:۔
پھر معارضہ میں حضرت حکیم االمت موالنا اشرف علی تھانوی صاحب کا ملفوظ پیش کرنا بھی جہالت ہےاس لئے کہ بالفرض
کسی ولی سے کوئی یا کسی فاسق و فاجر سے کوئی استدراج ظاہر ہوجائے اور بعینہ اس کا ثبوت کسی نبی سے نہ ہوتو اس سے
معاذہللا کوئی کمی نہیں ٓاتی نہ ہی وہ صاحب کرامت و استداراج اس نبی سے بڑھ جاتا ہے (دفاع اہل السنۃ ج 1ص )790
وکیل صفائی صاحب کسی چیز کا ظاہر نہ ہونا اس کے عدم پہ بھی ہرگز دلیل نہیں۔مہر محمد میانوالوی لکھتے ہیں:۔
معلوم ہوا کہ مشہور کلیہ کے مطابق عدم ذکر شئی عدم وجود شئی کو مستلزم نہیں(تحفۃ االخیار ص ّّ)35
موصوف نے جتنی بھی امثال ٓاگے چل کر پیش کی ہیں ،ان سب کا یہی جواب ہے کہ حضور ﷺ سے اس قسم
کرامات کا ظاہر نہ ہونا ٓاپ کی صالحیت کی نفی کو مستلزم نہیں۔باقی ٓاپ نے جو حضرت عائشہ کے حوالے سے مثال لکھی ہے اس
پہ تبصرہ کرتے ہوئے بھی ہمیں شرم محسوس ہورہی ہے ،خدارا اکابر کی محبت میں اس قسم کے سوقیانہ جملوں سے پر ہیز کریں۔
باقی اگر اوالد نہ ہونا صالحیت کی نفی الزم نہیں۔پھر حسین احمد مدنی لکھتے ہیں:۔
ٓاپ کو جملہ کماالت کے لیے اہل عالم کے واسطے واسطہ مانتے ہیں یعنی جملہ کماالت خالئق علمی ہوں یا عملی ،نبوت ہو یا
رسالت صدیقیت ہو یا شہادت، wسخاوت ہو یا شجاعت ،علم ہو یا مروت ،قنوت ہو یا وقار وغیرہ وغیرہ سب کے ساتھ اوال بالذات ٓاپ
کی ذات واال صفات جناب باری عز شانہ کی جانب سے متصف کی گئی اور ٓاپ کے زریعہ سے جملہ کائنات کو فیض پہنچا (الشہا
ب الثاقب ص )197
یعنی جس کو جو کمال مال ہے وہ حضور ﷺ کے واسطہ سے مال ہے ،لہذا کسی بھی ولی میں پائے جانے والی
کرامات خود بخود حضور ﷺ کے لئے ثابت پے ۔یہاں ہم نےخالصۃ گفتگو کر دی ہے ،زیر بحث عبارت پہ تفصیلی
تبصرہ کا حق محفوظ رکھتے ہوئے ،اس کو اگلی جلد تک موخر کرتے ہیں۔
الحاصل غور کرنا چا ہیے کہ شیطان اور ملک موت کا حال دیکھ کر علم محیط زمین کا فخر عالم کو خال ف نصوص قطیعہ کے )(9
بال دلیل محض قیاس فاسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کونسا ایمان کا حصہ ہے شیطان کویہ وسعت نص سے ثابت ہوئی فخر عالم
کے علم کی کونسی نص قطعی ہے کہ جس سے تمام نصوص کو رد کرکے ایک شرک ثابت کرتا ہے(براہین قاطعہ)۵۵
اس عبارت میں علم محیط زمین شیطان کے لیے مانا گیا ہے اور حضور کے لیے انکا ر ہے معاذہللا شیطان کا علم حضور سے ذیاد
ہ مانا گیا ہے ۔اب اس عبارت کے متعلق ہم وکیل صفائی کے شبہات کا ازلہ بھی کئے دیتے ہیں۔
تبصرہ :۔اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ رسول ہللا ﷺ کے مقابلے میں شیطان کے لئے محیط زمین کا علم ثابت کرنا اور
ت اقدس سے اس کی نفی کرنا بارگا ِہ رسالت کی سخت توہین ہے۔اہل سنت کے نزدیک شیطان و حضور ﷺ کی ذا ِ
ٰ
دعوی کرتا ہے وہ قرٓان و ملک الموت کے محیط زمین کے علم پر قرٓان و حدیث میں کوئی نص وارد نہیں ہوئی جو شخص نص کا
حدیث پر نہایت ہی ناپاک بہتان باندھتا ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ کے علم کو نصوص قطعیہ کے خالف کہنا بھی
قرٓان و حدیث پر افتراء عظیم ہے۔ قرٓان و حدیث میں کوئی ایسی نص وارد نہیں ہوئی جس سے رسول ہللا ﷺ کے
حق میں محیط زمین کے علم کی نفی ہوتی ہو بلکہ قرٓان و حدیث کے بے شمار نصوص سے رسول ہللا ﷺ کیلئے ہر
چیز کا علم ثابت ہے۔اہل سنت کا مسلک ہے کہ کسی مخلوق کے مقابلے حضور ﷺ کے لئے علم کی کمی ثابت کرنا
حضور کی شا ِن اقدس میں بدترین گستاخی ہے۔(الحق المبین )
وکیل صفائی کا یہ کہنا کہ مولف انوار ساطعہ نے قیاس کیا ہے ،درست نہیں۔حضور غزالی زماں رحمۃ ہللا علیہ لکھتے ہیں:۔
افضلیت و اصالت مصطفیﷺ:۔اظہار کمالت wمحمدی ﷺ کے بارے میں علمائے امت کا ہمیشہ رہا
ہے کہ جب انہوںنے کسی فرد مخلوق میں ایساکمال پایا جو از روئے دلیل بہ ہیت مخصوصہ اس فرد کے ساتھ مختص نہیں تو اس
کمال کو حضور ﷺ کے لیے تسلیم کر لیا کہ حضور ﷺ تمام عالم کے وجود اور اسکے ہر کمال کی
اصل ہیں۔اور جو کمال اصل میں نا ہو فرع میں ہو ہی نہیں سکتا ٰ
لہذا فر ع میں ایک کمال کا پایا جانا اس امر کی روشن دلیل ہے کہ
اصل میں یہ کمال ضرور ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بخالف عیب کے۔یعنی یہ ضروری نہیں کہ فر ع کا عیب اصل کے عیب کی دلیل بن جائے۔ہم
اکثر دیکھتے ہیں کہ ہرے بھرے درخت کی بعض ٹہنیاں سوکھ جاتی ہے مگر جڑ ترو تا زہ رہتی ہے اس لیے اگر جڑ ہی خشک ہو
جائے تو ایک شاک بھی تر نا رہتی ۔اور جب سوائے چند ٹہنیوں کے باقی سب شاداب ہو تو اسکا مطلب ہے کہ جڑ تر و تازہہے اور
جو یہ چند شاخیں مر جھا گئی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اندرونی یا بیرونی طور پر ان کا تعلق اصل سے ٹوٹ گیا ہے۔یہ صیح ہے
کہ بعض اوقات فر ع کا عیب اصل کی طرف منسوب ہو جاتا ہے مگر یہ تب ہو گا جب اصل میں عیب پایا جائے اور جب اصل کا
بے عیب ہونا دلیل سے ثابت ہو تو فرع کا عیب اصل کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔اور اس میں شک نہیں کہ اصل کائنات کا
بے عیب ہونا دلیل سے ثابت ہے۔لہذا اس وضا حت سے ثابت ہو ا کہ موجودات عالم کا ہر کمال کمال محمدی کی دلیل ہے مگر کیسی
فرد کا عیب حضور کے عیب کی دلیل نہیں۔اور اسکا وہ عیب اس وجہ سے ہے کہ وہ اصل کائنات سے منقتع ہو چکا ہے۔ اسی
اصول کے مطابق مصنف انوار ساطع نے فرمایا تھا کہ جب چاند سورج کی چمک دمک تمام روئے زمیں پر پائی جاتی ہے اور
شیطان اور ملک الموت تمام محیط زمیں پر موجود ارہتے ہیں ،بنی ٓادم کو دیکھتے اور ان کے احوال کو جانتے ہیںتو نبی اکرم
ﷺ کا بیک وقت بہت سے مقامات wپر تمام روئے زمین پر رونق افروز ہونا اور اسکا علم رکھنا کس طرح شرک ہو
سکتا ہے۔ظاہر ہے مصنف کا یہ کالم تو اسی اصل پر مبنی تھا لیکن مولوی خلیل نے حضورﷺ کے کمال کو حضور
کے وصف اصالت کی بجا ئے افضیلت پر مبنی سمجھ لیا یعنی مولوی نے یہ سمجھا کہ مصنف انوار ساطع نے جوشیطان اور ملک
الموت کے ہر جگہ موجود ہونے اور روئے زمین کی اشیاء کا عالم ہونے کو بیان کر کے حضور ﷺ کے ہر جگہ
موجود ہونے اور روئے زمین کا علم رکھنے کی طرف متوجہ کیا ہے اس کی بنیاد حضور ﷺ کی افضیلیت محضہ
ہے ۔انبیٹھوی صاحب نے اس غلظ فہمی سے بزعم خود ایک بنیاد فاسد قائم کردی۔اس سلسلہ میں فرماتے ہیں
اعلی علین میںروح مبارک کا تشریف ﷺرکھنا اور ملک الموت سے افضل ہو نے کی وجہ " ٰ پس
"سے ہر گز یہ ثا بت نہیں ہوتا کہ علم ٓاپ کا ان امورمیں ملک الموت کے برا بر بھی ہو چہ جائکہ زیادہ
مولوی صاحب ٓاپ سے کس نے کہدیا کہ مصنف انوار ساطعہ نے حضور کی فضیلت کو اعلمیت کی دلیل مانا ہے صاحب wانوار
ساطعہ یا کوئی بھی سنی عالم ٓاپ کی فضیلت کو ٓاپکی اعلمیت کی دلیل نہیں جانتا بلکہ ہم ٓاپ ﷺ کی اصالت کو ٓاپ
کی اعلمیت کی دلیل مانتے ہیں۔ہمارے اس بیان سے مخالفین کے ان تمام حوالہ جات کا رد ہو گیا جن سے وہ ثابت کرتے ہیں کہ
موسی علیہ اسالم افضل ہیں مگر حضرت خضر کے لیے بعض علوم ثا بت ہیں ٰ فضیلت اعلمیت کو مستلزم نہیں۔حضرت خضر سے
موسی علیہ السالم کے لیے انکا حصول ممکن نہیں وغیرہ وغیرہ۔(الحق المبین ۲۹۔)۳۲
ٰ مگر حضرت
اس لئے واضح ہوا کہ مولف انوار ساطعہ نے قیاس ہرگز نہیں کیا،اس کے بعد وکیل صفائی معترض کے روپ میں یوں لکھتے ہیں:۔
عبارت کے ٓاخری جملوںمیں خود اقرار کیا ہے یعنی تماشا یہ کہ اصحاب محفل میالدتو زمین کی تمام جگہ ،پاک ناپاک مجالس مذہبی
و غیر مذہبی میں حاضر ہونا رسول ہللا ﷺ کا دعوی ٰ نہیں کرتے ،ملک الموت اور ابلیس کا حاضر ہونا اس سے بھی
زیادہ تر مقامات ،پاک ناپاک ،کفر غیر کفر میں پایا جاتا ہے ۔مولوی عبد السمیع لفظ اس سے بھی زیادہ تر مقامات لکھ کر بھی پکے
ٹھکے مسلمان رہے (دفاع اہل السنۃ )
دیوبندی مفتی نے میالد شریف کی مجلسوں میں حضرت کے تشریف النے کا اعتقاد شرک بتایا اور ہر جگہ موجود ہونا خاصہ
خداوند کہا ۔غیر خدا کے لئے یہ صفت ماننا شرک بتالیا ۔موالنا عند السمیع نے اسی کا رد کیا کہ یہ اعتقاد شرک نہیں نہ یہ خاصہ
تعالی نے ہر جگہ موجود ہونے کی قدرت دی ہے ۔ٓافتاب و ماہتاب ہر
ٰ حتی کہ شیطان لعین کو ہللا
خداوندی ہے کیونکہ ملک الموت ٰ
جگہ موجود ہیں اسی طرح اگر نبی کریم ﷺ اپنے روحانی جلوہ سے مثل ٓافتاب و ماہتاب کے میالد شریف کی
مجلسوں میں جلوہ گر ہوں تو یہ نہ محال ہے نہ بعید ۔دیوبندی فتوے کا یہ ایسا بلیغ رد ہے کہ قیامت تک جواب نہ ممکن ہے کیونکہ
جو چیز ممکن ہے اس کا شرک ہونا محال ہے مگر ہٹ دھر می کا برا ہو کہ مولوی خلیل احمد انبیٹھی مولوی رشید احمد گنگوہی نے
اپنے دیوبندی مفتی کی بات بنانے اور مولوی عبد السمیع صاحب کا رد کر نے کے لئے براہین قاطعہ میں بہت کچھ لکھا جس
خالصہ خود ہی یہ کفری عبارت بیان کی (الدیوبندیت 203۔)204
مولوی عبد الجبا عمر پوری دیوبندی نے لکھا تھا :حضرت کی نسبت یہ اعتقاد کہ جہاں مولود شریف پڑھا جاتا ہے تشریف التے
تعالی ہے ہللا سبحانہ نے اپنی صفت دوسرے کو عنایت نہیں فرمائی (انوار ساطعہ مع براہین قاطعہ ٰ ہیں ،شرک ہیں۔ہر جگہ موجود ہللا
ص ) 52ناتوی،گنگوہی ،تھانوی صاحبان کے پیر بھائی موالنا عبد السمیع صاحب رام پوری رحمۃ ہللا نے انوار ساطعہ میں اس کو دو
طریقے سے رد فرمایا ۔ایک یہ کہ جہاں جہاں مولود شریف پڑھا جاتا ہے وہاں وہاں تشریف النے کا مطلب ہر جگہ موجود ہونا کہاں
ہے ؟دوسرے زمین میں ہر جگہ تشریف لیجانے کوہللا عزوجل کا خاصہ جاننا باطل ہے ۔شرق ست غرب تک ہر روح کو حضرت
تعالی نے دنیا ان کے ہاں مثل چھوٹے ٰ عزرائیل علیہ الصلوۃ والسالم قبض کرتے ہیں،ہر مکان کو دن رات دیکھتے رہتے ہیں ۔ہللا
تعالی نے شیطان کو یہ قدرت دی ہے کہ وہ تمام بنی ٓادم ؑ کےسا wتھ رہتا
ٰ سے خوان کے کر دی ہے ۔یہ تو ایک فرقشتہ مقرب ہے ۔ہللا
ہے ۔حاصل یہ کہ جب مخلوق اور غیر ہللا کو یہ قدرت دی گئی ہے تو ہرگز یہ خاصہ الوہیت نہیں اور جب یہ خدا کی صفت نہیں تو
اگر رسول کیلئے کوئی اسے مانے تو ہر گز یہ شرک نہیں۔اس رد کا گنگوہی صاحب سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور نہ قیامت wتک
کسی سے بن پڑے گا ۔گنگوہی صاحب نے اس رد کو استدالل ٹھہرا یا یعنی یہ کہ مولوی عبد السمیع صاحب نے حضور اقدس
ﷺ کے ہر جگہ موجود ہونے پر یہ دلیل دی ہے کہ جب شیطان اور ملک الموت ہر جگہ موجود ہیں تو حضور
چونکہ ان دونوں سے افضل ہیں اس لئیے وہ بھی ہر جگہ موجود ہیں۔حاالنکہ موالنا موصوف پہ یہ کھال ہوا افتراء ہے (التحقیقات
ص )299
الغرض موالنا عبد السمیع نے قیاس ہرگز نہیں کیا ،اور اگر کسی سنی عالم دین نے اس سے استدالل کیا ہے جیسا کہ موصوف نے
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃہللا علیہ کی عبارات پیش کیں ،تو وہ اصالت مصطفی ٰ کو مد نظر رکھ کر کیا ۔
قارئین براہین قاطعہ کی عبارت میں مطلقا وسعت علمی کا انکار ہے ،اور وہ علم عطائی ہے ۔دیوبندی حضرات یہاں یہ تاویل
کرتے ہوئے نظر ٓاتے ہیں کہ اس سے مطلقا علم مراد نہیں کوئی اسے علوم رذیلہ سے تعبیر کرتا ہے تو کوئی یہ کہہ کر جان
چھڑواتا ہے کہ صرف علم زمین محیط کی بات ہے نہ کہ مطلقا وسعت علم کی (مخلصا کتب دیابنہ )
ازالہ:۔اس اعتراض کے تفصیلی جواب کے لئے ہمارے قارئین تحقیقات از شریف الحق امجدی کی طرف رجوع کریں۔ہم یہاں
مختصر کالم کرتے ہیں۔اول تو یہ کہنا کہ علوم رذیلہ کی بات ہے یہ بھی دیوبندی حضرات کی فریب کاری ہی ہے بلکہ وہاں علم
محیط زمین کا تذکرہ ہے ۔اور اس کا علوم رذیلہ میں سے ہونا ہرگز ثابت نہیں۔اس پہ تفصیلی کالم کتب اہلسنت میں موجود ہے ،ہم
اختصار کے ساتھ ٓاگے الیاس گھمن صاحب کے کالم کے رد میں پیش کر دیا ہے ۔اس جگہ صرف ایک حوالہ مالحظہ ہو،دیوبندی
مفتی لکھتے ہیں:۔
رہی البراہین قاطعہ کی بات تو وہ اپنی جگہ بجا اور درست ہے کہ شیطان کا علم حضور سے زیادہ ہے سے مراد علم غیر نافع
ٰ
ہے(فتاوی حقانیہ ج 1ص )159
دیوبندی مفتی صاحب wنے علم محیط زمین کی نفی سے مطلقا علم کی نفی مراد لی ہے لہذا اعلی حضرت رحمۃ ہللا علیہ پہ دیوبندی
اعتراض کہ ٓاپ نے دیوبندی عبارت کا ترجمہ غلط کیا درست نہیں۔اس کے بعد ایک موصوف لکھتے ہیں:۔
ٓاپ اس بات سے بخوبی واقف ہوگئے ہوں گے کہ یہ بحث حضور ﷺ اور شیطان کے علم کی نہیں ہے ،بلکہ صرف
اور صرف حاضر و ناظر اور علم غیب کے مسئلہ میں ہے ،کیونکہ اکثر بریلوی حضرات کایہ عقیدہ ہے کہ انبیاء علیہم السالم
خاص کر اور اولیاء کرام عام طور پر علم غیب اور ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے کی طاقت و قدرت رکھتے ہیں اور چونکہ قرٓان
کریم علم غیب اور حاضر و ناظر کے نظریے کو یکسر جھٹالتا ہے ،اس بناء پر یہ فرقہ غیر ضروری چیزوں کا سہارا لیتا ہے اور
خاص کر شیطان کو اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے جیسا کہ ظاہر ہے ،شیطان بدترین مخلوق شمار کیا جاتا ہے ،اور
حضور علیہ السالم تمام کائنات میں سے افضل ترین انسان ہیں ،اسی وجہ سے ان پڑھ سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے اور سیدھے
راستے سے ان کو ہٹانے کے لئے ان کو یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ جب شیطان کو یہ علم اور اتنی قدرت ہے جو گھٹیا مخلوق ہے تو
حضرات انبیاء علیہم السالم کو عام طور پر اور حضور علیہ السالم کو خاص طور پر شیطان سے زیادہ علم و قدرت ہونی
چاہئے(دفاع اہل السنۃ ج 1ص639۔)640
جہاں تک موصوف کا یہ کہنا کہ اس بحث کا تعلق شیطان اور حضور ﷺ کے علم کے ساتھ نہیں انتہائی فضول تاویل
کے مترادف ہے ۔ہم خود ان کے اپنوں کے بیانات نقل کئے دیتے ہیں۔حسین احمد مدنی لکھتے ہیں:۔
پس مضمون اس تقریر براہین کا یہ ہے کہ ایک خاص علم کی وسعت ٓاپ کو نہیں دی گئی ہے اور ابلیس لعین کو دی گئی ہے
(الشہاب wالثاقب ص )238
مصنف براہین جزوی علم دنیا کو ٓانحضرت سے زیادہ کہتا ہے (ہدئیہ بریلویت ص )404
ان سب بیانات سے واضح ہوا کہ بات علم کی ہی ہورہی ہے ،جہاں تک معترض کا یہ کہنا کہ مسئلہ علم غیب و حاضر و ناظر قرٓان
سے ثابت نہیں یہ بھی ان کی خام خیالی ہے،یہ عقائد نہ صرف قرٓان و سنت بلکہ خود علمائے دیوبند کی کتب سے ثابت ہیں ،اور
حوالہ جات ہم اپنی کتاب رد اعتراضات مخبت میں عرض کر چکے ہیں ،اُن تمام حوالہ جات سے واضح ہے کہ دیوبندی حضرات
بھی ان عقائد کے قائل ہیں،جہاں تک موصوف نے قیاس کے حوالہ سے اعتراض کیا تو اس کا جواب ہم عرض کرچکے کی ہم
صرف حضور ﷺ کے افضل ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ ٓاپ ﷺ کی اصالت کی بناء پہ اور داللت
النص کی وجہ سے علم تسلیم کرتے ہیں۔اس لئے معترض کا یہ اعتراض لغو ہے۔اس کے بعد موصوف کی نقل کردہ تمام امثال کا
بھی یہی جواب ہے ۔اس کے بعد موصوف نے جو حاشیہ چڑھایا ہے اس کا جواب بھی اوراق سابقہ میں ٓاچکا ہے ۔ٓاخر میں موصوف
نے جو حضور سے حاضر و ناضر کی نفی پہ دالئل دئیے ان کے تفصیلی جوابات کتب اہل سنت میں موجود ہیں ،وہیں مراجعت کی
جائے ،اگر ضروری محسوس ہوا تو ہم ان پہ تبصرہ اسی کتاب کی چوتھی جلد میں ہدئیہ قارئین کر دیں گے ۔ہاں موصوف نے علم
محیط زمین کی نفی کے لئے جو یہ کہا کہ ٓانحضرت کو منافقین کا علم نہین تو اس کا جواب ہم اکابرین اہل سنت سے دئیے دیتےہیں،
،جاللین میں ہے :۔
فیطلعہ علی غیبیہ کما اطلع النبی ﷺعلی ٰ حال المنافقین ‘‘(تفسیر جاللین زیر تحت سورہ ٓال عمران ٓایت نمبر )۱۷۹
اور اپنے غیب پر مطلع کر دیتا ہے ۔جیسا کہ نبی کریم ﷺکو منافقین کے حال سے باخبر کر دیا‘‘(کمالین ج ۱ص’’
)۴۸۱
امام فخر الدین رازی لکھتے ہیں:۔
ولکن ہللا یصطفی من یشاء فخصھم باعالمھم ان ھذا مومن و ھذا منافق (تفسیر کبیر ج 3ص)42
موصوف کے گھر سے بھی شہادت پیش کئے دیتے ہیں،خالد محمود لکھتے ہیں:۔
اور سرفراز کے مطابق اس قول سے علم ماکان و یکون تسلیم کرنا الزم ٓاتا ہے،چنانچہ لکھتے ہیں:۔
ظاہر ہے کہ مدینہ طیبہ کے جن منافقین کا ذکر یہاں کیا گیا ہے ان کا نفاق اور ان کے دوسرے ظاہری اور باطنی احوال سب ہی ’’
علم غیب اور جمیع ماکان و مایکون سے ہیں‘‘(ازالۃ الریب ص)۳۰۴
تعالی ہی کے واسطے ہے اور اس کے علم کے برابر کسی کو علم نہیں ہو سکتا جیسا وہ اپنی ذات میں یکتا
ٰ علم غیب بالذات خدا وند
ہے اپنی صفت علم میں بھی یکتا ہے اگر کوئی اس طرح کے علم میں اس کا کسی کو شریک بتائے وہ بے شک مشرک ہے اور یہی
مراد فقہائے حنفیہ کی ہے نفی علم غیب غیر سے کرتے ہیں اور جن احادیث سے غیر عالم بالغیب ہونا ثابت ہوتا ہے وہ باطالع ہللا
تعالی بالعرض مراد ہے (تقویۃ االیمان مع تذکیر االخوان ص )460ٰ
اس کے بعد ہم چند مزید اعتراضات کا جواب نقل کئے دیتے ہیں۔
ا عتراض نمبر ۱۔نبی اکرم کو شیطان پر قیاس کرنا کیا تعظیم نبوی ہے؟(حسام الحرمین کا تحقیقی جا ئزہ)۱۷۶
اس کا جواب یہ پہلی بات تو یہ کہ مولوی عبدالسمیع صاحب نے عقیدہ حاظر و ناظر کو قیاس سے نہیں بلکہ داللۃ النص سے ثابت
ادنی درجہ کی لظافت حاصل ہے تو ان کو رو ئے زمین کا علم حاصل ہے توکیا۔اس کا مظلب یہ کہ جب شیطان اورملکوموت کو ٰ
اولی یہ علم حا صل ہو گا۔
اعلی درجہ کی لطافت حاصل ہے تو ٓاپ کو بطریق ٰ
ٰ حضور ﷺ کو
،جواب :غالم نصیر الدین صاحب نے جو جواب عرض کیا اس کا خالصہ پیش خدمت ہے
ٰ
۔ظنی۔فتاوی رشیدیہ میں ہے کہ اسماعیل قطعی جنتی ہے۔تو اس کے اس کا جواب یہ کہ عقائد کی دو قسمیں ہوتی ہیں ۱۔قطعی اور ۲
قطعی جنتی ہونے پر کونسی ٓایت یا خبر متواتر ہے۔تمھارے اشرف علی تھانوی لکھتے ہیںکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ حضور
ﷺ کی شان تمام کماال ت عملیہ اور علمیہ میں یہ ہے کہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ۔تو تھانوی کے پاس
جو دلیل قطعی ہے وہ مولوی گھمن صاحب ٓاپ جا کے پوچھ لے ۔نیز مولویان دیوبند نے المہندمیں لکھا ہے کہ حضور
ﷺ کے روضہ کی شان عرش سے زیادہ ہے اور اس بات کو انہوں نے اپنا عقیدہ قرار دیا ہے تو کیا اس عقیدہ پر
تمھارے پاس کوئی دلیل قطعی ہے؟تو ثابت ہوا کہ ہر عقیدہ قطعی نہیں ہو تا عقائد دو قسم کے ہوتے ہیں قطعی اور ظنی۔عالمہ ھار
وی نے نبراس میں بیان کردہ مسئلہ کی وضاحت کی ہے ۔اس میں بیان کردہ مسئلہ کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے ۔ہم یہاں صرف
تعالی کی وحدت اور
ٰ ایک عبارت عرض کرتے ہیں۔مسائل اعتقادیہ کی دو قسمیں ہیںایک وہ جس میں یقین مطلوب ہو جیسے واجب
دوسری وہ جس میں ظن پر اکتفا کیا جائے جیسے تفضیل رسل کا مسئلہ (شرح عقائد)
جواب۔تو ٓاپ کی اس بڑ کا جواب یہ ہے کہ علم کا مقابل جہل ہے اور جہل فی نفسہ عیب ہے تو ال محالہ علم فی نفسہ حسن و کمال ہو
گا۔حضرت شاہ عبدالعزیز محدث wدہلوی فرماتے ہیںکہ یہاں جاننا چاہیے کہ علم جیسا بھی ہو برا نہیں ہوتا ۔(تفسیر عزیزی جلد اول)
اسکے بعد شاہ صاحب نے ان اسباب کا زکر کیا جس سے کسی علم جن سے کسی علم میں برائی ٓاسکتی ہے۔جن کا خال صہ حسبw
:ذیل ہے
۔توقع ضرار۱
اب ناظرین عقل و انصاف کی روشنی میں یہ بات بخو بی سمجھ سکتے ہیںکہ شاہ صاحب کے بیان کردہ فرمودہ تینوں سببوںکا
۔لہذا ثابت ہو گیا کہ علم خواہ کیسا بھی ہو وہ حضورﷺ کے حق میںبرا رسولﷺ میںپایاجانا ممکن نہیں ٰ
نہیں ہو سکتا۔باقی اس عبارت میں علم محیط زمحیط زمین کی بات ہو رہی ہے اور اگر وہ ٓاپ کے نزدیک حضورﷺ
لے لیے عیب ہے تو بتائیے کہ کیا ہللا کو محیط زمین کا علم ہے کہ نہیں کیو نکہ جو مخلوق کے لیے عیب ہے وہ ہللا کے لیے بھی
عیب ہے۔مسامرہ wمیں ہے کہ
اہلسنت کے نزدیک ہر وہ چیز جو (فی نفسہ بندوں کے حق میں عیب اور نقص کی صفت ہو ہللا
تعالی اس پاک ہے اور وہ صفت ہللا پر محال ہے۔
ٰ
تو مولوی گھمن انیڈ ٓال دیوبندی کمپنی سے سوال ہے کہ جن علوم کو ٓاپ برا کہتے ہیں تو کیا ہللا تعال ٰیسے بھی ان تمام علوم کی نفی
کر دے گے؟
موسی نے جادو اور معجزے کا فرق جادو جاننے کی وجہ سے جانا اور یہی ان کے ایمان ٰ اسی طرح جا دو برا ہے مگرساحران
کاسبب wبنا ۔عرب کے جس شاعر نے سورت کوثرکے بارے میں کہا تھا کہ یہ بندے کاکالم نہیں اپنے علم شعر سے اس نے پہچانا۔
اس تمام مبحث سے یہ ثابت ہوگیا کہ علم فی نفسہ نور ہے،بالغیر برا ہو سکتا ہے۔اور جب علم فی نفسہ برا نہیں تو اس کا
حضورﷺمیںہوناضرورہے۔کیونکہ ٓاپ اعلم الخلق ہیں۔
یہ تو تھی گھمن صاحب کی تمہید اس کے بعد عبارت نقل کر کے فرماتے ہیں کہ
۔اس میں حضورﷺ کے علم کو ذاتی ماننا شرک ہے۔(حسام الحرمین کا ۔۔۔۱)۱۸۱
جواب ۔ ااوال تو کیا مولوی خلیل صاحب مجنون تھے جو اس امر کا رد کرتے جس کا ان کا خصم قائل ہی نہیںجیسا کہ ٓاپ نے خود
اقرار کیا۔اور دوسری بات سرکا ر کے لیے ماننا تو شرک مگر شیطان کے لیے نصوص قطعیہ سے ثابت؟ٓاپ کی اس فضول بڑ نے
ٰ
فتوی سے نواز دیا۔ بیچارے خلیل احمد صاحب کو مشرک اور مجنون کے
اعتراض ۴۔ پھر فرماتے ہیں کہ ایسے علوم کونصوص قطعیہ میں ٓاپ کی شان کے الئق نہیں کہا گیا()۱۸۲
جواب۔پہلے بات تو ٓاپ کو چاہیے تھا کہ ٓاپ وہ نصوص قطعیہ پیش کرتے جس سے حضورﷺ سے علم محیط زمین
