Professional Documents
Culture Documents
نصا ِ
حفظ قرٓان (سورتیں زبانی یاد کرائی جاتی تھیں)۔ )(i
ف ِن قرات و تجوی ِد قرٓان۔ )(ii
غیر زبانوں کی تعلیم مثالً عبرانی ،سریانی ،فارسی ،رومی ،قبطی ،حبشی (حضرت )(iii
زبیر بھی بہت سی زبانیں جانتے تھے۔ زید بن ؓ
ثابت ماہر السنہ تھے)۔ حضرت عبدہللا ابی ؓ
فنون سپہ گری (نشانہ بازی ،تیر اندازی ،پیراکی ،گھوڑ دوڑ کے مقابلے ،جنگی )(iv
مشقیں)۔
( ،علم الطیور)(v
،زرعی علوم مثالً علم زراعت و فالحت )vi
علم ہیئت ،علم انساب۔ )(vii
عائشہ تھیں۔
ؓ تعلیم نسواں :۔مجالس وعظ و تعلیم کے لیے معلّمہ حضرت
ِ
نبوی میں مملکت اسالمیہ دس الکھ مربع میل تک پھیل گئی تLLو ایLLک وسLLیع تعلیمی
ؐ جب عہد
نظام قائم کرنا الزم ہوگیا۔ چنانچہ مدینہ منورہ سے بڑے بڑے مقامات پر تربیت یافتہ معلّمین
روانہ کیے جاتے اور صوبائی گورنروں کو بھی حکم ہوتLا کہ وہ اپLنے صLوبوں کی تعلیمی
ٓاپ نے ہLLدایت نLLامہ
عمرو ابن حLLزم کLLو ؐ
ؓ ضرورتوں کو پورا کریں۔ یمن کے گورنر حضرت
ٓاپ نےجاری فرمایا کہ وہ قرٓان ،حدیث ،فقہ اور اسالمی علوم کی تعلیم کا بندوبسLLت کLLریں۔ ؐ
ارشاد فرمایا’’ :لوگوں کو اس بات کی نرمی سے ترغیب دو کہ وہ دینیLLات کی تعلیم حاصLLل
کریں۔‘‘ (بحوالہ :ابن حنبل)۔ گورنروں کو یہ بھی حکم تھا کہ وہ لوگوں کو وضLLو ،جمعہ کLLا
غسLLLLLLLل ،باجمLLLLLLLاعت نمLLLLLLLاز ،روزہ اور حج بیت ہللا کے احکLLLLLLLام بتLLLLLLLائیں۔ نLLLLLLLبی
ناظر تعلیمات بھی مقرر فرمایا۔ اسے ِ کریمﷺنے صوبہ یمن میں ایک صدر
حکم تھLLا کہ وہ مختلLLف اضLLالع کLLا دورہ کLLرے اور وہLLاں کی تعلیم اور تعلیمی اداروں کی
علم
اعظم نے ہمیشہ ِ ؐ معلم
نگرانی کرے۔ (بحوالہ :تاریخ طبری ،صفحات )3-1982۔ الغرض ِ
[اللّھم انی اسئلک عل ًما نافعًا و رزقًا طیبًانافع کے لیے دعا فرمائیٰ :
Lرام کی مجلس میں اپLLنے سLLاتھیوںایک مرتبہ حضور اکرمﷺنے Lصحابہ کؓ L
سے پوچھLا’’ :بھال وہ کLون سLا درخت ہے جس کے پLLتے جھLڑتے نہیں اور جLLو مسLلمانوں
سے مشابہت رکھتLLا ہے؟‘‘ مجلس میں جتLLنے لLLوگ بیٹھے تھے وہ مختلLLف جنگلی درختLLوں
ٓاپ نے
کے بارے میں سوچنے لگے۔ کسی نے کوئی درخت بتایا اور کسی نے دوسرا۔ مگر ؐ
ٓاپ نے فرمایLLا’’ :وہ
ٓاپ ہی بتLLادیں۔ ؐ
Lور! ؐ
ان سب کا انکار کیا۔ لوگوں نے عرض کیLLا کہ حضؐ L
ٓاپ یہ بتانا چاہتے تھے کہ کھجLLور کLLا درخت کھجور کا درخت ہے۔‘‘ اس تمثیلی سوال سے ؐ
ایLLک ایسLLا درخت ہے جس میں سراسLLر بھالئی ہی بھالئی ہے۔ غLLرض اس بلیLLغ مثLLال میں
حضورﷺ نے تعلیمی نصب العین ،نصاب اور طریق تعلیم کی بLLڑے احسLLن
اور لطیف انداز میں وضاحت فرمLLائی ہے۔ (بحLLوالہ :ڈاکLLٹر مشLLتاق الLLرحمن صLLدیق ،تعلیم و
تدریس ،مباحث و مسائل(’’ ،مقالہ) نبی اکرم ﷺ کی حکمت تدریس کا ایLLک
منLLLLLLLLور گوشLLLLLLLLہ :تمLLLLLLLLثیلی و اسLLLLLLLLتعاراتی اسLLLLLLLLلوب ،صLLLLLLLLفحات )182-181۔
: سزا
صفّہ کے بارے میں کچھ معلومات ملLLتی ہیں۔ تLLاریخ سLLے واضLLحتاریخ اسالم میں درس گا ِہ ُ
ِ
ہوتا ہے کہ اس مدرسہ سے بچوں کو جسمانی سزا دینے کا طLLریقہ ناپسLLندیدگی سLLے دیکھLLا
گیا اور اس طریقے کے استعمال پر بچLLوں کے سرپرسLLتوں نے معلّمین پLLر سLLخت تنقیLLد کی
صحابہ کی تعلیمی سرگرمیاں ،صفحات ؓ نبوی اور عہد
ؐ ہے۔(بحوالہ :موالنا خلیل حامدی ،عہد
)138-137۔
تعلیم نسواں
ِ
تعلیم نسواں کی طرف بھی خصوصی توجہ فرمائی۔ خواتین ِ نبی اکرمﷺنے
ٓاپ نے علیحLLدہ دن اور وقت مقLLرر فرمایLLا۔ عبLLدالحئی الکتLLانی
کی تعلیم و تLLربیت کے لLLیے ؓ
فرماتے ہیںٓ’’ :انحضLLورﷺنے LالشLLفاء اُم سLLلیمان بن ابی حتمہ سLLے فرمایLLا:
ٓاپ نے ان کو کتابت (لکھنLLا) ؓ
المومنین) کو کشیدہ کاری سکھائیں جس طرح ؓ حفصہ (اُ ّم
ؓ ’’ٓاپ
سLLکھایا ہے۔‘‘ (عبLLدالحئی الکتLLانی ،نظLLام الحکLLومۃ النبLLویہ ،صLLفحات )50-49۔ عبLLدالحئی
الکتانی فرماتے ہیں’’ :خواتین کو سینا ،پرونا اور دھونLLا سLLکھائیں۔ ان کے ہLLاتھ میں سLLوئی
دھاگا اور کپڑا اچھا لگتا ہے۔‘‘ (عبدالحئی الکتانی ،نظام الحکومۃ النبویہ ،صفحہ )55۔
ٓاپ کے مٔوثر تدریس کے لیے جو رہنما اصول ہمیں سیّر و احLLاد یث کی کتب سLLے ملے ہیں ؐ
دور جدیLLد کے اسLLاتذہ کLLرام حضLLور اکLLرم ان کLLا ایLLک اجمLLالی خLLاکہ پیش کیLLا جاتLLا ہے۔ ِ
ﷺ کے Lطریقہ Lِ Lتعلیم Lو Lتدریس Lسے Lفائدہ Lاٹھا Lکر Lتعلیمی Lعمل Lکو Lمٔوثر Lاور
:بامقصد بنا سکتے ہیں۔ اب تفصیل مالحظہ ہو
ٓاپ نے اپنی تعلیمی تحریک کا ٓاغاز حم ِد ربّ جلیل سے کیا۔ خطابت یLLا دعLLوت دین حLLق کLLو ؐ
ہے۔ٓاپ
ؐ ب انسانی پLLر گہLLرے نقLLوش چھوڑتLLا ایک مذہبی فریضہ قرار دیا۔ یہ ادب و احترام قل ِ
Lا۔ٓاپ کے
نے ہمیشہ فصاحت و بالغت ،سالسLLت و روانی ،شسLLتگی و شائسLLتگی سLLے کLLام لیؐ L
طریق ِہ تدریس کی ایک خوبی اختصار پسندی بھی تھی۔ خطبLLات مبLLارکہ مختصر اور جLLامع
ٓاپ طLLLLLLLLLLLLLLLLLLوالت کLLLLLLLLLLLLLLLLLLو ناپسLLLLLLLLLLLLLLLLLLند فرمLLLLLLLLLLLLLLLLLLاتے۔
ہLLLLLLLLLLLLLLLLLLوتے۔ ؐ
Lرم تعلیم کے ٓاپ کے خطبLLات مبLLارکہ میں رقت انگLLیزی اور اثLLر انگLLیزی ہLLوتی۔حضLLور Lاکؐ L ؐ
Lتے۔ٓاپ سLLامع اور مخLLاطب کے ؐ دوران کوئی ہلکی پھلکی بLLات سLLے دلچسLLپی کLLو زنLLدہ رکھL
ٓاپ بدوی ،شہری ،قاری ،اُ ّمی وغیرہ سے ان کے معیLLار کے مطLLابق معیار کا خیال رکھتے۔ ؐ
سLجاتے۔ٓاپ
ؐ گفتگو فرماتے۔ اپنی گفتگو مبارک کو عمدہ مثالوں اور روز مرہ مشLاہدات سLLے
سامع کی سہولت کے لیے سادہ اور مانوس لہجہ استعمال فرماتے۔
دوران
ِ ب زنLدگی سLے روشLLناس فرمLLاتے۔ ٓاپ تالمذہ سLے خطLاب فرمLاتے تLو انہیں ٓادا ِ جب ؐ
ٓاپ کے کالم میں عLLاجزی اور تLLدریس لطیLLف تLLرین اور نLLرم تLLرین انLLداز اختیLLار فرمLLاتے۔ ؐ
ٓاپ کی تواضع اور انکسLLار تھLLا۔ ٓاپ کی بڑی خصوصیت ؐ انکساری ہوتی۔ چنانچہ بطور معلم ؐ
Lام تعلیم میں یہ متنLLازع
ٓاپ مخLLاطب کی بLLولی اور ان کے لہجے میں گفتگLLو فرمLLاتے۔ ٓاج نظِ L ؐ
مسئلہ ہے کہ تعلیم کس زبان میں ہونی چLاہیے؟ یہ درسLLت ہے کہ دوسLLری اقLوام کی زبLLانیں
سیکھنا بہت مفید ہے اور بعض علوم کو ان زبLLانوں میں حاصLLل کرنLLا بھی مناسLLب ہے لیکن
بنیادی تعلیم اس زبان میں ہونی چاہیے جس میں مخاطب زیادہ بہتر طریقے پر سLLمجھ سLLکتا
ہو۔ ٓانحضورﷺسے علم حاصل کرنے کے لیے مختلف قبائل اور افLLراد ٓاتے
ٓاپ ان سے ان کے لہجے میں گفتگو فرماتے۔ خطیب بغLLدادی نے اپLLنی سLLند سLLے عاصLLم تو ؐ
االشعری کا قLLول نقLLل کیLLا ہے کہ انہLLوں نے رسLLول کریمﷺکLLو مخصوص
ٓاپ گفتگLLو
لہجے میں بات کرتے سنا۔ اس سLLے مخLLاطب میں اپنLLائیت پیLLدا ہوجLLاتی ہے۔ جب ؐ
فرماتے تو ٓاہستہ ٓاہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے تاکہ سامع پوری طLLرح مسLLتفید ہLLو اور
ٓاپ بLLات کLLو دہLLراتے تLLاکہ سLLمجھنے میں کمی نہ رہ جLLائے۔ رسLLول
اگر ضرورت پڑتی تLLو ؐ
اکرمﷺجب گفتگو فرماتے تLLو تین مLLرتبہ دہLLراتے تLLاکہ اسLLے ٹھیLLک طLLرح
ٓاپ بات کرتے اور اگر کوئی گنتی واال گنتی کLLرے سمجھ لیا جائے۔ ایک روایت میں ہے کہ ؐ
انس کہتے ہیں کہ نبیﷺجب گفتگLLو فرمLLاتے تLLو تو شمار کرسکے۔ حضرت ؓ
تین مرتبہ دہراتے۔
ٓاپ نے بطور معلم صبر و قناعت کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ بے لوث خدت کی اور بحیLLثیت ؐ
کیا۔ٓاپ کا خطبہ شریف نہایت سادہ ہوتLLا۔ خطبہ
ؐ معلم کفار کے ہر ظلم اور زیادتی کو برداشت
ٓاپ کے دست مبارک میں عصا ہوتا تھا۔ ارشاد نبوی ہے :دیتے وقت ؐ
ائ] (عصا رکھنا مومن کی عالمت اور انبیاء کی سنت صا َعاَل َمۃُ ْال ُمٔو ِم ِن َو ُسنَّۃُ ااْل َ ْنبِیَ ِ
َح ْم ُل ْال َع َ
ہے)۔ (رواہ الدیلمی ،مختار االحادیث النبویہ والحکم المحمدیہ( ،تالیف) السید احمLLد الہاشLLمی،
صLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLفحہ )69۔
حضور اکرمﷺ کبھی کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ دیتے۔ اکLLثر کھLLڑے ہLLوکر
