You are on page 1of 135

‫درس ‪۶‬‬

‫ج ۔ الحکم الشرعی و تقسیمہ‬


‫مسئلہ ّاول یہ ہے کے ابھی تک ہم پڑھ رھے تھے کے علم ِاصول یعنی ایک ایسا علم ہے‬
‫کے جس میں وہ قواعد ِمشترکہ ‪ ،‬عناصر ِمشترکہ ذکر کرتے ہیں جو حکم ِشرعی کو‬
‫حاصل کرنے کیلئے ہم استعمال کرتے ہیں یا ایسے قواعد ہیں کے جن سے ایسے استفادہ‬
‫کرتے ہیں تا کے حکم ِشرعی کو حاصل کریں ۔ سوال یہ ہے کے حکم ِشرعی کیا ہے ؟‬
‫حکم ِشرعی کسے کہتے ہیں ؟‬
‫حکم ِشرعی یعنی انسانی زندگی کو منظم کرنے کیلئے ہللا کی طرف سے کوئی وظیفہ ۔‬
‫وظیفہ کونسا؟ کیا وہ وظیفہ جو لوگ دیتے ہیں کے ‪ ۴۰‬دن تک یہ ال الہ ّاال ہللا کا وظیفہ‬
‫کرو تو فالں کام ہوگا ‪ ،‬یہ واال وظیفہ ؟‬
‫اس تعریف پر غور کریں تو مراد اگر ہر قسم کا وظیفہ ہو تو معامالت کہاں گئے ؟ مثالً‬
‫شریعت میں لین دین کے احکام بھی ہیں کے اپ کوئی چیز خرید رھے ہیں تو معاملہ فالں‬
‫طریقے سے ہونا چاھئے ‪ ،‬جو خرید رھا ہے اس میں فالں شرائط ہونی چاھئیں ‪ ،‬جس‬
‫سے خرید رھے ہیں اس میں فالں شرائط ہونی چاھئیں ‪ ،‬یہ وظیفہ تو نہیں ہے لیکن احکام‬
‫ہیں ۔‬
‫اگر کہیں وظیفہ یعنی فرائض ‪ ،‬تو مستحبات اور مکروھات کہاں جائیں گے ؟‬
‫اگر کہیں حکم ِشرعی یعنی جن چیزوں کا انسان مکلَّف ہے ان کو انجام دینا ۔ تو چھوڑ‬
‫دینا کہاں جائے گا ؟ اس لئے کے حرام کام کو تو چھوڑنا پڑتا ہے (میں نہیں کرتا ‪ ،‬میرا‬
‫کام نہ کرنا بذات ِ خود کرنا ہے)۔‬
‫علم ِ اصول میں حکم ِشرعی کی دو تعریفیں ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ مشھور اصولی کی تعریف‬
‫‪۲‬۔ شھید باقر صدر کی تعریف‬
‫مشھور اصولی اس طرح تعریف کرتے ہیں‪:‬‬
‫’’وھی الخطابات الشرعیہ المتعلَّق بافعال المکلفین ‘‘‬
‫’’حکم ِشرعی وہ خطابات ِشرعیہ(پروردگار کے وہ خطابات) ہیں جن کا تعلق مکلَّف کے‬
‫فعل کے ساتھ ہوتا ہے‘‘ ۔‬
‫مثالً قران مجید میں خطاب اتا ہے اقیموا الصالۃ ‪ ،‬اقیموا الصالۃ ایک خطاب ہے جو خدا‬
‫مومنین و بندگان سے کر رھا ہے کے نماز پڑھو ۔ یہ ایک ایسا خطاب ہے جس کا تعلق‬
‫مکلَّف کے فعل کے ساتھ ہے ‪ ،‬نماز پڑھنا مکلَّف کا فعل ہے ‪ ،‬پس تعریف کے مطابق ہر‬
‫وہ خطاب جس کا تعلق مکلَّف کے فعل کے ساتھ ہو اس کو کہتے ہیں حکم ِشرعی ۔‬

‫اقیموا الصالۃ فعل ہے ‪ ،‬اتوا الزکات فعل ہے و ہلل علی الناس ِحج البیت فعل ہے ‪ُ ،‬کتِ َ‬
‫ب‬
‫علیکم الصیام فعل ہے ‪ ،‬یہ خطابات ہیں جن کا تعلق فعل کے ساتھ ہے ۔‬
‫کتنی اچھی تعریف ہے کے خدا کی طرف سے ‪ ،‬شارع کی طرف سے جتنے بھی خطابات‬
‫اتے ہیں ان کا تعلق انسان کے فعل کے ساتھ ہے تو یہ حکم ِشرعی ہے ۔‬
‫ت شرعیہ ہیں جن کا تعلق مکلَّف کے فعل کے‬
‫کیا اس تعریف میں (حکم شرعی وہ خطابا ِ‬
‫ساتھ ہوتا ہے) کوئی ایراد و اشکال ہے ؟‬
‫سوال جو افعال مکلَّف کے ہیں اور ان کیلئے خطاب نہیں ہونگے تو کیا ہو حکم ِشرعی‬
‫نہیں ہونگے ؟ ہم بیان کریں گے کے مکلَّف کا کوئی ایسا فعل نہیں جس کیلئے ہللا کی‬
‫طرف سے کوئی خطاب نہ ہو ‪ ،‬خدا یا جزئی طور پر بیان کرتا ہے یا کلی قانون دیتا ہے ۔‬
‫ان شاء ہللا ہم بیان کریں گے کے عقلی دالئل بھی موجود ہیں اور شرعی دالئل بھی موجود‬
‫ہیں کے انسان کی زندگی کا کوئی حصہ ایسا نہیں کے جس کیلئے حکم ِخدا موجود نا ہو۔‬
‫اس کی تاکید کیلئے امام صادق کے پاس ابو بصیر اتے ہیں مفصل روایت ہے اصول ِکافی‬
‫میں ‪ ،‬فرماتے ہیں کہ اے ابو بصیر تم مجھے اپنا ھاتھ دو اور اجازت دو کے ھلکی سی‬
‫ناخون پر خراش دوں ‪ ،‬ابو بصیر کہتے ہیں موال اجازت کیا ہم تو اپ کی ملکیت ہیں ‪،‬‬
‫امام نے ھلکی سی ناخون پر خراش دی (ناخون کی وجہ سے کچھہ نا کچھہ خراش تو اتی‬
‫ہے) امام فرماتے ہیں یہ جو خراش تمھارے ھاتھہ پر ائی ہے اس کے لئے بھی‬
‫حکم ِشرعی موجود ہے اور اس حکم ِشرعی کا حکم خود ھماری دادی کی کتاب‬
‫مصحف ِفاطمہ ہے اس کے اندر موجود ہے ‪ ،‬خراش کا حکم و جریمہ ہے ‪ ،‬اس کیلئے‬
‫بھی حکم ِشرعی ہے تو بقیہ احکامات میں تو کوئی شک ہی نہیں ۔‬
‫اس تعریف پر دو اشکال ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ الخطابات ِالشرعیہ پر‬
‫‪۲‬۔ افعال ِ مکلَّف پر‬
‫ابتداء دوسرے اشکال سے کرتے ہیں یعنی افعال ِمکلَّف سے ۔‬
‫مشھور اصولی ک کہنا ہے کے حکم ِشرعی کا تعلق فعل ِمکلَّف کے ساتھ ہے ۔ سوال ‪:‬‬
‫زوجیت ‪ ،‬ملکیت ‪ ،‬صحت ‪ ،‬فساد وغیرہ حکم ِشرعی تو ہیں لیکن ان کا تعلق فعل ِمکلَّف‬
‫سے نہیں ہے ؟ مثالً میں کہتا ہوں نماز صحیح ہے ‪ ،‬نماز باطل ہے ‪ ،‬یہ صحت ِ صالۃ ‪،‬‬
‫یہ بطالن ِنماز کیا حکم ِشرعی ہے ؟ نماز تو میرا فعل ہے لیکن نامز کا صحیح ہونا یا نماز‬
‫کا باطل ہونا میرا فعل تھوڑی ہے ‪ ،‬عقد کرنا ‪ ،‬نکاح کرنا تو میرا فعل ہے لیکن زوجیّت‬
‫میرا فعل تھوڑی ہے ‪ ،‬میں کسی چیز کو کرید رھا ہوں وہ چیز میری ملکیت میں ارھی‬
‫ہے ‪،‬کسی چیز کا خریدنا تو میرا فعل ہے لیکن اس چیز کا میری ملکیت میں انا تو میرا‬
‫نہیں ہے ۔ ’’پس یہ جو اپ کہہ رھے ہیں حکم ِشرعی یعنی وہ خطاب ِشرعی کے جس کا‬
‫افعال ِمکلَّف کے ساتھ تعلق ہو یہ تعریف جامع افراد نہیں ہے ۔ بھت سارے احکامات ہیں‬
‫جو حکم ِشرعی ہیں لیکن ان کا تعلق فعل ِمکلَّف کے ساتھ نہیں ہے‘‘۔ کیا صحت ِ صالۃ‬
‫میرا فعل ہے ؟ نہ ۔کیا زاجیت میرا فعل ہے ؟ نہ ۔ کیا ملکیت میرا فعل ہے ؟ نہ ۔‬
‫پھر کیسے کہہ رھے ہیں کے حکم ِشرعی یعنی ایک ایسا خطاب کے جس کا تعلق‬
‫فعل ِمکلَّف کے ساتھ ہے ۔‬
‫منطق میں اپ پڑھہ چکے ہیں کے تعریف جامع اور مانع ہونی چاھئے ہے یہ تعریف‬
‫جامع افراد نہیں ہے بھت ساری چیزیں ہیں جو حکم ِشرعی ہیں لیکن تعریف کے اندر نہیں‬
‫ہیں ۔‬
‫دوسرا اشکال خطاب ِشرعی (حکم ِشرعی)پر ہے ۔‬
‫اقیموا الصالۃ حکم ہے یا اقیموا الصالۃ کے ذریعہ ہم حکم ِشرعی کو سمجھتے ہیں ؟ حکم‬
‫اقیموا الصالۃ ہے یا حکم وجوب ِصالۃ ہے؟ حکم وجوب ِصالۃ ہے ‪ ،‬اقیموا الصالۃ تو حکم‬
‫نہیں ہے ‪ ،‬صحیح ہے کے وجوب ِ صالۃ کو ہم اقیموا الصالۃ سے سمجھتے ہیں لیکن‬
‫اقیموا الصالۃ تو حکم ِشرعی نہیں ہے ۔‬
‫’’پس حکم ِشرعی خطابات ِ شرعیہ نہیں ہیں بلکہ خطابات ِشرعیہ جس پر داللت کرتے ہیں‬
‫وہ حکم ِشرعی ہے ‘‘۔‬
‫خالصہ‪:‬‬
‫اشکال ِّاول ‪ :‬حکم ِشرعی خود خطاب ِشرعی نہیں ہے بلکہ خطاب ِشرعی کا مدلول ہے‬
‫جبکہ مشھور اصولی تعریف کر رھے ہیں کے حکم ِشرعی خطاب ِشرعی ہے۔‬
‫ِدوم ‪ :‬حکم ِشرعی ہمیشہ فعل ِمکلَّف کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا بھت سارے احکام‬ ‫اشکال ّ‬
‫ہیں جن کا تعلق افعال ِمکلَّفین سے نہیں ۔‬
‫یہ دو اشکال مشھور کی تعریف پر وارد ہیں ‪ ،‬اقا شھید صدر کہتے ہیں کے یہ تعریف‬
‫اتنی اچھی نہیں ہے ۔‬
‫سوال ِشاگرد ‪ :‬اگر بطالن ِنماز کیلئے کوئی خطاب ا بھی جاتا ہے تو وہ فعل ِمکلَّف کے‬
‫ساتھ رابطے میں تو ہے ہی ؟‬
‫جواب ِ استاد ‪ :‬رابطے میں تو ہے لیکن فعل ِمکلَّف نہیں ہے ‪ ،‬یہ مانتا ہوں کے‬
‫صحت ِصالۃ اور فساد ِصالۃ کا تعلق اس کو قبول کرتا ہوں کے فعل کے ساتھ مرتبط ہے‬
‫لیکن تعریف کہہ رھی ہے المتعلق بافعال المکلَّف فعل ِمکلَّف کے ساتھ تعلق ہے ۔‬
‫تعریف میں انسان ذرہ بین لے کر کھڑا ہو جاتا ہے ‪ ،‬تعریف کو بلکل شفاف ہونا چاھئے ‪،‬‬
‫تعریف میں کوئی پیچیدگی نا ہو اگر مگر نا ہو ‪ ،‬تعریف کو پرفیکٹ ہونا چاھئے ۔‬
‫اقا شھید صدر کہتے ہیں کے ہم ایسی تعریف بیان کریں گے جس میں ان نقائص میں سے‬
‫کوئی نقص نہیں ۔‬
‫شھید صدر کہتے ہیں حکم ِشرعی کی تعریف یہ کریں‪:‬‬
‫’’ھو التشریع الصادر من ہللا لتنظیم حیاۃ االنسان‘‘‬
‫’’حکم ِشرعی ہو قانون ہے جو پروردگار ِعالم کی طرف سے صادر(بیان) ہوتا ہے تاکے‬
‫انسان کی زندگی منظم ہوسکے ‘‘۔‬
‫انسان کی زندگی میں تنظیم پیدا کرنے کیلئے ‪ ،‬نظم و ضبط پیدا کرنے کیلئے جتنے بھی‬
‫احکام ہیں چاھے مسعتیم چریقے سے فعل ِمکلَّف کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جیسے‬
‫وجوب ِصالۃ یا چاھےغیر مستقیم طریقے سے فعل ِمکلَّف کے ساتھ تعلق نہ رکھتے ہوں‬
‫جیسے زوجیّت ‪ ،‬ملکیت ۔ باالخر انسان کی زندگی میں زوجیت کا سلسلہ رکھا گیا ہے تاکہ‬
‫انسان کی زندگی میں نظم ائے۔ ملکیت کا سسٹم رکھا گیا ہے تاکے زندگی میں ھرج و‬
‫مرج نا ہو ۔‬
‫التقسیم الحکم الی تکلیفی و وضعی‬
‫حکم ِشرعی کی دو قسمیں ہیں ۔‬
‫‪۱‬۔ حکم تکلیفی‬
‫‪۲‬۔ حکم ِوضعی‬
‫مشھور کی جو تعریف بیان ہوئی تھی اس پر شھید صدر نے ایراد و اشکال کیا تھا ۔‬
‫مشھور کہہ رھے تھے کے خطاب ِشرعی کے جس کا تعلق فعل ِمکلَّف کے ساتھ ہے ‪ ،‬اقا‬
‫شھید صدر نے فرمایا کے ضروری نہیں ہے کے حکم ِشرعی کا تعلق ہمیشہ فعل ِمکلَّف‬
‫کے ساتھ ہو بلکہ بسا اوقات حکم ِشرعی کا تعلق ایک ذات سے ہوتا ہے جیسے زجیت ‪،‬‬
‫بسا اعقات حکم ِشرعی کا تعلق کسی اور چیز کے ساتھ ہوتا ہے جیسے ملکیت ‪ ،‬جس کا‬
‫تعلق مال کے ساتھ ہے ۔‬
‫اقا شھید صدر کہتے ہیں کے بس یھاں سے سمجھہ میں اتا ہے کے کلی طور پر حکم کی‬
‫دو قسمیں ہیں ۔ یا حکم کا تعلق مستقیما ً انسان کے فعل کے ساتھ ہے جسے حکم ِتکلیفی‬
‫کہتے ہیں مثالً نماز ۔ یا نہ حکم کا تعلق مستقیما ً انسان کے فعل کے ساتھ نہیں ہے جیسے‬
‫حکم ِوضعی مثالً زوجیت مستقیم طریقے سے فعل ِمکلَّف نہیں ہے لیکن باالخر فعل ِمکلَّف‬
‫کے ساتھہ اس کا تعلق ہے ۔‬
‫سوال ‪ :‬حکم ِتکلیفی اور حکم ِ وضعی کے درمیان کیا رابطہ ہے ؟‬
‫جواب ‪ :‬حکم تکلیفی اور حکم وضعی کے درمیان رابطہ دو طریقوں سے ہے ۔ایک رابطہ‬
‫یہ ہے کے حکم ِوضعی موضوع واقع ہوتا ہے حکم ِتکلیفی کیلئے ۔ مثالً زوجیت ‪ ،‬یہ‬
‫زوجیت موضوع واقع ہوتا ہے بعض احکام ِتکلیفیہ کے اوپر ‪ ،‬یہ زوجیت موضوع ہے چید‬
‫احکام ِتکلیفیہ کیلئے مثالً ایک حکم ِتکلیفی وجوب ِانفاق ہے زوج پر‪ ،‬یہ حکم ِتکلیفی ہے‬
‫کے زوج پر واجب ہے کے زوجہ کے اخراجات برداشت کرے ‪ ،‬شوھر پر واجب ہے‬
‫شریعت میں ‪ ،‬اس کا موضوع کیا ہے ؟ شوھر پر واجب ہے کے اخراجات برداشت کرے‬
‫‪ ،‬اس کا موضوع کیا ہے ؟اس کا موضوع ہے زوجۃ ‪ ،‬کس کے اخراجات واجب ہیں ؟ جو‬
‫زوجۃ ہے اس کے اخراجات واجب ہیں ‪ ،‬پس یہ زوجیت موضوع بنتا ہے وجوب ِانفاق‬
‫کیلئے ‪ ،‬مراۃ پر واجب ہے کے وہ زوج کی اطاعت کرے ‪ ،‬وجوب ِاطاعت واجب ہے ‪،‬‬
‫موضوع کیا ہے ؟ زوجیت کے وہ شوھر ہے ‪ ،‬پس حکم ِ وضعی یہ زاجیت موضوع واقع‬
‫ہو رھا ہے حکم ِتکلیفی کیلئے ۔‬
‫پھال رابطہ حکم ِ تکلیفی اور حکم ِ وضعی کا کیا ہے کے بسا اوقات حکم ِوضعی موضوع‬
‫واقع ہوتا ہے حکم ِ تکلیفی کیلئے ۔‬
‫ایک اور رابطہ بھی ہے یہ تھوڑا سمجھنے واال ہے دوسرا رابطہ بسا اوقات حکم ِوضعی‬
‫کو حکم ِتکلیفی سے انتزاع کیا جاتا ہے ۔ یہ کیسے ہوتا ہے ؟ شارع نے ہمیں دو حکم ِ‬
‫شرعی بیان کئے ہیں کہا اقیموا الصالۃ نماز پڑھو ۔‬
‫شارع کہہ رھا ہے اقیموا الصالۃ نماز واجب ہے ‪ ،‬دوسری مرتبہ کہتا ہے کے فقط نماز‬
‫کافی نہیں ہے نماز جب بھی پڑھیں وضو کے ساتھ پڑھیں اذا قمتم من الصالۃ فاغسلوا‬
‫‪،‬ایک وجوب صالۃ اور ایک وجوب وضو ۔شارع کہتا ہے کے اپ کی نماز اپ کے وضو‬
‫کے ساتھ ہوگی ‪ ،‬یہ دونوں حکم ِتکلیفی ہیں ‪ ،‬وجوب ِ صالۃ کیونکہ فعل ِمکلَّف کے ساتھ‬
‫مرتبط ہے ‪ ،‬وجوب ِوضو فعل مکلَّف کے ساتھ مربوط ہے یہ حکم ِتکلیفی ہیں لیکن ان‬
‫دونوں حکم ِتکلیفیوں کو اپس میں مالتے ہوئے ہماری عقل ایک اور چیز کو انتزاع کرتی‬
‫ہے ۔ شارع کہتا ہے کے نماز وضو کے بغیر نہ ہو پس وضو نماز کیلئے شرط ہے ‪ ،‬جب‬
‫شارع نی کہا ہے نماز وضو کے بغیر نہیں یعنی وضو شرط ِنماز ہے ‪ ،‬اس شرطیت کو‬
‫ھماری عقل درک کرتی ہے ‪ ،‬شارع نے کہا نماز وضو کے بغیر نہیں پس شرطیت رکھتا‬
‫ہے وضو نماز کی بالنسبت یا مثالً شارع نے کہا کے نماز جب بھی پڑھیں اس کے اندر‬
‫حمد و سورۃ بھی ہو ۔پس نماز حمد و سورۃ کے بغیر ممکن نہیں ہے ‪ ،‬وجوب ِنماز حکم‬
‫تکلیفی ‪ ،‬وجوب ِ سورۃ حکم ِتکلیفی ‪ ،‬وجوب َحمد حکم ِتکلیفی لیکن ان احکامات سے‬
‫ہماری عقل اس چیز کو سمجھتی ہے پس حمد نماز کا جزء ہے ‪ ،‬سورۃ نماز کا جزء ہے‬
‫۔حکم ِتکلیفی ہے لیکن ہم اس سے جزئیت کو انتزاع کرتے ہیں ‪ ،‬جزئیت کو سمجھتے ہیں‬
‫۔‬
‫شارع کہہ رھا ہے ّ‬
‫ان القھقھۃ تبطل الصالۃ ‪ ،‬نماز میں قھقھہ لگائیں تو نماز باطل ہو جائے‬
‫گی ‪ ،‬ابو حنیفہ کہتے ہیں کے وضو بھی باطل ہو جائے گا اور نماز بھی باطل ہو جائے‬
‫گی لیکن ہمارے یھاں(اھل تشیع) تو فقط نماز باطل ہے۔‬
‫ہماری عقل سمجھتی ہے کے قھقھہ فقط نماز کے لئے مانع کی حیثیت رکھتا ہے۔‬
‫دیکھیں چند احکام ِتکلیفیہ ہیں ‪ ،‬ایک مرتبہ شرطیت کو ہم نے انتزاع کیا ‪ ،‬ایک مرتبہ‬
‫جزئیت کو انتزاع کیا ‪ ،‬ایک مرتبہ مانعیت کو انتزاع کیا ۔ یہ شرطیت ‪ ،‬مانعیت ‪ ،‬جزئیت‬
‫حکم ِتکلیفی تو نہیں ہیں ‪ ،‬حکم ِتکلیفی کو سے ان چیزوں کو انتزاع کیا ہے ۔ شرطیت‬
‫حکم ِوضعی ہے ‪ ،‬جزئیت حکم ِوضعی ہے ‪ ،‬مانعیت حکم ِوضعی ہے ‪ ،‬پس حکم ِتکلیفی‬
‫اور حکم ِوضعی کا ایک رابطہ یہ ہے کے کبھی کبھار ہم حکم ِتکلیفی سے حکم ِوضعی‬
‫انتزاع کرتے ہیں ۔‬
‫اقسام الحکم التکلیفی‬
‫احکام ِتکلیفیہ ‪ ۵‬ہیں‬
‫‪۱‬۔ وجوب ‪۲‬۔ حرمت ‪۳‬۔ استحباب ‪۴‬۔ کراھۃ ‪۵‬۔ اباحہ‬
‫ہمارے یہاں(اھل تشیع) حکم تکلیفی ‪ ۵‬ہیں جن جو احکام ِخمسہ بھی کہا جاتا ہے جبکی‬
‫اھل سنت کے نزدیک ‪ ۷‬ہیں ۔‬
‫‪ 1.‬وجوب ‪ :‬ایسا حکم ِشرعی کے جس میں کہا جاتا ہے کے فعل کو حتما ً انجام دو ‪،‬‬
‫فعل کو چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے ۔‬
‫حرمت ‪ :‬اس فعل کو حتما ً ترک کریں ‪،‬فعل کو انجام دینے کی اجازت نہیں ہے ۔‬ ‫‪2.‬‬
‫‪ 3.‬استحباب ‪ :‬شارع کہتا ہے بھتر ہے کے اس کو انجام دیں ‪ ،‬اگر چھوڑ بھی دیں تو‬
‫اختیار ہے ۔‬
‫‪ 4.‬کراھت ‪ :‬شارع کہتا ہے بھتر ہے کے اس کو انجام نہ دیں ‪ ،‬اگر انجام دیں بھی دیں‬
‫تو اختیار ہے ۔‬
‫اباحہ ‪ :‬انجام دینا اور انجام نہ دینا برابر ہے ۔‬ ‫‪5.‬‬

‫درس ‪۸‬‬
‫مبادئ عامہ‬
‫بحث جدید میں وارد ہونے سے پھلے ایک تقسیم بندی بیان کر رھے ہیں اقا شھید صدر‬
‫مباحث کیلئے۔‬
‫شھید صدر فرماتے ہیں جو فقیہ دلیل قرار دیتا ہے حکم شرعی کیلئے۔‬
‫حکم شرعی کیلئے جو دلیل ہے وہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہے ‪ ،‬یا تو ایک ایسی دلیل‬
‫ہے جو حکم شرعی تک پہنچاتی ہے یا حکم شرعی تک نہیں پہنچاتی بلکہ موقف عملی‬
‫کو معین کرتی ہے ۔‬
‫جو دلیل حکم شرعی تک پہنچاتی ہے اسے کہتے ہیں ادلہ محرزہ یا دلیل محرز یا دلیل‬
‫اجتھادی ۔‬
‫جو دلیل حکم شرعی تک نہ پہنچائے بلکہ موقف عملی کو معین کرے تو اسے اصول‬
‫عملی کہتے ہیں ۔‬
‫جو دلیل حکم شرعی تک پہنچاتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں ۔‬
‫‪۱‬۔ یا تو وہ دلیل قطعی طریقے سے حکم شرعی تک پہنچاتی ہے تو یہ دلیل حجت ہے‬
‫ذاتا۔‬
‫(‪ )۱‬دلیل حکم شرعی تک پہنچائےاور اس کا حکم شرعی تک پنہچانا بھی یقینی ہے تو‬
‫اسے ہم کہتے ہیں دلیل قطعی۔(ادلہ محرزہ میں سے دلیل قطعی)‬
‫‪۲‬۔ یا تو وہ دلیل ظنی طریقے سے حکم شرعی تک پہنچاتی ہے ۔‬
‫(‪ )۱‬یا تو اس دلیل ظنی کی حجیت پر دلیل قطعی موجود ہے ۔‬

‫(‪ )۲‬یا تو اس دلیل ظنی کی عدم حجیت پر دلیل قطعی موجود ہے ۔‬

‫(‪)۳‬یا تو اس کی حجیت پرنہ تو دلیل قطعی موجود ہے اور نہ عدم حجیت پر دلیل قطعی‬
‫موجود ہے۔‬
‫وضاحت ‪:‬‬
‫دلیل ظنی ان تین حالتوں سے خالی نہیں ہے ۔‬
‫(‪ )۱‬یا تو اس دلیل ظنی کی حجیت پرھمارے پاس دلیل قطعی موجود ہے ۔ جیسے خبر‬
‫ثقہ ‪ ،‬خبر ثقہ دلیل ظنی ہے کیونکہ ثقہ جو بھی قابل اعتبار ہےاس کی خبر حجت ہے ۔‬
‫خبر ظقہ ظنی ہے کیونکہ انسان جتنی بھی کوشش کرے باالخر ثقہ کی خبرسے ظن‬
‫حاصل ہوتا ہے ‪ ،‬احتمال ہے کے اشتباہ کیا ہو‪ ،‬احتمال ہے انحراف کیا ہو ‪ ،‬لھذا خبر ثقہ‬
‫ظنی ہے لیکن اس کی حجیت پر ھمارے پاس دلیل قطعی موجود ہے ۔ اگر ایسی دلیل ہو‬
‫اگرچہ دلیل ظنی ہے لیکن اس کی حجیت پر دلیل قطعی موجود ہے تو یہ بھی اسی پہلے‬
‫کے درجے میں چلی جائے گی یعنی دلیل قطعی ہوجائے گی (جہاں پر دلیل محرز پر‬
‫حکم قطع ‪،‬دلیل قطعی موجود ہے تو ہم نے کہا کے حجت ہے ‪ ،‬تو اسی طریقے سے وہ‬
‫دلیل کے جو خود دلیل ‪ ،‬بذات خود دلیل ظنی ہے لیکن اس کی حجیت پر ھمارے پاس دلیل‬
‫قطعی موجود ہے تو وہ بھی دلیل قطعی کے درجے میں چلی جائے گی ۔ درست ہے کے‬
‫بذات خود حجت نہیں ہے لیکن اس کی حجیت پر ھمارے پاس دلیل ہے )۔‬
‫(ان شا ہللا خبر ثقہ اور خبر واحد کے بارے میں بحث کریں گے اور ثابت کریں گے‬
‫کے خبر واحد کی حجیت پر ھمارے پاس ادلہ موجود ہیں )‬
‫ایسی دلیل کے جو دلیل ظنی ہو اور اس کی حجیت پر دلیل قطعی موجاد ہو تو اسے کہتے‬
‫ہیں ظنون ِخاصہ(ظن ِخاص ہے) ۔‬
‫ظن ِخاص ہے یعنی کیا ؟‬
‫یعنی ایسا ظن ہے کے جس کی حجیت پر ھمارے پاس دلیل موجود ہے ۔‬
‫(‪ )۲‬یا تو اس دلیل ظنی کی عدم حجیت پر دلیل قطعی موجود ہے کے حجت نہیں ہے ۔‬
‫جیسے قیاس ‪ ،‬قیاس حجت نہیں ہے ۔‬
‫( قیاس یعنی جسے منطق میں اپ تمثیل کہتے ہیں ۔ تمثیل یعنی ایک جزئی سے دوسری‬
‫جزئی کی طرف جانا )۔‬
‫کہتے ہیں کے قیاس دلیل ظنی ہے(علم اصول میں تمثیل کو قیاس کہتے ہیں)‬
‫قیاس حجت نہیں ہے ‪ ،‬اسکے عدم ِحجیت پر دلیل دیتے ہیں ۔ مثال امام صادق فرماتے ہیں‬
‫کہ ‪ :‬پھال بندہ جس نے روئے زمین پر قیاس کیا وہ شیطان تھا ۔‬
‫قیاس کی عدم ِحجیت پر یہ روایت دلیل ہے پس ظن حجت نہیں ہوگا کیونکہ اسکی حجیت‬
‫پر یعنی اس کے حجت ہونے پر دلیل نہیں ہے۔‬
‫(‪ )۳‬انّما الکالم و االشکال اس مورد میں کے جہاں پر دلیل ظنی موجود ہے لیکن نہ اس‬
‫کی حجیت پرھمارے پاس دلیل قطعی موجود ہے اور نہ اسکے عدم ِ حجیت پر ھمارے‬
‫پاس دلیل قطعی موجود ہے۔‬
‫اب کیا کریں ؟ اگر ام کے پاس ایسی دلیل اجائے جو دلیل ‪ ،‬دلیل ِ ظنی ہے ۔ نہ اس کی‬
‫حجیت پر دلیل ہے اور نہ اس کی عدم ِحجیت پر دلیل ہے تو کیا وہ بھی حجت ہوگا یا‬
‫حجت نہیں ہوگا ؟‬
‫اصل یہ ہے کے ظن پر عمل کرنا جائز نہیں ہے اس لئے کے ظن انسان کو واقع اور‬
‫حقیقت تک نہیں پہنچاتا بلکہ انسان گمان کرتا ہے کے ایسے ہوگا لیکن کیا ایسا ہے بھی‬
‫یا نہیں ‪ ،‬یہ نہیں جانتا ۔‬
‫ان الظنَّال یغنی من الحق شیئا‬
‫ّ‬

‫( حق میں سے کسی چیز سے ظن بے نیاز نہیں کرسکتا )‬


‫قل ءہللا اذن لکم ام علی ہللا تفترون‬
‫کیسے اپ اس ظن پر عمل کرتے ہیں ؟ ہللا نے اجازت دی ہے ۔‬
‫ال تقف ما لیس لک بہ العلم‬
‫جس شیز کا علم اپ کع نہیں ہے اس کے پیچھے نہ جائو۔‬
‫ظن میں علم نہیں ہے ظن کے پیچھے نہ جائو ۔‬
‫یہ سارے ادلہ اس بات کے کہ اگر ایک مورد میں دلیل ظنی ہے لیکن نہ تو اس کی حجیت‬
‫پر اور نہ اس کی عدم ِحجیت پر دلیل ہے ‪ ،‬تو وہ حجت نہیں ہے ۔‬
‫اس کو قدیم علم ِاصول کی کتابوں میں ایسے ثابت کرتے تھے ‪:‬‬
‫کسی بھی دلیل کی حجیت میں شک ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ دلیل حجت نہیں ہے ‪،‬‬
‫یھی کے حجیت میں شک ہے یہ برابر ہے اس کے کہ یہ حجت نہیں ہے ۔‬
‫شک در حجیت برابر ہے کے یہ حجت نہیں ہے ۔‬
‫اسی بات کو اصول میں یوں بھی کہتے ہیں ‪:‬‬
‫اصل ِاُولی ظن میں عدم ِحجیت ہے۔‬
‫یعنی اصل ِ اُولی ظن کے بارے میں یہ ہے کے ظن حجت نہیں ہے اس کی حجیت پر دلیل‬
‫چاھئے ہے ۔‬
‫تمام مباحث کا خالصہ‬

‫تقسیم البحث‬
‫دلیل شرعی یا دلیل محرز ہے یا اصل عملی ۔‬
‫دلیل شرعی یا دلیل لفظی ہے یا دلیل غیر لفظی ۔‬
‫دلیل لفظی یا اصل ِ داللت ہے(معین کریں کے داللت کے بارے میں)‪ ،‬یا حجیت داللت‬
‫ہے(کیا یہ داللت حجت بھی ہے یا نہیں)‪ ،‬یا صدور ِ دلیل ہے(کیا واقعی شارع سے صادر‬
‫ہوئے ہے یا نہیں)۔‬
‫دلیل شرعی کسے کہتے ہیں ؟‬
‫تعریف ِدلیل ِشرعی ‪:‬‬

‫اس دلیل کع کہتے ہیں کے ہر وہ چیز جو شارع سے صادر ہو اور حکم شرعی پر داللت‬
‫کرے ۔ مثال اقیموا الصالۃ ‪ ،‬جب اقیموا الصالۃ شارع سے صادر ہوا ہے تو یہ اقیموا‬
‫الصالۃ داللت کر رھا ہے حکم شرعی پر کے نماز پڑھنا واجب ہے۔‬
‫دلیل عقلی کسے کہتے ہیں ؟‬
‫تعریف ِ دلیل ِ عقلی ‪:‬‬
‫وہ قضایا کے جن کو ھماری عقل درک کرتی ہے اور ان سے حکم شرعی کو استنباط‬
‫کرے ۔ مثال ھماری عقل درک کرتی ہے کے ایک شیء کو واجب قرار دینا مستلزم ہے‬
‫کے مقدمہ بھی واجب ہو۔‬
‫اب یہ قضیہ ہے ‪:‬‬
‫ایجاب شئ یستلزم ایجاب مقدمتہ‬
‫ایک شئ اگر واجب ہوجائے تو اس کا الزمہ یہ ہے کے اس کا مقدمہ بھی واجب ہے ۔‬
‫یہ ایک قضیہ ہے کے جس کو ھماری عقل دلک کرتی ہے لیکن اس قضیہ سے اپ کیا‬
‫کرتے ہیں ؟ ایک حکم شرعی کو انتزاع کرتے ہیں‪ ،‬اسے کہیں گے دلیل ِ عقلی ۔‬
‫دلیل شرعی یا کتاب(قران مجید) ہے یا سنت(قول‪،‬فعل‪،‬تقریر ِمعصوم) ہے۔‬
‫سنت کی تعریف کیا ہے؟‬
‫معصوم ‪،‬تقریر ِ معصوم ۔‬
‫ِ‬ ‫تعریف ‪ :‬قول ِ معصوم ‪،‬فعل ِ‬
‫اھل ِسنت کہتے ہیں قول ِ پیغمبر ‪،‬فعل ِ پیغمبر ‪ ،‬تقریر ِ پیغمبر ۔‬
‫اھل تشیع (ہم) کے یھاں دائرہ سنت وسیع ہے جبکہ اھل ِ سنت ہے وھاں محدود ہے۔‬
‫حدیث اور سنت میں کیا فرق ہے ؟‬
‫حدیث حاکیء(حکایت کرنے والی) سنت ہے۔‬
‫حدیث وہ قول ہے کے جو قول ِسنت کی حکایت کرتا ہے‪،‬ھمارے لئے سنت کو نقل کرتا‬
‫ہے ۔ مثال انّما االعمال باالنیات(حدیث ہے) یعنی اس کے ذریعہ سے میں قول پیغمبرﷺ کو‬
‫نقل کر رھا ہوں ۔ میں خود تو خود نہیں ہوں رسول ہللا ﷺ کی خدمت میں تاکے ان سے‬
‫سنوں ‪،‬جو وہ کر رھے ہیں اس کو دیکھوں ‪ ،‬یا جو پیغمبرﷺ کے سامنے ہو رھا ہے ‪،‬‬
‫تقریر میں ایسے ہے یعنی نبی ﷺو ائمہ (ع) کے سامنے ایک عمل ہو اور وہ تقیہ کے عالم‬
‫میں بھی نہ ہوں اور وہ خاموش رہیں اُس عمل سے تو اس سے اصل جواز سمجھ میں اتا‬
‫ہے یعنی سمجھ میں اتا ہے کے وہ فعل جائز ہے ‪ ،‬کیونکہ اگر وہ فعل غلط ہوتا تو معصوم‬
‫خاموش نہیں رہتےبلکہ اپنا رد ِعمل دکھاتے کے یہ غلط کر رہے ہو۔‬
‫تو حدیث خود سنت نہیں ہے خود ِقول ِ معصوم نہیں ہے‪،‬قول ِ معصوم کی جن الفاظ کے‬
‫ذریعہ سے حکایت کرتے ہیں اسے حدیث کہتے ہیں ۔‬
‫انّما االعمال باالنیات تو میں نے نہیں سنا پیغمبرﷺ سے ‪،‬ائمہ(ع) کے جتنے اقوال ہیں وہ‬
‫تو میں نے نہیں سنے ان سے ‪ ،‬پس کچھہ الفاظ ہیں کے جن کے ذریعہ سے وہ سنت‬
‫میرے لئے نقل ہو رھی ہے ‪ ،‬حکایت ہو رھی ہے۔‬
‫سنت بذات ِ خود قول ِ معصوم ہے ‪ ،‬فعل ِ معصوم ہے ‪ ،‬تقریر ِ معصوم ہے۔‬
‫اضافی سمھنے کیلئے مثال ‪:‬‬
‫سوال ِ شاگرد ‪ :‬یہ جو اصول ِ عملیہ ہیں حکم ِ شرعی تک نہیں پہنچاتے بلکہ موقف عملی‬
‫کو معین کرتے ہیں ‪ ،‬جب حکم ِشرعی تک نہیں پہنچاتے تو موقف عملی تک کیسے‬
‫پہنچاتے ہیں ‪ ،‬موقف عملی کو کیسے معین کرتے ہیں ؟‬
‫جواب ِاستاد ‪ :‬ھمارا عقیدہ یہ ہے کے لوح ِ محفوظ میں احکام ِ شرعیہ موجود ہیں ‪ ،‬بخالف‬
‫اشاعرہ اور معتزلہ ۔‬
‫لوح ِ محفوظ میں احکام ہیں ‪ ،‬اب ایت ہو روایت ہو یا جو بھی دالئل ہیں یہ چراغ بنتے ہیں‬
‫حکم ِ واقعی تک پہنچانے کیلئے‪ ،‬کبھی کبھار اس دلیل کے ذریعہ اپ اس حکم ِواقعی تک‬
‫پہنچ جاتے ہیں جو لوح ِ محفوظ میں موجود ہے ۔ کبھی کبھار اپ کے پاس دلیل نہیں ہے‬
‫مثال ً بینکنگ کے بھت سارے مسئلے ہیں ‪ ،‬عجیب و غریب قسم کے معامالت ہیں ‪،‬‬
‫ظاھری طور پر اپ قران کو دیکھتے ہیں سنّت کو دیکھتے ہیں ‪ ،‬کسی جگہ سے حکم ِ‬
‫شرعی کا پتہ نہیں چلتا ‪ ،‬اب کیا کریں ؟‬
‫کہتے ہیں کے یھاں پر مکلّف پریشان نہ ہو‪ ،‬شارع نے کچھ اصول و قواعد معین کیئے‬
‫ہیں ‪ ،‬وہ اپ کو حکم ِ شرعی ّاولی جو کے لوح ِ محفوظ میں ہیں وہ نہیں بتائیں گے بلکہ‬
‫اپ کے موقف عملی کو معین کریں گے ‪ ،‬یا ھماری عقل بعض جگہوں پر احکامات صادر‬
‫کرتی ہے۔‬
‫مثال پر غور کریں دقیق مثال ہے اصول عملیہ اور ادلہ محرزہ کے درمیان تفریق و‬
‫جدائی ڈالنے کیلئے۔‬
‫میں مدرسے میں ہوں اچانک مجھے فون اتا ہے ‪ ،‬اقا جان اپ کے جو فالں دوست ہیں وہ‬
‫جمعرات کو اپ کے پاس ارھے ہیں ‪ ،‬خبر دینے واال قابل ِ اعتماد بندہ تھا (مجھے پتہ چل‬
‫گیا کے پیرے فالں دوست جمعرات کو ارھے ہیں) ‪،‬دوسری مرتبہ مجھے پتہ چال‬
‫جمعرات کے دن اپ کے فالں دوست کو کسی نے کہا کے میں نے جوھر چورنگی پر‬
‫دیکھا ہے (جس نے انا تھا اس دوست نے پیغام نہیں بھیجا) بلکی تیسرا بندہ کہہ رھا ہے‬
‫کے اقا جو اپ کے اتنے بھترین دوست ہیں اس کو میں نے جوھر چورنگی پر دیکھا ہے ۔‬
‫مجھے پتہ نہیں تھا کے اُس نے میرے پاس انا ہے یا نہیں انا ‪ ،‬لیکن اب میں کیا کروں گا‬
‫؟‬
‫دوست کی اھمیت کے مطابق تیاری کروں گا ۔ اگر میرے لئے بھت زیادہ اھم ہوئے تو‬
‫میں ویسی تیاری کروں گا ۔ تھوڑا بھت کمرے کو مرتب کروں گا ‪ ،‬اس کیلئے کچھ‬
‫لوازمات ‪ ،‬کھانے پینے کی چیزیں منگوائوں گا ۔ اگر میرے میرے لئے بھت زیادہ اھمیت‬
‫والے ‪ ،‬قابل ِ اعتناء نہیں ہیں تو کیا کروں گا ؟‬
‫کہوں گا ۔ائے انے میں کیا ہے ‪ ،‬ائے گا تو دیکھا جائے گا ۔‬
‫اگر اُس نے شکایت کی اور کہا کو اقا اپ نے جا میرا حق بنتا تھا اس طریقے سے میرا‬
‫استقبال نہیں کیا ‪،‬تو کہوں گا کے بھئی اپ نے مجھے بتایا تھوڑی تھا ۔ اپ مجھے بتاتے‬
‫تو میں اپ کیلئے اھتمام کرتا ۔‬
‫اب دیکھیں تین صورتیں ہوئیں یھاں پر ‪:‬‬
‫ایک مرتبہ مجھے دوست پیغام دے رھا ہے کے میں ارھا ہوں‪ ،‬تو اس کے انے کیلئے جو‬
‫مجھے اھتمام کرنا چاھئے وہ اھتمام میں کروں گا ۔‬
‫دوسری صورت میں مجھے بتاتا نہیں ہے ‪ ،‬یھاں پر دو صورتیں بنتی ہیں ‪:‬‬
‫یا تو وہ بھت زیادہ اھم ہے تو اس کے استقبال کا میں انتظام کروں گا ۔‬
‫یا نہ اتنا زیادہ اھم نہیں ہے ‪،‬ائیں گے تو دیکھا جائے گا۔‬
‫عینا ً اسی طریقے سے اپ اس مثال کو دقت کے ساتھ دیکھیں‪:‬‬
‫شارع نے اپنے پیامبر ‪ ،‬انبیاء ‪،‬رسل ‪ ،‬ائمہ ‪ ،‬جو بھی اس کے احکامات کو بیان کرتے ہیں‬
‫‪ ،‬اُس نے بھیجے ہیں ۔ان لوگوں نے سارے احکامات پہنچائے ہیں لیکن میں جو دور رہ‬
‫رھا ہوں ‪ ،‬مجھ تک یا وہ سارے احکامات پہنچتے ہیں ایک اچھے ذریعہ کے ساتھ کے‬
‫جس ذریعہ پر اعتماد کر سکتا ہوں یا وہ احکامات مجھ تک نہیں پہنچتے ۔‬
‫اگر قابل ِ اطمئنان طریقے سے وہ مجھ تک پہنچتے ہیں تو وہ وسائل کے جو احکامات‬
‫مجھ تک پہنچاتے ہیں میں ان کو کہتا ہوں دلیل محرز کہ جن کے ذریعہ سے وہ حکم‬
‫شرعی مجھ تک پہنچتا رھا ہے۔‬
‫افر مجھے پتہ نہیں چال وہ دلیل محرز مجھ تک نہیں پہنچا (اس کے اسباب بھت سارے‬
‫ہوسکتے ہیں ۔میں زمانے سے دور ہوں ‪ ،‬روایات زمانے کی وجہ سے مجھ تک نہیں‬
‫پہنچیں یا روایات پہنچی ہیں لیکن روایات میں تعارض ہے ‪ ،‬یا روایت مجمل ہے وغیرہ)۔‬
‫اب میں کیا کروں (دلیل محرز تو نہیں ہے)؟‬
‫اب یھاں پر بھی عینا ً وھی دو حالتیں ہیں ‪:‬‬
‫یا وہ چیز میرے لئے بھت زیادہ اھم ہے تو میں احتیاط کروں گا۔‬
‫یا نہ وہ چیز بہت زیادہ اھم نہیں ہے تو وھاں برائت جاری کروں گا۔‬
‫اگر اس مثال پر غور کریں تو اصل عملی اور دلیل محرز سمجھ میں اجائے گی ان شاء‬
‫ہللا ۔‬
‫درس ‪۹‬‬
‫أ ۔ الدلیل الشرعی اللفظی‬
‫البحث األول ‪ :‬الداللۃ (‪)۱‬‬

‫الوضع‬
‫بحث دلیل شرعی لفظی کے بارے تیں طریقوں سے ہے۔‬
‫‪۱‬۔ اصل ِ داللت‬
‫‪۲‬۔ حجیت ِ داللت‬
‫‪۳‬۔ اثبات ِ داللت‬
‫بحث ہے ھماری اصل داللت میں ۔‬
‫دلیل کس چیز پر داللت کرتی ہے اس سے پہتر ہے کے پھلے ہم یہ سمجھیں کہ خود دلیل‬
‫کیا ہے ؟ اقیموا الصالۃ کس چیز پر داللت کرتا ہے ؟‬
‫پہلے سمجھنا چاھئے کے داللت یعنی کیا ؟ ( داللت کی منطق میں تعریف پڑھ چکے ہیں‬
‫وہ مباحث یہاں پر نہیں دھرائیں گے)‬
‫داللت کی تعریف کیا ہے ؟‬
‫داللت یعنی ایک شئ اس حیثیت سے ہو کے جب ایک کا علم حاصل ہو جائے تو دوسری‬
‫شئ کا علم خودبخود حاصل ہو جائے ۔ مثالً دونھیں کو دیکھتے ہیں پتہ چل جاتا ہے کے‬
‫اگ لگی ہے ‪ ،‬کسی کا چھرہ سرخ ہو رھا ہے تو پتہ چلتا ہے کے غصہ میں ہے ۔‬
‫داللت کی کلی طور پر تین قسمیں ہیں (‪۱‬۔ وضعیہ ‪۲‬۔ طبیعیہ ‪۳‬۔ عقلیہ )۔‬

‫اگر دال اور مدلول کے درمیان سبب ِ داللت وضع ہو تو وضعیہ ۔‬


‫ب داللت طبع ہو تو طبیعیہ ۔‬
‫اگر دال اور مدلول کے درمیان سب ِ‬
‫اگر دال اور مدلول کے درمیان سبب ِداللت عقل ہو تو عقلیہ ۔‬
‫وضع کسے کہتے ہیں ؟‬
‫ایک شئ کو دوسری شئ کے ساتھ مخصوص کرنا اس اعتبار سے کے ایک چیز کے علم‬
‫سے دوسری چیز کا علم ائے‪ ،‬اسے کہتے ہیں وضع ۔‬
‫ایک اور نکتہ مقدم ًۃ اصل بحث میں وارد ہونے سے پہلے سمجھنا ضروری ہے۔‬
‫ھمارے پاس کائنات میں یا جتنی بھی چیزیں ‪ ،‬اُمور ہیں دو طرح کے ہیں ۔‬
‫‪۱‬۔ تکوینی ‪۲‬۔ تشریعی‬
‫مثالً اگ جالتی ہے ‪ ،‬تو جب اگ جالتی ہے کیا کسی سے پوچھتی ہے ؟ کے اج جامعۃ‬
‫المصطفی والوں نے قانون بنایا ہے کے اگ جالئے گی تو اگ جالئے گی ۔ کل جامعۃ‬
‫المصطفی والے قانون بنائیں گے کہ اگ نہیں جالئے گی تو اگ نہیں جالئے گی ۔‬
‫ھمارے ھاتھ میں نہیں ہے یہ تکوینی اثر ہے ‪ ،‬حقیقی اثر ہے ۔ اس میں قانون بنانے والے‬
‫کے قانون کا کوئی عمل دخل نہیں۔ جامعۃ المصطفی والے قانون بنائیں یا نہ بنائیں ‪،‬اگ کا‬
‫جو اثر ہے وہ ہے ‪ ،‬اگ کا کام جالنا ہے تو وہ جالئے گی ۔‬
‫لیکن‬
‫امور ِاعتباری اور تشریعی ایسے ہیں جو معتبر کے تابع ہیں ‪ ،‬اعتبار کرنے والے کے‬
‫تابع ہیں ۔ جامعۃ المصطفی کراچی میں مدیریت نے یہ قانون بنایا ہے کے اسیمبلی صبح ‪۸‬‬
‫بجے ہوگی ‪ ،‬مباحثہ ‪ ۴‬بجے ہوگا ‪ ،‬مطالعہ ‪ ۹‬بجے ہوگا ۔‬
‫یہ جتنے امور ہیں یہ قانون بنانے والے کے محتاج ہیں ‪ ،‬تابع اعتبار معتبِر ہے۔ کل قانون‬
‫بنایا کے اسیمبلی صبح ‪ ۸‬بجے ہوگی تو ‪ ۸‬بجے ہی ہوگی ۔‬
‫پھر اج قانون بنایا کے اسیمبلی صبح ‪ ۷‬بجے ہوگی تو ‪ ۷‬بجے ہی ہوگی ۔‬
‫امور ِاعتباری وہ امور ہیں کے جو اعتبار کرنے والے‪ ،‬قانون بنانے والے کے قانون کے‬
‫تابع ہوں ‪ ،‬جاعل کے َج َعل کے تابع ہوں ۔یہ سارے جمالت ایک ہی چیز ہیں الفاظ مختلف‬
‫ہیں مطلب ایک ہے (عبارتُنا شت ّی و حسنک واحد‪ ،‬و کل اذا ذاک الجمال یشیر)۔‬
‫پس امور ھمارے پاس دو طریقے کے ہیں ۔ ‪۱‬۔ امور ِتکوینی ہیں ‪۲‬۔ امور ِتشریعی ہیں‬
‫‪،‬اعتباری ہیں ‪َ ،‬جعَلی ہیں (اردو واال جعلی نہیں عربی واال)‬
‫اقا شھید صدر کہتے ہیں ہم یھاں کچھ تحلیلی مباحث ذکر کرنا چاھتے ہیں۔‬
‫تحلیلی مباحث کسے کہتے ہیں ؟‬
‫تحلیلی مباحث یعنی کیا؟‬
‫تحلیلی مباحث ان کو کہتے ہیں کہ ایک واقعہ ‪ ،‬ایک حقیقت ‪ ،‬ایک چیز ھمارے سامنے‬
‫ہے ‪ ،‬اب ہم بیٹھ کر یہ سوچتے ہیں کے یہ کیا ہے؟ یہ کیوں ہے ؟ اس کے اثار کیا ہیں ؟‬
‫ایسے سمجھیں کے ایک حقیقت اپ کے سامنے ہے اپ اس کا اپریشن کرتے ہیں ۔‬
‫ہم یھاں پر تحلیلی مبحث میں وارد ہو رھے ہیں ۔‬
‫ہمیں پتہ ہے کے الفاظ معانی پر داللت کرتے ہیں ‪ ،‬میں جو بول رھا ہوں(جو لکھا ہوا‬
‫ہے) اپ لوگ سمجھ رھے ہیں ‪ ،‬میرے الفاظ سے اپ معانی کی طرف منتقل ہو رھے ہیں‬
‫‪ ،‬داللت یہی ہے میں لفظ کہہ رھا ہوں اپ کے ذھن میں معانی ارھے ہیں ‪ ،‬میں پانی کہہ‬
‫رھا ہوں اپ کے ذھن میں ذات ِپانی ارھی ہے ۔‬
‫ہم مباحث یھاں پر تحلیل کریں گے ۔ یہ کیوں ہو رھا ہے ؟ یہ کیسے ہو رھا ہے ؟ اخر کیا‬
‫ربط ہے میں لفظ پانی کہہ رھا ہوں اپ کے ذھن میں ذات ِ پانی ارھی ہے ‪ ،‬میں لفظ ِ‬
‫گالس کہہ رھا ہوں اپ کے ذھن میں ذات ِ گالس ارھی ہے ۔‬
‫اصالً یہ لفظ اور معانی کا رشتہ تو ایسا ہے کہ اپ لفظ کی طرف تو متوجہ ھی نہیں ہوتے‬
‫‪ ،‬لفظ کو دیکھتے ھی نہیں جیسے میں لفظ کہتا ہوں اپ کا ذھن معنی کی طرف جاتا ہے ۔‬
‫(اس کو تحلیل کریں یہ کیا ہے ؟) یھاں سے ہم لغت کے تحلیلی مباحث ذکر کریں گے‬
‫اس لئے کے ھمارا کام متن کے ساتھ ہے ۔ قران ایک متن ہے ‪ ،‬سنّت ایک متن ہے‬
‫ھمارے پاس ۔ اس متن کو کیسے سمجھیں ؟ متن کو سمجھنے کیلئے لغت کے اہم قواعد‬
‫کو سمجھنا ضروری ہے ‪ ،‬کچھہ قواعد و ضوابط تو ہونا چاھئیں ‪ ،‬ان کو مشخص کرنے‬
‫کیلئے لغت کے عمومی مباحث ہم ذکر کریں گے ۔ (غور کریں )‬
‫دلیل شرعی یا لفظی ہے یا غیر ِلفظی ہے ‪ ،‬پھر دلیل ِ لفظی یا اصالت ِداللت ہے یا‬
‫حجیّت ِداللت ہے یا صدور ِدلیل ہے۔‬
‫دلیل ِ شرعی ِ لفظی میں پھال نکتہ داللت کے بارے میں کہ یہ دلیل ِ شرعی ِلفظی کس چیز‬
‫پر داللت کرتی ہے؟‬
‫یہاں پر ہم تحلیل کرنا چاہتے ہیں کے عالَم ِالفاظ میں لفظ کی داللت معنی پر کونسی قسم‬
‫ہے داللت کی ؟‬
‫جواب ‪ :‬داللت ِ وضعیہ ہے ۔ نا عقلیہ ہے اور نا ہی طبعیہ ہے۔‬
‫یہ جو لفظ معنی پر داللت کرتا ہے داللت ِ وضعیہ ہے ‪ ،‬اس نکتے کو تحلیل کرنا چاھتے‬
‫ہیں ‪ ،‬سمجھنا چاھتے ہیں کے اخر لفظ اور معنی کے درمیان یہ رشتہ کیسے وجود میں ایا‬
‫‪ ،‬کیونکہ کوئی بھی رشتہ بنتا ہے تو اس رشتہ کا سبب ہوتا ہے ۔‬
‫لفظ معنی پر کیوں داللت کرتا ہے ؟ کیسے داللت کرتا ہے؟ یہ وضع کیا ہے؟ ان نکات کو‬
‫حلقی اُولی کی سطح تک ہم بیان کریں گے کے اصالً وضع کیا ہے ؟ عام طور پر ہم یہ‬
‫کہتے ہیں کے ایک شئ کو دوسری شئ کے ساتھ مخصوص کرنا اس طریقے سے کے‬
‫ایک شئ کے علم سے دوسری شئ کا علم الزم ائے ۔ ما شاء ہللا گھر میں والدت ہوتی ہے‬
‫‪ ،‬بچہ پیدا ہوتا ہے ‪ ،‬باپ اتا ہے اس بچے کا نام رکھتا ہے کے اس کا نام ہم نے جواد رکھا‬
‫‪ ،‬مثالً بیٹی ہوئی تو محدثہ رکھا وغیرہ ۔‬
‫یہ کیسے ہوتا ہے؟ کیسے ہوتا ہے کیا ؟ سیدھی سی بات ہے باپ بچے کو اٹھاتا ہے اس کا‬
‫نام رکھہ دیتا ہے کے اس کا نام جواد رکھا ہے ‪ ،‬اس میں مشکل کیا ہے ؟ ظاھرا ً تو ایسے‬
‫ہے کوئی مشکل نہیں ہے‪ ،‬پھر کیوں مسئلے کو پیچیدہ کر رھے ہیں ؟ ظاھرا ً تو اسان ہے‬
‫‪ ،‬عجب یھی ہے کے انسان کی زندگی کے روزمرہ کے بہت سارے احکامات بہت سارے‬
‫کام کے جن کو ہم روز انجام دیتے ہیں جب ان کی تحلیل کرنے بیٹھیں ‪ ،‬ان کو سمجھنے‬
‫بیٹھیں تو پیچیدہ بن جاتے ہیں ۔ وضع کا کام اپ بھی کرتے ہیں اور ہر روز کرتے ہیں ‪،‬‬
‫ہم بھی کرتے ہیں اور ہر روز کرتے ہیں ‪ ،‬لیکن کیا کرتے ہیں ؟‬
‫ھمارے پاس بعض امور تکوینی ہیں جیسے پانی کا مرطوب ہونا ‪ ،‬اگ کا جالنا ‪ ،‬سورج‬
‫کا طلوع ہونا ‪ ،‬سورج کا غروب ہونا ‪،‬یہ امور ِ تکوینیہ ہیں ‪ ،‬ھمارے ھاتھہ میں نہیں ہیں‬
‫میرے کہنے یا نا کہنے سے فرق نہیں پڑتا ان پر ‪ ،‬میں کہتا ہوں کہ سورج مغرب سے‬
‫طلوع ہو‪ ،‬تو فرق تھوڑی پڑتا ہے سورج کو تو مشرق سے ہی طلوع کرنا ہے ۔‬
‫لیکن امور ِاعتباریہ ایسے ہوتے ہیں کے ہمارے کہنے سے فرق کرتے ہیں مثالً میں مدیر‬
‫ہوں اور کہوں کے ہر روز مدرسے کا قانون یہ ہے کے صبح ‪ ۸‬بجے اسیمبلی ہوگی تو‬
‫‪ ۸‬بجے ہی ہوگی ‪ ،‬اگر کہوں اسیمبلی ‪ ۷‬بجے ہوگی تو ‪ ۷‬بجے ہوگی ۔‬
‫امور ِ اعتباری معتبر کے تبدیل کرنے سے تبدیل ہوتے ہیں (غور کیجئے گا)‬
‫میں جو قانون بنا رھا ہوں اُس سے کائنات میں کوئی حقیقت تبدیل نہیں ہو رھی ۔‬
‫اعتباریات ایسے ہیں کے معتبر کے اعتبار سے تکوین میں کوئی تبدیلی نہیں اتی۔‬
‫لیکن وضع کو اگر اپ کہیں کے یہ ایک امر ِاعتباری ہے ‪،‬میں نے بچے کو اٹھا کر کیا‬
‫کہا کے میں نے اج اس کا نام جواد رکھا ‪ ،‬اگر میں کہتا اس کا نام علی رکھہ رھا ہوں تو‬
‫علی ۔ لیکن مشکل مسئال یہاں پر ارھا ہے کے اس اعتبار کے نتیجے میں کافی عرصے‬
‫کے بعد ہم دیکھتے ہیں کے تکوین میں ایک حقیقت رونما ہوتی ہے ‪،‬ایک تکوینی حقیقت‬
‫وجود میں اتی ہے۔‬
‫وہ حقیقت کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کے جب بھی اپ وہ نام سنتے ہیں یہ ذات اپ کے ذھن‬
‫میں اجاتی ہے ۔جب بھی اپ علی سنتے ہیں تو ایک خاص شخصیت اپ کے ذھن میں‬
‫اجاتی ہے ‪ ،‬جب بھی فاطمہ سنتے ہیں تو ایک خاص شخصیت ذھن میں اجاتی ہے ‪ ،‬اُن‬
‫کے والدین نے یہ نام وضع کیا ہے ‪َ ،‬ج َعل کیا ہے ۔ لیکن اب جو دیکھہ رھے ہیں وہ ایک‬
‫تکوینی اثر ہے۔ نام لو فورا ً وہ واقعیت ذھن میں اجاتی ہے ۔ پانی کا نام ممکن ہے کسی‬
‫واضع نے کسی زمانے میں اس مرطوب چیز ‪،‬سائل چیز کیلئے وضع کیا ہو لیکن اب جب‬
‫بھی لفظ ِپانی کہتے ہیں یہ حقیقت میرے ذھن میں اتی ہے ۔ گالس کا ممکن ہے کسی‬
‫واضع نے نام رکھا ہو لیکن اب جب بھی لفظ ِگالس کہتے ہیں تو اپ کے ذھن میں یہ‬
‫(گالس کی) حقیقت ذھن میں اتی ہے ۔‬
‫انّما المشکل و االشکال یہاں پر ہے کہ یہ امر ِاعتباری ایک تکوینی چیز کو کیسے بنا رھا‬
‫ہے ؟ کیسے ہو رھا ہے ؟ مثالً میں اگر کہوں اس کا نام پانی نہیں ہے مٹی ہے ‪ ،‬فرق نہیں‬
‫پڑتا جیسے ہی لفظ ِپانی کہوں گا وھی مرطوب چیز ذھن میں ائے گی ۔ایک لفظ پانی اور‬
‫اس کی ذات کے درمیان عجیب سا رشتہ بن گیا ہے ‪ ،‬جب بھی لفظ ِ پانی کہہ رھا ہوں وہ‬
‫مرطوب چیز میرے ذھن میں ارھی ہے ‪ ،‬تو باالخر یہ الفاظ کی داللت معانی پر تکوینی‬
‫ہے یا اعتباری ہے ؟ اگر اعتباری ہے تو پھر تکوینا ً کیسے ہو رھا ہے ؟ میں لفظ ِپانی کہہ‬
‫رھا ہوں یہ ذات ِمرطوب میرے ذھن میں ارھی ہے ‪ ،‬ایک شئ مثالً اس کی حقیقت ایک ہو‬
‫‪ ،‬اُس کو زیادہ استعمال کروں تو اس کی دوسری حقیقت بن جائے گی؟کثرت ِاستعمال سے‬
‫تو ایک چیز کی حقیقت و ماھیت تبدیل نہیں ہوتی ؟‬
‫یہ تکوینی ایک رشتہ ہے ایک لفظ کہو وہ معنی ذھن میں اتا ہے ‪ ،‬اصالً ہم لفظ کی طرف‬
‫تو متوجہ نہیں ہوتے ‪ ،‬جتنے الفاظ (کہہ رھا ہوں) لکھے ہوئے ہیں اپ میرے الفاظ کی‬
‫طرف تھوڑی متوجہ ہیں اپ معانی کی طرف متوجہ ہیں ۔‬
‫یہ کیسے ہے ؟‬
‫مشکل یھاں پر یہ ہے کہ بعض لوگوں نے کہا کے لفظ اور معنی کا رشتہ تکوینی ہے‬
‫اصالً اعتباری نہیں ہے (تکوینی کو ذاتی بھی کہتے ہیں) ۔جیسے اگ کیلئے حرارت ذاتی‬
‫رشتہ ہے اس کا ‪ ،‬اگ حرارت سے جدا نہیں ہوسکتی بعض لوگوں نے اس طرح کہا ہے‬
‫علم ِاصول میں ۔‬
‫کیا یہ بات صحیح ہے ؟ کیا واقعا ً ذاتی رشتہ ہے ؟ اگ کی حرارت سب لوگوں کیلئے ہے‬
‫یا فقط خاص لوگوں کیلئے ؟ جو بھی ہو جھاں بھی ہو چاھے پاکستان میں ہو چاھے انڈیا‬
‫میں ہو چاھے ایران وغیرہ میں اگ کا جالنا سب کیلئے ہے ‪ ،‬لیکن جو زبان ہم یھاں پر‬
‫بول رھے ہیں ‪ ،‬جو لفظ اردو کے معانی پر داللت کر رھے ہیں وہ کسی انگریز کیلئے‬
‫داللت کریں گے ؟ نہیں ۔ کیوں ؟ اسلئے کے ذاتی کی خاصیت یہ ہے کہ ذاتی افراد کے‬
‫تبدیل ہونے سے تبدیل نہیں ہوتی ‪ ،‬اگ کا جالنا سب کیلئے ہے ‪ ،‬اگر لفظ کی معنی پر‬
‫داللت ذاتی اور تکوینی ہو تو سب لوگ سب لوگوں کی زبانیں سمجھیں جب کے ایسا نہیں‬
‫ہے بلکہ وضعی ہے ۔‬
‫بعض لوگ کہتے یہں یہ رشتہ ذاتی ہے ‪ ،‬ذاتی ہے یعنی کیا؟ یعنی چاھے معتبر ‪ ،‬اعتبار‬
‫کرنے واال اعتبار کرے پھر بھی ہے ‪،‬اعتبار کرنے واال اعتبار نا بھی کرے پھر بھی ہے‬
‫اور سب کیلئے ہے چاھے پاکستانی ہو ‪ ،‬ایرانی ہو عربی ہو ‪ ،‬جو بھی ہو ذاتی رشتہ سب‬
‫کیلئے ہے لیکن لغات میں ایسے نہیں ہے ۔ اب اگر میں سندھی بولنا شروع کردوں تو چند‬
‫افراد کے عالوہ کوئی نہیں سمجھے گا ۔ کیوں ؟ اگر ذاتی رشتہ ہے تو ھمیں سمجھہ میں‬
‫انا چاھیے ‪ ،‬پس یھاں سے پتہ چل رھا ہے کے ذاتی رشتہ نہیں ہے اتنا تو طے ہے نا کے‬
‫ذاتی رشتہ ہوتا تو سب کو سمجھہ میں اتا یہ مخصوص لوگوں کو سمجھہ میں اتا ہے پس‬
‫اعتباری بھی نہیں ہے۔ اعتباری ہے یعنی کیا ؟ ہم تکوینا ً حقیقتا ً دیکھتے ہیں کے لفظ کہتے‬
‫ہیں تو ھمارا ذھن منتقل ہوتا ہے ‪ ،‬حقیقتا ً تکوینا! کہنے کی بات تھوڑی ہے ۔ حضرت‬
‫محمد (ص) کا نام لیتے ہیں تو ایک خاص محبت دل میں اتی ہے ‪ ،‬حضرت علی (ع) کا‬
‫نام لیتے ہیں ایک خاص محنت دل میں اتی ہے ‪ ،‬حضرت فاطمہ (س) کا نام لیتے ہیں ایک‬
‫خاص احترام انسان کے قلب میں اتا ہے ۔ دشمن ِرسول کا نام لیتے ہیں تو غصہ اتا ہے ‪،‬‬
‫دشمن ِ ال ِرسول کا نام لیتے ہں تو غصہ اتا ہے ۔ کیوں ؟ باالخر بعض حقائق و واقعیت‬
‫کی طرف انسان مروجہ ہوتا ہے ۔‬
‫نگاہ دو طرح کی ہوتی ہے ۔‬
‫اپ کالس میں انے سے پھلے ائینہ کے سامنے جاتے ہیں ‪ ،‬ائینہ دیکھتے ہیں ۔ سوال یہ‬
‫ہے کے ائینہ دیکھتے ہیں یا اپنے اپ کو دیکھتے ہیں ۔ کیوں کہتے ہیں ائینہ دیکھتے ہیں‬
‫؟کیا اپنے اپ کو دیکھتے ہیں ؟ تو اپنی اپ کو دیوار میں کیوں نہیں دیکھتے ہیں‪ ،‬اگر‬
‫اپنے اپ کو ہی دیکھنا ہے تو دیوار میں کیوں نہیں دیکھتے ہیں ؟ ائینہ میں ہی کیوں‬
‫دیکھتے ہیں ؟ باالخر ائینہ کو دیکھتے ہیں یا اپنے اپ کو دیکھتے ہیں ؟ کوئی ہے بندہ جو‬
‫ایک منٹ کیلئے جب ائینہ کے سامنے اپنی اپ کو دیکھتا ہے تو ائینہ کی طرف تھوڑا سا‬
‫بھی متوجہ ہوتا ہو ؟ جبکہ دیکھتے ائینہ کو ہیں ۔‬
‫(یہ منطق میں اپ پڑھہ چکے ہیں کے نگاہ(نظر) دو طرح کی ہوتی ہے ۔‬

‫‪۱‬۔ نگاہ الی‬


‫‪۲‬۔ نگاہ استقاللی‬
‫ظر ہے یا نظر ما فیہ یُن َ‬
‫ظر ہے ۔‬ ‫یا نظر ما بہ یُن َ‬

‫ظر ہے کے جس کے ذریعہ سے ماشاءہللا اپنا جمال دیکھتے ہیں ۔ یہاں پر‬ ‫ائینہ ما بہ یُن َ‬
‫بھی ایسے ہی ہے لفظ معنی کے اندر فانی ہے ‪ ،‬لفظ کو دیکھتے ہیں ‪ ،‬لفظ پر نگاہ‬
‫نگاہ ِالی ہے ائینہ والی نگاہ ہے ‪ ،‬لفظ فقط یہ ہوتا ہے کے اس کے قالب میں معنی کو‬
‫دیکھیں ‪ ،‬لفظ کے اندر متوجہ ھی نہیں ہوتے کے لفظ کیا ہے ‪ ،‬لفظ کہتا ہوں اپ کی توجہ‬
‫معنی کی طرف جاتی ہے ‪ ،‬اس کو تعبیر کرتے ہیں کے لفظ معنی کے اندر فانی ہے ‪ ،‬فنا‬
‫اس طریقے سے ہے کے اپ اس لفظ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے کچھ اور دیکھتے ہیں ۔‬
‫مزیدار بات ہے‪ ،‬کتاب میں ذکر نہیں ہوئی فقط اشارہ کر رھا ہوں ۔ اقا خوئی اس کے‬
‫بارے میں ذکر کرتے ہیں کے اصل میں واضع ایک تعھد کرتا ہے ‪،‬جیسے اپ اپس میں‬
‫تعھد کرتے ہیں یا مثالً استاد شاگردوں سے تعھد کرتا ہے کے جب بھی میں کالس میں‬
‫عمامہ پھن کر ائوں گا تو اس کا مقصد ہے مجھے کالس کے بعد کہیں جانا ہے ‪ ،‬بعض‬
‫تعھدات ہیں جو اپ نے ایک دوسرے سے کئے ہوئے ہیں ۔ مثالً بعض جگہوں پر ہوتا ہے‬
‫کے مھمان اجائے تو میں کہوں کے چائے لیکر ائیں مھمان کیلئے بھئی جلدی کریں چائے‬
‫لیکر ائیں یعنی نہیں النی بھلے مھمان بیٹھہ بیٹھہ کر چال جائے ۔ اس طریقے سے ہوتا ہے‬
‫میں نے سنا ہے کے بعض افیسز وغیرہ میں اس طرح سے اشارہ ہوتے ہیں ‪ ،‬چائے لیکر‬
‫ائیں یعنی نہیں النی ‪ ،‬یا مثالً کوئی بڑا ادمی ہو اس کے پاس کوئی جاتا ہے کچھہ لکھوانے‬
‫کیلئے جناب اپ مجھے یہ لکھہ کر دیں میرا کام ہو جائے حتی یہ جو قلم (پین) ہوتا ہے‬
‫اس کا بھی حساب ہوتا ہے ‪ ،‬اگر الل پین سے لیکھوں یعنی کام نہیں کرنا ‪ ،‬گر نیلے پین‬
‫سے لیکھوں اس کا مطلب ہے اگر ہو سکے تو کیجیئے گا اگر نا ہوسکے تو چھوڑ‬
‫دیجیئے گا ‪ ،‬اگر سبز پین سے لکھوں تو یعنی حتما ً کام کرنا ہے اس کا ‪ ،‬الفاظ وھی ہوتے‬
‫ہیں لیکن اس طرح پین تبدیل کرتے رھتے ہیں الل ‪ ،‬نیال ‪ ،‬سبز تو وہ اثر کرتا ہے ‪ ،‬الفاظ‬
‫سے لکھنے کی نوعیت فرق کرتی ہے ۔‬
‫یہ کیا ہیں ؟ یہ تعھدات ہیں ۔‬
‫اقا خوئی فرماتے ہیں کے لفظ اور معنی کا رشتہ بھی ایک قسم کا تعھد ہے کانّہ واضع اپ‬
‫لوگوں سے تعھد کرتا ہے کے جب بھی میں لفظ ِ پانی کہوں تو گویا میں نے وعدہ کیا ہوا‬
‫ہے کے اس سے مقصد میرا یہ ذات ِمرطوب ‪،‬سیّال چیز ہوگی ۔ یہ کہہ رھے ہیں کے لفظ‬
‫اور معنی کا رشتہ ایک قسم کا تعھد ہے ‪ ،‬جب بھی لفظ پانی کہوں یعنی ہم نے اپنے اوپر‬
‫الزم قرار دیا ہے کے اُسی چیز کی طرف ذھن جائے ۔ جب بھی سامنے مٹھائی رکھی‬
‫جائے مطلب کوئی خوشخبری ہے ۔‬
‫اسی طریقے سے اقا خوئی فرماتے ہیں کے جو بھی لفظ ہے وہ کسی نا کسی معنی پر‬
‫داللت کرتا ہے ۔ یعنی کیا ؟ یعنی واضع نے ایک قسم کا تعھد کیا ہوا ہے ۔ شاید یہ نظریہ‬
‫حلقہ ثانی یا ثالث میں پڑھیں لیکن اپ کے ذھن کو متوجہ کرنے کیلئے فقط اشارہ کیا ہے‬
‫لیکن اقا خوئی کی اس بات کو کسی نے نہیں مانا ہے بلکہ رد کیا ہے کے ایسے نہیں ہے۔‬
‫کیا واقعا ً اپ کے ذھن میں ایسے اتا ہے کے جب بھی میں لفظ پانی کہہ رھا ہوں تو اپ‬
‫کے ذھن میں ذات ِمرطوب ارھی ہے یعنی ایک وعدہ ہے اسکی وفا ہو رھی ہے ‪ ،‬میں‬
‫ایک تعھد کر رھا ہوں اپ اس تعھد کے مطابق عمل کر رھے ہیں ۔ ایسے ہے؟ اقا خوئی‬
‫کے عالوہ کسی کے ذھن میں نہیں ہے ایسا حتی کے جو اپنے بیٹے کا نام رکھہ رھا ہے‬
‫اس کے ذھن میں بھی یہ نہیں ہوتا جو خود واضع ہوتا ہے۔‬
‫دیکھیں اس پورے بیان میں شھید صدر جو اشکال کر رھے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر دیکھا‬
‫جائے تو وضع ایک تکوینی چیز ہے ۔ کیسے ؟ کیونکہ لفظ سنتے ہیں تو حقیقتا ً ذھن معنی‬
‫کی طرف جاتا ہے۔‬
‫سوال یہ ہے کے ایک تکوینی امر صد در صد اعتباری امر سے کیسے وجود میں اتا ہے‬
‫؟ کیونکہ اگر اپ کہیں کے وضع کا مقصد یہ ہے کے یہ جو واضع اکر لفظ کع معنی کے‬
‫ساتھ مخصوص کرتا ہے ‪ ،‬یہ اعتباری عمل ہے لیکن ذھن کا لفظ سے معنی کی طرف‬
‫منتقل ہونا یہ تکوینی امر ہے حقیقی امر ہے ۔‬
‫اس اعتباری ِامر سے حقیقی ِامر تک کیسے پہنچتے ہیں ؟ یہ مشکل ابھی بھی باقی ہے ہم‬
‫تو اُسی طرح مشکل میں پہنسے ہوئے ہیں جس طریقے سے پھلے اس مشکل کے ساتھ‬
‫مواجھہ کر رھے تھے ‪ ،‬جس طری قے سے اس مشکل کے ساتھ پھلے سامنا ہو رھا تھا‬
‫ابھی تک ویسے کا ویسے سامنا ہے ۔‬
‫شھید صدر کہتے ہیں کے اس مشکل کو حل کرنے کیلئے بھترین چیز وہ ُکتے والی مثال‬
‫شیہ کا روس کا کوئی دانشور تھا اس کے پاس ایک ُکتا تھا جب بھی‬ ‫ہے ۔ کہتے ہیں کے ر ّ‬
‫اس کو کوئی چیز کھانے کیلئے دیتا تھا تو کھانے سے دو منٹ پھلے گھنٹی بجاتا تھا پھر‬
‫دو منٹ کے بعد اس کو کھانے کو دیتا تھا (مثال پر غور کیجیئے گا شھید صدر کا نظریہ‬
‫سمجھہ میں اجائے گا) ایک دن دو دن تین دن ۔ ۔ ۔ ایسے ہی کیا جب بھی اس کتے کو‬
‫کچھہ کھانے کیلئے دیتا دو منٹ پھلے گھنٹی بجاتا ہے ‪ ،‬کچھی عرصے بعد جیسے ہی‬
‫گھنٹی بجتی حتی کے وہ ُکتا تھا وہ بھی سمجھہ جاتا تھا کے اب کھانے کو کچھہ ملے گا ‪،‬‬
‫فورا ً اس طریقے سے جس طریقے سے کھانا کھانے کیلئے امادہ ہوتا تھا اسی طریقے‬
‫سے َحرکات انجام دینا شروع کر دیتا تھا ۔ یہ کیوں ؟ ایک چیز کو دوسری شیز کے ساتھ‬
‫مالیا ‪ ،‬قانون ہے ۔ کے قانون علم ِنفسیات میں بھت زیادہ استعمال ہوتا ہے ۔‬
‫شھید صدر اسی سی یھاں پر استفادہ کرتے ہیں ‪ ،‬کہتے ہیں کے یھاں سے ایک قانون بنا‬
‫کے ایک چیز اگر دوسری چیز کے ساتھ مقترن ہو ‪ ،‬ملی ہوئی ہو ‪ ،‬ایک مرتبہ دو مرتبہ‬
‫تین مرتبہ چار مرتبہ ۔ ۔ ۔ باالخر ہمیشہ ان کو ساتھ ساتھ دیکھیں گے تو فورا ً انسان کا ذھن‬
‫ایک چیز سے دوسری چیز کی طرف منتقل ہو جائے گا ۔ ایسے ہے یا نہیں ہے ؟ مثالً دو‬
‫لوگوں کو اپ ہمیشہ ساتھ ساتھ دیکھتے ہیں کے اتے بھی ساتھ ہیں ‪ ،‬جاتے بھی ساتھ ہیں ‪،‬‬
‫کھاتے بھی ساتھ ہیں ‪ ،‬پڑھتے بھی ساتھ ہیں خالصہ ہر وقت ساتھ ہوتے ہیں ‪ ،‬اگر کچھہ‬
‫عرصے بعد دونوں میں سے کسی ایک کو دیکیں تو ذھن فورا ً دوسرے کے طرف جاتا‬
‫ہے ‪ ،‬کیوں ؟ یہ ذھن ِانسانی ایسے ہے کے اگر ایک چیز کے ساتھ اگر دوسری چیز کو‬
‫مال ہوا دیکھے ‪ ،‬مقترن دیکھے تو کچھہ عرصے کے بعد اسنان کا ذھن مانوس ہوجاتا ہے‬
‫ایک کو دیکھتا ہے دوسرے کی طرف منتقل ہوتا ہے ۔‬
‫شھید صدر فرماتے ہیں کہ اسی سے اپ وضع کو سمجھیں کے وضع کیا ہے ۔ وضع فقط‬
‫یہ نہیں ہے کے واضع اکر کہے کے میں اس لفظ کو اس معنی کے ساتھ مخصوص کرتا‬
‫ہوں ‪ ،‬محض اعتبار نہیں ہے ‪ ،‬صحیح ہے کے اس کے ذریعہ سے زمینہ ھموار کرتا ہے‬
‫لیکن وضع اس قرن ِاقید کے نتیجے میں وجود میں اتا ہے ۔‬
‫قرن ِاکید یعنی دو چیزوں کا اچھے طریقے سے مال ہوا ہونا ۔‬
‫قرن یعنی مال ہوا ہونا ۔‬
‫اکید یعنی محکم و مظبوط طریقے سے ۔‬
‫واضع اکر یہ کرتا ہے کہتا ہے کے میں اس لفظ کو اس معنی کے ساتھ جوڑتا ہوں ‪ ،‬اب‬
‫اُس کے پھلی مرتبہ کہنے سے لفظ کے تصور سے معنی کا تصور ذھن میں نہیں اتا۔ اسی‬
‫لئے دیکھیں کسی گھر میں پھلی مرتبہ بچے کا نام رکھا جاتا ہے تو یہ نہیں ہوتا ہے کے‬
‫لفظ کو سننے سے اپ کے ذھن میں اس بچے کی تصویر اجائے ‪ ،‬تھوڑا ٹئم گذرتا ہے‬
‫گذرتا ہے ۔ ۔ ۔ پھر جاکر یہ ذھن میں خاکہ بنتا ہے کے یہ لفظ اس معنی کے ساتھ ہے ۔‬
‫یہ قرن ِاکید جب تک نہ ہو لفظ اور معنی کا اپس میں اقتران و میالپ جب تک شدید اور‬
‫محکم نا ہو تب تک لفظ کے تصور سے معنی کا تصور نہیں اتا شھید صدر اسی طریقے‬
‫سے اس نظریہ کو بیان کرتے ہیں ۔‬
‫شھید صدر فرماتے ہیں کے لفظ اور معنی کا رشتہ یھی قرن ِاکید ہے یعنی لفظ اور معنی‬
‫کو اپ ایک ساتھ اتنا مالتے ہیں اتنا مالتے ہیں کے جب بھی میں کہتا ہوں اگ یعنی یہ‬
‫جالنے والی چیز ‪ ،‬ایک مرتبہ سنا دوسری مرتبہ سنا تیسری مرتبہ سنا ۔ ۔ ۔ یہ مسلسل‬
‫اپس میں ان دونوں کا ارتباط انسان کے ذھن میں یہ ربط قائم کردیتا ہے کے جب بھی میں‬
‫لفظ کو بیان کرتا ہوں اپ کا ذھن معنی کی طرف منتقل ہوتا ہے ۔‬
‫اگر پوچھا جائے یہ قرن ِاکید کیسے پیدا ہوتا ہے تو جواب یہ ہے کے قرن ِاکید کا ایک‬
‫طریقہ تکرار ہے ایک چیز کا دوسری چیز کے ساتھ مسلسل ہونا ‪ ،‬ایک مرتبہ دو مرتبہ‬
‫تین مرتبہ ۔ ۔ ۔ باالخر ذھن ِ انسانی اُنس پیدا کر دیتا ہے ۔‬
‫کہا جاتا ہے یعرفوا الصاحب بالصاحب ایک دوست کو اس کے دوست کے ذریعہ سے‬
‫پہچانو ۔ وہ جو ہمیشہ اپس میں ایک ساتھ ہوتے ہیں تو ایک کی خاصیتیں دوسرے کے‬
‫اندر بھی منتقل ہوجاتی ہیں ‪ ،‬اسی لئے سعدی بھی کہتا ہے کہ تا توانی می گریز از یار ِبد‬
‫‪ ،‬یا ِربد بدتر ب َُود از مار ِبد ۔‬
‫حقیقت یھی ہے قرن ِاکید تکرار کی وجہ سے ‪ ،‬بار بار ایک ساتھ ہونے کی وجہ سے‬
‫وجود میں اتا ہے۔‬
‫اور کبھی کبھار یہ یہ قرن ِاکید یہ محکم رشتہ ایک مرتبہ ہونے والی چیز سے بھی وجود‬
‫میں اتا ہے اس کو شھید صدر تعبیر کرتے ہیں ظرف موثر ہے۔ ایک مرتبہ ایک واقعہ‬
‫ہوگیا لیکن حاالت ایسے سنگین تھے کے پوری زندگی پھر انسان کے ذھن سے وہ بات‬
‫نہیں نکلتی ۔‬
‫اس کی مثال یہ ہے کے ایک بندہ کسی شھر کی طرف مسافرت کرتا ہے اور شدید ملیریا‬
‫می ں مبتال ہو جاتا ہے پھر الحمدہلل شفا پا جاتا ہے اور مسافرت سے واپس بھی اجاتا ہے ‪،‬‬
‫تو یہ اقتران اس شھر کی طرف سفر اور ملیریا کے درمیان ھمیشہ اس کے ذھن میں‬
‫رھے گا ‪ ،‬جب بھی اس شھر کا تصور کرے گا اس کے ذھن میں ملیریا بھی اجائے گا ۔‬
‫تو شھید صدر فرماتے ہیں کے یہ قرن اور اقتران دو طریقوں سے ہوسکتا ہے۔‬
‫‪ ۱‬۔ ال شعوری‬
‫‪۲‬۔ شعوری‬
‫ال شعوری طریقے سے کیسے ہے ؟ مثالً انسان کو سینے میں درد ہوتا ہے ایک عجیب و‬
‫غریب قسم کی اواز انسان نکالتا ہے اہ ‪ ،‬اُہ ‪ ،‬ا وغیرہ‬
‫یہ جو اوازیں ہیں اہ ‪ ،‬اُف یہ اوازیں بیان کرتی ہیں کے کوئی درد ہے کوئی تکلیف ہے ۔‬
‫اس تکلیف کو بیان کرنے کیلئے یہ جو الفاظ ہیں وہ بین االقوامی سطح پر ہر بندہ سمجھتا‬
‫ہے ‪ ،‬ہر بندہ تکلیف کے وقت ان الفاظ کا تکرار کرتا ہے ۔‬
‫شھید صدر کہتے ہیں یہ اہ و اُف ایسے الفاظ ہیں جو انسان تکلیف کے وقت کہتا ہے اور‬
‫ان الفاظ کا انسان کی تکلیف کے ساتھ رشتہ ہے اور یہ اتنی مرتبہ بار بار بار بار بار بار‬
‫تکرار ہونے کی وجہ سے اُف اور اہ کا الَم یعنی درد کے ساتھ ایک رشتہ قائم ہوجاتا ہے ۔‬
‫ہم ایسے کسی گروہ کو نہیں جانتے کے جس نے کہا ہو کے ہم نے لفظ ِاہ کو وضع کیا‬
‫ہے تکلیف کیلئے ‪ ،‬اُف کو وضع کرتے ہیں تکلیف کیلئے (ایسا کوئی بھی گروہ نہیں ہے)‬
‫لیکن کیونکہ یہ لفظ انسان کے سینے می ں درد کے وقت استعمال ہوا اور اتنا استعمال ہوا‬
‫کے ان دونوں (درد اور اہ) کا اپس میں رشتہ بن جاتا ہے ‪ ،‬یھاں پر قنر اور اقتران ہے‬
‫لیکن الشعوری طریقے کا ‪ ،‬نہ جانتے ہوئے ان کے درمیان خودبخود یہ اقتران ہوگیا ۔‬
‫ایک مرتبہ شعوری طریقے سے لفظ اور معنی کے درمیان اقتران پیدا کیا جاتا ہے مثالً‬
‫کوئی بندہ اپنے بچے کا نام محمد رکھتا ہے تو یہ نام رکھنا شعوری طریقے سے ہے ۔ یا‬
‫مثالً انسان کیا کرتا ہے اگر کوئی بات یاد نہیں رھتی تو وہ اس چیز کو ایک ایسی چیز‬
‫کے ساتھ مالتا ہے جو ہمیشہ اس کے ذھن میں رھتی ہو جیسے اپ کسی ڈاکٹر کے پاس‬
‫جا رھے ہیں ‪ ،‬ڈاکٹر کا نام ہے جابر ‪ ،‬اب یہ ڈاکٹر جابر کا نام ہے اس کو یاد رکھنے‬
‫کیلئے اپ اپنے ذھن میں موجود مانوس شخصیت سے اس ڈاکٹر جابر کا نام مالدیتے ہیں‬
‫کے ایک جابر بن عبدہللا انصاری حدیث ِکساء واال بھی تو ہے ‪،‬ایک جابر میری پسندیدہ‬
‫کتاب کے مصنف کا نام بھی تو ہے ‪ ،‬ڈاکٹر بھی جابر حدیث ِکساء واال بھی جابر ۔ ڈاکٹر‬
‫بھی جابر مصنف بھی جابر ۔ ایسا کیوں کرتے ہیں اپ ؟ تاکے دونوں کے درمیان اقتران‬
‫رھے اور میرا ذھن اس سے منتقل ہوجائے دوسری طرف ‪،‬اس طرح اس ڈاکٹر کا نام یاد‬
‫رکھنا اسان ہوجاتا ہے ‪ ،‬جب بھی مصنف کو تصور کیا ‪ ،‬جب بھی حدیث ِکساء کو تصور‬
‫کیا ڈاکٹر کا نام یاد اجاتا ہے ۔ اکثر ہم اپنی زندگی میں ایسا کرتے ہیں جب کسی چیز کے‬
‫بھول جانے کا ڈر ہو تو اُس چیز کے ساتھ کسی اور چیز کو مال دیتے ہیں ۔‬
‫پس ہمارے پاس وضع یا اقتران دو طریقے سے ہے ۔‬
‫ایک ایسا اقتران ہے جو خودبخود حاصل ہوتا ہے اُسے کہتے ہیں وضع ت َ َعینی ۔‬
‫اور ایک اقتران ہے جو ایک شعوری عمل سے گذرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے اُسے‬
‫کہتے ہیں وضع تَع ِیینی ۔‬
‫یہ جو ارتباط پیدا کرنے کا طریقہ ہے لفظ اور معنی کے درمیان اس کا نتیجہ یہ ہے کے‬
‫لفظ اور معنی کے درمیان رشتہ مضبوط ہو جاتا ہے اس لئے جب بھی لفظ کو سنتے ہیں‬
‫تو فورا ً ذھن معنی کی طرف جاتا ہے ‪ ،‬اسے کہتے ہیں تبادر ۔‬
‫تبادر یعنی کیا ؟‬
‫لفظ کو سنتے ہی فورا ً معنی کا ذھن میں انا تبادر کہالتا ہے۔‬
‫تبادر بھت مہم چیز ہے ‪ ،‬اگر کسی لفظ کو دیکھنا ہو کے یہ لفظ کس معنی کیلئے وضع ہوا‬
‫ہے اور کس کے لئے نہیں تو اس کیلئے تبادر کو دیکھا جائے گا ۔ مثالً اھل سنّت اور اھل‬
‫تَ َ‬
‫شیّع کے درمیان فدک ایک اختالفی مسئال ہے۔‬
‫جناب سیدہ فاطمہ الزھرا (س) نے فدک کے بارے میں دو دعوے کئے ۔‬
‫فدک کا اصل معاملہ یہ ہے کہ جناب سیدہ کا فرما رھی ہیں کے فدک رسول ہللاﷺ نے اپنی‬
‫زندگی میں مجھے ھدیہ کے طور پر عطا کیا اسے کہتے ہیں نحلہ ‪ ،‬یہ میری ملکیت ہے ۔‬
‫خلیفہ ّاول کا کہنا ہے کے ہم نہیں مانتے دعوی پیش کرو ۔ پھال دعوی جناب ِسیدہ کا یہ‬
‫ہے ‪:‬گواہ کے طور پر امیرالمومنین حضرت علی (ع) ائے ‪ ،‬امام حسن ائے ‪ ،‬امام حسین‬
‫ائے ‪ ،‬جناب اُم ِایمن ائیں ۔‬
‫گواہوں کو قبول نہیں کیا گیا ‪ ،‬کہا حسنین بچے ہیں ‪ ،‬علی اپ کے ھمسر (شوھر) ہیں ‪،‬‬
‫باقی بچیں ایک جناب ام ایمن کہا کے ایک کی گواھی قابل قبول نہیں ‪ ،‬رد کر دیا ۔‬
‫جب پھال دعوی رد ہوا تو جناب سیدہ نے دوسرا دعوی پیش کیا ۔ فرمایا نحلہ کے عنوان‬
‫سے نہیں مانتے تو یہ میری میراث ہے کیونکہ قران کہتا ہے کے وہ مال جو فَی کی شکل‬
‫میں ہے جس پر لوگوں نے زحمت نہیں کی گھوڑے نہیں دوڑائے لڑے نہیں ہو‬
‫ملکیت ِخاص ِپیغمبر ہے ۔(یہ متفقا مسئال ہے شیعہ سنّی کے درمیان) فدک کا جو معاملہ‬
‫ہے ِملکی ہے ‪ ،‬خیبر کی جنگ کے بعد فدک کے یھودیوں نے ڈر کے صلح کی شکل میں‬
‫اکر پیغمبر ﷺ کو فدک کی ملکیت دے دی ‪ ،‬قرانی ایات کے مطابق یہ میک ِخاص ِ پیغمبر‬
‫ﷺ ہے۔ جناب ِسیدہ کہہ رھی ہیں اگر اپ نحلہ کے عنوان سے نہیں مانتے تو یہ میراث‬
‫ہے ‪ ،‬ملک ِ خاص ِ پیغمبر ﷺ ہے اور میں وارث ِپیغمبر ﷺ ہوں ۔ یھاں پر ہو خلفاء یہ‬
‫انکار نہیں کر رھے کے پیغمبر ﷺ کی خاص ملکیت نہیں ہے ‪ ،‬وہ مانتے ہیں کے پیغمبر‬
‫ﷺ کی خاص ملکیت ہے لیکن خلیفہ ّاول نی کہا کے پیغمبر ﷺ نے مجھہ سے فرمایا تھا‬
‫کے ‪:‬‬
‫نحن معاشر االنبیاء النرث وال نورث ما ترکناہ صدقۃ‬
‫ہم گروہ انبیاء نا کسی کے وارث بنتے ہیں نا کسی کو وارث بناتے ہیں جو چھوڑ کر‬
‫جاتے ہیں وہ صدقہ ہے ۔‬
‫جب خلیفہ ّاول نے یہ حدیث پیش کی تو جناب ِسیدہ نے اس حدیث کی رد میں قرانی ایت‬
‫کو ذکر کیا کہ قران کہتا ہے ‪:‬‬
‫َو ورث سلیمان داوود‬
‫سلیمان بھی نبی ہے ‪ ،‬داوود بھی نبی ہے ‪ ،‬ایک نبی وارث بنا رھا ہے دوسرا نبی وارث‬
‫بن رھا ہے تو کیسے کہہ رھے ہو ال نرث و ال نورث ۔‬
‫قران تو کہہ رھا ہے نبی وارث بنتا ہے اور نبی وارث بناتا بھی ہے ۔‬
‫یہ جو میں نے مثال دی ہے یہ تبادر کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ۔‬
‫یھاں پر اھل سنّت کے علماء جواب دیتے ہیں جس میراث کا دعوی کیا گیا ہے وہ مال و‬
‫ملکیت کی ہے جبکہ قران میں جو سلسلہ میراث ہے وہ علم و نبوت کی بات ہو رھی ہے ۔‬
‫و ورث سلیمان داوود ۔ قران کہہ رھا ہے سلیمان داوود کا وارث ہے یعنی اس کے علم کا‬
‫وارث ہے ‪ ،‬اس کی نبوت کا وارث ہے ۔ اور یھاں پر جو پیغمبر اکرم ﷺ فرما رھے ہیں ‪:‬‬
‫نحن معاشر االنبیاء النرث وال نورث ما ترکناہ صدقۃ‬
‫اس سے مراد مال و ملکیت ہے وہ ایت اس حدیث کو رد نہیں کرتی ۔‬
‫اھل ِت َ َ‬
‫شیّع (ہم لوگ) جواب دیتے ہیں تبادر سے ۔‬
‫(یہ پوری کہانی اس تبادر کو سمجھانے کیلئے بیان کی ہے )‬

