You are on page 1of 8

‫میرا نصب العین‪:‬‬

‫لفظ مقصد اور نصب العین میں تھوڑا س ا ف رق ہے۔ جس خواہش کی تکمی ل کے ل یے ہم‬
‫اعلی ک و کہ تے‬‫ٰ‬ ‫کوئی کام کریں وہ بات اس کام کا مقصد ہوتا ہے لیکن نصب العین مقصد‬
‫ہیں۔ جیسے ہم محنت مزدوری کریں یا تجارت کریں تو مقصد یہ ہوت ا ہے کہ روپی ا پیس ہ‬
‫حاصل ہوگا‪ ،‬زندگی گزارنے کا سامان پیدا ہوگا‪ ،‬یہ تجارت و صنعت ک ا مقص د ہے۔لیکن‬
‫تعالی کے احکام کو پورا کرتے ہ وئے ہم روزی کم ائیں‬ ‫ٰ‬ ‫اعلی یہ ہے کہ ہللا‬
‫ٰ‬ ‫اس کا مقصد‬
‫پھر اپنے بیوی بچوں‪ ،‬اپنے والدین اور اپنے بہن بھائیوں کے اخراج ات ک و پ ورا ک ریں‪،‬‬
‫رشتے داروں‪ ،‬غرباء اور مساکین کا خیال رکھیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان باتوں کا بھی‬
‫خیال رکھے جو ہمیں اخالقی لحاظ سے ممت از ک رتی ہیں کی وں کہ ان تم ام ب اتوں ک ا ہللا‬
‫اعلی جس ے نص ب العین کہ تے‬ ‫ٰ‬ ‫الی نے حکم دی ا ہے۔ گوی ا انس ان ک ا اص ل مقص د‬ ‫تع ٰ‬
‫ہیں‪،‬اپنے ش عبہ کی ح دود میں رہ تے ہوئےص رف اط اعت الہی اور خ دمت انس ان یع نی‬
‫حقوق العباد ہو۔‬
‫تعالی نے فرمای ا‬‫ٰ‬ ‫انسان کا نصب العین صرف اور صرف اطاعت ٰالہی ہے۔اسی بات کو ہللا‬
‫ہے کہ اگر بے مقصد زندگی گزاری جائے تو پھر یہ انسان‪ ،‬انسانیت کے دائرے س ے ب اہر‬
‫نکل جاتا ہے جب کہ ایک بے شعور بچہ بھی ماں کی گود میں بے مقصد نہیں روتا تو پھ ر‬
‫الی نے‬ ‫ایک عقل مند انسان بے مقص د زن دگی گ زارنے ک ا تص ور ہی نہیں کرس کتا۔ ہللا تع ٰ‬
‫قرآن حکیم میں اس ی ب ات ک و س والیہ ان داز میں خ ود انس ان س ے پوچھ ا‪ ،‬مفہ وم‪ ’’ :‬کی ا تم‬
‫سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بے کار پیدا کیا۔‘‘یہ ہللا رب العزت ک ا حکیم انہ ان داز‬
‫ہے کہ خود انسان کو اس بات پر غور و فکر کر کے قائل کروا لیا جائے کہ تمہارا کوئی‬
‫نصب العین ہونا چاہیے۔ ہللا تع ٰالی نے کائن ات میں ک وئی چ یز بے ک ار پی دا نہیں کی ۔ہ ر‬
‫چیز کا مقصد ہے ۔زندگی کے مقاصد کا تعین ہللا ٰ‬
‫تعالی نے یوں کیا ہے‪:‬‬
‫"ترجمہ‪:‬بے شک ہم نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے ل یے‬
‫پیدا کیا"‬
‫ڈاکٹر رفیع الدین مرح وم نے اپ نی کت اب‪ ‘‘Manifesto of Islam’’ ‬میں نص ب العین کی‬
‫وضاحت پیش کی ہے۔ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے عالمہ اقبال کے فلس فہ ٔخ ودی کی ق رٓان‬
‫کی نصوص کی روشنی میں تش ریح وتوض یح کی ہے۔لکھ تے ہیں کہ انس ان کے ان در س ب‬
‫سے بڑا جذبہ محبت کا جذبہ ہے‪ .‬وہ کسی شے سے‘کسی ہستی س ے ی ا کس ی نظ ریے اور‬
‫خیال سے محبت کرتا ہے اور اس کے لیے بھوکا رہنا گوارا کرتا ہے‪ .‬اس کی جبلت میں تو‬
‫یہ ہے کہ وہ اپ نے پیٹ ک و بھ رے‘ اپ نی ذات کی بق ا‪ )preservation of the self( ‬کے‬
‫تقاضے پورے کرے‪ .‬لیکن اگر مقصد ‪،‬زندگی کی لگن چھاجائے ‪،‬ت و انس ان ف اقے برداش ت‬
