Professional Documents
Culture Documents
اقیموا الصالۃ فعل ہے ،اتوا الزکات فعل ہے و ہلل علی الناس ِحج البیت فعل ہے ُ ،کتِ َ
ب
علیکم الصیام فعل ہے ،یہ خطابات ہیں جن کا تعلق فعل کے ساتھ ہے ۔
کتنی اچھی تعریف ہے کے خدا کی طرف سے ،شارع کی طرف سے جتنے بھی خطابات
اتے ہیں ان کا تعلق انسان کے فعل کے ساتھ ہے تو یہ حکم ِشرعی ہے ۔
ت شرعیہ ہیں جن کا تعلق مکلَّف کے فعل کے
کیا اس تعریف میں (حکم شرعی وہ خطابا ِ
ساتھ ہوتا ہے) کوئی ایراد و اشکال ہے ؟
سوال جو افعال مکلَّف کے ہیں اور ان کیلئے خطاب نہیں ہونگے تو کیا ہو حکم ِشرعی
نہیں ہونگے ؟ ہم بیان کریں گے کے مکلَّف کا کوئی ایسا فعل نہیں جس کیلئے ہللا کی
طرف سے کوئی خطاب نہ ہو ،خدا یا جزئی طور پر بیان کرتا ہے یا کلی قانون دیتا ہے ۔
ان شاء ہللا ہم بیان کریں گے کے عقلی دالئل بھی موجود ہیں اور شرعی دالئل بھی موجود
ہیں کے انسان کی زندگی کا کوئی حصہ ایسا نہیں کے جس کیلئے حکم ِخدا موجود نا ہو۔
اس کی تاکید کیلئے امام صادق کے پاس ابو بصیر اتے ہیں مفصل روایت ہے اصول ِکافی
میں ،فرماتے ہیں کہ اے ابو بصیر تم مجھے اپنا ھاتھ دو اور اجازت دو کے ھلکی سی
ناخون پر خراش دوں ،ابو بصیر کہتے ہیں موال اجازت کیا ہم تو اپ کی ملکیت ہیں ،
امام نے ھلکی سی ناخون پر خراش دی (ناخون کی وجہ سے کچھہ نا کچھہ خراش تو اتی
ہے) امام فرماتے ہیں یہ جو خراش تمھارے ھاتھہ پر ائی ہے اس کے لئے بھی
حکم ِشرعی موجود ہے اور اس حکم ِشرعی کا حکم خود ھماری دادی کی کتاب
مصحف ِفاطمہ ہے اس کے اندر موجود ہے ،خراش کا حکم و جریمہ ہے ،اس کیلئے
بھی حکم ِشرعی ہے تو بقیہ احکامات میں تو کوئی شک ہی نہیں ۔
اس تعریف پر دو اشکال ہیں:
۱۔ الخطابات ِالشرعیہ پر
۲۔ افعال ِ مکلَّف پر
ابتداء دوسرے اشکال سے کرتے ہیں یعنی افعال ِمکلَّف سے ۔
مشھور اصولی ک کہنا ہے کے حکم ِشرعی کا تعلق فعل ِمکلَّف کے ساتھ ہے ۔ سوال :
زوجیت ،ملکیت ،صحت ،فساد وغیرہ حکم ِشرعی تو ہیں لیکن ان کا تعلق فعل ِمکلَّف
سے نہیں ہے ؟ مثالً میں کہتا ہوں نماز صحیح ہے ،نماز باطل ہے ،یہ صحت ِ صالۃ ،
یہ بطالن ِنماز کیا حکم ِشرعی ہے ؟ نماز تو میرا فعل ہے لیکن نامز کا صحیح ہونا یا نماز
کا باطل ہونا میرا فعل تھوڑی ہے ،عقد کرنا ،نکاح کرنا تو میرا فعل ہے لیکن زوجیّت
میرا فعل تھوڑی ہے ،میں کسی چیز کو کرید رھا ہوں وہ چیز میری ملکیت میں ارھی
ہے ،کسی چیز کا خریدنا تو میرا فعل ہے لیکن اس چیز کا میری ملکیت میں انا تو میرا
نہیں ہے ۔ ’’پس یہ جو اپ کہہ رھے ہیں حکم ِشرعی یعنی وہ خطاب ِشرعی کے جس کا
افعال ِمکلَّف کے ساتھ تعلق ہو یہ تعریف جامع افراد نہیں ہے ۔ بھت سارے احکامات ہیں
جو حکم ِشرعی ہیں لیکن ان کا تعلق فعل ِمکلَّف کے ساتھ نہیں ہے‘‘۔ کیا صحت ِ صالۃ
میرا فعل ہے ؟ نہ ۔کیا زاجیت میرا فعل ہے ؟ نہ ۔ کیا ملکیت میرا فعل ہے ؟ نہ ۔
پھر کیسے کہہ رھے ہیں کے حکم ِشرعی یعنی ایک ایسا خطاب کے جس کا تعلق
فعل ِمکلَّف کے ساتھ ہے ۔
منطق میں اپ پڑھہ چکے ہیں کے تعریف جامع اور مانع ہونی چاھئے ہے یہ تعریف
جامع افراد نہیں ہے بھت ساری چیزیں ہیں جو حکم ِشرعی ہیں لیکن تعریف کے اندر نہیں
ہیں ۔
دوسرا اشکال خطاب ِشرعی (حکم ِشرعی)پر ہے ۔
اقیموا الصالۃ حکم ہے یا اقیموا الصالۃ کے ذریعہ ہم حکم ِشرعی کو سمجھتے ہیں ؟ حکم
اقیموا الصالۃ ہے یا حکم وجوب ِصالۃ ہے؟ حکم وجوب ِصالۃ ہے ،اقیموا الصالۃ تو حکم
نہیں ہے ،صحیح ہے کے وجوب ِ صالۃ کو ہم اقیموا الصالۃ سے سمجھتے ہیں لیکن
اقیموا الصالۃ تو حکم ِشرعی نہیں ہے ۔
’’پس حکم ِشرعی خطابات ِ شرعیہ نہیں ہیں بلکہ خطابات ِشرعیہ جس پر داللت کرتے ہیں
وہ حکم ِشرعی ہے ‘‘۔
خالصہ:
اشکال ِّاول :حکم ِشرعی خود خطاب ِشرعی نہیں ہے بلکہ خطاب ِشرعی کا مدلول ہے
جبکہ مشھور اصولی تعریف کر رھے ہیں کے حکم ِشرعی خطاب ِشرعی ہے۔
ِدوم :حکم ِشرعی ہمیشہ فعل ِمکلَّف کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا بھت سارے احکام اشکال ّ
ہیں جن کا تعلق افعال ِمکلَّفین سے نہیں ۔
یہ دو اشکال مشھور کی تعریف پر وارد ہیں ،اقا شھید صدر کہتے ہیں کے یہ تعریف
اتنی اچھی نہیں ہے ۔
سوال ِشاگرد :اگر بطالن ِنماز کیلئے کوئی خطاب ا بھی جاتا ہے تو وہ فعل ِمکلَّف کے
ساتھ رابطے میں تو ہے ہی ؟
جواب ِ استاد :رابطے میں تو ہے لیکن فعل ِمکلَّف نہیں ہے ،یہ مانتا ہوں کے
صحت ِصالۃ اور فساد ِصالۃ کا تعلق اس کو قبول کرتا ہوں کے فعل کے ساتھ مرتبط ہے
لیکن تعریف کہہ رھی ہے المتعلق بافعال المکلَّف فعل ِمکلَّف کے ساتھ تعلق ہے ۔
تعریف میں انسان ذرہ بین لے کر کھڑا ہو جاتا ہے ،تعریف کو بلکل شفاف ہونا چاھئے ،
تعریف میں کوئی پیچیدگی نا ہو اگر مگر نا ہو ،تعریف کو پرفیکٹ ہونا چاھئے ۔
اقا شھید صدر کہتے ہیں کے ہم ایسی تعریف بیان کریں گے جس میں ان نقائص میں سے
کوئی نقص نہیں ۔
شھید صدر کہتے ہیں حکم ِشرعی کی تعریف یہ کریں:
’’ھو التشریع الصادر من ہللا لتنظیم حیاۃ االنسان‘‘
’’حکم ِشرعی ہو قانون ہے جو پروردگار ِعالم کی طرف سے صادر(بیان) ہوتا ہے تاکے
انسان کی زندگی منظم ہوسکے ‘‘۔
انسان کی زندگی میں تنظیم پیدا کرنے کیلئے ،نظم و ضبط پیدا کرنے کیلئے جتنے بھی
احکام ہیں چاھے مسعتیم چریقے سے فعل ِمکلَّف کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جیسے
وجوب ِصالۃ یا چاھےغیر مستقیم طریقے سے فعل ِمکلَّف کے ساتھ تعلق نہ رکھتے ہوں
جیسے زوجیّت ،ملکیت ۔ باالخر انسان کی زندگی میں زوجیت کا سلسلہ رکھا گیا ہے تاکہ
انسان کی زندگی میں نظم ائے۔ ملکیت کا سسٹم رکھا گیا ہے تاکے زندگی میں ھرج و
مرج نا ہو ۔
التقسیم الحکم الی تکلیفی و وضعی
حکم ِشرعی کی دو قسمیں ہیں ۔
۱۔ حکم تکلیفی
۲۔ حکم ِوضعی
مشھور کی جو تعریف بیان ہوئی تھی اس پر شھید صدر نے ایراد و اشکال کیا تھا ۔
مشھور کہہ رھے تھے کے خطاب ِشرعی کے جس کا تعلق فعل ِمکلَّف کے ساتھ ہے ،اقا
شھید صدر نے فرمایا کے ضروری نہیں ہے کے حکم ِشرعی کا تعلق ہمیشہ فعل ِمکلَّف
کے ساتھ ہو بلکہ بسا اوقات حکم ِشرعی کا تعلق ایک ذات سے ہوتا ہے جیسے زجیت ،
بسا اعقات حکم ِشرعی کا تعلق کسی اور چیز کے ساتھ ہوتا ہے جیسے ملکیت ،جس کا
تعلق مال کے ساتھ ہے ۔
اقا شھید صدر کہتے ہیں کے بس یھاں سے سمجھہ میں اتا ہے کے کلی طور پر حکم کی
دو قسمیں ہیں ۔ یا حکم کا تعلق مستقیما ً انسان کے فعل کے ساتھ ہے جسے حکم ِتکلیفی
کہتے ہیں مثالً نماز ۔ یا نہ حکم کا تعلق مستقیما ً انسان کے فعل کے ساتھ نہیں ہے جیسے
حکم ِوضعی مثالً زوجیت مستقیم طریقے سے فعل ِمکلَّف نہیں ہے لیکن باالخر فعل ِمکلَّف
کے ساتھہ اس کا تعلق ہے ۔
سوال :حکم ِتکلیفی اور حکم ِ وضعی کے درمیان کیا رابطہ ہے ؟
جواب :حکم تکلیفی اور حکم وضعی کے درمیان رابطہ دو طریقوں سے ہے ۔ایک رابطہ
یہ ہے کے حکم ِوضعی موضوع واقع ہوتا ہے حکم ِتکلیفی کیلئے ۔ مثالً زوجیت ،یہ
زوجیت موضوع واقع ہوتا ہے بعض احکام ِتکلیفیہ کے اوپر ،یہ زوجیت موضوع ہے چید
احکام ِتکلیفیہ کیلئے مثالً ایک حکم ِتکلیفی وجوب ِانفاق ہے زوج پر ،یہ حکم ِتکلیفی ہے
کے زوج پر واجب ہے کے زوجہ کے اخراجات برداشت کرے ،شوھر پر واجب ہے
شریعت میں ،اس کا موضوع کیا ہے ؟ شوھر پر واجب ہے کے اخراجات برداشت کرے
،اس کا موضوع کیا ہے ؟اس کا موضوع ہے زوجۃ ،کس کے اخراجات واجب ہیں ؟ جو
زوجۃ ہے اس کے اخراجات واجب ہیں ،پس یہ زوجیت موضوع بنتا ہے وجوب ِانفاق
کیلئے ،مراۃ پر واجب ہے کے وہ زوج کی اطاعت کرے ،وجوب ِاطاعت واجب ہے ،
موضوع کیا ہے ؟ زوجیت کے وہ شوھر ہے ،پس حکم ِ وضعی یہ زاجیت موضوع واقع
ہو رھا ہے حکم ِتکلیفی کیلئے ۔
پھال رابطہ حکم ِ تکلیفی اور حکم ِ وضعی کا کیا ہے کے بسا اوقات حکم ِوضعی موضوع
واقع ہوتا ہے حکم ِ تکلیفی کیلئے ۔
ایک اور رابطہ بھی ہے یہ تھوڑا سمجھنے واال ہے دوسرا رابطہ بسا اوقات حکم ِوضعی
کو حکم ِتکلیفی سے انتزاع کیا جاتا ہے ۔ یہ کیسے ہوتا ہے ؟ شارع نے ہمیں دو حکم ِ
شرعی بیان کئے ہیں کہا اقیموا الصالۃ نماز پڑھو ۔
شارع کہہ رھا ہے اقیموا الصالۃ نماز واجب ہے ،دوسری مرتبہ کہتا ہے کے فقط نماز
کافی نہیں ہے نماز جب بھی پڑھیں وضو کے ساتھ پڑھیں اذا قمتم من الصالۃ فاغسلوا
،ایک وجوب صالۃ اور ایک وجوب وضو ۔شارع کہتا ہے کے اپ کی نماز اپ کے وضو
کے ساتھ ہوگی ،یہ دونوں حکم ِتکلیفی ہیں ،وجوب ِ صالۃ کیونکہ فعل ِمکلَّف کے ساتھ
مرتبط ہے ،وجوب ِوضو فعل مکلَّف کے ساتھ مربوط ہے یہ حکم ِتکلیفی ہیں لیکن ان
دونوں حکم ِتکلیفیوں کو اپس میں مالتے ہوئے ہماری عقل ایک اور چیز کو انتزاع کرتی
ہے ۔ شارع کہتا ہے کے نماز وضو کے بغیر نہ ہو پس وضو نماز کیلئے شرط ہے ،جب
شارع نی کہا ہے نماز وضو کے بغیر نہیں یعنی وضو شرط ِنماز ہے ،اس شرطیت کو
ھماری عقل درک کرتی ہے ،شارع نے کہا نماز وضو کے بغیر نہیں پس شرطیت رکھتا
ہے وضو نماز کی بالنسبت یا مثالً شارع نے کہا کے نماز جب بھی پڑھیں اس کے اندر
حمد و سورۃ بھی ہو ۔پس نماز حمد و سورۃ کے بغیر ممکن نہیں ہے ،وجوب ِنماز حکم
تکلیفی ،وجوب ِ سورۃ حکم ِتکلیفی ،وجوب َحمد حکم ِتکلیفی لیکن ان احکامات سے
ہماری عقل اس چیز کو سمجھتی ہے پس حمد نماز کا جزء ہے ،سورۃ نماز کا جزء ہے
۔حکم ِتکلیفی ہے لیکن ہم اس سے جزئیت کو انتزاع کرتے ہیں ،جزئیت کو سمجھتے ہیں
۔
شارع کہہ رھا ہے ّ
ان القھقھۃ تبطل الصالۃ ،نماز میں قھقھہ لگائیں تو نماز باطل ہو جائے
گی ،ابو حنیفہ کہتے ہیں کے وضو بھی باطل ہو جائے گا اور نماز بھی باطل ہو جائے
گی لیکن ہمارے یھاں(اھل تشیع) تو فقط نماز باطل ہے۔
ہماری عقل سمجھتی ہے کے قھقھہ فقط نماز کے لئے مانع کی حیثیت رکھتا ہے۔
دیکھیں چند احکام ِتکلیفیہ ہیں ،ایک مرتبہ شرطیت کو ہم نے انتزاع کیا ،ایک مرتبہ
جزئیت کو انتزاع کیا ،ایک مرتبہ مانعیت کو انتزاع کیا ۔ یہ شرطیت ،مانعیت ،جزئیت
حکم ِتکلیفی تو نہیں ہیں ،حکم ِتکلیفی کو سے ان چیزوں کو انتزاع کیا ہے ۔ شرطیت
حکم ِوضعی ہے ،جزئیت حکم ِوضعی ہے ،مانعیت حکم ِوضعی ہے ،پس حکم ِتکلیفی
اور حکم ِوضعی کا ایک رابطہ یہ ہے کے کبھی کبھار ہم حکم ِتکلیفی سے حکم ِوضعی
انتزاع کرتے ہیں ۔
اقسام الحکم التکلیفی
احکام ِتکلیفیہ ۵ہیں
۱۔ وجوب ۲۔ حرمت ۳۔ استحباب ۴۔ کراھۃ ۵۔ اباحہ
ہمارے یہاں(اھل تشیع) حکم تکلیفی ۵ہیں جن جو احکام ِخمسہ بھی کہا جاتا ہے جبکی
اھل سنت کے نزدیک ۷ہیں ۔
1.وجوب :ایسا حکم ِشرعی کے جس میں کہا جاتا ہے کے فعل کو حتما ً انجام دو ،
فعل کو چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے ۔
حرمت :اس فعل کو حتما ً ترک کریں ،فعل کو انجام دینے کی اجازت نہیں ہے ۔ 2.
3.استحباب :شارع کہتا ہے بھتر ہے کے اس کو انجام دیں ،اگر چھوڑ بھی دیں تو
اختیار ہے ۔
4.کراھت :شارع کہتا ہے بھتر ہے کے اس کو انجام نہ دیں ،اگر انجام دیں بھی دیں
تو اختیار ہے ۔
اباحہ :انجام دینا اور انجام نہ دینا برابر ہے ۔ 5.
درس ۸
مبادئ عامہ
بحث جدید میں وارد ہونے سے پھلے ایک تقسیم بندی بیان کر رھے ہیں اقا شھید صدر
مباحث کیلئے۔
شھید صدر فرماتے ہیں جو فقیہ دلیل قرار دیتا ہے حکم شرعی کیلئے۔
حکم شرعی کیلئے جو دلیل ہے وہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہے ،یا تو ایک ایسی دلیل
ہے جو حکم شرعی تک پہنچاتی ہے یا حکم شرعی تک نہیں پہنچاتی بلکہ موقف عملی
کو معین کرتی ہے ۔
جو دلیل حکم شرعی تک پہنچاتی ہے اسے کہتے ہیں ادلہ محرزہ یا دلیل محرز یا دلیل
اجتھادی ۔
جو دلیل حکم شرعی تک نہ پہنچائے بلکہ موقف عملی کو معین کرے تو اسے اصول
عملی کہتے ہیں ۔
جو دلیل حکم شرعی تک پہنچاتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں ۔
۱۔ یا تو وہ دلیل قطعی طریقے سے حکم شرعی تک پہنچاتی ہے تو یہ دلیل حجت ہے
ذاتا۔
( )۱دلیل حکم شرعی تک پہنچائےاور اس کا حکم شرعی تک پنہچانا بھی یقینی ہے تو
اسے ہم کہتے ہیں دلیل قطعی۔(ادلہ محرزہ میں سے دلیل قطعی)
۲۔ یا تو وہ دلیل ظنی طریقے سے حکم شرعی تک پہنچاتی ہے ۔
( )۱یا تو اس دلیل ظنی کی حجیت پر دلیل قطعی موجود ہے ۔
()۳یا تو اس کی حجیت پرنہ تو دلیل قطعی موجود ہے اور نہ عدم حجیت پر دلیل قطعی
موجود ہے۔
وضاحت :
دلیل ظنی ان تین حالتوں سے خالی نہیں ہے ۔
( )۱یا تو اس دلیل ظنی کی حجیت پرھمارے پاس دلیل قطعی موجود ہے ۔ جیسے خبر
ثقہ ،خبر ثقہ دلیل ظنی ہے کیونکہ ثقہ جو بھی قابل اعتبار ہےاس کی خبر حجت ہے ۔
خبر ظقہ ظنی ہے کیونکہ انسان جتنی بھی کوشش کرے باالخر ثقہ کی خبرسے ظن
حاصل ہوتا ہے ،احتمال ہے کے اشتباہ کیا ہو ،احتمال ہے انحراف کیا ہو ،لھذا خبر ثقہ
ظنی ہے لیکن اس کی حجیت پر ھمارے پاس دلیل قطعی موجود ہے ۔ اگر ایسی دلیل ہو
اگرچہ دلیل ظنی ہے لیکن اس کی حجیت پر دلیل قطعی موجود ہے تو یہ بھی اسی پہلے
کے درجے میں چلی جائے گی یعنی دلیل قطعی ہوجائے گی (جہاں پر دلیل محرز پر
حکم قطع ،دلیل قطعی موجود ہے تو ہم نے کہا کے حجت ہے ،تو اسی طریقے سے وہ
دلیل کے جو خود دلیل ،بذات خود دلیل ظنی ہے لیکن اس کی حجیت پر ھمارے پاس دلیل
قطعی موجود ہے تو وہ بھی دلیل قطعی کے درجے میں چلی جائے گی ۔ درست ہے کے
بذات خود حجت نہیں ہے لیکن اس کی حجیت پر ھمارے پاس دلیل ہے )۔
(ان شا ہللا خبر ثقہ اور خبر واحد کے بارے میں بحث کریں گے اور ثابت کریں گے
کے خبر واحد کی حجیت پر ھمارے پاس ادلہ موجود ہیں )
ایسی دلیل کے جو دلیل ظنی ہو اور اس کی حجیت پر دلیل قطعی موجاد ہو تو اسے کہتے
ہیں ظنون ِخاصہ(ظن ِخاص ہے) ۔
ظن ِخاص ہے یعنی کیا ؟
یعنی ایسا ظن ہے کے جس کی حجیت پر ھمارے پاس دلیل موجود ہے ۔
( )۲یا تو اس دلیل ظنی کی عدم حجیت پر دلیل قطعی موجود ہے کے حجت نہیں ہے ۔
جیسے قیاس ،قیاس حجت نہیں ہے ۔
( قیاس یعنی جسے منطق میں اپ تمثیل کہتے ہیں ۔ تمثیل یعنی ایک جزئی سے دوسری
جزئی کی طرف جانا )۔
کہتے ہیں کے قیاس دلیل ظنی ہے(علم اصول میں تمثیل کو قیاس کہتے ہیں)
قیاس حجت نہیں ہے ،اسکے عدم ِحجیت پر دلیل دیتے ہیں ۔ مثال امام صادق فرماتے ہیں
کہ :پھال بندہ جس نے روئے زمین پر قیاس کیا وہ شیطان تھا ۔
قیاس کی عدم ِحجیت پر یہ روایت دلیل ہے پس ظن حجت نہیں ہوگا کیونکہ اسکی حجیت
پر یعنی اس کے حجت ہونے پر دلیل نہیں ہے۔
( )۳انّما الکالم و االشکال اس مورد میں کے جہاں پر دلیل ظنی موجود ہے لیکن نہ اس
کی حجیت پرھمارے پاس دلیل قطعی موجود ہے اور نہ اسکے عدم ِ حجیت پر ھمارے
پاس دلیل قطعی موجود ہے۔
اب کیا کریں ؟ اگر ام کے پاس ایسی دلیل اجائے جو دلیل ،دلیل ِ ظنی ہے ۔ نہ اس کی
حجیت پر دلیل ہے اور نہ اس کی عدم ِحجیت پر دلیل ہے تو کیا وہ بھی حجت ہوگا یا
حجت نہیں ہوگا ؟
اصل یہ ہے کے ظن پر عمل کرنا جائز نہیں ہے اس لئے کے ظن انسان کو واقع اور
حقیقت تک نہیں پہنچاتا بلکہ انسان گمان کرتا ہے کے ایسے ہوگا لیکن کیا ایسا ہے بھی
یا نہیں ،یہ نہیں جانتا ۔
ان الظنَّال یغنی من الحق شیئا
ّ
تقسیم البحث
دلیل شرعی یا دلیل محرز ہے یا اصل عملی ۔
دلیل شرعی یا دلیل لفظی ہے یا دلیل غیر لفظی ۔
دلیل لفظی یا اصل ِ داللت ہے(معین کریں کے داللت کے بارے میں) ،یا حجیت داللت
ہے(کیا یہ داللت حجت بھی ہے یا نہیں) ،یا صدور ِ دلیل ہے(کیا واقعی شارع سے صادر
ہوئے ہے یا نہیں)۔
دلیل شرعی کسے کہتے ہیں ؟
تعریف ِدلیل ِشرعی :
اس دلیل کع کہتے ہیں کے ہر وہ چیز جو شارع سے صادر ہو اور حکم شرعی پر داللت
کرے ۔ مثال اقیموا الصالۃ ،جب اقیموا الصالۃ شارع سے صادر ہوا ہے تو یہ اقیموا
الصالۃ داللت کر رھا ہے حکم شرعی پر کے نماز پڑھنا واجب ہے۔
دلیل عقلی کسے کہتے ہیں ؟
تعریف ِ دلیل ِ عقلی :
وہ قضایا کے جن کو ھماری عقل درک کرتی ہے اور ان سے حکم شرعی کو استنباط
کرے ۔ مثال ھماری عقل درک کرتی ہے کے ایک شیء کو واجب قرار دینا مستلزم ہے
کے مقدمہ بھی واجب ہو۔
اب یہ قضیہ ہے :
ایجاب شئ یستلزم ایجاب مقدمتہ
ایک شئ اگر واجب ہوجائے تو اس کا الزمہ یہ ہے کے اس کا مقدمہ بھی واجب ہے ۔
یہ ایک قضیہ ہے کے جس کو ھماری عقل دلک کرتی ہے لیکن اس قضیہ سے اپ کیا
کرتے ہیں ؟ ایک حکم شرعی کو انتزاع کرتے ہیں ،اسے کہیں گے دلیل ِ عقلی ۔
دلیل شرعی یا کتاب(قران مجید) ہے یا سنت(قول،فعل،تقریر ِمعصوم) ہے۔
سنت کی تعریف کیا ہے؟
معصوم ،تقریر ِ معصوم ۔
ِ تعریف :قول ِ معصوم ،فعل ِ
اھل ِسنت کہتے ہیں قول ِ پیغمبر ،فعل ِ پیغمبر ،تقریر ِ پیغمبر ۔
اھل تشیع (ہم) کے یھاں دائرہ سنت وسیع ہے جبکہ اھل ِ سنت ہے وھاں محدود ہے۔
حدیث اور سنت میں کیا فرق ہے ؟
حدیث حاکیء(حکایت کرنے والی) سنت ہے۔
حدیث وہ قول ہے کے جو قول ِسنت کی حکایت کرتا ہے،ھمارے لئے سنت کو نقل کرتا
ہے ۔ مثال انّما االعمال باالنیات(حدیث ہے) یعنی اس کے ذریعہ سے میں قول پیغمبرﷺ کو
نقل کر رھا ہوں ۔ میں خود تو خود نہیں ہوں رسول ہللا ﷺ کی خدمت میں تاکے ان سے
سنوں ،جو وہ کر رھے ہیں اس کو دیکھوں ،یا جو پیغمبرﷺ کے سامنے ہو رھا ہے ،
تقریر میں ایسے ہے یعنی نبی ﷺو ائمہ (ع) کے سامنے ایک عمل ہو اور وہ تقیہ کے عالم
میں بھی نہ ہوں اور وہ خاموش رہیں اُس عمل سے تو اس سے اصل جواز سمجھ میں اتا
ہے یعنی سمجھ میں اتا ہے کے وہ فعل جائز ہے ،کیونکہ اگر وہ فعل غلط ہوتا تو معصوم
خاموش نہیں رہتےبلکہ اپنا رد ِعمل دکھاتے کے یہ غلط کر رہے ہو۔
تو حدیث خود سنت نہیں ہے خود ِقول ِ معصوم نہیں ہے،قول ِ معصوم کی جن الفاظ کے
ذریعہ سے حکایت کرتے ہیں اسے حدیث کہتے ہیں ۔
انّما االعمال باالنیات تو میں نے نہیں سنا پیغمبرﷺ سے ،ائمہ(ع) کے جتنے اقوال ہیں وہ
تو میں نے نہیں سنے ان سے ،پس کچھہ الفاظ ہیں کے جن کے ذریعہ سے وہ سنت
میرے لئے نقل ہو رھی ہے ،حکایت ہو رھی ہے۔
سنت بذات ِ خود قول ِ معصوم ہے ،فعل ِ معصوم ہے ،تقریر ِ معصوم ہے۔
اضافی سمھنے کیلئے مثال :
سوال ِ شاگرد :یہ جو اصول ِ عملیہ ہیں حکم ِ شرعی تک نہیں پہنچاتے بلکہ موقف عملی
