You are on page 1of 30

‫ب تعلیم‪:‬۔‬

‫نصا ِ‬
‫حفظ قرٓان (سورتیں زبانی یاد کرائی جاتی تھیں)۔ )‪(i‬‬
‫ف ِن قرات و تجوی ِد قرٓان۔ )‪(ii‬‬
‫غیر زبانوں کی تعلیم مثالً عبرانی‪ ،‬سریانی‪ ،‬فارسی‪ ،‬رومی‪ ،‬قبطی‪ ،‬حبشی (حضرت )‪(iii‬‬
‫زبیر بھی بہت سی زبانیں جانتے تھے۔‬ ‫زید بن ؓ‬
‫ثابت ماہر السنہ تھے)۔ حضرت عبدہللا ابی ؓ‬
‫فنون سپہ گری (نشانہ بازی‪ ،‬تیر اندازی‪ ،‬پیراکی‪ ،‬گھوڑ دوڑ کے مقابلے‪ ،‬جنگی )‪(iv‬‬
‫مشقیں)۔‬
‫( ‪ ،‬علم الطیور)‪(v‬‬
‫‪،‬زرعی علوم مثالً علم زراعت و فالحت )‪vi‬‬
‫علم ہیئت‪ ،‬علم انساب۔ )‪(vii‬‬

‫کعب‪ ،‬علم الم‪L‬یراث‪ :‬حض‪L‬رت زی‪L‬د بن‬


‫مخصوص اساتذہ ک رام‪:‬۔فن ق‪L‬راء ت‪ :‬حض‪L‬رت ابی بن ؓ‬
‫ؓ‬
‫ثابت۔‬

‫عائشہ تھیں۔‬
‫ؓ‬ ‫تعلیم نسواں‪ :‬۔مجالس وعظ و تعلیم کے لیے معلّمہ حضرت‬
‫ِ‬

‫مضامین برائے خواتین‪:‬۔دینی مضامین‪ ،‬چرخہ کاتنا‪ ،‬گھریلو صنعتیں۔‬

‫نظ‪LLL‬ام حکم‪LLL‬رانی‪ ،‬ص‪LLL‬فحات ‪(5-204‬‬ ‫ِ‬ ‫نب‪LLL‬وی میں‬


‫ؐ‬ ‫۔)مٓاخ‪LLL‬ذ‪ :‬ڈاک‪LLL‬ٹر محم‪LLL‬د حمی‪LLL‬د ہللا‪ ،‬عہ‪LLL‬د‬
‫نظام تعلیم دنیا کو عطا فرمای‪LL‬ا‬ ‫ِ‬ ‫صفّہ کے ذریعے جو‬ ‫نبی اکرمﷺنے درسگا ِہ ُ‬
‫اس میں حسب ذیل خصوصیات تھیں‪ :‬امیر اور غ‪LL‬ریب کے درمی‪LL‬ان ک‪LL‬وئی امتی‪LL‬از نہ تھ‪LL‬ا۔ ہللا‬
‫‪L‬غ اس‪LL‬الم جیس‪L‬ے‬ ‫ب ٓاخ‪LL‬رت‪ ،‬تکمی‪LL‬ل اخالق اور تبلی‪ِ L‬‬‫ہللا کی پ‪LL‬یروی‪ ،‬احتس‪LL‬ا ِ‬ ‫کی اطاعت‪ ،‬رسول ؐ‬
‫نظام تعلیم کا حصہ تھے۔ یکساں نصاب‪ ،‬مفت تعلیم‪ ،‬اساتذہ کی مکمل کفالت‪ ،‬دین‬ ‫ِ‬ ‫مقاصد اس‬
‫ص ‪L‬فّہ کے عناص‪LL‬ر ترکی‪LL‬بی تھے۔‬ ‫و دنیا کی یکجائی اور پاکیزہ ترین تعلیمی ماحول درس‪LL‬گا ِہ ُ‬
‫حضور اکرم ﷺ کے طریقہ تعلیم و تدریس کی خصوصیات‬

‫نبوی میں مملکت اسالمیہ دس الکھ مربع میل تک پھیل گئی ت‪LL‬و ای‪LL‬ک وس‪LL‬یع تعلیمی‬
‫ؐ‬ ‫جب عہد‬
‫نظام قائم کرنا الزم ہوگیا۔ چنانچہ مدینہ منورہ سے بڑے بڑے مقامات پر تربیت یافتہ معلّمین‬
‫روانہ کیے جاتے اور صوبائی گورنروں کو بھی حکم ہوت‪L‬ا کہ وہ اپ‪L‬نے ص‪L‬وبوں کی تعلیمی‬
‫ٓاپ نے ہ‪LL‬دایت ن‪LL‬امہ‬
‫عمرو ابن ح‪LL‬زم ک‪LL‬و ؐ‬
‫ؓ‬ ‫ضرورتوں کو پورا کریں۔ یمن کے گورنر حضرت‬
‫ٓاپ نے‬‫جاری فرمایا کہ وہ قرٓان‪ ،‬حدیث‪ ،‬فقہ اور اسالمی علوم کی تعلیم کا بندوبس‪LL‬ت ک‪LL‬ریں۔ ؐ‬
‫ارشاد فرمایا‪’’ :‬لوگوں کو اس بات کی نرمی سے ترغیب دو کہ وہ دینی‪LL‬ات کی تعلیم حاص‪LL‬ل‬
‫کریں۔‘‘ (بحوالہ‪ :‬ابن حنبل)۔ گورنروں کو یہ بھی حکم تھا کہ وہ لوگوں کو وض‪LL‬و‪ ،‬جمعہ ک‪LL‬ا‬
‫غس‪LLLLLLL‬ل‪ ،‬باجم‪LLLLLLL‬اعت نم‪LLLLLLL‬از‪ ،‬روزہ اور حج بیت ہللا کے احک‪LLLLLLL‬ام بت‪LLLLLLL‬ائیں۔ ن‪LLLLLLL‬بی‬
‫ناظر تعلیمات بھی مقرر فرمایا۔ اسے‬ ‫ِ‬ ‫کریمﷺنے صوبہ یمن میں ایک صدر‬
‫حکم تھ‪LL‬ا کہ وہ مختل‪LL‬ف اض‪LL‬الع ک‪LL‬ا دورہ ک‪LL‬رے اور وہ‪LL‬اں کی تعلیم اور تعلیمی اداروں کی‬
‫علم‬
‫اعظم نے ہمیشہ ِ‬ ‫ؐ‬ ‫معلم‬
‫نگرانی کرے۔ (بحوالہ‪ :‬تاریخ طبری‪ ،‬صفحات ‪)3-1982‬۔ الغرض ِ‬
‫[اللّھم انی اسئلک عل ًما نافعًا و رزقًا طیبًا‬‫نافع کے لیے دعا فرمائی‪ٰ :‬‬

‫و عماًل متقباًل ] (بحوالہ‪ :‬ابن عبدالبر‪ ،‬کتاب العلم‪ ،‬صفحہ ‪)84‬۔‬

‫‪: ‬حضور ﷺ کا تمثیلی انداز‬

‫‪L‬رام کی مجلس میں اپ‪LL‬نے س‪LL‬اتھیوں‬‫ایک مرتبہ حضور اکرمﷺنے‪ L‬صحابہ ک‪ؓ L‬‬
‫سے پوچھ‪L‬ا‪’’ :‬بھال وہ ک‪L‬ون س‪L‬ا درخت ہے جس کے پ‪LL‬تے جھ‪L‬ڑتے نہیں اور ج‪LL‬و مس‪L‬لمانوں‬
‫سے مشابہت رکھت‪LL‬ا ہے؟‘‘ مجلس میں جت‪LL‬نے ل‪LL‬وگ بیٹھے تھے وہ مختل‪LL‬ف جنگلی درخت‪LL‬وں‬
‫ٓاپ نے‬
‫کے بارے میں سوچنے لگے۔ کسی نے کوئی درخت بتایا اور کسی نے دوسرا۔ مگر ؐ‬
‫ٓاپ نے فرمای‪LL‬ا‪’’ :‬وہ‬
‫ٓاپ ہی بت‪LL‬ادیں۔ ؐ‬
‫‪L‬ور! ؐ‬
‫ان سب کا انکار کیا۔ لوگوں نے عرض کی‪LL‬ا کہ حض‪ؐ L‬‬
‫ٓاپ یہ بتانا چاہتے تھے کہ کھج‪LL‬ور ک‪LL‬ا درخت‬ ‫کھجور کا درخت ہے۔‘‘ اس تمثیلی سوال سے ؐ‬
‫ای‪LL‬ک ایس‪LL‬ا درخت ہے جس میں سراس‪LL‬ر بھالئی ہی بھالئی ہے۔ غ‪LL‬رض اس بلی‪LL‬غ مث‪LL‬ال میں‬
‫حضورﷺ نے تعلیمی نصب العین‪ ،‬نصاب اور طریق تعلیم کی ب‪LL‬ڑے احس‪LL‬ن‬
‫اور لطیف انداز میں وضاحت فرم‪LL‬ائی ہے۔ (بح‪LL‬والہ‪ :‬ڈاک‪LL‬ٹر مش‪LL‬تاق ال‪LL‬رحمن ص‪LL‬دیق‪ ،‬تعلیم و‬
‫تدریس‪ ،‬مباحث و مسائل‪(’’ ،‬مقالہ) نبی اکرم ﷺ کی حکمت تدریس کا ای‪LL‬ک‬
‫من‪LLLLLLLL‬ور گوش‪LLLLLLLL‬ہ‪ :‬تم‪LLLLLLLL‬ثیلی و اس‪LLLLLLLL‬تعاراتی اس‪LLLLLLLL‬لوب‪ ،‬ص‪LLLLLLLL‬فحات ‪)182-181‬۔‬
‫‪ : ‬سزا‬

‫صفّہ کے بارے میں کچھ معلومات مل‪LL‬تی ہیں۔ ت‪LL‬اریخ س‪LL‬ے واض‪LL‬ح‬‫تاریخ اسالم میں درس گا ِہ ُ‬
‫ِ‬
‫ہوتا ہے کہ اس مدرسہ سے بچوں کو جسمانی سزا دینے کا ط‪LL‬ریقہ ناپس‪LL‬ندیدگی س‪LL‬ے دیکھ‪LL‬ا‬
‫گیا اور اس طریقے کے استعمال پر بچ‪LL‬وں کے سرپرس‪LL‬توں نے معلّمین پ‪LL‬ر س‪LL‬خت تنقی‪LL‬د کی‬
‫صحابہ کی تعلیمی سرگرمیاں‪ ،‬صفحات‬ ‫ؓ‬ ‫نبوی اور عہد‬
‫ؐ‬ ‫ہے۔(بحوالہ‪ :‬موالنا خلیل حامدی‪ ،‬عہد‬
‫‪)138-137‬۔‬

‫تعلیم نسواں‬
‫ِ‬
‫تعلیم نسواں کی طرف بھی خصوصی توجہ فرمائی۔ خواتین‬ ‫ِ‬ ‫نبی اکرمﷺنے‬
‫ٓاپ نے علیح‪LL‬دہ دن اور وقت مق‪LL‬رر فرمای‪LL‬ا۔ عب‪LL‬دالحئی الکت‪LL‬انی‬
‫کی تعلیم و ت‪LL‬ربیت کے ل‪LL‬یے ؓ‬
‫فرماتے ہیں‪ٓ’’ :‬انحض‪LL‬ورﷺنے‪ L‬الش‪LL‬فاء اُم س‪LL‬لیمان بن ابی حتمہ س‪LL‬ے فرمای‪LL‬ا‪:‬‬
‫ٓاپ نے ان کو کتابت (لکھن‪LL‬ا)‬ ‫ؓ‬
‫المومنین) کو کشیدہ کاری سکھائیں جس طرح ؓ‬ ‫حفصہ (اُ ّم‬
‫ؓ‬ ‫’’ٓاپ‬
‫س‪LL‬کھایا ہے۔‘‘ (عب‪LL‬دالحئی الکت‪LL‬انی‪ ،‬نظ‪LL‬ام الحک‪LL‬ومۃ النب‪LL‬ویہ‪ ،‬ص‪LL‬فحات ‪)50-49‬۔ عب‪LL‬دالحئی‬
‫الکتانی فرماتے ہیں‪’’ :‬خواتین کو سینا ‪ ،‬پرونا اور دھون‪LL‬ا س‪LL‬کھائیں۔ ان کے ہ‪LL‬اتھ میں س‪LL‬وئی‬
‫دھاگا اور کپڑا اچھا لگتا ہے۔‘‘ (عبدالحئی الکتانی‪ ،‬نظام الحکومۃ النبویہ‪ ،‬صفحہ ‪)55‬۔‬

‫‪: ‬حضور اکرم ﷺ کی تدریس کے رہنما اصول‬

‫ٓاپ کے مٔوثر تدریس کے لیے جو رہنما اصول ہمیں سیّر و اح‪LL‬اد یث کی کتب س‪LL‬ے ملے ہیں‬ ‫ؐ‬
‫دور جدی‪LL‬د کے اس‪LL‬اتذہ ک‪LL‬رام حض‪LL‬ور اک‪LL‬رم‬ ‫ان ک‪LL‬ا ای‪LL‬ک اجم‪LL‬الی خ‪LL‬اکہ پیش کی‪LL‬ا جات‪LL‬ا ہے۔ ِ‬
‫ﷺ کے‪ L‬طریقہ‪ Lِ L‬تعلیم‪ L‬و‪ L‬تدریس‪ L‬سے‪ L‬فائدہ‪ L‬اٹھا‪ L‬کر‪ L‬تعلیمی‪ L‬عمل‪ L‬کو‪ L‬مٔوثر‪ L‬اور‬
‫‪:‬بامقصد بنا سکتے ہیں۔ اب تفصیل مالحظہ ہو‬

‫ٓاپ نے اپنی تعلیمی تحریک کا ٓاغاز حم ِد ربّ جلیل سے کیا۔ خطابت ی‪LL‬ا دع‪LL‬وت دین ح‪LL‬ق ک‪LL‬و‬ ‫ؐ‬
‫ہے۔ٓاپ‬
‫ؐ‬ ‫ب انسانی پ‪LL‬ر گہ‪LL‬رے نق‪LL‬وش چھوڑت‪LL‬ا‬ ‫ایک مذہبی فریضہ قرار دیا۔ یہ ادب و احترام قل ِ‬
‫‪L‬ا۔ٓاپ کے‬
‫نے ہمیشہ فصاحت و بالغت‪ ،‬سالس‪LL‬ت و روانی‪ ،‬شس‪LL‬تگی و شائس‪LL‬تگی س‪LL‬ے ک‪LL‬ام لی‪ؐ L‬‬
‫طریق ِہ تدریس کی ایک خوبی اختصار پسندی بھی تھی۔ خطب‪LL‬ات مب‪LL‬ارکہ مختصر اور ج‪LL‬امع‬
‫ٓاپ ط‪LLLLLLLLLLLLLLLLLL‬والت ک‪LLLLLLLLLLLLLLLLLL‬و ناپس‪LLLLLLLLLLLLLLLLLL‬ند فرم‪LLLLLLLLLLLLLLLLLL‬اتے۔‬
‫ہ‪LLLLLLLLLLLLLLLLLL‬وتے۔ ؐ‬
‫‪L‬رم تعلیم کے‬ ‫ٓاپ کے خطب‪LL‬ات مب‪LL‬ارکہ میں رقت انگ‪LL‬یزی اور اث‪LL‬ر انگ‪LL‬یزی ہ‪LL‬وتی۔حض‪LL‬ور‪ L‬اک‪ؐ L‬‬ ‫ؐ‬
‫‪L‬تے۔ٓاپ س‪LL‬امع اور مخ‪LL‬اطب کے‬ ‫ؐ‬ ‫دوران کوئی ہلکی پھلکی ب‪LL‬ات س‪LL‬ے دلچس‪LL‬پی ک‪LL‬و زن‪LL‬دہ رکھ‪L‬‬
‫ٓاپ بدوی‪ ،‬شہری‪ ،‬قاری‪ ،‬اُ ّمی وغیرہ سے ان کے معی‪LL‬ار کے مط‪LL‬ابق‬ ‫معیار کا خیال رکھتے۔ ؐ‬
‫س‪L‬جاتے۔ٓاپ‬
‫ؐ‬ ‫گفتگو فرماتے۔ اپنی گفتگو مبارک کو عمدہ مثالوں اور روز مرہ مش‪L‬اہدات س‪LL‬ے‬
‫سامع کی سہولت کے لیے سادہ اور مانوس لہجہ استعمال فرماتے۔‬

‫دوران‬
‫ِ‬ ‫ب زن‪L‬دگی س‪L‬ے روش‪LL‬ناس فرم‪LL‬اتے۔‬ ‫ٓاپ تالمذہ س‪L‬ے خط‪L‬اب فرم‪L‬اتے ت‪L‬و انہیں ٓادا ِ‬ ‫جب ؐ‬
‫ٓاپ کے کالم میں ع‪LL‬اجزی اور‬ ‫ت‪LL‬دریس لطی‪LL‬ف ت‪LL‬رین اور ن‪LL‬رم ت‪LL‬رین ان‪LL‬داز اختی‪LL‬ار فرم‪LL‬اتے۔ ؐ‬
‫ٓاپ کی تواضع اور انکس‪LL‬ار تھ‪LL‬ا۔‬ ‫ٓاپ کی بڑی خصوصیت ؐ‬ ‫انکساری ہوتی۔ چنانچہ بطور معلم ؐ‬
‫‪L‬ام تعلیم میں یہ متن‪LL‬ازع‬
‫ٓاپ مخ‪LL‬اطب کی ب‪LL‬ولی اور ان کے لہجے میں گفتگ‪LL‬و فرم‪LL‬اتے۔ ٓاج نظ‪ِ L‬‬ ‫ؐ‬
‫مسئلہ ہے کہ تعلیم کس زبان میں ہونی چ‪L‬اہیے؟ یہ درس‪LL‬ت ہے کہ دوس‪LL‬ری اق‪L‬وام کی زب‪LL‬انیں‬
‫سیکھنا بہت مفید ہے اور بعض علوم کو ان زب‪LL‬انوں میں حاص‪LL‬ل کرن‪LL‬ا بھی مناس‪LL‬ب ہے لیکن‬
‫بنیادی تعلیم اس زبان میں ہونی چاہیے جس میں مخاطب زیادہ بہتر طریقے پر س‪LL‬مجھ س‪LL‬کتا‬
‫ہو۔ ٓانحضورﷺسے علم حاصل کرنے کے لیے مختلف قبائل اور اف‪LL‬راد ٓاتے‬
‫ٓاپ ان سے ان کے لہجے میں گفتگو فرماتے۔ خطیب بغ‪LL‬دادی نے اپ‪LL‬نی س‪LL‬ند س‪LL‬ے عاص‪LL‬م‬ ‫تو ؐ‬
‫االشعری کا ق‪LL‬ول نق‪LL‬ل کی‪LL‬ا ہے کہ انہ‪LL‬وں نے رس‪LL‬ول کریمﷺک‪LL‬و مخصوص‬
‫ٓاپ گفتگ‪LL‬و‬
‫لہجے میں بات کرتے سنا۔ اس س‪LL‬ے مخ‪LL‬اطب میں اپن‪LL‬ائیت پی‪LL‬دا ہوج‪LL‬اتی ہے۔ جب ؐ‬
‫فرماتے تو ٓاہستہ ٓاہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے تاکہ سامع پوری ط‪LL‬رح مس‪LL‬تفید ہ‪LL‬و اور‬
‫ٓاپ ب‪LL‬ات ک‪LL‬و دہ‪LL‬راتے ت‪LL‬اکہ س‪LL‬مجھنے میں کمی نہ رہ ج‪LL‬ائے۔ رس‪LL‬ول‬
‫اگر ضرورت پڑتی ت‪LL‬و ؐ‬
‫اکرمﷺجب گفتگو فرماتے ت‪LL‬و تین م‪LL‬رتبہ دہ‪LL‬راتے ت‪LL‬اکہ اس‪LL‬ے ٹھی‪LL‬ک ط‪LL‬رح‬
‫ٓاپ بات کرتے اور اگر کوئی گنتی واال گنتی ک‪LL‬رے‬ ‫سمجھ لیا جائے۔ ایک روایت میں ہے کہ ؐ‬
‫انس کہتے ہیں کہ نبیﷺجب گفتگ‪LL‬و فرم‪LL‬اتے ت‪LL‬و‬ ‫تو شمار کرسکے۔ حضرت ؓ‬
‫تین مرتبہ دہراتے۔‬

