You are on page 1of 8

‫استاد کی سختی باپ کی محبت سے بہتر ہے‬

‫اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو استاد کی حیثت ‪،‬اہمت اور مقام‬
‫مسلم ہے۔ کیونکہ استاد ہی نو نہاالن قوم کی تربیت کا ضامن ہوتا ہے۔ استاد‬
‫ہی قوم کے نو نہاالن‪ 4‬اور نوجوانوں کی اخالقی اور روحانی تربیت کرتا ہے۔‬
‫وہاں وہ ان کے مختلف علمی‪ ،‬سائنسی ‪،‬فنی اور پیشہ ورانہ مہارتوں کا‬
‫سامان کرتا ہے۔ والدین بچےکی جسمانی پرورش کرتے ہیں جبکہ استاد کے‬
‫ذمے بچے کی روحانی پرورش ہوتی ہے۔ اس سے استاد کی حثیت اور‬
‫اہمیت والدین سے کسی طرح کم نہیں بلکہ ایک لحاظ سے بڑھ کر ہے۔‬
‫کیونکہ روح کو جسم پر فوقیت حاصل ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔‬
‫ترجمہ‪  :‬پیغمبر انہیں کتا ب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور تمہیں وہ سب‬
‫کچھ سکھاتے ہیں جو تم نہیں جانتے تھے۔‬
‫ارشاد نبوی ﷺ ہےکہ "انما بعثت معلما"‪4‬‬
‫ترجمہ‪ :‬بے شک میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‬
‫حضرت علی رضی ہللا عنہ کا قول ہے کہ جس شخص نے مجھے ایک لفظ‬
‫سکھایا وہ میرا استاد ہے اور میں اس کا غالم ہوں ۔ چاہے وہ مجھے بیچ دے‬
‫یا آزاد کر دے۔ پھر فرمایا ۔ ہم خدا کی اس تقسیم پر راضی ہیں کہ اس نے‬
‫ہمیں علم دیا اور جاہلوں کو دولت کیونکہ دولت عنقریب فنا ہو جائے گی اور‬
‫غزالی آسمان علم و فضل کے درخشندہ ستارے ہیں وہ‬ ‫ؒ‬ ‫علم ال زوال ہے۔ امام‬
‫لکھتے ہین کہ جب تک تم اپناسب کچھ علم کو نہ دے ڈالو علم تمہیں اپنا‬
‫اقبال‬
‫ؒ‬ ‫کوئی حصہ نہ دے گا۔ لیکن آج کل تو بقول‬
‫رہ گئی رسم آذاں روح باللی نہ رہی‬
‫فلسفہ‪  ‬رہ گیا تلقین غزالی‪     ‬نہ‪     ‬رہی‬
‫مزید پڑھئے‪ :‬والدین کی اطاعت‬
‫مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے دیکھا کہ اس کے بیٹے مامون‪ 4‬اور‬
‫امین اس‪  ‬بات پر جھگڑ رہے تھے کہ استاد کے جوتے کون اٹھائے ۔آخر استاد‬
‫کے کہنے پر وہ ایک ایک جوتا اٹھاالئے اور اگلے روز دربار مین یہ سوال کیا گیا‬
‫کہ آج سب سے زیادہ عزت کس کی ہےسب نے کہا کہ خلیفہ کی عزت‬
‫سب سے زیادہ ہے۔ لیکن خلیفہ نے بتایا کہ آج سب سے زیادہ عزت استاد‬
‫کی ہے جس کے جوتےاٹھا نے میں شہزادے فخر محسوس کرتے ہیں۔‬
‫اقبال کے استاد تھے۔ عالمہ اپنے‬‫ؒ‬ ‫حسن عالمہ‬
‫ؒ‬ ‫شمس العلماء مولوی میر‬
‫استاد کا بے حد احترام کرتے تھے آپ ہی کے مشورے پر حکومت نے مولوی‬
‫صاحب کو شمس العلماء کا خطاب دیا گیا۔ جب حکومت نے پوچھا کہ مولوی‬
‫صاحب نے کون سی کتاب لکھی ہے؟ تو عالمہ اقبال‪ ؒ ‬نے جواب دیا کہ ان کی‬
‫اقبال اپنے چند دوستوں کے ہمراہ‬ ‫ؒ‬ ‫زندہ کتاب میں خود ہوں ۔ اک دفعہ عالمہ‬
‫سیالکوٹ کے بازار مین اس حالت مین بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک پاؤں میں‬