کی نفی ہوتی ۔مگر قیامت wتو ٓاسکتی ہے لیکن پوری دیوبندی قوم ایسی نصوص پیش نہیں کر سکتے۔باقی یہ کہنا کہ یہ ٓاپ
ﷺکی شان کے الئق نہیں تو یہ ٓاپ کا جھوٹ اور مکاری ہے ۔دیکھیں قر ٓان کہتا ہے
ان فی خلق السموات واالرض واالختالف اللیل والنھارال یات الولی االلباب۔بے شک ٓاسمانوں اور
زمین کی پیدائش اور رات دن کی تبدیلی میں نشانیاں ہیں عقلمندوں کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب خلق سموات و ارض میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں اور ذی العقول میں سب سے زیا دہ بلند مرتبہ
حضورﷺ کا ہے ۔اس کا علم حضورﷺ کے لیے کیوں کمالت علمیہ میں شمار
وہ کرتا ہے وحدت کا اس کی بیانکیا گلستان بھی نہیں پڑھی ہر ایک شے میں خالق کا ایک نشان
اور ٓاپکا یہ کہنا کہ شیطان اور ملک المو کے دائرہ کار کی بات ہو رہی یہ بھی جھوٹ ہے کیو نکہ عبارت میں یہ صاف ظاہر ہے
کہ گفتگو علم محیط زمین کے بارے میں ہو رہی ہے۔(ماخوذ از کتب اہل سنت )
یعنی میں بھی ایک دن مر کر مٹی میں ملنے واال ہوں۔(تقویۃ االیمان ص (10)’’)81
لہٰ ذا حضور سید عالم ﷺ کے حق میں یہ اعتقاد رکھنا کہ معاذ ہللا حضور ﷺ مر کر مٹی میں مل گئے
صریح گمراہی ہے اور حضور کی طرف منسوب کر کے یہ کہنا کہ معاذ ہللا ’’میں بھی مر کر مٹی میں ملنے واال ہوں‘‘ رسول ہللا
شان اقدس میں توہین صریح ہے۔ (العیاذ باہلل)(الحق المبین)پھر خود دیوبندی حضرات نےﷺ پر افتراء محض اور ِ
اس عبار ت کو گستاخانہ قرار دیا ہے ۔ہللا یار خان لکھتے ہیں:۔
ان فرقوں کی تقلید میں ٓاج کل کے اہلسنت والجماعت ہونے کا دعوی کرنے والے یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ انبیا مر کر مٹی ’’
ہوگئے ہیں ۔۔۔ان لوگوں کا عقیدہ اجماع امت کے مخالف ہے۔
‘‘ جو شخص اجماع امت کا مخالف ہے وہ درحقیقت امت محمدیہ کا فرد نہیں اس امت سے خارج ہے
اب جناب لکھ تو بیٹھے کہ ایسا کہنا واال امت محمدیہ سے خارج ہے او ر جب جناب کو پتہ چال کہ یہ عبارت تو ان کے گھر میں
موجود ہے تو جناب نے جان چھڑوانے کے لئے یہ کہا کہ جی یہ عبارت الحاقی ہے۔پوری داستان مالحظہ ہو۔جناب لکھتے ہیں:۔
بندہ کو گکھڑ منڈی سے ایک خط ۸۲۔۱۱۔۲۶کو مال ۔لکھا ہے میرے ایک دوست جن کا نام قاری ریاض احمد ہے ۔ یہ خطیب ’’
مسجد اور مہتم مدرسہ بھی ہیں ان سے کچھ اختالف مسئلہ چل رہا ہے ۔اس لئے ٓاپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ٓاپ نے اپنی کتاب
عقائد و کماالت علمائے دیوبند میں عقیدہ رسالت میںلکھاہے کہ ٓاج کل کے اہل سنت و الجماعت ہونے کا دعوی کرنے والے یہاں تک
گئے ہیں کہ انبیا کرام مر کر مٹی گئے ہیں۔اس لئے وہ حقیقت امت محمدیہ کا فرد نہیں۔تو جناب عالی اپنے اکابرین مثال موالنا
اسماعیل شہید و غالم ہللا صاحب و دیگر اکابرین دیوبند کی کتابوں میں ایسی عبارتیں ملتی ہیں جیسے تقویۃ االیمان و جواہر االیمان
وغیرہ ۔تو ان کے متعلق ہم کیا عقیدہ رکھیں کہ امت محمدیہ میں شامل ہیں کہ نہیں۔
فائدہ :حضرت اسماعیل شہید کا تو جناب نے نام لیا ہے ،اصل تو تقویۃ االیمان حضرت اسماعیل شہید کی ہے ہی نہیں پھر پرانے
‘‘نسخوں میں تو حضرات انبیا کے بارے میں ایسی کوئی بات موجود نہیں نئی کتابوں میں کسی نے مہربانی کر دی ہوگی
یہ دیکھو مسلمانوں میرے ہاتھ میں تذکرہ ہے اس میں لکھا ہے کہ رسول ہللا ﷺ مر کر مٹی ہوگئے ۔کیوں مسلمانوں’’
‘‘ یہ رسول ہللا ْﷺکی توہین ہے یا نہیںسب مسلمانوں نے بیک ٓاواز کہا :توہین ہے توہین ہے
بانی تحریک خاکسار عالمہ عنایت ہللا مشرقی نے اپنی کتاب تذکرہ ۔۔کے ص 75پر لکھاہے اسالم کو محمد سے بحث نہ تھی اس کو
اس جسم اطہر سے غرض نہ تھی جو مٹی میں مل کر مٹی ہونےو االتھا ۔نیلوی کہتا ہے حاشا وکالہم اہل السنۃ والجماعۃ کا ہر گز ہر
گز یہ عقیدہ نہیں ہے ۔ہمارے اکابر نے عالمہ مشرقی پر کفر کے فتوے دئیے ہیں(ندائے حق ج 1ص )528
تاویل:۔وکیل صفائی نے جگہ وہی گھسی پٹی تاویل کی کہ یہاں مٹی میں ملنے مراد مٹی میں ملنا ہے (مخلصا)
:الجواب
اس تاویل کا بارہا جواب دیا چکا ہے ،میں اور سے کے فرق سے بھی دیوبندی حضرات کو ٓاشنا کیا جا چکا ہے ،مگر وکیل صفائی
بجائے جواب دینے کے وہی پرانی تاویالت پہ ہی اکتفاء کئے ہوئے ہیں،خیر صاحب تقویۃ االیمان لکھتے ہیں:۔
یعنی میں بھی ایک دن مر کر مٹی میں ملنے واال ہوں تو کب سجدے کے الئق ہوں سجدہ تو اسی پاک ذات کو ہے کہ نہ کبھی مرے
نہ کبھی گم ہووے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سجدہ نہ کسی زندہ کو کیجئے نہ کسی مردہ کو کیجئے نہ کسی قبر کو کیجئے نہ کسی
تھان کو کیونکہ جو زندہ ہے سو ایک دن مرنے واال ہے اور جو مرگیا سو کبھی زندہ تھا اور بشریت کی قید میں گرفتار کچھ خدا
نہیں بن گیا بندہ ہی ہے (تقویۃ االیمان ص )81
قارئین! خط کشیدہ جملوں میں صاحب تقویۃ االیمان واضح لکھ رہے کہ جب زندہ تھا تو بشریت کی قید میں تھا ور مرنے کے بعد
بشریت کی قید سے ٓازاد ہوگیا ،اس کا مطلب یہی ہے کہ مر کر مٹی میں مال گیا،جسم wختم ہوگیا۔لہذا یہاںمٹی سے ملنا نہیں بلکہ مٹی
میں ملنا ہی مراد ہے اس لئے تو بشریت کی قید کو ختم کیا جارہا ہے ۔
جناب نے سب سے پہلے اوراق غم سے ایک اسرائیلی روایت پیش کی جس کا اول تو موضوع سے تعلق نہیں،پھر اسرائیلی روایات
ٰ
فتوی نہیں لگتا،جیسے محاسن موضح القرٓان میں تفصیل موجود علماء نے بیان کی ہے ،یہ ان کا تسامح ہے ،اور اس بنیاد پہ ان پہ
ہے ۔یہی واقعہ دیوبندی کتاب تقویۃ االیمان مع تذکیر االخوان ص 473پہ موجود ہے ۔دوسر ے حوالہ میں اول تو حضور
ﷺ کا تذکرہ موجود ہی نہیں ,پھر ہم نے حیات صدر االفاضل کے دو ایڈیشنز دیکھے ہیں ہمیں موصوف کی پیش کر
دہ عبارت مذکورہ صفحہ پہ نہیں۔ٓاخر میں جو اوراق غم کی عبارت پیش کی وہ مکمل یوں ہے:۔
یعنی جس سرو سہی نے چمن وجود میں بلندی حاصل کی اسے ارہ فنا نے بیخ و بن سے کاٹا اور جس نہال تازہ نے گلشن حیات میں
نشو و نما پائی تیر ممات نے اسے فنا کیا(اوراق غم ص)129
اس جگہ خودرد بین سے بھی ہمیں مر کے مٹی کے الفاظ نظر نہ ٓائے اور نہ ہی اس جگہ ہمیں حضور ﷺ کا کچھ
تذکرہ مال یہ عبارت عمومی ہے اور خود دیوبندی حضرات کے نزدیک اس قسم کی عبارات میں انبیاء شامل نہیں ہوتے ۔مفتی مجاہد
لکھتے ہیں:۔
اجمالی رنگ میں انسان کا قرٓان مجید میں ذکر :مثال سورۃ مرسالت میں فرمایا گیا کہ کیا ھم نے تمہیں ذلیل پانی سے نہیں پیدا کیا
ایک جگہ انسان کو بڑا ظالم اور جاہل کہا گیا ایک جگہ انسان کو سرکش کہا گیا ۔کیا بریلوی یہ ٓایات انبیاء و اولیاء پر فٹ کریں
گے ؟حاالنکہ انسانیت میں انبیاء کرام صحابہ اور اولیاء بھی شامل ہیں۔لیکن انفرادی طور پر انبیاء کو کہنا کہ ماء مھین سے پیداہوئے
ہیں یا ظلوما جھول کہنا کفر ہے ۔۔عنوان اجمالی اور ہوتا ہے عنوان تفصیلی اور یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر عنوان تفصیلی میں
قباحت wہوتو اجمالی میں بھی قباحت ہو (ہدیہ بریلویت ص )371
لن عبارات سے واضح ہوا کہ اس جگہ سرکار دوعالم ﷺ کا تذکرہ مووجد ہے لہذا یہ عبارت گستاخانہ ہے ۔لہذا اب یہ
کہنا کہ یہ عبارت عمومی ہے ہر گز درست نہیں۔ہم نے اختصار کے ساتھ ان عبارات پہ تبصرہ کردیا ہے ،مزید عبارات پہ تفصیلی
تبصرہ ٓائندہ جلدوں میں زینت اوراق ہوگا۔
ناظرین اس سلسلہ میں اختالف ہے اور دالئل کی بنا پہ ہر شخص اپنا موقف قائم کر سکتا ہے ،موصوف نے اس جگہ عالمہ اشرف
سیالوی صاحب کی جو عبارت پیش کی وہ مکمل کچھ یوں ہے :۔
الغرض متاخرین علم اء اعالم اور اکابرین ملت کی طرف سے روشن اور واضح براہین اور دالئل قائم کر دئیے جانے کے بعد اور’’
ان مطلع اور ان سے واقف ہوجانے کے بعد بھی حضرت ابراہیم علیہ السالم کے حقیقی باپ اور والد کوکافر اور مشرک قرار دے
دینا بہت بڑی جسارت اور بیباکی ہے اور نازیبا اور ناالئق حرکت ہے ‘‘(گلشن توحید و رسالت ص۵۴ا)
سیا لوی صاحب کی اس بات سے واضح ہوگیا کہ دالئل پہ مطلع ہونے کے بعد اس موقف پہ ڈٹے رہنا درست نہیں،پھر جس شخص
کا سابقہ طرز عمل بھی بغض رسالت ظاہر کرے ،تو ایسے شخص کا یہ طرز عمل ناالئق حر کت ہی کہالئے گا ،لہذا اس عبارت
کی روشنی میں ٓاپ کے ذکر کردہ تمام حوالہ جات کا جواب ہوگیا کہ جن احباب نے بھی ٓازر کو حضرت ابراہیم کا باپ لکھا ہے تو
ٰ
فتوی نہیں لگے گا،دوئم بالفرض دالئل سامنے ہوں بھی تو ان کا بغض رسالت کیونکہ ان کے سامنے دالئل نہ تھے اس لئے ان پہ
ٰ
فتوی نہیں لگتا۔ ثابت نہیں،لہذا
ثانیا یہ کہ حضرت اوکاڑوی نے جو بغض صحابہ کہا ہے ،وہ غیر مقلدوں کے لئے ہے،کیونکہ وہ صحابہ کرام سے بغض و حسد ’’
رکھتے ہیں‘‘(فضل خداوندی ص)۱۶۵
بس ہماری طر ف سے بھی یہی عرض ہے کہ جن حضرات کے بارے میں علمائے اہلسنت کا کالم ہے وہ حضرات بھی بغض
ٰ
فتوی ہر گز نہیں ہے۔ رسالت رکھتے ہیںلہذا دیگر حضرات جو تحیقق کی بنا پر اس مسئلہ میں اختالف کریں ان پہ
البتہ اس ٓایت کا ترجمہ ٓاپ بھی کرتے ہوں گے الفاظ قرٓان کا انکار کفر ہی ہے ۔البتہ ظاہر کے مطابق ہم عقیدہ نہیں رکھتے بلکہ ’’
حسن ادب سے توجیہ کرتے ہیںــ(ہم سنی کیوں ہیں ص )۲۴
لہذا موصوف نے جو تراجم کا حوالہ دیا ،وہ انہیں سود مند نہیں۔پھر تفسیر الحسنات اور عالمہ شمس بریلوی کےاقوال نقل کئے
ہیں،ور دیوبندی ترجمان لکھتے ہیں:۔
اور ضروری نہیں کہ ہر نقل کی ہوئی بات ناقل کا عقیدہ ہو ‘‘(چتروڑی کے اعتراضات کا مسکت جواط ص ’’)۶۵
جہاں تک فیض احمد اویسی صاحب کی بات ہے تو ان دوٹوک موقف یہی ہے کہ حضرت ابراہیم کے والد تارخ تھے ،جس پہ ان کی
مکمل کتاب ہے ،اور عبد الحق بشیر قارن لکھتے ہیں:۔
اسی طرح بندیالوی صاحب نے مفکر اسالم حضرت موالنا عالمہ خالد محمود صاحب wمدظلہ کی سینکڑوں صفحات ہر مشتمل ّّّ
جتاب مقام حیات کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی ایک مجمل عبارت پر یہ فیصلہ صادر فرما دیا کہ وہ بھی بزرخ کی حیات جسمانی
کے منکر ہیں۔دراصل اسالف دشمنی اور عقیدہ حیات النبی ﷺ کی مخالفت میں بندیالوی صاحب کی حالت اس مفتور
العقل سی ہوچکی ہے جو دوپہر کی دھوپ کے سامنے کھڑا ہوکر لوگوں سے پوچھتا پھرے
اوئے سورج کدوں چڑھنا جے(علماء دیوبند کا عقیدہ حیات النبی اور موالنا عطا ہللا بندیالوی ص )109
قارئین !جہاں تک نفس مسئلہ کا تعلق ہے تو مسئلہ قطعی تو نہیں ہےمگر اکثر اہلسنت کے نزدیک اجماعی ہے ،امام اہل سنت
فرماتے ہیں:۔
ٓایات قرٓاںیہ و احادیث صحیحہ متواترہ متظافرہ سے ابو طالب کا کفر پر مرنا اور دم واپس ایمان النے سے اناکر کرنا اور عاقبت ’’
ٰ
(فتاوی رضویہ ج۲۹ص ا کار اصحاب نار سے ہونا ایسے روشن ثبوت سے ثابت جس سے کسی سنی کو مجال دم زدن نہیں
،۶۶رضا فاونڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ الہور پاکستان ،اشاعت اگست ۲۰۰۵ء)
لہذا کسی سنی کو اس مسئلہ سے انکار نہیں۔امام ابن حجر مکی لکھتے ہیں:۔
یہ بیت ابو طالب کے ایک قسیدے کا ہیء جس میں حضور اقدس ﷺ کی عجب نعت ہے یہاں تک کہ رافضیوں نے ’’
ٰ
القری ج ا ص )۲۸۶ ٰ
القری القراء ام اس سے ابو طالب کا مسلمان ہونا اخذ کرلیا (افضل
صحیح یہ ہے کہ ابو طالب مسلمان نہ وہئے ،رافضیوں کی ایک جماعت نے انکا اسالم پہ مرنا مانا اور کچھ شعروں اور واہیات ’’
خبروں سے تمسک کیا جن کے رد کا اما حافظ الشان نء اصابہ میں ذمہ لیا (الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ ج ۳ص )۲۷۴
رافضیوں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ ا بو طالب مسلمان مرے (االصابۃ فی تمیز الصحابہ ج ۴ص ۶اا)
اس بارے میں متعدد احادیث وارد ہیں جن کو شیعہ اسالم ابو طالب کی دلیل بتاتے ہیں ‘‘(شرح سفر السعادت ص’’)۲۴۹
ایمان ابی طالب کا مسئلہ بھی ان ہی باتوں میں ایک ہے جس کا دین میںکوئی ثبوت نہیں ۔یہ صرف رافضیوں کا خود ساختہ عقیدہ ’’
ہے‘‘(کاشف کید الثعلب فی ایمان ابی طالب ص)۴
ہم نے بادل نخواستہ ان دس سوالوں کے جواب میں حضرت ابو طالب کے متعلق شیعہ غلو کی نفی کی ورنہ ہمیں ٓاپ کی ذات سے’’
ٰ
دعوی نبوت کے بعد ان کی کفار کے مقابل حضور علیہ الصلوۃ والسالم کی حمایت اور طرف داری کا بغض و کدورت نہیں بلکہ ہم
پورا حترام کرتے ہیں اور لفظ حضرت ،جناب وغیرہ ساتھ ان کا باادب ذکر کرتے ہیں مگر ان کا اسالم قبول نہ کرنا ایک تاریخی
حقیقت ہے اور اہل سنت والجماعت wکا متفقہ عقیدہ ہے ‘‘(شیعہ کے ہزار سوال کاجواب ص)۲۰۲
اسی عقیدے کے متعلق دیوبندی مفتی لکھتے ہیں:۔
رافضیوں کے بے اصل عقیدے سے متاثر ہوکر لکھے گئے ہیں‘‘(کتاب النوازل ج ۱ص)۳۸۳
عقیدہ شیعہ کے ابو طالب مسلمان تھے (نفع المسلم ج 1ص )168
ان تمام حوالہ جات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ یہ مسئلہ رافضیوں کا ہے ،اگر کوئی سنی عالم دین یہ مسئلہ
بیان کرتا ہےتو یہ اس کا تفرد ہوگا۔ثانیاقائلین و مانعین میں سے کسی کی تکفیر نہیں ہوتی ،کیونکہ مسئلہ ہذا قطعی نہیں،علی حضرت
ؒ فرماتے ہیں:۔
ابو طالب کے باب میں اگرچہ قول حق و صواب وہی کفر و عزاب اور اس کا خالف شاذ و مردود اور باطل و مطرود ،پھر بھی ’’
ٰ
(فتاوی رضویہ ج ۲۹ص )661 اس کا حد نہیں کہ معاذہللا خالف پر تکفیر کا احتمال ہو
چونکہ دالئل اور نصوص سب اخبار احاد ہی ہیں جو کہ قطیعت کا افادہ نہیں کرتے ۔اس لئے ابو طالب کو کافر نہ ماننے والے پر ’’
ٰ
فتوی صاد ر نہیں ہوسکتا ‘‘(ایمان ابی طالب ص )۵۷ کفر کا
اعلی حضرت ایمان ابو طالب کے قائل نہیں ہیںبلکہ عدم ایمان پر رسالہ تحریر فرمایا ہے چونکہ یہ اختالف دالئل پر مبنی ہے لہذا ’’
‘‘اعلی حضرت نے اپنے شیخ کی گستاخی نہیں کی ہے
مزید لکھا:۔
کچھ حضرات نے اس مسئلہ کو اختالفی بھی قرار دیا ہے ،مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں :۔
فتوی کفر کے لئے یقین چاہئے ۔ابو طالب کی کفر پر موت بھی اھادیث سے ثابت ہے جس پر یقین نہیں کیا جا سکتا ۔پھر بڑے بڑےٰ
علماء کا اس میں اختالف ہے چنانچہ عالمہ احمد دھالن مکی رحمۃ ہللا علیہ نے ان کے ایمان پہ ایک مستقل رسالہ لکھا (تفسیر
نعیمی ج 2ص )111
ابو طالب کے ایمان و کفر کو خاص موضوع بحث بنا لینا غیر ضروری ہے ۔بہتر یہی ہے کہ اس قسم کی غیرضروری اور پرخطر
بحث میں کف لسان کیا جاوے (تفسیر عثمانی ص )667
جناب ابو طالب کے قبول اسالم کے بارے میں مسلمانوں میں دو نقطہ نظر ہیں ۔ایک نقطہ نظر کے مطابق انہوں نے اپنی وفات ’’
سے چند لمحے قبل اسالم قبول کر لیا تھا ۔دوسرے نقطہ نظر کے مطابق انہوں نے اسالم قبول نہیں کیا تھا ۔یہ تاریخ کا مسئلہ
ہے،عقیدہ یا دین کا مسئلہ نہیں ہے ‘‘(محاضرات سیرت ص)۵۴
مفتی سید نجم الحسن امروہوی دیوبندی لکھتے ہیں:۔
جمہور اہل سنت کے نزدیک ابو طالب ایمان نہیں الئے تھے اور اپنے ٓاباء وا جداد کی ملت پر دنیا سے رخصت ہوئے ۔لیکن ’’
ٰ
الفتاوی ج ۱ص)۴۵۲ احتیاط اس میں ہے کہ اس بارے میں زیادہ بحث نہ کی جائے بلکہ سکوت اختیار کیا جائے ‘‘(نجم
اب جہاں تک یہ بات کہ کچھ نے اختالفی اور کچھ حضرات نے اسے محض روافض کا مسئلہ قرار دیا ہے ،تو دیوبندی مولوی
یوسف زئی صاحب رقم کرتے ہیں:۔
عالمہ ٓالوسی نے ابو طالب کے اسالم کو مختلف فیہ قرار دیا ہے فرماتے ہیں ومسئلہ اسالمہ خالفیۃیعنی ابو طالب کے اسالم النے یا
نہ النے کا مسئلہ اختالفی ہے عالمہ ٓالوسی فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے ان کے کفر کو اجماعی قرار دیا ہے انہوں نے شیعہ کی
روایات کا اعتبار نہیں کیااور ابو طالب ے قصائد پر بھی اعتماد نہیں کیا(تحفۃ المنعم ج 1ص)325
اس لئے جن حضرات نے روایات کا اعتبار کیا ہے انہوں نے مسئلہ ہذا کو اختالفی اور جنہوں نے انہیں تسلیم نہیں کیا انہوںنے اسے
اجماعی کہا ہے ۔لہذا اگر ہمارے معاند اسے دست و گریباں قرار دینے پہ بضد ہیں تو اس سے نہ صرف دیوبندی حضرات خود اس
بھنور میں جکڑے ہوئے نظر ٓائیں گے بلکہ اکابرین اہل سنت بھی اس الزام سے بری نہیں ہوسکتے ،اس لئے جناب کا اس مسئلہ کی
بناء پہ دست و گریباں کا نعرہ لگانا درست نہیں۔لیکن اگر موصوف مصر ہوں ،تو ہم ان کی زیافت wکے لئے ادریس کاندھلوی صاحب
کا قول بھی رقم کئے دیتے ہیں،وہ لکھتے ہیں:۔
یہ کہنا کہ ابو طالب کے اسالم کے متعلق اختالف ہے محض تلبیس اور دھو کہ ہے ۔اہلسنت میں ان کے متعلق کوئی اختالف
مصطفی ج 1ص)374
ٰ نہیں(سیرت
ثالثا یہ بات یاد رہے کہ راجح موقف کے مطابق ایمان ابی طالب کا مسئلہ رافضی حضرات کا ہے لیکن اگر کوئی اہل سنت کا عالم
دین اس کا قائل ہے تو اس کو ان کا تفرد قرار دیا جائے گا ،انہیں صرف اس مسئلہ کی بنا پہ رافضی ہرگز نہیں کہا جائے گا۔عبد
الکریم نعمانی دیوبندی لکھتے ہیں:۔
فعل اور صفت کا یہ فرق ہے کہ فعل فاعل سے جدا ہوکاتا ہے مگر صفت موصوف سے جدا نہیں ۔اس لئے یہ کہنا کہ فالں نے فعل’’
کفریہ کیا یا کہ یہ کہ فالں کافر ہوگیا اس کا بڑا فرق ہے فعل کفر کا معنی بنتا ہے کافروں واال کام کیا گو مسلمان تھا اور کافر ہوگیا
کا یہ مطلب ہے کہ اسالم سے خارج ہوگیا (چتڑوڑی کے الزامات کا مسکت جواب ص )۶۳
مندرجہ باال حوالہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس عقیدہ سے کسی کا رافضی ہونا الزم نہیں ٓاتا۔لہذا اگر کوئی اہل سنت کا عالم دین
اس کا قائل ہے تو یہ اس کا تفرد ہے۔
رابعا جب واضح ہوگیا کہ قائلین کی تکفیر نہیں ہوتی،لہذا یہ حوالہ بھی جناب کو مفید نہیں اور فضول بھرتی کے مترادف ہے ۔خود
اس قسم کا اختالف جناب کے نزدیک مذموم نہیں۔معترض صاحب نے جب وکیل صفائی کا روپ اختیار کیا تو ’’محمد بن عبد
الوہاب‘‘کے متعلق دیوبندی اکابرین میں موجود اختالف کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
ہمارے جن اکابرین سے بھی شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی اور ان کی تحریک کے متعلق پوچھا گیا تو ان کے پاس جو معلومات ’’
شیخ کے بارے میں پہنچی تھیں انہوں نے انہی معلومات کے مطابق جواب دیا ۔۔۔اس لئے اکابر کی ان ٓارء کو تضاد نہیں کہا جا
ٰ
فتوی دیں گے ایک راویکو سکتا ۔اگران ٓاراء کو ٓاپ تضادات کہیں گے تو بتائیے محدثین اور ماہرین فن اسماء الرجال کے متعلق کیا
ایک محدث wثقہ کہتا ہے اور دوسرا کذاب اور دجا ل کہتا ہے ۔ظاہر سی بات ہے جس محدث کے پاس جس راوی کی جیسی معلوماتw
پہنچیں اس نے اس کے متعلق وہی قول کیا اور دوسرے محدث کے پاس اسی راوی کے متعلق جیسی معلومات wپہنچی ں اس نے
ویسی رائے دی ۔پتہ نہیں اوکاڑوی صاحب کو اتنی ٓاسان سی بات کیوں سمجھ wنہیں ٓاتی‘‘(سفید و سیاہ پہ ایک نظر ص)۴۷
اور اس کے بعد جناب نے اسی ایمان ابو طالب کے مسئلہ کو پیش کیا(ایضا)
جلد اول میں اجماال گفتگو کی تھی ،اور اس جگہ ہم نے تفصیل سے تمام چیزوں کو ہدئیہ قارئین کر دیا ہے ۔
ٰ
دعوی کیا ہے کہ ابو طالب مسلمان ہوگئے تھے ۔یہ لوگ اس کی دلیل میں بے بنیاد روایتیں ’’ کچھ سخت قسم کے شیعہ حضرات نے
پیش کرتے ہیں جن کو عالمہ ابن حجر نے اپنی کتاب اصابہ میں ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ میں نے کچھ ایسی چیزیں یعنی روایتیں
دیکھی ہیں جن کو شیعوں نے ابو طالب کے مسلمان ہوجانے کی دلیل کے طور پر جمع کیا ہے ،مگر یہ سب بے بنیاد اور واہی
روایتیں ہیں جن سے اس بارے میں کوئی دلیل نہیں لی جا سکتی ‘‘(سیرۃ حلبیہ ج ۲ص)۴۳۳
ٓاپ کے چچائوں میں سے سوا حضرت حمزہ اور عباس کے کوئی اسالم نہیں الیا‘‘(اسد لغابہ ج ۱ص ’’)۸۹
نبی کریم ﷺ کے گیا رہ چچے تھے ۔سب سے بڑے حارث تھے ۔انہی کی نسبت سے (حضرت سیدنا)عبد المطلب ’’
رضی ہللا عنہ کی ابو الحارث کنیت تھی ()۲قثم()۳زبیر()۴حمزہ()۵عباس ()۶ابوطالب()۷ابو لہب ()۸عبد الکعبہ ()۹حجل (
)۱۰ضرار ( )۱۱غیداق ۔ان میں سے صرف (حضرت سیدنا) حمزہ ؓ اور (حضرت سیدنا)عباس ؓ مشرف با اسالم ہوئے (جوا ہر البحار
)۴۴
میرے بھائی اگر چہ مصطفے صلی ہللا علیہ وسلم کے فضائل و شرف کے کماالت اہل معرفت wکے دلوں میں نہیں سماں سکتے ’’
اور ان کے سچے دوستوں کے نہاں خانوں میں منزل نہیں بنا سکتے* *_اس کے با وجود ان کے ان نسب عالوں میں اپنا کامل اثر
نہیں دکھا سکتے خواہ وہ ٓاباؤ اجداد ہوں یا اوالد در اوالد چنانچہ ابو طالب میں اس نسب نے کوئی اثر نہیں کیا حاالنکہ رسول خدا
صلی ہللا علیہ وسلم ان کے بارے میں بلیغ کوشش فرماتے رہے لیکن چونکہ خدائے قدوس جل و عال نے ان کے دل پر روز اول ہی
سے مہر لگا دی تھی لہذا جواب دیا اخرت النار علی العار میں عار پر نار کو ترجیح دیتا ہوں_* *جیسا کہ مشہور ہے منقول ہے کہ
جب ابو طالب کا انتقال ہوا مولی علی کرم ہللا وجہہ نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچائی کہ مات عمک الضال
حضور کے گمراہ چچا کا انتقال ہوگیا بیت-کبھی ایسے گوہر پیدا کرنے والے گھرانہ میں ابو طالب جیسے کو (خالق بے نیاز) پتھر
پھینکنے واال بنا دیتا ہے‘‘(سبع سنابل شریف ص )۹۰
ٓانحضرت ﷺ کے چچے اور پھوپھیاں حارث ,قثم ,حمزہ ,عباس ,ابوطالب ,عبدالکعبہ ,جحل ,ضرّار ,غیداق ,ابولہب’’,
صفیہ ,عاتکہ ,اروی ,اُ ّم حکیم ,بّرہ ,امیمہ اس جماعت میں سے حضرت حمزہ و عباس و حضرت صفیہ رضوان ہّٰللا علیھم اجمعین
