You are on page 1of 9

‫تعالی عنہ‬

‫ٰ‬ ‫حضرت بالل حبشی رضی ہللا‬

‫کا ایک یہودی اپنے گھر کی چھت پر کھڑا سورج ڈوبنے سے پہلے کا منظر دیکھ رہا تھا۔ پرندوں کی قطاریں شام کو‬
‫اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہی تھیں۔ ان کی چہچہاہٹ اسے بڑی بھلی لگ رہی تھی۔ دور افق میں سورج کسی سرخ‬
‫ٹکیا کی مانند غروب ہو رہا تھا آخر سورج غروب ہو گیا۔ پرندوں کے نغمے مدھم پڑتے پڑتے آخر معدوم ہو گئے‬
‫‘‘!اور فضا میں ایک شیریں اور با رعب آواز بلند ہوئی۔ ’’ہللا اکبر۔۔۔ ہللا اکبر‬
‫یہودی کے کانوں سے یہ آواز سفر کرتی ہوئی اس کے دل تک جا پہنچی اسے یوں لگا جیسے یہ آوا زاس کے جسم‬
‫کے ہر رونگٹے میں پہنچ گئی ہے۔‬
‫اس یہودی کی عجیب کیفیت تھی۔ حضرت ؓ‬
‫بالل کی آواز سے اس کے بدن میں سنسنی دوڑ رہی تھی۔ مگر اس کا‬
‫تعصب اسے یہ آواز نہ سننے کا مشورہ دے رہا تھا ‪ ،‬مگر اس نے اپنے آپ کو اس مشورے پر عمل نہ کرنے پر‬
‫مجبور پایا۔ الکھ کوشش اور ارادے کے باوجود بھی وہ حضرت ؓ‬
‫بالل کی آواز سے اپنے کام بند کرنے میں کامیاب نہ‬
‫ہو سکا۔ اس نے پوری اذان سنی۔‬
‫اذان پوری ہوئی تو وہ بڑبڑایا۔ اپنے آپ سے جھگڑا۔ ’’مجھے یہ آواز نہیں سننی چاہیے۔ یہ آواز جادوئی ہے‪ ،‬ایک‬
‫‘‘طلسم ہے‪ ،‬اس لیے میں یہ مجھے فتنے میں ڈال دیتی ہے۔‬
‫مگر وہ پھر اپنے آپ سے کہتا کہ وہ ہر دفعہ اذان سننے کے بعد یہی کچھ سوچتا اور اپنے آپ سے یہی کچھ کہتا‬
‫ہے‪ ،‬مگر آج اس کے اندر کا ردِعمل پہلے سے بہت مضبوط تھا۔ وہ ایسے طریقے سوچنے لگا کہ جو اس آواز کو‬
‫ہمیشہ کے لیے خاموش کر دے۔ سوچ سوچ کر اس کے شیطانی ذہن میں ایک منصوبہ آ ہی گیا۔ اسے یقین تھا کہ وہ‬
‫اپنے منصوبے میں یقیناًکامیاب ہو گا۔ حاالت اس کی کامیابی کے لیے بڑے سازگار تھے۔‬
‫***‬

‫حضرت ؓ‬
‫بالل مدینہ کے بازار میں خریداری کی غرض سے آئے تھے۔ ان کے ہمراہ ایک غریب اور مفلوک الحال‬
‫مسلمان تھا۔ انھیں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے خصوصی ہدایت ملی تھی کہ وہ بازار سے اسے غلہ‪ ،‬کمبل اور‬
‫کپڑے خرید کر دیں۔ انھوں نے یہ ساری خریداری قرض پر کرنا تھی۔‬
‫اس وقت مسلمانوں پر تنگ دستی کے حاالت تھے۔ انصار سے جو کچھ بن پڑا تھا انھوں نے اس سے زیادہ کر دکھایا‬
‫تھا ‪ ،‬مگر اس کے باوجود نادار مہاجر مسلمانوں کی ایک تعداد ایسی تھی جو بے سہارا تھی اور ان کے لیے کچھ‬
‫میسر نہ تھا۔ ایسے موقعوں پر رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے کئی مرتبہ قرض لے کر ضرورت مندوں کی‬
‫ضرورت پوری کی تھی۔ بعض اوقات یہ قرض کسی غیر مسلم سے لینا پڑ جاتا تھا۔ مدینہ میں یہودی مالدار تھے اور‬
‫وہی منفعت پر قرض دیتے تھے۔ اس وقت تک سود حرام نہ ہوا تھا۔ اس وقت حضرت ؓ‬
‫بالل کسی ایسے شخص کی‬
‫تالش میں تھے جس سے انھیں قرض مل جائے یا مطلوبہ چیزیں ادھار میسر آجائیں ‪ ،‬مگر ابھی تک انھیں اس میں‬
‫کامیابی نہیں ہوئی تھی۔‬
‫یہی وہ موقع تھا جس کی ان کی اذان سے تنگ یہودی کو تالش تھی۔ وہ خاصی دیر سے حضرت ؓ‬
‫بالل کو دیکھ رہا‬
‫‪:‬تھا۔ جب تین چار جگہ سے انھیں انکار ہوا تو وہ سامنے آیا اور بوال‬
‫‘‘دوست لگتا ہے تمھیں قرض چاہیے۔’’‬
‫جی ہاں! آپ کا خیال درست ہے۔‘‘ ؓ‬
‫بالل نے قدرے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔’’‬
‫تو پھر آئیے! میرے پاس گنجایش ہے اور میں آپ کو جانتا بھی ہوں۔ آپ موذن ہیں اور ؓ‬
‫بالل ہے آپ کا نام۔ مجھے ’’‬
‫‘‘آپ پر اعتماد ہے آپ جتنا چاہیں قرض مل جائے گا۔‬
‫حضرت ؓ‬
‫بالل یہودی کی اس فراخ دالنہ پیشکش پر حیران ہوئے اور سوچنے لگے کہ کہیں دال میں کچھ کاال تو نہیں۔‬
