You are on page 1of 112

‫تفسیر قرآن‬ ‫اصول تفسیر‬

‫؛‬

‫لفظ تفسیر عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ فسر ہے۔‬


‫یہ باب تفعیل کا مصدر ہے اس کے معنی ہیں واضح‬
‫کرنا‪ ،‬کھول کر بیان کرنا‪ ،‬وضاحت کرنا‪ ،‬مراد بتانا اور‬
‫بے حجاب کرنا ہے۔ اسالمی اصطالح میں مسلمان قرآن‬
‫کی تشریح و وضاحت کے علم کو تفسیر کہتے ہیں اور‬
‫تفسیر کرنے والے کو مفسر۔[‪ ]1‬ایک عربی آن الئن لغت‬
‫میں [ لفظ فسر] کا اندراج۔۔[‪ ]2‬اسی عربی لفظ فسر‬
‫سے‪ ،‬اردو زبان میں‪ ،‬تفسیر کے ساتھ ساتھ ديگر متعلقہ‬
‫الفاظ بھی بنائے جاتے ہیں جیسے؛ ُم فَس ر‪ُ ،‬م َف ِّس ر اور‬
‫َف ر وغیرہ [‪ ]3‬ایک اردو لغت میں [ ف ر]‪َ [ ،‬ف ر][‪]4‬‬
‫ُم ِّس‬ ‫ُم َس‬ ‫ُم ّس‬
‫اور [ ُم َف ّس ـَـر] کا اندراج۔[‪ ]5‬تفسیر کی جمع تفاسیر کی‬
‫جاتی ہے اور مفسر کی جمع مفسرین آتی ہے۔‬

‫لغوی معنی‬
‫تفسیر کا مادہ ف‪-‬س‪-‬ر=فسر ہے اور اس مادہ سے جو‬
‫الفاظ بنتے ہیں۔ ان سے بالعموم شرح و ایضاح کے معنی‬
‫شامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ َف ّس َر (ماضی) کے مصدری‬
‫معنی ہیں‪ :‬واضح کرنا‪ ،‬تشریح کرنا‪ ،‬مراد بتانا‪ ،‬پردا‬
‫ہٹانا۔ جبکہ اسی سے تفسیر ہے کیونکہ اس میں بھی‬
‫عبارت کھول کر معانی کی وضاحت کی جاتی ہے۔‬
‫تعریف‬
‫وہ علم جس سے قرآن کو سمجھا جاتا ہے۔ اس علم سے‬
‫قرآن کے معانی کا بیان‪ ،‬اس کے استخراج کا بیان‪ ،‬اس‬
‫کے احکام کا استخراج معلوم کیا جاتا ہے۔ اور اس‬
‫سلسلے میں لغت‪ ،‬نحو‪ ،‬صرف‪ ،‬معانی و بیان وغیرہ سے‬
‫مدد لی جاتی ہے۔ اس میں اسباب نزول‪ ،‬ناسخ و‬
‫منسوخ سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ عالمہ امبہانی کہتے‬
‫ہیں‪ :‬تفسیر اصطالح علما میں قرآن کریم کے معانی اور‬
‫اس کی مراد کو واضح کرنے اور بیان کرنے کو کہتے‬
‫ہیں‪ ،‬خواہ باعتبار حل الفاظ مشکل ہو یا باعتبار معنی‬
‫ظاہر ہو یا خفی اور تاویل کالم تام اور جملوں کا‬
‫مفہوم متعین کرنے کو کہتے ہیں۔ امام ماتریدی کے‬
‫نزدیک‪ :‬تفسیر اس یقین کا نام ہے کہ لفظ سے یہی مراد‬
‫اور اس قدر یقین ہو کہ خدا کو شاہد ٹھہرا کر کہا‬
‫جائے کا خدا نے یہی مراد لیا ہے۔ اور تاویل یہ ہے کہ‬
‫چند احتماالت میں سے کسی ایک کو یقین اور شہادت‬
‫الہی کے بغیر ترجیح دی جائے۔ امام ابو نصر القشیری‬
‫کہتے ہیں کہ تفسیر موقوف ہے سماع اور اتباع نبی‬
‫کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر۔ عالمہ ابو طالب‬
‫شعلبی کہتے ہیں‪ :‬تفسیر کے معنی لفظ کی وضع کا‬
‫بیان کر دینا ہے‪ ،‬خواہ وہ حقیقت ہویا مجاز‪ ،‬مثال‬
‫صراط کے معنی راستہ‪ ،‬صیب کے معنی بارش اور کفر‬
‫کے معنی انکار۔‬

‫قرآن میں جو بیان کیا گيا ہے اور صحیح سنت میں‬


‫اس کی تعین کیا گیا ہے اس کو ظاہر کرنا تفسیر ہے۔‬
‫جو بیان ظاہر کے مطابق ہو وہ تفسیر ہے۔‬

‫عالمة شیخ عثیمین کہتے ہے کہ تفسیر سے مراد قرآن‬


‫پاک کا معانی کو بیان کر نا ہے “بيان معانى القرآن‬
‫الكريم" أصول في التفسير‪ ،‬المؤلف‪ :‬محمد بن صالح‬
‫العثيمين‪ ،‬ص‪23‬۔‬

‫تفسیر کے لغوی معنوں کے لئے ویکی لغت میں‬


‫دیکھیے۔‬

‫تاویل‬
‫تاویل کا مادہ ا‪-‬و‪-‬ل=اول ہے۔ اس کے لغوی معنی تعبیر‬
‫بتانا‪ ،‬کل بٹھانا۔ بیان حقیقت‪ ،‬اپنی اصل کی صرف‬
‫لوٹنا کے ہیں۔ مرجع اور جائے بازگشت کو موؤل کہتے‬
‫ہیں۔ کسی شے کو فعل ہو علم اس کی اصل کی طرف‬
‫لوٹانے کا نام تاویل ہے۔ قرآن اور کالم عرب میں یہ لفظ‬
‫بیان حقیقت‪ ،‬تفسیر‪ ،‬توضیح معانی‪ ،‬تبیین کے مترادف‬
‫استعمال ہوا ہے۔ یعنی قرآن میں تاویل و تفسیر ہم‬
‫معنی استعمال ہوا ہے۔ چوتھی صدی ہجری سے پہلے‬
‫تک تاویل و تفسیر کا ایک ہی معنی لیا جاتا رہا ہے۔ اور‬
‫اسی (تفسیر) کے مترادف کے طور پر تاویل کا لفظ‬
‫مستعمل رہا۔ پھر اس میں شروع شروع میں تھوڑا‬
‫فرق پایا جاتا تھا‪ ،‬عام طور پر علما ان دونوں لفظموں‬
‫کے مفہوم میں یہ فرق کیا کرتے تھے کہ‪ :‬تاویل کا‬
‫استعمال جملوں اور معانی کی توضیح کے لیے‬
‫استعمال کرتے اور تفسیر کا لفظ مشکل الفاظ اور‬
‫مفردات کی تشریح کے لیے‪ ،‬مگر یہ تمام علما کے نزدیک‬
‫مسلم نہیں تھا۔‬

‫پھر جب بعد میں علوم اسالمیہ کی باقاعدہ ترتیب و‬


‫تدوین عام ہو گئی۔ تو تفسیر و تاویل کے اصطالحی‬
‫معانی بھی مقرر ہوئے اور دونوں میں واضح فرق کیا‬
‫جانے لگا۔ اور فنی و اصطالحی حیثیت سے تفسیر و‬
‫تاویل الگ الگ چیزیں ہو گیئں۔‬
‫اصطالحی تعریف‬
‫عالمہ زرکشی نے اس کی مختصر تعریف یوں نقل کی‬
‫ہے‪ُ" :‬ھ َو ِع ْلٌم ُی ْع َر ُف ِب ٖہ َف ْھ ُم ِک َت اِب اللِہ اْلُم َن َّز ِل َع لٰی َن ِب ِّی َہ‬
‫ُم َح َّم ٍد َص َّلى اُهَّلل َع َلْي ِه َو َس َّلَم َو َب َی اُن َم َع اِن ْی ِہ َو اْس َت ْخ َر اج‬
‫َأ ْح َکاِم ٖہ َو ِح َکِم ٖہ "۔[‪ ]6‬وہ ایسا علم ہے جس سے قرآن‬
‫کریم کی سمجھ حاصل ہو اور اس کے معانی کی‬
‫وضاحت اور اس کے احکام اور حکمتوں کو نکاال‬
‫جاسکے۔ عالمہ آلوسی تعریف میں مزید عموم پیدا‬
‫کرتے ہوئے لکھتے ہیں‪ُ" :‬ھ َو ِع ْلٌم ُي ْب َح ُث ِف ْي ِه َع ْن َكْي ِف َّي ِة‬
‫الُّنْط ِق ِب َأ ْلَف اِظ اْلُق ْر آِن ‪َ ،‬و َم ْد ُلْو اَل ِت َه ا‪َ ،‬و َأ ْح َكاِم َه ا اِإْل ْف َر اِد َّي ِة‬
‫َو الَّت ْر ِك ْي ِب َّي ِة ‪َ ،‬و َم َع اِن ْي َه ا اَّلِت ْي ُت ْح َم ُل َع َلْي َه ا َح اَلِۃ الَّت ْر ِك ْي ِب ‪،‬‬
‫َو َت ِت َّم اُت ِل َذ ِل ك"۔[‪ ]7‬وہ علم ہے جس میں قرآن کریم کے‬
‫الفاظ کی ادائیگی کے طریقے اور ان کے مفہوم اور ان‬
‫کے افرادی اور ترکیبی احکام اور ُا ن معانی سے بحث‬
‫کی جاتی ہو جو ان الفاظ سے جوڑنے کی حالت میں‬
‫مراد لیے جاتے ہیں اور ان معانی کا تکملہ جو ناسخ و‬
‫منسوخ اور شان نزول اور غیرواضح مضمون کی‬
‫وضاحت میں بیان کیا جائے۔‬

‫اس تعریف کی روشنی میں علِم تفسیر مندرجہ ذیل‬


‫اجزاء پر مشتمل ہے‪: ‬‬

‫‪" .1‬الفاِظ قرآن کی ادائیگی کے طریقے" یعنی الفاظ‬


‫قرآن کو کس کس طرح پڑھا جاسکتا ہے؟ اس‬
‫کی توضیح کے لیے قدیم عربی مفسرین اپنی‬
‫تفسیروں میں ہر آیت کے ساتھ اس کی قرأتیں‬
‫بھی تفصیل سے واضح کرتے تھے اور اس مقصد‬
‫کے لیے ایک مستقل علم" علم قرأت" کے نام سے‬
‫بھی موجود ہے۔‬
‫‪" .2‬الفاظ قرآنی کے مفہوم" یعنی ان کی لغوی‬
‫معنی‪ ،‬اس کام کے لیے علم لغت سے پوری طرح‬
‫باخبر ہونا ضروری ہے اور اسی بنا پر تفسیر کی‬
‫کتابوں میں علما لغت کے حوالے عربی ادب کے‬
‫شواہد بکثرت ملتے ہیں۔‬
‫‪" .3‬الفاظ کے انفرادی احکام" یعنی ہر لفظ کے بارے‬
‫میں یہ معلوم ہونا کہ اس کا مادہ کیا ہے‪ ،‬یہ‬
‫موجودہ صورت میں کس طرح آیا ہے‪ ،‬اس کا‬
‫وزن کیا ہے اور اس وزن کے معانی و خواص کیا‬
‫ہیں؟ ان باتوں کے لیے علم صرف کی ضرورت‬
‫پڑتی ہے۔‬
‫‪" .4‬الفاظ کے ترکیبی احکام" یعنی ہر لفظ کے بارے‬
‫میں یہ معلوم ہونا کہ وہ دوسرے الفاظ کے‬
‫ساتھ مل کر کیا معنی دے رہا ہے؟ اس کی نحوی‬
‫ترکیب (‪ )Grammatical Analysis‬کیا ہیں؟‬
‫اس پر موجودہ حرکات کیوں آئی ہیں اور کن‬
‫معانی پر داللت کر رہی ہیں؟ اس کام کے لیے‬
‫علم نحو اور علم معانی سے مدد لی جاتی ہے۔‬
‫‪" .5‬ترکیبی حالت میں الفاظ کے مجموعی معنی"‬
‫یعنی پوری آیت اپنے سیاق و سباق میں کیا‬
‫معنی دے رہی ہے؟ اس مقصد کے لیے آیت کے‬
‫مضامین کے لحاظ سے مختلف علوم سے مدد لی‬
‫جاتی ہے‪ ،‬مذکورہ علوم کے عالوہ بعض اوقات‬
‫علم ادب اور علم بالغت سے کام لیا جاتا ہے‪،‬‬
‫بعض اوقات علم حدیث اور بعض اوقات علم‬
‫اصولِ فقہ سے۔‬
‫‪" .6‬معانی کے تکملے"یعنی آیات قرآنی کا پس منظر‬
‫اور جوبات قرآن کریم میں مجمل ہے اس کی‬
‫تفصیل‪ ،‬اس غرض کے لیے زیادہ تر علِم حدیث‬
‫سے کام لیا جاتا ہے‪ ،‬لیکن اس کے عالوہ بھی یہ‬
‫میدان اتنا وسیع ہے کہ اس دنیا کے ہر علم و فن‬
‫کی معلومات کھپ سکتی ہیں کیونکہ بسا‬
‫اوقات قرآن کریم ایک مختصر سا جملہ فرماتا‬
‫ہے مگر اس کی میں حقائق و اسرار کی ایک غیر‬
‫متناہی کائنات پوشیدہ ہوتی ہے مثًال قرآن کریم‬
‫کا ارشاد ہے‪: ‬‬

‫َو ِف ْی َا ْنُف ِس ُکْم َا َف اَل ُت ْب ِص ُر ْو َن (الذاریات‪)21:‬‬

‫اور تم اپنی جانوں میں غور کرو کیا تم نہیں دیکھتے۔‬

‫غور فرمائیے اس مختصر سے جملے کی تشریح و‬


‫تفصیل میں پورا علم االبدان (‪ )Physiology‬اور پورا‬
‫علِم نفسیات (‪ )Psychology‬سماجاتا ہے اس کے‬
‫باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالٰی نے اس آیت‬
‫میں اپنی تخلیقی حکمت بالغہ کے جن اسرار کی طرف‬
‫اشارہ فرمایا ہے وہ سب پورے ہو گئے ہیں؛ چنانچہ‬
‫تفسیر کے اس ذیلی جز میں عقل و تدبر‪ ،‬تجربات و‬
‫مشاہدات کے ذریعے انتہائی متنوع مضامین شامل‬
‫ہیں۔[‪]8‬‬

‫تفسیرالقرآن کے اصول‬
‫چونکہ ہرکام کی ایک اصل ہوتی ہے اور اصول کے‬
‫ساتھ ہونے والے کام کو کام کہا جاتا ہے‪ ،‬بے اصولی تو‬
‫کسی بھی شعبہ میں اچھی نہیں سمجھی جاتی؛ اسی‬
‫اصول پر تفسیر کے اصول بھی ہیں؛ تاکہ اس میں‬
‫دلچسپی پیدا ہو‪ ،‬اب ایک بات ضروری طور پر یہ رہ‬
‫جاتی ہے کہ وہ کیا ذرائع اور طریقے ہیں جن کی بنیاد‬
‫پر قرآن کریم کی تفسیر کی جاسکے‪ ،‬یقینًا ہم کو اس‬
‫کے لیے حق سبحانہ وتعالٰی کی طرف سے رہبری کی‬
‫گئی ہے؛ چنانچہ فرمایا‪ُ" :‬ھ َو اَّلِذ ْٓی َا ْن َز َل َع َلْی َک اْلِک ٰت َب ِم ْن ُہ‬
‫ٰا ٰی ٌت ُّم ْح َکٰم ٌت ُھ َّن ُا ُّم اْلِک ٰت ِب َو ُا َخ ُر ُم َت ٰش ِب ٰہ ٌت "۔(آل‬
‫عمران‪)7:‬‬
‫اے رسول!وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے‬
‫جس کی کچھ آیتیں تو محکم ہیں جن پر کتاب کی‬
‫اصل بنیاد ہے اورکچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔ گویا‬
‫اس آیت کی رو سے آیات کی اولین تقسیم دوطرح پر‬
‫کی گئی ہے۔ حسنا کا معنی کیا ہے‬

‫آیات محکمات‬

‫(‪)2‬‬

‫آیات متشابہات؛ پھرمتشابہات دوقسم پر ہیں‪:‬‬

‫(‪)1‬‬

‫جو لفظ بھی سمجھ سے باہر ہو جیسے حروف‬


‫مقطعات‬
‫(‪)2‬‬

‫لفظ تو سمجھ میں آتے ہوں؛ لیکن مفہوم ان کا قابل‬


‫فہم نہ ہو۔ پھرآیاِت محکمات کو مفسرین نے دوطرح پر‬
‫تقسیم کیا ہے‪:‬‬

‫(‪)1‬وہ آیتیں جن کے سمجھنے میں کسی قسم کی‬


‫دشواری نہ ہو جو بالکل واضح ہوں یعنی جس زبان‬
‫میں بھی ان کا ترجمہ کیا جائے سمجھنے والے کو‬
‫مشکل معلوم نہ ہوں اور بظاہر مفسرین کے پاس‬
‫کوئی اختالف رائے نہ ہو‪ ،‬جیسے پچھلی قوموں سے‬
‫متعلق واقعات اور جنت وجہنم سے متعلق آیات۔‬
‫(‪)2‬دوسری وہ آیتیں ہیں جن کے سمجھنے میں‬
‫کوئی ابہام یااجمال یا کوئی دشواری پائی جائے یا‬
‫ُا ن آیتوں کو سمجھنے کے لیے ان کے منظر وپس‬
‫منظر کو سمجھنا ضروری ہو جیسے وہ آیتیں جن‬
‫سے دقیق مسائل اور احکام نکلتے ہوں یااسرار‬
‫ومعارف ُا ن سے نکلتے ہوں‪ ،‬ایسی آیات کو سمجھنے‬
‫کے لیے انسان کو صرف زبان اور اس کی باریکیوں‬
‫کو جاننا کافی نہیں ہوتا؛ بلکہ اور بھی بہت سی‬
‫معلومات کی ضرورت پڑتی ہے‪ ،‬انہیں معلومات میں‬
‫سے ایک "ماخِذ " تفسیر کہالتا ہے۔‬

‫تفسیری مآخذ‬
‫یعنی وہ ذارئع جن سے قرآن کریم کی تفسیر معلوم‬
‫ہوسکتی ہے‪ ،‬یہ تقریبًا چھ قسم کی بتالئی گئی ہیں‪:‬‬

