You are on page 1of 76

‫۔اردو‬:‫نوٹس‬

‫نوٹس‬
‫اردو‬

51 1-A KACHA LAWRENCE ROAD, OFF JAIL ROAD,


NEAR LAHORE BOARD LAHORE
__________________________________________
Phone#:-0324-5772446, WhatsApp#:- 0333-8084039
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫اہم محاورات‬
‫آ‬
‫شرمندہ ہونا‪( ،‬پانی پانی‬
‫اشکبار ہونا‬ ‫آب دیدہ ہونا‬ ‫ہونا) سخت بے بسی‬ ‫آب آب ہونا‬
‫محسوس کرنا‬
‫دانہ پانی ختم ہونا‪ ،‬رزق‬
‫عزت پر حرف آنا‪ ،‬عزت نہ رہنا‬
‫آبرو پر حرف آنا‬ ‫ختم ہونا‪ ،‬موت انا‪ ،‬الوداع‬ ‫آب و دانہ ختم ہونا‬
‫بے عزت ہونا‪ ،‬رسوا ہونا‬
‫ہونا‬
‫حواس باختہ ہو جانا‪ ،‬ہوش نارہنا‬ ‫آپ میں نہ رہنا‬ ‫خوشامد اور چاپلوسی کرنا‬ ‫آپ آپ (کرنا) کہنا‬
‫آپ سے بے آپ‬ ‫اپنا غصہ کسی اور پر‬ ‫آپ ہارے‪ ،‬بہو کو‬
‫بہت بے تاب و بے قرار ہونا‬
‫ہونا‬ ‫نکالنا‬ ‫مارے‬
‫احمقوں کی طرح خود بخود‬
‫دل خوش کرنا‪ ،‬روح راضی کرنا‬ ‫آتما ٹھنڈی کرنا‬ ‫آپ ہی آپ باتیں کرنا‬
‫بولتے جانا‬
‫بھوک لگنا‪ ،‬خواہش ہونا‪،‬‬
‫گل سڑ جانا‪ ،‬بوسیدہ ہونا‬ ‫آٹا آٹا ہو جانا‬ ‫آتما میں آگ لگنا‬
‫محبت کی آگ‪ ،‬پیاس‬
‫گناہ گار کے ساتھ معصوم کو سزا‬ ‫آٹے کے ساتھ گھن‬ ‫دھمکانا‪ ،‬ڈرانا‪ ،‬خوفزدہ‬
‫آٹے دال کا بھاؤ بتانا‬
‫ملنا‬ ‫پیسا‬ ‫کرنا‬
‫پھوٹ پھوٹ کر زارو قطار‬
‫کبھی کبھی آٹا‪ ،‬گاہے گاہے آنا‬ ‫آٹھویں ساتویں آنا‬ ‫آٹھ آٹھ آنسو بہانا‬
‫رونا‬
‫آدمی کے جامے میں‬
‫مسلح ہونا‪ ،‬خود کو سجانا‬ ‫آراستہ پیراستہ ہونا‬ ‫شرافت اپنانا‬
‫آنا‬
‫ہاں ہاں کرنا‪ ،‬ٹالنا‬ ‫آرے بلے کرنا‬ ‫تمنا پوری نہ ہونا‬ ‫آرزو کا خون ہونا‬
‫لڑنے مرنے پر تیار ہونا‪ ،‬مستعد‬
‫بُرا بھال کہنا‪ ،‬خوب خبر لینا آستین چڑھنا‬ ‫آڑے ہاتھوں لینا‬
‫ہونا‬
‫بے جا تعریف و توصیف‬ ‫آسمان پرچڑھنا‪،‬‬
‫مصیبت میں گرفتار ہونا‬ ‫آسمان ٹوٹ پڑنا‬
‫کرنا‪ ،‬خوشامد کرنا‬ ‫چڑھانا‬
‫انتہا درجے کی کوشش‬ ‫آسمان زمین کے‬
‫شوروغل مچانا‬ ‫آسمان سر پراٹھانا‬
‫کرنا‪ ،‬مبالغہ آرائی کرنا‬ ‫قالبے مالنا‬
‫آسمان سے باتیں‬ ‫آسمان سےآگ‬
‫بہت اونچا ہونا‬ ‫سخت گرمی ہونا‬
‫کرنا‬ ‫برسنا‬
‫نا ممکن کو ممکن بنانا‪،‬‬ ‫آسمان کے تارے‬
‫آزاد پہنچنا‪ُ ،‬دکھ پہنچنا‪ ،‬صدمہ ملنا‬ ‫آسیب پہنچنا‬
‫مشکل کام کرنا‬ ‫توڑنا‬
‫آفتاب سوا نیزے پر‬ ‫آسمان میں تھگلی‬
‫سخت گرمی ہونا‪ ،‬قیامت آنا‬ ‫چاالک ہوشیار ہونا‬
‫آنا‬ ‫لگانا‬
‫دوپہر کا وقت‪ ،‬اوج کمال پر‬ ‫آفتاب نصف النہار پر‬
‫ناگوار گزرنا‪ ،‬بیزاری کا اظہار‬ ‫آنتیں منہ کو آنا‬
‫ہونا‪ ،‬سورج سر پر ہونا‬ ‫ہونا‬
‫عزت کرنا‪ ،‬احتراف کرنا‬ ‫آنکھوں پر بٹھانا‬ ‫نقصان نہ پہنچنا‬ ‫آنچ نہ آنا‬
‫بے شرم ہونا‪ ،‬بے نیاز ہونا‪ ،‬بے‬ ‫آنکھوں ٹھیکری‬ ‫آنکھوں پر پٹی‬
‫دانستہ انجان بننا‬
‫پروا ہونا‬ ‫رکھنا‬ ‫باندھا‬
‫آنکھوں میں خون‬
‫سخت غصہ کی حالت میں ہونا‬ ‫احترام کرنا‪ ،‬استقبال کرنا‬ ‫آنکھیں بچھانا‬
‫اترنا‬
‫کترانا‪ ،‬دامن بچانا‬ ‫آنکھیں چرانا‬ ‫سامنا ہونا‬ ‫آنکھیں چار ہونا‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫سخت غصے میں ہونا‬ ‫آنکھیں الل ہونا‬ ‫غصے میں آنا‬ ‫آنکھیں دکھانا‬
‫آنکھوں سے نکیل‬
‫مذاق اڑانا‬ ‫آواز کسنا‬ ‫مرنے لگنا‬
‫ڈالنا‬
‫اوپر سے نیچے تک خرابی‬ ‫آوے کا آوا بگڑنا‬ ‫توجہ کرنا‪ ،‬دھیان دینا‬ ‫آواز پر کان دھرنا‬
‫شک و شبہ پیدا ہونا‬ ‫آئینے میں بال آنا‬ ‫واضح کرنا‬ ‫آئینہ کر دینا‬
‫بےحس ہونا‬ ‫آنکھیں پتھراجانا‬
‫اپنا سامنہ لےکے رہ‬
‫رنج اٹھانا‪ ،‬دکھ سہنا‬ ‫اپنا خون پینا‬ ‫شرمندگی محسوس کرنا‬
‫جانا‬
‫اپنے کام میں مست رہنا‪ ،‬اپنا راستہ‬
‫اپنی رادھا یادآنا‬ ‫شکایت کرنا‬ ‫اپنی جان کو رونا‬
‫پکڑنا‬
‫اڑتی چڑیا کے پر‬
‫اپنے آپ میں رہنا‬ ‫ازخود رفتہ ہونا‬ ‫چاالک ہونا‬
‫گننا‬
‫خالف عقل خالف ضابطہ‬ ‫ِ‬
‫پاگل بنانا‪ ،‬بے وقوف بنانا‬ ‫الو بنانا‬ ‫الٹی گنگا بہنا‬
‫کوئی کام ہونا‬
‫حسد اور غصے میں جلنا‬ ‫انگاروں پر لوٹنا‬ ‫اپنا مفاد نکالنا‬ ‫اپنا الو سیدھا کرنا‬
‫اوکھلی میں سر دینا اپنے آپ کو ہالکت میں ڈالنا‬ ‫تنگ کرنا‪ ،‬ذلیل کرنا‬ ‫انگلیوں پر نچانا‬
‫بڑی دوڑ دھوپ کرنا ‪،‬‬
‫حواس کا بگڑنا‪ ،‬ہوش کھو دینا‬ ‫اوسان خطا ہونا‬ ‫ایڑیاں گھس جانا‬
‫کوشش کرنا‬
‫اینٹ سے اینٹ‬ ‫تمام کے ساتھ ایک جیسا‬ ‫ایک الٹھی سے‬
‫تباہ کر دینا‪ ،‬اجاڑ دینا‬
‫بجانا‬ ‫سلوک کرنا‬ ‫ہانکنا‬

