Professional Documents
Culture Documents
؛
لغوی معنی
تفسیر کا مادہ ف-س-ر=فسر ہے اور اس مادہ سے جو
الفاظ بنتے ہیں۔ ان سے بالعموم شرح و ایضاح کے معنی
شامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ َف ّس َر (ماضی) کے مصدری
معنی ہیں :واضح کرنا ،تشریح کرنا ،مراد بتانا ،پردا
ہٹانا۔ جبکہ اسی سے تفسیر ہے کیونکہ اس میں بھی
عبارت کھول کر معانی کی وضاحت کی جاتی ہے۔
تعریف
وہ علم جس سے قرآن کو سمجھا جاتا ہے۔ اس علم سے
قرآن کے معانی کا بیان ،اس کے استخراج کا بیان ،اس
کے احکام کا استخراج معلوم کیا جاتا ہے۔ اور اس
سلسلے میں لغت ،نحو ،صرف ،معانی و بیان وغیرہ سے
مدد لی جاتی ہے۔ اس میں اسباب نزول ،ناسخ و
منسوخ سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ عالمہ امبہانی کہتے
ہیں :تفسیر اصطالح علما میں قرآن کریم کے معانی اور
اس کی مراد کو واضح کرنے اور بیان کرنے کو کہتے
ہیں ،خواہ باعتبار حل الفاظ مشکل ہو یا باعتبار معنی
ظاہر ہو یا خفی اور تاویل کالم تام اور جملوں کا
مفہوم متعین کرنے کو کہتے ہیں۔ امام ماتریدی کے
نزدیک :تفسیر اس یقین کا نام ہے کہ لفظ سے یہی مراد
اور اس قدر یقین ہو کہ خدا کو شاہد ٹھہرا کر کہا
جائے کا خدا نے یہی مراد لیا ہے۔ اور تاویل یہ ہے کہ
چند احتماالت میں سے کسی ایک کو یقین اور شہادت
الہی کے بغیر ترجیح دی جائے۔ امام ابو نصر القشیری
کہتے ہیں کہ تفسیر موقوف ہے سماع اور اتباع نبی
کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر۔ عالمہ ابو طالب
شعلبی کہتے ہیں :تفسیر کے معنی لفظ کی وضع کا
بیان کر دینا ہے ،خواہ وہ حقیقت ہویا مجاز ،مثال
صراط کے معنی راستہ ،صیب کے معنی بارش اور کفر
کے معنی انکار۔
تاویل
تاویل کا مادہ ا-و-ل=اول ہے۔ اس کے لغوی معنی تعبیر
بتانا ،کل بٹھانا۔ بیان حقیقت ،اپنی اصل کی صرف
لوٹنا کے ہیں۔ مرجع اور جائے بازگشت کو موؤل کہتے
ہیں۔ کسی شے کو فعل ہو علم اس کی اصل کی طرف
لوٹانے کا نام تاویل ہے۔ قرآن اور کالم عرب میں یہ لفظ
بیان حقیقت ،تفسیر ،توضیح معانی ،تبیین کے مترادف
استعمال ہوا ہے۔ یعنی قرآن میں تاویل و تفسیر ہم
معنی استعمال ہوا ہے۔ چوتھی صدی ہجری سے پہلے
تک تاویل و تفسیر کا ایک ہی معنی لیا جاتا رہا ہے۔ اور
اسی (تفسیر) کے مترادف کے طور پر تاویل کا لفظ
مستعمل رہا۔ پھر اس میں شروع شروع میں تھوڑا
فرق پایا جاتا تھا ،عام طور پر علما ان دونوں لفظموں
کے مفہوم میں یہ فرق کیا کرتے تھے کہ :تاویل کا
استعمال جملوں اور معانی کی توضیح کے لیے
استعمال کرتے اور تفسیر کا لفظ مشکل الفاظ اور
مفردات کی تشریح کے لیے ،مگر یہ تمام علما کے نزدیک
مسلم نہیں تھا۔
تفسیرالقرآن کے اصول
