You are on page 1of 4

‫نحمدہ و نصلی و نسلم علی رسولہ الکریم‬

‫ضاد کو ظاء یا مشابہ ظاء کرکے پڑھنا غلط ہے اور اس طرح پڑھنے سے نماز ٹوٹ جائے گی۔ ایسا شخص‬
‫امامت کا اہل نہیں ہے اور ایسے امام کے پیچھے جو نماز پڑھی ہیں‪ ،‬اس کا اعادہ واجب ہے۔ قرآن کریم کے‬
‫حروف کے ہر حرف کو اس کے مخرج سے ادا کرنا ضروری ہے اور تمام حروف کے مخارج جدا جدا معین‬
‫ہیں۔‬
‫اقرووا القرآن بلحون العرب‬
‫ٔ‬ ‫عن حذیفۃ قال رسول اﷲﷺ‬
‫)الکامل ابن عدی‪ ،‬ج ‪،2‬ص ‪ ،78‬مطبوعہ دارالفکر بیروت(‬
‫ایک حرف کو دوسرے حرف کی طرح پڑھنا ناجائز ہے۔ ض اور ظاء دونوں حرف جدا جدا ہیں۔ ان کے مخارج‬
‫بھی جدا ہیں۔ لہذا جو شخص قصدا ً یہ جان کر ض کو ظاء پڑھتا ہے کہ قرآن کریم میں اس جگہ یہ حرف اس‬
‫طرح ہے‪ ،‬کافر ہے۔‬
‫امام قاضی عیاض رحمتہ اﷲ علیہ لکھتے ہیں۔‬
‫وقد اجمع المسلمون… من نقص منہ حرفا ً قاصدا ً لذلک او بدلہ بحرف آخر مکانہ او زاد فیہ حرفا ً مما لم یشتمل‬
‫علیہ المصحف الذی وقع االجماع علیہ واجمع علی انہ لیس من القرآن عامدا لکل ہذا انہ کافر‬
‫ترجمہ‪ :‬بے شک اہل اسالم کا اجماع ہے… کہ جس نے قرآن کا کوئی حرف عمدا ً گھٹایا یا اس کے عوض‬
‫دوسرا بڑھایا یا کوئی ایسا حرف زائد کیا جو مصحف شریف کا نہیں اور عمدا ً ایسے کیا تو وہ شخص باالتفاق‬
‫المصطفی فصل فی بیان ما ہو من المقاالت کفر الخ‪ ،‬ج ‪ 2‬ص ‪ ،182‬مطبوعہ‬ ‫ٰ‬ ‫کافر ہے (الشفاء شریف حقوق‬
‫)دارالکتب العلمیۃ بیروت‬
‫‪:‬مال علی قاری رحمتہ اﷲ علیہ لکھتے ہیں‬
‫وفی المحیط سئل االمام الفضلی ممن یقراء الظاء المعجمۃ او یقرء اصحاب الجنۃ مکان اصحاب النار او علی‬
‫العکس فقال التجوز امامۃ ولو تعمد یکفر‬
‫ترجمہ‪ :‬اور محیط میں ہے کہ امام فضلی رحمتہ اﷲ علیہ سے سوال کیا گیا کہ اس شخص کا کیا حکم ہے جو‬
‫ضاد کی جگہ ظاء یا اصحاب جنت کی جگہ اصحاب النار پڑھے۔ فرمایا اس شخص کی امامت جائز نہیں اور‬
‫)اگر قصدا ً ایسا کرے تو کافر ہے (شرح فقہ اکبر‪ ،‬ص ‪ 167‬مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی‬
‫‪:‬جامع الفصولین میں ہے‬
‫یقراء الظآء الضاد ویقراء کیف شاء اصحاب الجنۃ مکان اصحاب النار لم تجز امامتہ ولو نعمد یکفر‬
‫ترجمہ‪ :‬جو آدمی ضاد کی جگہ ظاء پڑھے اور اصحاب الجنۃ کی جگہ اصحاب النار پڑھے۔ اس کی امامت جائز‬
‫)نہیں اور اگر قصدا ً ایسا کرے تو کافر ہے (جامع الفصولین کلمات کفریہ‪ ،‬ص ‪316‬‬
‫منیۃ المصلی میں ہے۔‬
‫اما اذا قراء مکان الذال ظاء او مکان الضاد ظاء او علی القلب تفسد الصلوۃ وعلیہ اکثر االئمہ‬
‫ترجمہ‪ :‬بہرحال جب ذال کی جگہ ظاء یا ضاد کی جگہ ظاء پڑھے تو نماز فاسد ہوجائے گی اور اسی پر اکثر‬