‫ٓاپ نے بطور معلم صبر و قناعت کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ بے لوث خدت کی اور بحی‪LL‬ثیت‬ ‫ؐ‬
‫کیا۔ٓاپ کا خطبہ شریف نہایت سادہ ہوت‪LL‬ا۔ خطبہ‬
‫ؐ‬ ‫معلم کفار کے ہر ظلم اور زیادتی کو برداشت‬
‫ٓاپ کے دست مبارک میں عصا ہوتا تھا۔ ارشاد نبوی ہے‬ ‫‪:‬دیتے وقت ؐ‬
‫ائ] (عصا رکھنا مومن کی عالمت اور انبیاء کی سنت‬ ‫صا َعاَل َمۃُ ْال ُمٔو ِم ِن َو ُسنَّۃُ ااْل َ ْنبِیَ ِ‬
‫َح ْم ُل ْال َع َ‬
‫ہے)۔ (رواہ الدیلمی‪ ،‬مختار االحادیث النبویہ والحکم المحمدیہ‪( ،‬تالیف) السید احم‪LL‬د الہاش‪LL‬می‪،‬‬
‫ص‪LLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLLL‬فحہ ‪)69‬۔‬
‫حضور اکرمﷺ کبھی کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ دیتے۔ اک‪LL‬ثر کھ‪LL‬ڑے ہ‪LL‬وکر‬
‫ٓاپ کا ارشاد فی الب‪LL‬دیہہ ہوت‪LL‬ا۔ کالم ک‪LL‬و م‪ٔLL‬وثر بن‪LL‬انے کے ل‪LL‬یے س‪LL‬والیہ ان‪LL‬داز‬ ‫خطاب فرماتے۔ ؐ‬
‫دوران خطابت و تدریس جوش کا یہ عالم ہوتا کہ ٓانکھیں سرخ ہوجاتیں۔ ٓاواز‬ ‫ِ‬ ‫اختیار فرماتے۔‬
‫میں جوش ہوتا۔ انگلیاں اٹھتی جاتی تھیں گویا کسی فوج کو جنگ کے لیے اُبھ‪LL‬ار رہے ہ‪LL‬وں۔‬
‫جوش بیان میں جس ِد مبارک جھوم جھوم جاتا۔ لب‪L‬اس کی وض‪L‬ع قط‪L‬ع اور ہ‪L‬اتھوں ک‪L‬و ح‪L‬رکت‬ ‫ِ‬
‫دینے سے پٹھوں کے چٹخنے کی ٓاواز ٓاتی تھی۔ کبھی مٹھی بند کرلیتے‪ ،‬کبھی کھ‪LL‬ول دی‪LL‬تے‬
‫تھے۔‘‘ (بحوالہ‪ :‬ڈاکٹر محمد ابراہیم خالد‪ ،‬تربیت اساتذہ‪ ،‬صفحہ ‪)192‬۔‬
‫تعلیم نسواں اور اسالم‬
‫مورخہ‪ 27 :‬مئی ‪2009‬ء‬
‫‪ ‬‬
‫اعلی تحریک منہاج القرآن‬
‫ٰ‬ ‫ڈاکٹر رحیق احمد عباسی‪ ،‬ناظم‬

‫علم دین اسالم کی بنیادوں میں سے ایک اہم بنیاد ہے۔ علم کی اس سے بڑھ کر کیا اہمیت‬
‫تعالی نے اپنے محبوب اور آخری نبی ا پر جب نزول‬ ‫ٰ‬ ‫بیان کی جا سکتی ہے کہ ہللا تبارک و‬
‫وحی کی ابتدا فرمائی تو پہال حکم ہی پڑھنے کا نازل فرمایا۔ اس پر تمام ائمہ و مفسرین کا‬
‫‪:‬اتفاق ہے کہ نزول وحی کا آغاز سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات مبارکہ سے ہوا ہے‬

‫ق‪ O‬ا ْق َر ْأ َو َربُّ َ‬
‫ك اأْل َ ْك َر ُم‪ O‬الَّ ِذي َعلَّ َم بِ ْالقَلَ ِم‪َ  O‬علَّ َم‬ ‫ق اإْل ِ ن َسانَ ِم ْن َعلَ ٍ‬ ‫ا ْق َر ْأ بِاس ِْم َربِّ َ‬
‫ك الَّ ِذي َخلَ َ‬
‫ق‪َ  O‬خلَ َ‬
‫اإْل ِ ن َسانَ َما لَ ْم يَ ْعلَ ْم‪( O‬العلق‪۱ :۹۶ ،‬۔‪)۵‬‬

‫اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) )!اے حبیب(’’‬
‫‪o‬اس نے انسان کو (رحم مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا ‪o‬پیدا فرمایا‬
‫جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم ‪o‬پڑھیے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے‬
‫جس نے انسان کو (اس کے عالوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا ‪o‬سکھایا‬
‫‘‘‪o‬تھا‬

‫کے پہلے مرحلے ‪ process‬اب ان آیات مبارکہ میں جہاں پہال حکم ہی حصول علم کے‬
‫تعالی کے رب اور خالق ہونے کے‬ ‫ٰ‬ ‫یعنی پڑھنے کے حکم سے ہوا‪ ،‬وہاں پہلی آیت میں ہللا‬
‫بیان کے ساتھ ساتھ علوم کی دو اہم شاخوں ۔ عمرانیات اور تخلیقات ۔ کی طرف اشارہ فرمایا‬
‫گیا ہے۔ دوسری آیت میں علم حیاتیات؛ تیسری آیت میں علم اخالقیات کی طرف اشارہ‬
‫فرماتے ہوئے یہ بات بھی واضح کر دی گئی کہ اسالم کا تص ّور علم بڑا وسیع ہے اور جب‬
‫اسالم طلب و حصول علم کی بات کرتاہے تو وہ سارے علوم اس میں شامل ہوتے ہیں جو‬
‫انسانیت کے لیے نفع مند ہیں؛ اور اس سے مراد صرف روایتی مذہبی علوم نہیں۔ قرآن‬
‫مجید کی متعدد آیات میں زمین و آسمان کی تخلیق میں تدبر و تفکر کی دعوت دی گئی اور‬
‫یہی تدبر و تفکر جدید سائنس کی بنیاد بنا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جدید سائنس‪ ،‬جس‬
‫پر آج انسانیت ناز کرتی ہے‪ ،‬اس کی صرف بنیاد ہی مسلمانوں نے نہیں رکھی بلکہ وہ‬
‫اصول و ضوابط اور ایجادات و دریافتیں بھی مسلمانوں نے ہی کی ہیں جنہوں نے سائنس‬
‫کی ترقی میں اہم ترین کردار اداکیا ہے۔ (چونکہ یہ اصل مضمون نہیں ل ٰہذا اس کی تفصیل‬
‫کے خواہش مند شیخ االسالم ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب‬
‫’’مقدمہ سیرت الرسول ا‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔) اسالم کے ایک ہزار سالہ عروج کے بعد‬
‫اس کو درپیش آنے والے زوال کا ایک افسانہ یہ بھی ہے کہ بہت سے واضح اور بنیادی‬
‫تصورات ۔ جن پر تاریخ میں کبھی ابہام نہ رہا تھا ۔ اس دور میں دھندالئے ہی نہیں بلکہ‬
‫پراگندہ ہو گئے ہیں۔ ان میں ایک خواتین کا حصول علم ہے۔ آج کے دور میں بعض ایسے‬
‫مذہبی ذہن موجود ہیں جو عورتوں کے حصول علم کے خالف ہیں اور اگر خالف نہیں تو‬
‫ایسی پابندیوں کے قائل ضرور ہیں کہ جن کی وجہ سے خواتین اور بچیوں کا حصول علم‬
‫ناممکن ہوجائے۔ حصول علم کے فرض ہونے پر کوئی اختالف نہیں۔ قرآن مجید میں پانچ‬
‫سو کے لگ بھگ مقامات پر بال واسطہ یا بالواسطہ حصول علم کی اہمیت اور فضیلت بیان‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫کی گئی۔ حضور نبی اکرم ا کے فرائض نبوت کا بیان کرتے وقت بھی ہللا تبارک و‬
‫‪:‬نے ارشاد فرمایا۔‬

‫َاب َو ْال ِح ْك َمةَ َويُ َعلِّ ُم ُكم َّما لَ ْم‬


‫َك َما أَرْ َس ْلنَا فِي ُك ْم َرسُوالً ِّمن ُك ْم يَ ْتلُو َعلَ ْي ُك ْم آيَاتِنَا َويُ َز ِّكي ُك ْم َويُ َعلِّ ُم ُك ُم ْال ِكت َ‬
‫وا تَ ْعلَ ُمونَ ‪( O ‬البقرۃ‪)۱۵۱ :۲ ،‬‬ ‫تَ ُكونُ ْ‬

‫اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہی میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں ’’‬
‫تالوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسا ً و قلباً) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا‬
‫ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرار معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو‬
‫‘‘‪o‬تم نہ جانتے تھے‬

‫َاب َو ْال ِح ْك َمةَ َوإِن‬ ‫ث فِي اأْل ُ ِّميِّينَ َر ُسواًل ِّم ْنهُ ْم يَ ْتلُ ْ‬
‫وا َعلَ ْي ِه ْم آيَاتِ ِه َويُ َز ِّكي ِه ْم َويُ َعلِّ ُمهُ ُم ْال ِكت َ‬ ‫هُ َو الَّ ِذي بَ َع َ‬
‫ضاَل ٍل ُّمبِي ٍن‪( O ‬الجمعہ‪)۲ :۶۲ ،‬‬ ‫َكانُوا ِمن قَ ْب ُل لَفِي َ‬

‫وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (ا) کو بھیجا ’’‬
‫وہ ان پر اس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور ان (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں‬
‫اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بے شک وہ لوگ ان (کے تشریف النے) سے‬
‫‘‘‪o‬پہلے کھلی گمراہی میں تھے‬

‫ان آیات کے بغور مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ آپ ا کے فرائض نبوت‪ :‬تالوت آیات‪ ،‬تزکیہ‬
‫نفس‪ ،‬تعلیم کتاب‪ ،‬تعلیم حکمت اور ابالغ علم ہیں۔ ان پانچ میں سے چار براہ راست علم سے‬
‫متعلق ہیں جبکہ پانچواں اور ترتیب میں دوسرا تزکیہ نفس بھی علم کی ایک خاص قسم ہے‬
‫جسے علم تزکیہ و تصفیہ یا اصطالحا ً تصوف کہا جاتا ہے۔ اب اگر علم کے دروازے‬
‫خواتین پر بند کر دیے جائیں یا ان کے حصول علم پر بے جا پابندیاں عائد کرنا شروع کر‬
‫دی جائیں تو پھر وہ کس دین پر عمل کریں گی۔ یا ان کا دین مصطفوی سے کیارابطہ رہ‬
‫جائے گا۔ کیونکہ جو دین حضور نبی اکرم ا لے کر آئے وہ تو سارے کا سارا علم سے‬
‫عبارت ہے۔‬

‫اسالمی شریعت کا ایک بنیادی قائدہ ہے کہ جب بھی کوئی حکم نازل ہوتا ہے تو اس کے‬
‫لیے صیغہ مذکر استعمال ہوتا ہے لیکن اس میں صنف نازک بھی شامل ہوتی ہے۔ اگر اس‬
‫حکم و اصول کو ترک کر دیاجائے تو نماز‪ ،‬روزہ‪ ،‬حج‪ٰ ،‬‬
‫زکوۃ جیسے بنیادی ارکان سمیت‬
‫بے شمار احکام شریعت کی پابندی خواتین پر نہیں رہتی۔ چونکہ ان احکام کے بیان کے‬
‫وقت عموما ً مذکر کا صیغہ ہی استعمال کیاگیاہے‪ ،‬ل ٰہذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جن‬
‫آیات و احادیث کے ذریعے فرضیت و اہمیت علم مردوں کے لیے ثابت ہے‪ ،‬انہی کے‬
‫ذریعے یہ حکم خواتین کے لیے بھی من و عن ثابت شدہ ہے۔‬

‫فرضیت علم کا براہ راست بیان بے شمار احادیث میں بھی آیا ہے۔ حضور نبی اکرم ا نے‬
‫ارشاد فرمایا‪’’ :‬حصول علم تمام مسلمانوں پر(بال تفریق مرد و زن) فرض ہے۔‘‘ (سنن ابن‬
‫ماجہ‪ ،‬المقدمہ‪ ،۱:۸۱ ،‬رقم‪)۲۲۴ :‬‬
‫اسی طرح ایک دوسرے موقع پرحضور نبی اکرم ا نے فرمایا‪’’ :‬علم حاصل کرو خواہ‬
‫تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‪ ،‬بے شک علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘‬
‫(ابن عبد البر‪ ،‬جامع بیان العلم‪ ،۲۴ :۱ ،‬رقم‪ )۱۵ :‬ایک اور مقام پر آپ ا فرمایا‪’’ :‬جو‬
‫تعالی اس کے لیے جنت کا راستہ آسان‬
‫ٰ‬ ‫شخص طلب علم کے لئے کسی راستہ پر چال‪ ،‬اﷲ‬
‫کر دیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم‪ ،‬کتاب الذکر‪ ،۲۰۷۴ :۴ ،‬رقم‪)۲۶۹۹ :‬‬
‫اور وہ ہیں عبد ہللا بن عمر‪ ،‬حمزہ (بن عبد ہللا)‪ ،‬صفیہ بنت ابو عبید (زوجہ عبد ہللا)‪ ،‬حارثہ بن وہب‪ ،‬مطلب ابی ‪ ‬‬
‫وادعہ‪ ،‬ام مبشر انصاریہ‪ ،‬عبد ہللا بن صفوان بن امیہ‪ ،‬عبد الرحمن بن حارث بن ہشام‪ ،‬حضرت حفصہ سے ساٹھ‬
‫حدیثیں منقول ہیں‪ ،‬جو انہوں نے آپ صلی ہللا علیہ وسلم اور عمر سے سنی تھیں۔‬
‫تفقہ فی الدین کے لیے واقعہ ذیل کافی ہے‪ ،‬ایک مرتبہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں‬
‫کہ‪ ‬اصحاب بدر‪ ‬و حدیبیہ جہنم میں داخل نہ ہوں گے‪ ،‬حفصہ نے اعتراض کیا کہ خدا تو فرماتا ہے "تم میں سے ہر‬
‫شخص وارد جہنم ہو گا" آپ نے فرمایا ہاں لیکن یہ بھی تو ہے۔" پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں‬
‫کو اس پر زانووں پر گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔"[‪ ]4‬اسی شوق کا اثر تھا کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو ان کی تعلیم کی‬
‫فکر رہتی تھی‪ ،‬شفاء‪ ‬کو‪ ‬چیونٹی‪ ‬کے کاٹے کا منتر آتا تھا‪ ،‬ایک دن وہ گھر میں آئیں تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫[‪]5‬‬
‫فرمایا کہ تم حفصہ کو منتر سکھال دو۔‬

‫‪1.‬‬ ‫مسند احمد بن حنبل‪ ‬ج‪ 6‬ص‪ ↑ 285‬‬


‫‪2.‬‬ ‫مسند ابن حنبل ج‪ 6‬ص‪↑ 281‬‬

‫لہٰ ذا جب یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن سے حصول علم خواتین کے لیے بھی اسی طرح‬
‫فرض ہے جیسے مردوں کے لیے تو اب اسوۂ رسول ا اور سیرت نبوی ا کی روشنی میں‬
‫جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ حضور ا نے خود خواتین کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام‬
‫‪:‬فرمایا‬

‫حضرت ابو سعید خدری ص سے روایت ہے کہ عورتیں حضور نبی اکرم ا کی بارگاہ ’’‬
‫میں عرض گزار ہوئیں‪ :‬آپ کی جانب مرد ہم سے آگے نکل گئے‪ ،‬ل ٰہذا ہمارے استفادہ کے‬
‫لیے بھی ایک دن مقرر فرما دیجیے۔ آپ ا نے ان کے لئے ایک دن مقرر فرما دیا۔ اس دن‬
‫تعالی کے احکام بتاتے۔‘‘ (صحیح‬
‫ٰ‬ ‫آپ ا ان سے ملتے انہیںنصیحت فرماتے اور انہیں اﷲ‬
‫بخاری‪ ،‬کتاب العلم‪ ،۵۰ :۱ ،‬رقم‪)۱۰۱ :‬‬

‫ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓعالمہ‪ ،‬محدثہ اور فقیہہ تھیں۔ آپ سے کتب احادیث میں ‪۲۱۰‬‬
‫‪ ٬۲‬مروی احادیث ملتی ہیں۔ مردوں میں صرف حضرت ابو ہریرہ‪ ،‬حضرت عبد اﷲ بن‬
‫عمر اور حضرت انس بن مالک ث ہی تعداد میں آپ سے زیادہ احادیث روایت کرنے والوں‬
‫میں سے ہیں۔ اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ ضروری تقاضے پورے کرنے کی‬
‫صورت میں عورتیں نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کو بھی پڑھا سکتی ہیں۔‬

‫ایک مغالطہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ عورتوں اور بچیوں کا مردوں سے پڑھنا ناجائز ہے۔‬
‫بہتر یہی ہے کہ بچیوںکے لیے خواتین اساتذہ کاہی انتظام ہو مگر ایسا نظام نہ ہونے کی‬
‫صورت میں مردوں کا باپردہ ماحول میں عورتوں کو پڑھانا بھی از روئے شرع منع نہیں‬
‫ہے۔ چونکہ حضور ا خواتین کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرماتے تھے‪ ،‬مسجد نبوی میں‬
‫ہفتے کا ایک دن خواتین کے لئے مخصوص کرنے کا ذکر بھی ملتاہے۔ (صحیح بخاری‪،‬‬
‫کتاب العلم‪ ،۵۰ :۱ ،‬رقم‪)۱۰۱ :‬‬

‫بعض لوگ احکام پردہ کا بہانہ بنا کر عورتوں اور بچیوں کی تعلیم کے مخالفت کرتے ہیں۔‬
‫ان کا کہنا ہے کہ چونکہ گھر سے باہر ہر طرف مرد ہوتے ہیں‪ ،‬ل ٰہذا پردہ قائم نہیں رہتا۔‬
‫سب سے پہلے تو یہ عذر انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ اگر بچیاں تعلیم کے لیے باہر نہیں نکل‬
‫سکتیں تو ان کا کسی مقصد کے لیے بھی باہر نکلنا جائز نہ ہوا۔ ایسے لوگوں کی نظر میں‬
‫خواتین کا گھروں سے باہر نکلنا ہی ممنوع ہے۔ حاالں کہ اسالمی شریعت و تاریخ میں اس‬
‫کے اثبات میں کوئی حکم نہیں ملتا۔ خود آیت پردہ ہی اس بات پر دلیل ہے کہ اسالمی پردہ‬
‫گھر سے باہر نکلنے کے لیے ہی ہے۔ گھروں میں بیٹھے رہنے سے احکام پردہ الگو نہیں‬
‫ہوتے کیونکہ پردہ غیر محرموں سے ہوتاہے اور گھر میں تو عموما ً محرم ہی ہوتے ہیں۔‬
‫‪:‬آیت پردہ کا مطالعہ کریں‬
‫ار ِه َّن َويَحْ فَ ْ‬
‫ظنَ فُرُو َجه َُّن َواَل يُ ْب ِدينَ ِزينَتَه َُّن إِاَّل َما ظَهَ َر ِم ْنهَا‬ ‫ت يَ ْغضُضْ َ‪L‬ن ِم ْن أَب َ‬
‫ْص ِ‬ ‫َوقُل لِّ ْل ُم ْؤ ِمنَا ِ‬
‫(النور‪)۳۱ :۲۴ ،‬‬
‫اور (اے رسول مکرم!) مومنہ عورتوں سے کہہ دو کہ (مردوں کے سامنے آنے پر) وہ ’’‬
‫اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت و آرائش‬
‫‘‘کی نمائش نہ کریں سوائے جسم کے اس حصہ کو جو اس میں کھال ہی رہتا ہے۔‬

‫اس میں منع زینت کے اظہار سے کیا گیا ہے۔ اور زینت کے اظہار سے مراد ہے بناؤ‬
‫سنگھار کا اظہار کرنا۔ دوسرا یہ کہاگیا کہ جب گھر سے نکلیں تو چادر اوڑھ لیاکریں تاکہ‬
‫باہر دوسری فطرت کی عورتوں میں مومنات کا امتیاز نظر آئے۔ سورۃ االحزاب میں امہات‬
‫المومنین اور خانوادۂ نبوت کی خواتین کو خطاب کے ذریعے تعلیم امت کے لیے حکم‬
‫‪:‬فرمایا‬

‫ك أَ ْدنَى أَن يُ ْع َر ْفنَ‬


‫ك َونِ َسا ِء ْال ُم ْؤ ِمنِينَ يُ ْدنِينَ َعلَ ْي ِه َّن ِمن َجاَل بِيبِ ِه َّن َذلِ َ‬
‫ك َوبَنَاتِ َ‬ ‫يَا أَيُّهَا النَّبِ ُّي قُل أِّل َ ْز َو ِ‬
‫اج َ‬
‫فَاَل ي ُْؤ َذ ْينَ َو َكانَ هَّللا ُ َغفُورًا َِّحي ًما‪O ‬‬

‫اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادیں کہ ’’‬
‫(باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں‪ ،‬یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ‬
‫وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر‬
‫‘‘‪o‬غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے‪ ،‬اور ہللا بڑا بخشنے واال بڑا رحم فرمانے واال ہے‬

‫لہٰ ذا احکام پردہ خود خواتین کے گھر سے باہر نکلنے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ دوسرا‬
‫اگر خواتین کا گھر سے نکلنا ممنوع ہوتا تو حضور ا کے ساتھ آپ کی ازواج مطہرات‬
‫غزوہ بدر میں کیوں شریک ہوئیں۔ آپ درج ذیل احادیث کا مطالعہ کریں تو واضح ہو جائے‬
‫گا کہ دور رسالت ا میں خواتین کن معموالت میں شریک ہوئیں۔‬