چونکہ ہرکام کی ایک اصل ہوتی ہے اور اصول کے
ساتھ ہونے والے کام کو کام کہا جاتا ہے ،بے اصولی تو
کسی بھی شعبہ میں اچھی نہیں سمجھی جاتی؛ اسی
اصول پر تفسیر کے اصول بھی ہیں؛ تاکہ اس میں
دلچسپی پیدا ہو ،اب ایک بات ضروری طور پر یہ رہ
جاتی ہے کہ وہ کیا ذرائع اور طریقے ہیں جن کی بنیاد
پر قرآن کریم کی تفسیر کی جاسکے ،یقینًا ہم کو اس
کے لیے حق سبحانہ وتعالٰی کی طرف سے رہبری کی
گئی ہے؛ چنانچہ فرمایاُ" :ھ َو اَّلِذ ْٓی َا ْن َز َل َع َلْی َک اْلِک ٰت َب ِم ْن ُہ
ٰا ٰی ٌت ُّم ْح َکٰم ٌت ُھ َّن ُا ُّم اْلِک ٰت ِب َو ُا َخ ُر ُم َت ٰش ِب ٰہ ٌت "۔(آل
عمران)7:
اے رسول!وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے
جس کی کچھ آیتیں تو محکم ہیں جن پر کتاب کی
اصل بنیاد ہے اورکچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔ گویا
اس آیت کی رو سے آیات کی اولین تقسیم دوطرح پر
کی گئی ہے۔ حسنا کا معنی کیا ہے
آیات محکمات
()2
()1
تفسیری مآخذ
یعنی وہ ذارئع جن سے قرآن کریم کی تفسیر معلوم
ہوسکتی ہے ،یہ تقریبًا چھ قسم کی بتالئی گئی ہیں:
پہلی مثال
"َف َت َلـّٰٓق ی ٰا َد ُم ِم ْن َّر ِّب ٖہ َکِل ٰم ٍت َف َت اَب َع َلْی ِہ ِoا َّن ٗہ ُھ َو الَّت َّو اُب
الَّر ِح ْی ُم "۔ (البقرۃ)37:
"سورۃ االنعام" کی آیت نازل ہوئی" :اَّلِذ يَن آَم ُنوا َو َلْم
َي ْلِب ُس وا ِإ يَم اَن ُه ْم ِب ُظ ْلٍم ُا وِٰل ئَک َلُہ ُم اَاْلْم ُن َو ُہ ْم ُّم ْہ َت ُد ْو َن "۔
(االنعام)82:
جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کے
ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی آنے نہ دیا ،امن وچین تو
بس ان ہی کا حق ہے اور وہی ہیں جو صحیح راستے
پر پہنچ چکے ہیں۔ توصحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم
میں سے کون ایسا ہے جس سے ( کسی نہ کسی طرح
کا) ظلم صادر نہ ہوا ہو ،تو اللہ نے ظلم کی تفسیر
ومراد کو واضح کرنے کے لیے یہ آیت نازل فرمائیِ " :إ َّن
الِّش ْر َك َلُظ ْلٌم َع ِظ يٌم "۔(لقمان)13:
کہ شرک ظلم عظیم ہے۔ یعنی آیت باال میں ایمان کے
ساتھ جس ظلم کا تذکرہ آیا ہے وہاں ظلم سے مراد
ہے۔[]9 شرک
پہلی مثال
سورۂ بقرہ کی آیت شریفہَ" :و ُکُلْو ا َو اْش َر ُب ْو ا َح ّٰت ى َی َت َبَّی َن
َلُکُم اْلَخ ْی ُط اَاْلْب َی ُض ِم َن اْلَخ ْی ِط اَاْلْس َو ِد ِم َن اْلَف ْج ِر "۔
(البقرۃ )187:اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح
کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہوکرتم پر
واضح (نہ) ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیط
ابیض اور خیط اسود کی مراد کو اپنے ارشاد مبارک