‫(‪)1‬تفسیر القرآن بالقرآن۔(قرآن کریم کی کسی آیت‬


‫یا لفظ کی تشریح قرآن ہی کی کسی دوسری آیت یا‬
‫لفظ سے کی جائے)‬
‫(‪)2‬تفسیر القرآن باالحادیث النبویہ صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم۔(قرآن مجید کے کسی آیت کی وضاحت‬
‫آنحضرت ﷺ کے کسی قول یا فعل سے کی جائے)‬
‫(‪)3‬تفسیر القرآن باقوال الصحابۃ رضی اللہ عنہم‬
‫اجمعین۔(قرآن پاک کے کسی آیت کی تشریح‬
‫حضرات صحابہ کرام میں سے کسی صحابی کے‬
‫قول سے کی جائے‪ ،‬تفسیری شرائط کے ساتھ)‬
‫(‪)4‬تفسیر القرآن باقوال التابعین رحمہم اللہ۔(قرآن‬
‫مجید کے کسی آیت کی وضاحت حضرات تابعین‬
‫میں سے کسی تابعی کے قول سے کی جائے‪ ،‬تفسیری‬
‫شرائط کے ساتھ)‬
‫(‪)5‬تفسیر القرآن بلغۃ العرب۔(قرآن مجید کے کسی‬
‫آیت یا کسی لفظ کی تشریح اہل عرب کے اشعار اور‬
‫عربی محاورات کے مطابق کی جائے‪ ،‬تفسیری‬
‫شرائط کے ساتھ)‬
‫(‪)6‬تفسیرالقرآن بعقل السلیم۔(قرآن مجید کی‬
‫تشریح وتوضیح اپنی صحیح سمجھ بوجھ اور‬
‫منشائے خدا وندی کو ملحوظ رکھ کرعلوم اسالمیہ‬
‫کی روشنی میں‪ ،‬حاالت وواقعات‪ ،‬مواقع ومسائل پر‬
‫اس کا صحیح انطباق کرنا اور اس کے اسرار ورموز‬
‫کو کھولنا اور بیان کرنا تفسیرالقرآن بعقل سلیم‬
‫کہالتا ہے)‬

‫ہرایک کی تھوڑی سی تفصیل ضروری مثالوں سے ذیل‬


‫میں ذکر کی جاتی ہے‪:‬‬

‫پہال ماخذ‪ ،‬تفسیرالقرآن بالقرآن‬


‫اختصار کی غرض سے اس کی صرف تین مثالیں پیش‬
‫کی جاتی ہیں‪:‬‬

‫پہلی مثال‬

‫سورۃ الفاتحہ کو ہی لیجئے‪ِ ،‬ا س کی دونوں آیتیں اس‬


‫طرح ہیں‪" :‬اْه ِد َن االِّص َر اَط اْلُم ْس َت ِق يَم ‪ِ ،‬ص َر اَط اَّلِذ يَن َأ ْن َع ْم َت‬
‫َع َلْي ِه ْم َغ ْي ِر اْلَم ْغ ُض وِب َع َلْي ِه ْم َو اَل الَّض اِّليَن "۔(الفاتحۃ‪)6،7:‬‬

‫ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما‪ ،‬ان لوگوں کے‬


‫راستے کی جن پر تو نے انعام کیا ہے۔ جن پر انعام کیا‬
‫گیا ہے اس کی تفسیر"سورۃالنساء" کی درِج ذیل آیت‬
‫میں کی گئی ہے‪َ" :‬و َم ْن ُي ِط ِع اَهَّلل َو الَّر ُس وَل َف ُأ وَلِئَك َم َع‬
‫اَّلِذ يَن َأ ْن َع َم اُهَّلل َع َلْي ِه ْم ِم َن الَّن ِب ِّي يَن َو الِّص ِّد يِق يَن َو الُّش َه َد اِء‬
‫َو الَّص اِلِح يَن َو َح ُس َن ُأ وَلِئَك َرِف يًق ا"۔ (النساء‪)69:‬‬

‫اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں‬


‫گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام‬
‫فرمایا ہے‪ ،‬یعنی انبیا‪ ،‬صدیقین‪ ،‬شہداءاور صالحین اور‬
‫وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔‬
‫دوسری مثال‬

‫"َف َت َلـّٰٓق ی ٰا َد ُم ِم ْن َّر ِّب ٖہ َکِل ٰم ٍت َف َت اَب َع َلْی ِہ ‪ِo‬ا َّن ٗہ ُھ َو الَّت َّو اُب‬
‫الَّر ِح ْی ُم "۔ (البقرۃ‪)37:‬‬

‫پھر آدؑم نے اپنے پروردگار سے (توبہ کے )کچھ الفاظ‬


‫سیکھ لیے(جن کے ذریعہ انہوں نے توبہ مانگی)چنانچہ‬
‫اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی‪ ،‬بے شک وہ بہت معاف‬
‫کرنے واال‪ ،‬بڑا مہربان ہے۔ اس آیت میں کلمات کا تذکرہ‬
‫ہے مگر وہ کلمات کیا تھے؟ دوسری آیت میں اس کی‬
‫تفسیرموجود ہے‪َ" :‬ق ااَل َر َّب َنا َظ َلْم َنآ َا ْنُف َس ـَنا‪َ ،‬و ِاْن َّلْم َتْغ ِف ْر‬
‫َلَنا َو َت ْر َح ْم َنا َلَن ُکْو َن َّن ِم َن اْلٰخ ِس ِر ْی َن "۔(االعراف‪)23:‬‬

‫دونوں بول اٹھے کہ‪:‬اے ہمارے پروردگار!ہم اپنی جانوں‬


‫پر ظلم کر گذرے ہیں اور اگرآپ نے ہمیں معاف نہ‬
‫فرمایااور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینًا ہم نامراد لوگوں‬
‫میں شامل ہوجائیں گے۔‬
‫تیسری مثال‬

‫"سورۃ االنعام" کی آیت نازل ہوئی‪" :‬اَّلِذ يَن آَم ُنوا َو َلْم‬
‫َي ْلِب ُس وا ِإ يَم اَن ُه ْم ِب ُظ ْلٍم ُا وِٰل ئَک َلُہ ُم اَاْلْم ُن َو ُہ ْم ُّم ْہ َت ُد ْو َن "۔‬
‫(االنعام‪)82:‬‬

‫جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کے‬
‫ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی آنے نہ دیا‪ ،‬امن وچین تو‬
‫بس ان ہی کا حق ہے اور وہی ہیں جو صحیح راستے‬
‫پر پہنچ چکے ہیں۔ توصحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم‬
‫میں سے کون ایسا ہے جس سے ( کسی نہ کسی طرح‬
‫کا) ظلم صادر نہ ہوا ہو‪ ،‬تو اللہ نے ظلم کی تفسیر‬
‫ومراد کو واضح کرنے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی‪ِ " :‬إ َّن‬
‫الِّش ْر َك َلُظ ْلٌم َع ِظ يٌم "۔(لقمان‪)13:‬‬

‫کہ شرک ظلم عظیم ہے۔ یعنی آیت باال میں ایمان کے‬
‫ساتھ جس ظلم کا تذکرہ آیا ہے وہاں ظلم سے مراد‬
‫ہے۔[‪]9‬‬ ‫شرک‬

‫تفسیر القرآن بالقرآن کے موضوع پرایک گرانقدر کتاب‬


‫مدینہ منورہ کے ایک عالم شیخ محمد امین بن محمد‬
‫مختار کی تالیف ہے جو "اضواء البیان فی ایضاح‬
‫القرآن بالقرآن" کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔‬

‫دوسرا ماخذ‪ ،‬تفسیرالقرآن بالحدیث‬


‫والسیرۃ‬
‫قرآن پاک کی تفسیررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم‬
‫کے اقوال وافعال کی روشنی میں کرنا تفسیر القرآن‬
‫بالحدیث والسیرۃ کہالتا ہے‪ ،‬خود قرآن کریم کی متعدد‬
‫آیات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم کے دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ‬
‫آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اقوال وافعال اور عملی‬
‫زندگی سے آیات قرآنیہ کی تفسیر وتشریح فرمائیں۔‬
‫(النحل‪)44:‬‬

‫تو جس طرح اللہ تعالی نے انسانی زندگی کو بندگی‬


‫بنانے کے لیے اپنے احکامات کو قرآن حکیم کی شکل‬
‫میں نازل فرمایا‪ ،‬اسی طرح ان احکامات پر عمل آوری‬
‫کے لیے آپ ﷺکے پوری عملی زندگی کو در حقیقت‬
‫قرآن پاک کی عملی تفسیر بناکر مبعوث فرمایا‪ ،‬جو‬
‫کچھ احکامات قرآن کریم کی شکل میں نازل کیے گئے‬
‫ان پر سب سے پہلے آپ ہی نے عمل کرکے دکھالیا اور‬
‫ان احکامات خدا وندی کو عملی جامہ پہناکر دنیا کے‬
‫سامنے پیش کرنا یہ آپ کی خصوصیات میں سے ایک‬
‫نمایا خصوصیت ہے‪ ،‬خواہ وہ حکم ایمان‪ ،‬توحید‪ ،‬نماز‪،‬‬
‫روزہ‪ ،‬زکوۃ‪ ،‬حج‪ ،‬صدقہ وخیرات‪ ،‬جنگ وجدال‪ ،‬ایثار‬
‫وقربانی‪ ،‬عزم واستقالل‪ ،‬صبر و شکر سے تعلق رکھتا ہو‬
‫یا حسن معاشرت وحسن اخالق سے‪ ،‬ان سب میں قرآن‬
‫مجید کی سب سے پہلی وعمدہ عملی تفسیر نمونہ‬
‫وآئیڈیل کے طور پر آنحضرت ﷺ ہی کی ذات اقدس‬
‫میں ملے گی‪ ،‬اس میں بھی دو قسم کی تفسیر ہے ایک‬
‫تفسیرتو وہ قرآن پاک کے مجمل الفاظ وآیات کی‬
‫تفسیر وتوضیح ہے جن کی مراد خدا وندی واضح نہیں‬
‫تو ان کی مراد واجمال کی تفصیل کو زبان رسالت مآب‬
‫ﷺ نے واضح فرمادیا اور دوسری قسم عملی تفسیر‬
‫کی ہے‪ ،‬یعنی قرآن حکیم کی وہ آیات جن میں واضح‬
‫احکامات دئے گئے ہیں جن کا تعلق عملی زندگی کے‬
‫پورے شعبۂ حیات سے ہے‪ ،‬خواہ وہ عقائد‪ ،‬عبادات‪،‬‬
‫معامالت کی رو سے ہوں یا حسن معاشرت وحسن‬
‫اخالق کی رو سے اس میں بھی آپ نہ وہ کمال درجہ‬
‫کی عبد یت اور اطاعت وفرمانبرداری کی ایسی بے‬
‫مثال وبے نظیر عملی تفسیر وتصویر امت کے سامنے‬
‫پیش فرمائی جس طرح کالم اللہ تمام انسانی کالموں‬
‫پر اعجاز وفوقیت رکھتا ہے اسی طرح آپ کی عملی‬
‫زندگی کا ہر قول وفعل بھی تمام انسانی زندگیوں پر‬
‫اعجاز وفوقیت رکھتا ہے‪ ،‬دوسری قسم کی مثالیں کتب‬
‫سیر‪ ،‬کتب مغازی‪ ،‬کتب تاریخ‪ ،‬کتب دالئل اور کتب‬
‫شمائل میں بکثرت ملیں گے؛ بلکہ یہ کتابیں تو آپ ہی‬
‫کی عملی تفسیر پیش کرنے کے لیے لکھی گئی ہیں جن‬
‫کی مثالوں کو یہاں ذکر نہیں کیا جا رہا ہے اگر دیکھنا‬
‫چاہیں تو ہمارے ہوم پیج کے عنوان"سیرت طیبہ" میں‬
‫مالحظہ فرماسکتے ہیں اور پہلی قسم کی مثالیں کتب‬
‫احادیث وتفسیر میں بکثرت ملیں گی ان میں سے‬
‫بغرض اختصار صرف تین مثالیں پیش کی جا رہی‬
‫ہیں‪:‬‬

‫پہلی مثال‬

‫سورۂ بقرہ کی آیت شریفہ‪َ" :‬و ُکُلْو ا َو اْش َر ُب ْو ا َح ّٰت ى َی َت َبَّی َن‬
‫َلُکُم اْلَخ ْی ُط اَاْلْب َی ُض ِم َن اْلَخ ْی ِط اَاْلْس َو ِد ِم َن اْلَف ْج ِر "۔‬
‫(البقرۃ‪ )187:‬اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح‬
‫کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہوکرتم پر‬
‫واضح (نہ) ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیط‬
‫ابیض اور خیط اسود کی مراد کو اپنے ارشاد مبارک‬
‫سے واضح فرمایا‪ِ " : ‬إ َّن َم ا َذ ِلَك َس َو اُد الَّلْي ِل َو َب َي اُض‬
‫الَّنَه ار"۔[‪ ]10‬کہ خیط ابیض سے مراد صبح صادق اور‬
‫خیط اسود سے مراد صبح کاذب ہے۔‬

‫دوسری مثال‬

‫سورہ نور کی آیت‪َ" :‬ا لَّز اِن َی ُۃ َو الَّز اِن ْی َف اْج ِل ُد ْو ا ُکَّل َو اِح ٍد‬
‫ِّم ْن ُہ َم ا ِم اَئ َۃ َج ْلَد ٍۃ ‪َّ ،‬و اَل َت ْا ُخ ْذ ُکْم ِب ِہ َم ا َر ْا َف ٌۃ ِف ْی ِد ْی ِن اللِہ ِاْن‬
‫ُکْنُت ْم ُت ْؤ ِم ُن ْو َن ِب اللِہ َو اْلَی ْو ِم اٰاْل ِخ ِر ‪َ ،‬و ْلَی ْش َہ ْد َع َذ اَب ُہ َم ا َط اِئ َف ٌۃ‬
‫ِّم َن اْلُم ْؤ ِم ِن ْی َن "۔ (النور‪)2:‬‬
‫زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرددونوں کو‬
‫سوسو کوڑے لگاؤاور اگر تم اللہ اوراس کے رسول پر‬
‫ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین کے معاملہ میں ان پر‬
‫ترس کھانے کا کوئی جذبہ تم پرغالب نہ آئے اور یہ‬
‫بھی چاہیے کہ مؤمنوں کا ایک مجمع ان کی سزا کو‬
‫کھلی آنکھوں دیکھے۔‬

‫ظاہر ہے کہ اس آیت سے زانیہ اور زانی کی سزامیں‬


‫سو کوڑے مارنے کاذکر ہے‪ ،‬اس میں شادی شدہ اور غیر‬
‫شادی شدہ کا کوئی فرق نہیں کیا گیا؛اس کی تفسیر‬
‫احادیِث پاک سے واضح ہوتی ہے کہ غیر شادی شدہ کو‬
‫کوڑوں کی سزا دی جائے گی جیسا کے بخاری شریف‬
‫میں ہے‪َ" :‬ع ْن َز ْي ِد ْب ِن َخ اِلٍد َرِض َي اُهَّلل َع ْن ُه َع ْن َر ُس وِل اِهَّلل‬
‫َص َّلى اُهَّلل َع َلْي ِه َو َس َّلَم َأ َّن ُه َأ َم َر ِف يَم ْن َز َن ى َو َلْم ُي ْح َص ْن‬
‫ا "۔[‪]11‬‬
‫ِب َج ْلِد ِم اَئ ٍة َو َتْغ ِر يِب َع ٍم‬
‫زید بن خالد سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے غیر‬
‫شادی شدہ زنا کرنے والوں کو سو کوڑے مارنے کا اور‬
‫ایک سال کے لیے وطن سے نکالنے کاحکم دیا۔‬

‫اور شادی شدہ مرد وعورت کو سنگسار کیا جائے گا‪:‬‬


‫"الَّش ْي ُخ َو الَّش ْي َخ ُة ِإ َذ اَز َن َي ا َف اُر ُج ُم وُه َم ا َأ ْلَب َّت َة ‪َ ،‬رَج َم َر ُس ْو ُل‬
‫اِهلل َص َّلى اُهَّلل َع َلْي ِه َو َس َّلَم َو َرَج ْم َنا َبْع َد ٗه"۔[‪ ]12‬شادی شدہ‬
‫مرد وعورت جب زنا کے مرتکب ہوں تو ان کو رجم‬
‫کرو‪ ،‬یعنی سنگسار کردو‪ ،‬راوی کہتے ہیں کہ خود‬
‫حضور ﷺ نے اپنی زندگی میں ایسی سزادی ہے اور‬
‫بعد میں ہم نے بھی ایسی سزا دی ہے۔‬

‫تیسری مثال‬

‫قرآن کی تفسیر حدیث سے کرنے کی مثال میں یہ آیت‬


‫پیش کی جاسکتی ہے‪َ" :‬غ ْی ِر اْلَم ْغ ُض ْو ِب َع َلْی ِہ ْم‬
‫َو اَل الَّض اِّلْی َن "۔ (الفاتحۃ‪)7:‬‬

‫نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر جن پر غضب نازل ہوا ہے‬


‫اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں۔ قرآن پاک‬
‫میں المغضوب اور الضال کا مصداق متعین نہیں کیا‬
‫گیا ہے ؛لیکن ان دونوں کا مصداق متعین کرتے ہوئے‬
‫حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا‪ِ" :‬إ َّن‬
‫اْلَم ْغ ُض وِب َع َلْي ِه ْم َأ ْلَي ُه ْو ُد َو ِإ َّن الَّض اِّلْي َن الَّن َص اَر ٰى "۔[‪ ]13‬جن‬
‫پر غضب نازل ہوا اس سے مراد یہود ہیں اور جو‬
‫راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں اس سے مراد نصاری ہیں۔‬
‫اس طرح کی بے شمار مثالیں کتب احادیث میں بکثرت‬
‫موجود ہیں اور اس نقطۂ نظر سے بھی کئی تفاسیر‬
‫لکھی گئی ہیں‪ُ ،‬ا ن میں سے چند تفاسیر یہ ہیں۔‬

‫‪1‬۔ قاضی بیضاوی کی انوار التنزیل واسرارالتاویل‬


‫المعروف تفسیر بیضاوی۔‬
‫‪2‬۔ عالمہ خازن کی لباب التاویل فی معانی التنزیل‬
‫المعروف خازن۔‬
‫‪3‬۔ عالمہ ابن کثیر کی تفسیر ابن کثیر۔‬
‫‪4‬۔ اردو زبان میں تفسیر حقانی(فتح المنان)موالنا‬
‫عبد الحق حقانی دہلوی کی ہے۔‬

‫تیسرا ماخذ‪ ،‬تفسیرالقرآن باقوال الصحابہ‬


‫حضرات صحابہ چونکہ بجا طور پر خیر امت کہالنے‬
‫کے مستحق ہیں جنھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم سے براہ راست قرآن کریم کی تعلیم وتربیت‬
‫حاصل کی‪ ،‬ان میں سے بعض وہ ہیں جو اپنی پوری‬
‫زندگی اس کام کے لیے وقف کر دیں کہ قرآن کریم‬
‫اوراس کی تفسیر وتاویل کو بالواسطہ آپ صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم سے حاصل کریں‪ ،‬اہل زبان ہونے کے باوجود‬
‫ان کو صرف زبان دانی پر بھروسا نہ تھا؛ چنانچہ‬
‫بعضے صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سبقًا‬
‫سبقًا قرآن کریم کو پڑھا‪ ،‬مشہور تابعی ابوعبدالرحمن‬
‫سلمی فرماتے ہیں‪َ" :‬ح َّد َث َنا اَّلِذ ْي َن َكاُن ْو ا َي ْق َر َؤ ْو َن اْلُق َر آَن‬
‫َكُع ْث َم اَن ْب ِن َع َّف اَن َو َع ْب ِد ِهّٰللا ْب ِن َم ْس ُع ْو ٍد َو َغ ْي ِر ِه َم ا َأ َّن ُه ْم‬
‫َكاُن ْو ا ِإ َذ ا َت َع َّلُم ْو ا ِم َن الَّن ِب ِّي ﷺ َع َش َر آَي اِت َلْم َي َت َج اَو ُز ْو َه ا‬
‫"۔[‪]14‬‬
‫َم‬ ‫َع‬ ‫َح َّت ى َي ْع َلُم ْو ا َم اِف ْي َه ا ِم َن اْلِع ْلِم َو اْل‬
‫ِل‬