‫)ائمہ کا مسلک ہے (منیتہ المصلی‬
‫‪:‬امام نووی رحمتہ اﷲ علیہ لکھتے ہیں‬
‫ولو قال وال الضالین بالظاء بطلت صالتہ ارجع الوجہین اال ان یعجز عن الضاد بعد التعلیم فیعذرہ‬
‫ترجمہ‪ :‬جو وال الضالین کو ظاء کے ساتھ پڑھے تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی‪ ،‬زیادہ راجع کی وجہ پر‪،‬‬
‫مگر اس صورت میں کہ تعلیم کے باوجود ضاد کو صحیح ادا کرنے سے عاجز ہے تو پھر معذور سمجھا‬
‫)جائے گا (االذکار المنتحبۃ من کالم سید االبرار‪ ،‬ص ‪ ،46‬مطبوعہ بیروت‬
‫فتاوی قاضی خان میں ہے‬‫ٰ‬
‫ولو قرء والعدیت ظبحا ً بالظاء تفسد صالتہ‬
‫(فتاوی قاضی‬
‫ٰ‬ ‫ترجمہ‪ :‬اور اگر کوئی والعدیت ضبحا ً کی بجائے ظبحا ً ظاء سے پڑھے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے‬
‫)خان‪ ،‬ج ‪1‬ص ‪( )141‬کبیری ص ‪349‬‬
‫فتاوی قاضی خان میں ہے‬‫ٰ‬ ‫نیز اسی‬
‫وکذا لو قرء غیرا المغظوب باظاء او بالذال تفسد صالتہ‬
‫ترجمہ‪ :‬اور اسی طرح اگر غیر المغضوب کی بجائے غیر المغظوب ظاء یا ذال سے پڑھے تو نماز ٹوٹ جائے‬
‫(فتاوی قاضی خان‪ ،‬ج ‪1‬ص ‪( )142‬کبیری ص ‪349‬‬ ‫ٰ‬ ‫)گی‬
‫‪:‬فتاوی عالمگیری میں ہے‬
‫ٰ‬
‫قال القاضی االمام ابوالحسن والقاضی االمام ابو عاصم ان تعمد فسدت‬
‫ترجمہ‪ :‬قاضی امام ابوالحسن رحمتہ اﷲ علیہ اور قاضی امام ابو عاصم رحمتہ اﷲ علیہ نے کہا اگر عمدا ً ضاد‬
‫(فتاوی عالمگیری مترجم امیر‬
‫ٰ‬ ‫(فتاوی عالمگیری‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪)79‬‬‫ٰ‬ ‫کو ظاء پڑھے تو نماز فاسد ہوجائے گی۔‬
‫(فتاوی بزاریہ ج ‪1‬ص ‪32‬‬
‫ٰ‬ ‫)علی دیوبندی ج ‪،1‬ص ‪ ،122‬مطبوعہ داراالشاعت کراچی)‬
‫مولوی قطب الدین اپنی تفسیر میں تحت آیت وماہو علی الغیب بضنین میں لکھتے ہیں۔‬
‫کہ حرمین شریفین وغیرہما اکثر ممالک میں تو سب (ضاد کو) دال مفحم کی طرح پڑھتے ہیں اور دہلی وغیرہ‬
‫یا اکثر ہند کے ممالک میں بھی پہلے اسی طرح پڑھتے تھے مگر اب ان ایام میں بعض دنیا سازوں نے ظاء‬
‫فتوی دیا جوکہ سراسر غلط ہے۔ ایک مجلس بھی اس کی تحقیق کے لئے منعقد ہوئی‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫کے طور پر پڑھنے کا‬
‫) اکثر وکل قراء کی رائے بطور سابق کے ضاد پڑھنے پر غالب رہی (جامع التفاسیر ص‬
‫یہ وہی مولوی ہیں جنہوں نے مظاہر حق لکھی ہے اس پر دیوبندیوں کو اعتماد ہے کیونکہ مولوی محمد‬
‫اسحاق کے شاگرد ہیں۔ ان سے یہ پتہ چال کہ اکابر دیوبند بھی ظاء نہیں پڑھتے تھے۔‬
‫‪:‬بانی دارالعلوم دیوبند قاسم نانوتوی لکھتے ہیں‬
‫سوال‪ :‬خدمت میں علماء دین کی عرض ہے کہ ایک شخص کوہ لنڈھرہ پرنگینہ ضلع بحبور کا رہنے واال آیا‬