سے واضح فرمایاِ " : إ َّن َم ا َذ ِلَك َس َو اُد الَّلْي ِل َو َب َي اُض
الَّنَه ار"۔[ ]10کہ خیط ابیض سے مراد صبح صادق اور
خیط اسود سے مراد صبح کاذب ہے۔
دوسری مثال
سورہ نور کی آیتَ" :ا لَّز اِن َی ُۃ َو الَّز اِن ْی َف اْج ِل ُد ْو ا ُکَّل َو اِح ٍد
ِّم ْن ُہ َم ا ِم اَئ َۃ َج ْلَد ٍۃ َّ ،و اَل َت ْا ُخ ْذ ُکْم ِب ِہ َم ا َر ْا َف ٌۃ ِف ْی ِد ْی ِن اللِہ ِاْن
ُکْنُت ْم ُت ْؤ ِم ُن ْو َن ِب اللِہ َو اْلَی ْو ِم اٰاْل ِخ ِر َ ،و ْلَی ْش َہ ْد َع َذ اَب ُہ َم ا َط اِئ َف ٌۃ
ِّم َن اْلُم ْؤ ِم ِن ْی َن "۔ (النور)2:
زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرددونوں کو
سوسو کوڑے لگاؤاور اگر تم اللہ اوراس کے رسول پر
ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین کے معاملہ میں ان پر
ترس کھانے کا کوئی جذبہ تم پرغالب نہ آئے اور یہ
بھی چاہیے کہ مؤمنوں کا ایک مجمع ان کی سزا کو
کھلی آنکھوں دیکھے۔
تیسری مثال
پہلی مثال
دوسری مثال
" َو َا ْن ِف ُق ْو ا ِف ْی َس ِب ْی ِل اللِہ َو اَل ُت ْلُق ْو ا ِب َاْی ِد ْی ُکْم ِا َلى الَّت ْہ ُلَکِۃ ،
َو َا ْح ِس ُن ْو اِ ،اَّن اللَہ ُی ِح ُّب اْلُم ْح ِس ـِن ْی َن "۔(البقرۃ )195:اور
خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور نہ ڈالو اپنی جان کو
ہالکت میں اور نیکی کرو ،بے شک اللہ تعالی دوست
رکھتا ہے نیکی کرنے والوں کو۔ اس آیت کی تشریح
میں مفسرین نے ابوایوب انصاری کا ارشاد نقل کیا ہے
کہ" :التھلکۃ االقامۃ فی االھل والمال وترک الجھاد"۔
(تفسیر ابن کثیر ،تحت قولہ َو اَل ُت ْلُق ْو ا ِب َاْی ِد ْی ُکْم ِا َلى
الَّت ْہ ُلَکِۃ )
تیسری مثال
ارشاد باری تعالی ہےَ" :و الّٰس ِب ُق ْو َن اَاْلَّو ُلْو َن ِم َن اْلُم ٰہ ِج ِر ْی َن
َو اَاْلْن َص اِر َو اَّلِذ ْی َن اَّت َب ُع ْو ُھ ْم ِب ـِا ْح َس اٍن َّ ،ر ِض َی اللُہ َع ْن ُھ ْم
َو َر ُض ْو ا َع ْن ُہ َو َا َع َّد َلُھ ْم َج ّٰن ٍت َت ْج ِر ْی َت ْح َت َہ ا اَاْلْن ٰہ ُر ٰخ ِلِد ْی َن
ِف ْی َہ آ َا َب ًد اٰ ،ذ ِل َک اْلَف ْو ُز اْلَع ِظ ْی ُم "۔(التوبہ)100:
دوسری مثال
ارشاد باری تعالی ہےَ " :ا لَّت اِئ ُب ْو َن اْلٰع ِب ُد ْو َن اْلٰح ِم ُد ْو َن
الَّس اِئُح ْو َن الّٰر ِک ُع ْو َن الّٰس ِج ُد ْو َن اٰاْل ِم ُر ْو َن ِب اْلَم ْع ُر ْو ِف
ْل ْل
َو الَّناُہ ْو َن َع ِن ا ُم ْن َکِر َو ا ٰح ِف ُظ ْو َن ِلُح ُد ْو ِد اللِہ َ ،و َب ِّش ِر
اْلُم ْؤ ِم ِن ْی ََن "۔ (التوبہ)112:
آیت میں ایک لفظ "َأ لَّس اِئُح ْو َن " آیا ہے ،جس کا مطلب
جمہور مفسرین کے ہاں"َص اِئُم ْو َن "یعنی روزہ دار مراد
ہیں اور عبد اللہ بن عباس نے فرمایا کہ قرآن میں