‫حضرت انس ص نے فرمایا‪ :‬جب جنگ احد میں لوگ حضور نبی اکرم ا سے دور ہو ’’‬
‫سلیم کو دیکھا کہ دونوں نے‬
‫بکر اور حضرت ام ؓ‬ ‫گئے تو میں نے حضرت عائشہ بنت ابی ؓ‬
‫اپنے دامن سمیٹے ہوئے ہیں ۔ دونوں اپنی پیٹھ پر پانی کی مشکیں التیں اور پیاسے‬
‫مسلمانوں کو پالتی تھیں‪ ،‬پھر لوٹ جاتیں اور مشکیزے بھر کر التیں اور پیاسے مسلمانوں‬
‫کو پالتیں۔‘‘ (صحیح بخاری‪ ،‬کتاب الجھاد والسیر‪ ،۱۰۵۵ :۳ ،‬رقم‪)۲۷۲۴ :‬‬

‫حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں‪ :‬میں نے رسول اﷲ ا کے ساتھ سات جہاد کیے‪ ،‬میں ’’‬
‫غازیوں کی منزلوں میں ان کے پیچھے رہتی تھی‪ ،‬ان کے لئے کھانا پکاتی اور زخمیوں‬
‫کی مرہم پٹی کرتی تھی اور بیماروں کے عالج کا انتظام کرتی تھی۔‘‘ (صحیح مسلم‪ ،‬کتاب‬
‫الجہاد و السیر‪ ،۱۴۴۷ :۳ ،‬رقم‪)۱۸۱۲ :‬‬
‫اور یہ معمول دور رسالت کے بعد خالفت راشدہ میں بھی جاری رہا جیسے دور فاروقی‬
‫ٰ‬
‫شوری) کی رکن تھیں۔ (مصنف عبد الرزاق‪ ،۱۸۰ :۶ ،‬رقم‪:‬‬ ‫میں خواتین پارلیمنٹ (مجلس‬
‫‪)۱۰۴۲۰‬۔ اور سیدنا عثمان غنی ص کے دور میں خواتین کو دوسرے ممالک میں سفیر نام‬
‫زد کیا گیا۔ (تاریخ طبری‪)۶۰۱ :۲ ،‬‬

‫اسی طرح تاریخ اسالم میں بے شمار ایسی خواتین کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے علم التفسیر‪،‬‬
‫علم الحدیث ‪ ،‬علم الفقہ‪ ،‬علم لغت و نحو‪ ،‬علم طب‪ ،‬شاعری ‪ ،‬کتابت‪ ،‬وغیرہ میں منفرد مقام‬
‫حاصل کیا۔ (بحوالہ ’’اسالم میں خواتین کے حقوق‘‘ از شیخ االسالم ڈاکٹر محمد طاہر‬
‫القادری)‬

‫لہٰ ذا عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی کا فلسفہ و فکر ہی مزاجا ً اسالمی نہیں۔ یہ‬
‫کسی عالقے کی روایت و رسم تو ہو سکتی ہے مگر اس کا اسالم سے کوئی تعلق نہیں۔‬

‫اب اس اعتراض کا ایک اور انداز سے بھی جائزہ لیں۔ اگر بالفرض معاشرہ ایسا ہے کہ‬
‫پردہ کے جملہ لوازمات پورے نہیں ہوتے اور اسالمی پردہ ممکن ہی نہ ہو تو پھر دو احکام‬
‫کا تقابلی جائزہ لیاجائے گا۔ پردہ کا حکم قرآن حکیم میں دو مقامات پر آیا ہے اور حصول‬
‫علم کا بالواسطہ یا بالواسطہ طور پر کم و بیش پانچ سو بار آیا ہے۔ اب خدانخواستہ حاالت‬
‫ایسے ہیںکہ خواتین کو مکمل شرعی پردے اور تعلیم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا‬
‫پڑے تو بھال کس کا انتخاب کیاجائے گا؟ ظاہر ہے اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کے‬
‫تمام تقاضوں کی تکمیل کرتے ہوئے اس حکم کا انتخاب کرنا پڑے گا جس کی اہمیت ہللا‬
‫تعالی نے زیادہ بیان کی ہے‪ ،‬نہ کہ اس کی جس کی اہمیت کسی نام نہاد مال کے نزدیک‬‫ٰ‬
‫زیادہ ہے۔‬

‫لہٰ ذا پردہ کا بہانہ بناکر خواتین کی تعلیم پر پابندی لگانا خالف اسالم ہے اور قرآن و سنت‬
‫کی تعلیمات اس کی اجازت ہر گز نہیں دیتیں۔ فرضیت علم کے لیے مرد و خواتین میں‬
‫کوئی امتیاز اسالم نے قائم نہیں کیا۔ آخر میں اسی اہم مسئلہ کی طرف میں اہل علم کی توجہ‬
‫مبذول کروانا ضروری سمجھتا ہوں کہ حصول علم فرض عین ہے اور یہ قرآن و حدیث‬
‫سے ثابت ہے۔ اس امر پر بھی اسالم کے جملہ مسالک و مذاہب متفق ہیں کہ کسی فرض کا‬
‫صریح انکار کفر ہے۔ ل ٰہذا اگر کوئی شخص آج کے دور میں خواتین کی تعلیم کو حرام‬
‫سمجھتاہے چاہے اس کی تاویل کوئی بھی کرے تو ایک فرض کا صریح انکار ہے۔ ل ٰہذا اس‬
‫طرح کے بے بنیاد فتوے ‪ ،‬جس سے پوری دنیا میں اسالم کی جگ ہنسائی ہو‪ ،‬اسالم کے‬
‫روشن چہرے کو داغ دار کیاجائے اور من گھڑت تصور اسالم عام کیا جاتا ہو‪ ،‬کی بھرپور‬
‫حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور تمام علماء کو اس کے خالف مشترکہ الئحہ عمل پر اتفاق‬
‫کرنا چاہیے تاکہ اسالم کو بدنام کرنے والے اس طرح کے مذموم عناصر کو لگام دی‬
‫جاسکے۔‬

‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬


‫ماہنامہ دارالعلوم ‪ ،‬شمارہ ‪ ، 2‬جلد‪ ، 96 :‬ربیع االول‪ 1433 ‬ہجری مطابق‪ ‬فروری‪2012 ‬ء‬
‫ن‬
‫ع‬ ‫ع‬
‫‪ ‬‬

‫اسالم می ں لی م سواں اور موج ودہ مخ لوط ظ ِام لی م‬


‫‪ ‬‬

‫ِ‬ ‫‪ ‬‬

‫از‪         :‬مولوی نایاب حسن قاسمی‬


‫اسکالرشیخ الہند‪ L‬اکیڈمی دارالعلوم دیوبند‬
‫‪ ‬‬

‫اسالم میں علم کی اہمیت‬

‫بالشبہ علم شرافت وک‪LL‬رامت اور دارین کی س‪LL‬عادت س‪LL‬ے بہ‪LL‬رہ من‪LL‬د ہ‪LL‬ونے ک‪LL‬ا بہ‪LL‬ترین ذریعہ ہے‪،‬‬
‫انسان کودیگر‪ L‬بے شمار‪ L‬مخلوقات میں ممتاز کرنے کی کلید اور ربّ االرباب کی طرف س‪LL‬ے عط‪LL‬ا ک‪LL‬ردہ‬
‫‪L‬ق انس‪LL‬انی‪L‬‬
‫خلقی اور فطری‪ L‬برتری میں چار چاند لگانے کا اہم سبب ہے؛ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ مقص ِد تخلی‪ِ L‬‬
‫ت‪LL‬ک رس‪LL‬ائی علم ہی کے ذریعے ممکن ہے‪ ،‬علم ہی کی بہ دولت انس‪LL‬انوں نے س‪LL‬نگالخ وادی‪LL‬وں‪ ،‬چٹی‪LL‬ل‬
‫میدانوں اور زمینوں کو َمرغ زاری عطا کی ہے‪ ،‬سمندروں اور زمینوں کی تہ‪LL‬وں س‪LL‬ے التع‪LL‬داد مع‪LL‬دنیات‬
‫کے بے انتہا ذخائر نکالے ہیں اور آسمان کی بلندیوں اور وس‪LL‬عتوں ک‪LL‬و چ‪LL‬یرکر‪ L‬تحقی‪LL‬ق واکتش‪LL‬اف کے نت‬
‫ن‪LL‬ئے پ‪LL‬رچم لہ‪LL‬رائے ہیں؛ بلکہ مختصر تعب‪LL‬یر‪ L‬میں کہ‪LL‬ا جاس‪LL‬کتا ہے کہ دنی‪LL‬ا میں رونم‪LL‬ا ہ‪LL‬ونے والے تم‪LL‬ام‬
‫محیرالعقول کارنامے علم ہی کے بے پایاں احسان ہیں۔‬

‫پیغمبر اسالم‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم پ‪LL‬ر‬


‫ِ‬ ‫یہی وجہ ہے کہ اسالم نے اپنے ظہور کے او ِل دن سے ہی‬
‫”اقرأ“ کے خدائی حکم کے القاء کے ذریعہ جہ‪L‬الت کی گھٹ‪L‬ا ٹ‪LL‬وپ ت‪LL‬اریکیوں میں علم کی عظمت واہمیت‬
‫کو جاگزیں کیا اور ”ق‪LL‬رآ ِن مق‪LL‬دس“ میں ب‪LL‬ار ب‪LL‬ار ع‪LL‬الم وجاہ‪LL‬ل کے درمی‪LL‬ان ف‪LL‬رق کے بی‪LL‬ان اور جگہ جگہ‬
‫‪L‬رآن ک‪LL‬ریم میں علم ک‪LL‬ا ذک‪LL‬ر‬
‫حصو ِل علم کی ترغیب کے ذریعے اس کی قدر‪ L‬ومنزلت کو بڑھایا؛ چن‪LL‬انچہ ق‪ِ L‬‬
‫اسّی بار اور علم سے مشتق شدہ الفاظ کا ذکر س‪LL‬یکڑوں دفعہ آی‪LL‬ا ہے‪ ،‬اس‪LL‬ی ط‪LL‬رح عق‪LL‬ل کی جگہ ”الب‪LL‬اب“‬
‫(جمع لب) کا تذکرہ سولہ دفعہ اور ”عقل“ سے مشتق الفاظ اٹھارہ جگہ اور ”فقہ“ سے نکلنے والے الفاظ‬
‫اکیس مرتبہ مذکور‪ L‬ہوئے ہیں‪ ،‬لفظ ”حکمت“ کا ذکر بیس دفعہ اور ”برہان“ کا تذکرہ س‪LL‬ات دفعہ ہ‪LL‬وا ہے‪،‬‬
‫غور وفکر‪ L‬سے متعلق صیغے مثالً‪” :‬دیکھو“ ”غور کرو“ وغیرہ‪ ،‬یہ سب ان پر مستزاد ہیں۔‬

‫ث‬
‫قرآن کریم کے بعداسالم‪ L‬میں سب سے مستند‪،‬معتبر اور معتمد علیہ لٹریچر‪ )Literature ( L‬احادی ِ‬
‫ت‬‫نبویہ کا وہ عظیم الشان ذخیرہ ہے‪ ،‬جسے امت کے باکمال جی‪L‬الوں نے اپ‪L‬نے اپ‪LL‬نے عہ‪LL‬د میں انتہ‪L‬ائی دق ِ‬
‫ناقابل فراموش‪ L‬کارنامہ انجام دی‪LL‬ا ہے‪ ،‬جب ہم‬
‫ِ‬ ‫نظری‪ ،‬دیدہ ریزی اور جگر کاوی کے ساتھ اکٹھا کرنے کا‬
‫‪L‬ان مق‪LL‬دس‬
‫اس عظیم الشان ذخیرے کا مطالعہ‪ L‬کرتے ہیں‪ ،‬تو ہمیں قدم قدم پر نبوی‪  ‬صلی ہللا علیہ وس‪LL‬لم زب‪ِ L‬‬
‫حاملین علم فضیلت اور اس کے حصول کی تحریض وترغیب میں سرگرم نظر آتی ہے؛‬ ‫ِ‬ ‫علم کی فضیلت‪،‬‬
‫ب حدیث میں علم سے متعلق احادیث کو علیحدہ ابواب میں بیان کیا گیا ہے۔‬ ‫چنانچہ تمام کت ِ‬
‫‪ ‬‬
‫مشتے نمونہ از خروارے‬

‫ب وحی و ایمان کے بع‪LL‬د ”کت‪LL‬اب العلم“ کے عن‪LL‬وان کے‬ ‫چنانچہ امام بخاری‪ ‬کی صحیح میں ابوا ِ‬
‫تحت ابواب میں حافظ‪ L‬الدنیا ابن حجر عسقالنی‪ ‬کے بہ قول چھیاسی‪ L‬مرفوع‪ L‬حدیثیں (مکررات ک‪LL‬و وض‪LL‬ع‬
‫صحاح ستہ کی دیگر کتب اور ”موطا‪ L‬مالک“ میں‬ ‫ِ‬ ‫آثار صحابہ وتابعین ہیں‪ ،‬اسی طرح‬ ‫کرکے) اور بائیس ِ‬
‫بھی علم کا علیحدہ اور مستقل باب ہے ”مس‪LL‬ند ام‪LL‬ام احم‪LL‬د بن حنبل‪ “‬کی ت‪LL‬رتیب س‪LL‬ے متعل‪LL‬ق کت‪LL‬اب الفتح‬
‫الربانی“ میں علم سے متعل‪L‬ق اکاس‪L‬ی اح‪L‬ادیث ہیں‪ ،‬حاف‪L‬ظ نورال‪L‬دین ہیثمی‪ ‬کی ”مجم‪L‬ع الزوائ‪L‬د“ میں علم‬
‫کے موض‪LL‬وع پ‪LL‬ر اح‪LL‬ادیث بیاس‪LL‬ی ص‪LL‬فحات میں پھیلی ہ‪LL‬وئی ہیں‪” ،‬مس‪LL‬تدرک ح‪LL‬اکم“ میں علم س‪LL‬ے متعل‪LL‬ق‬
‫حدیثیں چوالیس صفحات میں ہیں‪ ،‬مشہور ناقد حدیث اور جلیل القدر محدث حافظ من‪LL‬ذری‪ ‬کی ”ال‪LL‬ترغیب‬
‫والترہیب“ میں علم سے متعلق چ‪LL‬ودہ اح‪LL‬ادیث ہیں اور عالمہ محم‪LL‬د بن س‪LL‬لیمان‪ ‬کی ”جم‪LL‬ع الفوائ‪LL‬د“ میں‬
‫صرف علم کے حوالے سے ایک سو چون حدیثیں بیان کی گئی ہیں۔‬
‫‪ ‬‬

‫اسالم میں خواتین کی تعلیم کی اہمیت‬

‫یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی ق‪LL‬وم‪ L‬ک‪LL‬و مجم‪LL‬وعی ط‪LL‬ور‪ L‬پ‪LL‬ر دین س‪LL‬ے روش‪LL‬ناس‪ L‬ک‪LL‬رانے‪ ،‬تہ‪LL‬ذیب‬
‫وثقافت سے بہرہ ور کرنے اور خصائل فاضلہ وشمائ ِل جمیلہ سے مزین ک‪LL‬رنے میں اس ق‪LL‬وم کی خ‪LL‬واتین‬
‫ک‪LL‬ا اہم؛ بلکہ مرک‪LL‬زی اور اساس‪LL‬ی ک‪LL‬ردار‪ L‬ہوت‪LL‬ا ہے اور ق‪LL‬وم‪ L‬کے نونہ‪LL‬الوں کی ص‪LL‬حیح اٹھ‪LL‬ان اور ص‪LL‬الح‬
‫نشوونما‪ L‬میں ان کی ماؤں کا ہم رول ہوتا ہے؛ اسی وجہ سے کہ‪L‬ا گی‪L‬ا ہے کہ م‪L‬اں کی گ‪L‬ود بچے ک‪LL‬ا اولین‬
‫مدرسہ ہے؛ اس لیے ش‪L‬روع ہی س‪L‬ے اس‪LL‬الم نے جس ط‪L‬رح م‪L‬ردوں کے ل‪LL‬یے تعلیم کی تم‪L‬ام ت‪LL‬ر راہیں وا‬
‫رکھی ہیں ان ک‪LL‬و ہ‪LL‬ر قس‪LL‬م کے مفی‪LL‬د علم کے حصول کی نہ ص‪LL‬رف آزادی دی ہے؛ بلکہ اس پ‪LL‬ر ان کی‬
‫قرن اول سے لے کر آج تک ایک س‪LL‬ے ب‪LL‬ڑھ ک‪LL‬ر ای‪LL‬ک‬ ‫حوصلہ افزائی‪ L‬بھی کی ہے‪ ،‬جس کے نتیجے میں ِ‬
‫علوم بے پناہ کی ضیاپاش‪LL‬یوں‬‫ِ‬ ‫تاجور فکر وتحقیق پیدا ہوتے رہے اور زمانہ ان کے‬ ‫ِ‬ ‫کج کال ِہ علم وفن اور‬
‫سے مستنیر و مستفیض ہوتا رہا‪ ،‬بالکل اسی طرح اس دین ح‪LL‬نیف نے خ‪LL‬واتین ک‪LL‬و بھی تم‪LL‬دنی‪ ،‬معاش‪LL‬رتی‪L‬‬
‫اور ملکی حقوق کے بہ تمام وکمال عطا کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی حقوق بھی اس کی ص‪L‬نف ک‪L‬ا لح‪L‬اظ‬
‫‪L‬تران اس‪LL‬الم میں ایس‪LL‬ی‬
‫کرتے ہوئے مکمل طور پر دیے؛ چنانچہ ہر دور‪ L‬میں مردوں کے شانہ بہ شانہ دخ‪ِ L‬‬
‫باکمال خواتین بھی جنم لیتی رہیں‪ ،‬جنھوں نے اطاعت گزار بیٹی‪ ،‬وفاشعار بیوی اور سراپا ش‪LL‬فقت بہن ک‪LL‬ا‬
‫کردار نبھانے کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنے علم وفضل کا ڈنک‪L‬ا بجای‪L‬ا اور ان کے دم س‪L‬ے تحقی‪L‬ق و ت‪L‬دقیق‬
‫کے التعداد خرمن آباد ہوئے۔‬
‫‪ ‬‬

‫خواتین کی تعلیم سے متعلق روایات‬

‫ب آ َم َن ِب َن ِبیِّہ‬‫ان‪َ :‬ر ُج ٌل مِنْ أہ ِْل الکِ َت ا ِ‬ ‫(‪ )۱‬بنی اکرم‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد ہے‪َ ” :‬ثالَ َث ْة َل ُہ ْم أَجْ َر ِ‬
‫وح َّق َم َوالِ ْی ِہ‪َ ،‬و َر ُج ٌل لَہ‪ ‬اَ َم ٌة‪َ ،‬فأ َّد َب َہ ا َفأحْ َس َن َتأ ِد ْی َب َہ ا‪،‬‬ ‫حق ال ٰ ّل‪َ ،‬‬
‫ک ا َذا أ ّدی َ‬ ‫‪َ ،‬وآ َم َن ِبم َُح َّمدٍ‪َ ،‬والعب ُد ال َم ْملُو ُ‬
‫ان“(‪ )۱‬اس ح‪LL‬دیث کے آخ‪LL‬ری ج‪LL‬زء کی ش‪LL‬رح میں‬ ‫َو َعلَّ َم َہا‪َ ،‬فأحْ َس َن َتعْ لِ ْی َم َہا‪ُ ،‬ث َّم اَعْ َت َق َہا‪َ ،‬ف َت َز َّو َج َہا‪َ ،‬فلَہ‪ ‬أجْ َر ِ‬
‫مالعلی قاری‪ ‬لکھتے ہیں کہ‪” :‬یہ حکم ص‪LL‬رف‪ L‬بان‪LL‬دی کے ل‪LL‬یے نہیں؛ بلکہ اپ‪LL‬نی اوالد اور ع‪LL‬ام لڑکی‪LL‬وں‬
‫کے لیے بھی یہی حکم ہے۔“(‪)۲‬‬

‫(‪ )۲‬ایک صحابیہ حضرت شفاء بنت عدویہ‪ ‬تعلیم یافتہ خاتون تھیں‪ ،‬آپ‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫ان سے فرمایا‪ L‬کہ‪” :‬تم نے جس طرح حفصہ کو ”نملہ“ (پھوڑے) کا رقیہ‪ L‬سکھایا ہے‪ ،‬اس‪LL‬ی ط‪LL‬رح لکھن‪LL‬ا‬
‫بھی سکھادو۔“(‪)۳‬‬