‫ب‬
‫معمولی بات کو بڑھا چڑھا‬
‫عزت بچ جانا‬ ‫بات رہ جانا‬ ‫بات کا بتنگڑ بنانا‬
‫کر پیش کرنا‬
‫بات کو گرہ میں‬
‫کسی قول کو پلے باندھنا‬ ‫فساد کھڑا کر دینا‬ ‫بات بڑھانا‬
‫باندھنا‬
‫باتوں باتوں میں رام‬
‫گفتگو سے قائل کرنا‬ ‫کام ہو جانا‬ ‫بات بن جانا‬
‫کرنا‬
‫زیادہ چہل پہل ‪ ،‬رونق اور چرچا ‪،‬‬ ‫بہانہ بنانا‪ ،‬جھوٹ اور‬
‫بازار گرم ہونا‬ ‫باتیں بنانا‬
‫خوب‪ ،‬خریدہ فروخت ہونا‬ ‫دھوکہ دینا‬
‫باریکیوں میں پڑنا‪ ،‬بے جا‬
‫کٹھن کام ہونا‬ ‫ٹیڑھی کھیر ہونا‬ ‫بال کی کھال اتارنا‬
‫کریدنا‬
‫دعوی کرنا‪ ،‬غرور‬‫ٰ‬ ‫بے جا‬
‫شرمندہ ہونا‬ ‫بغلیں جھانکنا‬ ‫بڑا بول بولنا‬
‫کرنا‬
‫لمبی زبان‪ ،‬باتونی ہونا اور‬
‫غصہ نکالنا‬ ‫بر س پڑنا‬ ‫بڑی زبان ہونا‬
‫بد زبان ہونا‬
‫باعث آزاد ہونا‪ ،‬باعث دکھ‬
‫کچھ نہ بگاڑ سکنا‬ ‫بال بیکا نہ کرنا‬ ‫بالئے جان‬
‫ہونا‬
‫راز فاش کرنا‬ ‫بھانڈا پھوڑنا‬ ‫خراب کر دینا‬ ‫بنگاتھونکنا‬
‫شرمندہ اور ذلیل و خوار‬
‫مقبولیت ہونا‬ ‫بول باال ہونا‬ ‫بھیگی بلی بننا‬
‫ہونا‬
‫جھوٹ بولنا‬ ‫بےپر کی اڑانا‬ ‫غصے سے اونچا بولنا‬ ‫بادل کی طرح گرجنا‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫اجاڑ‪ ،‬ویران ‪ ،‬برباد ہونا‬ ‫بے چراغ ہونا‬ ‫برا بھال کہنا‪ ،‬گالیاں دینا‬ ‫بے نقط سنانا‬
‫درگت بننا‪ ،‬زیادہ مار پڑنا‬ ‫بے بھاؤ کی پڑنا‬ ‫ذمہ داری لینا‬ ‫بیٹرا اٹھا‬
‫ناپسندیدگی کا اظہار‬ ‫بھاویں ہی نہ آنا‬ ‫نادان اور بے وقوف‬ ‫بے دال کا بودم‬

‫پ‬
‫محنت ضائع کر دینا‬ ‫پانی پھیرنا‬ ‫واسطہ پڑنا‬ ‫پاال پڑنا‬
‫سخت محنت اور جدو جہد‬
‫شرمندہ اور پشیمان ہونا‬ ‫پانی پانی ہونا‬ ‫پاپڑ بیلنا‬
‫کرنا‬
‫پانی چھا جو ں‬
‫فساد پیدا کرنا‬ ‫پانی میں آگ لگانا‬ ‫شدید بارش ہونا‬
‫برسنا‬
‫خوفزدہ ہونا‬ ‫پتا پانی ہونا‬ ‫پاؤں میں مہندی لگنا بے جا عذر اور بہانہ کرنا‬
‫انمٹ نقش ہونا‪ ،‬پکی بات‬
‫چاالک ہونا‬ ‫پر‪ ،‬پرزے نکالنا‬ ‫پتھر پر لکیر ہونا‬
‫ہونا‬
‫پتھر کا جگر پانی‬
‫سخت دل کو ترس آنا‬ ‫پتھر چھاتی پر دھرنا جبر برداشت کرنا‬
‫ہونا‬
‫استقبال کرنا‬ ‫بے عزتی کرنا‪ ،‬رسوا کرنا پلکیں بچھانا‬ ‫پگڑی اچھالنا‬
‫مصیبت میں گرفتار ہونا‬ ‫پہاڑ ٹوٹنا‬ ‫چڑھاوا چڑھانا‬ ‫پرشاد چڑھانا‬
‫بھوک برداشت کرنا‬ ‫پیٹ پر پتھر باندھنا‬ ‫بچت کرنا‬ ‫پیٹ کاٹنا‬
‫غصے میں آنا‪ ،‬ناراضگی پھونک پھونک کر‬
‫احتیاط کرنا‬ ‫پیچ و تاب کھانا‬
‫قدم رکھنا‬ ‫کا اظہار کرنا‬
‫ٹال مٹول کرنا‬ ‫پس و پیش کرنا‬ ‫بدلہ لینا‪ ،‬غصہ نکالنا‬ ‫پھپولے پھوڑنا‬
‫فخر سے چلنا‬ ‫باعث رنج ہونا‪ ،‬پریشان ہونا پنجوں کے بل چلنا‬ ‫پیٹ تھامے پھرنا‬

‫ت‬
‫فوراً جواب دینا‪ ،‬برجستہ جواب‬ ‫ترکی بہ ترکی‬
‫شب بھر جاگتے رہنا‬ ‫تارے گننا‬
‫دینا‬ ‫جواب دینا‬
‫غرور و تکبر خاک میں‬
‫برداشت نہ کرنا‬ ‫تاب نہ النا‬ ‫ترکی تمام ہونا‬
‫ملنا‬
‫اعتبار کرنا‬ ‫تکیہ کرنا‬ ‫خوشامد کرنا‬ ‫تلوے چاٹنا‬
‫بد لحاظ ہونا‪ ،‬محبت ختم‬
‫بہادری ختم ہونا‬ ‫تلوار گر جانا‬ ‫تلوں میں تیل نہ ہونا‬
‫ہونا‬
‫اچھی ڈیل ڈول کا ہونا‪ ،‬سخت جان‬
‫تن و توش کا آدمی‬ ‫پریشان کرنا‬ ‫تگنی کا ناچ نچانا‬
‫آدمی ہونا‬
‫پرزے پرزے کرنا‪ ،‬تقسیم‬
‫نفرت کا اظہار کرنا‬ ‫تھو تھو کرنا‬ ‫تیاپانچا کر رنا‬
‫کرنا‬
‫تھوڑے پانی کا بلبلہ کم ہمت ‪ ،‬کم طرفی ‪ ،‬کمینہ‬ ‫معمولی مدد ہونا‬ ‫تقدیر پھوٹ جانا‬
‫لعنت بھیجنا‬ ‫تبرا بھیجنا‬ ‫لعنت بھیجنا‬ ‫تیور حرف بھیجنا‬
‫وعدہ یا قسم توڑنا‬ ‫توبہ توڑنا‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫ٹ‪ ،‬ث‬
‫ٹس سے مس نہ‬
‫اثر نہ ہونا‬ ‫میل کرانا‬ ‫ٹانکا لگانا‬
‫ہونا‬
‫ٹکٹکی باندھ کر‬
‫رنج پہنچنا‪ ،‬صدمی ہونا‬ ‫ٹھیس لگنا‬ ‫متواتر دیکھنا‪ ،‬گھورنا‬
‫دیکھنا‬
‫پٹڑی سے اتر جانا‪ ،‬بُری صحبت‬ ‫نفرت اور دشمنی سے‬
‫ٹیڑھی چال چلنا‬ ‫ٹیڑھی آنکھ دیکھنا‬
‫میں پڑنا‬ ‫دیکھنا‬
‫منتیں کرنا‬ ‫ٹھوڑی پکڑنا‬ ‫منہ پر صاف انکار‬ ‫ٹکاسا جواب‬
‫مستقل مزاجی ‪ ،‬ڈٹے رہنا‬ ‫ثابت قدم رہنا‬ ‫دوستی اور بھائی چارہ ہونا‬ ‫ٹوپی بدلنا‬
‫ضامن ہونا‬ ‫ثالثی کرنا‬ ‫کامیابی ملنا‬ ‫ثمر بار ہونا‬

