Professional Documents
Culture Documents
لفظ مقصد اور نصب العین میں تھوڑا س ا ف رق ہے۔ جس خواہش کی تکمی ل کے ل یے ہم
اعلی ک و کہ تےٰ کوئی کام کریں وہ بات اس کام کا مقصد ہوتا ہے لیکن نصب العین مقصد
ہیں۔ جیسے ہم محنت مزدوری کریں یا تجارت کریں تو مقصد یہ ہوت ا ہے کہ روپی ا پیس ہ
حاصل ہوگا ،زندگی گزارنے کا سامان پیدا ہوگا ،یہ تجارت و صنعت ک ا مقص د ہے۔لیکن
تعالی کے احکام کو پورا کرتے ہ وئے ہم روزی کم ائیں ٰ اعلی یہ ہے کہ ہللا
ٰ اس کا مقصد
پھر اپنے بیوی بچوں ،اپنے والدین اور اپنے بہن بھائیوں کے اخراج ات ک و پ ورا ک ریں،
رشتے داروں ،غرباء اور مساکین کا خیال رکھیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان باتوں کا بھی
خیال رکھے جو ہمیں اخالقی لحاظ سے ممت از ک رتی ہیں کی وں کہ ان تم ام ب اتوں ک ا ہللا
اعلی جس ے نص ب العین کہ تے ٰ الی نے حکم دی ا ہے۔ گوی ا انس ان ک ا اص ل مقص د تع ٰ
ہیں،اپنے ش عبہ کی ح دود میں رہ تے ہوئےص رف اط اعت الہی اور خ دمت انس ان یع نی
حقوق العباد ہو۔
تعالی نے فرمای اٰ انسان کا نصب العین صرف اور صرف اطاعت ٰالہی ہے۔اسی بات کو ہللا
ہے کہ اگر بے مقصد زندگی گزاری جائے تو پھر یہ انسان ،انسانیت کے دائرے س ے ب اہر
نکل جاتا ہے جب کہ ایک بے شعور بچہ بھی ماں کی گود میں بے مقصد نہیں روتا تو پھ ر
الی نے ایک عقل مند انسان بے مقص د زن دگی گ زارنے ک ا تص ور ہی نہیں کرس کتا۔ ہللا تع ٰ
قرآن حکیم میں اس ی ب ات ک و س والیہ ان داز میں خ ود انس ان س ے پوچھ ا ،مفہ وم ’’ :کی ا تم
سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بے کار پیدا کیا۔‘‘یہ ہللا رب العزت ک ا حکیم انہ ان داز
ہے کہ خود انسان کو اس بات پر غور و فکر کر کے قائل کروا لیا جائے کہ تمہارا کوئی
نصب العین ہونا چاہیے۔ ہللا تع ٰالی نے کائن ات میں ک وئی چ یز بے ک ار پی دا نہیں کی ۔ہ ر
چیز کا مقصد ہے ۔زندگی کے مقاصد کا تعین ہللا ٰ
تعالی نے یوں کیا ہے:
"ترجمہ:بے شک ہم نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے ل یے
پیدا کیا"
ڈاکٹر رفیع الدین مرح وم نے اپ نی کت اب ‘‘Manifesto of Islam’’ میں نص ب العین کی
وضاحت پیش کی ہے۔ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے عالمہ اقبال کے فلس فہ ٔخ ودی کی ق رٓان
کی نصوص کی روشنی میں تش ریح وتوض یح کی ہے۔لکھ تے ہیں کہ انس ان کے ان در س ب
سے بڑا جذبہ محبت کا جذبہ ہے .وہ کسی شے سے‘کسی ہستی س ے ی ا کس ی نظ ریے اور
خیال سے محبت کرتا ہے اور اس کے لیے بھوکا رہنا گوارا کرتا ہے .اس کی جبلت میں تو
یہ ہے کہ وہ اپ نے پیٹ ک و بھ رے‘ اپ نی ذات کی بق ا )preservation of the self( کے
تقاضے پورے کرے .لیکن اگر مقصد ،زندگی کی لگن چھاجائے ،ت و انس ان ف اقے برداش ت
کرتا ہے .یہ جذبہ کسی بھی مقصد کے لیے بروئے کار ٓاسکتا ہے‘ وطن کے لیے‘ قوم کے
لیے‘ کسی نظریے کے لیے‘ جیسے ماضی میں کمیونزم وغیرہ کے لیے استعمال ہوا ہے.