‫تبادر اس بات کی عالمت ہے کے لفظ کا معنی کیا ہے ؟‬


‫جب بھی ہم میراث کا لفظ سنتے ہیں تو ذھن میں فورا ً مال و ملکیت والی معنی اتی ہے ۔‬
‫یھاں سے سمجھہ میں اتا ہے کے جھاں بھی لفظ ِمیراث ہو اور کوئی قرینہ موجود نا ہو‬
‫تو اس سے مراد مال و دولت ہوگی ‪ ،‬اور تبادر اس کی عالمت ہے کے لفظ ِمیراث کو علم‬
‫و نبوت کی میراث کیلئے وضع نہیں کیا گیا بلکہ لفظ ِمیراث کو وضع کیا گیا ہے ترکہ‬
‫کیلئے جو مال و دولت ہے۔‬
‫اس طرح ہم تبادر سے اھل ِسنّت کے اشکال کا جواب دیتے ہیں‪ ،‬تبادر کے ذریعہ سے‬
‫استدالل کرتے ہیں ۔‬
‫میراث تبادر ہے ترکہ کا مال و دولت کا ‪ ،‬نبوت ارث میں تھوڑی ملتی ہے کے باپ نبی‬
‫ہے تو بس بیٹا بھی نبی بن جائے گا ‪ ،‬نبوت کا ملنا کماالت پر ہے جس کے اندر صالحیت‬
‫و کمال ہے ہللا اسے نبوت دیتا ہے ۔اگر نبوت ایسے میراث میں باپ سے بیٹے میں منتقل‬
‫ہوتی تو کبھی بھی حضرت نوح کے بیٹے کیلئے ہللا نہ کہتا ف ِانّہ عمل غیر صالح ‪ ،‬فانّہ‬
‫لیس من اھل ۔‬
‫اس لئے ممکن ہے تبادر کو عالمت قرار دیں کے یھی معنی موضوع لہ ہے لفظ کیلئے ‪،‬‬
‫اگر شک کریں کے میراث مال کے لئے ہے یا علم کے لئے ہے؟ اپ دیکیں کونسا معنی‬
‫اپ کے ذھن میں تبادر کر رھا ہے ‪ ،‬جو معنی ذھن میں تبادر کرے گا اُس معنی کو کہیں‬
‫گے کے یہ معنی حقیقی ہے ‪ ،‬معنی موضوع لہ ہے۔‬
‫برھان انّی میں معلول سے علت کی طرف پھنچتے ہیں ‪ ،‬اثر کو دیکھہ کر موثر کی طرف‬
‫پھنچتے ہیں دونھیں کو دیکھہ کر اگ تک پہنچتے ہیں ‪ ،‬ایسے ہی تبادر ہے یہ تبادر‬
‫معلول ہے ۔ کس کا معلول ہے؟ وضع کا ۔ وضع علت ہے ‪ ،‬کیوں ؟ کیوں جب بھی میں‬
‫لفظ سنتا ہوں تو میرے ذھن میں یہ ہی معنی تبادر کرتا ہے ‪ ،‬اسلئے کے وضع ہوا ہے اس‬
‫معنی کیلئے اسی لئے تبادر کو عالمت ِحقیقی شمار کیا جاتا ہے ۔‬
‫اضافی مطلب جو مصین نے کتاب میں ذکر نہیں کیا اس کی طرف اشارہ ‪:‬‬
‫صدور کے ذیلی مباحث میں سشید صدر اثبات ِصدور بیان کر رھے ہیں کے ایک مرتبہ‬
‫مجھے یقین ہے کے یہ روایت امام سے وارد ہوئی ہے لیکن بحث یہ ہے کے یہ امام نے‬
‫جو فرمایا ہے ایا حکم ہللا بیان کیا ہے یا تقیہ کی وجہ سے بیان کیا ہے کیونکہ ائمہ کی‬
‫زندگی میں تقیہ بھی ایک امر ہے ٹیکنک کے عنوان سے رھا ہے ۔ تو یہ بھی ایک بحث‬
‫ہے کے ہم لوگوں کو کبھی کبھار یہ پتہ ہے یہ یقین ہے کہ یہ روایت امام سے صادر‬
‫ہوئی ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہے کے حکم ہللا ہے کے عنوان سے ہے یا تقیہ کی وجہ‬
‫سے ہے ‪ ،‬تو جھت ِصدور بھی دلیل شرعی ِلفظی میں مہم ہے جو کے شھید صدر نے‬
‫فعالً یھاں بیان نہیں کیا ہے ممکن ہے کسی بحث کے ضمن میں اس کو بیان کریں ۔ لیکن‬
‫اگر دیکھا جائے تو قانونی اعتبار سے یہ چار مرحلے ہیں ۔‬
‫‪۴‬۔ جھت ِصدور‬ ‫‪ ۱‬۔ اصل ِداللت ‪۲‬۔ حجیّت ِدلیل ‪ ۳‬۔ اصل ِصدو‬

‫درس ‪۱۲‬‬
‫المدلول اللغوی و المدلول التصدیقی‬
‫لغت کے عممومی مسائل کے بارے میں بحث کر رھے تھے ‪،‬وضع کے بارے میں بحث‬
‫ہوئے جس میں حقیقت وضع کو بیان کیا ‪ ،‬اس کے بعد استعمال کے بارے میں بیان کیا‬
‫کے استعمال یا حقیقت ہوتا ہے یا مجاز‪ ،‬پھر لغت کے بارے میں عرض ہوا کے لغت کو‬
‫دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں کے لغت یا معانی اسمیہ ہے یا معانی حرفیہ ہے ۔ ان‬
‫شاءہللا اج ذکر کریں گے کے داللت دو قسموں کی ہے ۔‬
‫اپ داللت کو منطق میں پڑہ کر ائے ہیں لیکن یھاں پر داللت کو ایک اور طریقے سے پڑہ‬
‫رھے ہیں ۔ منطق میں داللت کے بارے میں اپ نے پڑھا کے داللت یعنی ایک چیز کے‬
‫علم سے دوسری چیز کا علم حاصل ہونا ‪ ،‬پھر اپ نے پڑھا کے سبب داللت یا عقل ہے یا‬
‫وضع ہے یا طبع ہے ۔ اگر سبب داللت عقل ہے تو داللت عقلیہ ‪ ،‬اگر سبب داللت وضع‬
‫ہے تو داللت وضعیہ ‪ ،‬اگر سبب داللت طبع ہے تو طبعیہ ۔ ان میں سے ہر ایک یا لفظیہ‬
‫ہے یا غیر لفظیہ ‪ ،‬پھر داللت وضعیہ کو تین قسموں میں تقسیم کرتے ہیں ۔‬
‫یا لفظ اپنی تمام معنی پر داللت کرتا ہے‬
‫یا لفظ جزء معنی پر داللت کرتا ہے‬
‫یا لفظ خارج معنی پر داللت کرتا ہے ۔‬
‫اگر لفظ تمام معنی پر داللت کرے تو داللت التزامیہ ۔‬
‫اگر لفظ جزء معنی پر داللت کرے تو داللت تضمنیہ ۔‬
‫اگر لفظ خارج معنی پر داللت کر تو داللت التزامیہ ۔‬
‫اصل بحث میں وارد ہونے سے پھلے جو نکتہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ منطق میں اپ‬
‫علم کو ایک لحاظ سے تقسیم کرتے ہیں دو قسموں کی طرف کے علم یا علم تصوری ہے‬
‫یا علم تصدیقی ہے ۔‬
‫تصور اور تصدیق کی کیا تعریف ہے ؟‬
‫العلم اذ کان اذعان للنسبت فتصدیق و ّاال فتصور‬
‫اگر اس طریقے سے ہو کے نسبت کے بارے میں اطمنان یا اعتقاد ہو تو اسے تصدیق‬
‫کہتے ہیں اور اگر علم بغیر نسبت اطمئنان کے ہو یعنی نسبت نہیں ہے یا نسبت کے بارے‬
‫میں اعتقاد نہیں ہے تو اسے تصور کہتے ہیں ۔ مثالً زید ‪ ،‬اس کو اپ ذھن میں لے کر اتے‬
‫ہیں اسے کہتے ہیں تصور لیکن جب کہیں زید قائم تو یہ تصور نہیں ہے تصدیق ہے ۔‬
‫یھاں پر ایک لحاظ سے داللت کو تقسیم کرتے ہیں داللت تصوریہ اور داللت تصدیقیہ میں‬
‫۔‬
‫داللت سے انسان کے ذھن میں تصور اتا ہے یعنی ایسا مدلول ہوتا ہے جو مدلول بغیر‬
‫نسبت کے ہے کیونکہ تصور میں کوئی نسبت نہیں ہوتی ۔‬
‫یا داللت اس طریقے سے ہے کے داللت کے بعد مدلول تصدیقی اپ کے پاس اتا ہے ‪،‬‬
‫پس اصول میں جو ہم داللت کو تقسیم کررھے ہیں اس طریقے سے کے یا ھمارے ذھن‬
‫میں مدلول تصوری اتا ہے یا مدلول تصدیقی اتا ہے ۔ مثالً ایک مرتبہ میں کہتا ہوں الماء‬
‫یعنی پانی ۔ جیسے ہی میں نے لفظ ماء کہا تو اپ کے ذھن میں پانی ارھا ہے ‪ ،‬جیسے ہی‬
‫لفظ ماء اپ سنتے ہیں اپ کے ذھن میں پانی کا تصور اجاتا ہے ۔ اب اس لفظ ماء سے‬
‫پانی کا تصور جو ہمارے ذھن میں ارھا ہے اس کیلئے ضروری نہیں ہے کے کوئی انسان‬
‫اپنے ھوش و حواس سے لفظ ماء کہے تو اپ کے ذھن میں تصور ائے بلکہ دو پتھروں‬
‫کے ٹکرانے سے اگر ماء کی اواز نکلے تو اپ کے ذھن میں پانی کا تصور ائے گا بلکہ‬
‫دروازے کے کھٹکھٹانے سے لفظ ماء پیدا ہو تو اپ کے ذھن میں میں پانی کا تصور ائے‬
‫گا ‪ ،‬جن بھی الفاط کے معانی کا اپ کو علم ہے وہ کسی بھی جگہ سے اپ سنیں اپ کے‬
‫ذھن میں ان کے معانی فورا ً اجاتے ہیں ۔ضروری نہیں ہے کے ایک انسان اپنے ھوش و‬
‫حواس میں لفظ ادا کرے تو ہی معنی ذھن میں ائے ۔‬
‫اسی طریقے سے دوسری مرتبہ میں کہتا ہوں پانی ‪ ،‬اپ کے ذھن میں اتا ہے میں اس لفظ‬
‫کو اداد کر رھا ہوں تاکے اپ اس لفظ سے معنی تک پہنچیں (دقت کیجیئے گا دوسری بات‬
‫کر رھا ہوں) یعنی کوئی انسان ھوش و حواس می ں ہو باشعور ہو ‪ ،‬متوجہ ہو ‪ ،‬توجہ کے‬
‫ساتھہ لفظ کو ادا کر رھا ہے یعنی متکلم چاھتا ہے کے اس لفظ کے ذریعہ سے اپ کو اس‬
‫کی معنی تک پہنچائوں ‪ ،‬میں کہتا ہوں ماء یعنی پانی ‪ ،‬اپ بھی سمجھتے ہیں کے میں اس‬
‫لفظ کو ادا کررھا ہوں تاکے اپ اس کے معنی کو سمجھیں ‪ ،‬ایک مرتبہ یہ ہے یھاں پر‬
‫فقط خالی تصور نہیں ہے کے میں نے فقط ایک لفظ کہا اور اپ کے ذھن میں اس کا‬
‫معنی اجائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک چیز زائد ہے جو اپ سمجھتے ہیں وہ یہ ہے‬
‫کے متکلم نے اس لفظ کے ذریعہ سے مجھے معنی سمجھانا چاھا ہے ‪ ،‬یہ وھاں ہوگا‬
‫جھاں پر ا پ کا متکلم باشعور ہو ‪ ،‬ھوش و حواس کے ساتھ ہو ‪ ،‬متوجہ ہو اسی جگہ پر‬
‫ایسے ہوتا ہے ‪ ،‬لیکن ایک بندہ سویا ہوا ہو نیند میں کہہ رھا ہے پانی پانی ‪ ،‬اپ کے ذھن‬
‫میں پانی تو اتا ہے لیکن اپ کبھی بھی یہ نہیں سمجھتے کے یہ جو سویا ہوا ہے پانی‬
‫پانی کہہ رھا ہے کیونکہ اس کو پیاس لگی ہے ‪ ،‬اپ کہتے ہیں نہ وہ نیند میں ہے ایسے‬
‫ہیی بڑبڑا رھا ہے ‪ ،‬اس نے کوئی قصد نہیں کیا ‪ ،‬ان دونوں میں فرق محسوس ہوا ؟‬
‫پھلی قسم کو کہتے ہیں داللت تصوری ۔ داللت تصوری یعنی فقط لفظ کے ذریعہ سے‬
‫معنی کا ذھن میں انا ‪ ،‬جیسے ہی اپ لفظ سنتے ہیں تو اپ کے ذھن میں معنی اجائے اسے‬
‫کہتے ہیں داللت تصوری ۔‬
‫دوسری قسم کو کہتے ہیں داللت تصدیقی ۔ داللت تصدیقی یعنی متکلم اس لفظ کے ذریعہ‬
‫سے یہ چاہتا ہے کے سامع اس کے معنی معنی تک پھنچے یعنی فقط یہ نہیں ہے کے لفظ‬
‫کے ذریعہ سے معنی تک پہنچے ‪،‬اس کے ساتھ ساتھ اس نکتے کو بھی سمجھیں کے‬
‫متکلم چاھتا ہے کے سامع اس بات کو سمجھے کے میں لفظ کے ذریعہ سے اس کو معنی‬
‫سمجھانا چاھتا ہوں مراد متکلم کو بھی سمجھے کے متکلم نے اس لفظ سے معنی کا قصد‬
‫کیا ہے ‪ ،‬ارادہ کیا ہے ‪ ،‬اس نکتے کو بھی درک کرے ‪ ،‬ایک اور مرحال بھی ہے اس‬
‫سے اگے مثالً ایک مرتبہ میں کالس میں کہتا ہوں کے وہ دیکھیں سانپ ‪ ،‬کوئی بندہ اپ‬
‫میں سے متوجہ ہی نہیں ہوا کو وھاں پر سانپ ہے یا نہیں کیونکہ اپ لوگ سمجھہ رھے‬
‫ہیں کے میں مذاق کر رھا ہوں ۔ کہتا ہوں حقیقت میں سانپ ہے لیکن پھر بھی اپ نہیں‬
‫دیکھتے کیونکہ اپ سب لوگ سمجھتے ہیں کے میں مذاق کر رھا ہوں ‪ ،‬میں جدّا ً و حقیقتا ً‬
‫اس چیز کا ارادہ نہیں رکھتا کے کالس میں کوئی سانپ ہے ‪،‬کوئی بھی متوجہ نہیں ہو رھا‬
‫‪ ،‬میری بات کا کوئی بھی اثر نہیں لے رھا لیکن میں کہوں کے اس چیز کو لکھیں ‪ ،‬ان‬
‫تعریفوں کو لکھیں اب یھاں پر اپ متوجہ ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ترتیبی اثر تو نہیں لیتے‬
‫‪ ،‬لیکن متوجہ ہیں کے میں واقعا ً یہ جو کہہ رھا ہوں اپ کو کے درس کا خالصہ لکھنا‬
‫چاھیے ‪ ،‬اپ کو یہ تعریفات لکھنی چاھئیں ‪ ،‬واقعا ً ارادہ کرتا ہوں اس کا ‪ ،‬حقیقتا ً چاھتا‬
‫ہوں کے اپ لکھیں ۔‬
‫اب یھاں پر چند چیزیں ہوگئیں ۔‬
‫ایک تو میرے الفاظ جو ہیں ان سے اپ معانی تک پہنچتے ہیں یہ نکتہ بھی سمجھ لیا اپ‬
‫نے کے میں ان الفاظ کے ذریعہ سے معانی اپ کے ذھن تک پہنچانا چاھتا ہوں نہ فقط ان‬
‫الفاظ کے ذریعہ سے معانی اپ نے ذھن تک پہنچانا چاھتا ہوں بلکہ یہ بھی چاھتا ہوں کے‬
‫جو میں کہہ رھا ہوں حقیقتا ً جدّا ً میرا ارادہ ہے ۔ یہ چید صورتیں ہیں پس اس اعتبار سے‬
‫داللت کو ہم تقسیم کرتے ہیں ۔‬
‫‪۱‬۔ داللت تصوریہ‬
‫‪۲‬۔ داللت تصدیقیہ‬
‫داللت تصوریہ کیا ہے ؟‬
‫جب بھی ایک لفط کو سنین اور ذھن اس کی معنی کی طرف متوجہ ہو ۔‬
‫دوسرے لفظوں میں ‪ :‬سامع لفظ سے معنی کی طرف متوجہ ہو ۔‬
‫داللت تصوریہ کے متحقق ہونے کیلئے دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے یا داللت تصوریہ‬
‫کیلئے دو شرط ہیں ۔‬
‫‪۱‬۔ لفظ اور معنی کے درمیان عالقہ(رابطہ) وضع ہو جب تک لفظ اور معنی کے درمیان‬
‫وضع کا رشتہ نہیں ہوگا کنھی بھی لفظ سننے سے اپ معنی کی طرف نہیں جائیں گے ‪،‬‬
‫جو لفظ مھمل ہیں جن کا کوئی معنی نہیں ان الفاظ سے اپ معنی کی طرف منتقل نہیں‬
‫ہوتے ‪ ،‬داللت تصوری کیلئے پھلی شرط یہ ہے کے لفظ اور معنی کے درمیان‬
‫عالقہ(رابطہ) وضع ہو۔‬
‫‪۲‬۔ سامع کو اضع کا علم بھی ہو جب تک سامنے واال لفظ کے معنی کو نہیں جانے گا اپ‬
‫کتنی ہی مرتبی اس ایک لفظ کو دھرائیں کبھی بھی سامع کے ذھن میں اس لفظ سے معنی‬
‫نہیں ائے گا ۔ مثالً اگر میں اپنی زبان کا لفظ دھراتا رھوں اپ کے ذھن میں کوئی معنی‬
‫تھوڑی ائے گا‪ ،‬اپ اپنی زبان کا کوئی لفظ دھرائیں میرے ذھن میں معنی تھوڑی ائے گا ‪،‬‬
‫لفظ سے معنی کی طرف منتقل ہونے کیلئے سامع کو وضع کا علم ہونا چاھئے جب تک‬
‫سامع وضع کا عالم نہیں ہوگا تب تک یہ داللت تصوریہ وجود میں نہیں اسکتی ۔‬
‫داللت تصدیقیہ کیا ہے ؟‬
‫سامع لفظ سے معنی کی طرف جاتا ہے اور اس نکتے کی تصدیق بھی کرتا ہے کے متکلم‬
‫نے اس کا ارادہ کیا ہے ۔‬
‫داللت تصدیقی کی دو قسمیں ہیں ۔‬
‫‪۱‬۔داللت تصدیقیہ ّاولیہ‬
‫‪۲‬۔ داللت تصدیقیہ ثانویہ‬
‫داللت تصدیقیہ ّاولیہ یعنی متکلم لفظ کے ذریعہ سامع کے ذھن میں معنی پہنچانا چاھتا ہے‬
‫سامع اس نکتے کی تصدیق کرے کے واقعا ً متکلم چاھتا ہے کے اس لفظ کے ذریعہ سے‬
‫اپ اس کی معنی کو سمجھیں ۔‬
‫اس داللت تصدیقیہ ّاولیہ میں تین شرائط کا ہونا ضروری ہے ۔‬
‫‪‬لفظ اور معنی کے درمیان وضع کا رشتہ ہو‬
‫‪‬‬
‫‪‬سامع کو وضع کا علم بھی ہو‬
‫‪‬‬
‫‪‬متکلم اپنے ھوش و حواس سے لفظ کو ادا کر رھا ہے ۔‬
‫‪‬‬
‫تبھی تو علم ہوگا کے متکلم اپنے لفظ سے اپ کو معنی تک پہنچانا چاھتا ہے متکلم اپنے‬
‫ھوش و حواس سے لفظ ادا کر رھا ہے اگر سویا ہوا ہو نیند میں ہو اور کچھ الفاظ کہہ رھا‬
‫ہو تو کبھی بھی اپ اس چیز کو کشف نہیں کرتے کے متکلم نے اس معنی کا ارادہ بھی‬
‫کیا ہے ‪ ،‬یہ اسی وقت اپ سمجھیں گے جب متکلم ھوش و حواس کے ساتھ اس لفظ کو ادا‬
‫کر رھا ہو (توجہ کریں داللت تصدیقیہ میں ہم مراد متکلم کو کشف کرتے ہیں)۔‬
‫داللت تصدیقیہ ثانویہ یعنی متکلم لفظ کے ذریعہ معنی بھی سمجھانا چاھتا ہے اور اس‬
‫معنی کا حقیقتا ً و جدّا ً ارادہ بھی رکھتا ہے ۔‬
‫داللت تصدیقیہ ثانویہ میں چار شرائط کو ہونا ضروری ہے ۔‬
‫‪‬لفظ اور معنی کے درمیان وضع کا رشتہ ہو‬
‫‪‬‬
‫‪‬سامع کو وضع کا علم بھی ہو‬
‫‪‬‬
‫‪‬متکلم اپنے ھوش و حواس سے لفظ کو ادا کر رھا ہے‬
‫‪‬‬
‫‪‬متکلم حقیقتا اور جدّا اس معنی کا ارادہ بھی رکھتا ہو‬
‫‪‬‬
‫نکتہ امتیازی (افتراقی)‬

‫داللت تصدیقیہ میں جو امتیاز ہے ہو یہ ہے کے لفظ سے معنی کی طرف جاتے ہیں لیکن‬
‫سامع اس نکتے کو بھی کشف کرتا ہے کے متکلم نے اس معنی کا ارادہ کیا ہے ‪ ،‬کیونکہ‬
‫بھت ساری جگہوں پر داللت تصوریہ کے ساتھ ساتھ داللت تصدیقیہ بھی ہے ۔ ان دونوں‬
‫کا امتیاز(فرق) اپ فقط اس جگہ پر محسوس کر سکتے ہیں جھاں پر داللت فقط تصوری‬
‫ہو تصدیقی نہ ہو یعنی ایک ایسا بندہ جو بےشعور ہو یا بےجان چیز سے اپ اواز سنیں تو‬
‫وھاں پر داللت تصوری ہے ‪ ،‬داللت تصدیقی نہیں ہے ۔ مثالً دو پتھروں کے ٹکرانے سے‬
‫لفظ ماء یا کوئی بھی ایسی اواز نکلے ‪ ،‬تو یھاں پر اپ لفظ سے معنی کی طرف تو منتقل‬
‫ہو رھے ہیں لیکن یھاں پر یہ نہیں ہے کے ان دو پتھروں نے اس لفظ کے معنی کا بھی‬
‫ارادہ کیا ہے کیونکہ پتھروں کے اندر ارادہ کرنے کی صالحیت نہیں ۔‬
‫نکتہ جو اصل امتیاز کا ہے وہ یھی ہے کہ‪:‬‬
‫داللت تصوریہ میں مراد متکلم واضح نہیں ہوتی ۔‬
‫داللت تصدیقیہ میں مراد متکلم واضح ہوتی ہے ۔‬
‫(جیسے ہی داللت تصوری میں مراد متکلم ائے گی وہ داللت تصدیقی میں تبدیل ہوجائے‬
‫گی)‬

‫ہوسکتا ہے کے ایک ہو مورد میں داللت تصوری کے ساتھ ساتھ داللت تصدیقی بھی ہو‬
‫لیکن دو جھتیں ہیں‪:‬‬
‫اس جھت کے ساتھ کے فقط لفظ سے معنی ذھن میں ارھا ہے فقط اسی جھت کو مد نظر‬
‫رکہیں تو یہ داللت تصوری ہے لیکن‬
‫اس جھت کے ساتھ کے متکلم نے اس معنی کا ارادہ بھی کیا ہے تو داللت تصدیقی ہے ۔‬
‫عام طور پر ہم جتنے بھی الفاظ استعمال کرتے ہیں ان میں داللت تصوری بھی ہوتی ہے ‪،‬‬
‫داللت تصدیقی ّاولی بھی ہوتی ہے ‪ ،‬داللت تصدیقی ثانوی بھی ہوتی ہے ۔ ان کے افتراق‬
‫کو سمجھنے کیلئے‬
‫داللت تصوری کو بےجان چیز کے مورد میں استعمال کرتے ہیں‬
‫داللت تصدیقی ّاولی کو مذاق و مزاح کے مورد میں سمجھتے ہیں‬
‫داللت تصدیقی ثانوی کو اپنی عام زندگی میں دیکھیں کے اپ لفظ کہتے ہیں اور اس سے‬
‫کچھ سمجھانا چاھتے ہیں ۔‬
‫شھید صدر کے بیان کی طرف اتے ہیں‪:‬‬
‫ہمارے پاس داللت تصدیقیہ میں جو متکلم ارادہ کرتا ہے‬
‫اگر داللت تصدیقیہ ّاولیہ ہو تو وھاں پر متکلم کے ارادہ کو کہتے ہیں ’’ارادہ استعمالیہ‘‘‬
‫اور داللت تصدیقیہ ثانویہ میں متکلم جو ارادہ کرتا ہے اسے کہتے ہیں ’’ارادہ جدّیہ‘‘ ۔‬
‫سوال ‪ :‬منشاء داللت تصوری و منشاء داللت تصدیقی کیا ہے ؟‬
‫جواب‪ :‬داللت تصوری کا منشاء وضع ہے کیونکہ لفظ اس معنی کیلئے وضع ہوا ہے ‪،‬‬
‫اسی لئے جب بھی ہم لفظ کو سنتے ہیں تو ذھن معنی کی طرف جاتا ہے ۔‬
‫داللت تصدیقی کا منشاء حال متکلم ہے (وضع نہیں ہے ‪ ،‬وضع فقط ہمیں یہ سمجھاتا ہے‬
‫کے لفظ فالں معنی کیلئے وضع ہوا ہے وہ حالت تصوری میں ہے لیکن یہ کے متکلم نے‬
‫اس معنی کا ارادہ بھی کیا ہے اور جدّی طریقے سے ارادہ کیا ہے یہ متکلم کی حالت سے‬
‫ہمیں پتہ چلتا ہے جسے ’’قرینہ حالیہ‘‘ کہتے ہیں ‪ ،‬کیونکہ متکلم جاگ رھا ہے ‪،‬باشعور‬
‫انسان ہے ‪،‬سمجھنے واال ہے جب وہ ایک لفظ ادا کرتا ہے یعنی اس معنی کا ارادہ رکھتا‬
‫ہے ‪،‬ہمیشہ مدلول تصدیقی حال متکلم سے ہوگا ۔ داللت تصوری وضع کے ذریعہ سے‬
‫ہوگا۔‬
‫الجملۃ خبریہ و الجملۃ اإلنشائیہ‪:‬‬
‫جملہ خبریہ و جملہ إنشائیہ اپ منطق و ادبیات میں پڑہ چکے ہیں ۔‬
‫جملہ خبریہ اس جملے کو کہتے ہیں کہ ‪:‬‬
‫جس میں متکلم کا قصد حکایت کا ہوتا ہے ‪،‬چاھتا ہے کے اپ کیلئے کسی روداد کو نقل‬
‫کرے ‪ ،‬متکلم چاھتا ہے کے خارج میں جو ایک نسبت و واقعیت پائی جاتی ہے اپ کو‬
‫الفاظ کی شکل میں نقل کرکے بتائے ۔ مثالً میں کہتا ہوں زید قائم ‪ ،‬اس جملے سے میرا‬
‫مقصود یہ ہے کے اپ کے سامنے ایک واقعیت کو نقل کروں ‪ ،‬حکایت کروں کے خارج‬
‫میں فالں چیز فالں طریقے سے ہے ۔‬
‫جملہ إنشائیہ اس جملے کو کہتے ہیں کہ‪:‬‬
‫جس میں متکلم کا قصد یہ نہیں ہوتا کے کسی چیز کی حکایت کی جائے بلکہ مقصود یہ‬
‫ہوتا ہے کے اس کالم کے ذریعہ سے عالَم واقع میں ایک شئ کو ایجاد کرے ‪،‬ایک شئ کو‬
‫وجود میں الئے ۔ مثالً جب کوئی موالنا صاحن نکاح پڑھتے ہیں تو وھاں پر کلمات ادا‬
‫زوجتُ یعنی کیا ؟ ظاھرا ً ماضی کا صیغہ ہے لیکن‬
‫کرتے ہیں زَ َّوجتُ موکلتی ‪،‬موکال ۔ ّ‬
‫سب رساالھای علمیہ میں قید لگاتے ہیں کے نکاح پڑھتے وقت قصد إنشاء ہو ۔ قصد إاشاء‬
‫زوجتُ کے ذریعہ سے قصد رکھتا ہوں میں اپنی موکلہ اور اپنی موکل‬ ‫ہو یعنی کیا ؟ یعنی ّ‬
‫کے درمیان رشتہ زوجیت کو ایجاد کر رھا ہوں ‪ ،‬میں ان دونوں کو میاں بیوی بنا رھا ہوں‬
‫زوجتُ فعل ماضی‬ ‫‪،‬میں ان دونوں کے درمیان زوجیت کا رشتہ قائم کر رھا ہوں نہ کے ّ‬
‫ہے اور میں یہ کہوں کے ان کی زوجیت کی حکایت کر رھا ہوں کے یہ میاں بیوی تھے‬
‫زوجتُ یعنی میں قرار دے رھا ہوں ان دونوں کو زن و‬ ‫(یہ تو نہیں کہنا چاہ رھا) بلکہ ّ‬
‫شوھر ۔‬
‫پس إنشاء میں ایک شئ یا ایک نسبت کو ایجاد کیا جاتا ہے ۔‬
‫جملہ خبریہ و جملہ إنشائیہ میں فرق‪:‬‬
‫جملہ خبریہ میں یہ قصد ہوتا ہے کے ہم کسی چیز کی حکایت کرتے ہیں اور یھی وجہ‬
‫ہے کے جملہ خبریہ میں صدق و کذب کی نسبت دے سکتے ہیں اور جملہ إنشائیہ میں‬
‫صدق اور کذب کی نسبت نہیں دے سکتے اسلئے کے جملہ خبریہ میں حکایت کر رھے‬
‫ہیں حکایت میں صدق و کذب ممکن ہے ‪ ،‬ممکن ہے کوئی بندہ یہ کہے کے یہ سچ بولتا‬
‫ہے ‪ ،‬ممکن ہے کوئی بندہ کہے یہ جھوٹ بولتا ہے لیکن‬
‫إنشاء میں کیسے میں کہوں ِبعتُ میں فالں چیز بیچ رھا ہوں ‪ ،‬کوئی بندہ کہے اِشتریتُ میں‬
‫فالں چیز خرید رھا ہوں ‪ ،‬یھاں پر سچ اور جھوٹ کی بات نہیں ہے کیونکہ میں ایک چیز‬
‫کو ایجاد کر رھا ہوں عالَم اعتبار میں ۔‬
‫جملہ خبریہ قصد حکایت کرنے کا ہوتا ہے کوئی بات نقل کرنے کا ہوتا ہے اور إنشائیہ‬
‫میں ایک عالَم اعتبار میں ایک چیز کو ایجاد کرنا ہوتا ہے ۔ زوجیت کو ایجاد کر رھا ہوں‬
‫‪ ،‬ملکیت کو ایجاد کر رھا ہوں ۔‬
‫اسان لفظوں میں‪:‬‬
‫جملہ خبریہ فقط حکایت کو بیان کرتا ہے جو چیز واقع ہوچکی ہے اس کی حکایت کر‬
‫رھے ہیں اور جملہ إنشائیہ میں اس نسبت کو اپ خارج میں محقق کرنا چاھتے ہیں ۔‬
‫مثالً مجھے پانی پالئو یعنی میں چاھتا ہوں کے اس نسبت ِتامہ کو خارج میں محقق کروں۔‬
‫دروازہ بند کرو یعنی مین چاھتا ہوں کے اس نسبت کو خارج میں محقق کروں ۔‬
‫مرحوم صاحب کفایہ اخوند خراسانی کہتے ہیں کے ِبعتُ جو جمال خبریہ میں استعمال ہوتا‬
‫ہے اور ِبعتُ جو جمال إنشائیہ میں استعمال ہوتا ہے ان میں کوئی فرق نہیں ہے ‪ ،‬مقام‬
‫تصور میں مقام وضع میں کوئی فرق نہیں ہے ‪ ،‬فرق و تفاوت فقط اور فقط قصد کا ہے ‪،‬‬
‫ارادہ مختلف ہے لیکن شھید صدر کہتے ہیں کے نہ ‪ ،‬اصالً معنی میں تفاوت ہے ۔ ِبعتُ‬
‫جو جمال خبریہ میں ہے اصالً اس نسبت تامہ کو بیان کرتا ہے جو حقیقت میں واقع‬
‫ہوچکی ہے اس کی حکایت کرتے ہیں لیکن ِبعتُ جو إنشاء کیلئے اتا ہے اس نسبت تامہ‬
‫کیلئے کے جس نسبت کو خارج میں محقق کروانا چاھتے ہیں اپ ‪،‬ان دونوں کے درمیاں‬
‫بھت زیادہ تفاوت ہے ۔‬

‫درس ‪۱۳‬‬
‫الدالالت التی یبحث عنھا علم االصول‬
‫اس مقام پر ہم چند مباحث ایسے بیان کریں گے جن کا تعلق علم ِلغت کے ساتھ ہے ‪ ،‬مث ٍ‬
‫ال‬
‫صیغہ امر ‪ ،‬صیغہ نھی ‪،‬اطالق وغیرہ کے بارے میں ۔‬
‫لیکن اس اصل میں داخل ہونے سے پھلے ایک نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے ۔‬
‫مباحث لغوی دو طرح کے ہیں ۔‬
‫‪۱‬۔ وہ مباحث لغوی جو عناصر مشترکہ کو تشکیل دیتے ہیں یعنی ایسے ادات لغوی ہیں‬
‫جن کے اندر یہ صالحیت پائی جاتی ہے کے کسی بھی دلیل میں کام اسکتے ہیں ‪ ،‬اُس‬
‫مسئلہ کا موضوع کوئی بھی ہو یہ اُس مسئلے کی دلیل میں کام اسکتے ہیں ۔ مثالً صیغہ‬
‫امر ‪ ،‬وجوب پر داللت کرتا ہے ‪ ،‬اب مسئال طھارت سے تعلق رکھے یا صالۃ سے یا‬
‫کسی اور باب سے صیغہ امر استعمال ہوگا توصیغہ امر سے ہم وجوب بھی سمجھیں گے‬
‫(البتہ اس کے شرائط کے ساتھ) ۔‬
‫‪۲‬۔ وہ مباحث لغوی جو عناصر مشترکہ کو تشکیل دیتے ہیں یعنی ایسے ادات لغوی ہیں‬
‫جو فقط کسی موضوع معیّن کی دلیل میں ہی استعمال ہوسکتے ہیں ۔ مثالً کلمہ صعید(مٹی)‬
‫کا معنی کیا ہے ؟ یہ ادات لغوی فقط اس میں کام اسکتا ہے جس کا کلمہ ’’صعید‘‘ سے‬
‫تعلق ہو ۔ جیسے تیمم باقی دوسرے موارد میں قابل استفادہ نہیں ہے ۔‬
‫علم اصول میں فقط ان مباحث لغوی کا ذکر ہوگا جو عناصر مشترکہ کو تشکیل دیتے ہیں‬
‫اور وہ چند مباحث ہیں جن کو ہم اجمالی طور پر ذکر کرتے ہیں ۔‬
‫صیغہ امر‬
‫فعل سے وجوب کا استفادہ ایک مرتبہ ’’ھیئت فعل‘‘ سے ہوتا ہے اور دوسری مرتبہ ’’مادہ‬
‫ص َّل‘‘ سے وجوب صالۃ سمجھتے ہیں اور‬ ‫فعل‘‘ کے ذریعہ ہوتا ہے ۔ مثالً ایک بار ہم ’’ َ‬
‫دوسری مرتبہ ’’ا َ َم َر ہللا بالصالۃ‘‘ سے وجوب صالۃ سمجھتے ہیں ۔ دونوں میں فرق پایا‬
‫جاتا ہے (حلقہ اولی میں فقط ھیئت امر کے بارے مین بحث کریں گے باقی مادہ امر کے‬
‫بارے میں بحث ان شاء ہللا حلقہ ثانی میں ہوگی)۔‬

‫صیغہ امر وجوب پر داللت کرتا ہے یعنی کیا ؟‬


‫علماء اصول کے درمیان میں رائج ہے کے صیغہ امر وجوب پر داللت کرتا ہے ۔‬
‫سوال ‪ :‬اس عبارت(صیغہ امر وجوب پر داللت کرتا ہے) سے کیا مراد ہے ؟ کیا اس کا‬
‫مقصد یہ ہے کے صیغہ امر اور وجوب مترادف ہیں ؟ یا کچھ اور مقصد ہے ؟‬
‫جواب‪ :‬مذکورہ عبارت کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کے صیغہ امر اور وجوب دو مترادف‬
‫چیزیں ہیں کیونکہ ’’وجوب‘‘ ایک مفھوم اسمی ہے جبکہ ہم بیان کرچکے ہیں کے جتنی‬
‫بھی ھیئات ہیں ہو معنی حرفی پر داللت کرتی ہیں من جملہ ‪ ،‬ھیئات میں سے ایک ھیئت‬
‫صیغہ امر کی ہے ‪ ،‬پس کیوں کر ممکن ہوگا کے صیغہ امر اور وجوب مترادف ہوں‬
‫جبکہ ایک معنی حرفی پر داللت کرتا ہے جیسے صیغہ امر ۔ اور دوسرا معنی اسمی پر‬
‫داللت کرتا ہے جیسے وجوب ۔‬
‫نتیج ًۃ دونوں مترادف نہیں ہیں ۔ اس مطلب کیلئے بھترین دلیل یہ ہے کہ‪:‬‬
‫دونوں میں سے کسی ایک کو بھی ہم دوسرے کی جگہ پر استعمال نہیں کرسکتے مثالً‬
‫صیغہ امر کی جگہ وجوب نہیں الیا جاسکتا اور وجوب کی جگہ صیغہ امر نہیں الیا جا‬
‫سکتا۔ یھاں سے پتہ چال کے دونوں مترادف نہیں ہیں اگر مترادف ہوتے تو ایک دوسرے‬
‫کی جگہ استعمال ہوسکتے ۔‬
‫پس اس جملے کا مقصد کیا ہے کے ’’صیغہ امر وجوب پر داللت کرتا ہے‘‘اس جملے کی‬
‫وضاحت سے پھلے چند امور کی وضاحت ضروری ہے ۔‬
‫امر ّاول‪:‬‬
‫جملہ خبریہ اور جملہ إنشائیہ دونوں میں نسبت تامہ پائی جاتی ہے لیکن دونوں میں فرق‬
‫یہ ہے کے جملہ خبریہ میں مقصود یہ ہوتا ہے کے ایک نسبت تامہ کی خارجیہ کی‬
‫حکایت کی جارھی ہے ۔ مثالً خارج میں زید قائم ہے ہم جملہ خبریہ ’’زید قائم‘‘ کے اس‬
‫نسبت خرجیہ کی حکایت کر رھے ہیں ۔‬
‫جبکہ جملہ إنشائیہ میں مقصود یہ ہوتا ہے کے نسبت تامہ کو خارج میں وجود دیا جائے ‪،‬‬
‫اس نسبت کو خارج میں تحقق دیا جائے ۔ مثالً نماز کو خارج میں وجود دو یعنی نماز‬
‫پڑھو (تفصیلی مطلب إنشاء میں گذر چکا ہے)۔‬
‫دوم‪:‬‬
‫امر ّ‬
‫تحقق مدلول صیغہ امر ۔‬
‫جب بھی مولی صیغہ امر استعمال کرتا ہے تو اس کے اندر چند امور پائے جاتے ہیں ۔‬
‫ص ِّل ‘‘‬
‫‪۱‬۔ ا ِمر ‪ :‬وہ مولی اور قانون گذار جس سے صیغہ امر صادر ہوتا ہے جو کہتا ہے’’ َ‬
‫(نماز پڑھو)‬

‫‪۲‬۔ متعلَّق امر ‪ :‬جس سے امر کا تعلق ہے ۔ ھماری مثال میں صالت ’’ ص ِّل ‘‘ امر کا تعلق‬
‫صالت سے ہے ۔‬
‫‪۳‬۔ ھیئت اور معنی حرفی ‪ :‬صیغہ امر کی ھیئت جو ایک معنی حرفی پر داللت کرتا ہے‬
‫(ان شاءہللا بیان کریں گے ور نسبت ارسالیہ یا نسبت بعثیہ ہے)‬