وعلیھن ایمان الئے‘‘(تحقیق الحق فی کلمۃ الحق ص)۱۵۳
مرتب صاحب عالمہ فیض احمد اویسی رحمۃ ہللا علیہ کی مندرجہ ذیل عبارت نقل کرتے ہیں:۔
رسول ہللا ﷺ نے فرمایا جس نے اپنے بھائیو کافر کہا تو دونوں میں ایک پر یہ کفر لوٹے گا یا یہ کہنے واال کافر ’’
ہوجائے گا یا جس کو کافر کہا وہ واقع میں کافر ہوگا‘‘(ابوین مصطفی ص)۱۳
اس پہ موصوف یوں تبصرہ کرتے ہیں:۔
ناظرین توجہ طلب بات ہے اگر حضرت ابو طالب مسلمان ہیں جیسا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب ،پیر سید نصیر الدین گولڑوی اور ’’
موالنا عطا ء محمد چشتی گولڑوی کا موقف ہے تو مخالفین کا کیا حکم ہے اور اگر حضرت ابو طالب مسلمان نہیں جیسا کہ فاضل
بریلوی اور اس کے ہم عقیدہ کا موقف ہے تو قائلین پر کیا حکم لگتا ہے اس کا فیصلہ ہم موجودہ دور کے بریلوی محققین اور
مکفرین کے انصاف پہ چھوڑتے ہیں‘‘(دست و گریباں ج ۲ص)۱۳۴
اس جگہ ہمیں انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ مرتب صاحب کو ان کے حلقہ میں مناظر کے لقب سے یا دکیا جاتا ہے ،مگر
مناظر صاحب wایک حدیث کا مطلب سمجھنے wسے بھی قاصر ہیں،یہ اعتراض اس صورت میں ہے جب تکفیر قطعی ہو،یا ان کا
ٰ
فتوی نہیں لگتا ۔تقی اسالم قطعیت سے ثابت ہو،جب کہ دونوں میں سے کوئی بات بھی قطعیت سے ثابت نہیں ،اس لئے کسی پہ بھی
عثمانی لکھتے ہیں:۔
بعض فرقے ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا کفر بالکل واضح ہوتا ہے اور اس میں کوئی شبہ کی بات نہیں ہوتی ،اب اگر کوئی اس ’’’’
صورت میں اختالف کرے تو پھر وہ مالمت کا موجب ہے ،لیکن جہاں وضاحت نہیں ہوتیاور دونوں طرف دالئل ہوتے ہیں تو اس
ٰ
فتوی دیتا ہے اور دوسرا نہیں دیتا تواب اس کونہ چاہیے کہ اس پر مالمت کرے اور نہ اس کو چاہے صورت میں ایک مفتی کفر کا
کہ اس پر مالمت wکرے ۔بلکہ دونوں اپنے اپنے مسلک پر رہیں اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں‘‘(انعام الباری ج ا ص ا)۳۳
جہاں تک حدیث کے ذکر کا تعلق ہے کہ اگر کسی شخص نے وسرے انسان کو کافر کہا اور وہ کفر کا اہل نہ ہوتو کہنے والے کا ’’
کفر قائل پر ہی لوٹ ٓائے گا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا گناہ اس پر پڑے گا ۔نہ یہ کہ اب اس کو دوسرا کافر کہنا شروع کر دے ۔
مسلمانوں کو ٓاپس میں ایک دوسرے کی تکفیر میںکسی نے ٓاج تک اس بناء پر دوسرے کی تکفیر نہیں کی کہ چونکہ اس نے مجھے
کافر کہا ہے اور میں اس کا اہل نہیں ہوں‘‘(احتساب قادیانیت ج ۱۶ص )۲۰
یعنی اس بناء پہ تکفیر ممکن نہیں،پھر انور شاہ کاشمیری صاحب کی افادات میں ہے :۔
چنانچہ فقہاء حنفیہ رحمہم ہللا نے تصریح کی ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی شبہ کی بنا پر کلمہ کفر کہتا ہے تو ا سکی تکفیر نہ ’’
کی جائے گی ۔‘‘(خطبات ختم نبوت ج ۲ص)۵۳
اس کے بعد جناب نے جو عبارت نقل کی کہ حضور ﷺ نے رشتہ داروں کا ادب الزم ہے ،اس سے موصوف یہ
نتیجہ اخذ کرتے ہیںکہ اعلی حضرت رحمۃ ہللا علیہ نے خواجہ ابو طالب کے عدم ایمان کا قول کر کے حضور ﷺ
کو اذیت دینے کا ارتکاب کیا ہے ،جبکہ اویسی صاحب کی عبارت ہی یہ مسئلہ حل کرتی ہے وہاں موجود ہے :۔
ابو لہب کے دوزخی ہونے میں شک کی گنجائش نہیں اس لیے کہ بحکم قر ٓان و ہ قطعی دوزخی ہے ‘‘(ابو ین مصطفی ص ’’)۳۲۸
یعنی جب کفر ثابت ہو تب رشتہ داری کا کوئی فائدہ نہیں،ایسے کیونکہ خواجہ ابو طالب کا ایمان نہ النا روایات صریحہ سے ثابت
ہے ،اس لئے محض رشتہ داری کوئی فائدہ نہیں دے سکتی،پھر جو روایت ان کے ایمان پہ پیش کی جاتی ہے سند کے لحاظ سے
ساقط ہے ،دیوبندی مفتی صاحب لکھتے ہیں:۔
سرور دو عالم جناب رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی بہت خواہش تھی کہ ٓاپ کے چچا جناب ابوطالب -جنہوں نے ٓاڑے وقت میں ’
ِ
ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم کی کفالت اور حمایت ونصرت کا بے مثال نمونہ پیش کیا تھا -کہ وہ دولت ایمان سے مشرف ہوجائیں ،اور
ٓاخرت کے عذاب سے محفوظ رہیںٓ ،اپ صلی ہللا علیہ وسلم جناب ابوطالب کی وفات کے وقت تک اس سلسلہ میں کوشاں رہے،
ٰ
الصلوۃ والسالم ان کے پاس چناںچہ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ جب جناب ابوطالب کی حالت نازک تھی ،تو نبی اکرم علیہ
ٰ
الصلوۃ تشریف لے گئے ،وہاں کفار مکہ کے کئی سردار ابوجہل اور عبد ہللا بن اَبی امیہ وغیرہ بھی بیٹھے ہوئے تھے ،پیغمبر علیہ
والسالم نے ٓاخری وقت میں اپنے محسن چچا کو کلمہ کی دعوت پیش فرمائی ،جس پر ابوجہل نے جناب ابوطالب کو عار دالتے
ہوئے کہا کہ’’ :کیا ٓاپ اپنے والد عبدالمطلب کے مذہب کو چھوڑکر اپنے مرنے کے بعد رسوائی کا سامان کریںگے‘‘؟ اس کے
باوجود پیغمبر علیہ السالم بار بار انہیں اسالم کی دعوت پیش کرتے رہے۔بآالخر جناب ابوطالب نے مرنے کے بعد کی عار سے
بچنے کے لئے کلمہ پڑھنے سے صراحۃً انکار کردیا اور یہ کہا کہ’’ :میں اپنے والد عبدالمطلب کے دین پر ہوں‘‘۔ نبی اکرم علیہ
الصلو ۃ والسالم پر ان کے انکار کا بڑا اثر ہوآ ،اخر ابو طالب کی وفات ہوگی ،اور ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم غمزدہ ہوکر واپس تشریف ٰ
ک اَل تَ ْہ ِدیْ َّ
الصلوۃ والسالم کو تسلی دینے کے لئے قرٓا ِن کریم کی یہ ٓایت نازل ہوئی:اِن َ ٰ لے ٓائے ،اس واقعہ کے سلسلہ میں پیغمبر علیہ
َم ْن اَحْ بَبْتَ َو ٰل ِک َّن ہّٰللا َ َی ْہ ِدیْ َم ْن یَّشَائُ۔ [القصصٓ ]۵۶ :اپ جس کو چاہیں ہدایت سے نواز نہیں سکتے؛ بلکہ ہللا جس کو چاہے ہدایت عطا
فرمائے۔پھر بھی ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم جناب ابوطالب سے طبعی تعلق کی بنا پر ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے تھے؛ تآاںکہ
بی} نازل ہوئی ،جس میں ٓاپ صلی ہللا علیہ قرٓان کریم کی ٓایتَ { :ما َکانَ لِلنَّبِ ِّی َوالَّ ِذ ْینَ ٰا َمنُوْ ا اَ ْن یَّ ْستَ ْغفِرُوْ ا لِ ْل ُم ْش ِر ِک ْینَ َولَوْ کَانُوْ ا اُوْ لِ ْی قُرْ ٰ
ِ
وسلم کو کسی مشرک کے لئے استغفار سے منع کردیا گیا۔اسی طرح صحیح روایات میں یہ مضمون بھی وارد ہے کہ جہنم میں سب
سے کم عذاب جناب ابوطالب کو ہوگا؛ لیکن وہ نجات نہیں پاسکیںگے؛ کیوںکہ وہ دولت ایمان سے دنیا میں مشرف نہیں ہوئے ،یہ
تفصیالت صحیح احادیث سے ثابت ہیں ،جن کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں۔اس کے برخالف تاریخ کی بعض کتابوں میں حضرت
تعالی عنہ کے حوالہ سے یہ لکھا ہے کہ جناب ابوطالب وفات سے قبل ہونٹ ہالرہے تھے ،اور یہ ہونٹ ہالنا کلمہ ٰ عباس رضی ہللا
پڑھنے کی بنا پر تھا ،اسی روایت کو رافضیوں نے جناب ابوطالب کے اسالم پر وفات پانے کے لئے دلیل بنایا ہے ،لیکن یہ روایت
سند کے اعتبار سے ساقط ہے ،اور صحیح اور مستند احادیث کے مقابلہ میں اس روایت کی کوئی حیثیت نہیں ،اور اس پر ہرگز
اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔(کتاب النوازل ج 1ص 239۔)240
ہمارے ہاں کسی گروہ یا طبقہ کو مومن یا کافرقرٓان و حدیث کی تصریحات کی وجہ سے کہا جاتا ہے محض رشتہ داری یا غیر ’’
رشتہ داری ایمان و کفر کی بنیاد نہیں ہے اور عقل سلیم بھی یہی چاہتی ہے ‘‘(شیعہ کے ہزار سوال کا جواب ص )۱۹۵
مصطفی
ٰ ایمان والدین
جہاں تک نفس مسئلہ کا تعلق ہے تو ہمارے نزدیک یہ مسئلہ ظنی ہے ،عالمہ احمد سعید کاظمی لکھتے ہیں:۔
روافض نے حضور علیہ السالم کے جمیع ٓاباء کے ہر فرد کو مومن ماننا قطعی اور ضروریات ایما ن سے قرار دیا ۔اور اہلسنت نے
اس کو ظنی اور مجتہد فیہ مانا (رسائل میالد النبی ﷺ ص )158
نیز :۔
عالمہ کاظمی نے مکرر فرمایاکہ موالنا فرمائیں حضور ﷺ کے والدین ماجدین کے ایمان یا عدم ایمان کسی ٓایت
قرٓانیہ میں مصرح ہے یا نہیں؟ لیکن موالنا ٓاف گوجرہ صاحب ایسے مبہوت ہوئے کہ نفی یا اثبات میں کوئی جواب ان سے نہ بن پڑا
بآالخر عالمہ کاظمی نے فرمایا موالنا میں دعوی سے کہتا ہوں کہ یہ مسئلہ کبھی نص قطعی میں منصوص و مصرح نہیں اور ظاہر
ہے کہ جو مسئلہ منصوص قطعی نہ ہو وہ ظنی اور کبھی مجتہد فیہ ہوتا ہے اسی وجہ سے علمائے امت نے قرٓان و حدیث میں غور
و تدبر کیا اور اجتہاد فرمایا اجتہادی مسائل میں عموما اختالف واقع ہوجاتا ہے اس لئے یہ مسئلہ بھی مختلف فیہ بین العلماء wہوگیا
بعض نے عدم ایمان کا قول کیا بعض نے سکوت کو اولی سمجھا wچونکہ تینوں قول بر بنائے اجتہاد ہیں اس لئے کسی قائل کی تضلیل
و تفسیق نہیں ہوسکتی ۔اگر محض رشتہ داری ہمارے نزدیک دلیل ایمان ہوتی تو ہمارے ٓائمہ اہل سنت کو اجتہاد کی ضرورت ہی
واقع نہ ہوتی جس طرح ٓاپ حضرات نے محض رشتہ داری کو دلیل ایمان سمجھا wہوا ہے لیکن چونکہ اصل دین سے اس مسئلہ کو
تعلق نہیں اس لئے ہمارے نزدیک یہ فروعی مسائل سے ہے ۔(روئیداد تاریخی مباحثہ ،ص)10
اور حق وہی ہے جو امام سیوطی نےافادہ فرمایا،کہ مسئلہ اختالفی ہے ،اوردونوں فریق جلیل القدر ائمہ ہیں (المعتمد المستندص )256
اس مسئلہ میں چار قول ہیں ۔ایک یہ کہ دونوں حضرات زندگی میں مومن تھے نہ موت کے وقت اور نہ اب یہ قول مال علی قاری ’’
وغیرہ کا ہے ۔دوسرے یہ کہ اس میں خاموشی چاہئے ان کا حال رب جانے۔تیسرے یہ کہ دونوں حضرات بروقت موت تو ایمان پر نہ
تھے لیکن اب مومن ہیں ۔چوتھے یہ کہ وہ زندگی میں مومن موحد تھے بروقت وفات بھی توحید پر قائم رہے اور اب وہ دین اسالم پر
ہیں‘‘۔(تفسیر نعیمی ج 1ص )597
فیض احمد اویسی لکھتے ہیں:۔
ہمارے دور میں جملہ اہلسنت نبی پاک ﷺ کے والدین کریمین کو من ،موحد جنتی انتے ہیں ۔لیکن یہ سب فضائل
مصطفی ص )9
ٰ ،مناقب کے متعلق ہے اس لئے اس کا منکر کافر نہیں (ابوین
اگر چہ یہ مسئلہ ان مسائل سے ہے جن کے قائل یا منکر کی تکفیر یا تضلیل یا تفسیق نہیں ہو سکتی،لیکن شرید گنگوہی کایہ قول ’’
چونکہ پیارے مصطفی کی عداوت سے ناشی ہے لہذا کفر واضھ اور ارتداد فاشی ہے ۔۔۔۔۔گنگوہی نے ان اقوال کفر و ضالل نے بتا
دیا کہ اس کا یہ قول بھی توہین سرکار رسالت اور حضور اقدس ﷺ کی عداوت ہی پر مبنی ہے ۔اس کے ان اقوال
ٰ
‘‘(فتاوی حشمتیہ ص)۸۲ ملعونہ سے ثابت ہوگیا کہ اس کی نیت ہی یہی تھی کہ دربار رسالت میں گالی بکے
ٰ
فتوی ٓائے گا۔ ٰ
فتوی کفر نہیں مگر جو لوگ گستاخانہ عقائد رکھتے ہوں ان پہ ضرور اس عقیدے کے سبب اس لئے منکرین پہ مطلقا
مصطفی
ٰ رشید احمد گنگوہی اور ایمان والدین
ایوب صاحب نے گنگوہی صاحب wکی مکمل عبارت نہیں لکھی ،وہ لکھتے ہیں:۔
حضرت رسول ہللا ﷺ کے والدین کے ایمان میں اختالف ہے حضرت امام صاحب کا مذہب یہ ہے کہ ان انتقال حالت’
ٰ
(فتاوی رشیدیہ ج ۳ص )۳۲کفر میں ہوا ہے۔‘‘
مگر تبسم صاحب نے اسے رد کہیں بھی نہیں کیا پوری کتاب میں تو یہ اب تبسم کے گلے کی ہڈی ہے۔‘‘ (ختم نبوت اور صاحب ’’
تحذیر الناس ص )۲۰
لہٰ ذا یہ نظریہ جناب رشید احمد گنگوہی صاحب کا اپنا ہے۔پھر ان کا یہ کہنا کہ امام اعظم کے نزدیک والدین مصطفی حالت کفر پر
فوت ہوئے یہ بھی محل نظر ہے۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے جناب عبد الجبار سلفی لکھتے ہیں:۔
اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ’’فی دور الکفر‘‘ یعنی ٓانحضرت ﷺ کے والدین کریمین کفر کے زمانہ میں فوت ’’
ہوئے نہ کہ کفر کی حالت میں مرے۔‘‘ (تنبیہ الناس ،ص )۴۰
اور جو قول گنگوہی صاحب wنے امام اعظم کی طرف منسوب کیا ہے اس کے متعلق جناب عبد الجبار صاحب لکھتے ہیں:۔
مگر جناب کے علم شاید نہیں تھا کہ اسی قے سے جناب کے قطب االرشاد بھی لطف اندوز ہوئے ہیں۔یہی عقیدہ خلیل احمد
سہارنپوری کا بھی ہے ،چنانچہ وہ لکھتے ہیں:۔
ثم الجمہور علی ٔان والدیہ ﷺ ماتا کافرین ،وہذا الحدیث ٔاصح ماروی فی حقہما۔ (بذل المجہود ،کتاب الجنائز ،باب زیارۃ
القبور ،ج 2ص )412
پھر یہ کہنا کہ حضورﷺ کے والدین کفر پہ فوت ہوئے اس کے متعلق ظفر احمد عثمانی صاحب لکھتے ہیں:۔
مگر اس میں شک نہیں کہ زید کے اس قول سے سے سید نا رسول ﷺ کو اذیت ہوتی ہے ’والذین یوذون رسول ہللا ’’
(امدا د االحکام ج ۱ص )۳۴۱فلہم عذاب الیم۔‘‘
مصطفی کے کفر کا قول کرے وہ سرکار دو عالم ﷺ کو ایذا دیتا ہے اور اس کے لئے دردناک عذاب
ٰ یعنی جو والدین
ہے،اور مفتی مدار ہللا مدار لکھتے ہیں:۔
تعالی نے واضح کر دیا کہ رسول ﷺ کو اذیت پہنچانے والوں کے لئے دردناک عذاب مقرر ہے (عصمت
ٰ اور ہللا
انبیاءص)104
سب سے ٓاخر میں نامور محقق اور خاتم لمفسرین عالمہ ٓالوسی کا موقف پیش کرنا ناسب ہوگا کہ انہوں نے ایسے شخص کے متعلق
ٰ
فتوی دیا ہے(محمد رسول ہللا کے ٓابائو اجداد کا تذکرہ ص )52 جو نبی اکرم کے والدین کے بارے مین عقیدہ کفر کا رکھتا ہے،کفر کا
نے تین رسائل اس مسئلہ پر ہ مسئلہ بہت نازک اور حساس ہے۔ محققین نے اس میں گفتگو کرنے سے منع کیا ہے۔ امام سیوطی
لکھے ہیں جن میں ٓانحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے والدین شریفین کا ایمان ثابت کیا ہے ،اگر کسی کو ان کی تحقیق پر اطمینان نہ
ہو تب بھی خاموشی بہتر ہے۔ ان محترمہ سے کہئے کہ ان سے قبر میں اور حشر میں یہ سوال نہیں کیا جائے گا کہ ٓانحضرت صلی
ہللا علیہ وسلم کے والدین شریفین کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا تھا؟ اس لئے وہ اس غلط بحث میں پڑ کر اپنا ایمان خراب نہ
کریں(ٓاپ کے مسائل اور ان کا حل ج 1ص)13
پھر یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ ہم رسول کریم ﷺ والدین کے ایمان کے بارے میں بحث و مباحثہ کریں ،جس سے
کہ یقینا رسول ہللا ﷺ کے ساتھ بھی بے ادب اور سوء ادب کا پہلو نکلتا ہے ((سوال وجواب ج 3ص)85
طحطاوی ابوین شریفین کے کفر پر مرنے کے قول میں بے ادبی خیال کرتے ہیں اور کئی دالئل سے انھوں نے ایمان والدین شریفین
کو ثابت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ ضرور کہ یہ اعتقاد رکھنا چاہئے کہ ابوین شریفین کفر سے محفوظ تھے (تعلیم االیمان ص )460
محب الدین طبری ذکائر العقبی میں ابو ہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ سبیعہ بنت ابولہب نے حضرت رسالت میں یوں شکایت پیش
کی کہ یا رسول ہللا لوگ مجھکو حمالۃ الحطب کی بیٹی کہتے ہیں اور اس کلمے سے عار دالتے ہیں سرور عالم ﷺ
اسے سن کر نہایت غصے ہوکر اٹھے اور فرمایا کہ میری قوم کو کیا ہوا ہے کہ میرے اہل قرابت کو عار دالنے اور تشنیع کرنے
تعالی کی اذیت ہے غور کرنے کا مقام ہے کہ بنص قرٓان سبعیہ کی ماں حمالۃ الحطب
ٰ سے مجھکو اذیت دیتے ہیں میری اذیت ہللا
تھی اور ان کے والدین یقینا جہنمی تھے ایسے شکس کی نسبت اس عار داللنے سے جو مستلزم تحقیر ہے ٓاپکو ایذا پہنچی پھر ٓاپکے
والدین کی تکفیر کیونکر باعث اذیت نہوگی ۔۔۔یعنے جو لوگ ہللا و رسول کو اذیت دیتے ہیں ایسے لوگوں پہ خدا کی لعنت ہے دنیا
تعالی نے ان کے لئے ایسا عذاب مہیا کیا ہے جو خوار کرنے واال ہے (تعلیم االیمان ص )461 ٰ اور ٓاخرت میں اور ہللا
قاضی ابوبکر ابن عربی رحمہ ہللا سے پوچھا گیا کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ ٓانحضرت ﷺ کے والدین دوزخ میں
تعالی فرماتا ہے’’:جو لوگ ایذا دیتے ہیں خد اور اس کے رسول ٰ ہیں ،تو ٓاپ نے جواب دیا :کہ وہ شخص ملعون ہے کیونکہ خدائے
کو ان پر لعنت کی خدا نے دنیا میں بھی اور ٓاخرت میں بھی‘‘ ۔اور رسول ہللا ﷺ کے حق میں اس سے زیادہ کون
سی ایذا ہے کہ ٓاپ ﷺ کے والدین کودوزخی کہا جائے۔خلیفہ عمر بن عبد العزیز رحمہ ہللا کے پاس ایک ُمحّرر دفتر
کے کام کے لیے الیا گیا جو خود تو مسلمان تھا لیکن اس کا باپ کافر تھا۔ خلیفہ عمر رضی ہللا عنہ بن عبد العزیز نے النے والے
شخص کو کہا کاش تو مہاجرین رحمہم ہللا کے بیٹوں میں سے کسی کو التا ،اس م ّحرر نے کہا کہ رسول ہللا ﷺ کے
والد بھی تو کافر تھے ،اس پر خلیفہ کو غضب ٓایا اور فرمایا :تو میرے سامنے کتابت کا کام کبھی نہیں کرے گا۔خلیفہ عمر رحمہ ہللا
بن عبد العزیز نے سلیمان بن سعد سے کہا کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارا باپ فالں فالں مقام پر ہمارا عامل ہے اور وہ (ابھی
تک) کافر ہے ،اس نے جواب میں کہا کہ ٓانحضرت ﷺ کے والد بھی تو ایسے ہی تھے۔ اس پر خلیفہ عمر رحمہ ہللا
بن عبد العزیز رحمہ ہللا سخت غضب ناک ہوئے ،اور اس کو دفتر سے موقوف کردیا۔ اس ادب کے مسلک پر بھی صالحین ؒ کی ایک
خاصی جماعت ہے(حضرت محمد ﷺ کا بچپن ص 52۔)53
مالعلی قاری
وعارضہ علي بن سلطان القاري برسالتہ في إثبات کفرہما ،فرٔای استاذہ ابن حجر مکي فی منامہ ٔان القاري سقط من سقف فانکسرت ،
ٰ
السیوطی(فتاوی رجالہ ،فقیلٰ :ہذا جزاء إہانۃ والدي رسول ہّٰللا ا ،فوقع کما رٔای ،ومن ٔاراد کشف مشکالت ٰہذہ المسئلۃ فلینظر في رسائل
محمودیہ ج 1ص ،409کتاب النوازل ج 1ص)238
فقیہ محمد مرعشی مال علی قاری کے اس قول سے بیحد ناراض ہوئے چنانچہ ان کے حق میں کہتے ہیں ۔۔۔۔یعنی تعجب ہے کہ انھوں
نے اس باب میں ایک رسالہ لکھا ہے جس میں تکلف کیا ہے اور عبارت میں قافیے wجو دلہر ناگوار گزرے ہیں درج کئے ہیں ایسا
معلوم ہوتا ہے کہ مال علی قاری کے سر میں سردی اثر کر گئی تھی ان کی عقل میںخلل واقع ہوگیا تھا(تکمیل االیمان ص )463
مال علی القاری رحمتہ ہللا علیہ نے ایک رسالہ ان کے بغیر ایمان دنیا سے رخصت ہونے کے دالئل میں لکھا ہے ،اس رسالے کا
جواب سدا ُد ال ّدین فی نجا ِۃ والدین میں دے دیا گیا ہے اور دوسری بات یہ کہ مال علی القاری ؒ کا مذکورہ رسالہ استنبول سے چھپا ہے
القاری نے اپنے اس موقف سے رجوع کر لیا تھا اور فرمایا تھا کہ میں امت کے دیگر اہل
ؒ اس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ُمالّ علی
علم کی تحقیقات کی تائید کرتا ہوں ۔( )۱ان کتابوں میں فقہ اکبر امام ابی حنیفہ رحمہ ہللا کی عبارت کا جواب بھی ہے کہ اس کتاب
کی اصل عبارت حضورﷺکے والدین کے کفر پر داللت نہیں کرتی (حضرت محمد صلی ہللا علیہ و سلم کا بچپن ص
)50
تعالی عنہ کا ارشاد گرامی ہے کہ میرا قدم ہر ولی کی گردن پہ ہے ،اور یہ ارشاد
ٰ حضرت شیخ جیالنی حضور غوث پاک رضی ہللا
گرامی حقیقت پہ محمول ہے ۔اب سے برخالف مولوی محمد احمد صاحب wبصیر پوری صاحب نے ایک کتاب لکھی ،اس میں
موصوف اس ارشاد کی تردید کرتے محض سکر و مستی پہ محمول کیا ،جو اکابرین کے بلمقابل ان کی ذاتی رائے ۔اور اکابر کے
مقابلے میں ذاتی رائے حجت نہیں ہوتی ،چہ جائیکہ اسے دست و گریباں سے تعبیر کیا جا سکے ۔پھر چند حضرات نے اس قول کو
معاصرین تک محدودو مانا ہے،مگر انہوں نے توہین آامیز لہجہ اختیار نہیں کیا،اس لئے خود اس کتاب کی تقریظ لکھنے والوں نے
بھی اس صورتحال کی وضاحت کی ۔عالمہ ممتاز چشتی لکھتے ہیں:۔
چشتی فریدی صاحب کے اس انداز تحریر کو کوئی بھی معقول انسان پسند نہ کرے گا اور اسے جواب ٓاں گزل کہہ کر نظر انداز نہ
کر سکے گا یہی وجہ ہے کہ ان کے تقریظ نگاروں کو بھی ان کے اس طریق کار پر نا پسندیدگی کا اظہار کرنا پڑا (قدم الشیخ عبدا
لقادر ص) 57
افسوس کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں سے اس نے اپنی تائید میں پیش لفظ اور تاثرات لکھوائے ہین وہ خود ان کے جارحانہ انداز
تحریر سے ناالں ہیں(افضلیت غوث اعظم ص 14۔)15
بعض جگہ الفاظ میں شدت ٓاگئی ہے اگرچہ جواب ٓاں غزل کے طور پر ہی سہی ،لیکن میں امید کرتا ہوں کہ ان مین خاطر خواہ
تبدیلی الکر نفس مضمون پر ہی نظر مرکوزرکھی جائے گی (ہدایۃ المتذبذب الحیران ص )315
پھر سیالوی صاحب نے کلی طور پہ ان کے موقف سے اتفا ق بھی نہیں کیا ،بلکہ لکھا:۔
ٰ
دعوی اس لحاظ سے بھی محل نظر ہے ٰ
دعوی کہ ٓاپ محض اپنے زمانے کے حضرات کے لیے غوث اعظم ہیں تو یہ اسی طرح یہ
کہ جب ہم زمان حضرات متاخرین کی اکثریت سے افضل ہیں تو ان سے افضل کا متاخرین سے افضل ماننا بھی الزم اور ضروری
ٹھہرا(ایضا ص )318
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ سیالوی صاحب ،بصیر ہوری کی تنقیدی عبارات کے ہرگز ذمہ دار نہیں ۔
تعالی عنہ کے فضائل سے ہے اور طریقت کا ایک فرعی جزئیہ’’ ٰ عقائد سے تعلق ہے نہ احکام شرعیہ۔حضور غوث اعظم رضی ہللا
،جس کے منکر کو فاسق wو فاجر تک بھی نہیںکہہ سکتے،ہاں استخفاف اور توہین مد نظر ہو تو اس کا حکم اور ہے ‘‘(تحقیق االکابر
فی قدم شیخ عبد القادر ص)۱۴
لیکن ان کو کافر یا فاسق نہ کہا جائے البتہ مالمت کی جائے تاکہ پیر پیراں دستگیر دستگیراں کے گستاخوں میںنہ ہو‘‘(تحقیق ’’
االکابر فی قدم شیخ عبد القادر ص)۱۶
لیکن ہماری کوشش اور کاوش کے باوجود وہ ہمارے نقطہ نظر سے اختالف کریں یا اپنے ٓاپ کو حق کے زیادہ قریب قرار دیں تو’’
بھی ہم انہیں گمراہ اور جاہل نہیں کہیں گے ‘‘(قدم الشیخ عبد القادر ص۹۶۳
جب یہ واضح ہوا کہ نفس مسئلہ کی بناء پہ کسی کی تکفیر ممکن نہیں ،اور موصوف کے پیش کردہ اکثر مسائل کی نوعیت بھی یہی
ٰ
دعوی کے مطابق نہیں۔جناب لکھتے ہیں:۔ ہے ،اس لئے ان کی یہ دلیل
ہم نے ہللا کی توفیق اور اس کی مہربانی اور اس کے احسان و امتنان سے ایک سلسلہ شروع کیا تھا کہ اہل بدعت ٓاپس میں ایک ’’