‫صحابہ میں سے جو قرآن کی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ‬


‫وسلم سے حاصل کیا کرتے تھے‪ ،‬مثًالعثمان بن عفان‪،‬‬
‫عبد اللہ بن مسعود وغیرہ انہوں نے ہمیں یہ بتایا کہ وہ‬
‫لوگ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیتیں‬
‫سیکھتے تو ان آیتوں سے آگے نہ بڑھتے جب تک ان‬
‫آیتوں کی تمام علمی وعملی باتوں کو نہ جان لیتے۔‬

‫یہ ہے حضرات صحابہ کا براہ راست آپ صلی اللہ علیہ‬


‫وسلم سے تعلیم وتربیت کا سیکھنا کہ جتنا سیکھتے‬
‫اتنا عمل کا بھی اہتمام فرماتے شاید اسی وجہ سے‬
‫مسند احمد میں انس کا یہ اثرمنقول ہے‪َ" :‬كاَن الَّر ُج ُل‬
‫ِإ َذ اَق َر أ اْلَب َق َر َة َو آَل ِع ْم َر اَن َج َّد ِف ْي َنا"۔[‪ ]15‬یعنی جب کوئی‬
‫شخص سورۃ بقرہ وآل عمران کو پڑھ لیتا تووہ ہماری‬
‫نظروں میں بہت ہی عزت واال سمجھا جاتا اور موطا‬
‫مالک کی روایت میں ہے‪َ" :‬أ َّن َع ْب َد اِهَّلل ْب َن ُع َم َر َم َكَث‬
‫اب‬ ‫اللہ‬ ‫عبد‬ ‫َت َّل َه ا"۔[‪]16‬‬ ‫ي‬ ‫ا‬ ‫َث‬ ‫َق‬ ‫َع َلى ُس وَرِة اْل‬
‫ِن‬ ‫ُم‬ ‫َع‬ ‫َي‬ ‫َن‬ ‫ِن‬ ‫ِس‬ ‫َي‬ ‫ِن‬ ‫َم‬ ‫ِة‬ ‫َر‬ ‫َب‬
‫عمر کو سورۂ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے۔ یہاں‬
‫سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ابن عمر اتنے کمزور ذہن‬
‫والے تھے کہ سورۂ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے‪،‬‬
‫جبکہ موجودہ دور میں کمزور سے کمزور طالب علم‬
‫اتنے عرصہ سے کم میں پورا قرآن کریم حفظ کرلیتا ہے‪،‬‬
‫دراصل بات یہ تھی کہ آٹھ سال کی مدت ابن عمر کو‬
‫سورۂ بقرہ کے الفاظ اور اس کی تفسیر وتاویل اور اس‬
‫کے متعلقات کے ساتھ حاصل کرنے میں لگی‪ ،‬اس کی‬
‫تائید ابن مسعود کے اس اثر سے ہوتی ہے جس کو ابن‬
‫کثیر نے نقل کیا ہے‪" :‬والذي ال إلہ غيرہ‪ ،‬ما نزلت آية من‪،‬‬
‫كتاب اللہ إال وأنا أعلم فيمن نزلت؟ وأين نزلت؟ ولو‬
‫التیتہ"۔[‪]17‬‬ ‫أعلم أحد اأعلم بکتاب اللہ منی تنالہ المطایا‬

‫قسم ہے اس ذات کی جس کے عالوہ کوئی معبود نہیں‬


‫کہ قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی‬
‫جس کے بارے میں مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کس‬
‫بارے میں اور کہاں نازل ہوئی اور اگر مجھے معلوم‬
‫ہوتا کہ کوئی شخص ایسی معلومات مجھ سے زیادہ‬
‫رکھتا ہے اور سواریاں اس شخص تک پہونچاسکتی‬
‫ہیں تو میں اس کے پاس ضرور جاؤں گا۔‬

‫یہ چند نمونے ہیں حضرات صحابہ کی جانفشانی اور‬


‫ان کی محنت کے جو تفسیر قرآن کے سلسلہ میں پیش‬
‫کیے گئے‪ ،‬یوں تو بہت سی آیات کی تفسیر حضرات‬
‫صحابہ کے اقوال سے ثابت ہیں ان میں سے کچھ برائے‬
‫نمونہ پیش ہیں۔‬

‫پہلی مثال‬

‫ایک دفعہ ابن عمؓر کی خدمت میں ایک شخص حاضر‬


‫ہوا اور درج ذیل آیت کی تفسیر دریافت کی‪َ" :‬أ َو َلْم َي َر‬
‫اَّلِذ يَن َكَف ُر وا َأ َّن الَّس َم اَو اِت َو اَأْلْر َض َكاَن َت ا َر ْتًق ا َف َف َت ْق َناُه َم ا"۔‬
‫(االنبیاء‪ )30:‬کیا کفار نے دیکھا نہیں کہ آسمان وزمین‬
‫بند تھے پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔ ابن عمرنے اس سے‬
‫فرمایا کہ تم ابن عباس کے پاس جاؤ اور ان سے اس‬
‫کی تفسیر معلوم کرو اور وہ جو تفسیر بتائیں وہ‬
‫مجھے بھی بتاتے جانا‪ ،‬وہ شخص ابن عباس ‪ ke‬پاس‬
‫پہنچااور درج باال آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ ﷺ نے‬
‫فرمایا کہ‪ :‬آسمان خشک تھے ان سے بارش نہیں ہوتی‬
‫تھی اور زمین بانجھ تھی اس سے کچھ ُا گتا نہیں تھا‪،‬‬
‫بارش کے طفیل یہ پودے اگانے لگی؛گویا آسمان کا‬
‫فتق(پھٹنا)بارش کے ساتھ ہے اور زمین کا پھل پودے‬
‫اگانے سے۔ اس شخص نے ابن عمر کو جب یہ تفسیر‬
‫بتائی تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالی کی جانب سے‬
‫ہے۔[‪]18‬‬ ‫ان کو خصوصی علم عطا ہوا‬

‫دوسری مثال‬

‫" َو َا ْن ِف ُق ْو ا ِف ْی َس ِب ْی ِل اللِہ َو اَل ُت ْلُق ْو ا ِب َاْی ِد ْی ُکْم ِا َلى الَّت ْہ ُلَکِۃ ‪،‬‬
‫َو َا ْح ِس ُن ْو ا‪ِ ،‬اَّن اللَہ ُی ِح ُّب اْلُم ْح ِس ـِن ْی َن "۔(البقرۃ‪ )195:‬اور‬
‫خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور نہ ڈالو اپنی جان کو‬
‫ہالکت میں اور نیکی کرو‪ ،‬بے شک اللہ تعالی دوست‬
‫رکھتا ہے نیکی کرنے والوں کو۔ اس آیت کی تشریح‬
‫میں مفسرین نے ابوایوب انصاری کا ارشاد نقل کیا ہے‬
‫کہ‪" :‬التھلکۃ االقامۃ فی االھل والمال وترک الجھاد"۔‬
‫(تفسیر ابن کثیر‪ ،‬تحت قولہ َو اَل ُت ْلُق ْو ا ِب َاْی ِد ْی ُکْم ِا َلى‬
‫الَّت ْہ ُلَکِۃ )‬

‫"التھلکۃ "سے مراد گھر اور مال کی مصروفیات میں‬


‫لگا رہنا اور جہاد کو چھوڑ بیٹھنا ہے۔ عام مفسرین نے‬
‫اپنی اپنی تفاسیر میں اس تفسیر کو خاص طور سے‬
‫نقل کیا ہے۔‬

‫تیسری مثال‬

‫عالمہ طبری روایت کرتے ہیں کہ عمرنے صحابہ سے‬


‫درج ذیل آیت کے متعلق دریافت کیا‪َ" : ‬أ َي َو ُّد َأ َح ُد ُكْم َأ ْن‬
‫َو َأ ْع َناٍب‬
‫َت ْج ِر ي ِم ْن َت ْح ِت َه ا اَأْلْن َه اُر‬ ‫ي‬ ‫ِخ‬ ‫َن‬ ‫ْن‬ ‫ِم‬ ‫َتُكوَن َلُه َج َّن ٌة‬
‫ٍل‬
‫اْلِك َب ُر َو َلُه ُذ ِّر َّي ٌة ُض َع َف اُء‬
‫َو َأ َص اَب ُه‬ ‫َلُه ِف يَه ا ِم ْن ُكِّل الَّث َم َر اِت‬
‫َف اْح َت َر َق ْت "۔(البقرۃ‪)266:‬‬ ‫َف َأ َص اَب َه ا ِإ ْع َص اٌر ِف يِه َن اٌر‬
‫کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ اس کا‬
‫کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے نیچے‬
‫نہریں بہتی ہوں (اور)اس کو اس باغ میں اور بھی ہر‬
‫طرح کے پھل حاصل ہوں اور بڑھاپے نے اسے آپکڑا‬
‫ہواور اس کے بچے ابھی کمزور ہوں‪ ،‬اتنے میں ایک آگ‬
‫سے بھرا بگوال آکر اس کو اپنی زد میں لے لے اور پورا‬
‫باغ جل کر رہ جائے۔‬

‫کوئی بھی اس کا شافی جواب نہ دے سکے‪ ،‬ابن عباس‬


‫نے عرض کیا کہ میرے دل میں ایک بات آ رہی ہے‪ ،‬عمر‬
‫نے فرمایا کہ آپ بال جھجک برمال بیان کیجیے‪ ،‬ابن‬
‫عباس نے فرمایا‪" :‬اللہ تعالی نے اس آیت میں ایک مثال‬
‫بیان کی ہے فرمایا ‪:‬کیا تم میں سے کوئی شخص اس‬
‫بات کو پسند کرتا ہے کہ عمر بھر نیکی کا کام کرتا رہے‬
‫اور جب اس کا آخری وقت آئے جب کے نیکیوں کی‬
‫اسے زیادہ ضرورت ہوتو ُبرا کام کرکے سب نیکیوں کو‬
‫برباد کر دے"۔[‪ ]19‬ایک اہم بات اس بارے میں اہل‬
‫اصول نے بتالئی ہے کہ جن صحابہ کے تفسیری اقوال‬
‫میں صحیح وسقیم ہر طرح کی روایتیں ملتی ہیں تو‬
‫ان اقوال کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کیے جانے سے پہلے‬
‫اصولِ حدیث کے اعتبار سے ان کی جانچ ضروری ہے۔‬
‫‪2‬۔ نیز دوسرے یہ کہ حضرات صحابہ کے اقوال تفسیر‬
‫اسی وقت حجت‪ ،‬دلیل سمجھے جائیں گے جبکہ‬
‫آپﷺ سے آیت شریفہ کی کوئی صریح تفسیر مستند‬
‫طورپر ثابت نہ ہو؛چنانچہ اگر آپ ﷺ سے تفسیر‬
‫منقول ہو تو پھر صحابہ سے اقوال محض اس تفسیر‬
‫کی تائید شمار کیے جائنگے اور اگر آپ ﷺ کے معارض‬
‫کوئی قول صحابی ہوتو اس کو قبول نہ کیا جائےگا۔‬
‫‪3‬۔ تیسرے یہ کہ صحابہ کے اقوال تفسیر میں اگر‬
‫تعارض اور ٹکراؤ ہو تو جہاں تک ہو سکے ان کے اقوال‬
‫میں مطابقت پیداکی جائیگی اگر مطابقت نہ ہو سکے‬
‫تو پھر مجتہد کو اس بات کا اختیار ہوگا کہ دالئل کی‬
‫روشنی میں جس صحابی رضی اللہ عنہ کا قول‬
‫مضبوط ہے اس کو اختیار کرلے۔[‪ ]20‬اس موضوع پر‬
‫مستقل کتاب‪ ،‬تنویرالمقباس فی [‪ / ]21‬تفسیر ابن‬
‫عباس]"ہے اور اس کے عالوہ دیگر کتب تفاسیر میں‬
‫صحابہ کی تفسیری روایات مذکور ہیں۔‬

‫چوتھا ماخذ‪:‬تفسیر القرآن باقوال‬


‫التابعین‬
‫واضح ہونا چاہیے کہ تابعین سے مراد تمام ہی تابعین‬
‫نہیں ہیں؛ بلکہ وہ حضرات تابعین جنھوں نے حضرات‬
‫صحابہ کی صحبت اٹھائی ہواور ان کی صحبت سے‬
‫علمی استفادہ کیا ہو‪ ،‬اہل علم میں اس بات پربھی‬
‫اختالف ہے کہ تفسیر قرآن کے بارے میں اقوال تابعین‬
‫حجت ہیں یا نہیں‪ ،‬اس معاملہ میں عالمہ ابن کثیر نے‬
‫بہت ہی معتدل بات لکھی ہے کہ اگر کوئی تابعی کسی‬
‫صحابی سے تفسیر نقل کر رہے ہوں تو اس کا حکم‬
‫صحابی کی تفسیر جیسا ہوگا اور اگر خود تابعی اپنا‬
‫قول بیان کریں تو دیکھا جائےگا کہ دوسرے کسی‬
‫تابعی کا قول ان کے خالف تو نہیں اگر خالف میں‬
‫کوئی قول ہو تو پھر اس تابعی کے قول کو حجت نہیں‬
‫قرار دیا جائےگا؛ بلکہ ایسی آیات کی تفسیر کے لیے‬
‫قرآن کی دوسری آیتیں احادیث نبویہ آثارصحابہ‬
‫اورلغت عرب جیسے دوسرے دالئل پر غور کرکے فیصلہ‬
‫کیا جائےگا‪ ،‬ہاں اگر تابعین کے درمیان میں کوئی‬
‫اختالف نہ ہوتو ان کے تفسیری اقوال کو بالشبہ حجت‬
‫گا۔[‪]22‬‬ ‫اورواجب االتباع قراردیا جائے‬

‫جب تابعین کے اقوال پر تفسیر کی جاسکتی ہے تو اس‬


‫کے کچھ نمونے بھی ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں‪: ‬‬
‫پہلی مثال‬

‫ارشاد باری تعالی ہے‪َ" :‬و الّٰس ِب ُق ْو َن اَاْلَّو ُلْو َن ِم َن اْلُم ٰہ ِج ِر ْی َن‬
‫َو اَاْلْن َص اِر َو اَّلِذ ْی َن اَّت َب ُع ْو ُھ ْم ِب ـِا ْح َس اٍن ‪َّ ،‬ر ِض َی اللُہ َع ْن ُھ ْم‬
‫َو َر ُض ْو ا َع ْن ُہ َو َا َع َّد َلُھ ْم َج ّٰن ٍت َت ْج ِر ْی َت ْح َت َہ ا اَاْلْن ٰہ ُر ٰخ ِلِد ْی َن‬
‫ِف ْی َہ آ َا َب ًد ا‪ٰ ،‬ذ ِل َک اْلَف ْو ُز اْلَع ِظ ْی ُم "۔(التوبہ‪)100:‬‬

‫اور جولوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے‬


‫اور مددکرنے والے اور جو ان کے پیروہوئے نیکی کے‬
‫ساتھ اللہ تعالی راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے‬
‫اس سے اور اللہ نے تیار کررکھا ہے ان کے واسطے ایسے‬
‫باغات کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں رہا کریں ان‬
‫میں وہ ہمیشہ یہی ہے بڑی کامیابی۔ اس آیت شریفہ‬
‫میں حضرات صحابہ کے مختلف درجاِت فضیلت بیان‬
‫کیے گئے ہیں ایک سابقین اولین کا‪ ،‬دوسرے ان کے بعد‬
‫والوں کا‪ ،‬اب سابقین اولین کون ہیں‪ ،‬اس میں مفسرین‬
‫کے مختلف اقوال نقل کیے جاتے ہیں‪ ،‬کبار تابعین سعید‬
‫بن المسیب‪ ،‬ابن سیرین اور قتادہ کا یہ قول ہے کہ اس‬
‫سے مراد وہ صحابہ ہیں جنھوں نے دونوں قبلوں کی‬
‫طرف منہ کرکے نماز پڑھی اور عطاء بن ابی رباح کا یہ‬
‫قول ہے کہ سابقین اولین سے مرادبدرمیں شریک ہونے‬
‫والے صحابہ ہیں اورشعبی نے فرمایا کہ وہ جو حدیبیہ‬
‫رہے۔[‪]23‬‬ ‫کے موقع پر بیعت رضوان میں شامل‬

‫اس آیت میں تابعین کے مختلف اقوال سامنے آئے‪،‬‬


‫مفسرین نے کسی قول کو رد نہیں کیااور ان کے درمیان‬
‫میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔‬

‫دوسری مثال‬

‫ارشاد باری تعالی ہے‪َ " :‬ا لَّت اِئ ُب ْو َن اْلٰع ِب ُد ْو َن اْلٰح ِم ُد ْو َن‬
‫الَّس اِئُح ْو َن الّٰر ِک ُع ْو َن الّٰس ِج ُد ْو َن اٰاْل ِم ُر ْو َن ِب اْلَم ْع ُر ْو ِف‬
‫ْل‬ ‫ْل‬
‫َو الَّناُہ ْو َن َع ِن ا ُم ْن َکِر َو ا ٰح ِف ُظ ْو َن ِلُح ُد ْو ِد اللِہ ‪َ ،‬و َب ِّش ِر‬
‫اْلُم ْؤ ِم ِن ْی ََن "۔ (التوبہ‪)112:‬‬

‫توبہ کرنے والے‪ ،‬اللہ کی بندگی کرنے والے‪ ،‬اس کی حمد‬


‫کرنے والے‪ ،‬روزے رکھنے والے‪ ،‬رکوع میں جھکنے والے‪،‬‬
‫سجدہ گزارنے والے‪ ،‬نیکی کی تلقین کرنے والے‪ ،‬برائی‬
‫سے روکنے والے اوراللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کی‬
‫حفاظت کرنے والے(اے پیغمبر )ایسے مؤمنوں کو‬
‫خوشخبری دے دو۔‬

‫آیت میں ایک لفظ "َأ لَّس اِئُح ْو َن " آیا ہے‪ ،‬جس کا مطلب‬
‫جمہور مفسرین کے ہاں"َص اِئُم ْو َن "یعنی روزہ دار مراد‬
‫ہیں اور عبد اللہ بن عباس نے فرمایا کہ قرآن میں‬
‫جہاں کہیں بھی سائحین کا لفظ آیا ہے وہاں صائمین‬
‫مراد ہیں‪ ،‬عکرمہ جو کباِر تابعین میں سے ہیں انہوں نے‬
‫کہا سیاحت کرنے والوں سے مرادطالب علم ہیں جو‬
‫ہیں۔[‪]24‬‬ ‫علم کی طلب میں ملکوں میں پھرتے‬

‫اس تفسیر کو مفسرین نے رد نہیں کیا ہے اگرچہ عکرمہ‬


‫اس تفسیر میں منفرد ہیں۔‬

‫تیسری مثال‬

‫ارشاد باری تعالی ہے‪ِ" :‬ا َّن َم ا الَّص َد ٰق ُت ِل ْلُف َق َر اِء (التوبہ‪)60:‬‬