‫وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ مدینے کے یہودی تو روپے پیسے کے بڑے حریص ہیں ‪ ،‬مگر پھر اپنی مجبوری کا‬
‫خیال آیا اور انھوں نے اس سے قرض لینے کا ارادہ کر لیا۔ انھوں نے اپنی ضرورت بتائی کہ کچھ غلہ اور کپڑے‬
‫‪:‬خریدنے ہیں اور اسی قدر قرض چاہیے۔ یہودی بوال‬
‫دیکھو ؓ‬
‫بالل قرض تو میں آپ کو ضرور دوں گا مگر ضمانت کے طور پر آپ کی کوئی چیز میرے پاس رہے گی ’’‬
‫‘‘یہ میرا اصول ہے۔‬
‫‘‘ہللا کے بندے اگر میرے پاس کوئی چیز ہوتی تو کیا میں تم سے قرض لیتا؟’’‬
‫‘‘تو ٹھیک ہے‪ ،‬اس شرط پر قرض لے لیں کہ عدم ادائیگی کی صورت میں تم میری ملکیت میں آجاؤ گے۔’’‬
‫اس کی شرط نے حضرت ؓ‬
‫بالل کے لبوں پر خاموشی کی مہر لگا دی۔ یہ دیکھ کر یہودی پھر بوال۔‬
‫آپ پریشان نہ ہوں‪ ،‬مجھے یقین ہے کہ آپ وقت پر ادائیگی کر دیں گے۔ یہ تو محض شرط ہے جو میں نے اپنی ’’‬
‫‘‘تسلی کے لیے عائد کی ورنہ مجھے آپ پر اعتماد نہ ہوتا تو قرض ہی کیوں دیتا۔‬
‫‘‘حضرت ؓ‬
‫بالل نے کچھ تامل کیا اور پھر ہامی بھر لی۔ یہودی کی آنکھیں چمکیں اور بوال۔ ’’ادائیگی کب ہو گی؟‬
‫مہینے کے آخر پر!‘‘ ٹھیک ہے آپ اگر رقم واپس نہ کر سکے تو اس کے عوض میں آپ پر اپنی ملکیت ظاہر کر ’’‬
‫سکوں گا۔‘‘ اور یہودی نے قبیلہ بنو نجار کے معززین کے سامنے حضرت ؓ‬
‫بالل کو قرض کی رقم دے دی۔ حضرت‬
‫بالل رقم لے کر خریداری کرنے چلے گئے اور یہودی دل ہی دل میں خوش ہونے لگا۔ اسے یقین تھا کہ حضرت ؓ‬
‫بالل‬ ‫ؓ‬
‫یا ان کے رسول محمد عربی صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس مہینے کے آخر تک اتنی رقم جمع نہیں ہو سکے گی اور ؓ‬
‫بالل‬
‫کو معاہدے کے مطابق اس کی غالمی قبول کرنا پڑے گی اور پھر وہ اسے اذان نہ دینے کا پابند کرے گا۔‬
‫اس مہینے یہودی جب بھی حضرت ؓ‬
‫بالل کی زبانی ہللا کی توحید کا نغمہ سنتا دل ہی دل میں اپنے آپ کو دالسا دیتا کہ‬
‫بس ایک ہی ماہ کی بات رہ گئی ہے۔ اس کے بعد اس آواز کا طلسم ختم ہو جائے گا۔‬
‫اور یہ اس دن کی بات ہے جب مہینہ ختم ہونے میں صرف چار دن رہتے تھے۔‬
‫حضرت ؓ‬
‫بالل مسجد نبوی کی طرف جا رہے تھے کہ انھیں اپنے سامنے سے وہی یہودی کچھ دوسرے تاجروں کے‬
‫‪:‬ہمراہ آتا دکھائی دیا۔ قریب آکر وہ خاصے درشت لہجے میں حضرت ؓ‬
‫بالل سے مخاطب ہوا‬
‫‘‘اے حبشی! تمھیں معلوم ہے مہینہ ختم ہونے میں کتنے دن باقی رہ گئے ہیں؟’’‬
‫‘‘!حضرت ؓ‬
‫بالل بولے‪’’ :‬ہاں مجھے معلوم ہے باقی چار دن رہ گئے ہیں‬
‫‘‘تو کیا تم قرض کی ادائیگی کر سکتے ہو؟’’‬
‫نہیں!‘‘ ان کی آواز میں ایک انجانا خوف صاف جھلک رہا تھا۔’’‬
‫تو پھر معاہدے کے مطابق میں تمھیں اپنا غالم بناؤں گا اور سن لو یہ قرض میں نے تمھیں یا تمھارے صاحب ’’‬
‫(رسول صلی ہللا علیہ وسلم) کے احترام میں نہیں دیا تھا۔ بلکہ تمھیں اپنا غالم بنانے کے لیے دیا تھا اور جب تم‬
‫‘‘میرے قبضے میں آؤ گے تم سے ریوڑ چرواؤں گا اور تم وہی کام کرو گے جو غالمی میں کیا کرتے تھے۔‬
‫یہودی اپنی دھن میں بکتا گیا اور اپنی سازشی ذہنیت کا کھل کر اظہار کرتا گیا۔ حضرت ؓ‬
‫بالل کی آنکھوں کے سامنے‬
‫ایک مرتبہ پھر امیہ بن خلف آگیا۔ وہ سوچنے لگے کیا اس بد طینت یہودی کی شکل میں امیہ پھر زندہ ہو گیا ہے؟ کیا‬
‫ایک دفعہ پھر انھیں غالمی کی ذلت سے دوچار ہونا پڑے گا؟‬
‫یہودی حضرت بال ؓل کو پریشان کرکے آگے چال گیا اور ؓ‬
‫بالل سوچنے لگے کہ انھوں نے تو ابھی تک اس سارے‬
‫معاملے کا رسول عربی صلی ہللا علیہ وسلم سے ذکر تک نہیں کیا اور قرض لینے کا تذکرہ بھال وہ کرتے کیسے!‬
‫آپ کے خزانچی تھے۔ مالی حالت‬ ‫آپ کے پاس اب کوئی رقم نہیں۔ حضرت ؓ‬
‫بالل خود ؐ‬ ‫انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ ؐ‬
