You are on page 1of 32

‫ہر وہ حدیث جس میں صحیح حدیث یا حسن حدیث کی صفات موجود نہ ہوں تو وہ حدیث ضعیف ہوگی۔۔۔ ‪:‬ضعیف حدیث‬

‫اور اس کی اقسام یہ ہیں مثالً (ضعیف) موضوع‪ ،‬مقلوب‪ ،‬شاذ‪ ،‬معلل‪ ،‬مضطرب‪ ،‬مرسل‪ ،‬منقطع اور معضل وغیرہ [ملخصا ً‬
‫]من مقدمۃ ابن الصالح‪ :‬ص‪ ۲۰‬طبع ملتان‬

‫‪‬‬ ‫صحیح حدیث وہ ہوتی ہے جو باسند ہو‪ ،‬عادل ضابط عن عادل ضابط آخر تک متصل ہو (یعنی ‪:‬صحیح حدیث‬
‫سند کی ابتداء سے آخر تک عادل ضابط راوی دوسرے عادل و ضابط راوی سے روایت کریں)‪ ،‬شاذ اور معلول‬
‫نہ ہو۔ اس حدیث کی صحت کے حکم میں اہل الحدیث (محدثین) کے درمیان کوئی اختالف نہ ہو۔ [مقدمہ ابن‬
‫]الصالح مع شرح العراقی‪ :‬ص‪۲۰‬‬
‫متصل کا مطلب یہ ہے کہ منقطع‪ ،‬معلق‪ ،‬معضل اور مرسل نہ ہو۔⇐‬

‫شاذ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے سے اوثق یا زیادہ ثقات کے خالف نہ ہو۔ ⇐‬

‫معلول نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں علت قادحہ نہ ہو۔ ⇐‬

‫اس منقطع روایت کو کہتے ہیں جو کسی تابعی نے بغیر کسی سند کے (یعنی صحابی کے واسطے کے بغیر) ‪:‬مرسل‬
‫رسول ہللا ﷺ سے بیان کر رکھی ہو۔ مرسل روایت ضعیف ہوتی ہے۔‬

‫کسی روایت کی سند میں کسی بھی جگہ سے ایک راوی چھوٹ گیا ہو۔ ‪:‬منقطع‬

‫اگر ایک ثقہ راوی اپنے سے زیادہ ثقہ راوی یا دوسرے ثقہ راویوں کی مخالفت کرے تو یہ روایت شاذ ہوتی ہے۔ ‪:‬شاذ‬

‫اگر ضعیف راوی ثقہ راوی یا راویوں کی مخالفت کرے تو یہ روایت منکر ہوتی ہے۔ ‪:‬منکر‬

‫اگر ایک راوی اپنے استاد سے وہ روایت ”قال“ یا ”عن“ وغیرہ الفاظ سے بیان کرے جو اس نے استاد سے نہیں ‪:‬تدلیس‬
‫سنی بلکہ کسی دوسرے سے سنی ہے تو یہ تدلیس ہے۔‬

‫تدلیس کرنے والے راوی کو مدلس کہتے ہیں۔ مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے بشرطیکہ راوی کا ‪ُ :‬مدَ ِّلس‬
‫مدلس ہونا ثابت ہوجائے۔‬

‫صحیحن (صحیح بخاری اور صحیح مسلم) میں مدلس کی عن والی روایات بھی صحیح ہوتی ہیں۔ اس روایت کے ‪:‬تنبیہ‬
‫صحیح ہونے کی کئی وجوہات ہیں‪ ،‬جن مین سے چند اہم درج ذیل ہیں۔‬
‫وہ روایات سماع پر محمول ہیں۔ ‪۱:‬‬
‫وہ روایت متابعات اور شواہد پر محمول ہیں۔ ‪۲:‬‬
‫‪۳:‬‬
‫صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے صحیح ہونے پر اجماع ہے۔ ‪۴:‬‬
‫پھر بھی اگر کسی کو اعتراض ہو تو وہ صحیحین کی کسی ایک روایت پر تدلیس کا اعتراض کریں ‪ ،‬ہم دندان شکن جواب‬
‫دیں گے اور روایت مذکورہ کا صحیح ہونا ثابت کریں گے۔ ان شاء ہللا‬

‫‪:‬حافظ کمزور ہونے اور دماغ خراب ہونے کو کہتے ہیں ‪:‬اختالط‬

‫جو راوی اختالط کا شکار ہوجائے تو اسے مختلط راوی کہتے ہیں۔ مختلط راوی کی اختالط کے بعد والی روایت ‪:‬مختلط‬
‫ضعیف ہوتی ہیں۔‬

‫جس راوی کا ثقہ (قاب ِّل اعتماد) اور صدوق (سچا) ہونا معلوم نہ ہو وہ مجہول کہالتا ہے۔ مجہول کی دو قسمیں ‪:‬مجہول‬
‫ہیں۔‬
‫مجہول العین ‪۱:‬‬
‫مجہول الحال یعنی مستور ‪۲:‬‬
‫مجہول العین ہو یا جہول الحال دونوں کی بیان کردہ روایت ضعیف ہوتی ہے۔‬
‫٭ جس راوی کی کم از کم دو محدثین توثیق کردیں وہ مجہول نہیں رہتا بلکہ ثقہ و صدوق قرار دیا جاتا ہے۔‬

‫کسی راوی کو ثقہ و صدوق قرار دینا توثیق کہالتا ہے۔ ‪:‬توثیق‬

‫وہ جھوٹی ‘ من گھڑت اور خود ساختہ بات جسےجسے کسی کذاب راوی نے رسول ہللا ﷺکی طرف منسوب کیا ‪:‬موضوع‬
‫گیا ہو۔‬

‫ایسا راوی جو عمدا ً کسی بات کو رسول ہللا ﷺ کی طرف منسوب کردے۔ ‪:‬کذاب‬

‫ایسا راوی جس کا حدیث کے بارے میں جھوٹ ظاہر نہ ہو ہاں البتہ عام باتوں میں اس کا جھوٹ ثابت اور ‪:‬متہم بالکذب‬
‫معلوم ہو۔‬

‫بے ثبو ت روایت۔ ‪:‬باطل‬

‫جس کی سند معلوم نہ ہو۔ ‪:‬بے اصل‬

‫‪‬‬ ‫‪Home‬‬
‫‪‬‬ ‫صوتیات‬
‫‪‬‬ ‫قرآن وتفسیر‬
‫‪‬‬ ‫حدیث‬
‫‪‬‬ ‫گھر بیٹھے آن الئن علم دین حاصل کریں‬
‫‪‬‬ ‫‪ONLINE DONATIONS‬‬
‫‪search...‬‬