‫(‪ )۳‬نبی اکرم‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم خود بھی عورتوں کی تعلیم کا اہتم‪LL‬ام فرم‪LL‬اتے تھے اور ان کی‬
‫خواہش پر آپ‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم نے باضابطہ‪ L‬ان کے لیے ایک دن مقرر کردیا تھ‪LL‬ا‪ ،‬حض‪LL‬رت ابوس‪LL‬عید‬
‫صلَّی ہّٰللا ُ َعلَ ْی ِہ َو َسلَّ َم‪َ :‬‬
‫”غلَب َْٓن َعلَیکَ الرِّ َجالُ‪َ ،‬فاجْ َع ْل لَّ َنا َی ْومًا مِنْ‬ ‫ت ال ِّن َسا ُء لِل َّن ِبيّ َ‬
‫خدری‪ ‬کی روایت ہے‪َ ” :‬قالَ ْ‬
‫َن ْفسِ کَ‪َ ،‬ف َو َع َدہُنَّ َی ْوما ً لَقِ َیہُنَّ فِ ْی ِہ‪َ ،‬ف َو َع َظہُنَّ ‪َ ،‬وأ َم َرہُنَّ “(‪)۴‬۔‬

‫‪ )۴(          ‬حضرت اسماء بنت یزی‪LL‬د بن الس‪LL‬کن انصاریہ‪ L‬ب‪LL‬ڑی مت‪LL‬دین اور س‪LL‬مجھدار‪ L‬خ‪LL‬اتون تھیں‪ ،‬انھیں‬
‫ای‪LL‬ک دفعہ عورت‪LL‬وں نے اپ‪LL‬نی ط‪LL‬رف س‪LL‬ے ترجم‪LL‬ان بن‪LL‬اکر آپ‪  ‬ص‪LL‬لی ہللا علیہ وس‪LL‬لم کے پ‪LL‬اس بھیج‪LL‬ا کہ‬
‫آپ‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم سے دریافت کریں کہ ‪” :‬ہللا نے آپ‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم کو مردو‪ L‬ع‪LL‬ورت ہ‪LL‬ر دو‬
‫کی رہ نمائی کے لیے مبعوث فرمایا ہے؛ چنانچہ ہم آپ پ‪LL‬ر ایم‪LL‬ان الئے اور آپ‪  ‬ص‪LL‬لی ہللا علیہ وس‪LL‬لم کی‬
‫اتباع کی‪ ،‬مگر ہم عورتیں پردہ نشیں ہیں‪ ،‬گھروں میں رہنا ہوتا ہے‪ ،‬ہم حتی الوس‪LL‬ع اپ‪LL‬نے م‪LL‬ردوں کی ہ‪LL‬ر‬
‫خواہش پوری کرتی ہیں‪ ،‬ان کی اوالد کی پرورش‪ L‬وپرداخت ہمارے ذمے ہوتی ہے‪ ،‬ادھ‪LL‬ر م‪LL‬رد مس‪LL‬جدوں‬
‫میں باجماعت نم‪L‬از ادا ک‪L‬رتے ہیں‪ ،‬جہ‪L‬اد میں ش‪L‬ریک ہ‪L‬وتے ہیں‪ ،‬جس کی بن‪L‬ا پ‪L‬ر انھیں بہت زی‪L‬ادہ ث‪L‬واب‬
‫زمانہ غیبوبت میں ان کے اومال واوالد کی حف‪LL‬اظت ک‪LL‬رتی ہیں‪،‬‬ ‫ٴ‬ ‫حاصل ہوتا ہے؛ لیکن ہم عورتیں ان کے‬
‫ہللا کے رس‪LL‬ول‪  ‬ص‪LL‬لی ہللا علیہ وس‪LL‬لم! کی‪LL‬ا ان ص‪LL‬ورتوں میں ہم بھی اج‪LL‬ر وث‪LL‬واب میں م‪LL‬ردوں کی ہمس‪LL‬ر‬
‫ہوسکتی ہیں؟“ آپ‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم نے حضرت اسماء کی بصیرت افروز‪ L‬تقریر س‪LL‬ن ک‪LL‬ر ص‪LL‬حابہ کی‬
‫طرف رخ کیا اور ان سے پوچھا‪” :‬اسماء سے پہلے تم نے دین کے متعلق کس‪LL‬ی ع‪LL‬ورت س‪LL‬ے اتن‪LL‬ا عم‪LL‬دہ‬
‫س‪LL‬وال س‪LL‬نا ہے؟“ ص‪LL‬حابہ‪ ‬نے نفی میں ج‪LL‬واب دی‪LL‬ا‪ ،‬اس کے بع‪LL‬د آپ‪  ‬ص‪LL‬لی ہللا علیہ وس‪LL‬لم نے حض‪LL‬رت‬
‫اسماء س‪L‬ے فرمای‪L‬ا‪ L‬کہ‪” :‬ج‪L‬اؤ اور ان عورت‪L‬وں س‪L‬ے کہہ دو کہ‪” :‬انَّ ح ُْس َن َت َبع ُِّل احْ دا ُکنَّ ل َِز ْو ِج َہ ا‪َ ،‬و َطلَ ِبہ ا‬
‫ال“۔(‪)۵‬‬ ‫ضاتِہ‪َ ،‬و ِا ِّتبَاعِ َہا لِمُوا َف َقتِہ‪َ ،‬یعْ ِد ُل ک َّل َما َذ َکرْ ِ‬
‫ت لِلرِّ َج ِ‬ ‫لِ َمرْ َ‬
‫زبان مبارک سے یہ عظیم خوش خبری سن کر حضرت اسماء ک‪LL‬ا دل‬ ‫ِ‬ ‫‪          ‬آپ‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم کی‬
‫بلّیوں اچھلنے لگا اور تکبیر وتہلیل کہتی ہوئی واپس ہوگئیں اور دیگر عورتوں کو بھی جاکرسنایا۔‬

‫تاریخ اسالمی کی ان چند جھلکیوں سے بہ خ‪LL‬وبی‪ L‬معل‪LL‬وم ہوجات‪LL‬ا ہے کہ آپ‪  ‬ص‪LL‬لی ہللا علیہ وس‪LL‬لم‬
‫حصول علم کے تئیں کس قدر شوق اور ج‪LL‬ذبہٴ بے پای‪LL‬اں پای‪LL‬ا جات‪LL‬ا تھ‪LL‬ا‬
‫ِ‬ ‫کے زمانے میں عورتوں کے اندر‬
‫ذوق جستجو‪ L‬کی ق‪LL‬در ک‪LL‬رتے ہ‪LL‬وئے‪ ،‬ان کی تعلیم‬ ‫ِ‬ ‫شوق طلب اور‬
‫ِ‬ ‫اور آپ‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم بھی ان کے‬
‫وتربیت کا کتنا اہتمام فرماتے تھے۔‬
‫‪ ‬‬

‫تعلیم وتربیت کے عمومی ماحول کا اثر‬


‫ت ص‪LL‬حابیات‪ ‬میں بلن‪LL‬د پ‪LL‬ایہ اہ‪LL‬ل علم‬
‫‪          ‬تعلیم وتربیت کے اسی عمومی ماحول ک‪LL‬ا اث‪LL‬ر ہے کہ جم‪LL‬اع ِ‬
‫ذکرجمیل سے آج تاریخ اسالم کا ورق ورق درخشاں وتاباں ہے؛ چنانچہ یہ امر محقق ہے کہ‬ ‫خواتین کے ِ‬
‫رتبہ بلن‪LL‬د رکھ‪LL‬نے کے‬ ‫امہات المومنین میں حضرت عائشہ‪ ‬وحضرت ام سلمہ‪ ‬فقہ وحدیث و تفس‪LL‬یر میں ٴ‬
‫ساتھ ساتھ تحقیق ودرایت کے می‪LL‬دان کی بھی ش‪LL‬ہہ س‪LL‬وار تھیں‪ ،‬حض‪LL‬رت ام س‪LL‬لمہ‪ ‬کی ص‪LL‬احبزادی زینب‬
‫بنت ابوسلمہ‪ ‬جو آپ‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم کی پروردہ تھیں‪ ،‬ان کے بارے میں تاریخ کا بیان ہے کہ‪:‬‬

‫ت أَ ْف َق َہ َن َسا ِء أہ ِْل َز َما ِن َہا“(‪)۶‬‬


‫‪َ ”          ‬کا َن ْ‬

‫‪          ‬حضرت ام الدردادء الکبری‪ٰ  ‬‬


‫اعلی درجے کی فقیہ اور عالمہ صحابیہ‪ L‬تھیں۔(‪)۷‬‬

‫‪          ‬حضرت سمرہ بنت نہیک اس‪LL‬دیہ‪ ‬کے ب‪LL‬ارے میں لکھ‪LL‬ا ہے کہ‪” :‬وہ زبردس‪L‬ت‪ L‬ع‪LL‬المہ تھیں‪ ،‬عم‪LL‬ر‬
‫دراز پائیں‪ ،‬بازاروں میں جاکر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی‪LL‬ا ک‪LL‬رتی تھیں اور لوگ‪LL‬وں ک‪LL‬و ان کی‬
‫بے راہ روی پر کوڑوں‪ L‬سے مارتی تھیں۔“(‪)۸‬‬

‫دور صحابیات تک ہی محدود نہیں رہا؛ بلکہ تابعیات اور بعد کی خ‪LL‬واتین کے‬ ‫‪          ‬پھر یہ زریں سلسلہ ِ‪L‬‬
‫زمانوں میں بھی ہمیں اس طبقے میں بڑی بڑی عالمہ‪ ،‬زاہ‪LL‬دہ اور امت کی محس‪LL‬نہ وباکم‪LL‬ال‪ L‬خ‪LL‬واتین مل‪LL‬تی‬
‫ہیں؛ چنانچہ مشہور‪ L‬تابعی‪ ،‬حدیث اور فن تعبیر الرؤیا کے مستند امام حضرت محم‪LL‬د بن س‪LL‬یرین‪ ‬کی بہن‬
‫قرآن کریم کو معنی ومفہوم کے ساتھ حفظ کرلیا تھا(‪ )۹‬یہ فن‬ ‫ِ‬ ‫حفصہ‪ ‬نے صرف بارہ سال کی عمر میں‬
‫مقام امامت کو پہنچی ہوئی تھیں؛ چن‪LL‬انچہ حض‪LL‬رت ابن س‪LL‬یرین‪ ‬ک‪LL‬و جب تجوی‪L‬د‪ L‬کے‬ ‫تجوید وقراء ت میں ِ‬
‫کسی مسئلے میں شبہ ہوتا‪ ،‬تو شاگردوں کو اپنی بہن سے رجوع‪ L‬کرنے کا مشورہ دیتے۔(‪)۱۰‬‬

‫نفیسہ‪ ‬جو حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی ط‪LL‬الب کی ص‪LL‬احبزادی اور حض‪LL‬رت اس‪LL‬حاق بن‬
‫جعفر‪ ‬کی اہلیہ تھیں‪ ،‬انھیں تفسیر وحدیث کے عالوہ دیگر علوم میں بھی درک حاص‪LL‬ل تھ‪LL‬ا‪ ،‬ان کے علم‬
‫سے خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی بھی معتد بہ تعداد نے سیرابی حاصل کی‪ ،‬ان ک‪LL‬ا لقب ”نفیس‪LL‬ة العلم‬
‫تبادلہ خی‪LL‬ال‬
‫ٴ‬ ‫والمعرفہ“‪ L‬پڑگیا تھا‪ ،‬حضرت امام شافعی‪ ‬جیسے رفیع القدر اہل علم دینی مسائل پر ان سے‬
‫کرتے تھے۔(‪)۱۱‬‬
‫‪ ‬‬

‫نظام تعلیم‬
‫ِ‬ ‫اف! یہ اہ ِل کلیسا کا‬

‫‪L‬نف لطی‪LL‬ف ک‪LL‬و دیگ‪LL‬ر‬


‫مذکورہ حقائق سے یہ بات تو الم نشرح ہوجاتی ہے کہ اسالم جس ط‪LL‬رح ص‪ِ L‬‬
‫حقوق بخشنے میں بالکل عادالنہ؛ بلکہ فیاضانہ مزاج رکھتا‪ L‬ہے‪ ،‬ویسے ہی اس کے تعلیمی حق‪LL‬وق ک‪LL‬و نہ‬
‫صرف تسلیم کرتا ہے؛ بلکہ عملی سطح پر انھیں عطا کرنے کا بھی حد سے زیادہ اہتمام کرتا ہے۔‬

‫نظام تعلیم کی جسے ( ‪ )co-education‬سے‬ ‫ِ‬ ‫‪          ‬لیکن جہاں تک بات ہے خواتین کے موجودہ‬
‫یاد کیا جاتاہے‪ ،‬جو مغرب سے درآم‪LL‬د (‪ )Import‬ک‪LL‬ردہ ہے اور ج‪LL‬و دراص‪LL‬ل مغ‪LL‬رب کی فک‪LL‬ر گس‪LL‬تاخ ک‪LL‬ا‬
‫عکاس‪ ،‬خاتو ِن مشرق کو لیالئے مغرب کی طرح ہوس پیشہ نگاہوں کی لذت اندوزی کا سامان بن‪LL‬انے کی‬
‫چادر عصمت وعفت کو ت‪LL‬ار ت‪LL‬ار ک‪LL‬رنے کی ش‪LL‬یطانی چ‪LL‬ال ہے‪،‬‬ ‫ِ‬ ‫ہمہ گیر اور گھناؤنی‪ L‬سازش اور اس کی‬
‫اس کی مذہب اسالم تو کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کرس‪LL‬کتا‪ ،‬ن‪LL‬یز عق‪LL‬ل دان‪LL‬ا بھی اس س‪LL‬ے پن‪LL‬اہ م‪LL‬انگتی‪L‬‬
‫ہوئی نظر آتی ہے۔‬
‫‪ ‬‬

‫مخلوط تعلیم․․․․ ایک ہمہ گیر جائزہ‬

‫مخلوط تعلیم کے حوالے سے دو پہلو نہایت ہی توجہ اورانتہائی‪ L‬س‪LL‬نجیدگی س‪LL‬ے غ‪LL‬ور ک‪LL‬رنے کی‬
‫دعوت دیتے ہیں‪:‬‬

‫‪ -۱‬یہ کہ لڑکو ں اور لڑکیوں کا نصاب تعلیم ایک ہونا چاہیے یا جداگانہ؟‬

‫ب تعلیم کی‬‫‪ -۲‬لڑکے اور لڑکیوں کی تعلیم ایک ساتھ ہونی چاہیے یا الگ ال‪LL‬گ؟ جہ‪LL‬اں ت‪LL‬ک نصا ِ‬
‫بات ہے ‪ ،‬تو گرچہ کچھ امور ایسے ہیں‪ ،‬جو دونوں کے مابین مشترک ہیں او ران کا نصاب لڑک‪LL‬وں اور‬
‫ت ع‪LLL‬امہ ( ‪General‬‬ ‫لڑکی‪LLL‬وں کے ل‪LLL‬یے یکس‪LLL‬اں رکھ‪LLL‬ا جاس‪LLL‬کتا ہے مثالً‪ :‬زب‪LLL‬ان وادب‪ ،‬ت‪LLL‬اریخ‪ ،‬معلوم‪LLL‬ا ِ‬
‫‪ )knowledge‬جغرافیہ‪ ،‬ریاضی‪ ،‬جنرل سائنس اور سماجی علوم (‪ )Social science‬وغ‪LL‬یرہ؛ لیکن کچھ‬
‫مضامین ایسے ہیں جن میں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمی‪LL‬ان ف‪LL‬رق‪ L‬کرن‪LL‬ا ہوگ‪LL‬ا‪ ،‬مثالً‪ :‬انجینئرن‪LL‬گ کے بہت‬
‫سے ش‪L‬عبے‪ ،‬عس‪L‬کری تعلیم‪ ،‬اور ٹیکنک‪L‬ل تعلیم؛ کی‪L‬وں کہ ان کی لڑکی‪L‬وں ک‪L‬و قطع‪L‬اً‪ L‬ض‪L‬رورت نہیں؛ البتہ‬
‫”امراض نسواں“ زمانے سے طب ک‪LL‬ا‬ ‫ِ‬ ‫میڈیکل تعلیم کا اچھا خاصا حصہ خواتین سے متعلق ہے؛ اس لیے‬
‫‪L‬ور‬
‫مستقل موضوع‪ L‬رہا ہے‪ ،‬یہ لڑکیوں کے لیے نہایت ضروری ہے‪ ،‬اسی طرح لڑکی‪LL‬وں کی تعلیم میں ام‪ِ L‬‬
‫خانہ داری کی تربیت بھی شامل ہونی چ‪L‬اہیے‪ ،‬کہ یہ ان کی معاش‪L‬رتی‪ L‬زن‪L‬دگی میں انتہ‪L‬ائی اہمیت رکھ‪L‬تے‬
‫ب‬
‫ہیں‪ ،‬سالئی‪ ،‬کڑھائی‪ ،‬پکوان کے مختلف اصول اور بچوں کی پ‪LL‬رورش کے ط‪LL‬ریقے بھی ان کے نصا ِ‬
‫تعلیم کا حصہ ہونے چاہئیں‪ ،‬ان سے نہ صرف‪ L‬لڑکیاں گھریل‪L‬و‪ L‬زن‪LL‬دگی میں بہ‪LL‬تر ط‪LL‬ور پ‪LL‬ر متوق‪L‬ع‪ L‬رول ادا‬
‫کرس‪LL‬کتی‪ L‬ہیں؛ بلکہ ازدواجی‪ L‬زن‪LL‬دگی کی خ‪LL‬وش گ‪LL‬واری‪ ،‬اہ‪LL‬ل خان‪LL‬دان کی ہ‪LL‬ردل عزی‪LL‬زی اور مش‪LL‬کل اور‬
‫ت حال میں اپنی کفالت کے لیے یہ آج بھی بہترین وسائل ہیں‪ ،‬ساتھ ہی لڑکی‪LL‬وں کے ل‪LL‬یے‬ ‫غیرمتوقع صور ِ‪L‬‬
‫ب معاشرت کی تعلیم بھی ضروری ہے؛ کیوں کہ ایک ل‪LL‬ڑکی اگ‪LL‬ر بہ‪LL‬ترین م‪LL‬اں اور‬ ‫ب حال آدا ِ‬‫ان کے حس ِ‬
‫فرماں بردار بیوی نہ بن سکے تو سماج کو اس سے کوئی فائدہ نہیں؛ یہی وجہ ہے کہ آپ ‪  ‬صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم نے (جیساکہ ذکر ہوا) عورتوں کی تذکیر کے لیے علیحدہ دن مقرر فرمادی‪LL‬ا تھ‪LL‬ا‪ ،‬جس میں ع‪LL‬ورتیں‬
‫جمع ہوتیں اور آپ‪  ‬ص‪LL‬لی ہللا علیہ وس‪L‬لم انھیں ان کے حس‪L‬ب ح‪L‬ال نصیحت فرم‪L‬اتے؛ چن‪L‬انچہ‪ L‬ای‪L‬ک دفعہ‬
‫آپ‪  ‬ص‪LL‬لی ہللا علیہ وس‪LL‬لم نے فرمای‪LL‬اکہ‪” :‬خ‪LL‬واتین کی دل بہالئی ک‪LL‬ا بہ‪LL‬ترین مش‪LL‬غلہ س‪LL‬وت کاتن‪LL‬ا ہے۔“(‬
‫‪ )۱۲‬کیوں کہ سوت کاتنا اس زمانے میں ایک گھریلو صنعت تھی؛ بلکہ آج سے نصف صدی پیش‪L‬تر‪ L‬ت‪L‬ک‬
‫بھی بہت سے گھرانوں کا گزرا ِن معیشت اسی پر تھا۔‬