‫ج۔ چ‬
‫ث مصیبت‬ ‫عذاب ہونا‪ ،‬باع ِ‬
‫قریب الموت ہونا‬ ‫جان بلب ہونا‬ ‫جان کا وبال ہونا‬
‫ہونا‬
‫آسرا ہونا‪ ،‬حوصلہ قائم ہوجانا‬ ‫جان میں جان آنا‬ ‫جامے سے باہر ہونا آپے سے باہر ہونا‬
‫موت کے قریب ہونا‬ ‫جان ہونٹوں پر آنا‬ ‫مصیبت میں گرفتار ہونا‬ ‫جان کے اللے پڑنا‬
‫برداشت سے کام لینا‬ ‫جگر تھامنا‬ ‫مصیبت میں ہونا‬ ‫جان سولی پر ہونا‬
‫سخت صدمہ اٹھانا‬ ‫جگر نا سور ہونا‬ ‫جگر پر پتھر رکھنا صبرو تحمل کرنا‬
‫جنگل میں منگل‬
‫ویرانی میں آبادی یا رونق ہونا‬ ‫جھگڑا بڑھانا‬ ‫جلتی پر تیل ڈالنا‬
‫ہونا‬
‫لڑائی جھگڑا ہونا‬ ‫جوتا اچھلنا‬ ‫جوتیوں میں دال بٹنا دنگا فساد ہونا‬
‫کٹھن کام کرنا‬ ‫جوئے شیر النا‬ ‫سخت جدو جہد کرنا‬ ‫جوتیاں توڑنا‬
‫صالحیتیں ظاہر ہونا‬ ‫جوہر کھلنا‬ ‫حماقت کرنا‬ ‫جھک مارنا‬
‫برباد ہو جانا‬ ‫جیتے جی مرنا‬ ‫ترس آنا‬ ‫جی بھر آنا‬
‫ت رنج و غم‬ ‫شد ِ‬ ‫جہاں سیاہ ہونا‬ ‫اجاال کرنا‬ ‫جوت جگانا‬
‫عزت و احترام کرنا‬ ‫جوتیاں سیدھی کرنا‬ ‫بد دل اور مایوس ہونا‬ ‫جی چھوٹ جانا‬
‫جان قربان کرنا‬ ‫جان نثار کرنا‬ ‫غصے میں آنا‬ ‫جنون چڑھنا‬
‫خوبصورتی میں اضافہ‬
‫بہت بے تاب ہونا‬ ‫چار ہاتھ اچھلنا‬ ‫چار چاند لگانا‬
‫کرنا‬
‫چادر دیکھ کر پاؤں‬
‫اپنی اوقات کے مطابق رہنا‬ ‫کسی پر تہمت لگانا‬ ‫چاند پر تھوکنا‬
‫پھیالنا‬
‫ختم ہونا‬ ‫چراغ گل ہونا‬ ‫موت کے قریب ہونا‬ ‫چراغ سحری ہونا‬
‫چولی دامن کا ساتھ‬
‫زبر دست واسطہ ہونا‬ ‫دوڑ جانا‪ ،‬غائب ہو نا‬ ‫چمپت ہونا‬
‫ہونا‬
‫تلمالنا ‪ ،‬سخت غصے میں ہونا‪،‬‬ ‫چھاتی پر سانپ‬ ‫پریشانی میں حواس کھو‬
‫چوکٹری بھول جانا‬
‫اذیت میں ہونا‬ ‫لوٹنا‬ ‫بیٹھنا‬
‫دکھ مصیبت میں اچھے‬
‫شکست تسلیم کرلینا‬ ‫چیں بولنا‬ ‫چھٹی کا دودھ یادآنا‬
‫دنوں کو یاد کرنا‬
‫زوال کے قریب ہونا‬ ‫چیونٹی کے پر نکلنا‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫ح‬
‫اعتراض کی گنجائش نہ ہونے‬
‫حجت تمام کرنا‬ ‫الزام آنا‬ ‫حرف آنا‬
‫دینا‬
‫شرم و حیا ختم ہو نا‬ ‫حجاب اٹھنا‬ ‫بائیکاٹ کرنا‬ ‫حقہ پانی بند کرنا‬
‫آفت یاد نگا فساد کا منظر‬ ‫حشر برپا ہونا‬ ‫افسوس ناک صورتحال‬ ‫حسرت برسنا‬
‫محنت سے رزق کمانا‬ ‫حالل کرکے کھانا‬

‫خ‬
‫موت آنا‬ ‫خاک پیوند ہونا‬ ‫بدنام کرنا‬ ‫خاک اڑانا‬
‫بھٹکنا پھرنا‬ ‫خاک چھاننا‬ ‫برباد ہونا‬ ‫خاک ہونا‬
‫بد لحاظ ہونا‪ ،‬محبت باقی نہ رہنا‬ ‫خون سفید ہونا‬ ‫دھن سوار ہونا‬ ‫خبط سوار ہونا‬
‫خواب خرگوش کے‬
‫نقصان ہونا‬ ‫خمیازہ بھگتنا‬ ‫نیند کے مزے اڑانا‬
‫مزے لینا‬
‫سخت غصے کی حالت میں‬
‫خواب دیکھنا‪ ،‬دور منصوبے‬ ‫خون آنکھوں میں‬
‫ہونا‪ ،‬قتل کرنے کے درپے خیالی پالؤ پکانا‬
‫باندھنا‬ ‫اترنا‬
‫ہونا‬
‫فاصلہ پیدا ہو جانا ‪ ،‬ناراضگی‬ ‫خلیج حائل ہونا‬ ‫ترک کر دینا‬ ‫خیر باد کہہ دینا‬
‫خون کے گھونٹ پینا صبر کرنا‬

‫د‬
‫سولی چڑھنا‬ ‫دار پر چڑھنا‬ ‫کامیابی ہاتھ نہ آنا‬ ‫دال نہ گلنا‬
‫جال بچھانہ ‪ ،‬دھوکہ دینا‬ ‫دام بچھانا‬ ‫رعب پڑنا‬ ‫داب بیٹھ جانا‬
‫دانتوں تلے انگلی‬
‫حیران ہونا‬ ‫شکست ہونا‬ ‫دانت کھٹے ہونا‬
‫دبانا‬
‫دروازے پر ہاتھی‬
‫متمول ہونا‬ ‫مفلس ہونا‬ ‫دانت پر میل نہ ہونا‬
‫جھومنا‬
‫دقیقہ فروگزاشت نہ‬ ‫دریا کر ہاتھ سے‬
‫سخت کوشش کرنا‬ ‫کٹھن کام کی نیت باندھنا‬
‫کرنا‬ ‫روکنا‬
‫طویل کہانی‪ ،‬مختصر بات‬ ‫دریا کوزے میں بند‬
‫اندر سے بے چین کرنا‬ ‫دل میں چٹکی لینا‬
‫میں کہہ دینا‬ ‫کرنا‬
‫مایوس ہونا‬ ‫دل بیٹھنا‬ ‫دل کا بھید چھپا کر رکھنا‬ ‫دل پر قفل لگانا‬
‫حسرت پوری نہ ہونا‬ ‫دل کی دل میں رہنا‬ ‫تمنا پوری ہونا‬ ‫دل کی کلی کھلنا‬
‫مجال نہ ہونا‬ ‫دم نہ مارنا‬ ‫خوف سے گھبراجانا‬ ‫دل ہوا ہو جانا‬
‫جنون ‪ ،‬بھوت سوار ہونا‬ ‫دماغ کا خلل ہونا‬ ‫خوفزدہ ہو کر بھاگنا‬ ‫دم دبا کر بھاگنا‬
‫دودھ کے دانت نہ‬
‫پرزے اڑانا‪ ،‬ذلیل و رسوا کرنا‬ ‫دھجیاں اڑانا‬ ‫نا بالغ ہونا‬
‫ٹوٹنا‬
‫سخت محنت اور جدو جہد‬ ‫دوڑ دھوپ‬ ‫آمنے سامنے ہونا‬ ‫دُوبدو ہونا‬
‫تنہا شور مچاتے رہنا‬ ‫دیوار سے لڑنا‬ ‫بے شرم ہو جانا‬ ‫دیدے کا پانی ڈھلنا‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫ر۔ز‬
‫خون خشک ہونا۔ حیران و‬ ‫معمولی بات کو بڑھا چڑھا‬
‫رنگ فق ہونا‬ ‫رائی کا پہاڑ بنانا‬
‫ششدررہ جانا‬ ‫کر پیش کرنا‬
‫رنگ میں بھنگ‬
‫خوشی میں بد مزگی پیدا کر دینا‬ ‫بھاگ جانا۔غائب ہو جانا‬ ‫رفو چکر ہونا‬
‫ڈالنا‬
‫آنا‬ ‫رونق افروز ہونا‬ ‫سکہ جمانا‬ ‫رنگ جمانا‬
‫جھگڑا مٹانا۔ فیصلہ دینا‬ ‫راندھ کاٹنا‬ ‫شدید دکھ کر اظہار‬ ‫راکھ سر پر ڈالنا‬
‫رونگٹے کھڑے ہو‬
‫خوفزدہ ہونا۔ اوسان خطا ہو جانا‬ ‫رنگ و روپ ختم ہو جانا‬ ‫رنگ مٹ ہونا‬
‫نا‬
‫روپیہ ٹھیکری کر‬
‫فضول خرچی کرنا‬ ‫صبر کر لینا‬ ‫رو پیٹ کر بیٹھ جانا‬
‫دینا‬
‫روٹی پر روٹی رکھ‬
‫عیش و آرام میں ہونا‬ ‫باز آجانا‬ ‫رفت گزشت کرنا‬
‫کے کھانا‬
‫موافق آجانا‬ ‫راس آنا‬ ‫راستہ نکالنا‪ ،‬چارہ کرنا‬ ‫راہ نکالنا‬
‫زمین و آسماں کے‬
‫کچھ زیادہ ہی مبالغہ آرائی کرنا‬ ‫بات کاٹنا‪ ،‬سچ کو دبانا‬ ‫زبان کاٹنا‬
‫قالبے مالنا‬
‫انقالبی تبدیلی یاد آجانا‬ ‫زمانا الٹ جانا‬ ‫سخت شرمندہ ہونا‬ ‫زمین میں گڑنا‬
‫زندگی و بال جان‬
‫کسی کے خالف بات کرنا‬ ‫زہراُگلنا‬ ‫سخت آزار میں ہونا‬
‫ہونا‬
‫زخموں پر نمک‬
‫سخت اذیت دینا‬
‫پاشی کرنا‬