‫کا اندازہ بھال ان سے بڑھ کر اور کسے ہو سکتا تھا لیکن اب! اب تو بتانا ضروری ہو گیا ہے۔‬
‫اسی پریشانی کی حالت میں اذان دی۔ نماز پڑھی اور فراغت کے بعد حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے گھر تشریف لے‬
‫گئے مالقات کی اجازت چاہی اور حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں گزارش کی۔‬
‫آپ پر فدا ہوں۔ آپ کے علم میں ہے کہ ایک مسلمان حاجت ’’‬
‫اے ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم میرے ماں باپ ؐ‬
‫مند کے لیے میں نے قرض لیا تھا۔ یہ قرض میں نے ایک یہودی سے لیا تھا۔ وہ اب واپسی کا تقاضا کر رہا ہے۔ اگر‬
‫ت حال یہ ہے کہ‬
‫میں چار دن تک قرض واپس نہ کر سکا تو اس کے عوض وہ مجھے اپنے پاس رکھ لے گا۔ صور ِ‬
‫اب ادائیگی کرنے کے لیے نہ میرے پاس کچھ ہے اور نہ آپ کے پاس۔ یہودی مجھے ذلیل کرنے پر تال بیٹھا ہے۔ آپ‬
‫‘‘اجازت دیں تو مسلمان دوستوں سے تعاون کی درخواست کی جائے؟‬
‫آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے معاملے پر غور کیا اور یہ رائے دی کہ ان حاالت میں ایسا کرنا مناسب نہ ہو گا۔‬
‫دراصل آپ ؐاچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمان تو ان کے حکم پر اپنا سب کچھ ال کر ان کے حوالے کر دیں گے‪،‬‬
‫چنانچہ ایسا کرنا ان پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالنے کے مترادف ہو گا۔‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کا یہ جواب حضرت ؓ‬
‫بالل کے لیے غیر متوقع تھا ‪ ،‬مگر وہ کچھ نہ بولے۔ البتہ پریشانی‬
‫چہرے پر ظاہر تھی۔ وہ سیدھے گھر گئے۔ سوچوں کا شکار‪ ،‬اندیشوں سے دل فگار‪ ،‬غالمی کے خطرے سے بے‬
‫حال۔ اس کیفیت نے انھیں ماضی کی تلخ یادوں کی وادی میں دھکیل دیا۔ غالمی کے دن‪ ،‬اذیت کے لمحات‪ ،‬ذلت کا‬
‫احساس ان پر اس قدرطاری تھا کہ نیند ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ خاصی دیر کروٹیں بدلتے رہے۔ پھر‬
‫اٹھے۔ اپنی تلوار‪ ،‬میان‪ ،‬نیزہ اور جوتے اپنے قریب رکھے اور پھر لیٹ گئے۔ پوری رات وہ اس طرح بے چین رہے۔‬
‫نبویکی طرف قدم اٹھانے لگے۔ راستے میں‬
‫سو جاتے ‪،‬مگر پھر بیدار ہو جاتے۔ آخر صبح ہوئی۔ وہ تیار ہو کر مسجد ؐ‬
‫صحابی نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کا یہ پیغام دیا کہ حضور انورصلی ہللا علیہ وسلم انھیں یاد فرما‬
‫ؓ‬ ‫انھیں ایک‬
‫رہے ہیں۔‬
‫رسول مجھے عام مسلمانوں‬
‫ؐ‬ ‫حضرت ؓ‬
‫بالل راستے بھر سوچتے رہے اور اپنے آپ سے پوچھتے رہے کیا ہللا کے‬
‫سے مدد لینے کی اجازت دیں گے یا ہللا کی طرف سے وسعت آ گئی ہے۔ اس کیفیت میں دربار رسالت میں حاضر‬
‫حضور نے فرمایا‪’’ :‬خوشخبری ہو بالل ہللا نے تمھارا قرض اتارنے کابندوبست کر دیا ہے۔‬
‫ؐ‬ ‫‘‘ہوئے۔‬
‫بے اختیار ان کی زبان سے الحمدہلل کے کلمات نکلے۔‬
‫حضور نے فرمایا‪’’ :‬کیا تم نے راستے میں لدے ہوئے سامان کے چار اونٹ نہیں دیکھے؟‬
‫ؐ‬ ‫‘‘‬
‫‘‘ ؓ‬
‫بالل نے جواب دیا۔ ’’نہیں‪ ،‬میں نے انھیں نہیں دیکھا۔’’‬
‫تم انھیں باہر دیکھ سکتے ہو‪ ،‬یہ چاروں اونٹ تمھارے اختیار میں دیے جاتے ہیں۔ تم انھیں لو ‪ ،‬اور اپنا قرض ادا ’’‬
‫‘‘کرو۔‬
‫حضرت ؓ‬
‫بالل مسجد سے باہر تشریف لے گئے۔ وہاں کپڑے اور غلے سے لدے چار اونٹ ان کے انتظار میں تھے۔ یہ‬
‫اونٹ سامان سمیت ایک امیر تاجر مسلمان نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر بھیجے‬
‫تھے۔ ؓ‬
‫بالل نے ہللا کا شکر ادا کیا اور اونٹوں سے سامان اتار کر انھیں چادر میں ڈاال اور خوشی خوشی مسجد واپس‬
‫گئے۔ اذان دی۔ رسول ؐہللا کی امامت میں نماز پڑھی اور البقیع کی طرف چل دیے۔ یہاں ایک جگہ اعالن کیا۔ ’’جس‬
‫‘‘نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے قرض لینا ہے‪ ،‬وہ حاضر ہو جائے۔‬