جہاں کہیں بھی سائحین کا لفظ آیا ہے وہاں صائمین
مراد ہیں ،عکرمہ جو کباِر تابعین میں سے ہیں انہوں نے
کہا سیاحت کرنے والوں سے مرادطالب علم ہیں جو
ہیں۔[]24 علم کی طلب میں ملکوں میں پھرتے
تیسری مثال
ارشاد باری تعالی ہےِ" :ا َّن َم ا الَّص َد ٰق ُت ِل ْلُف َق َر اِء (التوبہ)60:
پہلی مثال
دوسری مثال
"۔[]30
ْی ِّد ال ی ِف ُہ فق َو َب ا َت ِک ْل ا ٗہ ُم ْل ِع َّم ُھ ّٰلل َا "
ِن
پہلی مثال
"ِهَّلِل ُم ْلُك الَّس َم اَو اِت َو اَأْلْر ِض َي ْخ ُلُق َم اَي َش اُء َي َه ُب ِلَم ْن
َي َش اُء ِإ َن اثًا َو َي َه ُب ِلَم ْن َي َش اُء الُّذ ُكوَر َ oأ ْو ُي َز ِّو ُج ُه ْم ُذ ْكَر انًا
َو ِإ َن اثًا َو َي ْج َع ُل َم ْن َي َش اُء َع ِق يمًا ِإ َّن ُه َع ِل يٌم َق ِد يٌر "
(الشوری)49،50:
سارے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کی ہے،
وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ،وہ جس کوچاہتا ہے
لڑکیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے یا
پھر ان کو مالکر لڑکے بھی دیتا ہے اورلڑکیاں بھی اور
جس کو چاہتا ہے بانجھ بنادیتا ہے ،یقینًا وہ علم کا
بھی مالک ہے قدرت کا بھی مالک۔ بعض لوگوں کا کہنا
ہے کہ اس آیت میں خنثٰی (ایسا شخص جو نہ مرد ہو
نہ عورت) کا تذکرہ نہیں کیا ہے اور اس سے یہ نتیجہ
نکاال کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہے؛لیکن ابن العربؒی
نے اس کا جواب دیا ہے کہ ایسا کہنا عقل کے خالف
بات ہے اس لیے کہ اللہ نے آیت کے ابتدا ہی میں
فرمادیا"َي ْخ ُلُق َم ا َي َش اُء "وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے،
ہے۔[]31 لہذااس میں خنثٰی بھی شامل
دوسری مثال
تیسری مثال
بہرحال قرن اول کے مفسرین میں پہال نام عبد اللہ بن
عباس رضی اللہ عنہ کا ہے تاریخ وفات سنہ 68ھ۔
دوسرا نام علی بن ابی طالب وفات سنہ40ھ۔ پہلے تین
خلفاء کی نسبت علی سے تفسیری روایات زیادہ مروی
ہیں؛ چنانچہ عالمہ ابوالطفیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ
علؓی نے اپنے خطبے میں یوں فرمایا کہ لوگو! مجھ سے
کتاب اللہ کے بارے میں سواالت کیا کرو؛ کیونکہ قسم
خدا کی قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس
کے بارے میں مجھے معلوم نہ ہو کہ یہ آیت رات کو
نازل ہوئی یا دن میں میدان میں اتری یا پہاڑ پر۔
(االتقان)187/2:
.3عکرمؒہ
.4طاؤؒس ،وفات 105ھ
.5عطاء بن ابی رباح ،وفات 114ھ
.6سعید بن المسیؒب ،وفات 91ھ یا 105ھ
.7محمد بن سیریؒن ،وفات110ھ
.8زید بن اسلؒم (منقول از علوم القرآن)461:
• معارف القرآن
• ہدایت القرآن
•معالم العرفان
•تفسیر مظہری
•تفسیر ماجدی
•تفسیر عثمانی