حیوانی جبلت )animal instinct( تو یہ ہے کہ اپنی جان کو بچایا جائے‘لیکن انسان ک و ہم
دیکھتے ہیں کہ کسی محبوب شے کے لیے جان قربان کر دیا کرتا ہے .اس کی ک ئی مث الیں
موجود ہیں‘ جیسے جاپانیوں نے جنگ عظیم میں کیاکہ چھاتہ بردار بم باندھ کر ہوائی جہاز
س ے ک ودے اور بح ری جہ از کی چم نی میں ات ر گ ئے .انہیں معل وم ہے کہ خ ود ان کے
پرخچے اڑ جانے ہیں مگر ان پر وطن کی محبت چھائی ہوئی ہے .انسان کا ک وئی نہ ک وئی
مطلوب ہو‘ کوئی ٓادرش ہو‘ کوئی نصب العین ہو ،کوئی ٓائیڈیل ہو‘ کوئی اس کا محبوب ہ و‘
کوئی اس کا مقصود ہو‘ اس کے لیے وہ محنت کرے‘ ایث ار ک رے‘ اس کے ل یے وہ بھوک ا
رہے‘ اس کے لیے وہ راتوں کو جاگے‘ اس کے ل یے وہ ج ان ک ا رس ک لے‘ ج ان قرب ان
کردے‘ اس کے لیے وہ پھانسی کے پھن دے ک و چ وم ک ر گلے میں ڈالے‘ یہ انس ان ک ا بلن د
ترین اور سب سے زیادہ قوی جذبہ ہے .یہ جذبہ اص ل میں ہللا کی محبت کے ل یے پی دا کی ا
گیا ہے‘ لیکن فکری پستی کی وجہ سے انسان معرفت ِرب تک نہیں پہنچ پاتاتو جیسے شدید
بھوک میں ٓاپ کسی گھٹیا غذا کو بھی قبول ک ر لیں گے جس ے ع ام ح االت میں دیکھن ا بھی
پسند نہیں کرتے ‘آپ اس کو اضطرار کی حالت میں کھالیں گے‘ اسی طرح جب انس ان کی
نگاہ اُس بلند ت رین مطل وب و مقص ود ت ک ‘ اُس highest ideal ت ک‘ اُس اص ل محب و ِ
ب
حقیقی ت ک نہیں پہنچ س کتی ت و وہ کس ی اور ش ے ک و اُس کی جگہ رکھ ک ر اس س ے وہی
محبت کرنے لگتا ہے جو دراص ل ہللا س ے ہ ونی چ اہیے .اس ل یے کہ ان در کے ج ذبہ ک و
تسکین )satisfaction( درکار ہے .اُسے تو ک وئی نہ ک وئی محب وب چ اہیے.اگ ر خ دا ت ک
نہیں پہنچے گا تو کسی اور شے کو پوجے گا‘ وطن کو پوجے گا‘ قوم کو پوجے گ ا‘ اپ نے
ہی نفس کو پوجے گا‘ اپنے ہی ’’حریم ذات‘‘ کے گرد طواف کرتا رہے گا:
حسن مبہم پر ساری ہستی لٹائی جاتی ہے ِ اک تصور کے
ک ٓارزو کے بعد کیسے سانسوں میں ڈھالی جاتی ہے! زندگی تر ِ
اگر وہ ٓارزو نہیں رہی‘ وہ امنگ نہیں رہی‘ کوئی نصب العین نہیں‘ کوئی آدرش نہیں‘
کوئی مطلوب و مقصود نہیں تو پھر یہ انسان محض ایک" human vegetable" ہے۔یہ
اصطالح )human vegetable( آج کل بہت استعمال ہوتی ہے یعنی وہ لوگ جو طبعی
طور پر مر چکے ہوں لیکن ان کو مشینوں سے زندہ رکھا گیا ہو کہ دل بھی چل رہا ہے‘
خون بھی گردش میں ہے اور گردوں کے لیے بھی مشین کام کر رہی ہے‘ وغیرہ .یہ لوگ
سالہا سال تک اسی طرح پڑے رہتے ہیں۔انسان کسی بلندشے کو مطلوب ومقصود بناتا ہے
تو اُس کی اپنی شخصیت بھی بلند ہوتی ہے‘ لیکن جب اس کی نگاہ پستی پر اٹک جاتی ہے
تو پھر اس کی اپنی شخصیت بھی انتہائی پست رہ جاتی ہے .بلند ٓائیڈیل ہوگا تو اس کی
شخصیت کو ترفع حاصل ہوگا۔