‫لوگ آنے لگے اور حضرت ؓ‬
‫بالل سامان میں سے انھیں دے کر حساب چکانے لگے۔ آخر وہ یہودی بھی آیا۔ حضرت‬
‫ؓ‬
‫بالل اس کی مکار کی شکل دیکھ کر کہنے لگے‪’’ :‬تم اپنا قرض واپس لو۔ آئندہ میں تم سے کبھی قرض نہیں لوں‬
‫‘‘گا۔‬
‫یہودی نے سازش کی تھی اور ہللا نے اسے ناکام بنا دیا۔ اسے اپنی ناکامی پر سخت افسوس تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ‬
‫عزت و ذلت انسان کے بجائے ہللا کے ہاتھ میں ہے۔‬
‫حضرت ؓ‬
‫بالل نے سارا قرضہ اتار دیا اور ان کے پاس صرف دو اوقیہ سونا باقی بچا۔ وہ واپس مسجد نبوی پہنچے۔‬
‫دوپہر کا وقت ہو چکا تھا۔ دیکھا تو حضورصلی ہللا علیہ وسلم اکیلے مسجد میں تشریف فرما تھے۔ حضرت بال ؓل سے‬
‫‘‘دریافت فرمایا‪’’ :‬کیا قرض ادا ہو گیا ہے۔‬
‫رسول تمام قرض ادا ہو گیا ۔’’‬
‫ؐ‬ ‫‘‘ہاں! ہللا کے‬
‫‘‘کیا کچھ باقی بچا؟’’‬
‫‘‘ہاں دو اوقیہ سونا بچا ہے۔’’‬
‫‘‘میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے اس کے بوجھ سے نجات دالؤ۔’’‬
‫آپ کو بتایا کہ اب کوئی سامان نہیں بچا اور نہ ہی‬ ‫حضرت ؓ‬
‫بالل نے وہ سونا بھی کسی محتاج کو دے دیا اور پھر ؐ‬
‫آپ نے ہللا کا شکریہ ادا کیا۔‬
‫کوئی محتاج اور سائل باقی بچا ۔ ؐ‬
‫زمانے کا پہیہ تیزی سے گردش کر رہا تھا۔ بدر کے بعد احد میں مشرکین مکہ کے ساتھ معرکہ ہوا۔ چند مسلمانوں کی‬
‫غلطی سے میدان کا پانسہ پلٹ گیا اور مسلمانوں کی میدان میں واضح فتح جلد ہی بہت بڑے نقصان میں بدل گئی۔‬
‫بالل اس غزوے میں موجود تھے ۔ پھر خندق کا موقع آیا اور ؓ‬
‫بالل نے دوسرے صحابہ کے ساتھ مٹی کھودی اور تن‬ ‫ؓ‬
‫دہی سے کام کیا۔ اس جنگ میں سارا عرب مدینے پر چڑھ آیا تھا ‪ ،‬لیکن ہللا کی مدد سے یہ ساری فوجیں مسلمانوں کا‬
‫کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ انسانیت کی رہنمائی کے لیے روشن کیے جانے واال اسالم کا یہ چراغ مشرکین عرب کی‬
‫پھونکوں سے نہیں بجھایا جا سکتا تھا۔‬
‫غزوۂ خندق کے بعد صلح حدیبیہ کا موقع آیا اور مسلمانوں نے مشرکین مکہ سے صلح کا معاہدہ ان کی مرضی کی‬
‫شرائط پر کیا اور نتائج اپنی مرضی کے حاصل کئے۔ امن ہونے کے سبب پورے عرب میں اسالم بڑی تیزی سے‬
‫پھیال اور آٹھ ہجری میں مسلمان علی االعالن مکہ پر حملہ آور ہوئے اور مکہ کی مغرور اور اکڑی گردنوں والے‬
‫صحابہ اکرام کا پاکیزہ قافلہ بال روک ٹوک مکہ میں داخل ہو‬
‫ؓ‬ ‫کفار میں اتنی ہمت نہ تھی کہ ان کا راستہ روک سکیں۔‬
‫گیا۔‬
‫اور پھر وہ دن بھی آگیا جس پر چشم فلک بھی حیران تھی اور اہل دنیا حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ۔ ؓ‬
‫بالل اور‬
‫صحابہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے ہمراہ ایک مرتبہ پھر بیت ہللا کی زیارت سے آنکھیں ٹھنڈی کر‬
‫ؓ‬ ‫دوسرے‬
‫رہے تھے۔ اس مرتبہ انھیں کوئی منع کرنے واال اور ایک ہللا کی عبادت پر ناک بھوں چڑھانے واال کوئی نہ تھا۔‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنی سواری پر بیٹھ کر خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کیا۔ پھر بیت ہللا کی طرف‬
‫متوجہ ہوئے اور اس کے دروازے کو مقفل پا کر حضرت ؓ‬
‫بالل کو حکم فرمایا کہ عثمان بن طلحہ کو تالش کریں۔‬
‫عثمان بن طلحہ کے پاس ہی بیت ہللا کے تالے کی چابی تھی۔‬
‫حضورکی خدمت میں حاضر ہوئے۔‬
‫ؐ‬ ‫عثمان بن طلحہ نے خاموشی کے ساتھ چابی لے کر حضرت ؓ‬
‫بالل کے ہمراہ‬
‫رسول ہللا کعبہ کے دروازے پر کھڑے رہے تھے۔‬
‫ؐ‬
‫ہللا کے سوا کوئی معبود نہیں‪ ،‬وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں‪ ،‬اس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا‪ ،‬اپنے بندے ’’‬