‫س۔ ش‬
‫حاالت کے مطابق تبدیل کرنا‬ ‫سانچے میں ڈھالنا‬ ‫خاموش ہوجانا‬ ‫سانپ سونگھ جانا‬
‫ذلیل و کمینہ ہونا‬ ‫سبک سر ہونا‬ ‫خواب دکھانا ۔ دھوکہ دینا‬ ‫سبز باغ دکھانا‬
‫عذاب میں ہونا ‪ ،‬مرنے پر‬
‫احتیاط ہونا۔ اہم خاصیت ہونا‬ ‫سرخاب کا پر لگنا‬ ‫سروبال دوش ہونا‬
‫آمادہ‬
‫سورج کو چراغ‬
‫عقل مند کو دانائی کی بات کہنا‬ ‫حاالت کا مقابلہ کرنا‬ ‫سینہ سپر ہونا‬
‫دکھانا‬
‫ستارہ عروج پر‬ ‫سر پر بھوت سوار‬
‫خوشی بختی ہونا‬ ‫کوئی دھن سوار ہونا‬
‫ہونا‬ ‫ہونا‬
‫ستارہ گردش میں‬
‫سر پرست اور نگران کا مرنا‬ ‫سایہ سر سے اٹھنا‬ ‫خراب حاالت ہونا‬
‫ہونا‬
‫جھوٹ سے فساد بر پا کرنے کی‬
‫شگوفہ چھوڑنا‬ ‫تقسیم ہو کر رہ جانا‬ ‫شیرازہ بکھرنا‬
‫کوشش کرنا‬
‫تسخیر کر لینا‬ ‫شیشے میں اتارنا‬ ‫گھل مل جانا‬ ‫شیرو شکر ہونا‬
‫شدید شرمندہ ہونا‬ ‫شرم سے ڈوب مرنا‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫ص۔ ض‬
‫قربان ہونا‬ ‫صدقے جانا‬ ‫ختم کرنا‬ ‫صفایا کرنا‬
‫چوٹ لگانا‬ ‫ضرب لگانا‬ ‫شدید نفرت کرنا‬ ‫صورت زہر لگنا‬
‫عمر کا اخیر ہونا‬ ‫ظرف لبریز ہونا‬ ‫بہت مقبول ہو جانا‬ ‫ضرب المثل ہونا‬

‫ط۔ ظ‬
‫ترک کر دینا‬ ‫طاق پر رکھنا‬ ‫سر سری انداز میں دیکھنا‬ ‫طائرانہ نگاہ ڈالنا‬
‫مالنا‬ ‫طاق نسیاں ہونا‬ ‫موت کی آرزو کرنا‬ ‫طالب کفن ہونا‬
‫انہونی بات کا ہونا‬ ‫طرف گل پھولنا‬ ‫تیز دوڑنا‬ ‫طرارے بھرنا‬
‫ظاہر ہو جانا‬ ‫طشت ازبام ہونا‬ ‫شہرت ہونا‬ ‫طوطی بولنا‬
‫شوروغل ہونا‬ ‫طنطنہ بلند ہونا‬ ‫طبیعت پر گرانی ہونا پیٹ خراب ہونا۔ بد ہضمی‬

‫ع۔ غ‬
‫غرور کرنا‬ ‫عرش پر دماغ ہونا‬ ‫سوجھ بوجھ کی بات‬ ‫عقل کے ناخن‬
‫عقل کے طوطے‬
‫اوسان خطا ہونا‬ ‫زیادہ محنت‬ ‫عرق ریزی‬
‫اڑنا‬
‫تھک جانا۔ بے بسی کا‬
‫بے جا تعریف و توصیف کرنا‬ ‫عرش پر چڑھانا‬ ‫عاری ہونا‬
‫اظہار‬
‫پگڑی اتارنا۔ ذلیل کرنا‬ ‫عمامہ اتارنا‬ ‫عزت خراب ہونا‬ ‫عزت پر حرف اآنا‬
‫دل بہالنا‬ ‫غم غلط کرنا‬ ‫کبھی کبھی دکھائی دینا‬ ‫عید کا چاند ہونا‬
‫غیر ت سے کٹ‬
‫شدید شرمندہ ہونا‬ ‫دل کی بھڑاس نکالنا‬ ‫غبار دل نکالنا‬
‫جانا‬

‫ف۔ق‬
‫مرنےوالے کے لیے مغفرت کی‬
‫فاتحہ پڑھنا‬ ‫عیش کرنا‬ ‫فاختہ اڑانا‬
‫دعا کرنا‬
‫سخت مصیبت میں گرفتار ہونا‬ ‫فلک ٹوٹ پڑنا‬ ‫سخت فکر کرنا‬ ‫فکر میں دبال ہونا‬
‫پیروی میں چلنا‬ ‫قدم بہ قدم چلنا‬ ‫دق کرنا‬ ‫قافیہ تنگ ہونا‬
‫ظلم کرنا‬ ‫قیامت ڈھانا‬ ‫راز ظاہر ہو جانا‬ ‫قلعی کھلنا‬
‫ختم کرنا‪ ،‬فیصلہ کرنا‬ ‫قصہ پاک کرنا‬

‫ک۔گ‬
‫ختم کر ڈالنا‬ ‫کام تمام کرنا‬ ‫غائب ہونا۔ ختم ہونا۔ مٹ‬ ‫کافور ہونا‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫جانا‬
‫کھوے سے کھوا‬
‫بہت ہجوم ۔ رش ہونا‬ ‫تراش خراش‬ ‫کانٹ چھانٹ‬
‫چھلنا‬
‫معاملہ الجھ جانا۔ ٹال مٹول‬
‫رنج اٹھانا‬ ‫کوفت اٹھانا‬ ‫کھٹاتی میں پڑنا‬
‫ہونا‬
‫سزا دینا‬ ‫گردن توڑنا‬ ‫شرمندگی محسوس کرنا‬ ‫گریبان میں منہ ڈالنا‬
‫مفاد کے لیے کسی کی خوشامد‬
‫گدھے کو باپ بنانا‬ ‫انوکھا کام کرنا‬ ‫گل کھالنا‬
‫کرنا‬
‫گور میں الت مار‬
‫موت کے منہ سے واپس آنا‬ ‫عیش کرنا‬ ‫گل چھرے اڑانا‬
‫کے کھڑا ہونا‬
‫گھاٹ گھاٹ کا پانی‬
‫بہت تجربہ کا ر ہونا‬ ‫گھی کے چراغ جالنا خوشی منانا‬
‫پینا‬
‫گڑھے مردے‬ ‫بچپن سے کسی عادت کا‬
‫پرانی باتیں یاد کرنا‬ ‫گھٹی میں پڑنا‬
‫اکھاڑنا‬ ‫شکار ہونا‬
‫بچپن‪ ،‬سیکھنے کی عمر ہونا۔‬ ‫غفلت ہونا۔ بے فکری کی‬
‫گھٹنوں کے بل چلنا‬ ‫گھوڑے بیچ کر سونا‬
‫آہستہ چلنا‬ ‫نیند‬
‫باعث مصیبت ہونا۔ پیچھے‬
‫گلے کا ہار ہونا‬
‫ہی پڑ جانا‬

‫ل‬
‫تسلیم کرنا‬ ‫آرے ہاتھوں لینا۔ رسوا کرنا لوہا ماننا‬ ‫لتے لینا‬
‫الکھ کا گھر خاک‬
‫عزت اور دولت برباد کر دینا‬ ‫ٹھکرانا۔ نظر انداز کرنا‬ ‫الت مارنا‬
‫ہونا‬
‫لقمہ حلق سے نہ‬
‫ناگواری کا اظہار‬ ‫کام بگاڑ دینا‬ ‫لٹیا ڈبونا‬
‫اترنا‬
‫ڈر جانا‬ ‫لہو خشک ہونا‬ ‫لوہے کےچنے چبانا سخت اور کٹھن کام کرنا‬
‫پچھتانا۔ افسوس کا اظہار‬ ‫لکیر پیٹنا‬ ‫لینے کے دینے پڑنا نفع کی جگہ خسارہ ہونا‬
‫ضبط اور برداشت کرنا‬ ‫لہو پی کر رہ جانا‬

‫م‬
‫بگاڑنا۔ خراب کرنا‬ ‫مٹی میں مالنا‬ ‫رشوت دینا‬ ‫مٹھی گرم کرنا‬
‫رسوا ہونا‬ ‫مٹی پلید کرنا‬ ‫قبل از وقت چوکس ہونا‬ ‫ماتھا ٹھنکنا‬
‫آشنا ہونا‬ ‫محرم ہونا‬ ‫دربدر بھٹکنا‬ ‫مارا مارا پھرنا‬
‫رونق ختم ہونا۔ یا مانند پڑ‬
‫نگران یا سر پرست بنانا‬ ‫مربی بنانا‬ ‫محفل سرد پڑنا‬
‫جانا‬
‫مرُدوں سے شرط‬
‫غفلت کا شکار ہونا‬ ‫مقصد میں کامیابی ہونا‬ ‫مراد پانا‬
‫باندھ کر سونا‬
‫مغز سے کیڑے‬
‫مقدر بگڑنا‬ ‫مقدر پر پتھر پڑنا‬ ‫جوتے لگانا‬
‫جھاڑنا‬
‫مزاج ساتویں آسمان‬
‫دل کو بھانا‬ ‫منظور نظر ہونا‬ ‫غرور کرنا‬
‫پر ہونا‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫عیش و آرام کرنا‬ ‫موج مارنا‬ ‫ذلیل و رسوا کرنا‬ ‫منہ کاال کرنا‬
‫منہ میں پانی بھر آنا رال ٹپکنا۔ دل للچانا‬ ‫میدان ہاتھ سے جانا شکست ہو جانا‬
‫منہ اپنا سا لے کر‬ ‫منہ پر ٹھیکری راکھ بد لحاظی اور بے مروتی‬
‫شرمندگی محسوس کرنا‬
‫رہ جانا‬ ‫سے پیش آنا‬ ‫لینا‬
‫شکست کھنا‬ ‫منہ کی کھانا‬ ‫پاس رکھنا‬ ‫منہ رکھنا‬
‫موت کے گھاٹ‬
‫قتل کر دینا‬
‫اتارنا‬