•اشرف التفاسیر
.1
.1
اسرائیلیات کی حیثیت
قرآن مجید کے نزول سے قبل دیگر آسمانی کتابیں
مثًالتورات وانجیل وغیرہ نازل ہوچکی تھی اور نزوِل
قرآن کے زمانہ میں اہل کتاب کی ایک بڑی تعداد
موجود تھی جو قرآن میں بیان کردہ انبیا کرام کے
واقعات کو اپنی کتابوں کے حوالہ سے بھی پیش کرتے
تھے اوربعض اوقات من گھڑت حکایات بھی نقل
کردیتے ؛لیکن اس سلسلہ میں نبی کریمﷺ نہایت
قیمتی اصول بیان فرمائے جو آگے پیش کیے جائیں گے
تو آئیے قرآن کریم میں اسرائیلیات کی حیثیت اوران
کا مقام و مرتبہ کیا ہے ،اس کو فرامین رسول کی
روشنی میں اور علمائے امت کی تحریروں کے آئینہ
میں مالحظہ کرتے ہیں:
اسرائیلی روایات کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:
اہل کتاب تورات عبرانی زبان میں پڑھتے تھے اور اہل
اسالم کے لیے اس کی تفسیر عربی زبان میں کرتے تھے،
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا :اہل کتاب کی نہ تصدیق
کرو اور نہ تکذیب کرو اور کہو کہ ہم اللہ پر اور جو
اس نے نازل کیا ہے اس پر ایمان التے ہیں۔ عالمہ ابن
حجر عسقالنیؒ (المتوفی 853:ھ) حدیث کی تشریح
کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ
ارشاد فرمانا کہ نہ تم ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب یہ
اس وجہ سے ہے کہ جن باتوں کی وہ خبر دے رہے ہیں
وہ سچ اورجھوٹ دونوں کا احتمال رکھتی ہیں ،اگر
فی الواقع وہ سچ ہوں اور تم ان کی تکذیب کردویا اگر
وہ جھوٹ ہوں اور تم اس کی تصدیق کردو تو دونوں
اعتبار سے حرج اور تنگی میں پڑجانے کا اندیشہ ہے
اس لیے ان کی بیان کردہ باتوں کو سن کر نہ تصدیق
کی جائے نہ تکذیب؛ تاکہ فتنہ میں نہ پڑو۔ (فتح الباری،
حدیث نمبر،4125:شاملہ)
"َأ َلْم َت َر ِإ َلى اَّلِذ ي َح اَّج ِإ ْب َر اِه يَم ِف ي َر ِّب ِه َأ ْن آَت اُه اُهَّلل
اْلُم ْلك"۔ (البقرۃ)258:
کیا تم نے اس شخص (کے حال) پر غور کیا جس کو
اللہ نے سلطنت کیا دے دی تھی کہ وہ اپنے پروردگار(
کے وجود ہی) کے بارے میں ابراہیؑم سے بحث کرنے لگا؟
اس آیت کی تفسیر میں ایک روایت میں نمرود کے
بارے میں اس طرح لکھا ہوا ہے :ایک مچھر نمرود کی
ناک میں گس گیا اور اس کی ناک میں چار سو سال
تک بھنبھناتا رہا ،اس مچھر کی اذیت کی وجہ سے
نمرود انتہائی بے چین رہتا تھا اور مستقل عذاب میں
مبتال تھا اور جب تکلیف کی شدت اور بے چینی بڑھ
جاتی تھی تو لوہے کی سالخ سے یا ہتھوڑے سے اس
کے سر کو ٹھونکا جاتا تھا جس سے مچھر کی اذیت
کچھ ہلکی پڑتی تھی ،اسی عذاب میں نمرود چار سو
سال زندہ رہا پھر اسی اذیت کی وجہ سے مر گیا۔
(تفسیر ابن کثیر)1/313:
یہ تینوں روایتیں اسرائیلی خرافات میں سے ہیں،
جیسا کے علما امت نے اس کی تصریح کی ہے۔