‫ہے‪ ،‬کہتا ہے کہ ضاد مخرج ظاء پڑھنے سے نماز باطل ہوجائے گی‪ ،‬جواب ہر ایک امر کا اپنی مہر سے‬
‫مزین فرماکر ارسال کریں کہ اس شخص کو جواب دیا جائے۔‬
‫جواب‪ :‬جناب من جیسے بے کے بجائے ت اور دال کی جگہ ڈال اور جا کے بدلے خاک اور شین کے عوض‬
‫ادنی‬
‫سین اور عین کے مقام غین اور الم کے مقام میم نہ کوئی پڑھتا ہے اور نہ کوئی جائز سمجھتا ہے اور ٰ‬
‫اعلی تک ہر کوئی اسی کو سمجھتا ہے۔ ایسے ہی ضاد کو چھوڑ کر ضاء پڑھنا بھی خالف عقل و‬ ‫ٰ‬ ‫سے لے کر‬
‫نقل ہے۔ یہ بات عقل و نقل کی رو سے منجملہ تحریف ہے جس کی برائی خود کالم اﷲ میں موجود ہے پھر‬
‫معلوم نہیں آج کل کے عالم کس وجہ سے ایسی نامعلوم بات کہہ دیتے ہیں اور اہل اسالم کیوں ایسی بات‬
‫تسلیم کرلیتے ہیں مگر شاید عوام فتوئوں کی مہروں کو دیکھ کر مچل جاتے ہیں اور یہ کون جانے کہ کتابوں‬
‫کا سمجھنا اور فتوئوں کا لکھنا ہر کسی کو نہیں آتا (تصفیۃ العقائد‪ ،‬ص ‪ ،42-43‬مطبوعہ داراالشاعت‬
‫)کراچی‬
‫‪:‬اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں‬
‫سوال ‪ :‬ضاد کو کس طرح پڑھنا چاہئے اور اکثر فقہاء کا قول کیا ہے اور اکثر کتب دینیات میں اس ذکر میں‬
‫‪:‬کیا لکھتے ہیں‬
‫جواب‪ :‬فی الجزریۃ والضاد من حافتہ اذا لی االصنداس من اسیر ولیناہا‬
‫جب مخرج معلوم ہوگیا تو ضاد کے ادا کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ اس کے مخرج سے نکاال جاوے۔ اب اس‬
‫نکالنے سے بوجہ عدم مہارت خواہ کچھ ہی نکلے‪ ،‬عفو ہے اور اگر قصدا ً دال یا ظاء پڑھے وہ جائز نہیں۔‬
‫جیسا بعض نے دال پڑھنے کی عادت کرلی ہے اور بعض نے فقہاء کے کالم میں یہ دیکھ کر کہ ضاد مشابہ‬
‫ظاء ہے ظائر پڑھنا شروع کردیا۔ حاالنکہ مشابہت کی حقیقت صرف مشارکت فی بعض الصفات ہے اور‬
‫مشارکت فی بعض الصفات سے اتحاد ذات الزم نہیں آتا رہا قاضی خان کی اس جزئی سے لو قراء الضالین‬
‫صلوۃ ظاء پڑھنے کی اجازت سمجھ لینا‪ ،‬اس کو دوسری جزئیات قاضی خان کی رد کرتی ہے۔‬ ‫التفسد ٰ‬
‫وہی ہذا ولو قرأ والعادیات ظبحا ً بالظاء تفسد صلواتہ اہ وکذا لوقرا غیر المغضوب علیہم بالظاء اور بالذال تفسد‬
‫(فتاوی امدادیہ‪ ،‬ج ‪،1‬ص ‪ 127‬ربیع االول باب تجوید‬‫ٰ‬ ‫صلواتہ وامثال ذالک من الفروع المتعددۃ۔ واﷲ اعلم‬
‫)‪1322‬ھ‬
‫‪:‬رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں‬
‫یہ قول قاری صاحب کا درست ہے کہ جو شخص باوجود قدرت کے ضاد کو ضاد کے مخرج سے ادا نہ کرے‪،‬‬
‫وہ گنہ گار بھی ہے اور اگر دوسرا لفظ بدل جانے سے معنی بدل گئے تو نماز بھی نہ ہوگی اور اگر باوجود‬
‫کوشش سعی ضاد اپنے مخرج سے ادا نہیں ہوتا تو معذور ہے۔ اس کی نماز ہوجاتی ہے اور جو شخص خود‬