‫صدقات تو صرف غریبوں کے لیے ہیں۔۔الخ۔ اس آیت‬


‫کی تفسیر میں مفسرین نے غنی اور فقیر کے درمیان‬
‫میں فرق کو واضح کیا ہے‪ ،‬غنی سے متعلق امام ابو‬
‫حنیفہ نے فرمایا کہ غنی وہ شخص ہے جس کے پاس‬
‫اصلی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد بقدر نصاب زکوۃ‬
‫مال باقی رہے۔[‪ ]25‬عام مفسرین نے امام ابو حنیفہ کے‬
‫ذکر کردہ تعریف غنی کو اپنی تفاسیر میں بال کسی‬
‫نکیر کے ذکر فرمایا ہے۔‬

‫اس موضوع پر بھی بہت سی تفاسیرلکھی گئی ہیں؛‬


‫چنانچہ عالمہ نیشاپوری کی تفسیر"غرائب القرآن اور‬
‫رغائب الفرقان" قابل ذکر ہے اور عالمہ نسفی کی‬
‫مدارک التزیل بھی قابل ذکر ہے اور عالمہ آلوسی کی‬
‫روح المعانی بھی ایک وقیع تفسیر ہے۔ نیز اردو تفاسیر‬
‫میں مفتی محمد شفیع صاحب کی تفسیر معارف‬
‫القرآن (‪http://islamicbookslibrary.wordpres‬‬
‫‪s.com/2012/02/23/maarif-ul-quran-urdu-s‬‬
‫‪ )/haykh-mufti-muhammad-shafi-r-a‬بھی اہم‬
‫تفاسیر میں سے ایک ہے۔‬
‫پانچواں ماخذ‪ :‬تفسیر القرآن بلغۃ العرب‬
‫لغت عرب کو تفسیر کا ماخذ ماننے میں اگرچہ اہل علم‬
‫کے یہاں اختالف ہے‪ ،‬جیسے کہ امام محمد نے لغۃ عرب‬
‫سے قرآن کی تفسیر کو مکروہ قراردیا ہے[‪ ]26‬کیونکہ؛‬
‫عربی زبان ایک وسیع زبان ہے اور بعض اوقات ایک‬
‫لفظ کئی معانی پر مشتمل ہوتا ہے اور ایک جملے کے‬
‫بھی متعدد اور کئی مفہوم ہوسکتے ہیں تو ایسے‬
‫مواقع پر صرف لغت عرب کو بنیاد بناکر ان میں سے‬
‫کوئی ایک مفہوم متعین کرنا تفسیر میں مغالطہ کا‬
‫سبب بن سکتا ہے اور اسی وجہ سے اس کو مکروہ‬
‫بھی کہا گیا ہے مگر محققین کا کہنا ہے کہ مغالطہ اسی‬
‫وقت ہوتا ہے جبکہ لغت کے کثیر االستعمال معانی کو‬
‫چھوڑکر انتہائی قلیل االستعمال معنی مراد لیے جائیں‬
‫اس لیے ایسی جگہ جہاں قرآن وسنت وآثار صحابہ‬
‫وتابعین میں سے کوئی صراحت نہ ملے تو آیت کی‬
‫تفسیر لغت عرب کے عام محاورات(جن کا چل چالؤہو)‬
‫کے مطابق کی جائیگی۔‬

‫پہلی مثال‬

‫ایک مرتبہ خلیفہ ثانی عمر فاروق نے صحابہ کرام سے‬


‫درج ذیل آیت کے معنی دریافت کیے‪َ" :‬أ ْو َي ْأ ُخ َذ ُه ْم َع َلى‬
‫َت َخ ُّو ٍف "۔(النحل‪)47:‬‬

‫یا انہیں اس طرح گرفت میں لے کہ وہ دھیرے دھیرے‬


‫گھٹتے چلے جائیں۔ یہ سن کر قبیلہ بنو ھذیل کا ایک‬
‫شخص کھڑا ہوکر کہنے لگاکہ ہماری زبان‬
‫میں"تخوف"کمی اور نقصان کو کہتے ہیں‪ ،‬امیر‬
‫المؤمنین عمر نے پوچھا عربی اشعار میں یہ لفظ اس‬
‫معنی میں استعمال ہوا ہے؟اس نے کہا جی ہاں اور‬
‫فورًا یہ شعر پڑھ دیا‪:‬‬
‫َت َخ َّو َف الَّر ُح ُل منها تاِم كًا َق ِر دًا * كما َت َخ َّو َف ُع وَد‬
‫النبعِة الَّس ِف ُن *‬

‫ترجمہ‪:‬کجاوہ کی رسی اونٹنی کے کوہان کے بال کو کم‬


‫کرتی رہتی ہے‪ ،‬جیسا کہ لوہا کشتی کی لکڑی کو کم‬
‫کرتا رہتا ہے۔‬

‫یہ سن کر عمرنے حاضرین کو مخاطب کرکے فرمایا‬


‫اپنے دیوان کو تھامے رکھو‪ ،‬صحابہ نے عرض کیا دیوان‬
‫سے کیا مراد ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا جاہلی شاعری‪،‬‬
‫اس میں قرآن کی تفسیر اور تمہاری زبان کے معانی‬
‫ہیں۔[‪]27‬‬ ‫موجود‬

‫دوسری مثال‬

‫عالمہ سیوطی لکھتے ہیں کہ ابن عباس صحن کعبہ‬


‫میں تشریف فرما تھے سوال کرنے والوں کا ایک ہجوم‬
‫تھادو آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض‬
‫کیا کہ ہم آپ سے تفسیر قرآن کے متعلق کچھ سواالت‬
‫کرنا چاہتے ہیں‪ ،‬ابن عباس نے فرمایا دل کھول کر‬
‫پوچھیے‪ ،‬انہوں نے پوچھا کہ آپ اس آیت باری تعالی‬
‫کی تفسیر بتائیے‪َ" :‬ع ِن اْلَي ِم يِن َو َع ِن الِّش َم اِل ِع ِز يَن "۔‬
‫(المعارج‪)37:‬‬

‫دائیں بائیں حلقے باندھے ہوں گے۔ ابن عباس نے فرمایا‬


‫عزین کے معنی ہیں ساتھیوں کے حلقے‪ ،‬انہوں نے پھر‬
‫سوال کیا کہ کیا اہل عرب اس معنی سے واقف ہیں؟‬
‫ابن عباس نے فرمایا ‪:‬جی ہاں پھر آپ نے عبید بن‬
‫االبرص کا شعر پڑھا َف َج اُؤ ا ُي ْه َر ُع ْو َن ِإ َلْي ِه َح ًت َي ُكْو ُن ْو ا‬
‫َح ْو َل ِم ْن َب ِر ِه ِع ِز ْي ًناوہ لوگ اس کی طرف بھاگتے ہوئے‬
‫آتے ہیں اس کے منبر کے گرد حلقہ باندھ لیتے ہیں[‪]28‬‬

‫دیکھیے یہاں ابن عباس نے آیت باال کی تفسیر لغت‬


‫عرب کی مدد سے کی ہے۔‬
‫تیسری مثال‬

‫ُا سی صاحب نے آپ سے درج ذیل آیت کی‬


‫تفسیردریافت کی‪َ" :‬و اْب َت ُغ وا ِإ َلْي ِه اْلَو ِس يَلَة "۔ (المائدۃ‪)35:‬‬

‫اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تالش کرو۔ ابن‬


‫عباس نے فرمایا کہ وسیلہ حاجت اور ضرورت کو‬
‫کہتے ہیں اس نے پوچھا کہ اہل عرب اس معنی سے‬
‫واقف ہیں‪:‬آپ ﷺ نے فرمایا کیا آپ نے عنترۃ نامی‬
‫شاعر کا شعر نہیں سناہے؟پھر شعر پڑھا‪ :‬إَّن الِّر َج اَل َلُه ْم‬
‫ْأ ُخ ُذ و ‪ ،‬تَك ي وَت َخ َّض بي[‪]29‬‬
‫ِك َّح ِل‬ ‫ِإ َلْي ِك َو ِس يَلٌة ِإ ْن َي‬

‫اس شعر میں وسیلہ کا لفظ حاجت وضرورت کے معنی‬


‫میں استعمال ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ ابن عباؓس نے آیت‬
‫باال کی تفسیر لغت عرب سے کی ہے۔ اس نقطۂ نظر سے‬
‫بہت سی تفاسیر لکھی گئی ہیں‪ ،‬ان میں تفسیر خازن‬
‫جس کا اصل نام "لباب التاویل فی معانی‬
‫التنزیل(‪)2‬السراج المنیر فی االعانۃ علی معرفۃ بعض‬
‫معانی کالم ربنا الحکیم الخبیر‪ ،‬للخطیب شربینی"قابل‬
‫ذکر ہیں۔‬

‫چھٹا ماخذ‪ ،‬تفسیر القرآن بعقل سلیم‬


‫عقل سلیم جس کی اہمیت وضرورت سے کسی کو‬
‫انکار نہیں‪ ،‬دنیا کے ہر کام میں اس کی اہمیت ہوتی ہے‬
‫اور پچھلے مآخذ سے فائدہ اٹھانا بغیر عقل سلیم کے‬
‫معتبر نہیں اس ماخذ کو عالحدہ لکھنے کی ضرورت‬
‫محض اس لیے پڑتی ہے کہ قرآن کریم کے معارف‬
‫ومسائل‪ ،‬اسرارورموز یقیناً ایک بحر بیکراں ہیں اور‬
‫پچھلے مآخذ سے ان کو ایک حد تک سمجھا جاسکتا ہے‬
‫؛لیکن کسی نے بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں کی کہ‬
‫قرآن کریم کے اسرار ومعارف کی انتہا ہو گئی اور مزید‬
‫کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہی‪ ،‬یہ بات خود قرآن‬
‫کریم کی صریح آیتوں کے خالف ہوگی‪ ،‬فرمان خدا‬
‫وندی ہے‪ُ" :‬ق ْل َّلْو َکاَن اْلَب ْح ُر ِم َد اًد ا ِّلَکِل ٰم ِت َر ِّب ْی َلَن ِف َد اْلَب ْح ُر ‪،‬‬
‫الخ"۔ (الکہف‪)109:‬‬

‫کہہ دو کہ اگر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے سمندر‬


‫روشنائی بن جائے‪ ،‬تو میرے رب کی باتیں ختم نہیں‬
‫ہوں گی کہ اس سے پہلے سمندر ختم ہوچکا ہوگا‪ ،‬چاہے‬
‫اس سمندر کی کمی پوری کرنے کے لیے ہم ویسا ہی‬
‫ایک سمندر کیوں نہ لے آئیں۔‬

‫گویا اس آیت میں وضاحت ہے کہ ساری مخلوق مل کر‬


‫بھی کلمات الہی کا احاطہ کرنا چاہے تو ممکن نہیں‬
‫سارا سامان تسوید ختم ہوجائیگا اور المتناہی کسی‬
‫طرح بھی متناہیوں کی گرفت میں نہ آسکے گا‪ ،‬متناہی‬
‫صفات والے ال متنا ہی صفات والی ہستی کو کیونکر‬
‫اپنی گرفت میں السکتے ہیں اور یقینًا قرآن کریم بھی‬
‫صفات باری میں سے ایک ہے لہذا عقل سلیم کے ذریعہ‬
‫ان حقائق اور اسرار پر غور و فکر کا دروازہ قیامت تک‬
‫کھالہوا رہے گا اور جس شخص کو بھی اللہ تعالی نے‬
‫علم و عقل اور خشیت و تقوی اور رجوع الی اللہ کی‬
‫صفات سے ماال مال کیا وہ تدبیرکے ذریعہ نئے نئے‬
‫حقائق تک رسائی حاصل کر سکتا ہے؛چنانچہ ہر دور کے‬
‫مفسرین کی تفسریں اس بات کی واضح دلیل ہیں۔ اور‬
‫نبی اکرمﷺ کی دعاجو ابن عباس کے لیے تھی‪:‬‬

‫"۔[‪]30‬‬
‫ْی‬ ‫ِّد‬ ‫ال‬ ‫ی‬ ‫ِف‬ ‫ُہ‬ ‫فق‬ ‫َو‬ ‫َب‬ ‫ا‬ ‫َت‬ ‫ِک‬ ‫ْل‬ ‫ا‬ ‫ٗہ‬ ‫ُم‬ ‫ْل‬ ‫ِع‬ ‫َّم‬ ‫ُھ‬ ‫ّٰل‬‫ل‬ ‫َا‬ ‫"‬
‫ِن‬

‫ترجمہ‪ :‬اے اللہ ان کو تاویل یعنی تفسیر قرآن اور دین‬


‫کی سمجھ عطا فرما۔ یہ دعا بھی اشارہ کرتی ہے کہ‬
‫اس باب میں راہیں کھلی ہیں البتہ اہل علم نے اس‬
‫معاملہ میں یہ اصول ضرور بتالیا ہے کہ عقل سلیم کے‬
‫ذریعہ مستنبط ہونے والے وہی مسائل اور معارف معتبر‬
‫ہوں گے جو سابق مآخذ سے متصادم نہ ہوں‪ ،‬یعنی ان‬
‫سے نہ ٹکراتے ہوں‪ ،‬اصول شرعیہ کے خالف کوئی نکتہ‬
‫آفرینی کی جائے تو اس کی کوئی قدر وقیمت نہ‬
‫ہوگی۔ ہم کو ایمان رکھنا چاہیے کہ کل کائنات خدا کی‬
‫بنائی ہوئی اور اس کے قبضۂ قدرت میں ہے‪ ،‬لہذاقرآن‬
‫کریم کی بعض آیتوں سے اگرکوئی ڈاکٹریا سائنس داں‬
‫معلومات کو اخذ کرتا ہے اور وہ معلومات مذکورہ‬
‫اصولوں سے متصادم نہ ہوں توایسی تفسیر بھی قابل‬
‫اعتبار ہوگی۔‬

‫پہلی مثال‬

‫"ِهَّلِل ُم ْلُك الَّس َم اَو اِت َو اَأْلْر ِض َي ْخ ُلُق َم اَي َش اُء َي َه ُب ِلَم ْن‬
‫َي َش اُء ِإ َن اثًا َو َي َه ُب ِلَم ْن َي َش اُء الُّذ ُكوَر ‪َ o‬أ ْو ُي َز ِّو ُج ُه ْم ُذ ْكَر انًا‬
‫َو ِإ َن اثًا َو َي ْج َع ُل َم ْن َي َش اُء َع ِق يمًا ِإ َّن ُه َع ِل يٌم َق ِد يٌر "‬
‫(الشوری‪)49،50:‬‬
‫سارے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کی ہے‪،‬‬
‫وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے‪ ،‬وہ جس کوچاہتا ہے‬
‫لڑکیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے یا‬
‫پھر ان کو مالکر لڑکے بھی دیتا ہے اورلڑکیاں بھی اور‬
‫جس کو چاہتا ہے بانجھ بنادیتا ہے‪ ،‬یقینًا وہ علم کا‬
‫بھی مالک ہے قدرت کا بھی مالک۔ بعض لوگوں کا کہنا‬
‫ہے کہ اس آیت میں خنثٰی (ایسا شخص جو نہ مرد ہو‬
‫نہ عورت) کا تذکرہ نہیں کیا ہے اور اس سے یہ نتیجہ‬
‫نکاال کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہے؛لیکن ابن العربؒی‬
‫نے اس کا جواب دیا ہے کہ ایسا کہنا عقل کے خالف‬
‫بات ہے اس لیے کہ اللہ نے آیت کے ابتدا ہی میں‬
‫فرمادیا"َي ْخ ُلُق َم ا َي َش اُء "وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے‪،‬‬
‫ہے۔[‪]31‬‬ ‫لہذااس میں خنثٰی بھی شامل‬
‫دوسری مثال‬

‫موسی جب کوہ طور پر تیس دن کے لیے تشریف لے‬


‫گئے تھے اور انہیں چالیس یوم تک وہاں رہنا پڑا تھاتو‬
‫ان کے غائبانہ ان کی قوم نے بچھڑے کی پرستش‬
‫شروع کردی تھی اس واقعہ سے متعلق ایک حصہ کو‬
‫قرآن پاک نے یوں بیان کیا ہے‪َ" : ‬و اَّت َخ َذ َق ْو ُم ُم وَس ى ِم ْن‬
‫َبْع ِد ِه ِم ْن ُح ِل ِّي ِه ْم ِع ْج اًل "۔ (االعراف‪)148:‬‬

‫موسٰی علیہ السالم کی قوم نے ان کے بعد زیورات سے‬


‫ایک بچھڑا بنالیا۔ اس آیت کی تفسیر میں عالمہ‬
‫تستری لکھتے ہیں کہ بچھڑے سے مراد ہر وہ چیز ہے‬
‫جس کی محبت میں گرفتار ہوکر انسان اللہ سے منہ‬
‫موڑلے ؛مثًال اہل واوالد اور مال وغیرہ انسان تمام‬
‫خواہشات کو ختم کر دے جس طرح بچھڑے کے‬
‫پجاری اس سے اسی حالت میں چھٹکارا پاسکتے ہیں‬
‫دیں۔[‪]32‬‬ ‫جب وہ اپنی جانوں کو تلف کر‬

‫یہ تفسیر بھی عقل سلیم کی روشنی میں کی جانے‬


‫والی تفسیر کے قبیل سے ہے اور یہ اصول شرعیہ کے‬
‫مخالف بھی نہیں ہے۔‬

‫تیسری مثال‬

‫قرآن پاک نے ابراہیم علیہ السالم کا واقعہ ذکر کیا ہے‬


‫جس میں اللہ تعالی نے ان کو اپنے لخت جگر حضرت‬
‫اسماعیل علیہ السالم کو ذبح کرنے کا حکم دیا تھا‬
‫قرآن پاک میں یوں ہے‪َ" :‬و َف َد ْي َناُه ِب ِذ ْب ٍح َع ِظ يٍم "۔‬
‫(الصافات‪)107:‬‬

‫اور اس کے عوض ہم نے ایک بڑا جانور دے دیا۔ اس کی‬


‫تفسیر میں عالمہ تستری لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم‬
‫علیہ السالم چونکہ بتقاضائے بشریت اپنے بیٹے سے‬
‫محبت کرتے تھے اس لیے اللہ تعالی نے آزمائش کے طور‬
‫پر اس کو ذبح کرنے کا حکم دیا‪ ،‬منشأ خدا وندی‬
‫دراصل یہ نہ تھا کہ ابراھیؑم بیٹے کو ذبح کرڈالیں؛ بلکہ‬
‫مقصود یہ تھا کہ غیر اللہ کی محبت کو دل سے نکال‬
‫دیا جائے‪ ،‬جب یہ بات پوری ہو گئی اور حضرت ابراہیم‬
‫علیہ السالم اپنی عادت سے باز آ گئے تو اسماعیل کے‬
‫عوض ذبح عظیم عطا ہوئی۔[‪ ]33‬یہ تفسیر بھی اسی‬
‫قبیل سے ہے اور اصول شرعیہ کے معارض بھی نہیں‬
‫ہے اس لیے اس کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‬
‫اس عنوان پر تفسیر یں بھی لکھی گئی ہیں‪ ،‬عالمہ‬
‫ابوالسعودکی"ارشاد العقل السلیم الی مزایا الکتاب‬
‫الکریم" اور" تفسیر التستری"قابل ذکر ہیں۔‬
‫تفسیر کے لیے ضروری علوم‬
‫قرآن کریم کی آیات دو قسم کی ہیں‪ ،‬ایک تو وہ آیتیں‬
‫ہیں جن میں عام نصیحت کی باتیں‪ ،‬جنت ودوزخ کا‬
‫تذکرہ اور فکر آخرت پیدا کرنے والی باتیں وغیرہ جس‬
‫کو ہر عربی داں شخص سمجھ سکتا ہے؛بلکہ مستند‬
‫ترجمہ کی مدد سے اپنی مادری زبان میں بھی ان آیات‬
‫کو سمجھ سکتا ہے‪ ،‬ان آیات کے متعلق اللہ تعالی کا‬
‫ارشاد ہے‪َ" :‬و َلَق ْد َي َّس ْر َن ا اْلُق ْر آَن ِل لِّذ ْكِر َف َه ْل ِم ْن ُم َّد ِك ر"ٍ۔‬
‫(القمر‪)17:‬‬