‫‪۴‬۔ فاعل ‪ :‬یعنی مکلَّف جسے مامور کیا جاتا ہے کے متعلَّق امر کو خارج میں وجود دے۔‬
‫اس تحلیل کے بعد توجہ کریں ۔‬
‫ص ِّل (نماز پڑھو) یعنی مولی مکلَّف سے‬
‫مولی جب مکلَّف کو امر کرتا ہے اور کہتا ہے َ‬
‫چاھتا ہے کے فاعل اور متعلَّق امر کے درمیان جو نسبت ہے اسے خارج میں تحقق دو‬
‫یعنی اسے انجام دو ۔‬
‫دوسرے لفظوں میں ‪ :‬نماز کو خارج میں وجود دو یعنی نماز پڑھو۔‬
‫یھاں سے دقیقا ً معلوم ہوا کہ صیغہ امر اس نسبت کو خارج میں تحقق دینے کیلئے وضع‬
‫ہوا ہے اوی یھیں سے ایک مفھوم کو انتزاع کرتے ہیں جو کے نسبت ارسالیہ (نسبت‬
‫بعثیہ) ہے ۔‬
‫اسان لفظوں میں کہا جائے تو ‪:‬‬
‫صیغہ امر بیان کرتا ہے کے مولی ‪ ،‬مکلَّف کو ابھارتا(بھڑکاتا) ہے کے متعلق امر اور‬
‫فاعل کے اندر موجود نسبت کو معحقق کرو ۔ مصنّف اس مقام پر ایک مثال ذکر کرتے‬
‫ہیں ۔‬
‫اپ نے دیکھا ہوگا کے ایک شکاری جب شکاری ُکتے کو جب شکار کی طرف بھیجتا ہے‬
‫تو شکاری کا بھیجنا گویا کے ُکتے اور شکار کے درمیان ایک نسبت کو ایجاد کرنا ہے‬
‫کے ُکتا جائے اور شکار کو پکڑے (بھیجنے کو عربی میں ارسال کہتے ہیں) ‪ ،‬یھاں پر‬
‫بھی گویا مولی مکلَّف کو ارسال کرتا ہے تاکے اُس نسبت کو خارج میں محقق کرے ۔‬
‫یہ نسبت ارسالیہ دو طرح کی ہوسکتی ہے ۔‬
‫‪۱‬۔ نسبت ارسالیہ اور فاعل کو ابھارنا اس طریقے سے ہے کے امر چاھتا ہے یہ فعل‬
‫خارج میں ضرور محقق ہو ۔‬
‫(‪)۱‬امر کسی بھی صورت میں راضی نہیں ہے کے یہ کام خارج میں انجام نا پائے اور‬
‫فوت ہوجائے ۔‬
‫(‪)۲‬امر چاھتا ہے کے یہ کام خارج میں ہو البتہ اگر نا بھی ہو تب بھی خیر ہے ‪ ،‬اگر انجام‬
‫پاتا تو اچھا تھا۔‬
‫اگرپھلے طریقے کی چاھت ہو تو ہم وجوب اور الزام کو انتزاع کرتے ہیں ۔‬
‫اگر دوسرے طریقے کی چاھت ہو تو ہم استحباب انتزاع کرتے ہیں ۔‬
‫ان تمام مطالب کے بعد اصل بات کی طرف اتے ہیں کہ‪:‬‬

‫’’صیغہ امر وجوب پر داللت کرتا ہے‘‘‬


‫یعنی صیغہ امر اُس نسبت ارسالیہ اور بعثیہ پر داللت کرتا ہے جو پھلے طریقے کی‬
‫چاھت ہوتی ہے یعنی صیغہ امر کو استعمال کرتے ہوئے متکلم اور امر کا شوق ہوتا ہے‬
‫کے مامور اور مکلَّف اس نسبت کو حتما ً خارج میں تحقق دے اس کے فوت ہونے پر‬
‫اصالً راضی نہیں ہے ۔‬
‫اس مطلب کی دلیل بھی ’’ تبادر‘‘ ہے ‪ ،‬عام طور پر صیغہ امر سے یھی بات ذھن میں‬
‫سبقت کرتی ہے ۔اس بات پر بھترین شاھد یہ ہے کہ‬
‫اگر مولی اپنے خادم کو امر(حکم) کرے کے بازار سے گوشت خرید کر الئو(إشتراللحم)‬
‫اور خادم اس امر(حکم) کو انجام نہ دے اور عذر پیش کرے کے مجھے صیغہ امر سے‬
‫لزوم اور وجوب سمجھ میں نہیں ایا تھا تو اس کا عذر قابل قبول نہیں ہوتا ۔‬
‫اس کا مقصد ہے صیغہ امر سے وجوب اور لزوم ہی سمجھ میں اتا ہے ۔‬
‫نکتہ ‪ :‬البتہ بھت سارے مقامات پر صیغہ امر استحباب میں استعمال ہوتا ہے لیکن یہ‬
‫استعمال قرینہ کی بنا پر ہوتا ہے کیونکہ صیغہ امر کا استعمال حقیقی وجوب میں ہوتا ہے۔‬
‫(امر کے بارے میں اور بھی کافی مباحث ہیں جو ان شاءہللا حلقہ ثانیہ میں ائیں گے)۔‬

‫صیغہ نھی‬
‫صیغہ نھی کے بارے میں بھی بلکل اسی طرح سے مباحث ہیں جیسے صیغہ امر کے‬
‫بارے میں مباحث تھے۔‬
‫صیغہ نھی بھی معنای حرفی پر داللت کرتا ہے فرق یہ ہے کے صیغہ نھی نسبت امساکیہ‬
‫(روکنے) پر داللت کرتا ہے اور صیغہ نھی حرمت پر داللت کرتا ہے لیکن حرمت کے‬
‫مترادف نہیں ہے کیونکہ حرمت معنای اسمی ہے اور صیغہ نھی معنای حرفی پر داللت‬
‫کرتا ہے اسلئے ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال نہیں ہوسکتا ۔‬
‫پھر صیغہ نھی سے حرمت کیسے سمجھتے ہیں ؟‬
‫بلکل اسی طرح جیسے صیغہ امر سے وجوب سمجھتے ہیں ۔‬
‫یعنی صیغہ نھی داللت کرتا ہے اس نسبت پر جو فاعل (مکلَّف)اور متعلق نھی کے درمیان‬
‫پائی جاتی ہے اور امر چاھتا ہے کے یہ نسبت خارج میں متحقق نہیں ہونی چاھئے ۔ مثالً‬
‫ِب مطلب امر کو جھوٹ سے شدید نفرت ہے ‪ ،‬مکلَّف (فاعل) کو شدت سے روکتا‬ ‫ال تکذ ُ‬
‫ہے کے یہ کذب خارج میں متحقق نہ ہو ۔‬
‫اسی طرح صیغہ نھی کا استعمال کراھت میں بھی ہوتا ہے لیکن مجازا ً قرینہ کے ساتھ ‪،‬‬
‫اگر قرینہ نہ ہو تو اس کا ظھور حرمت میں ہوگا ‪ ،‬اس کی دلیل وھی تبادر ہے ۔‬

‫درس ‪۱۴‬‬
‫الدالالت التی یبحث عنھا علم االصول‬
‫( ‪)۲‬‬
‫اطالق‬
‫یہ بات مسلم ہے کے متکلم کی مراد اور اس کا مقصد اس کے الفاظ کے ذریعہ معلوم ہوتا‬
‫ہے ‪ ،‬متکلم کے الفاظ ہی اس کے ما فی الضمیر کا ائینہ ہوتے ہیں ۔ مثالً جب متکلم چاھتا‬
‫ہے کے ’’عالم کا اکرام کرو‘‘ تو یہ جمال کہتا ہے ’’ اکرم العالم ‘‘ اس جملے سے پتہ چلتا‬
‫ہے کے متکلم چاھتا ہے کے عالم کی عزت کرو ‪،‬پھر وہ عالم فقھہ کا ہو ‪ ،‬کالم کا ہو‪،‬‬
‫فلسفہ کا ہو یا کسی بھی علم کا ہو ‪ ،‬عالم ہو تو اس کی عزت کریں ۔‬
‫سوال ‪ :‬اپ کو کیسے پتہ چال کسی خاص عالم کی بات نہیں بلکہ ہر عالم کی بات ہو رھی‬
‫ہے ؟‬
‫جواب‪ :‬اگر متکلم کی مراد کوئی خاص عالم ہوتا تو اس خاص عالم کی طرف نشاندھی‬
‫کرتا (اس کا ذکر کرتا نہ کے فقط عالم کہتا) کیونکہ گذشتہ قانون (الفاظ مراد متکلم کے‬
‫کاشف ہوتے ہی ں) کے مطابق اگر متکلم کا مقصود خاص عالم ہوتا تو عالم کے ساتھ اس‬
‫کی خصوصیت بھی ذکر کرتا اب جب کے کسی قید کا ذکر نہیں ہوا تو سمجھ میں اتا ہے‬
‫کے مطلق عالم کی عزت کرنی چاھئے ۔‬
‫اطالق یعنی متکلم جب کالم کرے اور کوئی خاص قید ذکر نہ کرے تو ہم اطالق‬
‫’’عمومیت‘‘ ہی سمجھیں گے البتہ اگر کالم میں قید ذکر ہوگی تو اطالق نہیں سمجھا جائے‬
‫گا ۔‬
‫شرعی مثال‪:‬‬
‫(ا َح َّل ہللا البیع) بیع یھاں مطلق ہے کوئی قید ذکر نہیں ہوئی ‪ ،‬کیا اس بیع میں ایجاب و قبول‬
‫الفاظ کے ساتھ ہو یا بغیر الفاظ کے بھی درست ہے یا الفاظ کیسے ہونے چاھئیں ماضی‬
‫ہوں مضارع ہو وغیرہ ایسی کوئی قید ذکر نہیں تو سمجھا جائے گا مطلق بیع صحیح ہے ‪،‬‬
‫چاھے ایجاب اور قبول الفاظ سے ہو یا نہ ہو ‪ ،‬الفاظ کیسے بھی ہوں بیع درست ہے‬
‫کیونکہ ’’ البیع‘‘ مطلق ہے ۔‬

‫اطالق کا سرچشمہ (منشاء اطالق)‬


‫سوال ‪ :‬قید کے ذکر نہ کرنے سے اطالق اور عمومیت کا استفادہ کیسے ہو رھا ہے ؟‬
‫(مفصل جواب حلقہ ثانی میں ائے گا لیکن یھاں پر اشارۃ ً بیان کیا جا رھا ہے )۔‬
‫جواب‪ :‬ہر متکلم اپنا ما فی الضمیر الفاظ سے بیان کرتا ہے جب متکلم کے بیان میں کوئی‬
‫قید ذکر نہیں ہوئی تو قھرا ً اطالق اور عمومیت ہی سمجھا جائے گا۔‬
‫دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے گا‪:‬‬
‫ظاھر حال متکلم یہ ہے کے وہ اپنی پوری مراد الفاظ سے بیان کر رھا ہے ‪ ،‬متکلم جدّی‬
‫بھی ہے اور مذاق بھی نہیں کر رھا ہے اور اپنے کالم کے ظاھر کے خالف کوئی قرینہ‬
‫بھی ذکر نہیں کیا (قرینہ چاھے متصل ہو یا منفصل) نتیج ًۃ ہم کشف کرتے ہیں کے متکلم‬
‫کی مراد مطلق و عمومی ہے کیونکہ اگر متکلم فقط ’’عالم‘‘ ذکر کر رھا ہے اور مراد‬
‫خاص عالم ہو اور اس کیلئے قرینہ بھی ذکر نہ ہو تو یہ نقض غرض ہوگی ۔‬
‫اس بات کو علم اصول میں ’’ قرینہ حکمت ‘‘ یا ’’ مقدمات حکمت ‘‘ کہتے ہیں (حلقہ ثانی‬
‫میں ائے گا)‬

‫عموم‬
‫عموم اور اطالق والی بحث میں نتیجہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے دونوں عمومیت‬
‫‪ ،‬شیوع اور عدم قید پر داللت کرتے ہیں البتہ دونوں کے منشاء اور سرچشمہ میں فرق‬
‫ہے۔ جاننا چاھئے کے عربی لغتوں میں کچھ ایسے ادوات ہیں جو عمومیتا کا فائدہ دیتے‬
‫ہیں ۔ مثالً اکرم کل عالم ہر عالم کی عزت کرو ‪ ،‬اس جملے میں ’’ ُک ّل ‘‘ ایسا ادات ہے‬
‫جس سے عمومیت کا استفادہ ہوتا ہے اور اسی طرح دوسرے الفاظ بھی ۔‬
‫عموم اور اطالق میں فرق‬
‫بیان کیا ہے عموم اور اطالق کا نتیجہ ایک ہی ہے لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کے‬
‫اطالق میں ہم نے عمومیت کو سمجھا قید کے ذکر نہ کرنے سے لیکن عموم میں ہم‬
‫عمومیت سمجھتے ہیں ان ادات سے جن کو کالم میں ذکر کیا گیا ہے ‪ ،‬پس اطالق اور‬
‫عموم میں عمومیت ’’ طریق ایجابی ‘‘ سے ہے یعنی ادات کے ذکر کرنے سے۔‬
‫دوسرے الفاظ میں ‪:‬‬
‫اطالق میں عمومیت حال متکلم سے سمجھتے ہیں اور عموم میں عمومیت بذات خود الفاظ‬
‫سے سمجھتے ہیں ۔‬
‫تیسرے الفاظ میں‪:‬‬
‫اطالق ‪،‬کالم کا مدلول تصدیقی ہوتا ہے کیونکہ جس مطلب پر حال متکلم داللت کرے وہ‬
‫مدلول تصدیقی ہوتا ہے اور عموم کالم کا مدلول تصوری ہوتا ہے کیونکہ اس مطلب پر‬
‫خود لفظ داللت کر رھا ہے۔‬
‫چوتھے الفاظ میں‪:‬‬
‫اطالق سے عمومیت مقدمات حکمت کے ذریعہ سمجھ میں اتے ہیں جبکہ عموم سے‬
‫عمومیت وضع کے ذریعہ سے سمجھ میں اتی ہے ۔‬
‫’’عام ‘‘ کی تعریف‪:‬‬
‫وہ لفظ جس کی عمومیت پر ادات عموم داللت کریں ’’ عام ‘‘ کہالتا ہے ‪ ،‬اسی ’’ عام ‘‘ کو‬
‫کرم ُکل عالم ‪ ،‬عالم ’’عام‘‘ ہے کیونکہ اس کی‬‫’’ مدخول ادات ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ مثالً ا َ ِ‬
‫عمومیت پر ادات عموم ’’ ک ّل ‘‘ داللت کر رھا ہے ۔‬
‫ادات عموم‬
‫تمام اصولیوں کا اتفاق ہے کے ’’ ُک ّل ‪َ ،‬جمیع ‪ ،‬کا فۃ ‘‘ وغیرہ ادات عموم ہیں لیکن اگر‬
‫’’جمیع‘‘ پر ’’ ال ‘‘ داخل ہو جائے تو کیا یہ بھی ادات عموم میں سے ہے یا نہیں ‪ ،‬اس میں‬
‫اختالف ہے ۔‬
‫بعض اصولیوں کا کہنا ہے کے یہ ’’ ال ‘‘ جو ’’ جمع ‘‘ پر داخل ہوتا ہے تو ’’ ُک ّل ‘‘ کی‬
‫طرح ادات عموم میں سے ہے ۔ جیسے ’’ الفقھاء ‘‘ فقھا جمع فقیہ ہے ۔‬
‫بعض کہتے ہیں کے یہ ’’ ال ‘‘ ادات عموم میں سے نہیں بلکہ اگر ’’جمع ‘‘ ال کے ساتھ‬
‫ہو اور قید بھی ذکر نہ ہو تو ہم عمومیت اطالق سے سمجھتے ہیں یعنی ’’ عدم ذکر قید ‘‘‬
‫سے۔‬
‫(طریق سلبی)‬

‫ادات شرط‬
‫اصولیوں کا ماننا ہے کے بعض جمالت کیلئے ’’مفھوم‘‘ ہوا کرتا ہے ۔‬
‫اس بحث کا باقاعدہ اغاز کرنے سے پھلے کچھ اصطالحات کی وضاحت ضروری ہے ۔‬
‫‪‬منطوق‪:‬‬
‫‪‬‬
‫وہ معنی جو بذات خود کالم سے مستقیم طریقے سے سمجھ میں ائے ۔‬
‫دوسرے الفاظ میں‪:‬‬
‫وہ معنی جو مدلول مطابقی کو تشکیل دیتا ہے ۔‬

‫مثال ‪( :‬اِن جا َءکم زید فا َ ِ‬


‫کرمہ) اگر تمھارے پاس زید ائے تو اس کی عزت کرنا ۔‬
‫یہ معنی ڈیئریکٹ اور مستقیم طریقے سے کالم سے سمجھ میں اتا ہے ۔‬
‫یا یُوں کہیں‬
‫اس معنی پر کالم ‪ ،‬داللت مطابقی کے ذریعہ داللت کرتا ہے اسی طرح کے معنی کو ’’‬
‫منطوق ‘‘ کہتے ہیں ۔‬
‫‪‬مفھوم‪:‬‬
‫‪‬‬
‫وہ معنی جو کالم سے مستقیم طریقے سے سمجھ میں ائے۔‬
‫دوسرے لفظوں میں‪:‬‬
‫وہ معنی جس پر کالم ‪ ،‬داللت التزامیہ کے ساتھ داللت کرے ۔‬

‫مثال ‪( :‬اِن جا َءکم زید فا َ ِ‬


‫کرمہ) اگر تمھارے پاس زید نی ائے تو اس کا اکرام کرنا بھی‬
‫الزمی نہیں ہے ۔‬
‫اس معنی پر کالم غیر مستقیم طریقے سے یا داللت التزامی کے ساتھ داللت کر رھا ہے‪،‬‬
‫اس طرح کے معنی کو ’’مفھوم‘‘ کہتے ہیں ۔‬
‫مفھوم کے متعلق عام قانون‬
‫اس عام قانون سے پھلے چند اصطالحات کی وضاحت ضروری ہے ۔‬
‫‪۱‬۔ حکم‬
‫‪۲‬۔ متعلَّق حکم‬
‫‪۳‬۔ موضوع‬
‫جب مولی کہتا ہے ’’ یجب الصالۃ علی المکلَّف ‘‘ نماز مکلَّف پر واجب ہے تو‬
‫حکم ہوگا‬ ‫وجوب‬
‫متعلَّق حکم ہوگا‬ ‫صالت‬
‫موضوع حکم ( متعلَّق متعلق حکم ) ہوگا‬ ‫مکلَّف‬
‫عام قائدہ ‪:‬‬
‫’’جب بھی کوئی حکم شرعی کسی قید کے ساتھ مقید ہوگا تو اس قید کے ختم ہوجانے سے‬
‫حکم بھی ختم ہوجائے گا ‘‘ ۔‬
‫اگر کسی بھی جملے میں مذکورہ بیان ہو یعنی اس جملے میں ایک حکم کو کسی قید کے‬
‫ساتھ مقید کرکے بیان کیا جائے تو ایسے جملے کیلئے منطوق کے ساتھ ساتھ مفھوم بھی‬
‫ہوگا یعنی ایسا جمال دو معنائوں پر داللت کرے گا ۔‬
‫‪۱‬۔ منطوق یعنی معنای مطابقی‬
‫‪۲‬۔ مفھوم یعنی معنای التزامی‬

‫لشمس َف َ‬
‫ص ِّل جب بھی سورج زائل ہو تو نماز پڑھو ۔ اس جملے میں‬ ‫ُ‬ ‫ت ا‬
‫مثال ‪ :‬اذا زال ِ‬
‫وجوب نماز کا حکم مقیّد ہے زوال شمس لے ساتھ ۔‬
‫مذکورہ قانون کی بنیاد پر اس جملے کے دو معنی ہوں گے ۔‬
‫‪۱‬۔ منطوق یعنی زوال شمس کے وقت نماز واجب ہے ۔‬
‫‪۲‬۔ مفھوم یعنی اگر زوال شمس نہ ہو تو نماز بھی واجب نہیں ہے۔‬
‫کیونکہ قید (شرط) کے ختم ہونے سے مقیّد بھی ختم ہوجائے گا اور یھی مطلب ہوگا اس‬
‫بات کا کے اس جملے کا مفھوم ہے ۔‬
‫اس بیان سے واضح ہوگیا کے‬

‫ا َ َّن ال ُمقیَّدَ یَنتَفی اذا إنتَفی قَیدَہُ‬


‫’’ مقیّد ختم ہوجائے گا اگر قید ختم ہوجائے‘‘ ۔‬
‫ا َ َّن ال َمشرو َ‬
‫ط َینتَفی اذا إنتَفی قیدہ‬
‫’’مشروط ختم ہوجائے گا اگر شرط ختم ہوجائے‘‘‬
‫ان جمالت سے کیا مراد ہے‪:‬‬
‫‪‬جملہ شرطیہ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫بھت سارے اصولی اس بات کت قائل ہیں کے جملہ شرطیہ کا مفھوم ہوتا ہے ۔‬
‫اس بات کو بیان کرنے سے پھلے ایک نظر جملہ شرطیہ پر ڈالتے ہیں ۔‬
‫جملہ شرطیہ در حقیقت دو جملوں اور ادات شرط سے مرکب ہوتا ہے ‪ ،‬ادات شرط سے‬
‫پھلے وہ دونوں جملے اپنے اپنے مقام پر جملہ تامہ ہوا کرتے ہیں لیکن ادات شرط کے‬
‫بعد ہر ایک جملہ بتنھائی مرکب ناقصہ بن جاتا ہے البتہ دونوں جملوں کو اگر مال کر‬
‫دیکھیں تو ایک جملہ تامہ ہوگا ۔‬
‫خالص ًۃ ‪ :‬ادات شرط بیان کرتا ہے کے ایک جملے کا وجود دوسرے جملے کے وجود‬
‫سے وابستہ ہے اگر ایک ختم ہوگیا تو دوسرا بھی ختم ہوجائے گا ۔‬

‫مثالً ‪ :‬اذا زالت الشمس ف َ‬


‫ص ِّل‬
‫وجوب صالۃ مربوظ ہے زوال شمس سے اگر زوال شمس نہیں تع وجوب صالۃ بھی نہیں‬
‫۔‬
‫اس مقدمہ کے بعد اصل مطلب کی طرف اتے ہیں ۔‬
‫دو مثالیں‪:‬‬
‫ص ِّل (جب سورج زائل ہو پس نماز پڑھو)‬
‫‪۱‬۔ وجوب ‪ :‬اذا زالت الشمس ف َ‬
‫ت الحج فال تتطیب (اگر حج کے احرام میں ہو تو خوشبو استعمال‬ ‫‪۲‬۔ حرمت ‪ :‬اذا ا ُ ِ‬
‫حر َم ِ‬
‫کرنا حرام ہے) ۔‬
‫وجوب والی مثال پر غور کریں ۔‬
‫ایک ‪ :‬ادات شرط ہے یعنی ’’ اذا‘‘‬
‫دو ‪ :‬فعل شرط ہے یعنی ’’ زالت الشمس‘‘‬
‫ص ِّل‘‘‬
‫تین ‪ :‬جواب شرط یا جزاء ہے یعنی ’’ َ‬
‫اس جملے کا ایک معنی تو مستقیم طریقے سے ہمیں کالم سے سمجھ میں اتا ہے وہ یہ‬
‫ہے کہ ’’ نماز زوال شمس کے وقت واجب ہے ‘‘ جسے ’’منطوق‘‘ کہا جاتا ہے۔‬
‫اسی طریقے سے جملے کا دوسرا معنی بھی ہے جسے ہم کالم سے غیر مستقیم طریقے‬
‫سے سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ’’ اگر زوال شمس نہیں ہے تو نماز واجب نہیں ہے ‘‘‬
‫جسے ’’مفھوم‘‘ کہا جاتا ہے ۔‬
‫(عینا ً اسی طرح حرمت والی مثال میں بھی ہے)‬

‫غور کریں!‬
‫دونوں مثالوں میں حکم شرعی چاھے وجوب ہو یا حرمت ‪ ،‬دونوں کسی نہ کسی قید سے‬
‫مقیّد ہیں ۔‬
‫زوال شمس سے‬ ‫وجوب‬
‫احرام حج سے‬ ‫حرمت‬
‫نتیج ًۃ ہمارے عام قائدہ کے مطابق ایسے جمالت کیلئے مفھوم ہوگا کیونکہ ہم نے کہا جب‬
‫بھی ایسا جمال ہو جس میں حکم کسی قید سے مقیّد ہو تو قید کے ختم ہونے سے حکم‬
‫(مقیّد) بھی ختم ہوجائے گا ۔‬
‫خالصہ کالم‪:‬‬
‫واضح ہوا کے ادات شرط داللت کرتے ہیں کے حکم شرعی ختم ہوجائے گا شرط کے ختم‬
‫ہونے سے ‪ ،‬کیوں ؟ اسلئے کے جملہ شرطیہ میں حکم شرعی مقیّد بیان ہوا ہے اور اس‬
‫چیز پر ادات شرط داللت کرتے ہیں ۔ اسی لئے علماء اصول کہتے ہیں جملہ شرطیہ کے‬
‫دو مدلول ہوتے ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ ایجابی جسے منطوق کہتے ہیں ۔‬
‫‪۲‬۔ سلبی جسے مفھوم کہتے ہیں ۔‬
‫‪‬جملہ غایت‪:‬‬
‫‪‬‬
‫جملہ غایت بھی مذکورہ قاعدہ کے مصادیق میں سے ایک مصداق ہے یعنی اس جملہ میں‬
‫بھی جو حکم بیان ہوا ہے وہ کسی قید سے مقیّد ہے ‪ ،‬اُس قید کےختم ہوجانے سے حکم‬
‫بھی ختم ہوجائے گا ۔ مطلب اس جملے کے بھی دو مدلول ہونگے ۔‬
‫‪۱‬۔ منطوق ‪۲‬۔ مفھوم‬
‫ص ّم حتی تغیب الشمس یعنی روزا رکھو سورج کے غائب ہونے تک ۔‬
‫مثال ‪ُ :‬‬
‫حکم ہے (یا)مغّی‬ ‫وجوب‬
‫متعلق حکم‬ ‫صوم‬
‫قید (یا) غایت‬ ‫غیاب الشمس‬

‫واضح ہے کہ ‪ :‬قید یعنی غایت (غیاب شمس تک) اگر نہیں ہوگی تو حکم وجوب (مغّی)‬
‫بھی نہیں ہوگا کیونکہ یھاں پر بھی مذکورہ عام قاعدہ منطبق (فٹ) ہورھا ہے۔ نتیج ًۃ جملہ‬
‫غایت کے بھی دو مدلول ہوں گے ۔‬
‫سورج کے غائب ہونے تک روزا واجب ہے۔‬ ‫ایک ‪ :‬منطوق‬
‫اگر سورج غئب ہوگا تو روزا واجب نہیں ہوگا ۔‬ ‫دو ‪ :‬مفھوم‬
‫‪‬جملہ وصفیہ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫اگر مولی اس طرح کہے ’’ اکرم الفقیر العادل ‘‘ یعنی عادل فقیر کی عزت کرو تو کیا اس‬
‫جملے کا بھی مفھوم ہوگا ؟؟‬
‫جواب ‪ :‬مذکورہ جملے کیلئے مفھوم نہیں ہوگا کیونکہ ہم نے عام قاعدہ کے اندر بیان کیا‬
‫کے اگر جملے میں حکم مقیّد ہو تو جملے کا مفھوم ہوگا لیکن اس جملے ’’ اکرم الفقیر‬
‫العادل ‘‘ میں حکم مقیّد نہیں ہے بلکہ موضوع ِحکم مقیّد ہے ۔‬
‫وضاحت‪:‬‬
‫اکرم الفقیر العادل میں‬
‫حکم ہے‬ ‫وجوب‬
‫متعلق حکم ہے‬ ‫اکرام‬
‫موضوع حکم ہے‬ ‫فقیر‬
‫قید ہے‬ ‫عادل‬
‫یہ بات اظھر من الشمس ہے(سورج کی طرح روشن ہے) کے قید (یعنی عادل) موضوع‬
‫(فقیر) کیلئے ہے نہ کے حکم(وجوب) کیلئے ‪ ،‬ہم نے بیان کیا کے اگر ’’حکم‘‘ مقیّد ہو تو‬
‫مفھوم ہوگا نہ کے ’’موضوع حکم‘‘ یا ’’متعلق حکم‘‘ مقیّد ہوں تب بھی مفھوم ہوگا ۔‬
‫اشارۃ ً ‪ :‬جملہ وصفیہ میں اگر موضوع سے قید ختم ہوجائے شخص حکم ختم ہوگا لیکن‬
‫مفھوم کا دارومدار شخص حکم سے نہیں ہے بلکہ طبیعی حکم سے ۔‬
‫شخص حکم اور طبیعی حکم کیا ہے ؟‬
‫(خود تحقیق کریں یا ’فانتظر‘ حلقہ ثانیہ میں وضاحت ہوگی)۔‬

‫اب تک کے مباحث کو ایک تقسیم کی شکل میں ذکر کرتے ہیں تاکے معلوم ہوسکے‬
‫کے ہم کس مقام پر بحث کر رھے ہیں ۔‬
‫اصول عملیہ‬

‫عنصر مشترک‬

‫عقلی‬ ‫ادلہ محرزہ‬

‫غیر لفظی‬ ‫شرعی‬

‫دالالت‬ ‫لفظی‬

‫حجیت ظھور‬

‫اثبات صدور‬

‫جھت صدور‬
‫درس ‪۱۵‬‬
‫ا۔ الدلیل الشرعی اللفظی البحث الثانی‬
‫حجیۃ الظھور‬
‫(یہ بحث اصول کے نھایت اہم ترین مباحث میں سے ایک ہے) ۔‬

‫مراد متکلم کو معین کرنے کیلئے اصل (قانون)‬

‫گذشتہ مباحث میں ہم پڑھ چکے ہیں کے داللت یا تصوری ہے یا تصدیقی ۔‬


‫داللت تصوری ‪:‬‬
‫وضع کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔‬
‫داللت تصدیقی ‪:‬‬
‫حال متکلم سے سمجھ میں اتی ہے ۔ اس کی دو قسمیں ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ ّاولیہ (استعمالیہ) ہے‬
‫‪۲‬۔ ثانویہ (جدّیہ) ہے‬
‫جب ہم کسی دلیل شرعی کو دیکھتے ہیں ۔ مثالً اقیموا الصالۃ ‪ ،‬تو ہمارے لئے یہ چیز اہم‬
‫ہے کے اس دلیل کے مدلول جدّی کو سمجھیں کیونکہ ہم جاننا چاھتے ہیں کے شارع کی‬
‫کیا مراد ہے ؟ اور مراد شارع مدلول تصدیقی سے ہی ہم سمجھ سکتے ہیں ۔‬
‫دوسرے لفظوں میں‪:‬‬
‫مذکورا دلیل کی ایک داللت تصوری ہے جو کے وضع اور لغت کے ذریعہ سمجھی جاسکتی ہے اور‬
‫دوسری داللت تصدیقی ہے جو کے وضع سے سمجھ نہیں اتی اور یھی مراد متکلم ہے ‪ ،‬اسی مسئلے کو‬
‫مطرح ہوئی ہے ۔ ‘‘حل کرنے کیلئے ’’بحث حجیّت ظھور‬

‫اقسام ظھور‬
‫‪۱‬۔ مقام داللت تصوری میں ظھور‬
‫‪۲‬۔ مقام داللت تصدیقی میں ظھور‬
‫‪۱‬۔ مقام داللت تصوری میں ظھور‬
‫لفظ داللت تصوری کے مرحلے میں ایک خاص معنی میں ظھور رکھتا ہے وہ اس طرح‬
‫کے جب لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو لفظ ایک خاص معنی میں ظھور رکھتا ہے یعنی‬
‫وھی معنی ہمارے ذھن میں سبقت کرتا ہے یعنی تبادر کرتا ہے ۔ مثالً لفظ ماء کے چند‬
‫معانی ہیں لیکن جو معنی ہمارے ذھن میں سبقت کرتی ہے فورا ً اتی ہے وہ وہی ’’ ایک‬
‫طرح کا سائل ہے یعنی ِلک ِوڈ ‘‘ تو پھر کہا جائے گا کے لفظ ماء اسی معنی میں ظھور‬
‫رکھتا ہے کیونکہ یھی معنی متبادر ہے ‪ ،‬سب سے پھلے یھی معنی ذھن میں اتی ہے اور‬
‫ہم بیان کر چکے کے تبادر عالمت حقیقت ہے ۔‬
‫‪۲‬۔ مقام داللت تصدیقی میں ظھور‬
‫یہ ظھور ہمیں وضع یا لغت سے سمجھ نہیں اتا بلکہ اس ظھور پر متکلم کا حال داللت‬
‫کرتا ہے ‪ ،‬حال متکلم سے مدلول تصدیقی کا پتہ چلتا ہے لیکن یہ ظھور بھی ایک طرح‬
‫سے مدلول تصوری کا محتاج ہے یعنی کالم جب بھی کسی معنی پر مرحلہ داللت‬
‫تصوری میں داللت کرتا ہے تو ظاھر حال متکلم یھی ہے کے مدلول تصدیقی بھی وھی‬
‫مدلول تصوری ہے کیونکہ اگر مراد متکلم مدلول تصوری سے ھٹ کر ہوتی تو متکلم‬
‫ضرور کوئی نہ کوئی قرینہ ضرور ذکر کرتا اب جبکہ کوئے قرینہ نہیں ہے تو ظاھر‬
‫حال متکلم یہ ہے کے مراد متکلم بھی وھی معنی تصوری ہے ‪ ،‬اسی قانون کو اصول میں‬
‫کہتے ہیں کہ‪:‬‬
‫’’اصالۃ تطابق بین المدلول التصدیقی و المدلول التصوری ‘‘‬
‫یا ’’اصالۃ تطابق بین مقام اإلثبات و مقام الثبوت‘‘‬
‫مقام إثبات یعنی مقام داللت ۔‬
‫مقام وضع یا مقام داللت تصوری یا مقام ثبوت یعنی مقام واقع ‪ ،‬مقام مراد متکلم یا مقام‬
‫داللت تصدیقی ۔‬
‫مثالً ‪ :‬اگر مولی کہے ’’ اکرم العالم ‘‘اس جملے کا مدلول تصوری یہ ہے کے عالم کی‬
‫عزت کرو اور اس جملے کا مدلول تصدیقی وھی چیز ہے جو نفس مولی کے اندر ہے‬
‫یعنی عالم کے اکرام کا ارادہ ۔ اب اگر ہمیں شک ہو کے مولی نے کہا تو اکرام عالم کا ہے‬
‫لیکن شاید اس کا مقصد یہ نہ ہو کے عالم کا اکرام کو بلکہ کسی اور چیز کا ارادہ کیا ہو ‪،‬‬
‫تو اس مقام پر کہا جائے گا کے نہیں مولی کا مقصد یھی ہے کے عالم کا اکرام کرو‬
‫کیونکہ اصل اور قانون یھی ہے ’’ التطابق بین المدلول التصوری و المدلول التصدیقی ‘‘‬
‫مراد تصوری اور مراد تصدیقی ایک دوسرے کے مطابق ہیں ۔‬
‫[اپ نے دیکھا ہم مراد متکلم تک کیسے پہنچ گئے ‪ ،‬مراد متکلم تک پہنچنے کا ذریعہ‬
‫وھی داللت تصوری ہے اس لئے ہم نے بھت سارے مقامات پر مدلول تصوری اور‬
‫صل مباحث مطرح کئے ۔ مثالً صیغہ امر ‪ ،‬نھی ‪ ،‬ادات شرط ‪،‬‬
‫وضعی کے بارے میں مف ّ‬
‫ادات غایت وغیرہ کے مدلول تصوری اور وضعی کے بارے میں مباحث پیش کئے ] ۔‬