ٓاپ کا ارشاد فی البLLدیہہ ہوتLLا۔ کالم کLLو مٔLLوثر بنLLانے کے لLLیے سLLوالیہ انLLداز خطاب فرماتے۔ ؐ
دوران خطابت و تدریس جوش کا یہ عالم ہوتا کہ ٓانکھیں سرخ ہوجاتیں۔ ٓاواز ِ اختیار فرماتے۔
میں جوش ہوتا۔ انگلیاں اٹھتی جاتی تھیں گویا کسی فوج کو جنگ کے لیے اُبھLLار رہے ہLLوں۔
جوش بیان میں جس ِد مبارک جھوم جھوم جاتا۔ لبLاس کی وضLع قطLع اور ہLاتھوں کLو حLرکت ِ
دینے سے پٹھوں کے چٹخنے کی ٓاواز ٓاتی تھی۔ کبھی مٹھی بند کرلیتے ،کبھی کھLLول دیLLتے
تھے۔‘‘ (بحوالہ :ڈاکٹر محمد ابراہیم خالد ،تربیت اساتذہ ،صفحہ )192۔
تعلیم نسواں اور اسالم
مورخہ 27 :مئی 2009ء
اعلی تحریک منہاج القرآن
ٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی ،ناظم
علم دین اسالم کی بنیادوں میں سے ایک اہم بنیاد ہے۔ علم کی اس سے بڑھ کر کیا اہمیت
تعالی نے اپنے محبوب اور آخری نبی ا پر جب نزول ٰ بیان کی جا سکتی ہے کہ ہللا تبارک و
وحی کی ابتدا فرمائی تو پہال حکم ہی پڑھنے کا نازل فرمایا۔ اس پر تمام ائمہ و مفسرین کا
:اتفاق ہے کہ نزول وحی کا آغاز سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات مبارکہ سے ہوا ہے
ق Oا ْق َر ْأ َو َربُّ َ
ك اأْل َ ْك َر ُم Oالَّ ِذي َعلَّ َم بِ ْالقَلَ ِمَ Oعلَّ َم ق اإْل ِ ن َسانَ ِم ْن َعلَ ٍ ا ْق َر ْأ بِاس ِْم َربِّ َ
ك الَّ ِذي َخلَ َ
قَ Oخلَ َ
اإْل ِ ن َسانَ َما لَ ْم يَ ْعلَ ْم( Oالعلق۱ :۹۶ ،۔)۵
اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) )!اے حبیب(’’
oاس نے انسان کو (رحم مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا oپیدا فرمایا
جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم oپڑھیے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے
جس نے انسان کو (اس کے عالوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا oسکھایا
‘‘oتھا
کے پہلے مرحلے processاب ان آیات مبارکہ میں جہاں پہال حکم ہی حصول علم کے
تعالی کے رب اور خالق ہونے کے ٰ یعنی پڑھنے کے حکم سے ہوا ،وہاں پہلی آیت میں ہللا
بیان کے ساتھ ساتھ علوم کی دو اہم شاخوں ۔ عمرانیات اور تخلیقات ۔ کی طرف اشارہ فرمایا
گیا ہے۔ دوسری آیت میں علم حیاتیات؛ تیسری آیت میں علم اخالقیات کی طرف اشارہ
فرماتے ہوئے یہ بات بھی واضح کر دی گئی کہ اسالم کا تص ّور علم بڑا وسیع ہے اور جب
اسالم طلب و حصول علم کی بات کرتاہے تو وہ سارے علوم اس میں شامل ہوتے ہیں جو
انسانیت کے لیے نفع مند ہیں؛ اور اس سے مراد صرف روایتی مذہبی علوم نہیں۔ قرآن
مجید کی متعدد آیات میں زمین و آسمان کی تخلیق میں تدبر و تفکر کی دعوت دی گئی اور
یہی تدبر و تفکر جدید سائنس کی بنیاد بنا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جدید سائنس ،جس
پر آج انسانیت ناز کرتی ہے ،اس کی صرف بنیاد ہی مسلمانوں نے نہیں رکھی بلکہ وہ
اصول و ضوابط اور ایجادات و دریافتیں بھی مسلمانوں نے ہی کی ہیں جنہوں نے سائنس
کی ترقی میں اہم ترین کردار اداکیا ہے۔ (چونکہ یہ اصل مضمون نہیں ل ٰہذا اس کی تفصیل
کے خواہش مند شیخ االسالم ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب
’’مقدمہ سیرت الرسول ا‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔) اسالم کے ایک ہزار سالہ عروج کے بعد
اس کو درپیش آنے والے زوال کا ایک افسانہ یہ بھی ہے کہ بہت سے واضح اور بنیادی
تصورات ۔ جن پر تاریخ میں کبھی ابہام نہ رہا تھا ۔ اس دور میں دھندالئے ہی نہیں بلکہ
پراگندہ ہو گئے ہیں۔ ان میں ایک خواتین کا حصول علم ہے۔ آج کے دور میں بعض ایسے
مذہبی ذہن موجود ہیں جو عورتوں کے حصول علم کے خالف ہیں اور اگر خالف نہیں تو
ایسی پابندیوں کے قائل ضرور ہیں کہ جن کی وجہ سے خواتین اور بچیوں کا حصول علم
ناممکن ہوجائے۔ حصول علم کے فرض ہونے پر کوئی اختالف نہیں۔ قرآن مجید میں پانچ
سو کے لگ بھگ مقامات پر بال واسطہ یا بالواسطہ حصول علم کی اہمیت اور فضیلت بیان
تعالی
ٰ کی گئی۔ حضور نبی اکرم ا کے فرائض نبوت کا بیان کرتے وقت بھی ہللا تبارک و
:نے ارشاد فرمایا۔
اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہی میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں ’’
تالوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسا ً و قلباً) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا
ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرار معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو
‘‘oتم نہ جانتے تھے
َاب َو ْال ِح ْك َمةَ َوإِن ث فِي اأْل ُ ِّميِّينَ َر ُسواًل ِّم ْنهُ ْم يَ ْتلُ ْ
وا َعلَ ْي ِه ْم آيَاتِ ِه َويُ َز ِّكي ِه ْم َويُ َعلِّ ُمهُ ُم ْال ِكت َ هُ َو الَّ ِذي بَ َع َ
ضاَل ٍل ُّمبِي ٍن( O الجمعہ)۲ :۶۲ ، َكانُوا ِمن قَ ْب ُل لَفِي َ
وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (ا) کو بھیجا ’’
وہ ان پر اس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور ان (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں
اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بے شک وہ لوگ ان (کے تشریف النے) سے
‘‘oپہلے کھلی گمراہی میں تھے
ان آیات کے بغور مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ آپ ا کے فرائض نبوت :تالوت آیات ،تزکیہ
نفس ،تعلیم کتاب ،تعلیم حکمت اور ابالغ علم ہیں۔ ان پانچ میں سے چار براہ راست علم سے
متعلق ہیں جبکہ پانچواں اور ترتیب میں دوسرا تزکیہ نفس بھی علم کی ایک خاص قسم ہے
جسے علم تزکیہ و تصفیہ یا اصطالحا ً تصوف کہا جاتا ہے۔ اب اگر علم کے دروازے
خواتین پر بند کر دیے جائیں یا ان کے حصول علم پر بے جا پابندیاں عائد کرنا شروع کر
دی جائیں تو پھر وہ کس دین پر عمل کریں گی۔ یا ان کا دین مصطفوی سے کیارابطہ رہ
جائے گا۔ کیونکہ جو دین حضور نبی اکرم ا لے کر آئے وہ تو سارے کا سارا علم سے
عبارت ہے۔
اسالمی شریعت کا ایک بنیادی قائدہ ہے کہ جب بھی کوئی حکم نازل ہوتا ہے تو اس کے
لیے صیغہ مذکر استعمال ہوتا ہے لیکن اس میں صنف نازک بھی شامل ہوتی ہے۔ اگر اس
حکم و اصول کو ترک کر دیاجائے تو نماز ،روزہ ،حجٰ ،
زکوۃ جیسے بنیادی ارکان سمیت
بے شمار احکام شریعت کی پابندی خواتین پر نہیں رہتی۔ چونکہ ان احکام کے بیان کے
وقت عموما ً مذکر کا صیغہ ہی استعمال کیاگیاہے ،ل ٰہذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جن
آیات و احادیث کے ذریعے فرضیت و اہمیت علم مردوں کے لیے ثابت ہے ،انہی کے
ذریعے یہ حکم خواتین کے لیے بھی من و عن ثابت شدہ ہے۔
فرضیت علم کا براہ راست بیان بے شمار احادیث میں بھی آیا ہے۔ حضور نبی اکرم ا نے
ارشاد فرمایا’’ :حصول علم تمام مسلمانوں پر(بال تفریق مرد و زن) فرض ہے۔‘‘ (سنن ابن
ماجہ ،المقدمہ ،۱:۸۱ ،رقم)۲۲۴ :
اسی طرح ایک دوسرے موقع پرحضور نبی اکرم ا نے فرمایا’’ :علم حاصل کرو خواہ
تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ،بے شک علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘
(ابن عبد البر ،جامع بیان العلم ،۲۴ :۱ ،رقم )۱۵ :ایک اور مقام پر آپ ا فرمایا’’ :جو
تعالی اس کے لیے جنت کا راستہ آسان
ٰ شخص طلب علم کے لئے کسی راستہ پر چال ،اﷲ
کر دیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم ،کتاب الذکر ،۲۰۷۴ :۴ ،رقم)۲۶۹۹ :
اور وہ ہیں عبد ہللا بن عمر ،حمزہ (بن عبد ہللا) ،صفیہ بنت ابو عبید (زوجہ عبد ہللا) ،حارثہ بن وہب ،مطلب ابی
وادعہ ،ام مبشر انصاریہ ،عبد ہللا بن صفوان بن امیہ ،عبد الرحمن بن حارث بن ہشام ،حضرت حفصہ سے ساٹھ
حدیثیں منقول ہیں ،جو انہوں نے آپ صلی ہللا علیہ وسلم اور عمر سے سنی تھیں۔
تفقہ فی الدین کے لیے واقعہ ذیل کافی ہے ،ایک مرتبہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں
کہ اصحاب بدر و حدیبیہ جہنم میں داخل نہ ہوں گے ،حفصہ نے اعتراض کیا کہ خدا تو فرماتا ہے "تم میں سے ہر