‫اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل‬


‫کرنے کے لیے آسان بنادیا ہے؛ اب کیا کوئی ہے جو‬
‫نصیحت حاصل کرے؟۔ دوسری قسم کی آیتیں وہ ہیں‬
‫جو احکام وقوانین‪ ،‬عقائد اور علمی مضامین پر‬
‫مشتمل ہیں‪ ،‬اس قسم کی آیتوں کو پوری طرح‬
‫سمجھنے اوران سے احکام ومسائل مستنبط کرنے کے‬
‫لیے علم تفسیرکاجانناضروری ہے‪ ،‬صرف عربی زبان کا‬
‫سمجھنااس کے لیے کافی نہیں ہے‪ ،‬صحابہ کراؓم اہل‬
‫عرب ہونے کے باوجودایسی آیتوں کی تفسیر اللہ کے‬
‫رسولﷺسے معلوم کیا کرتے تھے‪ ،‬اس کی تفصیلی‬
‫مثالیں اس مقالہ میں آچکی ہیں؛یہاں سمجھنے کے لیے‬
‫ایک مثال پر اکتفا کیا جا رہا ہے‪ ،‬روزوں سے متعلق جب‬
‫یہ آیت کریمہ نازل ہوئی‪َ" :‬و ُكُلوا َو اْش َر ُبوا َح َّت ى َي َت َبَّي َن‬
‫َلُكُم اْلَخ ْي ُط اَأْلْب َي ُض ِم َن اْلَخ ْي ِط اَأْلْس َو ِد "۔(البقرۃ‪)187:‬‬

‫اورکھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سفید اور سیاہ دھاگے‬


‫میں تمہیں فرق معلوم ہونے لگے۔ اس آیت کو سننے کے‬
‫بعدعدی بن حاتم رضی اللہ عنہ(‪67‬ھ) نے سفید‬
‫اورسیاہ دھاگے اپنے تکئے کے نیچے رکھ لیے؛ تاکہ جب‬
‫دونوں ایک دوسرے سے ممتاز ہونے لگیں تو اس سے‬
‫وہ اپنے روزے کی ابتدا کر لیا کریں؛اسی طرح اور ایک‬
‫روایت میں سہل بن سعد(‪951‬ھ) کہتے ہیں‪:‬کچھ لوگ‬
‫جنھوں نے روزے کی نیت کی ہوتی وہ اپنے دونوں‬
‫پاؤں سے سفید اورسیاہ دھاگے باندھ رہتے اور برابر‬
‫سحری کھاتے رہتے؛یہاں تک کہ وہ دونوں دھاگے آپس‬
‫میں ممتاز نہ ہوجائیں‪ ،‬آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم‬
‫نے صحابہ کرام کو سمجھا یا کہ یہاں سفید اورسیاہ‬
‫دھاگے سے مراد دن کی سفیدی اورشب کی سیاہی‬
‫ہے۔[‪ ]34‬الغرض!قرآن کریم کی تفسیر کرنے کے لیے علم‬
‫تفسیر کا جاننا ضروری ہے‪ ،‬کسی بھی آیت کی تفسیر‬
‫اپنی رائے سے کرنے واال غلطی پر ہے‪ ،‬خود بھی گمراہ‬
‫ہوگا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا‪ ،‬قرآن کریم‬
‫کی تفسیرسمجھنے کے لیے مستند تفاسیر کا مطالعہ‬
‫کرنا چاہیے اور علما سے استفادہ کرنا چاہیے‪ ،‬اس‬
‫مضمون کے آخر میں مستنداردو تفاسیر کے نام ذکر‬
‫کیے گئے ہیں‪ ،‬درج ذیل احادیث میں تفسیر قرآن کی‬
‫باریکی کا اندازہ ہوتا ہے‪: ‬‬
‫تفسیر بالرائے کا حکم‬
‫"َم ْن َق اَل ِف ي اْلُق ْر آِن ِب َغ ْي ِر ِع ْلٍم َف ْلَي َت َب َّو ْأ َم ْق َع َد ُه ِم ْن الَّناِر"۔‬
‫جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا‬
‫ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ "َم ْن َق اَل ِف ي ِك َت اِب اِهَّلل َع َّز َو َج َّل‬
‫ِب َر ْأ ِي ِه َف َأ َص اَب َف َق ْد َأ ْخ َط أ"۔ جو شخص قرآن کے معاملے‬
‫میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں‬
‫کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی‬
‫کی۔[‪]35‬‬

‫عالمہ ماوردی فرماتے ہیں کہ بعض غلو پسند لوگوں نے‬


‫اس حدیث سے یہ مطلب سمجھا کہ قرآن کریم کے‬
‫بارے میں کوئی بات فکر ورائے کی بنیا دپر کہنا جائز‬
‫نہیں؛ یہاں تک کہ اجتہاد کے ذریعے قرآن کریم سے‬
‫ایسے معانی بھی مستنبط نہیں کیے جاسکتے جو‬
‫اصول شرعیہ کے مطابق ہوں؛ لیکن یہ خیال درست‬
‫نہیں؛ کیونکہ خود قرآن کریم نے تدبر اور استنباط کو‬
‫جا بجا مستحسن قرار دیا ہے اور اگر فکر وتدبر پر‬
‫بالکل پابندی لگادی جائے توقرآن وسنت سے شرعی‬
‫احکام وقونین مستنبط کرنے کا دروازہ ہی بند ہو جائے‬
‫گا ؛لٰہ ذا اس حدیث کا مطلب ہر قسم کی رائے پر‬
‫ہے۔[‪]36‬‬ ‫پابندی لگانا نہیں‬

‫چنانچہ اس بات پر جمہور علما متفق ہیں کہ خود‬


‫قرآن وسنت کے دوسرے دالئل کی روشنی میں اس‬
‫حدیث کا منشا یہ ہر گز نہیں ہے کہ معاملہ میں غور و‬
‫فکر اور عقل ورائے کو بالکل استعمال نہیں کیا جاسکتا‬
‫؛بلکہ اس کا اصل منشا یہ ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر‬
‫کے لیے جو اصول اجماعی طور پر مسلم اور طے شدہ‬
‫ہیں ان کو نظر انداز کرکے جو تفسیر محض رائے کی‬
‫بنیاد پر کی جائے وہ ناجائز ہوگی اور اگر اس طرح‬
‫تفسیر کے معاملہ میں دخل دے کر کوئی شخص اتفاقًا‬
‫کسی صحیح نتیجہ پر پہنچ جائے تو وہ خطا کار ہے‪،‬‬
‫اب اصول تفسیر کو نظر انداز کرنے کی بہت سی‬
‫صورتیں ہوسکتی ہیں مثًال‪1 :‬۔ جو شخص تفسیر قرآن‬
‫کے بارے میں گفتگو کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا وہ‬
‫محض اپنی رائے کے بل بوتے پر تفسیر شروع کر دے۔‬
‫‪2‬۔ کسی آیت کی کوئی تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم یا صحابہ وتابعین سے ثابت ہو اور وہ اسے نظر‬
‫انداز کرکے محض اپنی عقل سے کوئی معنی بیان کرنے‬
‫لگے۔ ‪3‬۔ جن آیات میں صحابہ کرام وتابعین سے کوئی‬
‫صر یح تفسیر منقول نہیں ان میں لغت اور زبان وادب‬
‫کے اصولوں کو پامال کرکے کوئی تشریح بیان کرے۔ ‪4‬۔‬
‫قرآن وسنت سے براہ راست احکام وقوانین مستنبط‬
‫کرنے کے لیے اجتہاد کی اہلیت نہ رکھتا ہو اور پھر بھی‬
‫اجتہاد شروع کر دے ‪5‬۔ قرآن کریم کے متشابہ آیات‬
‫(جن کے بارے میں قرآن نے خود کہے دیا ہے کہ ان کی‬
‫سو فیصد صحیح مراد سوائے اللہ کے کوئی نہیں‬
‫جانتا) ان کی جزم ووثوق کے ساتھ کوئی تفسیر بیان‬
‫کرے اور اس پر مصر ہو۔ ‪6‬۔ قرآن کریم کی ایسی‬
‫تفسیر بیان کرے جس سے اسالم کے دوسرے اجماعی‬
‫طور پر مسلم اور طے شدہ عقائد یا احکام مجروح‬
‫ہوتے ہوں ‪7‬۔ تفسیر کے معاملہ میں جہاں عقل وفکر کا‬
‫استعمال جائز ہے وہاں کسی قطعی دلیل کے بغیر اپنی‬
‫ذاتی رائے کو یقینی طور پر درست اور دوسرے‬
‫مجتہدین کی آراء کو یقینی طور سے باطل قرار دے۔‬
‫یہ تمام صورتیں اس تفسیر بالرائے کی ہیں جن سے‬
‫مذکورہ باال حدیث میں منع کیا گیا ہے؛ چنانچہ ایک‬
‫دوسری حدیث میں ان تمام صورتوں کو اس مختصر‬
‫جملے میں سمیٹ دیا گیا ہے‪ : ‬من قال فی القرآن بغیر‬
‫علم فلیتبوأ مقعدہ من لنار (ترمذی‪ ،‬باب ماجاء یفسر‬
‫القرآن‪ ،‬حدیث نمبر‪)2874:‬‬
‫جو شخص قرآن کریم کے معاملے میں علم کے بغیر‬
‫کوئی بات کہے تو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ البتہ‬
‫تفسیر کے اصولوں اور اسالم کے اجماعی طور پر طے‬
‫شدہ ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے اگر تفسیر میں‬
‫کسی ایسی رائے کا اظہار کیا جائے جو قرآن وسنت کے‬
‫خالف نہ ہو تو وہ حدیث کی وعید میں داخل نہیں ہے؛‬
‫البتہ اس قسم کا اظہار رائے بھی قرآن وسنت کے‬
‫وسیع وعمیق علم اور اسالمی علوم میں مہارت کے‬
‫بغیر ممکن نہیں اور علما نے اس کے لیے بھی کچھ کار‬
‫آمد اصول مقرر فرمائے ہیں جو اصول فقہ اور اصول‬
‫تفسیر میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں اور ان کا ایک‬
‫نہایت مفید خالصہ عالمہ بدرالدین زرکشی رحمہ اللہ‬
‫نے اپنی کتاب "الب رہان فی علوم القرآن کی نوع ‪41‬‬
‫میں بالخصوص اقسام التفسیر کے زیر عنوان‬
‫(صفحہ‪164:‬۔‪)170‬بیان فرمایا ہے‪ ،‬یہ پوری بحث‬
‫نہایت قابل قدر ہے ؛لیکن چونکہ عربی زبان وعلوم کی‬
‫مہارت کے بغیر اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا‪ ،‬اس‬
‫لیے اس کا ترجمہ یہاں نقل کرنا بے فائدہ ہے جو عربی‬
‫داں حضرات چاہیں وہاں مالحظہ فرماسکتے ہیں۔‬

‫سابقہ تمام تفصیل سے یہ ثابت ہواکہ تفسیر قرآن‬


‫مجید کے لیے کچھ ضروری علوم ہوتے ہیں جن کے بغیر‬
‫تفسیر کرنا ایسا ہے جیسے بغیر آالت کے صناعی کرنا کہ‬
‫جیسے کوئی بھی فن بغیر آالِت ضروریہ کے نہیں آتا‬
‫ایسے ہی ہر علم کا بھی یہی مسئلہ ہے؛ چنانچہ‬
‫مفسرین اوراہل علم نے ضروری علوم کی تفصیل یوں‬
‫بتالئی ہے‪:‬علم لغت‪ ،‬صرف ونحو‪ ،‬معانی‪ ،‬بیان‪ ،‬بدیع‪،‬‬
‫عربی ادب‪ ،‬علم کالم‪ ،‬منطق‪ ،‬حکمت وفلسفہ‪ ،‬علم‬
‫عقائد‪ ،‬علم تفسیر‪ ،‬پھر اس میں درجات اہل علم کے ہاں‬
‫مانے گئے ہیں‪ ،‬چنانچہ ابتدائی لغت وصرف نحو ادب‬
‫یہ عربی زبان سیکھنے اور اس کی باریکیوں کو جاننے‬
‫کے لیے ہیں؛ کیونکہ قرآن مجید عربی زبان میں نازل‬
‫کیا گیا نیز معانی بیان وبدیع وغیرہ اس کی رعنایوں‬
‫کو سمجھنے ک لیے اورمنطق حکمت وفلسفہ کالم‪،‬‬
‫دوسری زبانوں سے مستعا رعلوم کے ذریعہ جو‬
‫گمراہیاں آ سکتی ہیں اس کے دفع کے لیے‪ ،‬پھر علم‬
‫تفسیر کے اندر بھی کئی تفصیالت بتالئی گئی ہے؛ مثال‬
‫وحی اوراس کی ضرورت کو سمجھنا پھر وحی کی‬
‫اقسام مثًال‪ ،‬وحی قلبی‪ ،‬وحی ملکی‪ ،‬پھر وحی کی‬
‫مختلف شکلیں جیسے صلصلۃ الجرس اورفرشتے‬
‫کاانسانی شکل میں آنا‪ ،‬رویائے صادقہ‪ ،‬نفث فی الروع‪،‬‬
‫پھر وحی متلو وغیر متلو‪ ،‬پھر قرآن کریم کے نزول کے‬
‫متعلق تفصیالت اورسورتوں کی تدوین مکی ومدنی‬
‫ہونے کے اعتبار سے نیز بعض مدنی سورتوں میں مکی‬
‫آیتیں اوربعض مکی سورتوں میں مدنی آیتیں کونسی‬
‫ہیں اس کا استقصاء پھر قرآن کریم سات حروف پر‬
‫نازل ہونے کا کیا مطلب ہے؛ پھر ناسخ و منسوخ آیتوں‬
‫کی تفصیالت‪ ،‬سبعہ احرف سے کیا مراد ہے اورحفاظت‬
‫قرآن اورجمع قرآن کی تفصیالت پھر اس کے اندر دیے‬
‫ہوئے عالمات وقف کی تفصیالت اوراسی میں پاروں‬
‫کی تقسیم اوراس کے اعراب وحرکات سے متعلق‬
‫تفصیالت پھر قرآن کریم میں جو مضامین ذکرکئے گئے‬
‫ہیں‪ ،‬مثال عقائد‪ ،‬واقعات اورایام اللہ وانعم اللہ‪ ،‬پھر‬
‫آیات مقطعات و متشابھات ومحکمات وغیرہ کی‬
‫تفصیالت‪ ،‬بہرحال یہ تو چندضروری علوم کی طرف‬
‫اشارہ کیا گیا ہے‪ ،‬ان کی تفصیل میں جائیں تو بہت‬
‫وقت لگ جائے۔‬

‫اہم مفسرین کے نام مع تاریخ وفات‬


‫جب اہم مفسرین کا ذکر آتا ہے تو سب سے پہلے قرن‬
‫اول یعنی صحابہ و تابعین کا ذکر ضروری ہوتا ہے۔ لٰہ ذا‬
‫سب سے پہلے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے اہم‬
‫مفسرین کے نام آتے ہیں اور ان میں سے بھی پہلے عبد‬
‫اللہ بن عباؓس ہیں جو مفسر اول کے نام سے جانے جاتے‬
‫ہیں۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے نام سے جو‬
‫تفسیر فی زمانہ منظر عام پر آئی ہے تنویر المقباس فی‬
‫تفسیر ابن عباس (‪http://islamicbookslibrary.w‬‬
‫‪ordpress.com/2011/12/16/tafseer-ibn-e-a‬‬
‫‪bbas-r-a-urdu-translation-by-shaykh-muha‬‬
‫‪ )/mmad-saeed-ahmad-atif‬حتی کہ اس کا‬
‫اردو ترجمہ بھی شائع ہو گیا؛ لیکن ابن عباس رضی اللہ‬
‫عنہ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں مانی گئی ہے‬
‫؛کیونکہ یہ کتاب "محمد بن مروان الّس ّد ی عن محمد بن‬
‫السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباؓس "کی سند‬
‫سے مروی ہے اور اس سلسلہ سند کو محدثین نے‬
‫سلسلۃ الکذب قرار دیا ہے۔ (دیکھیے االتقان‪)188/2:‬‬

‫بہرحال قرن اول کے مفسرین میں پہال نام عبد اللہ بن‬
‫عباس رضی اللہ عنہ کا ہے تاریخ وفات سنہ ‪68‬ھ۔‬
‫دوسرا نام علی بن ابی طالب وفات سنہ‪40‬ھ۔ پہلے تین‬
‫خلفاء کی نسبت علی سے تفسیری روایات زیادہ مروی‬
‫ہیں؛ چنانچہ عالمہ ابوالطفیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ‬
‫علؓی نے اپنے خطبے میں یوں فرمایا کہ لوگو! مجھ سے‬
‫کتاب اللہ کے بارے میں سواالت کیا کرو؛ کیونکہ قسم‬
‫خدا کی قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس‬
‫کے بارے میں مجھے معلوم نہ ہو کہ یہ آیت رات کو‬
‫نازل ہوئی یا دن میں میدان میں اتری یا پہاڑ پر۔‬
‫(االتقان‪)187/2:‬‬

‫تیسرا نام عبد اللہ بن مسعود متوفی سنہ ‪32‬ھ۔ ان کی‬


‫بھی کئی روایات تفسیر میں منقول ہیں؛ بلکہ علی‬
‫رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں زیادہ منقول ہیں۔‬

‫چوتھا نام ابی بن کعب رضی اللہ عنہ متوفی سنہ‬


‫‪39‬ھ۔ ابی بن کعب ُا ن صحابہ میں سے ہیں جو تفسیر‬
‫اور علم قرأت میں مشہور ہیں‪ ،‬چنانچہ رسول اللہ ﷺ‬
‫نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا‪َ ،‬ا ْق َر ُأ ُکْم ُا َب ْی اْب ُن‬
‫َکْع ٍب ‪ ،‬تم میں سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں۔‬
‫(تذکرۃ الحفاظ للذھبی‪ )38/2:‬ابی بن کعب کی علمی‬
‫وقعت کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ معمر‬
‫رحمہ اللہ نے فرمایا کہ‪َ" :‬ع اَّم ُۃ ِع ْلِم ابِن َع َّب اٍس ِم ْن َث ٰل َث ٍہ ‪،‬‬
‫ُع َم ر َو َع ِل ی َو ُا َب ْی بُن َکعٍب َرِض َی اللُہ َع ْن ُہ ْم "۔(تذکرۃ‬
‫الحفاظ للذھبی‪ )38/2:‬عبد اللہ بن عباس کے بیشتر‬
‫علوم تین حضرات سے ماخوذ ہیں‪ ،‬عمر و علی و ابی‬
‫بن کعب‬