کو معین کرتے ہیں ،جب حکم ِشرعی تک نہیں پہنچاتے تو موقف عملی تک کیسے
پہنچاتے ہیں ،موقف عملی کو کیسے معین کرتے ہیں ؟
جواب ِاستاد :ھمارا عقیدہ یہ ہے کے لوح ِ محفوظ میں احکام ِ شرعیہ موجود ہیں ،بخالف
اشاعرہ اور معتزلہ ۔
لوح ِ محفوظ میں احکام ہیں ،اب ایت ہو روایت ہو یا جو بھی دالئل ہیں یہ چراغ بنتے ہیں
حکم ِ واقعی تک پہنچانے کیلئے ،کبھی کبھار اس دلیل کے ذریعہ اپ اس حکم ِواقعی تک
پہنچ جاتے ہیں جو لوح ِ محفوظ میں موجود ہے ۔ کبھی کبھار اپ کے پاس دلیل نہیں ہے
مثال ً بینکنگ کے بھت سارے مسئلے ہیں ،عجیب و غریب قسم کے معامالت ہیں ،
ظاھری طور پر اپ قران کو دیکھتے ہیں سنّت کو دیکھتے ہیں ،کسی جگہ سے حکم ِ
شرعی کا پتہ نہیں چلتا ،اب کیا کریں ؟
کہتے ہیں کے یھاں پر مکلّف پریشان نہ ہو ،شارع نے کچھ اصول و قواعد معین کیئے
ہیں ،وہ اپ کو حکم ِ شرعی ّاولی جو کے لوح ِ محفوظ میں ہیں وہ نہیں بتائیں گے بلکہ
اپ کے موقف عملی کو معین کریں گے ،یا ھماری عقل بعض جگہوں پر احکامات صادر
کرتی ہے۔
مثال پر غور کریں دقیق مثال ہے اصول عملیہ اور ادلہ محرزہ کے درمیان تفریق و
جدائی ڈالنے کیلئے۔
میں مدرسے میں ہوں اچانک مجھے فون اتا ہے ،اقا جان اپ کے جو فالں دوست ہیں وہ
جمعرات کو اپ کے پاس ارھے ہیں ،خبر دینے واال قابل ِ اعتماد بندہ تھا (مجھے پتہ چل
گیا کے پیرے فالں دوست جمعرات کو ارھے ہیں) ،دوسری مرتبہ مجھے پتہ چال
جمعرات کے دن اپ کے فالں دوست کو کسی نے کہا کے میں نے جوھر چورنگی پر
دیکھا ہے (جس نے انا تھا اس دوست نے پیغام نہیں بھیجا) بلکی تیسرا بندہ کہہ رھا ہے
کے اقا جو اپ کے اتنے بھترین دوست ہیں اس کو میں نے جوھر چورنگی پر دیکھا ہے ۔
مجھے پتہ نہیں تھا کے اُس نے میرے پاس انا ہے یا نہیں انا ،لیکن اب میں کیا کروں گا
؟
دوست کی اھمیت کے مطابق تیاری کروں گا ۔ اگر میرے لئے بھت زیادہ اھم ہوئے تو
میں ویسی تیاری کروں گا ۔ تھوڑا بھت کمرے کو مرتب کروں گا ،اس کیلئے کچھ
لوازمات ،کھانے پینے کی چیزیں منگوائوں گا ۔ اگر میرے میرے لئے بھت زیادہ اھمیت
والے ،قابل ِ اعتناء نہیں ہیں تو کیا کروں گا ؟
کہوں گا ۔ائے انے میں کیا ہے ،ائے گا تو دیکھا جائے گا ۔
اگر اُس نے شکایت کی اور کہا کو اقا اپ نے جا میرا حق بنتا تھا اس طریقے سے میرا
استقبال نہیں کیا ،تو کہوں گا کے بھئی اپ نے مجھے بتایا تھوڑی تھا ۔ اپ مجھے بتاتے
تو میں اپ کیلئے اھتمام کرتا ۔
اب دیکھیں تین صورتیں ہوئیں یھاں پر :
ایک مرتبہ مجھے دوست پیغام دے رھا ہے کے میں ارھا ہوں ،تو اس کے انے کیلئے جو
مجھے اھتمام کرنا چاھئے وہ اھتمام میں کروں گا ۔
دوسری صورت میں مجھے بتاتا نہیں ہے ،یھاں پر دو صورتیں بنتی ہیں :
یا تو وہ بھت زیادہ اھم ہے تو اس کے استقبال کا میں انتظام کروں گا ۔
یا نہ اتنا زیادہ اھم نہیں ہے ،ائیں گے تو دیکھا جائے گا۔
عینا ً اسی طریقے سے اپ اس مثال کو دقت کے ساتھ دیکھیں:
شارع نے اپنے پیامبر ،انبیاء ،رسل ،ائمہ ،جو بھی اس کے احکامات کو بیان کرتے ہیں
،اُس نے بھیجے ہیں ۔ان لوگوں نے سارے احکامات پہنچائے ہیں لیکن میں جو دور رہ
رھا ہوں ،مجھ تک یا وہ سارے احکامات پہنچتے ہیں ایک اچھے ذریعہ کے ساتھ کے
جس ذریعہ پر اعتماد کر سکتا ہوں یا وہ احکامات مجھ تک نہیں پہنچتے ۔
اگر قابل ِ اطمئنان طریقے سے وہ مجھ تک پہنچتے ہیں تو وہ وسائل کے جو احکامات
مجھ تک پہنچاتے ہیں میں ان کو کہتا ہوں دلیل محرز کہ جن کے ذریعہ سے وہ حکم
شرعی مجھ تک پہنچتا رھا ہے۔
افر مجھے پتہ نہیں چال وہ دلیل محرز مجھ تک نہیں پہنچا (اس کے اسباب بھت سارے
ہوسکتے ہیں ۔میں زمانے سے دور ہوں ،روایات زمانے کی وجہ سے مجھ تک نہیں
پہنچیں یا روایات پہنچی ہیں لیکن روایات میں تعارض ہے ،یا روایت مجمل ہے وغیرہ)۔
اب میں کیا کروں (دلیل محرز تو نہیں ہے)؟
اب یھاں پر بھی عینا ً وھی دو حالتیں ہیں :
یا وہ چیز میرے لئے بھت زیادہ اھم ہے تو میں احتیاط کروں گا۔
یا نہ وہ چیز بہت زیادہ اھم نہیں ہے تو وھاں برائت جاری کروں گا۔
اگر اس مثال پر غور کریں تو اصل عملی اور دلیل محرز سمجھ میں اجائے گی ان شاء
ہللا ۔
درس ۹
أ ۔ الدلیل الشرعی اللفظی
البحث األول :الداللۃ ()۱
الوضع
بحث دلیل شرعی لفظی کے بارے تیں طریقوں سے ہے۔
۱۔ اصل ِ داللت
۲۔ حجیت ِ داللت
۳۔ اثبات ِ داللت
بحث ہے ھماری اصل داللت میں ۔
دلیل کس چیز پر داللت کرتی ہے اس سے پہتر ہے کے پھلے ہم یہ سمجھیں کہ خود دلیل
کیا ہے ؟ اقیموا الصالۃ کس چیز پر داللت کرتا ہے ؟
پہلے سمجھنا چاھئے کے داللت یعنی کیا ؟ ( داللت کی منطق میں تعریف پڑھ چکے ہیں
وہ مباحث یہاں پر نہیں دھرائیں گے)
داللت کی تعریف کیا ہے ؟
داللت یعنی ایک شئ اس حیثیت سے ہو کے جب ایک کا علم حاصل ہو جائے تو دوسری
شئ کا علم خودبخود حاصل ہو جائے ۔ مثالً دونھیں کو دیکھتے ہیں پتہ چل جاتا ہے کے
اگ لگی ہے ،کسی کا چھرہ سرخ ہو رھا ہے تو پتہ چلتا ہے کے غصہ میں ہے ۔
داللت کی کلی طور پر تین قسمیں ہیں (۱۔ وضعیہ ۲۔ طبیعیہ ۳۔ عقلیہ )۔
ظر ہے کے جس کے ذریعہ سے ماشاءہللا اپنا جمال دیکھتے ہیں ۔ یہاں پر ائینہ ما بہ یُن َ
بھی ایسے ہی ہے لفظ معنی کے اندر فانی ہے ،لفظ کو دیکھتے ہیں ،لفظ پر نگاہ
نگاہ ِالی ہے ائینہ والی نگاہ ہے ،لفظ فقط یہ ہوتا ہے کے اس کے قالب میں معنی کو
دیکھیں ،لفظ کے اندر متوجہ ھی نہیں ہوتے کے لفظ کیا ہے ،لفظ کہتا ہوں اپ کی توجہ
معنی کی طرف جاتی ہے ،اس کو تعبیر کرتے ہیں کے لفظ معنی کے اندر فانی ہے ،فنا
اس طریقے سے ہے کے اپ اس لفظ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے کچھ اور دیکھتے ہیں ۔
مزیدار بات ہے ،کتاب میں ذکر نہیں ہوئی فقط اشارہ کر رھا ہوں ۔ اقا خوئی اس کے
بارے میں ذکر کرتے ہیں کے اصل میں واضع ایک تعھد کرتا ہے ،جیسے اپ اپس میں
تعھد کرتے ہیں یا مثالً استاد شاگردوں سے تعھد کرتا ہے کے جب بھی میں کالس میں
عمامہ پھن کر ائوں گا تو اس کا مقصد ہے مجھے کالس کے بعد کہیں جانا ہے ،بعض
تعھدات ہیں جو اپ نے ایک دوسرے سے کئے ہوئے ہیں ۔ مثالً بعض جگہوں پر ہوتا ہے
کے مھمان اجائے تو میں کہوں کے چائے لیکر ائیں مھمان کیلئے بھئی جلدی کریں چائے
لیکر ائیں یعنی نہیں النی بھلے مھمان بیٹھہ بیٹھہ کر چال جائے ۔ اس طریقے سے ہوتا ہے
میں نے سنا ہے کے بعض افیسز وغیرہ میں اس طرح سے اشارہ ہوتے ہیں ،چائے لیکر
ائیں یعنی نہیں النی ،یا مثالً کوئی بڑا ادمی ہو اس کے پاس کوئی جاتا ہے کچھہ لکھوانے
کیلئے جناب اپ مجھے یہ لکھہ کر دیں میرا کام ہو جائے حتی یہ جو قلم (پین) ہوتا ہے
اس کا بھی حساب ہوتا ہے ،اگر الل پین سے لیکھوں یعنی کام نہیں کرنا ،گر نیلے پین
سے لیکھوں اس کا مطلب ہے اگر ہو سکے تو کیجیئے گا اگر نا ہوسکے تو چھوڑ
دیجیئے گا ،اگر سبز پین سے لکھوں تو یعنی حتما ً کام کرنا ہے اس کا ،الفاظ وھی ہوتے
ہیں لیکن اس طرح پین تبدیل کرتے رھتے ہیں الل ،نیال ،سبز تو وہ اثر کرتا ہے ،الفاظ
سے لکھنے کی نوعیت فرق کرتی ہے ۔
یہ کیا ہیں ؟ یہ تعھدات ہیں ۔
اقا خوئی فرماتے ہیں کے لفظ اور معنی کا رشتہ بھی ایک قسم کا تعھد ہے کانّہ واضع اپ
لوگوں سے تعھد کرتا ہے کے جب بھی میں لفظ ِ پانی کہوں تو گویا میں نے وعدہ کیا ہوا
ہے کے اس سے مقصد میرا یہ ذات ِمرطوب ،سیّال چیز ہوگی ۔ یہ کہہ رھے ہیں کے لفظ
اور معنی کا رشتہ ایک قسم کا تعھد ہے ،جب بھی لفظ پانی کہوں یعنی ہم نے اپنے اوپر
الزم قرار دیا ہے کے اُسی چیز کی طرف ذھن جائے ۔ جب بھی سامنے مٹھائی رکھی
جائے مطلب کوئی خوشخبری ہے ۔
اسی طریقے سے اقا خوئی فرماتے ہیں کے جو بھی لفظ ہے وہ کسی نا کسی معنی پر
داللت کرتا ہے ۔ یعنی کیا ؟ یعنی واضع نے ایک قسم کا تعھد کیا ہوا ہے ۔ شاید یہ نظریہ
حلقہ ثانی یا ثالث میں پڑھیں لیکن اپ کے ذھن کو متوجہ کرنے کیلئے فقط اشارہ کیا ہے
لیکن اقا خوئی کی اس بات کو کسی نے نہیں مانا ہے بلکہ رد کیا ہے کے ایسے نہیں ہے۔
کیا واقعا ً اپ کے ذھن میں ایسے اتا ہے کے جب بھی میں لفظ پانی کہہ رھا ہوں تو اپ
کے ذھن میں ذات ِمرطوب ارھی ہے یعنی ایک وعدہ ہے اسکی وفا ہو رھی ہے ،میں
ایک تعھد کر رھا ہوں اپ اس تعھد کے مطابق عمل کر رھے ہیں ۔ ایسے ہے؟ اقا خوئی
کے عالوہ کسی کے ذھن میں نہیں ہے ایسا حتی کے جو اپنے بیٹے کا نام رکھہ رھا ہے
اس کے ذھن میں بھی یہ نہیں ہوتا جو خود واضع ہوتا ہے۔
دیکھیں اس پورے بیان میں شھید صدر جو اشکال کر رھے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر دیکھا
جائے تو وضع ایک تکوینی چیز ہے ۔ کیسے ؟ کیونکہ لفظ سنتے ہیں تو حقیقتا ً ذھن معنی
کی طرف جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کے ایک تکوینی امر صد در صد اعتباری امر سے کیسے وجود میں اتا ہے
؟ کیونکہ اگر اپ کہیں کے وضع کا مقصد یہ ہے کے یہ جو واضع اکر لفظ کع معنی کے
ساتھ مخصوص کرتا ہے ،یہ اعتباری عمل ہے لیکن ذھن کا لفظ سے معنی کی طرف
منتقل ہونا یہ تکوینی امر ہے حقیقی امر ہے ۔
اس اعتباری ِامر سے حقیقی ِامر تک کیسے پہنچتے ہیں ؟ یہ مشکل ابھی بھی باقی ہے ہم
تو اُسی طرح مشکل میں پہنسے ہوئے ہیں جس طریقے سے پھلے اس مشکل کے ساتھ
مواجھہ کر رھے تھے ،جس طری قے سے اس مشکل کے ساتھ پھلے سامنا ہو رھا تھا
ابھی تک ویسے کا ویسے سامنا ہے ۔
شھید صدر کہتے ہیں کے اس مشکل کو حل کرنے کیلئے بھترین چیز وہ ُکتے والی مثال
شیہ کا روس کا کوئی دانشور تھا اس کے پاس ایک ُکتا تھا جب بھی ہے ۔ کہتے ہیں کے ر ّ
اس کو کوئی چیز کھانے کیلئے دیتا تھا تو کھانے سے دو منٹ پھلے گھنٹی بجاتا تھا پھر
دو منٹ کے بعد اس کو کھانے کو دیتا تھا (مثال پر غور کیجیئے گا شھید صدر کا نظریہ
سمجھہ میں اجائے گا) ایک دن دو دن تین دن ۔ ۔ ۔ ایسے ہی کیا جب بھی اس کتے کو
کچھہ کھانے کیلئے دیتا دو منٹ پھلے گھنٹی بجاتا ہے ،کچھی عرصے بعد جیسے ہی
گھنٹی بجتی حتی کے وہ ُکتا تھا وہ بھی سمجھہ جاتا تھا کے اب کھانے کو کچھہ ملے گا ،
فورا ً اس طریقے سے جس طریقے سے کھانا کھانے کیلئے امادہ ہوتا تھا اسی طریقے
سے َحرکات انجام دینا شروع کر دیتا تھا ۔ یہ کیوں ؟ ایک چیز کو دوسری شیز کے ساتھ
مالیا ،قانون ہے ۔ کے قانون علم ِنفسیات میں بھت زیادہ استعمال ہوتا ہے ۔
شھید صدر اسی سی یھاں پر استفادہ کرتے ہیں ،کہتے ہیں کے یھاں سے ایک قانون بنا
کے ایک چیز اگر دوسری چیز کے ساتھ مقترن ہو ،ملی ہوئی ہو ،ایک مرتبہ دو مرتبہ
تین مرتبہ چار مرتبہ ۔ ۔ ۔ باالخر ہمیشہ ان کو ساتھ ساتھ دیکھیں گے تو فورا ً انسان کا ذھن
ایک چیز سے دوسری چیز کی طرف منتقل ہو جائے گا ۔ ایسے ہے یا نہیں ہے ؟ مثالً دو
لوگوں کو اپ ہمیشہ ساتھ ساتھ دیکھتے ہیں کے اتے بھی ساتھ ہیں ،جاتے بھی ساتھ ہیں ،
کھاتے بھی ساتھ ہیں ،پڑھتے بھی ساتھ ہیں خالصہ ہر وقت ساتھ ہوتے ہیں ،اگر کچھہ
عرصے بعد دونوں میں سے کسی ایک کو دیکیں تو ذھن فورا ً دوسرے کے طرف جاتا
ہے ،کیوں ؟ یہ ذھن ِانسانی ایسے ہے کے اگر ایک چیز کے ساتھ اگر دوسری چیز کو
مال ہوا دیکھے ،مقترن دیکھے تو کچھہ عرصے کے بعد اسنان کا ذھن مانوس ہوجاتا ہے
ایک کو دیکھتا ہے دوسرے کی طرف منتقل ہوتا ہے ۔
شھید صدر فرماتے ہیں کہ اسی سے اپ وضع کو سمجھیں کے وضع کیا ہے ۔ وضع فقط
یہ نہیں ہے کے واضع اکر کہے کے میں اس لفظ کو اس معنی کے ساتھ مخصوص کرتا
ہوں ،محض اعتبار نہیں ہے ،صحیح ہے کے اس کے ذریعہ سے زمینہ ھموار کرتا ہے
لیکن وضع اس قرن ِاقید کے نتیجے میں وجود میں اتا ہے ۔
قرن ِاکید یعنی دو چیزوں کا اچھے طریقے سے مال ہوا ہونا ۔
قرن یعنی مال ہوا ہونا ۔
اکید یعنی محکم و مظبوط طریقے سے ۔
واضع اکر یہ کرتا ہے کہتا ہے کے میں اس لفظ کو اس معنی کے ساتھ جوڑتا ہوں ،اب
اُس کے پھلی مرتبہ کہنے سے لفظ کے تصور سے معنی کا تصور ذھن میں نہیں اتا۔ اسی
لئے دیکھیں کسی گھر میں پھلی مرتبہ بچے کا نام رکھا جاتا ہے تو یہ نہیں ہوتا ہے کے
لفظ کو سننے سے اپ کے ذھن میں اس بچے کی تصویر اجائے ،تھوڑا ٹئم گذرتا ہے
گذرتا ہے ۔ ۔ ۔ پھر جاکر یہ ذھن میں خاکہ بنتا ہے کے یہ لفظ اس معنی کے ساتھ ہے ۔
یہ قرن ِاکید جب تک نہ ہو لفظ اور معنی کا اپس میں اقتران و میالپ جب تک شدید اور
محکم نا ہو تب تک لفظ کے تصور سے معنی کا تصور نہیں اتا شھید صدر اسی طریقے
سے اس نظریہ کو بیان کرتے ہیں ۔
شھید صدر فرماتے ہیں کے لفظ اور معنی کا رشتہ یھی قرن ِاکید ہے یعنی لفظ اور معنی
کو اپ ایک ساتھ اتنا مالتے ہیں اتنا مالتے ہیں کے جب بھی میں کہتا ہوں اگ یعنی یہ
جالنے والی چیز ،ایک مرتبہ سنا دوسری مرتبہ سنا تیسری مرتبہ سنا ۔ ۔ ۔ یہ مسلسل
اپس میں ان دونوں کا ارتباط انسان کے ذھن میں یہ ربط قائم کردیتا ہے کے جب بھی میں
لفظ کو بیان کرتا ہوں اپ کا ذھن معنی کی طرف منتقل ہوتا ہے ۔
اگر پوچھا جائے یہ قرن ِاکید کیسے پیدا ہوتا ہے تو جواب یہ ہے کے قرن ِاکید کا ایک
طریقہ تکرار ہے ایک چیز کا دوسری چیز کے ساتھ مسلسل ہونا ،ایک مرتبہ دو مرتبہ
تین مرتبہ ۔ ۔ ۔ باالخر ذھن ِ انسانی اُنس پیدا کر دیتا ہے ۔
کہا جاتا ہے یعرفوا الصاحب بالصاحب ایک دوست کو اس کے دوست کے ذریعہ سے
پہچانو ۔ وہ جو ہمیشہ اپس میں ایک ساتھ ہوتے ہیں تو ایک کی خاصیتیں دوسرے کے
اندر بھی منتقل ہوجاتی ہیں ،اسی لئے سعدی بھی کہتا ہے کہ تا توانی می گریز از یار ِبد
،یا ِربد بدتر ب َُود از مار ِبد ۔
حقیقت یھی ہے قرن ِاکید تکرار کی وجہ سے ،بار بار ایک ساتھ ہونے کی وجہ سے
وجود میں اتا ہے۔
اور کبھی کبھار یہ یہ قرن ِاکید یہ محکم رشتہ ایک مرتبہ ہونے والی چیز سے بھی وجود
میں اتا ہے اس کو شھید صدر تعبیر کرتے ہیں ظرف موثر ہے۔ ایک مرتبہ ایک واقعہ
ہوگیا لیکن حاالت ایسے سنگین تھے کے پوری زندگی پھر انسان کے ذھن سے وہ بات
نہیں نکلتی ۔
اس کی مثال یہ ہے کے ایک بندہ کسی شھر کی طرف مسافرت کرتا ہے اور شدید ملیریا
می ں مبتال ہو جاتا ہے پھر الحمدہلل شفا پا جاتا ہے اور مسافرت سے واپس بھی اجاتا ہے ،
تو یہ اقتران اس شھر کی طرف سفر اور ملیریا کے درمیان ھمیشہ اس کے ذھن میں
رھے گا ،جب بھی اس شھر کا تصور کرے گا اس کے ذھن میں ملیریا بھی اجائے گا ۔
تو شھید صدر فرماتے ہیں کے یہ قرن اور اقتران دو طریقوں سے ہوسکتا ہے۔
۱۔ ال شعوری
۲۔ شعوری
ال شعوری طریقے سے کیسے ہے ؟ مثالً انسان کو سینے میں درد ہوتا ہے ایک عجیب و
غریب قسم کی اواز انسان نکالتا ہے اہ ،اُہ ،ا وغیرہ
یہ جو اوازیں ہیں اہ ،اُف یہ اوازیں بیان کرتی ہیں کے کوئی درد ہے کوئی تکلیف ہے ۔
اس تکلیف کو بیان کرنے کیلئے یہ جو الفاظ ہیں وہ بین االقوامی سطح پر ہر بندہ سمجھتا
ہے ،ہر بندہ تکلیف کے وقت ان الفاظ کا تکرار کرتا ہے ۔
شھید صدر کہتے ہیں یہ اہ و اُف ایسے الفاظ ہیں جو انسان تکلیف کے وقت کہتا ہے اور
ان الفاظ کا انسان کی تکلیف کے ساتھ رشتہ ہے اور یہ اتنی مرتبہ بار بار بار بار بار بار
تکرار ہونے کی وجہ سے اُف اور اہ کا الَم یعنی درد کے ساتھ ایک رشتہ قائم ہوجاتا ہے ۔
ہم ایسے کسی گروہ کو نہیں جانتے کے جس نے کہا ہو کے ہم نے لفظ ِاہ کو وضع کیا
ہے تکلیف کیلئے ،اُف کو وضع کرتے ہیں تکلیف کیلئے (ایسا کوئی بھی گروہ نہیں ہے)
لیکن کیونکہ یہ لفظ انسان کے سینے می ں درد کے وقت استعمال ہوا اور اتنا استعمال ہوا
کے ان دونوں (درد اور اہ) کا اپس میں رشتہ بن جاتا ہے ،یھاں پر قنر اور اقتران ہے
لیکن الشعوری طریقے کا ،نہ جانتے ہوئے ان کے درمیان خودبخود یہ اقتران ہوگیا ۔
ایک مرتبہ شعوری طریقے سے لفظ اور معنی کے درمیان اقتران پیدا کیا جاتا ہے مثالً
کوئی بندہ اپنے بچے کا نام محمد رکھتا ہے تو یہ نام رکھنا شعوری طریقے سے ہے ۔ یا
مثالً انسان کیا کرتا ہے اگر کوئی بات یاد نہیں رھتی تو وہ اس چیز کو ایک ایسی چیز
کے ساتھ مالتا ہے جو ہمیشہ اس کے ذھن میں رھتی ہو جیسے اپ کسی ڈاکٹر کے پاس
جا رھے ہیں ،ڈاکٹر کا نام ہے جابر ،اب یہ ڈاکٹر جابر کا نام ہے اس کو یاد رکھنے
کیلئے اپ اپنے ذھن میں موجود مانوس شخصیت سے اس ڈاکٹر جابر کا نام مالدیتے ہیں
کے ایک جابر بن عبدہللا انصاری حدیث ِکساء واال بھی تو ہے ،ایک جابر میری پسندیدہ
کتاب کے مصنف کا نام بھی تو ہے ،ڈاکٹر بھی جابر حدیث ِکساء واال بھی جابر ۔ ڈاکٹر
بھی جابر مصنف بھی جابر ۔ ایسا کیوں کرتے ہیں اپ ؟ تاکے دونوں کے درمیان اقتران
رھے اور میرا ذھن اس سے منتقل ہوجائے دوسری طرف ،اس طرح اس ڈاکٹر کا نام یاد
رکھنا اسان ہوجاتا ہے ،جب بھی مصنف کو تصور کیا ،جب بھی حدیث ِکساء کو تصور
کیا ڈاکٹر کا نام یاد اجاتا ہے ۔ اکثر ہم اپنی زندگی میں ایسا کرتے ہیں جب کسی چیز کے
بھول جانے کا ڈر ہو تو اُس چیز کے ساتھ کسی اور چیز کو مال دیتے ہیں ۔
پس ہمارے پاس وضع یا اقتران دو طریقے سے ہے ۔
ایک ایسا اقتران ہے جو خودبخود حاصل ہوتا ہے اُسے کہتے ہیں وضع ت َ َعینی ۔
اور ایک اقتران ہے جو ایک شعوری عمل سے گذرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے اُسے
کہتے ہیں وضع تَع ِیینی ۔
یہ جو ارتباط پیدا کرنے کا طریقہ ہے لفظ اور معنی کے درمیان اس کا نتیجہ یہ ہے کے
لفظ اور معنی کے درمیان رشتہ مضبوط ہو جاتا ہے اس لئے جب بھی لفظ کو سنتے ہیں
تو فورا ً ذھن معنی کی طرف جاتا ہے ،اسے کہتے ہیں تبادر ۔
تبادر یعنی کیا ؟
لفظ کو سنتے ہی فورا ً معنی کا ذھن میں انا تبادر کہالتا ہے۔
تبادر بھت مہم چیز ہے ،اگر کسی لفظ کو دیکھنا ہو کے یہ لفظ کس معنی کیلئے وضع ہوا
ہے اور کس کے لئے نہیں تو اس کیلئے تبادر کو دیکھا جائے گا ۔ مثالً اھل سنّت اور اھل
تَ َ
شیّع کے درمیان فدک ایک اختالفی مسئال ہے۔
جناب سیدہ فاطمہ الزھرا (س) نے فدک کے بارے میں دو دعوے کئے ۔
فدک کا اصل معاملہ یہ ہے کہ جناب سیدہ کا فرما رھی ہیں کے فدک رسول ہللاﷺ نے اپنی
زندگی میں مجھے ھدیہ کے طور پر عطا کیا اسے کہتے ہیں نحلہ ،یہ میری ملکیت ہے ۔