‫کرتا ہے‪ .‬یہ جذبہ کسی بھی مقصد کے لیے بروئے کار ٓاسکتا ہے‘ وطن کے لیے‘ قوم کے‬
‫لیے‘ کسی نظریے کے لیے‘ جیسے ماضی میں کمیونزم وغیرہ کے لیے استعمال ہوا ہے‪.‬‬
‫حیوانی جبلت‪ )animal instinct( ‬تو یہ ہے کہ اپنی جان کو بچایا جائے‘لیکن انسان ک و ہم‬
‫دیکھتے ہیں کہ کسی محبوب شے کے لیے جان قربان کر دیا کرتا ہے‪ .‬اس کی ک ئی مث الیں‬
‫موجود ہیں‘ جیسے جاپانیوں نے جنگ عظیم میں کیاکہ چھاتہ بردار بم باندھ کر ہوائی جہاز‬
‫س ے ک ودے اور بح ری جہ از کی چم نی میں ات ر گ ئے‪ .‬انہیں معل وم ہے کہ خ ود ان کے‬
‫پرخچے اڑ جانے ہیں مگر ان پر وطن کی محبت چھائی ہوئی ہے‪ .‬انسان کا ک وئی نہ ک وئی‬
‫مطلوب ہو‘ کوئی ٓادرش ہو‘ کوئی نصب العین ہو‪ ،‬کوئی ٓائیڈیل ہو‘ کوئی اس کا محبوب ہ و‘‬
‫کوئی اس کا مقصود ہو‘ اس کے لیے وہ محنت کرے‘ ایث ار ک رے‘ اس کے ل یے وہ بھوک ا‬
‫رہے‘ اس کے لیے وہ راتوں کو جاگے‘ اس کے ل یے وہ ج ان ک ا رس ک لے‘ ج ان قرب ان‬
‫کردے‘ اس کے لیے وہ پھانسی کے پھن دے ک و چ وم ک ر گلے میں ڈالے‘ یہ انس ان ک ا بلن د‬
‫ترین اور سب سے زیادہ قوی جذبہ ہے‪ .‬یہ جذبہ اص ل میں ہللا کی محبت کے ل یے پی دا کی ا‬
‫گیا ہے‘ لیکن فکری پستی کی وجہ سے انسان معرفت ِرب تک نہیں پہنچ پاتاتو جیسے شدید‬
‫بھوک میں ٓاپ کسی گھٹیا غذا کو بھی قبول ک ر لیں گے جس ے ع ام ح االت میں دیکھن ا بھی‬
‫پسند نہیں کرتے ‘آپ اس کو اضطرار کی حالت میں کھالیں گے‘ اسی طرح جب انس ان کی‬
‫نگاہ اُس بلند ت رین مطل وب و مقص ود ت ک ‘ اُس‪ highest ideal ‬ت ک‘ اُس اص ل محب و ِ‬
‫ب‬
‫حقیقی ت ک نہیں پہنچ س کتی ت و وہ کس ی اور ش ے ک و اُس کی جگہ رکھ ک ر اس س ے وہی‬
‫محبت کرنے لگتا ہے جو دراص ل ہللا س ے ہ ونی چ اہیے ‪ .‬اس ل یے کہ ان در کے ج ذبہ ک و‬
‫تسکین‪ )satisfaction( ‬درکار ہے‪ .‬اُسے تو ک وئی نہ ک وئی محب وب چ اہیے‪.‬اگ ر خ دا ت ک‬
‫نہیں پہنچے گا تو کسی اور شے کو پوجے گا‘ وطن کو پوجے گا‘ قوم کو پوجے گ ا‘ اپ نے‬
‫ہی نفس کو پوجے گا‘ اپنے ہی ’’حریم ذات‘‘ کے گرد طواف کرتا رہے گا‪:‬‬
‫حسن مبہم پر ساری ہستی لٹائی جاتی ہے‪ ‬‬ ‫ِ‬ ‫اک تصور کے‬
‫ک ٓارزو کے بعد کیسے سانسوں میں ڈھالی جاتی ہے!‬ ‫زندگی تر ِ‬
‫اگر وہ ٓارزو نہیں رہی‘ وہ امنگ نہیں رہی‘ کوئی نصب العین نہیں‘ کوئی آدرش نہیں‘‬
‫کوئی مطلوب و مقصود نہیں تو پھر یہ انسان محض ایک‪"  human vegetable" ‬ہے۔یہ‬
‫اصطالح‪ )human vegetable( ‬آج کل بہت استعمال ہوتی ہے یعنی وہ لوگ جو طبعی‬
‫طور پر مر چکے ہوں لیکن ان کو مشینوں سے زندہ رکھا گیا ہو کہ دل بھی چل رہا ہے‘‬
‫خون بھی گردش میں ہے اور گردوں کے لیے بھی مشین کام کر رہی ہے‘ وغیرہ‪ .‬یہ لوگ‬
‫سالہا سال تک اسی طرح پڑے رہتے ہیں۔انسان کسی بلندشے کو مطلوب ومقصود بناتا ہے‬
‫تو اُس کی اپنی شخصیت بھی بلند ہوتی ہے‘ لیکن جب اس کی نگاہ پستی پر اٹک جاتی ہے‬