‫ان حضرات صحابہ کے عالوہ اور بھی کچھ نام تفسیر‬


‫کے سلسلہ میں منقول ہیں مثًال زید بن ثابؓت ‪ ،‬معاذ بن‬
‫جبل‪ ،‬عبد اللہ بن عمرو‪ ،‬عبد اللہ بن عمر‪ ،‬عائشہ‪ ،‬جابر‪،‬‬
‫ابو موسٰی اشعری‪ ،‬انس اور ابو ھریرہ۔‬
‫تابعین‬

‫حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نے چونکہ مختلف‬


‫عالقوں اورمقامات میں پھیل کر قرآن کریم کی‬
‫خدمت کا سلسلہ شروع کیا‪ ،‬جس کی وجہ سے تابعین‬
‫کی ایک بڑی جماعت اس کام کے لیے تیار ہوئی‪ ،‬جس‬
‫نے علم تفسیر کو محفوظ رکھنے میں نمایاں خدمات‬
‫انجام دیں‪ ،‬ان میں سے کچھ برائے تعارف پیش کیے‬
‫جاتے ہیں‪:‬‬

‫‪ .1‬مجاہؒد یہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے‬


‫شاگرد ہیں پورا نام ہے ابوالحجاج مجاہد بن جبر‬
‫المخزومی‪ ،‬والدت سنہ‪ 21‬ھ اور وفات سنہ‬
‫‪103‬ھ۔‬
‫‪ .2‬سعید بن جبیؒر ‪ ،‬وفات ‪94‬ھ‬

‫‪ .3‬عکرمؒہ‬
‫‪ .4‬طاؤؒس ‪ ،‬وفات ‪105‬ھ‬
‫‪ .5‬عطاء بن ابی رباح‪ ،‬وفات ‪114‬ھ‬
‫‪ .6‬سعید بن المسیؒب ‪ ،‬وفات ‪91‬ھ یا ‪105‬ھ‬
‫‪ .7‬محمد بن سیریؒن ‪ ،‬وفات‪110‬ھ‬
‫‪ .8‬زید بن اسلؒم (منقول از علوم القرآن‪)461:‬‬

‫تفاسیر کی اہم کتابیں‬


‫مفسرین نے اپنے اپنے ذوق کے لحاظ سے کئی نقطۂ نظر‬
‫سے تفسیریں لکھی ہیں؛ مثًالادبی‪ ،‬عقلی اور کالمی‬
‫وغیرہ‪ ،‬بعض نے تفسیر بالماثور بھی لکھی‪ ،‬بعض نے‬
‫تفسیر اشاری یعنی صوفیانہ انداز پر تفسیرلکھی‪،‬‬
‫غرض مختلف نقاط نظر سے قرآن کی خدمت کی گئی‬
‫ہے۔‬

‫تفسیر بالماثور میں اہم تفاسیر‬


‫تفسیر طبری‪ ،‬تفسیر بحرالعلوم ازسمر قندی‪ ،‬الکشف‬
‫والبیان عن تفسیر القرآن از ثعالبی‪ ،‬معالم التنزیل‬
‫ازبغوی‪ ،‬المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب البن عطیہ‪،‬‬
‫تفسیر ابن کثیر‪ ،‬الدر المنثور فی تفسیر الماثور‬
‫ازسیوطی‪ ،‬الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن ازثعالبی‪-‬‬
‫خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔‬

‫تفسیر بالرائے کے نقطۂ نظر سے لکھی جانے والی‬


‫کتابوں میں‬

‫مفاتیح الغیب ازرازی‪ ،‬انوارالتنزیل واسرار التاویل‬


‫ازبیضاوی‪ ،‬مدارک التنزیل (‪http://islamicbooksli‬‬
‫‪brary.wordpress.com/2012/01/18/tafseer-‬‬
‫‪ul-madarik-tafseer-e-nasafi-urdu-translatio‬‬
‫‪ )/n-by-shaykh-shamsuddin‬وحقائق التاویل‬
‫فی معانی التنزیل از خازن‪ ،‬غرائب القرآن ورغائب‬
‫الفرقان از نیسا پوری‪ ،‬تفسیر جاللین (‪http://islamic‬‬
‫‪bookslibrary.wordpress.com/2012/08/21/j‬‬
‫‪amalain-sharah-jalalain-6-volumes-by-shay‬‬
‫‪، )/kh-muhammad-jamal-saifi-bulanshehri‬‬
‫السراج المنیراز خطیب شربینی‪ ،‬روح المعانی از‬
‫آلوسی۔ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ صوفیانہ نقطۂ نظر سے‬
‫لکھی جانے والی تفاسیر میں تفسیر ابن عربی‪ ،‬تفسیر‬
‫فیضی‪ ،‬تفسیر القرآن العظیم از تستری‪ ،‬حقائق التفسیر‬
‫ازسلمی‪ ،‬عرائس البیان فی حقائق القرآن وغیرہ ہیں۔‬

‫فقہی نقطہ نظر سے لکھی جانے والی کتابوں میں‬

‫احکام القرآن ازکیاہراسی‪ ،‬احکام القرآن ازابن العربی‪،‬‬


‫الجامع الحکام القرآن از قرطبی‪ ،‬کنزا لعرفان فی فقہ‬
‫القرآن‪ ،‬احکام القرآن للجصاص‪ ،‬احکام القرآن للتھانوی‬
‫اور اردو میں ایک مختصر سی کتاب موالنا عبد المالک‬
‫صاحب کاندھلوی کی فقہ القرآن کے نام سے آئی ہے۔‬
‫چند اردو تفاسیر‪: ‬‬

‫•تفسیر صراط الجنان‬

‫•تفسیر بیان القرآن‬

‫• معارف القرآن‬

‫• ہدایت القرآن‬

‫•معالم العرفان‬

‫•تفسیر مظہری‬

‫•تفسیر ماجدی‬

‫•تفسیر عثمانی‬

‫•اشرف التفاسیر‬
‫‪.1‬‬
‫‪.1‬‬

‫اسرائیلیات کی حیثیت‬
‫قرآن مجید کے نزول سے قبل دیگر آسمانی کتابیں‬
‫مثًالتورات وانجیل وغیرہ نازل ہوچکی تھی اور نزوِل‬
‫قرآن کے زمانہ میں اہل کتاب کی ایک بڑی تعداد‬
‫موجود تھی جو قرآن میں بیان کردہ انبیا کرام کے‬
‫واقعات کو اپنی کتابوں کے حوالہ سے بھی پیش کرتے‬
‫تھے اوربعض اوقات من گھڑت حکایات بھی نقل‬
‫کردیتے ؛لیکن اس سلسلہ میں نبی کریمﷺ نہایت‬
‫قیمتی اصول بیان فرمائے جو آگے پیش کیے جائیں گے‬
‫تو آئیے قرآن کریم میں اسرائیلیات کی حیثیت اوران‬
‫کا مقام و مرتبہ کیا ہے‪ ،‬اس کو فرامین رسول کی‬
‫روشنی میں اور علمائے امت کی تحریروں کے آئینہ‬
‫میں مالحظہ کرتے ہیں‪:‬‬
‫اسرائیلی روایات کی تعریف اس طرح کی گئی ہے‪:‬‬

‫"االسرائیلیات‪ :‬االخبار المنقولۃ عن بنی اسرائیل من‬


‫الیھود وھو االکثر اومن النصاری"۔ (قسم التفسیر‬
‫واصولہ‪)]37[1/47:‬‬

‫اسرائیلیات وہ باتیں جو بنی اسرائیل یعنی یہودیوں‬


‫سے بکثرت منقول ہیں یا نصارٰی سے۔ شیخ االسالم‬
‫مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے رقم فرمایا کہ‪:‬‬

‫"اسرائیلیات یا اسرائیلی روایات ان روایات کو کہتے‬


‫ہیں جو یہودیوں یا مسیحیوں سے ہم تک پہنچی ہیں‬
‫ان میں سے بعض براِہ راست بائبل یا تالمود سے لی‬
‫گئی ہیں بعض منشاءاوران کی شروح سے اوربعض وہ‬
‫زبانی روایات ہیں جو اہل کتاب میں سینہ بسینہ نقل‬
‫ہوتی چلی آئی ہیں اور عرب کے یہود ونصاری میں‬
‫معروف ومشہور تھیں"۔ (علوم القرآن‪)345:‬‬
‫اسرائیلیات کی ابتدا‬
‫جب قرآن مجید نازل ہونے لگا اوراس میں حضرات‬
‫انبیا کرام کے واقعات اوران کی قوموں کے احوال بیان‬
‫کیے جانے لگے تو اہل کتاب یہود ونصاری اپنی عبرانی‬
‫زبان میں موجود کتابوں سے جو تحریف شدہ تھے اس‬
‫سے واقعات عربی میں حضرات صحابہ کرامؓ سے بیان‬
‫کرتے تھے جب اس واقعہ کی اطالع نبی کریم صلی‬
‫اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے‬
‫فرمایا کہ تم ان اہل کتاب کے بیان کردہ واقعات کی نہ‬
‫ہی تصدیق کرو اورنہ تکذیب ؛بلکہ کہو کہ جو کچھ‬
‫اللہ تعالی نے نازل کیا ہے ہمارا اس پر ایمان ہے؛چنانچہ‬
‫ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ‪َ" :‬كاَن َأ ْه ُل اْلِك َت اِب َي ْق َر ُء وَن‬
‫اِإْل ْس اَل ِم‬ ‫ْه‬ ‫َأِل‬ ‫ِة‬ ‫َّي‬ ‫ِب‬ ‫َر‬ ‫َع‬ ‫الَّت ْو َر اَة ِب اْلِع ْب َر اِن َّي ِة َو ُي َف ِّس ُر وَن َه ا ِب اْل‬
‫ِل‬
‫َو اَل ُت َكِّذ ُبوُه ْم‬ ‫َف َق اَل َر ُس وُل اِهَّلل ﷺ اَل ُت َص ِّد ُق وا َأ ْه َل اْلِك َت اِب‬
‫َو ُق وُلوا آَم َّنا ِب اِهَّلل َو َم ا ُأ ْن ِز َل ِإ َلْي َنا"۔ (بخاری‪َ ،‬ب اب‪ُ:‬ق وُلوا آَم َّنا‬
‫ِب اِهَّلل َو َم ا ُأ ْن ِز َل ِإ َلْي َنا‪ ،‬حدیث نمبر‪)4125:‬‬

‫اہل کتاب تورات عبرانی زبان میں پڑھتے تھے اور اہل‬
‫اسالم کے لیے اس کی تفسیر عربی زبان میں کرتے تھے‪،‬‬
‫رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا‪ :‬اہل کتاب کی نہ تصدیق‬
‫کرو اور نہ تکذیب کرو اور کہو کہ ہم اللہ پر اور جو‬
‫اس نے نازل کیا ہے اس پر ایمان التے ہیں۔ عالمہ ابن‬
‫حجر عسقالنیؒ (المتوفی‪ 853:‬ھ) حدیث کی تشریح‬
‫کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ‬
‫ارشاد فرمانا کہ نہ تم ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب یہ‬
‫اس وجہ سے ہے کہ جن باتوں کی وہ خبر دے رہے ہیں‬
‫وہ سچ اورجھوٹ دونوں کا احتمال رکھتی ہیں‪ ،‬اگر‬
‫فی الواقع وہ سچ ہوں اور تم ان کی تکذیب کردویا اگر‬
‫وہ جھوٹ ہوں اور تم اس کی تصدیق کردو تو دونوں‬
‫اعتبار سے حرج اور تنگی میں پڑجانے کا اندیشہ ہے‬
‫اس لیے ان کی بیان کردہ باتوں کو سن کر نہ تصدیق‬
‫کی جائے نہ تکذیب؛ تاکہ فتنہ میں نہ پڑو۔ (فتح الباری‪،‬‬
‫حدیث نمبر‪،4125:‬شاملہ)‬

‫دومتعارض حدیثوں کا جواب‪ :‬اسرائیلیات کے عنوان‬


‫میں دوحدیثیں ہیں ایک جو ابھی اوپر مذکور ہوئی‬
‫دوسری حدیث ہے کہ‪َ" :‬ح ِّد ُث وا َع ْن َبِن ي ِإ ْس َر اِئ يَل َو اَل‬
‫َح َر َج "۔ (ابو داؤد‪َ ،‬ب اب اْلَح ِد يِث َع ْن َبِن ي ِإ ْس َر اِئ يَل ‪ ،‬حدیث‬
‫نمبر‪)3177:‬‬

‫اس حدیث سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ بنی اسرائیل کے‬


‫بیان کردہ واقعات وغیرہ کے ذکر کرنے میں کوئی حرج‬
‫نہیں جبکہ پہلی روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ بنی‬
‫اسرائیل کے بیان کردہ واقعات پر اعتماد نہیں کرنا‬
‫چاہیے چہ جائیکہ ان کو بیان کیا جائے بظاہر‬
‫دوحدیثوں میں باہم تعارض دکھائی دے رہا ہے‪ ،‬اس کا‬
‫جواب دیتے ہوئے عالمہ محمد حسین الذہبی رحمۃ اللہ‬
‫علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں جو بنی اسرائیل‬
‫سے بیان کرنے کی اجازت نظر آتی ہے وہ وہ واقعات‬
‫اور عبرت ونصیحت پر مشتمل حکایات ہیں جن کے‬
‫بارے میں معلوم بھی ہو کہ وہ سچ ہیں توان کو بیان‬
‫کیا جاسکتا ہے اورپہلی حدیث میں توقف ہے کہ ان کے‬
‫بیان کرنے میں احتیاط کی جائے تاکہ سچ اور جھوٹ‬
‫میں اختالط نہ ہو جائے اوراس خلط ملط کے نتیجہ‬
‫میں حرج میں نہ پڑ جائے‪ ،‬خالصہ یہ ہے کہ دوسری‬
‫حدیث عبرت ونصیحت پر مشتمل حکایات کی اباحت‬
‫پرداللت کرتی ہے اورپہلی حدیث ان مضامین کے بارے‬
‫میں توقف پرداللت کرتی ہے جن میں عبرت ونصیحت‬
‫سے ہٹ کر دیگر مضامین ہوں؛اس طرح کوئی بھی‬
‫حدیث متعارض نہیں۔‬
‫اسرائیلیات کا حکم‬
‫اس سلسلہ میں تقریبًا علمائے امت نے ایک ہی جواب‬
‫دیا‪ ،‬الفاظ وتعبیرات اگر چہ مختلف ہیں؛ لیکن حکم‬
‫ایک ہی ہے‪ ،‬آگے ہم مختلف علما کرام کی تحریریں‬
‫پیش کریں گے‪ ،‬سب سے پہلے شیخ االسالم مفتی‬
‫محمد تقی عثمانی مدظلہ کے دلنشین اورصاف وشفاف‬
‫تحریر کو نقل کرتے ہیں جو انہوں نے عالمہ ابن کثیؒر‬
‫کے حوالہ سے پیش کی ہے؛ چنانچہ رقمطراز ہیں‬
‫کہ‪#:‬پہلی قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کی تصدیق‬
‫دوسرے خارجی دالئل سے ہوچکی ہے مثال‪ :‬فرعون کا‬
‫غرق ہونا وغیرہ‪ ،‬ایسی روایات اسی لیے قابِل اعتبار‬
‫ہیں کہ قرآن کریم یا صحیح احادیث نے ان کی تصدیق‬
‫کردی ہے۔‪#‬دوسری قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کا‬
‫جھوٹ ہونا خارجی دالئل سے ثابت ہوچکا ہے‪ ،‬مثال‪ :‬یہ‬
‫کہانی کہ حضرت سلیمان علیہ السالم آخر عمر میں‬
‫(معاذ اللہ) بت پرستی میں مبتال ہو گئے تھے یہ روایت‬
‫اس لیے قطعا باطل ہے کہ قرآن کریم نے صراحۃً اس‬
‫کی تردید فرمائی ہے۔‪#‬تیسری قسم ان اسرائیلیات کی‬
‫ہے جن کے بارے میں خارجی دالئل ہے نہ یہ ثابت ہو تا‬
‫ہے کہ وہ سچی ہیں اورنہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ‬
‫ہیں‪ ،‬مثال تورات کے احکام وغیرہ ایسی اسرائیلیات کے‬
‫بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے‪:‬‬
‫"ال تصدقوھا والتکذبوھا"۔ اس قسم کی روایات کو‬
‫بیان کرنا تو جائز ہے؛ لیکن ان پرنہ کسی دینی مسئلہ‬
‫کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے نہ ان کی تصدیق یا‬
‫تکذیب کی جاسکتی ہے اوراس قسم کی روایات کو‬
‫بیان کرنے کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں۔ (علوم‬
‫القرآن‪)364:‬‬

‫یہی بات عالمہ محمد حسینی ذہبؒی اور عالمہ ابن‬


‫تیمیؒہ وغیرہ نے بھی کہی ہے۔ (التفسیر و المفسرون‬
‫للذھبی‪ ،‬باب ثانیا‪:‬االاسرائیلیات‪)4/14:‬‬

‫مسند الہند امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوؒی‬


‫(المتوفی‪ )1176:‬نے نہایت اختصار کے ساتھ مگر‬
‫جامع بات لکھی ہے کہ تفسیر میں اسرائیلی روایتوں‬
‫کو بیان کرنا دراصل یہ بھی ایک سازش ہے جبکہ یہ‬
‫قاعدہ مسلم ہے کہ اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو نہ ان‬
‫کی تکذیب کرو؛ لٰہ ذا اس قاعدہ کی بنیاد پر دوباتیں‬
‫نہایت ضروری ہیں‪#:‬جب حدیث میں قرآن کریم کے‬
‫اشارہ کی تفصیل موجود ہو تو اسرائیلی روایات کو‬
‫تفسیر میں نقل نہیں کرنا چاہیے۔‪#‬قرآن کریم میں جس‬
‫واقعہ کی طرف اشارہ آیا ہو اس کی تفصیل ضرورت‬
‫کے بقدر ہی بیان کرنی چاہیے تاکہ قرآن کریم کی‬
‫گواہی سے اس کی تصدیق ہو کیونکہ یہ بھی قاعدہ ہے‬
‫کہ ضروری بات بقدر ضرورت مانی جاتی ہے۔‬
‫(الفوزالکبیر مع شرح الخیر الکثیر‪)453:‬‬
‫اسرائیلی روایات کی مثالیں‬
‫"َو َج اُء ْو َع ٰل ی َق ِم ْی ِص ٖہ ِب َد ٍم َکِذ ٍب "۔ (یوسف‪)18:‬‬