‫‪‬حجیّت ظھور کا مفھوم‪:‬‬


‫‪‬‬
‫حجیّت ظھور کا مطلب کیا ہے ؟‬
‫(یہ مسئلہ پھلے بیان کرچکے ہیں ‪ ،‬مزید وضاحت کے لئے ابھی کچھ مطالب بیان کریں‬
‫گے اور کچھ مطالب ائندہ فصول میں بیان ہوں گے)‬
‫کبھی کبھار ایک لفظ کی داللت تصوری کے مرحلے میں چند معانی ہوتی ہیں لیکن ان‬
‫تمام معانی میں سے ایک معنی ذھن میں سنقت کرتا ہے یعنی جیسے ھہ وہ لفظ ادا ہو ایک‬
‫معنی فوراٍ ذھن میں تبادر کرتی ہے ‪ ،‬تو ظاھر حال متکلم یھی ہے کے متکلم نے بھی‬
‫اُسی معنی کا ارادہ کیا ہے ۔ تطابق مقام إثبات و ثبوت کا یھی تقاضا ہو پس حجیّت ظھور کا‬
‫مطلب یہ ہے کہ‪:‬‬
‫متکلم کے ظاھر حال کے مطابق جو معنی ہوگا اُسی معنی کے مطابق اس کے کالم کی‬
‫تفسیر کی جائے گی اور وہی ظھور مراد متکلم کا ائینہ دار ہوگا ‪ ،‬اسی چیز کو اصالت‬
‫ظھور بھی کہتے ہیں ۔‬
‫‪‬حجیّت ظھور پر دلیل‪:‬‬
‫‪‬‬
‫کیا ظاھر ح ّجت ہے ؟‬
‫اگر ح ّجت ہے تو اس کی کیا دلیل ہے ؟‬
‫ظھور ح ّجت ہے اس کی دلیل مندرجہ ذیل دو مقدمات سے تچکیل پاتی ہے ۔‬
‫‪۱‬۔ تاریخی اعتبار سے یہ بات مسلّم ہے کے صحابہ کرام اور اصحاب ِائمہ اطھار سب کے‬
‫سب ظواھر کتاب اور سنّت پر عمل کرتے تھے ۔‬
‫‪۲‬۔ چنانچہ یہ سیرت اور ان کا عمل ائمہ اطھار کے سامنے تھا ‪ ،‬اس صورت میں شارع یا‬
‫تو ان لوگوں کے اُس عمل سے راضی تھا یا راضی نہیں تھا ۔‬
‫اگر شارع راضی تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کے ظواھر ح ّجت ہیں اور ظھور پر عمل‬
‫کرنا ہر ایک کا وظیفہ ہے ۔‬
‫اگر شارع راضی نہیں تھا تو حتما ً ان کو لوگوں کو شارع اُس کام کرنے سے منع کرتا‬
‫اور اگر منع کرتا تو ہم تک ضرور پہنچتا اسلئے کے جب ایک مشھور عمل کی مخالفت‬
‫ہوتی تو سب لوگ اُس کو بیان کرتے ہیں ‪ ،‬اب جبکہ ہم تک یہ بات نہیں پہنچی اس کا‬
‫مطلب یہ ہے کے شارع نے منع ہی نہیں کیا ‪ ،‬پس اس طرح ’’حج ّیت ظھور‘‘ ایک حقیقت‬
‫اور مکمل قانون ہے ۔‬
‫تطبیقات حجیّت ظھور‪:‬‬
‫حجیّت ظھور کے معنی اور مفھوم کی وضاحت کے بعد ‪ ،‬اس قانون کی چند تطبیقات ذکر‬
‫کرتے ہیں ۔‬
‫‪ ‬الحالت االولی ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫َص یعنی وہ لفظ جس کا ایک ہی معنی نکلے ۔‬
‫ن ّ‬
‫جو لفظ لسان دلیل میں وارد ہوا ہو اور اس کا ایک ہی معنی ہو اور اس معنی کے عالوہ‬
‫کوئی اور معنی متصور نہ ہو حتی کے دوسرے معنی کا ضعیف احتمال بھی نہ ہو تو کہا‬
‫جائے گا کے یہ لفظ اُس معنی کے اندر ’’ ن ّ‬
‫َص ‘‘ رکھتا ہے ۔‬
‫َص ہو تو وھاں ’’حجیّت ظھور‘‘ کا قانون و‬
‫بالشبہ جب ایک لفظ اپنی معنی کے اندر ن ّ‬
‫قاعدہ جاری ہوگا اور لفظ اپنی معنی میں ح ّجت ہوگا ۔‬
‫‪‬الحالت الثانیہ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫مجمل یعنی ایک لفظ کے مختلف معنی ہوں اور ہر معنی برابر برابر ہو ۔‬
‫جو لفظ داللت شرعی میں ایا ہے اس کے متعدد معانی ہوں اور لفظ ان تمام معانی کی‬
‫بنسبت برابر برابر ہو یونی کوئی بھی معنی دوسرے معنی کی بنسبت زیادہ ظھور نہیں‬
‫رکھتا ۔ مثالً ‪ :‬الفاظ مشترکہ اگر کسی خاص معنی کیلئے قرینہ نہ ہو تو لفظ کی نسبت تمام‬
‫معانی کی طرف برابر برابر ہے ‪ ،‬اس صورت میں لفظ کو ’’ مجمل ‘‘ کہا جائے گا اور‬
‫اس صورت میں ’’حجیّت ظھور‘‘ کا قانون و قاعدہ جاری نہیں ہوگا کیونکہ لفظ کسی بھی‬
‫معنی کی بنسبت ظھور نہیں رکھتا ۔‬
‫‪‬الحالت الثالثہ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫جو لفظ دلیل شرعی میں وارد ہوا ہے اس کے معنی کے متعلق چند احتمال ہیں یعنی اس‬
‫کے متعدد معانی ہیں یلکن ان معانی میں سے ایک ایسا ہے جو دوسرے معنی پر غلبہ‬
‫رکھتا ہے یعنی لفظ سنتے ہی فورا ً وہی معنی ذھن میں اتا ہے اگرچہ دوسرے معنی بھی‬
‫ہیں لیکن وہ معنی مغلوب ہیں یعنی ان کا احتمال ضعیف ہے ‪ ،‬تو لفظ غالب معنی کی‬
‫بنسبت ’’ ظاھر ‘‘ کہالئے گا ۔ یھاں پر بھی ’’حجیّت ِظھور‘‘ واال قانون جاری ہوگا ۔‬
‫‪‬تنظیر‪:‬‬
‫‪‬‬
‫منطق میں پڑہ چکے ہیں کے جملہ کبریہ میں جو نسبت پائی جاتی ہے او چار حالتوں‬
‫سے خالی ہیں ہوتی ‪:‬‬
‫یا تو نسبت کے بارے میں سؤ فیصد اطمئنان ہے تو اسے ’’یقین‘‘ کہتے ہیں ۔‬
‫یا تو نسبت میں پچاس فیصد سے زیادہ کا احتمال ہے اور سؤ سے کم تو اسے ’’ ّ‬
‫ظن‘‘‬
‫کہتے ہیں ۔‬
‫یا تو نسبت کے بارے میں پچاس پچاس فیصد کا احتمال ہے تو اسے ’’شک‘‘ کہتے ہیں‬
‫یا تو نسبت میں پچاس فیصد سے کم کا احتمال ہے تو اسے ’’وہم‘‘ کہتے ہیں ۔‬
‫عینا ً اسی طرح جب ایک لفظ کو معنی کی بنسبت دیکھتے ہیں تو‪:‬‬
‫َص ‘‘ کہتے ہیں ۔‬
‫یا صد در صد یھی معنی مراد ہے تو اسے ’’ ن ّ‬
‫یا پچاس فیصد سے زیادہ کا احتمال ہے اور سؤ سے کم تو اسے ’’ ظاھر ‘‘ کہتے ہیں ۔‬
‫یا پچاس پچاس فیصد کا احتمال ہے تو اسے ’’ مجمل ‘‘ کہتے ہیں ۔‬
‫مؤول‘‘ کہتے ہیں۔‬
‫یا پچاس فیصد سے کم کا احتمال ہے تو اسے ’’ ّ‬
‫اور اس عمل کو ’’ تاویل ‘‘ کہتے ہیں ۔‬
‫‪‬سیاق‪:‬‬
‫‪‬‬
‫سیاق کسے کہتے ہیں ؟‬
‫سیاق یعنی وہ قرائن جو کسی لفظ کو اپنے حصار میں لپیٹ لیتے ہیں یعنی جس لفظ کو ہم‬
‫سمجھنا چاھتے ہیں کچھ قرائن اور شواھد اس کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں ‪ ،‬اُن قرائن اور‬
‫شواھد کو سیاق کہتے ہیں ۔‬
‫یہ قرائن چند طرح سے ہوتے ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ قرائن لفظیہ‪:‬‬
‫وہ کلمات جو لفظ کے ساتھ مل کر ایک کالم کو تشکیل دیتے ہیں یعنی جس لفظ کو ہم‬
‫سمجھنا چاھتے ہیں اُس کے ساتھ مل کر کچھ کلمات ایک کالم مربوط کو تشکل دیتے ہیں‬
‫۔‬
‫‪۲‬۔ قرائن حالیہ‪:‬‬
‫وہ حاالت اور کنڈیشنز جس نے کالم کا احاطہ کیا ہوا ہے اس اعتبار سے کے وہ حاالت‬
‫اور ظروف اُس کالم کی داللت کرنے میں اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں‬
‫کے قرائن باعث بنتے ہیں کہ لفظ کا جو قریب تر مفھوم اور معنی ہوتا ہے اُس سے لفظ‬
‫دور ہوجائے یعنی اگر قرینہ اجاتا ہے تو وہ لفظ کو قریبی معنی سے دور لے جاکر معنای‬
‫بعید کے قریب کرتا ہے ۔‬
‫مثالً ‪ :‬لفظ ’’شیر‘‘ کا قریب تر معنی وہی ’’خاص حیوان‘‘ کا ہے لیکن جیسے ہی قرینہ اتا‬
‫ہے ‪ ،‬مثالً اگر کہا جائے کے اج شیر کو میدان جنگ میں دشمنوں کی افواج سے لڑتے‬
‫دیکھا ‪ ،‬تو لفظ اپنے قریبی معنی(حیوان) سے دور ہوجاتا ہے اور بعید معنی یعنی مرد‬
‫شجاع کے قریب ہوجاتا ہے ۔‬
‫خالصہ کالم‪:‬‬
‫اگر کالم قرائن سے خالی ہوگا تو اسے معنای اقرب (قریبی معنی) پر حمل کیا جائے گا‬
‫اور اگر قرائن ہوں گے تو ان کے مطابق جو معنی مناسب ہوگا اُسی پر حمل کیا جائے گا‬
‫۔‬
‫سیاق کے واضح ہونے کے بعد اصل مطلب یعنی ’’ ظاھر ‘‘ کی وضاحت کی طرف اتے‬
‫ہیں ‪’’ ،‬ظاھر‘‘ کی مثال‪:‬‬
‫کلمہ ’’بحر‘‘ کے لئے ایک معنی قریب ہے جو کے حقیقی ہے (یعنی دریا) اور ایک معنی‬
‫بعید ہے (یعنی عالم) جو کے مجازی ہے ۔‬
‫قریب اور بعید سے مراد ہی ہے کے کونسا معنی پھلے سبقت کر کے ذھن میں اتا ہے اب‬
‫اگر امر کہتا ہے ’’ اذھب الی البحر فی ک ّل یوم ‘‘ یعنی ہو روز بحر کی طرف جائو۔‬
‫تو جو معنی ذھن میں سبقت کرتا ہے وہ ہے ’’دریا‘‘ یھی معنی قریب ہے اور یھی سبقت و‬
‫تبادر کا سبب بنتا ہے جو کے عالمت حقیقت ہے ۔‬
‫پس ’’بحر‘‘ کا مدلول تصوری یا وضعی ’’دریا‘‘ ہوا ‪ ،‬اصالت تطابق بین مقام إثبات و‬
‫ثبوت کی بنا پر’’دریا‘‘ مدلول تصدیقی بھی ہوا ۔‬
‫نتیج ًۃ ہم کہہ سکتے ہیں کہ امر کا مقصد یہ ہے کہ ’’ ہر روز دریا پر جائو ‘‘ لیکن جیسے‬
‫ہی امر نے کہا‪:‬‬
‫’’اذھب الی البحر فی ک ّل یوم و استمع الی حدیثہ‘‘‬
‫’’ہر روز بحر کی جانب جائو اور اس کی باتوں کو کان لگا کر سنو‘‘‬
‫تو اس کالم میں اگر لفظ بحر کو دیکھیں تو مقصد ہونا چاھئے ’’دریا‘‘ اور اگر لفظ حدیث‬
‫کو دیکھیں تو ’’بحر‘‘ سے مقصد ہونا چاھئے ’’عالم‘‘ ۔‪ ،‬پس اس مقام پر دو صورتوں میں‬
‫ترجمہ ہوسکتا ہے ۔‬
‫صورت ّاول ‪ :‬کلمہ ’’بحر‘‘ کو حمل کریں معنای حقیقی یعنی ’’دریا‘‘ پر اور لفظ حدیث‬
‫کو حمل کریں معنای مجازی یعنی ’’موج‘‘ پر اور ترجمہ کریں تو اس طرح ہوگا‪:‬‬
‫سنو ۔‬
‫ہر روز دریا کی طرف جائو اور اس کی موجوں کی اواز کو غور سے ُ‬
‫یھاں پر حدیث سے مراد ہوگی دریا کی موجوں کی اواز۔‬
‫دوم ‪ :‬کلمہ ’’بحر‘‘ کو حمل کریں معنای مجازی یعنی ’’عالم‘‘ پر اور لفظ حدیث‬
‫صورت ّ‬
‫کو حمل کریں معنای حقیقی یعنی ’’بات‘‘ پر اور ترجمہ کریں تو اس طرح ہوگا‪:‬‬
‫سنو ۔‬
‫ہو روز عالم کی طرف جائو اور اس کی باتیں غور سے ُ‬
‫سوال ‪ :‬کون سا ترجمہ صحیح ہے ؟‬
‫جواب‪:‬اس کالم کو عرف عام کے سامنے پیش کریں اگر وہ کہیں دونوں معنائوں کا احتمال‬
‫برابر برابر اتا ہے تو لفظ ’’ مجمل ‘‘ ہوگا یعنی حالت ثانیہ ۔‬
‫اور اگر کہے ایک معنی ذحن میں سبقت رکھتا ہے وہ ہے صورت ثانیہ واال یعنی ’’بحر‬
‫سے مراد عالم اور اس کا قرینہ بھی ہے حدیث‘‘‬
‫اور دوسرا معنی (یعنی صورت اولی واال) معنای بعید ہے ‪ ،‬تو ہم کہیں گے لفظ صورت‬
‫ثانیہ یعنی ’’ بحر سے مراد عالم میں ظاھر ہے اور قاعدہ حجیّت ظھور کو جاری کریں‬
‫گے‘‘‬
‫صا ً فی المعنی ‪ ،‬فتطبق علیہ قاعدۃ حجیّۃ‬
‫ان اللفظ تارۃ ً یکون ن ّ‬
‫فتحصل جمیع ما ذکرناہ ‪ّ ،‬‬
‫ظھور و اُخری یکون مجمالً فال تطبق علیہ قاعدۃ حجیّۃ ظھور ‪،‬ثالثا ً یکون ظاھرا ً فی‬
‫المعنی فتطبق علیہ قاعدۃ حجیّۃ ظھور ایضا ً ۔‬
‫قرینہ متصلہ اور قرینہ منفصلہ ‪:‬‬
‫بیان ہوا کے ’’قرینہ‘‘ معنای حقیقی کو معنای مجازی کی طرف پھیر سکتا ہے ‪،‬یھاں پر‬
‫اقسام قرینہ کی طرف اجمالی اشارہ کرتے ہیں ۔‬
‫اقسام قرینہ‪:‬‬
‫‪۱‬۔ قرینہ متصلہ‬
‫‪۲‬۔ قرینہ منفصلہ‬
‫‪‬قرینہ متصلہ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫ہر وہ قرینہ جو کسی کلمہ یا جملے سے مال ہوا ہو اور اس کلمہ یا جملے کو اس جھت‬
‫میں لے کر جائے جو اس قرینہ سے سازگار ہو۔‬
‫مثالً ‪’’ :‬اذھب الی البحر فی ک ّل یوم و استمع الی حدیثہ‘‘‬
‫اس جملہ میں کلمہ ’’حدیث‘‘ قرینہ ہے اور کالم سے متصل بھی ہے ‪ ،‬اب یہ قرینہ کلمہ‬
‫’’بحر‘‘ کو ’’عالم‘‘ کی طرف لے جاتا ہے کیونکہ ’’بحر‘‘ کا یہی معنی قرینہ سے سازگاری‬
‫رکھتا ہے ۔‬
‫دوسری مثال ‪’’ :‬اکرم ک ّل فقیر ّاال الفساق‘‘‬
‫اس مثال میں کلمہ ’’ک ّل‘‘ عمامیت کا فائدہ دے رھا ہے ہعنی ہر فقیر کا اکرام کرو لیکن‬
‫’’ ّاال الفساق‘‘ استثناء قرینہ ہے کے کل فقیر سے مراد ہر فقیر نہیں ہے بلکہ خصوصیت‬
‫سے عادل فقیر مراد ہے ۔‬
‫‪‬قرینہ منفصلہ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫وہ قرینہ جو کالم کے ساتھ مال ہوا نہ ہو بلکہ اُسے جداگانہ ذکر کیا گیا ہو ۔‬
‫مثالً ‪ :‬ایک مرتبہ امر کہتا ہے ’’اکرم ک ّل فقیر‘‘ پھر بعد میں دوسرے کالم کے ذریعہ کہتا‬
‫ہے ’’ ال تکرم الفساق من الفقراء‘‘ اس مقام پر یہ دوسرا کالم قرینہ بنتا ہے کہ ’’ اکرم کل‘‬
‫فقیر سے مراد ِجدّی خصوصیت سے عادل فقراء ہیں نہ کے ہر فقیر ۔‬
‫‪‬قرینہ متصلہ اور قرینہ منفصلہ میں فرق‪:‬‬
‫‪‬‬
‫جس کالم میں بھی قرینہ متصلہ ہوگا وھاں ذو القرینہ کے اصل ظھور کو ختم‬ ‫•‬
‫کردے گا ۔‬
‫مثال ‪’’ :‬اکرم ک ّل فقیر ّاال الفساق‘‘‬
‫اس مثال میں ’’ک ّل فقیر‘‘ ذو القرینہ ہے اور ’’ ّاال الفساق‘‘ قرینہ ہے ۔ یہاں پر قرینہ یعنی‬
‫استثناء ‪ ،‬ذو القرینہ یعنی ’’ک ّل فقیر‘‘ کے اصل ظھور کو ہی ختم کردے گا‬
‫یعنی کانّہ کالم میں کہا گیا ہے ’’ہر عادل فقیر کا احترام کرو‘‘‬
‫جبکہ جس کالم میں بھی قرینہ منفصلہ ائے گا تو اس صورت میں ذو القرینہ کا‬ ‫•‬
‫ظھور تو اپنی جگہ پر ہوگا لیکن اس ظھور کی حجیّت کو قرینہ منفصلہ ختم کردیتا ہے ۔‬
‫مثال ‪’’ :‬اکرم ک ّل فقیر‘‘ پھر کہے’’ال تکرم الفساق من الفقراء ‘‘‬
‫’’ک ّل فقیر‘‘ ذو القرینہ ہے جو ظھور رکھتا ہے کے ہر فقیر کا احترام کرو اور ’’ال تکرم‬
‫الفساق من الفقراء‘‘ قرینہ منفصلہ ہے ‪ ،‬اس قرینہ کے انے کے بعد پھلے کالم کا ظھور‬
‫استعمالی تو اپنی جگہ قائم رھتا ہے لیکن یہ قرینہ بتاتا ہے کے یہاں پر مراد جدّی‬
‫عمومیت فقراء نہیں ہے بلکہ مراد جدّی خصوصیت سے عادل فقراء ہیں ۔‬
‫پس خالص ًۃ ‪:‬‬
‫قرینہ متصلہ اصل ظھور کو ختم کردیتا ہے جبکہ قرینہ منفصلہ کالم کے اصل ظھور کو‬
‫ختم نہیں کرتا البتہ اس کی حجیّت کو ختم کردیتا ہے ۔‬
‫فتلخص ‪:‬‬
‫ان الفارق االساس بین القرینۃ المتصلۃ و القرینۃ المنفصلۃ ‪ ،‬ھو ّ‬
‫ان القرینۃ المتصلۃ تھدم‬ ‫ّ‬
‫اصل الظھور بمعنی عدم انعقاد الظھور للکالم فی المعنی الذی یخلف تلک القرینۃ و ا ّما‬
‫القرینۃ المنفصلۃ فال تھدم اصل الظھور ‪ ،‬انّما تمنع و تعارض حجیّۃ الظھور۔‬
‫درس ‪۱۶‬‬
‫الف۔الدلیل الشرعی اللفظی البحث الثالث‬
‫اثبات الصدور‬
‫حجیّت ظھور کے بعد یہ بحث مطرح ہے کے وہ روایات جس کے ذریعہ ہم حکم شرعی‬
‫کو ثابت کرتے ہیں کیا وہ شارع سے صادر ہوئی ہیں ؟ اگر شارع سے صادر ہوئی ہیں تو‬
‫ھمارے پاس کون سے طریقے ہیں کے جن سے ثابت کریں کے یہ روایت شارع سے‬
‫صادر ہوئی ہے ؟‬
‫پس یہ بحث درحقیقت اس نکتہ کو بیان کرتی ہے کے ’’دلیل ِشرعی‬
‫لفظی‘‘ کو ثابت کرنے کیلئے کان سے ُ‬
‫ط ُرق پائے جاتے ہیں ؟‬
‫اصطالحا ً اس بحث کو ’’ اثبات صدور‘‘ کہتے ہیں ۔‬
‫ان ُ‬
‫ط ُرق ’’اثبات‘‘ کو ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو دو قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں ۔‬
‫ط ُرق جن کی دلیلیت اور حجیّت بذات خود شارع کے بیان سے ثابت ہوتی ہے‬‫ایک ‪ :‬وہ ُ‬
‫۔جیسے خبر ثقہ یا خبر عادل ۔‬
‫کسی قابل اعتماد شخص کی خبر حجت ہے یا نہیں ہے ہمیں اس بات کا علم خود شارع‬
‫سے پتہ چلے گا ۔‬
‫ط ُرق جن کی دلیلیت اور حجیّت ’’نظریہ تراکم احتماالت‘‘ کے ذریعہ معلوم ہوتی‬ ‫دو ‪ :‬وہ ُ‬
‫ہے تو وہ ’’نظریہ تراکم احتماالت‘‘ کیا ہے ‪ ،‬اس کی مکمل وضاحت تو حلقہ ثانیہ اور ثالثہ‬
‫ط ُرق کو بیان کرتے وقت کریں‬ ‫میں ائے گی لیکن اس مقام پر فقط ایک اجمالی اشارہ اِن ُ‬
‫گے ۔‬
‫االول ‪ :‬تواتر‬
‫الطریق ّ‬
‫تواتر وہ پھال طریق اور راستہ ہےجس کے ذریعہ ہم یہ ثابت کرسکتے ہیں کے فالں‬
‫روایت مثالً شارع سے صادر ہوئی ہے ۔‬
‫تعریف تواتر‪:‬‬
‫’’ایک ایسی جماعت کا کسی خبر کو نقل کرنا جن کے قول سے یقین یا اطمئنان حاصل‬
‫ہوجائے کے یہ خبر سچی ہے کیونکہ ی ہ جماعت کثرت کے لحاظ کے اتین ہے کے ان‬
‫کے قول سے یقین یا اطمئنان حاصل ہوجاتا ہے ‘‘۔‬
‫شرائط تواتر‪:‬‬
‫تواتر میں دو شرطوں کا ہونا ضروری ہے ۔‬
‫(الف) ‪ :‬نقل کرنے والوں کی تعداد اتنی ہو جس سے یقین یا اطمئنان حاصل ہوجائے ۔‬

‫(ب) ‪ :‬نقل کرنے والوں کا جھوٹ پر سازباز کرنا عادۃ ً محال ہو(عادۃ ً توارت عال الکذب‬
‫محال ہو)۔‬
‫تواتر سے کیونکر اطمئنان حاصل ہوتا ہے ؟‬
‫جب کسی واقعہ یا خبر کے بارے میں کوئی شخص ہمیں بتاتا ہے تو ہم احتمال دیتے ہیں‬
‫شاید یہ خبر سچی ہو ‪ ،‬پھر دوسرا شخص اتا ہے اور اسی واقعہ اور خبر کو نقل کرتا ہے‬
‫تو اس صورت میں خبر کے سچے ہونے کا احتمال بڑھ جاتا ہے ‪ ،‬پھر تیسرا شخص بھی‬
‫اوی خبر دے احتمال اور بڑھے گا یہاں تک نے ناقلین کی تعداد اس حد تک پہنچ جاتی‬
‫ہے کے ہمیں یقین یا اطمئنان ہوجاتا ہے یہ خبر یا واقعہ سچا ہے ‪ ،‬جب اس منزل پر پہنچ‬
‫جائیں تو کہا جائے گا یہ واقعہ یا خبر تواتر سے ثابت ہوا ہے ۔‬
‫نکتہ ‪’’ :‬توارت‘‘حجت ہے اور اس کی حجیّت اسلئے ہے کے یہ ’’مفید علم‘‘ ہے اور علم‬
‫کی حجیّت ذاتی ہے لھذا تواتر کی حجیّت کیلئے شارع کے بیان کی ضرورت نہیں ہے ۔‬
‫الطریق الثانی ‪ :‬اجماع و شھرت‬
‫صل اور منقول یا شھرت فتوائی‬ ‫اجماع و شھرت کے مختلف اقسام ہیں جیسا کے اجماع مح ّ‬
‫و روائی لیکن اس مقام پر ھمارا مقصد اجماع اور شھرت کی تعریف بیان کرنا اور یہ بیان‬
‫کرنا ہے کے دونوں ح ّجت ہیں یا نہیں ؟‬
‫کیا دونوں دلیل شرعی کو ثابت کرنے کیلئے طریق اور راستہ ہیں یا نہیں ؟‬
‫تعریف اجماع‪:‬‬
‫ایک فتوی پر تمام فقھاء کا اتفاق کرنا ۔‬
‫اجماع کا حکم‪:‬‬
‫اگر ایک فقیھ فتوی دیتا ہے کے معدنیات پر خمس واجب ہے تو دو احتمال سامنے اتے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫پھال احتمال‪:‬‬
‫شاید اس فقیھ نے یہ فتوی بغیر دلیل کے دیا ہوگا لیکن یہ احتمال قابل قبول نہیں کیونکہ‬
‫فرض یہ ہے کے فقیھ ایک متقی انسان ہے کس طرح ممکن ہے کے ایک پارسا انسان‬
‫بغیر دلیل کے فتوی دے ۔‬
‫دوسرا احتمال‪:‬‬
‫فقیھ نے فتوی دلیل کی بنا پر دیا ہے ‪ ،‬اس صورت میں بھی دو فرض ہوسکتے ہیں۔‬
‫(ایک) ‪ :‬فقیھ کا یہ فتوی کہ ’’معدنیات پر خمس واجب ہے‘‘ ایک دلیل شرعی لفظی کی بنا‬
‫پر ہو اور فقیھ نے درست طریقے سے استنباط کیا ہو۔‬
‫(دو) ‪ :‬فقیھ نے مذکورہ فتوی تو دلیل کی بنا پر دیا ہو لیکن اپنے استنباط میں خطاء سے‬
‫دوچار ہوا ہو کیونکہ مجتھد معصوم تو نہیں ہوتا خطاء کرسکتا ہے ۔‬
‫اب دوسرے احتمال کے دونوں فرضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کے‬
‫جب ایک مجتھد فتوی دیتا ہے کہ ’’معدنیات پر خمس واجب ہے‘‘ ۔ ہم احتمال دیتے ہیں‬
‫کے شاید صحیح استنباط کے تحت فتوی دیا ہو ایک ناقص قرینہ ہمارے پاس ہوتا ہے ‪،‬‬
‫جب دوسرا مجتھد بھی یھہ فتوی دیتا ہے تو یہ احتمال کچھ اور قوی ہوجاتا ہے کے دو‬
‫بندہ فتوی دے رھے ہیں ۔ دلیل سے صحیح سمجھا ہوگا ‪ ،‬پھر اسی طرح جیسے جیسے‬
‫فقھاء کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا ہمارا احتمال بھی قوی سے قوی تر ہوتا جائے گا‬
‫یہاں تک کے ایک مرحلے میں اکر ہمیں یقین حاصل ہوجائے گا کے ان تمام فقھاء نے‬
‫حتما ً ایک دلیل ِشرعی ِلفظی کی بنا پر فتوی دیا ہے اور استنباط میں بھی کوئی غلطی نہیں‬
‫ہوئی نتیج ًۃ اس اجماع کے ذریعہ ہم کشف کرتے ہیں کے حتما ً ایک دلیل شرعی اس فتوی‬
‫کیلئے ضرور موجود ہے ورنہ کیسے ہوسکتا ہے یہ سارے کے سارے فقھاء بغیر دلیل‬
‫کے فتوی دیتے ۔‬
‫شھرت کی تعریف‪:‬‬
‫فقھاء کی اکثریت ایک معین فتوی پر متفق ہو ۔‬
‫فرق اجماع و شھرت‪:‬‬
‫اجماع اور شھرت میں فرق اتفاق کرنے والوں کی ک ّمیت کے اعتبار سے ہے ۔ اجماع میں‬
‫تمام فقھاء متفق ہوتے ہیں جبکہ شھرت میں اکثریت کا اتفاق ہوتا ہے گرچہ ایک قلیل تعداد‬
‫مخالف بھی ہوتی ہے ۔‬
‫شھرت کا حکم‪:‬‬
‫شھرت بھی تواتر اور اجماع کی طرح ہے اگر شھرت سے بھی یقین حاصل ہوجائے تو‬
‫ح ّجت ہے ارنی ح ّجت نہیں ہوگی ۔‬
‫نکتہ‪:‬‬
‫اجماع اور شھرت حقیقت میں دلیل لفظی کے کشف کرنی کے دو طریقے ہیں اگر دلیل‬
‫لفظی کا یقین ہوگیا تو دونوں ح ّجت ہیں ورنہ ح ّجت نہیں ہوں گے کیونکہ یقین نہ ہونے کی‬
‫ظن ہوں گے اور ّ‬
‫ظن کے بارے میں قاعدہ ّاولی عدم‬ ‫صورت میں زیادہ سے زیادہ مفید ّ‬
‫حجیّت ہے ۔‬
‫ایضاح‪:‬‬
‫اھل سنّت کے وھاں بھی اجماع ح ّجت ہے لیکن ہمارے(اھل تشیّع) اور ان کے(اھل سنّت)‬
‫کے درمیان اجماع کی حجیّت کے بارے میں فرق پایا جاتا ہے ۔‬
‫اھل سنّت کے نزدیک بذات خود اتفاق فقھاء اھمیت رکھتا ہے یعنی اتفاق فقھاء ح ّجت ہے‬
‫لیکن ھمارے یہاں (اھل تشیّع) اگر اتفاق فقھاء سے دلیل لفظی کا علم ہوگیا تو ح ّجت ہے‬
‫کیونکہ ہمارے یہاں اتفاق فقھاء کی بذات خود کوئی اھمیت نہیں ہے ‪ ،‬البتہ اتفاق فقھاء سے‬
‫رای معصوم (دلیل لفظی) کشف ہوجائے تو پھر اجماع کی حیثیت ہوگی وہ بھی درحقیقت‬
‫رای معصوم (دلیل لفظی) کی حیثیت ہوگی۔‬
‫اقسام شھرت ‪:‬‬

‫اجماع کی ایک لحاظ سے دو قسمیں ہیں‪:‬‬


‫صل ‪۲‬۔ منقول‬
‫‪۱‬۔ مح ّ‬
‫صل‪:‬‬
‫اجماع مح ّ‬
‫اس اجماع کو کہتے ہیں جسے انسان خود تحقیق کرکے حاصل کرتا ہو ۔ مثالً ‪ :‬انسان خود‬
‫کلمات فقھاء کو دیکھے اور اجماع فقھاء کو تحصیل کرے ۔‬
‫اجماع منقول‪:‬‬
‫اس اجماع کو کہتے ہیں جسے انسان خود حاصل نہیں کرتا بلکہ کوئی اور شخص اسے‬
‫ہمارے لئے نقل کرتا ہے ۔ مثالً شیخ طوسی کہتے ہیں فالں مسئلہ میں اجماع ہے ‪ ،‬تو شیخ‬
‫طوسی کی یہ بات ہمارے لئے اجماع منقول کہالئے گی ۔‬
‫تقسیم اخر‪:‬‬
‫اجماع کی دوسرے لحاظ سے دو قسمیں ہیں‪:‬‬
‫درکی‬
‫درکی ‪۲‬۔ اجماع غیر َم َ‬
‫‪۱‬۔ اجماع َم َ‬
‫جس مسئلے میں اجماع ہو ‪:‬‬
‫درکی ہوگا ۔‬
‫اگر اس مسئلہ میں اجماع کے عالوہ بھی کوئی دلیل ہو تو یہ اجماع َم َ‬
‫درکی کہالئے گا ۔‬
‫اگر اس مسئلہ میں اجماع کے عالوہ کوئی دلیل نہ ہو تو وہ اجماع غیر َم َ‬
‫مرکی زیادہ اھمیت رکھتا ہے ۔‬
‫فقھاء کے نزدیک اجماع غیر دَ َ‬
‫الطریق الثالث ‪ :‬سیرۃ المتشرعۃ‬
‫ائمہ اطھار کے زمانے میں دین دار لوگوں کی عمومی رفتار ’’سیرۃ متشرعہ‘‘ کہالتی ہے۔‬
‫مثالً ‪ :‬ہمدیکھتے ہیں اصحاب ائمہ و ائمہ کے زمانے میں کسی بھی مسالہ پر اتفاق عملی‬
‫رکھتے ہیں یعنی سب لوگ اس پر عمل کرتے ہیں ۔ مثالً تمام دین دار لوگ جمعہ کے دن‬
‫نماز جمعہ کے بدکے نماز ظھر پڑھتے ہیں ‪ ،‬تو یہ تمام دین داروں کا عملی سلوک اور‬
‫عملی رفتار سیرۃ متشرعہ ہے ۔‬
‫نکتہ‪:‬‬
‫سیرۃ متشرعہ سے بھی دلیل شرعی کو اسی طرح کشف کیا جاتا ہے جیسے تواتر ‪،‬اجماع‬
‫اور شھرت سے کشف کیا جاتا ہے ۔ مثالً ائمہ کے زمانے میں ایک شخص کسی چیز پر‬
‫عمل کرتا ہے ہم احتمال ددیتے ہیں شاید کسی دلیل کی بنا پر انجام دیا ہوگا پھر دوسرا‬
‫شخص بھی ایسے ہی کرتا ہے تو احتمال اور قوی ہوجاتا ہے ‪ ،‬اشخاص کی تعداد جیسے‬
‫جیسے بڑھتی جائے گی احتمال بھی قوی تر ہوتا جائے گا یہاں تک کے دلیل شرعی کے‬
‫بارے میں اطمئنان حاصل ہوجائے گا۔‬
‫تذکر‪:‬‬
‫تواتر ‪ ،‬اجماع ‪ ،‬شھرت اور سیرۃ متشرعہ سے ہم دلیل شرعی کو ثابت کرتے ہیں لیکن‬
‫طریقہ ایک ہی ہے یعنی تراکم احتماالت ‪ ،‬احتماالت بڑھتے جاتے ہیں افراد کے بڑھنے‬
‫سے یہاں تک کے اطمئنان یا یقین حاصل ہوجاتا ہے‬
‫الطریق الرابعہ ‪ :‬خبر واحد‬
‫یہ طریقہ اہم ترین راستہ ہے دلیل شرعی کے صدور کو ثابت کرنے کیلئے کیونکہ ہمارے‬
‫اکثر داللئل شرعیہ کا صدور ایسی خبر واحد کے مرھون منّت ہے ۔‬
‫خبر واحد کی تعریف‪:‬‬
‫ہر وہ خبر جو مفید علم ہو ۔‬
‫دوسرے لفظوں میں ‪:‬‬
‫ہر وہ خبر جو ّ‬
‫ظن کا افادہ کرے ۔‬
‫تصحیح‪:‬‬
‫عام طور پر گمان کیا جاتا ہے کے خبر واحد یعنی ’’کسی ایک شخص کی خبر‘‘ لیکن یہ‬
‫بات کامل نہیں ہے ۔ خبر واحد یعنی ہر وہ خبر جس سے علم حاصل نہ ہو ‪ ،‬پھر خبر‬
‫دینے واال ایک ہو ‪ ،‬دو ہوں یا تین فرق نہیں پڑتا ۔‬
‫خبر واحد کی مثال ‪:‬‬
‫اگر زرارہ بن اعین امام صادق سے مثالً کوئی خبر نقل کرے تو یہ زرارہ کی خبر واحد‬
‫کہالئے گی ۔‬
‫خبر واحد مفید علم کیوں نہیں ؟‬
‫خبر واحد اسلئے مفید علم نہیں ہوتی کے اس میں دو طرح کے احتماالت پائے جاتے ہیں‬
‫‪:‬‬
‫‪۱‬۔ شاید وہ بندہ جھوٹ بول رھا ہو ۔‬
‫‪۲‬۔ شاید اس بندہ سے اشتباہ ہوا ہو ۔‬
‫مثال ‪ :‬زرارہ جو خبر نقل کر رھا ہے ‪ ،‬احتمال ہے جھوٹ بول رھا ہو یا اگر جھوٹ نہیں‬
‫بول رھا کیونکہ عادل ہے لیکن اشتباہ و غلطی تو کرسکتا ہے ‪ ،‬معصوم تو نہیں ہے ‪ ،‬اس‬
‫اعتبار سے دیکھا جائے تو خبر واحد سے یقین حاصل نہیں ہوتا ۔‬
‫سوال ‪ :‬پھر شارع خبر واحد کو کیسے ح ّجت قرار دیتا ہے ؟‬
‫جواب ‪ :‬جھوٹ بولنے والے احتمال کو شرط عدالت راوی سے ختم کیا جاتا ہے اور اشتباہ‬
‫و غلطی والے احتمال کو ایک اصل عقالنی سے ختم کیا جاتا ہے ۔ وہ اصل یہ ہے کہ ’’‬
‫عام طور پر صحیح و سالم انسان اشتباہ و غلطی نہیں کرتا‘‘ ’’اصالۃ عدم اشتباہ‘‘ ۔‬
‫لیکن ان دو اصلوں (اصل عقالنی و اصل عدم اشتباہ) کے ذریعہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا‬
‫کے راوی سے اب جھوٹ بولنا یا اشتباہ کرنا ممتنع اور محال ہوگیا ہے کیونکہ کبھی‬
‫کبھار عادل بھی جھوٹ بولتا ہے ‪ ،‬کبھی کبھار صحیح و سالم انسان بھی اشتباہ کرتا ہے‬
‫ظن ہے ۔‬‫اسی لیئے کہتے ہیں خبر واحد سے علم نہیں ہوتا الو مفید ّ‬
‫ظن ہے تو ّ‬
‫ظن میں اصل ّاولی عدم حجیّت ہے لھذا خبر‬ ‫اب جبکہ معلوم ہواخبر واحد مفید ّ‬
‫واحد کی حجیّت کیلئے شارع کی طرف سے دلیل کی ضرورت ہے ۔‬
‫‪:‬‬ ‫خبر واحد کا حکم‬
‫خبر واحد ثقہ (قابل اعتماد) ح ّجت ہے ۔‬
‫دالئل حجیّت خبر واحد ‪:‬‬
‫خبر واحد کی حجیّت پر اصولیوں نے بھت سارے دالئل ذکر کئے ہیں ‪ ،‬یہاں پر صرف دو‬
‫دلیلوں کی طرف اشارہ کیا جارھا ہے ۔‬
‫پھلی دلیل‪:‬‬
‫ایۃ نبا ’’یا ایھا الذین امنوا ان جاءکم فاسق بنبا فتبیّنوا‘‘‬
‫’’اے ایمان والوں ! اگر تمھارے پاس کوئی فاسق خبر الئے تو اس کے بارے میں تحقیق‬
‫کرو‘‘ (سورۃ حجرات) ۔‬
‫تقریب استدالل‪:‬‬
‫اس ایت کریمہ میں جملہ شرطیہ استعمال ہوا ہے ہم پھلے ثابت کرچکے ہیں کے جہاں پر‬
‫بھی ’’اداۃ شرط‘‘ ہوگا اس جملے میں دو مدلول ہوتے ہیں ۔‬
‫‪۱‬۔ منطوق (مدلول مطابقی) ‪۲‬۔ مفھوم (مدلول التزامی)‬

‫اس ایت کا منطوق یہ ہے‪:‬‬


‫اگر فاسق خبر لے کر ائے تو تحقیق کرو ۔‬
‫اس ایت کا مفھوم یہ ہے‪:‬‬
‫اگر غیر فاسق (عادل) خبر لے کر ائے تو تحقیق کی ضرورت نہیں یعنی قبول کرو ۔‬
‫نتیج ًۃ ‪ :‬عادل کی خبر کو قبول کرو وہ ح ّجت ہے ۔‬
‫دوسری دلیل‪:‬‬
‫سیرۃ متشرعہ اور عقالئیہ ۔‬
‫تمام دین داروں کی سیرت اس بات پر جاری ہے کے وہ خبر ِواحد ِثقہ پر عمل کرتے ہیں‬
‫‪ ،‬نہ فقط سیرۃ متشرعہ اور دین دار بلکہ تمام عقالء کی سیرت اس بات پر جاری ہے کے‬
‫خبر ِواحد ِثقہ پر عمل کرتے ہیں ۔‬
‫دوسری جانب سے دیکھتے ہیں کے یہ دونوں سیرتیں ائمہ اطھار کے سامنے موجود رھی‬
‫ہیں ‪ ،‬اگر یہ کام غلط ہوتا تو حتما ً ائمہ معصومین منع کرتے ‪ ،‬ان کا خاموش رھنا اور منع‬
‫نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کے یہ کام (خبر واحد ثقہ پر عمل کرنا) درست ہے ۔‬
‫نتیج ًۃ ‪ :‬سیرۃ متشرعہ اور عقالئیہ سے خبر ِواحد کی حجیّت ثابت ہوجاتی ہے ۔‬
‫تدقیق‪:‬‬
‫ذرا غور کریں اور بتائیں دونوں دلیلوں میں کیا فرق ہے ؟‬
‫کیا دونوں دلیلوں سے خبر واحد ثقہ کی حجیّت ثابت ہوتی ہے ؟‬
‫یا ایک دلیل سے خبر واحد ثقہ کی حجیّت ثابت ہوتی ہے اور ایک دلیل سے خبر واحد‬
‫عادل کی حجیّت ثابت ہوتی ہے ؟‬
‫اصالً خبر واحد ثقہ اور خبر واحد عادل میں کیا فرق ہے ؟‬
‫تھوڑا غور کریں ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫سوچیں ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫جواب خود دیں ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫استاد سے پوچھیں ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫سوچنے کے بعد شیئر کریں ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫درس ‪۱۷‬‬
‫(ب) الدلیل الشرعی غیر اللفظی‬

‫یہ بات مخفی نہیں ہے کے معصوم کیلئے قول ‪ ،‬فعل اور تقریر ہوتی ہے ۔‬
‫قول معصوم ‪( :‬یعنی اقوال ‪ ،‬فرمائشات) دلیل شرعی لفظی میں داخل ہیں ۔‬
‫فعل معصوم ‪( :‬یعنی رفتار اور عمل معصوم) دلیل شرعی غیر لفظی میں داخل ہیں ۔‬
‫تقریر معصوم ‪( :‬یعنی کسی اور کے عمل پر خاموش رھنا) دلیل شرعی غیر لفظی میں‬
‫داخل ہیں ۔‬
‫دلیل شرعی غیر لفظی کی تعریف ‪:‬‬
‫ہر وہ چیز جو معصوم سے صادر ہو اور حکم شرعی پر داللت کرے البتہ سنخ ِکالم نہ‬
‫ہو۔ دلیل شرعی غیر لفظی کی بحث دو مقامات پر ہوگی ۔‬
‫‪۱‬۔ فعل معصوم ‪۲‬۔ تقریر معصوم‬
‫فعل معصوم‪:‬‬
‫جب بھی معصوم کسی کام کو انجام دیں مثالً مسواک ‪ ،‬تو یہ عمل معصوم داللت کرتا ہے‬
‫کے یہ فعل حرام نہیں ہے ’’جواز بالمعنی االعم ‘‘ رکھتا ہے اور اگر معصوم کسی عمل‬
‫کو ترک کرے یعنی چھوڑ دے تو یہ عمل معصوم داللت کرتا ہے کے یہ فعل واجب نہیں‬
‫ہے کیونکہ افر مذکورہ عمل واجب ہوتا تو معصوم اُسے کبھی بھی ترک نہیں کرتے ۔‬
‫نکتہ‪:‬‬
‫البتہ یہ اس صورت میں ہے کے معصوم اس فعل کو مطلوبیت اور قربت کی نیّت سے‬
‫انجام نہ دے لیکن افر قصد مطلوبیت اور محبوبیت ہو تو وہ فعل مطلوب الھی اور محبوب‬
‫الھی قرار پائے گا ۔‬
‫سوال ‪ :‬فعل اور تقریر معصوم کیسے ثابت ہوتے ہیں ؟‬
‫جواب ‪ :‬فعل اور تقریر معصوم بھی اس طرح ثابت ہوتے ہیں جیسے قول معصوم ثابت‬
‫ہوتا ہے یعنی تواتر ‪ ،‬اجماع ‪ ،‬سیرۃ متشرعہ ‪ ،‬خبر واحد وغیرہ سے ۔‬
‫تقریر معصوم ‪:‬‬
‫تقریر معصوم سے مراد یہ ہے کے اگر معصوم دیکھے اور مشاھدہ کرے کہ ان کے‬
‫سامنے ایک فعل انجام دیا جا رھا ہے ’’پھر اس فعل کو انجام دینے واال کوئی ایک فرد ہو‬
‫یا عام لوگ ہوں‘‘ اب اس فعل اور رفتار کی بنسبت معصوم کی دو حالتیں ہوسکتی ہیں‪:‬‬
‫(ایک) ‪ :‬معصوم اس فعل اور کام سے منع کرتا ہے ۔‬

‫(دو) ‪ :‬معصوم اس اس فعل اور کام پر خاموش رھتا ہے ۔‬

‫اگر معصوم منع کرتا ہے تو اس کا مقصد یہ ہوگا کے معصوم اس عمل کو شریعت کے‬
‫اغراض و مقاصد سے ٹکراتا ہوا محسوس کرتے ہیں اور اس عمل کو جائز نہیں سمجھتے‬
‫‪ ،‬البتہ اگر معصوم اس عمل پر خاموش رھے اس کا مطلب یہ ہے کے معصوم اس عمل‬
‫پے امضاء (دستخط) فرما رھے ہیں اور معصوم اس عمل کو غلط نہیں سمجھتے ۔‬
‫پس ضروری ہے کے یہ عمل (چاھے فردی ہو یا اجتماعی)‬

‫ّاوالً ‪ :‬معصوم کے زمانے میں ہو ۔ لھذا اس تقریر معصوم سے غیبت کے زمانے میں‬
‫استفادہ نہیں کیا جاسکتا ۔‬
‫ثانیا ً ‪ :‬معصوم منع کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو یعنی تقیّہ کے عالم میں نہ ہو ۔‬
‫فردی سلوک اور عمل کی مثال ‪ :‬فرض کریں ایک شخص امام کے سامنے وضو کرتے‬
‫ہوئے سر کا مسح الٹا کرے جبکہ فرض یہ ہو کے سر کا الٹا مسح کرنا غلط ہو تو اس‬
‫صورت میں امام پر الزم ہوگا کے اس شخص کو منع کرے لیکن اگر امام خاموش رھیں‬
‫اس کا مقصد یہ ہوگا کے سر کا مسح چاھے الٹا ہی کیوں نہ ہو صحیح ہے ۔‬
‫اجتماعی سلوک اور عمل کی مثال ‪ :‬ہر معاشرہ اور سماج میں ہم دیکھتے ہیں کے کچھ‬
‫چیزوں پر عقالء بما ھم عقالء عمل کرتے ہیں ‪ ،‬اس طرح سے کے اس چیزوں کی بنسبت‬
‫عقالء کی ایک عمومی اور اجتماعی سیرت سامنے اتی ہے ۔‬
‫نکتہ‪:‬‬
‫ہم نے کہا عقالء بما ھم عقالء یعنی اِس اجتماعی رفتار میں کسی دین و مذھب کو عمل‬
‫دخل نہیں ہے بلکہ عقالء جھت عقالئی کے لحاظ سے ان چیزوں پر عمل کرتے ہیں ‪،‬‬
‫اسی چیز کو ’’سیرۃ عقالئیہ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ مثالً ‪ :‬ہم دیکھتے ہیں تمام عقالء‬
‫ظاھر حال متکلم پر اعتماد کرتے ہیں یا مثالً خبر واحد ثقہ پر عمل کرتے ہیں ۔ اب اگر‬
‫فرض کیا جائے کے معصوم اس اجتماعی سلوک اور سیرۃ عقالء کا مشاھدہ کرے معصوم‬
‫اس عمل پر راضی نہ ہوں تو قطعا ً اس عمل سے منع کریں گے لیکن اگر معصوم خاموش‬
‫رھیں تو اس کا مقصد یہ ہوگا کے معصوم اس عمل پر امضاء(دستخط) کر رھے ہیں ۔‬
‫سیرۃ متشرعہ اور سیرۃ عقالئیہ میں فرق ‪:‬‬
‫سیرہ عقالء عبارت ہے ‪ :‬ایک عام میالن ہے جو عقالء کے یہاں پایا جاتا ہے کسی بھی‬
‫خاص رفتار کی بنسبت لیکن اس میالن کے ایجاد کرنے میں شریعت کا کوئی کردار نہیں‬
‫ہوتا بلکہ عقالء بما ھم عقالء یہ میالن رکھتے ہیں ۔‬
‫یہاں سے پتہ چلتا ہے کے سیرۃ عقالئیہ کے وجود میں انے کیلئے شارع کا اثر و نقش‬
‫نہیں ہوتا ‪ ،‬اس سیرت کو شارع سے نہیں لیا گیا بلکہ عقالء مصالح کی بنا پر اس سیرت‬
‫وجد ہوتے ہیں ۔ جبکہ اس کے مقابلے میں سیرۃ متشرعہ بھی ایک سلوک‬ ‫کے خود ُم ِ‬
‫اجتماعی ہے ‪ ،‬ایک اجتماعی رفتار ہے لیکن خاص متشرعین اور دینداروں کا اجتماعی‬
‫عمل جبکہ سیرۃ عقالء میں دیندار اور متشرعہ کی قید مد نظر نہیں ہے ۔(اگر متشرعین‬
‫سیرۃ عقالئی میں ہیں بھی تو جھت عقالئی مد نظر ہے نہ کے دینداری)‬
‫ثانیا ً ‪ :‬سیرۃ متشرعہ میں سلوک اجتماعی کا اصل سبب شارع ہوا کرتا ہے ‪ ،‬بیان شارع ہی‬
‫سبب بنتا ہے کے متشرعین ایک اجتماعی رفتار اپناتے ہیں ۔‬
‫اذن الفرق بین سیرۃ العقالء و سیرۃ المتشرعۃ ‪ّ ،‬‬
‫ان سیرۃ العقالء غیر متلقات من الشارع و‬
‫سیرۃ المتشرعۃ متلقات من الشارع ۔‬
‫سیرۃ عقالء اور دلیل حجیّۃ ظھور‪:‬‬
‫ہم پھلے حجیّت ظھور پر سیرۃ متشرعہ کے ذریعہ استدالل کرچکے ہیں لیکن سیرۃ عقالء‬
‫کے ذریعہ بھی حجیّت ظھور پر استدالل کیا جا سکتا ہے ۔‬
‫وہ اس طرح سے کہ ‪ :‬تمام عقالء بما ھم عقالء ظواھر پر عمل کرتے ہیں اگر شارع اس‬
‫عمل پر راضی نہ ہوتا تو حتما ً منع کرتا ‪ ،‬اب جبکہ شارع نے منع نہیں کیا یعنی شارع اس‬
‫عمل پر راضی ہے اس عمل پر شارع کی امضاء(دستخط) ہے ۔‬
‫‪۲‬۔ الدلیل العقلی‬
‫درس ‪۱۸‬‬
‫دراسۃ العالقات العقلیۃ‬

‫اس بحث کی اھمیت کیلئے دو باتوں پر توجہ کرنا الزمی ہے ۔‬


‫‪۱‬۔ علم اصول میں ہر دلیل عقلی کے بارے میں بحث نہیں کی جاتی بلکہ خصوصیت سے‬
‫وہ دلیل عقلی جو استنباط حکم شرعی میں کارامد ہو ۔‬
‫‪۲‬۔ ہماری عقل عالم خارج اور عالم تکوین میں جب تامل کرتی ہے تو اشیاء کے درمیان‬
‫مختلف روابط اور عالقات کو دیکھتی ہے ۔‬
‫مثالً ‪ :‬عالم تکوین میں عقل مالحظہ کرتی ہے بعض اشیاء کے درمیان تضاد ہوتا ہے‬
‫جیسے سواد و بیاض (سیاھی اور سفیدی متضاد ہیں) اور متضاد چیزوں کی خاصیت یہ‬
‫ہے کے ایک ہی مکان میں جمع نہیں ہوسکتیں ‪ ،‬جب عقل اس چیز کو کشف کرلیتی ہے‬
‫تو ایک کے وجود سے دوسرے کے عدم کا نتیجہ لیتی ہے ۔‬
‫مثالً ‪ :‬اگر ایک جسم سیاہ ہے تو عقل سمجھ جاتی ہے کے یہ جسم سفید نہیں ہے ہوسکتا ۔‬
‫یا مثالً ‪ :‬عقل اشیاء کے اندر عالقہ(رابطہ) سبب و مسبب کو دیکھتی ہے ‪ ،‬جھاں پر دو‬
‫چیزوں میں عالقہ سبب و مسبب ہوگا تو قھرا ً ان میں تالزم ہوگا ایک دوسرے سے جدا‬
‫نہیں ہوسکتے ‪ ،‬ایک جگہ اگر سبب ہوگا تو قطعا ً مسبب بھی ہوگا یا برعکس اگر مسبب‬
‫ہے تو قطعا ً سبب ہوگا ۔‬
‫یا مثالً ‪ :‬عقل سبب اور مسبب میں تقدم اور تاخر کو سمجھتی ہے یعنی سبب ہمیشہ مسبب‬
‫پر تقدم رکھتا ہوگا یعنی پھلے سبب بعد میں مسبب ہوگا۔‬
‫نکتہ‪:‬‬
‫ایک لحاظ سے تقدم اور تاخر دو طرح سے ہوتا ہے‪:‬‬
‫‪۱‬۔ تقدم و تاخر زمانی ‪:‬‬
‫ایک چیز زمانا ً پھلے ہو اور دوسری چیز زمانا ً بعد میں ہو ۔ مثالً ‪ :‬باپ بیٹے سے زمانا ً‬
‫پھلے ہوتا ہے اور بیٹا بعد میں ۔‬
‫‪۲‬۔ تقدم و تاخر رتبی ‪:‬‬
‫دو چیزیں شاید زمانا ً ایک ساتھ ہوں لیکن رتب ًۃ ایک متقدم ہو اور دوسری متاخر ۔ مثالً ‪:‬‬
‫’’حرکت الید فتحرک المفتاح‘‘ میرے ھاتھ میں چابی ہے میں ھاتھ کو حرکت دیتا ہوں تو‬
‫چانی اور ھاتھ ساتھ ساتھ حرکت کرتے ہیں لیکن ہم کہتے ہیں ’’ھاتھ نے حرکت کی تو‬
‫چابی نے بھی حرکت کی‘‘۔‬
‫لیکن ذرا غور کرکے بتایئں دونوں کی حرکت ایک زمانے میں ہے یا نہیں ؟‬
‫الکل ایک زمانے میں ہے ۔‬
‫سوال ‪ :‬پھر ایسے ہی کیوں کہتے ہو ’’ھاتھ نے حرکت کی تو چابی نے بھی حرکت کی‘‘‬
‫برعکس کیوں نہیں کہتے ’’چابی نے حرکت کی تو پس ھاتھ نے بھی حرکت کی‘‘ ؟‬
‫اپ کہیں گے یہ غلط ہے پھلے ھاتھ کی حرکت ہے پھر چابی کی حرکت ہے جبکہ دونوں‬
‫کی حرکت کا زمان ایک ہے ‪ ،‬پھر ایک پھلے اور دوسرا بعد میں کیسے ہوا ؟ یہاں سے‬
‫پتہ چال کے تقدم اور تاخر زمان کے عالوہ بھی ہوتا ہے اور اسے ہی ’’تقدم و تاخر رتبی‘‘‬
‫کہا جاتا ہے ۔‬
‫اصل بحث کی طرف بازگشت‪:‬‬
‫جس طرح سے ہماری عقل اشیاء خارجی کے اندر عالقات اور روابط کو سمجھتی ہے‬
‫اسی طرح احکام شریعت کے اندر بھی عالقات اور روابط کو دیکھتی ہے پھر اسی طرح‬
‫وھاں پر بھی حکم کرتی ہے ۔ مثالً ‪ :‬عالقہ تضاد ‪ ،‬یہ رابطہ احکامات میں بھی پایا جاتا‬
‫ہے کے تمام احکامات ایک دوسرے سے تضاد رکھتے ہیں ۔‬
‫مثال ‪ :‬وجوب اور حرمت میں تضاد پایا جاتا ہے جس طرح سفیدی اور سیاھی میں تضاد‬
‫پایا جاتا ہے اور دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے ایسے ہی وجوب اور حرمت میں‬
‫بھی تضاد پایا جاتا ہے اور دونوں ایک جگہ جنع نہیں ہوسکتے ‪ ،‬اصول میں اس جگہ اس‬
‫قسم کے عالقات کے بارے میں بحث کی جائے گی ۔‬
‫فتلخص ّ‬
‫ان العقل کما یدرک العالقات القائمۃ بین االشیاء الخارجیۃ گی عالم التکوین کذالک‬
‫یدرک العالقات القائمۃ بین االحکام الشرعیۃ فی عالم التشریع ۔‬
‫تقسیم البحث‬
‫یہ عالقات و روابط مختلف اقسام کے ہوتے ہیں ‪:‬‬
‫‪۱‬۔ وہ عالقات جو بذات خود احکام کے درمیان ہیں ۔‬
‫‪۲‬۔ وہ عالقات جو حکم اور اس کے موضوع کے درمیان ہیں ۔‬
‫‪۳‬۔ وہ عالقات جو حکم اور اس کے متعلّق کے درمیان ہیں ۔‬
‫‪۴‬۔ وہ عالقات جو حکم اور اس کے مقدمات کے درمیان ہیں ۔‬
‫‪۵‬۔ وہ عالقات جو بذات خود ایک حکم کے درمیان ہیں ۔‬
‫درس ‪۱۹‬‬
‫( ‪)۱‬‬
‫العالقات القائمۃ بین النفس االحکام‬
‫وہ عالقات جو بذات خود احکامات کے درمیان ہیں‬
‫ہم یہاں پر اس کے دو نمونے پیش کرتے ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ وہ عالقات جو احکام تکلیفی کے درمیان ہیں ۔‬
‫‪۲‬۔ وہ عالقات جو احکام وضعی کے درمیان میں ہیں ۔‬
‫پھال نمونہ ‪ :‬عالقات بین احکامات التکلیفیہ‬