خلیفہ ّاول کا کہنا ہے کے ہم نہیں مانتے دعوی پیش کرو ۔ پھال دعوی جناب ِسیدہ کا یہ
ہے :گواہ کے طور پر امیرالمومنین حضرت علی (ع) ائے ،امام حسن ائے ،امام حسین
ائے ،جناب اُم ِایمن ائیں ۔
گواہوں کو قبول نہیں کیا گیا ،کہا حسنین بچے ہیں ،علی اپ کے ھمسر (شوھر) ہیں ،
باقی بچیں ایک جناب ام ایمن کہا کے ایک کی گواھی قابل قبول نہیں ،رد کر دیا ۔
جب پھال دعوی رد ہوا تو جناب سیدہ نے دوسرا دعوی پیش کیا ۔ فرمایا نحلہ کے عنوان
سے نہیں مانتے تو یہ میری میراث ہے کیونکہ قران کہتا ہے کے وہ مال جو فَی کی شکل
میں ہے جس پر لوگوں نے زحمت نہیں کی گھوڑے نہیں دوڑائے لڑے نہیں ہو
ملکیت ِخاص ِپیغمبر ہے ۔(یہ متفقا مسئال ہے شیعہ سنّی کے درمیان) فدک کا جو معاملہ
ہے ِملکی ہے ،خیبر کی جنگ کے بعد فدک کے یھودیوں نے ڈر کے صلح کی شکل میں
اکر پیغمبر ﷺ کو فدک کی ملکیت دے دی ،قرانی ایات کے مطابق یہ میک ِخاص ِ پیغمبر
ﷺ ہے۔ جناب ِسیدہ کہہ رھی ہیں اگر اپ نحلہ کے عنوان سے نہیں مانتے تو یہ میراث
ہے ،ملک ِ خاص ِ پیغمبر ﷺ ہے اور میں وارث ِپیغمبر ﷺ ہوں ۔ یھاں پر ہو خلفاء یہ
انکار نہیں کر رھے کے پیغمبر ﷺ کی خاص ملکیت نہیں ہے ،وہ مانتے ہیں کے پیغمبر
ﷺ کی خاص ملکیت ہے لیکن خلیفہ ّاول نی کہا کے پیغمبر ﷺ نے مجھہ سے فرمایا تھا
کے :
نحن معاشر االنبیاء النرث وال نورث ما ترکناہ صدقۃ
ہم گروہ انبیاء نا کسی کے وارث بنتے ہیں نا کسی کو وارث بناتے ہیں جو چھوڑ کر
جاتے ہیں وہ صدقہ ہے ۔
جب خلیفہ ّاول نے یہ حدیث پیش کی تو جناب ِسیدہ نے اس حدیث کی رد میں قرانی ایت
کو ذکر کیا کہ قران کہتا ہے :
َو ورث سلیمان داوود
سلیمان بھی نبی ہے ،داوود بھی نبی ہے ،ایک نبی وارث بنا رھا ہے دوسرا نبی وارث
بن رھا ہے تو کیسے کہہ رھے ہو ال نرث و ال نورث ۔
قران تو کہہ رھا ہے نبی وارث بنتا ہے اور نبی وارث بناتا بھی ہے ۔
یہ جو میں نے مثال دی ہے یہ تبادر کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ۔
یھاں پر اھل سنّت کے علماء جواب دیتے ہیں جس میراث کا دعوی کیا گیا ہے وہ مال و
ملکیت کی ہے جبکہ قران میں جو سلسلہ میراث ہے وہ علم و نبوت کی بات ہو رھی ہے ۔
و ورث سلیمان داوود ۔ قران کہہ رھا ہے سلیمان داوود کا وارث ہے یعنی اس کے علم کا
وارث ہے ،اس کی نبوت کا وارث ہے ۔ اور یھاں پر جو پیغمبر اکرم ﷺ فرما رھے ہیں :
نحن معاشر االنبیاء النرث وال نورث ما ترکناہ صدقۃ
اس سے مراد مال و ملکیت ہے وہ ایت اس حدیث کو رد نہیں کرتی ۔
اھل ِت َ َ
شیّع (ہم لوگ) جواب دیتے ہیں تبادر سے ۔
(یہ پوری کہانی اس تبادر کو سمجھانے کیلئے بیان کی ہے )
درس ۱۲
المدلول اللغوی و المدلول التصدیقی
لغت کے عممومی مسائل کے بارے میں بحث کر رھے تھے ،وضع کے بارے میں بحث
ہوئے جس میں حقیقت وضع کو بیان کیا ،اس کے بعد استعمال کے بارے میں بیان کیا
کے استعمال یا حقیقت ہوتا ہے یا مجاز ،پھر لغت کے بارے میں عرض ہوا کے لغت کو
دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں کے لغت یا معانی اسمیہ ہے یا معانی حرفیہ ہے ۔ ان
شاءہللا اج ذکر کریں گے کے داللت دو قسموں کی ہے ۔
اپ داللت کو منطق میں پڑہ کر ائے ہیں لیکن یھاں پر داللت کو ایک اور طریقے سے پڑہ
رھے ہیں ۔ منطق میں داللت کے بارے میں اپ نے پڑھا کے داللت یعنی ایک چیز کے
علم سے دوسری چیز کا علم حاصل ہونا ،پھر اپ نے پڑھا کے سبب داللت یا عقل ہے یا
وضع ہے یا طبع ہے ۔ اگر سبب داللت عقل ہے تو داللت عقلیہ ،اگر سبب داللت وضع
ہے تو داللت وضعیہ ،اگر سبب داللت طبع ہے تو طبعیہ ۔ ان میں سے ہر ایک یا لفظیہ
ہے یا غیر لفظیہ ،پھر داللت وضعیہ کو تین قسموں میں تقسیم کرتے ہیں ۔
یا لفظ اپنی تمام معنی پر داللت کرتا ہے
یا لفظ جزء معنی پر داللت کرتا ہے
یا لفظ خارج معنی پر داللت کرتا ہے ۔
اگر لفظ تمام معنی پر داللت کرے تو داللت التزامیہ ۔
اگر لفظ جزء معنی پر داللت کرے تو داللت تضمنیہ ۔
اگر لفظ خارج معنی پر داللت کر تو داللت التزامیہ ۔
اصل بحث میں وارد ہونے سے پھلے جو نکتہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ منطق میں اپ
علم کو ایک لحاظ سے تقسیم کرتے ہیں دو قسموں کی طرف کے علم یا علم تصوری ہے
یا علم تصدیقی ہے ۔
تصور اور تصدیق کی کیا تعریف ہے ؟
العلم اذ کان اذعان للنسبت فتصدیق و ّاال فتصور
اگر اس طریقے سے ہو کے نسبت کے بارے میں اطمنان یا اعتقاد ہو تو اسے تصدیق
کہتے ہیں اور اگر علم بغیر نسبت اطمئنان کے ہو یعنی نسبت نہیں ہے یا نسبت کے بارے
میں اعتقاد نہیں ہے تو اسے تصور کہتے ہیں ۔ مثالً زید ،اس کو اپ ذھن میں لے کر اتے
ہیں اسے کہتے ہیں تصور لیکن جب کہیں زید قائم تو یہ تصور نہیں ہے تصدیق ہے ۔
یھاں پر ایک لحاظ سے داللت کو تقسیم کرتے ہیں داللت تصوریہ اور داللت تصدیقیہ میں
۔
داللت سے انسان کے ذھن میں تصور اتا ہے یعنی ایسا مدلول ہوتا ہے جو مدلول بغیر
نسبت کے ہے کیونکہ تصور میں کوئی نسبت نہیں ہوتی ۔
یا داللت اس طریقے سے ہے کے داللت کے بعد مدلول تصدیقی اپ کے پاس اتا ہے ،
پس اصول میں جو ہم داللت کو تقسیم کررھے ہیں اس طریقے سے کے یا ھمارے ذھن
میں مدلول تصوری اتا ہے یا مدلول تصدیقی اتا ہے ۔ مثالً ایک مرتبہ میں کہتا ہوں الماء
یعنی پانی ۔ جیسے ہی میں نے لفظ ماء کہا تو اپ کے ذھن میں پانی ارھا ہے ،جیسے ہی
لفظ ماء اپ سنتے ہیں اپ کے ذھن میں پانی کا تصور اجاتا ہے ۔ اب اس لفظ ماء سے
پانی کا تصور جو ہمارے ذھن میں ارھا ہے اس کیلئے ضروری نہیں ہے کے کوئی انسان
اپنے ھوش و حواس سے لفظ ماء کہے تو اپ کے ذھن میں تصور ائے بلکہ دو پتھروں
کے ٹکرانے سے اگر ماء کی اواز نکلے تو اپ کے ذھن میں پانی کا تصور ائے گا بلکہ
دروازے کے کھٹکھٹانے سے لفظ ماء پیدا ہو تو اپ کے ذھن میں میں پانی کا تصور ائے
گا ،جن بھی الفاط کے معانی کا اپ کو علم ہے وہ کسی بھی جگہ سے اپ سنیں اپ کے
ذھن میں ان کے معانی فورا ً اجاتے ہیں ۔ضروری نہیں ہے کے ایک انسان اپنے ھوش و
حواس میں لفظ ادا کرے تو ہی معنی ذھن میں ائے ۔
اسی طریقے سے دوسری مرتبہ میں کہتا ہوں پانی ،اپ کے ذھن میں اتا ہے میں اس لفظ
کو اداد کر رھا ہوں تاکے اپ اس لفظ سے معنی تک پہنچیں (دقت کیجیئے گا دوسری بات
کر رھا ہوں) یعنی کوئی انسان ھوش و حواس می ں ہو باشعور ہو ،متوجہ ہو ،توجہ کے
ساتھہ لفظ کو ادا کر رھا ہے یعنی متکلم چاھتا ہے کے اس لفظ کے ذریعہ سے اپ کو اس
کی معنی تک پہنچائوں ،میں کہتا ہوں ماء یعنی پانی ،اپ بھی سمجھتے ہیں کے میں اس
لفظ کو ادا کررھا ہوں تاکے اپ اس کے معنی کو سمجھیں ،ایک مرتبہ یہ ہے یھاں پر
فقط خالی تصور نہیں ہے کے میں نے فقط ایک لفظ کہا اور اپ کے ذھن میں اس کا
معنی اجائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک چیز زائد ہے جو اپ سمجھتے ہیں وہ یہ ہے
کے متکلم نے اس لفظ کے ذریعہ سے مجھے معنی سمجھانا چاھا ہے ،یہ وھاں ہوگا
جھاں پر ا پ کا متکلم باشعور ہو ،ھوش و حواس کے ساتھ ہو ،متوجہ ہو اسی جگہ پر
ایسے ہوتا ہے ،لیکن ایک بندہ سویا ہوا ہو نیند میں کہہ رھا ہے پانی پانی ،اپ کے ذھن
میں پانی تو اتا ہے لیکن اپ کبھی بھی یہ نہیں سمجھتے کے یہ جو سویا ہوا ہے پانی
پانی کہہ رھا ہے کیونکہ اس کو پیاس لگی ہے ،اپ کہتے ہیں نہ وہ نیند میں ہے ایسے
ہیی بڑبڑا رھا ہے ،اس نے کوئی قصد نہیں کیا ،ان دونوں میں فرق محسوس ہوا ؟
پھلی قسم کو کہتے ہیں داللت تصوری ۔ داللت تصوری یعنی فقط لفظ کے ذریعہ سے
معنی کا ذھن میں انا ،جیسے ہی اپ لفظ سنتے ہیں تو اپ کے ذھن میں معنی اجائے اسے
کہتے ہیں داللت تصوری ۔
دوسری قسم کو کہتے ہیں داللت تصدیقی ۔ داللت تصدیقی یعنی متکلم اس لفظ کے ذریعہ
سے یہ چاہتا ہے کے سامع اس کے معنی معنی تک پھنچے یعنی فقط یہ نہیں ہے کے لفظ
کے ذریعہ سے معنی تک پہنچے ،اس کے ساتھ ساتھ اس نکتے کو بھی سمجھیں کے
متکلم چاھتا ہے کے سامع اس بات کو سمجھے کے میں لفظ کے ذریعہ سے اس کو معنی
سمجھانا چاھتا ہوں مراد متکلم کو بھی سمجھے کے متکلم نے اس لفظ سے معنی کا قصد
کیا ہے ،ارادہ کیا ہے ،اس نکتے کو بھی درک کرے ،ایک اور مرحال بھی ہے اس
سے اگے مثالً ایک مرتبہ میں کالس میں کہتا ہوں کے وہ دیکھیں سانپ ،کوئی بندہ اپ
میں سے متوجہ ہی نہیں ہوا کو وھاں پر سانپ ہے یا نہیں کیونکہ اپ لوگ سمجھہ رھے
ہیں کے میں مذاق کر رھا ہوں ۔ کہتا ہوں حقیقت میں سانپ ہے لیکن پھر بھی اپ نہیں
دیکھتے کیونکہ اپ سب لوگ سمجھتے ہیں کے میں مذاق کر رھا ہوں ،میں جدّا ً و حقیقتا ً
اس چیز کا ارادہ نہیں رکھتا کے کالس میں کوئی سانپ ہے ،کوئی بھی متوجہ نہیں ہو رھا
،میری بات کا کوئی بھی اثر نہیں لے رھا لیکن میں کہوں کے اس چیز کو لکھیں ،ان
تعریفوں کو لکھیں اب یھاں پر اپ متوجہ ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ترتیبی اثر تو نہیں لیتے
،لیکن متوجہ ہیں کے میں واقعا ً یہ جو کہہ رھا ہوں اپ کو کے درس کا خالصہ لکھنا
چاھیے ،اپ کو یہ تعریفات لکھنی چاھئیں ،واقعا ً ارادہ کرتا ہوں اس کا ،حقیقتا ً چاھتا
ہوں کے اپ لکھیں ۔
اب یھاں پر چند چیزیں ہوگئیں ۔
ایک تو میرے الفاظ جو ہیں ان سے اپ معانی تک پہنچتے ہیں یہ نکتہ بھی سمجھ لیا اپ
نے کے میں ان الفاظ کے ذریعہ سے معانی اپ کے ذھن تک پہنچانا چاھتا ہوں نہ فقط ان
الفاظ کے ذریعہ سے معانی اپ نے ذھن تک پہنچانا چاھتا ہوں بلکہ یہ بھی چاھتا ہوں کے
جو میں کہہ رھا ہوں حقیقتا ً جدّا ً میرا ارادہ ہے ۔ یہ چید صورتیں ہیں پس اس اعتبار سے
داللت کو ہم تقسیم کرتے ہیں ۔
۱۔ داللت تصوریہ
۲۔ داللت تصدیقیہ
داللت تصوریہ کیا ہے ؟
جب بھی ایک لفط کو سنین اور ذھن اس کی معنی کی طرف متوجہ ہو ۔
دوسرے لفظوں میں :سامع لفظ سے معنی کی طرف متوجہ ہو ۔
داللت تصوریہ کے متحقق ہونے کیلئے دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے یا داللت تصوریہ
کیلئے دو شرط ہیں ۔
۱۔ لفظ اور معنی کے درمیان عالقہ(رابطہ) وضع ہو جب تک لفظ اور معنی کے درمیان
وضع کا رشتہ نہیں ہوگا کنھی بھی لفظ سننے سے اپ معنی کی طرف نہیں جائیں گے ،
جو لفظ مھمل ہیں جن کا کوئی معنی نہیں ان الفاظ سے اپ معنی کی طرف منتقل نہیں
ہوتے ،داللت تصوری کیلئے پھلی شرط یہ ہے کے لفظ اور معنی کے درمیان
عالقہ(رابطہ) وضع ہو۔
۲۔ سامع کو اضع کا علم بھی ہو جب تک سامنے واال لفظ کے معنی کو نہیں جانے گا اپ
کتنی ہی مرتبی اس ایک لفظ کو دھرائیں کبھی بھی سامع کے ذھن میں اس لفظ سے معنی
نہیں ائے گا ۔ مثالً اگر میں اپنی زبان کا لفظ دھراتا رھوں اپ کے ذھن میں کوئی معنی
تھوڑی ائے گا ،اپ اپنی زبان کا کوئی لفظ دھرائیں میرے ذھن میں معنی تھوڑی ائے گا ،
لفظ سے معنی کی طرف منتقل ہونے کیلئے سامع کو وضع کا علم ہونا چاھئے جب تک
سامع وضع کا عالم نہیں ہوگا تب تک یہ داللت تصوریہ وجود میں نہیں اسکتی ۔
داللت تصدیقیہ کیا ہے ؟
سامع لفظ سے معنی کی طرف جاتا ہے اور اس نکتے کی تصدیق بھی کرتا ہے کے متکلم
نے اس کا ارادہ کیا ہے ۔
داللت تصدیقی کی دو قسمیں ہیں ۔
۱۔داللت تصدیقیہ ّاولیہ
۲۔ داللت تصدیقیہ ثانویہ
داللت تصدیقیہ ّاولیہ یعنی متکلم لفظ کے ذریعہ سامع کے ذھن میں معنی پہنچانا چاھتا ہے
سامع اس نکتے کی تصدیق کرے کے واقعا ً متکلم چاھتا ہے کے اس لفظ کے ذریعہ سے
اپ اس کی معنی کو سمجھیں ۔
اس داللت تصدیقیہ ّاولیہ میں تین شرائط کا ہونا ضروری ہے ۔
لفظ اور معنی کے درمیان وضع کا رشتہ ہو
سامع کو وضع کا علم بھی ہو
متکلم اپنے ھوش و حواس سے لفظ کو ادا کر رھا ہے ۔
تبھی تو علم ہوگا کے متکلم اپنے لفظ سے اپ کو معنی تک پہنچانا چاھتا ہے متکلم اپنے
ھوش و حواس سے لفظ ادا کر رھا ہے اگر سویا ہوا ہو نیند میں ہو اور کچھ الفاظ کہہ رھا
ہو تو کبھی بھی اپ اس چیز کو کشف نہیں کرتے کے متکلم نے اس معنی کا ارادہ بھی
کیا ہے ،یہ اسی وقت اپ سمجھیں گے جب متکلم ھوش و حواس کے ساتھ اس لفظ کو ادا
کر رھا ہو (توجہ کریں داللت تصدیقیہ میں ہم مراد متکلم کو کشف کرتے ہیں)۔
داللت تصدیقیہ ثانویہ یعنی متکلم لفظ کے ذریعہ معنی بھی سمجھانا چاھتا ہے اور اس
معنی کا حقیقتا ً و جدّا ً ارادہ بھی رکھتا ہے ۔
داللت تصدیقیہ ثانویہ میں چار شرائط کو ہونا ضروری ہے ۔
لفظ اور معنی کے درمیان وضع کا رشتہ ہو
سامع کو وضع کا علم بھی ہو
متکلم اپنے ھوش و حواس سے لفظ کو ادا کر رھا ہے
متکلم حقیقتا اور جدّا اس معنی کا ارادہ بھی رکھتا ہو
نکتہ امتیازی (افتراقی)
داللت تصدیقیہ میں جو امتیاز ہے ہو یہ ہے کے لفظ سے معنی کی طرف جاتے ہیں لیکن
سامع اس نکتے کو بھی کشف کرتا ہے کے متکلم نے اس معنی کا ارادہ کیا ہے ،کیونکہ
بھت ساری جگہوں پر داللت تصوریہ کے ساتھ ساتھ داللت تصدیقیہ بھی ہے ۔ ان دونوں
کا امتیاز(فرق) اپ فقط اس جگہ پر محسوس کر سکتے ہیں جھاں پر داللت فقط تصوری
ہو تصدیقی نہ ہو یعنی ایک ایسا بندہ جو بےشعور ہو یا بےجان چیز سے اپ اواز سنیں تو
وھاں پر داللت تصوری ہے ،داللت تصدیقی نہیں ہے ۔ مثالً دو پتھروں کے ٹکرانے سے
لفظ ماء یا کوئی بھی ایسی اواز نکلے ،تو یھاں پر اپ لفظ سے معنی کی طرف تو منتقل
ہو رھے ہیں لیکن یھاں پر یہ نہیں ہے کے ان دو پتھروں نے اس لفظ کے معنی کا بھی
ارادہ کیا ہے کیونکہ پتھروں کے اندر ارادہ کرنے کی صالحیت نہیں ۔
نکتہ جو اصل امتیاز کا ہے وہ یھی ہے کہ:
داللت تصوریہ میں مراد متکلم واضح نہیں ہوتی ۔
داللت تصدیقیہ میں مراد متکلم واضح ہوتی ہے ۔
(جیسے ہی داللت تصوری میں مراد متکلم ائے گی وہ داللت تصدیقی میں تبدیل ہوجائے
گی)
ہوسکتا ہے کے ایک ہو مورد میں داللت تصوری کے ساتھ ساتھ داللت تصدیقی بھی ہو
لیکن دو جھتیں ہیں:
اس جھت کے ساتھ کے فقط لفظ سے معنی ذھن میں ارھا ہے فقط اسی جھت کو مد نظر
رکہیں تو یہ داللت تصوری ہے لیکن
اس جھت کے ساتھ کے متکلم نے اس معنی کا ارادہ بھی کیا ہے تو داللت تصدیقی ہے ۔
عام طور پر ہم جتنے بھی الفاظ استعمال کرتے ہیں ان میں داللت تصوری بھی ہوتی ہے ،
داللت تصدیقی ّاولی بھی ہوتی ہے ،داللت تصدیقی ثانوی بھی ہوتی ہے ۔ ان کے افتراق
کو سمجھنے کیلئے
داللت تصوری کو بےجان چیز کے مورد میں استعمال کرتے ہیں
داللت تصدیقی ّاولی کو مذاق و مزاح کے مورد میں سمجھتے ہیں
داللت تصدیقی ثانوی کو اپنی عام زندگی میں دیکھیں کے اپ لفظ کہتے ہیں اور اس سے
کچھ سمجھانا چاھتے ہیں ۔
شھید صدر کے بیان کی طرف اتے ہیں:
ہمارے پاس داللت تصدیقیہ میں جو متکلم ارادہ کرتا ہے
اگر داللت تصدیقیہ ّاولیہ ہو تو وھاں پر متکلم کے ارادہ کو کہتے ہیں ’’ارادہ استعمالیہ‘‘
اور داللت تصدیقیہ ثانویہ میں متکلم جو ارادہ کرتا ہے اسے کہتے ہیں ’’ارادہ جدّیہ‘‘ ۔
سوال :منشاء داللت تصوری و منشاء داللت تصدیقی کیا ہے ؟
جواب :داللت تصوری کا منشاء وضع ہے کیونکہ لفظ اس معنی کیلئے وضع ہوا ہے ،
اسی لئے جب بھی ہم لفظ کو سنتے ہیں تو ذھن معنی کی طرف جاتا ہے ۔
داللت تصدیقی کا منشاء حال متکلم ہے (وضع نہیں ہے ،وضع فقط ہمیں یہ سمجھاتا ہے
کے لفظ فالں معنی کیلئے وضع ہوا ہے وہ حالت تصوری میں ہے لیکن یہ کے متکلم نے
اس معنی کا ارادہ بھی کیا ہے اور جدّی طریقے سے ارادہ کیا ہے یہ متکلم کی حالت سے
ہمیں پتہ چلتا ہے جسے ’’قرینہ حالیہ‘‘ کہتے ہیں ،کیونکہ متکلم جاگ رھا ہے ،باشعور
انسان ہے ،سمجھنے واال ہے جب وہ ایک لفظ ادا کرتا ہے یعنی اس معنی کا ارادہ رکھتا
ہے ،ہمیشہ مدلول تصدیقی حال متکلم سے ہوگا ۔ داللت تصوری وضع کے ذریعہ سے
ہوگا۔
الجملۃ خبریہ و الجملۃ اإلنشائیہ:
جملہ خبریہ و جملہ إنشائیہ اپ منطق و ادبیات میں پڑہ چکے ہیں ۔
جملہ خبریہ اس جملے کو کہتے ہیں کہ :
جس میں متکلم کا قصد حکایت کا ہوتا ہے ،چاھتا ہے کے اپ کیلئے کسی روداد کو نقل
کرے ،متکلم چاھتا ہے کے خارج میں جو ایک نسبت و واقعیت پائی جاتی ہے اپ کو
الفاظ کی شکل میں نقل کرکے بتائے ۔ مثالً میں کہتا ہوں زید قائم ،اس جملے سے میرا
مقصود یہ ہے کے اپ کے سامنے ایک واقعیت کو نقل کروں ،حکایت کروں کے خارج
میں فالں چیز فالں طریقے سے ہے ۔
جملہ إنشائیہ اس جملے کو کہتے ہیں کہ:
جس میں متکلم کا قصد یہ نہیں ہوتا کے کسی چیز کی حکایت کی جائے بلکہ مقصود یہ
ہوتا ہے کے اس کالم کے ذریعہ سے عالَم واقع میں ایک شئ کو ایجاد کرے ،ایک شئ کو
وجود میں الئے ۔ مثالً جب کوئی موالنا صاحن نکاح پڑھتے ہیں تو وھاں پر کلمات ادا
زوجتُ یعنی کیا ؟ ظاھرا ً ماضی کا صیغہ ہے لیکن
کرتے ہیں زَ َّوجتُ موکلتی ،موکال ۔ ّ
سب رساالھای علمیہ میں قید لگاتے ہیں کے نکاح پڑھتے وقت قصد إنشاء ہو ۔ قصد إاشاء
زوجتُ کے ذریعہ سے قصد رکھتا ہوں میں اپنی موکلہ اور اپنی موکل ہو یعنی کیا ؟ یعنی ّ
کے درمیان رشتہ زوجیت کو ایجاد کر رھا ہوں ،میں ان دونوں کو میاں بیوی بنا رھا ہوں
زوجتُ فعل ماضی ،میں ان دونوں کے درمیان زوجیت کا رشتہ قائم کر رھا ہوں نہ کے ّ
ہے اور میں یہ کہوں کے ان کی زوجیت کی حکایت کر رھا ہوں کے یہ میاں بیوی تھے
زوجتُ یعنی میں قرار دے رھا ہوں ان دونوں کو زن و (یہ تو نہیں کہنا چاہ رھا) بلکہ ّ
شوھر ۔
پس إنشاء میں ایک شئ یا ایک نسبت کو ایجاد کیا جاتا ہے ۔
جملہ خبریہ و جملہ إنشائیہ میں فرق:
جملہ خبریہ میں یہ قصد ہوتا ہے کے ہم کسی چیز کی حکایت کرتے ہیں اور یھی وجہ
ہے کے جملہ خبریہ میں صدق و کذب کی نسبت دے سکتے ہیں اور جملہ إنشائیہ میں
صدق اور کذب کی نسبت نہیں دے سکتے اسلئے کے جملہ خبریہ میں حکایت کر رھے
ہیں حکایت میں صدق و کذب ممکن ہے ،ممکن ہے کوئی بندہ یہ کہے کے یہ سچ بولتا
ہے ،ممکن ہے کوئی بندہ کہے یہ جھوٹ بولتا ہے لیکن
إنشاء میں کیسے میں کہوں ِبعتُ میں فالں چیز بیچ رھا ہوں ،کوئی بندہ کہے اِشتریتُ میں
فالں چیز خرید رھا ہوں ،یھاں پر سچ اور جھوٹ کی بات نہیں ہے کیونکہ میں ایک چیز
کو ایجاد کر رھا ہوں عالَم اعتبار میں ۔
جملہ خبریہ قصد حکایت کرنے کا ہوتا ہے کوئی بات نقل کرنے کا ہوتا ہے اور إنشائیہ