شخص وارد جہنم ہو گا" آپ نے فرمایا ہاں لیکن یہ بھی تو ہے۔" پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں
کو اس پر زانووں پر گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔"[ ]4اسی شوق کا اثر تھا کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو ان کی تعلیم کی
فکر رہتی تھی ،شفاء کو چیونٹی کے کاٹے کا منتر آتا تھا ،ایک دن وہ گھر میں آئیں تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے
[]5
فرمایا کہ تم حفصہ کو منتر سکھال دو۔
لہٰ ذا جب یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن سے حصول علم خواتین کے لیے بھی اسی طرح
فرض ہے جیسے مردوں کے لیے تو اب اسوۂ رسول ا اور سیرت نبوی ا کی روشنی میں
جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ حضور ا نے خود خواتین کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام
:فرمایا
حضرت ابو سعید خدری ص سے روایت ہے کہ عورتیں حضور نبی اکرم ا کی بارگاہ ’’
میں عرض گزار ہوئیں :آپ کی جانب مرد ہم سے آگے نکل گئے ،ل ٰہذا ہمارے استفادہ کے
لیے بھی ایک دن مقرر فرما دیجیے۔ آپ ا نے ان کے لئے ایک دن مقرر فرما دیا۔ اس دن
تعالی کے احکام بتاتے۔‘‘ (صحیح
ٰ آپ ا ان سے ملتے انہیںنصیحت فرماتے اور انہیں اﷲ
بخاری ،کتاب العلم ،۵۰ :۱ ،رقم)۱۰۱ :
ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓعالمہ ،محدثہ اور فقیہہ تھیں۔ آپ سے کتب احادیث میں ۲۱۰
٬۲مروی احادیث ملتی ہیں۔ مردوں میں صرف حضرت ابو ہریرہ ،حضرت عبد اﷲ بن
عمر اور حضرت انس بن مالک ث ہی تعداد میں آپ سے زیادہ احادیث روایت کرنے والوں
میں سے ہیں۔ اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ ضروری تقاضے پورے کرنے کی
صورت میں عورتیں نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کو بھی پڑھا سکتی ہیں۔
ایک مغالطہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ عورتوں اور بچیوں کا مردوں سے پڑھنا ناجائز ہے۔
بہتر یہی ہے کہ بچیوںکے لیے خواتین اساتذہ کاہی انتظام ہو مگر ایسا نظام نہ ہونے کی
صورت میں مردوں کا باپردہ ماحول میں عورتوں کو پڑھانا بھی از روئے شرع منع نہیں
ہے۔ چونکہ حضور ا خواتین کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرماتے تھے ،مسجد نبوی میں
ہفتے کا ایک دن خواتین کے لئے مخصوص کرنے کا ذکر بھی ملتاہے۔ (صحیح بخاری،
کتاب العلم ،۵۰ :۱ ،رقم)۱۰۱ :
بعض لوگ احکام پردہ کا بہانہ بنا کر عورتوں اور بچیوں کی تعلیم کے مخالفت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ چونکہ گھر سے باہر ہر طرف مرد ہوتے ہیں ،ل ٰہذا پردہ قائم نہیں رہتا۔
سب سے پہلے تو یہ عذر انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ اگر بچیاں تعلیم کے لیے باہر نہیں نکل
سکتیں تو ان کا کسی مقصد کے لیے بھی باہر نکلنا جائز نہ ہوا۔ ایسے لوگوں کی نظر میں
خواتین کا گھروں سے باہر نکلنا ہی ممنوع ہے۔ حاالں کہ اسالمی شریعت و تاریخ میں اس
کے اثبات میں کوئی حکم نہیں ملتا۔ خود آیت پردہ ہی اس بات پر دلیل ہے کہ اسالمی پردہ
گھر سے باہر نکلنے کے لیے ہی ہے۔ گھروں میں بیٹھے رہنے سے احکام پردہ الگو نہیں
ہوتے کیونکہ پردہ غیر محرموں سے ہوتاہے اور گھر میں تو عموما ً محرم ہی ہوتے ہیں۔
:آیت پردہ کا مطالعہ کریں
ار ِه َّن َويَحْ فَ ْ
ظنَ فُرُو َجه َُّن َواَل يُ ْب ِدينَ ِزينَتَه َُّن إِاَّل َما ظَهَ َر ِم ْنهَا ت يَ ْغضُضْ َLن ِم ْن أَب َ
ْص ِ َوقُل لِّ ْل ُم ْؤ ِمنَا ِ
(النور)۳۱ :۲۴ ،
اور (اے رسول مکرم!) مومنہ عورتوں سے کہہ دو کہ (مردوں کے سامنے آنے پر) وہ ’’
اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت و آرائش
‘‘کی نمائش نہ کریں سوائے جسم کے اس حصہ کو جو اس میں کھال ہی رہتا ہے۔
اس میں منع زینت کے اظہار سے کیا گیا ہے۔ اور زینت کے اظہار سے مراد ہے بناؤ
سنگھار کا اظہار کرنا۔ دوسرا یہ کہاگیا کہ جب گھر سے نکلیں تو چادر اوڑھ لیاکریں تاکہ
باہر دوسری فطرت کی عورتوں میں مومنات کا امتیاز نظر آئے۔ سورۃ االحزاب میں امہات
المومنین اور خانوادۂ نبوت کی خواتین کو خطاب کے ذریعے تعلیم امت کے لیے حکم
:فرمایا
اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادیں کہ ’’
(باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں ،یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ
وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر
‘‘oغلطی سے) ایذاء نہ دی جائے ،اور ہللا بڑا بخشنے واال بڑا رحم فرمانے واال ہے
لہٰ ذا احکام پردہ خود خواتین کے گھر سے باہر نکلنے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ دوسرا
اگر خواتین کا گھر سے نکلنا ممنوع ہوتا تو حضور ا کے ساتھ آپ کی ازواج مطہرات
غزوہ بدر میں کیوں شریک ہوئیں۔ آپ درج ذیل احادیث کا مطالعہ کریں تو واضح ہو جائے
گا کہ دور رسالت ا میں خواتین کن معموالت میں شریک ہوئیں۔
حضرت انس ص نے فرمایا :جب جنگ احد میں لوگ حضور نبی اکرم ا سے دور ہو ’’
سلیم کو دیکھا کہ دونوں نے
بکر اور حضرت ام ؓ گئے تو میں نے حضرت عائشہ بنت ابی ؓ
اپنے دامن سمیٹے ہوئے ہیں ۔ دونوں اپنی پیٹھ پر پانی کی مشکیں التیں اور پیاسے
مسلمانوں کو پالتی تھیں ،پھر لوٹ جاتیں اور مشکیزے بھر کر التیں اور پیاسے مسلمانوں
کو پالتیں۔‘‘ (صحیح بخاری ،کتاب الجھاد والسیر ،۱۰۵۵ :۳ ،رقم)۲۷۲۴ :
حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں :میں نے رسول اﷲ ا کے ساتھ سات جہاد کیے ،میں ’’
غازیوں کی منزلوں میں ان کے پیچھے رہتی تھی ،ان کے لئے کھانا پکاتی اور زخمیوں
کی مرہم پٹی کرتی تھی اور بیماروں کے عالج کا انتظام کرتی تھی۔‘‘ (صحیح مسلم ،کتاب
الجہاد و السیر ،۱۴۴۷ :۳ ،رقم)۱۸۱۲ :
اور یہ معمول دور رسالت کے بعد خالفت راشدہ میں بھی جاری رہا جیسے دور فاروقی
ٰ
شوری) کی رکن تھیں۔ (مصنف عبد الرزاق ،۱۸۰ :۶ ،رقم: میں خواتین پارلیمنٹ (مجلس
)۱۰۴۲۰۔ اور سیدنا عثمان غنی ص کے دور میں خواتین کو دوسرے ممالک میں سفیر نام
زد کیا گیا۔ (تاریخ طبری)۶۰۱ :۲ ،
اسی طرح تاریخ اسالم میں بے شمار ایسی خواتین کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے علم التفسیر،
علم الحدیث ،علم الفقہ ،علم لغت و نحو ،علم طب ،شاعری ،کتابت ،وغیرہ میں منفرد مقام
حاصل کیا۔ (بحوالہ ’’اسالم میں خواتین کے حقوق‘‘ از شیخ االسالم ڈاکٹر محمد طاہر
القادری)
لہٰ ذا عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی کا فلسفہ و فکر ہی مزاجا ً اسالمی نہیں۔ یہ
کسی عالقے کی روایت و رسم تو ہو سکتی ہے مگر اس کا اسالم سے کوئی تعلق نہیں۔
اب اس اعتراض کا ایک اور انداز سے بھی جائزہ لیں۔ اگر بالفرض معاشرہ ایسا ہے کہ
پردہ کے جملہ لوازمات پورے نہیں ہوتے اور اسالمی پردہ ممکن ہی نہ ہو تو پھر دو احکام
کا تقابلی جائزہ لیاجائے گا۔ پردہ کا حکم قرآن حکیم میں دو مقامات پر آیا ہے اور حصول
علم کا بالواسطہ یا بالواسطہ طور پر کم و بیش پانچ سو بار آیا ہے۔ اب خدانخواستہ حاالت
ایسے ہیںکہ خواتین کو مکمل شرعی پردے اور تعلیم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا
پڑے تو بھال کس کا انتخاب کیاجائے گا؟ ظاہر ہے اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کے
تمام تقاضوں کی تکمیل کرتے ہوئے اس حکم کا انتخاب کرنا پڑے گا جس کی اہمیت ہللا
تعالی نے زیادہ بیان کی ہے ،نہ کہ اس کی جس کی اہمیت کسی نام نہاد مال کے نزدیکٰ
زیادہ ہے۔
لہٰ ذا پردہ کا بہانہ بناکر خواتین کی تعلیم پر پابندی لگانا خالف اسالم ہے اور قرآن و سنت
کی تعلیمات اس کی اجازت ہر گز نہیں دیتیں۔ فرضیت علم کے لیے مرد و خواتین میں
کوئی امتیاز اسالم نے قائم نہیں کیا۔ آخر میں اسی اہم مسئلہ کی طرف میں اہل علم کی توجہ
مبذول کروانا ضروری سمجھتا ہوں کہ حصول علم فرض عین ہے اور یہ قرآن و حدیث
سے ثابت ہے۔ اس امر پر بھی اسالم کے جملہ مسالک و مذاہب متفق ہیں کہ کسی فرض کا