‫وجوب اور حرمت میں عالقہ تضاد ہے‪:‬‬


‫ہم گذشتہ بحث میں پڑھ چکے ہیں کے احکامات میں تضاد پایا جاتا ہے ۔ مثالً ‪ :‬وجوب اور‬
‫حرمت میں تضاد پایا جاتا ہے ‪ ،‬فساد(بطالن) اور صحت میں تضاد پایا جاتا ہے اور معلوم‬
‫ہے کے متضاد اشیاء ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں مثالً جس طرح ایک ہی چیز سفید بھی‬
‫ہو اور سیاہ بھی ہو یہ نہیں ہوسکتا ‪ ،‬ایسے ہی ایک ہی چیز واجب بھی ہو اور حرام بھی‬
‫ہو نہیں ہوسکتا ۔‬
‫توضیح‪:‬‬
‫کبھی کبھار ایسے ہوتا ہے کے ہمارے سامنے دو فعل ہوتے ایک حرام ‪ ،‬اور ہم دونوں‬
‫فعلوں کو ایک ہی وقت میں انجام دیتے ہیں ۔ مثالً کوئی شخص ایک ہی وقت میں ایک‬
‫ھاتھ سے شراب پی رھا ہو اور دوسرے ھاتھ سے زکوۃ دے رھا ہو ۔ زمانا ایک ہے لیکن‬
‫فعل دو ہیں ۔ ایک واکب اور دوسرا حرام ۔ یہ صورت ممکن ہے اور ہوسکتی ہے اور‬
‫کبھی کبھی ہوتی بھی ہے ۔‬
‫ثانیا ً ‪ :‬کبھی کبھی ایسے ہوتا ہے ایک ہی فعل واجب بھی ہوتا ہے اور حرام بھی اسی ایک‬
‫زمان میں ۔ مثالً ‪ :‬مردار کھانا حرام بھی ہو اور اسی زمانے میں واجب بھی ہو ۔ یہ نہیں‬
‫ہوسکتا غیر معقول و محال ہے ۔‬
‫اگر یہ تمام باتیں واضح ہوگئیں تو اصل بات یہ ہے کے علم اصول میں ایک بحث ہے‬
‫’’اجتماع امر و نھی‘‘ کیا ممکن ہے یا نہیں ۔‬
‫‪:‬‬ ‫اجتماع امر و نھی‬
‫اس بحث کی توضیح اس طرح سے ہے‪:‬‬
‫بعض افعال کو ہم جب وجود خارجی کے اعتبار سے دیکھتے ہیں تو فعل واحد ہے وجود‬
‫اور ذات کے اعتبار سے لیکن اس فعل واحد سے متعدد عناوین اخذ کرسکتے ہیں اور وہ‬
‫عناویں و اوصاف بھی ایسے ہیں جو ایک دوسرے سے تضاد رکھتے ہیں ایک جگہ پر‬
‫جمع نہیں ہوسکتے ۔‬
‫خالصہ یہ کہ ‪ :‬عناوین زیادہ ہیں اور معنون ایک ہے ۔‬
‫مثال ‪ :‬کوئی شخص غصبی پانی سے وضو کر رھا ہو ‪ ،‬یہاں پر خارج میں ایک ہی فعل‬
‫ہے یعنی وضو کرنا ۔ لیکن یھی عمل اس اعتبار سے دیکھا جائے کے وضو ہے تو واجب‬
‫ہوگا اور اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے کے غیر کے مال میں تصرف ہے تو حرام ہوگا۔‬
‫(غور کریں)‬
‫معنون(فعل خارجی) ایک ہے لیکن عناوین دو ہیں اور وہ بھی دونوں عنوان متضاد ہیں ‪،‬‬
‫ایک وجوب(وضو) دوسرا حرام(غصب) ۔‬
‫دوسرا نمونہ ‪ :‬عالقات بین احکامات الوضعیہ‬
‫صحت اور فساد دو حکم وضعی ہیں ‪ ،‬یہ دونوں حکم ایک ہی معاملے میں جمع نہیں‬
‫ہوسکتے یعنی ایسا ناممکن ہے کے ایک ہی عقد زمان واحد میں صحیح بھی ہو اور‬
‫فاسد(باطل) بھی ۔ جس طرح احکام تکلیفیہ جمع نہیں ہوسکتے زمان واحد میں یعنی ایک‬
‫ہی زمان میں ایک چیز واجب بھی ہو اور حرام بھی کیونکہ تمام احکامات میں تضاد ہے‬
‫چاھے احکام وضعیہ ہوں یا احکام تکلیفیہ ہوں ۔‬
‫بیان و تعریف‪:‬‬
‫کسی بھی عقد کے صحیح اور باطل ہوبے سے کیا مراد ہے ؟‬
‫صحت عقد ‪ :‬یعنی جو اثر اس عقد پر مترتب ہونا چاھئے وہ اثر اس پر مترتب ہو ۔‬
‫بطالن عقد ‪ :‬یعنی جو اثر اس عقد پر مترتب ہونا چاھئے وہ اثر مترتب نہ ہو ۔‬
‫مثال ‪ :‬عقد بیع میں افر بائع (بیچنے واال) کوئی چیز بیچتا ہے اور مشتری (خریدنے واال)‬
‫اس چیز کے بدلے میں قیمت دیتا ہے ‪ ،‬اس کا مطلب یہ ہے کے بائع اس چیز کو اپنی‬
‫ملکیت سے خارج کرکے مشتری کی ملکیت میں دیتا ہے اور مشتری اس چیز کو‬
‫خریدتے وقت قیمت کو اپنی ملکیت سے خارج کرکے بائع کی ملکیت میں دیتا ہے اور اُس‬
‫چیز کو اپنی ملکیت میں قبول کرتا ہے ۔‬
‫اسان لفظوں میں کہیں ‪ :‬بیع ’’مبادلۃ مال بمال‘‘ ہے یعنی ایک مال کو دوسرے مال کے‬
‫بدلے تبادلہ کرنا ۔‬
‫اب عقد بیع کے صحیح ہونے کا مقصد یہ ہوگا مثمن بائع کی ملکیت سے خارج ہوکر‬
‫مشتری کی ملکیت میں داخل ہوگی اور ثمن (قیمت) مشتری کی ملکیت سے خارج ہوکر‬
‫بائع کی ملکیت میں داخل ہوجائے گی ۔‬
‫اور فساد عقد بیع کا مطلب یہ ہوگا کے مذکورہ تبادلہ واقع نہیں ہوا یونی مثمن ابھی تک‬
‫بائع کی ملکیت میں برقرار ہے اور ثمن مشتری کی ملکیت میں باقی ہے ۔‬
‫النھی فی المعامالت‬
‫اگر ایک معاملے سے شارع نھی کرے تو کیا وہ معامال باطل ہوجائے گا ؟ یا نہیں معامال‬
‫صحیح ہوگا اگرچہ حرام کام کے مرتکب ہوئے ہیں ؟‬
‫مثال ‪ :‬شارع کہتا ہے جمعہ کے دن صالۃ جمعہ کے ندا کے وقت معامال نا کرو ‪ ،‬اب اگر‬
‫کسی نے یہ کام (معامال) کیا تو کیا اس کا معامال باطل ہوگا ؟‬
‫اسان لفظوں میں یہ کہیں ‪ :‬کیا عقد صحیح اور حرام ہونا جمع ہوسکتے ہیں ؟ یا شارع کی‬
‫نھی عقد کے فاسد ہونے کا باعث بنے گا ؟‬
‫اس مسئلے میں اصولیوں کے دو قول ہیں‪:‬‬
‫قول ّاول‪:‬‬
‫حرمت تکلیفیہ اور صحت وضعیہ یعنی معاال تو صحیح ہوگا لیکن حرام کام کا مرتکب ہوا‬
‫ہے کیونکہ صحت اور حرمت میں تضاد نہیں ‪،‬‬
‫ایک حکم وضعی ہے اور دوسرا حکم تکلیفی ہے ‪ ،‬ان میں تضاد نہیں ہوسکتا ۔ ایک جگہ‬
‫مغضوبیت شارع ہو شارع کی ناراضگی ہو لیکن وہ کام واقع بھی ہوجائے ۔ مثال ‪ :‬شریعت‬
‫میں ظھار حرام ہے لیکن اگر کسی نے عمل ظھار انجام دیا تو وہ اثر رکھتا ہے ‪ ،‬اس کا‬
‫کفارہ ہوگا ۔‬
‫ظھار یعنی شوھر اپنی بیوی سے کہے ’’ظھرک تظھر ا ّمی‘‘ یعنی تیری کمر میرے لئے‬
‫اپنی ماں کی کمر کی طرح ہے ۔‬
‫یھی قول مختار مصنف (شھید صدر) ہے یعنی حرمت تکلیفیہ اور صحت وضعیہ جمع‬
‫ہوسکتے ہیں ۔‬
‫دوم‪:‬‬
‫قول ّ‬
‫حرمت تکلیفیہ اور فساد معاملہ یعنی نھی شارع عقد کے بطالن کا باعث ہوتا ہے اگر‬
‫شارع نے کہا یہ معاملہ حرام ہے تو اس کا مطلب ہوگا مذکورہ معاملہ باطل ہوگا۔‬
‫النھی فی العبادات‬
‫اگر شارع نے کسی عبادت سے نھی کی ہو مثالً شارع کہے‪:‬‬
‫عید کے دن روزا نہ رکھو ‪ ،‬تو تمام اصولیوں کا ماننا ہے کے یہ عبادت باطل ہوگی ۔ البتہ‬
‫یہ بطالن اس وجہ سے نہیں ہے کے حرمت اور صحت عبادت میں تضاد ہے بلکہ ایک‬
‫اور نکتے کی وجہ سے عبادت باطل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ‪:‬‬
‫عبادت سے مقصد یہ ہوتا ہے کے مکلَّف مولی کے قریب ہونا چاھتا ہے اس لئے کہتے‬
‫ہیں عبادت میں نیّت ضروری ہے یعنی قصد ِقربت الزمی ہے ۔ اب یہ کس طرح سے‬
‫ہوسکتا ہے کے جو چیز شارع کے نزدیک منفور(نفرت والی) ہے ‪ ،‬مبغوض ہے اس سے‬
‫قرب حاصل کیا جائے ۔‬
‫ان النھی فی المعامالت ال یوجب الفساد ‪ّ ،‬‬
‫الن الحرمۃ ال تنافی‬ ‫فتلخص جمیع ما ذکرناہ ‪ّ ،‬‬
‫الن الم َّکف مقصد‬
‫صحتھا و النھی فی العبادات یوجب الفساد ‪ ،‬وال یجتمع مع صحۃ العبادۃ ‪ّ ،‬‬
‫بھا لعبادۃ التقرب الی المولی و ال معقل ای یتقرب المکلَّف الی المولی بما ھو مبغوض لہ و‬
‫مصیۃ لہ ۔‬

‫درس ‪۲۰‬‬
‫(‪)۳) (۲‬‬
‫العالقات القائمۃ‬
‫بین الحکم و موضوعہ و متعلّقہ‬
‫اصل بحث کو بیان کرنے سے پھلے دو اصطالحوں کی وضاحت ضروری ہے‪:‬‬
‫‪۱‬۔ جعل حکم (مرحلی انشائی حکم) ‪۲‬۔ فعلیت حکم (مرحلہ فعلی حکم)‬

‫‪۱‬۔ جعل حکم‪:‬‬


‫یعنی کسی بھی حکم کا شریعت میں ثابت ہونا ۔مثالً شریعت میں حج مستطیع شخص پر‬
‫واجب ہے ‪ ،‬پس حج شرعی واجبات میں سے ایک ہے ۔ اس ایۃ کریمہ کی وجہ سے‪:‬‬
‫’’لللہ علی الناس ح ّج البیت من استطاع الیہ سبیال‘‘‬
‫‪۲‬۔ فعلیت حکم ‪:‬‬
‫جب شریعت میں حکم ثابت ہوچکا تو فعلیت کے مرحلے میں حکم عبارت ہے‪:‬‬
‫’’حکم کا مکلفین کی نسبت سے واجب ہونا‘‘‬
‫حج کا وجوب مکلفین پر تب واجب ہوگا جب خارج میں ’’مستطیع‘‘ پایا جائے ‪ ،‬اگر خارج‬
‫میں مستطیع شخص نہیں ہوگا تو حکم فعلی نہیں ہوگا ۔‬
‫نتیج ًۃ ‪ :‬جعل حکم فقط شارع کی تشریع پر موقوف ہے یعنی شارع کے جعل کرنے کی‬
‫ضرورت ہے فقط لیکن حکم فعلی میں جعل شارع کے ساتھ ساتھ مکلَّف کا بھی تمام‬
‫شرائط کے ساتھ ہونا ضروری ہے حکم فعلی کو ’’مجعول‘‘ بھی کہتے ہیں ۔‬
‫موضوع الحکم‪:‬‬
‫مذکورہ مقدمے سے واضح ہوا کے حکم کے دو مرحلے ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ جعل حکم ‪۲‬۔ فعلیت حکم‬
‫دونوں کے بارے مین یہ بھی کہا جاسکتا ہے‪:‬‬
‫جعل حکم ‪ :‬یعنی حکم کا لحاظ موضوع کے متحقق ہونے سے پھلے ہوتا ہے ۔‬
‫فعلیت حکم ‪ :‬یعنی حکم کا لحاظ کرنا موضوع کے متحقق ہونے کے بعد ۔‬
‫سوال ‪ :‬موضوع حکم سے کیا مراد ہے ؟‬
‫جواب ‪ :‬وہ تمام شرائط جن کو لسان دلیل میں ذکر کیا گیا ہے اور ان پر حکم کی فعلیت‬
‫متوقف ہے اور یہی معنی ہے اصولیوں کے اس جملے کا‪:‬‬
‫’’فعلیۃ ک ّل حکم متوقفۃ علی فعلیۃ موضوعہ‘‘‬
‫مثالً ‪ :‬شریعت میں حکم ہے کے روزا ہر مکلَّف پر ’’جو کے مسافر نہ ہو ‪ ،‬مریض نہ ہو ‪،‬‬
‫ماہ رمضان کا چاند دیکھا ہو ‘‘واجب ہے ۔‬
‫پس یہاں کچھ شرائط ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ مکلَّف ہو (بالغ ‪ ،‬عاقل)‬

‫‪۲‬۔ سالم ہو (مریض نہ ہو)‬

‫‪۳‬۔ حاضر ہو (مسافر نہ ہو)‬

‫‪۴‬۔ ماہ رمضان ہو‬


‫جب یہ سارے شرائط پائے جائیں گے تو یہ حکم فعلی ہوگا اور ان تمام شرائط کو‬
‫موضوع حکم کہتے ہیں ۔‬
‫وہ عالقات جو حکم اور اس کے موضوع کے درمیان ہیں‬
‫موضوع اور حکم کے درمیان عالقہ ایک طرح سے سبب اور مسبب سے مشابھت رکھتا‬
‫ہے جیسے تقدم رتبی رکھتا ہے مسبب پر یعنی سبب مسبب سے پھلے ہوتا ہے رتب ًۃ ‪ ،‬اسی‬
‫طرح موضوع حکم بھی حکم پر تقدم رتبی رکھتا ہے جب تک موضوع نہیں ہوگا حکم‬
‫بھی فعلی نہیں ہوگا ۔‬
‫مذکورہ نکتے سے ایک مہم نکتہ (مسئلہ) سمجھ میں اتا ہے وہ یہ ہے کہ‪:‬‬
‫ایک حکم کے موضوع میں اسی حکم کے علم کو اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ مثالً شارع یہ‬
‫کہے ’’اگر تمہیں اس حکم کا علم ہوجائے تو پھر تم پر یہ ھکم نافذ ہوگا ‘‘ اس طرح سے‬
‫نہیں کہہ سکتا ۔‬
‫توضیح مطلب‪:‬‬
‫ہمارے نزدیک تین مرحلے ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ موضوع حکم‬
‫‪۲‬۔ حکم‬
‫‪۳‬۔ العلم بالحکم (اس حکم کا علم)‬

‫یہ تینوں مرتبے اسی درجہ کے حساب سے ہی ہیں جس ترتیب سے ذکر کیا گیا یعنی‬
‫موضوع الحکم ہوتا ہے یہ رتب ًۃ مقدم ہے ‪ ،‬پھر دوسرے درجے میں حکم ‪ ،‬پھر تیسرے‬
‫درجے میں العلم بالحکم (اس حکم کا علم) کیونکہ حکم ہوگا تو اس کا علم ہوگا ۔‬
‫ھمارے اس بیان سے معلوم ہوا کے ’’علم بالحکم‘‘ ’’موضوع الحکم‘‘ سے دو مرتبہ متاخر‬
‫ہے ‪ ،‬جب دو مرتبہ متاخر ہے تو اسے ’’موضوع الحکم‘‘ میں قید کے عنوان سے اخذ‬
‫نہیں کیا جاسکتا کیونکہ قیود موضوع بذات خود موضوع کے درجے میں ہوا کرتے ہیں ‪،‬‬
‫اگر ’’العلم بالحکم‘‘ قید موضوع قرار پائے تو الزم ائے گا جو متاخر ہے دو مرتبہ وہ‬
‫متقدم ہوجائے اور یہ محال ہے ۔‬
‫یا دوسرے لفظوں میں کہا جائے ‪:‬‬
‫حکم کا علم ‪ ،‬حکم پر موقوف ہے اور حکم ‪ ،‬موضوع پر موقوف ہے ۔‬
‫اب اگر حکم کا علم موضوع کیلئے قید ہو یعنی موضوع ‪ ،‬حکم کے علم پر موقوف ہوگا‬
‫اور یہ ’’دَور‘‘ ہے جو کے محال ہے ۔‬
‫حکم‬

‫موضوع‬ ‫حکم کا علم‬

‫صل ّ‬
‫ان االحکام غیر مختصۃ بالعامین بھا‘‘ بل احکام ہللا الواقعیۃ تشمل العالم و الجاھل‬ ‫’’فتح ّ‬
‫علی حدّ سواء ۔‬
‫وہ عالقات جو حکم اور اس کے متعلَّق کے درمیان ہیں‬
‫حکم اور اس کے متعلَّق کے درمیان رابطہ اور عالقہ کیسا ہے ؟‬
‫اس مطلب کی وضاحت مثال کے ذریعہ پیش کرتے ہیں ۔‬
‫مثال ‪ :۱‬جب مولی کہتا ہے ’’یجب الصوم علی المکلَّف غیر مسافر و ال مریض اذا ھ َّل علیہ‬
‫شھر رمضان‘‘ یعنی ’’ روزا ہر اس مکلَّف پر واجب ہے جو نہ تو مسافر ہو ‪ ،‬نہ ہی‬
‫مریض ہو اور رمضانکے مھینہ میں ہو‘‘۔‬
‫مذکورہ عبارت میں تین چیزیں موجود ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ ’’حکم شرعی‘‘ جو کے ’’وجوب‘‘ ہے‬
‫‪۲‬۔ ’’موضوع حکم‘‘ جو کے ’’مکلَّف ہے اپنے تمام شرائط کے ساتھ‘‘‬
‫‪۳‬۔ ’’متعلَّق حکم‘‘جو کے ’’روزا‘‘ ہے‬
‫متعلَّق حکم یعنی وہ فعل جس کو مکلَّف نے انجام دینا ہوتا ہے اس وجوب کے گردن پر‬
‫انے کی وجہ سے ۔‬
‫مثال ‪’’ :۲‬وجوب حج‘‘ جو کے ’’مستطیع‘‘ کے ذمے ہے ‪ ،‬اس میں بھی تین چیزیں پائی‬
‫جاتی ہیں ‪:‬‬
‫‪۱‬۔ ’’حکم‘‘ جو کے ’’وجوب‘‘ ہے‬
‫‪۲‬۔ ’’موضوع حکم‘‘ جو کے ’’مستطیع‘‘ ہے‬
‫‪۳‬۔ ’’متعلَّق حکم‘‘ جو کے ’’حج‘‘ ہے‬
‫اس بیان کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کے‪:‬‬
‫موضوع کی وجہ سے حکم فعلی ہوتا ہے پس پھلے موضوع متحقق ہو تاکہ حکم متحقق‬
‫ہوسکے ‪ ،‬لھذا حکم رتبہ کے اعتبار سے وجود موضوع کے بعد ہوگا (اُس سے متاخر‬
‫ہوگا)۔ اب جب حکم فعلی ہوچکا تو یہ حکم متعلّق ایجاد کرنے کی طرف دعوت دے گا‬
‫یعنی جب حکم فعلی ہوگا تو مکلَّف کو ذمیدار بنائے گا کے اس متعلَّق(حج یا روزا) کو‬
‫انجام دو ۔‬
‫خالصہ یہ ہے کہ‪:‬‬
‫متعلَّق کا انجام دینا مسبب ہے حکم کا ‪ ،‬حکم باعث بنتا ہے متعلَّق کو ایجاد کرنے کا تبھی‬
‫اگر مکلَّف سے پوچھا جائے کے تم نے نماز کیوں پڑھی ؟ تو جواب دے گا کیونکہ مولی‬
‫نے مجھ پر نماز فرض کی ہے ۔ یہ حکم شرعی ہی ہے جو ایجاد ِمتعلَّق کی طرف بالتا‬
‫ہے لیکن خود حکم شرعی (مجعول) تب تک متحقق نہیں ہوگا ۔‬
‫متعلَّق حکم اور موضوع کے درمیان فرق ‪:‬‬
‫متعلَّق حکم ‪ ،‬حکم کی وجہ سے پایا جاتا ہے جبکہ بذات ِخود حکم موضوع کے باعث‬
‫فعلیت پیدا کرتا ہے ۔‬
‫ان المتعلَّق یوجد بسبب الحکم بینما یوجد الحکم نفسہ بسبب الموضوع‘‘۔‬
‫’’ ّ‬

‫درس ‪۲۱‬‬
‫العالقات القائمۃ بین الحکم و المقدمات‬
‫وہ عالقات جو حکم اور اس کے مقدمات کے درمیان ہیں‬
‫یہ بحث عام طور پر اصولی کتابوں میں ’’مقدمہ واجب‘‘ کے عنوان سے زیر بحث الئی‬
‫جاتی ہے لیکن مصنف نے یہ عنوان دیا ہے ’’حکم اور اس کے مقدمات کے مابین‬
‫عالقات‘‘ ۔‬
‫گذشتہ بحث سے واضح ہوا کہ ’’متعلَّق حکم اور موضوع کے درمیان فرق ہے ‘‘ اسی‬
‫بحث کو اگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کے مقدمات بھی دو طرح کے ہیں‪:‬‬
‫(الف) ‪ :‬وہ مقدمات جن پر ایجاد متعلَّق حکم موقوف ہو ۔‬

‫مثالً ‪ :‬نماز ’’وضو‘‘ پر موقوف ہے یا حج کو انجام دینے کیلئے ’’سفر‘‘ کرنا ضروری ہے‬
‫‪ ،‬اسی طرح ان کے(نماز و حج) مقدمات کو ’’مقدمات واجب‘‘ کہتے ہیں ۔‬
‫(ب) ‪ :‬وہ مقدمات جو موضوع کے وجود اور تحقق کیلئے الزمی ہیں یعنی ایسے مقدمات‬
‫ہیں جب تک یہ مقدمات نہیں ہوں گے موضوع وجود میں نہیں ائیں گے ۔‬
‫مثالً ‪’’ :‬استطاعت‘‘ حج کیلئے ‪ ،‬جب تک استطاعت نہیں ہوگی تو مستطیع نہیں ہوگا اور‬
‫اگر مستطیع نہیں ہوگا تو وجوب حج فعلیت پیدا نہیں کرے گا ‪ ،‬ان مقدمات کو ’’مقدمات‬
‫وجوبیہ‘‘ کہا جاتا ہے ۔‬
‫مقدمات واجب اور مقدمات وجوبیہ میں فرق‪:‬‬
‫مقدمات واجب کی تحصیل (ان کو حاصل کرنا) مکلَّف کے ذمے ہے (مکلَّف کی گردن پر‬
‫ہے) جبکہ مقدمات وجوبیہ کا مھیا کرنا مکلَّف کی ذمیداری نہیں ہے کیونکہ مقدمات‬
‫وجوبیہ جب تک نہیں ہوں گے تو موضوع نہیں ہوگا اور جب تک موضوع نہیں ہوگا تو‬
‫حکم نہیں ہوگا جب حکم ہی نہیں ہے تو مکلَّف کے ذمے (گردن پر) کیا ہے ؟ مکلَّف کی‬
‫مسئولیت کیا ہے ؟‬
‫واضح ہے کے کوئی مسئولیت و ذمیداری نہیں ہے ۔‬
‫جبکہ مقدمات واجب وہ ہیں جن پر حکم موقوف نہیں ہے اور نہ ہی اس کا موضوع‬
‫کیونکہ حکم اور موضوع اچکے ہیں ‪ ،‬حکم فعلیت پیدا کرچکا ہے صرف متعلَّق حکم کا‬
‫ایجاد کرنا ان مقدمات پر موقوف ہے ۔ واضح ہے کے اس صورت میں مکلَّف کی ذمیداری‬
‫ہے کے ان مقدمات کو تحصیل کرے ‪ ،‬ان مقدمات کو مھیا کرے تاکہ متعلَّق کو ایجاد‬
‫کرسکے۔‬
‫اس بنا پر مکلَّف کیلئے ضروری نہیں ہے کے وہ استطاعت حاصل کرے کیونکہ‬
‫استطاعت مقدمہ وجوبیہ ہے ۔ البتہ اگر استطاعت حاصل ہوگئی تو سفر کرنا مکلَّف کی‬
‫ذمیداری ہوگی کیونکہ مقدمہ واجب ہے ۔‬
‫ان تحصیل المقدمات الوجوبیۃ ال یجب وال مکلّف بینما یجب علیہ تحصیل مقدمات‬
‫صل ّ‬ ‫’’فتح َّ‬
‫الواجب‘‘۔‬
‫ہیاں سے واضح ہوا کہ ’’مکلَّف مقدمات واجب کی بنسبت ذمیدار ہے ۔ اس کیلئے ضروری‬
‫ہے کے واجب کے مقدمات کو حاصل کرے تاکہ واجب کو انجام دے سکے لیکن اس مقام‬
‫پر یہ سوال اٹھتا ہے کے ان مقدمات واجب کے ضروری ہونے کا حکم کون کرتا ہے ؟‬
‫کیا یہ حکم ہماری عقل کا حکم ہے ؟ یا شارع ان مقدمات کو الزمی قرار دیتا ہے ؟‬
‫اس سوال کے جواب سے پھلے یہ بات واضح ہونا چاھئے کے کیا فرق پڑتا ہے ھچاھے‬
‫ہماری عقل کہے یا شارع ؟ دونوں صورتوں میں مقدمات کو تو انجام دینا ہی ہوگا ۔‬
‫اس بارے میں ایک نکتے کی جانب توجہ کریں‪:‬‬
‫صحیح ہے کے دونوں صورتوں میں مقدمات واجب انجام دینے ہوں گے لیکن فرق پھر‬
‫بھی ہے ۔ وہ اس طرحہے کے اگر مقدمات واجب کا وجوب شارع کی جانب سے ہوگا تو‬
‫ھمارے پاس چین واجبات شرعی ہوں گے ۔‬
‫مثالً ایک واجب نماز ‪ ،‬اور ایک واجب وضو ۔ اگر ہم نے نماز نہیں پڑھی تو گویا دو‬
‫واجبات کی مخالفت کی لھذا دو عقاب ہوں گے ۔ اور اگر مقدمات واجب کا حکم ہماری‬
‫عقل کرتی ہے تو اس صورت میں شرعی واجب ایک ہوگا ’’نماز‘‘ اس کی مخالفت کرنے‬
‫کی صورت میں ایک واجب کی مخالفت کی ہے اور ایک ہی عقاب کے مستحق قرار پائیں‬
‫گے ۔‬
‫اصل بحث کی جانب بازگشت‬
‫اصولیوں کے درمیان اختالف ہے ۔ بعض کہتے ہیں ’’مقدمات واجب واجب شرعی‘‘ ہیں‬
‫یعنی ان کو شارع نے واجب قرار دیا ہے جبکہ بعض دوسرے اصولی کہتے ہیں ’’مقدمات‬
‫واجب واجب عقلی‘‘ ہیں یعنی ان کو ہماری عقل الزم قرار دیتی ہے ۔‬
‫مختار مصنف (شھید صدر کا نظریہ)‪:‬‬
‫شھید صدر کا ماننا ہے کہ ’’ ان مقدمات واجب کا وجوب عقلی ہے نہ کے شرعی یعنی‬
‫ہماری عقل الزم قرار دیتی ہے نہ کے شارع‘‘۔‬
‫سوال ‪ :‬کیوں ؟ کیا دلیل ہے ؟‬
‫جواب ‪ :‬اسلئے کے ان مقدمات کا وجوب اگر شارع کی جانب سے ہوگا تو ہم سوال کریں‬
‫گے کے شارع کی غرض اس وجوب سے کیا ہے؟ شارع نے ان مقدمات کو واجب کیوں‬
‫قرار دیا ہے ؟‬
‫اگر اسلئے واجب کرتا ہے تاکہ مکلَّف ان مقدمات کو تحصیل کرے تو ہم کہیں گے یہ‬
‫غرض تو پھلے سے ہی حاصل ہے کیونکہ شارع کے حکم سے پھلے ہی ھماری عقل‬
‫سمجھتی ہے ان مقدمات کی تحصیل الزم ہے لھذا اب دوبارہ اکر شارع کا وہی حکم کرنا‬
‫فضول ہوگا ‪ ،‬اور اگر اس غرض کے عالوہ کوئی اور غرض ہے تو ہم نہیں سمجھتے اپ‬
‫اس کی وضاحت کریں تاکہ اس کا جواب دیں ۔‬
‫نتیج ًۃ ‪ :‬مقدمات واجب واجب عقلی ہوں گے ۔‬
‫الن وجوبہ شرعا ً یصیر لغوا ً‘‘۔‬
‫ان وجوب المقدمات الواجب ال یکون عقالً ال شرعا ً ّ‬
‫’’فتحصل ّ‬

‫درس ‪۲۲‬‬
‫العالقات القائمۃ فی داخل الحکم الواحد‬
‫( ‪)۵‬‬
‫وہ عالقات جع بذات خود ایک حکم کے درمیان ہیں‬
‫واجبات دو طرح کے ہیں‬
‫‪۱‬۔ واجبات بسیط ‪۲‬۔ واجبات مرکب‬
‫مثالً ‪ :‬قرات سورۃ عزائم کے وقت سجدہ واجب ہے یہ سجدہ امر بسیط ہے اس کے اجزاء‬
‫نہیں ہیں ۔‬
‫اور کبھی کبھار ایک ایسی چیز واجب ہوتی ہے جو مرکب ہے اور اس کے اجزاء ہیں ۔‬
‫مثالً نماز واجب ہے ۔ نماز کے اجزاء ہیں نیّت سے سالم تک ‪ ،‬نیّت ‪ ،‬تکبیرۃ االحرام ‪،‬‬
‫قرات ‪ ،‬قیام ‪ ،‬رکوع و سجدہ وغیرہ یہ تمام اجزاء ہیں ۔‬
‫غور کرین‬
‫جو واجبات بسیط ہیں ان میں ایک ہی ’’مستقل وجوب‘‘ ہے لیکن واجبات مرکب میں میں‬
‫دو طرح کے اعتبار ہیں پھر ہر لحاظ کے اعتبار سے وجوب ہے اگر مرکب واجبات میں‬
‫پورے مجموعے کا لحاظ کیا جائے تو ایک مستقل وجوب ہے اور اگر اجزاء کو ضمنی‬
‫طور پر دیکھا جائے تو تمام اجزاء کیلئے ضمنی وجوب ہے اور یہ ضمنی وجوب ایسا‬
‫ہے اگر ایک جزء ختم ہوجائے تو بقیہ اجزاء بھی ختم ہوجائیں گے ۔ اس لحاظ سے دیکھا‬
‫جائے تو تمام اجزاء ایک دوسرے سے مربوط ہیں ‪ ،‬اجزاء کے اندر ایک طرح کا ترابط‬
‫ہے جبکہ اس قسم کا رابطہ واجبات مستقلہ میں نہیں ہے ۔‬
‫مثالً ‪ :‬ایک واجب مستقل نماز ایک ذات اگر ایک کو انجام نہیں دیا اور ایک کو انجام دیا‬
‫تو ایک واجب ادا ہوگیا اور ایک ادا نہیں ہوا لیکن واجبات ضمنیہ اور غیر مستقل میں‬
‫ایک جزء بھی چھوڑ دیا تو گویا کوئی جزء انجام نہیں دیا ۔‬
‫اشکال‪:‬‬
‫کبھی کبھار ایک بندہ نماز کھڑے ہوکر نہیں پڑہ سکتا ‪ ،‬قیام کرنا اس کے لئے ممکن نہیں‬
‫تو بقیہ اجزاء کیا واجب نہیں ؟ کیا اس کی نماز نہیں ہوگی ؟‬
‫جواب ‪ :‬اس پر شروع سے ہی نماز بِدون و بغیر قیام کے واجب ہے نہ یہ کے قیام واجب‬
‫تھا اور انجام نہیں دیا ہو ۔‬
‫درس ‪۲۳‬‬
‫ج ۔ النوع الثانی ‪ :‬االصول العملیۃ‬
‫‪۱‬۔ اصالت احتیاط عقلی‬
‫تمھید ‪ :‬گذشیہ مباحث میں بیان ہوا کے عناصر مشترکہ دو طرح کے ہوتے ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ ادلہ محرزہ ‪۲‬۔ اصول عملیہ‬

‫قران‬ ‫ادلہ محرزہ‬


‫سنّت‬
‫عقل‬
‫اجماع‬ ‫عناصر مشترکہ‬

‫احتیاط‬ ‫ادلہ عملیہ‬


‫استحباب‬
‫برات‬
‫تخییر‬
‫چنانچہ معلوم ہوا کے مکلّف کیلئے جو بھی حکم شریعت میں وارد ہوتا ہے وہ اس کے‬
‫وظیفہ عملی کو معین کرتا ہےلیکن شرعی موقف جو شریعت میں بیان ہوا ہے درجہ کے‬
‫اعتبار سے مختلف ہوا کرتا ہے ‪ ،‬کبھی شرعی موقف دلیل محرزہ کے ذریعہ ہوتا ہے اور‬
‫کبھی اصل عملی کے ذریعہ ہوتا ہے ۔‬
‫دلیل محرز کے ذریعہ حکم واقعی کو معلوم کیا جاتا ہے جبکہ اصل عملی کے ذریعہ حکم‬
‫واقعی کشف نہیں ہوا کرتا بلکہ اصل عملی کا کام صرف اور صرف یہ ہوتا ہے کے‬
‫مکلَّف جب شک ع تردید کی حالت میں ہو اسے حکم شرعی کے بارے میں شک ہو تو‬
‫مکلَّف کے عملی وظیفہ کو معیّن کیا جاتا ہے ۔‬
‫مثالً ‪ :‬ہمیں نہیں معلوم کے سگریٹ پینا حرام ہے یا نہیں ؟ مکلَّف حالت شک و تردید میں‬
‫ہے تو اس جگہ پر ’’اصل عملی‘‘ مکلَّف کے وظیفہ کو معیّن کرتی ہے ۔‬
‫خالصہ یہ کہ‪:‬‬
‫شرعی نقطہ نگاہ دو مرحلوں میں معیّن ہوتا ہے ۔‬
‫پھلر مرحلے میں ادلّہ محرزہ کی جانب رجوع کیا جاتا ہے جیسے کتاب و سنّت کی جانب‬
‫رجوع کرنا اور اگر اس مرحلے میں کوئی دلیل ِمحرزہ نہ ہو کے جس سے شرعی نقطہ‬
‫نگاہ کو معیّن کیا جاسے تو‬
‫دوسرے مرحلے میں اصل عملی کی جانب رجوع کیا جائے گا ۔‬
‫یہ ترتّب (پھلے ادلّہ محرزہ پھر اصل عملیہ) فقط اور فقط مقام استدالل میں ہوا کرتا ہے‬
‫یعنی مکلَّف تب تک اصل عملی پر اعتماد نہیں کرسکتا جب تک ادلّہ محرزہ کے بارے‬
‫میں تفحص اور تحقیق نہ کرچکا ہو ‪ ،‬مکلَّف تحقیق کرے اور جب ادلّہ محرزہ کے حاصل‬
‫کرنے سے مایوس ہوجائے تو پھر اصل عملی کی جانب رجوع کرے گا ۔‬
‫یہیں سے معلوم ہوتا ہے ک اگر دلیل محرز اور اصل ِعملی میں تعارض اور ٹکرائو‬
‫ہوجائے تو پھر دلیل محرزہ کو مقدم کیا جائے گا ۔ (کما سیاتی فی بحث تعارض االدلۃ)‬

‫‪۱‬۔ برات‬
‫‪۲‬۔ استصحاب‬
‫اصول عملیہ چار ہیں‬
‫‪۳‬۔ تخییر‬
‫‪۴‬۔ احتیاط‬
‫مصنف نے یہاں (حلقہ اولی) پر دو اصولوں کے بارے میں بحث کی ہے یعنی اصل برات‬
‫اور اصل استصحاب ۔‬
‫مر بمرحلتین االولی ‪ :‬الرجوع الی االدلّۃ المحرزۃ‬‫ان استنباط الحکم الشرعی ی ّ‬ ‫صل ّ‬ ‫’’فتح ّ‬
‫فان وجود دلیالً ید ّل علی الجواز او الحرمۃ عمل بہ و ّاال فینتقل الی المرحلۃ الثانیۃ ‪ :‬وھی‬
‫الرجوع الی االصل العملی‘‘‬
‫تحدید اصل‬
‫اصول عملیہ شرعیہ کے بارے میں بحث کرنے سے پھلے ضروری ہے کے بنیادی قاعدہ‬
‫معیّن کیا جائے مکلّف کو جب بھی حکم شرعی کا علم نہ ہو اور مکلَّف جاھل ہو تو اصل‬
‫ّاولی کیا ہے ؟ اس مقام پر اساسی اور بنیادی قاعدہ کیا ہونا چاھئے ؟‬
‫مثالً مکلَّف کو معلوم نہیں ہے کے سگریٹ پینا حرام ہے یا نہیں ؟ تو اس مقام پر اصل‬
‫ّاولی کیا ہے ؟ بنیادی قاعدہ کیا ہوگا ؟‬
‫سوال ‪:‬اس بنیادی و اساسی قاعدہ کو کون بیان کرے گا ؟‬
‫جواب ‪ :‬یہ بات روشن ہے کے اس قاعدہ ّاولی کو ھماری عقل معیّن کرے گی نہ کے‬
‫شارع اس اساسی قاعدہ کو معیّن کرے گا کیونکہ اگر شارع کہے گا کہ ’’میری اطاعت‘‘‬
‫الزم ہے تو سوال ہوسکتا ہے کہ شارع جو کہہ رھا ہے کے ’’میری اطاعت‘‘ کرو تو کیا‬
‫بذات خود اس امر کی بھی اطاعت کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟‬
‫اگر کہا جائے کے اس ’’امر بالطاعۃ‘‘ کی بھی اطاعت خود شارع کے امر سےواجب ہے‬
‫تو پھر اس امر کے بارے میں بھی یہی سوال ہوگا تا این کہ تسلسل الزم ائے گا ‪ ،‬پس اس‬
‫بنیادی امر کیلئے ہمارے لئے ضروری ہے کے حکم عقل ہو ‪ ،‬پس اس بنیادی قاعدہ کیلئے‬
‫ہمیں عقل سے پوچھنا چاھئے کے عقل کیا کہتی ہے ۔‬
‫اس مقام پر دو مسلک ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ مسلک قبح عقاب بال بیان‬
‫‪۲‬۔ مسلک حق الطاعۃ‬
‫‪:‬‬ ‫توضیح‬
‫اگر عبد کو مولی کی تکلیف کے بارے میں علم(یقین) ہو تو ہماری عقل کہتی ہے کے عبد‬
‫کو وہ تکلیف انجام دینی چاھئے ۔ مثالً ‪ :‬عبد کو یقین ہو کے مولی نے اس پر نماز واجب‬
‫کی ہے تو عبد کو نماز پڑھنی چاھئے ‪ ،‬اب اگر عبد مخالفت کرتا ہے اور نماز نہیں پڑھتا‬
‫تو وہ مستحق عقاب قرار پائے گا‬
‫لیکن اگر کسی حکم کے بارے میں شک ہو ۔ مثالً ‪ :‬عبد کو علم نہیں ہے کہ شرب‬
‫تُتُن(سگریٹ پینا) حرام ہے یا نہینتو اس صورت میں عقل کیا کہتی ہے ؟‬
‫کیا اس مورد میں عبد کو احتیاط کرنا چاھئے یعنی جس چیز کے بارے میں شک ہے کے‬
‫حرام ہے یا نہیں تو اس سے اجتناب کرے اسے انجام نہ دے یا عقل حکم کرتی ہے کے‬
‫عبد ازاد ہے اس کی مرضی اجتناب کرے یا نہیں کرے ‪ ،‬اس کیلئے برات ہے اس کا ذمہ‬
‫بری ہے ۔‬
‫اس سوال کے جواب میں ھمیں یہ دیکھنا پڑے گا کے ’’مولی کی اطاعت کا دائرہ کہاں‬
‫تک ہے‘‘ کیا مولی کی اطاعت کا دائرہ اور حدود فقط احکام یقینی تک ہے یو‬
‫احکام ِمشکوکہ کو بھی شامل ہے یعنی مولی کی اطاعت تقاضا کرتی ہے کے ’’ ایا یہ ہے‬
‫کہ جن احکامات کے بارے میں یقین ہو فقط ان احکام کا امتثال واجب ہے یا نہیں مولی کی‬
‫اطاعت کا تقاضا جس طرح سے یہ ہے کے جن احکامات کا علم ہے ان کا امتثال واجب‬
‫ہے اسی طرح یہ تقاضا بھی ہے کے حتی جن احکامات کے بارے میں شک ہے ان‬
‫احکامات میں بھی مولی کی اطاعت کرنی چاھئے ؟‬
‫اب اگر ہم اس بات کے قائل ہوئے کے مولی کی اطاعت کا دائرہ فقط احکامات معلومہ‬
‫تک ہے تو احکامات مشکوکہ میں برات جاری ہوگی جیسا کے مسلک قبح عقاب بال بیان‬
‫کے ماننے والوں کا یھی موقف ہے ۔ یہ لوگ کہتے ہیں کے مولی کی اطاعت اس وقت‬
‫واجب ہے جب مولی کی تکلیف معلوم ہو اگر معلوم نہیں تو تکلیف بھی نہیں ‪ ،‬مولی اس‬
‫تکلیف مشکوکہ پر عقاب نہیں کرسکتا کیونکہ یہ عقاب بال بیان کے ہوگا جو کے قبیح ہے‬
‫اسی کو ’’برات عقلی‘‘ بھی کہتے ہیں ۔‬
‫جبکہ اس کے مقابلے میں مصنف کا ماننا ہے کے مولویت مولی کا تقاضا یہ ہے کے‬
‫مولی کی اطاعت جس طرح احکام معلومہ میں واجب ہے اسی طرح احکام مشکوکہ میں‬
‫بھی اس کی اطاعت واجب ہے ۔‬
‫نتیج ًۃ قاعدہ ّاولی احتیاط اور اشتغال ہوگا ۔‬
‫سوال ‪ :‬اگر مولی کی اطاعت تکالیف معلومہ اور تکالیف مشکوکہ دونوں مینواجب ہے تو‬
‫پھر تکالیف معلومہ اور تکالیف مشکوکہ میں کیا فرق رہ جائے گا ؟‬
‫جواب ‪ :‬دونوں طرح کی تکالیف میں فرق یہ ہوگا کے مولی تکالیف معلومہ کے برخالف‬
‫ترخیص اور اذن نہیں دے سکتا یعنی مولی نہیں کہہ سکتا کے جس تکلیف کا علم ہے اس‬
‫کی اطاعت بیشک نہ کرو کیونکہ ہم پھلے بیان کرچکے ہیں کے علم اور یقین کی حجیّۃ‬
‫ذاتی ہے جبکہ تکالیف مشکوکہ کے خالف شارع اذن اور ترخیص دے سکتا ہے یعنی‬
‫ہماری عقل کہتی ہے تکالیف مشکوکہ میں احتیاط تب تک ضروری ہے جب تکشارع خود‬
‫سے نہ کہے کے احتیاط واجب نہیں ہے ‪ ،‬اگر شارع نے خود سے کہہ دیا کے احتیاط‬
‫واجب نہیں تو پھر احتیاط واجب نہیں ہوگی ۔‬
‫مسلک قبح عقاب بال بیان کی دلیل اور مناقشہ‬
‫مشھور کا ماننا ہے کے مولی کی تکلیف تبھی واجب ہے جب اس کا علم ہو ‪ ،‬باقی شک‬
‫کی صورت میں برات ہے ۔ دلیل سیرۃ عقالء ہے کہ تمام عقالء کا ماننا ہے کے اگر ایک‬
‫عرفی مولی اپنے خادم کو کوئی حکم کرے لیکن خادم کو اس حکم کا علم نہ ہو بلکہ شک‬
‫ہو ‪ ،‬تو تمام عقالء یہی کہتے ہیں اس خادم پر اس حکم کی تکمیل کرنا واجب نہیں ہے اور‬
‫مولی بھی اپنے خادم سے بازپرس نہیں کرسکتا ہے کے تم نے (خادم نے) اس حکم کی‬
‫تعمیل کیوں نہیں کی ؟ یہاں سے معلوم ہوا سیرۃ عقالئیہ یہی ہے کے احکام ِمشکوکہ میں‬
‫اطاعت واجب نہیں ہے ۔‬
‫مناقشہ‬
‫ّاوالً ‪ :‬صحت عقاب اور عدم صحت کیلئے ضروری ہے پھلے مرحلے میں ’’دائرہ حق‬
‫مولویت‘‘مشخص کریں ۔ ہم نے بیان کیا کے مولی جو کے معین ہے وہ بھی اصول‬
‫نِ َعم(بنیادی ترین نعمتوں) کا ‪ ،‬تو اس کی مولویت کا تقاضا یہی ہے جھاں پر اس مولی کی‬
‫مخالفت کا شائبہ تک ہو تو اس سے بچنا چاھئے پس تکالیف مشکوکہ بھی دائرہ اطاعت‬
‫میں اتا ہے پس بازپرس درست ہوگی اگر مخالفت کی تو ۔‬
‫ثانیا ً ‪ :‬عام مولی کی اطاعت کا دائرہ اور مولی حقیقی کی اطاعت کے دائرہ میں فرق ہے ۔‬
‫ہوسکتا ہے کے عرفی مولی کی اطاعت کا دائرہ فقط تکالیف معلومہ تک محدود ہو لیکن‬
‫حقیقی مولی (جس نے ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے ‪ ،‬وجود جیسی نعمت دی اور‬
‫بقاء کیلئے جس چیز کی ضرورت تھی وہ عطا کی) کی اطاعت کے دائرہ کا قیاس عام‬
‫مولی سے نہیں کیا جاسکتا ۔‬
‫اصطالحا ً کہتے ہیں کے یہ قیاس مع الفارق ہے ۔‬
‫فتلخص ‪ّ :‬‬
‫ان القاعدہ االساسیۃ بناء علی مسلک قبح العقاب بال بیان برائۃ و علی مسلک حق‬
‫الطاعۃ احتیاط و اشتغال کما ھی المختار المصنف ۔‬