میں ایک عالَم اعتبار میں ایک چیز کو ایجاد کرنا ہوتا ہے ۔ زوجیت کو ایجاد کر رھا ہوں
،ملکیت کو ایجاد کر رھا ہوں ۔
اسان لفظوں میں:
جملہ خبریہ فقط حکایت کو بیان کرتا ہے جو چیز واقع ہوچکی ہے اس کی حکایت کر
رھے ہیں اور جملہ إنشائیہ میں اس نسبت کو اپ خارج میں محقق کرنا چاھتے ہیں ۔
مثالً مجھے پانی پالئو یعنی میں چاھتا ہوں کے اس نسبت ِتامہ کو خارج میں محقق کروں۔
دروازہ بند کرو یعنی مین چاھتا ہوں کے اس نسبت کو خارج میں محقق کروں ۔
مرحوم صاحب کفایہ اخوند خراسانی کہتے ہیں کے ِبعتُ جو جمال خبریہ میں استعمال ہوتا
ہے اور ِبعتُ جو جمال إنشائیہ میں استعمال ہوتا ہے ان میں کوئی فرق نہیں ہے ،مقام
تصور میں مقام وضع میں کوئی فرق نہیں ہے ،فرق و تفاوت فقط اور فقط قصد کا ہے ،
ارادہ مختلف ہے لیکن شھید صدر کہتے ہیں کے نہ ،اصالً معنی میں تفاوت ہے ۔ ِبعتُ
جو جمال خبریہ میں ہے اصالً اس نسبت تامہ کو بیان کرتا ہے جو حقیقت میں واقع
ہوچکی ہے اس کی حکایت کرتے ہیں لیکن ِبعتُ جو إنشاء کیلئے اتا ہے اس نسبت تامہ
کیلئے کے جس نسبت کو خارج میں محقق کروانا چاھتے ہیں اپ ،ان دونوں کے درمیاں
بھت زیادہ تفاوت ہے ۔
درس ۱۳
الدالالت التی یبحث عنھا علم االصول
اس مقام پر ہم چند مباحث ایسے بیان کریں گے جن کا تعلق علم ِلغت کے ساتھ ہے ،مث ٍ
ال
صیغہ امر ،صیغہ نھی ،اطالق وغیرہ کے بارے میں ۔
لیکن اس اصل میں داخل ہونے سے پھلے ایک نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے ۔
مباحث لغوی دو طرح کے ہیں ۔
۱۔ وہ مباحث لغوی جو عناصر مشترکہ کو تشکیل دیتے ہیں یعنی ایسے ادات لغوی ہیں
جن کے اندر یہ صالحیت پائی جاتی ہے کے کسی بھی دلیل میں کام اسکتے ہیں ،اُس
مسئلہ کا موضوع کوئی بھی ہو یہ اُس مسئلے کی دلیل میں کام اسکتے ہیں ۔ مثالً صیغہ
امر ،وجوب پر داللت کرتا ہے ،اب مسئال طھارت سے تعلق رکھے یا صالۃ سے یا
کسی اور باب سے صیغہ امر استعمال ہوگا توصیغہ امر سے ہم وجوب بھی سمجھیں گے
(البتہ اس کے شرائط کے ساتھ) ۔
۲۔ وہ مباحث لغوی جو عناصر مشترکہ کو تشکیل دیتے ہیں یعنی ایسے ادات لغوی ہیں
جو فقط کسی موضوع معیّن کی دلیل میں ہی استعمال ہوسکتے ہیں ۔ مثالً کلمہ صعید(مٹی)
کا معنی کیا ہے ؟ یہ ادات لغوی فقط اس میں کام اسکتا ہے جس کا کلمہ ’’صعید‘‘ سے
تعلق ہو ۔ جیسے تیمم باقی دوسرے موارد میں قابل استفادہ نہیں ہے ۔
علم اصول میں فقط ان مباحث لغوی کا ذکر ہوگا جو عناصر مشترکہ کو تشکیل دیتے ہیں
اور وہ چند مباحث ہیں جن کو ہم اجمالی طور پر ذکر کرتے ہیں ۔
صیغہ امر
فعل سے وجوب کا استفادہ ایک مرتبہ ’’ھیئت فعل‘‘ سے ہوتا ہے اور دوسری مرتبہ ’’مادہ
ص َّل‘‘ سے وجوب صالۃ سمجھتے ہیں اور فعل‘‘ کے ذریعہ ہوتا ہے ۔ مثالً ایک بار ہم ’’ َ
دوسری مرتبہ ’’ا َ َم َر ہللا بالصالۃ‘‘ سے وجوب صالۃ سمجھتے ہیں ۔ دونوں میں فرق پایا
جاتا ہے (حلقہ اولی میں فقط ھیئت امر کے بارے مین بحث کریں گے باقی مادہ امر کے
بارے میں بحث ان شاء ہللا حلقہ ثانی میں ہوگی)۔
۲۔ متعلَّق امر :جس سے امر کا تعلق ہے ۔ ھماری مثال میں صالت ’’ ص ِّل ‘‘ امر کا تعلق
صالت سے ہے ۔
۳۔ ھیئت اور معنی حرفی :صیغہ امر کی ھیئت جو ایک معنی حرفی پر داللت کرتا ہے
(ان شاءہللا بیان کریں گے ور نسبت ارسالیہ یا نسبت بعثیہ ہے)
۴۔ فاعل :یعنی مکلَّف جسے مامور کیا جاتا ہے کے متعلَّق امر کو خارج میں وجود دے۔
اس تحلیل کے بعد توجہ کریں ۔
ص ِّل (نماز پڑھو) یعنی مولی مکلَّف سے
مولی جب مکلَّف کو امر کرتا ہے اور کہتا ہے َ
چاھتا ہے کے فاعل اور متعلَّق امر کے درمیان جو نسبت ہے اسے خارج میں تحقق دو
یعنی اسے انجام دو ۔
دوسرے لفظوں میں :نماز کو خارج میں وجود دو یعنی نماز پڑھو۔
یھاں سے دقیقا ً معلوم ہوا کہ صیغہ امر اس نسبت کو خارج میں تحقق دینے کیلئے وضع
ہوا ہے اوی یھیں سے ایک مفھوم کو انتزاع کرتے ہیں جو کے نسبت ارسالیہ (نسبت
بعثیہ) ہے ۔
اسان لفظوں میں کہا جائے تو :
صیغہ امر بیان کرتا ہے کے مولی ،مکلَّف کو ابھارتا(بھڑکاتا) ہے کے متعلق امر اور
فاعل کے اندر موجود نسبت کو معحقق کرو ۔ مصنّف اس مقام پر ایک مثال ذکر کرتے
ہیں ۔
اپ نے دیکھا ہوگا کے ایک شکاری جب شکاری ُکتے کو جب شکار کی طرف بھیجتا ہے
تو شکاری کا بھیجنا گویا کے ُکتے اور شکار کے درمیان ایک نسبت کو ایجاد کرنا ہے
کے ُکتا جائے اور شکار کو پکڑے (بھیجنے کو عربی میں ارسال کہتے ہیں) ،یھاں پر
بھی گویا مولی مکلَّف کو ارسال کرتا ہے تاکے اُس نسبت کو خارج میں محقق کرے ۔
یہ نسبت ارسالیہ دو طرح کی ہوسکتی ہے ۔
۱۔ نسبت ارسالیہ اور فاعل کو ابھارنا اس طریقے سے ہے کے امر چاھتا ہے یہ فعل
خارج میں ضرور محقق ہو ۔
()۱امر کسی بھی صورت میں راضی نہیں ہے کے یہ کام خارج میں انجام نا پائے اور
فوت ہوجائے ۔
()۲امر چاھتا ہے کے یہ کام خارج میں ہو البتہ اگر نا بھی ہو تب بھی خیر ہے ،اگر انجام
پاتا تو اچھا تھا۔
اگرپھلے طریقے کی چاھت ہو تو ہم وجوب اور الزام کو انتزاع کرتے ہیں ۔
اگر دوسرے طریقے کی چاھت ہو تو ہم استحباب انتزاع کرتے ہیں ۔
ان تمام مطالب کے بعد اصل بات کی طرف اتے ہیں کہ:
صیغہ نھی
صیغہ نھی کے بارے میں بھی بلکل اسی طرح سے مباحث ہیں جیسے صیغہ امر کے
بارے میں مباحث تھے۔
صیغہ نھی بھی معنای حرفی پر داللت کرتا ہے فرق یہ ہے کے صیغہ نھی نسبت امساکیہ
(روکنے) پر داللت کرتا ہے اور صیغہ نھی حرمت پر داللت کرتا ہے لیکن حرمت کے
مترادف نہیں ہے کیونکہ حرمت معنای اسمی ہے اور صیغہ نھی معنای حرفی پر داللت
کرتا ہے اسلئے ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال نہیں ہوسکتا ۔
پھر صیغہ نھی سے حرمت کیسے سمجھتے ہیں ؟
بلکل اسی طرح جیسے صیغہ امر سے وجوب سمجھتے ہیں ۔
یعنی صیغہ نھی داللت کرتا ہے اس نسبت پر جو فاعل (مکلَّف)اور متعلق نھی کے درمیان
پائی جاتی ہے اور امر چاھتا ہے کے یہ نسبت خارج میں متحقق نہیں ہونی چاھئے ۔ مثالً
ِب مطلب امر کو جھوٹ سے شدید نفرت ہے ،مکلَّف (فاعل) کو شدت سے روکتا ال تکذ ُ
ہے کے یہ کذب خارج میں متحقق نہ ہو ۔
اسی طرح صیغہ نھی کا استعمال کراھت میں بھی ہوتا ہے لیکن مجازا ً قرینہ کے ساتھ ،
اگر قرینہ نہ ہو تو اس کا ظھور حرمت میں ہوگا ،اس کی دلیل وھی تبادر ہے ۔
درس ۱۴
الدالالت التی یبحث عنھا علم االصول
( )۲
اطالق
یہ بات مسلم ہے کے متکلم کی مراد اور اس کا مقصد اس کے الفاظ کے ذریعہ معلوم ہوتا
ہے ،متکلم کے الفاظ ہی اس کے ما فی الضمیر کا ائینہ ہوتے ہیں ۔ مثالً جب متکلم چاھتا
ہے کے ’’عالم کا اکرام کرو‘‘ تو یہ جمال کہتا ہے ’’ اکرم العالم ‘‘ اس جملے سے پتہ چلتا
ہے کے متکلم چاھتا ہے کے عالم کی عزت کرو ،پھر وہ عالم فقھہ کا ہو ،کالم کا ہو،
فلسفہ کا ہو یا کسی بھی علم کا ہو ،عالم ہو تو اس کی عزت کریں ۔
سوال :اپ کو کیسے پتہ چال کسی خاص عالم کی بات نہیں بلکہ ہر عالم کی بات ہو رھی
ہے ؟
جواب :اگر متکلم کی مراد کوئی خاص عالم ہوتا تو اس خاص عالم کی طرف نشاندھی
کرتا (اس کا ذکر کرتا نہ کے فقط عالم کہتا) کیونکہ گذشتہ قانون (الفاظ مراد متکلم کے
کاشف ہوتے ہی ں) کے مطابق اگر متکلم کا مقصود خاص عالم ہوتا تو عالم کے ساتھ اس
کی خصوصیت بھی ذکر کرتا اب جب کے کسی قید کا ذکر نہیں ہوا تو سمجھ میں اتا ہے
کے مطلق عالم کی عزت کرنی چاھئے ۔
اطالق یعنی متکلم جب کالم کرے اور کوئی خاص قید ذکر نہ کرے تو ہم اطالق
’’عمومیت‘‘ ہی سمجھیں گے البتہ اگر کالم میں قید ذکر ہوگی تو اطالق نہیں سمجھا جائے
گا ۔
شرعی مثال:
(ا َح َّل ہللا البیع) بیع یھاں مطلق ہے کوئی قید ذکر نہیں ہوئی ،کیا اس بیع میں ایجاب و قبول
الفاظ کے ساتھ ہو یا بغیر الفاظ کے بھی درست ہے یا الفاظ کیسے ہونے چاھئیں ماضی
ہوں مضارع ہو وغیرہ ایسی کوئی قید ذکر نہیں تو سمجھا جائے گا مطلق بیع صحیح ہے ،
چاھے ایجاب اور قبول الفاظ سے ہو یا نہ ہو ،الفاظ کیسے بھی ہوں بیع درست ہے
کیونکہ ’’ البیع‘‘ مطلق ہے ۔
عموم
عموم اور اطالق والی بحث میں نتیجہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے دونوں عمومیت
،شیوع اور عدم قید پر داللت کرتے ہیں البتہ دونوں کے منشاء اور سرچشمہ میں فرق
ہے۔ جاننا چاھئے کے عربی لغتوں میں کچھ ایسے ادوات ہیں جو عمومیتا کا فائدہ دیتے
ہیں ۔ مثالً اکرم کل عالم ہر عالم کی عزت کرو ،اس جملے میں ’’ ُک ّل ‘‘ ایسا ادات ہے
جس سے عمومیت کا استفادہ ہوتا ہے اور اسی طرح دوسرے الفاظ بھی ۔
عموم اور اطالق میں فرق
بیان کیا ہے عموم اور اطالق کا نتیجہ ایک ہی ہے لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کے
اطالق میں ہم نے عمومیت کو سمجھا قید کے ذکر نہ کرنے سے لیکن عموم میں ہم
عمومیت سمجھتے ہیں ان ادات سے جن کو کالم میں ذکر کیا گیا ہے ،پس اطالق اور
عموم میں عمومیت ’’ طریق ایجابی ‘‘ سے ہے یعنی ادات کے ذکر کرنے سے۔
دوسرے الفاظ میں :
اطالق میں عمومیت حال متکلم سے سمجھتے ہیں اور عموم میں عمومیت بذات خود الفاظ
سے سمجھتے ہیں ۔
تیسرے الفاظ میں:
اطالق ،کالم کا مدلول تصدیقی ہوتا ہے کیونکہ جس مطلب پر حال متکلم داللت کرے وہ
مدلول تصدیقی ہوتا ہے اور عموم کالم کا مدلول تصوری ہوتا ہے کیونکہ اس مطلب پر
خود لفظ داللت کر رھا ہے۔
چوتھے الفاظ میں:
اطالق سے عمومیت مقدمات حکمت کے ذریعہ سمجھ میں اتے ہیں جبکہ عموم سے
عمومیت وضع کے ذریعہ سے سمجھ میں اتی ہے ۔
’’عام ‘‘ کی تعریف:
وہ لفظ جس کی عمومیت پر ادات عموم داللت کریں ’’ عام ‘‘ کہالتا ہے ،اسی ’’ عام ‘‘ کو
کرم ُکل عالم ،عالم ’’عام‘‘ ہے کیونکہ اس کی’’ مدخول ادات ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ مثالً ا َ ِ
عمومیت پر ادات عموم ’’ ک ّل ‘‘ داللت کر رھا ہے ۔
ادات عموم
تمام اصولیوں کا اتفاق ہے کے ’’ ُک ّل َ ،جمیع ،کا فۃ ‘‘ وغیرہ ادات عموم ہیں لیکن اگر
’’جمیع‘‘ پر ’’ ال ‘‘ داخل ہو جائے تو کیا یہ بھی ادات عموم میں سے ہے یا نہیں ،اس میں
اختالف ہے ۔
بعض اصولیوں کا کہنا ہے کے یہ ’’ ال ‘‘ جو ’’ جمع ‘‘ پر داخل ہوتا ہے تو ’’ ُک ّل ‘‘ کی
طرح ادات عموم میں سے ہے ۔ جیسے ’’ الفقھاء ‘‘ فقھا جمع فقیہ ہے ۔
بعض کہتے ہیں کے یہ ’’ ال ‘‘ ادات عموم میں سے نہیں بلکہ اگر ’’جمع ‘‘ ال کے ساتھ
ہو اور قید بھی ذکر نہ ہو تو ہم عمومیت اطالق سے سمجھتے ہیں یعنی ’’ عدم ذکر قید ‘‘
سے۔
(طریق سلبی)
ادات شرط
اصولیوں کا ماننا ہے کے بعض جمالت کیلئے ’’مفھوم‘‘ ہوا کرتا ہے ۔
اس بحث کا باقاعدہ اغاز کرنے سے پھلے کچھ اصطالحات کی وضاحت ضروری ہے ۔
منطوق:
وہ معنی جو بذات خود کالم سے مستقیم طریقے سے سمجھ میں ائے ۔
دوسرے الفاظ میں:
وہ معنی جو مدلول مطابقی کو تشکیل دیتا ہے ۔
لشمس َف َ
ص ِّل جب بھی سورج زائل ہو تو نماز پڑھو ۔ اس جملے میں ُ ت ا
مثال :اذا زال ِ
وجوب نماز کا حکم مقیّد ہے زوال شمس لے ساتھ ۔
مذکورہ قانون کی بنیاد پر اس جملے کے دو معنی ہوں گے ۔
۱۔ منطوق یعنی زوال شمس کے وقت نماز واجب ہے ۔
۲۔ مفھوم یعنی اگر زوال شمس نہ ہو تو نماز بھی واجب نہیں ہے۔
کیونکہ قید (شرط) کے ختم ہونے سے مقیّد بھی ختم ہوجائے گا اور یھی مطلب ہوگا اس
بات کا کے اس جملے کا مفھوم ہے ۔
اس بیان سے واضح ہوگیا کے
غور کریں!
دونوں مثالوں میں حکم شرعی چاھے وجوب ہو یا حرمت ،دونوں کسی نہ کسی قید سے
مقیّد ہیں ۔
زوال شمس سے وجوب
احرام حج سے حرمت
نتیج ًۃ ہمارے عام قائدہ کے مطابق ایسے جمالت کیلئے مفھوم ہوگا کیونکہ ہم نے کہا جب
بھی ایسا جمال ہو جس میں حکم کسی قید سے مقیّد ہو تو قید کے ختم ہونے سے حکم
(مقیّد) بھی ختم ہوجائے گا ۔
خالصہ کالم:
واضح ہوا کے ادات شرط داللت کرتے ہیں کے حکم شرعی ختم ہوجائے گا شرط کے ختم
ہونے سے ،کیوں ؟ اسلئے کے جملہ شرطیہ میں حکم شرعی مقیّد بیان ہوا ہے اور اس
چیز پر ادات شرط داللت کرتے ہیں ۔ اسی لئے علماء اصول کہتے ہیں جملہ شرطیہ کے
دو مدلول ہوتے ہیں:
۱۔ ایجابی جسے منطوق کہتے ہیں ۔
۲۔ سلبی جسے مفھوم کہتے ہیں ۔
جملہ غایت:
جملہ غایت بھی مذکورہ قاعدہ کے مصادیق میں سے ایک مصداق ہے یعنی اس جملہ میں
بھی جو حکم بیان ہوا ہے وہ کسی قید سے مقیّد ہے ،اُس قید کےختم ہوجانے سے حکم
بھی ختم ہوجائے گا ۔ مطلب اس جملے کے بھی دو مدلول ہونگے ۔
۱۔ منطوق ۲۔ مفھوم
ص ّم حتی تغیب الشمس یعنی روزا رکھو سورج کے غائب ہونے تک ۔
مثال ُ :
حکم ہے (یا)مغّی وجوب
متعلق حکم صوم
قید (یا) غایت غیاب الشمس
واضح ہے کہ :قید یعنی غایت (غیاب شمس تک) اگر نہیں ہوگی تو حکم وجوب (مغّی)
بھی نہیں ہوگا کیونکہ یھاں پر بھی مذکورہ عام قاعدہ منطبق (فٹ) ہورھا ہے۔ نتیج ًۃ جملہ
غایت کے بھی دو مدلول ہوں گے ۔
سورج کے غائب ہونے تک روزا واجب ہے۔ ایک :منطوق
اگر سورج غئب ہوگا تو روزا واجب نہیں ہوگا ۔ دو :مفھوم
جملہ وصفیہ:
اگر مولی اس طرح کہے ’’ اکرم الفقیر العادل ‘‘ یعنی عادل فقیر کی عزت کرو تو کیا اس
جملے کا بھی مفھوم ہوگا ؟؟
جواب :مذکورہ جملے کیلئے مفھوم نہیں ہوگا کیونکہ ہم نے عام قاعدہ کے اندر بیان کیا
کے اگر جملے میں حکم مقیّد ہو تو جملے کا مفھوم ہوگا لیکن اس جملے ’’ اکرم الفقیر
العادل ‘‘ میں حکم مقیّد نہیں ہے بلکہ موضوع ِحکم مقیّد ہے ۔
وضاحت:
اکرم الفقیر العادل میں
حکم ہے وجوب
متعلق حکم ہے اکرام
موضوع حکم ہے فقیر
قید ہے عادل
یہ بات اظھر من الشمس ہے(سورج کی طرح روشن ہے) کے قید (یعنی عادل) موضوع
(فقیر) کیلئے ہے نہ کے حکم(وجوب) کیلئے ،ہم نے بیان کیا کے اگر ’’حکم‘‘ مقیّد ہو تو
مفھوم ہوگا نہ کے ’’موضوع حکم‘‘ یا ’’متعلق حکم‘‘ مقیّد ہوں تب بھی مفھوم ہوگا ۔
اشارۃ ً :جملہ وصفیہ میں اگر موضوع سے قید ختم ہوجائے شخص حکم ختم ہوگا لیکن
مفھوم کا دارومدار شخص حکم سے نہیں ہے بلکہ طبیعی حکم سے ۔
شخص حکم اور طبیعی حکم کیا ہے ؟
(خود تحقیق کریں یا ’فانتظر‘ حلقہ ثانیہ میں وضاحت ہوگی)۔
اب تک کے مباحث کو ایک تقسیم کی شکل میں ذکر کرتے ہیں تاکے معلوم ہوسکے
کے ہم کس مقام پر بحث کر رھے ہیں ۔
اصول عملیہ
عنصر مشترک
دالالت لفظی
حجیت ظھور
اثبات صدور
جھت صدور
درس ۱۵
ا۔ الدلیل الشرعی اللفظی البحث الثانی
حجیۃ الظھور
(یہ بحث اصول کے نھایت اہم ترین مباحث میں سے ایک ہے) ۔
اقسام ظھور
۱۔ مقام داللت تصوری میں ظھور
۲۔ مقام داللت تصدیقی میں ظھور
۱۔ مقام داللت تصوری میں ظھور
لفظ داللت تصوری کے مرحلے میں ایک خاص معنی میں ظھور رکھتا ہے وہ اس طرح
کے جب لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو لفظ ایک خاص معنی میں ظھور رکھتا ہے یعنی
وھی معنی ہمارے ذھن میں سبقت کرتا ہے یعنی تبادر کرتا ہے ۔ مثالً لفظ ماء کے چند
معانی ہیں لیکن جو معنی ہمارے ذھن میں سبقت کرتی ہے فورا ً اتی ہے وہ وہی ’’ ایک
طرح کا سائل ہے یعنی ِلک ِوڈ ‘‘ تو پھر کہا جائے گا کے لفظ ماء اسی معنی میں ظھور
رکھتا ہے کیونکہ یھی معنی متبادر ہے ،سب سے پھلے یھی معنی ذھن میں اتی ہے اور
ہم بیان کر چکے کے تبادر عالمت حقیقت ہے ۔
۲۔ مقام داللت تصدیقی میں ظھور
یہ ظھور ہمیں وضع یا لغت سے سمجھ نہیں اتا بلکہ اس ظھور پر متکلم کا حال داللت
کرتا ہے ،حال متکلم سے مدلول تصدیقی کا پتہ چلتا ہے لیکن یہ ظھور بھی ایک طرح
سے مدلول تصوری کا محتاج ہے یعنی کالم جب بھی کسی معنی پر مرحلہ داللت
تصوری میں داللت کرتا ہے تو ظاھر حال متکلم یھی ہے کے مدلول تصدیقی بھی وھی
مدلول تصوری ہے کیونکہ اگر مراد متکلم مدلول تصوری سے ھٹ کر ہوتی تو متکلم
ضرور کوئی نہ کوئی قرینہ ضرور ذکر کرتا اب جبکہ کوئے قرینہ نہیں ہے تو ظاھر
حال متکلم یہ ہے کے مراد متکلم بھی وھی معنی تصوری ہے ،اسی قانون کو اصول میں
کہتے ہیں کہ:
’’اصالۃ تطابق بین المدلول التصدیقی و المدلول التصوری ‘‘
یا ’’اصالۃ تطابق بین مقام اإلثبات و مقام الثبوت‘‘
مقام إثبات یعنی مقام داللت ۔
مقام وضع یا مقام داللت تصوری یا مقام ثبوت یعنی مقام واقع ،مقام مراد متکلم یا مقام
داللت تصدیقی ۔
مثالً :اگر مولی کہے ’’ اکرم العالم ‘‘اس جملے کا مدلول تصوری یہ ہے کے عالم کی
عزت کرو اور اس جملے کا مدلول تصدیقی وھی چیز ہے جو نفس مولی کے اندر ہے
یعنی عالم کے اکرام کا ارادہ ۔ اب اگر ہمیں شک ہو کے مولی نے کہا تو اکرام عالم کا ہے
لیکن شاید اس کا مقصد یہ نہ ہو کے عالم کا اکرام کو بلکہ کسی اور چیز کا ارادہ کیا ہو ،
تو اس مقام پر کہا جائے گا کے نہیں مولی کا مقصد یھی ہے کے عالم کا اکرام کرو
کیونکہ اصل اور قانون یھی ہے ’’ التطابق بین المدلول التصوری و المدلول التصدیقی ‘‘
مراد تصوری اور مراد تصدیقی ایک دوسرے کے مطابق ہیں ۔
[اپ نے دیکھا ہم مراد متکلم تک کیسے پہنچ گئے ،مراد متکلم تک پہنچنے کا ذریعہ
وھی داللت تصوری ہے اس لئے ہم نے بھت سارے مقامات پر مدلول تصوری اور
صل مباحث مطرح کئے ۔ مثالً صیغہ امر ،نھی ،ادات شرط ،
وضعی کے بارے میں مف ّ
ادات غایت وغیرہ کے مدلول تصوری اور وضعی کے بارے میں مباحث پیش کئے ] ۔
(ب) :نقل کرنے والوں کا جھوٹ پر سازباز کرنا عادۃ ً محال ہو(عادۃ ً توارت عال الکذب
محال ہو)۔
تواتر سے کیونکر اطمئنان حاصل ہوتا ہے ؟
جب کسی واقعہ یا خبر کے بارے میں کوئی شخص ہمیں بتاتا ہے تو ہم احتمال دیتے ہیں
شاید یہ خبر سچی ہو ،پھر دوسرا شخص اتا ہے اور اسی واقعہ اور خبر کو نقل کرتا ہے
تو اس صورت میں خبر کے سچے ہونے کا احتمال بڑھ جاتا ہے ،پھر تیسرا شخص بھی
اوی خبر دے احتمال اور بڑھے گا یہاں تک نے ناقلین کی تعداد اس حد تک پہنچ جاتی
ہے کے ہمیں یقین یا اطمئنان ہوجاتا ہے یہ خبر یا واقعہ سچا ہے ،جب اس منزل پر پہنچ
جائیں تو کہا جائے گا یہ واقعہ یا خبر تواتر سے ثابت ہوا ہے ۔
نکتہ ’’ :توارت‘‘حجت ہے اور اس کی حجیّت اسلئے ہے کے یہ ’’مفید علم‘‘ ہے اور علم
کی حجیّت ذاتی ہے لھذا تواتر کی حجیّت کیلئے شارع کے بیان کی ضرورت نہیں ہے ۔
الطریق الثانی :اجماع و شھرت
صل اور منقول یا شھرت فتوائی اجماع و شھرت کے مختلف اقسام ہیں جیسا کے اجماع مح ّ