دوسرے کی تکفیر و تضلیل میں مصروف تھے اور یہ بات زیر قلم النی اس لئے بھی ضروری تھی کہ دنیا سمجھ wلے کہ جو لوگ
کل تک اکابر دیوبند کو کافر کہنے والے تھے وہ ٓاج اپنے بڑے چھوٹوں سب کو ہی کفر کے گھاٹ اتا ر چکے ہیں‘‘(دست و گریباں
ج ۳ص )۹
موصوف کہ اس اقتباس سے معلوم ہوا کہ جناب کا قلم اس بات کو قرطاس کی زینت بنانے پہ مصروف ہے کہ اہل سنت بریلوی
حضرات ٓاپس میں تکفیر و تضلیل میں مصروف ہیں،جبکہ ہمارے قارئین مالحظہ فرماچکے کہ موصوف کا پیش کر دہ مسئلہ کی
ٰ
دعوی سے مطابقت نہیں رکھتی ،ابو بناء پہ تکفیر و تضلیل تو ایک طرف تفسیق بھی ممکن نہیں،اس لئے ان کی پیش کر دی دلیل
الحسنین ہزاروی لکھتے ہیں:۔
ٰ
دعوی ہی نہ ثابت کرتی ہو اسےدلیل بنانا کہاں کی علمیت ہے ‘‘(حقیقی دستاویز ص ’’)۱۳۴ جو چیز تمہارا
ٰ
دعوی سے اس لئے امت مسلمہ کو دست و گریباں قرار دینے کے لئے کم از کم موصوف کو ایسی دلیل النی چاہئے جو ان کے
مطابقت رکھے ،مگر کیونکہ جناب دالئل سے تہی دامن ہیں ،اور باامری مجبوری کتاب کے اوراق کو سیاہ بھی کرنا ہے ،اس لئے
جناب غیر متعلقہ حوالہ جات سے کتاب کا حجم بڑھانے پہ مصر ہیں،جبکہ ایسے اختالف تو خود ان کے اکابر کے نزدیک رحمت
ہے اور معاشرے کا حسن ہیں۔
حضرت پیر سید مہر علی شاہ ؒ سید نذر دین شاہ ؒبن سید غالم حیدر شاہ ؒبن سید روشن دین ؒیکم رمضان ۱۲۷۵ھ ۴اپریل ۱۸۵۹ء کو’’
گولڑہ شریف ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے ۔ان کا سلسلہ نسبت ۲۵ویں پشت میںشاہ عبد القادر بغدادی جیالنی جا ملتا ہے ‘‘(تذکرہ
اولیائے دیوبند ص)۳۳۹
دوئم اہل علم اس بات سے بخوبی ٓاگاہ ہیں کہ معاصرانہ مخاصمت میں بعض دفعہ حد اعتدال سے تجاوز کر جانا ایک عام سی بات
ہے ،اسی لئے اس دوران جن خیاالت کا باہم تبادلہ ہوتا ہے انہیں ایک دوسرے کے حق میں استعمال نہیں کیا جا سکتا ،ہمارے اس
ٰ
دعوی پہ تاریخ کے اوراق ایسے امثال کثیرہ کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں،صحابہ کرام کی باہم چپقلش ہو یا دیگر حاضرات کی
باہم مخاصمت ہو،امت نے ٓاج تک نہ ہی اس میں سے کسی کی رائے کو دوسرے کے خالف پیش کر کے استدالل کیا ہے اور نہ ہی
اسے دست و گریباں سے تعبیر کیا ہے ،اس پہ تفصیلی حوالہ جات کا تذکرہ ہوچکا۔
دوسری جانب انور شاہ کاشمیری صاحب کو سید کہا جاتا ہے ،اور ان کے فرزند خود کو سید باور کروانے میں مشغول نظر ٓاتے
ہیں،دیوبندی مولف لکھتے ہیں:۔
ان میں ٓاپ کے فرزند موالنا انظر شاہ مسعودی کا نام سر فہرست wہے انہوں نے اپنے والد بزرگوار حاالت زندگی پر ’’نقش دوام ’’
‘‘کے نام سے ایک کتا ب تالیف کی ہے ۔اس میںمولف نے بڑی دلچسپی کے ساتھ حسب نسب کی بحث کو چھیڑا ہے جو تقریبا ٓاٹھ
صفحات پر پھیلی ہوئی ہے ۔اور اس میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہماراخاندان سادات سے تعلق ہے ‘‘(انوار السوانح ص
)۷۹
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا نسب حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ ہللا سے جا ملتا ہے ،سید احمد رضا بجنوری لکھتے ہیں:۔
حضرت کا سلسلہ نسب حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ ہللا علیہ کے خاندان سے ملحق ہوجاتا ہے ‘‘(انوار الباری ج ۲ص’’
)۲۳۷
ٓاپ(انور کشمیری) کا سلسلہ نسب امام ابو حنیفہ رحمۃ ہللا علیہ سے ملتا ہے‘‘(عشق رسول ﷺ اور علماء دیوبند ’’
ص )۱۳۹
اس حقیقت کی نقاب کشائی پہ موصوف انظر شاہ کاشمیری صاحب کافی چیں بہ چیں ہوئے اور ان کی تلمالہٹ کا اندازہ ان کے
مندرذیل اقتباس سے بخوبی ممکن ہے :۔
حضرت موالنا انور شاہ کاشمیری کے متعلق ایک صاحب نے سب سے پہلے حسب wنسب کی بحث کو اٹھا کر بخیال خویش چاند پر’’
پہنچ جانے کا حیرت انگیز مرحلہ طے کر لیا۔وہ قرٓان کے کسی مخفی گوشے کو اپنی خداداد بصیرت سے حل کرتے یا حدیث کے
کسی مستور رخ کی نقاب کشائی ان کے علم ریز قلم کے حصے میں ٓاتی۔۔۔پھر ٓاج اس بحث کو اٹھا کر مرحوم کے کچھ حلقہ بگوش
ادنی غور ع فکر اس فیصلہ میں کیا تذبذب نہیںکہ نصف صدی
کیا اپنے مرحوم اساذ کی کوئی مناسبب خدمت انجام دے رہے ہیں۔بہ ٰ
کے بعد حضور حضرت شاہ صاحب ل کو رسوا کرنے کی یہ شعوری و غیر شعوری خدمت ببھی ایک بھیانک ظلم ہے ‘‘(نقش دوام
ص)۳۰
ہم جناب انظر شاہ ساحب wکی خدمت میں عرض کریں گے کہ جناب واال حقائق سے پر دہ اٹھانا ظلم نہیں کہالتا ،بلکہ بدیہی حقائق
سے دانستہ طور پہ چشم پوشی کر کے خود کو سید کہلوانا ظلم ضرورہے۔پھر انور شاہ صاحب کے سلسلہ نسب میں’’شیخ مسعودی
نروی ‘‘کا نام موجود ہے جنہیں تذکرہ اولیاء کشمیر کے تمام مصنفین نے غیر سید کے طور پہ متعارف کروایا ہے (انوار السوانح
ص)۸۰اس سلسلہ میںڈاکٹر غالم محمد صاحب نے انظر صاحب کے ایک شبہ کا ازالہ بھی اشرف علی تھانوی صاحب سے پیش کر
دیا ہے ،انظر صاحب نے لکھا تھا:۔
مفسرین و محققین علماء نے بعض ٓایات کے تحت واضح طور پر لکھا ہے کہ شرب نسب حاصل کرنے کے لئے اگر ننہیال سادات ’’
سے ہوتو اس کی جانب انتساب کرتے ہوئے خود کو سید کہنا و لکھنا جائز ہے ‘‘(نقش دوام ص)۳۱
سیادت کا مدار حضرت سیدنا فاطمہ ؓ پر ہے پس حضرت علی کرم ہللا وجہہ کی جو اوالد حضرت فاطمہ سے ہے وہ تو سید ہے ’’
اور جو دوسری بی بی سے ہے وہ سید نہیںہے۔اسی طرح ایک شخص کا باپ سید نہ ہو اور ماں ید ہو تو قواعد کے مطابق وہ سید
نہیں‘‘(انوار السوانح ص)۸۱
اس لئے ہم مرتب صاحب کی خدمت میں عرض کریں ے کہ دوسروں کی پگڑی بعد میں اچھالئے گا پہلے بقول خود اپنے ممدوح
حضرات کے دامن پہ لگے ان بد نما داغوں کی صفائی کا کام کیجئے۔
معترض نے سیف چشتیائی کا حوالہ دیا کہ پیر مہر علی صاحب wرحمۃ ہللا علیہ نے مکر کی نسبت ہللا کی طرف کی ہے ،ہمیں تو
صفحہ مذکور پہ حوالہ نہ مل سکا،لیکن یہ بات یاد رہے سیف چشتیائی کی تعریف خود دیوبندی حضرات نے بھی کی ہے ،شوکت ہللا
میرٹھی لکھتے ہیں:۔
سیف چشتیائی …یعنی… حجۃ اﷲ البالغہ علی الشمس البازغہ واالصالح الفصیح العجاز المسیحجناب wفیض مٓاب حضرت پیر …
صاحب متوطن گولڑا ضلع راولپنڈی کے کماالت اور حاالت اور خلوص اور تقوے سے نہ صرف ہمارے ناظرین بلکہ ؒ مہر علی شاہ
تمام پنجاب اور بیشتر حصص ممالک ہندوستان اچھی طرح واقف ہیں۔ ٓاپ ایک گوشہ نشین متوکل باﷲ بااینہمہ اپنے انفاس قدسی
اساس سے مرجع خالئق اور باعث ہدایت مریدین ومسترشدین وزائرین ہیں۔ ٓاپ کو شہرت اور حب جاہ ومنصب دنیوی سے بکلی
نفرت ہے۔ ٓاپ جس طرح شیخ وقت ہیں اسی طرح تمام علوم عقلیہ ونقلیہ کے جامع ہیں۔ مرزاقادیانی کے عقائد کا زہریال اثر دور
کرنے کو حسب wاصرار علماء ومشائخ کتاب شمس الہدایہ تصنیف فرماکر شائع کی۔ پھر کیا تھا مرزائیوں پر قیامت wنازل ہوگئی اور
قادیانی مرزا نے خواہ مخواہ اپنی شہرت اور نمود کے لئے حضرت محتشم الیہ کو مخاطب گردانا۔ مباحثہ کا اشتہار دیا۔ چونکہ یہ
دین کا معاملہ تھا۔ پس اعالء کلمتہ اﷲ کو حضرت پیر صاحب wنے حسب استدعا علماء کرام ومشائخ عظام ضروری سمجھا اور معہ
ایک کثیر مجمع علماء اور مشائخ کے حسب تحریک وطلب وشرائط مرزاقادیانی الہور تشریف الئے جہاں کئی ہزار مسلمانوں نے
ٓاپ کا استقبال کیا اور الہور میں چند روز مقیم رہے۔ مرزاقادیانی کے نام رجسٹریاں بھیجیں کہ مرد میدان بن کر خدا کے شیروں کے
مقابلہ پر ٓائیے۔ مگر مرزاقادیانی اور اس کے اہالی موالی جن کو اپنی حقیقت معلوم تھی لومڑیوں اور حیض والے خرگوشوں کی
طرح قادیان کی کھوہوں میں دم دبا کر چھپ گئے۔ جو حیض تھا وہ نفاس اور استحاضہ بن گیا۔ پاک ہوتے تو پاکوں کے مقابلے پر
ٓاتے۔جب روسیاہی کا گھڑوں پانی پڑ گیا اور مٹکوں تیل گھل گیا اور دنیا پر مرزائیوں کا عجز ثابت ہوگیا تو جھونجھل اور چل مٹانے
کو مدت مدید کے بعد حضرت پیر صاحب کی کتاب شمس الہدایہ کے برائے نام جواب میں مرزاقادیانی کے ایک راتب خوار گرگے
نے کتاب شمس بازغہ شائع کی اور پھر مرزاقادیانی نے تفسیر سورٔہ فاتحہ چھپوائی جس کی چتھاڑ متعدد مرتبہ ضمیمہ شحنہ ہند
میں ناظرین کی نظر سے گزر چکی ہے۔ مندرجہ عنوان کتاب مستطاب مرزاقادیانی کی شمس بازغہ اور تفسیر سورٔہ فاتحہ کاجواب
واصالح ہے جو حجیم اور ضخیم یعنی ۳۴۶صفحات پر ہے۔ بااینہمہ پیر صاحب wنے محض خلوص اور افادٔہ خلق اﷲ کے لئے اس
کو وقف فی سبیل اﷲ کر کے مفت تقسیم فرمایا ہے۔ اس کتاب کی الگت اور اشاعت میں ہزار بارہ سو روپیہ سے کم کسی طرح
صرف نہیں ہوا۔ مرزاقادیانی تو ایک جز کی کتاب بھی چھپواتے ہیں تو چندے کا اشتہار دیتے ہیں اور پھر ایک پیسے کی الگت کے
دس پیسے وصول کر لیتے ہیں اور اپنے جاہل فدائیوں کے سوا دوسرے کو نہیں دکھاتے۔ کیونکہ قلعی کھلتی ہے۔ پیر صاحب نے نہ
چندے کا اشتہار دیا نہ کسی کو روپیہ کے لئے مجبور کیا اور متوکالً علے اﷲ یہ کام انجام کو پہنچا۔ اس میں شک نہیں کہ عجیب
وغریب کتاب ہے۔ مرزائی عقائد اور دعاوی ہی کا استیصال نہیں کیا۔ بلکہ مرزاقادیانی کی تفسیر سورٔہ فاتحہ (جس کا نام انہوں نے
اعجاز المسیح رکھا ہے) ایسی اصالحیں کی ہیں کہ سبحان اﷲ سبحان اﷲ!اب ہم منتظر ہیں کہ قادیانی گنبد سے سیف چشتیائی کے
جواب میں کیا صدا نکلتی ہے۔ مرزاقادیانی کس کس کتاب کا جواب دیں گے۔ جب کہ ایک ایک شیطان کی درگت کو بیس بیس قدسی
موسی کا جواب دینے والے تو زندہ درگور ہوگئے۔ ہاں مرزاقادیانی نے اس حیلے سے چندہ خوب ٰ فرشتے تیار ہیں۔ کتاب عصائے
موسی کے
ٰ بٹورا اور جس طرح امہات المٔومنین کے جواب کے لئے تتو تھمبو کر کے لوگوں سے ٹکے اینٹھے اسی طرح عصائے
جواب میں اپنے فدائیوں کو جل دے کر ان کی گانٹھ کاٹی۔ اب سیف چشتیائی کے جواب کے لئے مداری کا کاسہ گدائی مرزائیوں کے
گھر گھر پھرے گا اور جواب تو جیسا کچھ نور بھرا ہوگا ہم کو پہلے ہی معلوم ہے(احتساب قادیانیت ج 1ص 257۔)258
اور لفظ مکر کے متعلق عبد الحمید سواتی لکھتے ہیں:۔
بعض اوقات ٖلف ظ مکر سے غلط فہمی ہوتی ہے ۔اردو اور پنجابی میں مکر سے مراد فریب اور دھوکا ہے (معالم العرفان ج 4ص
)182
موصوف نے اس کے بعد اویسی صاحب کی ایک عبارت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ ہللا علیہ پہ بطور تنقید نقل کی ہے ،اویسی
صاحب فرماتے ہیں:۔
اعلی حضرت قدس سرہ سے پہلے مترجمین سے اس طرح گستاخی الوہیت منقول ہے ٓاپ کے بعد والے مکر کے معنی کو صرف ’’
تدبیر کے معنی میں الئے اور لوہیت کی گستاخی سے بچے ‘‘(سیدنا اعلی ٰ حضرت ص )۲۱
سب سے اول تو یہ یاد رہے کہ اویسی صاحب کی تنقید مخصوص تناظر میں ہے ،وہ لکھتے ہیں:۔
بقول عالمہ زرقانی رحمۃ ہللا علیہ مترجمین سے بہت سے ایسے گذرے ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف اسالم کی مظبوط ’’
دیوار کو کوکھال کرنا تھا اور یہی کیفیت قیامت wتک رہے گی ‘‘(سیدنا اعلی حضرت ص )۲۱
اس سے واضح ہوا کہ اویسی صاحب کی تنقید ان حضرات پہ ہے جو ترجمہ کی ٓاڑ میں اپنے خطرناک و گستاخانہ عقائد کی ترویج
میں مشغول نظر ٓاتے ہیں،دیوبندی حضرات کا عقیدہ ہے کہ
اس لئے جب ان حضرات کی جانب سے ترجمہ کیا جائے گا تو اسے بارگاہ الوہیت میں گستاخی پہ ہی محمول کیا جائے گا،اب
دوسری پیر صاحب اول تو قرٓان کا ترجمہ نہیں فرما رہے اس لئے اویسی صاحب کی تنقید کا ان سے تعلق بھی نہیں۔
اس کے بعد معترض نے حدائق بخشش حصہ سوئم کا حوالہ پیش کیا ،جس کے متعلق عرض ہے کہ یہ اعلی حضرت کی اپنی
تصنیف نہیں بلکہ ٓاپ کی وفات کے بعد محبوب علی خانصاحب نے امام اہلسنت کے بکھرے ہوئے کالم کو جمع کیا،خود دیوبندی
حضرات کو بھی اس کا اقرار ہے کہ اس کے مرتب مولوی محبوب علی خان ہیں ۔مالحظہ ہو (بریلوی فتنے کا نیا روپ صفحہ
،۲۱۳بریلوی مذہب اور اسالم ص،۲۸۶فرقہ بریلویت پاک و ہند کا جائزہ ص ،۴۲۹مطالعہ بریلوت ج ۲ص )۳۳۶
ان تمام کتب میں یہ اقرار ہے کہ حدائق بخشش حصہ سوئم کے مرتب موالنا محبوب علی خان ہیں۔اب مندرجہ ذیل عبارت مالحظہ
:.ہوجس میں صوفی عبدالحمید خان سواتی لکھتے ہیں
موالنا عبید ہللا سندھی کی طرف منسوب اکثر تحریریں وہ ہیں جو انکے تالمذہ نے جمع کی ہیں ۔موالنا کے اپنے قلم سے لکھی
ہوئی تحریرات اور بعض کتب دقیق و عمیق اور فکر انگیزہیں اور وہ مستند بھی ہیں ۔لیکن امالئی تحریروں پر پورا اعتماد نہیں کیا
جا سکتا ۔اور بعض باتیں غلط بھی ہیں جن کو ہم امال کرنے والوں کی غلطی پر محمول کرتے ہیں موالنا کی طرف ان کی نسبت
درست نہ ہوگی(عبید ہللا سندھی کے علوم و افکا ر ص )۷۸
بہرحال یہاں یہ بات ثابت ہوگئی حدائق بخشش حصہ سوئم کی نسبت اعلی حضرت کی طرف صحیح نہیں۔
اس کے بعد موصوف نے ’’پیر نصیر الدین‘‘صاحب wکے متعلق ’’شرعی اسفتاء ‘‘از مفتی اقتدار صاحب کی کے چند اقتباسات wنقل
کئے اور یہ تاثر دیا کہ انہیں وہابی قرا دیا گی اہے جبکہ یہ تاثر لینا درست نہیں۔اس لئے کہ نصیر الدین وہابی ہے ‘‘کے ٓاگے واضح
ٰ
فتوی موجو دنہیں بلکہ سوال کیا طور پہ موجود سوالیہ نشان اس بات کی وضاحت کے لئے کافی و شافی ہے کہ یہاں کسی قسم کا
جارہا ہے ۔اور مفتی اقتدار صاحب نعیمی کی نقل کردہ تمام تنقید فقط لزوم کے درجہ میں ہے ،مفتی صاحب نے اس کتاب میں کہیں
فتوی جاری نہیں کیا،جس کی وضاحت کتاب کے ٓاخر میں موجود ہے ،جسے مرتب نے نقل کرنا گوارا نہیں،یہ کتنے ٰ بھی کوئی
افسوس کی بات ہے کہ یوں تو مرتب نے اس رسالہ مذکورہ کے کئے اقتباسات wصفحہ قرطاس پہ منتقل کر دئیے مگر مفتی صاحبw
کی وضاحت پیش کرنے سے گریز کیا،اس سے ہمارے قارئین کو اندازہ ہوجائے گا موصوف کا مقصد فقط کیچڑ اچھالنا ہے
،خیرمفتی اقتدار صاحب لکھتے ہیں:۔
گزارش ہے کہ اس سے قبل ٓاپ کو ایک خط مع ایک استفتا ارسال کیاگیا ہے جو ٓاپ کو تقریبا مارچ ۲۰۰۴کو وصول ہوچکا ہے ۔’’
اس میں ٓاپ سے کچھ سواالت کیے گئے تھے ٓاپ ہی کی دوکتابوٕا کے بارے میں چند سائلین حضرات نے ایک استفتاء کے ذریعے
ٰ
فتوی کے نموجب ٓاپ کو اطالع دی تھی تا کہ ٓاپ کا دالئل واال جواب موصول ہو تو اس پر ٰ
فتوی طلب کیا تھا ۔میں ٓاداب مجھ سے
غور کیا جائے ۔اس خط میں ایک ماہ کی مہلت بھی دی گئی ہے لیکن ٓاج دو ماہ گزرگئے ہیں کہ ٓاپ کی جانب سے کسی قسم کا کوئی
ٰ
فتوی جلد بھیجا جائے ۔میں ان سے یہی کہہ رہا ہوں جواب موصول نہیں ہوا ۔سائلین حضرات بار بار مطالبہ کر رہے ہیں کہ شرعی
کہ ساحبزادہ صاحب مصروف ٓادمی ہیں جواب میں دیر بھی لگ سکتی ہے ۔ہوسکتا ہے جواب تیار کررہے ہوں۔سائلین میں سے ایک
نے مجھ سے یہ کہا کہ انتظار بیکار ہے وقت ہی ضائع کرنا ہے ۔ٓاپ کے خط کا وہ کبھی جواب نہیں دے سکتے کیونکہ وہاں قلم ہے
علم نہیں ہے مگر میں انکی اس بات کو تسلیم نہیں کرتا ۔اس لئے بجائے ایک ماہ کے دو مای انتظار کرنے بعد ٓاپ کو دوسرا خط
لکھ رہا ہوں تا کہ ٓاپ مجھ کو بتائیں کہ ٓاپ پہلے خط کے جواب کے لئے مزید مہلت چاہتے ہیں یا جواب دینا ہی نہیں چاہتے یا سائل
کی یہ بات کہ قلم موجود علم مفقود والی بات درست ہے ۔اس خط کے ٓاپ کو ملنے کے بعد مزید ٓاٹھ دن انتظار کیا جائے گا ۔اگر اب
بھی ٓاپ کی طرف سے کوئی کسی قسم کا جواب نہ مال تو پھر میں شرعی فتوی جاری کر دوں گا‘‘(شرعی استفتاء ص)۵۱
ٰ
فتوی جاری نہیں کیا ،اس لئے یہ حوالہ جات معترض کو حجت نہیں ۔پھر عرفان شاہ صاحب اس یعنی اقتدار صاحب نے کسی قسم کا
بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ پیر صاحب نے ٓاخری عمر میں توبہ کر لی تھی ۔اور اگر اس قسم کی معاصرانہ چپقلش کو
معترض دست و گریباں سے ہی تعبیر کرتےتو مال علی قاری ابن عربی کے متعلق جو کچھ لکھا ہے اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے :۔
پھر اگر تم سچے مسلمان اور پکے مومن ہو تو ابن عربی کی جماعت کے کفر میں شک نہ کرواور اس گمراہ قوم اور بے وقوف
گرہ کی گمراہی میں توقف نہ کرو ،پھر اگر تم پوچھو ،کیا انہیں سالم کہنے کی ابتدا کی جاسکتی ہے ؟میں کہتا ہوںنہیں نہ ان کے
سالم کا جواب دیا جائے بلکہ انہیں وعلیکم کا لفظ بھی نہیں کہنا چاہئے کیونکہ یہ یہودیوں اور نصرانیوں سے زیادہ برے ہیں اور ان
کا حکم مرتدین کا حکم ہے (الرد علی القائلین بو حدہ الوجود ص)155
مفتی اقتدار صاحب نے کہیں بھی پیر مہر علی شاہ صاحب wرحمۃ ہللا علیہ کو وہابی نہیں کہا ،بلکہ ان کا دفاع کیا ہے،اور واضح
لکھا:۔
ٓاپ نے لکھا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب wابن تیمیہ کا احترام کرتے تھے اور اس کے لئے مغفرت کی دعا بھی کرتے تھے ۔میں
سمجھتا wہوں کہ یہ بھی فیض احمد وہابی کی شرارت و مالوٹ ہے (شرعی استفتاء ص )27،28
یعنی ان سب باتوں کو انہوں نے فیض احمد کی شرارت قرار دیا ہے ،ایسے ہی لکھتے ہیں:۔
ٓاپ نے صفحہ 39پر لکھا ہے کیا حضرت گولڑوی کی شخصیت سند کی ھثیت نہیں رکھتی؟اقول رکھتی ہے بشرطیکہ ان کی ذاتی
تصنیفات پرانا مطبوعہ سے یہ حوالے دکھائو(شرعی استفتاء ص )43
ایک اعتراض؟
معترض نے پیر صاحب wکے حوالے سے اعتراض کیا کہ اگر ٓاپ تاویالت مسموع ہیں تو دیوبندی حضرات کی کیوں نہیں؟اس کا
جواب بھی ہم علمائے دیوبند سے ہی پیش کئے دیتے ہیں ،قاضی مظہر ناقل ہیں:۔
مراد تو قائل کی وہ قبول ہوسکتی ہے جو الفاظ سے ثابت ہو سکے اور مودودی صاحب کی یہ تاویل بھی غلط ہے (علمی محاسبہ ص
)385
پھر ’’لطمۃ الغیب ‘‘ہو یا پھر ’’ازالۃ الریب ‘‘ہو یہ دونوں کتب معاصرانہ چپقلش پہ مبنی ہونے کے سبب حجت نہیں،اور یہ ہی اسے
دست و گریباں سے تعبیر کیا جانا ہے درست ہے ،کیونکہ اسالف میںا یسی امثال موجود ہیں ،جن کی موجود گی میں کسی بھی فرقہ
کی تکفیر بے معنی ہوجائے گی ۔پھر اس کے بعد جو ازالۃ الریب کی عبارت کا ذکر کیا توناظرین یہاں بھی مکمل عبارت پیش نہیں
کی،،خود سیالوی صاحب رحمۃ ہللا علیہ نے ٓاگے جا کر اپنی اس عبارت کی وضاحت کی ہے ،مالحظہ ہو (الۃ الریب ص ۶۶تا )۷۰
کہ ’’ٓاپ(مخالف) نے بندہ کے مقالہ میں سے صرف ایک عبارت سیاق و سباق سے کاٹ کر اور پورے مضمون و مفہوم اور بنیادی
مطلب و مقصد کو قارئین سے پوشیدہ رکھ کر جس تحکم اور سینہ زوری اور ظلم و تعدی اور نا انصافی و بے اعتدالی کا مظاہرہ کیا
ٰ
فتوی بھی جڑ دیا اس تعالی کی حل مشکالت سے سبکدوشی کا عنوان قائم کر کے اس کو میرا عقیدہ قرار دیا اور کفر کا
ٰ اور باری
کے متعلق بندہ کی طرف سے ٓاپ [مخالف]کو چیلنج ہے کہ ٓاپ اس عنوان اور اس کے تحت مندرج ادھوری عبارت کو بندہ کا عقیدہ
ثابت کر دیں تو میں ٓاپ کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گااور ٓائندہ بھی کچھ لکھنے سے توبہ کر لوں گا اور اگر اس عبارت کا بندہ کا
عقیدہ ہونا ثابت نہ ہو سکے بلکہ تمہیں تمہارے دعوے کی رو سے ال زم ٓانے والے غلط اور فاسد نظریے کا بیان ہو تو پھر ٓاپ
مصنف بننے کی کوشش ترک فرمادیں‘‘(ا زالۃ الریب ص )70
لہذا جناب کی پیش کردہ عبارت ’’سیالوی صاحب ‘‘کی اپنی نہیں۔
معترض نے عالمہ سیالوی ؒ صاحب کی کتاب تحقیق کی ایک عبارت پہ اعتراض کیا ،جبکہ یہ عبارت ان کی اپنی نہیں تفسیر روح
البیان کی ہے ،اور اس تفسیر کے متعلق کرم الدین دبیر لکھتے ہیں:۔
کاش وہ متقد مین فضال کی تصانیف دیکھتے ،تو یہ رکیک استدالل پیش کرنے کی جرات نہ کرتے ۔کیا ان کو معلوم نہیں ہے کہ فقہاء
کرام و محدثین نے کس قدر حخیم کتابیں لکھ کر ان میں علوم و معارف بھر دئیے ہیں ۔۔۔۔اس کے عالوہ ان کی اور بھی تصانیف
موجود ہیں ۔امام فخر الدین رازی کی تفسیر کبیر دیکھو ۔ایسا ہی روح البیان وغیرہ۔(تازیانہ عبرت ص )85
دوسری مرتبہ اس کی اشاعت حکیم االمت موالنا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ مجاز اور دالعلوم دیوبند کے شعبہ تبلیغ کے ناظم
مرتضی حسن چاندی پوری اورموالنا غالم محی الدین دیالوی کی خواہش پر ہوئی (تازیانہ عبرت ص )17ٰ اعلی حضرت موالنا سید
ٰ
مولوی زکریا کاندھلوی کی کتب میں اسی تفسیر روح البیان کے حوالے درج ہیں پھر تفسیر روح البیان کو دیوبندی حضرات نے
ٰ
الفتاوی ج ۱ص )۲۵۲اور اس سے استدالل کیا ہے اور مفسر کو عارف باہلل قرار دیا تفسیر صححیہ میں سے شما ر کیا ہے (خیر
ٰ
فتوی لگانا ہے تو تفسیر روح البیان پہ لگا ٔو۔پھر سیالوی صاحب کی حیثیت ناقل ہے(فتنہ قادیانیت کو پہچانیئے ص )۳۱۳لہذا اگر
کی ہے قائل کی نہیں اور علماء دیوبند کا اپنا یہ اصول ہے:۔
ٰ
فتوی اس پر لگایا جائے گا وہ اصل قائل پر چسپاں ’’ قاری محمد طیب صاحب کی حیثیت صرف ناقل کی ہے ،قائل کی نہیں۔لہذا جو
ہوگا نہ کہ ناقل پر ‘‘(بریلویت کا شیش محل ص )۳۱
معترض نے مسئلہ باال پہ پیر نصیر صاحب کا اختالف دیگر حضرات سے نقل کر کے اسے شدید بھی قرار دیا اور دست و گریباں
ہونا بھی سمجھا، wجوابا ہم اتنا ہی عرض کر سکتے ہیں کہ حضور اس اختالف میں خود ٓاپ کے اپنے بھی شکار ہیں ۔
اگر فریقین راضی ہوں ،تو سیدہ کا نکاح غیرسید سے ہونے میں کوئی حرج نہیں ،مذکورہ صاحب کا یہ کہنا کہ سیدہ کا نکاح :
غیرسید سے ہوہی نہیں سکتا ،غلط ہے(کتاب النوازل ج 8ص)388
سید زادی یا کوئی عالی نسب لڑکی جب اپنا نکاح غیر کفو میں کر لے یعنی ایسے خاندان کے لڑکے سے کر لے جو نسب کے
ٰ
ہوتا(فتاوی دینیہ ج 3ص )255 مفتی بہ قول کے مطابق اس کا نکاح جائز نہیں