‫غ‪L‬ور کیج‪L‬یے کہ جب ق‪LL‬درت نے م‪LL‬ردوں اور عورت‪L‬وں میں تخلیقی اعتب‪LL‬ار س‪LL‬ے ف‪L‬رق‪ L‬رکھ‪L‬ا ہے‪،‬‬
‫‪L‬تی کہ‬
‫اعضاء کی ساخت میں فرق‪ ،‬رنگ وروپ میں ف‪LL‬رق‪ ،‬ق‪LL‬وائے جس‪LL‬مانی‪ L‬میں ف‪LL‬رق‪ ،‬م‪LL‬زاج وم‪LL‬ذاق‪ ،‬ح‪ٰ L‬‬
‫افزائش نس‪LL‬ل اوراوالد کی ت‪LL‬ربیت میں بھی‬
‫ِ‬ ‫دونوں کی پسند اور ناپسند میں بھی تفاوت ہے‪ ،‬پھر اسی طرح‬
‫دونوں کے کردار مختلف ہیں‪ ،‬تو یہ کیوں کر ممکن ہوسکتا‪ L‬ہے کہ معاشرے میں دونوں کے فرائض اور‬
‫ذمہ داریاں بھی الگ الگ نہ ہوں؟ اور جب دونوں کی ذمہ داری‪LL‬اں علیح‪LL‬دہ ٹھہ‪LL‬ریں‪ ،‬ت‪LL‬و ض‪LL‬روری ہے کہ‬
‫اسی نسبت سے دونوں کے تعلیمی وتربیتی‪ L‬مض‪LL‬امین بھی ای‪LL‬ک دوس‪LL‬رے س‪LL‬ے مختل‪LL‬ف ہ‪LL‬وں‪ ،‬اگ‪LL‬ر تعلیمی‬
‫نصاب میں دونوں کے فطری‪ L‬اختالف کو ملح‪LL‬وظ نہ رکھ‪LL‬ا ج‪LL‬ائے اور تعلیم کے تم‪LL‬ام ش‪LL‬عبوں میں دون‪LL‬وں‬
‫‪L‬ریقہ تعلیم انس‪LL‬انی معاش‪LL‬رے پ‪LL‬ر منفی‬
‫صنفوں کو ایک ہی قسم کے مضامین پڑھائے جائیں‪ ،‬تو جہاں یہ ط‪ L‬ٴ‬
‫اثر ڈالے گا‪ ،‬وہیں خود عورت کے عورت پن کے رخصت ہونے کا بھی انتہائی منحوس سبب ہوگ‪L‬ا؛ لہٰ‪L‬ذا‬
‫صنف ن‪LL‬ازک کی فط‪LL‬ری ن‪LL‬زاکت کے ل‪LL‬یے یہی زیب دیت‪LL‬ا ہے کہ وہ وہی عل‪LL‬وم حاص‪LL‬ل ک‪LL‬رے‪ ،‬ج‪LL‬و اس‪LL‬ے‬
‫ِ‬
‫زمرئہ نسواں ہی میں رکھے اور اس کے فطری تش‪LL‬خص کی مح‪LL‬افظت ک‪LL‬رے‪ ،‬نہ کہ وہ ایس‪LL‬ے عل‪LL‬وم کی‬
‫دل دادہ ہوجائے‪ ،‬جو اسے زن سے نازن بنادے۔‬
‫وتعالی کا ارشاد ہے‪” :‬والَ َت َتم َّنوا ما َف َّ ہّٰللا‬
‫ض‪،‬‬ ‫ض کُ ْم َع ٰلی َبعْ ٍ‬
‫ض َل ُ ِبہ‪َ  ‬بعْ َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ٰ‬ ‫قرآن کریم میں ہللا تبارک‬
‫ہّٰللا‬ ‫ہّٰللا‬
‫اس َئلُو َ مِنْ َف ْ‬‫ص یْبٌ ِممَّا ا ْک َت َس ب َْن‪َ ،‬و ْ‬
‫ان ِبک ِّل َش یْ ٍء‬‫ض لِہ ‪ ‬انَّ َ َک َ‬ ‫ال نص یبٌ ِممَّا ْاک َت َس بُوا َولِل ِّن َس ا ِء َن ِ‬ ‫لِلرِّ َج ِ‬
‫تعالی نے تم میں سے ایک دوسرے کو جو فطری‪ L‬برتری عطا فرمائی ہے‪ ،‬اس کی تمن‪LL‬ا‬ ‫ٰ‬ ‫َعلِیْما“‪( )۱۳( ‬ہللا‬
‫مت کرو! مردوں کے لیے ان کے اعمال میں حصہ ہے اور عورتوں کے لیے ان کے اعمال میں اور ہللا‬
‫تعالی سے اس کا فضل وکرم مانگتے رہو‪ ،‬بے شک ہللا ہر چیز سے واقف ہے)‬ ‫ٰ‬

‫ب زر س‪LLL‬ے لکھ‪LLL‬نے کے قاب‪LLL‬ل ہے‪ ،‬اس میں یہ حقیقت‬ ‫یہ آیت دراص‪LLL‬ل معاش‪LLL‬رتی زن‪LLL‬دگی کے آ ِ‬
‫سمجھائی گئی ہے کہ ہللا نے انس‪LL‬انی س‪L‬ماج ک‪L‬و اختالف اور رنگ‪L‬ارنگی‪ L‬پ‪L‬ر پی‪LL‬دا کی‪LL‬ا ہے‪ ،‬کس‪L‬ی ب‪L‬ات میں‬
‫مردوں کو فوقیت حاصل ہے‪ ،‬تو کسی معاملے میں وہ عورتوں کے تعاون کا دس‪LL‬ت نگ‪LL‬ر ہے‪ ،‬ق‪LL‬درت نے‬
‫جو کام جس کے سپرد کیا ہے‪،‬اس کے لیے وہی بہتر اور اسی کو بجاالنا اس کی خوش بختی ہے؛ کی‪LL‬وں‬
‫کہ خالق سے بڑھ کر کوئی اور مخلوق کی ضرورت‪ L‬اور فطرت وصالحیت سے واق ‪L‬ف‪ L‬نہیں ہوس‪LL‬کتا‪ ،‬یہ‬
‫‪L‬ق م‪LL‬ادری“‪ L‬بھی‬ ‫مغربی ہ‪LL‬وس ک‪LL‬اروں کی خ‪LL‬ود غرض‪LL‬ی اور دن‪LL‬ائت ہے کہ انھ‪LL‬وں نے عورت‪LL‬وں س‪LL‬ے ”ح‪ِ L‬‬
‫”فرائض پدری“ کے ادا کرنے پر بھی ان بے چاریوں کو مجبور کیا‪ ،‬پھر جب انھوں نے‬ ‫ِ‬ ‫وصول کیا اور‬
‫‪L‬ام تعلیم وض‪LL‬ع کی‪LL‬ا‪،‬جس میں عورت‪LL‬وں‬ ‫اپنی ذمہ داری کا بوجھ عورتوں پر الدنے کی ٹھان لی‪ ،‬تو ایس‪LL‬ا نظ‪ِ L‬‬
‫پیغمبر اسالم‪  ‬صلی ہللا علیہ وس‪LL‬لم نے خ‪LL‬وب ارش‪LL‬اد فرمای‪LL‬ا‬ ‫ِ‬ ‫کو مرد بنانے کی پوری‪ L‬صالحیت موجود‪ L‬ہو‪،‬‬
‫کہ‪” :‬تین افراد ایسے ہیں‪ ،‬ج‪LL‬و کبھی جنت میں داخ‪LL‬ل نہ ہ‪LL‬وں گے“ اور ان تین‪LL‬وں میں س‪LL‬ے ای‪LL‬ک ک‪LL‬ا ذک‪LL‬ر‬
‫کرتے ہوئے فرمایا‪” :‬الرَّ ُجلَ ُة م َِن ال ِّن َسا ِء“‪ )۱۴( ‬یعنی عورت‪LL‬وں میں س‪LL‬ے م‪LL‬رد‪ ،‬دری‪LL‬افت کیاگی‪LL‬ا‪” :‬عورت‪LL‬وں‬
‫میں سے مرد سے کون لوگ مراد ہیں؟“ تو آپ‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪” L:‬وہ عورتیں‪ ،‬جو مردوں‬
‫ال“(‪ )۱۵‬علم‪LL‬اء‬ ‫”و ْال ُم َت َش ِّب َہ ُ‬
‫ات م َِن ال ِّن َس ا ِء ِبالرِّ َج ِ‬ ‫کی مماثلت اختیار کریں“ جیساکہ‪ L‬بخ‪LL‬اری کی روایت ہے‪َ  :‬‬
‫نے ایسی عورتوں کو جو مردوں والی تعلیم وتربیت اختیار کرتی‪ L‬ہیں اور پھ‪LL‬ر عملی زن‪LL‬دگی‪ L‬میں م‪LL‬ردوں‬
‫کی ہم صف ہونا چاہتی ہیں‪ ،‬اسی وعید کا مصداق قرار دیا ہے۔‬
‫‪ ‬‬

‫نظام تعلیم پر اقبال‪ ‬اوراکبر‪ ‬کی تشویش‬


‫ِ‬ ‫فرنگی‬

‫‪L‬وز بے‬‫‪L‬رار خ‪LL‬ودی ورم‪ِ L‬‬


‫‪L‬وز دروں س‪LL‬ے سرش‪LL‬ار‪ ،‬اس‪ِ L‬‬ ‫‪          ‬بیس‪LL‬ویں ص‪LL‬دی کے عظیم مفک‪LL‬ر وفلس‪LL‬فی‪ ،‬س‪ِ L‬‬
‫شاعر اس‪LL‬الم‪ ،‬ج‪LL‬و‬
‫ِ‬ ‫نغمہ ہندی گنگنانے والے‬‫خودی کو واشگاف کرنے والے اور تاحیات حجازی‪ L‬لے میں ٴ‬
‫نظام تعلیم کا انتہ‪LL‬ائی ق‪LL‬ریب س‪LL‬ے اور عمی‪LL‬ق مط‪LL‬العہ‬
‫ِ‬ ‫خود عصری تعلیم گاہ کے پرداختہ تھے اور مغربی‪L‬‬
‫کیا تھا‪ ،‬انھیں عورتوں کے حوالے سے مغرب کے پرفریب نع‪LL‬روں پ‪LL‬ر‪ ،‬جن کی ص‪LL‬دائے بازگش‪LL‬ت اس‪LL‬ی‬
‫وقت مشرق میں بھی سنی جانے لگی تھی‪ ،‬کافی بے چینی اور اضطراب تھا‪ ،‬ان کی نظر میں ان نع‪LL‬روں‬
‫کا اصل مقصد یہ تھا کہ مشرقی خاتون کو بھی یورپی‪ L‬عورتوں کی طرح بے حیائی وعصمت باختگی پر‬
‫مجبور کردیا جائے اور مسلم قوم‪ L‬بھی مجموعی طور‪ L‬پ‪LL‬ر عیش کوش‪LL‬ی وعری‪LL‬انیت کی بھینٹ چ‪LL‬ڑھ ج‪LL‬ائے‬
‫اور مسلمانوں کی روایتی‪ L‬خصوصیات‪ L‬شجاعت ومردانگی‪ ،‬حمیت وایثار‪ ،‬مروت اور خداترسی‪ ،‬مدہوش‪LL‬ی‬
‫کی حالت میں دم توڑ جائیں؛ تاکہ وہ ی‪LL‬ورپ کی غالمی کے ش‪LL‬کنجے س‪LL‬ے کبھی بھی رہ‪LL‬ائی نہ پاس‪LL‬کیں؛‬
‫ب کلیم“ میں‬ ‫”ارمغان حجاز“ اور ”ض‪LL‬ر ِ‬
‫ِ‬ ‫اس لیے انھوں نے اپنی مثنوی ”اسرار‘ و ”رموز“ ”جاویدنامہ“‬
‫‪L‬ریقہ تعلیم کے ت‪LL‬ئیں انتہ‪LL‬ائی نف‪LL‬رت وب‪LL‬یزاری ک‪LL‬ا اظہ‪LL‬ار‬
‫متعدد مقامات پر مخلوط سوس‪LL‬ائٹی اور مخل‪LL‬وط ط‪ L‬ٴ‬
‫کیاہے؛ چنانچہ ”ضرب کلیم“ میں کہتے ہیں‪:‬‬

‫جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن‬

‫ب نظر موت‬
‫کہتے ہیں اسی علم کو اربا ِ‬
‫مدرسہ زن‬
‫ٴ‬ ‫بیگانہ رہے دیں سے اگر‬

‫ہے عشق ومحبت کے لیے علم وہنر‪ L‬موت‬

‫اور تہذیب مغرب نے جس طرح عورت کو اس کے گھر سے زبردستی‪ L‬اٹھ‪LL‬اکر بچ‪LL‬وں س‪LL‬ے دور‬
‫کارگاہوں اور دفتروں میں البٹھایا‪ L‬ہے‪ ،‬اس پر ”خردمندا ِن مغرب“ کو اقبال یوں شرمندہ کرتے ہیں۔‬

‫حکیم یورپ سے‬


‫ِ‬ ‫کوئی پوچھے‬

‫ہند ویونان ہیں جس کے حلقہ بگوش‬

‫کیا یہی ہے معاشرت کا کمال‬

‫مرد بے کار زن تہی آغوش‬

‫مغربی تعلیم نسواں کے حامی مشرق کے مستغربین کی روش پر اقبال‪ ‬اپ‪LL‬نے ک‪LL‬رب وبے چی‪LL‬نی‬
‫کا اظہاریوں کرتے ہیں‪” :‬معاشرتی اصالح کے نوجوان مبل‪LL‬غ یہ س‪LL‬مجھتے ہیں کہ مغ‪LL‬ربی تعلیم کے چن‪LL‬د‬
‫جرعے مسلم خواتین کے ت ِن مردہ میں نئی جان ڈال دیں گے اور اپ‪LL‬نی ردائے کہنہ ک‪LL‬و پ‪LL‬ارہ پ‪LL‬ارہ ک‪LL‬ردیں‬
‫گی‪ ،‬شاید یہ بات درست ہو؛ لیکن مجھے یہ اندیشہ ہے کہ اپنے آپ کو ب‪L‬رہنہ پ‪L‬اکرانھیں ای‪L‬ک م‪L‬رتبہ پھ‪L‬ر‬
‫اپنا جسم ان نوجوان مبلغین کی نگاہوں سے چھپانا پڑے گا۔“(‪)۱۶‬‬

‫‪          ‬بہ قول فقیر س‪L‬ید وحیدال‪L‬دین‪” :‬اقب‪L‬ال‪ ‬زن وم‪L‬رد کی ت‪L‬رقی‪ ،‬نش‪L‬وونما‪ L‬اور تعلیم وت‪L‬ربیت‪ L‬کے ل‪L‬یے‬
‫ج‪LL‬داگانہ می‪LL‬دا ِن عم‪LL‬ل کے قائ‪LL‬ل تھے‪ ،‬کہ ہللا نے جس‪LL‬مانی‪ L‬ط‪LL‬ور پ‪LL‬ر بھی دون‪LL‬وں ک‪LL‬و مختل‪LL‬ف بنای‪LL‬ا ہے اور‬
‫‪L‬وف مح‪L‬ترم‪ L‬عورت‪L‬وں کے ل‪L‬یے ان کی طبعی ض‪L‬روریات کے‬ ‫فرائض کے اعتبار سے بھی؛ چنانچہ موص‪ِ L‬‬
‫نظام تعلیم اور الگ نصاب چاہتے ہیں۔“(‪)۱۷‬‬ ‫ِ‬ ‫مطابق الگ‬
‫‪”          ‬شذرات“ میں لکھتے ہیں‪” :‬تعلیم بھی دیگرامور کی طرح ق‪LL‬ومی‪ L‬ض‪LL‬رورت‪ L‬کے ت‪LL‬ابع ہ‪LL‬وتی ہے‪،‬‬
‫ہمارے مقاصد کے پیش نظر مسلمان بچیوں کے لیے مذہبی تعلیم بالکل ک‪LL‬افی ہے‪ ،‬ایس‪LL‬ے تم‪LL‬ام مض‪LL‬امین‪،‬‬
‫جن میں عورت کو نسوانیت‪ L‬اور دین س‪LL‬ے مح‪LL‬روم کردی‪LL‬نے ک‪LL‬ا میالن پای‪LL‬ا ج‪LL‬ائے‪،‬احتی‪LL‬اط کے س‪LL‬اتھ تعلیم‬
‫نسواں سے خارج کردیے جائیں۔“(‪)۱۸‬‬

‫ت اقبال“ میں ان کا یہ قول ہے‪” :‬مسلمانوں نے دنیا کو دکھانے کے ل‪LL‬یے‬


‫‪          ‬اسی سلسلہ میں ”ملفوظا ِ‬
‫دنیوی تعلیم حاصل کرنا چاہی؛ لیکن نہ دنیا حاصل کرسکے اور نہ دین سنبھال سکے‪ ،‬یہی حال آج مس‪LL‬لم‬
‫خواتین کا ہے‪ ،‬جو دنیوی تعلیم حاصل کرنے کے شوق میں دین بھی کھورہی‪ L‬ہیں۔“(‪)۱۹‬‬

‫‪          ‬دراصل اقبال‪ ‬کے نزدیک ام ِ‬


‫ت مسلمہ کے لیے قاب ِل تقلید نمونہ ن‪LL‬بی اک‪LL‬رم‪  ‬ص‪LL‬لی ہللا علیہ وس‪LL‬لم‬
‫اور ان کے اصحاب‪ ‬کا اسوہ ہے؛ چنانچہ اسی نسبت سے وہ خواتین کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ حض‪LL‬رت‬
‫فاطمہ الزہراء‪ ‬کی پیروی کریں اور اپنی آغوش میں ایسے نونہالوں کی پرورش کریں‪ ،‬ج‪LL‬و ب‪LL‬ڑے ہ‪LL‬وکر‪L‬‬
‫”رموز بے خودی“ میں فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ِ‪L‬‬ ‫شبیر صفت ثابت ہوں‪،‬‬

‫مزرع تسلیم را حاصل بتول‬


‫ِ‬
‫مادراں را اسوئہ کامل بتول‬

‫اور ارمغا ِن حجاز میں خواتین کو یوں نصیحت کرتے ہیں‪:‬‬

‫اگر پندے زدُرویشے پذیری‬

‫ہزار امت بمیرد تو نہ میری‬

‫بتولے باش وپنہاں شو ازیں عصر‬

‫کہ در آغوش شبیرے بگیری‬

‫(ایک دُرویش کی نصیحت کو آویزئہ‪ L‬گوش بنالو‪ ،‬تو ہ‪LL‬زار ق‪LL‬ومیں ختم ہوس‪LL‬کتی ہیں؛ لیکن تم نہیں‬
‫ختم ہوسکتیں‪ ،‬وہ نصیحت یہ ہے کہ بتول بن کر زمانے کی نگاہوں سے اوجھل (پردہ نشیں) ہوجاؤ؛ تاکہ‬
‫تم اپنی آغوش میں ایک شبیر کو پال سکو)‬

‫‪          ‬دوسرے لسان العصر حضرت اکبر الہ آبادی‪ ‬ہیں‪ ،‬اقبال‪ ‬کی ط‪LL‬رح وہ بھی عصری تعلیم س‪LL‬ے‬
‫باخبر ہیں اور انھیں کی ط‪LL‬رح ان کی بھی س‪LL‬اری فک‪L‬ری‪ L‬توان‪L‬ائی‪ L‬اور ش‪L‬اعرانہ ص‪LL‬الحیت وق‪LL‬وت کی ت‪L‬ان‬
‫تہذیب فرنگ کو لتاڑنے اوراس کی زیاں کاریوں سے خ‪L‬بردار ک‪L‬رنے پ‪L‬ر ہی ٹوٹ‪L‬تی ہے‪ ،‬ان کی ش‪L‬اعری‬
‫ک مغربیت کے خالف ر ّد عمل ہے‪ ،‬ان کی شاعری بھی اقب‪LL‬ال‪ ‬کی ط‪LL‬رح اول س‪LL‬ے لے ک‪LL‬ر‬ ‫پوری تحری ِ‬
‫آخر تک اسی مادیت فرنگی‪ L‬کا جواب ہے اور ان کی ترکش کا ایک ای‪LL‬ک ت‪LL‬یر اس‪LL‬ی نش‪LL‬انے پ‪LL‬ر لگت‪LL‬ا ہے‪،‬‬
‫بس دونوں میں فرق یہ ہے کہ اقبال‪ ‬بہ را ِہ راست تیش‪LL‬ہ س‪LL‬نبھال ک‪LL‬ر تہ‪LL‬ذیب ن‪LL‬و ک‪LL‬و بیخ وبُن س‪LL‬ے اکھ‪LL‬اڑ‬
‫ت اک‪L‬بر‪ ‬ط‪L‬نز کی پھلجھڑی‪LL‬وں ک‪L‬و واس‪L‬طہ‪ L‬بن‪L‬اکر مغ‪LL‬رب‬ ‫پھینکنے کے درپے نظر آتے ہیں‪ ،‬جبکہ حضر ِ‬
‫کے مسموم افکار وخیاالت پر پھبتیاں کستے ہیں۔‬
‫نظام تعلیم بھی حضرت اکبر‪ ‬کا خاص موضوع‪ L‬تھ‪LL‬ا اوراس کی ط‪LL‬رف‪ L‬خ‪LL‬واتین کے روز‬ ‫ِ‬ ‫‪          ‬مغربی‬
‫افزوں بڑھتے ہوئے رجحانات سے بھی وہ بہت ملول اور کبیدہ خاطر تھے؛ چنانچہ ایک جگہ مغرب کی‬
‫تعلیم نسواں کی تحری‪L‬ک اور بے پ‪L‬ردگی‪ L‬ک‪L‬و الزم ومل‪L‬زوم بت‪LL‬اتے ہ‪L‬وئے فرم‪L‬اتے‬
‫ِ‬ ‫طرف سے اٹھنے والی‬
‫ہیں‪:‬‬