‫جاوتا تھا اور دوسرے پاؤن میں نہیں تھا۔‪ 4‬اچانک عالمہ نے دور سے مولوی‬
‫صاحب کو دیکھا ۔ وہ اسی حالت مین دوڑ کر ان کے پاس گئے ان کو سالم‬
‫کیا اور نہایت مودبانہ انداز مین ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ یہاں تک کہ‬
‫نولوی صاحب کو ان کے کھر پہنچا کر واپس اپنے دوستوں میں آگئے۔‬
‫انسان جس سے جو کچھ بھی سیکھے اس کا احترام فرض ہے۔ اسگر‬
‫سیکھنے واال سکھانے والے کا احترام نہیں کرتا تو وہ علم محض رٹا ہے۔بے‬
‫معرفت ہے۔ صرف گفتار کی دولت ہے۔ اعمال کا حسن نہیں ۔اور وہ علم جو‬
‫عمل سے بیگانہ ہو بے سود ہے۔ علم کسی بھی نوعیت کا ہو ۔دینی ہو یا‬
‫دنیاوی ہو یا گفتاری عطا کرنے واال ۔بہرحال قابل عزت ہے۔ اور جب تک ادب و‬
‫احترام کا جذبہ دل کی گہرائیوں سے نہین پھوٹے گا اس وقت تک نہ تو علم‬
‫کا گلزار مہک سکے گا اور نہ وہ علم سیکھنے والے کے قلب و نظر کو نورانی‬
‫بنا سکے گا۔ باق تمام چیزیں اسان بنا تا ہے۔ اور انسان کو معلم بناتا ہے۔اس‬
‫لیے اس کا کام دنیا کے تمام کاموں سے زیادہ اہم ‪،‬مشکل اور قابل قدر ہے۔‬
‫استاد اور شاگرد کا رشتہ ‪،‬روحانی رشتہ ہے۔ یہ تعلق دل کے گرد کھومتا ہے‬
‫اور دل کے افق محبت واردات کی کہکشاں سے نکھرتا ہے۔‬
‫خموش اے دل بھری محفل مین چِالنا نہیں اچھا‪ ‬‬
‫ادب پہال قرینہ‪     ‬ہے‪    ‬محبت کے‪    ‬قرینوں‪    ‬میں‬
‫رسول پاک ﷺنے خود کو معلم فرمایا‬
‫آپﷺ کے شاگرد یعنی آپ ﷺ کے صحابہ‬
‫کرام آپﷺ کا احترام اس قدر کرتے تھے کہ دنیائے عا لم‬
‫کی تاریخ ایسی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ وہ خود کو سانپ سے‬
‫ڈسوا لیتے تھے مگر آپ ﷺ کے آرام میں خلل نہیں آنے‬
‫دیتے تھے۔ حضورﷺ کے وضو‪  ‬سے گرنے والے پانی کو‬
‫ذمیں پر نہ گرنے دیتے تھے اپنے چہروں پر مل لیتے تھے۔ اور میدان جنگ‬
‫میں خود کو ان کی ڈھال بنا لیتے تھے۔‪ ‬‬
‫مزید پڑھئے‪ :‬حب وطن یا وطن سے محبت‬
‫خلیفہ ہاران الرشید نے معلم وقت امام مالک سے درخواست کی کہ وہ‬
‫مالک نے فرمایا"علم لوگوں کے پاس نہیں جایا کرتا۔‬ ‫ؒ‬ ‫انہیں پڑھایا کریں ‪ ،‬امام‬
‫تم‪  ‬کچھ سیکھنا چا ہتے ہو تو میر ے حلقہ احباب میں آ سکتے ہو۔ خلیفہ آیا‬
‫اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ عظیم معلم نے ڈانٹ پالئی اور فرمایا کہ‬
‫خدا کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ بوڑھے اور اہل علم مسلمان کا‬
‫احترام کیا جائے۔ اور یہ سنتے ہی خلیفہ شاگرد انہ انداز میں کھڑا ہو گیا۔‬
‫جو لوگ استا د کا احترام کرتے ہیں تو ان کے لئے ان کا علم نور بن جاتا ہے۔‬
‫اور ان کی دینوی اور روحانی ظلمتوں کو چاند کی چاندنی اور پھولوں کی‬
‫مہک عطا ہوتی ہے۔ عزت ہللا پاک کی عطا ہوتی ہے کسی انسان‪ 4‬کی دین‬