‫ن‬
‫ممنون احسان نہ ہونا۔‬
‫ِ‬ ‫کسی کا‬ ‫ناک پر مکھی نہ‬
‫عزت بڑھنا‬ ‫ناک اونچی‬
‫کسی کی بات برداشت نہ کرنا‬ ‫بیٹھنے دینا‬
‫نفرت کا اظہار ‪ ،‬نا پسندیدگی‬ ‫ناک میں دم کرنا۔ تنگ کرنا ناک بھوں چڑھانا‬ ‫ناکوں چنے چبوانا‬
‫دکھ میں اضافہ کرنا‬ ‫نمک چھڑکنا‬ ‫رسوا اور ذلیل کروانا‬ ‫ناک کٹانا‬
‫انوکھی اور عجیب بات کرنا‬ ‫نیا راگ النا‬ ‫خوش کرنا‬ ‫نہال کرنا‬
‫ذلیل و شرمندہ کرنا‬ ‫نیچا دکھانا‬ ‫نیت خراب ہونا‬ ‫نیت میں فتور آنا‬
‫حقیر سمجھنا‬ ‫نظر سے گرنا‬ ‫احسان مند ہونا‬ ‫نیچی نظریں‬
‫حالت بگڑنا‬ ‫نقشہ بگڑنا‬

‫و۔ہ۔ی‬
‫عذاب ہونا‬ ‫وبال ہونا‬ ‫خوب فائدہ ہونا‬ ‫وارے نیار ہونا‬
‫رونا دھونا۔ شوروغل کرنا‬ ‫واویال کرنا‬ ‫وعدہ پورا کر دینا‬ ‫وعدہ وفا کرنا‬
‫مایوس اور بد دل ہونا‬ ‫ہاتھ اٹھانا‬ ‫طرز تبدیل کرنا‬ ‫وضع بدلنا‬
‫کوشش اور جدوجہد کرنا‬ ‫ہاتھ پاؤں مارنا‬ ‫مدد کرنا‬ ‫ہاتھ بٹانا‬
‫فوراً لینا۔ عزت کرنا‬ ‫ہاتھوں ہاتھ لینا‬ ‫ہاتھ پر سونا اچھا لنا امن و راحت ہونا‬
‫ہتھیلی پر سرسوں‬
‫ہڈی پسلی ایک کرنا تشدد کرنا۔ مارنا‬ ‫عجیب اور انوکھا کام کرنا‬
‫جمانا‬
‫دولتمندی کے باعث فضول خرچی‬ ‫ہرے میں آنکھیں‬ ‫بھروسہ ختم ہونا۔ ساکھ ختم‬
‫ہوا اکھڑ جانا‬
‫کی عادت‬ ‫ہونا‬ ‫ہونا‬
‫اکسانا اور بھڑکانا‬ ‫ہوا دینا‬ ‫شہرت و مقبولت‬ ‫ہوا باندھنا‬
‫ہوا مٹھی میں بند‬
‫مہارت ہونا‬ ‫طولی رکھنا‬
‫ٰ‬ ‫ید‬ ‫نا ممکن اور کٹھن کام کرنا‬
‫کرنا‬
‫یک جان دو قالب‬
‫گہرا رشتہ ہونا ‪ ،‬دوستی ہونا‬ ‫ہوش و حواس ختم ہونا‬ ‫ہوش پر اگندہ ہونا‬
‫ہونا‬
‫ہوش اڑ جانا‬ ‫ہوش کافور ہونا‬ ‫رنگ اڑنا‬ ‫ہوائیاں اڑنا‬
‫پریشان ہونا‬ ‫ہاتھ پاؤں پھولنا‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫ہم شعرا کی غزلیات اور اشعار کی تشریحات‬


‫خواجہ میر درد‬
‫(‪1133‬ھ تا ‪1199‬ھ)‬
‫خواجہ میر درد پہلے بال صوفی شاعر قرار دیئے جاتے ہیں۔ آپ کے والد خواجہ محمد ناصر عندلیب‬
‫بھی شاعر تھے اور ان کا دیوان "نالہ عندلیب" کے نام سے مشہور ہے۔سلسلہ نسب خواجہ بہاؤالدین‬
‫نقشبند سے ملتا ہے۔ ماں کی طرف سے خواجہ میر درد کا سلسلہ حضرت غوث اعظم رحمتہ ہللا علیہ‬
‫تک پہنچتا ہے۔ ان کے نانا میر سید حسنی نواب میر احمدعلی خاں کے صاحبزادے تھے۔ جن کی‬
‫تعریف میں مشہور شاعر سودانے قصیدہ لکھاتھا اور جو جنگ پانی پت میں شہید ہوئے تھے ۔ درد‬
‫کے جد امجد بخارا سے ہندوستان آئے لیکن ان کے والد خواجہ ناصر کی والدت ہندوستان میں ہوئی ۔‬
‫خواجہ ناصر جوان ہوئے تو شاہی منصب دار مقرر کئے گئے ۔ مگرتھوڑے ہی عرصے میں تعلقات‬
‫دینوی سے دل برداشتہ ہوکرگوشہ نشین ہو گئے وہ ایک تارک الدینا بزرگ خواجہ محمد زبیر کے‬
‫مرید ہو گئے۔ ایک عرصہ میں مشہور صوفی شاہ گلشن کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے ۔ خواجہ‬
‫ت ظاہری و باطنی بڑے پراثر طریقے سے بیان کئے‬ ‫میر درد نے اپنے والد کے علم وفضل اور کماال ِ‬
‫ہیں ۔ میر درد ‪1133‬ھ میں پیدا ہوئے والد کی آغوش میں پرورش پائی اور قرآن حدیث فقہ تفسیر اور‬
‫تصوف میں کمال حاصل کیا مصحفی کے بقول خواجہ میر درد سپاہی تھے پھر والد کے حکم سے‬
‫نوکری ترک کر کے فقراختیار کیا۔ ‪ 28‬برس کی عمر میں دنیا ترک کر کے گوشہ نشین ہو گئے۔ والد‬
‫کی وفات کے بعد انتالیس سال کی عمر میں ان کی عمر میں ان کی سجادہ نشین اختیار کی۔‬
‫جب دہلی پر احمد شاہ ابدالی نے حملہ کیا اور اس کے بعد مرہٹوں نے لوٹ مار مچائی تو ہرشخص‬
‫اپنی عزت و آبرو بچانے کے لیے شہر سے رخصت ہو گیا بڑے بڑے نامی گرامی شعرانے دلی کو‬
‫خیر باد کہا اور لکھنو اور دیگر شہروں کی طرف ہجرت کی ۔ مگر خواجہ میر درد واحد شاعر تھے‬
‫جنھوں نے وطن کو نہ چھوڑا۔ وہ ہللا پر توکل کے اپنے بزرگوں کے سجادہ پر متمکن رہے۔ ان کی‬
‫قناعت‪ ،‬استقالل اور توکل علی ہللا میں ذرہ بھر فرق نہ آیا۔‬
‫م یر در دکو موسیقی سے گہری رغبت تھی ۔ ان کے آستانہ پرمحفل سماع با قاعدگی سے منعقد ہوتی‬
‫تھی ۔ خواجہ میر درد کی مشہور تصانیف میں نالہ درد‪ ،‬آہ سرد‪ ،‬در د دل شمع محفل ‪ ،‬واقعات درد‪،‬‬
‫دیوان فارسی اور دیوان اردو شامل ہیں ۔ ان کے کالم میں تصوف کا رنگ غالب ہے ۔ ان کی غزلیں‬
‫سوز و گذار اورتاثیر کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ آپ نے ‪ 66‬سال کی عمر میں ‪1199‬ء میں وفات پائی۔‬

‫درد کے اہم اشعار کی تشریح‬


‫ہم سبھی مہماں تھے واں تو ہی صاحب خانہ تھا‬ ‫مدرسہ یا دیر تھا یا کعبہ یا بت خانہ تھا‬
‫مفہوم ‪ :‬مسجد ہو مندر ہو‪ ،‬کعبہ یا بت خانہ کوئی بھی عبادت گاہ ہو ہللا ہی وہاں مالک و میزبان ہے‬
‫اور ہم (بندے) مہمان ہیں۔‬
‫تشریح‪ :‬میر دردایک باعمل صوفی شاعر تھے اور صوفی کی نگاہ میں کوئی کسی نظریاتی اختالف‬
‫کے سبب قابل نفرت نہیں ٹھہرتا۔ اس کی نظر میں سب انسان ایک ہیں اور ہللا تعالی کی مخلوق ہیں ۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫اور بھی اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اسی ( ہللا تعالی) کی عبادت کرتے ہیں ۔ مذکورہ باال شعر میں‬
‫شاعر یہی کہتا ہے کہ مسجد مندر کعبہ یا بت خانہ بھی خدا کے گھر ہیں ۔ اور وہی ان کامالک‬
‫ومختار ہے۔ جب کہ انسان اگر وہاں جاتے ہیں تو وہ کچھ دیر عبادت کے لیے جاتے ہیں ۔ صاحب‬
‫خانہ ہللا تعالی ہے اور انسان مہمان ہیں۔ انسان اس فانی دنیا میں آ کر چال جاتا ہے۔ لوگ آتے جاتے‬
‫رہتے ہیں اور اپنے اپنے عقیدے کی عبادت گاہ میں صرف اور صرف ہللا تعالی کی عبادت کرتے‬
‫رہتے ہیں مگر وہ مالک ومختار اپنے مہمانوں کا خیال رکھتا ہے۔ ان کی آرزوئیں پوری کرتا ہے‬
‫چاہے وہ کسی بھی عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں ۔ وہ سب کی سنتا ہے ۔ کیونکہ میز بان (مالک)‬
‫اپنے مہمانوں کی خاطر داری میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھتا۔ ہللا تعالی بھی تمام انسانوں کا مالک ہے‬
‫وہ سب کا رازق ہے۔ اس شعر میں شاعر نے انسانوں کو گھڑی پل کا مہمان (فانی) قرار دیا ہے اور‬
‫رب ذوالجالل کی ذات کو دائمی اور ہمیشہ رہنے واال کہا ہے۔‬