‫اوریوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگاکر لے‬


‫آئے۔‪#‬اس روایت کا خالصہ یہ ہے کہ یوسف علیہ‬
‫السالم کے بھائیوں نے اپنے والد کو اس بات کا یقین‬
‫دالنے کے لیے کہ حضرت یوسف کو ایک بھیڑیے نے ہی‬
‫کھا لیا ہے‪ ،‬ایک بھیڑیے کو باندھ کر حضرت یوسف کے‬
‫والد حضرت یعقوب کے پاس لے آئے اور کہا کہ‪ :‬ابا‬
‫جان! یہی وہ بھیڑیا ہے جو ہماری بکریوں کے ریوڑ میں‬
‫آتا رہتا ہے اور ان کو چیرتا پھاڑتا ہے‪ ،‬ہمارا خیال ہے کہ‬
‫اسی نے ہمارے بھائی یوسف کا خون کیا ہے‪ ،‬بحضرت‬
‫یعقوب نے بھیڑیے سے کہا قریب آؤ‪ ،‬قریب آؤ‪ ،‬وہ قریب‬
‫آ گیا‪ ،‬اس سے کہا تم نے میرے بیٹے کو مار کر تکلیف‬
‫پہنچائی اور مسلسل غم میں مبتال کر دیا ہے‪ ،‬پھر‬
‫حضرت یعقوب نے اللہ سے دعا کی کہا اللہ! تو اس کو‬
‫گویائی دے‪ ،‬اللہ نے اس کو بولنا سکھا دیا‪ ،‬بھیڑیے نے‬
‫کہا‪ ،‬اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بنایا ہے‪ ،‬نہ‬
‫میں نے اس کا گوشت کھایا نہ میں نے اس کی کھال‬
‫ادھیڑی ہے‪ ،‬نہ میں نے اس کا ایک بال اکھیڑا ہے‪ ،‬قسم‬
‫خدا کی آپ کے لڑکے سے میرا کوئی سروکار نہیں‪ ،‬میں‬
‫ایک پردیسی بھیڑیا ہوں میں مصر کے اطراف سے اپنے‬
‫ایک بھائی کی تالش میں آیا ہوا ہوں‪ ،‬میں اس کی‬
‫جستجو میں تھا کہ آپ کے لڑکوں نے میرا شکار کر لیا‪،‬‬
‫ہم لوگوں پر انبیا اور رسولوں کا گوشت حرام کر دیا‬
‫گیا ہے۔الخ۔ (تفسیر ثعلبی‪)4/21:‬‬

‫"َف َاْلٰق َہ ا َف ِا َذ ا ِہ َى َح َّی ٌۃ َت ْس ٰع ی"۔ (ٰط ٰہ ‪)20:‬‬

‫انہوں نے اسے پھینک دیا‪ ،‬وہ اچانک ایک دوڑتا ہوا‬


‫سانپ بن گئی۔ اس آیت کے سلسلہ میں وہب بن منبہ‬
‫کی ایک روایت ہے‪ ،‬انہوں نے کہا کہ حضرت موسی نے‬
‫جب عصا کو زمین پر ڈاال تو دیکھا کہ وہ ایک عظیم‬
‫الجثہ اژدہا بن گیا‪ ،‬لوگ حیرت و استعجاب اور خوف‬
‫زدہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے‪ ،‬اژدہا ِا دھر ُا دھر رینگ‬
‫رہا ہے‪ ،‬جیسے کچھ تالش کر رہا ہو‪ ،‬اژدہا رینگتا ہوا‬
‫پہاڑ کی چٹانوں کے پاس پہنچ گیا تو بھوکے اونٹ کی‬
‫طرح بیتابی کے ساتھ پوری چٹان نگل گیا‪ ،‬جب وہ اپنا‬
‫منہ بڑے سے بڑے تناور درخت کی جڑوں پر لگا دیتا‬
‫تھا تو اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیتا تھا‪ ،‬اس کی‬
‫دونوں آنکھیں دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح تھیں؛ اس‬
‫کے بال نیزوں کی طرح تھے۔الخ۔ (تفسیر ابن‬
‫کثیر‪)5/279:‬‬

‫"َأ َلْم َت َر ِإ َلى اَّلِذ ي َح اَّج ِإ ْب َر اِه يَم ِف ي َر ِّب ِه َأ ْن آَت اُه اُهَّلل‬
‫اْلُم ْلك"۔ (البقرۃ‪)258:‬‬
‫کیا تم نے اس شخص (کے حال) پر غور کیا جس کو‬
‫اللہ نے سلطنت کیا دے دی تھی کہ وہ اپنے پروردگار(‬
‫کے وجود ہی) کے بارے میں ابراہیؑم سے بحث کرنے لگا؟‬
‫اس آیت کی تفسیر میں ایک روایت میں نمرود کے‬
‫بارے میں اس طرح لکھا ہوا ہے‪ :‬ایک مچھر نمرود کی‬
‫ناک میں گس گیا اور اس کی ناک میں چار سو سال‬
‫تک بھنبھناتا رہا‪ ،‬اس مچھر کی اذیت کی وجہ سے‬
‫نمرود انتہائی بے چین رہتا تھا اور مستقل عذاب میں‬
‫مبتال تھا اور جب تکلیف کی شدت اور بے چینی بڑھ‬
‫جاتی تھی تو لوہے کی سالخ سے یا ہتھوڑے سے اس‬
‫کے سر کو ٹھونکا جاتا تھا جس سے مچھر کی اذیت‬
‫کچھ ہلکی پڑتی تھی‪ ،‬اسی عذاب میں نمرود چار سو‬
‫سال زندہ رہا پھر اسی اذیت کی وجہ سے مر گیا۔‬
‫(تفسیر ابن کثیر‪)1/313:‬‬
‫یہ تینوں روایتیں اسرائیلی خرافات میں سے ہیں‪،‬‬
‫جیسا کے علما امت نے اس کی تصریح کی ہے۔‬
‫(تفسیروں میں اسرائیلی روایات‪)444:‬‬

‫قرآن کریم جو اللہ تبارک وتعالی کا عظیم ترین اور‬


‫مقدس ترین کالم ہے اور رسول کریمﷺ کا حیرت‬
‫انگیز ابدی و دائمی معجزہ ہے‪ ،‬جو ساری انسانیت کے‬
‫لیے نسخہ ہدایت اوردستور حیات بنا کر نازل کیا گیا‪،‬‬
‫جس سے مردہ دلوں کی مسیحائی ہوئی اورگم گشتہ‬
‫راہ لوگوں کومنزِل مقصود کا پتہ مال‪ ،‬جس کی علمی‪،‬‬
‫ادبی حالوتوں‪ ،‬روحانی راحتوں اور معانی و مفاہیم‬
‫کے بے پناہ وسعتوں نے ہر زمانہ کے انسانوں کو متاثر‬
‫کیا اورقلب و نظر کی دنیا میں انقالب کا ذریعہ ہے‪،‬‬
‫سب سے بڑا اعجاز اس کالم مبارک کا یہ بھی ہے کہ‬
‫اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لی ہے جو‬
‫اس دنیا میں ازل سے کسی اورکتاب یا صحیفہ آسمانی‬
‫کو نصیب نہیں ہوا اور علوم و معارف کے اس گنجینۂ‬
‫گراں مایہ کی حفاظت اورخدمت کے لیے انسانوں ہی‬
‫میں سے مختلف علوم کے مختلف افراد کا انتخاب‬
‫فرمایا؛ چنانچہ الفاظ قرآنی کے لیے حفاِظ کرام‬
‫کوسعادت حفِظ قرآن بخشی اور مراِد ربانی منشائے‬
‫نبوی کی صحیح تعیین و تشریح کے لیے حضرات‬
‫مفسرین کو منتخب کیا؛ چنانچہ مفسرین کرام نے اپنی‬
‫خداداد ذہانت اور تمام تر صالحیت کو اس کالم الٰہ ی‬
‫کی غواصی میں لگادیا؛ لیکن آج کسی نے یہ دعوٰی‬
‫نہیں کیا کہ تمام تر موتیوں اورعلم وحکمت کے جواہر‬
‫پاروں کو اکٹھا کیا جاس کا‪ ،‬یہ کالم ایک بحر بیکراں‬
‫ہے جس کی مختلف زبانوں میں علمائے امت نے اپنی‬
‫صبح و شام کی محنتوں کا محور بنایا۔ آج انہی علما‬
‫کرام اور مفسرین عظام کی کوششوں اور کاوشوں کا‬
‫ثمرہ ہے کہ مختلف زبانوں میں قرآن کی تفسیر موجود‬
‫ہے‪ ،‬ذیل میں ہم صرف تفسیر قرآن کی مختلف کتابوں‬
‫کے نام مع اسمائے مصنفین و سنہ وفات پیش ہیں‪ ،‬جو‬
‫شروع سے لے کر آج تک امت میں مقبول و متداول ہیں‬
‫اور التعداد انسان ان کتابوں سے استفادہ کر رہے ہیں‪،‬‬
‫پہلے عربی تفاسیر کے نام بعد ازاں اردو کتب تفاسیر‬
‫رقم کی جا رہی ہیں۔‬

‫اہل کتاب کی روایات نقل کرنے والے‬


‫حضرات‬
‫عہد صحابہ اوراس کے بعد کے ادوار میں بھی تفسیر‬
‫قرآن کے ماخذ کے طورپر یہودونصارٰی رہے ہیں؛ کیونکہ‬
‫قرآن کریم بعض مسائل میں عمومًا اورقصص انبیا اور‬
‫اقوام سابقہ کے کوائف واحوال میں خصوصًا تورات‬
‫کے ساتھ ہم آہنگ ہے‪ ،‬اسی طرح قرآن کریم کے بعض‬
‫بیانات انجیل سے بھی ملتے ہیں؛ مثًال حضرت عیسٰی‬
‫علیہ السالم کی والدت کا واقعہ اوران کے معجزات‬
‫وغیرہ۔ البتہ قرآن کریم نے جو طرز و منہاج اختیار کیا‬
‫ہے وہ تورات وانجیل کے اسلوب بیان سے بڑی حد تک‬
‫مختلف ہے‪ ،‬قرآن کریم کسی واقعہ کی جزئیات‬
‫وتفصیالت بیان نہیں کرتا‪ ،‬بلکہ واقعہ کے صرف اسی‬
‫جز پر اکتفاء کرتا ہے جو عبرت وموعظت کے نقطۂ نظر‬
‫سے ضروری ہوتا ہے‪ ،‬یہ انسانی فطرت ہے کہ تفصیلی‬
‫واقعہ کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے‪ ،‬اسی‬
‫کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام اوربعد کے ادوار میں‬
‫تابعین اور تبع تابعین حضرات اہل کتاب کے ان اہل علم‬
‫سے جو حلقہ بگوش اسالم ہوچکے تھے قرآن میں ذکر‬
‫کردہ واقعات کی تفصیل کے واسطے رجوع کیا کرتے‬
‫تھے‪ ،‬اسرائیلی روایات کا مدار وانحصار زیادہ تر حسب‬
‫ذیل چار راویوں پر ہے‪ :‬عبد اللہ بن سالؓم ‪ ،‬کعب احبار‪،‬‬
‫وھب بن منبہ‪ ،‬عبد الملک بن عبد العزیزابن جریج‪،‬‬
‫جہاں تک عبد اللہ بن سالم کی بات ہے تو آپ کے علم‬
‫وفضل میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور ثقاہت‬
‫و عدالت میں آپ اہل علم صحابہ میں شمار ہوتے ہیں‪،‬‬
‫آپؓ کے بارے میں قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں‪ ،‬امام‬
‫بخاریؒ اورامام مسلؒم اوردیگر محدثین نے آپ کی‬
‫روایات پر اعتماد کیا ہے۔ کعب احبار بھی ثقہ راویوں‬
‫میں سے ہیں‪ ،‬ا نہوں نے زمانہ جاہلیت کا زمانہ پایا‬
‫اورخالفت صدیقی یا فاروقی میں حلقہ بگوش اسالم‬
‫ہوئے‪ ،‬حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ خالفت فاروقی‬
‫ہے۔[‪]38‬‬ ‫میں آپ کے اسالم النے کی بات مشہور تر‬

‫آپ کے ثقہ اورعادل ہونے کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ابن‬


‫عباس رضی اللہ عنہ ابوھریرہ رضی اللہ عنہ اپنی‬
‫جاللت قدر اورعلمی عظمت کے باوجود آپ سے‬
‫استفادہ کرتے تھے‪ ،‬امام مسلؒم نے صحیح مسلم میں‬
‫کتاب االیمان کے آخر میں کعب سے متعدد روایات نقل‬
‫کی ہیں‪ ،‬اسی طرح ابوداؤد‪ ،‬ترمذی اورنسائی نے بھی‬
‫آپ سے روایت کی ہیں؛ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کعب‬
‫احبار ان سب محدثین کے نزدیک ثقہ راوی ہیں۔‬
‫اسی طرح وھب بن منبہ کی جمہور محدثین‬
‫اورخصوصًا امام بخاریؒ نے توثیق وتعدیل کی ہے‪ ،‬ان‬
‫کے زہد وتقوی کے بارے میں بڑے بلند کلمات ذکر کیے‬
‫ہیں‪ ،‬فی نفسہ یہ بڑے مضبوط راوی ہیں ؛البتہ بہت‬
‫سے لوگوں نے ان کی علمی شہرت وعظمت سے غلط‬
‫فائدہ اٹھایا کہ بہت سی غلط باتوں کو ان کی طرف‬
‫منسوب کرکے اپنے قد کو اونچا کیا اورلوگوں نے ان کو‬
‫تنقید کا نشانہ بنایا۔‬

‫ابن جریج اصًال رومی تھے‪ ،‬مکہ کے محدثین میں سے‬


‫تھے‪ ،‬عہد تابعین میں اسرائیلی روایات کے مرکز‬
‫ومحور تھے‪ ،‬تفسیر طبری میں نصاری سے متعلق آیات‬
‫کی تفسیر کا مدار انہی پر ہے‪ ،‬ان کے بارے میں علما کے‬
‫خیاالت مختلف ہیں‪ ،‬بعض نے توثیق کی ہے تو بعض نے‬
‫تضعیف بھی کی ہے‪ ،‬بکثرت علما آپ کو مدلس قرار‬
‫دیتے ہیں اورآپ کی مرویات پر اعتماد نہیں کرتے‪ ،‬مگر‬
‫بایں ہمہ امام احمد بن حنبؒل ان کوعلم کا خزانہ قرار‬
‫دیتے ہیں؛ بہرحال ابن جریج سے منقول تفسیری‬
‫روایات کو حزم واحتیاط کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔‬

‫اہل کتاب کی روایات پر مشتمل کتب‬


‫تفاسیر‬
‫کوئی ایسی کتاب جس میں خاص اسرائیلی(اہل کتاب‬
‫کی) روایات کے جمع کرنے پر توجہ دی گئی ہوایسی‬
‫توکوئی تفسیر نہیں ہے؛ البتہ آیات کی تفسیر میں‬
‫عمومًا کتب تفاسیر میں اسرائیلی روایات بھی ذکر کی‬
‫گئی ہیں‪ ،‬جس کا علم راوی کو دیکھ کر یا پھر ان کی‬
‫بیان کردہ باتوں کو اصول شرعیہ کی روشنی میں‬
‫پرکھ کر معلوم کیا جاسکتا ہے‪ ،‬موالنا اسیر ادروی‬
‫صاحب کی ایک کتاب اردو میں" تفسیروں میں‬
‫اسرائیلی روایات" کے نام سے آچکی ہے‪ ،‬جس کے‬
‫مقدمہ میں اسرائیلی روایات سے متعلق عمدہ بحث‬
‫اکٹھا کردی ہے اورپھر جو اسرائیلی روایات ان کو‬
‫معلوم ہوسکیں ان پر الگ الگ کالم کیا ہے اورمعتبر‬
‫تفاسیر سے ان کا اسرائیلی روایات کے قبیل سے ہونا‬
‫بھی ظاہر کیاہے‪ ،‬تفصیل کے لیے اسی کتاب کی طرف‬
‫رجوع کیا جائے۔ یہاں پر چند عربی اور اردو تفاسیرکے‬
‫نام لکھے جا رہے ہیں اور اردومیں صرف مستند تفاسیر‬
‫کے نام لکھے گئے ہیں۔‬

‫ناسخ اور منسوخ‬


‫"نسخ" کے لغوی معنی ہیں مٹانا‪ ،‬ازالہ کرنا‪ ،‬اوراصطالح‬
‫ْی‬ ‫ِل‬ ‫َد‬ ‫ِب‬ ‫ِّی‬ ‫ِع‬ ‫َر‬ ‫َّش‬ ‫ال‬ ‫ِم‬‫ْک‬ ‫ُح‬ ‫میں اس کی تعریف یہ ہے‪َ : ‬ر ْف ُع اْل‬
‫ٍل‬
‫َش َر ِع ٍّی (مناہل العرفان‪:‬ماھو النسخ‪")2/176‬کسی حکم‬
‫شرعی کو کسی شرعی دلیل سے ختم کردینا" مطلب یہ‬
‫ہے کہ بعض مرتبہ اللہ تعالی کسی زمانے کے حاالت کے‬
‫مناسب ایک شرعی حکم نافذ فرماتا ہے پھر کسی‬
‫دوسرے زمانے میں اپنی حکمت بالغہ کے پیش نظر اس‬
‫حکم کو ختم کرکے اس جگہ کوئی نیا حکم عطا‬
‫فرمادیتا ہے اس عمل کو نسخ کہا جاتا ہے اور اس طرح‬
‫جو پرانا حکم ختم کیا جاتا ہے اس کومنسوخ اور جو‬
‫نیا حکم آتا ہے اسے ناسخ کہتے ہیں۔ نسخ کا مطلب‬
‫رائے کی تبدیلی نہیں ہوتا بلکہ ہر زمانے میں اس دور‬
‫کے مناسب احکام دینا ہوتا ہے‪ ،‬ناسخ کا کام یہ نہیں‬
‫ہوتا کہ وہ منسوخ کو غلط قرار دے؛بلکہ اس کا کام یہ‬
‫ہوتا ہے کہ وہ پہلے حکم کی مدت نفاذ متعین کر دے‬
‫اور یہ بتادے کہ پہال حکم جتنے زمانے تک نافذ رہا اس‬
‫زمانے کے لحاظ تووہی مناسب تھا لیکن اب حاالت کی‬
‫تبدیلی کی بنا پر ایک نئے حکم کی ضرورت ہے‪ ،‬جو‬
‫شخص بھی سالمِت فکر کے ساتھ غور کرے گا وہ اس‬
‫نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ تبدیلی‬
‫حکمت الٰہ یہ کے عین مطابق ہے‪ ،‬حکیم وہ نہیں جو ہر‬
‫قسم کے حاالت میں ایک ہی نسخہ پالتا رہے بلکہ‬
‫حکیم وہ ہے جو مریض اور مرض کے بدلتے ہوئے‬
‫حاالت پر بالغ نظری کے ساتھ غور کرکے نسخہ میں ان‬
‫کے مطابق تبدیلیاں کرتا رہے۔‬

‫منسوخ آیات قرآنی‬


‫متقدمین کی اصطالح میں نسخ کا مفہوم بہت وسیع‬
‫تھا‪ ،‬اسی لیے انھوں نے منسوخ آیات کی تعداد بہت‬
‫زیادہ بتائی ہے لیکن عالمہ جالل الدین سیوطی رحمہ‬
‫اللہ نے متأخرین کی اصطالح کے مطابق لکھا ہے کہ‬
‫پورے قرآن میں کل انیس آیتیں منسوخ ہیں۔ (االتقان‪،‬‬
‫عالمہ سیوطی‪)2،22:‬‬