اگر ٓاپ کو ایک اونچی دیوار پر چڑھنا ہے‘ کمند ٓاپ کے پاس ہے تو ٓاپ کو اپنے
زور بازو کے ذریعے پہلے کمند کو اونچا پھینکنا ہوگا .جتنی اونچی کمند اٹک جائے گی‘ ِ
اتنا ہی اونچا ٓاپ جاسکیں گے .جتنا ٓاپ کا ٓائیڈیل بلند ہوگا‘ اتنی ہی ٓاپ کی شخصیت میں
بلندی ہوگی .قرٓان مجید میں جہاں فرمایا گیا کہ اہل ایمان کی شان تو یہ ہے کہ شدید ترین
محبت ہللا سے کرتے ہیں‘ وہاں انسان کی مجبوری اور پستی کے اندر مبتال ہونے کا ذکر
اس َمن یَّتَّ ِخ ُذ ِمن ُدو ِن ہّٰللا ِ اَندَادًا یُّ ِحبُّونَہُم َکحُبِّ ہّٰللا ِ ؕ َو الَّ ِذینَ ٰا َم ُن اَ َش ُّد
بھی کیا گیا ہےَ ( :و ِمنَ النَّ ِ
ُحبًّا ہّٰلِّل ِ ؕ) "انسانوں میں ایسے بھی ہیں جو ہللا کے سوا کسی اور کو مدمقابل بنالیتے ہیں ‘
پھر اس سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی ہللا سے کرنی چاہیے‘ اور وہ لوگ جو اہل ایمان
ہیں وہ شدید ترین ہیں ہللا کی محبت میں( ‘‘.البقرۃ)۱۶۵:
ب حقیقی ہللا کو ہونا چاہیے تھا ‘لیکن وہاں تک رسائی نہیں ہوئی تو اس مقام پر کسی محبو ِ
اور کو رکھ کر اس کو پوجنا شروع کردیا‘ اس سے محبت شروع کردی .یہ انسان کا فطری
تقاضا ہے‘ جس کو وہ ہر صورت پورا کرتا ہے‘ کسی نہ کسی شے کو اپنا مطلوب
ومقصود بنا کر ‘‘گویا ہم کہہ سکتے ہیں:
"انسان کا بے مقصد زندگی گذارنا ایک ایسا خواب ہے جس کی کوئی تعبیر
نہیں،کوئی منزل نہیں"
اس لیے نصب العین کا تعین ضروری ہے ۔چنانچہ یہ سوال کہ "میرا نصب العین کیا
ہے"اس حوالے سے زندگی کا مبہم خاکہ جس کی تکمیل انشا ہللا مستقبل میں ہوگی ،میرے
پیش نظر یوں ہے:
۱۔ہللا کی رضا کے مطابق اطاعت الہی میں زندگی گزارنا
۲۔اپنے شعبہ کی حدود میں رہتے ہوئے بحثیت ڈاکٹر اور استادانسانیت کی خدمت
کرناجو نہ صرف ملک کا نام روشن کرے ،اس کے ساتھ انسانی تحفظ،بقا اور انسانیت
نوازی کی مثا ل قائم کرے۔ایسے درد مند معالج تیار کرنا جن کا بنیادی مقصد ہللا کی رضا
کے لیے انسانی فالح ہو ۔
جب سے دنیا و ج ود میں آئی ہے اس وقت س ے آج ت ک پ وری انس انیت ک ا نص ب العین
صرف ایک ہی چیز کو قرار دیا گیا ہے ،یعنی انسان کو اپنے رب کو پہچاننا چ اہیے اور
جس طرح اُس نے حکم دیا ہے اُس کے مطابق اپنی زندگی کو گزارنا چاہیے اور اس کی
سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آدم علیہ السالم سے لے کر رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم
الی
تک تمام انبیاء کا نصب العین صرف ایک ہی تھا کہ ایک خدا کی عب ادت ک رو۔ ہللا تع ٰ
نبوی کو ذہن میں نقش ک ر
ؐ کی اطاعت صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اس ارشاد
ریم کے ارش اد گ رامی ک ا مفہ وم ہے ’’ :میں نے تمہ ارے پ اس دو
لی ا ج ائے۔رس ول ک ؐ