‫درس ‪۲۴‬‬
‫‪۲‬۔ القاعدۃ العملیۃ الثانویۃ‬
‫(البرات شرعیۃ)‬
‫ہم نے بیان کیا کے حق الطاعۃ مے مطابق قنقن ّاولی احتیاط ہے البتہ اس شرط کے ساتھ‬
‫کے مولی اس احتیاط کے خالف خود سے ترخیص نہ دے ‪ ،‬اگر مولی ترخیص دے گا تو‬
‫پھر احتیاط واجب نہیں ہوگا ۔‬
‫سوال ‪:‬کیا احتیاط کے خالف مولی نے ترخیص دی ہے یا نہیں ؟‬
‫جواب ‪ :‬ہمیں ادلّہ شرعی سے پتہ چلتا ہے کے تکالیف مشکوکہ میں شارع نے خود‬
‫ترخیص دی ہے یعنی خود کہا ہے کے احتیاط واجب نہیں ہے پس اس اعتبارسے قاعدہ‬
‫ثانویہ برات ہوگا البتہ یہ برات شرعی ہوگی ۔‬
‫نکتہ ‪ :‬اگر برات پر دلیل عقلی ہو تو برات عقلی اور اگر دلیل شرعی ہو تو برات شرعی‬
‫ہوگی ۔‬
‫دالئل برات شرعی‬
‫پھلی دلیل‪:‬‬
‫یبوی مشھور ’’ رفع عن امتی ما ال یعلمون‘‘‬
‫یعنی میری امت سے اس تکلیف کو اٹھالیا گیا ہے جس کا انہیں علم نہ ہو ۔‬
‫یہ حدیث واضح ہے کے تکالیف مشکوکہ مرفوع (اٹھائی گئیں) ہیں ۔‬
‫دوسری دلیل‪:‬‬
‫’’و ما کنّا معذبین حت ّی نبعث رسوالً‘‘‬
‫یعنی ہم تب تک عذاب نہیں کرتے جب تک رسول نہ بھیج دیں ۔‬
‫تقریب استدالل‪:‬‬
‫اس ایت میں رسول مثال کے عنوان سے ہے یعنی ہم جب تک’’ ح ّجت تمام نہ کرلیں‘‘ یا‬
‫’’بیان‘‘ نہ بھیج دیں تب تک عذاب نہیں کرتے جبکہ ہمیں معلوم ہے کے تکالیف مشکوکہ‬
‫میں ’’بیان‘‘ نہیں ایا پس ان کی مخالفت پر عقاب نہیں ہوگا یعنی برات ذمہ ہے ۔‬
‫مشمولیت اصالیت البرات‬
‫اصالت برات میں شمولیت اور عموم پایا جاتا ہے اس نکتہ کی وضاحت سے پھلے چند‬
‫اصطالحات کی وضاحت ضروری ہے ۔‬
‫‪۱‬۔ شبھہ وجوبیہ ‪:‬‬
‫اگر ہمیں شک ہو کے یہ چیز واجب ہے یا نہیں تو یہ ’’شبھہ وجوبیہ‘‘ کہالئے گا ۔‬
‫‪۲‬۔ شبھہ تحریمیہ ‪:‬‬
‫اگر ہمیں شک ہو کے یہ چیز حرام ہے یا نہیں تو یہ ’’شبھہ تحریمیہ‘‘ کہالئے گا ۔‬
‫‪۳‬۔ شبھہ حکمیہ‪:‬‬
‫اگر ہمیں بذات خود حکم میں شک ہو تو یہ ’’شبھہ حکمیہ‘‘ کہالئے گا ۔‬
‫‪۴‬۔ شبھہ موضوعیہ‪:‬‬
‫اگر ہمیں اصل حکم کے بارے میں شک نہ ہو بلکہ شک ہو کے اس حکم کا موضوع‬
‫متحقق ہوا ہے یا نہیں ۔ مثالً ہمیں معلوم ہے کے حج مستطیع پر واجب ہے اصل حکم‬
‫معلوم ہے لیکن شک ہو رھا ہے کے مستطیع محقق ہوا ہے یا نہیں ؟‬
‫پس شبھہ حکمیہ میں اصل جعل شارع مشکوک ہوتا ہے لیکن‬
‫شبھی موضوعیہ میں حکم مجعول مشکوک ہے کیونکہ جیسا کے پھلے بیان ہوا کے جب‬
‫تک موضوع محرز نہیں ہوگا حکم فعلی نہیں ہوگا ۔‬
‫اشارۃ ً ‪ :‬شبھہ حکمیہ اسلئے پیش اتا ہے ہے یھاں بیان شارع واضح نہیں ہوتا لیکن شبھہ‬
‫موضوعیہ اسلئے پیش اتا ہے لے موضوع حکم کا تحقق یقینی نہیں ہوتا ۔‬
‫اصل بحث کی جانب بازگشت‪:‬‬
‫اصل برات شرعی مذکورہ تمام مورد میں جاری ہوگا چاھے شبھہ حکمیہ ہو یا شبھہ‬
‫موضوعیہ ہو یا شبھہ وجوبیہ ہو یا چاھے شبھہ تحریمیہ ہو ۔‬
‫ان البراۃ الشرعیۃ تجری مطلقا ً سواء کانت الشبھہ حکمی ًۃ او موضوعی ًۃ او وجوبی ًۃ‬‫فتلخص ّ‬
‫او تحریمی ًۃ‬
‫اشارۃ ً ‪ّ :‬‬
‫ان کان الشک فی الوجوب و عدمہ فالشبھۃ وجوبیۃ و ان کا الشک فی التحریم و‬
‫عدمہ فالشبھۃ تحریمیۃ و ان کا الشک فی اصل الجعل فاشبھۃ حکمیۃ و ان کان الشک فی‬
‫المجعول فالشبھۃ موضوعیۃ ۔‬

‫درس ‪۲۵‬‬
‫‪۳‬۔ قاعدۃ منجزیۃ العلم االجمالی‬
‫( ‪)۱‬‬
‫یہ بحث بھی ایک طرح سے گذشتہ مباحث سے مربوط ہے ‪ ،‬اصولی حضرات اس بحث‬
‫کو ’’علم اجمالی‘‘کا نام دیتے ہیں یا اگر مصنف کے الفاظ میں کہا جائے تو ’’من ّجزیت علم‬
‫اجمالی‘‘ سے موسوم ہوگا ۔‬
‫اس بحث کو سمجھنے کیلئے مندرجہ ذیل معروضات پر توجہ کریں ۔‬
‫جب بھی کوئی مکلَّف کسی حکم شرعی سے مواجھہ ہوتا ہے تو تین حالتوں سے خالی‬
‫نہیں ہوگا ‪:‬‬
‫‪۱‬۔ مکلَّف کو اس حکم شرعی کے بارے میں علم تفصیلی ہوگا ۔ مثالً مکلَّف کو علم‬
‫غیبت کے زمانے میں بھی خمس واجب ہے (یہ علم تفصیلی ح ّجت ہے)‬ ‫تفصیلی ہے کہ َ‬
‫اور مکلَّف کو خمس اداد کرنا ہوگا کیونکہ ہم بیان کرچکے ہیں کے علم اور قطع کی‬
‫حجیّت ذاتی ہے ۔‬
‫‪۲‬۔ مکلَّف کو اس حکم شرعی کے بارے میں شک ہو یعنی مکلَّف اصل جعل شارع کے‬
‫غیبت کے زمانے میں نماز عید واجب‬ ‫ک ہے ۔ مثالً مکلّف نہیں جانتا کے َ‬
‫بارے میں شا ّ‬
‫ہے یا نہیں ۔ اس طرح کے شک کو’’ شک بدوی ‘‘ کہتے ہیں ۔‬
‫کیونکہ یہ فقط شک ہے علم سے مقرون نہیں ہے ۔ ہم بیان کرچکے ہیں اس حالت میں‬
‫برات شرعی جاری ہوگییعنی قاعدہ ثانویہ کا مورد ہوگا ۔‬
‫‪۳‬۔ اس حالت میں گذشتہ دونوں حالتیں پائی جاتی ہیں یعنی ایک جھت سے علم بھی ہے‬
‫اور دوسری جھت سے شک بھی ہے ‪ ،‬اس لحاظ سے یہ تیسری صورت من جھۃ علم‬
‫تفصیلی ہے اور من جھۃ شک بدوی ہے اس حالت کو ’’علم اجمالی‘‘ کہتے ہیں ۔‬
‫مثالً ‪ :‬مکلَّف کو علم ہے کہ روز جمعہ زوال کے وقت ایک نماز اس کے ذمہ ہے وہ نماز‬
‫یا ظہر ہے یا جمعہ (یہ یقین ہے کے اس وقت ایک نماز اس کے ذمہ ہے نہ کے دونوں‬
‫نمازیں) لیکن یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ نماز ِظہر ہے یا نماز جمعہ ۔ اپ نے مالحظہ کیا‬
‫مکلَّف کو اس حلت میں من جھۃ علم ہے کیونکہ جانتا ہے اصل وجوب صالۃ اس کے ذمہ‬
‫ہے اور من جھۃ شک ہے کیونکہ نہیں جانتا وہ نماز کونسی ہے ظہر ہے یا جمعہ ۔‬
‫ہماری بحث اس تیسری حالت میں ہے کیونکہ پھلی حالت علم تفصیلی ہے جو کے ح ّجت‬
‫ہے بالشبھہ اور دوسری حالت شک بدوی والی حالت ہے جو کے قاعدہ ثانویہ کا مورد‬
‫ہے اور برات شرعی جاری ہوگی ۔‬
‫یہ تیسری حالت علم اجمالی والی ہے ۔ علم اجمالی میں جس جھت سے علم ہے اسے‬
‫’’علم بالجامع‘‘ کہیں گے ۔‬
‫علم اجمالی کو اگر بیان کیا جائے تو اس طرح کہیں گے یا نماز ظہر واجب ہے یا نماز‬
‫جمعہ واجب ہے ‪ ،‬مطلب ’’یا‘‘ ’’یا‘‘ کے ساتھ بیان کریں گے ۔‬
‫علم اجمالی میں شبھہ مصداقیہ کی مثال‪:‬‬
‫گذشتہ مثالوں میں ہم نے شبھہ حکمیہ کی مثالیں پیش کی ہیں ایک مثال علم اجمالی میں‬
‫ژبھہ مصداقیہ میں بھی ذکر کرتے ہیں ۔ مثالً ‪ :‬کسی کے سامنے دو گالس پانی کے‬
‫رکھے ہوئے ہیں اور اسے یقین ہو کے دونوں میں سے کسی ایک گالس میں خون کا‬
‫قطرہ گرا ہے لیکن اسے معلوم نہ ہو کے وہ گالس کونسا ہے تو اس صورت میں علم‬
‫اجمالی ہوگا کے کوئی ایک گالس تو نجس ہے لیکن یہ پتہ نہیں کے وہ کونسا ہے ۔‬
‫علم اجمالی کی حقیقت واضھ ہونے کے بعد اصل سوال یہ ہے‪:‬‬
‫علم اجمالی کیا شک بدوی کی طرح ہے یعنی اس کے اطراف میں برات شرعی جاری‬
‫ہوگی یا علم تفصیلی کی طرح ہے یعنی اس کے اطراف ح ّجت ہوں گے اور ہم احتیاط‬
‫کریں گے ۔‬
‫دوسرے الفاظ میں یوں کہیں‪:‬‬
‫علم اجمالی کے اطراف میں برات جاری ہوگی یا نہ ؟ اسی سوال کا جواب یہ بحث ہے‬
‫’’من ّجزیّت علم اجمالی‘‘ ۔‬
‫ان العلم االجمالی علم من جھۃ و شک من جھۃ و ان شئت قلت ’’ العلم‬ ‫فتلخص الی ھنا ّ‬
‫االجمالی ھو الذی حق بالشبھات ‘‘ او فقل ‪ :‬العلم االجمالی ھو العلم بالجامع ۔‬
‫من ّجزیّت علم اجمالی‬
‫من ّجزیّت علم اجمالی میں دو حیثیّتیں پائی جاتی ہیں‪:‬‬
‫(الف) علم بالجامع (ب) علم اجمالی کے اطراف کے مطابق شک‬
‫(الف) علم بالجامع‪:‬‬

‫اس میں کوئی شک نہیں ہے کے علم بالجامع ح ّجت ہے اور من ّجز ہے کیانکہ اصل جامع‬
‫کے علم ہونے میں تو کوئی شک نہیں ہے پس اس جھت سے ح ّجت اور من ّجز ہوگا کیونکہ‬
‫علم کی حجیّت ذاتی ہے لھذا علم اجمالی میں ہم دونوں طرفوں کو ترک نہیں کرسکتے‬
‫(مثالً گذشتہ مثال میں) ہم نہ نماز ظہر ادا کریں نہ ہی نماز جمعہ ادا کریں ‪ ،‬یہ صحیح‬
‫نہیں ہوگا کیونکہ دونوں نمازوں کو چھوڑ دینا یعنی اصل علم کی مخالفت کرنا ہے اسلئے‬
‫کہ اصل نماز کا تو باالخر علم پایا جاتا ہے ۔‬
‫نتیج ًۃ ‪’’ :‬ہم کہہ سکتے ہیں اس اعتبار سے علم تفصیلی اور علم ِاجمالی میں کوئی فرق‬
‫نہیں ہوگا‘‘ ۔‬
‫نکتہ‪:‬‬
‫علم اجمالی کے تمام اطراف کی مخالفت کو ’’مخالفت قطعیہ‘‘ کہتے ہیں‬
‫اور تمام اطراف کی موافقت کو ’’موافقت قطعیہ‘‘ کہتے ہیں‬
‫اور بعض اطراف کی مخالفت اور بعض اطراف کی موافقت کو ’’مخالفت احتمالیہ اور‬
‫موافقت احتمالیہ‘‘ کہتے ہیں ۔‬
‫مثالً ‪:‬گذشتہ مورد میں اگر دونوں نمازیں ترک کرے تو ’’مخالفت قطعیہ‘‘ ہوگی اور اگر‬
‫دونوں نمازیں ادا کرے تو ’’موافقت قطعیہ‘‘ ہوگی اور اگر ایک نماز چھوڑ دے اور ایک‬
‫نماز ادا کرے تو ’’مخالفت احتمالیہ اور موافقت احتمالیہ‘‘ ہوگی ۔‬
‫(ب) علم اجمالی کے اطراف کے مطابق شک‪:‬‬
‫علم اجمالی کے اطراف کے مطابق جو شک پایا جاتا ہے وہ شک ِبدوی کی طرح نہیں ہے‬
‫یعنی اطراف علم اجمالی میں ہم قاعدہ ثانویہ یعنی برات جاری نہیں کرسکتے کیونکہ اس‬
‫کی دو صورتیں ہیں‪:‬‬
‫پھلی صورت‪:‬‬
‫ہم اس بات کے قائل ہوجائیں کے تمام اطراف علم اجمالی میں برات جاری کریں کیونکہ‬
‫اگر فقط نماز ظہر کو دیکھیں تو وہ مشکوک ہے لھذا برات جاری کریں اور اسی طرح‬
‫فقط نماز جمعہ کو دیکھیں تو وہ بھی مشکوک ہے لھذا یہاں بھی برات جاری کریں ۔‬
‫نتیج ًۃ تمام اطراف علم اجمالی میں برات جاری ہوجائے گی لیکن اس بات کو مشھور‬
‫اصولی نہیں مانتے کیونکہ علم اجمالی کے تمام اطراف میں اگر برات جارئ کی جائے‬
‫گی تو مخالفت قطعیہ الزم ائے گیاور ہم پہلی حیثیت میں بیان کرچکے ہیں کے علم اجمالی‬
‫’’علم بالجامع‘‘ کے لحاظ سے علم تفصیلی کی طرح ہے ‪ ،‬جیسے شارع علم تفصیلی کے‬
‫خالف ترخیص اور اجازت نہیں دے سکتا اسی طرح علم اجمالی میں بھی مخالفت قطعیہ‬
‫کے بارے میں بھی ترخیص اور اجازت نہیں دے سکتا پس تمام اطراف علم اجمالی میں‬
‫برات جاری نہیں ہوسکتی ۔‬
‫دوسری صورت‪:‬‬
‫ہم تمام اطراف میں برات جاری نہیں کرتے ورنہ مخالفت قطعیہ ہوگی لیکن بعض اطراف‬
‫میں تو برات جاری کرسکتے ہیں ۔ مثالً ‪ :‬نماز ظہر کو چھوڑ دیں فقط نماز جمعہ ادا کریں‬
‫۔‬
‫اس صورت میں مخالفت قطعیہ تو الزم نہیں ائے گی لیکن ایک اور مشکل ہے وہ مشکل‬
‫یہ ہے کے اس صورت میں ترجیح بال مرجح الزم ائے گی جو کے یا محال ہے یا ح ِدّ اقل‬
‫لغو اور عبث ہے کیونکہ جب اپ کسی بھی ایک طرف میں برات جاری کریں گے تو اپ‬
‫سے سوال ہوگا کہ کس طرف میں برات جاری کریں گے ؟ اگر اپ کہیں مثالً ’’الف‘‘ میں‬
‫تو ہم کہیں گے ’’ب‘‘ میں جاری کیوں نہیں کی ؟‬
‫اور اگر اپ کہیں مثالً ’’ب‘‘ میں برات جاری کی ہے تو ہم کہیں گے ’’الف‘‘ میں جاری‬
‫کیوں نہیں کی ؟‬
‫اسی طرح کسی بھی ایک طرف میں برات جاری کرنے سے ترجیح بال مرجح الزم ائے‬
‫گی ‪ ،‬پس دوسری صورت میں بھی غیر گعقول ہوئی لھذا علم اجمالی کے اطراف میں‬
‫برات جاری نہیں ہوسکے گی اور موافقت قطعیہ واجب ہوجائے گی ‪ ،‬اب جبکہ اطراف‬
‫علم اجمالی میں برات جاری کرنا جائز نہیں تو احتیاط کرنا الزم ہوگی اور اسی کو کہتے‬
‫ہیں ’’علم اجمالی من ّجز‘‘ہے ۔‬
‫ان الشک البدوی یکون موردا ً لجریان البراۃ الشرعیۃ و ا ّما الشک المقرون بالعلم‬ ‫فتلخص ّ‬
‫االجمالی فال یکون مشموالً للقاعدۃ الثانویۃ ای البراۃ الشرعیۃ بس مشموالً للقاعدۃ االساسیۃ‬
‫االولیۃ ای االحتیاط و االشتغال دفعا ً للمخالفۃ القاطعیۃ و الترجیح بال مرجح ۔ اذن یجب علی‬
‫المکلَّف االتیان بجمیع اطراف العلم االجمالی ای الموافقۃ القطعیۃ ۔‬
‫درس ‪۲۶‬‬
‫‪۳‬۔ قاعدۃ منجزیّۃ العلم اإلجمالی‬
‫( ‪)۲‬‬
‫انحالل العلم اإلجمالی‬
‫کبھی کبھار علم اجمالی منحل ہوجاتا ہے یعنی علم اجمالی ختم ہوجاتا ہے اور اس کی جگہ‬
‫پر علم تفصیلی اور شک بدوی پیدا ہوجاتا ہے ۔‬
‫اس انحالل کے مختلف طریقے ہیں کبھی انحالل حقیقی ہے کبھی انحالل حکمی ہے اور‬
‫کبھی انحالل تعبدی ہے ‪ ،‬ہم یہاں صرف ایک سادہ سی شکل کو ذکر کرتے ہیں باقی‬
‫اصلی اور پیچیدہ اقسام حلقہ ثانی اور ثالث میں بیان ہوں گے ۔‬
‫بیان ذالک‪:‬‬
‫مثالً کسی شخص کے سامنے دو گالس پانی کے موجود ہیں دونوں پانی سے پُر ہیں اس‬
‫شخص کو یقین ے کے دونوں میں سے ایک نجس ہے لیکن یہ نہیں جانتا کے کون سا‬
‫نجس ہے پس یہاں ایک علم بالجامع اور اطراف مشکوکہ پئے جاتے ہیں ۔‬
‫منجزیت علم اجمالی کے مطابق دونوں اطراف میں احتیاط عقلی جاری ہوگا نتیج ًۃ اس‬
‫دونوں گالسوں کے پانی کو استعمال نہیں کرسکتے نہ پینے کیلئے اور نہ ہی وضو کرنے‬
‫کیلئے مثالً ۔‬
‫لیکن اس صورت میں اگر مکلّف کو علم حاصل ہوجائے کے یہ گالس نجس ہے ی دو عادل‬
‫شاھد گواھی دیں کے یہ گالس نجس ہے تو اب ایک علم تفصیلی اور شک بدوی پیدا‬
‫ہوجائے گا کہ کیا نجس ہے یا نہیں ؟‬
‫خالص ًۃ ‪ :‬علم اجمالی ختم ہوگیا اور اس کی جگہ علم تفصیلی اور شک بدوی نے لے لی اس‬
‫کو ’’انحالل علم اجمالی‘‘ کہتے ہیں واضح ہے کہ ‪ :‬علم تفصیلی ح ّجت اور من ّجز ہوگا اور‬
‫شک بدوی میں برات جاری کریں گے ۔‬

‫فتلخص من جمیع ما ذکرناہ ‪ّ ،‬‬


‫ان العلم االجمالی قد یدخل الی علم تفصیلی و شک بدوی فإذن‬
‫ال تجری حینئذ ھنا تلک الصیغۃ اللغویۃ التی ذکرناھا کضابطۃ تعبّر عن العلم االجمالی و ھی‬
‫قولنا ’’ ا ّما و ا ّما ‘‘۔‬
‫موارد التردید‬
‫گزشتہ موارد سے روشن ہوا کے اگر شک بدوی ہو تو قاعدہ ثانویہ (برات شرعی) کا‬
‫مورد ہوگا اور اگر شک مقرون بعلم اجمالی ہو (یعنی شک علم اجمالی سے مال ہوا ہو) تو‬
‫قاعدہ ّاولیہ اساسیہ (احتیاط اور اشتغال) کا مورد ہوگا لیکن بعض موارد میں اجمال پایا جاتا‬
‫ہے ۔ ہمیں نہیں معلوم کے کیا شک بدوی کا مورد ہے یا علم اجمالی کا مورد ہے ؟‬
‫علماء اصول ان وارد تردید کو بیان کرتے ہیں ہم یہاں پر ایک مورد کی طرف اشارہ‬
‫کرتے ہیں البتہ اس حلقہ کے مطابق ۔‬
‫توضیح‪:‬‬
‫شارع نے نماز کو واجب قرار دیا ہے اور نماز مختلف اجزاء سے مرکب ہے (نیّت سے‬
‫لے کر سالم تک اجزاء نماز ہیں) اب اگر فرض کریں ایک شخص کو علم ہے کے نماز‬
‫واجب ہے یہ بھی پتہ ہے کے مثالً نویں(‪ )۹‬اجزاء قطع ٍا نماز میں شامل ہیں لیکن دسویں‬
‫(‪ )۱۰‬جزء کے بارے میں شک ہے کے نماز کا حصہ ہے یا نہیں تو اس مورد میں دسویں‬
‫جزء میں اجمال اور تردید ہوگی کہ کیا یہ جزء شک بدوی کے ساتھ ملحق ہے تاکہ برات‬
‫جاری کریں یا یہ جزء شک مقرون بعلم اجمالی ہے تاکہ احتیاط کریں ۔‬
‫یہاں پر تردید ہے کے دسویں جزء میں علم اجمالی کے قواعد جاری کریں یا شک بدوی‬
‫والے احکام جاری ہوں گے ۔‬
‫علماء اصول اس بحث کو ’’دَوران بین اقل و اکثر‘‘ کے نام سے بیان کرتے ہیں کیونکہ‬
‫یہاں پر اق ّل مثالً نو (‪ )۹‬اجزاء والی نماز ہمارے زمہ ہے اور دسویں (‪ )۱۰‬جزء کے‬
‫ال دس (‪ )۱۰‬اجزاء والی نماز ھمارے‬ ‫بارے میں برات جاری کریں گے ‪ ،‬یا نہیں اکثر مث ٍ‬
‫ذمہ ہے اکثر ہی کو انجام دینا ہوگا ۔ اصولیاں کے اس مقام پر دو قول ہیں‪:‬‬
‫پھال قول‪:‬‬
‫بعض اصولی کہتے ہیں یہ علم اجمالی کا مورد ہے اور مکلَّف برات جاری نہیں کرسکتا‬
‫بلکہ اسے احتیاط کرنی ہوگی یعنی اسے دس اجزاء والی نماز پڑھنے ہوگی کیونکہ‬
‫مکلَّف کو خود نماز کا علم ہے ۔ شک نو(‪ )۹‬اور دس (‪ )۱۰‬اجزا‪ ۴‬کے بارے میں ہے پس‬
‫ایک علم بالجامع ہے اور اطراف مشکوکہ ہیں ۔ نتیج ًۃ علم اجمالی پایا جائے گا ۔‬
‫دوسرا قول‪:‬‬
‫یہ علم اجمالی کا مورد نہیں ہے کیونکہ یہ بات درست ہے کے اصل نماز کے وجوب کا‬
‫علم ہے اور شک نو (‪ )۹‬یا دس (‪ )۱۰‬اجزاء کے بارے میں ہے نتیج ٍۃ علم ِاجمالی درست‬
‫ہوجائے گا لیکن یہ علم اجمالی منحل(ختم) ہوجاتا ہے علم ِتفصیلی اور شک بدوی کی‬
‫طرف وہ اس طرح سے کہ‪:‬‬
‫نو(‪ )۹‬اجزاء کے بارے میں علم تفصیلی ہے کیونکہ اگر نماز حقیقت میں نو (‪ )۹‬اجزاء‬
‫سے مرکب ہے تو واضح ہے کے نو (‪ )۹‬اجزاء واجب ہیں اور اگر نماز حقیقت میں دس‬
‫(‪ )۱۰‬اجزاء سے مرکب ہے تو بھی دس (‪ )۱۰‬کے ضمن میں نو (‪ )۹‬تو واجب ہوں گے‬
‫ہی ہوں گے ‪ ،‬پس نو (‪ )۹‬اجزاء کا تفصیلی علم ہے باقی رہ گیا دسواں (‪ )۱۰‬جزء تو اس‬
‫میں شک بدوی ہوگا ‪ ،‬چنانچہ اپ کو پتہ ہے کے اگر علم اجمالی علم تفصیلی اور شک‬
‫بدوی کی جانب منحل ہوجائے تو علم اجمالی کے قواعد جاری نہیں ہوں گے بلکہ علم‬
‫تفصیلی من ّجز ہوگا اور شک بدوی میں برات جاری ہوگی ۔ پس دسویں جزء کے بارے‬
‫میں برات جاری ہوگی اور مکلَّف کے ذمہ نو (‪ )۹‬اجزاء والی نماز واجب ہوگی ۔‬

‫مصنّف نے اسی قول کو پسند کیا ہے اور یہی ان کا مختار ہے (تفصیلی مطالب حلقہ ائندہ‬
‫میں بیان ہوں گے) ۔‬
‫ذرا سی تفصیل‪:‬‬
‫مذکورہ مطالب کو تھوڑی سی تفصیل سے بیان کرتے ہیں ۔‬
‫علم اجمالی میں اطراف مشکوکہ یا متباین چیزیں ہیں یا اق ّل و اکثر ہیں اور اگر اطراف‬
‫مشکوکہ کے اق ّل و اکثر ہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ یا اقل و اکثر ارتباطی ہیں ‪۲‬۔ یا اقل و اکثر استقاللی ہیں‬
‫بیان ذالک‪:‬‬
‫‪۱‬۔ دَوران بین المتباینین ‪:‬‬
‫ہمیں ایک جامع کا علم ہے لیکن اطراف مشکوکہ ہیں البتہ دونوں طرف مستقل و جداگانہ‬
‫چیزیں ہیں ۔ مثالً ‪ :‬مجھے یقین ہے کے میرے ذمہ پر ایک چیز واجب ہے لیکن نہیں‬
‫معلوم وہ کیا ہے ؟ یا قضاء نماز واجب ہے یا روزا واجب ہے ۔‬
‫اس مورد میں اطراف علم اجمالی مستقل اور جدا جدا ہیں اسے کہتے ہیں ’’دَوران بین‬
‫المتباینین‘‘۔‬
‫‪۲‬۔ دَوران بین اق ّل و اکثر استقاللی ‪:‬‬
‫مجھے معلوم ہے کے میرے ذمہ کچھہ واجبات ہیں اور وہ واجبات بھی مستقل ہیں یعنی‬
‫علیحدہ علیحدہ ہیں لیکن اس بات میں شک ہے کے وہ دس واجبات ہیں یا نو واجبات ہیں‬
‫اسے کہتے ہیں ’’اق ّل و اکثر استقاللی‘‘۔‬
‫‪۳‬۔ دَوران بین اق ّل و اکثر ارتبطی ‪:‬‬
‫مجھے معلوم ہے کے کوئی چیز میرے ذمہ ہے لیکن اس کے اجزاء کتنے ہیں یہ مشکوک‬
‫ہے ۔ شاید وہ واجب دس اجزاء پر مشتمل ہے یا تو نو اجزاء پر مشتمل ہے چنانچہ اپ‬
‫مالحظہ فرما رھے ہیں کے یہ اجزاء اپس میں مرتبط ہیں ‪ ،‬یہ اجزاء مل کر ایک واجب‬
‫مرکب کو تشکیل دے رھے ہیں اس کو کہتے ہیں ’’اق ّل و اکثر ارتباطی‘‘ ۔‬
‫اور ھماری بحچ بھی اسی مورد میں تھی کیونکہ اقل و اکثر استقاللی میں تمام اصولی قائل‬
‫ہیں کے علم اجمالی منحل ہوجاتا ہے ۔ علم تفصیلی اور شک بدوی کی جانب لیکن اقل و‬
‫اکثر ارتباطی میں اختالف ہے جیسا کے بیان ہوا ہے اس مورد میں دو قول ہیں ۔‬
‫شھید صدر یہاں پر بھی قائل ہیں کے علم اجمالی منحل ہوجاتا ہے ۔‬
‫ان الشک االبتدائی مجری للقاعدۃ العملیۃ الثانویۃ ای البراۃ الشرعیۃ و ّ‬
‫ان الشک‬ ‫فتلخص ‪ّ :‬‬
‫الناتج عن العلم االجمالی مجری للقاعدۃ العملیۃ االساسیۃ ای االحتیاط و لکن ھناک بعض‬
‫الصور الّتی یخفی فیھا نوع الشک فال یعلم اھو شک بدوی او شک مقرون بالعلم االجمالی‬
‫و منھا ‪ :‬دَوران االمر بین االقل و االکثر االرتباطین ۔‬
‫درس ‪۲۷‬‬
‫‪۴‬۔ قاعدۃ االستصحاب‬
‫علم اصول میں ’’استصحاب‘‘ ایک نھایت ہی اہم بحث ہے کیونکہ اصول عملیہ میں سے یہ‬
‫’’اصل‘‘ بھت زیادہ استنباط حکم شرعی میں کارگر ہے لھذا اصولیوں نے اس کے بارے‬
‫صل مناحث رحریر کئے ہیں ۔ ہم حلقہ اولی کی ظرفیت کو مد نظر رکھتے ہوئے‬ ‫میں مف ّ‬
‫صرف ابتدائی مباحث کو بیان کریں گے تفاصیل ان شاء ہللا حلقات ائندہ میں بیان ہوں گی ۔‬
‫تعریف استصحاب‪:‬‬
‫’’ابقاء ما کان ‘‘ یعنی ’’جو چیز تھی اسے ہی باقی رکھنا ‘‘‬
‫استصحاب کی جامع تعریف یھی ہے جو ہم نے ذکر کی ہے اس کی وضاحت کیلئے‬
‫مندرجہ ذیل مثالوں پر توجہ کرین ۔‬
‫فرض کیجئے مجھے یقین ہے کے نماز جمعہ ائمہ کے زمانے میں واجب تھی لیکن اب‬
‫شک ہو رھا ہے کے کیا یہ نماز َ‬
‫غیبت کے زمانے میں بھی واجب ہے یا نہیں ہے ؟ تو‬
‫اس جگہ پر ہم اسی حکم کو باقی رکھیں گے جس کے بارے میں یقین تھا یعنی اب بھی‬
‫واجب ہے ۔‬
‫یا دوسری مثال‪:‬‬
‫مجھے یقین تھا کے پیش نماز پھلے تو عادل تھا لیکن اب شک ہو رھا ہے کے کہیں یہ‬
‫فاسق تو نہیں ہوگیا تو یہاں پر بھی اسی یقینی حکم کو باقی رکھیں گے یعنی ہم سمجھیں‬
‫گے کے اب بھی عادل ہے ۔‬
‫مذکورہ دونوں مثالوں میں توجہ کریں تو معلوم ہوگا کہ‪:‬‬
‫ہمیں ایک حکم (وجوب نماز جمعہ) یا مصداق (عدالت پیش نماز) کے بارے میں یقین تھا‬
‫اور بعد میں شک ہوتا ہے کے کہیں وہ حکم یا مصداق ختم تو نہیں ہوگیا ۔ اس حالت میں‬
‫ھماری ذمیداری ہے کے یقین سابق کے حکم کے مطابق ہی عمل کریں یعنی اب بھی‬
‫عاس حکم کو باقی رکھیں یا موضوع کو ویسا ہی سمجھیں مثالً اب بھی پیش نماز عادل‬
‫سمجھیں ۔‬
‫سوال ‪ :‬اگر پھلے یقین کے بعد شک ہوگیا تو یقین خود بخود ختم ہوجائے گا یقین سابق کو‬
‫باقی رکھنا تو ھمارے اختیار میں ہی نہیں کیونکہ یقین اور شک جمع نہیں ہوسکتے تو اس‬
‫صورت میں یقین سابق کو باقی رکھنا کیوں کر ممکن ہوگا ؟‬
‫جواب ‪ :‬یہ بات بلکل درست ہے کے یقین سابق کو حقیق ًۃ باقی رکھنا ہمارے اختیار میں‬
‫نہیں ہے جب شک ائے گا تو بیشک یقین چال جائے گا لیکن استصحاب میں ہم یہ نہیں‬
‫کہتے کے اپ یقین سابق کو حقیق ًۃ باقی رکھیں بلکہ اب بھی یقین سابق کے مطابق عمل‬
‫کریں و لو این کہ اب یقین باقی نہیں رھا حقیق ًۃ لیکن اپ اس کے ساتھ یقین واال معاملہ‬
‫کریں گویا کے اپ کو یقین ہے ۔‬
‫دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے گا‪:‬‬
‫جب اپ کو یقین تھا تو اپ کیا کرتے تھے مثالً نماز پڑھتے تھے یا پیش نماز کی اقتداء‬
‫کرتے تھے اب جبکہ اپ کو شک ہوا کے نماز شاید واجب نہ ہو یا پیش نماز شاید عادل نہ‬
‫رھا ہو تو اب بھی وھی یقین سابق واال رویہ اختیار کریں یعنی نماز کو واجب سمجھیں‬
‫اور پڑھیں یا پیش نماز کو عادل سمجھیں اور اس کی اقتداء کریں ۔‬
‫خالصہ کالم یہ کہ‪:‬‬
‫استصحاب میں جو یہ کہا جاتا ہے یقین سابق کو باقی رکھیں یعنی نہ کہ حقیق ًۃ باقی رکھیں‬
‫بلکہ التزام عملی رکھیں عمالً ‪ ،‬ویسا ہی سمجھیں جیسا تھا اور یھی معنی ہے ’’ابقاء ما‬
‫کان‘‘ کا جو تھا اب بھی ویسا ہی ہے عمالً نہ کہ حقیق ًۃ اور وجدانا ً ۔‬
‫ادلّہ استصحاب‬
‫استصحاب کے بارے میں کیا دلیل ہے ؟‬
‫علماء نے مختلف دالئل پیش کئے ہیں ‪ ،‬مصنف یہاں صرف ایک دلیل کی جانب اشارہ‬
‫کرتے ہیں ۔‬
‫زرارہ امام صادق سے نقل کرتا ہے کے اپ نے فرمایا‪:‬‬
‫’’ال ینقض الیقین بالشک‘‘ یعنی ’’یقین کو شک سے نہ توڑو‘‘ ۔‬
‫مطلب ‪ :‬التزام عملی کے اعتبار سے اگر یقین کے بعد شک ہوجائے تو اس شک کی‬
‫اعتناء نہ کرو اس شک کی پرواہ نہ کرو ۔‬
‫استصحاب اور برات میں فرق‬
‫اصالۃ برات وھاں جاری کرتے ہیں جھاں شک بدوی ہو یعنی حالت سابقہ نہ ہو ‪ ،‬پھلے‬
‫یقین نہ ہو بلکہ ابتداء ہی شک ہو تو اسے ’’شک بدوی‘‘ کہتے ہیں لیکن استصحاب میں جو‬
‫شک ہے اس کی حالت سابقہ ہے اس حالت میں پھلے یقین تھا پھر شک ہوا ۔‬
‫خالصہ ‪:‬‬
‫برات میں حالت سابقہ متیقینہ نہیں ہوتی اور استصحاب میں حالت سابقہ متیقینہ ہوا کرتی‬
‫ہے ۔‬
‫ان االستصحاب ھو حکم الشارع علی المکلَّف بااللتزام عملیا ً بک ّل شئ کان علی‬
‫فتلخص ‪ّ :‬‬
‫الیقین منہ ثم منک فی بقائہ ‪ ،‬و الدلیل علیہ ھو قول الصادق فی صحیحۃ زرارۃ ’’و ال تنقض‬
‫الیقین بالشک‘‘ ای من الناحیہ العملیۃ منہ انکشف فرق االستصحاب عن اصلۃ البراۃ ّ‬
‫فان‬
‫اصلۃ البرات لیست لہ حالۃ سابقۃ بخالف االستصحاب فان الشک الالحق یکون مسبوقا ً‬
‫بیقین سابق ۔‬
‫ارکان استصحاب (الحالۃ السابقۃ المتیقنۃ)‬
‫گذشتہ بیان میں استصحاب کی تعریف اور دلیل کی جانب اشارہ ہوا ‪ ،‬اب استصحاب کے‬
‫اسکان کو ذکر کرتے ہیں ۔‬
‫استصحاب کے بنیادی طور پر تین رکن ہیں یعنی استصحاب تین چیزوں سے متقدم ہوتا‬
‫ہے‪:‬‬
‫‪۱‬۔ یقین سابق یعنی حالت سابقہ متیقنہ‬
‫‪۲‬۔ شک الحق یعنی حالت سابقہ کی بقاء میں شک‬
‫‪۳‬۔ وحدہ الموضوع یعنی جس چیز کے بارے میں یقین تھا اسی چیز کی بقاء میں شک ہو ۔‬
‫دوسرے الفاظ میں ’’قضیہ متیقنہ اور مشکوکہ واحد ہو (ایک ہی ہو) ‘‘۔‬
‫رکن ّاول ‪’’ :‬حالت سابقہ متیقنہ‘‘‬
‫حالت سابقہ جس کے بارے میں ہمیں یقین ہے ‪ ،‬دو حالتوں سے خارج نہیں ہے ۔‬
‫یا تو وہ چیز حکم ہے جس کے بارے میں ہمیں یقین تھا یا اشیاء تکوینی اور خارجی ہیں‬
‫جس کے بارے میں ہمیں یقین تھا ہماری دونوں مثالوں کو ذرا پھر سے پڑھیں ۔ ایک‬
‫مرتبہ مجھے شارع کے حکم کے بارے میں یقین تھا (وجوب نماز جمعہ) اور دوسری‬
‫مرتبہ حکم شارع کی بات نہیں بلکہ خارجی چیز کی بات ہے (عدالت پیش نماز)‬