‫تو پھر اس کی اپنی شخصیت بھی انتہائی پست رہ جاتی ہے‪ .‬بلند ٓائیڈیل ہوگا تو اس کی‬
‫شخصیت کو ترفع حاصل ہوگا۔‬
‫اگر ٓاپ کو ایک اونچی دیوار پر چڑھنا ہے‘ کمند ٓاپ کے پاس ہے تو ٓاپ کو اپنے‬
‫زور بازو کے ذریعے پہلے کمند کو اونچا پھینکنا ہوگا‪ .‬جتنی اونچی کمند اٹک جائے گی‘‬ ‫ِ‬
‫اتنا ہی اونچا ٓاپ جاسکیں گے‪ .‬جتنا ٓاپ کا ٓائیڈیل بلند ہوگا‘ اتنی ہی ٓاپ کی شخصیت میں‬
‫بلندی ہوگی‪ .‬قرٓان مجید میں جہاں فرمایا گیا کہ اہل ایمان کی شان تو یہ ہے کہ شدید ترین‬
‫محبت ہللا سے کرتے ہیں‘ وہاں انسان کی مجبوری اور پستی کے اندر مبتال ہونے کا ذکر‬
‫اس َمن یَّتَّ ِخ ُذ ِمن ُدو ِن ہّٰللا ِ اَندَادًا یُّ ِحبُّونَہُم َکحُبِّ ہّٰللا ِ ؕ َو الَّ ِذینَ ٰا َم ُن اَ َش ُّد‬
‫بھی کیا گیا ہے‪َ ( :‬و ِمنَ النَّ ِ‬
‫ُحبًّا ہّٰلِّل ِ ؕ) "انسانوں میں ایسے بھی ہیں جو ہللا کے سوا کسی اور کو مدمقابل بنالیتے ہیں ‘‬
‫پھر اس سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی ہللا سے کرنی چاہیے‘ اور وہ لوگ جو اہل ایمان‬
‫ہیں وہ شدید ترین ہیں ہللا کی محبت میں‪( ‘‘.‬البقرۃ‪)۱۶۵:‬‬
‫ب حقیقی ہللا کو ہونا چاہیے تھا ‘لیکن وہاں تک رسائی نہیں ہوئی تو اس مقام پر کسی‬ ‫محبو ِ‬
‫اور کو رکھ کر اس کو پوجنا شروع کردیا‘ اس سے محبت شروع کردی‪ .‬یہ انسان کا فطری‬
‫تقاضا ہے‘ جس کو وہ ہر صورت پورا کرتا ہے‘ کسی نہ کسی شے کو اپنا مطلوب‬
‫ومقصود بنا کر ‘‘گویا ہم کہہ سکتے ہیں‪:‬‬
‫"انسان کا بے مقصد زندگی گذارنا ایک ایسا خواب ہے جس کی کوئی تعبیر‬
‫نہیں‪،‬کوئی منزل نہیں"‬
‫اس لیے نصب العین کا تعین ضروری ہے ۔چنانچہ یہ سوال کہ "میرا نصب العین کیا‬
‫ہے"اس حوالے سے زندگی کا مبہم خاکہ جس کی تکمیل انشا ہللا مستقبل میں ہوگی ‪،‬میرے‬
‫پیش نظر یوں ہے‪:‬‬
‫‪۱‬۔ہللا کی رضا کے مطابق اطاعت الہی میں زندگی گزارنا‬
‫‪۲‬۔اپنے شعبہ کی حدود میں رہتے ہوئے بحثیت ڈاکٹر اور استادانسانیت کی خدمت‬
‫کرناجو نہ صرف ملک کا نام روشن کرے ‪،‬اس کے ساتھ انسانی تحفظ‪،‬بقا اور انسانیت‬
‫نوازی کی مثا ل قائم کرے۔ایسے درد مند معالج تیار کرنا جن کا بنیادی مقصد ہللا کی رضا‬
‫کے لیے انسانی فالح ہو ۔‬
‫جب سے دنیا و ج ود میں آئی ہے اس وقت س ے آج ت ک پ وری انس انیت ک ا نص ب العین‬
‫صرف ایک ہی چیز کو قرار دیا گیا ہے‪ ،‬یعنی انسان کو اپنے رب کو پہچاننا چ اہیے اور‬
‫جس طرح اُس نے حکم دیا ہے اُس کے مطابق اپنی زندگی کو گزارنا چاہیے اور اس کی‬
‫سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آدم علیہ السالم سے لے کر رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم‬
‫الی‬
‫تک تمام انبیاء کا نصب العین صرف ایک ہی تھا کہ ایک خدا کی عب ادت ک رو۔ ہللا تع ٰ‬
‫نبوی کو ذہن میں نقش ک ر‬
‫ؐ‬ ‫کی اطاعت صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اس ارشاد‬
‫ریم کے ارش اد گ رامی ک ا مفہ وم ہے ‪ ’’ :‬میں نے تمہ ارے پ اس دو‬