و روائی لیکن اس مقام پر ھمارا مقصد اجماع اور شھرت کی تعریف بیان کرنا اور یہ بیان
کرنا ہے کے دونوں ح ّجت ہیں یا نہیں ؟
کیا دونوں دلیل شرعی کو ثابت کرنے کیلئے طریق اور راستہ ہیں یا نہیں ؟
تعریف اجماع:
ایک فتوی پر تمام فقھاء کا اتفاق کرنا ۔
اجماع کا حکم:
اگر ایک فقیھ فتوی دیتا ہے کے معدنیات پر خمس واجب ہے تو دو احتمال سامنے اتے
ہیں:
پھال احتمال:
شاید اس فقیھ نے یہ فتوی بغیر دلیل کے دیا ہوگا لیکن یہ احتمال قابل قبول نہیں کیونکہ
فرض یہ ہے کے فقیھ ایک متقی انسان ہے کس طرح ممکن ہے کے ایک پارسا انسان
بغیر دلیل کے فتوی دے ۔
دوسرا احتمال:
فقیھ نے فتوی دلیل کی بنا پر دیا ہے ،اس صورت میں بھی دو فرض ہوسکتے ہیں۔
(ایک) :فقیھ کا یہ فتوی کہ ’’معدنیات پر خمس واجب ہے‘‘ ایک دلیل شرعی لفظی کی بنا
پر ہو اور فقیھ نے درست طریقے سے استنباط کیا ہو۔
(دو) :فقیھ نے مذکورہ فتوی تو دلیل کی بنا پر دیا ہو لیکن اپنے استنباط میں خطاء سے
دوچار ہوا ہو کیونکہ مجتھد معصوم تو نہیں ہوتا خطاء کرسکتا ہے ۔
اب دوسرے احتمال کے دونوں فرضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کے
جب ایک مجتھد فتوی دیتا ہے کہ ’’معدنیات پر خمس واجب ہے‘‘ ۔ ہم احتمال دیتے ہیں
کے شاید صحیح استنباط کے تحت فتوی دیا ہو ایک ناقص قرینہ ہمارے پاس ہوتا ہے ،
جب دوسرا مجتھد بھی یھہ فتوی دیتا ہے تو یہ احتمال کچھ اور قوی ہوجاتا ہے کے دو
بندہ فتوی دے رھے ہیں ۔ دلیل سے صحیح سمجھا ہوگا ،پھر اسی طرح جیسے جیسے
فقھاء کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا ہمارا احتمال بھی قوی سے قوی تر ہوتا جائے گا
یہاں تک کے ایک مرحلے میں اکر ہمیں یقین حاصل ہوجائے گا کے ان تمام فقھاء نے
حتما ً ایک دلیل ِشرعی ِلفظی کی بنا پر فتوی دیا ہے اور استنباط میں بھی کوئی غلطی نہیں
ہوئی نتیج ًۃ اس اجماع کے ذریعہ ہم کشف کرتے ہیں کے حتما ً ایک دلیل شرعی اس فتوی
کیلئے ضرور موجود ہے ورنہ کیسے ہوسکتا ہے یہ سارے کے سارے فقھاء بغیر دلیل
کے فتوی دیتے ۔
شھرت کی تعریف:
فقھاء کی اکثریت ایک معین فتوی پر متفق ہو ۔
فرق اجماع و شھرت:
اجماع اور شھرت میں فرق اتفاق کرنے والوں کی ک ّمیت کے اعتبار سے ہے ۔ اجماع میں
تمام فقھاء متفق ہوتے ہیں جبکہ شھرت میں اکثریت کا اتفاق ہوتا ہے گرچہ ایک قلیل تعداد
مخالف بھی ہوتی ہے ۔
شھرت کا حکم:
شھرت بھی تواتر اور اجماع کی طرح ہے اگر شھرت سے بھی یقین حاصل ہوجائے تو
ح ّجت ہے ارنی ح ّجت نہیں ہوگی ۔
نکتہ:
اجماع اور شھرت حقیقت میں دلیل لفظی کے کشف کرنی کے دو طریقے ہیں اگر دلیل
لفظی کا یقین ہوگیا تو دونوں ح ّجت ہیں ورنہ ح ّجت نہیں ہوں گے کیونکہ یقین نہ ہونے کی
ظن ہوں گے اور ّ
ظن کے بارے میں قاعدہ ّاولی عدم صورت میں زیادہ سے زیادہ مفید ّ
حجیّت ہے ۔
ایضاح:
اھل سنّت کے وھاں بھی اجماع ح ّجت ہے لیکن ہمارے(اھل تشیّع) اور ان کے(اھل سنّت)
کے درمیان اجماع کی حجیّت کے بارے میں فرق پایا جاتا ہے ۔
اھل سنّت کے نزدیک بذات خود اتفاق فقھاء اھمیت رکھتا ہے یعنی اتفاق فقھاء ح ّجت ہے
لیکن ھمارے یہاں (اھل تشیّع) اگر اتفاق فقھاء سے دلیل لفظی کا علم ہوگیا تو ح ّجت ہے
کیونکہ ہمارے یہاں اتفاق فقھاء کی بذات خود کوئی اھمیت نہیں ہے ،البتہ اتفاق فقھاء سے
رای معصوم (دلیل لفظی) کشف ہوجائے تو پھر اجماع کی حیثیت ہوگی وہ بھی درحقیقت
رای معصوم (دلیل لفظی) کی حیثیت ہوگی۔
اقسام شھرت :
یہ بات مخفی نہیں ہے کے معصوم کیلئے قول ،فعل اور تقریر ہوتی ہے ۔
قول معصوم ( :یعنی اقوال ،فرمائشات) دلیل شرعی لفظی میں داخل ہیں ۔
فعل معصوم ( :یعنی رفتار اور عمل معصوم) دلیل شرعی غیر لفظی میں داخل ہیں ۔
تقریر معصوم ( :یعنی کسی اور کے عمل پر خاموش رھنا) دلیل شرعی غیر لفظی میں
داخل ہیں ۔
دلیل شرعی غیر لفظی کی تعریف :
ہر وہ چیز جو معصوم سے صادر ہو اور حکم شرعی پر داللت کرے البتہ سنخ ِکالم نہ
ہو۔ دلیل شرعی غیر لفظی کی بحث دو مقامات پر ہوگی ۔
۱۔ فعل معصوم ۲۔ تقریر معصوم
فعل معصوم:
جب بھی معصوم کسی کام کو انجام دیں مثالً مسواک ،تو یہ عمل معصوم داللت کرتا ہے
کے یہ فعل حرام نہیں ہے ’’جواز بالمعنی االعم ‘‘ رکھتا ہے اور اگر معصوم کسی عمل
کو ترک کرے یعنی چھوڑ دے تو یہ عمل معصوم داللت کرتا ہے کے یہ فعل واجب نہیں
ہے کیونکہ افر مذکورہ عمل واجب ہوتا تو معصوم اُسے کبھی بھی ترک نہیں کرتے ۔
نکتہ:
البتہ یہ اس صورت میں ہے کے معصوم اس فعل کو مطلوبیت اور قربت کی نیّت سے
انجام نہ دے لیکن افر قصد مطلوبیت اور محبوبیت ہو تو وہ فعل مطلوب الھی اور محبوب
الھی قرار پائے گا ۔
سوال :فعل اور تقریر معصوم کیسے ثابت ہوتے ہیں ؟
جواب :فعل اور تقریر معصوم بھی اس طرح ثابت ہوتے ہیں جیسے قول معصوم ثابت
ہوتا ہے یعنی تواتر ،اجماع ،سیرۃ متشرعہ ،خبر واحد وغیرہ سے ۔
تقریر معصوم :
تقریر معصوم سے مراد یہ ہے کے اگر معصوم دیکھے اور مشاھدہ کرے کہ ان کے
سامنے ایک فعل انجام دیا جا رھا ہے ’’پھر اس فعل کو انجام دینے واال کوئی ایک فرد ہو
یا عام لوگ ہوں‘‘ اب اس فعل اور رفتار کی بنسبت معصوم کی دو حالتیں ہوسکتی ہیں:
(ایک) :معصوم اس فعل اور کام سے منع کرتا ہے ۔
اگر معصوم منع کرتا ہے تو اس کا مقصد یہ ہوگا کے معصوم اس عمل کو شریعت کے
اغراض و مقاصد سے ٹکراتا ہوا محسوس کرتے ہیں اور اس عمل کو جائز نہیں سمجھتے
،البتہ اگر معصوم اس عمل پر خاموش رھے اس کا مطلب یہ ہے کے معصوم اس عمل
پے امضاء (دستخط) فرما رھے ہیں اور معصوم اس عمل کو غلط نہیں سمجھتے ۔
پس ضروری ہے کے یہ عمل (چاھے فردی ہو یا اجتماعی)
ّاوالً :معصوم کے زمانے میں ہو ۔ لھذا اس تقریر معصوم سے غیبت کے زمانے میں
استفادہ نہیں کیا جاسکتا ۔
ثانیا ً :معصوم منع کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو یعنی تقیّہ کے عالم میں نہ ہو ۔
فردی سلوک اور عمل کی مثال :فرض کریں ایک شخص امام کے سامنے وضو کرتے
ہوئے سر کا مسح الٹا کرے جبکہ فرض یہ ہو کے سر کا الٹا مسح کرنا غلط ہو تو اس
صورت میں امام پر الزم ہوگا کے اس شخص کو منع کرے لیکن اگر امام خاموش رھیں
اس کا مقصد یہ ہوگا کے سر کا مسح چاھے الٹا ہی کیوں نہ ہو صحیح ہے ۔
اجتماعی سلوک اور عمل کی مثال :ہر معاشرہ اور سماج میں ہم دیکھتے ہیں کے کچھ
چیزوں پر عقالء بما ھم عقالء عمل کرتے ہیں ،اس طرح سے کے اس چیزوں کی بنسبت
عقالء کی ایک عمومی اور اجتماعی سیرت سامنے اتی ہے ۔
نکتہ:
ہم نے کہا عقالء بما ھم عقالء یعنی اِس اجتماعی رفتار میں کسی دین و مذھب کو عمل
دخل نہیں ہے بلکہ عقالء جھت عقالئی کے لحاظ سے ان چیزوں پر عمل کرتے ہیں ،
اسی چیز کو ’’سیرۃ عقالئیہ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ مثالً :ہم دیکھتے ہیں تمام عقالء
ظاھر حال متکلم پر اعتماد کرتے ہیں یا مثالً خبر واحد ثقہ پر عمل کرتے ہیں ۔ اب اگر
فرض کیا جائے کے معصوم اس اجتماعی سلوک اور سیرۃ عقالء کا مشاھدہ کرے معصوم
اس عمل پر راضی نہ ہوں تو قطعا ً اس عمل سے منع کریں گے لیکن اگر معصوم خاموش
رھیں تو اس کا مقصد یہ ہوگا کے معصوم اس عمل پر امضاء(دستخط) کر رھے ہیں ۔
سیرۃ متشرعہ اور سیرۃ عقالئیہ میں فرق :
سیرہ عقالء عبارت ہے :ایک عام میالن ہے جو عقالء کے یہاں پایا جاتا ہے کسی بھی
خاص رفتار کی بنسبت لیکن اس میالن کے ایجاد کرنے میں شریعت کا کوئی کردار نہیں
ہوتا بلکہ عقالء بما ھم عقالء یہ میالن رکھتے ہیں ۔
یہاں سے پتہ چلتا ہے کے سیرۃ عقالئیہ کے وجود میں انے کیلئے شارع کا اثر و نقش
نہیں ہوتا ،اس سیرت کو شارع سے نہیں لیا گیا بلکہ عقالء مصالح کی بنا پر اس سیرت
وجد ہوتے ہیں ۔ جبکہ اس کے مقابلے میں سیرۃ متشرعہ بھی ایک سلوک کے خود ُم ِ
اجتماعی ہے ،ایک اجتماعی رفتار ہے لیکن خاص متشرعین اور دینداروں کا اجتماعی
عمل جبکہ سیرۃ عقالء میں دیندار اور متشرعہ کی قید مد نظر نہیں ہے ۔(اگر متشرعین
سیرۃ عقالئی میں ہیں بھی تو جھت عقالئی مد نظر ہے نہ کے دینداری)
ثانیا ً :سیرۃ متشرعہ میں سلوک اجتماعی کا اصل سبب شارع ہوا کرتا ہے ،بیان شارع ہی
سبب بنتا ہے کے متشرعین ایک اجتماعی رفتار اپناتے ہیں ۔
اذن الفرق بین سیرۃ العقالء و سیرۃ المتشرعۃ ّ ،
ان سیرۃ العقالء غیر متلقات من الشارع و
سیرۃ المتشرعۃ متلقات من الشارع ۔
سیرۃ عقالء اور دلیل حجیّۃ ظھور:
ہم پھلے حجیّت ظھور پر سیرۃ متشرعہ کے ذریعہ استدالل کرچکے ہیں لیکن سیرۃ عقالء
کے ذریعہ بھی حجیّت ظھور پر استدالل کیا جا سکتا ہے ۔
وہ اس طرح سے کہ :تمام عقالء بما ھم عقالء ظواھر پر عمل کرتے ہیں اگر شارع اس
عمل پر راضی نہ ہوتا تو حتما ً منع کرتا ،اب جبکہ شارع نے منع نہیں کیا یعنی شارع اس
عمل پر راضی ہے اس عمل پر شارع کی امضاء(دستخط) ہے ۔
۲۔ الدلیل العقلی
درس ۱۸
دراسۃ العالقات العقلیۃ
درس ۲۰
()۳) (۲
العالقات القائمۃ
بین الحکم و موضوعہ و متعلّقہ
اصل بحث کو بیان کرنے سے پھلے دو اصطالحوں کی وضاحت ضروری ہے:
۱۔ جعل حکم (مرحلی انشائی حکم) ۲۔ فعلیت حکم (مرحلہ فعلی حکم)
یہ تینوں مرتبے اسی درجہ کے حساب سے ہی ہیں جس ترتیب سے ذکر کیا گیا یعنی
موضوع الحکم ہوتا ہے یہ رتب ًۃ مقدم ہے ،پھر دوسرے درجے میں حکم ،پھر تیسرے
درجے میں العلم بالحکم (اس حکم کا علم) کیونکہ حکم ہوگا تو اس کا علم ہوگا ۔
ھمارے اس بیان سے معلوم ہوا کے ’’علم بالحکم‘‘ ’’موضوع الحکم‘‘ سے دو مرتبہ متاخر
ہے ،جب دو مرتبہ متاخر ہے تو اسے ’’موضوع الحکم‘‘ میں قید کے عنوان سے اخذ
نہیں کیا جاسکتا کیونکہ قیود موضوع بذات خود موضوع کے درجے میں ہوا کرتے ہیں ،
اگر ’’العلم بالحکم‘‘ قید موضوع قرار پائے تو الزم ائے گا جو متاخر ہے دو مرتبہ وہ
متقدم ہوجائے اور یہ محال ہے ۔
یا دوسرے لفظوں میں کہا جائے :
حکم کا علم ،حکم پر موقوف ہے اور حکم ،موضوع پر موقوف ہے ۔
اب اگر حکم کا علم موضوع کیلئے قید ہو یعنی موضوع ،حکم کے علم پر موقوف ہوگا
اور یہ ’’دَور‘‘ ہے جو کے محال ہے ۔
حکم
صل ّ
ان االحکام غیر مختصۃ بالعامین بھا‘‘ بل احکام ہللا الواقعیۃ تشمل العالم و الجاھل ’’فتح ّ
علی حدّ سواء ۔
وہ عالقات جو حکم اور اس کے متعلَّق کے درمیان ہیں
حکم اور اس کے متعلَّق کے درمیان رابطہ اور عالقہ کیسا ہے ؟
اس مطلب کی وضاحت مثال کے ذریعہ پیش کرتے ہیں ۔
مثال :۱جب مولی کہتا ہے ’’یجب الصوم علی المکلَّف غیر مسافر و ال مریض اذا ھ َّل علیہ
شھر رمضان‘‘ یعنی ’’ روزا ہر اس مکلَّف پر واجب ہے جو نہ تو مسافر ہو ،نہ ہی
مریض ہو اور رمضانکے مھینہ میں ہو‘‘۔
مذکورہ عبارت میں تین چیزیں موجود ہیں:
۱۔ ’’حکم شرعی‘‘ جو کے ’’وجوب‘‘ ہے
۲۔ ’’موضوع حکم‘‘ جو کے ’’مکلَّف ہے اپنے تمام شرائط کے ساتھ‘‘
۳۔ ’’متعلَّق حکم‘‘جو کے ’’روزا‘‘ ہے
متعلَّق حکم یعنی وہ فعل جس کو مکلَّف نے انجام دینا ہوتا ہے اس وجوب کے گردن پر
انے کی وجہ سے ۔
مثال ’’ :۲وجوب حج‘‘ جو کے ’’مستطیع‘‘ کے ذمے ہے ،اس میں بھی تین چیزیں پائی
جاتی ہیں :
۱۔ ’’حکم‘‘ جو کے ’’وجوب‘‘ ہے
۲۔ ’’موضوع حکم‘‘ جو کے ’’مستطیع‘‘ ہے
۳۔ ’’متعلَّق حکم‘‘ جو کے ’’حج‘‘ ہے
اس بیان کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کے:
موضوع کی وجہ سے حکم فعلی ہوتا ہے پس پھلے موضوع متحقق ہو تاکہ حکم متحقق
ہوسکے ،لھذا حکم رتبہ کے اعتبار سے وجود موضوع کے بعد ہوگا (اُس سے متاخر
ہوگا)۔ اب جب حکم فعلی ہوچکا تو یہ حکم متعلّق ایجاد کرنے کی طرف دعوت دے گا
یعنی جب حکم فعلی ہوگا تو مکلَّف کو ذمیدار بنائے گا کے اس متعلَّق(حج یا روزا) کو
انجام دو ۔
خالصہ یہ ہے کہ:
متعلَّق کا انجام دینا مسبب ہے حکم کا ،حکم باعث بنتا ہے متعلَّق کو ایجاد کرنے کا تبھی
اگر مکلَّف سے پوچھا جائے کے تم نے نماز کیوں پڑھی ؟ تو جواب دے گا کیونکہ مولی
نے مجھ پر نماز فرض کی ہے ۔ یہ حکم شرعی ہی ہے جو ایجاد ِمتعلَّق کی طرف بالتا
ہے لیکن خود حکم شرعی (مجعول) تب تک متحقق نہیں ہوگا ۔
متعلَّق حکم اور موضوع کے درمیان فرق :
متعلَّق حکم ،حکم کی وجہ سے پایا جاتا ہے جبکہ بذات ِخود حکم موضوع کے باعث
فعلیت پیدا کرتا ہے ۔
ان المتعلَّق یوجد بسبب الحکم بینما یوجد الحکم نفسہ بسبب الموضوع‘‘۔
’’ ّ
درس ۲۱
العالقات القائمۃ بین الحکم و المقدمات
وہ عالقات جو حکم اور اس کے مقدمات کے درمیان ہیں
یہ بحث عام طور پر اصولی کتابوں میں ’’مقدمہ واجب‘‘ کے عنوان سے زیر بحث الئی
جاتی ہے لیکن مصنف نے یہ عنوان دیا ہے ’’حکم اور اس کے مقدمات کے مابین
عالقات‘‘ ۔
گذشتہ بحث سے واضح ہوا کہ ’’متعلَّق حکم اور موضوع کے درمیان فرق ہے ‘‘ اسی
بحث کو اگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کے مقدمات بھی دو طرح کے ہیں:
(الف) :وہ مقدمات جن پر ایجاد متعلَّق حکم موقوف ہو ۔
مثالً :نماز ’’وضو‘‘ پر موقوف ہے یا حج کو انجام دینے کیلئے ’’سفر‘‘ کرنا ضروری ہے
،اسی طرح ان کے(نماز و حج) مقدمات کو ’’مقدمات واجب‘‘ کہتے ہیں ۔
(ب) :وہ مقدمات جو موضوع کے وجود اور تحقق کیلئے الزمی ہیں یعنی ایسے مقدمات
ہیں جب تک یہ مقدمات نہیں ہوں گے موضوع وجود میں نہیں ائیں گے ۔
مثالً ’’ :استطاعت‘‘ حج کیلئے ،جب تک استطاعت نہیں ہوگی تو مستطیع نہیں ہوگا اور
اگر مستطیع نہیں ہوگا تو وجوب حج فعلیت پیدا نہیں کرے گا ،ان مقدمات کو ’’مقدمات
وجوبیہ‘‘ کہا جاتا ہے ۔
مقدمات واجب اور مقدمات وجوبیہ میں فرق:
مقدمات واجب کی تحصیل (ان کو حاصل کرنا) مکلَّف کے ذمے ہے (مکلَّف کی گردن پر
ہے) جبکہ مقدمات وجوبیہ کا مھیا کرنا مکلَّف کی ذمیداری نہیں ہے کیونکہ مقدمات
وجوبیہ جب تک نہیں ہوں گے تو موضوع نہیں ہوگا اور جب تک موضوع نہیں ہوگا تو
حکم نہیں ہوگا جب حکم ہی نہیں ہے تو مکلَّف کے ذمے (گردن پر) کیا ہے ؟ مکلَّف کی
مسئولیت کیا ہے ؟
واضح ہے کے کوئی مسئولیت و ذمیداری نہیں ہے ۔
جبکہ مقدمات واجب وہ ہیں جن پر حکم موقوف نہیں ہے اور نہ ہی اس کا موضوع
کیونکہ حکم اور موضوع اچکے ہیں ،حکم فعلیت پیدا کرچکا ہے صرف متعلَّق حکم کا
ایجاد کرنا ان مقدمات پر موقوف ہے ۔ واضح ہے کے اس صورت میں مکلَّف کی ذمیداری
ہے کے ان مقدمات کو تحصیل کرے ،ان مقدمات کو مھیا کرے تاکہ متعلَّق کو ایجاد
کرسکے۔
اس بنا پر مکلَّف کیلئے ضروری نہیں ہے کے وہ استطاعت حاصل کرے کیونکہ
استطاعت مقدمہ وجوبیہ ہے ۔ البتہ اگر استطاعت حاصل ہوگئی تو سفر کرنا مکلَّف کی
ذمیداری ہوگی کیونکہ مقدمہ واجب ہے ۔
ان تحصیل المقدمات الوجوبیۃ ال یجب وال مکلّف بینما یجب علیہ تحصیل مقدمات
صل ّ ’’فتح َّ
الواجب‘‘۔
ہیاں سے واضح ہوا کہ ’’مکلَّف مقدمات واجب کی بنسبت ذمیدار ہے ۔ اس کیلئے ضروری
ہے کے واجب کے مقدمات کو حاصل کرے تاکہ واجب کو انجام دے سکے لیکن اس مقام
پر یہ سوال اٹھتا ہے کے ان مقدمات واجب کے ضروری ہونے کا حکم کون کرتا ہے ؟
کیا یہ حکم ہماری عقل کا حکم ہے ؟ یا شارع ان مقدمات کو الزمی قرار دیتا ہے ؟
اس سوال کے جواب سے پھلے یہ بات واضح ہونا چاھئے کے کیا فرق پڑتا ہے ھچاھے
ہماری عقل کہے یا شارع ؟ دونوں صورتوں میں مقدمات کو تو انجام دینا ہی ہوگا ۔
اس بارے میں ایک نکتے کی جانب توجہ کریں:
صحیح ہے کے دونوں صورتوں میں مقدمات واجب انجام دینے ہوں گے لیکن فرق پھر
بھی ہے ۔ وہ اس طرحہے کے اگر مقدمات واجب کا وجوب شارع کی جانب سے ہوگا تو
ھمارے پاس چین واجبات شرعی ہوں گے ۔
مثالً ایک واجب نماز ،اور ایک واجب وضو ۔ اگر ہم نے نماز نہیں پڑھی تو گویا دو
واجبات کی مخالفت کی لھذا دو عقاب ہوں گے ۔ اور اگر مقدمات واجب کا حکم ہماری
عقل کرتی ہے تو اس صورت میں شرعی واجب ایک ہوگا ’’نماز‘‘ اس کی مخالفت کرنے
کی صورت میں ایک واجب کی مخالفت کی ہے اور ایک ہی عقاب کے مستحق قرار پائیں
گے ۔
اصل بحث کی جانب بازگشت
اصولیوں کے درمیان اختالف ہے ۔ بعض کہتے ہیں ’’مقدمات واجب واجب شرعی‘‘ ہیں
یعنی ان کو شارع نے واجب قرار دیا ہے جبکہ بعض دوسرے اصولی کہتے ہیں ’’مقدمات
واجب واجب عقلی‘‘ ہیں یعنی ان کو ہماری عقل الزم قرار دیتی ہے ۔
مختار مصنف (شھید صدر کا نظریہ):
شھید صدر کا ماننا ہے کہ ’’ ان مقدمات واجب کا وجوب عقلی ہے نہ کے شرعی یعنی
ہماری عقل الزم قرار دیتی ہے نہ کے شارع‘‘۔
سوال :کیوں ؟ کیا دلیل ہے ؟
جواب :اسلئے کے ان مقدمات کا وجوب اگر شارع کی جانب سے ہوگا تو ہم سوال کریں
گے کے شارع کی غرض اس وجوب سے کیا ہے؟ شارع نے ان مقدمات کو واجب کیوں
قرار دیا ہے ؟
اگر اسلئے واجب کرتا ہے تاکہ مکلَّف ان مقدمات کو تحصیل کرے تو ہم کہیں گے یہ
غرض تو پھلے سے ہی حاصل ہے کیونکہ شارع کے حکم سے پھلے ہی ھماری عقل
سمجھتی ہے ان مقدمات کی تحصیل الزم ہے لھذا اب دوبارہ اکر شارع کا وہی حکم کرنا
فضول ہوگا ،اور اگر اس غرض کے عالوہ کوئی اور غرض ہے تو ہم نہیں سمجھتے اپ
اس کی وضاحت کریں تاکہ اس کا جواب دیں ۔
نتیج ًۃ :مقدمات واجب واجب عقلی ہوں گے ۔
الن وجوبہ شرعا ً یصیر لغوا ً‘‘۔
ان وجوب المقدمات الواجب ال یکون عقالً ال شرعا ً ّ
’’فتحصل ّ
درس ۲۲
العالقات القائمۃ فی داخل الحکم الواحد
( )۵
وہ عالقات جع بذات خود ایک حکم کے درمیان ہیں
واجبات دو طرح کے ہیں
۱۔ واجبات بسیط ۲۔ واجبات مرکب
مثالً :قرات سورۃ عزائم کے وقت سجدہ واجب ہے یہ سجدہ امر بسیط ہے اس کے اجزاء
نہیں ہیں ۔
اور کبھی کبھار ایک ایسی چیز واجب ہوتی ہے جو مرکب ہے اور اس کے اجزاء ہیں ۔
مثالً نماز واجب ہے ۔ نماز کے اجزاء ہیں نیّت سے سالم تک ،نیّت ،تکبیرۃ االحرام ،
قرات ،قیام ،رکوع و سجدہ وغیرہ یہ تمام اجزاء ہیں ۔
غور کرین
جو واجبات بسیط ہیں ان میں ایک ہی ’’مستقل وجوب‘‘ ہے لیکن واجبات مرکب میں میں
دو طرح کے اعتبار ہیں پھر ہر لحاظ کے اعتبار سے وجوب ہے اگر مرکب واجبات میں
پورے مجموعے کا لحاظ کیا جائے تو ایک مستقل وجوب ہے اور اگر اجزاء کو ضمنی
طور پر دیکھا جائے تو تمام اجزاء کیلئے ضمنی وجوب ہے اور یہ ضمنی وجوب ایسا