‫حدیثحدیث اور اسکی اقسامحدیث اور اسکی اقسام‪Home‬‬

‫‪Tuesday, 12 June 2018‬‬


‫‪User Rating:‬‬ ‫‪/0‬‬
‫‪Rate‬‬
‫‪Poor‬‬ ‫‪Best‬‬
‫‪W R IT T E N B Y A D M IN IS T R A T O R | 2 9 D E C E MB E R 2 01 1‬‬
‫ح د یث ا ور ا س ک ی ا ق سا م ‪ -‬ح د یث ‪P OS T E D IN‬‬

‫حدیث اور اسکی اقسام‬


‫حدیث کی تعریف‬
‫ؒ‬
‫تابعین کے قول و فعل و تقریر کو حدیث‬ ‫کرام‪ ،‬و‬
‫ؓ‬ ‫حضرت رسول ہللا ﷺ ‪ ،‬صحابہ‬
‫کہتے ہیں‬
‫حدیث کی تقسیم‬
‫حدیث دو قسم پر ھے‬
‫خبرمتواتر‬
‫خبر واحد‬
‫)‪( ۱‬‬
‫َبر ُمت َ َواتِّر‬
‫خ ِّ‬
‫ھو ما نقلہ جماعۃ کثیرون تحیل العادۃ تواطوھم وتوافقھم علی الکذب عن جماعۃ‬
‫کذالک‬
‫کثیر ہوں کہ‬
‫وہ حدیث ہے کہ جسکے روایت کرنے والے ہر زمانہ میں اس قدر ٖ‬
‫ان سب کے جھوٹ پر اتفاق کرلینے کو عق ِّل سلیم ُمحال سمجھے‬