‫نہیں ۔یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ احترام استاد سے شاگرد اپنے حسب‬
‫ونسب کی عزت کا اظہار‪ 4‬کرتا ہے۔‬
‫حضرت علی رضی ہللا عنہ کا قول ہے کہ ' علم معزز لوگوں مین وجہ عزت ہوتا‬
‫ہےاور جاہلوں میں دہی علم توہین کا باعث بن جاتا ہے۔ جس طرح پانی کا‬
‫قطرہ سانپ‪  ‬کے منہ مین چال جائے تو زہر بن جاتا ہے اور صدف مین داخل ہو‬
‫جسئے تو موتی بن جاتا ہے۔ گویایہ انسان کا اپنا رویہ اپنابرتاؤ اور اپنا کردار‬
‫ہے کہ چاہے تو وہ علم کو اپنے لیے تور کا سمندر بنا لے اور چاہے تو علم کو‬
‫غرور تکبر کا باعث بنا کر ابو جہل بن جاے تعظیم میں عظمت ہے جو شاخ‬
‫چھک جاتی ہے اسی پر پھل لگتا ہے۔ اور صراحی سر نیچا کرکے ہی جام کو‬
‫سیراب کرتی ہے۔ گویا جو شاگرد استاد کے حضور جھکتا ہے وہی علم کے‬
‫نور کو بھیالنے کا حق دار قرار پا یا ہے۔‬
‫جو عالی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں‬
‫صراحی سرنگوں‪    ‬ہو‪    ‬کر‪    ‬بھرا‪    ‬کرتی‪    ‬ہے‪    ‬پیمانہ‬
‫استاد ایک ہوتا ہے اور شاگرد کا ماحول بھی ایک ہے اور درس بھی ایک اور‬
‫کتاب بھی ایک مگر کوئی شاگرد علم و فضیلت کی کہکشاں کا ستارہ بن‬
‫جاتا ہے۔ اور کوئی اپنا رزق خاک راہ میں تالش کرتا ہے۔دینے والے کی توجہ‬
‫اور استاد کا فیض لینے والے کے ظرف کے مطابق گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے۔ اگر‬
‫زمین ہی بنجر ہو تو پانی دینے والے کی ہر کاوش ناکام ہو جاتی ہے اور اگر‬
‫ذرا نم ہو اور اکتساب کی صالحیت ہو تو ذرخیز گلزار بن جاتی ہے۔ یہ تو محض‬
‫اس دنیا کی بات ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ استاد کی دعا ہے تو اخروی‬
‫زندگی مین بھی نکھار آجاتا ہے۔‬
‫استاد باغبان ریاض نجات ہے۔ کتاب صرف معلوبات کا بیش بہا ذریعہ ہے مگر‬
‫یہ استاد کی ذات ہے جو تعلیم دیتی ہے۔ تعلیم صرف نصاب رٹا دینے کا نام‬
‫نہین بلکہ یہ تعلیم و تربیت ہےاور تزکیہ بھی استاد اپنی روھ اپنے شاگردوں‬
‫مین پھونک دیتا وہ اخالق وکردار کی عظمت کا چلتا برتا پیکر ہوتا ہے۔ اسے‬
‫دیکھ کر تقدس جاگتااور احترام کود بخود ابھرتا ہے۔ اس کا عمل اس کے علم‬
‫کا آئینہ ہوتا اور اس کی روشنی مین شاگردون کے اخالق سنوارتا اور کردار‬
‫نکھارتا ہے۔ استاد کی ہر بات ہر عمل اس کے علم کا آئینہ ہوتا ہے اور اس‬
‫کی روشنی میں شاگردوں کے اخالقی سنوارتا اور کردار نکھارتا ہے۔ استاد‬
‫کی ہر بات ہر عمل اور ہر ایک قابل تقلید نمونہ ہوتا ہے۔ یہی وہ عظمت ہے‬
‫جس کے سابنے تخت اناج بھی جھکتے ہین یہ اسی کا فیض ہے کہ وہ‬
‫حیوان کو انسان اور انسان کو باکدا انسان بنا دیتا ہے اسی لیے روئے‬
‫حدیثاستاد کی حیثیت روحانی باپ کی سی ہے۔ اس کا ھق اپنے شاگردون‬
‫پر انا ہی ہے جتنا کہ پاب کا اوالد پر ۔ ایک اور ارشاد رسالت ہےکہ استاد کا‬