چیزیں چھوڑی ہیں جب تک تم ان کو مضبوطی سے پک ڑے رہ و گے گم راہ نہ ہ و گے،
ان میں سے ایک کتاب ہللا اور دوسری سنت رسول ہللا ﷺ ہے۔‘‘
صحابی کو
ؓ ٰ
الزکوۃ من االسالم‘‘ کی پہلی روایت میں ایک بخاری شریف کے ’’باب
آپ کے ارشادات کو سن کر رسول ہللا ﷺ نے اسالمی تعلیمات سکھائیں ؐ
صحابی جانے لگے۔ تو انہوں نے کہا’’ :خدا کی قسم میں اس میں نہ زیادتی
ؓ جب وہ
کروں گا نہ اس میں کمی کروں گا۔‘‘اس پر رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا’’ :
اگر یہ سچ کہتا ہے تو کام یاب ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ اطاعت ٰالہی صرف جب ہی ممکن ہے جب ان دونوں راستوں کو
مضبوطی سے تھامے رکھیں گے۔ کیوں کہ یہی نصب العین فالح و کام یابی کا راستہ
ہے۔ لیکن مسلمان اگر اپنا نصب العین کچھ اور بنا لیں ،آخرت کی طرف سے رخ موڑ
اعلی قرار دے لیں تو وہ مقصد بھی ضرور حاصل ہوگا۔ لیکن ہم اصل ٰ کر دنیا کو مقصد
نصب العین سے ہٹ کر الگ ہو جائیں گے اور سوائے خسارے کے کچھ بھی نہ ملے
تعالی کا مفہوم ہے کہ جو شخص ٓاخرت کی کھیتی چاہتا ہے تو ہم اس کیٰ گا۔ارشاد باری
کھیتی میں اور اضافہ کریں گے ،اگر کوئی شخص صرف دنیا قکی کھیتی چاہتا ہے تو ہم
اسے دے دیں گے لیکن آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔ب ول ش اعر:
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
اب میں زندگی کے پیشہ ورانہ پہلو کی طرف ٓاتا ہوں ۔دنیا میں رہتے ہ وئے انس ان کس ی نہ
کسی پیشے س ے وابس تہ ہوت ا ہے جس ک ا مقص د ب اعزت روزی ک ا حص ول ہے ۔میں جس
شعبے سے وابستہ ہونا چاہتا ہوں اس کا تعلق ہر پہلو سے انسانیت ن وازی ہے ،میں ڈاک ٹری
کے شعبے میں قدم رکھوں توجو اہداف م یرے ذہن میں ہیں ان کی وض احت کرت ا ہ وں۔ہ ر
نوجوان جو ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کرتا ہے وہ معالج کےساتھ ساتھ ایک استاد کا فریض ہ
بھی س رانجام دیت ا ہے ۔وہ اپ نے بع د اس ش عبے میں ٓانے والی نوج وان نس ل کی ت ربیت ک ا
ذریعہ بنتا ہے ۔اس نے ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے عملی زندگی میں جو س یکھا ہوت ا ہے اس
کے پیش نظر وہ تمام معلومات اگلی نسل کو پہچانا ،ان کی مناسب اخالقی اور عملی ت ربیت
کرنا مقصود ہوتا ہے۔جب وہ اس نسل میں یہ تصور بیدار کر دیتا ہےکہ:
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے در ِد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
کروبیاں
اور حدیث نبوی ﷺکے مطابق":تما م مخل وق ہللا ک ا کنبہ ہے اور ہللا تع ٰالی
اس سے محبت کرتا ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ حسن و س لوک س ے پیش ٓات ا ہے۔"ت و