(تفسیروں میں اسرائیلی روایات)444:
پھر آخری دور میں شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوؒی
نے ان انیس آیتوں پر مفصل تبصرہ کرکے صرف پانچ
آیتوں میں نسخ تسلیم کیا ہے اور باقی آیات میں ان
تفسیروں کو ترجیح دی ہے جن کے مطابق انھیں
منسوخ ماننا نہیں پڑتا ان میں سے اکثر آیتوں کے بارے
میں شاہ صاحب کی توجیہات نہایت معقول اور قابل
قبول ہیں لیکن بعض توجیہات سے اختالف بھی کیا
جاسکتا ہے ،جن پانچ آیات کو انھوں نے منسوخ تسلیم
کیا ہے وہ یہ ہیںُ#: کِت َب َع َلْْی ُکْم ِإ َذ ا َح َض َر َأ َح َد ُکُم اْلَم ْو ُت
ِإ ن َت َر َک َخ ْْی رًا اْلَو ِص َّی ُۃ ِل ْلَو اِل َد ْْی َو األْق َر ِب ْی َن ِب اْلَم ْع ُر وِف َح ّق ًا
ِن
َع َلی اْلُم َّت ِق ْی ن۔ (البقرۃ)180 :
اب اللہ نے تمہارے لیے آسانی پیدا کردی ہے اور اللہ کو
علمٹ ہے کہ (اب)تم میں کچھ کمزوری ہے پس اب اگر
تم میں سے ایک ہزار افراد استقامت رکھنے والے ہوں
گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں سے
ایک ہزار ہوں گے تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب
ہوں گے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس آیت
نہ پہلی آیت کے حکم میں تبدیلی پیدا کردی اور دس
گنے دشمن کی بجائے دوگنے کی حد مقرر کردی کہ اس
حد تک راہ فرار اختیار کرنا جائز نہیں۔ تیسری آیت
جسے شاہ صاحب نے منسوخ قرار دیا ہے سورۂ احزاب
کی یہ آیت ہے : اَل َی ِح ُّل َلَک الِّن َس اء ِم ن َبْع ُد َو اَل َأ ن َت َب َّد َل
ِب ِہ َّن ِم ْن َأ ْز َو اٍج َو َلْو َأ ْع َج َب َک ُح ْس ُن ُہ ن۔ (االحزاب)52:
َع ِلَم َأ ن َّلن ُت ْح ُص وُہ َف َت اَب َع َلْْی ُکْم َف اْق َر ُؤ وا َم ا َت َی َّس َر ِم َن
اْلُق ْر آِن :الخ (المزمل")20 :
اللہ کو معلوم ہے کہ تم (آئند)ہے اس حکم کی پابندی
نہیں کرسکوگے اس لیے اللہ نے تمہیں معاف کر دیا پس
تم( اب) قرآن کا اتنا حصہ پڑھ لیا کرو جو تمہارے لیے
آسا ن ہو۔ شاہ صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ تہجد کا
حکم واجب تو پہلے بھی نہیں تھا؛ لیکن پہلے اس میں
زیادہ تاکید بھی اور اس وقت بھی زیادہ وسیع تھا بعد
میں تاکید بھی کم ہو گئی اور وقت کی اتنی پابندی
بھی نہ رہی۔
حوالہ جات
پروفیسر جواد، القرآن و علوم القرآن، تفہیم القرآن.1
107 احمد خاکوانی صفحہ
http://dictionary.sakhr.com/idrisidic_2MM.a .2
sp?Lang=E-A&Sub=%dd%d3%d1
.7روح المعانی4/1:
.8علوم القرآن323:۔325
.17ابن کثیر1/3:
.28االتقان2/68 ،
.29االتقان2/69:
.32التفسیر التستری1/169:
.33التفسیر التستری1/439:
.36االتقان 2/18:
.37ڑ
.38فتح الباری 158/1 ،حدیث نمبر95: