Professional Documents
Culture Documents
کا ایک یہودی اپنے گھر کی چھت پر کھڑا سورج ڈوبنے سے پہلے کا منظر دیکھ رہا تھا۔ پرندوں کی قطاریں شام کو
اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہی تھیں۔ ان کی چہچہاہٹ اسے بڑی بھلی لگ رہی تھی۔ دور افق میں سورج کسی سرخ
ٹکیا کی مانند غروب ہو رہا تھا آخر سورج غروب ہو گیا۔ پرندوں کے نغمے مدھم پڑتے پڑتے آخر معدوم ہو گئے
‘‘!اور فضا میں ایک شیریں اور با رعب آواز بلند ہوئی۔ ’’ہللا اکبر۔۔۔ ہللا اکبر
یہودی کے کانوں سے یہ آواز سفر کرتی ہوئی اس کے دل تک جا پہنچی اسے یوں لگا جیسے یہ آوا زاس کے جسم
کے ہر رونگٹے میں پہنچ گئی ہے۔
اس یہودی کی عجیب کیفیت تھی۔ حضرت ؓ
بالل کی آواز سے اس کے بدن میں سنسنی دوڑ رہی تھی۔ مگر اس کا
تعصب اسے یہ آواز نہ سننے کا مشورہ دے رہا تھا ،مگر اس نے اپنے آپ کو اس مشورے پر عمل نہ کرنے پر
مجبور پایا۔ الکھ کوشش اور ارادے کے باوجود بھی وہ حضرت ؓ
بالل کی آواز سے اپنے کام بند کرنے میں کامیاب نہ
ہو سکا۔ اس نے پوری اذان سنی۔
اذان پوری ہوئی تو وہ بڑبڑایا۔ اپنے آپ سے جھگڑا۔ ’’مجھے یہ آواز نہیں سننی چاہیے۔ یہ آواز جادوئی ہے ،ایک
‘‘طلسم ہے ،اس لیے میں یہ مجھے فتنے میں ڈال دیتی ہے۔
مگر وہ پھر اپنے آپ سے کہتا کہ وہ ہر دفعہ اذان سننے کے بعد یہی کچھ سوچتا اور اپنے آپ سے یہی کچھ کہتا
ہے ،مگر آج اس کے اندر کا ردِعمل پہلے سے بہت مضبوط تھا۔ وہ ایسے طریقے سوچنے لگا کہ جو اس آواز کو
ہمیشہ کے لیے خاموش کر دے۔ سوچ سوچ کر اس کے شیطانی ذہن میں ایک منصوبہ آ ہی گیا۔ اسے یقین تھا کہ وہ
اپنے منصوبے میں یقیناًکامیاب ہو گا۔ حاالت اس کی کامیابی کے لیے بڑے سازگار تھے۔
***
حضرت ؓ
بالل مدینہ کے بازار میں خریداری کی غرض سے آئے تھے۔ ان کے ہمراہ ایک غریب اور مفلوک الحال
مسلمان تھا۔ انھیں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے خصوصی ہدایت ملی تھی کہ وہ بازار سے اسے غلہ ،کمبل اور
کپڑے خرید کر دیں۔ انھوں نے یہ ساری خریداری قرض پر کرنا تھی۔
اس وقت مسلمانوں پر تنگ دستی کے حاالت تھے۔ انصار سے جو کچھ بن پڑا تھا انھوں نے اس سے زیادہ کر دکھایا
تھا ،مگر اس کے باوجود نادار مہاجر مسلمانوں کی ایک تعداد ایسی تھی جو بے سہارا تھی اور ان کے لیے کچھ
میسر نہ تھا۔ ایسے موقعوں پر رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے کئی مرتبہ قرض لے کر ضرورت مندوں کی
ضرورت پوری کی تھی۔ بعض اوقات یہ قرض کسی غیر مسلم سے لینا پڑ جاتا تھا۔ مدینہ میں یہودی مالدار تھے اور
وہی منفعت پر قرض دیتے تھے۔ اس وقت تک سود حرام نہ ہوا تھا۔ اس وقت حضرت ؓ
بالل کسی ایسے شخص کی
تالش میں تھے جس سے انھیں قرض مل جائے یا مطلوبہ چیزیں ادھار میسر آجائیں ،مگر ابھی تک انھیں اس میں
کامیابی نہیں ہوئی تھی۔
یہی وہ موقع تھا جس کی ان کی اذان سے تنگ یہودی کو تالش تھی۔ وہ خاصی دیر سے حضرت ؓ
بالل کو دیکھ رہا
:تھا۔ جب تین چار جگہ سے انھیں انکار ہوا تو وہ سامنے آیا اور بوال
‘‘دوست لگتا ہے تمھیں قرض چاہیے۔’’
جی ہاں! آپ کا خیال درست ہے۔‘‘ ؓ
بالل نے قدرے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔’’
تو پھر آئیے! میرے پاس گنجایش ہے اور میں آپ کو جانتا بھی ہوں۔ آپ موذن ہیں اور ؓ
بالل ہے آپ کا نام۔ مجھے ’’
‘‘آپ پر اعتماد ہے آپ جتنا چاہیں قرض مل جائے گا۔
حضرت ؓ
بالل یہودی کی اس فراخ دالنہ پیشکش پر حیران ہوئے اور سوچنے لگے کہ کہیں دال میں کچھ کاال تو نہیں۔
وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ مدینے کے یہودی تو روپے پیسے کے بڑے حریص ہیں ،مگر پھر اپنی مجبوری کا
خیال آیا اور انھوں نے اس سے قرض لینے کا ارادہ کر لیا۔ انھوں نے اپنی ضرورت بتائی کہ کچھ غلہ اور کپڑے
:خریدنے ہیں اور اسی قدر قرض چاہیے۔ یہودی بوال
دیکھو ؓ
بالل قرض تو میں آپ کو ضرور دوں گا مگر ضمانت کے طور پر آپ کی کوئی چیز میرے پاس رہے گی ’’
‘‘یہ میرا اصول ہے۔
‘‘ہللا کے بندے اگر میرے پاس کوئی چیز ہوتی تو کیا میں تم سے قرض لیتا؟’’
‘‘تو ٹھیک ہے ،اس شرط پر قرض لے لیں کہ عدم ادائیگی کی صورت میں تم میری ملکیت میں آجاؤ گے۔’’
اس کی شرط نے حضرت ؓ
بالل کے لبوں پر خاموشی کی مہر لگا دی۔ یہ دیکھ کر یہودی پھر بوال۔
آپ پریشان نہ ہوں ،مجھے یقین ہے کہ آپ وقت پر ادائیگی کر دیں گے۔ یہ تو محض شرط ہے جو میں نے اپنی ’’
‘‘تسلی کے لیے عائد کی ورنہ مجھے آپ پر اعتماد نہ ہوتا تو قرض ہی کیوں دیتا۔
‘‘حضرت ؓ
بالل نے کچھ تامل کیا اور پھر ہامی بھر لی۔ یہودی کی آنکھیں چمکیں اور بوال۔ ’’ادائیگی کب ہو گی؟
مہینے کے آخر پر!‘‘ ٹھیک ہے آپ اگر رقم واپس نہ کر سکے تو اس کے عوض میں آپ پر اپنی ملکیت ظاہر کر ’’
سکوں گا۔‘‘ اور یہودی نے قبیلہ بنو نجار کے معززین کے سامنے حضرت ؓ
بالل کو قرض کی رقم دے دی۔ حضرت
بالل رقم لے کر خریداری کرنے چلے گئے اور یہودی دل ہی دل میں خوش ہونے لگا۔ اسے یقین تھا کہ حضرت ؓ
بالل ؓ
یا ان کے رسول محمد عربی صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس مہینے کے آخر تک اتنی رقم جمع نہیں ہو سکے گی اور ؓ
بالل
کو معاہدے کے مطابق اس کی غالمی قبول کرنا پڑے گی اور پھر وہ اسے اذان نہ دینے کا پابند کرے گا۔
اس مہینے یہودی جب بھی حضرت ؓ
بالل کی زبانی ہللا کی توحید کا نغمہ سنتا دل ہی دل میں اپنے آپ کو دالسا دیتا کہ
بس ایک ہی ماہ کی بات رہ گئی ہے۔ اس کے بعد اس آواز کا طلسم ختم ہو جائے گا۔
اور یہ اس دن کی بات ہے جب مہینہ ختم ہونے میں صرف چار دن رہتے تھے۔
حضرت ؓ
بالل مسجد نبوی کی طرف جا رہے تھے کہ انھیں اپنے سامنے سے وہی یہودی کچھ دوسرے تاجروں کے
:ہمراہ آتا دکھائی دیا۔ قریب آکر وہ خاصے درشت لہجے میں حضرت ؓ
بالل سے مخاطب ہوا
‘‘اے حبشی! تمھیں معلوم ہے مہینہ ختم ہونے میں کتنے دن باقی رہ گئے ہیں؟’’
‘‘!حضرت ؓ
بالل بولے’’ :ہاں مجھے معلوم ہے باقی چار دن رہ گئے ہیں
‘‘تو کیا تم قرض کی ادائیگی کر سکتے ہو؟’’
نہیں!‘‘ ان کی آواز میں ایک انجانا خوف صاف جھلک رہا تھا۔’’
تو پھر معاہدے کے مطابق میں تمھیں اپنا غالم بناؤں گا اور سن لو یہ قرض میں نے تمھیں یا تمھارے صاحب ’’
(رسول صلی ہللا علیہ وسلم) کے احترام میں نہیں دیا تھا۔ بلکہ تمھیں اپنا غالم بنانے کے لیے دیا تھا اور جب تم
‘‘میرے قبضے میں آؤ گے تم سے ریوڑ چرواؤں گا اور تم وہی کام کرو گے جو غالمی میں کیا کرتے تھے۔
یہودی اپنی دھن میں بکتا گیا اور اپنی سازشی ذہنیت کا کھل کر اظہار کرتا گیا۔ حضرت ؓ
بالل کی آنکھوں کے سامنے
ایک مرتبہ پھر امیہ بن خلف آگیا۔ وہ سوچنے لگے کیا اس بد طینت یہودی کی شکل میں امیہ پھر زندہ ہو گیا ہے؟ کیا
ایک دفعہ پھر انھیں غالمی کی ذلت سے دوچار ہونا پڑے گا؟
یہودی حضرت بال ؓل کو پریشان کرکے آگے چال گیا اور ؓ
بالل سوچنے لگے کہ انھوں نے تو ابھی تک اس سارے
معاملے کا رسول عربی صلی ہللا علیہ وسلم سے ذکر تک نہیں کیا اور قرض لینے کا تذکرہ بھال وہ کرتے کیسے!
آپ کے خزانچی تھے۔ مالی حالت آپ کے پاس اب کوئی رقم نہیں۔ حضرت ؓ
بالل خود ؐ انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ ؐ
کا اندازہ بھال ان سے بڑھ کر اور کسے ہو سکتا تھا لیکن اب! اب تو بتانا ضروری ہو گیا ہے۔
اسی پریشانی کی حالت میں اذان دی۔ نماز پڑھی اور فراغت کے بعد حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے گھر تشریف لے
گئے مالقات کی اجازت چاہی اور حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں گزارش کی۔
آپ پر فدا ہوں۔ آپ کے علم میں ہے کہ ایک مسلمان حاجت ’’
اے ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم میرے ماں باپ ؐ
مند کے لیے میں نے قرض لیا تھا۔ یہ قرض میں نے ایک یہودی سے لیا تھا۔ وہ اب واپسی کا تقاضا کر رہا ہے۔ اگر
ت حال یہ ہے کہ
میں چار دن تک قرض واپس نہ کر سکا تو اس کے عوض وہ مجھے اپنے پاس رکھ لے گا۔ صور ِ
اب ادائیگی کرنے کے لیے نہ میرے پاس کچھ ہے اور نہ آپ کے پاس۔ یہودی مجھے ذلیل کرنے پر تال بیٹھا ہے۔ آپ
‘‘اجازت دیں تو مسلمان دوستوں سے تعاون کی درخواست کی جائے؟
آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے معاملے پر غور کیا اور یہ رائے دی کہ ان حاالت میں ایسا کرنا مناسب نہ ہو گا۔
دراصل آپ ؐاچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمان تو ان کے حکم پر اپنا سب کچھ ال کر ان کے حوالے کر دیں گے،
چنانچہ ایسا کرنا ان پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالنے کے مترادف ہو گا۔
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کا یہ جواب حضرت ؓ
بالل کے لیے غیر متوقع تھا ،مگر وہ کچھ نہ بولے۔ البتہ پریشانی
چہرے پر ظاہر تھی۔ وہ سیدھے گھر گئے۔ سوچوں کا شکار ،اندیشوں سے دل فگار ،غالمی کے خطرے سے بے
حال۔ اس کیفیت نے انھیں ماضی کی تلخ یادوں کی وادی میں دھکیل دیا۔ غالمی کے دن ،اذیت کے لمحات ،ذلت کا
احساس ان پر اس قدرطاری تھا کہ نیند ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ خاصی دیر کروٹیں بدلتے رہے۔ پھر
اٹھے۔ اپنی تلوار ،میان ،نیزہ اور جوتے اپنے قریب رکھے اور پھر لیٹ گئے۔ پوری رات وہ اس طرح بے چین رہے۔
نبویکی طرف قدم اٹھانے لگے۔ راستے میں
سو جاتے ،مگر پھر بیدار ہو جاتے۔ آخر صبح ہوئی۔ وہ تیار ہو کر مسجد ؐ
صحابی نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کا یہ پیغام دیا کہ حضور انورصلی ہللا علیہ وسلم انھیں یاد فرما
ؓ انھیں ایک
رہے ہیں۔
رسول مجھے عام مسلمانوں
ؐ حضرت ؓ
بالل راستے بھر سوچتے رہے اور اپنے آپ سے پوچھتے رہے کیا ہللا کے
سے مدد لینے کی اجازت دیں گے یا ہللا کی طرف سے وسعت آ گئی ہے۔ اس کیفیت میں دربار رسالت میں حاضر
حضور نے فرمایا’’ :خوشخبری ہو بالل ہللا نے تمھارا قرض اتارنے کابندوبست کر دیا ہے۔
ؐ ‘‘ہوئے۔
بے اختیار ان کی زبان سے الحمدہلل کے کلمات نکلے۔
حضور نے فرمایا’’ :کیا تم نے راستے میں لدے ہوئے سامان کے چار اونٹ نہیں دیکھے؟
ؐ ‘‘
‘‘ ؓ
بالل نے جواب دیا۔ ’’نہیں ،میں نے انھیں نہیں دیکھا۔’’
تم انھیں باہر دیکھ سکتے ہو ،یہ چاروں اونٹ تمھارے اختیار میں دیے جاتے ہیں۔ تم انھیں لو ،اور اپنا قرض ادا ’’
‘‘کرو۔
حضرت ؓ
بالل مسجد سے باہر تشریف لے گئے۔ وہاں کپڑے اور غلے سے لدے چار اونٹ ان کے انتظار میں تھے۔ یہ
اونٹ سامان سمیت ایک امیر تاجر مسلمان نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر بھیجے
تھے۔ ؓ
بالل نے ہللا کا شکر ادا کیا اور اونٹوں سے سامان اتار کر انھیں چادر میں ڈاال اور خوشی خوشی مسجد واپس
گئے۔ اذان دی۔ رسول ؐہللا کی امامت میں نماز پڑھی اور البقیع کی طرف چل دیے۔ یہاں ایک جگہ اعالن کیا۔ ’’جس
‘‘نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے قرض لینا ہے ،وہ حاضر ہو جائے۔
لوگ آنے لگے اور حضرت ؓ
بالل سامان میں سے انھیں دے کر حساب چکانے لگے۔ آخر وہ یہودی بھی آیا۔ حضرت
ؓ
بالل اس کی مکار کی شکل دیکھ کر کہنے لگے’’ :تم اپنا قرض واپس لو۔ آئندہ میں تم سے کبھی قرض نہیں لوں
‘‘گا۔
یہودی نے سازش کی تھی اور ہللا نے اسے ناکام بنا دیا۔ اسے اپنی ناکامی پر سخت افسوس تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ
عزت و ذلت انسان کے بجائے ہللا کے ہاتھ میں ہے۔
حضرت ؓ
بالل نے سارا قرضہ اتار دیا اور ان کے پاس صرف دو اوقیہ سونا باقی بچا۔ وہ واپس مسجد نبوی پہنچے۔
دوپہر کا وقت ہو چکا تھا۔ دیکھا تو حضورصلی ہللا علیہ وسلم اکیلے مسجد میں تشریف فرما تھے۔ حضرت بال ؓل سے
‘‘دریافت فرمایا’’ :کیا قرض ادا ہو گیا ہے۔
رسول تمام قرض ادا ہو گیا ۔’’
ؐ ‘‘ہاں! ہللا کے
‘‘کیا کچھ باقی بچا؟’’
‘‘ہاں دو اوقیہ سونا بچا ہے۔’’
‘‘میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے اس کے بوجھ سے نجات دالؤ۔’’
آپ کو بتایا کہ اب کوئی سامان نہیں بچا اور نہ ہی حضرت ؓ
بالل نے وہ سونا بھی کسی محتاج کو دے دیا اور پھر ؐ
آپ نے ہللا کا شکریہ ادا کیا۔
کوئی محتاج اور سائل باقی بچا ۔ ؐ
زمانے کا پہیہ تیزی سے گردش کر رہا تھا۔ بدر کے بعد احد میں مشرکین مکہ کے ساتھ معرکہ ہوا۔ چند مسلمانوں کی
غلطی سے میدان کا پانسہ پلٹ گیا اور مسلمانوں کی میدان میں واضح فتح جلد ہی بہت بڑے نقصان میں بدل گئی۔
بالل اس غزوے میں موجود تھے ۔ پھر خندق کا موقع آیا اور ؓ
بالل نے دوسرے صحابہ کے ساتھ مٹی کھودی اور تن ؓ
دہی سے کام کیا۔ اس جنگ میں سارا عرب مدینے پر چڑھ آیا تھا ،لیکن ہللا کی مدد سے یہ ساری فوجیں مسلمانوں کا
کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ انسانیت کی رہنمائی کے لیے روشن کیے جانے واال اسالم کا یہ چراغ مشرکین عرب کی
پھونکوں سے نہیں بجھایا جا سکتا تھا۔
غزوۂ خندق کے بعد صلح حدیبیہ کا موقع آیا اور مسلمانوں نے مشرکین مکہ سے صلح کا معاہدہ ان کی مرضی کی
شرائط پر کیا اور نتائج اپنی مرضی کے حاصل کئے۔ امن ہونے کے سبب پورے عرب میں اسالم بڑی تیزی سے
پھیال اور آٹھ ہجری میں مسلمان علی االعالن مکہ پر حملہ آور ہوئے اور مکہ کی مغرور اور اکڑی گردنوں والے
صحابہ اکرام کا پاکیزہ قافلہ بال روک ٹوک مکہ میں داخل ہو
ؓ کفار میں اتنی ہمت نہ تھی کہ ان کا راستہ روک سکیں۔
گیا۔
اور پھر وہ دن بھی آگیا جس پر چشم فلک بھی حیران تھی اور اہل دنیا حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ۔ ؓ
بالل اور
صحابہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے ہمراہ ایک مرتبہ پھر بیت ہللا کی زیارت سے آنکھیں ٹھنڈی کر
ؓ دوسرے
رہے تھے۔ اس مرتبہ انھیں کوئی منع کرنے واال اور ایک ہللا کی عبادت پر ناک بھوں چڑھانے واال کوئی نہ تھا۔
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنی سواری پر بیٹھ کر خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کیا۔ پھر بیت ہللا کی طرف
متوجہ ہوئے اور اس کے دروازے کو مقفل پا کر حضرت ؓ
بالل کو حکم فرمایا کہ عثمان بن طلحہ کو تالش کریں۔
عثمان بن طلحہ کے پاس ہی بیت ہللا کے تالے کی چابی تھی۔
حضورکی خدمت میں حاضر ہوئے۔
ؐ عثمان بن طلحہ نے خاموشی کے ساتھ چابی لے کر حضرت ؓ
بالل کے ہمراہ
رسول ہللا کعبہ کے دروازے پر کھڑے رہے تھے۔
ؐ
ہللا کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ،اس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا ،اپنے بندے ’’
‘‘کی مددکی اور اس نے اکیلے تمام لشکروں کو شکست دی۔
حضور نے عثمان کو دیکھا او رکہا ’’ :اے عثمان ،الؤ چابیاں ادھر الؤ ،آج نیکی اور وفا کا دن ہے
ؐ ‘‘!