ہے اگر ایک جزء ختم ہوجائے تو بقیہ اجزاء بھی ختم ہوجائیں گے ۔ اس لحاظ سے دیکھا
جائے تو تمام اجزاء ایک دوسرے سے مربوط ہیں ،اجزاء کے اندر ایک طرح کا ترابط
ہے جبکہ اس قسم کا رابطہ واجبات مستقلہ میں نہیں ہے ۔
مثالً :ایک واجب مستقل نماز ایک ذات اگر ایک کو انجام نہیں دیا اور ایک کو انجام دیا
تو ایک واجب ادا ہوگیا اور ایک ادا نہیں ہوا لیکن واجبات ضمنیہ اور غیر مستقل میں
ایک جزء بھی چھوڑ دیا تو گویا کوئی جزء انجام نہیں دیا ۔
اشکال:
کبھی کبھار ایک بندہ نماز کھڑے ہوکر نہیں پڑہ سکتا ،قیام کرنا اس کے لئے ممکن نہیں
تو بقیہ اجزاء کیا واجب نہیں ؟ کیا اس کی نماز نہیں ہوگی ؟
جواب :اس پر شروع سے ہی نماز بِدون و بغیر قیام کے واجب ہے نہ یہ کے قیام واجب
تھا اور انجام نہیں دیا ہو ۔
درس ۲۳
ج ۔ النوع الثانی :االصول العملیۃ
۱۔ اصالت احتیاط عقلی
تمھید :گذشیہ مباحث میں بیان ہوا کے عناصر مشترکہ دو طرح کے ہوتے ہیں:
۱۔ ادلہ محرزہ ۲۔ اصول عملیہ
۱۔ برات
۲۔ استصحاب
اصول عملیہ چار ہیں
۳۔ تخییر
۴۔ احتیاط
مصنف نے یہاں (حلقہ اولی) پر دو اصولوں کے بارے میں بحث کی ہے یعنی اصل برات
اور اصل استصحاب ۔
مر بمرحلتین االولی :الرجوع الی االدلّۃ المحرزۃان استنباط الحکم الشرعی ی ّ صل ّ ’’فتح ّ
فان وجود دلیالً ید ّل علی الجواز او الحرمۃ عمل بہ و ّاال فینتقل الی المرحلۃ الثانیۃ :وھی
الرجوع الی االصل العملی‘‘
تحدید اصل
اصول عملیہ شرعیہ کے بارے میں بحث کرنے سے پھلے ضروری ہے کے بنیادی قاعدہ
معیّن کیا جائے مکلّف کو جب بھی حکم شرعی کا علم نہ ہو اور مکلَّف جاھل ہو تو اصل
ّاولی کیا ہے ؟ اس مقام پر اساسی اور بنیادی قاعدہ کیا ہونا چاھئے ؟
مثالً مکلَّف کو معلوم نہیں ہے کے سگریٹ پینا حرام ہے یا نہیں ؟ تو اس مقام پر اصل
ّاولی کیا ہے ؟ بنیادی قاعدہ کیا ہوگا ؟
سوال :اس بنیادی و اساسی قاعدہ کو کون بیان کرے گا ؟
جواب :یہ بات روشن ہے کے اس قاعدہ ّاولی کو ھماری عقل معیّن کرے گی نہ کے
شارع اس اساسی قاعدہ کو معیّن کرے گا کیونکہ اگر شارع کہے گا کہ ’’میری اطاعت‘‘
الزم ہے تو سوال ہوسکتا ہے کہ شارع جو کہہ رھا ہے کے ’’میری اطاعت‘‘ کرو تو کیا
بذات خود اس امر کی بھی اطاعت کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟
اگر کہا جائے کے اس ’’امر بالطاعۃ‘‘ کی بھی اطاعت خود شارع کے امر سےواجب ہے
تو پھر اس امر کے بارے میں بھی یہی سوال ہوگا تا این کہ تسلسل الزم ائے گا ،پس اس
بنیادی امر کیلئے ہمارے لئے ضروری ہے کے حکم عقل ہو ،پس اس بنیادی قاعدہ کیلئے
ہمیں عقل سے پوچھنا چاھئے کے عقل کیا کہتی ہے ۔
اس مقام پر دو مسلک ہیں:
۱۔ مسلک قبح عقاب بال بیان
۲۔ مسلک حق الطاعۃ
: توضیح
اگر عبد کو مولی کی تکلیف کے بارے میں علم(یقین) ہو تو ہماری عقل کہتی ہے کے عبد
کو وہ تکلیف انجام دینی چاھئے ۔ مثالً :عبد کو یقین ہو کے مولی نے اس پر نماز واجب
کی ہے تو عبد کو نماز پڑھنی چاھئے ،اب اگر عبد مخالفت کرتا ہے اور نماز نہیں پڑھتا
تو وہ مستحق عقاب قرار پائے گا
لیکن اگر کسی حکم کے بارے میں شک ہو ۔ مثالً :عبد کو علم نہیں ہے کہ شرب
تُتُن(سگریٹ پینا) حرام ہے یا نہینتو اس صورت میں عقل کیا کہتی ہے ؟
کیا اس مورد میں عبد کو احتیاط کرنا چاھئے یعنی جس چیز کے بارے میں شک ہے کے
حرام ہے یا نہیں تو اس سے اجتناب کرے اسے انجام نہ دے یا عقل حکم کرتی ہے کے
عبد ازاد ہے اس کی مرضی اجتناب کرے یا نہیں کرے ،اس کیلئے برات ہے اس کا ذمہ
بری ہے ۔
اس سوال کے جواب میں ھمیں یہ دیکھنا پڑے گا کے ’’مولی کی اطاعت کا دائرہ کہاں
تک ہے‘‘ کیا مولی کی اطاعت کا دائرہ اور حدود فقط احکام یقینی تک ہے یو
احکام ِمشکوکہ کو بھی شامل ہے یعنی مولی کی اطاعت تقاضا کرتی ہے کے ’’ ایا یہ ہے
کہ جن احکامات کے بارے میں یقین ہو فقط ان احکام کا امتثال واجب ہے یا نہیں مولی کی
اطاعت کا تقاضا جس طرح سے یہ ہے کے جن احکامات کا علم ہے ان کا امتثال واجب
ہے اسی طرح یہ تقاضا بھی ہے کے حتی جن احکامات کے بارے میں شک ہے ان
احکامات میں بھی مولی کی اطاعت کرنی چاھئے ؟
اب اگر ہم اس بات کے قائل ہوئے کے مولی کی اطاعت کا دائرہ فقط احکامات معلومہ
تک ہے تو احکامات مشکوکہ میں برات جاری ہوگی جیسا کے مسلک قبح عقاب بال بیان
کے ماننے والوں کا یھی موقف ہے ۔ یہ لوگ کہتے ہیں کے مولی کی اطاعت اس وقت
واجب ہے جب مولی کی تکلیف معلوم ہو اگر معلوم نہیں تو تکلیف بھی نہیں ،مولی اس
تکلیف مشکوکہ پر عقاب نہیں کرسکتا کیونکہ یہ عقاب بال بیان کے ہوگا جو کے قبیح ہے
اسی کو ’’برات عقلی‘‘ بھی کہتے ہیں ۔
جبکہ اس کے مقابلے میں مصنف کا ماننا ہے کے مولویت مولی کا تقاضا یہ ہے کے
مولی کی اطاعت جس طرح احکام معلومہ میں واجب ہے اسی طرح احکام مشکوکہ میں
بھی اس کی اطاعت واجب ہے ۔
نتیج ًۃ قاعدہ ّاولی احتیاط اور اشتغال ہوگا ۔
سوال :اگر مولی کی اطاعت تکالیف معلومہ اور تکالیف مشکوکہ دونوں مینواجب ہے تو
پھر تکالیف معلومہ اور تکالیف مشکوکہ میں کیا فرق رہ جائے گا ؟
جواب :دونوں طرح کی تکالیف میں فرق یہ ہوگا کے مولی تکالیف معلومہ کے برخالف
ترخیص اور اذن نہیں دے سکتا یعنی مولی نہیں کہہ سکتا کے جس تکلیف کا علم ہے اس
کی اطاعت بیشک نہ کرو کیونکہ ہم پھلے بیان کرچکے ہیں کے علم اور یقین کی حجیّۃ
ذاتی ہے جبکہ تکالیف مشکوکہ کے خالف شارع اذن اور ترخیص دے سکتا ہے یعنی
ہماری عقل کہتی ہے تکالیف مشکوکہ میں احتیاط تب تک ضروری ہے جب تکشارع خود
سے نہ کہے کے احتیاط واجب نہیں ہے ،اگر شارع نے خود سے کہہ دیا کے احتیاط
واجب نہیں تو پھر احتیاط واجب نہیں ہوگی ۔
مسلک قبح عقاب بال بیان کی دلیل اور مناقشہ
مشھور کا ماننا ہے کے مولی کی تکلیف تبھی واجب ہے جب اس کا علم ہو ،باقی شک
کی صورت میں برات ہے ۔ دلیل سیرۃ عقالء ہے کہ تمام عقالء کا ماننا ہے کے اگر ایک
عرفی مولی اپنے خادم کو کوئی حکم کرے لیکن خادم کو اس حکم کا علم نہ ہو بلکہ شک
ہو ،تو تمام عقالء یہی کہتے ہیں اس خادم پر اس حکم کی تکمیل کرنا واجب نہیں ہے اور
مولی بھی اپنے خادم سے بازپرس نہیں کرسکتا ہے کے تم نے (خادم نے) اس حکم کی
تعمیل کیوں نہیں کی ؟ یہاں سے معلوم ہوا سیرۃ عقالئیہ یہی ہے کے احکام ِمشکوکہ میں
اطاعت واجب نہیں ہے ۔
مناقشہ
ّاوالً :صحت عقاب اور عدم صحت کیلئے ضروری ہے پھلے مرحلے میں ’’دائرہ حق
مولویت‘‘مشخص کریں ۔ ہم نے بیان کیا کے مولی جو کے معین ہے وہ بھی اصول
نِ َعم(بنیادی ترین نعمتوں) کا ،تو اس کی مولویت کا تقاضا یہی ہے جھاں پر اس مولی کی
مخالفت کا شائبہ تک ہو تو اس سے بچنا چاھئے پس تکالیف مشکوکہ بھی دائرہ اطاعت
میں اتا ہے پس بازپرس درست ہوگی اگر مخالفت کی تو ۔
ثانیا ً :عام مولی کی اطاعت کا دائرہ اور مولی حقیقی کی اطاعت کے دائرہ میں فرق ہے ۔
ہوسکتا ہے کے عرفی مولی کی اطاعت کا دائرہ فقط تکالیف معلومہ تک محدود ہو لیکن
حقیقی مولی (جس نے ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے ،وجود جیسی نعمت دی اور
بقاء کیلئے جس چیز کی ضرورت تھی وہ عطا کی) کی اطاعت کے دائرہ کا قیاس عام
مولی سے نہیں کیا جاسکتا ۔
اصطالحا ً کہتے ہیں کے یہ قیاس مع الفارق ہے ۔
فتلخص ّ :
ان القاعدہ االساسیۃ بناء علی مسلک قبح العقاب بال بیان برائۃ و علی مسلک حق
الطاعۃ احتیاط و اشتغال کما ھی المختار المصنف ۔
درس ۲۴
۲۔ القاعدۃ العملیۃ الثانویۃ
(البرات شرعیۃ)
ہم نے بیان کیا کے حق الطاعۃ مے مطابق قنقن ّاولی احتیاط ہے البتہ اس شرط کے ساتھ
کے مولی اس احتیاط کے خالف خود سے ترخیص نہ دے ،اگر مولی ترخیص دے گا تو
پھر احتیاط واجب نہیں ہوگا ۔
سوال :کیا احتیاط کے خالف مولی نے ترخیص دی ہے یا نہیں ؟
جواب :ہمیں ادلّہ شرعی سے پتہ چلتا ہے کے تکالیف مشکوکہ میں شارع نے خود
ترخیص دی ہے یعنی خود کہا ہے کے احتیاط واجب نہیں ہے پس اس اعتبارسے قاعدہ
ثانویہ برات ہوگا البتہ یہ برات شرعی ہوگی ۔
نکتہ :اگر برات پر دلیل عقلی ہو تو برات عقلی اور اگر دلیل شرعی ہو تو برات شرعی
ہوگی ۔
دالئل برات شرعی
پھلی دلیل:
یبوی مشھور ’’ رفع عن امتی ما ال یعلمون‘‘
یعنی میری امت سے اس تکلیف کو اٹھالیا گیا ہے جس کا انہیں علم نہ ہو ۔
یہ حدیث واضح ہے کے تکالیف مشکوکہ مرفوع (اٹھائی گئیں) ہیں ۔
دوسری دلیل:
’’و ما کنّا معذبین حت ّی نبعث رسوالً‘‘
یعنی ہم تب تک عذاب نہیں کرتے جب تک رسول نہ بھیج دیں ۔
تقریب استدالل:
اس ایت میں رسول مثال کے عنوان سے ہے یعنی ہم جب تک’’ ح ّجت تمام نہ کرلیں‘‘ یا
’’بیان‘‘ نہ بھیج دیں تب تک عذاب نہیں کرتے جبکہ ہمیں معلوم ہے کے تکالیف مشکوکہ
میں ’’بیان‘‘ نہیں ایا پس ان کی مخالفت پر عقاب نہیں ہوگا یعنی برات ذمہ ہے ۔
مشمولیت اصالیت البرات
اصالت برات میں شمولیت اور عموم پایا جاتا ہے اس نکتہ کی وضاحت سے پھلے چند
اصطالحات کی وضاحت ضروری ہے ۔
۱۔ شبھہ وجوبیہ :
اگر ہمیں شک ہو کے یہ چیز واجب ہے یا نہیں تو یہ ’’شبھہ وجوبیہ‘‘ کہالئے گا ۔
۲۔ شبھہ تحریمیہ :
اگر ہمیں شک ہو کے یہ چیز حرام ہے یا نہیں تو یہ ’’شبھہ تحریمیہ‘‘ کہالئے گا ۔
۳۔ شبھہ حکمیہ:
اگر ہمیں بذات خود حکم میں شک ہو تو یہ ’’شبھہ حکمیہ‘‘ کہالئے گا ۔
۴۔ شبھہ موضوعیہ:
اگر ہمیں اصل حکم کے بارے میں شک نہ ہو بلکہ شک ہو کے اس حکم کا موضوع
متحقق ہوا ہے یا نہیں ۔ مثالً ہمیں معلوم ہے کے حج مستطیع پر واجب ہے اصل حکم
معلوم ہے لیکن شک ہو رھا ہے کے مستطیع محقق ہوا ہے یا نہیں ؟
پس شبھہ حکمیہ میں اصل جعل شارع مشکوک ہوتا ہے لیکن
شبھی موضوعیہ میں حکم مجعول مشکوک ہے کیونکہ جیسا کے پھلے بیان ہوا کے جب
تک موضوع محرز نہیں ہوگا حکم فعلی نہیں ہوگا ۔
اشارۃ ً :شبھہ حکمیہ اسلئے پیش اتا ہے ہے یھاں بیان شارع واضح نہیں ہوتا لیکن شبھہ
موضوعیہ اسلئے پیش اتا ہے لے موضوع حکم کا تحقق یقینی نہیں ہوتا ۔
اصل بحث کی جانب بازگشت:
اصل برات شرعی مذکورہ تمام مورد میں جاری ہوگا چاھے شبھہ حکمیہ ہو یا شبھہ
موضوعیہ ہو یا شبھہ وجوبیہ ہو یا چاھے شبھہ تحریمیہ ہو ۔
ان البراۃ الشرعیۃ تجری مطلقا ً سواء کانت الشبھہ حکمی ًۃ او موضوعی ًۃ او وجوبی ًۃفتلخص ّ
او تحریمی ًۃ
اشارۃ ً ّ :
ان کان الشک فی الوجوب و عدمہ فالشبھۃ وجوبیۃ و ان کا الشک فی التحریم و
عدمہ فالشبھۃ تحریمیۃ و ان کا الشک فی اصل الجعل فاشبھۃ حکمیۃ و ان کان الشک فی
المجعول فالشبھۃ موضوعیۃ ۔
درس ۲۵
۳۔ قاعدۃ منجزیۃ العلم االجمالی
( )۱
یہ بحث بھی ایک طرح سے گذشتہ مباحث سے مربوط ہے ،اصولی حضرات اس بحث
کو ’’علم اجمالی‘‘کا نام دیتے ہیں یا اگر مصنف کے الفاظ میں کہا جائے تو ’’من ّجزیت علم
اجمالی‘‘ سے موسوم ہوگا ۔
اس بحث کو سمجھنے کیلئے مندرجہ ذیل معروضات پر توجہ کریں ۔
جب بھی کوئی مکلَّف کسی حکم شرعی سے مواجھہ ہوتا ہے تو تین حالتوں سے خالی
نہیں ہوگا :
۱۔ مکلَّف کو اس حکم شرعی کے بارے میں علم تفصیلی ہوگا ۔ مثالً مکلَّف کو علم
غیبت کے زمانے میں بھی خمس واجب ہے (یہ علم تفصیلی ح ّجت ہے) تفصیلی ہے کہ َ
اور مکلَّف کو خمس اداد کرنا ہوگا کیونکہ ہم بیان کرچکے ہیں کے علم اور قطع کی
حجیّت ذاتی ہے ۔
۲۔ مکلَّف کو اس حکم شرعی کے بارے میں شک ہو یعنی مکلَّف اصل جعل شارع کے
غیبت کے زمانے میں نماز عید واجب ک ہے ۔ مثالً مکلّف نہیں جانتا کے َ
بارے میں شا ّ
ہے یا نہیں ۔ اس طرح کے شک کو’’ شک بدوی ‘‘ کہتے ہیں ۔
کیونکہ یہ فقط شک ہے علم سے مقرون نہیں ہے ۔ ہم بیان کرچکے ہیں اس حالت میں
برات شرعی جاری ہوگییعنی قاعدہ ثانویہ کا مورد ہوگا ۔
۳۔ اس حالت میں گذشتہ دونوں حالتیں پائی جاتی ہیں یعنی ایک جھت سے علم بھی ہے
اور دوسری جھت سے شک بھی ہے ،اس لحاظ سے یہ تیسری صورت من جھۃ علم
تفصیلی ہے اور من جھۃ شک بدوی ہے اس حالت کو ’’علم اجمالی‘‘ کہتے ہیں ۔
مثالً :مکلَّف کو علم ہے کہ روز جمعہ زوال کے وقت ایک نماز اس کے ذمہ ہے وہ نماز
یا ظہر ہے یا جمعہ (یہ یقین ہے کے اس وقت ایک نماز اس کے ذمہ ہے نہ کے دونوں
نمازیں) لیکن یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ نماز ِظہر ہے یا نماز جمعہ ۔ اپ نے مالحظہ کیا
مکلَّف کو اس حلت میں من جھۃ علم ہے کیونکہ جانتا ہے اصل وجوب صالۃ اس کے ذمہ
ہے اور من جھۃ شک ہے کیونکہ نہیں جانتا وہ نماز کونسی ہے ظہر ہے یا جمعہ ۔
ہماری بحث اس تیسری حالت میں ہے کیونکہ پھلی حالت علم تفصیلی ہے جو کے ح ّجت
ہے بالشبھہ اور دوسری حالت شک بدوی والی حالت ہے جو کے قاعدہ ثانویہ کا مورد
ہے اور برات شرعی جاری ہوگی ۔
یہ تیسری حالت علم اجمالی والی ہے ۔ علم اجمالی میں جس جھت سے علم ہے اسے
’’علم بالجامع‘‘ کہیں گے ۔
علم اجمالی کو اگر بیان کیا جائے تو اس طرح کہیں گے یا نماز ظہر واجب ہے یا نماز
جمعہ واجب ہے ،مطلب ’’یا‘‘ ’’یا‘‘ کے ساتھ بیان کریں گے ۔
علم اجمالی میں شبھہ مصداقیہ کی مثال:
گذشتہ مثالوں میں ہم نے شبھہ حکمیہ کی مثالیں پیش کی ہیں ایک مثال علم اجمالی میں
ژبھہ مصداقیہ میں بھی ذکر کرتے ہیں ۔ مثالً :کسی کے سامنے دو گالس پانی کے
رکھے ہوئے ہیں اور اسے یقین ہو کے دونوں میں سے کسی ایک گالس میں خون کا
قطرہ گرا ہے لیکن اسے معلوم نہ ہو کے وہ گالس کونسا ہے تو اس صورت میں علم
اجمالی ہوگا کے کوئی ایک گالس تو نجس ہے لیکن یہ پتہ نہیں کے وہ کونسا ہے ۔
علم اجمالی کی حقیقت واضھ ہونے کے بعد اصل سوال یہ ہے:
علم اجمالی کیا شک بدوی کی طرح ہے یعنی اس کے اطراف میں برات شرعی جاری
ہوگی یا علم تفصیلی کی طرح ہے یعنی اس کے اطراف ح ّجت ہوں گے اور ہم احتیاط
کریں گے ۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہیں:
علم اجمالی کے اطراف میں برات جاری ہوگی یا نہ ؟ اسی سوال کا جواب یہ بحث ہے
’’من ّجزیّت علم اجمالی‘‘ ۔
ان العلم االجمالی علم من جھۃ و شک من جھۃ و ان شئت قلت ’’ العلم فتلخص الی ھنا ّ
االجمالی ھو الذی حق بالشبھات ‘‘ او فقل :العلم االجمالی ھو العلم بالجامع ۔
من ّجزیّت علم اجمالی
من ّجزیّت علم اجمالی میں دو حیثیّتیں پائی جاتی ہیں:
(الف) علم بالجامع (ب) علم اجمالی کے اطراف کے مطابق شک
(الف) علم بالجامع:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کے علم بالجامع ح ّجت ہے اور من ّجز ہے کیانکہ اصل جامع
کے علم ہونے میں تو کوئی شک نہیں ہے پس اس جھت سے ح ّجت اور من ّجز ہوگا کیونکہ
علم کی حجیّت ذاتی ہے لھذا علم اجمالی میں ہم دونوں طرفوں کو ترک نہیں کرسکتے
(مثالً گذشتہ مثال میں) ہم نہ نماز ظہر ادا کریں نہ ہی نماز جمعہ ادا کریں ،یہ صحیح
نہیں ہوگا کیونکہ دونوں نمازوں کو چھوڑ دینا یعنی اصل علم کی مخالفت کرنا ہے اسلئے
کہ اصل نماز کا تو باالخر علم پایا جاتا ہے ۔
نتیج ًۃ ’’ :ہم کہہ سکتے ہیں اس اعتبار سے علم تفصیلی اور علم ِاجمالی میں کوئی فرق
نہیں ہوگا‘‘ ۔
نکتہ:
علم اجمالی کے تمام اطراف کی مخالفت کو ’’مخالفت قطعیہ‘‘ کہتے ہیں
اور تمام اطراف کی موافقت کو ’’موافقت قطعیہ‘‘ کہتے ہیں
اور بعض اطراف کی مخالفت اور بعض اطراف کی موافقت کو ’’مخالفت احتمالیہ اور
موافقت احتمالیہ‘‘ کہتے ہیں ۔
مثالً :گذشتہ مورد میں اگر دونوں نمازیں ترک کرے تو ’’مخالفت قطعیہ‘‘ ہوگی اور اگر
دونوں نمازیں ادا کرے تو ’’موافقت قطعیہ‘‘ ہوگی اور اگر ایک نماز چھوڑ دے اور ایک
نماز ادا کرے تو ’’مخالفت احتمالیہ اور موافقت احتمالیہ‘‘ ہوگی ۔
(ب) علم اجمالی کے اطراف کے مطابق شک:
علم اجمالی کے اطراف کے مطابق جو شک پایا جاتا ہے وہ شک ِبدوی کی طرح نہیں ہے
یعنی اطراف علم اجمالی میں ہم قاعدہ ثانویہ یعنی برات جاری نہیں کرسکتے کیونکہ اس
کی دو صورتیں ہیں:
پھلی صورت:
ہم اس بات کے قائل ہوجائیں کے تمام اطراف علم اجمالی میں برات جاری کریں کیونکہ
اگر فقط نماز ظہر کو دیکھیں تو وہ مشکوک ہے لھذا برات جاری کریں اور اسی طرح
فقط نماز جمعہ کو دیکھیں تو وہ بھی مشکوک ہے لھذا یہاں بھی برات جاری کریں ۔
نتیج ًۃ تمام اطراف علم اجمالی میں برات جاری ہوجائے گی لیکن اس بات کو مشھور
اصولی نہیں مانتے کیونکہ علم اجمالی کے تمام اطراف میں اگر برات جارئ کی جائے
گی تو مخالفت قطعیہ الزم ائے گیاور ہم پہلی حیثیت میں بیان کرچکے ہیں کے علم اجمالی
’’علم بالجامع‘‘ کے لحاظ سے علم تفصیلی کی طرح ہے ،جیسے شارع علم تفصیلی کے
خالف ترخیص اور اجازت نہیں دے سکتا اسی طرح علم اجمالی میں بھی مخالفت قطعیہ
کے بارے میں بھی ترخیص اور اجازت نہیں دے سکتا پس تمام اطراف علم اجمالی میں
برات جاری نہیں ہوسکتی ۔
دوسری صورت:
ہم تمام اطراف میں برات جاری نہیں کرتے ورنہ مخالفت قطعیہ ہوگی لیکن بعض اطراف
میں تو برات جاری کرسکتے ہیں ۔ مثالً :نماز ظہر کو چھوڑ دیں فقط نماز جمعہ ادا کریں
۔
اس صورت میں مخالفت قطعیہ تو الزم نہیں ائے گی لیکن ایک اور مشکل ہے وہ مشکل
یہ ہے کے اس صورت میں ترجیح بال مرجح الزم ائے گی جو کے یا محال ہے یا ح ِدّ اقل
لغو اور عبث ہے کیونکہ جب اپ کسی بھی ایک طرف میں برات جاری کریں گے تو اپ
سے سوال ہوگا کہ کس طرف میں برات جاری کریں گے ؟ اگر اپ کہیں مثالً ’’الف‘‘ میں
تو ہم کہیں گے ’’ب‘‘ میں جاری کیوں نہیں کی ؟
اور اگر اپ کہیں مثالً ’’ب‘‘ میں برات جاری کی ہے تو ہم کہیں گے ’’الف‘‘ میں جاری
کیوں نہیں کی ؟
اسی طرح کسی بھی ایک طرف میں برات جاری کرنے سے ترجیح بال مرجح الزم ائے
گی ،پس دوسری صورت میں بھی غیر گعقول ہوئی لھذا علم اجمالی کے اطراف میں
برات جاری نہیں ہوسکے گی اور موافقت قطعیہ واجب ہوجائے گی ،اب جبکہ اطراف
علم اجمالی میں برات جاری کرنا جائز نہیں تو احتیاط کرنا الزم ہوگی اور اسی کو کہتے
ہیں ’’علم اجمالی من ّجز‘‘ہے ۔
ان الشک البدوی یکون موردا ً لجریان البراۃ الشرعیۃ و ا ّما الشک المقرون بالعلم فتلخص ّ
االجمالی فال یکون مشموالً للقاعدۃ الثانویۃ ای البراۃ الشرعیۃ بس مشموالً للقاعدۃ االساسیۃ