‫ت تعلیم کو‬
‫مجلس نسواں میں دیکھو عز ِ‬
‫ِ‬
‫پردہ اٹھا چاہتاہے علم کی تعظیم کو‬

‫مشرق میں بہترین عورت کا تخیل یہ ہے کہ وہ شروع‪ L‬س‪LL‬ے نی‪LL‬ک س‪LL‬یرت‪ ،‬ب‪LL‬ااخالق اورہنس مکھ‬
‫رہے‪ ،‬وہ جب بات کرے تو اس کے منھ سے پھول جھ‪L‬ڑے‪ ،‬وہ دی‪LL‬نی تعلیم حاص‪L‬ل ک‪L‬رے اور خ‪L‬انہ داری‬
‫کے طور طریقے سیکھے‪ ،‬کہ آگے چل کر اس کو گھ‪L‬ر کی ملکہ بنن‪L‬ا ہے‪ ،‬بچپن میں وال‪L‬دین کی اط‪L‬اعت‬
‫‪L‬روانہ جنت خی‪LL‬ال ک‪LL‬رے؛ ت‪LL‬اکہ خ‪LL‬انگی ش‪LL‬یرازہ اس کی ذات‬
‫ٴ‬ ‫اور شادی کے بعد شوہر‪ L‬کی رضامندی ک‪LL‬و پ‪L‬‬
‫سے بندھا رہے‪ ،‬خاندان کی مسرتیں اس کے دم سے قائم رہیں اور وہ صحیح معنی میں ”گھ‪LL‬ر کی ملکہ“‬
‫ثابت ہو‪ ،‬اس کے برخالف‪ L‬فرنگیوں کے یہاں عزت کا معی‪LL‬ار ب‪LL‬دال ہ‪LL‬وا ہے‪ ،‬وہ ع‪LL‬ورت ہی کی‪LL‬ا؟ جس کے‬
‫حسن گفتار‪ ،‬حسن رفتار‪ L،‬حسن صورت‪ ،‬زیب وزینت‪ ،‬خوش لباسی‪ ،‬گلے بازی اور رقاصی‪ L‬کے چ‪LL‬رچے‬
‫سوسائٹی‪ L‬میں عام نہ ہوں‪ ،‬اخبارات میں اس کے فوٹو شائع ہوں‪ ،‬زبانوں پ‪L‬ر جب اس ک‪L‬ا ن‪L‬ام آئے‪ ،‬ت‪LL‬و ک‪L‬ام‬
‫ودہن لذت اندوز‪ L‬ہوں‪ ،‬اس کا جلوہ آنکھوں میں چمک پیدا ک‪LL‬ردے‪ ،‬اور اس ک‪LL‬ا تصور دل‪LL‬وں میں بے انتہ‪LL‬ا‬
‫شوق‪ ،‬بہترین عورت وہ نہیں‪ ،‬ج‪LL‬و بہ‪LL‬ترین بی‪LL‬وی اور بہ‪LL‬ترین م‪LL‬اں ہ‪LL‬و؛ بلکہ وہ ہے‪ ،‬جس کی ذات دوس‪LL‬ت‬
‫واحباب کی خوش وقتیوں کا دلچسپ ترین ذریعہ‪ L‬ہو اور ایسی ہو کہ اس کی رعنائی ودل رب‪LL‬ائی کے نقش‬
‫ثبت ہ‪LL‬وں کلب کے درودی‪LL‬وار‪ L‬پ‪LL‬ر‪ ،‬پ‪LL‬ارک کے س‪LL‬بزے زار پ‪LL‬ر‪ ،‬ہوٹل‪LL‬وں کے ک‪LL‬وچ اور ص‪LL‬وفوں پ‪LL‬ر‪،‬‬
‫”ہمارے“اور‪” L‬ان کے“ تخیل کے اس بُعد المشرقین کو اقلیم لفظ ومع‪LL‬نی ک‪LL‬ا یہ تاج‪LL‬دار دو مصرعوں میں‬
‫جس جامعیت اور بالغت کے ساتھ بیان کرجاتا ہے‪ ،‬یہ اسی کا حصہ تھا‪:‬‬

‫حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بے گانہ تھی‬

‫چراغ خانہ تھی‬


‫ِ‬ ‫اب ہے شمع انجمن‪ ،‬پہلے‬

‫”چمکی“ میں وہ بالغت ہے کہ سننے واال لوٹ لوٹ جائے اور یہ ”چمک“ مخصوص ہے ”ن‪LL‬ئی‬
‫روشنی“‪ L‬کی چمنیوں کے ساتھ۔‬

‫حسن وناز کی دنیا میں قابل داد وتحسین اب تک کم سخنی‪ ،‬کم گوئی اور بے زبانی تھی‪ ،‬مش‪LL‬رقی‬
‫شوہر ”چاندسی‪ L‬دلہن“ اس لیے بیاہ کر التا تھا کہ وہ اس‪L‬ے اپ‪L‬نے گھ‪L‬ر ک‪L‬ا چ‪L‬راغ بن‪L‬ادے اور تخی‪L‬ل ”خ‪L‬انہ‬
‫نظام تعلیم کی دَین کہ محفل کے طور ہی کچھ اور ہوگئے‪ ،‬نقشہ بالک‪LL‬ل‬ ‫ِ‬ ‫آبادی“ کا غالب رہتا‪ ،‬مگر مغربی‬
‫ہی بدل گیا‪ ،‬اب ت‪LL‬و ٹھ‪LL‬اٹھ ب‪LL‬زم آرائی‪LL‬وں کے جمے ہ‪LL‬وئے‪ ،‬حج‪LL‬اب کی جگہ بے حج‪LL‬ابی‪ ،‬س‪LL‬کوت کی جگہ‬
‫طوفان تکلم‪ ،‬مستوری کی جگہ نمائش‪ ،‬عاشق بے چارہ اس کایا پلٹ پردن‪LL‬گ‪ ،‬ح‪LL‬یران‪ ،‬گم ص‪LL‬م‪ ،‬ک‪LL‬ل ت‪LL‬ک‬‫ِ‬
‫وقف تکلم۔‬
‫ِ‬ ‫جو نقش تصویر تھا‪ ،‬وہ آج گراموفون کی طرح مسلسل‬
‫خامشی سے نہ تعلق ہے‪،‬نہ تمکین کا ذوق‬

‫اب حسینوں میں بھی پاتا ہوں ”اسپیچ“ کا شوق‬

‫شا ِن سابق سے یہ مایوس ہوئے جاتے ہیں‬

‫بت جو تھے دیر میں ناقوس‪ L‬ہوئے جاتے ہیں‬

‫اکبر کے اسی مرقع کا ایک اور منظر۔‬

‫اعزاز بڑھ گیا ہے‪ ،‬آرام گھٹ گیا ہے‬

‫خدمت میں ہے وہ لیزی اور ناچنے کو ریڈی‬

‫تعلیم کی خرابی سے ہوگئی‪ L‬باآلخر‬

‫شوہر‪ L‬پرست بیوی‪ L‬پبلک پسند لیڈی‬

‫ایک دوسری جگہ اس مرقع میں آب ورنگ ذرا اور زیادہ بھردیتے ہیں؛ چنانچہ ارشاد ہے‪:‬‬

‫اک پیر نے تہذیب سے لڑکے کو سنوارا‪L‬‬

‫اک پیرنے تعلیم سے لڑکی کو سنوارا‬

‫کچھ جوڑ تو ان میں کے ہوئے ہال میں رقصاں‬

‫باقی جو تھے گھر ان کا تھا افالس کا مارا‬

‫بیرا وہ بنا کمپ میں‪ ،‬یہ بن گئیں آیا‬

‫بی بی نہ رہیں جب‪ ،‬تو میاں پن بھی سدھارا‬

‫دونوں جو کبھی ملتے ہیں گاتے ہیں یہ مصرعہ‬

‫”آغاز سے بدتر ہے سرانجام ہمارا“‬

‫یہ خیال نہ گزرے کہ اکبر سرے سے تعلیم نسواں کی مخالفت کرتے تھے اور لڑکیوں کو بالک‪LL‬ل‬
‫ہی ناخواندہ رکھنے کے حامی تھے‪ ،‬وہ تعلیم نس‪LL‬واں کے ح‪LL‬امی تھے؛ لیکن تعلیم تعلیم میں بھی ت‪LL‬و زمین‬
‫دور مغلیہ کی جہ‪LL‬اں آراء‬
‫آسمان کا فرق‪ L‬ہے‪ ،‬وہ اس تعلیم کی تائی‪LL‬د میں تھے‪ ،‬ج‪LL‬و رابعہ بصریہ نہ س‪LL‬ہی ِ‬
‫بیگم ہی کے نمونے پیدا کرے‪ ،‬نہ کہ اس تعلیم کی‪ ،‬جو زینت ہوا پکچ‪LL‬ر پیلس اور نم‪LL‬ائش گ‪LL‬اہوں کی‪ ،‬اس‬
‫تعلیم کو وہ رحمت نہیں‪ ،‬خدا کا قہر سمجھتے تھے‪ ،‬جس پ‪LL‬ر بنی‪LL‬ادیں تعم‪LL‬یر ہ‪LL‬وں ہ‪LL‬الی ووڈ اور ب‪LL‬الی ووڈ‪L‬‬
‫نظام تعلیم کے‪ ،‬جو مہربان مائیں‪ ،‬وفاسرشت بیویاں اور اطاعت شعار لڑکی‪LL‬اں‬ ‫ِ‬ ‫کی‪ ،‬وہ آرزومند‪ L‬تھے‪ ،‬اس‬
‫پیدا کرے‪ ،‬نہ کہ اس کے‪ ،‬جو تھیٹرمیں ایکٹری اور برہنہ‪ L‬رقاصی کے کماالت کی ط‪LL‬رف لے ج‪LL‬ائے‪ ،‬وہ‬
‫ملک میں حوریں پیدا کرنا چاہتے تھے‪ ،‬کہ دنیا جنت نظیر بن ج‪LL‬ائے‪ ،‬وہ پری‪LL‬وں کے مش‪LL‬تاق نہ تھے‪ ،‬کہ‬
‫ملک ”راجہ اندر“ کا اکھاڑا ہوکر رہ جائے ان کا قول تھا کہ‪:‬‬

‫دو شوہر واطفال کی خاطر اسے تعلیم‬

‫قوم کے واسطے تعلیم نہ دو عورت کو‬

‫مزید توضیح مالحظہ ہو‪:‬‬

‫تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے‪ ،‬مگر‬

‫خاتو ِن خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں‬

‫ذی علم ومتقی ہوں‪ ،‬جو ہوں ان کے منتظم‬

‫استاذ ایسے ہوں‪ ،‬مگر ”استاد‪ L‬جی“ نہ ہوں‬

‫”استاذ اور استاد“ کے لطیف فرق کو جس خ‪LL‬وبی کے س‪LL‬اتھ بی‪LL‬ان کی‪LL‬ا ہے‪ ،‬وہ بس انہی ک‪LL‬ا حصہ‬
‫ب نش‪L‬اط ک‪LL‬و‬
‫ہے‪ ،‬استاذ تو دینی واخالقی تعلیم و ت‪L‬ربیت دی‪L‬نے والے ک‪L‬و کہ‪LL‬تے ہیں‪ ،‬جبکہ اس‪L‬تاد جی ارب‪L‬ا ِ‬
‫تعلیم دینے والے کو کہتے ہیں۔‬

‫ایک اور طویل نظم میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے اپن‪LL‬ا پ‪LL‬ورا مس‪LL‬لک وض‪LL‬احت کے س‪LL‬اتھ‬
‫بیان کردیا ہے‪ ،‬چند اشعار نظر نواز ہوں‪:‬‬

‫تعلیم عورتوں کو بھی دینی ضرور‪ L‬ہے‬

‫لڑکی جو بے پڑھی ہے‪ ،‬وہ بے شعور‪ L‬ہے‬

‫ایسی معاشرت میں سراسر فتور‪ L‬ہے‬

‫اور اس میں والدین کا بے شک قصور‪ L‬ہے‬

‫لیکن ضرور‪ L‬ہے کہ مناسب ہو تربیت‬

‫جس سے برادری‪ L‬میں بڑھے قدر ومنزلت‬

‫آزادیاں مزاج میں آئیں نہ تمکنت‬

‫ہو وہ طریق‪ L،‬جس میں ہو نیکی ومصلحت‬

‫ہرچند ہو وہ علم ضروری کی عالمہ‬

‫شوہر‪ L‬کی ہو مرید تو بچوں کی خادمہ‬


‫عصیاں سے محترز‪ L‬ہو‪ ،‬خدا سے ڈرا کرے‬

‫حسن عاقبت کی ہمیشہ دعا کرے‬


‫ِ‬ ‫اور‬

‫آگے حساب کتاب‪ ،‬نوشت وخواند‪ ،‬اصو ِل حفظا ِن صحت‪ ،‬کھانا پک‪LL‬انے اور ک‪LL‬پڑے س‪LL‬ینے وغ‪LL‬یرہ‬
‫درس نسوانی‪ L‬کا الزمی نصاب بتاکر فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ِ‬ ‫کو‬

‫داتا نے دَھن دیا ہے‪ ،‬تو دل سے غنی رہو‬

‫پڑھ لکھ کے اپنے گھر کی دیوی بنی رہو‬

‫مشرق کی چال ڈھال کا معمول اور ہے‬

‫مغرب کے ناز و رقص کا اسکول اور ہے‬

‫دنیا میں لذتیں ہیں‪ ،‬نمائش ہے‪ ،‬شان ہے‬

‫ان کی طلب میں‪ ،‬حرص میں سارا جہان ہے‬

‫اکبر سے یہ سنو! کہ یہ اس کا بیان ہے‬

‫دنیا کی زندگی فقط اک امتحان ہے‬

‫حد سے جو بڑھ گیا‪ ،‬تو ہے اس کا عمل خراب‬

‫آج اس کا خوش نما ہے‪ ،‬مگر ہوگا کل خراب(‪)۲۰‬‬

‫مخلوط تعلیم کا دوسرا پہلو‬

‫مخلوط تعلیم کا دوسرا‪ L‬پہلو لڑکو اور لڑکی‪LL‬وں کی مش‪LL‬ترک تعلیم گ‪LL‬اہ ہے‪،‬اس سلس‪LL‬لے میں یہ ام‪LL‬ر‬
‫‪L‬وظ خ‪LL‬اطر رہے کہ ابت‪LL‬دائی عم‪LL‬ر‪ ،‬جس میں بچے ص‪LL‬نفی ج‪LL‬ذبات س‪LL‬ے ع‪LL‬اری ہ‪LL‬وتے ہیں اور ان میں‬ ‫ملح‪Lِ L‬‬
‫ایس‪LL‬ے احساس‪LL‬ات پی‪LL‬دا نہیں ہ‪LL‬وتے‪ ،‬مخل‪LL‬وط‪ L‬تعلیم کی گنج‪LL‬ائش ہے اورآٹھ‪ ،‬ن‪LL‬و س‪LL‬ال کی عم‪LL‬ر ت‪LL‬ک ابت‪LL‬دائی‬
‫درجات کی تعلیم میں تعلیم گاہ کا اشتراک رکھ‪LL‬ا جاس‪LL‬کتا ہے؛ اس‪LL‬ی ل‪LL‬یے اس‪LL‬الم نے بے ش‪LL‬عور بچ‪LL‬وں ک‪LL‬و‬
‫غیرمحرم عورتوں کے پاس آمد ورفت‪ L‬کی اجازت دی ہے اور قرآن مقدس نے بھی اس کی ط‪LL‬رف اش‪LL‬ارہ‬
‫کیا ہے(‪)۲۱‬؛ لیکن جب بچوں میں جنسی شعور‪ L‬پیدا ہونے لگے اور ایک ح‪LL‬د ت‪LL‬ک بھی (کلی ط‪LL‬ور پ‪LL‬ر نہ‬
‫سہی) ان میں صنفی جذبات کی پہچان ہوجائے‪ ،‬ت‪LL‬و ای‪LL‬ک س‪LL‬اتھ ان کی تعلیم آگ اور ب‪LL‬ارود‪ L‬ک‪LL‬و ای‪L‬ک جگہ‬
‫جمع کرنے کی مانن‪LL‬د ہے اور اس ک‪LL‬ا اع‪LL‬تراف (گ‪LL‬ودیر‪ L‬س‪LL‬ے س‪LL‬ہی) آج ی‪LL‬ورپ وام‪LL‬ریکہ کے ب‪LL‬ڑے ب‪LL‬ڑے‬
‫ت بشری ( ‪)Humanbiology‬کررہے ہیں؛ چنانچہ انھوں نے لکھا‬ ‫ماہرین نفسیات (‪ )Psychology‬وحیاتیا ِ‬
‫ہے کہ عورت اور مرد میں کشش جنسی بالکل طبعی اور فط‪LL‬ری ہے اور دون‪LL‬وں جب ب‪LL‬اہم ملیں گے اور‬
‫کوئی مانع نہیں ہوگا‪ ،‬تو رگڑسے یکبارگی بجلی کا پیدا ہوجانا یقینی ہے۔‬
‫اور اسالم کا نقطئہ نظر اس حوالے سے بالکل واضح‪ ،‬بے غبار‪ ،‬ٹھوس اور سخت ہے‪ ،‬کہ ای‪LL‬ک‬
‫مرد یا عورت کے لیے کسی غ‪L‬یرمحرم کے س‪L‬اتھ م‪L‬ل بیٹھن‪L‬ا کج‪L‬ا ای‪L‬ک دوس‪L‬رے کی ط‪L‬رف نگ‪L‬اہ اٹھ‪L‬اکر‬
‫دیکھنے کی بھی قطعاً‪ L‬گنجائش نہیں؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم کے تاریخی‪ L‬س‪ِ L‬‬
‫‪L‬فر‬
‫حج میں فضل بن عباس‪ ‬آپ‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم کے س‪LL‬اتھ اونٹ‪LL‬نی پ‪LL‬ر س‪LL‬وار ہیں‪ ،‬ق‪LL‬بیلہ ”بن‪LL‬و خثعم“ کی‬
‫ایک لڑکی ایک شرعی مسئلے کی دریافت کے لیے آپ‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم کی طرف‪ L‬مت‪LL‬وجہ ہ‪LL‬وتی ہے‬
‫اور فضل بن عباس‪ ‬کی نگاہ اچانک اس لڑکی پر پڑجاتی‪ L‬ہے‪ ،‬تو نبی پاک‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم ف‪LL‬وراً‪ L‬ان‬
‫کا رخ پھیردیتے‪ L‬ہیں۔‬

‫ت َر ُس ْو َل ہّٰللا ِ َعنْ َن ْظ ِر‬


‫”ش أ َ ْل ُ‬
‫‪          ‬جلیل الق‪LL‬در ص‪LL‬حابی‪ L‬حض‪LL‬رت جری‪LL‬ر بن عب‪LL‬دہللا بجلی‪ ‬فرم‪LL‬اتے ہیں‪َ  :‬‬
‫ک“۔(‪)۲۲‬‬
‫ص َر َ‬ ‫الفُ َجا َئ ِة فقال‪” :‬اِصْ ِر ْ‬
‫ف َب َ‬
‫‪          ‬حض‪LL‬رت علی بن ابی ط‪LL‬الب س‪LL‬ے آپ‪  ‬ص‪LL‬لی ہللا علیہ وس‪LL‬لم نے فرمای‪LL‬ا‪َ ” :‬ی ا َعلِیْ ! الَ َت ْت َب ِع ال َّن ْظ َر َة‬
‫ال َّن ْظ َر َة؛ َفانَّ لَکَ األ ُ ْو ٰلی‪َ ،‬ولَ ْی َس ْ‬
‫ت لَکَ اآلخ َِرة“(‪)۲۳‬‬

‫‪          ‬مردوں کی طرح عورتوں کے لیے بھی آپ‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم نے ممانعتی حکم جاری فرمای‪LL‬ا‪:‬‬
‫چنانچہ ایک دفعہ حضرت ام سلمہ‪ ‬اور حضرت میمونہ‪( ‬بعض روایات کے مط‪LL‬ابق‪ L‬حض‪LL‬رت عائشہ‪)‬‬
‫حضور‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس موجود تھیں‪،‬اچانک حضرت عبدہللا بن ام مکت‪LL‬وم‪ L‬تش‪LL‬ریف‪ L‬لے آئے‪،‬‬
‫حضور‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا کہ ان سے پ‪LL‬ردہ ک‪LL‬رو! ت‪LL‬و حض‪LL‬رت ام س‪LL‬لمہ‪ ‬نے‬
‫قدرے تحیر زدہ ہوکر کہا‪” :‬یہ ت‪L‬و نابین‪L‬ا ہیں! نہ ہمیں دیکھ س‪L‬کتے ہیں اور ن‪L‬ا ہی پہچ‪L‬ان س‪LL‬کتے ہیں“ ت‪LL‬و‬
‫حضور‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪” L:‬کیا تم دون‪LL‬وں بھی نابین‪LL‬ا ہ‪LL‬و؟ کی‪LL‬ا تم انھیں نہیں دیکھ رہی ہ‪LL‬و؟“(‬
‫‪)۲۴‬‬