اسامہ بن زید اور عثمان بن طلحہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے۔ دروازہ بند کر دیا
ؓ آنحضورؓ ،
بالل، ؐ دروازہ کھوال گیا تو
رسول ہللا آگے آگے تھے اور ؓ
بالل ان کے پیچھے۔ اندر کمرے میں ہللا کے رسول نے دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر ؐ گیا۔
کعبہ کے اندر رکھے ہوئے بتوں کو دیکھا۔ فرشتوں کی تصویروں کو دیکھا۔ آپ کی تاسف بھری نگاہیں ایک تصویر
پر جا ٹکیں۔ یہ اس کعبہ کو تعمیر کرنے والے کی تصویر تھی۔ حضرت ابراہیم ؑ کی تصویر۔ تصویر میں ان کے ہاتھ
آپ
میں پانسے کے تیر تھے۔ (پانسے کے تیر قرعہ نکالنے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے) یہ تصویر دیکھ کر ؐ
:ضبط نہ کر سکے۔ فرمایا
ابراہیم ’’
ؑ ہللا ان تصویروں کو بنانے والے کو ہالک کرے۔ انھوں نے ہمارے ج ِد امجد کو پانسے پھینکنے واال بنا ڈاال۔
‘‘کا ان پانسوں سے بھال کیا تعلق؟
تعالی نے خود شہادت دی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ
ٰ آپ نے سورۂ آل عمران کی وہ آیت تالوت فرمائی جس میں ہللا
پھر ؐ
آپ نے ایک چھڑی ہاتھ
کا ان گمراہوں سے کوئی تعلق نہیں اور وہ ایک سچے اور پاکباز مسلمان تھے۔ اس کے بعد ؐ
میں لی اور تمام بتوں کو اس کے ذریعے سے منہ کے بل گرا دیا اور زبان مبارک پر یہ الفاظ رواں ہو گئے۔
‘‘حق آگیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل کوتو ملیا میٹ ہی ہو جانا ہے۔’’
اس کے بعد دروازہ کھال اور لوگ آنے لگے۔ اسی جگہ وہ عظیم واقعہ پیش آیا جس میں قریش مکہ کے بڑے بڑے
آپ نے ان سب کو معاف کر دیا اور کہا کہ جس طرح یوسف علیہ
آپ کے سامنے آئے اور ؐ
مجرمین گردنیں نہوڑائے ؐ
ت یوسفی کو آگے بڑھاتے ہوئے تمھیں آزاد کرتا ہوں۔
السالم نے اپنے مجرم بھائیوں کو معاف کیا تھا۔ آج میں بھی سن ِ
اس کے بعد کا واقعہ بھی ایک عجیب واقعہ تھا۔
آپ نے حضرت ؓ
بالل کو حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر چڑھو اور ہللا کی توحید کا نغمہ ۔۔۔ یعنی اذان دو۔۔۔ جب ؐ
حضرت ؓ
بالل چھت پر چڑھنے لگے تو مکہ کے مفتوح ،مگر نسلی تعصب کے مارے لوگ آپس میں چہ میگوئیاں
!کرنے لگے کہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں۔ ایک حبشی غالم ہمارے سامنے کعبہ کی چھت پر چڑھ رہا ہے
ایک قریشی سردار سعید بن العاص کے کچھ رشتے دار کھڑے تھے ،وہ بولے’’ :اچھا ہوا کہ سعید یہ منظر دیکھنے
‘‘سے پہلے ہی مر گیا ورنہ اسے آج ایک کالے کو کعبہ کی چھت پر کھڑے ہونے کا تکلیف دہ منظر دیکھنا پڑتا۔
ان لوگوں سے جب یہ برداشت نہ ہوا تو وہ حارث بن ہشام کے پاس گئے اور کہا’’ :آپ نے دیکھا نہیں ،یہ غالم کہاں
‘‘جا چڑھا ہے۔
حارث نے بے بسی سے کہا’’ :تم جانے دو ،اگر ہللا نے اس غالم کی حرکت کو ناپسند کیا تو وہ خود ہی اسے سزا
‘‘دے گا۔
عزی ،منات وغیرہ ؓ
بالل پر ٰ اب مشرکین خاموش ہو گئے۔ ان کی ایک ہی امید باقی تھی۔ وہ یہ کہ ان کے دیوتا الت،
اپنا قہر نازل کریں گے۔ وہ اسی امید موہوم کے انتظار میں تھے کہ وادی مکہ میں ؓ
بالل کی شیریں آواز گونجی ۔۔۔ ہللا
اکبر۔۔۔ ہللا اکبر۔۔۔
مکہ کی خاموش فضا میں علی االعالن ہللا کے ایک اور محمدصلی ہللا علیہ وسلم کے رسول ہونے کی گواہی دی جا
رہی تھی۔ یہ بت پرستی کے خاتمے اور دین توحید کی سربلندی کا آفاقی اعالن تھا جسے قیامت تک جاری و ساری
رہنا تھا۔
***