‫‘‘کی مددکی اور اس نے اکیلے تمام لشکروں کو شکست دی۔‬
‫حضور نے عثمان کو دیکھا او رکہا‪ ’’ :‬اے عثمان‪ ،‬الؤ چابیاں ادھر الؤ‪ ،‬آج نیکی اور وفا کا دن ہے‬
‫ؐ‬ ‫‘‘!‬
‫اسامہ بن زید اور عثمان بن طلحہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے۔ دروازہ بند کر دیا‬
‫ؓ‬ ‫آنحضور‪ؓ ،‬‬
‫بالل‪،‬‬ ‫ؐ‬ ‫دروازہ کھوال گیا تو‬
‫رسول ہللا آگے آگے تھے اور ؓ‬
‫بالل ان کے پیچھے۔ اندر کمرے میں ہللا کے رسول نے دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر‬ ‫ؐ‬ ‫گیا۔‬
‫کعبہ کے اندر رکھے ہوئے بتوں کو دیکھا۔ فرشتوں کی تصویروں کو دیکھا۔ آپ کی تاسف بھری نگاہیں ایک تصویر‬
‫پر جا ٹکیں۔ یہ اس کعبہ کو تعمیر کرنے والے کی تصویر تھی۔ حضرت ابراہیم ؑ کی تصویر۔ تصویر میں ان کے ہاتھ‬
‫آپ‬
‫میں پانسے کے تیر تھے۔ (پانسے کے تیر قرعہ نکالنے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے) یہ تصویر دیکھ کر ؐ‬
‫‪:‬ضبط نہ کر سکے۔ فرمایا‬
‫ابراہیم ’’‬
‫ؑ‬ ‫ہللا ان تصویروں کو بنانے والے کو ہالک کرے۔ انھوں نے ہمارے ج ِد امجد کو پانسے پھینکنے واال بنا ڈاال۔‬
‫‘‘کا ان پانسوں سے بھال کیا تعلق؟‬
‫تعالی نے خود شہادت دی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ‬
‫ٰ‬ ‫آپ نے سورۂ آل عمران کی وہ آیت تالوت فرمائی جس میں ہللا‬
‫پھر ؐ‬
‫آپ نے ایک چھڑی ہاتھ‬
‫کا ان گمراہوں سے کوئی تعلق نہیں اور وہ ایک سچے اور پاکباز مسلمان تھے۔ اس کے بعد ؐ‬
‫میں لی اور تمام بتوں کو اس کے ذریعے سے منہ کے بل گرا دیا اور زبان مبارک پر یہ الفاظ رواں ہو گئے۔‬
‫‘‘حق آگیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل کوتو ملیا میٹ ہی ہو جانا ہے۔’’‬
‫اس کے بعد دروازہ کھال اور لوگ آنے لگے۔ اسی جگہ وہ عظیم واقعہ پیش آیا جس میں قریش مکہ کے بڑے بڑے‬
‫آپ نے ان سب کو معاف کر دیا اور کہا کہ جس طرح یوسف علیہ‬
‫آپ کے سامنے آئے اور ؐ‬
‫مجرمین گردنیں نہوڑائے ؐ‬
‫ت یوسفی کو آگے بڑھاتے ہوئے تمھیں آزاد کرتا ہوں۔‬
‫السالم نے اپنے مجرم بھائیوں کو معاف کیا تھا۔ آج میں بھی سن ِ‬
‫اس کے بعد کا واقعہ بھی ایک عجیب واقعہ تھا۔‬
‫آپ نے حضرت ؓ‬
‫بالل کو حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر چڑھو اور ہللا کی توحید کا نغمہ ۔۔۔ یعنی اذان دو۔۔۔ جب‬ ‫ؐ‬
‫حضرت ؓ‬
‫بالل چھت پر چڑھنے لگے تو مکہ کے مفتوح ‪ ،‬مگر نسلی تعصب کے مارے لوگ آپس میں چہ میگوئیاں‬
‫!کرنے لگے کہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں۔ ایک حبشی غالم ہمارے سامنے کعبہ کی چھت پر چڑھ رہا ہے‬
‫ایک قریشی سردار سعید بن العاص کے کچھ رشتے دار کھڑے تھے‪ ،‬وہ بولے‪’’ :‬اچھا ہوا کہ سعید یہ منظر دیکھنے‬
‫‘‘سے پہلے ہی مر گیا ورنہ اسے آج ایک کالے کو کعبہ کی چھت پر کھڑے ہونے کا تکلیف دہ منظر دیکھنا پڑتا۔‬
‫ان لوگوں سے جب یہ برداشت نہ ہوا تو وہ حارث بن ہشام کے پاس گئے اور کہا‪’’ :‬آپ نے دیکھا نہیں‪ ،‬یہ غالم کہاں‬
‫‘‘جا چڑھا ہے۔‬
‫حارث نے بے بسی سے کہا‪’’ :‬تم جانے دو ‪ ،‬اگر ہللا نے اس غالم کی حرکت کو ناپسند کیا تو وہ خود ہی اسے سزا‬
‫‘‘دے گا۔‬
‫عزی ‪ ،‬منات وغیرہ ؓ‬
‫بالل پر‬ ‫ٰ‬ ‫اب مشرکین خاموش ہو گئے۔ ان کی ایک ہی امید باقی تھی۔ وہ یہ کہ ان کے دیوتا الت‪،‬‬
‫اپنا قہر نازل کریں گے۔ وہ اسی امید موہوم کے انتظار میں تھے کہ وادی مکہ میں ؓ‬
‫بالل کی شیریں آواز گونجی ۔۔۔ ہللا‬
‫اکبر۔۔۔ ہللا اکبر۔۔۔‬
‫مکہ کی خاموش فضا میں علی االعالن ہللا کے ایک اور محمدصلی ہللا علیہ وسلم کے رسول ہونے کی گواہی دی جا‬
‫رہی تھی۔ یہ بت پرستی کے خاتمے اور دین توحید کی سربلندی کا آفاقی اعالن تھا جسے قیامت تک جاری و ساری‬
‫رہنا تھا۔‬