صریح انکار کفر ہے۔ ل ٰہذا اگر کوئی شخص آج کے دور میں خواتین کی تعلیم کو حرام
سمجھتاہے چاہے اس کی تاویل کوئی بھی کرے تو ایک فرض کا صریح انکار ہے۔ ل ٰہذا اس
طرح کے بے بنیاد فتوے ،جس سے پوری دنیا میں اسالم کی جگ ہنسائی ہو ،اسالم کے
روشن چہرے کو داغ دار کیاجائے اور من گھڑت تصور اسالم عام کیا جاتا ہو ،کی بھرپور
حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور تمام علماء کو اس کے خالف مشترکہ الئحہ عمل پر اتفاق
کرنا چاہیے تاکہ اسالم کو بدنام کرنے والے اس طرح کے مذموم عناصر کو لگام دی
جاسکے۔
ِ
بالشبہ علم شرافت وکLLرامت اور دارین کی سLLعادت سLLے بہLLرہ منLLد ہLLونے کLLا بہLLترین ذریعہ ہے،
انسان کودیگر Lبے شمار Lمخلوقات میں ممتاز کرنے کی کلید اور ربّ االرباب کی طرف سLLے عطLLا کLLردہ
Lق انسLLانیL
خلقی اور فطری Lبرتری میں چار چاند لگانے کا اہم سبب ہے؛ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ مقص ِد تخلیِ L
تLLک رسLLائی علم ہی کے ذریعے ممکن ہے ،علم ہی کی بہ دولت انسLLانوں نے سLLنگالخ وادیLLوں ،چٹیLLل
میدانوں اور زمینوں کو َمرغ زاری عطا کی ہے ،سمندروں اور زمینوں کی تہLLوں سLLے التعLLداد معLLدنیات
کے بے انتہا ذخائر نکالے ہیں اور آسمان کی بلندیوں اور وسLLعتوں کLLو چLLیرکر LتحقیLLق واکتشLLاف کے نت
نLLئے پLLرچم لہLLرائے ہیں؛ بلکہ مختصر تعبLLیر Lمیں کہLLا جاسLLکتا ہے کہ دنیLLا میں رونمLLا ہLLونے والے تمLLام
محیرالعقول کارنامے علم ہی کے بے پایاں احسان ہیں۔
ث
قرآن کریم کے بعداسالم Lمیں سب سے مستند،معتبر اور معتمد علیہ لٹریچر )Literature ( Lاحادی ِ
تنبویہ کا وہ عظیم الشان ذخیرہ ہے ،جسے امت کے باکمال جیLالوں نے اپLنے اپLLنے عہLLد میں انتہLائی دق ِ
ناقابل فراموش Lکارنامہ انجام دیLLا ہے ،جب ہم
ِ نظری ،دیدہ ریزی اور جگر کاوی کے ساتھ اکٹھا کرنے کا
Lان مقLLدس
اس عظیم الشان ذخیرے کا مطالعہ Lکرتے ہیں ،تو ہمیں قدم قدم پر نبوی صلی ہللا علیہ وسLLلم زبِ L
حاملین علم فضیلت اور اس کے حصول کی تحریض وترغیب میں سرگرم نظر آتی ہے؛ ِ علم کی فضیلت،
ب حدیث میں علم سے متعلق احادیث کو علیحدہ ابواب میں بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ تمام کت ِ
مشتے نمونہ از خروارے
ب وحی و ایمان کے بعLLد ”کتLLاب العلم“ کے عنLLوان کے چنانچہ امام بخاری کی صحیح میں ابوا ِ
تحت ابواب میں حافظ Lالدنیا ابن حجر عسقالنی کے بہ قول چھیاسی Lمرفوع Lحدیثیں (مکررات کLLو وضLLع
صحاح ستہ کی دیگر کتب اور ”موطا Lمالک“ میں ِ آثار صحابہ وتابعین ہیں ،اسی طرح کرکے) اور بائیس ِ
بھی علم کا علیحدہ اور مستقل باب ہے ”مسLLند امLLام احمLLد بن حنبل “کی تLLرتیب سLLے متعلLLق کتLLاب الفتح
الربانی“ میں علم سے متعلLق اکاسLی احLادیث ہیں ،حافLظ نورالLدین ہیثمی کی ”مجمLع الزوائLد“ میں علم
کے موضLLوع پLLر احLLادیث بیاسLLی صLLفحات میں پھیلی ہLLوئی ہیں” ،مسLLتدرک حLLاکم“ میں علم سLLے متعلLLق
حدیثیں چوالیس صفحات میں ہیں ،مشہور ناقد حدیث اور جلیل القدر محدث حافظ منLLذری کی ”الLLترغیب
والترہیب“ میں علم سے متعلق چLLودہ احLLادیث ہیں اور عالمہ محمLLد بن سLLلیمان کی ”جمLLع الفوائLLد“ میں
صرف علم کے حوالے سے ایک سو چون حدیثیں بیان کی گئی ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی قLLوم LکLLو مجمLLوعی طLLور LپLLر دین سLLے روشLLناس LکLLرانے ،تہLLذیب
وثقافت سے بہرہ ور کرنے اور خصائل فاضلہ وشمائ ِل جمیلہ سے مزین کLLرنے میں اس قLLوم کی خLLواتین
کLLا اہم؛ بلکہ مرکLLزی اور اساسLLی کLLردار LہوتLLا ہے اور قLLوم Lکے نونہLLالوں کی صLLحیح اٹھLLان اور صLLالح
نشوونما Lمیں ان کی ماؤں کا ہم رول ہوتا ہے؛ اسی وجہ سے کہLا گیLا ہے کہ مLاں کی گLود بچے کLLا اولین
مدرسہ ہے؛ اس لیے شLروع ہی سLے اسLLالم نے جس طLرح مLردوں کے لLLیے تعلیم کی تمLام تLLر راہیں وا
رکھی ہیں ان کLLو ہLLر قسLLم کے مفیLLد علم کے حصول کی نہ صLLرف آزادی دی ہے؛ بلکہ اس پLLر ان کی
قرن اول سے لے کر آج تک ایک سLLے بLLڑھ کLLر ایLLک حوصلہ افزائی Lبھی کی ہے ،جس کے نتیجے میں ِ
علوم بے پناہ کی ضیاپاشLLیوںِ تاجور فکر وتحقیق پیدا ہوتے رہے اور زمانہ ان کے ِ کج کال ِہ علم وفن اور
سے مستنیر و مستفیض ہوتا رہا ،بالکل اسی طرح اس دین حLLنیف نے خLLواتین کLLو بھی تمLLدنی ،معاشLLرتیL
اور ملکی حقوق کے بہ تمام وکمال عطا کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی حقوق بھی اس کی صLنف کLا لحLاظ
Lتران اسLLالم میں ایسLLی
کرتے ہوئے مکمل طور پر دیے؛ چنانچہ ہر دور Lمیں مردوں کے شانہ بہ شانہ دخِ L
باکمال خواتین بھی جنم لیتی رہیں ،جنھوں نے اطاعت گزار بیٹی ،وفاشعار بیوی اور سراپا شLLفقت بہن کLLا
کردار نبھانے کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنے علم وفضل کا ڈنکLا بجایLا اور ان کے دم سLے تحقیLق و تLدقیق
کے التعداد خرمن آباد ہوئے۔
ب آ َم َن ِب َن ِبیِّہانَ :ر ُج ٌل مِنْ أہ ِْل الکِ َت ا ِ ( )۱بنی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد ہےَ ” :ثالَ َث ْة َل ُہ ْم أَجْ َر ِ
وح َّق َم َوالِ ْی ِہَ ،و َر ُج ٌل لَہ اَ َم ٌةَ ،فأ َّد َب َہ ا َفأحْ َس َن َتأ ِد ْی َب َہ ا، حق ال ٰ ّلَ ،
ک ا َذا أ ّدی َ َ ،وآ َم َن ِبم َُح َّمدٍَ ،والعب ُد ال َم ْملُو ُ
ان“( )۱اس حLLدیث کے آخLLری جLLزء کی شLLرح میں َو َعلَّ َم َہاَ ،فأحْ َس َن َتعْ لِ ْی َم َہاُ ،ث َّم اَعْ َت َق َہاَ ،ف َت َز َّو َج َہاَ ،فلَہ أجْ َر ِ
مالعلی قاری لکھتے ہیں کہ” :یہ حکم صLLرف LبانLLدی کے لLLیے نہیں؛ بلکہ اپLLنی اوالد اور عLLام لڑکیLLوں
کے لیے بھی یہی حکم ہے۔“()۲
( )۲ایک صحابیہ حضرت شفاء بنت عدویہ تعلیم یافتہ خاتون تھیں ،آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے
ان سے فرمایا Lکہ” :تم نے جس طرح حفصہ کو ”نملہ“ (پھوڑے) کا رقیہ Lسکھایا ہے ،اسLLی طLLرح لکھنLLا
بھی سکھادو۔“()۳
( )۳نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم خود بھی عورتوں کی تعلیم کا اہتمLLام فرمLLاتے تھے اور ان کی
خواہش پر آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے باضابطہ Lان کے لیے ایک دن مقرر کردیا تھLLا ،حضLLرت ابوسLLعید
صلَّی ہّٰللا ُ َعلَ ْی ِہ َو َسلَّ َمَ :
”غلَب َْٓن َعلَیکَ الرِّ َجالَُ ،فاجْ َع ْل لَّ َنا َی ْومًا مِنْ ت ال ِّن َسا ُء لِل َّن ِبيّ َ
خدری کی روایت ہےَ ” :قالَ ْ
َن ْفسِ کََ ،ف َو َع َدہُنَّ َی ْوما ً لَقِ َیہُنَّ فِ ْی ِہَ ،ف َو َع َظہُنَّ َ ،وأ َم َرہُنَّ “()۴۔
)۴( حضرت اسماء بنت یزیLLد بن السLLکن انصاریہ LبLLڑی متLLدین اور سLLمجھدار LخLLاتون تھیں ،انھیں
ایLLک دفعہ عورتLLوں نے اپLLنی طLLرف سLLے ترجمLLان بنLLاکر آپ صLLلی ہللا علیہ وسLLلم کے پLLاس بھیجLLا کہ
آپ صلی ہللا علیہ وسلم سے دریافت کریں کہ ” :ہللا نے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو مردو LعLLورت ہLLر دو
کی رہ نمائی کے لیے مبعوث فرمایا ہے؛ چنانچہ ہم آپ پLLر ایمLLان الئے اور آپ صLLلی ہللا علیہ وسLLلم کی
اتباع کی ،مگر ہم عورتیں پردہ نشیں ہیں ،گھروں میں رہنا ہوتا ہے ،ہم حتی الوسLLع اپLLنے مLLردوں کی ہLLر
خواہش پوری کرتی ہیں ،ان کی اوالد کی پرورش Lوپرداخت ہمارے ذمے ہوتی ہے ،ادھLLر مLLرد مسLLجدوں
میں باجماعت نمLاز ادا کLرتے ہیں ،جہLاد میں شLریک ہLوتے ہیں ،جس کی بنLا پLر انھیں بہت زیLادہ ثLواب
زمانہ غیبوبت میں ان کے اومال واوالد کی حفLLاظت کLLرتی ہیں، ٴ حاصل ہوتا ہے؛ لیکن ہم عورتیں ان کے
ہللا کے رسLLول صLLلی ہللا علیہ وسLLلم! کیLLا ان صLLورتوں میں ہم بھی اجLLر وثLLواب میں مLLردوں کی ہمسLLر
ہوسکتی ہیں؟“ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے حضرت اسماء کی بصیرت افروز Lتقریر سLLن کLLر صLLحابہ کی
طرف رخ کیا اور ان سے پوچھا” :اسماء سے پہلے تم نے دین کے متعلق کسLLی عLLورت سLLے اتنLLا عمLLدہ