‫‪:‬خبر متواتر کی اقسام‬


‫خبر متواتر کی دو اقسام ھیں‬
‫تواتر لفظی‬
‫تواتر معنوی‬

‫‪:‬المتواتر اللفظی‬
‫ما تواتر لفظہ و معناہ عن النبی ﷺ۔‬ ‫ھو‬
‫جو نبی ﷺ سے لفظا ومعنا متواتر ھو‬
‫‪:‬مثال‬
‫ا مقعدہ من النار۔ (البخاری‬ ‫کذب علی متعمدا فلیتبو‬ ‫)من‬
‫اس حدیث کو ستر سے زائد صحابہ نے نقل کیا ھے‬
‫‪:‬المتواتر المعنوی‬
‫ما تواتر معناہ دون لفظہ۔‬
‫وہ حدیث جو صرف معنا متواتر ہو (لفظا متواتر نہ ہو‬
‫‪:‬مثال‬
‫وہ احادیث جن میں نبی ﷺ سے دعا کے دوران ھاتھ اٹھانا منقول ھے۔‬
‫)‪(۲‬‬
‫احد‬
‫َبر َو ِّ‬
‫خ ِّ‬
‫ما نقلہ واحد عن واحد‬ ‫ھو‬
‫‪:‬وقیل‬
‫کل خبر یرویہ الواحد اواالثنان فصاعدا والعبرۃ للعدد فیہ بعد ان یکون‬ ‫ھو‬
‫دون المشہور والمتواتر‬
‫وہ حدیث کہ جسکے راوی اس قدر کثیر نہ ہوں(جیسے کہ خبر متواتر میں کثیر‬
‫تھے) یعنی ایک دو حضرات نے روایت کی ھو‬
‫‪:‬مثال‬
‫اذا استیقظ احدکم من منامہ فال یغمسن یدہ فی االناء حتی یغسلھا ثلثا فانہ ال یدری‬
‫این باتت یدہ (صحیحین‬
‫‪:‬خبرواحد کا حکم‬
‫یہ علم نظری کا فائدہ دیتی ھے یعنی اس علم کا جو نظر واستدالل پر موقوف ھو۔‬
‫و عندھم دالئل کثیرۃ عند البعض خبر واحد قطعیت کا فائدہ دیتی ھے‬
‫‪:‬خبر واحد کی اقسام‬
‫خبر واحد کی کئی اقسام ہیں۔ ذیل میں خبر واحد کی پانچ تقسیمات دی جا رھی‬
‫ھیں‬
‫واحد کی پانچ تقسیمیں‬ ‫خبر‬
‫)‪(۱‬‬
‫باعتبار منتہی‬
‫تین اقسام‬
‫۔‪1‬‬
‫مرفوع‬
‫۔‪2‬‬
‫موقوف‬
‫۔‪3‬‬
‫مقطوع‬
‫)‪(۲‬‬
‫رواۃ باعتبار عد ِّد‬
‫تین اقسام‬
‫۔‪1‬‬
‫مشہور ؍ مستفیض‬
‫۔‪2‬‬
‫عزیز‬
‫۔‪3‬‬
‫غریب‬
‫)‪(۳‬‬
‫راویوں کی صفات کے اعتبار سے‬
‫)سولہ اقسام(‬
‫‪1‬‬
‫صحیح لذاتہ‬
‫‪2‬‬
‫حسن لذاتہ‬
‫‪3‬‬
‫ضعیف‬
‫‪4‬‬
‫صحیح لغیرہ‬
‫‪5‬‬
‫حسن لغیرہ‬
‫‪6‬‬
‫موضوع‬
‫‪7‬‬
‫متروک‬
‫‪8‬‬
‫شاذ‬
‫‪9‬‬
‫محفوظ‬
‫‪10‬‬
‫ُمنکَر‬
‫‪11‬‬
‫معروف‬
‫‪12‬‬
‫معلَّل‬
‫‪13‬‬
‫مضطرب‬
‫‪14‬‬
‫مقلوب‬
‫‪15‬‬
‫مص َّحف ؍ ُم َح َّرف‬
‫‪16‬‬
‫درج‬
‫ُم َ‬
‫)‪(۴‬‬
‫باعتبار سقوط راوی وعدم سقوط راوی‬
‫)سات اقسام(‬
‫‪1‬‬
‫ُمت َّ ِّ‬
‫صل‬
‫‪2‬‬
‫ُمسنَد‬
‫‪3‬‬
‫منقطع‬
‫‪4‬‬
‫ُم َعلق‬
‫‪5‬‬
‫ضل‬
‫ُمع َ‬
‫‪6‬‬
‫مرسل‬
‫‪7‬‬
‫مدلس‬
‫)‪(۵‬‬
‫صیغ‬
‫باعتبار ِّ‬
‫دو اقسام‬
‫‪1‬‬
‫عن َعن‬
‫ُمعَنعَن ؍ َ‬
‫‪2‬‬
‫سل‬
‫سل َ‬
‫ُم َ‬
‫تفصیل‬
‫خبر واحد کی اقسام باعتبار منتہی‬
‫)‪(۱‬‬
‫‪َ :‬مرفُوع‬
‫انتھی الی النبی ﷺ‬ ‫ما‬
‫وہ حدیث ھے جس میں نبیﷺ کے قول یا فعل یا تقریر کا ذکر ھو(منسوب کرنے‬
‫واال راوی خواہ صحابی ہو یا کم تر‪ ،‬سند خواہ متصل ہو یا منقطع‬
‫مرفوع کی اقسام‬ ‫خبر‬
‫‪ :‬اسکی چار اقسام ھیں‬
‫مرفوع قولی‬
‫مرفوع فعلی‬
‫مرفوع تقریری‬
‫مرفوع وصفی‬
‫)‪(۲‬‬
‫‪َ :‬موقُوف‬
‫ھو المروی عن الصحابۃ قواللھم او فعال اوتقریرا متصال کان او منقطعا‬
‫صحابی کے قول یا فعل یا تقریر کا ذکر ھو‬
‫ؓ‬ ‫وہ حدیث ھے جس میں‬
‫‪:‬امثلہ‬
‫‪:‬موقوف قولی‬
‫علی نے فرمایا‬
‫‪:‬راوی کا یہ قول کہ حضرت ؓ‬
‫ہللا‬ ‫الناس بمایعرفون اتریدون ان یکذب‬ ‫حدثوا‬
‫(بخاری‪ ،‬کتاب العلم‬ ‫)ورسولہ‬
‫لوگوں کو وہ احادیث بیان کرو جووہ جانتے ھیں کیا تم چاہتے ہو کہ لوگ ہللا اور‬
‫اسکے رسول کو جھٹالئیں‬
‫‪:‬موقوف فعلی‬
‫بخاری کا قول‬
‫ؒ‬ ‫‪:‬امام‬
‫ا َ َّم ابن عباس وھومتیمم (بخاری‬ ‫و‬
‫عباس نے امامت کروائی اس حال میں کہ وہ متیمم تھے‬
‫ؓ‬ ‫حضرت ابن‬
‫‪:‬موقوف تقریری‬
‫حابی کے سامنے یہ عمل کیا‬
‫کوئی تابعی ؒ یہ روایت کرے کہ میں نے فالں ص ؓ‬
‫اور انہوں نے انکار نہیں کیا۔‬
‫‪:‬خبر موقوف کی حیثیت‬
‫یہ صحیح‪ ،‬حسن‪ ،‬ضعیف ہو سکتی ہے (و فیہ تفصیل‪ ،‬انظر علوم الحدیث البن‬
‫صالح‬
‫)‪(۳‬‬
‫‪َ :‬مق ُ‬
‫طوع‬
‫التابعی قواللہ او فعال لہ(اوتقریرا لہ) ‪ ،‬وھو غیرالمنقطع‬
‫ؒ‬ ‫الموقوف علی‬ ‫ھو‬
‫تابعی کے قول یا فعل یا تقریر کا ذکر ھو‬
‫ؒ‬ ‫وہ حدیث ھے جس میں‬
‫‪:‬امثلہ‬
‫‪:‬مقطوع قولی‬
‫بصری بدعتی کی اقتداء میں نماز کے متعلق فرماتے ہیں‬
‫ؒ‬ ‫حضرت حسن‬
‫صل وعلیہ بدعتہ‬
‫َ‬
‫)نماز پڑھواور اسکی بدعت کا وبال اسی پر ہے (بخاری‬
‫‪:‬مقطوع فعلی‬
‫‪:‬ابراھیم بن محمد بن منتشر کا قول‬
‫ؒ‬