‫اگر حالت سابقہ کا تعلق حکم شارع کے ساتھ ہو تو اسے ’’شبھہ حکمیہ‘‘ کہیں گے کیونکہ‬
‫اصل جعل شارع میں شک الحق ہوا ہے‬
‫اور اگر حالت سابقہ کا تعلق خارجی چیز ہو جو موضوع قرار پائی ہے اسے ’’شبھہ‬
‫موضوعیہ‘‘ کہیں گے ۔‬
‫اب یہاں پو سوال اٹھتا ہے استصحاب شبھہ حکمیہ میں جاری ہوگا یا شبھی موضوعیہ میں‬
‫جاری ہوگا یا دونوں میں جاری ہوگا ۔‬
‫اس مقام پر اصولیوں میں اختالف ہے ۔‬
‫قول ّاول‪:‬‬
‫بعض کا ماننا ہے استصحاب فقط شبھہ موضوعیہ میں جاری ہوگا ۔‬
‫دلیل ‪:‬‬
‫اس مطلب کی دلیل بھی یہ ہے کے استصحاب کی حجیّت پر دلیل میں صحیحہ زرارہ کو‬
‫ذکر کیا گیا ہے اور اپ غور کریں تو پتہ چلے گا یہ روایت ’’شبھہ موضوعیہ‘‘ کے بارے‬
‫میں ہے کیونکہ روایت وضو کے بیان میں ہے ‪ ،‬موضوع حکم میں شک ہوا تھا امام نے‬
‫اس کے جواب میں فرمایا ’’التنقض الیقین بالشک‘‘ اب جبکہ استصحاب کی دلیل شبھہ‬
‫موضوعیہ کے مورد میں وارد ہوئی ہے تو استصحاب کی حجیّت بھی شبھہ موضوعیہ‬
‫سے مختص ہوگی ۔‬
‫دوم‪:‬‬
‫قول ّ‬
‫استصحاب مطلقا ً حجت ہے چاھے شبھہ حکمیہ ہو یا چاھے شبھہ موضوعیہ ہو ۔ شھید‬
‫صدر کا مختار بھی یھی ہے ۔‬
‫دلیل‪:‬‬
‫یہ بات درست ہے کے صحیحہ زرارہ ’’شبھہ موضوعیہ‘‘ کے بارے میں وارد ہوئی ہے‬
‫لیکن مورد کبھی بھی تخصیص نہیں لگاتا یعنی مورد تو خاص ہے شبھہ موضوعیہ سے‬
‫لیکن ’’ال تنقض الیقین بالشک‘‘ ’’مطلق‘‘ ہے چاھے وہ یقین حکم کے بارے میں ہو یو‬
‫موضوع خارجی کے بارے میں ہو ’’ای زرارہ تم یقین کو شک سے نہ توڑنا‘‘ پس اطالق‬
‫روایت سے ثابت ہوا استصحاب ح ّجت ہے مطلقا ً چاھے شبھہ حکمیہ ہو یا شبھہ موضوعیہ‬
‫ہو۔‬
‫ان الحالۃ السابقۃ قد تکون حکما ً شرعیا ً و قد تکون موضوعا ً بالحکم الشرعی ‪ ،‬یقال‬‫فتلخص ّ‬
‫االول شبھۃ حکمیۃ و علی الثانی شبھۃ موضوعا ً و یجری االستصحاب مطلق ٍا سواء‬ ‫علی ّ‬
‫ان الروایۃ واردۃ فی الشبھۃ‬‫کانت الشبھۃ حکمیۃ او موضوعیۃ الطالق الدلیل ۔ ال یقال ‪ّ :‬‬
‫صص الوارد ۔‬ ‫الموضوعیۃ النّا یقول ‪ّ :‬‬
‫ان الموارد ال یخ ّ‬
‫رکن الثانی ‪ :‬شک فی البقاء‬
‫یہ دوسرا رکن بھی استصحاب میں نھایت ہی اھمیت کا حامل ہے ۔ علماء اصول ’’شک فی‬
‫البقاء‘‘ کو دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں ۔‬
‫‪۱‬۔ شک فی الرافع‪:‬‬
‫ایک مرتبہ وہ چیز جو سابقا ً متیقن تھی ایسی چیز ہے کو ذاتا ً بقاء کی قابلیت رکھتی ہے‬
‫لیکن خارجی مایع ااکر اسے ختم کر دیتا ہے ۔ مثالً ‪’’ :‬طھارت ماء‘‘ ذاتا ً اس میں بقاء کی‬
‫صالحیت ہے یعنی اگر کوئی خارجی مایع نہ ائے تو پانی اپنی طھارت پر باقی رھے گا ‪،‬‬
‫ھاں کبھی کبھار کوئی نجاست کا قطرہ اکر پانی میں گر جاتا ہے اور اسے نجس کردیتا‬
‫ہے لیکن توجہ کریں یہ نجاست کا قطرہ ایک خارجی مانع ہے جو اس کی طھارت ختم‬
‫کردیتا ہے اورنہ اگر یہ نہ ہوتا تو پانی اپنی طھارت پر باقی رھتا ۔‬
‫خالصہ‪:‬‬
‫اگر شئ متیقن ایسی ہو جس میں بذات خود بقاء کی صالحیت ہو اور مانع خارجی کی وجہ‬
‫سے ختم ہوجائے تو اسے ’’مقتضی اور مانع‘‘ کہتے ہیں ۔ وہ چیز جو ذاتا ً صالحیت بقاء‬
‫رکھتی ہے اسے ’’مقتضی‘‘ کہتے ہیں اور خارجی چیز جو اسے ختم کردے اسے ’’ماعن‘‘‬
‫کہتے ہیں ۔‬
‫اب اگر شئ متیقنہ ’’مقتضی‘‘ کے باب سے ہو اور مشکوک ’’مانع‘‘ کے باب سے ہو تو‬
‫اسے ’’شک فی المانع‘‘ کہا جائے گا یا ’’شک فی الرافع‘‘ کہا جائے گا ۔‬
‫‪:‬‬ ‫‪۲‬۔الشک فی المقتضی‬
‫دوسری مرتبہ وہ چیز جو متیقب سابق ہے بذات خود اس کی صالحیت ہی مشکوک ہے ۔‬
‫کیا یہ چیز باقی رہ سکتی ہے یا نہیں ؟‬
‫(توجہ کریں) یہاں پر مانع خارجی کی بات نہیں ہے بلکہ اصل شئ کی صالحیت ہے جو‬
‫کہ مشکوک ہے ‪ ،‬باقی رہ سکتی ہے یا نہیں ؟‬
‫مثالً ‪ :‬نھار شھر رمضان (رمضان کے مھینہ کا دن) بذات خود نھار(دن) ایسی چیز ہے‬
‫جو ایک حدّ تک باقی ہر سکتی ہے لیکن جیسے ہی سورج غروب کرے گا نھار(دن) بھی‬
‫ختم ہوجائے گا ۔‬
‫اب اگر نھار شھر رمضان میں شک ہو یعنی ہمیں پتہ نہ چلے دن ڈھل چکا ہے یا نہیں ؟‬
‫تو یہاں پر اس چیز کی اصل صالحیت میں شک ہورھا ہے ۔ (توجہ کریں)‬

‫مانع خرجی کی بات نہیں ہے اصل اس شئ کی صالحیت مورد سوال ہے ‪ ،‬اب اگر متیقن‬
‫سابق اس قبیل سے ہو تو اسے ’’شک فی المقتضی‘‘ کہا جائے گا یعنی اصل مقتضی میں‬
‫شک ہے ۔‬
‫جب یہ بات واضح ہوچکی تو سوال اٹھتا ہے کہ‪:‬‬
‫استصحاب شک فی المانع کی صورت میں جاری ہوگا یا شک فی المقتضی کی صورت‬
‫میں جاری ہوگا یا دونوں صورتوں میں جاری ہوگا ۔‬
‫اصولیوں کے دو قول ہیں‪:‬‬
‫بعض اصولی کہتے ہیں اگر ’’شک فی المقتضی‘‘ ہو تو استصحاب جاری نہیں ہوگا فقط‬
‫’’شک فی المانع‘‘ کی صورت میں جاری ہوگا ۔‬
‫شھید صدر فرماتے ہیں دونوں صورتوں میں استصحاب جاری ہوگا کیونکہ روایت مطلق‬
‫ہے ’’ال تنقض الیقین بالشک‘‘ یہاں پر ’’الشک‘‘ مطلق ہے ۔ چاھے شک فی المقتضی ہو یا‬
‫شک فی المانع ہو ۔‬
‫ان الحالۃ السابقۃ قد تکون فی نفسھا قابلۃ لالمتداد زمانیا ً ّاال اذا وجد مانع یرفع‬
‫فتلخص ‪ّ :‬‬
‫وجودھا ‪ ،‬یس ّمی انذاک الشک شکا ً فی المانع و قد ال تکون قبل ًۃ لالمتداد الزمانی و انّما لھا‬
‫امتداد زمانی الی حدّ معیّن ثم تنتھی بنفسھا بال احتیاج الی وجود مانع و عامل خارجی یس ّمی‬
‫انذاک الشک شکا ً فی المقتضی و االستصحاب یجری فی کال الموردین الطاق الروایۃ ۔‬
‫رکن الثالث ‪ :‬وحدۃ الموضوع‬
‫استصحاب میں یہ تیسرا رکن ہے جسے ’’وحدۃ القضیۃ المتیقنۃ و المشکوکۃ‘‘ بھی کہتے‬
‫ہیں ۔اس رکن سے مراد یہ ہے کلہ جس چیز کے ساتھ یقین کا تعلق تھا اسے چیز سے ہی‬
‫شک کا تعلق بھی ہو کیونکہ اگر متعلق یقین ایک چیز ہو اور مشکوک کوئی اور چیز ہو‬
‫تو استصحاب کا جاری ہونا ایک غیر معقول بات ہوجائے گی ۔‬
‫مثالً ‪ :‬کسی شخص کو ’’نجاست ماء‘‘ کا یقین ہو پھر وہ پانی بخار بن جائے اور بخار اس‬
‫کے ھاتھوں کو لگ جائے تو ھاتھ نجس نہیں ہوں گے اسلئے کے ماء اور پانی کے بارے‬
‫میں یقین تھا اور اب بخار کے بارے میں شک ہو رھا ہے کے یہ بھی نجس ہے یا نہیں تو‬
‫یاں پر استصھاب جاری نہیں ہوگا کیونکہ موضوع یقین اور شک تبدیل ہے ۔ موضوع یقین‬
‫’’ماء‘‘ تھا جبکہ موضوع شک ’’بخار‘‘ ہے ۔‬
‫و بنھایۃ الرکن الثالث ینتھی الکالم فی االستصحاب و بحول ہللا و قوتہ قد ت ّم البحث فی النوع‬
‫الثانی من العناصر المشترکہ و لہ الحمد و لہ الشکر ۔‬

‫درس ‪۲۸‬‬
‫( ‪)۱‬‬
‫التعارض بین االدلۃ المحرزۃ‬
‫الحمد ہلل عناصر مشترکہ کے بارے میں مباحث ختم ہوئے لیکن ممکم ہے کہ کسی جگہ‬
‫مذکورہ عناصر میں تعارض اور ٹکرائو واقع ہو تو اس صورت میں ایک فقیہ کو کیا کرنا‬
‫چاھئے ؟ لھذا اس مقام پر تعارض ادلّہ کے مختصر قواعد بیان کئے جاتے ہیں ۔ اس میں‬
‫کویئ شک نہیں ہے کہ تعارض کی بحث بھت ہی زیادہ اھمیت کی حامل اور مقام استنباط‬
‫میں سب سے زیادہ کام انے والی بحث ہے لھذا اس بحث کو نھایت توجہ اور دقت سے‬
‫پڑھا جائے ۔‬
‫تعریف تعارض‪:‬‬
‫تعارض یعنی دو دلیلوں کے مدلولوں کے مابین ٹکرائو ہو جائے ۔‬
‫مدلول یعنی وہ حکم جس پر دلیل داللت کرتی ہے ۔‬
‫(مذکورہ تعریف پر غور کریں)‬

‫ّاوالً ‪ :‬تعارض دو دلیلوں کے درمیان ہوتا ہے یعنی اگر تعارض نہ ہوتا تو وہ دالئل اپنے‬
‫مقام پر ح ّجت ہوتے ہیں ‪ ،‬کبھی کبھار تعارض ان دلیلوں میں نہیں ہوگا جن میں شرائط‬
‫حجیّت نہ ہوں ۔ تعارض کیلئے ضروری ہے دونوں دلیل شرائط حجیّت کے حامل ہوں (یہ‬
‫نکتہ بھت ہی مہم ہے اگرچہ مصنف نے اس مقام پر اس کی طرف اشارہ نہیں کیا) ۔‬
‫ثانیا ً ‪ :‬دو دلیلوں میں ٹکرائو مدلول کے مقام میں ہو یعنی دونوں دلیل جس حکم پر داللت‬
‫کرتے ہیں وہ اپس میں ٹکراتے ہوں ۔ مثالً ‪ :‬ایک دلیل میں ہو نماز جمعہ َغیبت کے زمانے‬
‫میں واجب ہے اور دوسری دلیلل میں ہو نماز جمعہ َغیبت کے زمانے میں حرام ہے ‪ ،‬اب‬
‫ان دو دلیلوں میں تعارض ہوگیا ۔‬
‫دوسرے الفاظ میں کہا جائے ‪ :‬تعارض مقام جعل حکم میں ہوتا ہے یعنی شارع نے جو‬
‫احکام جعل کئے ہیں بظاھر جعل کی صورت میں لگتا ہے ان میں ٹکرائو پایا جاتا ہے ۔‬
‫اشارۃ عابدۃ ‪:‬‬
‫تعارض کا تعلق مرحلہ انشاء ِحکم میں سے ہے جبکہ تعارض کے مقابلے میں تزاحم ہے‬
‫جھاں پہ احکام میں ٹکرائو ہوتا ہے لیکن مرحلہ مجعول میں یعنی تزاحم مقام فعلیت میں‬
‫ہوتا ہے ۔ تفصیل ذالک فی محلّہ‬
‫خالصہ کالم یہ کہ ‪ :‬تعارض جعل احکام میں موجود ٹکرائو کو کہا جاتا ہے ۔‬
‫اقسام تعارض ‪ :‬تعارض کلی اعتبار سے تین طریقے سے ہوسکتا ہے‬
‫پھلی قسم‪:‬‬
‫دو محرز دلیلوں کے درمیان تعارض ہو جسے دلیل شرعی لفظی اور دلیل عقلی کے مابین‬
‫تعارض ۔‬
‫دوسری قسم‪:‬‬
‫دو اصل عملی کے مابین تعارض ہو جیسے استصحاب اور برات کے مابین ۔‬
‫تیسری قسم‪:‬‬
‫دلیل محرز اور اصل عملی کے مابین تعارض ہو جیسے خبر ثقہ اور برات کے مابین ۔‬
‫تقسیم االولی ‪ :‬ادلّہ محرزہ کے مابین تعارض‬
‫ہم گذشتہ مباحث میں بیان کرچکے ہیں کہ دلیل محرز یا دلیل شرعی ہے یا دلیل عقلی اور‬
‫پھر دلیل شرعی یا دلیل شرعی لفظی ہے یا غیر لفظی ۔‬
‫لفظی‬ ‫شرعی‬
‫غیر لفظی‬ ‫دلیل‬
‫قطعی‬ ‫عقلی‬
‫ظنی‬
‫یہاں سے معلوم ہوا کے ادلّہ محرزہ میں تعارض مختلف طریقوں سے ہوسکتا ہے ۔‬
‫اقسام تعارض ادلّہ محرزہ‪:‬‬
‫ادلّہ محرزہ کے مابین تعارض تین قسموں کی صورت میں ہوتا ہے ۔‬
‫ّاوالً ‪:‬‬
‫دو دلیل شرعی لفظی کے مابین تعارض ۔ مثالً ‪ :‬ایک دلیل معصوم سے صادر ہو جو کسی‬
‫فعل کے وجوب پر داللت کرے اور دوسری دلیل بھی معصوم سے صادر ہو جو اسی فعل‬
‫کی حرمت پر داللت کرے ۔‬
‫ثانیا ً‪:‬‬
‫دلیل شرعی لفظی اور دلیل ِعقلی کے مابین تعارض ہو ۔‬
‫ثالثا ً‪:‬‬
‫دو دلیل عقلی میں تعارض ہو ۔‬
‫ّاوالً ‪ :‬دو دلیل شرعی لفظی کے مابین تعارض‬
‫اس قسم کے قواعد بیان کرنے سے پھلے ایک مطلب کی یاد دھانی ضروری ہے ۔‬
‫نص ہے (یعنی غیر کا احتمالہی نہیں)‬
‫جو لفظ شارع سے صادر ہوتا ہے یا اپنی معنی میں ّ‬
‫یا ظاھر ہے (غیر کا احتمال تو ہے لیکن احتمال ضعیف ہے) یا مجمل ہے (یعنی دونوں‬
‫احتمال برابر برابر ہیں)‬

‫تنبیھ‪:‬‬
‫(نص ‪ ،‬ظاھر ‪ ،‬مجمل) کا لحاظ کیا جائے تو ’’داللت‘‘ کہیں گے اور اگر‬ ‫ّ‬ ‫ان تینوں قسموں‬
‫جعل کی جانب دیکھیں تو ’’مدلول‘‘ کہیں گے اور اگر لفظ کو دیکھا جائے تو ’’دلیل‘‘ کہیں‬
‫گے ۔‬
‫ایقاظ‪:‬‬
‫مصنف نے ’’قسم ّاول‘‘ میں دو دلیل شرعی لفظی کے مابین تعارض کا تذکرہ کیا ہے اقر‬
‫قسم ثانی اور ثالث کو ’’ حاالت التعارض االخری‘‘ کے عنوان میں مندمج کردیا ہے ۔‬
‫قواعد قسم ّاول ‪ :‬تعارض دو دلیل شرعی لفظی‬
‫‪‬القاعدۃ االولی ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫نص کے درمیان تعارض محال ہے ۔‬
‫دو صریح ّ‬
‫سنَد کے اعتبار سے قطعی ہو(مثالً‪ :‬ایت قران ہو یا‬‫اگر ایک دلیل شارع سے وارد ہو جو َ‬
‫نص ہو یعنی صریح ہو اس کے بعد ایک‬ ‫خبر متواتر ہو) اور داللت کے اعتبار سے بھی ّ‬
‫اور دلیل شارع سے وارد ہو وہ بھی سند کے اعتبار سے قطعی ہو اور نیز داللت میں بھی‬
‫نص ہو پھر ایسی دونوں دلیلیں اپس میں ٹکرائیں ان میں تعارض ہو ۔ مثالً ‪ :‬ایک دلیل میں‬
‫ّ‬
‫فالں فعل واجب ہے اور دوسری دلیل میں وھی فعل حرام ہے تو یہاں پر دو دلیل ِشرعی‬
‫سنَدا ً و دالل ًۃ متعارض ہوں گی لیکن ایسا تعارض ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کا‬ ‫قطعی َ‬
‫مقصد یہ ہوگا شارع متناقض کر رھا ہے اور یہ محال ہے ۔‬
‫خالصہ یہ کہ‪:‬‬
‫کبھی بھی ایسی دو دلیلوں کے درمیان تعارض نہیں ہوسکتا جو دونوں دلیل شرعی لفظی‬
‫سنَد کے لحاظ سے بھی اور داللت کے لحاظ سے بھی قطعی ہوں ۔‬‫َ‬
‫‪‬القاعدۃ الثانیۃ ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫نص اور دلیل کے مابین تعارض ۔‬
‫ّ‬
‫نص ہو‬
‫تعارض کی یہ صورت ممکن ہے یعنی ایک دلیل ِشرعی لفظی اپنے مدلول میں ّ‬
‫یعنی صریح ہو(مثالً ‪ :‬دلیل میں ہو ’’یجوز للصائم ان یرتمس فی الماء و ھو صائم‘‘ روزہ‬
‫میں صائم کیلئے جائز ہے وہ پانی میں غوطہ لگائے ۔ مالحظہ کریں ’’یجوز‘‘ جواز میں‬
‫نص ہے)‬ ‫صریح ہے ّ‬
‫پھر دوسری دلیل وارد ہو جو پھلی دلیل کے مدلول کے برخالف ہو لیکن دوسری دلیل‬
‫اپنے مدلول میں ظھور لکھتی ہو نہ کہ صریح ہو(مثالً‪ :‬شارع کہے ’’ال ترتمس فی الماء و‬
‫انت صائم‘‘ روزہ کی حالت میں غوطہ نہ لگائو ۔مالحظہ کریں یہ دلیل ظھور رکھتی ہے‬
‫کہ صائم کیلئے ارتماس جائز نہیں یہ دلیل صریح نہیں ہے عدم جواز میں کیونکہ ’’ال‬
‫ترتمس‘‘ صیغہ نھی ہے ۔ ہم پھلے بیان کرچکے ہیں کے صیغہ نھی حرمت اور عدم جواز‬
‫میں ظھور رکھتا ہے)۔‬
‫اگر تعارض کی ایسی صورت ہو تو ایک دلیل میں تصرف کریں گے مثالً ہم کہیں گے جو‬
‫دلیل اپنے مدلول میں ظاھر ہے وہ ظھور شارع کی مراد نہیں ہے ۔ گذشتہ مثال میں کہیں‬
‫گے ’’ال ترتمس‘‘ جو ظھور رکھتا ہے صیغہ نھی میں ‪ ،‬یہ حرمت مراد شارع نہیں ہے‬
‫بلکہ یہاں پر شارع نے صیغہ نھی کو کراھت میں استعمال کیا ہے ۔‬
‫سوال ‪ :‬اپ کس دلیل کی بنا پر کہتے ہیں شارع کی مراد ظھور نہیں ہے بلکہ کراھت‬
‫مقصود شارع ہے ؟‬
‫جواب ‪ :‬ہمارے پاس قرینہ پھلی دلیل ہے جس میں شارع نے صراح ًۃ کہا ہے ارتماس جائز‬
‫ہے ’’یجوز‘‘ اب یہ تو نہیں ہوسکتا شارع تناقض کرے ایک مرتبہ کہے ’’جائز‘‘ ہے اور‬
‫دوسری مرتبہ کہے ’’حرام‘‘ ہے ۔‬
‫پس جو شارع کا کالم ہوگا وہ قرینہ قرار پائے گا کے دوسرے کالم کا ظھور مقصود‬
‫شارع نہیں ہے ۔‬
‫خالصہ یہ ہوا کہ ‪:‬‬
‫نص کے مطابق‬
‫نص اور ظاھر میں تعارض ہوگا تو ظاھر کا معنی ایسا کریں گے جو ّ‬
‫اگر ّ‬
‫ہو اس کے بر خالف نہ ہو ۔‬
‫‪‬القاعدہ الثالثۃ‬
‫‪‬‬
‫صص کو عام پر مقدم کیا جائے گا ۔ دو دلیل وارد‬
‫مقیّد کو مطلق پر مقدم کریں گے اور مخ ّ‬
‫ہوں ان میں سے ایک کا دائرہ وسیع ہو اور دوسری دلیل کا دائرہ پکلی سے کمتر و‬
‫مضیق ہو اور ان دونوں دلیلوں میں تعارض ہو تو جس دلیل کا دائرہ کمتر ہوگا اسے مقدم‬
‫کیا جائے گا ۔‬
‫دوسرے الفاظ میں یوں کہیں‪:‬‬
‫ایک دلیل عام ہو یو مطلق ہو جبکہ دوسری دلیل خاص ہو یو مقیّد ہو تو دلیل خاص یا مقیّد‬
‫کو عام یا مطلق پر مقدم کیا جائے گا ۔ مثالً ‪ :‬ایک دلیل میں ایا ہے کہ ’’الربا حرام‘‘ اور‬
‫دوسری دلیل میں ایا ہے ’’الربا بین الوالد و ولدہ مباح‘‘ ۔ مالحظہ کریں پھلی دلیل میں‬
‫’’ربا‘‘ کو مطلقا ً حرام قرار دیا گیا ہے کہ ربا حرام ہے چاھے باپ بیٹے کے درمیان ہو یا‬
‫کسی اور کے مابین ‪،‬جبکہ دوسری دلیل میں باپ بیٹے کے درمیان ربا کو جائز مانا گیا‬
‫ہے ۔‬
‫پھلی دلیل کا دائرہ وسیع ہے لیکن دوسری دلیل کا دائرہ کمتر و مضیق ہے اس صورت‬
‫میں دوسری دلیل کو پھلی دلیل پر مقدم کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ دوسری دلیل سے‬
‫پھلی دلیل کو مقیّد کیا گیا ہے اور مراد جدی شارع یہ ہے کہ ’’ربا حرام ہے مگر باپ اور‬
‫بیٹے کے مابین‘‘ ۔‬
‫سوال ‪ :‬دوسری دلیل کو پھلی دلیل پر کیاں مقدم کیا گیا ؟‬
‫جواب ‪ :‬کیونکہ دوسری دلیل خاص ہے پھلی کی بنسبت او خاص قرینہ ہوتی ہے عام کی‬
‫بنسبت چنانچہ ہم بیان کر چکے ہیں کے عقالء اور عرف کے نزدیک قرینہ کو ذوالقرینہ‬
‫پر مقدم کیا جاتا ہے ۔ ہماری اس بات پر بھترین شاھد یہ ہے کے عام اور خاص دونوں کو‬
‫اگر مالکر ترجمہ کریں گے تو مطلب بلکل درست ہوگا ۔ مثالً‪ :‬اپ کہیں ’’سود حرام ہے‬
‫مطلقا ً مگر باپ اور بیٹے کے مابین‘‘ تو مطلب درست ہوگا ۔‬
‫نکتہ ‪ :‬چند اصطالحات کی توضیح‬
‫‪۱‬۔ عام ‪ :‬وہ دلیل ہے جس میں شیوع اور عمومیت بالوضع ہو ۔ اکرم ک ّل عالم‬
‫اح ّل ہللا‬ ‫‪۲‬۔ مطلق ‪ :‬وہ دلیل جس میں شیوع اور عمومیت قرینہ حکمت کی وجہ سے ہو‬
‫البیع ۔‬
‫صص (اسم فاعل)‪ :‬وہ عام جس کے ذریعہ عام کو تخصیص لگائی جائے ۔‬
‫‪۳‬۔ ُمخ ِ ّ‬
‫صص (اسم مفعول)‪ :‬وہ عام جس کع تخصیص لگائی گئی ہو ۔‬
‫‪۴‬۔ ُمخ َّ‬
‫صص جو عام کے ساتھ متصل ہو ۔‬
‫صص متصل‪ :‬وہ مخ ِ ّ‬
‫‪۵‬۔ مخ ِ ّ‬
‫صص جو جداگانہ ذکر کیا گیا ہو ‪ ،‬عام کے ساتھ متصل نہ ہو ۔‬
‫صص منفصل‪ :‬وہ مخ ِ ّ‬
‫‪۶‬۔ مخ ِ ّ‬
‫‪۷‬۔ مقیَّد (اسم مفعول)‪ :‬وہ مطلق جس کو تقیید لگائی گئی ہو ۔‬
‫‪۸‬۔ مق ِیّد (اسم فاعل)‪ :‬وہ مق ِیّد جس کے ذریعہ مطلق کو قید لگائی گئی ہو ۔‬
‫‪۹‬۔ مق ِیّد متصل‪ :‬وہ مق ِیّد جو مطلق کے ساتھ متصل ہو ۔‬
‫‪۱۰‬۔ مق ِیّد منفصل‪ :‬وہ مق ِیّد جو مطلق سے متصل نہ ہو بلکہ علیحدہ ذکر کیا گیا ہو ۔‬
‫حجیّۃ عام اور مطالق‪:‬‬
‫مذکورہ قاعدہ کی روشنی میں فقیہ مقام استنباط میں ایک عام قاعدہ استعمال کرتا ہے ’’جب‬
‫بھی دو دلیلوں میں نسبت عموم خصوص مطلق کی ہو تو خاص کو عام پر مقدم کیا جائے‬
‫گا‘‘۔ مثالً ‪ :‬اکرم ک ّل عالم ّاال الفساق ۔ اس دلیل کے مطابق مولی کی مراد جدّی یہ ہوگی ہر‬
‫عالم کا احترام کرو سواء فاسقوں کے یعنی فقط عالم عادل کا احترام کرو ۔‬
‫البتہ ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب عام کو تخصیص لگائی جاتی ہے تو خاص کے عالوہ‬
‫جو باقی افراد بچ جاتے ہیں کیا ’’عام‘‘ ان بقایا تمام افراد میں ح ّجت رھے گا یا نہیں ؟‬
‫جواب ‪ :‬بعض علماء کہتے ہیں ‪’’ :‬عام‘‘ تخصیص کے بقایا افراد میں بھی ح ّجت نہیں‬
‫رھے گا ۔‬
‫لیکن بعض اصولیوں میں سے جو محققین ہیں ان کا ماننا ہے ’’عام‘‘ تخصیص کے بعد‬
‫بقایا افراد میں ح ّجت رھے گا (یہ ایک نھایت عمیق بحث ہے تفصیل ائندہ حلقات میں بیان‬
‫ہوگی ان شاء ہللا)‬

‫‪‬القاعدۃ الرابعۃ ‪:‬الحکومت‬


‫‪‬‬
‫کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ حکم ایک موضوع کیلئے ثابت کیا جاتا ہے(مثالً‪ :‬حج مستطیع‬
‫پر واجب ہے) اور پھر دوسرے کالم میں اس موضوع کی بعض افراد سے نفی کی جاتی‬
‫ہے ۔ مثالً‪ :‬قرضدار مستطیع نہیں ہے ۔‬
‫(توجہ کریں)‬

‫دوسرے کالم کے ذریعہ ہم بذات خود موضوع کی نفی کرتے ہیں بعض افراد کی بنسبت ‪،‬‬
‫نہ کے حکم کی نفی کی جائے اور موضوع کو ثابت فرض کیا جائے ۔ مثالً ‪ :‬ہم کہتے ہیں‬
‫جو قرضدار انسان ہے اصل مستطیع نہیں ہے چنانچہ جب موضوع کی نفی کی جائے گی‬
‫تو قھرا ً حکم بھی ختم ہو جائے گا کیونکہ فعلیت حکم موضوع کے وجود پر موقوف ہے ۔‬
‫دوسرے الفاظ میں کہا جائے گا کہ‪:‬‬
‫تصرف اس طرح سے‬
‫ّ‬ ‫تصرف کرتے ہیں لیکن‬
‫ّ‬ ‫دوسری دلیل کے ذریعہ ہم پھلی دلیل میں‬
‫کہ دوسری دلیل موضوع کی نفی کرتی ہے ۔‬
‫تصرف کرتی ہے اسے ’’حاکم‘‘ اور پھلی دلیل کو ’’محکوم‘‘‬
‫ّ‬ ‫اصطالحا ً جو دوسری دلیل‬
‫تصرف کو ’’حکومت‘‘ کہتے ہیں ۔‬
‫ّ‬ ‫اور اس‬

‫اشارۃ ً ‪:‬تخصیص اور حکومت میں فرق‬


‫تخصیص میں دلیل خاص کو دلیل عام پر مقدم کیا جاتا ہے اور عام کے حکم سے خاص‬
‫کو خارج کیا جاتا ہے ۔ مثالً ‪ :‬ایک عام ہے ’’اکرم ک ّل عالم‘‘ اور ایک خاص ’’ال تکرم‬
‫الفساق من العلماء‘‘ اس خاص کے ذریعہ فاسق علماء کو عام کے دائرہ سے خارج کیا گیا‬
‫ہے ۔ (غور کریں)‬
‫صرف حکم کو خارج کیا گیا ہے باقی موضوع کی نفی نہیں کی گئی یعنی ہم مانتے ہیں‬
‫فاسق یہ عالم ہوسکتے ہیں لیکن ان کا اکرام واجب نہیں ہے لیکن حکومت میں اصل‬
‫موضوع کی نفی کی جاتی ہے ۔ مثالً ‪ :‬دلیل محکوم ہے ’’اکرم ک ّل عالم‘‘ اور دلیل حاکم ہے‬
‫’’الفساق لیس بعالم‘‘ (توجہ کریں) ۔‬
‫دلیل حاکم میں بیان کیا جارھا ہے فاسق اصالً عالم نہیں ہے قھرا ً جب موضوع نہیں ہوگا‬
‫تو حکم بھی نہیں ہوگا ۔‬
‫البتہ تخسیص اور حکومت میں مذکورہ فرق کے عالوہ دوسرے فرق بھی ہیں ۔ مثالً ‪:‬‬
‫جیسے یہ کہ تخصیص میں فقط تضییق ہوتی ہے ‪ ،‬دائرہ تنگ کیا جاتا ہے لیکن حکومت‬
‫میں کبھی تضییق تو کبھی توسیع بھی ہوتی ہے یعنی دائرہ میں وسعت دی جاتی ہے ۔ مثالً‬
‫مولی کہتا ہے ’’المتقی عالم‘‘ جو بھی متقی ہے وہ عالم ہے گو کہ اصطالحات نہ جانتا ہو ۔‬
‫یہاں پر ’’اکرم ک ّل عالم‘‘ کی دلیل میں ’’المتقی عالم‘‘ کے ذریعہ وسعت دی جا رھی‬
‫ہے۔(بقایا تفصیل حلقات ائندہ میں ان شاء ہللا)‬

‫خالصہ کالم‪:‬‬
‫مذکورہ قواعد میں جو ایک دلیل کو دوسری دلیل پر مقدم کیا جاتا ہے ۔ اصطالحا ً اسے‬
‫’’جمع عرفی‘‘ کہتے ہیں ۔‬
‫‪‬القاعدۃ الخامسہ ‪:‬التعارض المستقر‬
‫‪‬‬
‫اگر دو متعارض دلیلوں میں کوئی بھی دلیل دوسری دلیل کیلئے قرینہ بننے کی صالحیت‬
‫نہ رکھتی ہو یعنی مذکورہ موارد میں سے نہ ہو تو دونوں دلیلوں میں مستقر(پکا) تعارض‬
‫ہوگا اور اس صورت میں کسی بھی دلیل پر عمل نہیں کرسکتے ۔ نتیج ًۃ دونوں دلیلیں‬
‫ساقط ہوجائیں گی ۔ اس مورد کیلئے کہا گیا ہے ’’اذا تعارضا تساقطا‘‘۔‬
‫ان التعارض ھو حصول التنافی بین مدلولی الدلیلین۔ و ثانیا ً ‪:‬‬ ‫فتبیّن من جمیع ما ذکرناہ ّاوال ‪ّ :‬‬
‫ان التعارض علی ثالثۃ اقسام النّہ ا ّما یوجد التعارض بین الدلیلین من الدلّۃ المحرزۃ و ا ّما بین‬
‫ّ‬
‫اصلین عملین و ا ّما بین دلیل محرز و بین اصل عملی و ثالثا ً ‪ :‬و التعارض بین االدلّۃ‬
‫المحرزۃ علی ثالثۃ اقسام ایضا ً ۔النّہ ا ّما بین الدلیلین الشرعیین اللفظیین و ا ّما بین دلیل شرعی‬
‫لفظی و بین دلیل عقلی و ا ّما بین الدلیلین العقلیین و رابعا ً ‪ :‬یوجد جمع عرفی بین الدلیلین‬
‫النص و‬
‫ّ‬ ‫الشرعیین اللفظیین و یتحلّی الجمع العرفی فی موارد ‪ :‬منھا اذا کان التعارض بین‬
‫النص علی الظاھر و منھا ‪ :‬اذا کان التعارض بین العام و الخاص فیتقدم‬ ‫ّ‬ ‫الظاھر فیتقدم‬
‫صص بہ و کذالک المطلق و المقیّد ۔ و منھا اذا کان التعارض بین‬ ‫الخاص علی العام فیخ ّ‬
‫صین الصریحیین ۔ و‬ ‫الحاکم و المحکوم فیتقدم الحاکم ۔ و خامسا ً ‪ :‬ال یمکن التعارض بین الن ّ‬
‫ی فالتعارض مستقر و حکمہ التساقط ۔‬ ‫سادسا ً ‪ :‬اذا لم یوجد فی الدلیلین المتعارضین جمع عرف ّ‬
‫تقسیم االخری ‪ :‬حاالت التعارض‬
‫گذشتہ مباحث میں عرض ہو کہ تعارض تین اقسام پر مشتمل ہے ۔‬
‫‪۱‬۔ تعارض دو دلیل لفظی کے مابین‬
‫‪۲‬۔ تعارض دلیل لفظی اور عقلی کے مابین‬
‫‪۳‬۔ تعارض دو دلیل عقلی کے مابین‬
‫ہم اس مقام پر تین قواعد ذکر کرتے ہیں جو کہ دوسری قسم کے ساتھ مخصوص ہیں اور‬
‫قاعدہ ذکر کرتے ہیں جو تیسری قسم کے ساتھ خاص ہے ۔‬
‫قواعد قسم ثانی ‪ :‬دلیل لفظی شرعی اور دلیل عقلی کے مابین تعارض‬
‫‪‬پھال قاعدہ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫اگر ایک دلیل لفظی شرعی قطعی ہو اور دوسری دلیل عقلی ہو تو ان کے درمیان تعارض‬
‫نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ کس طرح سے ممکن ہے کہ ایک دلیل شرعی لفظی جو کے سند‬
‫اور داللت کے اعتبار سے قطعی ہو پھر دلیل عقلی کے مخالف ہو ۔ اس کا تو مقصد یہ‬
‫ہوگا کہ معصوم خالف عقل بات کرے اور یہ محال ہے کہ عقل اور شریعت میں ٹکرائو‬
‫ہوجائے تبھی کہا جاتا ہے نصوص شرعی اور دلیل عقلی قطعی میں تعارض نہیں ہوسکتا‬
‫۔ (توجہ کریں) یہ صرف دعوی نہیں ہے یہ تمام نصوص الشرعیہ سامنے ہیں کوئی بھی‬
‫نص صریح شرعی مخالف دلیل عقلی قطعی نہیں دکھا سکتا ۔‬
‫ّ‬
‫‪‬دوسرا قاعدہ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫اگر دلیل لفظہ شرعی اور دلیل غیر لفظی اور غیر قطعی میں تعارض ہوجائے تو دلیل‬
‫لفظی شرعی کو مقدم کیا جائے گا ۔‬
‫دلیل غیر لفظی پھر تقریر معصوم ہو یا فعل معصوم یا دلیل لفظی شرعی سے دلیل عقلی‬
‫غیر قطعی ٹکرائے پھر بھی دلیل لفظی شرعی کو مقدم کیا جائے گا۔‬
‫‪‬تیسرا قاعدہ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫اگر دلیل لفظی غیر صریح اور دلیل عقلی قطعی کے درمیان تعارض ہوجائے تو دلیل‬
‫عقلی قطعی کو مقدم کیا جائے گا۔‬
‫تصرف کیا جائے گا ۔‬
‫ّ‬ ‫نتیج ًۃ دلیل لفظی غیر صریح کے ظھور میں‬
‫قواعد قسم ثالث ‪:‬دو دلیل عقلی کے مابین تعارض‬
‫‪‬قاعدہ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫دو دلیل اگر دونوں عقلی دلیل قطعی ہوں تو ان کے دربیان تعارض ناممکن ہے کیونکہ‬
‫اگر دو دلیل عقلی قطعی میں تعارض ہو یعنی تناقض ہوجائے جو کہ محال ہے البتہ اگر‬
‫ایک دلیل عقلی قطعی ہو اور دوسری دلیل عقلی غیر قطعی ہو تو تعارض ممکن ہے اور‬
‫دلیل ِعقلی قطعی کو مقدم کیا جائے گا ۔‬
‫• یہاں تک تعارض کی پھلی قسم یعنی تعارض بین االدلۃ المحرزہ کے قواعد بیان ہوئے ۔‬
‫ان التعارض لو کان بین الدلیل الشرعی اللفظی و الدلیل عقلی ففیہ ثالث قواعد ۔‬ ‫فتلخص ‪ّ :‬‬
‫االولی‪ :‬یستحیل وقوع التعارض بین دلیل لفظی قطعی و بین دلیل عقلی و الثانیۃ‪ :‬اذا وجد‬
‫تعارض بین دلیل لفظی شرعی و دلیل اخر غیر لفظی و غیر قطعی فیتقدم دلیل لفظی شرعی‬
‫۔ الثالثۃ‪ :‬لو عارض دلیل لفظی غیر صریح دلیالً عقلیا ً قطعیا ً یقدم الدلیل العقلی القطعی علی‬
‫الدلیل اللفظی غیر صریح ۔ و ا ّما لو کان التعارض بین الدلیلین العقلیین ان کانا قطعیین فال‬
‫یقع التعارض بینھما و ان کان احدھم غیر قطعی فیقدم القطعی علی غیر قطعی ۔‬
‫درس ‪۲۹‬‬
‫( ‪)۲‬‬
‫التعارض بین ا ا‬
‫الصول‬
‫الحمد ہلل تعارض کی پھلی قسم کے قواعد تمام ہوئے ۔ اب دوسری قسم کے بارے میں‬
‫اجمالی بحث پیش کرتے ہیں یعنی جب اصول عملیہ کے مابین تعارض واقع ہوجائے‬
‫تقسیم الثانی ‪ :‬دو اصل عملیہ کے مابین تعارض‬
‫اس قسم میں بارز اور واضح صورت بھی یہی ہے کہ ’’استصحاب اور برات میں تعارض‬
‫واقع ہوجائے‘‘۔‬
‫سوال ‪ :‬استصحاب ‪ ،‬احتیاط اور اشتغال کا تقاضا کرے اور برات ‪ ،‬برات کا تقاضا کرے‬
‫تو اس صورت میں کس کو مقدم کیا جائے گا ؟‬
‫جواب ‪ :‬مثالً ہمیں یقین ہے کہ ماہ رمضان کا روزہ طلوع فجر سے لیکر غروب افتاب‬
‫تک واجب ہے ۔ پھر بعد میں شک ہو کہ کیا حمرہ مغربیہ (مغرب کی جانب سے جو‬
‫سرخی نمودار ہوتی ہے) کے ختم ہونے تک بھی امساک واجب ہے یا نہیں ؟ استصحاب کا‬
‫تقاضا یہ ہے کہ حمرہ مغربیہ کے ختم ہونے تک امساک واجب ہے کیونکہ ہمیں یقین تھا‬
‫کہ حمرہ مغربیہ سے پھلے غروب افتاب تک تو قطعا ً امساک واجب تھا ‪ ،‬اب شک کر‬
‫رھے ہے کیا اب بھی امساک واجب ہے یا نہیں ؟ تو حالت سابقہ کو باقی رکھا جائے گا‬
‫لھذا حمرہ مغربیہ کے ختم ہونے تک امساک واجب ہے جبکہ برات کا تقاضا یہ ہے کہ‬
‫امساک واجب نہیں ہے کیونکہ حمرہ مغربیہ کے وقت امساک واجب ہے یا نہیں ؟ یہ شک‬
‫بدوی ہے اور شک بدوی میں برات شرعی جاری ہوگی۔‬
‫خالصہ ‪:‬‬
‫سوال‪ :‬استصحاب اور برات میں تعارض ہے اب کیا کریں ؟‬
‫جواب ‪ :‬تمام اصولی اس صورت میں قائل ہیں کہ استصحاب کو برات پر مقدم کیا جائے گا‬
‫یعنی مثال مذکورہ میں حمرہ مغربیہ کے غائب ہونے تک امساک واجب ہوگا ۔‬
‫سوال ‪ :‬استصحاب کیوں مقدم ہوگا‬
‫جواب ‪ :‬اسلئے کے استصحاب برات پر حکومت رکھتا ہے ۔‬
‫توضیح ‪ :‬ہم جان چکے ہیں کہ‪:‬‬
‫تصرف کرتا ہے ۔‬
‫ّ‬ ‫دلیل حاکم دلیل محکوم کے موضوع میں‬
‫اب غور کریں!‬
‫دلیل برات کا مفاد یہ ہے کہ’’ جس مورد میں بھی علم نہ ہو تمھارا ذمہ بری ہے‘‘۔ (رفع‬
‫عن ا ّمتی ما ال یعلمون) پس جب بھی علم ہو جائے گا وھاں برات جاری نہیں ہوگی ۔‬
‫اب دیکھیں قاعدہ استصحاب کا مفاد یہ ہے کہ ’’جب بھی اپ کو شک ہو جائے اور سابقہ‬
‫متیقن ہو تو اسے باقی رکھیں ایسے سمجھیں وہ حالت سابقہ ابھی بھی باقی ہے کانّہ اب‬
‫بھی اپ کو حالت سابقہ کا علم ہے ۔ مثال پر غور کریں ۔‬
‫حمرہ مغربیہ کے وقت شک ہوا امساک واجب ہے یا نہیں ؟ حالت سابقہ یہ ہے کہ امساک‬
‫واجب تھا پس اب بھی سمجھو امساک واجب ہے گوایا کے حمرہ مغربیہ کے وقت بھی اپ‬
‫کو علم ہے کہ امساک واجب ہے ‪ ،‬جب حمرہ مغربیہ کے وقت امساک کے وجوب کا علم‬
‫ہوگیا (و لو علم تعبدی) تو برات کا موضوع ختم ہوجائے گا کیونکہ برات اس صورت میں‬
‫جاری ہوگی جب علم نہ ہو لیکن فرض یہ ہے کہ استصحاب کی وجہ سے ہمیں علم‬
‫حاصل ہوچکا ہے پس برات جاری نہیں ہوگی کیونکہ اس کا موضوع منتفی ہوچکا ہے‬
‫اور یھی مراد ہے اس سے کہ استصحاب برات پر حاکم ہے کیونکہ استصحاب برات کے‬
‫موضوع کو ختم کردیتا ہے تعبّدا ً ۔‬
‫فتلخص اذا کان التعارض بین االستصحاب و البرات فیقدم االستصحاب علی البرات ّ‬
‫الن‬
‫االستصحاب حاکم علی البرات ای یرفع موضوع البرات تعبّدا ً و بعنایۃ الشارع ۔‬
‫تقسیم الثالث ‪ :‬ادلّہ محرزۃ و اصول العملیۃ کے ما بین التعارض‬
‫یہ تعارض کی تیسری قسم ہے یعنی ادلّہ محرزہ اور اصول عملیہ میں تعارض ہو ۔ اس‬
‫صورت میں کیا کریں گے ؟‬
‫تمام اصولی قائل ہیں کہ ادلّہ محرزہ کو اصول عملیہ پر مقدم کیا جائے گا ۔‬
‫تصویر تعارض‬
‫پھلی نظر میں ادلّہ محرزہ اور اصول عملیہ کے دیمیان تعارض کی دو صورتیں ممکن‬
‫ہیں لیکن ایک صورت باطل ہے ب‪ ،‬باقی دوسری صورت میں ادلّہ محرزہ کو اصول‬
‫عملیہ پر مقدم کیا جائے گا ۔‬
‫‪‬پھلی صورت‪:‬‬
‫‪‬‬
‫دلیل محرز قطعی اور اصل ِعملی میں تعارض ہوجائے یہ صورت باطل ہے کونکہ ہم بیان‬
‫کرچکے ہیں کہ اصل ِعملی ہھاں پر ہوتی ہے جب حکم ِشرعی میں شک ہو لیکن‬
‫دلیل ِمحرز ِقطعی کی صورت میں ہمیں حکم ِشرعی کا ہمیں علم ہوتا ہے پس اصل ِعملی‬
‫کا موضوع ہی ختم ہوجائے گا ۔ نتیج ًۃ یہ صورت باطل ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا ۔‬
‫‪‬دوسری صورت‪:‬‬
‫‪‬‬
‫دلیل محرز ظنّی ہو لیکن اس کی حجیّت پر دلیل قطعی موجود ہو اور دوسری طرف اصل‬
‫عملی ہو ۔ اس صورت میں تعارض ممکن تو ہوگا کیونکہ دلیل محرز ظنّی کی صورت‬
‫میں ’’عدم العلم‘‘ صدق کرتا ہے یعنی کہا جاسکتا ہے حکم شرعی کا علم نہیں ہے کیونکہ‬
‫ظن علم نہیں ہے لھذا ہوسکتا ہے اس مورد میں اصل عملی جاری ہو لیکن دلیل محرز‬ ‫ّ‬
‫ظنّی کی حجیّت پر جو دلیل قطعی ہے وہ ہمیں کہتی ہے کے شارع نے گویا کہ اس دلیل‬
‫محرز ظنّی کو بھی ’’علم‘‘ قرار دیا ہے کانّہ اپ دلیل ظنّی معتبر کی صورت میں عالم ہیں‬
‫‪ ،‬اپ کے پاس ’’علم‘‘ ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اصل عملی وھاں‬
‫جاری ہوگی جھاں ’’علم‘‘ نہ ہو ‪ ،‬یھاں پر تو ’’علم‘‘ ہے پس اصل عملی کا موضوع ختم‬
‫ہوجائے گا اور دلیل ظنّی محرز حاکم ہوجائے گی ۔‬
‫فتلخص اذا کان التعارض بین االدلّۃ المحرزۃ االصول العملیۃ فتقدم االدلّۃ المحرزۃ ا ّما النّہ‬
‫االصول العملیۃ ال تعارضہ لذا کان الدلیل المحرز قطعیا ً و ا ّما النّہ االدلۃ المحرزۃ تکون‬
‫حاکمۃ علیھا ت ّمت بفضل ہللا تحریر الحلقہ االولی بلسان سھل اردویۃ ۔‬
‫شکر الحمد ہلل‬

You might also like