‫***‬

‫فتح مکہ کے بعد مدینہ منورہ میں ایک دن حضرت ؓ‬


‫بالل کے پاس ان کا بھائی آیا۔ یہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔‬
‫حضرت ؓ‬
‫بالل اگرچہ اپنے بھائی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے لیکن یہ بھی اچھی طرح سمجھتے تھے کہ خاندانی‬
‫رشتوں کی پروا نہ کرنا اسالم کی تعلیمات کے خالف ہے۔ اس لیے بڑے تپاک سے ملے اور آنے کا مدعا پوچھا۔‬
‫بھائی نے کہا‪’’ :‬میں یمن سے آ رہا ہوں اور وہاں ایک خاتون کے گھر والوں سے شادی کے سلسلے میں بات چل‬
‫رہی ہے۔ منگنی ابھی نہیں ہوئی۔ انھوں نے میرا حسب نسب پوچھا تو میں نے بتا دیا کہ میں ؓ‬
‫بالل بن رباح کا بھائی‬
‫‘‘ہوں۔ انھوں نے کہا کہ اگر ؓ‬
‫بالل تمھارے ساتھ رشتہ مانگنے آئیں تو ہمیں کوئی انکار نہیں ہو گا۔‬
‫رسول ہللا سے اجازت لے کر تمھارے ہمراہ یمن چلتا ہوں۔‬
‫ؐ‬ ‫‘‘ ؓ‬
‫بالل بولے‪’’ :‬ٹھیک ہے‪ ،‬میں‬
‫اجازت مل گئی اور وہ بھائی کے ہمراہ یمن جا پہنچے۔ متعلقہ خاندان کے گھر پہنچے اور ان الفاظ میں اپنا موقف بیان‬
‫کیا۔‬
‫میں ؓ‬
‫بالل بن رباح ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ یہ بد اخالق بھی ہے اور بد دین (غیر مسلم) بھی‪ ،‬اگر تم اسے رشتہ ’’‬
‫‘‘دینا چاہو تو ضرور دو اور نہیں دینا چاہتے تو بھی مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔‬
‫ان کی اس صاف گوئی سے بھائی کو رشتہ ملنے سے انکار ہو گیا اور وہ ناراض ہو گیا‪ ،‬مگر ؓ‬
‫بالل کو بھال سچ‬
‫بولنے سے کون منع کر سکتا تھا۔‬
‫یمن ہی میں قیام کے دوران میں ان کے ایک دوست نے مشورہ دیا ‪’’ :‬اے ؓ‬
‫بالل اب آپ کے پاس مناسب روزگار بھی‬
‫‘‘!ہے‪ ،‬شادی کیوں نہیں کر لیتے‬
‫کچھ سوچ بچار کے بعد راضی ہو گئے اور مشورہ دینے والے ہی کو کہا کہ کوئی مناسب خاتون تالش کریں۔ کچھ‬
‫دنوں کے بعد انھیں ایک خاتون ہند الخوالنیہ کے بارے میں بتایا گیا۔‬
‫ؓ‬
‫‪:‬بالل خاتون کے گھر چلے گئے اور اپنا مدعا ان الفاظ میں بیان کیا‬
‫میں ؓ‬
‫بالل بن رباح ہوں۔ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کا صحابی ہوں۔ حبشی غالم رہا ہوں۔ گمراہ بھی تھا۔ ہللا نے ’’‬
‫ہدایت بخشی۔ غالمی سے نجات دالئی۔ اب نکاح کی غرض سے آیا ہوں۔ مجھے قبول کرو گے تو الحمدہلل اور اگر‬
‫‘‘!انکار کرو گے تو ہللا اکبر‬
‫‘‘خاندان والوں نے جواب دیا‪’’ :‬ہمیں مہلت دیجئے‪ ،‬ہم رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے مشورہ کرنا چاہیں گے۔‬
‫!حضرت ؓ‬
‫بالل کو بھال کیا اعتراض تھا‬
‫وہ لوگ مدینہ آئے۔ لڑکی کے بھائی رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے ملے اور ؓ‬
‫بالل کے بارے میں پوچھا‪’’ :‬کیا یہ‬
‫‘‘ہمارے خاندان کے قابل ہے۔‬
‫حضور نے حیرت سے کہا‪’’ :‬تمھارا ؓ‬
‫بالل سے کیا مقابلہ؟ تم لوگوں کا ایک جنتی آدمی سے کیا مقابلہ؟ ‘‘ یہ جملہ‬ ‫ؐ‬
‫بہت بڑا جملہ تھا۔ لڑکی کے خاندان کی آنکھیں کھل گئیں۔ فورا ً حضرت ؓ‬
‫بالل کو ہاں کر دی اور حضرت ؓ‬
‫بالل گھر‬
‫والے ہو گئے۔‬
‫دونوں میاں بیوی میں بڑی محبت تھی۔ ایک دن باتوں باتوں میں حضرت ؓ‬
‫بالل نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے‬
‫بارے میں ایک بات کی۔ بیوی نے مذاق میں یا سنجیدگی سے اسے نہ مانا۔ حضرت ؓ‬
‫بالل ناراض ہو گئے۔ غصے سے‬
‫آپ ؓ‬
‫بالل کے مزاج کو اچھی طرح‬ ‫رسول ہللا کی محفل میں چلے گئے۔ ؐ‬
‫ؐ‬ ‫گھر سے باہر چلے گئے۔ اسی حالت میں‬
‫سمجھتے تھے۔ جان گئے۔ پوچھا تو ؓ‬
‫بالل نے رنج اور دکھ سے سارا ماجرا کہہ سنایا۔‬
‫رسول ہللا نے حضرت ؓ‬
‫بالل کو وہیں چھوڑا اور ان کے گھر گئے۔‬ ‫ؐ‬
‫‘‘ان کی بیوی سے پوچھا۔ ’’کیا ؓ‬
‫بالل گھر پر ہیں؟‬
‫‘‘!بولیں۔ ’’نہیں‬