‫خواب تھا جو کچھ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔‬ ‫ت مرگ یہ ثابت ہوا‬
‫وائے نادانی کہ وق ِ‬

‫مفہوم‪ :‬افسوس میری کم عقلی کی موت کے وقت یہ بات ثابت ہوئی دنیامیں جو کچھ دیکھا وہ خواب‬
‫تھا اور جوسنتا رہا وہ محض افسانہ تھا۔ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔‬
‫تشریح‪ :‬میر در داس شعر میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کرتے ہیں ۔ وہ انسانی زندگی کی ناپائیداری‬
‫اور بے حقیقتی کوظاہرکر رہے ہیں انسان اپنی ساری زندگی موت کو فراموش کر کے دنیا کے‬
‫کھیلوں میں گم رہتا ہے۔ آخری وقت میں جب موت اسے آن لیتی ہے تو اسے اپنے جانے اور دنیا کی‬
‫بے ثباتی اور حقیقت کا پتہ چلتا ہے۔ اور وہ سوچتا ہے کہ یہ دنیا تو چند گھڑیوں کا میلہ ہے۔یہ‬
‫تومحض ایک خواب تھا۔ اس کا حقیقت سے قطعی کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ دنیا کی زیبائش اور‬
‫خوبصورتی اور اس کے بارے میں سنے جانے والے قصے محض افسانہ تھے۔ مگر اس وقت ہوش‬
‫میں آنے کا کچھ فائدہ نہیں۔ شاعراپنی نادانی پر ماتم کناں ہے اور اپنی کم عقلی پرافسوس کا اظہار کر‬
‫رہا ہے کہ اسے ان آخری لمحوں میں یہ بات سمجھ میں آئی کہ یہ دنیا فانی ہے اور اس کا حقیقت‬
‫سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہے ۔مگر اب تو وقت ختم ہو چکا ہے۔‬
‫آج وہ کل جاری باری ہے‬ ‫موت سے کسی کو رستگاری ہے‬
‫صوفیاء کے نزدیک اس فانی دنیا میں دل لگانا حماقت ہے۔ اور جولوگ خدا کو بھول کر دنیا کی‬
‫بھول بھلیوں میں غرق ہو جاتے ہیں انھیں آخری سانسوں میں پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔‬
‫مذکورہ باال شعر میں اس کیفیت کو انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا۔ بقول میرتقی میر‬

‫ہم نے کر دی ہے خبر تم کو خبردار رہو‬ ‫یہ سرا سونے کی جاگہ نہیں بیدار رہو‬
‫آشنا اپنا بھی واں اک سبزہ بیگانہ تھا‬ ‫حیف کہتے ہیں‪ ،‬ہوا گلزار تاراج خزاں‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫مفہوم‪ :‬افسوں‪ ،‬سنا ہے چمن خزاں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوگیا اس باغ میں میرا بھی ایک واقف‬
‫کارخودر وسبزہ تھا۔‬
‫تشریح‪ :‬میر درد گلشن کی تباہی بیان کرتے ہوئے وہاں کے سبزےسے اپنی آشنائی کا ذکر کر رہے‬
‫ہیں کہ باغ کی تباہی اور اجڑنے سے ان کا ایک واقف یعنی "سبزہ بیگانہ " بھی اجڑ گیا ہے۔‬
‫گلشن میں بہار کے جانے کے بعد خزاں آتی ہے۔شاخوں پر کھلے ہوئے پھول مرجھا جاتے ہیں۔ پتے‬
‫خشک ہو کر گر جاتے ہیں ہر چیز پر ویرانی چھاجاتی ہے۔ شاعرخزاں کے اثرات بیان کر رہا ہے کہ‬
‫باغ کی ایک ایک شے برباد ہوگئی ہے ظاہر ہے خودروسبزہ بھی باغ کا ایک حصہ ہے۔ وہ بھی اس‬
‫تباہی سے کب بچ سکتا ہے۔ مگر شاعر کو باغ کی دیگر اشیاء سے کہیں زیادہ خود بخود اگنے والی‬
‫گھاس کا افسوس ہے کہ باغ کے پھولوں‪ ،‬پودوں پرندوں کے ساتھ گھاس بھی اجڑ گئی ہے۔ جس کا‬
‫بے حد دکھ ہے۔‬
‫اس شعر میں استعاراتی انداز اختیار کیا گیا ہے اور شاعر اپنے عہد کے حاالت کی طرف اشارہ کرتا‬
‫ہے۔ دلی شہر پربیرونی حملہ آوروں نے کئی حملے کئے۔ یہ شہر کئی بارا جڑا۔ شہر کی تباہی پر میر‬
‫در دافسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے شہر میں امراء‪ ،‬دولت مند‪ ،‬خوبصورت اور طاقتور لوگ‬
‫شہر کی تباہی کے ساتھ تباہ ہو گئے ہیں لیکن شہر بے کس مفلس‪ ،‬مسکین اور غریب لوگ بھی تو‬
‫رہتے تھے۔ وہ شہر کی تباہی و بربادی کے ساتھ کچلے گئے ہیں ۔ شاعر کو ان مفلسوں اور بے کس‬
‫لوگوں کے مرنے کا افسوس ہے کہ جو شہر کے دیگر با اثر خوشحال لوگوں کے ساتھ بربادہوگئے‬
‫ہیں۔‬
‫وہ دل ِخالی جو ترا خاص خلوت خانہ تھا‬ ‫ت موہوم آہ‬
‫ہو گیا مہماں سرائے‪ ،‬کثر ِ‬
‫مفہوم‪ :‬وہ دل جہاں صرف ترابسیرا تھا اب وہاں وہم وگماں اور وسوسوں نے گھر کر لیا ہے۔‬
‫تشریح ‪ :‬مذکورہ باال شعر میں میر درداپنے دل میں وسوسوں اور وہم و گماں کے گھر کرنے پر‬
‫افسوس کا اظہار کررہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں اے ہللا ! میراوہ دل ! جس میں تیرے سوا اور کچھ نہ‬
‫تھا۔ اب اس خالی دل میں وہم و گمان اور شکوک وشبہات نے جگہ بنالی ہے۔ درد کا خیال ہے کہ دل‬
‫میں ہللا کی یاد کے سوا کچھ نہیں ہونا چاہے ان لوگوں کے دل آرزوؤں‪ ،‬حسرتوں اور تمناؤں سے‬
‫بھرے ہوتے ہیں اور تمنائیں بتوں کی طرح دل کو گمراہ کئے رہتی ہیں۔ اور انسان ان آرزوؤں‬
‫کے لیے دنیا کی بھول بھلیوں میں کھوجاتا ہے۔ وہ ہللا تعالی اور اپنی اصل سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔‬
‫شاعرایسی کیفیت کو بیان کر رہا ہے کہ وہ دل جوکبھی تیرا خاص خلوت خانہ (گھر) تھا اب اس دل‬
‫میں وسوے رہنے لگے ہیں۔‬
‫تو ہی آیا نظر جدھردیکھا‬ ‫جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا‬
‫مفہوم‪ :‬دنیامیں آ کر ادھر ادھر دیکھا تو تیرے سوا اور کچھ دکھائی نہ دیا۔‬
‫تشریح‪ :‬صوفیا کا نظریہ ہے کہ اس دنیا کے ذرے ذرے میں ہللا تعالی کا نور کارفرما ہے۔ وہ ہر چیز‬
‫میں دکھائی دے رہا ہے اور اس کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔ درد اس موضوع کو بیان کر رہے ہیں کہ‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫میں نے دنیامیں ادھر ادھر د یکھا ہرطرف تیرا ہی جلوہ نظر آیا۔ مجھے تیرے جلوؤوں کے سوا کچھ‬
‫نظر نہیں آتا۔‬
‫جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے‬ ‫تجلی ترے زات کی سو بہ سو ہے‬
‫دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں‬ ‫تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو‬
‫مفہوم‪ :‬اے شیخ ! تو ہمارے بھیگے دامن پہ مت جا۔یہ نہ سمجھ کہ ہم گنہگاروں نے رو رو کر امن‬
‫گیال کر رکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہی دامن نچوڑ دیں تو اس پاکیزہ پانی سے فرشتے وضو کر‬
‫سکتے ہیں۔‬
‫تشریح‪ :‬میر درداس شعرمیں شیخ پرطنز کرتے نظر آتے ہیں اردو شاعری میں واعظ‪ ،‬شیخ ‪،‬مال ‪،‬‬
‫اور زاہد پر ایسی چوٹیں عام ملتی ہیں۔ ایسے لوگ اپنی زہد و ریاضیت پرغرورکرتے نظر آتے ہیں ۔‬
‫اور دوسرے لوگوں کے ظاہری اعمال اور گناہوں کو طعن و طنز کا نشانہ بناتے ہیں ۔ میر درد نے‬
‫اس بات کو بیان کیا ہے کہ اے شیخ ہمارے بھیگے دامن کو حقارت سے مت دیکھ۔ تو سمجھتا ہے کہ‬
‫میں گناہوں کی شرمندگی سے رو رہا ہوں ۔ یہ بات حقیقت نہیں ہے تو جس دامن کو شراب سے گیال‬
‫سمجھ رہا ہے وہ تو خدا کی یاد میں رونے سے گیال ہوا ہے اور یہ بھیگادامن اتنے مقدس اور شفاف‬
‫آنسوؤں سے تر ہے کہ اسے نچوڑنے پر فرشتوں جیسی پا کیزہ مخلوق وضو کرسکتی ہے۔‬
‫منہ پھیر لے وہ جس کے مجھے روبرو کریں‬ ‫ہر چند آئینہ ہوں پر اتنا ہوں ناقبول‬
‫مفہوم‪ :‬اگر چہ میں آئینے کی طرح شفاف ہوں مگر مجھے جس کے روبرو کیا جائے وہ منہ پھیر لیتا‬
‫ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬اس شعر میں شاعر نے لوگوں کی بدصورتی کی عکاسی کی ہے۔ آئینے میں وہی نظر آتا ہے‬
‫جو اس کے سامنے رکھا جائے ۔ شاعر کہتا ہے کہ میں آئینے کی طرح شفاف اور کھراہوں سچی بات‬
‫منہ پرکہتا ہوں لوگوں کو آئینے میں اپنی صورت نظر آتی ہے جو مکروہ ہے لہذا وہ آئینے سے منہ‬
‫پھیر لیتے ہیں یعنی لوگ مجھ سے کتراتے ہیں۔ میری سچائی بے باکی اور حق گوئی سے بدکتے ہیں۔‬
‫بقول میر تقی میر‬