ٰ اعتبار سے اس کے برابر نہ ہو بلکہ کم درجہ ہو تو
لہذا اگر یہ دست و گریباں ہونا ہے تو جناب اپنے گھر والوں کے متعلق اپنے اصول سےکب wکتاب لکھنے کا شرف حاصل کر رہے
ہیں۔ٓاخر میں موصوف کی جانب سے جو پیر نصیر الدین کی تائید میں حوالہ جات نقل کئے گئے ان کے متعلق عرض ہے کہ کسی
نے بھی ان کے تفرادت کی تائید نہیں ،بلکہ عرفان شاہ صاحب دامت برکاتہم نے تو پیر نصیر صاحب کی توبہ بیان کی ہے ،لہذا نقل
کردہ حوالہ جات موصوف کو مفید نہیں اور ہمیں مضر نہیں۔
ہم اس جگہ پیر صاحب کی چند عبارات بال تبصرہ پیش کر تے ہیں،جس کی روشنی میں تکفیر کے متعلق ٓاپ کے مسلک کی
وضاحت ہوجائے گیٓ،اپ لکھتے ہیں:۔
مسلک وہابیہ:اس مسلک مین بزرگان دین اور مقبوالن خدا کے بارے میںجو تشدد پایا جاتا ہے اور حضور ختمی مرتبت
ﷺ کی شان اقدس میںجو گستاخانہ اسلوب اپنایا جاتا ہے،جیسا کہ کتاب التوحید اور تقویۃ االیمان وغیرہ سے واضح
ہے ،میں اس سے قطعا اتفاق نہیں کر سکتا،بلکہ گستاخ رسول کو کافر و بے دین سمجھتا ہوں،جو انہیں مرمٹی میں مل جانے
واال،اصنام کی طرح جامد و ساکت wاور ان کے تصور مبارک کو گدھے اور بیل کے خیال سے بدتر سمجھتے ہیںاولئک کاالنعام بل
ھم اضل کے قرٓانی لقب کا حقدار سمجھتا wہوں(لطمۃ الغیب ص)278
جو لوگ ان محسنین اسالم و مسلمین بزرگان دین کی گستاخی و بے ادبی کے مرتکب ہوتے ہیں،وہ کبھی حالوت ایمان سے بہر مند
نہیں ہو سکتے ،وہابیوں کی جن کتب و تقاریر میں ایسی باتیں پائی جاتی ہیں،میں انہیں نہ قابل توجہ سمجھتا wہوں اور نہ ہی قابل
اشاعت (لطمۃ الغیب ص)279
جناب نے اعلی حضرت کی وصیت پہ اعتراض کیا،جبکہ انور شاہ کاشمیری لکھتے ہیں:۔
ہم نے عقائد میں تو امام تسلیم کیا ہے حضرت موالنا نانوتوی رحمۃ ہللا علیہ کو اور فروع میں امام تسلیم کیا ہے حضرت حافظ ’’
تعالی کو اور دونوں سے ہم کو صاف اور مبیض علم مال تو اب معلوم ہوا کہ دیوبندیت منحصر
ٰ موالنا رشید احمد گنگوہی رحمہ ہللا
ہے ۔دونوں بزرگوں کی اتباع میں‘‘(عقائد علماء اہل سنت دیوبند ص )۱۷۵
میرا مسلک ہے کہ میرے اکابر علمائے دیوبند حجۃ االسالم حضرت موالنا محمد قاسم نانوتو ی (قدس سرہ )قطب عالم حضرت ’’
موالنا رشید احمد گنگوہی ۔حکیم االمت حضرت موالنا اشرف علی تھانوی ۔شیخ العرب والعجم حضرت موالنا حسین احمد مدنی قدس
سرہ جس مسائل پر علمی تحقیق کر کے ہمارے لئے راہ متعین کر گئے ہیں میرے جیسے علم و عمل سے عاری افراد کو انہی
راستوں پر ٓانکھیں بند کر کے چلنا چاہئے ۔کیونکہ ان اکابر نے قرٓان و سنت کی روشنی میں وہی راستہ ہمں بتا یا ہے ۔جو قرٓان حکیم
اور سنت رسول کا بے غبار اور صحیح راستہ ہے ‘‘(رسائل قاسمی ص ،۳۴۲مکتبہ قاسمیہ فیصل ٓاباد )
لہذا مرتب صاحب کو دسروں پہ برسنے کی بجائے اپنے اصو ل پہ عمل کرتے ہوئے گھر کی صفائی کرنی چاہئے۔اس کے بعد
موصوف نے ایک دفعہ پھر ادھور ی عبارت پیش کی جو مکمل یوں ہے :۔
رہی یہ بات کہ جو اعلحضرت کا ہم عقیدہ نہ ہو ،اس کو وہ کافر جانتے ہیں،یہ درست ہے اور ہر مسلمان کا یہی عقیدہ ہے کہ
ایمانیات اور ضروریات دین میں جو اس کا ہم عقیدہ نہ ہو ،وہ کافر ہے ‘‘(الصوارم الہندیہ ص)۱۳۸
یعنی ضروریات دین کا انکار کرنے واال کافر ہے ،مگر موصوف نے حسب عادت ادھوری عبارت پیش کر کے غلط تاثر دینے کی
سعی مذموم کی ،اس کے عرض ہے کہ کسی عالم دین کی اس کے علم کی وجہ سے توہین کفر ہے ،دیوبندی مفتی صاحب لکھتے
ہیں:۔
ٰ
فتوی ، ہاں اگر کسی عالم دین کی اس کے علم کی وجہ سے تحقیر کرنا مقصود ہو تو فقہا کرام نے ایسے شخص پر کفر و ارتداد کا
ٰ
(فتاوی حقانیہ )1/143 دیا ہے
اس کے بعد جو ’’دعوت اسالمی‘‘کے خالف پروپیگنڈہ کی عبارت نقل کی ،یہ کتابت کی غلطی پہ مشتمل ہے ،حجت نہیں۔اس کے
ٰ
’’فتاوی الحرمین‘‘سے عبارت نقل کرتے ہوئے ہاتھ کی صفائی کا مکرر استعمال کیا،جناب کی نقل کردہ عبارت بعد موصوف نے
کے متصل ہی یہ موجود ہے :۔
ٰ
باالجماع‘‘(فتاوی حرمین ص ’’)۷۱ اال ازا اعتقدا انہ مباح او یترتب علیہ ثواب کما علیہ بعض الشیعۃ ا و اعتقدکفر الصحابۃ فانہ کافر
سب سے اول تو یہ بات ہے کہ عبارت مذکوری مالں علی قاری کی ہے ،اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے ابو الحسنین ہزاروی
لکھتے ہیں:۔
دراصل فعل کی نوعیت ایک جیسی نہیں ہوتی ۔ترک اور انکار یا ارتکاب گناہ اور اسے حالل جان لینا ایک جیسے امور نہیں۔’’
جیسے کہ تارک الصلوۃ تو کافر نہیں مگر منکر صلوۃ کافر ہے ۔اور شرابی کافر ہے نہیں،شراب کو حالل جاننے واال کافر ہے ۔ایک
کسی گناہ کو گناہ جانتے ہوئے کر بیٹھنا ہے اور ایک اسی گناہ کو حالل جان لینا ہے۔دونوں کی نوعیت ایک جیسی نہیں‘‘(حقیقی
دستاویز ص )۱۸۶
شیخین یعنی حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کی شان میں گستاخی کرنا اور گالیاں دینامحققین علماء کے نزدیک کفر
ٰ
(فتاوی حقانیہ )1/141 نہیں ہے البتہ فسق اور گمراہی ضرور ہے
علماء کے تفردات پر اعتماد نہیں کیا جاتا وہ متروک ہوتے ہیں۔ (مسئلہ ختم نبوت اور سلف صالحین ص )۳۶۱
حضرت یونس کے متعلق باال عبارت صریح جھوٹ ہے ہم ایسا اعتقاد نہیں رکھتے۔اگر کسی غیر ذمہ دار مفسر نے لکھا ہوتو اس کا
قصور ہے۔مجموعی مسلک پہ کوئی اعتراض نہیں۔ (ہم سنی کیوں ہیں ص )۵۲
ناظرین!مہر صاحب کے اس بیان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کسی ذاتی رائے سے مجموعی مسلک پہ اعتراض ہرگز قائم نہیں ہو
سکتا۔
ہر عالم کی بات کو جو کا توں قبول نہیں کیا جاتا۔ (تسکین االتقیاء ص )۹۱۱
ہم بھی اسے حضرت نانوتوی کا تفرد قرار دیتے ہوئے اس سے اتفاق نہیں کرتے۔‘‘(عقیدہ حیات النبی ص’’)۲۹
عبد الجبار سلفی لکھتے ہیں:۔
اہل علم جانتے ہیں بعض مسائل میں ان حضرات کے تفردات بھی ہیں۔ہم ان کے تفرادات کے قول کو قبول نہیں کرتے‘‘ (تنبیہ ’’
الناس)۹۵
ان تمام حوالہ جات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ تفرادات قابل قبو ل نہیں۔لیکن یہ بات یاد رہے کہ غالم مہر علی صاحب کے نزدیک
اس سے صرف لزوم کفر ٓاتا ہے،التزام نہیں۔چنانچہ اپنے الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
میں نے تو حرام اور کفر ہی لکھا ہے جس میں مرتد قرار دینے کے لئے قائل کا التزام بھی ملحوظ ہوتا ہے ‘‘(جوابات رضویہ ص’’
)۶۵
ایسے ہی عالمہ غالمہ مہر علی صاحب کی تکفیر قطعی بھی ثابت نہیں ،اور پیش گوئی کی وضاحت وہ خوداپنی کتاب جوابات
رضویہ کے صفحہ نمبر ۷۰تا ۷۵پہ وضاحت کر چکے ہیں،قارئین وہی مالحظہ کریں۔
اس کے بعد جناب نے شاہ ولی صاحب کے حوالے تنقید نقل کی جو ان سے منسوب کی کتب کی بناء پہ ہے ،جس کی تفصیالت
ہماری کتاب کنز االیمان اور مخالفین اور عالمہ ارشد مسعود صاحب کی کتاب تحفظ اھل سنت و جماعت میں موجو دہے ،عالمہ
صاحب نےخود دیوبندی کتب سے شاہ صاحب پہ تنقید نقل کی ہے اور اس اعتراض کی جڑ اکھیڑ دی ہے ،ناظرین وہی رجوع کریں۔
باقی تمام جرح معاصرانہ چپقلش کے بعث حجت نیست اور حدائق بخشش حصہ سوئم کے حوالے سے جو شعر نقل کیا ،اس کا
تفصیلی جواب’’ردا عتراضات المخبث ‘‘میں موجود ہے۔
اب اس کے مرتب نے الذنب فی القرٓان کے حوالہ سے ایک عبارت نقل کی جس میں مصنف نے عالمہ غال م رسول سعیدی کے نقد
کو نقل کیا ہے ،جس خالصہ یہ ہے کہ حدیث کا استخفاف اور استحقاء کفر ہے ،اب اس پہ یہ سوال کرتے ہیں کہ پھر صحابی کی
توہیں کفر کیوںنہیں/تو جوابا عرض ہے کہ جناب پہلے ٓاپ یہ ثابت کرنے کی زحمت تو گوارا کریںکہ عبد الرحمٰ ن قاری نام کے کوئی
صحابی تھے ؟اگر ثابت نہ کر سکیں تو پھر ٓاپ کو شیعہ کی گود میں بیٹھنا مبارک ہو،کیوبکہ مہر محمد میانوالوی لکھتے ہیں:۔
شیعہ حضرات مذہب گھڑنے کے ساتھ اپنی مرضی کے صحابی بھی بنا لیتے ہیں (معراج صحابیت ص )231
شارح بخاری مفسر قرٓان عالمہ غالم رسول سعیدی ؒ نے شرح صحیح مسلم میں سورۃ الفتح کی ٓایت میں ذنب کی نسبت حضور کی
طرف قائم رکھی اور اعلی حضرت کے ترجمہ کی تغلیط کی ،جس پہ ان کے خالف کتب لکھیں گئیں،جس کی بدولت عالمہ صاحب
نے اپنے موقف سے رجوع کرتے ہوئے اس ترجمہ کو عقائد اہلسنت کے مطابق قرار دیا۔مگر ان کتب میں بھی عالمہ غالم رسول
سعیدی صاحب کی تکفیر نہیں کی گئی،اور جناب نے جو اقتباس پیش کیا ،اس میں یہ بات بھی موجود ہے کہ :۔
مگر یہ بات یاد رہے کہ ہم موالنا سعیدی کی تکفیر نہیں کرتے ‘‘(الذنب فی القرٓان ص ’’)۲۶
لہذا ان کے تفردات سے اختالف تو ممکن ہے مگر ان کی تکفیر ہرگز ثابت نہیں۔اس کے بعد جناب نے فہرست کو ()۳۷تک پہنچایا
یہ بھی جناب کی غلط فہمی ہے ،موالنا سعیدی نے ہرگز کسی کی تکفیر نہیں ،بلکہ عالمہ صاحب کا ٓاخری موقف اپنے مخالفین کے
بارے میں یہی رہا کہ ان کا نظریہ مرجوح ہے اور بس۔چنانچہ جس کتاب کے اقتباسات اس میں یہ بات موجود ہے :۔
عالمہ سعیدی نے شرح صحیح مسلم کی جلد ۶کے مختلف صفحات میں اپنی تحریر میں اس کے بارے میں لکھا تھا ’’یہ ترجمہ ’’
صحیح نہیں‘‘اب اسے صحیح مانتے ہوئے ’’مر جو ح‘‘قرار دیا ہے‘‘(الذنب فی القرٓان ص۶ا)۸
اس عبارت میں واضح تکفیر نہیں،بلکہ احتمال ہے ،اس لئے تکفیر کا استدالل نہیں کیا جاسکتا(جلد اول)
اس کے بعد موصوف نے اعتراض کیا کہ عالمہ غالم رسول سعیدی ؒ نے حضور ﷺ کی بد دعا کی نسبت کو توہین
قرار دیا ہے ،جبکہ دیگر اکابرین نے اس کو جائز قرار دیا ہے ،جوابا عرض ہے کہ یہ موصوف کا جمہور کے بلمقابل تفرد ہے اور
تفرادات قابل قبول نہیں جیسا کہ ہم حوالہ جات سے واضح کر چکے ہیں،اس جگہ مزید ایک حوالہ مالحظہ کر لیں،الیاس گھمن
لکھتے ہیں:۔
لیکن جس طرح ہر عالم کی بات کو جوں کا توں قبول نہیں کیاجاتا بلکہ کتاب و سنت اور مقتدمین اکابر کے عقائد و اعمال کے میزان
پر پرکھا جاتا ہے (المہند اور اعتراضات کا جائزہ ص)42
اب جہاں تک صاحبزادہ ابو الخیر صاحب کی بات ہے ،تو موصوف کی تکفیر بھی جمہور اہل سنت کے نزدیک ممکن نہیں،عبد
المجید سعیدی صاحب لکھتے ہیں:۔
ان حضرات نے یہ اقدام کر کے اگرچہ کئی بہت بڑی مذہب کش ،علمی اور تحقیقی اغالط کا ارتکاب کرکے بہت برا کیا ہے تاہم ’’
ترجمہ ہذا پر محض اس اعتراض کی بنیاد پر ان پر حکم کفر لگانا اور ان کی تکفیر و تضلیل یا تفسیق کرناشرعا درست نہیں
،کیونکہ اس صورت میں تکفیر وتضلیل کی کوئی صحیح ،شرعی ،معیاری وجہ نہیں پائی جاتی (کنز االیمان پہ اعتراضات کا ٓاپریشن
ص )۶۲
ٰ
فتوی کفر نہیں،ہاں ان جب واضح ہو گیا کہ زبیر صاحب کی تکفیر ممکن نہیں،ایسے ہی فیصلہ مغفرت ذنب والے احباب پہ بھی
حضرات کا فیصلہ درست نہیں،کیونکہ چہ جائیکہ زبیر صاحب کی تکفیر ممکن نہیں مگر ا ن کو موقف بھی درست نہیں۔اس سلسلہ
مصطفی کے شماروں
ٰ میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے ،اس کتاب کے اکثر موئدین نے رجوع کرلیا تھا،جس کی تفصیل ماہنامہ رضائے
میں موجود ہے ۔
ٰ
فتوی کی وضاحت جامعہ انوار لعلوم کے
ٰ
فتوی پیش کیا ،اس کا سردست جواب یہ ہے کہ:۔ موصوف نے جو جامعہ انوار لعلوم کے حوالہ سے
پہلی گزارش تو یہ ہے کہ مذکورہ تمام فتوے ہاشمی صاحب نے کسی کتاب کے حوالہ سے نقل نہیں فرمائے کہ اس پر اعتماد کیا
جائے (بریلویت کا شیش محل ص)50
موصوف کے حوالہ سے نقل کی گئی تنقید کی کوئی حثیت نہیں،خود علماء دیوبند کو اقرار ہے کہ جناب کا انکار کیا گیا ہے (ہدیہ
بریلویت ص،)253ابو الحسنین ہزاروی لکھتے ہیں:۔
یہ کتاب شیعہ یا آازادخیال شخص کی یا اہل السنت کے معتبر شخص کی نہیں لہذا الزام میں اسے پیش کرنا درست نہیں(حقیقی
دستاویز ص )321
ان کے نظریات کے متعلق جلد اول میں وضاحت ہوچکی کہ موصوف نظریاتی طور پہ بھی بریلوی نہیں۔
جوابا عرض ہے کہ یہ دونوں ترجمے جن سے سوال متعلق دو توجہیں ہیں ان دونوں توجہیوں کو جلیل القدر مفسرین کی تائید حاصل
ہے ۔۔نیز۔۔دونوں کا مقصود و مدعا عصمت نبوت کا تحفظ ہے ۔دونوں اپنے اس مقصود و مدعا کو حاصل کرنے میں کامیاب بھی
ہیں ۔۔۔لہذا۔۔یہ دونوں توجیہیں صحیح ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ ان میں توجیہ کنز االیمان خوب ہے تو توجیہ البیان خوب تر ہے
(التصدیقا ت ص )64
ناظرین مفتی صاحب نے اس جگہ صرف اتنا عرض کیا ہے کہ انبیاء سے خطائیں صادر ہوسکتی ہیں ،یہی بات عقائد کی کتب میں
بھی مذکور ہیں اور خود دیوبندی حضرات بھی مانتے ہیں مگر تفصیل میں جائے بغیر اتنا عرض ہے کہ امکان سے وقوع ماننا الزم
نہیں ٓاتا۔اور اتصدیقات میںمحفوظ ہونے کا تذکرہ ہے ،جو صدور کے مخالف نہیں۔
مرتب نے اس باب میں عالمہ فضل الرسول بد ایونی سے دیگر علماء کا اختالف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ،ذیل میں اس کا
جواب حاضر ہے ۔
ہم عرض کر چکے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ مسئلہ قطعی نہیں اس لئے اس کا قائل اگر تحقیق کی نیت سے ہو تو وہ خطاء پہ ضرور
ہے مگر تکفیر ہم نہیں کرتے ،موصوف نے جو فیض احمد اویسی صاحب wکے حوالہ سے مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے،فیض
احمد اویسی لکھتے ہیں:۔
ہمارے دور میں جملہ اہلسنت نبی پاک ﷺ کے والدین کریمین کو من ،موحد جنتی انتے ہیں ۔لیکن یہ سب فضائل
مصطفی ص )9
ٰ ،مناقب کے متعلق ہے اس لئے اس کا منکر کافر نہیں (ابوین
اس لئے مسئلہ ہذا کی بناء پہ عالمہ فضل رسول بدایونی رحمۃ ہللا علیہ کی تکفیر ممکن نہیں۔
مسئلہ ٓازر
ٓازر کو حضرت ابراہیم علیہ السالم کا باپ قرار دینا بھی قطعی مسئلہ نہیں ،نہ ہی اس کی بناء پہ کوئی تکفیر ہوتی ہے ،خود
موصوف کے نقل کر دہ حوالہ جات میں بھی تکفیر و تضلیل کی بات موجود نہیں ۔اس لئے یہ حوالہ بھی فضول بھرتی کے مترادف
ہے ۔
لفظ بد دعا
اس لفظ مذکور کی نسبت اکابرین اہلسنت کے ثابت ہے ،اور اس کی تردیدکرنا سعیدی صاحب کا تفرد اور تفرادات حجت نہیں ہوتے
جیسا کہ ہم بحوالہ گفتگو کر چکے ہیں۔
)یہ بریلویوں ہی کی ایک جماعت wہے ۔اس کے عقائد و نظریات فرقہ بریلویہ والے ہیںدست و گریباں ج 2ص212
قارئین عرف عام میں بریلوی اسے کہا جاتا ہے جو امام احمد رضا کی تحقیق سے متفق ہو،اور پیر سیف الرحمٰ ن لکھتے ہیں :۔
اعلی حضرت ٰ اس فقیر کے بارے میں بد عقیدہ لوگوں نے یہ افتراء بازی کی کہ چونکہ میں بریلوی نہیں کہلواتا اس لیے مجھے
ٰ
فتاوی جات سے اتفاق نہیں تو اس فقیر نے بارہا معزز علماء و مشائخ عظام موالنا الشاہ احمد رضا خان بریلوی رحمۃ ہللا علیہ کے
کی موجود گی میں یہ بات بیان کی ہے کہ اس حقیقت سے یہ فقیر ٓاگاہ ہے کہ عظیم المرتبت عاشق ماہ رسالت مجدد دین وملت موالنا
تعالی علیہ اپنی تمام زندگی احیائے سنت اور اماتت بدعت کے لئے کوشاں رہے ٓاپ کی ٰ الشاء احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ ہللا
محققانہ خدمات wاور چشمہ فیض سے الکھوںلوگ مستفیض ہورہے ہیں۔اور میں یعنی فقیر اخند زادہ سیف الرحمٰ ن نے خطیب بے مثل
موالنا عالمہ مقصود احمد قادری صاحب wخطیب مسجد حضرت داتا دربار صاحب رحمۃ ہللا علیہ اور دیگر علماء کرام کی موجو دگی
ٰ
فتاوی جات سے اتفاق ہے (حضرت اخند زادہ سیف الرحمٰ ن میں بارہا یہ بیان کیا کہ مجھے wاعلی حضرت رحمۃ ہللا علیہ کے تمام
مبارک کا پیغام ص )13
باقی اگر کسی کو یہ اشکال ہو کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں اکابر دیوبند کے ناموں کے ساتھ رحمۃ ہللا علیہ وغیر لکھا ہے تو جواب
فتوی من شک فی کفرہم و عذابہم فقد کفر کا مصداق پہلے نمبر پر مولوی احمد رضاخان بریلوی کو ہوناٰ یہ ہے کہ حسام wالحرمین کے
چاہئے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے ایک دفعہ حفظ االیمان ،جو حکیم االمت حضرت تھانوی رحمۃ ہللا علیہ کی تصنیف ہے ،اس
کی ایک متنازعہ عبارت اپنے دوست موالنا عبد الباری فرنگی محلی کو دکھائی تو انہوں نے صاف کہا کہ مجھے تو اس میں کوئ
گستاخی نظر نہیں ٓاتی ۔پھر اعلی حضرت نے کہا اس طرح دیکھیںتو سمجھٓ wائے تو انہوں نے کہا مجھے تو اس طرح بھی گستاخی
نظر نہیں ٓاتی ۔پھر اعلی حضرت خاموش ہو گئے اور دوستی اور محبت کو برقرار رکھا (دست و گریباں ج 2ص )217
پہلی بات تو پیر صاحب نے ان الفاظ کو نکال دیا تھا،الیاس گھمن لکھتے ہیں:۔
اب موجودہ ایڈیشن میں رحمۃ ہللا علیہ وغیرہ کے الفاظ نکا ل دئیے گئے ہیں(فرقہ سیفیہ کا تحقیقی جائزہ ص )18
اب موجودہ ایڈیشن میں رحمۃ ہللا علیہ وغیرہ کے الفاظ نکا ل دئیے گئے ہیں(دست و گریباں ج 2ص )219
لہذا جب الفاظ نکال دئیےتھے تو یہ محنت چہ معنی وارد۔مگر جناب کا مقصد صرف اپنے اکابر کو کسی طرح مسلمان ثابت کرنا
،اور حسام الحرمین کی تغلیط ہے مگر
جناب نے جو اعتراض کیا اس کا فی الحال مختصر جواب یہ ہے کہ اعلی حضرت رحمۃ ہللا علیہ نے تکفیر کر دی تھی ،سرفراز
خانصاحب wلکھتے ہیں:۔
یہ یاد رہے کہ جس دن سے قلمدان خان صاحب کے بے باک ہاتھوں میں گھس گیا ہے اس روز سے تو کفر اتنا سستا ہوگیا ہے کہ ہللا
تعالی کی پناہ ۔ند وۃ العلماء والے کافر ۔۔۔موالنا عبد الباری صاحب فرنگی محلی ۔۔کافر ۔۔‘‘(عبارات اکابر ص )۲۰
ٰ تبارک و
خان صاحب کی روح اور ان کی موجودہ ذریت مجھے معاف فرمائے کہ جس دن سے افتا ء کا قلم دان خان صاحب )احمد رضا(’’
کے بے باک ہاتھوں میں گیا ہے اس روز سے تو کفر اتنا سستا ہو گیا کہ اﷲ کی پناہ! ندوۃ العلماء wوالے کافر ،جو انہیں کافر نہ کہے
وہ کافر ،علمائے دیوبند کافر ،جو انہیں کافر نہ کہے وہ کافر ،غیر مقلدین اہل حدیث کافر ،موالنا عبدالباری صاحب فرنگی محلی کافر
اور تو اور تحریک خالفت میں شرکت کے جرم میں اپنے برادران طریقت مولوی عبدالماجد صاحب بدایونی کافر ،مولوی عبدالقدیر
صاحب بدایونی کافر ،کفر کی وہ بے پناہ مشین گن چلیکہ ٰال ہی توبہ! بریلی کے ڈھائی نفر انسانوں کے سوا کوئی بھی مسلمان نہ
رہا۔‘‘ (فیصلہ کن مناظرہ ص)۷۵
تو علماء دیوبند کی رعایت کرنا یہ تو فاضل بریلوی سے ہی چال ٓارہا ہے (دست وگریباں ج 2ص)217
جبکہ خود جناب اپنے قول کی تغلیط کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
اور امت مسلمہ کو تھوک تکفیر کا صدمہ ہر چھوٹے بڑے بریلوی کے ہاتھوں سہنا پڑا ‘‘(مطالعہ بریلویت ج ۱ص ’’)۴۱۳
لہذا تمام بریلوی علماء دیوبند کی تکفیر کرتے ہیں،اس کے بعد لکھتے ہیں:۔
ٓائیے چند مثالیں دیکھئے!1۔دیوبندیوں سے الجواب سواالت کے ص 804پر لکھا ہے :۔عالمہ شبیر احمد عثمانی ؒ(دست و گریباں ج
2ص )217
جوابا عرض ہے کہ یہ کتابت کی غلطی ہے ۔غالم علی صاحب نے جب ابو مخنف کی تائید میں یہ حوالہ پیش کیا کہ عالمہ ابن کثیر
نے اسے رحمۃ ہللا علیہ کہا ہے تو جوابا حصاوری دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:۔
ملک غالم علی فرماتے ہیں ابن کثیر نے ایک روایت میں ابو مخنف کو رحمہ ہللا بھی لکھاہے،حافظ ابن کثیر کا لکھا ہوا تب مانتے
تعالی عنہ کا نام
ٰ جب کتاب کی کتابت انہوں نے خود کی ہوتی،تفسیر کبیر ایران سے چھپی ہے اس میں جہاں حضرت علی رضی ہللا
ٓایا ہے وہاں علیہ السالم لکھا ہے تو کیا یہ کتاب کے مصنف کا لکھا ہوا ہے؟(سیدنا معاویہ اور طائفہ ھاویہ ص)38
۔موالنا نور بخش توکلی نے لکھا ہے :موالنا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ ہللا علیہ (دست و گریباں ج 2ص 2)217
عالمہ نور بخشش توکلی رحمۃ ہللا علیہ کی کتاب سیرت رسول عربی ﷺ کے پہلے ایڈیشن کا عکس الفیصل ’’
ناشران و تاجران غزنی اسٹریٹ اردو بازار الہور سے شائع اس ایڈیشن میں قاسم نانوتوی کے نام کے ستاھ کلمہ تراحم مکمل موجود
نہیں بلکہ اس کا اختصار ’’رح ‘‘لکھا ہوا ہے یہ کتابت کی غلطی پر موقوف ہے کاتبوں سے اس طرح کی غلطی کا صدار ہونا بعید
از امکان نہیں‘‘(دافع ازالۃ الوسواس ،ص)۴۱۴
کاتب لوگ عام طور پر صاحب علم نہیں ہوتے اور جہاں کسی بزرگ یا شخصیت کا نام ٓاجائے وہیں اپنی طرف سے کچھ نہ کچھ
تعظیمی الفاظ لکھ دیتے ہیں ‘‘(عبقات ج ۱ص )۹۰
پھر عالمہ صاحب کی ’’انوار ٓافتاب صداقت ‘‘پہ تقریظ موجود ہے ،جس میں واضح دیوبندی اکابر کی تکفیر کا تذکرہ ہے ۔
جوابا عرض ہے کہ یہ پیش لفظ فیض احمد چشتی صاحب کا ہے ،جو ہمارے نزدیک حجت نہیں،اور نہ ہی ہم موصوف کے کسی
حوالہ کے جواب دینے کے پابند ہیں۔
۔مولوی ابو الحسنات احمد قادری لکھتے ہیں:دیوبند کے شیخ موالنا محمود الحسن رحمۃ ہللا علیہ نے اپنے چار پاروں کا حاشیہ لکھا4
(ایضا)
عرض ہے کہ یہ بھی کاتب کا سہو ہے اور پرانے ایڈیشنز میں یہ بات موجود نہیں ،اس لئے مصنف اس سے بری الذمہ ہیں ،پھر
خود ابو الحسنات قادری صاحب نے واضح دیوبندی حضرات کی تکفیر کی ہے ۔
۔پیر محمد چشتی چترالوی لکھتا ہے :محدث کاشمیری مرحوم(ایضا)5
مرحوم عرف میں وفات یافتہ کو کہتے ہیں ،اس پہ تفصیلی تبصرہ ہم پہلی جلد میں کر چکے ہیں۔
۔بریلوی پیر زادہ اقبال احمد فاروقی کے مکتبہ سے چھپنے والی کتاب مجالس علماء کے ٹائٹل پر ہی بائین طرف سید عطا ء ہللا شاہ 6
بخاری اور موالنا شبیر احمد عثمانی کا نام لکھ کر نیچے لکھا ہوا ہے رحمۃ ہللا علیہم اجمعین(ایضا)
کتاب مذکورہ مختار عالم حق صاحب کی تالیف ہے ،جو ہمارے مسلک کی مقتدر و معتمد شخصیت نہیں اور نہ ہی ان سے مسلک