‫سن شعور‪ L‬ک‪LL‬و پہنچ‪LL‬نے کے‬ ‫شعبہ حیات سے متعلق نہیں؛ بلکہ ِ‬ ‫ٴ‬ ‫پھر اسالم کا یہ نظریہ کسی خاص‬
‫‪L‬واتین اس‪LL‬الم کی ت‪LL‬اریخ اور ان کی تعلیم‬
‫ِ‬ ‫بعد سے تاحی‪LL‬ات اس ک‪LL‬ا یہی حکم ہے؛ چن‪LL‬انچہ جب ہم اہ‪ِ L‬ل علم خ‪L‬‬
‫وتربیت کے طریقوں کا مطالعہ کرتے ہیں‪ ،‬تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نبی پاک‪  ‬ص‪LL‬لی ہللا علیہ وس‪LL‬لم کے‬
‫عہ‪ِ L‬د میم‪LL‬ون میں خ‪LL‬ود آپ‪  ‬ص‪LL‬لی ہللا علیہ وس‪LL‬لم اس ب‪LL‬ات ک‪LL‬ا غ‪LL‬ایت درجہ اہتم‪LL‬ام فرم‪LL‬اتے کہ لڑک‪LL‬وں اور‬
‫لڑکیوں میں اختالط کی کیفیت پیدا نہ ہونے پائے؛ ت‪LL‬اکہ یہ ش‪LL‬یطان کی ط‪LL‬رف س‪LL‬ے کس‪LL‬ی غل‪LL‬ط ک‪LL‬اری کی‬
‫تحریک کا باعث نہ ہو؛ چنانچہ حضرت ابن عباس‪ ‬سے مروی ہے کہ ‪” :‬حض‪LL‬ور‪  ‬ص‪LL‬لی ہللا علیہ وس‪LL‬لم‬
‫مردوں کی صف سے نکلے اور حضرت بالل‪ ‬آپ‪  ‬ص‪LL‬لی ہللا علیہ وس‪LL‬لم کے س‪LL‬اتھ تھے‪ ،‬آپ‪  ‬ص‪LL‬لی ہللا‬
‫علیہ وسلم کو خیال ہوا کہ آپ‪  ‬صلی ہللا علیہ وس‪LL‬لم کی آواز عورت‪LL‬وں ت‪LL‬ک نہیں پہنچی‪ ،‬ت‪LL‬و آپ‪  ‬ص‪LL‬لی ہللا‬
‫علیہ وسلم عورتوں کی صف تک تشریف لے گئے‪ ،‬انھیں نصیحت فرمائی اور صدقہ‪ L‬کرنے کا حکم دی‪LL‬ا‪،‬‬
‫تو کوئی‪ L‬عورت اپ‪LL‬نی ب‪LL‬الی پھینک‪LL‬نے لگی اور ک‪LL‬وئی انگ‪LL‬وٹھی اور حض‪LL‬رت بالل‪ ‬اپ‪LL‬نی چ‪LL‬ادر میں انھیں‬
‫سمیٹنے لگے۔“(‪)۲۵‬‬

‫‪          ‬ایک مرتبہ آپ‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں کو خلط ملط دیکھا‪ ،‬تو عورت‪LL‬وں ک‪LL‬و‬
‫ب راہ چال ک‪LL‬رو“۔‬
‫مخاطب کرتے ہوئے فرمایا‪” :‬پیچھے ہٹ جاؤ! تمہارا بیچ راستے پر چلنا مناسب نہیں ل ِ‬
‫(‪)۲۶‬‬
‫آپ‪  ‬صلی ہللا علیہ وس‪LL‬لم کے بع‪LL‬د کے ادوار میں بھی عورت‪LL‬وں کی تعلیم وت‪LL‬ربیت کے تعل‪LL‬ق س‪LL‬ے‬
‫قرن اوّل اور اس‬ ‫عدم اختالط کا خصوصی‪ L‬اہتمام رہا؛ چنانچہ حضرت موالنا قاضی‪ L‬اطہرمبارک پوری ‪ِ  ‬‬ ‫ِ‬
‫طریقہ تعلیم وتربیت کا تذکرہ کرتے ہ‪LL‬وئے رقم ط‪LL‬راز ہیں‪:‬‬ ‫ٴ‬ ‫کے بعد طالبات کے تعلیمی اسفار اور ان کے‬
‫”عام طور سے ان تعلیمی اسفار میں طالبات کی صنفی حیثیت کا پورا پ‪LL‬ورا لح‪LL‬اظ رکھ‪LL‬ا جات‪LL‬ا تھ‪LL‬ا اور ان‬
‫کی راحت وحفاظت کا پورا اہتمام ہوتا تھا‪ ،‬خاندان اور رش‪L‬تہ‪ L‬کے ذمہ دار اُن کے س‪L‬اتھ ہ‪L‬وتے تھے‪ ،‬ام‪L‬ام‬
‫سہمی‪ ‬نے ”تاریخ جرجان“ میں فاطمہ‪ L‬بنت ابی عبدہللا محمد بن عبدالرحمن طلقی جرجانی‪ ‬کے حاالت‬
‫میں لکھ‪LL‬ا ہے کہ‪” :‬میں نے ف‪LL‬اطمہ‪ L‬ک‪LL‬و اس زم‪LL‬انے میں دیکھ‪LL‬ا ہے‪ ،‬جب ان کے وال‪LL‬د ان ک‪LL‬و اٹھ‪LL‬اکر ام‪LL‬ام‬
‫ابواحم‪LL‬د‪ L‬بن ع‪LL‬دی جرج‪LL‬انی‪ L‬کی خ‪LL‬دمت میں لے ج‪LL‬اتے تھے اور وہ ان س‪LL‬ے ح‪LL‬دیث ک‪LL‬ا س‪LL‬ماع ک‪LL‬رتی‬
‫تھیں‪،‬فاطمہ بنت محمد بن علی لخمیہ‪ ‬اندلس کے مشہور مح‪LL‬دث ابومحم‪L‬د‪ L‬ب‪LL‬اجی اش‪LL‬بیلی‪ ‬کی بہن تھیں‪،‬‬
‫انھوں نے اپنے بھائی ابومحمد باجی‪ ‬کے ساتھ رہ کر طالب علمی کی اور دون‪LL‬وں نے ای‪LL‬ک س‪LL‬اتھ بعض‬
‫ت حدیث حاصل کی۔“(‪)۲۷‬‬ ‫شیوخ واساتذہ سے اجاز ِ‬
‫آگے لکھتے ہیں‪” :‬ان محدثات وطالبات کی درس گاہوں میں مخصوص جگہ ہوتی تھی‪ ،‬جس میں‬
‫وہ مردوں سے الگ رہ کر سماع کرتی تھیں اور طلبہ وطالبات میں اختالط نہیں ہوتا تھا۔“(‪)۲۸‬‬

‫ان تصریحات سے واضح طور‪ L‬پر معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے جہاں عورتوں کو تعلیم وتربیت‪L‬‬
‫کے حصول کی پ‪LL‬وری‪ L‬آزادی بخش‪LL‬ی ہے‪ ،‬وہیں اس کے نزدی‪LL‬ک م‪LL‬رد وع‪LL‬ورت کے درمی‪LL‬ان اختالط کی‬
‫‪L‬کون‬‫کوئی گنجائش نہیں؛ بلکہ دونوں کے لیے علیحدہ تعلیم گاہ ہونی چاہیے‪ ،‬جہ‪LL‬اں وہ ی‪LL‬ک س‪LL‬وئی اور س‪ِ L‬‬
‫خاطر کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکیں‪،‬اور‪ L‬ہر نوع کے ممکن فتنے کا س ِّد باب ہوسکے‪ ،‬خاص طور س‪LL‬ے‬
‫موجودہ دور میں‪ ،‬جب کہ مشرق سے مغ‪L‬رب اور ش‪L‬مال س‪L‬ے جن‪L‬وب مخل‪L‬وط تعلیم کی فحش کاری‪L‬اں اور‬
‫ماہرین تعلیم وسماجیات‪L‬‬
‫ِ‬ ‫زیاں کاریاں ظاہر وباہر ہوچکی‪ L‬ہیں اور خود یورپ وامریکہ‪ L‬کی تعلیم گاہوں کے‬
‫وعمرانیات کی رپورٹس‪ L‬اس کا بین ثبوت ہیں؛ چنانچہ‪ L‬مشہور فرانسیس‪L‬ی‪ L‬ع‪LL‬الم عمرانی‪LL‬ات ”پ‪LL‬ول بی‪LL‬ورو“(‬
‫‪ )Poulbureou‬اپ‪LL‬نی کت‪LL‬اب (‪)Towardsmoral Bankruptcy‬میں لکھت‪LL‬اہے کہ‪” :‬ف‪LL‬رانس کے متوس‪LL‬ط‪L‬‬
‫طبقے کی تعلیم یافتہ لڑکیاں‪ ،‬جو کسی فرم میں کام کرتی ہیں اور سائستہ سوسائٹی میں اٹھتی بیٹھتی ہیں‪،‬‬
‫ط‪L‬رز‬
‫ِ‬ ‫ان کے لیے کسی اجنبی ل‪L‬ڑکے س‪LL‬ے م‪L‬انوس ہوجان‪LL‬ا ک‪LL‬وئی تعجب خ‪LL‬یز ام‪L‬ر نہیں ہے‪ ،‬اوّل اوّل اس‬
‫معاشرت کو معیوب سمجھا گی‪LL‬ا‪ ،‬مگ‪LL‬ر اب یہ اونچے طبقے میں بھی ع‪LL‬ام ہوگی‪LL‬ا ہے اوراجتم‪LL‬اعی‪ L‬زن‪LL‬دگی‬
‫میں اس نے وہی جگہ حاصل کرلی ہے‪ ،‬جو کبھی نکاح کی تھی۔“(‪)۲۹‬‬

‫امریکہ کی تعلیم گاہوں کے نوجوان طبقہ کے بارے میں جج بن لنڈ سے ( ‪ )Benlindsey‬جس کو‬
‫ڈنور (‪)Denver‬کی عدالت جرائم اطف‪LL‬ال (‪ )Juentlecourt‬ک‪LL‬ا ص‪LL‬در ہ‪LL‬ونے کی حی‪LL‬ثیت س‪LL‬ے ام‪LL‬ریکہ کے‬
‫نوجوانوں کی حالت سے واقف ہونے کا بہت زیادہ موقع مال‪ ،‬اپنی کتاب ( ‪)Revolt of Modern youth‬‬
‫میں لکھتا ہے کہ‪” :‬امریکہ‪ L‬میں ہائی اسکول کی کم از کم‪ ۴۵ ‬فیصد‪ L‬لڑکیاں اسکول سے الگ ہ‪LL‬ونے س‪LL‬ے‬
‫پہلے خراب ہوچکتی ہیں اور بعد کے تعلیمی مدارج میں اوسط اس سے کہیں زی‪LL‬ادہ ہے‪ ،‬لڑکی‪LL‬اں خ‪LL‬ود ان‬
‫لڑکوں سے اس چیز کے لیے اصرار کرتی ہیں‪ ،‬جن کے ساتھ و تفریحی مشاغل کے ل‪L‬یے ج‪LL‬اتی ہیں اور‬
‫اس قسم کے ہیجانات کی طلب ان میں لڑکوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں‪ ،‬گ‪LL‬رچہ زن‪LL‬انہ فط‪LL‬رت ان اق‪LL‬دامات‬
‫پرفریب کاری کے پردے ڈالتی ہے۔“(‪)۳۰‬‬
‫انگلینڈ کے مرکزی‪ L‬شہر لندن (جو تہذیب جدید کا صاف شفاف آئینہ ہے‪ ،‬اس‪LL‬ی آئی‪LL‬نے میں اس کی‬
‫عکس ق‪L‬بیح نظ‪L‬ر آت‪LL‬اہے) کی ”غیرش‪L‬ادی‪ L‬ش‪L‬دہ م‪LL‬اؤں اور ان کے بچ‪L‬وں کی ن‪LL‬ویں‬ ‫ِ‬ ‫تمام تر گ‪LL‬ل ک‪L‬اریوں ک‪LL‬ا‬
‫کونسل“ س‪L‬ے خط‪L‬اب ک‪L‬رتے ہ‪L‬وئے انگلین‪L‬ڈ کی مش‪L‬ہور مصنفہ ”مس مارگانت‪L‬ا‪ L‬الس‪L‬کی“ یہ دھم‪L‬اکہ خ‪L‬یز‬
‫انکشاف کرتی ہے کہ‪” :‬انگلس‪LL‬تان کی تقریب‪L‬ا ً‪ ۷۰ ‬فیصد لڑکی‪LL‬اں ش‪LL‬ادی س‪LL‬ے قب‪LL‬ل ہی اپ‪LL‬نے دوس‪LL‬توں س‪LL‬ے‬
‫جنسی تعلقات قائم کرلیتی ہیں اور‪ ۳۳ ‬فیصد‪ L‬لڑکیاں شادی سے قبل ہی حاملہ ہوجاتی‪ L‬ہیں۔“(‪)۳۱‬‬

‫لندن کے ایک سماجی‪ L‬کارکن نے اپ‪LL‬نی مطالع‪LL‬اتی رپ‪LL‬ورٹ میں وہ‪LL‬اں کی مخل‪LL‬وط‪ L‬تعلیم گ‪LL‬اہوں کی‬
‫صنفی آوارگی اور جنس‪L‬ی ان‪L‬ارکی (‪)Anarchy‬ک‪L‬ا ذک‪L‬ر ک‪L‬رتے ہ‪L‬وئے لکھ‪L‬ا ہے کہ‪” :‬اس‪L‬کول میں آج ک‪L‬ل‬
‫مانع حمل اشیاء اپنے اپنے بی‪LL‬گ میں ل‪LL‬یے پھ‪LL‬رتے ہیں کہ‬‫ِ‬ ‫چودہ برس کے لڑکے اور لڑکیاں عام طور‪ L‬پر‬
‫جانے کب کہاں ضرورت پڑجائے؟ اس معاملے میں وہ اپنے ماں باپ سے کہیں زیادہ ہوشیار ہیں۔“(‪)۳۲‬‬

‫ناف تمدن اور مرک‪LL‬ز تہ‪LL‬ذیب کی ب‪LL‬ات ہے‪ ،‬خ‪LL‬ود مش‪LL‬رق میں بھی (جس کے رگ وپے‬ ‫خیر! یہ تو ِ‬
‫میں گوی‪LL‬ا خ‪LL‬وا ِن مغ‪LL‬رب کی زلہ خ‪LL‬واری س‪LL‬رایت ک‪LL‬رچکی ہے اور مغ‪LL‬رب کی ”عط‪LL‬اکردہ“ ہ‪LL‬ر ”نعمت‬
‫غیرمترقبہ“‪ L‬کا والہ‪LL‬انہ اس‪LL‬تقبال کرن‪LL‬ا اور اس‪LL‬ے ہ‪LL‬اتھوں ہ‪LL‬اتھ لین‪LL‬ا اس کی جبلت بن چک‪LL‬ا ہے اور جس کے‬
‫فرزندوں میں مس‪LL‬تغربین کی ٹ‪LL‬ولی کی ٹ‪LL‬ولی جنم لے رہی ہے) مخل‪LL‬وط‪ L‬تعلیم کے انتہ‪LL‬ائی مض‪LL‬رت رس‪LL‬اں‬
‫ت حال تویہ ہوچکی ہے کہ۔‬ ‫نتائج مشاہدے میں آرہے ہیں؛ بلکہ صور ِ‬
‫مے خانہ نے رنگ وروپ بدال ایسا‬

‫مے کش مے کش رہا‪ ،‬نہ ساقی ساقی‪L‬‬

‫غور کیجیے کہ مخلوط تعلیم گاہوں میں جہاں لڑکے اور لڑکی‪LL‬اں دون‪LL‬وں ای‪LL‬ک س‪LL‬اتھ تعلیم حاص‪LL‬ل‬
‫کررہے ہوں‪ ،‬پھر دونوں کی نشست گاہیں بھی ای‪LL‬ک س‪LL‬اتھ ہ‪LL‬وں اور ان س‪LL‬ب پ‪LL‬ر ط‪LL‬رفہ یہ کہ عری‪LL‬اں ونیم‬
‫عریاں بازو‪ ،‬لب ہائے گلگوں‪ ،‬چمکتے ہوئے عارض‪ ،‬چشم ہائے نیم باز‪ ،‬بکھری ہوئی زلفیں؛ بلکہ س‪LL‬ارا‬
‫ش‪L‬وق نظ‪L‬ارہ ک‪L‬و ص‪L‬بر‬ ‫ِ‬ ‫ذوق دی‪L‬د اور‬
‫ِ‬ ‫سراپا ”انا البرق“‪ L‬کا منظر پیش کررہا‪ L‬ہو‪،‬ت‪L‬و کی‪L‬ا فری‪L‬ق‪ L‬مقاب‪L‬ل اپ‪L‬نے‬
‫وشکیبائی‪ L‬کا رہین رکھے گا یا بے تابانہ اپ‪LL‬نی نگ‪LL‬اہوں کی تش‪LL‬نگی دور ک‪LL‬رنے کی س‪LL‬وچے گ‪LL‬ا؟ پھ‪LL‬ر جب‬
‫ت نظ‪LL‬ارہ دے رہ‪LL‬ا ہ‪LL‬و‪ ،‬ت‪LL‬و اس کی دی‪LL‬د کی پی‪LL‬اس بجھے گی‬ ‫جما ِل جہاں آرا پوری‪ L‬تابانیوں کے س‪LL‬اتھ دع‪LL‬و ِ‬
‫‪L‬وق دی‪LL‬دار ”ہَ‪LL‬لْ‬
‫کیوں؟ وہ تواور‪ L‬تیز تر ہوجائے گی اور جام پر جام چڑھائے جانے کے باوصف‪ L‬اس کا ش‪ِ L‬‬
‫ِم ْن َم ِزید“ کی صدائے مسلسل لگائے گا۔‬

‫ساقی‪ L‬جو دیے جائے یہ کہہ کر کہ پیے جا‬

‫تو میں بھی پیے جاؤں یہ کہہ کر کہ دیے جا‬

‫اور شیطان ایسے موقعوں پر کبھی نہیں چوکتا‪ ،‬جب اس ک‪LL‬ا ش‪LL‬کار پ‪LL‬وری‪ L‬ط‪LL‬رح اس کے قبض‪LL‬ے‬
‫میں آجائے؛ چنانچہ معاملہ صرف دید ہی تک محدود رہ جائے‪ ،‬یہ ن‪LL‬اممکن ہے‪ ،‬اس س‪LL‬ے بھی آگے ب‪LL‬ڑھ‬
‫کر گفت وشنید‪ L‬تک پہنچتا ہے‪ ،‬پھر بوس وکنار اورہم‪ L‬آغوش ہونے اور باآلخر وہ‪LL‬اں ت‪LL‬ک پہنچ ک‪LL‬ر دم لیت‪LL‬ا‬
‫ہے‪ ،‬جس کے بیان سے ناطقہ سربہ گریباں اور خامہ انگشت بہ دنداں ہے اور اس قسم‪ L‬کے حادثات کوئی‬
‫ضروری‪ L‬نہیں کہ یونیورسٹیز اور کالجز کے احاطوں ہی میں رونما ہوں؛ بلکہ رسل ورس‪LL‬ائل‪ L‬اورآئے دن‬
‫کے مشاہدات یہ ثابت کرتے ہیں کہ کالجز کے کالس روم‪ ،‬شہروں کے پارک اور پبلک مقام‪L‬ات ت‪LL‬ک کی‬
‫بھی کوئی‪ L‬قید نہیں ہے۔‪#‬‬

‫چراغ محفل‬
‫ِ‬ ‫نالہ دل‪ ،‬دو ِد‬
‫بوئے گل‪ ،‬ٴ‬
‫جو تری بزم سے نکال‪ ،‬سو پریشاں نکال‬

‫پس چہ باید کرد؟‬

‫‪          ‬ایسے پر آشوب اورہالکت خیز ماحول میں بھی اگر ہوش کے ناخن نہ لیے گئے‪ ،‬اور لڑکوں کے‬
‫ساتھ لڑکیوں کو بھی ” ُمثَقَّف“ اور ”روشن خیال“ بنانے کا مخل‪LL‬وط ط‪ L‬ٴ‬
‫‪L‬ریقہ ک‪LL‬ار ی‪LL‬وں ہی برق‪LL‬رار رہ‪LL‬ا‪ ،‬ت‪LL‬و‬
‫ت حوا کی عزت وناموس‪ L‬کی پامالی کی خبرنو لے کرآئے گا اور پھر دنی‪LL‬ا‬ ‫ہرنیاطلوع‪ L‬ہونے واال سورج بن ِ‬
‫بہ چشم ع‪LL‬برت نگ‪LL‬اہ دیکھے گی کہ وہ مقام‪LL‬ات‪ ،‬ج‪LL‬و انس‪LL‬ان ک‪LL‬و تہ‪LL‬ذیب وشائس‪LL‬تگی اور انس‪LL‬انیت ک‪LL‬ا درس‬
‫دینے‪ ،‬ق‪LL‬وم‪ L‬ووطن کے ج‪LL‬اں س‪LL‬پار خ‪LL‬ادم اور معاش‪LL‬رے کے مع‪LL‬زز‪ L‬وکامی‪LL‬اب اف‪LL‬راد تی‪LL‬ار ک‪LL‬رنے کے ل‪LL‬یے‬
‫منتخب کیے گئے تھے؛ محض حیوانیت وبہیمیت اور شہوت رانی وہوس کاری کے اڈے بن کر رہ گئے۔‬
‫(القَ َّدر ہّٰللا ذلک)‬

‫خواتین کو تعلیم دی جائے‪ ،‬اسالم قطعا ً اس کی مخ‪LL‬الفت نہیں کرت‪LL‬ا؛ بلکہ وہ ت‪LL‬و اس کی ح‪LL‬د درجہ‬
‫تاکی‪LL‬د کرت‪LL‬ا ہے‪ ،‬جیس‪LL‬اکہ ماقب‪LL‬ل میں بتایاگی‪LL‬ا؛ لیکن یہ ملح‪LL‬وظ‪ L‬رہے کہ ان کی تعلیم وہی ہ‪LL‬و‪ ،‬ج‪LL‬و ان کی‬
‫ت فک‪LL‬ر وادراک کے مناس‪LL‬ب ہ‪LL‬و اور ان کی عفت کی حف‪LL‬اظت میں‬ ‫فط‪LL‬رت‪ ،‬ان کی لی‪LL‬اقت اور ان کی ق‪LL‬و ِ‬
‫ممدومعاون ہو‪ ،‬نہ کہ ایسی تعلیم‪ ،‬جو انھیں زمرئہ نس‪LL‬واں ہی س‪LL‬ے خ‪LL‬ارج ک‪LL‬ردے اور ش‪LL‬یاطینُ االنس کی‬
‫تعالی سود وزیاں کی صحیح فہم کی توفیق بخشے۔ (آمین)‬ ‫ٰ‬ ‫درندگی کی بھینٹ چڑھا دے‪ ،‬ہللا‬