گویا وہ نوجوان ڈاکٹروں کے اندر انسان کی قدر وقیمت اور انسانیت نوازی کا قوی احس اس
بیدار کرنے میں محرک کا کردار ادا کرتا ہے۔اس سطح پر وہ اپنے ٓاپ کو معلم انسانیت کی
ادنی اور اعلی،ام یر و غ ریب ک ا تعین ک یے بغ یر ان کی حی ثیت س ے پیش کرت ا ہے ج و ٰ
بیماریوں کا نفسیاتی اور روحانی عالج کرت ا ہے۔وہ ن بی رحمتﷺ کے نقش
ق دم پ ر چل تے ہ وئے ان ام ور ک ا خی ا ل رکھت ا ہے ج و اس ے ہللا اور اس کے
رسولﷺکی رضا کے لیے ہوں۔
حیات لے کے چلو،کائنات لے کے چلو چلو تو سارے جہاں ک و س اتھ
لے کے چلو
میرے پیش نظر یہ بات ہےکہ محسن انسانیت صلی ہللا علیہ وسلم کو بھی ہللا تعالی نے معلم
اور روحانی معالج بنا کر بھیجا۔ جنہوں نے ذات پات رنگ و نسل کے فرق کو ختم کر دیا
اور اعالن کیا کہ کسی عربی کو عجمی پر کسی عجمی کو عربی پر اور کسی گورے کو
کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فوقیت نہیں۔ ہاں وہ آدمی جس میں حقیقی
انسانیت اور ابدیت موجودہو وہ الئق تعظیم وتکریم ہے۔بقول حالی:
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
تعالی نے انسان کو اس دنیا
ٰ کسی بھی سماج میں ڈاکٹر اور معالج کی خاص اہمیت ہے ،اﷲ
میں ایسا وجود عطا کی ا ہے جس میں خوبی وں اورص الحیتوں کے س اتھ س اتھ خ امیوں اور
مجبوریوں کی ٓامیزش بھی پائی جاتی ہے ،انسان کی طاقت و قوت کا حال یہ ہے کہ کائنات
ت تس خیر کی کی بڑی سے بڑی اور طاقتور س ے ط اقتور ت رین مخل وق بھی انس ان کی ق و ِ
اسیر ہے ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کی کمزوری اور ناطاقتی کا حال یہ ہے کہ معم ولی
کیڑے مکوڑے بھی اسے نقصان پہنچاسکتے ہیں ،ایک بالش ت ک ا س انپ بھی اس کی ج ان
لے س کتا ہے اور بیماری اں اس ے ٓاس انی س ے بچھ اڑ س کتی ہیں ۔
الی نے اس کائن ات میں زہ ر کے س اتھ س اتھ اس ک ا تری اق بھی پی دا فرمای ا ہے اور اﷲ تع ٰ
بیماریوں کے ساتھ ساتھ اس کا عالج بھی ،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
تعالی نے بڑھاپے کے سوا ہربیماری کی دوا پیدا کی ہے ’’ :تداووا ف إن اﷲ عزوج ل ٰ :اﷲ
دائ واحد الھرم‘‘( سنن ابی دأود ،حدیث نمبر ، ۳۸۵۷ : ئ غیر ٍئ إال وضع لہ دوا ً
لم یضع دا ً
الی
نیز دیکھئے :سنن ابن ماجہ ،حدیث نمبر )۳۴۳۶ :اب یہ انسان کا ک ام ہے کہ وہ اﷲتع ٰ
کی دی ہوئی عقل اور تجربہ کی قوت کو استعمال کرتے ہ وئے دوأوں ک و دری افت ک رے ،
اس کام کو میڈیکل سائنٹسٹ اور ڈاکٹر انجام دیتے ہیں ،اس لئے اس میں کوئی ش بہ نہیں کہ
انسانی خدمت کے پہلو سے ان کی خدمات نہایت اہم ہیں ۔
بھوکے کو کھانا کھالنا ،محتاج کو کپڑے پہنانا ،مع ذور کے ک ام میں ہ اتھ بٹان ا اور
ضرورت مند کی حاجت پوری کرنا یہ سب مخلوق کی خ دمت ہے ،لیکن انس ان س ب س ے