‫صحیح پڑھنے پر قادر ہے ایسے معذور کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے مگر جو شخص قصدا ً دال یا ظاء‬
‫(فتاوی رشیدیہ ص ‪57‬‬
‫ٰ‬ ‫)پڑھے اس کے پیچھے نماز نہ ہوگی۔ فقط‬
‫‪:‬نیز دوسری جگہ لکھتے ہیں‬
‫اصل حرف ضاد ہے اس کو اصل مخرج سے ادا کرنا واجب ہے۔ اگر نہ ہوسکے تو بحالت معذوری دال پر کی‬
‫صورت سے بھی نماز ہوجائے گی۔ فقط واﷲ اعلم بندہ رشید احمد گنگوہی الجواب صحیح عزیز الرحمن‪ ،‬خلیل‬
‫(فتاوی رشیدیہ‪ ،‬ص ‪51‬‬
‫ٰ‬ ‫)احمد‪ ،‬عنایت ٰالہی‪ ،‬محمود‪ ،‬اشرف علی‪ ،‬غالم رسول‬
‫عوام جو مخارج اور صفات سے واقف نہیں بوجہ ناواقفیت کے حرف ضاد کے بجائے ظاء پڑھے تو نماز‬
‫فاسد ہوگی یا نہیں۔ یہ الگ مسئلہ ہے کہ جان بوجھ کر باوجود قادر بالفعل ہونے کے ایسا کرے تو جمہور‬
‫فقہاء کے نزدیک ان کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ ہمارے زمانہ میں اکثر دیوبندی خصوصا پنج پیری قصدا ً ضاد‬
‫کے بجائے ظاء پڑھتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ جھگڑتے اور فساد پھیالتے ہیں۔ ان پنج پیری دیوبندیوں‬
‫کو اپنے مستند عالم مفتی زرولی خان کے اس قول پر عمل کرنا چاہئے۔ مفتی زرولی خان دیوبندی سی ڈی‬
‫‪:‬کیسٹ آپ کے مسائل اور ان کے حل میں کہتے ہیں‬
‫اے قاریوں (جو نماز میں ظاد پڑھتے ہیں) دوسروں کی نمازیں خراب نہ کرو (یعنی اپنی نماز تو ہے ہی‬
‫خراب مگر دوسروں کی نمازیں تو خراب نہ کرو) عرب ظاد کو جانتے تک نہیں۔ اس کے بعد محیط برہانی‬
‫والی عبارت بیان فرمائی ہے اور ظاد کو بالکل غلط ثابت کیا ہے۔‬
‫سی ڈی آپ کے مسائل اور ان کا حل جمعتہ المبارک کے موقع پر سوال و جواب کی صورت میں شائع )‪MP3‬‬
‫)کردہ شاپ نمبر ‪ ،8‬اسالم کتب مارکیٹ‪ ،‬بنوری ٹائون کراچی‬
‫ہم بھی ان ضاد کے بجائے ظاد پڑھنے والوں کو یہی کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں فساد نہ پھیالئو اور‬
‫مسلمانوں کی نمازیں خراب نہ کرو۔‬
‫بعض لوگ کہتے ہیں کہ پھر تم کیوں وضوئ‪ ،‬ضرورت‪ ،‬فضل الرحمن‪ ،‬ضیاء الدین‪ ،‬حضور وغیرہ الفاظ کہتے‬
‫تعالی ارشاد‬
‫ٰ‬ ‫ہو۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عجمی لفظ ہیں اور قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ اﷲ‬
‫‪:‬فرماتا ہے‬
‫ان انزلناء قرآنا عربیا لعلکم تعقلون‬
‫ترجمہ‪ :‬بے شک ہم نے اسے عربی قرآن اتارا تاکہ تم سمجھو‬
‫یہ عجمی الفاظ ہیں اور اردو زبان میں اس کو ظاء پڑھا جاتا ہے جبکہ قرآن عربی میں نازل ہوا ہے لہذا اس‬
‫کو عجمی طریقہ اور تلفظ کے ساتھ نہیں بلکہ عربی تلفظ اور عربی مخارج کے ساتھ پڑھا جائے گا۔‬
‫تعالی و رسولہ االعلی اعلم بالصواب‬
‫ٰ‬ ‫واﷲ‬

You might also like