سLLوال سLLنا ہے؟“ صLLحابہ نے نفی میں جLLواب دیLLا ،اس کے بعLLد آپ صLLلی ہللا علیہ وسLLلم نے حضLLرت
اسماء سLے فرمایLا Lکہ” :جLاؤ اور ان عورتLوں سLے کہہ دو کہ” :انَّ ح ُْس َن َت َبع ُِّل احْ دا ُکنَّ ل َِز ْو ِج َہ اَ ،و َطلَ ِبہ ا
ال“۔()۵ ضاتِہَ ،و ِا ِّتبَاعِ َہا لِمُوا َف َقتِہَ ،یعْ ِد ُل ک َّل َما َذ َکرْ ِ
ت لِلرِّ َج ِ لِ َمرْ َ
زبان مبارک سے یہ عظیم خوش خبری سن کر حضرت اسماء کLLا دل ِ آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی
بلّیوں اچھلنے لگا اور تکبیر وتہلیل کہتی ہوئی واپس ہوگئیں اور دیگر عورتوں کو بھی جاکرسنایا۔
تاریخ اسالمی کی ان چند جھلکیوں سے بہ خLLوبی LمعلLLوم ہوجاتLLا ہے کہ آپ صLLلی ہللا علیہ وسLLلم
حصول علم کے تئیں کس قدر شوق اور جLLذبہٴ بے پایLLاں پایLLا جاتLLا تھLLا
ِ کے زمانے میں عورتوں کے اندر
ذوق جستجو Lکی قLLدر کLLرتے ہLLوئے ،ان کی تعلیم ِ شوق طلب اور
ِ اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم بھی ان کے
وتربیت کا کتنا اہتمام فرماتے تھے۔
حضرت سمرہ بنت نہیک اسLLدیہ کے بLLارے میں لکھLLا ہے کہ” :وہ زبردسLت LعLLالمہ تھیں ،عمLLر
دراز پائیں ،بازاروں میں جاکر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیLLا کLLرتی تھیں اور لوگLLوں کLLو ان کی
بے راہ روی پر کوڑوں Lسے مارتی تھیں۔“()۸
دور صحابیات تک ہی محدود نہیں رہا؛ بلکہ تابعیات اور بعد کی خLLواتین کے پھر یہ زریں سلسلہ ِL
زمانوں میں بھی ہمیں اس طبقے میں بڑی بڑی عالمہ ،زاہLLدہ اور امت کی محسLLنہ وباکمLLال LخLLواتین ملLLتی
ہیں؛ چنانچہ مشہور Lتابعی ،حدیث اور فن تعبیر الرؤیا کے مستند امام حضرت محمLLد بن سLLیرین کی بہن
قرآن کریم کو معنی ومفہوم کے ساتھ حفظ کرلیا تھا( )۹یہ فن ِ حفصہ نے صرف بارہ سال کی عمر میں
مقام امامت کو پہنچی ہوئی تھیں؛ چنLLانچہ حضLLرت ابن سLLیرین کLLو جب تجویLد Lکے تجوید وقراء ت میں ِ
کسی مسئلے میں شبہ ہوتا ،تو شاگردوں کو اپنی بہن سے رجوع Lکرنے کا مشورہ دیتے۔()۱۰
نفیسہ جو حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طLLالب کی صLLاحبزادی اور حضLLرت اسLLحاق بن
جعفر کی اہلیہ تھیں ،انھیں تفسیر وحدیث کے عالوہ دیگر علوم میں بھی درک حاصLLل تھLLا ،ان کے علم
سے خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی بھی معتد بہ تعداد نے سیرابی حاصل کی ،ان کLLا لقب ”نفیسLLة العلم
تبادلہ خیLLال
ٴ والمعرفہ“ Lپڑگیا تھا ،حضرت امام شافعی جیسے رفیع القدر اہل علم دینی مسائل پر ان سے
کرتے تھے۔()۱۱
نظام تعلیم
ِ اف! یہ اہ ِل کلیسا کا
نظام تعلیم کی جسے ( )co-educationسے ِ لیکن جہاں تک بات ہے خواتین کے موجودہ
یاد کیا جاتاہے ،جو مغرب سے درآمLLد ( )ImportکLLردہ ہے اور جLLو دراصLLل مغLLرب کی فکLLر گسLLتاخ کLLا
عکاس ،خاتو ِن مشرق کو لیالئے مغرب کی طرح ہوس پیشہ نگاہوں کی لذت اندوزی کا سامان بنLLانے کی
چادر عصمت وعفت کو تLLار تLLار کLLرنے کی شLLیطانی چLLال ہے، ِ ہمہ گیر اور گھناؤنی Lسازش اور اس کی
اس کی مذہب اسالم تو کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کرسLLکتا ،نLLیز عقLLل دانLLا بھی اس سLLے پنLLاہ مLLانگتیL
ہوئی نظر آتی ہے۔
مخلوط تعلیم کے حوالے سے دو پہلو نہایت ہی توجہ اورانتہائی LسLLنجیدگی سLLے غLLور کLLرنے کی
دعوت دیتے ہیں:
-۱یہ کہ لڑکو ں اور لڑکیوں کا نصاب تعلیم ایک ہونا چاہیے یا جداگانہ؟
ب تعلیم کی -۲لڑکے اور لڑکیوں کی تعلیم ایک ساتھ ہونی چاہیے یا الگ الLLگ؟ جہLLاں تLLک نصا ِ
بات ہے ،تو گرچہ کچھ امور ایسے ہیں ،جو دونوں کے مابین مشترک ہیں او ران کا نصاب لڑکLLوں اور
ت عLLLامہ ( General لڑکیLLLوں کے لLLLیے یکسLLLاں رکھLLLا جاسLLLکتا ہے مثالً :زبLLLان وادب ،تLLLاریخ ،معلومLLLا ِ
)knowledgeجغرافیہ ،ریاضی ،جنرل سائنس اور سماجی علوم ( )Social scienceوغLLیرہ؛ لیکن کچھ
مضامین ایسے ہیں جن میں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیLLان فLLرق LکرنLLا ہوگLLا ،مثالً :انجینئرنLLگ کے بہت
سے شLعبے ،عسLکری تعلیم ،اور ٹیکنکLل تعلیم؛ کیLوں کہ ان کی لڑکیLوں کLو قطعLاً LضLرورت نہیں؛ البتہ
”امراض نسواں“ زمانے سے طب کLLا ِ میڈیکل تعلیم کا اچھا خاصا حصہ خواتین سے متعلق ہے؛ اس لیے
Lور
مستقل موضوع Lرہا ہے ،یہ لڑکیوں کے لیے نہایت ضروری ہے ،اسی طرح لڑکیLLوں کی تعلیم میں امِ L
خانہ داری کی تربیت بھی شامل ہونی چLاہیے ،کہ یہ ان کی معاشLرتی LزنLدگی میں انتہLائی اہمیت رکھLتے
ب
ہیں ،سالئی ،کڑھائی ،پکوان کے مختلف اصول اور بچوں کی پLLرورش کے طLLریقے بھی ان کے نصا ِ
تعلیم کا حصہ ہونے چاہئیں ،ان سے نہ صرف Lلڑکیاں گھریلLو LزنLLدگی میں بہLLتر طLLور پLLر متوقLع Lرول ادا
کرسLLکتی Lہیں؛ بلکہ ازدواجی LزنLLدگی کی خLLوش گLLواری ،اہLLل خانLLدان کی ہLLردل عزیLLزی اور مشLLکل اور
ت حال میں اپنی کفالت کے لیے یہ آج بھی بہترین وسائل ہیں ،ساتھ ہی لڑکیLLوں کے لLLیے غیرمتوقع صور ِL
ب معاشرت کی تعلیم بھی ضروری ہے؛ کیوں کہ ایک لLLڑکی اگLLر بہLLترین مLLاں اور ب حال آدا ِان کے حس ِ
فرماں بردار بیوی نہ بن سکے تو سماج کو اس سے کوئی فائدہ نہیں؛ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی ہللا علیہ
وسلم نے (جیساکہ ذکر ہوا) عورتوں کی تذکیر کے لیے علیحدہ دن مقرر فرمادیLLا تھLLا ،جس میں عLLورتیں
جمع ہوتیں اور آپ صLLلی ہللا علیہ وسLلم انھیں ان کے حسLب حLال نصیحت فرمLاتے؛ چنLانچہ LایLک دفعہ
آپ صLLلی ہللا علیہ وسLLلم نے فرمایLLاکہ” :خLLواتین کی دل بہالئی کLLا بہLLترین مشLLغلہ سLLوت کاتنLLا ہے۔“(
)۱۲کیوں کہ سوت کاتنا اس زمانے میں ایک گھریلو صنعت تھی؛ بلکہ آج سے نصف صدی پیشLتر LتLک
بھی بہت سے گھرانوں کا گزرا ِن معیشت اسی پر تھا۔
غLور کیجLیے کہ جب قLLدرت نے مLLردوں اور عورتLوں میں تخلیقی اعتبLLار سLLے فLرق LرکھLا ہے،
Lتی کہ
اعضاء کی ساخت میں فرق ،رنگ وروپ میں فLLرق ،قLLوائے جسLLمانی Lمیں فLLرق ،مLLزاج ومLLذاق ،حٰ L
افزائش نسLLل اوراوالد کی تLLربیت میں بھی
ِ دونوں کی پسند اور ناپسند میں بھی تفاوت ہے ،پھر اسی طرح
دونوں کے کردار مختلف ہیں ،تو یہ کیوں کر ممکن ہوسکتا Lہے کہ معاشرے میں دونوں کے فرائض اور
ذمہ داریاں بھی الگ الگ نہ ہوں؟ اور جب دونوں کی ذمہ داریLLاں علیحLLدہ ٹھہLLریں ،تLLو ضLLروری ہے کہ
اسی نسبت سے دونوں کے تعلیمی وتربیتی LمضLLامین بھی ایLLک دوسLLرے سLLے مختلLLف ہLLوں ،اگLLر تعلیمی
نصاب میں دونوں کے فطری Lاختالف کو ملحLLوظ نہ رکھLLا جLLائے اور تعلیم کے تمLLام شLLعبوں میں دونLLوں
Lریقہ تعلیم انسLLانی معاشLLرے پLLر منفی
صنفوں کو ایک ہی قسم کے مضامین پڑھائے جائیں ،تو جہاں یہ ط Lٴ
اثر ڈالے گا ،وہیں خود عورت کے عورت پن کے رخصت ہونے کا بھی انتہائی منحوس سبب ہوگLا؛ لہٰLذا
صنف نLLازک کی فطLLری نLLزاکت کے لLLیے یہی زیب دیتLLا ہے کہ وہ وہی علLLوم حاصLLل کLLرے ،جLLو اسLLے
ِ
زمرئہ نسواں ہی میں رکھے اور اس کے فطری تشLLخص کی محLLافظت کLLرے ،نہ کہ وہ ایسLLے علLLوم کی
دل دادہ ہوجائے ،جو اسے زن سے نازن بنادے۔
وتعالی کا ارشاد ہے” :والَ َت َتم َّنوا ما َف َّ ہّٰللا
ض، ض کُ ْم َع ٰلی َبعْ ٍ
ض َل ُ ِبہَ بعْ َ َ َ َ ٰ قرآن کریم میں ہللا تبارک
ہّٰللا ہّٰللا
اس َئلُو َ مِنْ َف ْص یْبٌ ِممَّا ا ْک َت َس ب َْنَ ،و ْ
ان ِبک ِّل َش یْ ٍءض لِہ انَّ َ َک َ ال نص یبٌ ِممَّا ْاک َت َس بُوا َولِل ِّن َس ا ِء َن ِ لِلرِّ َج ِ
تعالی نے تم میں سے ایک دوسرے کو جو فطری Lبرتری عطا فرمائی ہے ،اس کی تمنLLا ٰ َعلِیْما“( )۱۳( ہللا
مت کرو! مردوں کے لیے ان کے اعمال میں حصہ ہے اور عورتوں کے لیے ان کے اعمال میں اور ہللا
تعالی سے اس کا فضل وکرم مانگتے رہو ،بے شک ہللا ہر چیز سے واقف ہے) ٰ
ب زر سLLLے لکھLLLنے کے قابLLLل ہے ،اس میں یہ حقیقت یہ آیت دراصLLLل معاشLLLرتی زنLLLدگی کے آ ِ
سمجھائی گئی ہے کہ ہللا نے انسLLانی سLماج کLو اختالف اور رنگLارنگی LپLر پیLLدا کیLLا ہے ،کسLی بLات میں