‫لی ا ج ائے۔رس ول ک ؐ‬
‫چیزیں چھوڑی ہیں جب تک تم ان کو مضبوطی سے پک ڑے رہ و گے گم راہ نہ ہ و گے‪،‬‬
‫ان میں سے ایک کتاب ہللا اور دوسری سنت رسول ہللا ﷺ ہے۔‘‘‬
‫صحابی کو‬
‫ؓ‬ ‫ٰ‬
‫الزکوۃ من االسالم‘‘ کی پہلی روایت میں ایک‬ ‫بخاری شریف کے ’’باب‬
‫آپ کے ارشادات کو سن کر‬ ‫رسول ہللا ﷺ نے اسالمی تعلیمات سکھائیں ؐ‬
‫صحابی جانے لگے۔ تو انہوں نے کہا‪’’ :‬خدا کی قسم میں اس میں نہ زیادتی‬
‫ؓ‬ ‫جب وہ‬
‫کروں گا نہ اس میں کمی کروں گا۔‘‘اس پر رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪’’ :‬‬
‫اگر یہ سچ کہتا ہے تو کام یاب ہے۔‘‘‬
‫اس سے معلوم ہوا کہ اطاعت ٰالہی صرف جب ہی ممکن ہے جب ان دونوں راستوں کو‬
‫مضبوطی سے تھامے رکھیں گے۔ کیوں کہ یہی نصب العین فالح و کام یابی کا راستہ‬
‫ہے۔ لیکن مسلمان اگر اپنا نصب العین کچھ اور بنا لیں‪ ،‬آخرت کی طرف سے رخ موڑ‬
‫اعلی قرار دے لیں تو وہ مقصد بھی ضرور حاصل ہوگا۔ لیکن ہم اصل‬ ‫ٰ‬ ‫کر دنیا کو مقصد‬
‫نصب العین سے ہٹ کر الگ ہو جائیں گے اور سوائے خسارے کے کچھ بھی نہ ملے‬
‫تعالی کا مفہوم ہے کہ جو شخص ٓاخرت کی کھیتی چاہتا ہے تو ہم اس کی‬‫ٰ‬ ‫گا۔ارشاد باری‬
‫کھیتی میں اور اضافہ کریں گے‪ ،‬اگر کوئی شخص صرف دنیا قکی کھیتی چاہتا ہے تو ہم‬
‫اسے دے دیں گے لیکن آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔ب ول ش اعر‪:‬‬
‫میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی‬
‫میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی‬
‫اب میں زندگی کے پیشہ ورانہ پہلو کی طرف ٓاتا ہوں ۔دنیا میں رہتے ہ وئے انس ان کس ی نہ‬
‫کسی پیشے س ے وابس تہ ہوت ا ہے جس ک ا مقص د ب اعزت روزی ک ا حص ول ہے ۔میں جس‬
‫شعبے سے وابستہ ہونا چاہتا ہوں اس کا تعلق ہر پہلو سے انسانیت ن وازی ہے ‪،‬میں ڈاک ٹری‬
‫کے شعبے میں قدم رکھوں توجو اہداف م یرے ذہن میں ہیں ان کی وض احت کرت ا ہ وں۔ہ ر‬
‫نوجوان جو ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کرتا ہے وہ معالج کےساتھ ساتھ ایک استاد کا فریض ہ‬
‫بھی س رانجام دیت ا ہے ۔وہ اپ نے بع د اس ش عبے میں ٓانے والی نوج وان نس ل کی ت ربیت ک ا‬
‫ذریعہ بنتا ہے ۔اس نے ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے عملی زندگی میں جو س یکھا ہوت ا ہے اس‬
‫کے پیش نظر وہ تمام معلومات اگلی نسل کو پہچانا ‪،‬ان کی مناسب اخالقی اور عملی ت ربیت‬
‫کرنا مقصود ہوتا ہے۔جب وہ اس نسل میں یہ تصور بیدار کر دیتا ہےکہ‪:‬‬
‫ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے‬ ‫در ِد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو‬
‫کروبیاں‬
‫اور حدیث نبوی ﷺکے مطابق‪":‬تما م مخل وق ہللا ک ا کنبہ ہے اور ہللا تع ٰالی‬
‫اس سے محبت کرتا ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ حسن و س لوک س ے پیش ٓات ا ہے۔"ت و‬