اہل سنت و جماعت کا تشخص قائم ہے ۔اس کے بعد ذکرکر دہ دو کتب غیر معتبر ہیں۔
مختصر عرض ہے کہ کتاب مذکور کے پہلے ایڈیشن میںکچھ قابل گرفت باتیں تھیں جنہیں پیر صاحب نے للہیت کے تحت نکا ل دیا
تھا ،اور جہاں تک پیر محمد چشتی کی تکفیر کا تعلق ہے تو ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ ان کے تفرادات سے اختالف تو
ممکن ہے ،مگر جمہور اہلسنت انکی تکفیر کے قائل نہیں۔
طاہر القادری
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے متعلق ہم پہلی جلد میں تفصیل سے لکھ چکے کہ وہ ہرگز ہمارے مسلک کی معتمد علیہ شخصیت
نہیں،اس لئے ان کو زیر بحث النا ہی درست نہیں۔ڈاکٹر خالد محمود لکھتے ہیں:۔
اعلی حضرت فاضل بریلوی کے دین ومذ ہب کو کیوں چھوڑ دیا ہے (مطالعہ بریلویت ج 4
ٰ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے
ص)277
اس حوالہ باال سے واضح ہوا کہ ڈاکٹر صاحب امام احمد رضا ؒ کے مسلک سے ہٹ چکے ہیں،اگر کسی نے تعریف کی تو فقط اسی
بناء پہ کہ کچھ عرصہ انہوں نے خود کو اہلسنت ظاہر کیا مگر جلد ہی اس سےمنحرف ہوگئے جس پہ خود دیوبندی شہادتیں پیش کی
جاچکی ۔لہذا ان کے متعلق جواب دینے کی ذمہ داری ہم پہ عائد نہیں ہوتی ۔
موصوف لکھتے ہیں :۔اگرچہ یہ مسئلہ پیچھے گزر چکا ہے مگر یہاں نئی طرز سے ہے (دست و گریباں 2ص)274
مرتب کا مندرجہ باال فقرہ پڑھ کر ہمیں بھی تجسس ہوا کہ موصوف پتہ نہیں کیا نئی چیز ال رہے ہیں ،مگر حسب سابق یہاں بھی
حوالہ جات کا اعادہ ہی نظر ٓایا ،خیر موصوف لکھتے ہیں:۔
یہ مسئلہ بھی دیگر مسائل کی طرح بریلوی حضرات میں ایسا اختالفی بنا کہ بریلوی حضرات کے اصول و ضوابط سے ایک
دوسرے کی تکفیر ہوتی ہے (دست و گریباں ج 2ص )274
ہم اوراق سابقہ میں یہ بات واضح کر چکے کہ مسئلہ ہذا اختالفی ہے ،اس کی بناء پہ طرفین میں سے کسی کی تکفیر ممکن نہیں
،اب دوبارہ وہی گھسا پٹا اعتراض اور الزام تراشی اس بات کی وضاحت کے لئے کافی ہے کہ موصوف کی پٹاری خالی ہوچکی ہے
۔خیر موصوف نے پہلے صائم چشتی صاحب کی تائید پہ حوالہ جات عرض کرنے کے بعد ان کے رد پہ حوالہ جات پیش کئے جس
کا کم از کم ایمان ابو طالب کے مسئلہ سے کچھ تعلق نہیں۔جہاں تک بات ہے صائم چشتی صاحب کے رافضی ہونے کی تو جوابا
عرض ہے کہ ان کے تفضیلی ہونے کے واضح شواہد موجود ہیں کیونکہ تفضیلیہ رافضیوں کی ہی شاخ سے تعلق رکھتے ہیں اس
ٰ
فتوی موجود نہیں ،اس مسئلہ کی تفصیل لئے علماء نے ان کو رافضی کہا ہے اور تفضیلی اہل سنے سے خارج ہیں ،ان پہ کفر کا
ٓاگے ٓارہی ہے ۔اب سوال رہ گیا ان کی تائید کا تو سکی نے بھی ان کے تفضیلی عائد و نظریات کی حمایت wنہیں کی ،خود موصوف
کہتے ہیں:۔
اس لئے کسی بزرگ نے پوری طرح ان کے عائد و نظریات سے واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے کافر نہ کہا تو اس سے بریلوی
علماء کوخوش نہیں ہونا چاہئے (دست و گریباں ج 3ص )86
وا ق ہوئے بغیر تعریف کی ہے تو اس ہمیں نقصان نہیں ،اور ان کو
اسی طرح اگر کسی نے صائم چشتی کے عقائد و نظریات سے ٖ
تفضیلی فقط ایمان ابو طالب کی بنیاد ہی نہیں کہا گیا،بلکہ اس کی وجوہات دیگر ہیں۔موصوف اپنی کتاب مشکل کشا میں لکھتے ہیں:۔
سیدنا صدیق اکبر کو تمام خلفائے راشدین سے پہلے جو خالفت عطاء ہوئی وہ سلطنت اسالمیہ کے نظم و نسق سنبھالنے اور شرعی
حدود کے تحفظ و نفاذ سے عبارت ہے ۔۔۔۔جبکہ اس کے بالعکس جو خالفت wحضرت علی کرم ہللا وجہہ الکریم کو عطا فرمائی گئی
وہ سلطنت روحانیہ کا نظم و نسق چالنے اور حدود طریقت کے نفاذ و تحفظ سے عبارت ہے (مشکل کشا ص )205
نیز:۔
حضرت علی کرم ہللا وجہہ الکریم براہ راست رسول ہللا ﷺ کے نہ صرف یہ کہ روحانی خلیفہ ہیں بلکہ خلیفہ و جا
نشین اول ہیں (مشکل کشا ص )207
یہ وہ نظریہ و عقیدہ ہے جو ان کے تفضیلی ہونے پہ مہر ثبت کرتا ہے ،ہم کچھ تفصیل پہلی جلد میں عرض کی تھی ،مزید ٓاگے
ٓارہی ہے ،المختصر صائم صاحب تفضیلی ہیں بریلوی نہیں ۔ان کو ہمارے خالف ہرگز پیش نہیں کیا جا سکتا۔
مرتب نےحضرت عالمہ صوفی ہللا دتہ رحمہ ہللا کے حوالہ سے اعتراض کیا کہ انہوں نے تفسیر کبیر وغیرہ سے نقل کیا کہ
مندرجہ باال ٓایت سے استدالل کرنا رافضیوںکا کام ہے ،جبکہ اس مطلب یہی ہے کہ قطعیت کا استدالل کرنا روافض کا کام ہے ۔
:عالمہ احمد سعید کاظمی فرماتے ہیں
امام رازی نے تفسیر کبیر میں اس مسئلہ کے اعتقادی ہونے کا انکار کیا ہے اور اسرار التنزیل میں اس کے ظنی ہونے کا اثبات کیا
ہے (مقاالت سعیدی ص )610
ٰ
فتوی واضح موجود ہے جس کو جناب نے نقل کیا،پھر اس کا بریلویت سے کوئی تعلق بلکہ اس نے ناظرین گوہر شاہی پہ ہمارا
علیحدہ ایک نئے فرقے کی بنیاد رکھی۔دیوبندی مفتی لکھتے ہیں:۔
واضح رہے کہ انجمن سرفروشان اسالم کے بانی ریاض احمد گوہر شاہی دین اسالم کے خالف دشمنا ِن اسالم کی جد وجہد کے
سلسلے کی ایک ایسی ہی کڑی ہے جس طرح کہ مسیلمہ کذاب یا اس را ِہ ضاللت میں اس کے دیگر ہمسفر تھے۔ اس لئے ٓاج کہنے
واال اپنے کہنے میں حق بجانب ہے اور عین حقیقت ہے کہ گوہر شاہی کی جد وجہد بھی غالم احمد قادیانی کی جد وجہد کا تسلسل
ہے۔ گوہر شاہی نے تصوف وسلوک کا لبادہ اوڑھ کر سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ اس نے اپنی
ناپاک زہریلی تعلیمات کے ذریعے اپنے ٓاپ کو نبوت اور الوہیت کے درمیان ثابت کرنے کی کوشش کی‘ دنیا میں ظہور پذیر ہونے
کرہ ارض تک ہی محدود رکھا‘ لیکن گوہرشاہی کا ایک امتیاز یہ
والے خود ساختہ جھوٹے نبیوں میں سے ہرایک نے اپنے مشن کو ٴ
بھی ہے کہ اس نے اپنی تعلیمات کو فروغ دینے کے لئے صرف زمین پر ہی نہیں‘ بلکہ فضاء wمیں بھی حقائق ساختگی کی جھوٹی
اور ناکام کوشش کی‘ اس نے اس سلسلے میں چاند کو بھی معاف نہیں کیا اور بے دریغ سیاہی استعمال کرتے ہوئے در ودیواروں پر
بھی کھلے عام یہ لکھوانے سے نہ شرمایا کہ ”:چاند میں جس کی صورت ٓائی‘ گوہر شاہی ‘ گوہر شاہی“ گوہرشاہی بالکل اسالم کے
شجرہ طیبہ کی جڑوں کے لئے کسی زہریلے کیڑے سے کم نہیں تھا‘ اس نے مغربی سرمایہ اور سپوٹ کے ذریعے اپنے باطل
عقائد کو امت مسلمہ کے درمیان پھیالنے شروع کردئے‘ ہللا جزائے خیر دے علمائے دین کو‘ جنہوں نے بروقت ہی اس ناسور
اورفتنے کا تعاقب wکیا۔
ذیل میں گوہرشاہی کے عقائد میں سے چند عقائد پیش کئے جاتے ہیں جن کو معمولی عقل کا مالک بھی پڑھ کر اور پھر گوہرشاہی
:کو اس ترازو پہ رکھ کر اس کے کفر اور اسالم کے بارے میں فیصلہ کرسکتا ہے‘ چنانچہ مالحظہ ہو
تعالی شہ رگ کے پاس ہوتے ہوئے بھی (نعوذ باہلل) انسانوں کے اعمال سے العلم ہیں‘ چنانچہ گوہر ۱:
ٰ گوہرشاہی کے نزدیک ہللا
:شاہی اس عقیدے کا اظہار اپنے ملحدانہ کالم میں کچھ یوں کرتاہے
قریب ہے شہ رگ کے اسے کچھ پتہ نہیں
تعالی کی کتاب قرٓان مجید میں تحریف کرنا بھی کوئی ۲
ٰ ؛جب گوہرشاہی خدا کو العلم کہہ سکتا ہے تو ایسے ملعون کے لئے ہللا
:مشکل نہ ہوگا چنانچہ وہ کہتا ہے کہ
قرٓان مجید میں بار بار ٓایا ہے کہ ”دع نفسک وتعال“ ترجمہ” :نفس کو چھوڑ اور چال ٓا“ (بحوالہ مینارہ نور طبع اول ۱۴۰۲ھ) ”
حاالنکہ قرٓان کریم میں کہیں یہ الفاظ موجود نہیں “۔
جب وہ ایسی جھوٹی ٓایات اپنی طرف سے گھڑے گا تو اس سے کوئی حوالہ بھی طلب کرے گا‘ چنانچہ اس نے پہلے سے ہی اس ۳:
:کا بندو بست کردیا اور کہہ دیا کہ
:قرٓان کے صرف ۳۰پارے نہیں‘ بلکہ کل ۴۰پارے ہیں چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ
یہ موجودہ قرٓان پاک عوام الناس کے لئے ہے جس طرح ایک علم عوام کے لئے ہے جبکہ دوسرا علم خواص کے لئے ہے جو ”
سینہ بسینہ عطاء ہوا اسی طرح قرٓان پاک کے دس پارے اور ہیں الخ (بحوالہ حق کی ٓاواز ص)۵۲:
:گوہرشاہی مخلوق کو خدا کے ذکر سے پھیر کر اپنے ذکر میں لگانے کے لئے کہتا ہے کہ۴:
یہ قرٓان مجید فرماتا ہے کہ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے میرا ذکر کرو وہ پارے (یعنی وہ مزید دس پارے جو موجودہ قرٓان کے عالوہ ہیں ”
گوہرشاہی کے ہاں) کہتے ہیں کہ اپنا وقت ضائع نہ کرو‘ اسی کو دیکھ لینا اس کی یاد ٓائے تو (بحوالیہ ٓاڈیوکسیٹ خصوصی خطاب
نشتر پارک کراچی)“۔
موجودہ قرٓان مجید نے شراب کو حرام قرار دیا ‘ لیکن شاید کہ گوہرشاہی کو اپنے خصوصی ان دس پاروں میں جو صرف اس ۵:
کے اس قول پر (شیطان کی طرف سے) نازل ہوئے ہیں۔ شراب کو حالل قرار دیا گیاہے‘ چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ
کی کہ مجھے wحضور ا سے دو علم عطاء ہوئے ایک تم کو بتا دیا‘ دوسرا بتادوں تو تم مجھے wقتل کردو‘ اس کی تشریح میں گوہر
:شاہی لکھتا ہے کہ
وہ دوسرا علم یہ ہے کہ شراب پیو‘ جہنم میں نہیں جأوگے اور بغیر کلمہ پڑھے ہللا تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے“۔ (بحوالہ یاد ”
گار لمحات ص)۱۰-۹:
گوہرشاہی کو زمین پرتو ٓارام ٓایا نہیں‘ اس لئے اس کے نفس نے فضاء میں بھی پرواز کی وہ چاند ‘ سورج اور حجر اسود پر ۶:
:اپنی شبیہ کے متعلق لکھتاہے کہ
چاند سورج اور حجر اسود پر شبیہ ہللا کی نشانیاں ہیں‘ یہ من جانب ہللا ہے اور ان کو جھٹالنا گویا کہ ہللا کی بات سے نفی ہے“۔ ”
(بحوالہ حق کی ٓاواز ص)۲۶:
دنیا کا اصول ہے کہ اپنے محسن کی مدح اور تعریف کی جاتی ہے‘ چونکہ گوہرشاہی بھی اس اصول سے مجبور ہوکر شیطان ۷:
:کی مدح سرائی کرتا ہے تاکہ اس کی طرف سے شیطان کے حق میں کمال ناسپاسی نہ ہو‘ چنانچہ وہ کہتاہے کہ
شیطان کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ لوگوں کو گناہ میں لگاتاہے‘ لیکن خود کبھی شامل نہیں ہوتا الخ۔ (بحوالہ یادگار لمحات ص” )۴:
جو شخص ہدایت من جانب ہللا سے محروم ہو اور اس کی ہدایت میں کالم خداوندی یعنی قرٓان مجید اور فرامین رسول ا یعنی ۸:
احادیث مبارکہ کارگر نہ ہو اور وہ ان سے ہدایت نہ لے سکے تو ٓاخر وہ کہاں جائے گا؟ اس سوال کا جواب اگر گوہرشاہی خود دے
:تو زیادہ مناسب ہوگا کہ اس کا ہادی نہ خدا ہے اور نہ اس کے رسول ا کی تعلیمات‘ چنانچہ وہ خود لکھتا ہے کہ
ایک دن پتھریلی جگہ پیشاب کرہا تھا پیشاب کا پانی پتھروں پر جمع ہوگیا اور ویساہی سایہ مجھے پیشاب کے پانی میں ہنستا ہوا ”
نظر ٓایا جس سایہ سے مجھے ہدایت ملی تھی“۔ (بحوالہ روحانی سفر ص)۲:
گوہرشاہی کو خطرہ ہے کہ اگر اس کا کوئی مرید حج پر چالجائے اور حجر اسود پر اس کی تصویر نہ دیکھے تو اس کا جھوٹ۱۰:
:کھل جائے گا ا سلئے وہ کہتا ہے کہ تم کعبہ کی طرف نہ جأو‘ بلکہ کعبہ تمہاری طرف ٓائے چنانچہ وہ کہتاہے کہ
اس کعبہ کو ابراہیم علیہ السالم نے گارے اور مٹی سے بنایاہے تجھے تو ہللا کے نور سے بنایا گیا ہے تو اس کعبہ کی طرف کیوں ”
جاتاہے وہ کعبہ تیری طرف ٓائے نا“۔ (بحوالہ مذکورہ) یہ تمام حوالے دور جدید کا مسیلمہ کذاب گوہرشاہی نامی کتاب میں موجود ہیں
“”تلک عشرہ کاملہ
یہ گوہرشاہی کے سینکڑوں ہزاروں گمراہ کن اور ملحدانہ وزندقانہ عقائد میں سے چند عقیدے تھے جن کو دیکھ کر معمولی شعور
کا مالک بھی گوہرشاہی کے کفر اور اسالم کا فیصلہ کرسکتاہے‘ یہی وجہ ہے کہ ان جیسے عقائد کی بناء پر گوہرشاہی کو مقتدر
علمائے کرام اور مفتیان عظام نے دائرہ اسالم سے خارج ملحد اور زندیق قرار دیا ہے‘ اس بارے میں ٓاج سے کافی عرصہ پہلے
بھی دار االفتاء ختم نبوت‘ دار االفتاء جامعہ علوم اسالمیہ عالمہ بنوری ٹأون کراچی ‘ دار االفتاء دارالعلوم کراچی ‘ دار االفتاء
جامعہ فاروقیہ کراچی اور دیگر مستند اداروں سے فتوے صادر ہوچکے ہیں‘ لہذا انجمن سرفروشان اسالم کا بانی ریاض احمد
گوہرشاہی اور اس کی جماعت کے متعلقین جو گوہرشاہی کے مذہب پر عمل پیرا ہیں‘ وہ دائرہ اسالم سے خارج ہیں اور ان میں سے
تعالی ہے
ٰ :کسی کے ساتھ مسلمان مرد اور عورت کا نکاح جائز نہیں ہے‘ چنانچہ قرٓان مجید میں ارشادی باری
ومن یبتغ غیر االسالم دینا فلن یقبل منہ“ (ٓال عمران۱:”)۸۵:
ورد النصوص بان ینکر االحکام التی دلت علیہا النصوص القطعیة الی غیر المحتملة للتاویل من الکتاب والسنة ای الحد التواترکفر ”
لکونہ تکذیبا صریحا ً ہلل ولرسولہنبراس ص )۵۶۶:۔۔۔۔لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کے ساتھ کسی مسلمان لڑکی کا نکاح
جائز نہیں ہے‘ اس سے اجتناب ضروری ہے(ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ ۱۴۲۷ھ جنوری۲۰۰۷ء،ص 2۔)3
انجمن سرفروشان اسالم کا بانی اور قائد ریاض احمد گوہر شاہی اپنے کفریہ عقائد کی وجہ سے کافر،مرتد ،ملحد اور زندیق ہے ’’
اور جو شخص بھی ایسے عقائد رکھتا ہو یا صحیح جانتا ہواور مانتا ہو وہ بھی دائرہ اسالم سے خارج ہے(ارشاد المفتین ج ۲ص
)۱۴۹
ملت اسالمیہ اور ہند و پاک کے مسلمان اس انگریزی نبی کے انگریزی دین کازہر ختم کرنے اور اس کے بدبو دار الشے کو دفن ’’
کرنے سے ابھی فارغ نہیں ہوئے تھے کہ اس کے گماشتوں نے پاکستان میں اس سے ملتا جلتا ایک اور فتنہ برہا کر دیا جس کے
بانی ریاض احمد گووہر شاہی نے یک لخت پورے دین کی عمارت کو ڈھا دینے کا اعالن کر دیا ‘‘(گمراہ کن نظریات اور صراط
مستقیم ص)۲۴۲
ان دونوں حوالہ جات سے واضح ہوا کہ ریاض احمد گوہر شاہی ایک فرقے کا بانی ہے اور انگریز کا خود کاشتہ پو دا ہے اس کا
بریلویت سے کوئی تعلق نہیں؟کیا دیوبندی مناظر صاحب جہمیہ قدریہ ،خارجیہ ،معتزلہ اور دیگر باطل فرقوں کے حوالے سے اسالم
کو طعن کریں گے ؟پھر جناب خود لکھتے ہیں:۔
ٓاج تک دیوبندی مسلک میں صرف ایک فتنہ ’’مماتی ‘‘حضرات کا ٓایا جو کہ بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں اور اس فتنے کا اکابر ’’
علماء دیوبند سے کوئی تعلق نہیں(پانچ سو با ادب سواالت ص )۶
اب ہم کہتے جناب ایوب صاحب ٓاپ کے گھر سے نکلے ہوئے فنتے کا ٓاپ سے کوئی تعلق نہیں تو پھر گوہر شاہی اور اس جسے
دیگر حضرات جنہوں نے مسلک اہلسنت سے اعتزال کیا ہے ان کا مسلک حق سے تعلق کس طرح ہے ؟۔پھر مرتب کہتے ہیں:۔
جب وہ خود کہہ رہا ہے کہ میرا مسلک بریلوی ہے تو اس کے قول کو کیوں نہیں مانتے ،کیا ٓاپ کو یاد نہیں کہ نبی پاک ’’
ﷺ نے کیا فرمایا ھال شفقت قلبہ یہی بات ہم کہتے ہیں ٓاپ ا س کا دل چیر کر دیکھ لیتے کہ وہ اپنی بات میں سچا ہے
یا نہیں‘‘(دست و گریباں ج ۲ص )۲۸۷
یہی اعتراض مرزائی اور شیعہ حضرات بھی کر سکتے ہیں کہ وہ جب خود کو مسلمان کہتے ہیں تو پھر ٓاپ کو کیا حق پہنچتا ہے
کہ انہیں اسالم سے خارج کریں،جو ٓاپ اس سلسلہ میں عرض کریں گے ،وہ ہماری طرف سے بھی قبول کریں ۔پھر جس واقعہ کی
نویر
طرف اشارہ کیا ،اس میں حضرت خالد ؓ کے فعل سے برات کے باوجود کسی قسم کی تعزیر یا سزا نہ دی ،ایسے ہی مالک بن ؒ
کا قتل غلط فہمی سے ہوا اس پہ بھی ان کو کچھ نہ کہا گیا کیونکہ انہوں نے ظاہر پہ اعتماد کیا ۔اس لئے جب گوہر شاہی کے عقائد
اس کے کفر پہ دال ہیں تو حکم اسی کے مطابق کے ہوگا۔
مولوی احمد رضا خان نے جو انبیاء کرام کی توہین و گستاخی کی ہے وہ ٓاپ حضرات نے مالحظہ کرنی ہے جو ذیل میں کتب کی’’
فہرست ہم لکھ دیتے ہیں‘‘(دست و گریباں ج ۲ص)۲۸۶
ٰ
فتوی لگانے پہ مصر ہیں ،مگر حالت یہ ہے کہ جناب اپنا مافی الضمیر بھی بیان کرنے جناب یوں تو اعلی حضرت پہ گستاخی کا
ٰ
سے قاصر ہیں،خیر جناب کا گھر کی کتب سے اعلی حضرت کو گستاخ ثابت کرنا بھی عجیب ہے ،اپنے دعوی کے تائید میں
مخالفین اعلی حضرت کی کتب پیش کی جارہی ہیں،قاضی مظہر حسین لکھتے ہیں:۔
معلوم ہوتا ہے کہ درویش صاحب wکی اپنی کوئی خاص سوچ نہیں ہے ۔کبھی خارجیوں کے کتابچہ ’’اصل حقیقت‘‘کا حوالہ پیش ’’
کرتے ہیں اور کھی مودودی جماعت اسالمی کے مشہور اہل قلم رہنما کا۔کبھی کسی کے دریوزہ گر بنتے ہیں اور کبھی کسی کے ۔
جماعت اسالمی والوں نے تو مطعون کرنا ہی ہے کیونکہ رد مودودیت میں میری معتدد کتابیں شائع وہ چکی ہیں‘‘(مشاجرات wصحابہ
اور راہ اعتدال ص )۹۴
اس لئے دیوبندی حضرات کیونکہ مخالف ہے ا،اس لئے ان کا الزام لگانا حجت نہیں۔پھر ان کتب کے جوابات بھی الحمد ہللا شائع ہو
چکے ہیں،چند ایک کتب کے نام مالحظہ ہوں:۔
ٓائینہ اہلسنت)(۴
انوار احناف)(۵
قہر خدا وندی)(۶
برق ٓاسمانی)(۷
اس کے بعد اعلی حضرت کے شعر ’’عزت بعد ذلت ‘‘پہ اعتراض کیا جبکہ یہ لفظ ’’بعد ‘‘نہیں ’’بُعد‘‘ ہے اور بُعد کا مطلب ہوتا
تعالی نے کثر ت دی ہے وہ ٰ ہے دو ر ،تو اس شعر کا مطلب یہ ہے بنا کہ یا رسول ہللا ﷺ ٓاپ کو جو ہللا تبارک و
قلت(کمی )سے بہت دور[بعد] ہے اور جو عزت ملی ہے وہ ذلت سے بہت دور (بُعد)ہے۔یاد رہے کہ قدیم علماء کی کتب میں یہ
بُعد[دور] کا لفظ بغیر پیش کے بالکل اردو کے لفظ ’’بعد ‘‘کی طرح لکھا ملتا ہے ۔جیسا کہ دیوبندیوں کے مولوی زکریا کی کتاب
’’تاریخ مشائخ چشت ص‘‘ ۲۶۳پر بُعد کا لفظ بغیر پیش اردو کے لفظ ’’بعد ‘‘ کی طرح لکھا ہوا ہے۔اسی طرح اشرفعلی تھانوی
دیوبندی کی کتاب ’’دعوت عبدیت جلد اول ،سیرت الصوفی ص ‘‘۷۰پر بھی بُعد کا لفظ بغیر پیش اردو کے لفظ ’’بعد ‘‘ کی طرح
لکھا ہے۔اسی طرح اشرفعلی تھانوی کے افادات ’’خوابوں کی شرعی حیثیت :مرتبہ محمد اسلم دیوبند :صفحہ ۱۰پر بھی بُعد کا لفظ
بغیر پیش اردو کے لفظ ’’بعد ‘‘ کی طرح ہوا ہے۔لہذا یہ دیوبندیوں کی خطاء ہے کہ وہ لفظ ’’بعد‘‘(دور)کو اردو کا لفظ ’’بعد
‘‘سمجھ رہے ہیں ۔دیوبندی حضرات کی طرح پیر نصیر الدین نے بھی یہاں ٹھوکر کھائی ہے ۔لیکن یہ ان کی ذاتی غلطی ہے اور
دیوبندی امام سرفراز صفدر [اظہار العیب فی کتاب اثبات علم الغیب :ص ]۱۰۸اصول کے مطابق شرعا و قانونا و اختالقا اس کا
الزام سیدی اعلیحضرت رحمۃ ہللا علیہ پر عائد نہیں کیا جا سکتا ۔لہذا اب علماء دیوبند کا پیر نصیر کو پیش کرکے سیدی اعلیحضرت
رحمۃ ہللا علیہ پر الزام لگا کر شرعی ،قانونی اور اخالقی جرم کے مرتکب ہوئے ۔باقی بعض شارحین نے اگر اردو کا لفظ بعد مراد
لیا تو یہ بھی نبی پاک ﷺ کیبارے میں نہیں بلکہ صحابہ کرام علہیمالرضوان اجمعین کے بارے میں اور مراد یہی لی
ہے کہ پہلے صحابہ کفر کی ذلت میںڈھوبے ہوئے تھے لیکن نبی پاک ﷺ کے صدقے انہیں ایمان کی دولت نصیب
ہوئی اور ان کو عزت ملی ۔اور یہ بات حدیث سے ثابت ہے ۔اب ٓائیے ہم بتاتے ہیں کہ انبیاء کرام کو ہمارے سنی علماء نے نہیں بلکہ
وہابیوں نے ذلیل کہا ،وہابی امام اسماعیل دہلوی صاحب کہتے ہے کہ ’’اور یقین جان لینا چاہیے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا وہ ہللا
! کی شان کے ٓاگے چمار سے بھی ذلیل ہے ۔( تقویتہ االیمان مع تذکیر االخوان صفحہ ) ۲۵معاذ ہللا
اس عبارت میں رسول ہللا ﷺ کا ذکر تسلیم کرتے ہوئے رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں:۔
فخر عالم علیہ السالم باوجود یکہ تمام مخلوق سے برتر و معز و بے نہایت عزیز ہیں کہ کوئی مثل ان کے نہوا نہوگا مگر حق ’’
ٰ
‘‘(فتاوی رشیدیہ ج ۱ص )۱۶ تعالی کی ذات پاک کے مقابلہ میں وہ بھی بندہ مخلوق ہیں تو یہ سب حق ہے
ٰ
اس کتاب کو بھی غیر معتبر کہا جاتا ہے ،جب حقیقت اس کے بر عکس ہے ،یوبندی امام سرفراز صفدر اس تفسیر کو معتبر مانتے
ہیں،کہتے ہیں کہ
اس دور میں ہمارے استاد و مرشد رئیس المئوحدین حضرت موالنا حسین علی صاحب پیش پیش ہیں کے کالم کو سمجھنے wکی ’’
کوشش ہی نہیں کی گئی حضرت مرحوم اپنی امالئی تفسیر بلغۃ الحیران میں فرماتے ہیں ‘‘(المسلک المنصور صفحہ )۳۷یہی مولوی
سرفراز لکھتا ہے’’بلغتہ الحیران موالنا حسین علی کی امالئی تفسیر ہے…‘‘(الشہاب wالمبین ص )۱۱۶مولوی محمود عالم صفدر
دیوبندی نے اس کو معتبر مان کر اس کا دفاع کیا ہے (فتوحات صفدر ج ۱ص)۵۷۸مولوی امین صفدر دیوبندی نے بھی اس کا دفاع
کیا ہے (خطبات امین ص )۴۷۴مولوی الیاس گھمن دیوبندی نے بھی اس کتاب کو معتبر مان کر نہ صرف استدالل کیا ہے بلکہ اس
کتاب کے حوالے سے اس نے اپنا مسلک بیان کیا ہے۔(فرقہ مماتیت کا تحقیقی جائزہ ص )۳۴۲اسی طرح ایک اور دیوبندی مولوی
نے بھی اس کتاب کو معتبر مان کر اس کا دفاع کیا ہے(حقیقی دستاویزص )۳۵۸مولوی مشتاق دیوبندی نے بھی اس کتاب کودیو
بندیوں کی تصنیفی خدمات میں شمار کیا ہے (علمائے اہل سنت کی تصنیفی خدمات کی ایک جھلک ص )۹۱مولوی زاھد الحسینی
دیوبندی نے بھی اس کتاب کو حسین علی کی تصنیف مانا ہے (رحمت کائنات ص )۱۹۹یاد رہے یہ کتاب’’رحمت کائنات‘‘ علماء
دیوبند کے مطابق مقبول باررگاہ نبوی ہے اور دیوبندی اصول کے مطابق اس کتاب کی مخالفت رسول ہللا ﷺ کی
مخالفت ہے۔اسی طرح عطاء الرحمٰ ن رحمانی نے بھی اس کتاب کو حسین علی کی تصانیف میں شمار کیا ہے (ماہنامہ الرشید مئی
۱۹۸۳ص )۲۵لہذا کوئی دیوبندی اس تفسیر کا انکار نہیں کر سکتا ۔پھر یہ تفسیر خود دیوبندی مولوی کی مصدقہ ہیں ’’اور بذات خود
ان پر نظر فرمائی ہے ‘‘ (بلغۃ الحیران صفحہ ،۴حضرت موالنا غالم ہللا خان ص) ۶۷
اس کے بعد مرتب نے حدا ئق بخشش حصہ سوئم سے ایک شعر’’روئے یوسف سے فزوں تر حسن روئے شاہ ہے ‘‘پہ اعتراض
کیا ،جبکہ عرض ہے اوال تو یہ اعلی حضرت رحمۃہللا علیہ کی اپنی تصنیف نہیں بلکہ ٓاپ کی وفات کے بعد مرتب کی گئی اور
ایسی کتب میں خود دیوبندی حضرات کے نزدیک غلطی کا احتمال ہوتا ہے ، ،عبد الجبار سلفی لکھتے ہیں:۔