‫مسروق اپنے اور اپنے اھل وعیال کے درمیان پردہ ڈال دیتے اور نماز‬ ‫حضرت‬
‫میں مشغول ہوجاتے‪ ،‬خود خلوت اختیار کرلیتے اور انکو دنیا میں چھوڑ دیتے‬
‫(حلیۃاالولیا‪ ،‬طبقات االصفیاء‬
‫‪:‬مقطوع کی حیثیت‬
‫احکام شرعیہ میں مقطوع سے استدالل جائز نہیں اگرچہ قائل تک اسکی سند‬
‫صحیح ثابت ہوجائے(وفیہ تفصیل ایضا) لیکن اگر کوئی ایسا قرینہ ہو جو اسکے‬
‫مرفوع ہونے پر داللت کرتا ہو تو اسکا حکم ’’مرفوع مرسل‘‘ کی طرح ہوگا‬
‫رواۃ خبر واحد کی اقسام باعتبار عد ِّد‬
‫)‪(۱‬‬
‫‪َ :‬مش ُہور؍ ُمست َ ِّفیض‬
‫ما رواہ عدد محصور فوق االثنین و یقال لہ المستفیض ایضا‬ ‫ھو‬
‫وہ حدیث جس کے راوی ھر زمانہ میں تین سے کم نہ ھوں(لیکن راویوں کی‬
‫تعداد اتنی زیادہ نہ ہو کہ حد تواتر میں داخل ہوجائے‬
‫‪:‬مثال‬
‫ہللا ال یقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلماء‬ ‫ان‬
‫فسئلوافافتوابغیر علم‬ ‫حتی اذالم یبق عالمااتخذالناس روسا ُجھاال‬
‫فضلواواضلوا۔(بخاری‪،‬مسلم‬
‫خبر مشہور کی حیثیت‬
‫عندالمحدثین خبر مشہور کو قبول کیا جائے گا ‪،‬عند الفقہااسکے ذریعہ قرآن مجید‬
‫کے مطلق کو مقید کیا جا سکتا ہے اور اسکا منکر بدعتی ہے‬
‫)‪(۲‬‬
‫‪َ :‬ع ِّزیز‬
‫مارواہ اثنان ولو فی طبقۃ‪ ،‬سمی بذلک اِّ َّما لندرتہ او لکونہ ِّعزاَی قوی‬ ‫وھو‬
‫لمجیئہ من طریق آخر‬
‫وہ حدیث جس کے راوی ھر زمانہ میں دو سے کم نہ ھوں‬
‫‪:‬مثال‬
‫ال یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین (متفق علیہ‬
‫)‪(۳‬‬
‫‪:‬غ َِّریب‬
‫وھو ما رواہ راو واحد ویسمی غریبا النفراد راویہ عن غیرہ‬
‫وہ حدیث جس کا راوی کہیں نہ کہیں ایک ھو(خواہ تمام طبقات سند میں یا چند‬
‫طبقات میں۔ اگر ایک طبقہ میں بھی ایسا ھوگا تو روایت غر یب کہالئے گی ‪،‬‬
‫ت غربت پر اثر انداز نہ ہوگی‬‫دیگر طبقات میں راویوں کی زیادتی اسکی صف ِّ‬
‫کیونکہ عنوان اقل پر دیا جاتا ہے‬
‫خبر غریب کی اقسام‬
‫ب مطلق‬
‫‪:‬فرد مطلق ؍ غری ِّ‬
‫وہ روایت کہ جسکی سند کے اس حصہ میں تفرد پایا جاتا ہو جو سند کا معیار‬
‫اور اسکی اصل ہو‬
‫‪:‬مثال‬
‫االعمال بالنیات‬ ‫انما‬
‫عمر بن‬
‫اس روایت کی اصل میں غرابت موجود ہے کیونکہ یہ حدیث حضر ت ؓ‬
‫الخطاب سے منقول ھے اب یہ روایت کی اصل ہیں صرف یہ تنہا اس روایت کو‬
‫نقل کرتے ہیں‪ ،‬اگرچہ ان سے بہت سے راویوں نے نقل کی ہے۔‬
‫‪:‬غریب النسبی ؍فرد النسبی‬
‫ایسی روایت کہ جسکی سند کے درمیان تفردپایاجاتاہو‬
‫‪:‬مثال‬
‫النبی ﷺ دخل مکۃ وعلی راسہ المغفر‬ ‫ان‬
‫اس روایت میں مالک نے زھری سے تفرد کیا ہے‬
‫راویوں کی صفات کے اعتبار سے ‪ ،‬خبر واحد کی اقسام‬
‫)‪(۱‬‬
‫‪:‬صحیح ِّلذَاتِّہ‬
‫مااتصل سندہ بالعدل الضابط عن مثلہ الی منتھا وال یکون شاذا وال معلال‬ ‫ھو‬
‫بعلۃ قادحۃ‬
‫وہ حدیث کہ‬
‫جس کے کل راوی عادل کامل الضبط ہوں‪،‬‬
‫اسکی سند متصل ہو‪،‬‬
‫معلَّل و شاذ ہونے سے محفوظ ہو‬
‫خبر واحد کے صحیح ھونے کی پانچ شرائط ہیں‬
‫عدالت راوی )‪(۱‬‬
‫ضبط راوی )‪(۲‬‬
‫اتصال سند )‪(۳‬‬
‫عدم علت )‪(۴‬‬
‫عدم شذوذ )‪(۵‬‬
‫‪:‬مثال‬
‫رسول ہللا ﷺ قرافی المغرب بالطور (بخاری‬ ‫سمعت‬
‫میں نے نبیﷺ کو سنا آپ نے مغرب کی نماز میں سورۃ طور پڑھی‬
‫یہ روایت خبر صحیح ہے کیونکہ اس میں تمام شرائط پائی جارھی ہیں‬
‫‪:‬حکم‬
‫آئمہ حدیث کے اجماع کے مطابق اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ اصولیین اور فقہا‬
‫کی رائے کے مطابق خبر صحیح مصادر شرعیہ میں سے ھے ‪ ،‬اسکے ترک‬
‫کی گنجائش نہیں‬
‫)‪(۲‬‬
‫سن ِّلذَاتہ‬
‫‪َ :‬ح َ‬
‫خبر متصل قَ َّل ضبط راویہ العدل‬
‫وہ حدیث جسکے راوی میں صرف ضبط ناقص ہو‪ ،‬باقی تمام شر ائط صحیح‬
‫لذاتہ کی اس میں موجود ہوں‬
‫‪:‬مثال‬
‫رسول ہللا ﷺ ان ابواب الجنۃ تحت ظالل السیوف (ترمذی‬ ‫قال‬
‫‪:‬حکم‬
‫حسن لذاتہ قوت میں کم ہونے کے باوجود استدالل کے اعتبار سے صحیح کے‬
‫سے استدالل بھی کیا اور اس پر عمل بھی برابر ہے اسی لئے تمام فقہا نے اس‬
‫کیا۔‬
‫)‪(۳‬‬
‫‪:‬ضعیف‬
‫قال االمام ذھبی فی الکتاب الموقظۃ ‪ :‬الضعیف ما نقص عن درجۃ الحسن قلیال و‬
‫اخر مراتب الحسن ھی اول مراتب الضعیف‬