‫احترام تعظیم خداوندی میں داخل ہے۔ ہر عظیم انسان‪ 4‬کے دل میں اپنے‬
‫استاد کے لئےاحترام کے بے پایاں جزبات ہوتے ہیں۔یہی اس کی عظمت کی‬
‫دلیل ہے۔‬
‫سکندر اعظم اپنے استاد کا بے حد احترام کرتا تھا۔‪ 4‬کسی نے اس کی وجہ‬
‫پوچھی تو سکندر نے جواب دیا ۔‪  ‬میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر الیا‬
‫جب کہ میرا استادارسطو مجھے زمین سے پھر آسمان پر لے گیا۔ میرا باپ‬
‫حیات فانی ہے اور استاد موجب حیات جاودانی ہے۔ میرا باپ میرے جسم کی‬
‫پرورش کرتا ہے اور استاد میری روح کی۔ عالمہ اقبال‪ ؒ ‬نے ٹھیک فرمایا ہے۔‬
‫شیخ مکتب ہے اک عمارت گر‪ ‬‬
‫جس کی صنعت ہے روح انسانی‬
‫استاد اگر صیحح معنوں میں استاد ہو تو وہ اپنے شاگردون کی زندگیاں بدل‬
‫سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آئند ہ نسلوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی‬
‫استاد کے ہاتھ میں ہے۔ وہ زندگی کو جس رخ پہ موڑ سکتا ہے۔ معلم اگر‬
‫اپنےعلم کی منہ بولتی تصویر اور اخالق و آداب کا نمونہ ہو تو اس کی ذات‬
‫معاشرے میں مرکزی حثیت رکھتی ہے۔ وہ قوموں کی تقدیر بدل سکتا ہے۔‬
‫صالح انقالب برپا کر سکتا ہے استاد اپنے زیر تعلیم شاگردون کی خودی کو‬
‫چمکا کر ان مین انفرادی اجتماعی انقالب برپا کر سکتا ہے۔ تاریخ مین اچھے‬
‫اساتذہ نے ہر دور مین یہ کام کیا ہے۔ کہ ان کے نقوش تاریخ کے صفحات پر‬
‫ہی نہیں بلکہ عملی زندگی میں بھی نظر آنے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ‬
‫مشاہیر عالم کی تمام شہرت عظمت ان کے عظیم اساتذہ کی کاوشون کی‬
‫مرہون منت ہے۔ لہذا استاد کو اس کے شایان شان مقام ملنا چاہے۔‬
‫تھےوہ بھی دن کہ خدمت استادکے عوض‬
‫جی چاہتا‪    ‬تھا‪    ‬کہ‪    ‬ہدیہ‪    ‬دل‪    ‬پیش‪    ‬کیجئے‬
‫دین اسالم میں استاد کا مقام‪ ‬‬
‫دین اسالمنے استاد کو بڑے منصب و مقام پر فائز کیا ہے۔ سرور‬
‫کائناتﷺ جہان دوسرے مناسب جلیلہ نے نوازے گئے وہاں‬
‫آپ کو معلم اعظم کی مسند نشینی بھی تفویض ہوئی ۔ ارشاد باری تعالی‬
‫ہے‬
‫اس آیت سے یہ حقیت واضح ہوتی ہے کہ سرور کائنا تﷺ‬
‫خاتم االنبیاء کے مقام پر فائز ہیں۔ اس کے با وصف ایک معلم کا کردار ادار‬
‫کرنے سے آپ ﷺکی شان مین قدح وارد نہیں ہوئی۔‬
‫استاد شاگرد کا باہمی ربط‬
‫دینی نقطہ نظر سے استاد شاگرد کا باہمی ربط تعلیم بے حد گہرا ہے۔‬
‫موجودہ مادی دور مین جہاں ہماری بہت سی اخالقی اور روحانی قدر یں‬
‫برباد ہوئیں ‪ ،‬استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی اس سے متاثر ہوا ہے۔ جب علم‬
‫محض کسب معاش کی خاطر حاصل کیا جائے تو وہ انسانی رگ و پےمیں‬
‫سماتا نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جب استاد اور شاگرد کے درمین تکلف اور‬
‫جھجھک کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے تو شاگرد اپنے آپ کو چشمہ فیض‬