‫گویا وہ نوجوان ڈاکٹروں کے اندر انسان کی قدر وقیمت اور انسانیت نوازی کا قوی احس اس‬
‫بیدار کرنے میں محرک کا کردار ادا کرتا ہے۔اس سطح پر وہ اپنے ٓاپ کو معلم انسانیت کی‬
‫ادنی اور اعلی‪،‬ام یر و غ ریب ک ا تعین ک یے بغ یر ان کی‬ ‫حی ثیت س ے پیش کرت ا ہے ج و ٰ‬
‫بیماریوں کا نفسیاتی اور روحانی عالج کرت ا ہے۔وہ ن بی رحمتﷺ کے نقش‬
‫ق دم پ ر چل تے ہ وئے ان ام ور ک ا خی ا ل رکھت ا ہے ج و اس ے ہللا اور اس کے‬
‫رسولﷺکی رضا کے لیے ہوں۔‬
‫حیات لے کے چلو‪،‬کائنات لے کے چلو‪                          ‬چلو تو سارے جہاں ک و س اتھ‬
‫لے کے چلو‬
‫میرے پیش نظر یہ بات ہےکہ محسن انسانیت صلی ہللا علیہ وسلم کو بھی ہللا تعالی نے معلم‬
‫اور روحانی معالج بنا کر بھیجا۔ جنہوں نے ذات پات رنگ و نسل کے فرق کو ختم کر دیا‬
‫اور اعالن کیا کہ کسی عربی کو عجمی پر کسی عجمی کو عربی پر اور کسی گورے کو‬
‫کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فوقیت نہیں۔ ہاں وہ آدمی جس میں حقیقی‬
‫انسانیت اور ابدیت موجودہو وہ الئق تعظیم وتکریم ہے۔بقول حالی‪:‬‬
‫کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں‬ ‫یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں‬
‫تعالی نے انسان کو اس دنیا‬
‫ٰ‬ ‫کسی بھی سماج میں ڈاکٹر اور معالج کی خاص اہمیت ہے ‪ ،‬اﷲ‬
‫میں ایسا وجود عطا کی ا ہے جس میں خوبی وں اورص الحیتوں کے س اتھ س اتھ خ امیوں اور‬
‫مجبوریوں کی ٓامیزش بھی پائی جاتی ہے ‪ ،‬انسان کی طاقت و قوت کا حال یہ ہے کہ کائنات‬
‫ت تس خیر کی‬ ‫کی بڑی سے بڑی اور طاقتور س ے ط اقتور ت رین مخل وق بھی انس ان کی ق و ِ‬
‫اسیر ہے ‪ ،‬لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کی کمزوری اور ناطاقتی کا حال یہ ہے کہ معم ولی‬
‫کیڑے مکوڑے بھی اسے نقصان پہنچاسکتے ہیں ‪ ،‬ایک بالش ت ک ا س انپ بھی اس کی ج ان‬
‫لے س کتا ہے اور بیماری اں اس ے ٓاس انی س ے بچھ اڑ س کتی ہیں ۔‬
‫الی نے اس کائن ات میں زہ ر کے س اتھ س اتھ اس ک ا تری اق بھی پی دا فرمای ا ہے اور‬ ‫اﷲ تع ٰ‬
‫بیماریوں کے ساتھ ساتھ اس کا عالج بھی ‪ ،‬رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا‬
‫تعالی نے بڑھاپے کے سوا ہربیماری کی دوا پیدا کی ہے ‪ ’’ :‬تداووا ف إن اﷲ عزوج ل‬ ‫ٰ‬ ‫‪ :‬اﷲ‬
‫دائ واحد الھرم‘‘( سنن ابی دأود ‪ ،‬حدیث نمبر ‪، ۳۸۵۷ :‬‬ ‫ئ غیر ٍ‬‫ئ إال وضع لہ دوا ً‬
‫لم یضع دا ً‬
‫الی‬
‫نیز دیکھئے ‪ :‬سنن ابن ماجہ ‪ ،‬حدیث نمبر ‪ )۳۴۳۶ :‬اب یہ انسان کا ک ام ہے کہ وہ اﷲتع ٰ‬
‫کی دی ہوئی عقل اور تجربہ کی قوت کو استعمال کرتے ہ وئے دوأوں ک و دری افت ک رے ‪،‬‬
‫اس کام کو میڈیکل سائنٹسٹ اور ڈاکٹر انجام دیتے ہیں ‪ ،‬اس لئے اس میں کوئی ش بہ نہیں کہ‬
‫انسانی خدمت کے پہلو سے ان کی خدمات نہایت اہم ہیں ۔‬
‫بھوکے کو کھانا کھالنا ‪ ،‬محتاج کو کپڑے پہنانا ‪ ،‬مع ذور کے ک ام میں ہ اتھ بٹان ا اور‬