‫‘‘کیا ؓ‬
‫بالل تم سے ناراض ہے؟’’‬
‫‘‘!نہیں ۔۔۔ وہ تو مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں’’‬
‫دیکھو‪ؓ ،‬‬
‫بالل کبھی میرے بارے میں جھوٹ نہیں بولتے‪ ،‬وہ میرے حوالے سے جو کہیں‪ ،‬سچ ہو گا اور اسے سچ ’’‬
‫‘‘!ہی سمجھا کرو! اور یاد رکھو‪ ،‬اگر تم ؓ‬
‫بالل کو ناراض رکھو گی تو تمھاراکوئی عمل قبول نہیں ہو گا‬
‫رسول ہللا واپس پلٹے حضرت ؓ‬
‫بالل سمجھ گئے اور گھر آئے توبیوی کا مزاج بدال ہوا پایا۔ اس نے دل کی گہرائیوں‬ ‫ؐ‬
‫اور آنسوؤں کی ندامت سے معافی مانگی۔‬
‫گھر کی رونق ‪ ،‬مسرت پھر لوٹ آئی۔‬
‫***‬
‫عائشہ‬
‫ؓ‬ ‫رسول بھی حضرت‬
‫ؐ‬ ‫یہ معمول تھا کہ فجر کی اذان کے بعد لوگ مسجد میں آ جاتے اور تھوڑی دیر بعد ہللا کے‬
‫صحابہ کے علم میں‬
‫ؓ‬ ‫حضور معمول کے مطابق باہر تشریف نہ الئے۔‬
‫ؐ‬ ‫کے حجرے سے تشریف لے آتے۔ مگر اس دن‬
‫یہ بات تھی کہ آپ کے سر میں شدید تکلیف ہے۔ اس لیے سب کے چہروں پر پریشانی صاف جھلک رہی تھی۔ اس‬
‫ابوبکر ان کی نیابت کر چکے تھے۔ مگر ایسا‬
‫ؓ‬ ‫سے قبل بھی رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم عاللت کے باعث حضرت‬
‫عائشہ صدیقہ کے کمرے کے پاس گئے‬
‫ؓ‬ ‫آپ کی اجازت سے ہی ہونا تھا۔ چنانچہ یہ حضرت ؓ‬
‫بالل ہی تھے جو حضرت‬ ‫ؐ‬
‫حضور سے فرما دیں کہ لوگ نماز کے لیے‬
‫ؐ‬ ‫بریرہ آئیں تو ان سے کہا‬
‫ؓ‬ ‫رحمت کی خادمہ‬
‫ؐ‬ ‫اور دروازہ کھٹکھٹایا‪ ،‬نبی‬
‫‘‘منتظر ہیں۔‬
‫فاطمہ عبادت‬
‫ؓ‬ ‫فاطمہ بھی موجود تھیں۔ حضرت‬
‫ؓ‬ ‫عائشہ اور حضرت‬
‫ؓ‬ ‫حضور تک پیغام پہنچایا۔ وہاں حضرت‬
‫ؐ‬ ‫بریرہ نے‬
‫ؓ‬
‫حضور تک ؓ‬
‫بالل کا پیغام پہنچایا۔‬ ‫ؐ‬ ‫کرنے اپنے والد ماجد کے گھر قیام فرما تھیں۔ انھوں نے‬
‫آپ نے پوچھا‪’’ :‬کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔‬
‫‘‘ ؐ‬
‫آپ کو بتایا گیا کہ انتظار ہو رہا ہے۔ تب آپ نے وضو کے لیے پانی رکھنے کے لیے کہا۔‬
‫ؐ‬
‫آپ گر پڑے۔‬
‫آپ پر غشی طاری ہو گئی اور ؐ‬
‫آپ وضو کے لیے خود اٹھے۔ مگر طبیعت اتنی ناساز تھی کہ اٹھتے ہی ؐ‬
‫ؐ‬
‫دیا۔حضور جلد ہی ہوش میں آگئے اور پھر نماز کے متعلق دریافت‬
‫ؐ‬ ‫آپ کی طرف دوڑیں اور سنبھاال‬
‫دونوں خواتین ؐ‬
‫آپ کو آرام کرنے کا مشورہ دیا اور مسلمانوں کو اپنے طور پر نماز پڑھ لینے کی اجازت‬
‫عائشہ نے ؐ‬
‫ؓ‬ ‫فرمایا۔ حضرت‬
‫دینے کے لیے کہا۔‬
‫ابوبکر کو مسلمانوں کی امامت کرنے کا حکم دے چکے‬
‫ؓ‬ ‫آپ پہلے بھی اپنی اسی عاللت کے دوران میں حضرت‬
‫ؐ‬
‫ابوبکر سے کہیں کہ مسلمانوں کو نماز پڑھائیں۔‬
‫ؓ‬ ‫آپ نے یہی فرمایا کہ‬
‫تھے۔ آج بھی ؐ‬
‫آپ کا پیغام پہنچا دیا گیا۔ اتنے‬ ‫آپ کا پیغام لے کر دروازے تک گئیں۔ حضرت ؓ‬
‫بالل ابھی تک موجود تھے۔ انھیں ؐ‬ ‫بریرہ ؐ‬
‫ؓ‬
‫میں مسجد کے دروازے سے ابوبک ؓر آتے ہوئے دکھائی دیے۔ حضرت ؓ‬
‫بالل جلدی سے ان کی طرف لپکے اور انھیں‬
‫رسول ہللا کا حکم پہنچایا۔ حکم کی تعمیل کی گئی۔ نماز جاری تھی کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ‬
‫ؐ‬ ‫نماز پڑھانے کے لیے‬
‫آپ حضرت‬
‫آپ کی آمد کا احساس ہو گیا۔ جب ؐ‬
‫صحابہ کو ؐ‬
‫ؓ‬ ‫وسلم سر پر پٹی باندھے‪ ،‬مسجد میں تشریف لے آئے۔‬
‫حضور امامت کرائیں‬
‫ؐ‬ ‫آپ کی موجودگی کا احساس ہو گیاتو وہ پیچھے ہٹے تاکہ‬
‫ابوبکر کے قریب آئے تو انھیں بھی ؐ‬
‫ؓ‬
‫ابوبکر کے دائیں جانب بیٹھ‬
‫ؓ‬ ‫آپ حضرت‬
‫آپ نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں نماز جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔ ؐ‬
‫مگر ؐ‬
‫گئے اور بیٹھے بیٹھے ہی نماز مکمل کی۔‬
‫***‬

‫اس واقعے کے چند دن بعد چاشت کے قریب ؓ‬


‫بالل کو ایک ایسی خبر ملی جس کو برداشت کرنا ان کے بس سے باہر‬