زیادہ خدمت کا محتاج اس وقت ہوتا ہے جب وہ مریض ہو ،بیماری انس ان ک و اس مق ام پ ر
پہنچادیتی ہے کہ کھانا موجود ہونے کے باوجود وہ کھانہیں سکتا ،ہ اتھ پ أوں س المت ہیں ،
لیکن وہ ایک ق دم چ ل نہیں س کتا اور تیم اداری اور م ددگاروں کے رحم و ک رم ک ا محت اج
ہوجات ا ہے ،اس ی ل ئے رس ول اﷲ ص لی اﷲ علیہ وس لم نے م ریض کی عی ادت اور تیم ار
داری کو بے حد اجر کا باعث قرار دیا ہے ٓ ،اپ انے فرمایا :جب تک ایک شخص م ریض
کی عیادت میں رہتا ہے گویا وہ جنت کے باغ میں ہے ( مس لم ، ) ۶۵۵۱ :اس ط رح ڈاک ٹر
گوی ا اپ نی ڈی وٹی کے پ ورے وقت اس ح دیث ک ا مص داق ہوت ا ہے ۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمای ا کہ لوگ وں میں س ب س ے بہ تر وہ ہے ج و
لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچائے اور کون ہے جو انسانوں کے ل ئے ڈاک ٹر اور مع الج
سے بڑھ کر نافع ہو ؟ اس طرح گویا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ س ے ڈاک ٹر ک و
’’ خیر الناس ‘‘ ( بہترین انسان ) کا ایوارڈ مال ہے ،ان سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہوس کتا
ہے ،فن طب کی اسی اہمیت کی وجہ سے سیدنا حضرت علی سے مروی ہے کہ اص ل علم
دو ہی ہیں :فقہ ،کہ زن دگی گ ذارنے ک ا ط ریقہ معل وم ہ و اور طب ت اکہ جس م انس انی کی
اصالح پر قدرت ہوسکے ۔
’’ العلم علم ان:الفقہ لالدی ان وعلم الطب لالب دان ‘‘۔ ( مفت اح الس عادۃ ۱ :؍(۲۶۷
واقعہ ہے کہ یہ گروہ انسانیت کا سب سے بڑا محسن ہے اور اس نسبت سے ان کی توقیر و
تکریم سماج کا فریضہ ہے ،بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ عالج سے جلدی فائدہ نہیں ہوا ،ی ا
مریض کی موت واقع ہوئی تو ل وگ ڈاک ٹر س ے اُلجھ ج اتے ہیں اور بعض دفعہ ت و اس کی
رز عم ل ہے ،اس ل ئے کہ عالج ت و ج ان کے بھی اللے پڑج اتے ہیں ،یہ غ یر س نجیدہ ط ِ
انسان کے اختیار میں ہے ،لیکن صحت و شفا خدا کی مشیت کے بغیر حاص ل نہیں ہ وتی ،
’’ وإذا مرضت فہو یشفین‘‘ ( شعراء ، )۸۰ :زندگی کو بچانے کا مکل ف ق رار دین ا اس پ ر
ترادف ہے ۔ نے کے م وجھ ڈال ادہ ب ے زی الحیت س اس کی ص
میں جانتا ہوں کہ جو شخص جس مقام کا حامل ہوتا ہے اسی نسبت سے اس کی ذمہ داری اں
بھی ہوتی ہیں ،اس لئے ڈاکٹر اور معالج حضرات کو اپنی ذمہ داری وں پ ر بھی ت وجہ دی نی
چ اہئے ،ڈاک ٹر ک ا بنی ادی فریض ہ یہ ہے کہ وہ اس پیش ہ میں خ دمت کے پہل و ک و مق دم
رکھے ،ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ مریضوں کا مفت عالج ک ریں اور اپ نے گھ ر س ے
دوائیں الک ر کھالدیں ،لیکن یہ ض رور ہے کہ اس پیش ہ ک و محض تج ارت اور ب زنس نہ