‫پھر آخری دور میں شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوؒی‬
‫نے ان انیس آیتوں پر مفصل تبصرہ کرکے صرف پانچ‬
‫آیتوں میں نسخ تسلیم کیا ہے اور باقی آیات میں ان‬
‫تفسیروں کو ترجیح دی ہے جن کے مطابق انھیں‬
‫منسوخ ماننا نہیں پڑتا ان میں سے اکثر آیتوں کے بارے‬
‫میں شاہ صاحب کی توجیہات نہایت معقول اور قابل‬
‫قبول ہیں لیکن بعض توجیہات سے اختالف بھی کیا‬
‫جاسکتا ہے‪ ،‬جن پانچ آیات کو انھوں نے منسوخ تسلیم‬
‫کیا ہے وہ یہ ہیں‪ُ#: ‬کِت َب َع َلْْی ُکْم ِإ َذ ا َح َض َر َأ َح َد ُکُم اْلَم ْو ُت‬
‫ِإ ن َت َر َک َخ ْْی رًا اْلَو ِص َّی ُۃ ِل ْلَو اِل َد ْْی َو األْق َر ِب ْی َن ِب اْلَم ْع ُر وِف َح ّق ًا‬
‫ِن‬
‫َع َلی اْلُم َّت ِق ْی ن۔ (البقرۃ‪)180 :‬‬

‫جب تم میں سے کسی کے سامنے موت حاضر ہو جائے‬


‫اگر وہ مال چھوڑ رہا ہو تو اس پر والدین اور اقرباء کے‬
‫لیے وصیت بالمعروف کرنا فرض قرار دیدیا گیا ہے‪ ،‬یہ‬
‫حکم متقیوں پر الزم ہے۔ یہ آیت اس زمانے میں الزم‬
‫تھی جب میراث کے احکام نہیں آئے تھے اور اس میں‬
‫ہر شخص کے ذمے یہ فرض قرار دیا گیا تھا کہ وہ مرنے‬
‫سے پہلے اپنے ترکہ کے بارے میں وصیت کرکے جائے کہ‬
‫اس کے والدین یا دوسرے رشتہ دار کو کتنا کتنا مال‬
‫تقسیم کیا جائے؟بعد میں آیات میراث یعنی یوصیکم‬
‫اللہ فی اوالدکم‪ ،‬الخ (النساء‪ )11:‬نے اس کو منسوخ کر‬
‫دیا اور اللہ تعالی نے تمام رشتہ داروں میں ترکے کی‬
‫تقسیم کا ایک ضابطہ خود متعین کر دیا اب کسی‬
‫شخص پر مرنے سے پہلے وصیت کرنا فرض نہیں رہا۔‬
‫سورۂ انفال میں ارشاد ہے‪ِ : ‬إ ْن َی ُکن ِّم نُکْم ِع ْش ُر وَن‬
‫َص اِب ُر وَن َی ْغ ِل ُب وْا ِم َئ َت ْی ِن َو ِإ ن َی ُکن ِّم نُکم ِّم َئ ٌۃ َی ْغ ِل ُب وْا َأ ْلفًا ِّم َن‬
‫اَّلِذ ْی َن َکَف ُر وْا ِب َأ َّن ُہ ْم َق ْو ٌم َّال َی ْف َق ُہ وَن ۔ (األنفال‪)65:‬‬

‫اگر تم میں سے بیس آدمی استقامت رکھنے والے ہوں‬


‫گے تو وہ دوسو پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سے‬
‫سو آدمی ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں‬
‫گے کیونکہ یہ کافر ایسے لوگ ہیں جو صحیح سمجھ‬
‫نہیں رکھتے۔‬

‫یہ آیت اگرچہ بظاہر ایک خبر ہے لیکن معنی کے لحاظ‬


‫سے ایک حکم ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو اپنے سے‬
‫دس گنازائددشمن کے مقابلہ سے بھاگنا جائز نہیں یہ‬
‫حکم اگلی آیت کے ذریعے منسوخ کر دیا گیا‪َ : ‬ا آلَن‬
‫َخ َّف َف الّلُہ َع نُکْم َو َع ِلَم َأ َّن ِف ْی ُکْم َض ْع فًا َف ِإ ن َی ُکن ِّم نُکم ِّم َئ ٌۃ‬
‫ْْی‬ ‫َف‬ ‫َص اِب َر ٌۃ َی ْغ ِل ُب وْا ِم َئ َت ْْی َو ِإ ن َی ُکن ِّم نُکْم َأ ْلٌف َی ْغ ِل ُب وْا َأ ْل‬
‫ِن‬ ‫ِن‬
‫ِب ِإ ْذ ِن الّلِہ َو الّلُہ َم َع الَّص اِب ِر ْی َن ۔ (األنفال‪)66:‬‬

‫اب اللہ نے تمہارے لیے آسانی پیدا کردی ہے اور اللہ کو‬
‫علمٹ ہے کہ (اب)تم میں کچھ کمزوری ہے پس اب اگر‬
‫تم میں سے ایک ہزار افراد استقامت رکھنے والے ہوں‬
‫گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں سے‬
‫ایک ہزار ہوں گے تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب‬
‫ہوں گے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس آیت‬
‫نہ پہلی آیت کے حکم میں تبدیلی پیدا کردی اور دس‬
‫گنے دشمن کی بجائے دوگنے کی حد مقرر کردی کہ اس‬
‫حد تک راہ فرار اختیار کرنا جائز نہیں۔ تیسری آیت‬
‫جسے شاہ صاحب نے منسوخ قرار دیا ہے سورۂ احزاب‬
‫کی یہ آیت ہے‪ : ‬اَل َی ِح ُّل َلَک الِّن َس اء ِم ن َبْع ُد َو اَل َأ ن َت َب َّد َل‬
‫ِب ِہ َّن ِم ْن َأ ْز َو اٍج َو َلْو َأ ْع َج َب َک ُح ْس ُن ُہ ن۔ (االحزاب‪)52:‬‬

‫(اے نبی )آپ کے لیے اس کے بعد عورتیں حالل نہیں‬


‫ہیں اور نہ یہ حالل ہے کہ ان(موجودہ ازواج) کو بدل‬
‫کر دوسری عورتوں سے نکاح کریں خواہ ان کا آپ کا‬
‫حسن پسند آئے۔‬

‫اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید‬


‫نکاح کرنے سے منع فرمادیا گیا تھا بعد میں یہ حکم‬
‫منسوخ کر دیا گیا اور اس کی ناسخ آیت وہ ہے جو‬
‫قرآن کریم کی موجودہ ترتیب میں مذکور باال آیت سے‬
‫پہلے مذکور ہے یعنی‪َ" :‬ی ا َأ ُّی َہ ا الَّن ِب ُّی ِإ َّن ا َأ ْح َلْلَنا َلَک‬
‫َأ ْز َو اَج َک الاَّل ِت ْی آَت ْی َت ُأ ُج وَر ُہ َّن "۔ (االحزاب‪)50:‬‬

‫(اے نبی) ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ ازواج حالل‬


‫کردی ہیں جنھیں آپ نے ان کا مہر دے دیا ہو۔‬
‫شاہ صاحب وغیرہ کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعہ سابقہ‬
‫ممانعت منسوخ ہو گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس‬
‫آیت میں نسخ یقینی نہیں ہے’ بلکہ اس کی وہ تفسیر‬
‫بھی بڑی حد تک بے تکلف اور سادہ ہے جو حافظ ابن‬
‫جریر نے اختیار کی ہے یعنی یہ کہ یہ دونوں آیتیں‬
‫اپنی موجودہ ترتیب کے مطابق ہی نازل ہوئی ہیں‪َ :‬ی ا‬
‫َأ ُّی َہ ا الَّن ِب ُّی ِإ َّن ا َأ ْح َلْلَنا َلَک َأ ْز َو اَج َک ۔ (االحزاب‪)50:‬‬

‫والی آیت میں اللہ تعالی نے کچھ مخصوص عورتوں کا‬


‫ذکر فرمایا ہے کہ ان کے ساتھ نکاح آپ کے لیے حالل ہے‬
‫پھر اگلی آیت اَل َی ِح ُّل َلَک الِّن َس اء ِم ن َبْع د(احزاب‪ ):‬میں‬
‫ارشاد فرمایا ہے کہ ان کے عالوہ دوسری عورتیں آپ‬
‫کے لیے حالل نہیں۔ (تفسیر ابن جریر)‬

‫‪ .1‬چوتھی آیت جو شاہ صاحب کے نزدیک منسوخ‬


‫ہے‪ ،‬سورۂ مجادلہ کی یہ آیت‪: ‬‬
‫َی ا َأ ُّی َہ ا اَّلِذ ْی َن آَم ُنوا ِإ َذ ا َن اَج ْْی ُت ُم الَّر ُس وَل َف َق ِّد ُم وا َبْْی َن َی َد ْْی‬
‫َن ْج َو اُکْم َص َد َق ًۃ َذ ِل َک َخ ْْی ٌر َّلُکْم َو َأ ْط َہ ُر َف ِإ ن َّلْم َت ِج ُد وا َف ِإ َّن‬
‫الَّلَہ َغ ُف وٌر َّر ِح ْی ٌم ۔ (المجادلہ‪)12 :‬‬

‫اے ایمان والو جب تم کو رسول سے سرگوشی کرنی ہو‬


‫تو سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ کر دیا کرو یہ‬
‫تمہارے لیے باعث خیر وہ طہارت ہے پھر اگر تمہارے‬
‫پاس (صدقہ کرنے کے لیے) کچھ نہ ہوتو اللہ تعالی‬
‫بخشنے واال اور مہربان ہے‪ ،‬یہ آیت اگلی آیت سے‬
‫منسوخ ہو گئی۔‬

‫َص َد َق اٍت َف ِإ ْذ َلْم‬ ‫َأَأ ْش َف ْق ُت ْم َأ ن ُتَق ِّد ُم وا َب ْی َن َی َد ْْی َن ْج َو اُکْم‬


‫َۃ َو آُت وا الَّز َکاَۃ‬ ‫َتْف َع ُلوا َو َت اَب اللُہ َع َلْْی ُکْم َف َأ ِق ْی ُم وا الَّص اَل‬
‫َو َأ ِط ْی ُع وا اللہ َو َر ُس وَلُہ ۔ (المجادلہ‪)13:‬‬

‫کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ تم اپنی سرگوشی سے‬


‫پہلے صدقات پیش کرو پس جب تم نے ایسا نہیں کیا‬
‫اور اللہ نے تمہاری توبہ قبول کرلی (اب)نماز قائم رکھو‬
‫اور زکوۃ ادا کرتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی‬
‫اطاعت کرو"اس طرح سرگوشی سے پہلے صدقہ کرنے‬
‫کا حکم منسوخ قرار دیا گیا۔ پانچویں آیت سورۂ مزمل‬
‫کی مندرجہ ذیل آیات ہے‪َ #: ‬ی ا َأ ُّی ا اْلُم َّز ِّم ُل ‪ُ#‬ق ِم الَّلْْی َل ِإ اَّل‬
‫َہ‬
‫َق ِل ْی ًال‪ِ#‬نْص َف ُہ َأ ِو انُق ْص ِم ْن ُہ َق ِل ْی ًال اے مزمل(آنحضرت‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں)رات کو (تہجد میں)‬
‫کھڑے رہی ے مگر تھوڑا سا حصہ آدھی رات یا اس‬
‫میں سے بھی کچھ کم کردیجیے"اس آیت میں رات کے‬
‫کم از کم آدھے حصہ میں تہجد کی نماز کا حکم دیا گیا‬
‫تھا‪ ،‬بعد میں اگلی آیتوں نے اس میں آسانی پیدا کرکے‬
‫سابقہ حکم منسوخ کر دیا وہ آیتیں یہ ہیں‪:‬‬

‫َع ِلَم َأ ن َّلن ُت ْح ُص وُہ َف َت اَب َع َلْْی ُکْم َف اْق َر ُؤ وا َم ا َت َی َّس َر ِم َن‬
‫اْلُق ْر آِن ‪:‬الخ (المزمل‪")20 :‬‬
‫اللہ کو معلوم ہے کہ تم (آئند)ہے اس حکم کی پابندی‬
‫نہیں کرسکوگے اس لیے اللہ نے تمہیں معاف کر دیا پس‬
‫تم( اب) قرآن کا اتنا حصہ پڑھ لیا کرو جو تمہارے لیے‬
‫آسا ن ہو۔ شاہ صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ تہجد کا‬
‫حکم واجب تو پہلے بھی نہیں تھا؛ لیکن پہلے اس میں‬
‫زیادہ تاکید بھی اور اس وقت بھی زیادہ وسیع تھا بعد‬
‫میں تاکید بھی کم ہو گئی اور وقت کی اتنی پابندی‬
‫بھی نہ رہی۔‬

‫یہ ہیں وہ پانچ آیتیں جن میں شاہ صاحب کے قول کے‬


‫مطابق نسخ ہوا ہے لیکن یہ واضح رہے کہ یہ پانچ‬
‫مثالیں صرف اسصورت کی ہیں جس میں ناسخ اور‬
‫منسوخ دونوں قرآن کریم کے اندر موجود ہیں اس کے‬
‫عالوہ ایسی مثالیں قرآن کریم میں باتفاق بہت سی‬
‫ہیں جن میں ناسخ تو قرآن کریم میں موجود ہے لیکن‬
‫منسوخ موجود نہیں ہے مثًال تحویل قبلہ کی آیات‬
)172:‫وغیرہ۔ (علوم القرآن‬

‫حوالہ جات‬
‫ پروفیسر جواد‬،‫ القرآن و علوم القرآن‬،‫ تفہیم القرآن‬.1
107 ‫احمد خاکوانی صفحہ‬

http://dictionary.sakhr.com/idrisidic_2MM.a .2
sp?Lang=E-A&Sub=%dd%d3%d1

crulp.org – Resources and Information (htt .3


p://www.crulp.org/oud/viewword.aspx?refi
d=42444)

crulp.org – Resources and Information (htt .4


p://www.crulp.org/oud/viewword.aspx?refi
d=10583)

crulp.org – Resources and Information (htt .5


p://www.crulp.org/oud/viewword.aspx)
‫‪ .6‬البرھان فی علوم القرآن‪131:‬‬

‫‪ .7‬روح المعانی‪4/1:‬‬

‫‪ .8‬علوم القرآن‪323:‬۔‪325‬‬

‫‪ .9‬بخاری‪ ،‬باب ظلم دون ظلم‪ ،‬حدیث نمبر‪31:‬‬

‫‪ .10‬بخاری‪َ ،‬ب اب َق ْو ِل اِهَّلل َت َع اَلى‪َ ،‬و ُكُلوا َو اْش َر ُبوا‪ ،‬حدیث‬


‫نمبر‪،1783:‬‬
‫‪ .11‬بخاری‪َ ،‬ب اب َش َه اَد ِة اْلَق اِذ ِف َو الَّس اِرِق َو الَّز اِن ي‪ ،‬حدیث‬
‫نمبر‪،2455:‬‬
‫‪ .12‬ابن ماجہ‪ ،‬باب الجرم‪ ،‬حدیث نمبر‪2543:‬‬

‫‪ .13‬مسند احمد بن حنبل‪ ،‬بقیۃ حدیث بن حاتم‪ ،‬حدیث‬


‫نمبر‪9400:‬‬

‫‪ .14‬االتقان فی علوم لقرآن‪ ،‬الفصل فی شرف التفاسیر‪،‬‬


‫النوع الثامن والسبعون‪ ،،2/468:‬المؤلف‪:‬عبد الرحمن‬
‫بن الكمال جالل الدين السيوطي‬
‫‪ .15‬مسند احمد‪ ،‬مسند انس بن مالک‪ ،‬حدیث نمبر‪11769:‬‬
‫‪ .16‬مؤطا مالک‪ِ ،‬ک َت اُب الِّن داِء ِل لّص الِة ‪َ ،‬ب اب َم اَج اَء ِف ي اْلُق ْر آِن ‪،‬‬
‫حدیث نمبر‪428:‬‬

‫‪ .17‬ابن کثیر‪1/3:‬‬

‫‪ .18‬روح المعانی‪12/369 ،‬‬

‫‪ .19‬تفسیر طبری‪5/454 ،‬‬

‫‪ .20‬مقدمہ تفسیر ابن کثیر‪1/3‬‬

‫‪Tafseer Ibn -e- Abbas [r.a] Urdu Translation .21‬‬


‫| ‪By Shaykh Muhammad Saeed Ahmad Atif‬‬
‫‪(http://islamicbookslibrary.wordpress.com/‬‬
‫)‪2011/12/16/tafseer-ibn-e-abbas-‬‬

‫‪ .22‬تفسیر ابن کثیر‪،5-1 ،‬مطبوعہ المکتبہ التجاریۃ الکبری‬


‫‪ .23‬تفسیرروح المعانی‪ ،‬تفسیر سورۂ توبہ‪ ،‬آیت نمبر‪10‬‬

‫‪ .24‬تفسیر روح المعانی‪ ،‬تفسیر سورۂ توبہ‪ ،‬آیت نمبر‪112:‬‬

‫‪ .25‬تفسیر روح المعانی‪ ،‬سورۂ توبہ‪:‬آیت نمبر‪60:‬‬

‫‪ .26‬البرھان ‪ 2/160‬نوع ‪41‬‬


‫‪ .27‬روح المعانی‪10/179‬‬

‫‪ .28‬االتقان‪2/68 ،‬‬

‫‪ .29‬االتقان‪2/69:‬‬

‫‪ .30‬کنزالعمال فی سنن األقول‬


‫واألفعال‪،13/458:‬المؤلف‪:‬علي بن حسام الدين المتقي‬
‫الهندي۔ بخاری‪ِ ،‬ك َت اب اْلُو ُض وِء ‪َ ،‬ب اب َو ْض ِع اْلَم اِء ِع ْنَد‬
‫اْلَخ اَل ِء ‪ ،‬حدیث نمبر‪140:‬‬

‫‪ .31‬الجامع الحکام القرآن‪16/52:‬‬

‫‪ .32‬التفسیر التستری‪1/169:‬‬

‫‪ .33‬التفسیر التستری‪1/439:‬‬

‫‪ .34‬بخاری‪َ ،‬ب اب َق ْو ِل اِهَّلل َت َع اَلى‪َ ،‬و ُكُلوا َو اْش َر ُبوا‪ ،‬حدیث‬


‫نمبر‪1783:‬‬

‫‪ .35‬ترمذی‪ ،‬باب ماجاء فی یفسر القرآن‪ ،‬حدیث‬


‫نمبر‪2874:‬۔ ابو داؤد‪ ،‬الکالم فی کتاب اللہ بغیر علم‪،‬‬
‫حدیث نمبر‪3167:‬‬

‫‪ .36‬االتقان ‪2/18:‬‬
‫‪ .37‬ڑ‬
‫‪ .38‬فتح الباری‪ 158/1 ،‬حدیث نمبر‪95:‬‬

‫اخذ کردہ از «?‪https://ur.wikipedia.org/w/index.php‬‬


‫‪&oldid=5360050‬تفسیر_قرآن=‪»title‬‬

‫اس صفحہ میں آخری بار مورخہ ‪ 12‬اپریل ‪2023‬ء کو ‪23:58‬‬


‫بجے ترمیم کی گئی۔ •‬
‫تمام مواد ‪ CC BY-SA 3.0‬کے تحت میسر ہے‪ ،‬جب تک اس کی‬
‫مخالفت مذکور نہ ہو۔‬

You might also like