االولیۃ ای االحتیاط و االشتغال دفعا ً للمخالفۃ القاطعیۃ و الترجیح بال مرجح ۔ اذن یجب علی
المکلَّف االتیان بجمیع اطراف العلم االجمالی ای الموافقۃ القطعیۃ ۔
درس ۲۶
۳۔ قاعدۃ منجزیّۃ العلم اإلجمالی
( )۲
انحالل العلم اإلجمالی
کبھی کبھار علم اجمالی منحل ہوجاتا ہے یعنی علم اجمالی ختم ہوجاتا ہے اور اس کی جگہ
پر علم تفصیلی اور شک بدوی پیدا ہوجاتا ہے ۔
اس انحالل کے مختلف طریقے ہیں کبھی انحالل حقیقی ہے کبھی انحالل حکمی ہے اور
کبھی انحالل تعبدی ہے ،ہم یہاں صرف ایک سادہ سی شکل کو ذکر کرتے ہیں باقی
اصلی اور پیچیدہ اقسام حلقہ ثانی اور ثالث میں بیان ہوں گے ۔
بیان ذالک:
مثالً کسی شخص کے سامنے دو گالس پانی کے موجود ہیں دونوں پانی سے پُر ہیں اس
شخص کو یقین ے کے دونوں میں سے ایک نجس ہے لیکن یہ نہیں جانتا کے کون سا
نجس ہے پس یہاں ایک علم بالجامع اور اطراف مشکوکہ پئے جاتے ہیں ۔
منجزیت علم اجمالی کے مطابق دونوں اطراف میں احتیاط عقلی جاری ہوگا نتیج ًۃ اس
دونوں گالسوں کے پانی کو استعمال نہیں کرسکتے نہ پینے کیلئے اور نہ ہی وضو کرنے
کیلئے مثالً ۔
لیکن اس صورت میں اگر مکلّف کو علم حاصل ہوجائے کے یہ گالس نجس ہے ی دو عادل
شاھد گواھی دیں کے یہ گالس نجس ہے تو اب ایک علم تفصیلی اور شک بدوی پیدا
ہوجائے گا کہ کیا نجس ہے یا نہیں ؟
خالص ًۃ :علم اجمالی ختم ہوگیا اور اس کی جگہ علم تفصیلی اور شک بدوی نے لے لی اس
کو ’’انحالل علم اجمالی‘‘ کہتے ہیں واضح ہے کہ :علم تفصیلی ح ّجت اور من ّجز ہوگا اور
شک بدوی میں برات جاری کریں گے ۔
مصنّف نے اسی قول کو پسند کیا ہے اور یہی ان کا مختار ہے (تفصیلی مطالب حلقہ ائندہ
میں بیان ہوں گے) ۔
ذرا سی تفصیل:
مذکورہ مطالب کو تھوڑی سی تفصیل سے بیان کرتے ہیں ۔
علم اجمالی میں اطراف مشکوکہ یا متباین چیزیں ہیں یا اق ّل و اکثر ہیں اور اگر اطراف
مشکوکہ کے اق ّل و اکثر ہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں:
۱۔ یا اقل و اکثر ارتباطی ہیں ۲۔ یا اقل و اکثر استقاللی ہیں
بیان ذالک:
۱۔ دَوران بین المتباینین :
ہمیں ایک جامع کا علم ہے لیکن اطراف مشکوکہ ہیں البتہ دونوں طرف مستقل و جداگانہ
چیزیں ہیں ۔ مثالً :مجھے یقین ہے کے میرے ذمہ پر ایک چیز واجب ہے لیکن نہیں
معلوم وہ کیا ہے ؟ یا قضاء نماز واجب ہے یا روزا واجب ہے ۔
اس مورد میں اطراف علم اجمالی مستقل اور جدا جدا ہیں اسے کہتے ہیں ’’دَوران بین
المتباینین‘‘۔
۲۔ دَوران بین اق ّل و اکثر استقاللی :
مجھے معلوم ہے کے میرے ذمہ کچھہ واجبات ہیں اور وہ واجبات بھی مستقل ہیں یعنی
علیحدہ علیحدہ ہیں لیکن اس بات میں شک ہے کے وہ دس واجبات ہیں یا نو واجبات ہیں
اسے کہتے ہیں ’’اق ّل و اکثر استقاللی‘‘۔
۳۔ دَوران بین اق ّل و اکثر ارتبطی :
مجھے معلوم ہے کے کوئی چیز میرے ذمہ ہے لیکن اس کے اجزاء کتنے ہیں یہ مشکوک
ہے ۔ شاید وہ واجب دس اجزاء پر مشتمل ہے یا تو نو اجزاء پر مشتمل ہے چنانچہ اپ
مالحظہ فرما رھے ہیں کے یہ اجزاء اپس میں مرتبط ہیں ،یہ اجزاء مل کر ایک واجب
مرکب کو تشکیل دے رھے ہیں اس کو کہتے ہیں ’’اق ّل و اکثر ارتباطی‘‘ ۔
اور ھماری بحچ بھی اسی مورد میں تھی کیونکہ اقل و اکثر استقاللی میں تمام اصولی قائل
ہیں کے علم اجمالی منحل ہوجاتا ہے ۔ علم تفصیلی اور شک بدوی کی جانب لیکن اقل و
اکثر ارتباطی میں اختالف ہے جیسا کے بیان ہوا ہے اس مورد میں دو قول ہیں ۔
شھید صدر یہاں پر بھی قائل ہیں کے علم اجمالی منحل ہوجاتا ہے ۔
ان الشک االبتدائی مجری للقاعدۃ العملیۃ الثانویۃ ای البراۃ الشرعیۃ و ّ
ان الشک فتلخص ّ :
الناتج عن العلم االجمالی مجری للقاعدۃ العملیۃ االساسیۃ ای االحتیاط و لکن ھناک بعض
الصور الّتی یخفی فیھا نوع الشک فال یعلم اھو شک بدوی او شک مقرون بالعلم االجمالی
و منھا :دَوران االمر بین االقل و االکثر االرتباطین ۔
درس ۲۷
۴۔ قاعدۃ االستصحاب
علم اصول میں ’’استصحاب‘‘ ایک نھایت ہی اہم بحث ہے کیونکہ اصول عملیہ میں سے یہ
’’اصل‘‘ بھت زیادہ استنباط حکم شرعی میں کارگر ہے لھذا اصولیوں نے اس کے بارے
صل مناحث رحریر کئے ہیں ۔ ہم حلقہ اولی کی ظرفیت کو مد نظر رکھتے ہوئے میں مف ّ
صرف ابتدائی مباحث کو بیان کریں گے تفاصیل ان شاء ہللا حلقات ائندہ میں بیان ہوں گی ۔
تعریف استصحاب:
’’ابقاء ما کان ‘‘ یعنی ’’جو چیز تھی اسے ہی باقی رکھنا ‘‘
استصحاب کی جامع تعریف یھی ہے جو ہم نے ذکر کی ہے اس کی وضاحت کیلئے
مندرجہ ذیل مثالوں پر توجہ کرین ۔
فرض کیجئے مجھے یقین ہے کے نماز جمعہ ائمہ کے زمانے میں واجب تھی لیکن اب
شک ہو رھا ہے کے کیا یہ نماز َ
غیبت کے زمانے میں بھی واجب ہے یا نہیں ہے ؟ تو
اس جگہ پر ہم اسی حکم کو باقی رکھیں گے جس کے بارے میں یقین تھا یعنی اب بھی
واجب ہے ۔
یا دوسری مثال:
مجھے یقین تھا کے پیش نماز پھلے تو عادل تھا لیکن اب شک ہو رھا ہے کے کہیں یہ
فاسق تو نہیں ہوگیا تو یہاں پر بھی اسی یقینی حکم کو باقی رکھیں گے یعنی ہم سمجھیں
گے کے اب بھی عادل ہے ۔
مذکورہ دونوں مثالوں میں توجہ کریں تو معلوم ہوگا کہ:
ہمیں ایک حکم (وجوب نماز جمعہ) یا مصداق (عدالت پیش نماز) کے بارے میں یقین تھا
اور بعد میں شک ہوتا ہے کے کہیں وہ حکم یا مصداق ختم تو نہیں ہوگیا ۔ اس حالت میں
ھماری ذمیداری ہے کے یقین سابق کے حکم کے مطابق ہی عمل کریں یعنی اب بھی
عاس حکم کو باقی رکھیں یا موضوع کو ویسا ہی سمجھیں مثالً اب بھی پیش نماز عادل
سمجھیں ۔
سوال :اگر پھلے یقین کے بعد شک ہوگیا تو یقین خود بخود ختم ہوجائے گا یقین سابق کو
باقی رکھنا تو ھمارے اختیار میں ہی نہیں کیونکہ یقین اور شک جمع نہیں ہوسکتے تو اس
صورت میں یقین سابق کو باقی رکھنا کیوں کر ممکن ہوگا ؟
جواب :یہ بات بلکل درست ہے کے یقین سابق کو حقیق ًۃ باقی رکھنا ہمارے اختیار میں
نہیں ہے جب شک ائے گا تو بیشک یقین چال جائے گا لیکن استصحاب میں ہم یہ نہیں
کہتے کے اپ یقین سابق کو حقیق ًۃ باقی رکھیں بلکہ اب بھی یقین سابق کے مطابق عمل
کریں و لو این کہ اب یقین باقی نہیں رھا حقیق ًۃ لیکن اپ اس کے ساتھ یقین واال معاملہ
کریں گویا کے اپ کو یقین ہے ۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے گا:
جب اپ کو یقین تھا تو اپ کیا کرتے تھے مثالً نماز پڑھتے تھے یا پیش نماز کی اقتداء
کرتے تھے اب جبکہ اپ کو شک ہوا کے نماز شاید واجب نہ ہو یا پیش نماز شاید عادل نہ
رھا ہو تو اب بھی وھی یقین سابق واال رویہ اختیار کریں یعنی نماز کو واجب سمجھیں
اور پڑھیں یا پیش نماز کو عادل سمجھیں اور اس کی اقتداء کریں ۔
خالصہ کالم یہ کہ:
استصحاب میں جو یہ کہا جاتا ہے یقین سابق کو باقی رکھیں یعنی نہ کہ حقیق ًۃ باقی رکھیں
بلکہ التزام عملی رکھیں عمالً ،ویسا ہی سمجھیں جیسا تھا اور یھی معنی ہے ’’ابقاء ما
کان‘‘ کا جو تھا اب بھی ویسا ہی ہے عمالً نہ کہ حقیق ًۃ اور وجدانا ً ۔
ادلّہ استصحاب
استصحاب کے بارے میں کیا دلیل ہے ؟
علماء نے مختلف دالئل پیش کئے ہیں ،مصنف یہاں صرف ایک دلیل کی جانب اشارہ
کرتے ہیں ۔
زرارہ امام صادق سے نقل کرتا ہے کے اپ نے فرمایا:
’’ال ینقض الیقین بالشک‘‘ یعنی ’’یقین کو شک سے نہ توڑو‘‘ ۔
مطلب :التزام عملی کے اعتبار سے اگر یقین کے بعد شک ہوجائے تو اس شک کی
اعتناء نہ کرو اس شک کی پرواہ نہ کرو ۔
استصحاب اور برات میں فرق
اصالۃ برات وھاں جاری کرتے ہیں جھاں شک بدوی ہو یعنی حالت سابقہ نہ ہو ،پھلے
یقین نہ ہو بلکہ ابتداء ہی شک ہو تو اسے ’’شک بدوی‘‘ کہتے ہیں لیکن استصحاب میں جو
شک ہے اس کی حالت سابقہ ہے اس حالت میں پھلے یقین تھا پھر شک ہوا ۔
خالصہ :
برات میں حالت سابقہ متیقینہ نہیں ہوتی اور استصحاب میں حالت سابقہ متیقینہ ہوا کرتی
ہے ۔
ان االستصحاب ھو حکم الشارع علی المکلَّف بااللتزام عملیا ً بک ّل شئ کان علی
فتلخص ّ :
الیقین منہ ثم منک فی بقائہ ،و الدلیل علیہ ھو قول الصادق فی صحیحۃ زرارۃ ’’و ال تنقض
الیقین بالشک‘‘ ای من الناحیہ العملیۃ منہ انکشف فرق االستصحاب عن اصلۃ البراۃ ّ
فان
اصلۃ البرات لیست لہ حالۃ سابقۃ بخالف االستصحاب فان الشک الالحق یکون مسبوقا ً
بیقین سابق ۔
ارکان استصحاب (الحالۃ السابقۃ المتیقنۃ)
گذشتہ بیان میں استصحاب کی تعریف اور دلیل کی جانب اشارہ ہوا ،اب استصحاب کے
اسکان کو ذکر کرتے ہیں ۔
استصحاب کے بنیادی طور پر تین رکن ہیں یعنی استصحاب تین چیزوں سے متقدم ہوتا
ہے:
۱۔ یقین سابق یعنی حالت سابقہ متیقنہ
۲۔ شک الحق یعنی حالت سابقہ کی بقاء میں شک
۳۔ وحدہ الموضوع یعنی جس چیز کے بارے میں یقین تھا اسی چیز کی بقاء میں شک ہو ۔
دوسرے الفاظ میں ’’قضیہ متیقنہ اور مشکوکہ واحد ہو (ایک ہی ہو) ‘‘۔
رکن ّاول ’’ :حالت سابقہ متیقنہ‘‘
حالت سابقہ جس کے بارے میں ہمیں یقین ہے ،دو حالتوں سے خارج نہیں ہے ۔
یا تو وہ چیز حکم ہے جس کے بارے میں ہمیں یقین تھا یا اشیاء تکوینی اور خارجی ہیں
جس کے بارے میں ہمیں یقین تھا ہماری دونوں مثالوں کو ذرا پھر سے پڑھیں ۔ ایک
مرتبہ مجھے شارع کے حکم کے بارے میں یقین تھا (وجوب نماز جمعہ) اور دوسری
مرتبہ حکم شارع کی بات نہیں بلکہ خارجی چیز کی بات ہے (عدالت پیش نماز)
اگر حالت سابقہ کا تعلق حکم شارع کے ساتھ ہو تو اسے ’’شبھہ حکمیہ‘‘ کہیں گے کیونکہ
اصل جعل شارع میں شک الحق ہوا ہے
اور اگر حالت سابقہ کا تعلق خارجی چیز ہو جو موضوع قرار پائی ہے اسے ’’شبھہ
موضوعیہ‘‘ کہیں گے ۔
اب یہاں پو سوال اٹھتا ہے استصحاب شبھہ حکمیہ میں جاری ہوگا یا شبھی موضوعیہ میں
جاری ہوگا یا دونوں میں جاری ہوگا ۔
اس مقام پر اصولیوں میں اختالف ہے ۔
قول ّاول:
بعض کا ماننا ہے استصحاب فقط شبھہ موضوعیہ میں جاری ہوگا ۔
دلیل :
اس مطلب کی دلیل بھی یہ ہے کے استصحاب کی حجیّت پر دلیل میں صحیحہ زرارہ کو
ذکر کیا گیا ہے اور اپ غور کریں تو پتہ چلے گا یہ روایت ’’شبھہ موضوعیہ‘‘ کے بارے
میں ہے کیونکہ روایت وضو کے بیان میں ہے ،موضوع حکم میں شک ہوا تھا امام نے
اس کے جواب میں فرمایا ’’التنقض الیقین بالشک‘‘ اب جبکہ استصحاب کی دلیل شبھہ
موضوعیہ کے مورد میں وارد ہوئی ہے تو استصحاب کی حجیّت بھی شبھہ موضوعیہ
سے مختص ہوگی ۔
دوم:
قول ّ
استصحاب مطلقا ً حجت ہے چاھے شبھہ حکمیہ ہو یا چاھے شبھہ موضوعیہ ہو ۔ شھید
صدر کا مختار بھی یھی ہے ۔
دلیل:
یہ بات درست ہے کے صحیحہ زرارہ ’’شبھہ موضوعیہ‘‘ کے بارے میں وارد ہوئی ہے
لیکن مورد کبھی بھی تخصیص نہیں لگاتا یعنی مورد تو خاص ہے شبھہ موضوعیہ سے
لیکن ’’ال تنقض الیقین بالشک‘‘ ’’مطلق‘‘ ہے چاھے وہ یقین حکم کے بارے میں ہو یو
موضوع خارجی کے بارے میں ہو ’’ای زرارہ تم یقین کو شک سے نہ توڑنا‘‘ پس اطالق
روایت سے ثابت ہوا استصحاب ح ّجت ہے مطلقا ً چاھے شبھہ حکمیہ ہو یا شبھہ موضوعیہ
ہو۔
ان الحالۃ السابقۃ قد تکون حکما ً شرعیا ً و قد تکون موضوعا ً بالحکم الشرعی ،یقالفتلخص ّ
االول شبھۃ حکمیۃ و علی الثانی شبھۃ موضوعا ً و یجری االستصحاب مطلق ٍا سواء علی ّ
ان الروایۃ واردۃ فی الشبھۃکانت الشبھۃ حکمیۃ او موضوعیۃ الطالق الدلیل ۔ ال یقال ّ :
صص الوارد ۔ الموضوعیۃ النّا یقول ّ :
ان الموارد ال یخ ّ
رکن الثانی :شک فی البقاء
یہ دوسرا رکن بھی استصحاب میں نھایت ہی اھمیت کا حامل ہے ۔ علماء اصول ’’شک فی
البقاء‘‘ کو دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں ۔
۱۔ شک فی الرافع:
ایک مرتبہ وہ چیز جو سابقا ً متیقن تھی ایسی چیز ہے کو ذاتا ً بقاء کی قابلیت رکھتی ہے
لیکن خارجی مایع ااکر اسے ختم کر دیتا ہے ۔ مثالً ’’ :طھارت ماء‘‘ ذاتا ً اس میں بقاء کی
صالحیت ہے یعنی اگر کوئی خارجی مایع نہ ائے تو پانی اپنی طھارت پر باقی رھے گا ،
ھاں کبھی کبھار کوئی نجاست کا قطرہ اکر پانی میں گر جاتا ہے اور اسے نجس کردیتا
ہے لیکن توجہ کریں یہ نجاست کا قطرہ ایک خارجی مانع ہے جو اس کی طھارت ختم
کردیتا ہے اورنہ اگر یہ نہ ہوتا تو پانی اپنی طھارت پر باقی رھتا ۔
خالصہ:
اگر شئ متیقن ایسی ہو جس میں بذات خود بقاء کی صالحیت ہو اور مانع خارجی کی وجہ
سے ختم ہوجائے تو اسے ’’مقتضی اور مانع‘‘ کہتے ہیں ۔ وہ چیز جو ذاتا ً صالحیت بقاء
رکھتی ہے اسے ’’مقتضی‘‘ کہتے ہیں اور خارجی چیز جو اسے ختم کردے اسے ’’ماعن‘‘
کہتے ہیں ۔
اب اگر شئ متیقنہ ’’مقتضی‘‘ کے باب سے ہو اور مشکوک ’’مانع‘‘ کے باب سے ہو تو
اسے ’’شک فی المانع‘‘ کہا جائے گا یا ’’شک فی الرافع‘‘ کہا جائے گا ۔
: ۲۔الشک فی المقتضی
دوسری مرتبہ وہ چیز جو متیقب سابق ہے بذات خود اس کی صالحیت ہی مشکوک ہے ۔
کیا یہ چیز باقی رہ سکتی ہے یا نہیں ؟
(توجہ کریں) یہاں پر مانع خارجی کی بات نہیں ہے بلکہ اصل شئ کی صالحیت ہے جو
کہ مشکوک ہے ،باقی رہ سکتی ہے یا نہیں ؟
مثالً :نھار شھر رمضان (رمضان کے مھینہ کا دن) بذات خود نھار(دن) ایسی چیز ہے
جو ایک حدّ تک باقی ہر سکتی ہے لیکن جیسے ہی سورج غروب کرے گا نھار(دن) بھی
ختم ہوجائے گا ۔
اب اگر نھار شھر رمضان میں شک ہو یعنی ہمیں پتہ نہ چلے دن ڈھل چکا ہے یا نہیں ؟
تو یہاں پر اس چیز کی اصل صالحیت میں شک ہورھا ہے ۔ (توجہ کریں)
مانع خرجی کی بات نہیں ہے اصل اس شئ کی صالحیت مورد سوال ہے ،اب اگر متیقن
سابق اس قبیل سے ہو تو اسے ’’شک فی المقتضی‘‘ کہا جائے گا یعنی اصل مقتضی میں
شک ہے ۔
جب یہ بات واضح ہوچکی تو سوال اٹھتا ہے کہ:
استصحاب شک فی المانع کی صورت میں جاری ہوگا یا شک فی المقتضی کی صورت
میں جاری ہوگا یا دونوں صورتوں میں جاری ہوگا ۔
اصولیوں کے دو قول ہیں:
بعض اصولی کہتے ہیں اگر ’’شک فی المقتضی‘‘ ہو تو استصحاب جاری نہیں ہوگا فقط
’’شک فی المانع‘‘ کی صورت میں جاری ہوگا ۔
شھید صدر فرماتے ہیں دونوں صورتوں میں استصحاب جاری ہوگا کیونکہ روایت مطلق
ہے ’’ال تنقض الیقین بالشک‘‘ یہاں پر ’’الشک‘‘ مطلق ہے ۔ چاھے شک فی المقتضی ہو یا
شک فی المانع ہو ۔
ان الحالۃ السابقۃ قد تکون فی نفسھا قابلۃ لالمتداد زمانیا ً ّاال اذا وجد مانع یرفع
فتلخص ّ :
وجودھا ،یس ّمی انذاک الشک شکا ً فی المانع و قد ال تکون قبل ًۃ لالمتداد الزمانی و انّما لھا
امتداد زمانی الی حدّ معیّن ثم تنتھی بنفسھا بال احتیاج الی وجود مانع و عامل خارجی یس ّمی
انذاک الشک شکا ً فی المقتضی و االستصحاب یجری فی کال الموردین الطاق الروایۃ ۔
رکن الثالث :وحدۃ الموضوع
استصحاب میں یہ تیسرا رکن ہے جسے ’’وحدۃ القضیۃ المتیقنۃ و المشکوکۃ‘‘ بھی کہتے
ہیں ۔اس رکن سے مراد یہ ہے کلہ جس چیز کے ساتھ یقین کا تعلق تھا اسے چیز سے ہی
شک کا تعلق بھی ہو کیونکہ اگر متعلق یقین ایک چیز ہو اور مشکوک کوئی اور چیز ہو
تو استصحاب کا جاری ہونا ایک غیر معقول بات ہوجائے گی ۔
مثالً :کسی شخص کو ’’نجاست ماء‘‘ کا یقین ہو پھر وہ پانی بخار بن جائے اور بخار اس
کے ھاتھوں کو لگ جائے تو ھاتھ نجس نہیں ہوں گے اسلئے کے ماء اور پانی کے بارے
میں یقین تھا اور اب بخار کے بارے میں شک ہو رھا ہے کے یہ بھی نجس ہے یا نہیں تو
یاں پر استصھاب جاری نہیں ہوگا کیونکہ موضوع یقین اور شک تبدیل ہے ۔ موضوع یقین
’’ماء‘‘ تھا جبکہ موضوع شک ’’بخار‘‘ ہے ۔
و بنھایۃ الرکن الثالث ینتھی الکالم فی االستصحاب و بحول ہللا و قوتہ قد ت ّم البحث فی النوع
الثانی من العناصر المشترکہ و لہ الحمد و لہ الشکر ۔
درس ۲۸
( )۱
التعارض بین االدلۃ المحرزۃ
الحمد ہلل عناصر مشترکہ کے بارے میں مباحث ختم ہوئے لیکن ممکم ہے کہ کسی جگہ
مذکورہ عناصر میں تعارض اور ٹکرائو واقع ہو تو اس صورت میں ایک فقیہ کو کیا کرنا
چاھئے ؟ لھذا اس مقام پر تعارض ادلّہ کے مختصر قواعد بیان کئے جاتے ہیں ۔ اس میں
کویئ شک نہیں ہے کہ تعارض کی بحث بھت ہی زیادہ اھمیت کی حامل اور مقام استنباط
میں سب سے زیادہ کام انے والی بحث ہے لھذا اس بحث کو نھایت توجہ اور دقت سے
پڑھا جائے ۔
تعریف تعارض:
تعارض یعنی دو دلیلوں کے مدلولوں کے مابین ٹکرائو ہو جائے ۔
مدلول یعنی وہ حکم جس پر دلیل داللت کرتی ہے ۔
(مذکورہ تعریف پر غور کریں)
ّاوالً :تعارض دو دلیلوں کے درمیان ہوتا ہے یعنی اگر تعارض نہ ہوتا تو وہ دالئل اپنے
مقام پر ح ّجت ہوتے ہیں ،کبھی کبھار تعارض ان دلیلوں میں نہیں ہوگا جن میں شرائط
حجیّت نہ ہوں ۔ تعارض کیلئے ضروری ہے دونوں دلیل شرائط حجیّت کے حامل ہوں (یہ
نکتہ بھت ہی مہم ہے اگرچہ مصنف نے اس مقام پر اس کی طرف اشارہ نہیں کیا) ۔
ثانیا ً :دو دلیلوں میں ٹکرائو مدلول کے مقام میں ہو یعنی دونوں دلیل جس حکم پر داللت
کرتے ہیں وہ اپس میں ٹکراتے ہوں ۔ مثالً :ایک دلیل میں ہو نماز جمعہ َغیبت کے زمانے
میں واجب ہے اور دوسری دلیلل میں ہو نماز جمعہ َغیبت کے زمانے میں حرام ہے ،اب
ان دو دلیلوں میں تعارض ہوگیا ۔
دوسرے الفاظ میں کہا جائے :تعارض مقام جعل حکم میں ہوتا ہے یعنی شارع نے جو
احکام جعل کئے ہیں بظاھر جعل کی صورت میں لگتا ہے ان میں ٹکرائو پایا جاتا ہے ۔
اشارۃ عابدۃ :
تعارض کا تعلق مرحلہ انشاء ِحکم میں سے ہے جبکہ تعارض کے مقابلے میں تزاحم ہے
جھاں پہ احکام میں ٹکرائو ہوتا ہے لیکن مرحلہ مجعول میں یعنی تزاحم مقام فعلیت میں
ہوتا ہے ۔ تفصیل ذالک فی محلّہ
خالصہ کالم یہ کہ :تعارض جعل احکام میں موجود ٹکرائو کو کہا جاتا ہے ۔
اقسام تعارض :تعارض کلی اعتبار سے تین طریقے سے ہوسکتا ہے
پھلی قسم:
دو محرز دلیلوں کے درمیان تعارض ہو جسے دلیل شرعی لفظی اور دلیل عقلی کے مابین
تعارض ۔
دوسری قسم:
دو اصل عملی کے مابین تعارض ہو جیسے استصحاب اور برات کے مابین ۔
تیسری قسم:
دلیل محرز اور اصل عملی کے مابین تعارض ہو جیسے خبر ثقہ اور برات کے مابین ۔
تقسیم االولی :ادلّہ محرزہ کے مابین تعارض
ہم گذشتہ مباحث میں بیان کرچکے ہیں کہ دلیل محرز یا دلیل شرعی ہے یا دلیل عقلی اور
پھر دلیل شرعی یا دلیل شرعی لفظی ہے یا غیر لفظی ۔
لفظی شرعی
غیر لفظی دلیل
قطعی عقلی
ظنی
یہاں سے معلوم ہوا کے ادلّہ محرزہ میں تعارض مختلف طریقوں سے ہوسکتا ہے ۔