مردوں کو فوقیت حاصل ہے ،تو کسی معاملے میں وہ عورتوں کے تعاون کا دسLLت نگLLر ہے ،قLLدرت نے
جو کام جس کے سپرد کیا ہے،اس کے لیے وہی بہتر اور اسی کو بجاالنا اس کی خوش بختی ہے؛ کیLLوں
کہ خالق سے بڑھ کر کوئی اور مخلوق کی ضرورت Lاور فطرت وصالحیت سے واق Lف Lنہیں ہوسLLکتا ،یہ
Lق مLLادری“ Lبھی مغربی ہLLوس کLLاروں کی خLLود غرضLLی اور دنLLائت ہے کہ انھLLوں نے عورتLLوں سLLے ”حِ L
”فرائض پدری“ کے ادا کرنے پر بھی ان بے چاریوں کو مجبور کیا ،پھر جب انھوں نے ِ وصول کیا اور
Lام تعلیم وضLLع کیLLا،جس میں عورتLLوں اپنی ذمہ داری کا بوجھ عورتوں پر الدنے کی ٹھان لی ،تو ایسLLا نظِ L
پیغمبر اسالم صلی ہللا علیہ وسLLلم نے خLLوب ارشLLاد فرمایLLا ِ کو مرد بنانے کی پوری Lصالحیت موجود Lہو،
کہ” :تین افراد ایسے ہیں ،جLLو کبھی جنت میں داخLLل نہ ہLLوں گے“ اور ان تینLLوں میں سLLے ایLLک کLLا ذکLLر
کرتے ہوئے فرمایا” :الرَّ ُجلَ ُة م َِن ال ِّن َسا ِء“ )۱۴( یعنی عورتLLوں میں سLLے مLLرد ،دریLLافت کیاگیLLا” :عورتLLوں
میں سے مرد سے کون لوگ مراد ہیں؟“ تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا” L:وہ عورتیں ،جو مردوں
ال“( )۱۵علمLLاء ”و ْال ُم َت َش ِّب َہ ُ
ات م َِن ال ِّن َس ا ِء ِبالرِّ َج ِ کی مماثلت اختیار کریں“ جیساکہ LبخLLاری کی روایت ہےَ :
نے ایسی عورتوں کو جو مردوں والی تعلیم وتربیت اختیار کرتی Lہیں اور پھLLر عملی زنLLدگی Lمیں مLLردوں
کی ہم صف ہونا چاہتی ہیں ،اسی وعید کا مصداق قرار دیا ہے۔
ب نظر موت
کہتے ہیں اسی علم کو اربا ِ
مدرسہ زن
ٴ بیگانہ رہے دیں سے اگر
اور تہذیب مغرب نے جس طرح عورت کو اس کے گھر سے زبردستی LاٹھLLاکر بچLLوں سLLے دور
کارگاہوں اور دفتروں میں البٹھایا Lہے ،اس پر ”خردمندا ِن مغرب“ کو اقبال یوں شرمندہ کرتے ہیں۔
مغربی تعلیم نسواں کے حامی مشرق کے مستغربین کی روش پر اقبال اپLLنے کLLرب وبے چیLLنی
کا اظہاریوں کرتے ہیں” :معاشرتی اصالح کے نوجوان مبلLLغ یہ سLLمجھتے ہیں کہ مغLLربی تعلیم کے چنLLد
جرعے مسلم خواتین کے ت ِن مردہ میں نئی جان ڈال دیں گے اور اپLLنی ردائے کہنہ کLLو پLLارہ پLLارہ کLLردیں
گی ،شاید یہ بات درست ہو؛ لیکن مجھے یہ اندیشہ ہے کہ اپنے آپ کو بLرہنہ پLاکرانھیں ایLک مLرتبہ پھLر
اپنا جسم ان نوجوان مبلغین کی نگاہوں سے چھپانا پڑے گا۔“()۱۶
بہ قول فقیر سLید وحیدالLدین” :اقبLال زن ومLرد کی تLرقی ،نشLوونما Lاور تعلیم وتLربیت Lکے لLیے
جLLداگانہ میLLدا ِن عمLLل کے قائLLل تھے ،کہ ہللا نے جسLLمانی LطLLور پLLر بھی دونLLوں کLLو مختلLLف بنایLLا ہے اور
Lوف محLترم LعورتLوں کے لLیے ان کی طبعی ضLروریات کے فرائض کے اعتبار سے بھی؛ چنانچہ موصِ L
نظام تعلیم اور الگ نصاب چاہتے ہیں۔“()۱۷ ِ مطابق الگ
” شذرات“ میں لکھتے ہیں” :تعلیم بھی دیگرامور کی طرح قLLومی LضLLرورت Lکے تLLابع ہLLوتی ہے،
ہمارے مقاصد کے پیش نظر مسلمان بچیوں کے لیے مذہبی تعلیم بالکل کLLافی ہے ،ایسLLے تمLLام مضLLامین،
جن میں عورت کو نسوانیت Lاور دین سLLے محLLروم کردیLLنے کLLا میالن پایLLا جLLائے،احتیLLاط کے سLLاتھ تعلیم
نسواں سے خارج کردیے جائیں۔“()۱۸
(ایک دُرویش کی نصیحت کو آویزئہ Lگوش بنالو ،تو ہLLزار قLLومیں ختم ہوسLLکتی ہیں؛ لیکن تم نہیں
ختم ہوسکتیں ،وہ نصیحت یہ ہے کہ بتول بن کر زمانے کی نگاہوں سے اوجھل (پردہ نشیں) ہوجاؤ؛ تاکہ
تم اپنی آغوش میں ایک شبیر کو پال سکو)
دوسرے لسان العصر حضرت اکبر الہ آبادی ہیں ،اقبال کی طLLرح وہ بھی عصری تعلیم سLLے
باخبر ہیں اور انھیں کی طLLرح ان کی بھی سLLاری فکLری LتوانLائی Lاور شLاعرانہ صLLالحیت وقLLوت کی تLان
تہذیب فرنگ کو لتاڑنے اوراس کی زیاں کاریوں سے خLبردار کLرنے پLر ہی ٹوٹLتی ہے ،ان کی شLاعری
ک مغربیت کے خالف ر ّد عمل ہے ،ان کی شاعری بھی اقبLLال کی طLLرح اول سLLے لے کLLر پوری تحری ِ
آخر تک اسی مادیت فرنگی Lکا جواب ہے اور ان کی ترکش کا ایک ایLLک تLLیر اسLLی نشLLانے پLLر لگتLLا ہے،
بس دونوں میں فرق یہ ہے کہ اقبال بہ را ِہ راست تیشLLہ سLLنبھال کLLر تہLLذیب نLLو کLLو بیخ وبُن سLLے اکھLLاڑ
ت اکLبر طLنز کی پھلجھڑیLLوں کLو واسLطہ LبنLاکر مغLLرب پھینکنے کے درپے نظر آتے ہیں ،جبکہ حضر ِ
کے مسموم افکار وخیاالت پر پھبتیاں کستے ہیں۔
نظام تعلیم بھی حضرت اکبر کا خاص موضوع LتھLLا اوراس کی طLLرف LخLLواتین کے روز ِ مغربی
افزوں بڑھتے ہوئے رجحانات سے بھی وہ بہت ملول اور کبیدہ خاطر تھے؛ چنانچہ ایک جگہ مغرب کی
تعلیم نسواں کی تحریLک اور بے پLردگی LکLو الزم وملLزوم بتLLاتے ہLوئے فرمLاتے
ِ طرف سے اٹھنے والی
ہیں:
ت تعلیم کو
مجلس نسواں میں دیکھو عز ِ
ِ
پردہ اٹھا چاہتاہے علم کی تعظیم کو
مشرق میں بہترین عورت کا تخیل یہ ہے کہ وہ شروع LسLLے نیLLک سLLیرت ،بLLااخالق اورہنس مکھ
رہے ،وہ جب بات کرے تو اس کے منھ سے پھول جھLڑے ،وہ دیLLنی تعلیم حاصLل کLرے اور خLانہ داری
کے طور طریقے سیکھے ،کہ آگے چل کر اس کو گھLر کی ملکہ بننLا ہے ،بچپن میں والLدین کی اطLاعت
Lروانہ جنت خیLLال کLLرے؛ تLLاکہ خLLانگی شLLیرازہ اس کی ذات
ٴ اور شادی کے بعد شوہر Lکی رضامندی کLLو پL
سے بندھا رہے ،خاندان کی مسرتیں اس کے دم سے قائم رہیں اور وہ صحیح معنی میں ”گھLLر کی ملکہ“
ثابت ہو ،اس کے برخالف Lفرنگیوں کے یہاں عزت کا معیLLار بLLدال ہLLوا ہے ،وہ عLLورت ہی کیLLا؟ جس کے
حسن گفتار ،حسن رفتار L،حسن صورت ،زیب وزینت ،خوش لباسی ،گلے بازی اور رقاصی Lکے چLLرچے
سوسائٹی Lمیں عام نہ ہوں ،اخبارات میں اس کے فوٹو شائع ہوں ،زبانوں پLر جب اس کLا نLام آئے ،تLLو کLام
ودہن لذت اندوز Lہوں ،اس کا جلوہ آنکھوں میں چمک پیدا کLLردے ،اور اس کLLا تصور دلLLوں میں بے انتہLLا
شوق ،بہترین عورت وہ نہیں ،جLLو بہLLترین بیLLوی اور بہLLترین مLLاں ہLLو؛ بلکہ وہ ہے ،جس کی ذات دوسLLت
واحباب کی خوش وقتیوں کا دلچسپ ترین ذریعہ Lہو اور ایسی ہو کہ اس کی رعنائی ودل ربLLائی کے نقش
ثبت ہLLوں کلب کے درودیLLوار LپLLر ،پLLارک کے سLLبزے زار پLLر ،ہوٹلLLوں کے کLLوچ اور صLLوفوں پLLر،
”ہمارے“اور” Lان کے“ تخیل کے اس بُعد المشرقین کو اقلیم لفظ ومعLLنی کLLا یہ تاجLLدار دو مصرعوں میں
جس جامعیت اور بالغت کے ساتھ بیان کرجاتا ہے ،یہ اسی کا حصہ تھا:
”چمکی“ میں وہ بالغت ہے کہ سننے واال لوٹ لوٹ جائے اور یہ ”چمک“ مخصوص ہے ”نLLئی
روشنی“ Lکی چمنیوں کے ساتھ۔
حسن وناز کی دنیا میں قابل داد وتحسین اب تک کم سخنی ،کم گوئی اور بے زبانی تھی ،مشLLرقی
شوہر ”چاندسی Lدلہن“ اس لیے بیاہ کر التا تھا کہ وہ اسLے اپLنے گھLر کLا چLراغ بنLادے اور تخیLل ”خLانہ
نظام تعلیم کی دَین کہ محفل کے طور ہی کچھ اور ہوگئے ،نقشہ بالکLLل ِ آبادی“ کا غالب رہتا ،مگر مغربی
ہی بدل گیا ،اب تLLو ٹھLLاٹھ بLLزم آرائیLLوں کے جمے ہLLوئے ،حجLLاب کی جگہ بے حجLLابی ،سLLکوت کی جگہ
طوفان تکلم ،مستوری کی جگہ نمائش ،عاشق بے چارہ اس کایا پلٹ پردنLLگ ،حLLیران ،گم صLLم ،کLLل تLLکِ
وقف تکلم۔
ِ جو نقش تصویر تھا ،وہ آج گراموفون کی طرح مسلسل
خامشی سے نہ تعلق ہے،نہ تمکین کا ذوق
ایک دوسری جگہ اس مرقع میں آب ورنگ ذرا اور زیادہ بھردیتے ہیں؛ چنانچہ ارشاد ہے:
یہ خیال نہ گزرے کہ اکبر سرے سے تعلیم نسواں کی مخالفت کرتے تھے اور لڑکیوں کو بالکLLل
ہی ناخواندہ رکھنے کے حامی تھے ،وہ تعلیم نسLLواں کے حLLامی تھے؛ لیکن تعلیم تعلیم میں بھی تLLو زمین
دور مغلیہ کی جہLLاں آراء
آسمان کا فرق Lہے ،وہ اس تعلیم کی تائیLLد میں تھے ،جLLو رابعہ بصریہ نہ سLLہی ِ
بیگم ہی کے نمونے پیدا کرے ،نہ کہ اس تعلیم کی ،جو زینت ہوا پکچLLر پیلس اور نمLLائش گLLاہوں کی ،اس
تعلیم کو وہ رحمت نہیں ،خدا کا قہر سمجھتے تھے ،جس پLLر بنیLLادیں تعمLLیر ہLLوں ہLLالی ووڈ اور بLLالی ووڈL
نظام تعلیم کے ،جو مہربان مائیں ،وفاسرشت بیویاں اور اطاعت شعار لڑکیLLاں ِ کی ،وہ آرزومند Lتھے ،اس
پیدا کرے ،نہ کہ اس کے ،جو تھیٹرمیں ایکٹری اور برہنہ Lرقاصی کے کماالت کی طLLرف لے جLLائے ،وہ