‫ضرورت مند کی حاجت پوری کرنا یہ سب مخلوق کی خ دمت ہے ‪ ،‬لیکن انس ان س ب س ے‬
‫زیادہ خدمت کا محتاج اس وقت ہوتا ہے جب وہ مریض ہو ‪ ،‬بیماری انس ان ک و اس مق ام پ ر‬
‫پہنچادیتی ہے کہ کھانا موجود ہونے کے باوجود وہ کھانہیں سکتا ‪ ،‬ہ اتھ پ أوں س المت ہیں ‪،‬‬
‫لیکن وہ ایک ق دم چ ل نہیں س کتا اور تیم اداری اور م ددگاروں کے رحم و ک رم ک ا محت اج‬
‫ہوجات ا ہے ‪ ،‬اس ی ل ئے رس ول اﷲ ص لی اﷲ علیہ وس لم نے م ریض کی عی ادت اور تیم ار‬
‫داری کو بے حد اجر کا باعث قرار دیا ہے ‪ٓ ،‬اپ انے فرمایا ‪ :‬جب تک ایک شخص م ریض‬
‫کی عیادت میں رہتا ہے گویا وہ جنت کے باغ میں ہے ( مس لم ‪ ، ) ۶۵۵۱ :‬اس ط رح ڈاک ٹر‬
‫گوی ا اپ نی ڈی وٹی کے پ ورے وقت اس ح دیث ک ا مص داق ہوت ا ہے ۔‬
‫رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمای ا کہ لوگ وں میں س ب س ے بہ تر وہ ہے ج و‬
‫لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچائے اور کون ہے جو انسانوں کے ل ئے ڈاک ٹر اور مع الج‬
‫سے بڑھ کر نافع ہو ؟ اس طرح گویا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ س ے ڈاک ٹر ک و‬
‫’’ خیر الناس ‘‘ ( بہترین انسان ) کا ایوارڈ مال ہے ‪ ،‬ان سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہوس کتا‬
‫ہے ‪ ،‬فن طب کی اسی اہمیت کی وجہ سے سیدنا حضرت علی سے مروی ہے کہ اص ل علم‬
‫دو ہی ہیں ‪ :‬فقہ ‪ ،‬کہ زن دگی گ ذارنے ک ا ط ریقہ معل وم ہ و اور طب ت اکہ جس م انس انی کی‬
‫اصالح پر قدرت ہوسکے ۔‬
‫’’ العلم علم ان‪:‬الفقہ لالدی ان وعلم الطب لالب دان ‘‘۔ ( مفت اح الس عادۃ ‪۱ :‬؍‪(۲۶۷‬‬
‫واقعہ ہے کہ یہ گروہ انسانیت کا سب سے بڑا محسن ہے اور اس نسبت سے ان کی توقیر و‬
‫تکریم سماج کا فریضہ ہے ‪ ،‬بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ عالج سے جلدی فائدہ نہیں ہوا ‪ ،‬ی ا‬
‫مریض کی موت واقع ہوئی تو ل وگ ڈاک ٹر س ے اُلجھ ج اتے ہیں اور بعض دفعہ ت و اس کی‬
‫رز عم ل ہے ‪ ،‬اس ل ئے کہ عالج ت و‬ ‫ج ان کے بھی اللے پڑج اتے ہیں ‪ ،‬یہ غ یر س نجیدہ ط ِ‬
‫انسان کے اختیار میں ہے ‪ ،‬لیکن صحت و شفا خدا کی مشیت کے بغیر حاص ل نہیں ہ وتی ‪،‬‬
‫’’ وإذا مرضت فہو یشفین‘‘ ( شعراء ‪ ، )۸۰ :‬زندگی کو بچانے کا مکل ف ق رار دین ا اس پ ر‬
‫ترادف ہے ۔‬ ‫نے کے م‬ ‫وجھ ڈال‬ ‫ادہ ب‬ ‫ے زی‬ ‫الحیت س‬ ‫اس کی ص‬
‫میں جانتا ہوں کہ جو شخص جس مقام کا حامل ہوتا ہے اسی نسبت سے اس کی ذمہ داری اں‬
‫بھی ہوتی ہیں ‪ ،‬اس لئے ڈاکٹر اور معالج حضرات کو اپنی ذمہ داری وں پ ر بھی ت وجہ دی نی‬
‫چ اہئے ‪ ،‬ڈاک ٹر ک ا بنی ادی فریض ہ یہ ہے کہ وہ اس پیش ہ میں خ دمت کے پہل و ک و مق دم‬
‫رکھے ‪ ،‬ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ مریضوں کا مفت عالج ک ریں اور اپ نے گھ ر س ے‬
‫دوائیں الک ر کھالدیں ‪ ،‬لیکن یہ ض رور ہے کہ اس پیش ہ ک و محض تج ارت اور ب زنس نہ‬