‫ما لم یجمع صفۃ الحسن او الصحیح‬ ‫البعض‪ :‬ھو‬ ‫قال‬
‫وقیل‪ :‬کل حدیث لم تجتمع فیہ صفات القبول‬
‫سن کی شرائط نہ پائی جائیں‬
‫ث صحیح و َح َ‬
‫وہ حدیث جسکے راوی میں حدی ِّ‬
‫‪:‬مثال‬
‫اتی حائضا او امراۃ فی دبرھا او کاہنا فقد کفر بما انزل علی محمد (ترمذی‬ ‫من‬
‫امام ترمذی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ مذکورہ سند کے سوا‬
‫عسقالنی فرماتے ہیں کہ‬
‫ؒ‬ ‫یہ حدیث کسی سند سے منقول نہیں۔ حافظ ابن حجر‬
‫اسکی سند میں ضعف ہے۔‬
‫ضعیف‬ ‫ب‬
‫‪:‬مرات ِّ‬
‫ضعیف‬
‫ضعیف تر‬
‫واھی‬
‫منکر‬
‫یہ ضعیف کا بدترین درجہ ہے( موضوع‬
‫‪:‬حکم‬
‫نقص‬
‫عند المحدثین احادیث ِّموضوعہ کے سوا تمام ضعیف احادیث کو ضعف و ِّ‬
‫سند کی صراحت کے بغیر روایت کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ‬
‫روایت عقائد دینیہ سے متعلق نہ ہو‬
‫ت شرعیہ بیان کرنے والی نہ ہو‬
‫احکاما ِّ‬
‫واضح رہے کہ اس قسم کی روایت کرتے ھوئے سند کو حذف کرکے یہ نہ کہنا‬
‫یوں کہنا چاہیئے کہ نبی ﷺ سے منسوب یہ قول چاہیئے کہ نبی ﷺ نے فرمایا بلکہ‬
‫ھم تک پہنچا ہے تاکہ ایسی حدیث کی نسبت بالیقین نبی کریم ﷺ کی طرف نہ ہو‬
‫کہ جسکا ضعف معلوم ہو‬
‫موضوع روایت کو نقل کرنا ناجائز ہے اال یہ کہ اس بات کی صراحت کی جائے‬
‫کہ یہ حدیث موضوع ہے۔‬
‫ضعیف حدیث پر عمل کی شرائط‬
‫)‪(۱‬‬
‫اس عمل کو سنت نہ سمجھا جائے۔(عمل کرتے وقت حدیث کے ثبوت کا اعتقاد نہ‬
‫ہو بلکہ احتیاط کے طور پر عمل کرلے‬
‫)‪(۲‬‬
‫‪،‬حکم‬
‫ِّ‬ ‫ت ضعیفہ سے کوئی حکم شرعی ثابت نہ کیا جائے (اعتقادِّفضیلت‬ ‫روای ِّ‬
‫حکم شرعی نہیں‬
‫ِّ‬ ‫شرعی ہے البتہ خیا ِّل فضیلت‪،‬‬
‫)‪(۳‬‬
‫روایت میں ضعف شدید نہ ہو‬
‫)‪(۴‬‬
‫ت شرع کے خالف نہ ھو‬
‫اصول و کلیا ِّ‬
‫ضعیف حدیث پر عمل کرنا‬
‫عام طور پر یہ مشہور ہے کہ فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز‬
‫ہے۔یاد رھے کہ یہ حکم عام نہیں بلکہ اسکے لئے بہت سی قیود وشرائط ہیں‬
‫میں ہے کہ ضعیف حدیث پر عمل کی قیودوشروط اس احسن الفتاوی جلد‪( ۸‬‬
‫زمانہ میں مفقود ہیں لہذا اب فضائل میں بھی ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز‬
‫نہیں۔۔۔۔۔ لوگ ضعیف حدیث پر عمل کو سنت سمجھتے ہیں ‪ ،‬فضائل سے متعلق‬
‫اکثر روایات صرف ضعیفہ شدیدہ ہی نہیں بلکہ موضوعہ ہیں ‪ ،‬ان کے رواۃ‬
‫وضاع‪ ،‬روافض اور صوفیہ ہیں‪ ،‬چوتھی صدی تک ان روایات کا وجود نہیں ملتا‬
‫کتب متقدمین میں کسی حدیث کا وجود نہ ملنا اسکے موضوع ہونے کی دلیل ہے‬
‫ملحوظہ‬
‫ت ضعیفہ کے تعدد سے قوت آجاتی ھے لیکن یاد رھے کہ‬ ‫اصول ہے کہ روایا ِّ‬
‫بیشتر رواۃ ایسے ہیں کہ ان جیسوں کا عدد ہزار سے بھی بڑھ جائے تو بھی ان‬
‫ال یزید اال خبثا پر اعتماد کرنا جائز نہیں ‪،‬‬ ‫الخبیث‬
‫ملحوظہ‬
‫ضعیف حدیث کی پہچان کیلئے جو عالمات بیان کی گئی ہیں ان میں سے دو یہ‬
‫ہیں‬
‫)‪(۱‬‬
‫تیسری صدی کے بعد شائع ہونے والی احادیث‬
‫)‪(۲‬‬
‫وہ احادیث جن میں عمل قلیل پر اجر عظیم کی بشارات ہوں‬
‫‪:‬قباحت‬
‫ضعیف روایات میں قباحت کے اعتبار سے روایات کی ترتیب ابن حجر ؒ نے یہ‬
‫بیان کی ہے‬
‫) ‪(۱‬‬
‫موضوع‬
‫)‪(۲‬‬
‫متروک‬
‫)‪(۳‬‬
‫منکر‬
‫)‪(۴‬‬
‫معلل‬
‫)‪(۵‬‬
‫مدرج‬
‫)‪(۶‬‬
‫مقلوب‬
‫)‪(۷‬‬
‫مضطرب‬
‫)‪(۴‬‬
‫َیرہ‬
‫ص ِّحیح ِّلغ ِّ‬
‫‪َ :‬‬
‫ھو ما کانت شروطہ اخف من شروط الصحیح لذاتہ‬
‫ایسی حسن لذاتہ حدیث کہ جسکی سندیں متعدد ہوں‬
‫‪:‬مثال‬
‫رسول ہللا ﷺ لو ال ان اشق علی امتی المرتھم بالسواک عند کل صلوۃ‬ ‫قال‬
‫(ترمذی‬
‫‪:‬مرتبہ و مقام‬
‫صحیح لغیرہ کا مرتبہ حسن لذاتہ سے اعلی ہے لیکن صحیح لذاتہ سے کم ہے۔‬
‫)‪(۵‬‬
‫َیرہ‬
‫سن ِّلغ ِّ‬
‫َح َ‬
‫الجزء المتوقف عن قبولہ اال اذا قامت قرینۃ ترجح جانب القبول مایتوقف‬ ‫ھو‬
‫فیہ بان یاتی من طریق آخر‬
‫ایسی ضعیف حدیث کہ جسکی سندیں متعدد ہوں‬
‫‪:‬مثال‬
‫امراۃ من بنی فزارۃ تزوجت علی نعلین فقال رسول ہللا ﷺ ارضیت من‬ ‫ان‬
‫ومالک بنعلین؟ قالت نعم ‪،‬فاجاز (ترمذی باب النکاح‬
‫ِّ‬ ‫نفسک‬
‫بنو فزارہ کی ایک عورت نے جوتوں کی ایک جوڑی پر نکاح کیا‪ ،‬رسول ہللا ﷺ‬
‫نے اس سے دریافت کیا ‪ :‬کیا تو اپنی ذات کیلئے اس پر راضی ہے ۔ وہ بولی‬