یہ العرف الشذی کی طرح امالئی تقریر ہے ،لہذا پورے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ عالمہ کشمیری کا قول ہے ۔یہ ’’
امالئی تقریریں ان کے شاگرد وں نے ان کی وفات کے بعد شائع کی ہیں۔اور ناقلین کے سننے یا نقل کرنے میں لغزش کا امکان
ممکن ہے ‘‘(تنبیہ الناس ص )۳۹
حضرت مرحوم نے اپنے قلم سے وہ نہیں لکھیں اور نہ یہ ان کی تصنیف ہے جس میں مصنف کی پوری ذمہ داری کارفرما ہوتی ’’
ہے اور بوقت ضبط تحریر شاگردوں سے کی کچھ غلطیاں سرزد نہیں ہو سکتیں؟اور ان تقریروں کی ذمہ داری استاد ہ کیسے عائد
ہو سکتی ہے ؟(راہ ہدایت صفحہ نمبر )۱۳۵
ظہور احمد الحسینی لکھتے ہیں:۔’’یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ العرف الشذی اور فیض الباری وغیرہ حضرت عالمہ انور شاہ
کاشمیری کی اپنی تصانیف نہیں ہیں کہ یہ یقین سے کہا جائے کہ عالمہ کشمیری نے یہ بات ضرور ارشاد فرمائی ہوگی بلکہ یہ
کتابیں تو حضرت کی امالئی تقاریر کا مجموعہ ہیں جن کو ان کی وفات کے بعد ان کے شاگردوں نے کتابی صورت میں شائع کردیا
اب ظاہر بات ہے کہ ناقلین کے سننے یا نقل کرنے میں غلطی کا امکان موجود ہے (حقیقی دستاویز ص)۳۶۸
مجیب الرحمٰ ن صاحب اپنے مماتی دیوبندی سے مخاطب wہوکر لکھتے ہیں:۔
ہمیں درجہ یقین میں یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ یہ حضرت گنگوہی رحمہ ہللا کی بات نہیں لگتی بلکہ بال برگردن راوی یا ’’
ٰ
‘‘(،فتاوی رشیدیہ کی عبارت بقول جناب حضرت گنگوہی رحمۃ ہللا علیہ کی لکھی ہوئی نہیں تو حجت نہیں تو کوکب دری بھی کاتب
ان کی لکھی ہوئی نہیں تو حجت کیوں ہے؟(عقیدہ حیات النبی اور صراط مستقیم ص)۱۵۴
ان کتب کے بارے میں زیادی سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی نے بعض تقاریر موالنا کی جمع کر کے شائع کردیں مگر ظاہر
ہے کہ یہ تقاریر امالی کی قبیل سے ہوں گے اور ان میں موجود تمام مندعجات کا بلفظہ مندرج ہوجانا ضروری نہیں امکان ہے کہہ
بعض عبارات الحاقی ہوں بعض جگہ سامع کو بات سمجھنے wمیں یا اسے نقل کرنے میں مغالطہ لگ گیا ہو تو پھر انہیں کس طرح
قطعی طور پر موالنا کی طرف منسوب کر کے برسر عام انہیںطعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے (ترجمان احناف ج 2شمار نمبر 5
جنوری 2015ص)48
دوئم اس کا جواب دیتے ہوئے عالمہ حسن علی رضوی لکھتے ہیں:۔
تعالی عنہ کی شان میں نہیں بلکہ حضور نبی اکرم رسول ’’
ٰ یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ شعر سیدنا شیخ عبد القادر جیالنی رضی ہللا
محترم ﷺکی شان رفیع میں ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اس نظم کا پہال شعر یہ ہے ۔
بتائیے چاند طیبہ کا کون ہے سیدنا شیخ عبد القادر جیالنی ؓیا حضور پرنور نبی اکرم نور مجسم ﷺظاہر ہے طیبہ کا
چاند حضور ﷺ ہیں‘‘(قہر خداوندی ص)۱۹۲
حتی کے تفسیق
ناظرین عرض ہے کہ دعوت اسالمی سے فروعی مسائل میںا ختالفات اپنی جگہ حق ہیں مگر ان کی تکفیر و تضلیل ٰ
بھی کوئی نہیں کرتا ’’،ابلیس کا رقص ‘‘نامی کتاب جھوٹی ہے جس کی وضاحت خود عالمہ اختر رضا خان نے کر دی ہے لہذا اس
کو ہمارے خالف ہرگز پیش نہیں کیا جا سکتا،اور ابو دائو د صادق صاحب نے چند فروعی مسائل میں اختالف کیا ہے مگر تکفیر و
تضلیل غیرہ ہرگز نہیںکی۔اور نہ ہی دیوبندی حضرات اس کو ثابت کر سکتے ہیں۔
سپا ہ صحابہ
اس لیے کہ تمام مسجدوں،حلقوں میں ان ہی اختالفی امور پر بحث ہو گئی اور امت کے باقی مسائل سے توجہ ہٹ گئی۔پاکستان میں
جیش محمد ،سپاہ محمد اور سپاہ محمد تشکیل بھی موساد کی اسی کاروائی کے نتیجہ میں ہوئی (ماہنامہ لو الک فروری ،2011ص
)19
ہم ھضرت موالنا ہللا وسایا جیسے محقق ،صاحب علم و کمال شخصیت سے عرض کریں گے کہ ٓاپ سے یہ توقع نہ تھی کہ ٓاپ بھی
مغلوب الغضب ہو کر ایسے غدار وطن اسرائیلی ایجنٹکا انٹرویو ایسی سرخی لگا کر اپنے رسالے میں جڑ دیں گے ۔گویا کہ ٓاپ اس
عنوان سے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ٓامدہ مضمون سے جو کچھ مترشح ہو رہا ہے وہ ہمارے ادارے کا موقف ہے اور یہاں اس
مضمون کا شائع کرنا اس کے اظہار کے لیے ہے (زلزلہ لوالک اور ٓافٹر شاکس ص )123
ٓاپ نے اپنی تحریک کو اشتعال انگیز نعرے دے کر اب تک کیا کھویا کیا پایا؟کیا اکابرعلماء دیوبند کا یہی طریقہ رہا ہے ؟ٓاپ کا
قیمتی سرمایہ اس اشتعال کی نذر ہوگیا اور بے شمار علماء صلحا اور نوجوان ٓاپ کی اس پالیسی کی بھینٹ چڑھ گئے دشمن منظم
ہوگیا اور اس نے اسالم اور اہل اسالم کے خالف باقاعدہ منصوبہ بندی سے کاروائیاں شروع کر دیں ٓ،اپ کیا س ہالیسی کا بھیانک
اور لرزا دینے واال یہ نتیجہ پوری دنیا میں عام ہوا کہ مسلمان دہشت گرد ہیں اور اسالم دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے ٓ،اپ دیکھ رہے
ہیں کہ امام باڑوں اور مسجدوں میں الشیں گر رہی ہیں ،زخمی تڑپ رہے ہیں ،دونوں جگہ حفاظت کے لیے پہرے بٹھا دئیے گئے
ہیں ،بہت سے لوگ خوف کی وجہ سے نماز کے لیے مسجدوں میں نہیں ٓاتے اور یہ سلسلہ کسی طرح ختم ہونے میںنہیں ٓارہا ،کیا یہ
صورتحال اور اس کا تسلسل ٓاپ کو اور ٓاپ کی جماعت کو پسند ہے ؟اگر پسند نہین ہے تو بتائیے کہ اس کے سدباب کے لیے
جماعت نے کیا اقدامات کئے ہیں ٓ،اپ کے اشتعال انگیز نعروں اور ان کے مکروہ و مذموم نتائج نے حضرات صحابہ کرام کو بدنام
کیا ،بد باطن معاند کہتا ہے کہ جب سپاہ صحابہ دہشت گرد ہے اور اس کے کرتوت یہ ہیں تو سمجھ wلو کہ صحابہ کیسے ہوں گے
،یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ اس جماعت wنے اپنے مقاصد ہورے کرنے کے لئے ڈاکے ڈالے ،چوریاں کیں اور اغواء کے مرتکب
ہوئے یقینا یہ حرکتیں ٓاپ کے علم میں ہیں اور ٓاپ بھی ان کو غلط سمجھتے ہیں (ماہنامہ الشریعہ جون ،2014ص )152
اور ایک ہے کہ ان کو دیکھ کر نعرے لگانے شروع کر دے کافر،کافر wشیعہ کافر۔کافر،کافرشیعہ کافراس کو شریعت پسند نہیں کرتی
کہ اس سے فتنے کا دروازہ کھلتا ہے ،اسی طر ح عیسائی بھی کافر ہیں یہودی بھی کافرہیں مگر ان کو دیکھ کر کوئی شروع
ہوجائے کافر،کافر عیسائی کافر۔کافر ،کافر یہودی کافر یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔اس کو شریعت پسند نہیں کرتی کیونکہ یہ انداز
چڑانے کا ہے (ملفوظات صفدر ص )199
لیکن یہ جو بہت سے جوشیلے لوگوں نے یہ نعرہ اختیار کر لیا ہے کہ کا فر کافر شیعہ کافر شرعا اس کی اجازت نہیں ہے،یہ بات
رسول ہللا ﷺ کی سنت کے خالف ہے ،اس کا نتیجہ سوائے فتنہ،لڑائ جھگڑا اور نفرتیں پھیالنے اور ان کے اندر
ضد اور عداوت پھیالنے کے کچھ نہین ہوگا (درس صحیح بخاری ج 1ص 304۔)305
پس منظر
اس اختالف کا پس منظر یوں ہے کہ امام اہلسنت ،سرمایہ دین وملت کے نبیرہ حضرت عالمہ مفتی محمد اختررضا خان دامت
برکاتہم جب پاکستان تشریف الئے ،تو انہوں نے دیکھا کہ یہاں کہ لوگ دعا میں ،امام و خطیب اور مقرر کی تقریر میں ٓایت درود
شریف پڑھتے وقت ،دوران قرات حق نبی ﷺ کا نعرہ لگاتے ہیں ،تو اس پر عالمہ صاحب wنے نکیر فرمائی ،مگر
ڈاکٹر ابو الخیر زببیر نے اس کی تاید میں ایک رسالہ حق نبی ترتیب دیا اور اس پہ علماء کی تصدیقات لیں،جوابا عالمہ اختر رضا
خان صاحب نے جناب زبیر صاحب کے دالئل کا تجزیہ سنو اور چپ رہو نامی رسالہ میں پیش کردیا ۔
اس مسئلہ میں اصل اختالف عند القرۃ حق نبی کہنے پہ ہے ،مطلقا حق نبی کہنے پہ طرفین میں کوئی اختالف نہیں ۔مفتی اختر
رضاخان لکھتے ہیں:۔
ہم جو نعرہ لگاتے ہیں حق نبی ﷺ کا ،تو اس سے قطع نظر کہ یہ نعرہ فی نفسہ جائز ہے ۔کوئی بری بات نہیں بلکہ
یہ ہمارے دل کی ٓاواز ہے ،جو ہمارے منہ سے ،ہمارے لبوں سے ،ہماری زبان سے نکلتی ہے !یہ دل کی ٓاواز ہے (سنو چپ رہو
ص )25
اختالف کی نوعیت
مسئلہ ہذا میں اختالف کی گنجائش موجود ہے ،عالمہ عبد الحکیم شرف قادری ساحب لکھتے ہیں:۔
مسئلہ حق نبی ﷺ کے بارے میں طرفین کے دالئل نظر سے گزرے ،اگرچہ حضرت عالمہ مفتی محمد اختر رضا
صاحب مد ظلہ ،کا موقف زیادہ علمی اور احتیاط پہ مبنی ہے ۔مگر دوسری طرف بھی گنجائش اور عقیدت کا اظہار ہے ۔اور علماء
اہلسنت کی ایک جماعت بالخصوص موالنا مفتی احمد یا ر خان گجراتی اور موالنا مفتی خلیل صاحب برکاتی نے بھی یہی موقف
اختیار کیا ہے۔لہذا اس معاملہ میں شدت کی ضرورت نہیں(سنو چپ رہو ص )141
لہذا ،یہ مسئلہ فروعی ہے ،اور ایسے مسائل میں اختالف ہرگز مذموم نہیں۔
فروعی اختالف دین میں توسع کی عالمت :اور اسکی وجہ یہ ہے کہ اس امت کو جس خصوصی امتیاز سے نوازاگیا وہ ہے قیاس
واجتہاد کی اجازت ،قرٓان وحدیث میں بالعموم مسائل واحکام سے صرف اصولی طورپر تعرض کیاگیا ہے ،جزئیات وفروع سے
بحث نہیں کی گئی ہے ،بلکہ ان کی تطبیق وتشریح امت کے اجتہاد واستنباط پرچھوڑ دی گئی ہے ،جب کہ بہت سے ایسے مسائل ہیں
جن سے عہد نبوی صلی ہللا علیہ وسلم میں بھی لوگ دوچارہوتے تھے ،مگران کے جواب میں بھی عموما اصولی اور کلی انداز بیان
اختیار کیاگیا ،اورجزئیات کوامت کے اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا گیا ،دراصل جزئیات کی تعیین سے مسئلہ محدود ہوجاتاہے،
اورلوگوں کے لیے صرف ایک راہ عمل متعین ہوجاتی ہے ،جب کہ ہللا نے اس دین کاعمومی مزاج توسع کارکھاہے w،تنگی خدا
کوپسند نہیں ہے ،اسی لیے نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم دو باتوں میںسے ایسی بات کاانتخاب فرماتے تھے ،جس میں عام لوگوں کے
لیے سہولت ویسر کا پہلو غالب ہوتا اور اپنے نمائندوں کوبھی ہمیشہ اس کی تلقین فرما تے کہ’’ :تم کواس لیے بھیجاگیا ہے کہ تم
لوگوں کی مشکالت ٓاسان کرو نہ اس لیے کہ ان کے لیے تنگیا ں پیداکرو‘‘۔
اور صحابہ کرام پیغمبر اسالم کے مزاج سے پوری طرح واقف تھے ،یہی وجہ تھی کہ وہحضور صلی ہللا علیہ وسلم سے خواہ
مخواہ کے فروعی سواالت نہیں کرتے تھے ،بلکہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم اپنی طبیعت سے جتنی باتیں ارشاد فرماتے انہی پر وہ
قناعت کرلیتے تھے ،انہیں علم کی طلب ضرور تھی وہ پیاس بھی رکھتے تھے ،اسی لیے ان کو خواہش ہوتی تھی کہ کوئی دیہاتی
مجلس نبوی صلی ہللا علیہ وسلم میں حاضر ہواور سواالت کرے تو نئی معلومات حاصل ہوں،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن خود سواالت کرنے کی ان
میں ہمت نہیں تھی ،وہ اس معاملے wمیں کافی محتاط تھے ،اورسوائے ضروری باتوں کے وہ سواالت سے گریز کرتے تھے ،قرٓان
نے ا ن کا ایک عمومی مزاج بنایاتھا۔
تم ان چیزوں کے بارے میں سواالت نہ کرو کہ اگرکھول کربیان کردی جائیں تو تم کوبری معلوم ہوں ۔
قرٓان نے بنی اسرائیل کی وہ منفی تصویر بھی سامنے رکھی تھی ،جس میں انہوں نے ایک واقعٔہ قتل کی تحقیق کے لیے
موسی سے دریافت کرنے کی کوشش کی تھی اورجس کی ان کوسخت ٰ ’’بقرہ‘‘سے متعلق بہت سی ناخوشگوار جزئیات حضرت
سزاملی تھی ۔غرض اجتہاد اس امت کاخاصہ ہے اور اس کاالزمی نتیجہ فروعی اختالف ہے اور روایات وواقعات بتاتے ہیں کہ
اجتہادی اختالف کی کسی صورت پرکوئی نکیر نہیں کی گئی ،بلکہ اس میں ہمیشہ توسع کوراہ دی گئی ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ
اجتہادی مسائل میں حق کو دونوں جانب دائررکھا گیا ہے ،اور کسی جانب تغلیط کی نسبت پسندیدہ نہیں ہے(حضرت شاہ ولی ہللا
اپنے فقہی نظریات و خدمات کے ٓائینے میں 95۔)96
وسرا اختالف وہ ہے جو اجتہاد ی مسائل میں دالئل شرعیہ کی روشنی میں ہوتا ہے اور ایسا اختالف صدر ِ اول صحابہ کے زمانے
سے برابر چالٓارہاہے ،بل کہ اس قسم کا اختالف خود دوررسالت میں بھی حضرات صحابہ کے درمیان ہوا ہے اور ہللا کے نبی صلی
ہللا علیہ وسلم نے اختالف کی دو نو ں جہتوں کی تصویب فرمائی ہے(اس کی تفصیل ٓاگے ٓائے گی)کیوں کہ خود دالئل میں دونو ں
جہتوں اور شقوں کی گنجائش ہوتی ہے ایک بات منصوص اور فیصل نہیں ہو تی ،ایسے اختالف کو اجتہاد ی و فروعی اختالف کہا
جاتا ہے یہ اختالف نہ مذموم ہے نہ ممنوع ہے ؛بل کہ یہ فطری و طبعی ہو نے کے ساتھ باعث رحمت بھی ہے جیساکہ ٓا گے معلوم
ہو گا۔
ٰ
(تقوی اور ’’ َوالَتَفَ َّرقُوْ ا‘‘اور پھوٹ نہ ڈالو‘‘کے ذریعہ فرقہ بندی سے روک دیا گیا ،اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مذکو رہ دو اصولوں
ہللا کی رسی کو مضبوط پکڑنا) سے انحراف کروگے تو تمہارے درمیان پھوٹ پڑ جائے گی اور تم الگ الگ فرقوں میں بٹ جائو
گے ،چنانچہ فرقہ بندی کی تاریخ دیکھ لیجئے ،یہی چیز نمایاں ہو کر سامنے ٓائیگی قرٓان و حدیث کے فہم اور اسکی تو ضیح و تعبیر
میں کچھ باہم اختالف یہ فرقہ بندی کا سبب نہیں ہے ،یہ اختالف تو صحابہ و تابعین کے عہد میں بھی تھا لیکن مسلمان فرقوں اور
گرہوں میں تقسیم نہیں ہو ئے۔‘‘مذکورہ تشریح سے اتنی بات واضح ہو گئی کہ ہر اختالف مذموم نہیں ہے(جواہر شریعت مجموعہ
رسائل جلد نمبر 1ص 226۔)227
فروعی اختالفات صحابہ کے درمیان بھی پائے جاتے تھے لیکن صحابہ نے ایسے مسائل کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا ،اختالف کے
تیمیہ فروعی مسائل میں اختالف کے موقع پر صحابہ کے طرز عمل پر ؒ باوجود ان کے دل ٓاپس میں ملے رہتے تھے ،عالمہ ابن
روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں ’’صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین جب کسی مسئلہ میں اختالف کرتے تھے تو ہللا کے حکم ’’ففروا
الی ہّٰللا ‘‘ (سورہ زاریات ):۳۱کی اطاعت کرتے تھے اور وہ مشورہ اور خیرخواہی کے طور پر کسی مسئلہ میں بحث ومباحثہ
فرماتے تھے ،اور کبھی ان میں کسی علمی یا عملی مسئلہ میں اختالف ہوتا تھا تو ٓاپس میں محبت بھائی چارگی اور احترام باقی رہتا
تھا ،احکام میں تو بے شمار اختالفات واقع ہوئے ہیں اگر ایسا ہوتا کہ جب کبھی دو مسلمان میں اختالف ہو وہ دونوں ایک دوسرے
سے قطع تعلق کرلیتے تو پھر مسلمانوں کے درمیان بھائی چارگی باقی نہ رہتی۔صحابہ کے درمیان بے شمار اختالفات ہوئے لیکن
ؓ
مسعود وابوبکر اور عبدہللا بن
ؓ عمر
انہوں نے طریقہ نبوی کی روشنی میں اختالفات wکو رنجش اور ناچاقی کا مسئلہ نہ بنایا ،حضرت ؓ
مسعود اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں کے درمیان کرلیتے تھے اور گھٹنوں پر رکھنے ؓ کے درمیان کئیفروعی مسائل میں اختالف تھا ،ابن
عمر گھٹنوں پر رکھتے تھے ،اور درمیان میں رکھنے سے منع فرماتے تھے ،اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے روکتے تھے ،اور ؓ
عمر فرماتے کہ یہ ایک طالق ہے۔ مسعود فرماتے تھے کہ یہ قسم ہے اور ؓ ؓ سے کہے’’انت علی حرام‘‘ تم مجھ پر حرام ہو تو ابن
قیم کے مطابق ان کے درمیان سوسائل میں اختالف تھا ( )۱لیکن اتنے سارے مسائل میں اختالف کے باوجود ٓاپسی احترام
عالمہ ابن ؒ
ؓ
مسعودٓائے ٓاپ کو ٓاتے دیکھا تو حضرت عمر تشریف فرماتھے اتنے میں ابن
اور تعلق خاطر کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ حضرت ؓ
عمر نے فرمایا علم وفقہ سے بھری ہوئی شخصیت اور ایک روایت کے مطابق علم سے ایسے بھرے ہوئے کہ میں اہ ِل قادسیہ پرؓ
انہیں ترجیح دیتاہوں ۔
رسول اکرمﷺ کی موجودگی میں صحابہ کا فروعی مسائل میں اختالف اس لیے نہیں تھا کہ سارے معامالت ومسائل
صحابہ ٓاپ سے رجوع کرکے حل کرلیا کرتے تھے ،صحابہ فروعی مسائل میں اجتہاد کرتے تو اگر ان کا اجتہاد صحیح ہوتا تو ٓاپ
اس کی تصویب فرماتے ورنہ صحیح حکم بیان فرماتے ،اس سے اختالف کی بنیاد ختم ہوجاتی (موجودہ حاالت میں سیرت رسول کا
پیغام ص 241۔)242
اہل اسالم کا یہ عقیدہے کہ انبیاء علیہم السالم کے بعد سب سے افضل البشر حضرت ابو بکر صدیق ؓ ہیںاور ٓاپ کو افضلیت
کلیہ،مطلقہ کاملہ حاصل ہے،اور یہ عقیدہ قرٓا ن و حدیث ،اجماع صحابہ اور اقوال اسالف سے ثابت ہے ۔
اس مسئلہ کی اہمیت واضح کرتے ہوئے حضرت عالمہ عبد العزیز پر ہاروی رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں:۔’’یعنی یہ مسئلہ ایسا ہے
تعالی عنہ سب سے افضلٰ کہ اس پر شیعہ مذہب کے ابطال کا دار ومدار ہے ،ان کا پہال اصول ہی یہ ے کہ حضرت علی رضی ہللا
ہیں ،جو افضل ہو خالفت کا حقدار وہی ہوتا ہے ،اور جو حقدار کو خالفت نہ دے وہ غاصب اور ظالم ہوتا ہے ،اور جو ظالم ہو ہو
عادل نہیں ہوتا اور جو عادل نہ ہو اس کا روایت کردہ دین بھی معتبر نہیںہوتا۔شیعہ مذہب کے پاس عوام کو گمراہ کرنے کی یہ ترتیب
ہے۔اس عقیدے کا فساد wمعتزلہ،جبریہ اور ان جیسے مذاہب سے بڑھ کر شدیدہے ،لہذا علماء پر واجب ہے کہ افضلیت کے مسئلے کو
خصوصی اہمیت دیں۔۔۔۔اس مسئلے کو خاص اہمیت دینے کیلئے تمہارے پاس یہی دلیل کافی ہے کہ علماء شیخین کی افضلیت اور
ختنین کی محبت کو اہل سنت عالمت قرار دیا ہے (نبراس صفحہ )۳۰۲
دالئل کے لئے کتب اہلسنت کی طرف مراجعت wکی جائے ،اس جگہ ہم صرف اسالف کے اقوال پہ اکتفاء کرتے ہیں۔
٭عالمہ ابوشکور سالمی رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں’’:اہل سنت وجماعت نے کہا ہے کہ انبیاء ورسل اور فرشتوں کے بعد تمام
تعالی عنہپھر
ٰ تعالی عنہ ہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رضی ہللا
ٰ مخلوق سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی ہللا
تعالی عنہ ہیں۔‘‘(تمھید ابو شکور
ٰ تعالی عنہ پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رضی ہللا
ٰ حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی ہللا
سالمی ،ص)۴۶۳
تعالی
ٰ غزالی فرماتے ہیں’’:نبی کریم روف رحیم ﷺے بعد امام برحق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی ہللا ؒ ٭امام
تعالی عنہ ہپھر حضرت سیدنا
ٰ تعالی عنہپھر حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی ہللا ٰ عنہ ہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروقرضی ہللا
تعالی عنہ ہیں۔‘‘ (احیاء العلوم،کتاب قواعد العقائد ،الرکن الرابع ،االصل السابع ،ج ،۱ص)۸۵۱
ٰ علی المرتضی رضی ہللا
سلطان بحرو بَرﷺ کے بعد امام برحق حضرت سیدنا ِ ٭امام شعرانی ؒ فرماتے ہیں’’ :جان لو کہ دو جہاں کے تاجور،
تعالی عنہم
ٰ ابوبکر صدیق ،پھر حضرت سیدنا عمر ،پھر حضرت سیدنا عثمان غنی ،پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رضوان ہللا
تعالی
ٰ اجمعین ہیں۔اور اس پر احادیث سے بے شمار دالئل موجود ہیں جو مجموعی طورپر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی ہللا
عنہ کے مقدم ہونے پر داللت کرتے ہیں۔(الیواقیت والجواھر ،المبحث الثالث واالربعون ،الجزء الثانی ،ص)۹۲۳
٭حضرت امام قاضی عیاض مالکی ؒ حدیث پاک نقل فرماتے ہیں کہ حضور نبی?کریم ﷺنے ارشاد فرمایا’’:ہللا تعالی
نے میرے صحابہ کو تمام جہانوں پر ما سوائے انبیاء ومرسلین کے منتخب فرمایاہے اور ان میں سے چار کو میرے لیے چن لیا ہے
وہ چار ابوبکر ،عمر ،عثمان ،علی ہیں اور ان کو ہللا تعالینے میرا بہترین ساتھی بنایا اور میرے تمام صحابہ میں خیر ہے۔‘‘
(الشفابتعریف حقوق المصطفی ،ج ،۲ص)۴۵
٭محبوب سبحانی شہباز المکانی حضرت شیخ عبد القادر جیالنی حسنی حسینی غوث االعظم ؒ فرماتے ہیں’’ :عشرہ مبشرہ میں سے
تعالی عنہ پھر حضرت ٰ افضل ترین چاروں خلفاء راشدین ہیں اور ان میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی ہللا
تعالی عنہ اور پھر حضرت سیدنا علی المرتضی ٰ تعالی عنہ پھر حضرت سیدنا عثمان غنی رضی ہللا
ٰ سیدنا عمر فاروق َررضی ہللا
تعالی عنہ زور ان چاروں کے لیے نبی کریم ﷺ سے خالفت ثابت ہے۔‘‘(الغنیۃ،العقائد والفرق ٰ شیر خدا رضی ہللا
االسالمیۃ ،ج ،۱ص)،۷۵۱
٭عالمہ قسطالنی ؒفرماتے ہیں’’ :رسول اللہﷺ کے بعد ساری مخلوق میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر
تعالی عنہ ہیں۔‘‘(ارشاد الساری ،کتاب فضائل
ٰ تعالی عنہ ہیں اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی ہللا
ٰ صدیق رضی ہللا
اصحاب النبی،باب مناقب wعثمان بن عفان ،تحت الحدیث ،۸۹۶۳ :ج ،۸ص)۵۱۲
بلگرامی فرماتے ہیں’’ :اس پر بھی اہل سنت کا اجماع ہے کہ نبیوں کے بعد دوسری تمام مخلوق سے بہتر ؒ ٭میرسید عبد الواحد
تعالی عنہ ا ُن کے بعد سیدنا
ٰ ُ
تعالی عنہ ہیں ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رضی ہللا
ٰ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی ہللا
تعالی عنہ ہیں۔‘‘(سبع سنابل ،ص)۷ ٰ تعالی عنہ اور اُن کے بعد سیدنا علی المرتضی رضی ہللا
ٰ عثمان ذوالنورین رضی ہللا
٭شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں’’ :خلفاء اَربعہ کی افضلیت اُن کی ترتیب خالفت کے مطابق ہے یعنی تمام صحابہ سے
تعالی علیہم اجمعین
ٰ افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر فاروق پھر سیدناعثمان غنی پھرسیدنا علی المرتضی رضوان ہللا
ہیں۔‘‘(تکمیل االیمان ،ص)۴۰۱
صوفیاء کرام نے ترک دنیا اور حرص و منز لت کے چھوڑنے کو فقر پر اور ترک ریاست کی تمنا کو اس لیے پسند کیا کہ دین میں