ملک میں حوریں پیدا کرنا چاہتے تھے ،کہ دنیا جنت نظیر بن جLLائے ،وہ پریLLوں کے مشLLتاق نہ تھے ،کہ
ملک ”راجہ اندر“ کا اکھاڑا ہوکر رہ جائے ان کا قول تھا کہ:
”استاذ اور استاد“ کے لطیف فرق کو جس خLLوبی کے سLLاتھ بیLLان کیLLا ہے ،وہ بس انہی کLLا حصہ
ب نشLاط کLLو
ہے ،استاذ تو دینی واخالقی تعلیم و تLربیت دیLنے والے کLو کہLLتے ہیں ،جبکہ اسLتاد جی اربLا ِ
تعلیم دینے والے کو کہتے ہیں۔
ایک اور طویل نظم میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے اپنLLا پLLورا مسLLلک وضLLاحت کے سLLاتھ
بیان کردیا ہے ،چند اشعار نظر نواز ہوں:
آگے حساب کتاب ،نوشت وخواند ،اصو ِل حفظا ِن صحت ،کھانا پکLLانے اور کLLپڑے سLLینے وغLLیرہ
درس نسوانی Lکا الزمی نصاب بتاکر فرماتے ہیں:
ِ کو
مخلوط تعلیم کا دوسرا Lپہلو لڑکو اور لڑکیLLوں کی مشLLترک تعلیم گLLاہ ہے،اس سلسLLلے میں یہ امLLر
Lوظ خLLاطر رہے کہ ابتLLدائی عمLLر ،جس میں بچے صLLنفی جLLذبات سLLے عLLاری ہLLوتے ہیں اور ان میں ملحLِ L
ایسLLے احساسLLات پیLLدا نہیں ہLLوتے ،مخلLLوط Lتعلیم کی گنجLLائش ہے اورآٹھ ،نLLو سLLال کی عمLLر تLLک ابتLLدائی
درجات کی تعلیم میں تعلیم گاہ کا اشتراک رکھLLا جاسLLکتا ہے؛ اسLLی لLLیے اسLLالم نے بے شLLعور بچLLوں کLLو
غیرمحرم عورتوں کے پاس آمد ورفت Lکی اجازت دی ہے اور قرآن مقدس نے بھی اس کی طLLرف اشLLارہ
کیا ہے()۲۱؛ لیکن جب بچوں میں جنسی شعور Lپیدا ہونے لگے اور ایک حLLد تLLک بھی (کلی طLLور پLLر نہ
سہی) ان میں صنفی جذبات کی پہچان ہوجائے ،تLLو ایLLک سLLاتھ ان کی تعلیم آگ اور بLLارود LکLLو ایLک جگہ
جمع کرنے کی ماننLLد ہے اور اس کLLا اعLLتراف (گLLودیر LسLLے سLLہی) آج یLLورپ وامLLریکہ کے بLLڑے بLLڑے
ت بشری ( )Humanbiologyکررہے ہیں؛ چنانچہ انھوں نے لکھا ماہرین نفسیات ( )Psychologyوحیاتیا ِ
ہے کہ عورت اور مرد میں کشش جنسی بالکل طبعی اور فطLLری ہے اور دونLLوں جب بLLاہم ملیں گے اور
کوئی مانع نہیں ہوگا ،تو رگڑسے یکبارگی بجلی کا پیدا ہوجانا یقینی ہے۔
اور اسالم کا نقطئہ نظر اس حوالے سے بالکل واضح ،بے غبار ،ٹھوس اور سخت ہے ،کہ ایLLک
مرد یا عورت کے لیے کسی غLیرمحرم کے سLاتھ مLل بیٹھنLا کجLا ایLک دوسLرے کی طLرف نگLاہ اٹھLاکر
دیکھنے کی بھی قطعاً Lگنجائش نہیں؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے تاریخی Lسِ L
Lفر
حج میں فضل بن عباس آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے سLLاتھ اونٹLLنی پLLر سLLوار ہیں ،قLLبیلہ ”بنLLو خثعم“ کی
ایک لڑکی ایک شرعی مسئلے کی دریافت کے لیے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی طرف LمتLLوجہ ہLLوتی ہے
اور فضل بن عباس کی نگاہ اچانک اس لڑکی پر پڑجاتی Lہے ،تو نبی پاک صلی ہللا علیہ وسلم فLLوراً Lان
کا رخ پھیردیتے Lہیں۔
مردوں کی طرح عورتوں کے لیے بھی آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے ممانعتی حکم جاری فرمایLLا:
چنانچہ ایک دفعہ حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ( بعض روایات کے مطLLابق LحضLLرت عائشہ)
حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس موجود تھیں،اچانک حضرت عبدہللا بن ام مکتLLوم LتشLLریف Lلے آئے،
حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا کہ ان سے پLLردہ کLLرو! تLLو حضLLرت ام سLLلمہ نے
قدرے تحیر زدہ ہوکر کہا” :یہ تLو نابینLا ہیں! نہ ہمیں دیکھ سLکتے ہیں اور نLا ہی پہچLان سLLکتے ہیں“ تLLو
حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا” L:کیا تم دونLLوں بھی نابینLLا ہLLو؟ کیLLا تم انھیں نہیں دیکھ رہی ہLLو؟“(
)۲۴
سن شعور LکLLو پہنچLLنے کے شعبہ حیات سے متعلق نہیں؛ بلکہ ِ ٴ پھر اسالم کا یہ نظریہ کسی خاص
Lواتین اسLLالم کی تLLاریخ اور ان کی تعلیم
ِ بعد سے تاحیLLات اس کLLا یہی حکم ہے؛ چنLLانچہ جب ہم اہِ Lل علم خL
وتربیت کے طریقوں کا مطالعہ کرتے ہیں ،تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نبی پاک صLLلی ہللا علیہ وسLLلم کے
عہِ Lد میمLLون میں خLLود آپ صLLلی ہللا علیہ وسLLلم اس بLLات کLLا غLLایت درجہ اہتمLLام فرمLLاتے کہ لڑکLLوں اور
لڑکیوں میں اختالط کی کیفیت پیدا نہ ہونے پائے؛ تLLاکہ یہ شLLیطان کی طLLرف سLLے کسLLی غلLLط کLLاری کی
تحریک کا باعث نہ ہو؛ چنانچہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ” :حضLLور صLLلی ہللا علیہ وسLLلم
مردوں کی صف سے نکلے اور حضرت بالل آپ صLLلی ہللا علیہ وسLLلم کے سLLاتھ تھے ،آپ صLLلی ہللا
علیہ وسلم کو خیال ہوا کہ آپ صلی ہللا علیہ وسLLلم کی آواز عورتLLوں تLLک نہیں پہنچی ،تLLو آپ صLLلی ہللا
علیہ وسلم عورتوں کی صف تک تشریف لے گئے ،انھیں نصیحت فرمائی اور صدقہ Lکرنے کا حکم دیLLا،
تو کوئی Lعورت اپLLنی بLLالی پھینکLLنے لگی اور کLLوئی انگLLوٹھی اور حضLLرت بالل اپLLنی چLLادر میں انھیں
سمیٹنے لگے۔“()۲۵
ایک مرتبہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں کو خلط ملط دیکھا ،تو عورتLLوں کLLو
ب راہ چال کLLرو“۔
مخاطب کرتے ہوئے فرمایا” :پیچھے ہٹ جاؤ! تمہارا بیچ راستے پر چلنا مناسب نہیں ل ِ
()۲۶
آپ صلی ہللا علیہ وسLLلم کے بعLLد کے ادوار میں بھی عورتLLوں کی تعلیم وتLLربیت کے تعلLLق سLLے
قرن اوّل اور اس عدم اختالط کا خصوصی Lاہتمام رہا؛ چنانچہ حضرت موالنا قاضی Lاطہرمبارک پوری ِ ِ
طریقہ تعلیم وتربیت کا تذکرہ کرتے ہLLوئے رقم طLLراز ہیں: ٴ کے بعد طالبات کے تعلیمی اسفار اور ان کے
”عام طور سے ان تعلیمی اسفار میں طالبات کی صنفی حیثیت کا پورا پLLورا لحLLاظ رکھLLا جاتLLا تھLLا اور ان
کی راحت وحفاظت کا پورا اہتمام ہوتا تھا ،خاندان اور رشLتہ Lکے ذمہ دار اُن کے سLاتھ ہLوتے تھے ،امLام
سہمی نے ”تاریخ جرجان“ میں فاطمہ Lبنت ابی عبدہللا محمد بن عبدالرحمن طلقی جرجانی کے حاالت
میں لکھLLا ہے کہ” :میں نے فLLاطمہ LکLLو اس زمLLانے میں دیکھLLا ہے ،جب ان کے والLLد ان کLLو اٹھLLاکر امLLام
ابواحمLLد Lبن عLLدی جرجLLانی Lکی خLLدمت میں لے جLLاتے تھے اور وہ ان سLLے حLLدیث کLLا سLLماع کLLرتی
تھیں،فاطمہ بنت محمد بن علی لخمیہ اندلس کے مشہور محLLدث ابومحمLد LبLLاجی اشLLبیلی کی بہن تھیں،
انھوں نے اپنے بھائی ابومحمد باجی کے ساتھ رہ کر طالب علمی کی اور دونLLوں نے ایLLک سLLاتھ بعض
ت حدیث حاصل کی۔“()۲۷ شیوخ واساتذہ سے اجاز ِ
آگے لکھتے ہیں” :ان محدثات وطالبات کی درس گاہوں میں مخصوص جگہ ہوتی تھی ،جس میں
وہ مردوں سے الگ رہ کر سماع کرتی تھیں اور طلبہ وطالبات میں اختالط نہیں ہوتا تھا۔“()۲۸
ان تصریحات سے واضح طور Lپر معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے جہاں عورتوں کو تعلیم وتربیتL
کے حصول کی پLLوری Lآزادی بخشLLی ہے ،وہیں اس کے نزدیLLک مLLرد وعLLورت کے درمیLLان اختالط کی
Lکونکوئی گنجائش نہیں؛ بلکہ دونوں کے لیے علیحدہ تعلیم گاہ ہونی چاہیے ،جہLLاں وہ یLLک سLLوئی اور سِ L
خاطر کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکیں،اور Lہر نوع کے ممکن فتنے کا س ِّد باب ہوسکے ،خاص طور سLLے
موجودہ دور میں ،جب کہ مشرق سے مغLرب اور شLمال سLے جنLوب مخلLوط تعلیم کی فحش کاریLاں اور
ماہرین تعلیم وسماجیاتL
ِ زیاں کاریاں ظاہر وباہر ہوچکی Lہیں اور خود یورپ وامریکہ Lکی تعلیم گاہوں کے
وعمرانیات کی رپورٹس Lاس کا بین ثبوت ہیں؛ چنانچہ Lمشہور فرانسیسLی LعLLالم عمرانیLLات ”پLLول بیLLورو“(
)PoulbureouاپLLنی کتLLاب ()Towardsmoral Bankruptcyمیں لکھتLLاہے کہ” :فLLرانس کے متوسLLطL
طبقے کی تعلیم یافتہ لڑکیاں ،جو کسی فرم میں کام کرتی ہیں اور سائستہ سوسائٹی میں اٹھتی بیٹھتی ہیں،
طLرز
ِ ان کے لیے کسی اجنبی لLڑکے سLLے مLانوس ہوجانLLا کLLوئی تعجب خLLیز امLر نہیں ہے ،اوّل اوّل اس
معاشرت کو معیوب سمجھا گیLLا ،مگLLر اب یہ اونچے طبقے میں بھی عLLام ہوگیLLا ہے اوراجتمLLاعی LزنLLدگی