‫یہ نمائش سراب کی سی ہے‬ ‫ہستی اپنی حباب کی سی ہے‬


‫ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے‬ ‫زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے‬

‫مفہوم‪ :‬یہ ہماری زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے کہ لمحہ لمحہ تباہ ہورہے ہیں اگریہ زندگی ہے تو ہم‬
‫اس جینے کے ہاتھوں مرتے جارہے ہیں۔‬
‫تشریح‪ :‬صوفیاء کے نزدیک یہ دنیا دکھوں کا گھر ہے۔ یہاں ہرطرف دکھ ہی دکھ اور مصائب و آالم‬
‫کا ہجوم ہے۔ انسانی زندگی کسی لمحے سکون میں نہیں ہے۔ جیسےطوفان آتا ہے تو ہر چیز کو تہس‬
‫نہس کر دیتا ہے گویا زندگی الٹ پلٹ جاتی ہے۔ گویا ساری زندگی اگر طوفان بن جائے ہرلمحہ الٹ‬
‫پلٹ تباہی و بربادی اورغم و آالم میں بسر ہو تو شاعر نے یہی کہنا ہے کہ ہم تو اس جینے کے‬
‫ہاتھوں مر چلے۔ یعنی یہی سی زندگی ہے تو ہم یہاں پل پل مر رہے ہیں۔‬
‫زخم کتنوں کے سنا ہے بھر چلے‬ ‫ایک میں دل ریش ہوں ویسا ہی دوست‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫مفہوم‪ :‬ایک میں ہی زخموں کا ماراویسے کاویساہوں باقی سب دکھی لوگوں کے زخم کب کے بھر‬
‫چکے ہیں۔‬
‫تشریح‪ :‬شاعر اپنے دکھوں کے تسلسل اور اپنے زخموں کے ہمیشہ ہرارہنے کا ذکر کر رہا ہے۔ گویا‬
‫وہ اپنی بد بختی اور بد قسمتی پر افسوس کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے‬
‫یہاں ہرلمحہ تبدیل ہورہا ہے۔ ہر رات کے بعد صبح ہوتی ہے ہرصبح کے بعد شام ‪،‬خزاں کے بعد‬
‫بہار‪ ،‬دکھ ہے تو پھر سکھ آجاتا ہے۔ کئی لوگ جو دکھی تھے اب سکھی نظر آتے ہیں۔ بیمارتندرست‬
‫ہو گیا ہے لیکن ایک میں ایسا بدنصیب ہوں جو ازل سے دکھوں میں گھرا ہوا ہے اور جس کے دل‬
‫کے زخم ہرے ہی رہتے ہیں ہر زخم بھرنے کا نام نہیں لیتے۔‬
‫بقول صوفی تبسم‬
‫دنیا کی وہی رونق دل کی وی تنہائی‬ ‫سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی‬
‫شیخ صاحب چھوڑ گھر‪ ،‬باہر چلے‬ ‫ڈھونڈتے ہیں آپ سے اس کو پرے‬
‫مفہوم‪ :‬شیخ صاحب اپنے آپ سے اسے (ذات باری تعالیٰ کو) لگ ڈھونڈ رہے ہیں اور گھر چھوڑ‬
‫کر باہر جارہے ہیں۔‬
‫تشریح‪ :‬صوفیاء کا نظریہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہماری شہ رگ سے بھی نزدیک ہے۔ حدیث قدسی ہے کہ‬
‫جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا۔ انسان کو اپنی اصل کو پانا چاہے محض‬
‫جنگلوں میں چلّے کاٹنا اور دشت و صحرا کی خاک چھانے سے ہللا تعالی نہیں ملتا۔ اس کے لیے‬
‫اپنے من میں ڈوبنا پڑتا ہے۔ شاعر نے شیخ پر طنز کی ہے کہ وہ اپنے آپ سے پرےہللا تعالیٰ کی‬
‫ذات کی تالش میں ہے حاالنکہ وہ تو اس کی شہ رگ سے بھی نزدیک ہے مگر شیخ اپنا گھر بار‬
‫چھوڑ کر باہر جنگوں اور صحراؤں میں اسے پکار رہا ہے یہ سراسرنادانی ہے۔‬
‫عالم تو خیال کا چمن ہے‬ ‫مت جا ترو تازگی پہ اس کی‬
‫مفہوم‪ :‬تو دنیا کی تروتازگی اور شادابی ونکھار پر مت جایہ دنیا تو خیال کا چمن ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬درد دنیا کو" خیال "قرار دے رہے ہیں غالب نے ایک شعر میں یہی مضمون بیان کیا ہے۔‬
‫دام خیال ہے‬
‫عالم تو حلقہ ِ‬ ‫ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد‬
‫یعنی یہ جہاں حلقہء دام خیال ہے۔ میر درد بھی دنیا کی شادابی اورنکھار کی حقیقت بیان کررہے ہیں۔‬
‫اے انسان! تو دنیا کی ظاہری شان و شوکت اور تازگی اور خوبصورتی کی طرف نہ دیکھ یہ ساری‬
‫دنیا تو خیال کا ایک باغ ہے۔ اس کی حقیقت کچھ نہیں۔‬
‫ہے کوئی دن کی بات یہ گھر تھا‬ ‫گزروں ہوں جس خرابے پر کہتے ہیں واں کے لوگ‬
‫یہ باغ تھا‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫مفہوم‪ :‬میں دنیا کے کسی بھی حصے سے گزرا ہوں وہاں لوگ یہی بتاتے ہیں کہ یہاں ایک گھر‬
‫آبادتھا اور یہاں ایک باغ ہوا کرتاتھا مگر اب وہاں ویرانی ہے۔ تشریح‪:‬دنیا کی ویرانی ‪ ،‬بے ثباتی کی‬
‫طرف اشارہ ہے۔ میر در دنیا کی بدلتی رت کو بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں کل کیا تھا‪ ،‬آج کیا ہے۔‬
‫دنیا کبھی ایک سی نہیں رہتی۔ آج جہاں ویرانی اورشکستگی ہے یہاں کبھی باغ اور آبادی ہوگی ۔‬
‫شاعر کہتا ہے میں جس ویران عالقے سے گزرا ہوں وہاں سے ہی پتہ چال ہے کہ یہاں بھی آبادی‬
‫تھی۔ لوگ آباد تھے اور یہاں گھروں میں رونق اور چہل پہل تھی۔ کہیں باغ اور سر سبز عالقہ تھا۔‬
‫مگر اب وہاں ویرانی اور تباہی ہے۔یہ دینا باآلخر اسی حال کو پہنچتی ہے ۔ ہر طرف اجاڑ پن ہے۔‬
‫یہاں دل لگانا نادانی ہے۔‬
‫پانی پر نقش کب ہے آیا ہے کہ ناپائیدار ہیں ہم‬
‫مفہوم‪ :‬انسانی زندگی کی ناپائیداری کی طرف اشارہ ہے یعنی انسان پانی کے نقش سے بھی ناپائیدار‬
‫ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬میر در دانسانی زندگی کی فانی حیثیت بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ دنیا فانی ہے تو انسان‬
‫بھی فنا کی طرف گامزن ہے۔ یہاں ہر شے کو زوال ہے انسانی زندگی‪ ،‬پانی پر بلبلے کی حیثیت سے‬
‫بھی کم تر ہے۔‬
‫۔کیا بھروسہ ہے زندگانی کا آدی بلبلہ ہے پانی کا‬
‫پانی پر نقش پل میں مٹ جاتا ہے انسان کی ناپائیداری اس سے بھی کم تر ہے۔ یعنی زندگی کا کچھ‬
‫بھروسہ نہیں ہے تو پھر یہاں غرور تکبر کیسا؟‬
‫مجبور ہیں تو ہم ہیں مختار ہیں تو ہم ہیں‬ ‫وابستہ ہے ہمیں سے گر جبر ہے وگر قدر‬
‫مفہوم‪ :‬ہمیں سے فلسفہ جبر وقد روابستہ ہے ہم مجبور بھی ہیں اور مختار بھی۔‬
‫تشریح ‪:‬۔مذکورہ باال شعر میں فلسفہ ء جبر و قدر پیش کیا گیا ہے کہ انسان ایک طرف تو جو چاہتا‬
‫ہے‪ ،‬کرتا ہے۔ اسے عقل وخرد کی نعمت دی گئی ہے۔ دوسری طرف یہ بتایا جاتا ہے کہ ہللا تعالی ہر‬
‫چیز پر قادر ہے۔ اس کی رضا کے بغیر پتہ بھی حرکت نہیں کر سکتا۔ شاعراس موضوع پر اظہار‬
‫خیال کر رہا ہے کہ دنیا میں انسان سا مجبور اور بے بس کوئی نہیں ہے۔ اور وہ اگر چاہے تو اپنی‬
‫دنیا آپ پیدا کرسکتا ہے۔ وہ خدا کی رضا حاصل کرے اپنے آپ سے آگاہ سب کچھ حاصل کرسکتا‬
‫ہے۔ بقول‬
‫خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا‬ ‫خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے‬
‫ہے‬