‫بنادیا جائے اور اجرت کے ساتھ ساتھ اجر کے پہلو کو بھی ملح وظ رکھ ا ج ائے ‪ ،‬اس وقت‬
‫ت حال یہ ہے کہ تعلیم اور عالج نے ایک زبردست کاروبار کی صورت اختیار کرلی‬ ‫صور ِ‬
‫ہے اور معاشی کشش کی وجہ سے بہت سے ہوٹل ‪ ،‬ہاسپٹل میں تبدیل ہوگئے ہیں ‪ ،‬ڈاکٹروں‬
‫کی فیس مریض کے لئے ناقابل برداشت بوجھ بن گئی ہے ‪ ،‬پھ ر فیس کے سلس لے میں بھی‬
‫ایک نئی روایت یہ قائم ہورہی ہے کہ مریض جتنی بار مشورے کے لئے جائے ہر بار فیس‬
‫ادا کرے ‪ ،‬اس طرح بعض اوقات ہر ہفتہ ڈاکٹرز فیس وصول کرلیتے ہیں ‪ ،‬پھ ر ٓام دنی کے‬
‫بالواسطہ ذرائع بھی پیدا کرلئے گ ئے ہیں ‪ ،‬دوائیں لکھی ج اتی ہیں اور مخص وص و متعین‬
‫دوکانوں سے دوا خرید کرنے کو کہا جاتا ہے ‪ ،‬تاکہ ان سے کمیشن مل سکے۔ ‪ ،‬مریض پ ر‬
‫بوجھ ڈالنے اور اپنی جیب بھرنے کے لئے ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو دوائیں پہلے لکھی گئی‬
‫تھیں ابھی وہ ختم بھی نہیں ہوئی کہ دوا تبدیل کردی جاتی ہے اور اسی فارمولہ کی دوسری‬
‫دوا ‪ ،‬جس ک ا ن ام کمپ نی ب دل ج انے کی وجہ س ے ب دال ہ وا ہوت ا ہے ‪ ،‬لکھ دی ج اتی ہے ‪،‬‬
‫بیچارے مریض کو ڈاکٹر صاحب کی اس ہوشیاری کی خ بر بھی نہیں ہ وتی ‪ ،‬یہ بھی دیکھ ا‬
‫گیا ہے کہ جتنی دوا مطلوب ہے اس سے زیادہ لکھ دی گئی اور چند دنوں میں نسخہ بدل دیا‬
‫گیا اور زائد دوائیں بیک ار ہوگ ئیں ‪ ،‬یہ بھی ہوت ا ہے کہ نقلی دوائیں ی ا ایس ی دوائیں جن کی‬
‫مدت ختم ہ وچکی ہے ‪ ،‬دی ج اتی ہیں اور معی اری دوأوں کی قیمت وص ول کی ج اتی ہے ۔‬
‫امراض کے ٹسٹ کا معاملہ ت و س ب س ے س وا ہے ‪ ،‬بے مقص د ٹس ٹ ک رائے ج اتے ہیں ‪،‬‬
‫مریض نے اگر کسی دوسرے ڈاکٹر سے ٹس ٹ کرای ا ہ و ت و چ اہے وہ رپ ورٹ دن ‪ ،‬دو دن‬
‫پہلے ہی کی کی وں نہ ہ و ‪ ،‬لیکن نی ا ڈاک ٹر پھ ر س ے پ ورے ٹس ٹ کرات ا ہے اور یہ بھی‬
‫ضروری قرار دیا جاتا ہے کہ ڈاکٹر نے جس پیتھالوجسٹ کا مشورہ دی ا ہے اس ی کے یہ اں‬
‫ٹسٹ کرایا جائے ‪ ،‬ان اقدامات میں مخلصانہ جستجو و تحقیق ک ا ج ذبہ ش اذ و ن ادر ہی ہوت ا‬
‫ہے ‪ ،‬اکثر اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ کمانا اور اپنی جیب بھرنا ہوت ا ہے ‪ ،‬ایس ا بھی ہوت ا‬
‫ہے کہ ایک ڈاکٹر دوسرے ڈاکٹر یا کسی خاص ہاسپٹل کو مریض ریفر ( ‪ )Refer‬کرتا ہے ‪،‬‬
‫یہ تمام صورتیں اگر مریض کی بھالئی کے جذبہ سے ہوں تب تو ان کی افادیت سے انک ار‬
‫نہیں کی ا جاس کتا ‪ ،‬لیکن افس وس کہ ان س ب ک ا مقص د کمیش ن کھان ا ہوت اہے ‪ ،‬دوأوں پ ر‬
‫کمیشن ‪ ،‬ٹسٹ پر کمیشن ‪ ،‬مریض کے بھیجنے پر کمیش ن اور جہ اں جہ اں ممکن ہ و وہ اں‬
‫سے کمیشن کاحصول ‪ ،‬ان کمیشنوں اوران کی بڑھ تی ہ وئی ش رحوں نے م ریض کی کم ر‬
‫توڑ دی ہے اور غریب لوگوں کے لئے ہاسپٹل جانے کا تصور بھی ایک بوجھ ہوتا ہے ‪ ،‬یہ‬