‫سے اتنا سیراب نہیں کر پاتا جتنا کہ ہونا چاہئے۔‬
‫کچھ وہ کھچے کھچے رہے کچھ ہم تنے تنے‬
‫اس کش مکش میں ٹوٹ گیا رشتہ چاہ کا‬
‫مزید پڑھئے‪ :‬سائنس کے کرشمے‬
‫شاگرد کے فرائض‬
‫‪1‬۔ اطاعت استاد‬
‫طالب علم کا پہال فرض یہ ہے کہ اپنے محسن کے احسان عظیم تا زندگی‬
‫یاد رکھے۔‪ 4‬اس کے حکم سے سر تابی نہ کرے۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم‬
‫اپنے استاد ارسطو کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئے راستے مین دریا عبور کرنا‬
‫تھا۔ سکندر اعظم نے در یا عبور کرنے میں پہل کی۔ دریافت کرنے پر اس نے‬
‫بتایا کہ میں آپ سے پہلے کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ لیکن اس دفعہ میں نے‬
‫سوچاکہ کہیں دریا زیادہ گہرا نہ ہو جو آپ کو لے ڈوبے۔ میرے جیسے سکندر‬
‫پھر بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن آپ جیسا عظیم استاد صدیوں مین پیدا ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫‪2‬۔ آداب مجلس‬
‫استاد کا درجہ والد سے کسی طرح کم نہیں ۔جس طرح والد حقیقی اوالد‬
‫کی جسمانی تربیت کرنا ہے اسی طرح استاد اس کی روحانی تربیت کا‬
‫کفیل ہوتا ہے۔ طالب علم کا فرض ہے کہ استاد کی موجودگی میں آداب‬
‫مجلس ملحوظ رکھے۔ یہ آداب شاگرد مجلس نبوی ﷺ‬
‫سے سیکھنے چاہیں۔ حضورﷺ اور صحابہ کرام کے تعلق‬
‫کے جہاں اور کئی پہلو ان مین استاد اور شاگرد کا بھی پہلو تھا۔ اس لئے کہ‬
‫سردار النباء ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کا منصب ایک معلم اعظم کا بھی تھا۔‪4‬‬
‫ارشاد باری تعالی ہے۔‪ ‬‬
‫ترجمہ‪ :‬اپنی آوازوں کو پیغمبر ﷺ کی آواز سے اونچا مت‬
‫ہونے دو۔ اور ان سے زور زور سے باتین مت کرو۔ جس طرح تم آپس میں کر‬
‫لیا کرتے ہو۔‪ ‬‬
‫ہللا محدث دہلوی فرماتے ہیں‬
‫حضرت شاہ ولی ؒ‬
‫"اس ایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے استاد کی آواز سے اپنی آوارز کو اونچا‬
‫کرنا صریحاَ نا شائستگی ہے۔"‬
‫صحابہ کرام کا بیان ہے کہ وہ مجلس نبویﷺ میں یوں‬
‫بیٹھتے تھے جیسے ۔‬

‫ترجمہ‪ :‬گویا ہمارے سر پر پرندے بیٹھے ہیں کہ ذرا سی حرکت کرنے پر اڑ‬
‫جائیں گے۔‬
‫‪3‬۔تعظیم و احترام‪:‬‬
‫ظ خاطر رکھا جائے۔‬
‫‪ ‬استاد کا تیسرا حق یہ ہے کہ اس کی تعظیم کو ملحو ِ‬
‫تعظیم وا حترام مین یہ امر بھی شامل‪ 4‬ہے کہ شاگرد استاد کو سالم کرے۔‬
‫الغرض استاد منبع رشد و ہداہت ہے۔ جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرےمین مینار‬
‫نور ہے۔انسانیت‬
‫‪  ‬کا ارتقا استاد کے مرہون منت ہے۔ جو انسانکو زمین کی پستیوں سے نکال‬
‫کر آسمانکی وسعتوں‬
‫‪  ‬اور بلندیوں میں لے جاتا ہے۔ ایسی باکمال اور بے مثال ہستی کا جتنا‬
‫احترام کیا جائے کم ہے‬

You might also like