‫نبوی کی طرف لپکے۔ یہ خبر اگرچہ‬
‫ؐ‬ ‫رسول رحلت فرما گئے‪ ،‬وہ فورا ً مسجد‬
‫ؐ‬ ‫ہو رہا تھا۔ انھوں نے سنا کہ ہللا کے‬
‫اتنی غیر متوقع نہیں تھی ‪،‬مگر پھر بھی حضرت ؓ‬
‫بالل پر بجلی بن کر گری۔‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے چند روز پیشتر ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی تھی‪ ،‬لیکن نماز کے بعد‬
‫رسول مسلمانوں‬
‫ؐ‬ ‫کرام کو جو نصیحتیں کی تھیں ان سے جاننے والے جان چکے تھے کہ ہللا کے‬
‫ؓ‬ ‫انھوں نے صحابہ‬
‫رسول ہللا کی طبیعت نہ سنبھل سکی اور وہ بستر پر ہی‬
‫ؐ‬ ‫کو آخری نصیحتیں کر رہے ہیں۔ ظہر کی اس نماز کے بعد‬
‫رسول اس دنیا سے‬
‫ؐ‬ ‫نماز ادا کرتے رہے۔ ان حاالت میں یہ خبر قطعی اچانک نہیں تھی ‪ ،‬لیکن یہ احساس کہ ہللا کے‬
‫چلے گئے ہیں۔ مسلمان ان کے سایہ سے محروم ہو گئے ہیں۔ ایک بہت بڑا سانحہ تھا۔ یہ ایک ایسا صدمہ تھا جس کو‬
‫نبوی میں پہنچے تو وہاں‬
‫ؐ‬ ‫فوری طور پر برداشت کرنے کا کسی میں یارانہ تھی۔۔۔ چنانچہ جب حضرت ؓ‬
‫بالل مسجد‬
‫کرام بے قرار ہو کر گریہ و زاری کر رہے تھے۔ ؓ‬
‫بالل کی آنکھوں سے آنسوؤں کی‬ ‫ؓ‬ ‫ایک کہرام برپا تھا۔ صحابہ‬
‫برسات جاری تھی۔ وہ اپنے محسن اور پیارے آقا کا آخری دیدار کرنے حجرے میں چلے گئے۔ رخ انور دیکھا۔ درود‬
‫و سالم کا ہدیہ پیش کیا اور خاموشی سے اپنے گھر چلے آئے۔ غم و اندوہ نے انھیں دنیا و مافیہا سے بے خبرکر دیا‬
‫تھا۔‬
‫کریم کا جسد مبارک‬
‫ؐ‬ ‫مدینہ منورہ کی فضا پر غم کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے۔ اسی کیفیت میں پہلی رات آئی۔ نبی‬
‫ابھی دفن نہیں کیا گیا تھا۔‬
‫حضرت ؓ‬
‫بالل یہ رات بھال کیسے سو سکتے تھے۔انھوں نے سونے کی بڑی کوشش کی تھی لیکن سوچوں کے‬
‫متحرک ہیولے انھیں پریشان کرتے رہے۔ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی رفاقت ‪ ،‬ان کی باتیں ‪ ،‬ان کی شفقتیں‪ ،‬ان‬
‫کی یادیں رہ رہ کر ذہن کے پردے پر نمودار ہو رہی تھیں اور ہر آن ان کے غم کو زیادہ کر رہی تھیں۔ انھوں نے‬
‫لمحہ لمحہ جاگ کر ساری رات آنکھوں میں بتا دی۔ یہ بے قرار اور بے چین رات گزری تو ؓ‬
‫بالل اٹھے اور مسجد کی‬
‫طرف چل دیے۔‬
‫حضور مسجد‬
‫ؐ‬ ‫بوجھل قدموں سے مسجد پہنچے۔ نظر بے اختیار مسجد سے ملحقہ اس دروازے پر پڑی جہاں سے‬
‫الرسول کہتے تھے۔ ساری رات روتے رہنے سے آنکھوں سے‬
‫ؐ‬ ‫میں داخل ہوتے تھے۔ مسلمان اس دروازے کو باب‬
‫الرسول پر پڑا تاال ایک اندوہناک منظر تھا۔ حضرت ؓ‬
‫بالل کی آنکھیں پھر ڈبڈبا‬ ‫ؐ‬ ‫آنسو خشک ہو چکے تھے۔ لیکن باب‬
‫گئیں۔‬
‫سوچنے لگے‪ ،‬اب کبھی بھی اس دروازے سے نکل کر ‪ ،‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم ہمارے پاس نہینآئیں گے‪ ،‬نہ‬
‫حضور! لوگ امامت کے لیے منتظر ہیں۔ انھی‬
‫ؐ‬ ‫آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ عرض کر سکے گا کہ‬ ‫کبھی ؓ‬
‫بالل ؐ‬
‫سوچوں میں الجھے دکھی اور غمگین ؓ‬
‫بالل اذان دینے لگے۔‬
‫ہللا اکبر ۔۔۔ ہللا اکبر ۔۔۔‬
‫اشہد اال الہ اال ہللا دو بار کہنے کے بعد جب ان کی زبان نے اشہد ان کہا تو شدت کرب سے آگے کے الفاظ نہ نکل‬
‫سکے۔ محمد صلی ہللا علیہ وسلم کا لفظ زبان پر النے کی ہمت نہ رہی۔ ؓ‬
‫بالل رونے لگے۔ ہچکیاں لینے لگے۔ گھگھی‬
‫بندھ گئی۔‬
‫صحابہ بھی ضبط نہ کر سکے جس جس کے کانوں میں یہ آواز پڑی‪ ،‬بے اختیار چیخیں نکل پڑیں۔‬
‫ؓ‬
‫حضرت ؓ‬
‫بالل نے غم کی رکی ہوئی آندھی کو پھر سے چال دیا تھا۔ خاصی دیر رونے کے بعد اذان کے نامکمل رہ‬
‫جانے کے احساس نے انھیں اپنے آپ پر قابو پانے میں مدد دی اور انھوں نے گلوگیر اور لرزتی آواز میں باقی کے‬
‫کلمات کہہ کر اذان مکمل کی۔‬

You might also like