تعالی عنہ تمام مسلمانوں کے اما م ہیں اور طریقت میں ٓاپ تمام صوفیا کے امام خاص ۔‘‘(کشف
ٰ حضرت صدیق اکبر رضی ہللا
المحجوب ص۷اا،مترجم)
ٓادمیوں میں سب سے بزرگ،بعد وجود مبارک حضرت رسول خدا ﷺ کے،حضرت wابو بکر صدیق بن قحافہ ہیں ’’
تعالی عنہ۔بعد ان کے حضرت
ٰ رضی ہللا
٭عالمہ عبدالعزیزپرہاروی ؒ فرماتے ہیں’’ :صوفیاء کرام کا بھی اس بات پر اجماع ہے کہ امت میں سیدنا ابوبکر صدیق پھرسیدنا
عمر فاروق پھر سیدنا عثمان غنی پھر سیدنا علی المرتضی سب سے افضل ہیں۔‘‘ (النبراس شرح شرح العقائد ،ص)۲۹۴
٭اعلی حضرت ،عظیم البرکت ،مجدددین وملت ،پروانہ شمع رسالت ،حضرت عالمہ موالنا شاہ امام احمد رضا خان ؒ ارشاد فرماتے
ہیں’’:حضرات خلفاء اربعہ رضوان ہللا اجمعین تمام مخلوق ٰال ہی سے افضل ہیں ،پھر ان کی باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل
تعالی عنہم ۔‘‘(فتاوی رضویہ ،ج ،۸۲صٰ صدیق اکبر َر ضی ہللا تعالی پھر فاروق اعظم پھر عثمان غنی پھر مولی علی رضی ہللا
)۸۷۴
٭صدراالفاضل حضرت موالنا مفتی نعیم الدین مراد ٓابادی رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں’’ :اہل سنت وجماعت کا اجماع ہے کہ انبیاء
کرام ؑکے بعد تمام عالم سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ہیں اُن کے بعد حضرت عمر اُن کے بعد حضرت عثمان اور اُن کے
تعالی عنہم۔‘‘(سوانح کربال ،ص)۸۳
ٰ بعد حضرت علی رضی ہللا
٭صدر الشریعہ حضرت موالنا مفتی امجد علی اعظمی ؒ فرماتے ہیں’’ :بعد انبیاء ومرسلین ،تمام مخلوقات ٰالہی انس وجن وملک
(فرشتوں)سے افضل صدیق اکبر ہیں ،پھرعمر فاروق اعظم ،پھر عثمان غنی ،پھر مولی علی ؒ۔‘‘(بہار شریعت ،ج ،۱ص)۱۴۲
اعلی حضرت ،عظیم البرکت ،مجدد دین وملت،پروانہ?شمع رسالت ،حضرت عالمہ موالنا شاہ امام احمد رضا خان ؒارشاد فرماتے
ٰ
ہیں(’’:حضرت سیدنا صدیق وعمرکی افضلیت پر)جب اجماع قطعی ہوا تو اس کے مفاد یعنی تفضیل شیخین کی قطعیت میں کیا کالم
رہا؟ ہمارا اور ہمارے مشائخ طریقت وشریعت کا یہی مذہب ہے۔‘‘(مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین ،ص)۱۸
دیگر اکابر نے بھی اس عقیدہ کو قطعی قرار دیا ہے (قراۃ العینین ص ،26الطریقۃ المحمدیہ ص )8
٭اعلی حضرت ،عظیم البرکت ،مجدد دین وملت ،پروانہ شمع رسالت ،حضرت عالمہ موالنا شاہ امام احمد رضا ؒ
خانارشاد فرماتے ٰ
ہیں’’:میں کہتا ہوں اور تحقیق یہ ہے کہ تمام اجلہ صحابہ کرام مراتب والیت میں اور خلق سے فنا اور حق میں بقا ء کے مرتبہ میں
اپنے ماسوا تمام اکابر اولیاء عظام سے وہ جو بھی ہوں افضل ہیں اور ان کی شان ارفع واعلی ہے ا س سے کہ وہ اپنے اعمال سے
غیر ہللا کا قصد کریں ،لیکن مدارج متفاوت ہیں اور مراتب ترتیب کے ساتھ ہیں اور کوئی شے کسی شے سے کم ہے اور کوئی فضل
تعالی عنہ کا مقام وہاں ہے جہاں نہایتیں ختم اور غایتیں منقطع ہوگئیں ،اس لیے کہ
ٰ کسی فضل کے اوپر ہے اور صدیق رضی ہللا
صدیق اکبر امام القوم سیدی محی الدین ابن عربی ؒ کی تصریح کے مطابق پیشوائوںکے پیشوا اور تمام کے لگام تھامنے والے اور ان
محد رسول ہللا
کا مقام صدیقیت سے بلند اور تشریع نبوت سے کمتر ہے اور ان کے درمیان اور ان کے موالئے اکرم ؐ
ﷺ درمیان کوئی نہیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ ،ج ،۸۲ص)۳۸۶
،فتاوی مسعودی ص ،93سراج العوارف ص ،73تزک ٰ یہی عقیدہ مندرجہ ذیل کتب میں بھی موجود ہے (افضلیت خلیفہ اول ص 7
مرتضوی ص ،6تصفیہ مابین سنی شیعہ ص ٓ،22افتاب ہدایت ص ،42تذکرہ مشائخ نقشبندیہ ص ،92تمہید ابو شکور ص ،366شان
ٰ
،فتاوی محدث صحابہ ص ،96قصیدہ بدء االمالی ص ،32کبار صحابہ ص ،65الحاشیہ الرمضان ٓافندی ص،313عمدۃ القاری ج 5
،فتاوی شارح بخاری ج 2ص ،16مراۃٰ ٰ
،فتاوی نوریہ ج 1ص 320 اعظم ص ،241تفسیر نور العرفان ص ،983توضیح العقائد ص 85
العاشقین ص ،32تحفۃ اثنا ء عشریہ ص ،14فضائل صحابہ و اہلبیت ص 142ازشاہ عبد العزیز)
تعالی عنہ
ٰ اجماع امت بر تفضیل ابو بکر صدیق رضی ہللا
مالں علی قاری رحمۃ ہللا علیہ حضرت عبد ہللا ابن عمر سے نقل کرتے ہیں:۔اجتمع المھاجرون واالنصار علی ان خیر ھذہ االمۃ بعد
نبیھا ابو بکر و عمر و عثمان یعنی تمام مہاجرین اور انصار کا اس پر اجماع ہے کہ اس امت میں سب سے بہتر ابو بکر ہیں اور عمر
اور عثمان (مرقاۃ ج 11ص )334
امام شرف الدین نووی ؒ فرماتے ہیں’’:اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سب صحابہ کرام علیہم الرضوان سے افضل حضرت
سیدنا ابوبکر صدیق پھر حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم ہیں۔‘‘(شرح صحیح مسلم ،کتاب فضائل الصحابہ ،ج،۸الجزء ،۵۱:ص)۸۴۱
عالمہ ابن حجر عسقالنی ؒ فرماتے ہیں ’’ :اہل سنت وجماعت کے درمیان اس بات پر اجماع ہے کہ خلفاء راشدین میں فضیلت اسی
ترتیب سے ہے جس ترتیب سے خالفت ہے(یعنی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق سب سے افضل ہیں کہ وہ سب سے پہلے خلیفہ ہیں
اس کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق ،اس کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی ،اس کے بعد حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا
ض َی ہللاُ تَ َع ٰالی َع ْنہُم)۔‘‘(فتح الباری،کتاب wفضائل اصحاب النبی ،باب لوکنت متخذا خلیال،تحت الحدیث ،۸۷۶۳:ج ،۷ص)۹۲
َر ِ
امام شافعی رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں:۔ابو بکر اور عمر کی افضلیت پر صحابہ کا اجماع ہے(االعتقاد ص )369
مالں علی قاری رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں:۔فھو افضل االولیاء من االولین والخرین وقد حکی االجماع یعنی صدیق اکبر اولین و
ٓاخرین تمام اولیاء سےافضل ہیں ،اور اس پر امت کا اجماع ہے (شرح فقہ اکبر ص )61
میر عبد الواحد بلگرامی فرماتے ہیں:۔اور اس پر اجماع ہے کہ انبیاء کے بعد تمام انسانوں میں افضل ابو بکر صدیق ،ان کے بعد عمر
فاروق ان کے بعد عثمان ذوالنورین ،اور ان کے بعد حضرت علی المرتضی ہیں(سبع سنابل ص )7
تعالی کو
ٰ مالں علی قاری لکھتے ہیں :۔پھر یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ تمام روافض اور اکثر معتزلہ حضرت علی رضی ہللا
تعالی پر فضیلت دینے کے قائل ہین (شرح فقہ اکبر ص ،138مترجم،مکتبہ رحمانیہ ،الہور)
ٰ حضرت ابو بکر صدیق رضی ہللا
ٰ
دعوی کرتے ہیں ۔ان کو مرتضی کی پیر وی کا
ٰ شیخ جیالنی فرماتے ہیں :۔ان کو شیعہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت علی
سارے اصحاب پر فضیلت دیتے ہیں (غنیۃ الظالبین ص )176
ومن ذلک تفضیلھم علیا علی جمیع الصحابۃ (غنیہ الطالبین ص )180
ٰ
فتاوی حدیثیہ میں بیان کیا ہے کہ غنیۃ میں بیشمار الحاقات ہوئے اسلئے اسکے حوالہ جات کو استعمال نہیں امام ابن حجر مکی نے
کرنا چاہیے (زبدۃ التحقیق ص )174
صاحب نبراس لکھتے ہیں:۔یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اس پر شیعہ مذہب کے ابطال کا دارو مدار ہے ،ان کا پہال اصول ہی یہ ہے کہ
ھضرت علی سب سے افضل ہینں ،جو افضل وہی خالفت کا حقدار ہوتا ہے ،اور جو حقدار کو خالفت نہ دے وہ غاصب اور ظالم ہے
،اور جو ظالم ہو وہ عادل نہیں ہوتا اور جو عادل نہ ہو اس کا روایت کردہ دین بھی معتبر نہیںہوتا۔شیعہ مذہب کے پاس عوام کو گمراہ
کرنے کی یہ ترتیب ہے۔اس عقیدے کا فساد wمعتزلہ ،جبریہ اور ان جیسے مذاہب سے بڑھ کر شدید ہے ،لہذا علماء پر واجب ہے کہ
افضلیت کے مسئلے کو خصوصی اہمیت دین۔۔۔اس مسئلے کو خاص اہمیت دینے کیلئے تمہارے پاس یہی دلیل کافی ہے کہ علماء نے
شیخن کی افضلیت اور ختنین کی محبت کو اہل سنت کی عالمت قرار دیا ہے ( نبراس ص )302
سیدنا علی رضی ہللا عنہ کو حضرت ابو بکر سے افضل ثابت کرنے والے رافضی ہیں(الیواقیت الجواہر ج 2ص )437
جو شخس حضرت امیر المومنین علی کرم ہللا وجہہ کو خلیفہ نہ مانے وہ خارجی ہے اور جو شخص کہ امہیں حضرت امیر المومنین
ابو بکر اور عمر رضی ہللا عنہما پر فضیلت دے وہ رافضیوں میں سے ہے (سبع سنابل ص )62
مزید فرماتے ہیں:۔حاصل یہ کہ تفضیل صدیق قرٓان و صدیق و اجماع امت سے ثابت ،جو اس سے انکار کرے قریب ہے کہ اس کے
ایمان خطرہ ہو۔انتہائی عجب اس سے جو اجماع صحابہ و تابعین و کافہ اہل سنت کا خالف کرے اور خود کو سنی جانے (مطلع
القمرین ص ،129کتب خانہ امام احمد رضا )
عالمہ غالم رسول سعیدی لکھتے ہیں:۔جو شخص حضرت علی کو حضرت ابو بکر و عمر سے افضل کہے وہ رافضی ہے (تذکرۃ
المحدثین ص )282
قاضی ثناء ہللا پانی پتی نے بھی تفضیلی حضرات کو شیعہ میں شمار کیا ہے (السیف المسلول ص )۲۲
ابن حجر عسقالنی رحمۃ ہللا علیہ نے بھی اس عقیدہ کے حامل شخص پہ غالی شیعہ اور رافضی ہونے کا اطالق کیا (تہذیب التہذیب
ج 1ص ،94ہدی الساری ج 2ص )240
ٰ
الفتاوی ج 1ص )318شامی اور امام سیوطی نے بھی اس عقیدہ کے قائل کو رافضی اور اس عقیدہ کو خبیث قرار دیا(الحاوی
(فتاوی شامی ج 1ص ٓ)360ائمہ اہل سنت نے حضرت ابوبکر کی تفضیل کو اہل سنت کی ٰ عالمگیری میں اسے بدعتی شمار کیا گیا
پہچان اور عالمت قرار دیا (مرقاۃ ج 2ص ،77تکمیل االیمان ص ،87شرح عقائد نسفی ص ،150نبراس ص )302الحاصل یہ
ٰ
،فتاوی رضویہ ج 4ص حضرات بدعتی ہیں،اہل سنت سے خارج ہیں اور ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی (کنز الدقائق ص 82
ٰ
،فتاوی نوریہ ج 1ص )320 53
الغرض یہ اہل اسالم کا متفقہ اور اہم عقیدہ ہے ،اس کا منکر اہل سنت سے خارج اور بدعتی ہے ،اس لئے اسے اہل سنت کے خالف
ہرگز پیش نہیں کیا جا سکتا ۔
فقیر کے نزدیک حضرت ابو بکر صدیق رضی ہللا تعالی عنہ کی افضلیت بحثیت خلیفہ راشد کے برحق ہے اور اس حثیت سےٓاپ
افضل االمت ہے(زبدۃ التحقیق ص )199
سیدنا صدیق اکبر کو تمام خلفائے راشدین سے پہلے جو خالفت عطاء ہوئی وہ سلطنت اسالمیہ کے نظم و نسق سنبھالنے اور شرعی
حدود کے تحفظ و نفاذ سے عبارت ہے ۔۔۔۔جبکہ اس کے بالعکس جو خالفت wحضرت علی کرم ہللا وجہہ الکریم کو عطا فرمائی گئی
وہ سلطنت روحانیہ کا نظم و نسق چالنے اور حدود طریقت کے نفاذ و تحفظ سے عبارت ہے (مشکل کشا ص )205
نیز:۔
حضرت علی کرم ہللا وجہہ الکریم براہ راست رسول ہللا ﷺ کے نہ صرف یہ کہ روحانی خلیفہ ہیں بلکہ خلیفہ و
جانشین اول ہیں (مشکل کشا ص )207
ان حضرات نے افضیلت صدیق اکبررضی ہللا عنہ کو خالفت wتک محدود کہا ہے ،جبکہ امام اہلسنت لکھتے ہیں:۔
اس حسین عبارت میں مصنف رحمۃ ہللا علیہ نے ائمہ سابقین کی پیروی کی اور اس میں اس زمانے کے تفضیلیوں کا رد ہے جو
جھوٹ اور بہتان کے بل پر سنی ہونے کے مدعی ہیں اس لئے کہ انہوں نے فضیلت میں ترتیب کے مسئلے کو (ظاہر سے ) اس
طرف پھیرا کہ خالفت میں اولیت (خالفت میں زیادہ حقدار ہونے کا)کا معنی دنیوی خالفت کا زیادہ حقدار ہونا،اور یہ اس کے لئے
ہے جو شہروں کے انتظام اور لشکر سازی ،اور اس کے عالوہ دورسے امور جن کے انتظام و انصرام کی سلطنت میں حاجت ہوتی
تعالی عنہم کے اجماع کے خالف ہے (المعتمد
ٰ ہےان کا زیادہ جاننے واال ہو ۔اور یہ باطل خبیث قول ہے ۔صحابہ اور تابعین رضی ہللا
المستند ص )286
پاکستان میں دیوبند،بریلوی اور اہل حدیث تین بڑے مسالک ہیںاور اس قوت ان تینوں کو اپنی نظری تطہیر کرنے کی ضرورت ہے۔’’
دیوبند مسلک سے خارجی فتنے کا ظہور ہوا،جس کی بھر پور تردید ہوئی،علمی تعاقب ہوا اور خارجی فتنہ نے عبرت ناک پسپائی
اختیار کی۔جب ان کا اعتماد علماء دیوبند پہ نہ رہا تو المحالہ انہیں دیوبندی کہلوانے کا حق بھی نہ رہا۔اسی طرح بریلوی مسلک سے
’’تفضیلی پیدا ہورہے ہیں،یعنی حضرت علی ؓکو حضرات شیخین پر فضیلت دینے واال گروہ ظاہر ہو چکا ہے۔بظاہر اس تفضیلی
‘‘گروہ کے بانی ڈاکٹر طاہر القادری ہیں،ھو ابتدا موالنا کہلواتے تھے،پھر عالمہ کہلوانے لگے۔ٓاج ڈاکٹر اور شیخ السال م کہلوا کر
اپنے مظطرب من کو تسکین دینے کی کوشش فرمارہے ہیں۔ڈاکٹر صاحب اہل تشیع کی مجلسوں میں بے تکلف خطاب کرتے
رہے،ایمان ابو طالب پہ شیعوں کی ہمنوائی کی،حضرات شیخین رضی ہللا عنہم یا دیگر صحابہ کرام پر تو لب کشائی نہیں،تاہم وسیع
تر تعلقات کے پیش نظر تفضیلیت کا شکار ہوگئے۔اس کے بعد تو ایک ٓاندھی چل پڑی ہے ۔۔۔ بریلوی مسلک میں جانبیین سے کئی
ایک کتب شائع ہوچکی ہیں اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔عبد القادر گیالنی اور ظہور احمد فیضی اسی قبیل کے لوگ ہیں۔‘‘
(دفاع حضرت حسین ص ۲۰۸۔)۲۰۹
عبد الجبار صاحب کے بیان سے یہ واضح ہوگیا کہ عبد القادر شاہ تفضیلی ہے،اور تفضیلی اہل سنت سے خارج ہیں،اب ہم دیوبندی
ادنی سی جھلک دکھالئے دیتے ہیںخالد محمود لکھتے ہیں:۔
خانہ جنگی کی بھی ٰ
پس اس کابیان بھی الزم ہے۔جو شخص حضرت صدیق اکبر کی علی االطالق افضیلیت کا قائل نہیں ،اوہ اہل بدعت میں شمار ہوتا ہے
اور اہلسنت سے خارج ہے (عبقات ج 1ص )84
یہ ٹھیک ہے کہ فتنوں سے پاک ماحول میں تفضیل علی کا قول قابل اعتراض نہ ہوتا اور اسے محض رائے کا درجے پر رکھا جاتا
(سیدنا معاویہ ص )33
خالد صاحب تو اس کے منکر کو بدعتی کہتے ہیں،جبکہ ان صاحب کے نزدیک یہ قابل اعتراض نہیں،اب اس الجھن کی سلجھن ہم
دیوبندی حضرات پہ چھوڑتےہیں۔
اس مسئلہ پہ کافی سے زائد مواد موجود ہے ،مگر ہم اس جگہ مختصر گفتگو پہ ہی اکتفاء کرتے ہیں۔اس نعرہ کے متعلق قاضی
مظہر حسین صاحب ضیاء الرحمٰ ن فاروقی سے نقل کرتے ہیں:۔
بات تو ہی ہے کہ ہر صحابی نبی ﷺ کا یار ہو سکتا ہے ،خالفت کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی یار
کیلئے خالفت wشرط ہے ،یہ خوامخواہ کی زبردستی ہے اور لفظ یار کا استعمال سوئے ادب ہونے کے ساتھ ساتھ اصحاب رسول کے
شایان شان بھی نہیں ہے ۔اگر خالفت کی وجہ سے یا نبی کہا جساسکتا ہے تو پھر چار یار کی اصطالح بالکل غلط ہے (عقیدہ خالفت
راشدہ اور عقیدہ امامت ص )70
مولوی ضیاء الرحمٰ ن صاحب تو حق چار یار کی اصطالح ہی کے خالف ہیں ۔اور ہم خالفت راشدہ اور حق چار یار کا ڈنکا بجا رہے
ہیں(عقیدہ خالفت راشدہ اور عقیدہ امامت ص )61
حضور غزالی زماں اور عالمہ ابو دائود صادق کے اختالفات کی حقیقت
دونوں شخصیات اہل سنت کی مقتدر شخصیات ہیں،ان کے درمیان اختالف ہوا ضرور ہوا تھا مگر بعد میں صلح بھی ہوگئی تھی
،جس کا مرتب کو بھی اقرار ہے،ہاں موصوف نے یہ اعتراض ضرور کیا کہ :۔
بریلوی علماء اپنے مسلک کے کتنے خیر خواہ ہیں کہ ایک دوسرے کو کافر کہہ کر غیر مشروط صلح نہ صرف کر لیتے ہیں بلکہ
دوسروں کو بھی اس قسم کی غیر مشروط صلح جس میں کوئی فاتح ہو نہ مفتوح نہ کوئی کافر ہو نہ کوئی مسلمان (دست و گریباں ج
2ص)338
اس پہ عرض ہے کہ موصوف خود ایک بھی ایسا حوالہ پیش کرنے سے قاصر رہے کہ جن میں طرفین میں سے کسی نے ایک
دوسرے کی تکفیر کی ہو،جہاں تک یہ بات کہ حضرت جبرائیل علیہ السالم حضرت صدیق اکبر سے افضل ہیں تو یہی عقیدہ قبلہ
ٰ
فتاوی جات سے ان کی تکفیر الزم نہیں ٓاتی ،اور نہ ہی کسی نے ان کی تکفیر کی غزالی زماں کا ہے ،اس لئے جناب کے نقل کردہ
ہے ۔نفس مسئلہ پہ تو اختالف تھا بھی نہیں،کیونکہ معترض صرف نقل مارنے پہ اکتفاء کرتے ہیں اس لئے مسئلہ کی اصل حقیقت
جاننے سے اکثر محروم رہتے ہیں۔باقی ہم ماقبل میں عالمہ ابن عربی ؒ کی تکفیر مال علی قاری کے ہاتھوں نقل کر چکے ہیں،اب
معترض کی ذمہ داری ہے کہ ان کا رجوع دیکھائے ،اگر نہ دیکھا پائے تو پھر قلم کو جنبش دیتے ہوئے اہل اسالم باہم دست و
گریباں کے عنوان سے کتاب لکھے ،اگر نہ لکھ سکے تو ہم انہیں توبہ کرنے کا مشورہ ہی دے سکتے جو ان کی حرکات سے سود
مند نظر نہیں ٓاتا۔ٓاخر میں موصوف نے جو اتمام حجت نامی کتاب کے حوالہ جات پیش کئے تو یہ سب بھی معاصرانہ چپقلش کی قبیل
سے ہے اور حجت نیست۔
ٰ
دعوی کی بنیاد رکھنا ہی درست نہیں(اظہار العیب ص )110 وہ غیر معتبر کتاب ہے لہذا اس پر کسی
مولوی محمد طاہر صاحب نے کچھ باتیں تو حضرت عثمانی ؒ سے حاصل کیں اور بہت سے باتیں اپنی طرف سے مال کر
مکالمۃ الصدرین کے نام سے طبع کرا دیا(اظہار العیب ص )100
بلکہ مرتب صاحب(مولوی محمد طاہر مسلم لیگی )نے اپنی روانی طبع سے اس کو گھڑ کر اس لیے میری جانب منسوب کرنا
ضروری سمجھا (اظہار العیب ص )111
تو ہم اس بات کو کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے کہ موالنا احمد رضا بجنوری ؒ نے کچھ باتیں امام العصر ؒ کی طرف
خوامخواہ منسوب کی ہیں جو کہ ان کی نہیں ہیں(دفاع ختم نبوت اور صاحب تحذیر الناس ص )101
ان حوالہ جات سے واضح ہوا کہ دیوبندی حضرات جب ایک دوسرے پہ الزامات wگھڑ سکتے ہیں،تو ان کے معاند ان سے کیسے
محفوظ رہ سکتے ہیں۔
ٰ
دعوی ہرگز پائیہ ثبوت کو نہیں پہنچتا ۔ اور تذکرہ امیر ملت کے واقعات بھی الزامات کو صحیح ثابت نہیں کرتے ،ان سے مرتب کا
جناب نے اس جگہ مختلف کتب سئےچشتی رسول ہللا وغیرہ کی عبارات نقل کیں جن کے متعلق کچھ وضاحت تو ہم اسی کتاب میں
کر چکے ہیں مزید عرض ہے کہ خود دیوبندی حضرات کو تسلیم ہے کہ ان حضرات واقعتا اپنا کلمہ نہیں پڑھایا تھا،جناب اوصاف
رومی لکھتے ہیں:۔
اس توجیہ و حقیقت کے معلوم ہو جانے کے بعد یہ تو ظاہر ہوگیا کہ ان حضرات نے چونکہ واقعتا اپنا کلمہ نہیں پڑھوایا تھا اس
لئے ان کو کافر کہنے تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا (دیوبند سے بریلی ص )۱۰۱
سب کلمات اور ہفت اقطاب کے اشعار غلبہ حال کے کلمات ہیں ،جن کے متعلق منیر احمد منور لکھتا ہے :۔
ٰ
فتوی دین میں فقہا کی بات معتبر ہوتی ہے نہ کہ صوفیا ء کی ۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہم اس صوفی بزرگ کا حترام کر کے اس پر
نہیں لگائیںکہ شاید اس پر حال ٓایا ہو اہو جو ایک خاص کیفیت ہوتی ہے جس میں ہوش و حواس نہیں رہتے ۔(نور سنت کنز االیمان
نمبر ص )140
ٰ
فتوی نہیں لگتا۔دوئم ان واقعات کے الحاقی ہونے کے متعلق بھی علماء کی تصریحات موجود ہیں۔ہم لہذا غلبہ حال کی وجہ سے ان پہ
نے اپنا مضمون کلمہ تھانوی کی تائید کا جائزہ شامل کتاب کر دیا ہے ،قارئین مضمون ہذا کی طرف مراجعت کریں۔
یہ بات یاد رہے کہ اگر کسی جگہ پہ علمائے اہل سنت نے دیوبندی خواب کو نقل کر کے اس کو گستاخی کہا ہے تو اس سے یہ مت
ٰ
فتوی لگایا ہے ۔بلکہ انہوں نے دیوبندی گستاخانہ عقائد کی روشنی میں ان خوابوں کو من سمجھا جائے کہ انہوں نے خواب پر
فتوی لگایا ہے جیسے فیض احمد اویسی صاحب نے اپنی کتاب کے شروع میں اس کی تصریح بھی کر دی ٰ گھڑت سمجھ کر ان پر
:ہے فرماتے ہیں
بعض بیو قوف اس کا جواب دیتے ہیں کہ یہ خواب میں ہوا۔میں کہتا ہوں بیداری پر بھی یہی کلمہ کہہ رہا تھا اور یہی ہمارے نزدیک
قابل گرفت ہے۔ ( بلی کے خواب میں چھیچھڑے ص )۲۶
:یہاں وضاحت کر دی خواب پہ کوئی اعتراض نہیں ہوتا ٓاگے لکھتے ہیں
اس من گھڑت خواب کو مدرسہ کی سند بنایا‘‘(بلی کے خواب میں چھچھڑے wص ’’)۳۰
یہاں وضاحت ہو گئی کہ انہوں نے گستاخی من گھڑت خواب کو کہا ہے ۔اور یاد رہے ہم نے یہ گفتگو دیوبندی اصول کے تحت کی
ہے کیونکہ ان کے نزدیک من گھڑت گستاخانہ خواب پر گستاخی کا فتوی لگتا ہے ۔(رضا خانی مذہب ج ۱ص ۵۳۔)۵۴
:جبکہ رسول ﷺ کو خواب میں دیکھنے کے بارے میں خود دیوبندی حضرات لکھتے ہیں
جو شخص ٓاپ ﷺ کو اچھی شکل و صورت میں دیکھے تو یہ اس کے ایمان کے کامل اور عقیدہ کے درست ہونے’’
کی عالمت ہے ،اور جو شخص اس کے خالف دیکھے ،تو یہ اس کے ایمان کی کمزوری اور فساد عقیدہ کی عالمت ہوتی ہے۔‘‘
(معارف ترمذی ج ۲ص )۱۵۰
ٰ
الفتاوی(/1 اور حضور ﷺ کو نا پسندیدہ حالت میں دیکھنا دیکھنے والے کی ناپسندیدہ حالت پہ داللت کرتاہے (نجم
)334
ہم جانتے ہیں کہ خواب ایک بے اختیاری چیز ہے ایسے گندے خوابیا تو خواب دیکھنے والے کی باطنی کیفیت کی عکاسی کرتے
ہیں یا شیطانی وسوسے ہوتے ہیں ۔اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے ۔مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ مفتی صاحب نے اس نا معقول اور
حد درجہ گندے اور کافرانہ خواب کو جس میں سروردو عالم کی حد سے بڑھ کر توہین و تذلیل ہے اپنے مقلدوں کو اپنی طرف مزید
متوجہ کرنے کے لئے اس کی تعبیر یوں کر دی(زہریلے تیر ص )13
پھر جو لوگ بیداری میں گستاخانہ عبارات لکھ چکے ہوں اور توبہ کی توفیق سے محروم رہے ہوں ،تو ان کو ان گستاخانہ خوابوں
کی کوئی درست تعبیر کیوں کر فائدہ دے سکتی ہے ،پھر اگر دیوبندی حضرات کے بارے میں یہ کہا جائے :۔
ساری صورت جناب کی سی تھی’’ ‘‘ رات شیطاں کو خواب میں دیکھا
اب کیا دیوبندی حضرات اس جگہ کسی تعبیر کو ماننے کے لئے تیار ہیں؟۔الحمد ہللا موصوف کی دوسری جلد کا جواب بھی پائیہ
تکمیل کو پہنچا ہم انتہائی مختصر مگر جامع انداز میں موصوف کے پیش کردہ شبہات کا ازالہ کر دیا ہے ،اگر زندگی رہی تو تیسری
جلد میں عبارات اکابر کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ پہ کئے گئے موصوف کے اعتراضات کا جواب ہدئیہ قارئین کیا جائے گا۔ہللا رب
العزت سے دعا ہے کہ اس حقیر کی کاوش کو قبول فرمائے ۔اور جو کوئی اس سے نفع اٹھائے ہمارے لئے دعا کرے۔