اقسام تعارض ادلّہ محرزہ:
ادلّہ محرزہ کے مابین تعارض تین قسموں کی صورت میں ہوتا ہے ۔
ّاوالً :
دو دلیل شرعی لفظی کے مابین تعارض ۔ مثالً :ایک دلیل معصوم سے صادر ہو جو کسی
فعل کے وجوب پر داللت کرے اور دوسری دلیل بھی معصوم سے صادر ہو جو اسی فعل
کی حرمت پر داللت کرے ۔
ثانیا ً:
دلیل شرعی لفظی اور دلیل ِعقلی کے مابین تعارض ہو ۔
ثالثا ً:
دو دلیل عقلی میں تعارض ہو ۔
ّاوالً :دو دلیل شرعی لفظی کے مابین تعارض
اس قسم کے قواعد بیان کرنے سے پھلے ایک مطلب کی یاد دھانی ضروری ہے ۔
نص ہے (یعنی غیر کا احتمالہی نہیں)
جو لفظ شارع سے صادر ہوتا ہے یا اپنی معنی میں ّ
یا ظاھر ہے (غیر کا احتمال تو ہے لیکن احتمال ضعیف ہے) یا مجمل ہے (یعنی دونوں
احتمال برابر برابر ہیں)
تنبیھ:
(نص ،ظاھر ،مجمل) کا لحاظ کیا جائے تو ’’داللت‘‘ کہیں گے اور اگر ّ ان تینوں قسموں
جعل کی جانب دیکھیں تو ’’مدلول‘‘ کہیں گے اور اگر لفظ کو دیکھا جائے تو ’’دلیل‘‘ کہیں
گے ۔
ایقاظ:
مصنف نے ’’قسم ّاول‘‘ میں دو دلیل شرعی لفظی کے مابین تعارض کا تذکرہ کیا ہے اقر
قسم ثانی اور ثالث کو ’’ حاالت التعارض االخری‘‘ کے عنوان میں مندمج کردیا ہے ۔
قواعد قسم ّاول :تعارض دو دلیل شرعی لفظی
القاعدۃ االولی :
نص کے درمیان تعارض محال ہے ۔
دو صریح ّ
سنَد کے اعتبار سے قطعی ہو(مثالً :ایت قران ہو یااگر ایک دلیل شارع سے وارد ہو جو َ
نص ہو یعنی صریح ہو اس کے بعد ایک خبر متواتر ہو) اور داللت کے اعتبار سے بھی ّ
اور دلیل شارع سے وارد ہو وہ بھی سند کے اعتبار سے قطعی ہو اور نیز داللت میں بھی
نص ہو پھر ایسی دونوں دلیلیں اپس میں ٹکرائیں ان میں تعارض ہو ۔ مثالً :ایک دلیل میں
ّ
فالں فعل واجب ہے اور دوسری دلیل میں وھی فعل حرام ہے تو یہاں پر دو دلیل ِشرعی
سنَدا ً و دالل ًۃ متعارض ہوں گی لیکن ایسا تعارض ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کا قطعی َ
مقصد یہ ہوگا شارع متناقض کر رھا ہے اور یہ محال ہے ۔
خالصہ یہ کہ:
کبھی بھی ایسی دو دلیلوں کے درمیان تعارض نہیں ہوسکتا جو دونوں دلیل شرعی لفظی
سنَد کے لحاظ سے بھی اور داللت کے لحاظ سے بھی قطعی ہوں ۔َ
القاعدۃ الثانیۃ :
نص اور دلیل کے مابین تعارض ۔
ّ
نص ہو
تعارض کی یہ صورت ممکن ہے یعنی ایک دلیل ِشرعی لفظی اپنے مدلول میں ّ
یعنی صریح ہو(مثالً :دلیل میں ہو ’’یجوز للصائم ان یرتمس فی الماء و ھو صائم‘‘ روزہ
میں صائم کیلئے جائز ہے وہ پانی میں غوطہ لگائے ۔ مالحظہ کریں ’’یجوز‘‘ جواز میں
نص ہے) صریح ہے ّ
پھر دوسری دلیل وارد ہو جو پھلی دلیل کے مدلول کے برخالف ہو لیکن دوسری دلیل
اپنے مدلول میں ظھور لکھتی ہو نہ کہ صریح ہو(مثالً :شارع کہے ’’ال ترتمس فی الماء و
انت صائم‘‘ روزہ کی حالت میں غوطہ نہ لگائو ۔مالحظہ کریں یہ دلیل ظھور رکھتی ہے
کہ صائم کیلئے ارتماس جائز نہیں یہ دلیل صریح نہیں ہے عدم جواز میں کیونکہ ’’ال
ترتمس‘‘ صیغہ نھی ہے ۔ ہم پھلے بیان کرچکے ہیں کے صیغہ نھی حرمت اور عدم جواز
میں ظھور رکھتا ہے)۔
اگر تعارض کی ایسی صورت ہو تو ایک دلیل میں تصرف کریں گے مثالً ہم کہیں گے جو
دلیل اپنے مدلول میں ظاھر ہے وہ ظھور شارع کی مراد نہیں ہے ۔ گذشتہ مثال میں کہیں
گے ’’ال ترتمس‘‘ جو ظھور رکھتا ہے صیغہ نھی میں ،یہ حرمت مراد شارع نہیں ہے
بلکہ یہاں پر شارع نے صیغہ نھی کو کراھت میں استعمال کیا ہے ۔
سوال :اپ کس دلیل کی بنا پر کہتے ہیں شارع کی مراد ظھور نہیں ہے بلکہ کراھت
مقصود شارع ہے ؟
جواب :ہمارے پاس قرینہ پھلی دلیل ہے جس میں شارع نے صراح ًۃ کہا ہے ارتماس جائز
ہے ’’یجوز‘‘ اب یہ تو نہیں ہوسکتا شارع تناقض کرے ایک مرتبہ کہے ’’جائز‘‘ ہے اور
دوسری مرتبہ کہے ’’حرام‘‘ ہے ۔
پس جو شارع کا کالم ہوگا وہ قرینہ قرار پائے گا کے دوسرے کالم کا ظھور مقصود
شارع نہیں ہے ۔
خالصہ یہ ہوا کہ :
نص کے مطابق
نص اور ظاھر میں تعارض ہوگا تو ظاھر کا معنی ایسا کریں گے جو ّ
اگر ّ
ہو اس کے بر خالف نہ ہو ۔
القاعدہ الثالثۃ
صص کو عام پر مقدم کیا جائے گا ۔ دو دلیل وارد
مقیّد کو مطلق پر مقدم کریں گے اور مخ ّ
ہوں ان میں سے ایک کا دائرہ وسیع ہو اور دوسری دلیل کا دائرہ پکلی سے کمتر و
مضیق ہو اور ان دونوں دلیلوں میں تعارض ہو تو جس دلیل کا دائرہ کمتر ہوگا اسے مقدم
کیا جائے گا ۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہیں:
ایک دلیل عام ہو یو مطلق ہو جبکہ دوسری دلیل خاص ہو یو مقیّد ہو تو دلیل خاص یا مقیّد
کو عام یا مطلق پر مقدم کیا جائے گا ۔ مثالً :ایک دلیل میں ایا ہے کہ ’’الربا حرام‘‘ اور
دوسری دلیل میں ایا ہے ’’الربا بین الوالد و ولدہ مباح‘‘ ۔ مالحظہ کریں پھلی دلیل میں
’’ربا‘‘ کو مطلقا ً حرام قرار دیا گیا ہے کہ ربا حرام ہے چاھے باپ بیٹے کے درمیان ہو یا
کسی اور کے مابین ،جبکہ دوسری دلیل میں باپ بیٹے کے درمیان ربا کو جائز مانا گیا
ہے ۔
پھلی دلیل کا دائرہ وسیع ہے لیکن دوسری دلیل کا دائرہ کمتر و مضیق ہے اس صورت
میں دوسری دلیل کو پھلی دلیل پر مقدم کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ دوسری دلیل سے
پھلی دلیل کو مقیّد کیا گیا ہے اور مراد جدی شارع یہ ہے کہ ’’ربا حرام ہے مگر باپ اور
بیٹے کے مابین‘‘ ۔
سوال :دوسری دلیل کو پھلی دلیل پر کیاں مقدم کیا گیا ؟
جواب :کیونکہ دوسری دلیل خاص ہے پھلی کی بنسبت او خاص قرینہ ہوتی ہے عام کی
بنسبت چنانچہ ہم بیان کر چکے ہیں کے عقالء اور عرف کے نزدیک قرینہ کو ذوالقرینہ
پر مقدم کیا جاتا ہے ۔ ہماری اس بات پر بھترین شاھد یہ ہے کے عام اور خاص دونوں کو
اگر مالکر ترجمہ کریں گے تو مطلب بلکل درست ہوگا ۔ مثالً :اپ کہیں ’’سود حرام ہے
مطلقا ً مگر باپ اور بیٹے کے مابین‘‘ تو مطلب درست ہوگا ۔
نکتہ :چند اصطالحات کی توضیح
۱۔ عام :وہ دلیل ہے جس میں شیوع اور عمومیت بالوضع ہو ۔ اکرم ک ّل عالم
اح ّل ہللا ۲۔ مطلق :وہ دلیل جس میں شیوع اور عمومیت قرینہ حکمت کی وجہ سے ہو
البیع ۔
صص (اسم فاعل) :وہ عام جس کے ذریعہ عام کو تخصیص لگائی جائے ۔
۳۔ ُمخ ِ ّ
صص (اسم مفعول) :وہ عام جس کع تخصیص لگائی گئی ہو ۔
۴۔ ُمخ َّ
صص جو عام کے ساتھ متصل ہو ۔
صص متصل :وہ مخ ِ ّ
۵۔ مخ ِ ّ
صص جو جداگانہ ذکر کیا گیا ہو ،عام کے ساتھ متصل نہ ہو ۔
صص منفصل :وہ مخ ِ ّ
۶۔ مخ ِ ّ
۷۔ مقیَّد (اسم مفعول) :وہ مطلق جس کو تقیید لگائی گئی ہو ۔
۸۔ مق ِیّد (اسم فاعل) :وہ مق ِیّد جس کے ذریعہ مطلق کو قید لگائی گئی ہو ۔
۹۔ مق ِیّد متصل :وہ مق ِیّد جو مطلق کے ساتھ متصل ہو ۔
۱۰۔ مق ِیّد منفصل :وہ مق ِیّد جو مطلق سے متصل نہ ہو بلکہ علیحدہ ذکر کیا گیا ہو ۔
حجیّۃ عام اور مطالق:
مذکورہ قاعدہ کی روشنی میں فقیہ مقام استنباط میں ایک عام قاعدہ استعمال کرتا ہے ’’جب
بھی دو دلیلوں میں نسبت عموم خصوص مطلق کی ہو تو خاص کو عام پر مقدم کیا جائے
گا‘‘۔ مثالً :اکرم ک ّل عالم ّاال الفساق ۔ اس دلیل کے مطابق مولی کی مراد جدّی یہ ہوگی ہر
عالم کا احترام کرو سواء فاسقوں کے یعنی فقط عالم عادل کا احترام کرو ۔
البتہ ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب عام کو تخصیص لگائی جاتی ہے تو خاص کے عالوہ
جو باقی افراد بچ جاتے ہیں کیا ’’عام‘‘ ان بقایا تمام افراد میں ح ّجت رھے گا یا نہیں ؟
جواب :بعض علماء کہتے ہیں ’’ :عام‘‘ تخصیص کے بقایا افراد میں بھی ح ّجت نہیں
رھے گا ۔
لیکن بعض اصولیوں میں سے جو محققین ہیں ان کا ماننا ہے ’’عام‘‘ تخصیص کے بعد
بقایا افراد میں ح ّجت رھے گا (یہ ایک نھایت عمیق بحث ہے تفصیل ائندہ حلقات میں بیان
ہوگی ان شاء ہللا)
دوسرے کالم کے ذریعہ ہم بذات خود موضوع کی نفی کرتے ہیں بعض افراد کی بنسبت ،
نہ کے حکم کی نفی کی جائے اور موضوع کو ثابت فرض کیا جائے ۔ مثالً :ہم کہتے ہیں
جو قرضدار انسان ہے اصل مستطیع نہیں ہے چنانچہ جب موضوع کی نفی کی جائے گی
تو قھرا ً حکم بھی ختم ہو جائے گا کیونکہ فعلیت حکم موضوع کے وجود پر موقوف ہے ۔
دوسرے الفاظ میں کہا جائے گا کہ:
تصرف اس طرح سے
ّ تصرف کرتے ہیں لیکن
ّ دوسری دلیل کے ذریعہ ہم پھلی دلیل میں
کہ دوسری دلیل موضوع کی نفی کرتی ہے ۔
تصرف کرتی ہے اسے ’’حاکم‘‘ اور پھلی دلیل کو ’’محکوم‘‘
ّ اصطالحا ً جو دوسری دلیل
تصرف کو ’’حکومت‘‘ کہتے ہیں ۔
ّ اور اس
خالصہ کالم:
مذکورہ قواعد میں جو ایک دلیل کو دوسری دلیل پر مقدم کیا جاتا ہے ۔ اصطالحا ً اسے
’’جمع عرفی‘‘ کہتے ہیں ۔
القاعدۃ الخامسہ :التعارض المستقر
اگر دو متعارض دلیلوں میں کوئی بھی دلیل دوسری دلیل کیلئے قرینہ بننے کی صالحیت
نہ رکھتی ہو یعنی مذکورہ موارد میں سے نہ ہو تو دونوں دلیلوں میں مستقر(پکا) تعارض
ہوگا اور اس صورت میں کسی بھی دلیل پر عمل نہیں کرسکتے ۔ نتیج ًۃ دونوں دلیلیں
ساقط ہوجائیں گی ۔ اس مورد کیلئے کہا گیا ہے ’’اذا تعارضا تساقطا‘‘۔
ان التعارض ھو حصول التنافی بین مدلولی الدلیلین۔ و ثانیا ً : فتبیّن من جمیع ما ذکرناہ ّاوال ّ :
ان التعارض علی ثالثۃ اقسام النّہ ا ّما یوجد التعارض بین الدلیلین من الدلّۃ المحرزۃ و ا ّما بین
ّ
اصلین عملین و ا ّما بین دلیل محرز و بین اصل عملی و ثالثا ً :و التعارض بین االدلّۃ
المحرزۃ علی ثالثۃ اقسام ایضا ً ۔النّہ ا ّما بین الدلیلین الشرعیین اللفظیین و ا ّما بین دلیل شرعی
لفظی و بین دلیل عقلی و ا ّما بین الدلیلین العقلیین و رابعا ً :یوجد جمع عرفی بین الدلیلین
النص و
ّ الشرعیین اللفظیین و یتحلّی الجمع العرفی فی موارد :منھا اذا کان التعارض بین
النص علی الظاھر و منھا :اذا کان التعارض بین العام و الخاص فیتقدم ّ الظاھر فیتقدم
صص بہ و کذالک المطلق و المقیّد ۔ و منھا اذا کان التعارض بین الخاص علی العام فیخ ّ
صین الصریحیین ۔ و الحاکم و المحکوم فیتقدم الحاکم ۔ و خامسا ً :ال یمکن التعارض بین الن ّ
ی فالتعارض مستقر و حکمہ التساقط ۔ سادسا ً :اذا لم یوجد فی الدلیلین المتعارضین جمع عرف ّ
تقسیم االخری :حاالت التعارض
گذشتہ مباحث میں عرض ہو کہ تعارض تین اقسام پر مشتمل ہے ۔
۱۔ تعارض دو دلیل لفظی کے مابین
۲۔ تعارض دلیل لفظی اور عقلی کے مابین
۳۔ تعارض دو دلیل عقلی کے مابین
ہم اس مقام پر تین قواعد ذکر کرتے ہیں جو کہ دوسری قسم کے ساتھ مخصوص ہیں اور
قاعدہ ذکر کرتے ہیں جو تیسری قسم کے ساتھ خاص ہے ۔
قواعد قسم ثانی :دلیل لفظی شرعی اور دلیل عقلی کے مابین تعارض
پھال قاعدہ:
اگر ایک دلیل لفظی شرعی قطعی ہو اور دوسری دلیل عقلی ہو تو ان کے درمیان تعارض
نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ کس طرح سے ممکن ہے کہ ایک دلیل شرعی لفظی جو کے سند
اور داللت کے اعتبار سے قطعی ہو پھر دلیل عقلی کے مخالف ہو ۔ اس کا تو مقصد یہ
ہوگا کہ معصوم خالف عقل بات کرے اور یہ محال ہے کہ عقل اور شریعت میں ٹکرائو
ہوجائے تبھی کہا جاتا ہے نصوص شرعی اور دلیل عقلی قطعی میں تعارض نہیں ہوسکتا
۔ (توجہ کریں) یہ صرف دعوی نہیں ہے یہ تمام نصوص الشرعیہ سامنے ہیں کوئی بھی
نص صریح شرعی مخالف دلیل عقلی قطعی نہیں دکھا سکتا ۔
ّ
دوسرا قاعدہ:
اگر دلیل لفظہ شرعی اور دلیل غیر لفظی اور غیر قطعی میں تعارض ہوجائے تو دلیل
لفظی شرعی کو مقدم کیا جائے گا ۔
دلیل غیر لفظی پھر تقریر معصوم ہو یا فعل معصوم یا دلیل لفظی شرعی سے دلیل عقلی
غیر قطعی ٹکرائے پھر بھی دلیل لفظی شرعی کو مقدم کیا جائے گا۔
تیسرا قاعدہ:
اگر دلیل لفظی غیر صریح اور دلیل عقلی قطعی کے درمیان تعارض ہوجائے تو دلیل
عقلی قطعی کو مقدم کیا جائے گا۔
تصرف کیا جائے گا ۔
ّ نتیج ًۃ دلیل لفظی غیر صریح کے ظھور میں
قواعد قسم ثالث :دو دلیل عقلی کے مابین تعارض
قاعدہ:
دو دلیل اگر دونوں عقلی دلیل قطعی ہوں تو ان کے دربیان تعارض ناممکن ہے کیونکہ
اگر دو دلیل عقلی قطعی میں تعارض ہو یعنی تناقض ہوجائے جو کہ محال ہے البتہ اگر
ایک دلیل عقلی قطعی ہو اور دوسری دلیل عقلی غیر قطعی ہو تو تعارض ممکن ہے اور
دلیل ِعقلی قطعی کو مقدم کیا جائے گا ۔
• یہاں تک تعارض کی پھلی قسم یعنی تعارض بین االدلۃ المحرزہ کے قواعد بیان ہوئے ۔
ان التعارض لو کان بین الدلیل الشرعی اللفظی و الدلیل عقلی ففیہ ثالث قواعد ۔ فتلخص ّ :
االولی :یستحیل وقوع التعارض بین دلیل لفظی قطعی و بین دلیل عقلی و الثانیۃ :اذا وجد
تعارض بین دلیل لفظی شرعی و دلیل اخر غیر لفظی و غیر قطعی فیتقدم دلیل لفظی شرعی
۔ الثالثۃ :لو عارض دلیل لفظی غیر صریح دلیالً عقلیا ً قطعیا ً یقدم الدلیل العقلی القطعی علی
الدلیل اللفظی غیر صریح ۔ و ا ّما لو کان التعارض بین الدلیلین العقلیین ان کانا قطعیین فال
یقع التعارض بینھما و ان کان احدھم غیر قطعی فیقدم القطعی علی غیر قطعی ۔
درس ۲۹
( )۲
التعارض بین ا ا
الصول
الحمد ہلل تعارض کی پھلی قسم کے قواعد تمام ہوئے ۔ اب دوسری قسم کے بارے میں
اجمالی بحث پیش کرتے ہیں یعنی جب اصول عملیہ کے مابین تعارض واقع ہوجائے
تقسیم الثانی :دو اصل عملیہ کے مابین تعارض
اس قسم میں بارز اور واضح صورت بھی یہی ہے کہ ’’استصحاب اور برات میں تعارض
واقع ہوجائے‘‘۔
سوال :استصحاب ،احتیاط اور اشتغال کا تقاضا کرے اور برات ،برات کا تقاضا کرے
تو اس صورت میں کس کو مقدم کیا جائے گا ؟
جواب :مثالً ہمیں یقین ہے کہ ماہ رمضان کا روزہ طلوع فجر سے لیکر غروب افتاب
تک واجب ہے ۔ پھر بعد میں شک ہو کہ کیا حمرہ مغربیہ (مغرب کی جانب سے جو
سرخی نمودار ہوتی ہے) کے ختم ہونے تک بھی امساک واجب ہے یا نہیں ؟ استصحاب کا
تقاضا یہ ہے کہ حمرہ مغربیہ کے ختم ہونے تک امساک واجب ہے کیونکہ ہمیں یقین تھا
کہ حمرہ مغربیہ سے پھلے غروب افتاب تک تو قطعا ً امساک واجب تھا ،اب شک کر
رھے ہے کیا اب بھی امساک واجب ہے یا نہیں ؟ تو حالت سابقہ کو باقی رکھا جائے گا
لھذا حمرہ مغربیہ کے ختم ہونے تک امساک واجب ہے جبکہ برات کا تقاضا یہ ہے کہ
امساک واجب نہیں ہے کیونکہ حمرہ مغربیہ کے وقت امساک واجب ہے یا نہیں ؟ یہ شک
بدوی ہے اور شک بدوی میں برات شرعی جاری ہوگی۔
خالصہ :
سوال :استصحاب اور برات میں تعارض ہے اب کیا کریں ؟
جواب :تمام اصولی اس صورت میں قائل ہیں کہ استصحاب کو برات پر مقدم کیا جائے گا
یعنی مثال مذکورہ میں حمرہ مغربیہ کے غائب ہونے تک امساک واجب ہوگا ۔
سوال :استصحاب کیوں مقدم ہوگا
جواب :اسلئے کے استصحاب برات پر حکومت رکھتا ہے ۔
توضیح :ہم جان چکے ہیں کہ:
تصرف کرتا ہے ۔
ّ دلیل حاکم دلیل محکوم کے موضوع میں
اب غور کریں!
دلیل برات کا مفاد یہ ہے کہ’’ جس مورد میں بھی علم نہ ہو تمھارا ذمہ بری ہے‘‘۔ (رفع
عن ا ّمتی ما ال یعلمون) پس جب بھی علم ہو جائے گا وھاں برات جاری نہیں ہوگی ۔
اب دیکھیں قاعدہ استصحاب کا مفاد یہ ہے کہ ’’جب بھی اپ کو شک ہو جائے اور سابقہ
متیقن ہو تو اسے باقی رکھیں ایسے سمجھیں وہ حالت سابقہ ابھی بھی باقی ہے کانّہ اب
بھی اپ کو حالت سابقہ کا علم ہے ۔ مثال پر غور کریں ۔
حمرہ مغربیہ کے وقت شک ہوا امساک واجب ہے یا نہیں ؟ حالت سابقہ یہ ہے کہ امساک
واجب تھا پس اب بھی سمجھو امساک واجب ہے گوایا کے حمرہ مغربیہ کے وقت بھی اپ
کو علم ہے کہ امساک واجب ہے ،جب حمرہ مغربیہ کے وقت امساک کے وجوب کا علم
ہوگیا (و لو علم تعبدی) تو برات کا موضوع ختم ہوجائے گا کیونکہ برات اس صورت میں
جاری ہوگی جب علم نہ ہو لیکن فرض یہ ہے کہ استصحاب کی وجہ سے ہمیں علم
حاصل ہوچکا ہے پس برات جاری نہیں ہوگی کیونکہ اس کا موضوع منتفی ہوچکا ہے
اور یھی مراد ہے اس سے کہ استصحاب برات پر حاکم ہے کیونکہ استصحاب برات کے
موضوع کو ختم کردیتا ہے تعبّدا ً ۔
فتلخص اذا کان التعارض بین االستصحاب و البرات فیقدم االستصحاب علی البرات ّ
الن
االستصحاب حاکم علی البرات ای یرفع موضوع البرات تعبّدا ً و بعنایۃ الشارع ۔
تقسیم الثالث :ادلّہ محرزۃ و اصول العملیۃ کے ما بین التعارض
یہ تعارض کی تیسری قسم ہے یعنی ادلّہ محرزہ اور اصول عملیہ میں تعارض ہو ۔ اس
صورت میں کیا کریں گے ؟
تمام اصولی قائل ہیں کہ ادلّہ محرزہ کو اصول عملیہ پر مقدم کیا جائے گا ۔
تصویر تعارض
پھلی نظر میں ادلّہ محرزہ اور اصول عملیہ کے دیمیان تعارض کی دو صورتیں ممکن
ہیں لیکن ایک صورت باطل ہے ب ،باقی دوسری صورت میں ادلّہ محرزہ کو اصول
عملیہ پر مقدم کیا جائے گا ۔
پھلی صورت:
دلیل محرز قطعی اور اصل ِعملی میں تعارض ہوجائے یہ صورت باطل ہے کونکہ ہم بیان
کرچکے ہیں کہ اصل ِعملی ہھاں پر ہوتی ہے جب حکم ِشرعی میں شک ہو لیکن
دلیل ِمحرز ِقطعی کی صورت میں ہمیں حکم ِشرعی کا ہمیں علم ہوتا ہے پس اصل ِعملی
کا موضوع ہی ختم ہوجائے گا ۔ نتیج ًۃ یہ صورت باطل ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا ۔
دوسری صورت:
دلیل محرز ظنّی ہو لیکن اس کی حجیّت پر دلیل قطعی موجود ہو اور دوسری طرف اصل
عملی ہو ۔ اس صورت میں تعارض ممکن تو ہوگا کیونکہ دلیل محرز ظنّی کی صورت
میں ’’عدم العلم‘‘ صدق کرتا ہے یعنی کہا جاسکتا ہے حکم شرعی کا علم نہیں ہے کیونکہ
ظن علم نہیں ہے لھذا ہوسکتا ہے اس مورد میں اصل عملی جاری ہو لیکن دلیل محرز ّ
ظنّی کی حجیّت پر جو دلیل قطعی ہے وہ ہمیں کہتی ہے کے شارع نے گویا کہ اس دلیل
محرز ظنّی کو بھی ’’علم‘‘ قرار دیا ہے کانّہ اپ دلیل ظنّی معتبر کی صورت میں عالم ہیں
،اپ کے پاس ’’علم‘‘ ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اصل عملی وھاں
جاری ہوگی جھاں ’’علم‘‘ نہ ہو ،یھاں پر تو ’’علم‘‘ ہے پس اصل عملی کا موضوع ختم
ہوجائے گا اور دلیل ظنّی محرز حاکم ہوجائے گی ۔
فتلخص اذا کان التعارض بین االدلّۃ المحرزۃ االصول العملیۃ فتقدم االدلّۃ المحرزۃ ا ّما النّہ
االصول العملیۃ ال تعارضہ لذا کان الدلیل المحرز قطعیا ً و ا ّما النّہ االدلۃ المحرزۃ تکون
حاکمۃ علیھا ت ّمت بفضل ہللا تحریر الحلقہ االولی بلسان سھل اردویۃ ۔
شکر الحمد ہلل