‫ھاں‪ ،‬چناچہ آپ ﷺ نے اسکے نکاح کو جائز قرار دے دیا‬
‫اس حدیث میں ایک راوی عاصم اپنے سو ء حفظ کی بناء پر ضعیف ہیں لیکن‬
‫چونکہ دوسری سندوں سے اسکی تائید ہوتی ہے اس وجہ سے یہ حدیث حسن‬
‫لغیرہ ہے (یعنی غیر کی وجہ سے اس میں حسن آگیا‬
‫‪:‬حکم‬
‫ث مقبول کی قسم سے ہے ‪ ،‬اس سے استدالل جائز ہے۔‬
‫یہ حدی ِّ‬
‫)‪(۶‬‬
‫ضوع‬
‫َمو ُ‬
‫ھوالمختلق المصنوع علی رسول ہللا ﷺ وتحرم روایتہ مع العلم بہ فی ای معنی کان‬
‫اال مقرونا ببیان وضعہ‬
‫وہ حدیث کہ جسکے راوی پر حدیث نبویﷺ میں جھوٹ بولنے کا طعن موجود ہو‬
‫‪:‬امثلہ‬
‫علی شہر ِّعلم کا دروازہ ہیں۔۔۔‬
‫ؓ‬
‫امتی ابوحنیفۃ موضوع (تذکرۃ الموضوعات لمالعلی القاری ص‬ ‫‪ ۱۱۱‬سراج‬
‫زارنی وزار ابی ابراھیم فی عام واحد ضمنت لہ الجنۃ۔‬ ‫من‬
‫ابن تیمیہ والنووی انہ موضوع ال اصل لھا کذا نقل السیوطی فی الزیلعی‬ ‫قال‬
‫عنہما‬
‫نبیا وادم بین الماء والطین وکنت نبیا والادم وال ماء وال طین‪ ،‬قال ابن‬ ‫کنت‬
‫ان الفاظ سے موضوع ہے ‪۸۶‬۔ تیمیہ موضوع (الزیلعی ص‬
‫احمد بال میم‬ ‫انا‬
‫عربی بال عین‬ ‫انا‬
‫‪:‬حکم‬
‫موضوع روایت کو نقل کرنا ناجائز ہے اال یہ کہ اس بات کی صراحت کی جائے‬
‫کہ یہ حدیث موضوع ہے۔‬
‫)‪(۷‬‬
‫تروک‬
‫َم ُ‬
‫ھو الحدیث الذی رد بسبب تھمۃ راویہ الکذب‬
‫وہ حدیث کہ جسکا راوی ُمت َّ َّھم بال ِّکذب ہو یا وہ روایت قواعد معلومہ فی‬
‫الدین کے مخالف ہو‬
‫‪:‬مثال‬
‫النبی ﷺ یقنت فی الفجر و یکبر یوم عرفۃ من صلوۃ الغراۃ ویقطع صلوۃ‬ ‫کان‬
‫العصر آخر ایام التشریق‬
‫نبی ﷺ فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھتے اور یوم عرفہ کی فجر سے ایام‬
‫تشریق کے افتتاحی دن عصر کی نماز تک تکبیر پڑھتے۔‬
‫اس حدیث کی سند میں عمرو بن شمر جعفی کوفی شیعہ ہے۔ امام نسا ئی ؒ ‪،‬‬
‫دارقطنی اور دیگر محدثین فرماتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے۔‬
‫‪:‬الزام کے اسباب‬
‫کسی راوی پر جھوٹ کے الزام کے دو اسباب ہیں‬
‫)‪(۱‬‬
‫راوی ایک سند کے سوا کسی دوسری سند سے روایت نقل نہ کر رھا ہو‪ ،‬اور‬
‫قواعد معلومہ کی مخالفت کر رہا ہو‬
‫)‪(۲‬‬
‫عام عادت میں اسکا جھوٹا ہونا معروف ہو اگرچہ حدیث کی نقل میں اسکا جھوٹ‬
‫ثابت نہ ہو۔‬
‫)‪(۸‬‬
‫شَاذ‬
‫ھو ما روی الثقۃ مخالفا لروایۃ الناس‪ ،‬ال ان یروی ما ال یروی غیرہ‬
‫وہ روایت کہ جسکا راوی خود ثقہ ہو لیکن ایسی جماعت کثیرہ کی مخالفت کرتا‬
‫ہو جو اس سے زیادہ ثقہ ہیں‬
‫ت شذوذ‬
‫‪:‬مقاما ِّ‬
‫سند میں‬
‫متن میں‬
‫)‪(۹‬‬
‫َمحفُوظ‬
‫ھو مارواہ اال وثق مخالفا لروایۃ الثقۃ فھو یقابل الشاذ‬
‫وہ حدیث جو شاذ کے مخالف ہو‬
‫)‪(۱۰‬‬
‫ُمنکَر‬
‫ھو ما رواہ الضعیف مخالفا للثقۃ‪ ،‬و بینہ و بین الشاذ عموم و خصوص من وجہ‪،‬‬
‫یجتمعان فی اشتراط المخالفۃو یفترقان فی ا َ َّن الشاذ راویہ ثقۃ او صدوق‪ ،‬والمنکر‬
‫راویہ ضعیف‬
‫وہ حدیث کہ جسکا راوی ضعیف ہونے کے باوجود جماعت ثقات کے مخالف‬
‫روایت کرے‬
‫‪:‬مثال‬
‫البلح بالتمر فان ابن آدم اذا اکلہ غضب الشیطان‬ ‫کلوا‬
‫سبز کھجوریں تر کھجوروں کے ساتھ کھائو کیونکہ ابن آدم جب اسکو کھاتا ہے‬
‫تو شیطان کو غصہ آتا ہے۔‬
‫نسائی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے۔‬
‫ؒ‬ ‫امام‬
‫‪:‬مرتبہ‬
‫ت ضعف میں منکر کا درجہ ہے کیونکہ اسکا راوی کثرت‬ ‫متروک کے بعد شد ِّ‬
‫اغالط‪ ،‬کثرت غفلت یا فسق میں مبتال ہونے کے ساتھ ساتھ ثقہ کی مخالفت کے‬
‫ساتھ روایت نقل کرتا ہے۔‬
‫)‪(۱۱‬‬
‫عروف‬
‫َم ُ‬
‫الثقۃ مخالفا لما رواہ الضعیف‬ ‫مارواہ‬
‫وہ حدیث جو منکَر کے مقابل ہو‬
‫‪:‬مثال‬
‫اقام الصلوۃ و اتی الزکوۃ وحج البیت و صام و قری الضیف دخل الجنۃ‬ ‫من‬
‫)‪(۱۲‬‬
‫ُمعَلَّل‬
‫ما فیہ علۃ خفیۃ قادحۃ فی صحۃ الخبر‬ ‫ھو‬
‫وہ حدیث جس میں کوئی ایسی خفیہ علت ہوجو صحت حدیث میں نقصان دیتی‬
‫ماھر فن ہی کا کام ہے‪ ،‬ہر شخص کا نہیں‬
‫ِّ‬ ‫ہو (اسکو معلوم کرنا‬
‫)‪(۱۳‬‬
‫ُمض َ‬
‫ط َرب‬
‫ھوالذی یروی علی اوجہ مختلفۃ متضاربۃ‪ ،‬فان ُر ِّجعَت احدی الروایتین نحفظ‬
‫للمروی عنہ او غیر ذلک فالحکم للراجحۃ وال‬ ‫راویھا‪ ،‬او کثرۃ صحبتہ‬