‫***‬
‫حواشی‬

‫(‪         )۱‬ص‪LL‬حیح بخ‪LL‬اری‪ ،‬کت‪LL‬اب العلم‪ ،‬ب‪LL‬اب تعلیم الرج‪LL‬ل امتہ واہلہ‪ ،‬ج‪ ،۱:‬ص‪ ،۲۰:‬ص‪LL‬حیح مس‪LL‬لم‪،‬‬
‫کتاب االیمان‪ ،‬باب وجوب االیمان برسالة نبینا الخ‪ ،‬ج‪ ،۱:‬ص‪۸۶:‬۔‬

‫(‪        )۲‬مرقات‪ ،‬مال علی قاری‪ ،‬ج‪،۱:‬ص‪۷۹:‬۔‬

‫(‪        )۳‬فتوح البلدان‪ ،‬بالذری‪ ،‬ج‪،۱:‬ص‪۴۵۸:‬۔‬

‫(‪        )۴‬صحیح بخاری‪ ،‬کتاب العلم‪ ،‬باب ہل یجعل للنساء یوما علی حدة فی العلم ج‪،۱:‬ص‪۵۷:‬۔‬

‫(‪        )۵‬االستیعاب‪ ،‬ابن عبدالبر‪ ،‬ج‪،۲:‬ص‪۷۲۶:‬۔‬

‫(‪        )۶‬االستیعاب‪ ،‬ابن عبدالبر‪ ،‬ج‪،۲:‬ص‪۷۵۶:‬۔‬


‫(‪        )۷‬تہذیب التہذیب‪ ،‬ابن حجر عسقالنی‪ ‬ج‪ ،۱۱:‬ص‪۴۰۹:‬۔‬

‫(‪        )۸‬االستیعاب‪ ،‬ابن عبدالبر‪ ،‬ج‪،۲:‬ص‪۷۶۰:‬۔‬

‫(‪        )۹‬تہذیب التہذیب‪ ،‬ابن حجر عسقالنی‪ ،‬ج‪ ،۱۱:‬ص‪۴۰۹:‬۔‬

‫(‪       )۱۰‬صفة الصفوہ‪ ،‬ابوالفرج عبدالرحمن ابن الجوزی‪ ،‬ج‪،۴:‬ص‪۱۶:‬۔‬

‫(‪        )۱۱‬تاریخ اسالم کی چار سو باکمال خواتین‪ ،‬طالب الہاشمی ص‪۱۲۳-۱۲۲:‬۔‬

‫(‪       )۱۲‬کنزل العمال‪ ،‬باب اللہو واللعب والغنی‪ ،‬حدیث‪۴۰۶۱۱:‬۔‬

‫(‪       )۱۳‬سورئہ نساء آیت‪۳۲:‬۔‬

‫(‪       )۱۴‬مجمع الزوائد‪ ،‬نورالدین ہیثمی‪ ،‬ج‪ ،۴:‬ص‪۳۲۷:‬۔‬

‫(‪        )۱۵‬صحیح بخاری‪ ،‬کتاب اللباس‪ ،‬باب المتشبہین بالنساء والمتشبہات بالرجال‪ ،‬ج‪ ،۲:‬ص‪۸۷۴:‬۔‬

‫ت فکر اقبال‪ ،‬عالمہ اقبال‪ ،‬ص‪۱۴۷:‬۔‬


‫(‪       )۱۶‬شذرا ِ‬
‫روزگار فقیر‪ ،‬ج‪ ،۱:‬ص‪۱۶۶:‬۔‬
‫ِ‬ ‫(‪       )۱۷‬‬

‫(‪       )۱۸‬ص‪۸۵:‬۔‬

‫(‪       )۱۹‬ص‪۲۰۸:‬۔‬

‫(‪       )۲۰‬اکبرنامہ‪ ،‬عبدالماجد دریابادی‪ ،‬ص‪ ، ۱۰۷-۱۰۵ :‬و‪ ۱۱۳-۱۱۰ ‬ملخصاً۔‬

‫(‪       )۲۱‬النور آیت‪۵۸ :‬۔‬

‫یومر من غض البصر‪ ،‬ج‪ ،۱:‬ص‪ ،۲۹۲:‬صحیح مسلم‪،‬‬


‫(‪       )۲۲‬سنن ابی داؤد‪ ،‬کتاب النکاح‪ ،‬باب ما ٴ‬
‫کتاب األدب‪ ،‬باب نظر الفجاء ة‪ ،‬ج‪ ،۲:‬ص‪۲۱۲:‬۔‬

‫مایومر من غض البصر‪ ،‬ج‪ ،۱:‬ص‪۲۹۲:‬۔‬


‫(‪ )۲۳‬سنن ابی داؤد‪ ،‬کتاب النکاح‪ ،‬باب ٴ‬
‫(‪ )۲۴‬سنن ترمذی‪ ،‬ابواب االستیذان واألدب‪ ،‬باب م‪L‬ا ج‪L‬اء فی احتج‪L‬اب النس‪LL‬اء من الرج‪LL‬ال‪ ،‬ج‪ ،۲:‬ص‪:‬‬
‫‪۱۰۶‬۔‬

‫(‪      )۲۵‬صحیح بخاری‪ ،‬کتاب العلم‪ ،‬باب عظة النساء وتعلیمہن‪ ،‬ج‪،۱:‬ص‪۲۰:‬۔ ص‪LL‬حیح مس‪LL‬لم‪ ،‬کت‪LL‬اب‬
‫ٰ‬
‫الصلوة قبل الخطبة‪ ،‬ج‪،۱:‬ص‪۲۸۹:‬۔‬ ‫صلوة العیدین‪ ،‬فصل فی‬

‫(‪       )۲۶‬سنن ابی داؤد‪ ،‬کتاب األدب‪ ،‬باب فی مشی النساء فی الطریق‪ ،‬ج‪ ،۲:‬ص‪۷۱۴:‬۔‬

‫(‪      )۲۷‬خ‪LL‬واتین اس‪LL‬الم کی دی‪LL‬نی وعلمی خ‪LL‬دمات‪ ،‬قاض‪LL‬ی اطہ‪LL‬ر مب‪LL‬ارک پ‪LL‬وری‪ ،‬ص‪ ،۲۳:‬ت‪LL‬اریخ‬
‫جرجان‪ ،‬امام سہمی‪ ،‬ص‪۴۶۳:‬۔‬
‫(‪       )۲۸‬خواتین اسالم کی دینی وعلمی خدمات‪ ،‬قاضی اطہر مبارک پوری‪ ،‬ص‪۳۳:‬۔‬

‫ابواالعلی مودودی‪ ،‬ص‪۵۴:‬۔‬


‫ٰ‬ ‫(‪       )۲۹‬پردہ‪ ،‬سید‬

‫افکار عالم‪ ،‬اسیر ادروی‪ ،‬ج‪ ،۱:‬ص‪۲۲۶:‬۔‬


‫ِ‬ ‫(‪      )۳۰‬فریب تمدن‪،‬اکرام ہللا ایم اے‪ ،‬ص‪،۱۵۸:‬‬

‫صدق جدید‪ ،‬عبدالماجد دریاب‪LL‬ادی‪/، ۲۶‬دس‪LL‬مبر‪ ،/۱۹۶۰ ‬ف‪LL‬ریب تم‪LL‬دن‪ ،‬اک‪LL‬رام ہللا ایم ایے‪،‬‬
‫ِ‬ ‫(‪       )۳۱‬‬
‫‪،‬افکار عالم‪ ،‬اسیرادروی ج‪،۱:‬ص‪۲۲۸:‬۔‬ ‫ِ‬ ‫ص‪۱۸۷:‬‬

‫(‪ )۳۲‬صدق جدی‪L‬د‪ ،‬عبدالماج‪L‬د دریاب‪L‬ادی‪/، ۶‬جن‪L‬وری‪ ،/۱۹۵۶ ‬ف‪L‬ریب تم‪L‬دن‪ ،‬اک‪L‬رام ہللا ایم اے‪ ،‬ص‪:‬‬
‫افکار عالم‪ ،‬اسیرادروی‪ ،‬ج‪،۱:‬ص‪:‬‬
‫ِ‬ ‫‪،۱۸۹‬‬

‫‪۲۲۹‬‬

‫تعلیم نسواں‪:‬‬
‫آپ ﷺ کی ازواج مطہرات عورتوں کی تعلیم کا اہم ذریعہ بن گئیں۔ خاص طور پر‪ ‬‬
‫عائشہ نے عورتوں کی تعلیم کا اہتمام فرمایا۔ آپ ﷺ نے ان کے بارے میں‬
‫ؓ‬ ‫حضرت‬
‫‪:‬ارشاد فرمایا‪L‬‬
‫[‪]44‬‬
‫خذو نصف دینکم عن الحمیرا۔‬
‫عائشہ) سے سیکھو۔"‬
‫ؓ‬ ‫"نصف دین تم حمیرا (حضرت‬
‫آپ سے علمی فیض‬
‫عائشہ سے تعلیم پاتی تھیں بلکہ صحابہ کرام بھی ؓ‬
‫ؓ‬ ‫لہٰذا نہ صرف‪ L‬عورتیں حضرت‬
‫‪:‬پاتے تھے۔ چنانچہ مسروق‪ L‬کہتے ہیں‬
‫[‪]45‬‬
‫وهللا لقد رأیت اصحاب محمد ﷺ االکابر یسالونها عن الفرائض۔‬
‫عائشہ سے) سے علم الفرائض کے"‬
‫ؓ‬ ‫کرام کو (حضرت‬
‫خدا کی قسم میں نے بہت پڑھے لکھے صحابہ ؓ‬
‫"بارے میں سواالت کرتے ہوئے دیکھا۔‬
‫عورتوں کو نماز جمعہ میں شریک کیا جاتا تھا تاکہ وہ مسائل سیکھ سکیں۔ آنحضور ﷺ‬
‫کے ان ہی احکامات و ترغیبات کی بناء پر علماء اسالم نے عورت کی تعلیم کو باقاعدہ قانونی حیثیت‬
‫دے دی۔‬
‫‪:‬حوالہ جات‬

‫‪1.‬‬ ‫عبدالحئی بن العماد‪،‬شدرات الذھب فی اخبار من ذھب‪ ،‬الجزء االوّل( دارالفکر ‪ ،‬بیروت‪،‬‬
‫‪۱۹۸۸‬م)‪ ،‬ص‪۶۲ :‬‬
‫‪2.‬‬ ‫ذہبی‪ ،‬شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان‪ ،‬سیرا عالم النبالء(مؤسسۃ الرسالۃ‪↑ ،‬‬
‫بیروت ‪۱۹۹۳،‬م)‪۱۸۱ /۱،‬۔‪۱۸۲‬‬

‫‪ :‬معلم و متعلم کے تعلقات‬


‫اسالم میں عالم اور متعلم دو الگ شخصیتیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی شخصیت کےد و پہلو‬
‫ہیں۔ ہر عالم کے لیے الزمی ہے کہ وہ معلم بھی ہو‪ ،‬اس کے پاس جو علم ہے اس کو‬
‫دوسروں تک پہنچائے ورنہ وہ کتمان علم کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوگا۔‬
‫اعلی تھے۔ اکابر صحابہ تعلیم و‬
‫ٰ‬ ‫اسالمی نظام تعلیم میں آپ ﷺ پہلے معلم‬
‫تربیت کے فریضہ کی انجام دہی میں ان کے معاون تھے‪ ،‬معلمین شفیق و رحیم تھے۔‬
‫غفاری جیسے‬
‫ؓ‬ ‫فارسی اور ابوذر‬
‫ؓ‬ ‫شاگرد مؤدب و فرمانبردار تھے۔ ان میں حضرت سلیمان‬
‫مرتضی جیسے عالم اور فقیہ‬‫ٰؓ‬ ‫ؓ‬
‫مسعود اور علی‬ ‫زاہد اور خرقہ پوش تھے۔ حضرت عبدہللا بن‬
‫ؓ‬
‫صدیق‬ ‫العاص اور خالد بن ؓ‬
‫ولید جیسے فاتح اور مجاہد تھے۔ ابوبکر‬ ‫ؓ‬ ‫تھے۔ حضرت عمرو بن‬
‫فاروق جیسے دنیا کے جہاں بان اور ملکوں کے فرمانروا تھے۔ یہاں ہر رنگ اور‬ ‫ؓ‬ ‫اور عمر‬
‫ہر مذاق کے طالب علم تھے اور مسجد نبوی ﷺ ایک جامع اور عمومی‬
‫درسگاہ تھی جہاں ذوق‪ ،‬مناسب طبع اور استعداد کے لحاظ سے سب لوگوں کو تعلیم مل‬
‫[‪]22‬‬
‫رہی تھی۔‬
‫مسلمان اساتذہ نے ہمیشہ طلبہ کی فضیلت علمی اور سیرت سازی دونوں پہلوؤں کو مدنظر‬
‫رکھتے ہوئے ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ مسلمان اساتذہ کا کردار مثالی تھا۔ دوسری‬
‫طرف مسلمان طلبہ بھی اپنے اساتذہ سے بے پناہ عقیدت اور محبت رکھتے تھے اور وہ‬
‫بالشبہ سعادت مندی‪ ،‬جفا کشی اور علم دوستی کا مظہر تھے۔ اسالمی نظام تعلیم میں استاد‬
‫اور شاگرد کے تعلق سے پیدا ہونے والے مثبت ثمرات کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر‬
‫‪:‬خورشید احمد لکھتے ہیں‬
‫اس نظام میں صرف استاد اور شاگرد میں قلبی تعلق ہی نہیں تھا بلکہ استاد طلبہ کے "‬
‫تزکیہ نفس اور اصالح باطن کی فکر بھی کرتے تھے اور انہیں ہر وقت یہ خیال دامن گیر‬
‫رہتا تھا کہ طلبا کا معیار علم ہی بلند نہ ہو بلکہ ان کا معیار اخالق بھی بلند ہو اور وہ اچھے‬
‫ٰ‬
‫تقوی‪ ،‬ایفائے عہد‪ ،‬عفت و‬ ‫انسان اور اچھے مسلمان بن کر نکلیں۔ اگر اس معاشرے میں‬
‫عصمت‪ ،‬ایثار و قربانی‪ ،‬صلہ رحمی‪ ،‬اخالق و مر ّوت اور ہمدردی و اخوت کا دور دورہ‬
‫[‪]23‬‬
‫تھا تو اس کی وجہ یہی تھی کہ تعلیم ایک اخالق ساز قوت کا کردار ادا کرتی تھی۔"‬
‫استاد اور شاگرد کے درمیان ذاتی تعلق کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے پروفیسر حمید احمد‬
‫‪:‬خان لکھتے ہیں‬
‫استاد کے لیے الزم ہے کہ اپنے شاگردوں میں سے ہر ایک فرد بشر کو بطور ایک فرد "‬
‫کے پہچانے اور یہ پہچان بجز صحیح ہمدردی کے حاصل نہیں ہوتی۔ دلی شفقت اور‬
‫موانست کے بغیر استاد اور شاگرد کا رشتہ‪ ،‬خواہ اس میں کتنی ہی مقدار علم داخل کیا‬
‫جائے‪ ،‬کھوکھال اور مصنوعی رہتا ہے۔ تعلیم کی بنیاد لفظوں کے ڈھیر پر نہیں‪ ،‬ایک ذاتی‬
‫[‪]24‬‬
‫تعلق پر قائم ہوتی ہے۔"‬
‫اسالمی نظام تعلیم میں استاد اور شاگرد کے تعلق کی نوعیت کو واضح کرتے ہوئے خرم‬
‫‪:‬جاہ مراد لکھتے ہیں‬
‫مسلمانوں کے نظام تعلیم کی ہمیشہ یہ خصوصیت رہی کہ اس میں استاد اور شاگرد کے "‬
‫درمیان ذاتی تعلق رہا۔ استاد شاگرد کی ذات سے گہری دلچسپی رکھتا تھا اور بڑی بڑی‬
‫کالسوں کے باوجود استاد صرف لیکچر دے کر نہ چال جاتا تھا بلکہ اس انسانی مواد میں‬
‫[‪]25‬‬
‫پوری دلچسپی لیتا تھا جس کی حیثیت اس کے لیے ایک امانت تھی۔"‬
‫معلم کا منصب پیغمبرانہ منصب ہے۔ اس کی ذمہ داری بڑی عظیم ذمہ داری ہے۔ پیغمبر‬
‫اپنے کام پر اجر طلب نہیں کرتے۔ صاحب مال معلمین کے لیے پسندیدہ یہی ہے کہ وہ‬
‫‪:‬مشاہرہ نہ لیں۔ معلم کے اوصاف بیان کرتے ہوئے امام غزالی فرماتے ہیں‬
‫شاگردوں کی خیر خواہی اور رہنمائی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے‪ ،‬اپنی اوالد کی طرح "‬
‫سمجھے‪ ،‬برائیوں سے روکنے کے لیے پیار و محبت کا طریقہ اختیار کرے‪ ،‬طلباء کے‬
‫سامنے اپنے مضمون کے مقابلے میں دوسرے مضامین کی بُرائی نہ کرے‪ ،‬اپنے علم کے‬
‫مطابق عدل کرے۔ مؤثر تدریسی عمل کے لیے ضروری ہے کہ معلم سبق اچھی طرح تیار‬
‫[‪]26‬‬
‫کرکے آئے۔"‬
‫سرکار رسالت ﷺ کی حکمت تعلیم کا ایک الزمی تقاضا یہ ہے کہ جس‬
‫طرح معلم کو متعلمین کے ساتھ محبت و شفقت کا برتاؤ کرنا چاہیے‪ ،‬اسی طرح متعلمین‬
‫کے لیے الزم ہے کہ وہ معلم کا ادب و احترام کریں۔‬
‫[‪]27‬‬
‫وتواضعو لمن تعلمون منه۔‬
‫"جس سے علم حاصل کرو‪ ،‬اس سے عاجزی سے پیش آؤ۔"‬
‫اس ہدایت کا یہ تقاضا از خود مضمر ہے کہ معلم بلحاظ قابلیت‪ ،‬کردار اور معلمانہ روش‬
‫کے ایسے اوصاف کا متصف ہو۔‬
‫‪1.‬‬ ‫ص‪ :‬‬ ‫محمد مصلح الدین‪ ،‬اسالمی تعلیم اور اس کی سرگزشت(اسالمک پبلی کیشنز ‪ ،‬الہور ‪۱۹۸۸،‬ء)‬
‫‪۱۶‬‬
‫‪2.‬‬ ‫شبیر احمد جامعی‪ ،‬پروفیسر‪ ،‬تفہیم االسالم(سبحان بک سنٹر‪ ،‬بہاولپور‪۲۰۰۵،‬ء)‪،‬ص‪۵۸۷ :‬۔‪↑ ۵۹۰‬‬
‫‪3.‬‬ ‫خورشید احمد‪ ،‬پروفیسر‪ ،‬اسالمی نظریہ حیات‪،‬ص‪↑ ۴۴۴ :‬‬
‫‪4.‬‬ ‫حمید احمد خان‪ ،‬پروفیسر‪،‬تعلیم و تہذیب( مجلس ترقی ادب ‪،‬الہور‪۱۹۷۵،‬ء)‪ ،‬ص‪↑ ۲۴۱ :‬‬
‫‪5.‬‬ ‫خرم جاہ مراد‪ ،‬احیائے علوم اسالمیہ اور تعلیم (تحقیق تنظیم اساتذہ پاکستان ‪ ،‬الہور‪۱۹۸۱،‬ء)‪ ،‬ص‪↑ :‬‬
‫‪۴۱‬‬
‫‪6.‬‬ ‫الغزالی‪،‬محمد بن محمد ‪ ،‬احیاء علوم الدین( ترجمہ ‪:‬مذاق العارفین‪،‬مترجم‪:‬محمد‪ L‬احسن صدیقی(شیخ ‪↑ ‬‬
‫غالم حسین اینڈ سنز ‪،‬الہور‪،‬س۔ن)‪ ،‬ص‪۷۴ :‬‬
‫‪7.‬‬ ‫مناوی ‪،‬عبد الرؤف‪ ،‬فیض القدیر شرح الجامع الصغیر(دارالمعرفہ‪،‬بیروت‪،‬س۔ن)‪،‬حدیث‪↑ :‬‬
‫‪۲۳۸۱،۲/۲۸۳‬‬
‫‪8.‬‬ ‫خورشید احمد‪ ،‬پروفیسر‪ ،‬نظام تعلیم‪ :‬نظریہ‪ ،‬روایت‪ ،‬مسائل(انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‪ ،‬اسالم آ‪↑ ‬‬

You might also like