میں اس نے وہی جگہ حاصل کرلی ہے ،جو کبھی نکاح کی تھی۔“()۲۹
امریکہ کی تعلیم گاہوں کے نوجوان طبقہ کے بارے میں جج بن لنڈ سے ( )Benlindseyجس کو
ڈنور ()Denverکی عدالت جرائم اطفLLال ( )JuentlecourtکLLا صLLدر ہLLونے کی حیLLثیت سLLے امLLریکہ کے
نوجوانوں کی حالت سے واقف ہونے کا بہت زیادہ موقع مال ،اپنی کتاب ( )Revolt of Modern youth
میں لکھتا ہے کہ” :امریکہ Lمیں ہائی اسکول کی کم از کم ۴۵ فیصد Lلڑکیاں اسکول سے الگ ہLLونے سLLے
پہلے خراب ہوچکتی ہیں اور بعد کے تعلیمی مدارج میں اوسط اس سے کہیں زیLLادہ ہے ،لڑکیLLاں خLLود ان
لڑکوں سے اس چیز کے لیے اصرار کرتی ہیں ،جن کے ساتھ و تفریحی مشاغل کے لLیے جLLاتی ہیں اور
اس قسم کے ہیجانات کی طلب ان میں لڑکوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں ،گLLرچہ زنLLانہ فطLLرت ان اقLLدامات
پرفریب کاری کے پردے ڈالتی ہے۔“()۳۰
انگلینڈ کے مرکزی Lشہر لندن (جو تہذیب جدید کا صاف شفاف آئینہ ہے ،اسLLی آئیLLنے میں اس کی
عکس قLبیح نظLر آتLLاہے) کی ”غیرشLادی LشLدہ مLLاؤں اور ان کے بچLوں کی نLLویں ِ تمام تر گLLل کLاریوں کLLا
کونسل“ سLے خطLاب کLرتے ہLوئے انگلینLڈ کی مشLہور مصنفہ ”مس مارگانتLا LالسLکی“ یہ دھمLاکہ خLیز
انکشاف کرتی ہے کہ” :انگلسLLتان کی تقریبLا ً ۷۰ فیصد لڑکیLLاں شLLادی سLLے قبLLل ہی اپLLنے دوسLLتوں سLLے
جنسی تعلقات قائم کرلیتی ہیں اور ۳۳ فیصد Lلڑکیاں شادی سے قبل ہی حاملہ ہوجاتی Lہیں۔“()۳۱
لندن کے ایک سماجی Lکارکن نے اپLLنی مطالعLLاتی رپLLورٹ میں وہLLاں کی مخلLLوط Lتعلیم گLLاہوں کی
صنفی آوارگی اور جنسLی انLارکی ()AnarchyکLا ذکLر کLرتے ہLوئے لکھLا ہے کہ” :اسLکول میں آج کLل
مانع حمل اشیاء اپنے اپنے بیLLگ میں لLLیے پھLLرتے ہیں کہِ چودہ برس کے لڑکے اور لڑکیاں عام طور Lپر
جانے کب کہاں ضرورت پڑجائے؟ اس معاملے میں وہ اپنے ماں باپ سے کہیں زیادہ ہوشیار ہیں۔“()۳۲
ناف تمدن اور مرکLLز تہLLذیب کی بLLات ہے ،خLLود مشLLرق میں بھی (جس کے رگ وپے خیر! یہ تو ِ
میں گویLLا خLLوا ِن مغLLرب کی زلہ خLLواری سLLرایت کLLرچکی ہے اور مغLLرب کی ”عطLLاکردہ“ ہLLر ”نعمت
غیرمترقبہ“ Lکا والہLLانہ اسLLتقبال کرنLLا اور اسLLے ہLLاتھوں ہLLاتھ لینLLا اس کی جبلت بن چکLLا ہے اور جس کے
فرزندوں میں مسLLتغربین کی ٹLLولی کی ٹLLولی جنم لے رہی ہے) مخلLLوط Lتعلیم کے انتہLLائی مضLLرت رسLLاں
ت حال تویہ ہوچکی ہے کہ۔ نتائج مشاہدے میں آرہے ہیں؛ بلکہ صور ِ
مے خانہ نے رنگ وروپ بدال ایسا
غور کیجیے کہ مخلوط تعلیم گاہوں میں جہاں لڑکے اور لڑکیLLاں دونLLوں ایLLک سLLاتھ تعلیم حاصLLل
کررہے ہوں ،پھر دونوں کی نشست گاہیں بھی ایLLک سLLاتھ ہLLوں اور ان سLLب پLLر طLLرفہ یہ کہ عریLLاں ونیم
عریاں بازو ،لب ہائے گلگوں ،چمکتے ہوئے عارض ،چشم ہائے نیم باز ،بکھری ہوئی زلفیں؛ بلکہ سLLارا
شLوق نظLارہ کLو صLبر ِ ذوق دیLد اور
ِ سراپا ”انا البرق“ Lکا منظر پیش کررہا Lہو،تLو کیLا فریLق LمقابLل اپLنے
وشکیبائی Lکا رہین رکھے گا یا بے تابانہ اپLLنی نگLLاہوں کی تشLLنگی دور کLLرنے کی سLLوچے گLLا؟ پھLLر جب
ت نظLLارہ دے رہLLا ہLLو ،تLLو اس کی دیLLد کی پیLLاس بجھے گی جما ِل جہاں آرا پوری Lتابانیوں کے سLLاتھ دعLLو ِ
Lوق دیLLدار ”ہَLLلْ
کیوں؟ وہ تواور Lتیز تر ہوجائے گی اور جام پر جام چڑھائے جانے کے باوصف Lاس کا شِ L
ِم ْن َم ِزید“ کی صدائے مسلسل لگائے گا۔
اور شیطان ایسے موقعوں پر کبھی نہیں چوکتا ،جب اس کLLا شLLکار پLLوری LطLLرح اس کے قبضLLے
میں آجائے؛ چنانچہ معاملہ صرف دید ہی تک محدود رہ جائے ،یہ نLLاممکن ہے ،اس سLLے بھی آگے بLLڑھ
کر گفت وشنید Lتک پہنچتا ہے ،پھر بوس وکنار اورہم Lآغوش ہونے اور باآلخر وہLLاں تLLک پہنچ کLLر دم لیتLLا
ہے ،جس کے بیان سے ناطقہ سربہ گریباں اور خامہ انگشت بہ دنداں ہے اور اس قسم Lکے حادثات کوئی
ضروری Lنہیں کہ یونیورسٹیز اور کالجز کے احاطوں ہی میں رونما ہوں؛ بلکہ رسل ورسLLائل Lاورآئے دن
کے مشاہدات یہ ثابت کرتے ہیں کہ کالجز کے کالس روم ،شہروں کے پارک اور پبلک مقامLات تLLک کی
بھی کوئی Lقید نہیں ہے۔#
چراغ محفل
ِ نالہ دل ،دو ِد
بوئے گل ،ٴ
جو تری بزم سے نکال ،سو پریشاں نکال
ایسے پر آشوب اورہالکت خیز ماحول میں بھی اگر ہوش کے ناخن نہ لیے گئے ،اور لڑکوں کے
ساتھ لڑکیوں کو بھی ” ُمثَقَّف“ اور ”روشن خیال“ بنانے کا مخلLLوط ط Lٴ
Lریقہ کLLار یLLوں ہی برقLLرار رہLLا ،تLLو
ت حوا کی عزت وناموس Lکی پامالی کی خبرنو لے کرآئے گا اور پھر دنیLLا ہرنیاطلوع Lہونے واال سورج بن ِ
بہ چشم عLLبرت نگLLاہ دیکھے گی کہ وہ مقامLLات ،جLLو انسLLان کLLو تہLLذیب وشائسLLتگی اور انسLLانیت کLLا درس
دینے ،قLLوم Lووطن کے جLLاں سLLپار خLLادم اور معاشLLرے کے معLLزز LوکامیLLاب افLLراد تیLLار کLLرنے کے لLLیے
منتخب کیے گئے تھے؛ محض حیوانیت وبہیمیت اور شہوت رانی وہوس کاری کے اڈے بن کر رہ گئے۔
(القَ َّدر ہّٰللا ذلک)
خواتین کو تعلیم دی جائے ،اسالم قطعا ً اس کی مخLLالفت نہیں کرتLLا؛ بلکہ وہ تLLو اس کی حLLد درجہ
تاکیLLد کرتLLا ہے ،جیسLLاکہ ماقبLLل میں بتایاگیLLا؛ لیکن یہ ملحLLوظ Lرہے کہ ان کی تعلیم وہی ہLLو ،جLLو ان کی
ت فکLLر وادراک کے مناسLLب ہLLو اور ان کی عفت کی حفLLاظت میں فطLLرت ،ان کی لیLLاقت اور ان کی قLLو ِ
ممدومعاون ہو ،نہ کہ ایسی تعلیم ،جو انھیں زمرئہ نسLLواں ہی سLLے خLLارج کLLردے اور شLLیاطینُ االنس کی
تعالی سود وزیاں کی صحیح فہم کی توفیق بخشے۔ (آمین) ٰ درندگی کی بھینٹ چڑھا دے ،ہللا
***
حواشی
( )۱صLLحیح بخLLاری ،کتLLاب العلم ،بLLاب تعلیم الرجLLل امتہ واہلہ ،ج ،۱:ص ،۲۰:صLLحیح مسLLلم،
کتاب االیمان ،باب وجوب االیمان برسالة نبینا الخ ،ج ،۱:ص۸۶:۔
( )۴صحیح بخاری ،کتاب العلم ،باب ہل یجعل للنساء یوما علی حدة فی العلم ج،۱:ص۵۷:۔
( )۱۵صحیح بخاری ،کتاب اللباس ،باب المتشبہین بالنساء والمتشبہات بالرجال ،ج ،۲:ص۸۷۴:۔
( )۱۸ص۸۵:۔
( )۱۹ص۲۰۸:۔
( )۲۱النور آیت۵۸ :۔
( )۲۵صحیح بخاری ،کتاب العلم ،باب عظة النساء وتعلیمہن ،ج،۱:ص۲۰:۔ صLLحیح مسLLلم ،کتLLاب
ٰ
الصلوة قبل الخطبة ،ج،۱:ص۲۸۹:۔ صلوة العیدین ،فصل فی
( )۲۶سنن ابی داؤد ،کتاب األدب ،باب فی مشی النساء فی الطریق ،ج ،۲:ص۷۱۴:۔
( )۲۷خLLواتین اسLLالم کی دیLLنی وعلمی خLLدمات ،قاضLLی اطہLLر مبLLارک پLLوری ،ص ،۲۳:تLLاریخ
جرجان ،امام سہمی ،ص۴۶۳:۔
( )۲۸خواتین اسالم کی دینی وعلمی خدمات ،قاضی اطہر مبارک پوری ،ص۳۳:۔
صدق جدید ،عبدالماجد دریابLLادی/، ۲۶دسLLمبر ،/۱۹۶۰ فLLریب تمLLدن ،اکLLرام ہللا ایم ایے،
ِ ( )۳۱
،افکار عالم ،اسیرادروی ج،۱:ص۲۲۸:۔ ِ ص۱۸۷:
( )۳۲صدق جدیLد ،عبدالماجLد دریابLادی/، ۶جنLوری ،/۱۹۵۶ فLریب تمLدن ،اکLرام ہللا ایم اے ،ص:
افکار عالم ،اسیرادروی ،ج،۱:ص:
ِ ،۱۸۹
۲۲۹
تعلیم نسواں:
آپ ﷺ کی ازواج مطہرات عورتوں کی تعلیم کا اہم ذریعہ بن گئیں۔ خاص طور پر
عائشہ نے عورتوں کی تعلیم کا اہتمام فرمایا۔ آپ ﷺ نے ان کے بارے میں
ؓ حضرت
:ارشاد فرمایاL
[]44
خذو نصف دینکم عن الحمیرا۔
عائشہ) سے سیکھو۔"
ؓ "نصف دین تم حمیرا (حضرت
آپ سے علمی فیض
عائشہ سے تعلیم پاتی تھیں بلکہ صحابہ کرام بھی ؓ
ؓ لہٰذا نہ صرف Lعورتیں حضرت
:پاتے تھے۔ چنانچہ مسروق Lکہتے ہیں
[]45
وهللا لقد رأیت اصحاب محمد ﷺ االکابر یسالونها عن الفرائض۔
عائشہ سے) سے علم الفرائض کے"
ؓ کرام کو (حضرت
خدا کی قسم میں نے بہت پڑھے لکھے صحابہ ؓ
"بارے میں سواالت کرتے ہوئے دیکھا۔
عورتوں کو نماز جمعہ میں شریک کیا جاتا تھا تاکہ وہ مسائل سیکھ سکیں۔ آنحضور ﷺ
کے ان ہی احکامات و ترغیبات کی بناء پر علماء اسالم نے عورت کی تعلیم کو باقاعدہ قانونی حیثیت
دے دی۔
:حوالہ جات
1. عبدالحئی بن العماد،شدرات الذھب فی اخبار من ذھب ،الجزء االوّل( دارالفکر ،بیروت،
۱۹۸۸م) ،ص۶۲ :
2. ذہبی ،شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان ،سیرا عالم النبالء(مؤسسۃ الرسالۃ↑ ،
بیروت ۱۹۹۳،م)۱۸۱ /۱،۔۱۸۲