‫یکون مضطربا‬
‫وہ حدیث جسکی سند یا متن میں ایسا اختالف واقع ہو کہ اس میں ترجیح یا تطبیق‬
‫نہ ہو سکے‬
‫‪:‬حکم‬
‫یوجب ضعف الحدیث ۔ االضطراب یقع تارۃ فی االسناد و‬ ‫واالضطراب‬
‫تارۃ فی المتن‬
‫السند کی مثال‬ ‫‪:‬مضطرب‬
‫شیَّ َبت ِّنی ھود و اخوتھا (ترمذی(‬
‫)عن ابی بکر) یا رسول ہللا ﷺ اراک شبت قال َ‬
‫اے ہللا کے رسول ﷺ میں دیکھ رھا ہوں کہ آپ بوڑھے ہو گئے ہیں آپ ﷺ نے‬
‫اور اس قسم کی سورتوں نے بوڑھا کر دیا فرمایا ‪ :‬مجھے ہود‬
‫امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مضطرب ہے کیونکہ اسے ابو اسحاق کے‬
‫عالوہ کسی نے روایت نہیں کیا‬
‫المتن کی مثال‬ ‫‪:‬مضطرب‬
‫رسول ہللا ﷺ عن الزکوۃقال ان فی المال لحقا سوی الزکوۃ (ترمذی‬ ‫سئل‬
‫آپ ﷺ سے زکوۃ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا‪ :‬مال میں زکوۃ کے‬
‫عالوہ بھی حق ہے۔‬
‫عراقی فرماتے ہیں کہ یہ ایسا اضطراب ہے کہ جسکی تاویل ممکن نہیں۔‬
‫اضطراب‬ ‫‪:‬وجوہ‬
‫حدیث کو مضطرب اس وقت کہا جا ئے گا جب‬
‫)‪(۱‬‬
‫حدیث میں الفاظ اس قدر مختلف ہوں کہ ان میں تطبیق ممکن نہ ہو‬
‫)‪(۲‬‬
‫قوت و سند کے اعتبار سے تمام روایات برابر ہوں اس بنا پر ان میں سے کسی‬
‫کو ترجیح نہ دی جاسکتی ہو‬
‫‪:‬فائدہ‬
‫مضطرب کے ضعیف ہونے کا سبب یہ ہے کہ اضطراب سے راوی کے عدم‬
‫ضبط کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔‬
‫)‪(۱۴‬‬
‫َمقلُوب‬
‫انقلب بعض لفظہ علی راو فتغیر معناہ‬ ‫ما‬
‫وہ حدیث جس میں بھول سے متن یا سند کے اندر تقدیم وتاخیر واقع ہو گئی ہو‬
‫لفظ مقدَم کو موخَر اور موخَر کو مقدَم کر دیا گیا ہو یابھول کر ایک راوی‬
‫یعنی ِّ‬
‫کی جگہ دوسرا راوی رکھا گیا ہو‬
‫‪:‬مقلوب کی اقسام‬
‫مقلوب السند‬
‫مقلوب المتن‬
‫ان میں سے ہر ایک کی دو دو صورتیں ہیں‬
‫‪:‬اسباب قلب‬
‫ت حدیث میں جدت و امتیاز پیدا کرنا‬
‫روای ِّ‬
‫محدثین کے حافظہ و ضبط کا امتحان لینا‬
‫غیر ارادی طور پر غلطی ہو جانا‬
‫‪:‬حکم‬
‫‪:‬اسباب کے پیش نظر اسکے حکم بھی تین ہیں‬
‫‪1‬‬
‫اگر جدت پیدا کرنے کیلئے قلب ہو تو ناجائز ہے کیونکہ یہ تغیر فی الحدیث ہے۔‬
‫‪2‬‬
‫امتحان کی غرض سے ہو تو جائز ہے مگر مجلس کے اختتام سے قبل اسکو‬
‫درست کرنا ضروری ھے‬
‫‪3‬‬
‫اگر خطا سے ایسا ہو تو راوی معذور ہے ۔ لیکن اگر کثرت سے ایسا ہوتا ہو تو‬
‫ب ضعف ہے۔‬ ‫یہ موج ِّ‬
‫)‪(۱۵‬‬
‫ص َّحف ؍ ُم َح َّرف‬
‫‪ُ :‬م َ‬
‫سلیم‬
‫سلیم و ُ‬
‫ما غیر فیہ الشکل مع بقاء حروفہ ک َ‬ ‫ھو‬
‫وہ حدیث ہے کہ جس میں باوجود صورت خطی باقی رھنے کے‪ ،‬لفظوں‬
‫حرکتوں وسکونوں کے تغیر کی وجہ سے تلفظ میں غلطی واقع ہو جائے‬
‫‪:‬مثال‬
‫النبی ﷺ احتجر فی المسجد‬ ‫فی المسجد اصل میں یوں ہے( ان‬ ‫احتجم‬
‫‪:‬اھمیت‬
‫یہ بھی معلل کی طرح ایک فن ہے اسکی اھمیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب‬
‫ان غلطیوں کا انکشاف کیا جائے جو رواۃ سےہوئی ہیں۔‬
‫)‪(۱۶‬‬
‫درج‬
‫ُم َ‬
‫ان یکون الراوی عقب حدیث النبی ﷺ کالما لنفسہ او لغیرہ فیرویہ من بعدہ‬ ‫ھو‬
‫متصال فیتوھم انہ من الحدیث‬
‫وہ حدیث جس میں کسی جگہ راوی اپنا کالم درج کرے یا وہ لفظ جو ظاھرا‬
‫کالم نبوت میں سے نہ ہو۔‬
‫ث مرفوع کا حصہ معلوم ہو اور درحقیقت ِّ‬
‫حدی ِّ‬
‫‪:‬مدرج کی اقسام‬
‫مدرج االسناد‬
‫مدرج المتن‬
‫‪:‬ادراجکے مقاصد‬
‫کسی شرعی حکم کو بیان کرنا‬
‫کسی شرعی حکم کو حدیث ختم کرنے سے پہلے مستنبط کرنا‬
‫حدیث میں موجود کسی نئے لفظ کی تشریح کرنا‬
‫‪:‬ادراج کی پہچان‬
‫کسی دوسری روایت کو دیکھ لیا جائے‬
‫بعض گہری نظر رکھنے والے آئمہ حدیث کی تصریح‬
‫راوی کا اپنا اقرار کہ اس نے ادراج کیا ہے‬
‫کالم ایسا ہو کہ جسکا نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کرنا محال ہو‬
‫‪ :‬فائدہ‬
‫اکثر فاسد و فضول ادراجات شیعہ کرتے ہیں‬
‫خبر واحد کی اقسام باعتبار سقوط راوی وعدم سقوط راوی‬
‫)‪(۱‬‬
‫ُمت َّ ِّ‬
‫صل‬
‫و ھوما اتصل اسنادہ مرفوعا کان او موقوفا علی من کان‬
‫وہ حدیث کہ جسکی سند میں راوی پورے مذکور ھوں‬
‫‪:‬متصل مرفوع کی مثال‬
‫عن ابن شہاب عن سالم بن عبدہللا عن ابیہ عن رسول ہللا ﷺانہ قال کذا‬ ‫مالک‬