بنادیا جائے اور اجرت کے ساتھ ساتھ اجر کے پہلو کو بھی ملح وظ رکھ ا ج ائے ،اس وقت
ت حال یہ ہے کہ تعلیم اور عالج نے ایک زبردست کاروبار کی صورت اختیار کرلی صور ِ
ہے اور معاشی کشش کی وجہ سے بہت سے ہوٹل ،ہاسپٹل میں تبدیل ہوگئے ہیں ،ڈاکٹروں
کی فیس مریض کے لئے ناقابل برداشت بوجھ بن گئی ہے ،پھ ر فیس کے سلس لے میں بھی
ایک نئی روایت یہ قائم ہورہی ہے کہ مریض جتنی بار مشورے کے لئے جائے ہر بار فیس
ادا کرے ،اس طرح بعض اوقات ہر ہفتہ ڈاکٹرز فیس وصول کرلیتے ہیں ،پھ ر ٓام دنی کے
بالواسطہ ذرائع بھی پیدا کرلئے گ ئے ہیں ،دوائیں لکھی ج اتی ہیں اور مخص وص و متعین
دوکانوں سے دوا خرید کرنے کو کہا جاتا ہے ،تاکہ ان سے کمیشن مل سکے۔ ،مریض پ ر
بوجھ ڈالنے اور اپنی جیب بھرنے کے لئے ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو دوائیں پہلے لکھی گئی
تھیں ابھی وہ ختم بھی نہیں ہوئی کہ دوا تبدیل کردی جاتی ہے اور اسی فارمولہ کی دوسری
دوا ،جس ک ا ن ام کمپ نی ب دل ج انے کی وجہ س ے ب دال ہ وا ہوت ا ہے ،لکھ دی ج اتی ہے ،
بیچارے مریض کو ڈاکٹر صاحب کی اس ہوشیاری کی خ بر بھی نہیں ہ وتی ،یہ بھی دیکھ ا
گیا ہے کہ جتنی دوا مطلوب ہے اس سے زیادہ لکھ دی گئی اور چند دنوں میں نسخہ بدل دیا
گیا اور زائد دوائیں بیک ار ہوگ ئیں ،یہ بھی ہوت ا ہے کہ نقلی دوائیں ی ا ایس ی دوائیں جن کی
مدت ختم ہ وچکی ہے ،دی ج اتی ہیں اور معی اری دوأوں کی قیمت وص ول کی ج اتی ہے ۔
امراض کے ٹسٹ کا معاملہ ت و س ب س ے س وا ہے ،بے مقص د ٹس ٹ ک رائے ج اتے ہیں ،
مریض نے اگر کسی دوسرے ڈاکٹر سے ٹس ٹ کرای ا ہ و ت و چ اہے وہ رپ ورٹ دن ،دو دن
پہلے ہی کی کی وں نہ ہ و ،لیکن نی ا ڈاک ٹر پھ ر س ے پ ورے ٹس ٹ کرات ا ہے اور یہ بھی
ضروری قرار دیا جاتا ہے کہ ڈاکٹر نے جس پیتھالوجسٹ کا مشورہ دی ا ہے اس ی کے یہ اں
ٹسٹ کرایا جائے ،ان اقدامات میں مخلصانہ جستجو و تحقیق ک ا ج ذبہ ش اذ و ن ادر ہی ہوت ا
ہے ،اکثر اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ کمانا اور اپنی جیب بھرنا ہوت ا ہے ،ایس ا بھی ہوت ا
ہے کہ ایک ڈاکٹر دوسرے ڈاکٹر یا کسی خاص ہاسپٹل کو مریض ریفر ( )Referکرتا ہے ،
یہ تمام صورتیں اگر مریض کی بھالئی کے جذبہ سے ہوں تب تو ان کی افادیت سے انک ار
نہیں کی ا جاس کتا ،لیکن افس وس کہ ان س ب ک ا مقص د کمیش ن کھان ا ہوت اہے ،دوأوں پ ر
کمیشن ،ٹسٹ پر کمیشن ،مریض کے بھیجنے پر کمیش ن اور جہ اں جہ اں ممکن ہ و وہ اں
سے کمیشن کاحصول ،ان کمیشنوں اوران کی بڑھ تی ہ وئی ش رحوں نے م ریض کی کم ر
توڑ دی ہے اور غریب لوگوں کے لئے ہاسپٹل جانے کا تصور بھی ایک بوجھ ہوتا ہے ،یہ
کمیشن فقہی اعتب ار س ے رش وت ہے ،اس ک ا لین ا ح رام ہے اور اس میں واس طہ بنن ا بھی