‫کمیشن فقہی اعتب ار س ے رش وت ہے ‪ ،‬اس ک ا لین ا ح رام ہے اور اس میں واس طہ بنن ا بھی‬
‫رام ہے ۔‬ ‫ح‬
‫حکومت کی طرف سے اس بات پر پابندی ہے کہ س رکاری ہاس پٹلوں میں ک ام ک رنے والے‬
‫ڈاکٹر الگ سے اپنے نرسنگ ہوم چالئیں ‪ ،‬لیکن جسے خدا کا خوف نہ ہو اس کے قدم ک ون‬
‫تھام سکتا ہے ؟ ق رٓان کے اس ارش اد کہ ‪ ،‬باط ل ط ریقے پ ر م ال نہ کھ أو‪،‬کہ قطع ا ً مغ ایر‬
‫رہ‪)۱۸۸:‬‬ ‫ل‘‘۔(بق‬ ‫اکلوااموالکم بینکم بالباط‬ ‫ہے ‪’’،‬والت‬
‫ت ح ال یہ ہے کہ جن ام راض ک ا عالج دوأوں کے ذریعہ ممکن‬ ‫اسی طرح ایک نئی ص ور ِ‬
‫ہے ‪ ،‬ان میں بھی ٓاپریشن کا مشورہ دیا جاتا ہے ‪ ،‬تاکہ عالج گراں بار ہو اور مریض کی یہ‬
‫گرانی معالج کے لئے ارزانی کا باعث ہے ‪ ،‬خاص کر والدت کے کیس میں کثرت سے اس‬
‫طرح کی بات پیش ٓاتی ہے۔‬
‫رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے طب کا علم حاصل نہ کیا ہو ‪،‬‬
‫وہ عالج کرے تو وہ نقصان کا ضامن ہوگا ۔جو معالج تعلیم یافتہ ہو ‪ ،‬لیکن اس نے عالج‬
‫میں کوتاہی سے کام لیا ہو ‪ ،‬مناسب تحقیق نہیں کی ہو اور اس کی اس کوتاہی کی بناپر‬
‫مریض کو نقصان پہنچا ہو تب بھی وہ ذمہ دار ہوگا ۔ میں جانتا ہوں کہ اپنے شعبے کی‬
‫ضرورت اور اسالمی تعلیمات کی روشنی میں طب و عالج کو اسالم میں بڑی اہمیت‬
‫حاصل ہے اور معالج انسانی خدمت کے اعتبار سے سب سے اہم ذمہ داری انجام دیتا ہے ‪،‬‬
‫وہ اپنے پیشے میں اُجرت کے ساتھ ساتھ اجر اوردنیا کے نفع کے ساتھ ساتھ ٓاخرت کے نفع‬
‫کو بھی پاسکتا ہے ‪ ،‬بشرطیکہ وہ اس پیشہ کو محض تجارت کے طورپر اختیار نہ کرے ‪،‬‬
‫بلکہ اس میں انسانیت کی خدمت کے پہلو کو بھی ملحوظ رکھے اور جھوٹ ‪ ،‬دھوکہ اور‬
‫حرام طریقہ پر کسب ِمعاش سے اپنے دامن کو بچائے ۔بقول موالنا ابوالحسن ندوی‪:‬‬

‫“میری زندگی کا مقصد اور نصب العین بلکہ ایک مس لمان کی زن دگی ک ا مقص د اور نص ب‬
‫العین کائنات کے خالق و مالک کے حضور مکمل خود سپردگی اور تس لیم و نی از کے س وا‬
‫اور کیا ہوسکتا ہے!میں زندگی کو ایک ام انت س مجھتا ہ وں‪ ،‬جس ک ا ہ ر لمحہ بیش قیمت‬
‫ہے‪ ،‬دنیا میرے لیے امتحان گاہ ہے اور یہ زندگی ایک آزم ائش!میں اپ نے ہ ر ق ول و فع ل‬
‫کے لیے خود کو ہللا کے حضور جواب دہ سمجھتا ہوں‪ ،‬جس کے سلس لے میں آخ رت میں‬
‫مجھ سے سوال کیا جائے گا۔اس ل یے م یری زن دگی کابنی ادی مقص د اپ نے رب کی رض ا و‬
‫خوش نودی ک ا حص ول ہے؛ اس کی اط اعت و بن دگی کے ذریعہ بھی‪ ،‬اور حق وق العب اد کی‬
‫ادائیگی کی راہ س ے بھی‪ ،‬س ب کے س اتھ منص فانہ و ہم دردانہ رویہ اور تع اون و خ یر‬
‫خواہی کا جذبہ اپنا کر‪ ،‬اور اپنی مقدور بھر صالحیت کے مطابق نس ل انس انی کی وح دت و‬
‫مساوات اور اس کی عظمت و حرمت کے لیے جد وجہد کے راستے سے بھی‪.‬‬
‫خدا کے عاشق تو ہيں ہزاروں ‪ ،‬بنوں ميں پھرتے ہيں مارے مارے ميں اس کا بندہ بنوں گا جس‬
‫کو خدا کے بندوں سے پيار ہو گا‬

You might also like