‫اس سند سے کوئی بھی روایت منقول ھو تو وہ متصل ہوگی کیونکہ اسکی سند‬
‫میں اول تا آخر کوئی انقطاع نہیں ہے‬
‫‪:‬متصل موقوف کی مثال‬
‫عمر کا کوئی قول نقل کریں اسکی سند میں بھی‬
‫مالک عن نافع ‪ ،‬یہ اگر ابن ؓ‬
‫کوئی انقطاع نہیں‬
‫)‪(۲‬‬
‫ُمسنَد‬
‫ما اتصل سندہ الی النبی ﷺ‬ ‫ھو‬
‫وہ حدیث کہ جسکی سند رسول ہللا ﷺ تک متصل ھو‬
‫‪ :‬مثال‬
‫قا ل رسول ہللا ﷺ اذا شرب الکلب فی اناء احدکم فلیغسلہ سبعا‬
‫امام بخاری نے اس روایت کو نقل کیا ہے سند یہ ہے‬
‫عبدہللا بن یوسف عن مالک عن ابی زناد عن اعرج عن ابی ھریرۃ‬ ‫عن‬
‫)‪(۳‬‬
‫ُمنقَ ِّطع‬
‫ما لم یتصل اسنادہ علی ای وجہ کان انقطاعہ‬ ‫ھو‬
‫وہ حدیث کہ جسکی سند متصل نہ ھو‪ ،‬بلکہ کہیں نہ کہیں سے راوی گرا ھوا ہو‬
‫‪:‬مثال‬
‫حاکم کی روایت ہے‪،‬‬
‫عبدالرزاق عن ثوری عن ابی اسحاق عن زید بن یشیع عن حذیفۃ‬ ‫عن‬
‫ولیتموھا ابا بکر فقوی امین‬ ‫ان‬
‫اگر تم خالفت کو ابوبکر کے سپرد کرو گے تو اسے قوی اور امین پائو گے‬
‫اس سند کے وسط میں ابو اسحاق اور ثوری کے درمیان’’ شریک‘‘ راوی ساقط‬
‫ھیں کیونکہ ثوری نے ابواسحاق سے براہ راست سماع نہیں کیا‬
‫‪:‬حکم‬
‫علماء کا اتفاق ہے کہ راوی محذوف کا حال معلوم نہ ہونے کی وجہ سے یہ‬
‫روایت ضعیف ہے۔‬
‫)‪(۴‬‬
‫ُمعَلَّق‬
‫ما حذف من مبداسندہ راو فاکثر‬ ‫ھو‬
‫وہ حدیث کہ جسکی سند کے شروع میں ایک راوی یا کثیر گرے ھوئے ہوں‬
‫‪:‬مثال‬
‫امام بخاری ترجمۃ الباب میں ران کے ستر ھونے پر ایک حدیث نقل کرتے ہیں‬
‫جس میں صحابی تک کی سند کا ذکر نہیں ۔ یہ روایت معلق ہے‬
‫ابوموسی غطی النبی ﷺ رکبتیہ حین دخل عثمان‬ ‫وقال‬
‫ابو موسی کہتے ہیں کہ جب عثمان ؓ تشریف الئے تو آپﷺ نے گھٹنوں کو ڈھانپ‬
‫لیا۔‬
‫‪:‬حکم‬
‫معلق کے مردود ہونے کا حکم عمومی ہے وفیہ تفصیل‬
‫)‪(۵‬‬
‫ضل‬
‫ُمع َ‬
‫ما سقط من اسنادہ اثنان فاکثر‬ ‫ھو‬
‫وہ حدیث کہ جسکی سند کے درمیان سے کوئی راوی گرا ہوا ہو یا اسکی سند‬
‫میں سے ایک سے زئد راوی پے در پے گرے ہوں‬
‫‪:‬مثال‬
‫قول مالک بلغنی عن ابی ھریرۃ للمملوک طعامہ وکسوتہ بالمعروف وال یکلف‬
‫العمل اال ما یطاق‬
‫غالم کا حق یہ ہے کہ اسے طعام و لباس ‪ ،‬معروف اور عمدہ طور پر دیا جائے‬
‫اور اس سے وہی کام لیا جائے جو وہ کر سکتا ہے۔‬
‫امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ مالک سے معضل ہے کیونکہ اس میں مالک اور‬
‫ابوھریرۃ کے درمیان دو واسطے ذکر نہیں۔ اصل سند یوں ہے‬
‫مالک عن محمد بن عجالن عن ابیہ عن ابی ھریرۃ‬
‫‪:‬حکم‬
‫معضل حدیث ضعیف ہے حجت ہونے میں مرسل اور منقطع سے بھی کم درجہ‬
‫کی ہے‬
‫)‪(۶‬‬
‫سل‬
‫ُمر َ‬
‫ھو ما سقط من آخر السندبعد التابعی فھو مرسل‬
‫وہ حدیث کہ جسکی سند کے آخر سے کوئی راوی گرا ہوا ہو تابعی کے بعد‬
‫محدثین کے نزدیک مرسل کی یہ صورت ہے کہ کوئی تابعی ‪ ،‬صحابی کا نام‬
‫لئے بغیر نبی کریم ﷺ سے منسوب کوئی قول یا فعل یا تقریر نقل کردے‬
‫‪:‬مثال‬
‫بن رافع عن جحین عن لیث عن عقیل عن ابن شہاب عن سعید بن‬ ‫محمد‬
‫المسیب ان رسول ہللا ﷺ نھی عن المزابنۃ‬
‫نبیﷺ نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا‬
‫اس میں سعید بن المسیب تابعی کسی صحابی کا نام لئے بغیر نبی کریم ﷺ سے‬
‫روایت کر رھے ہیں‬
‫)‪(۷‬‬
‫ُمدَلَّس‬
‫وہ حدیث کہ جسکے راوی کی یہ عادت ہو کہ وہ اپنے شیخ یا شیخ کے شیخ کا‬
‫نام چھپا لیتا ہو‬
‫یا‬
‫سند کے عیب کو چھپانا اور اسکے حسن کو ظاھر کرنا‬
‫یا‬
‫راوی اپنے ایسے شیخ سے جس سے اسکا سماع ثابت ھو ایسی روایت نقل کرے‬
‫جو اس سے نہ سنی ہو اور اس با ت کی صراحت نہ کرے کہ میں نے یہ روایت‬
‫اپنے شیخ سے نہیں سنی‬
‫‪:‬اقسام‬
‫سند میں تدلیس‬
‫شیوخ کی تدلیس‬
‫صیغ‬
‫خبر واحد کی اقسام باعتبار ِّ‬
‫)‪(۱‬‬
‫عن َعن‬
‫ُمعَنعَن ؍ َ‬
‫وہ حدیث کہ جسکی سند میں َعن ھو‬
‫)‪(۲‬‬
‫سل‬
‫سل َ‬
‫ُم َ‬
‫ص َیغِّ ادا کے یا )‪ (۱‬وہ حدیث کہ جسکی سند میں‬
‫راویوں کے‪ ،‬صفات یا )‪ِّ (۲‬‬
‫حاالت ایک ہی طرح کے ہوں‬
Other Menu

Validates to XHTML 1.0 and CSS 3


Copyright © 2011 www.rahbareislam.com

You might also like