رام ہے ۔ ح
حکومت کی طرف سے اس بات پر پابندی ہے کہ س رکاری ہاس پٹلوں میں ک ام ک رنے والے
ڈاکٹر الگ سے اپنے نرسنگ ہوم چالئیں ،لیکن جسے خدا کا خوف نہ ہو اس کے قدم ک ون
تھام سکتا ہے ؟ ق رٓان کے اس ارش اد کہ ،باط ل ط ریقے پ ر م ال نہ کھ أو،کہ قطع ا ً مغ ایر
رہ)۱۸۸: ل‘‘۔(بق اکلوااموالکم بینکم بالباط ہے ’’،والت
ت ح ال یہ ہے کہ جن ام راض ک ا عالج دوأوں کے ذریعہ ممکن اسی طرح ایک نئی ص ور ِ
ہے ،ان میں بھی ٓاپریشن کا مشورہ دیا جاتا ہے ،تاکہ عالج گراں بار ہو اور مریض کی یہ
گرانی معالج کے لئے ارزانی کا باعث ہے ،خاص کر والدت کے کیس میں کثرت سے اس
طرح کی بات پیش ٓاتی ہے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے طب کا علم حاصل نہ کیا ہو ،
وہ عالج کرے تو وہ نقصان کا ضامن ہوگا ۔جو معالج تعلیم یافتہ ہو ،لیکن اس نے عالج
میں کوتاہی سے کام لیا ہو ،مناسب تحقیق نہیں کی ہو اور اس کی اس کوتاہی کی بناپر
مریض کو نقصان پہنچا ہو تب بھی وہ ذمہ دار ہوگا ۔ میں جانتا ہوں کہ اپنے شعبے کی
ضرورت اور اسالمی تعلیمات کی روشنی میں طب و عالج کو اسالم میں بڑی اہمیت
حاصل ہے اور معالج انسانی خدمت کے اعتبار سے سب سے اہم ذمہ داری انجام دیتا ہے ،
وہ اپنے پیشے میں اُجرت کے ساتھ ساتھ اجر اوردنیا کے نفع کے ساتھ ساتھ ٓاخرت کے نفع
کو بھی پاسکتا ہے ،بشرطیکہ وہ اس پیشہ کو محض تجارت کے طورپر اختیار نہ کرے ،
بلکہ اس میں انسانیت کی خدمت کے پہلو کو بھی ملحوظ رکھے اور جھوٹ ،دھوکہ اور
حرام طریقہ پر کسب ِمعاش سے اپنے دامن کو بچائے ۔بقول موالنا ابوالحسن ندوی:
“میری زندگی کا مقصد اور نصب العین بلکہ ایک مس لمان کی زن دگی ک ا مقص د اور نص ب
العین کائنات کے خالق و مالک کے حضور مکمل خود سپردگی اور تس لیم و نی از کے س وا
اور کیا ہوسکتا ہے!میں زندگی کو ایک ام انت س مجھتا ہ وں ،جس ک ا ہ ر لمحہ بیش قیمت
ہے ،دنیا میرے لیے امتحان گاہ ہے اور یہ زندگی ایک آزم ائش!میں اپ نے ہ ر ق ول و فع ل
کے لیے خود کو ہللا کے حضور جواب دہ سمجھتا ہوں ،جس کے سلس لے میں آخ رت میں
مجھ سے سوال کیا جائے گا۔اس ل یے م یری زن دگی کابنی ادی مقص د اپ نے رب کی رض ا و
خوش نودی ک ا حص ول ہے؛ اس کی اط اعت و بن دگی کے ذریعہ بھی ،اور حق وق العب اد کی
ادائیگی کی راہ س ے بھی ،س ب کے س اتھ منص فانہ و ہم دردانہ رویہ اور تع اون و خ یر
خواہی کا جذبہ اپنا کر ،اور اپنی مقدور بھر صالحیت کے مطابق نس ل انس انی کی وح دت و
مساوات اور اس کی عظمت و حرمت کے لیے جد وجہد کے راستے سے بھی.
خدا کے عاشق تو ہيں ہزاروں ،بنوں ميں پھرتے ہيں مارے مارے ميں اس کا بندہ بنوں گا جس
کو خدا کے بندوں سے پيار ہو گا