‫میرتقی میر نے بھی اس موضوع پر کہا ہے۔‬


‫جو چاہیں سو آپ کریں ہم کو عبث بدنام کیا‬ ‫ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی‬
‫میرا ہی دل وہ ہے کہ جہاں تو سما سکے‬ ‫ارض و سما کہاں تیری وسعت کو پا سکے‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫مفہوم‪ :‬زمین و آسمان تیری وسعت کونہیں پاسکتے اے ہللا ! میراہی دل وہ جگہ ہے جہاں تو‬
‫سماسکتا ہے۔‬
‫تشریح‪:‬اس شعر میں میر درد ہللا تعالیٰ کی حقیقت و وسعت کو بیان کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا‬
‫ہے خدا کا قیام ناآسمان ہے نہ زمین بلکہ وہ مومن کا قلب مصفی ٰہے۔ یہی مضمون اس شعر میں پیش‬
‫کیا گیا ہے کہ زمین و آسمان تیری وسعت کونہیں پاسکتے البتہ انسان کے دل روشن میں تو سماسکتا‬
‫ہے۔‬
‫مومن کا قلب ہللا تعالیٰ کا عرش ہے‬ ‫قلب المومنو عرش ہللا تعالیٰ‬
‫کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے‬ ‫مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے‬
‫مفہوم‪ :‬مجھے یہ خوف ہے کہ میرا دل مردہ نہ ہو جائے کہ دل کی زندگی ہی سے میں زندہ ہوں۔‬
‫تشریح‪:‬دل کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ انسان کا دل اگر ٹھیک ہے تو پورا جسم درست ہے۔ حدیث‬
‫شریف میں بھی آتا ہے۔ انسان کے سینے میں یہ جو دل ہے یہ درست ہے تو اس کا سارا بدن درست‬
‫ہے ۔ مراد یہ ہے کہ دل شفاف ہے اس میں دنیاوی خواہشات حرص وہوس کی آلودگی نہیں ہے تو وہ‬
‫دل ہللا کا عرش ہے۔ وہ انسان کا بہترین دوست ہے۔ دل ہر پل انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن دل‬
‫آلودہ ہو جائے اسے زنگ لگ جائے تو انسان کی زندگی مردوں سے بھی بدتر ہو گی۔ کیونکہ اس کی‬
‫رہنمائی کرنے واال دل مردہ ہو چکا ہے۔ درددل کی زندگی کو اپنی زندگی سے عبارت رکھتے ہیں‬
‫لیکن اگر دل زندہ ہے تو سمجھ لیں کہ انسان زندہ ہے اس کا ضمیر روشن ہے اگر دل مردہ ہوجائے‬
‫تو پھر انسان‪ ،‬انسان نہیں حیوان بن جاتا ہے۔‬

‫مرزا محمد رفیع سودا‬


‫(‪1125‬ھ تا ‪1195‬ھ)‬
‫مرزامحمد رفیع تخلص سودا‪ ،‬اردو شاعری میں اہم مقام رکھتے ہیں ۔ ان کے آبا و اجدادکابل سے‬
‫ہندوستان آئے ۔ اور دہلی میں سکونت اختیار کی اور یہیں سودا کی والدت ہوئی ۔ محمد حسین آزاد آب‬
‫حیات میں سودا کی پیدائش ‪1125‬ھ تحریر کرتے ہیں ۔ سودا کی پرورش اور ابتدائی تعلیم و تربیت‬
‫دہلی ہی میں ہوئی۔ آپ پہلے سلیمان قلی خاں وداد کے اور اس کے بعد شاہ حاتم کے شاگرد ہوئے ۔ ان‬
‫کی شاعری اور استادی کا اس قدر چرچا تھا کہ بادشاہ وقت شاہ عالم کو بھی ان کی شاگردی کا شوق‬
‫ہواتو وہ بھی ان کے شاگرد ہو گئے ۔ دلّی پرافتاد پڑی تو سودا نے بھی ہجرت کی ٹھانی۔ دہلی سے‬
‫ہجرت کے وقت ان کی عمر ساٹھ برس کی تھی ۔ فرخ آباد پہنچ نواب احمد خان بنگش غالب جنگ بر‬
‫سر حکومت تھے۔ چند سال تک یہیں قیام کیا۔ ‪1185‬ء ھ میں مرزا سودا فیض آباد کی طرف چلے‬
‫گئے ۔ اور نواب شجاع الدولہ کے دربار سے وابستہ ہو گئے ۔ جب سلطنت کا مرکز لکھنو قرار پایا تو‬
‫سودا بھی لکھنو چلے گئے ۔ شجاع الدولہ کے بعد نواب آصف الدولہ تخت نشین ہوئے توانہوں نے‬
‫بھی مرزا سودا کی تکریم میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی ۔ آصف الدولہ سے سودا کی بے حد قربت‬
‫رہی۔ مرزا سود کا انتقال لکھنو میں ‪1195‬ھ مطابق ‪1781‬ء میں ہوا۔ ان کی چند مشہور تصانیف میں‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫مختصر دیوان فارسی چند فارسی قصائد‪ ،‬دیوان اردوملک جس میں غزلوں کے عالدہ رباعیات‪،‬‬
‫قطعات‪ ،‬تاریخیں‪ ،‬واسوخت‪ ،‬مستزاد‪ ،‬تفمین‪ ،‬مخمس‪ ،‬ترجیح بند غرض ہر قسم کا کالم ہے‬
‫اس کے عالوہ قصائد اور مراثی بھی خاصی تعداد میں ملتے ہیں۔‬
‫میر تقی میر کی مشہورمثنوی شعلعشق کاترجمین میں انہوں نے کیا۔‬

‫سودا کے اہم اشعار کی تشریح‬


‫ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چال میں‬ ‫ت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا‬
‫کیفی ِ‬
‫مفہوم‪:‬اس کی آنکھوں کے خمار کی کیفیت مجھے یاد ہے میرے ہاتھوں سے ساغر لےلو کہ میرے‬
‫ہوش اڑ چکے ہیں۔‬
‫تشریح‪ :‬رومانوی انداز میں سودا محبوب کی آنکھوں کی "خماری" کو بیان کرتے نظر آتے ہیں‬
‫محبوب کا محبت سے دیکھنا‪ ،‬عاشق کے لیے شراب کے نشے سے کم نہیں ہوتا۔ سودا اپنے محبوب‬
‫کی آنکھوں کی محبت بھری کیفیت کو یاد کر کے مستی میں جھوم رہے ہیں ۔ ایسے میں وہ شراب‬
‫کے پینے کو پرے کررہے ہیں وہ کہتے ہیں ساغر مرے ہاتھ سے لے لوک میری کیفیت بھی اور‬
‫ہوگئی ہے اور مجھے محبت کے خمار نے خود سے بیگانہ کر دیا ہے۔‬
‫دو چار گھڑی رونادو چار گھڑی‬ ‫عاشق کی بھی کٹتی ہیں کیا خوب طرح راتیں‬
‫باتیں‬
‫مفہوم‪ :‬محبت کرنے والے کی راتیں ‪ ،‬باتیں کرتے اور روتے کٹتی ہیں۔‬
‫تشریح‪ :‬عشق کے دکھاانو کھے ہوتے ہیں۔ کسی گھڑی چین نہیں آتا۔ انسان پل پل ایک عجیب کیفیت‬
‫اور بے قراری میں گزارتا ہے۔ سودا ایسی کیفیت کو بیان‬
‫کررہے ہیں کہ عاشق کی راتیں بھی عجیب طرح سے گزرتی ہیں کہ وہ دو چار گھڑی رونے لگتا‬
‫ہے اور پھر دو چار گھڑی باتوں میں لگ جاتا ہے۔ گویا محبوب کی باتیں کرتے اور اسے یادکرتے‬
‫اس کی راتیں گزرتی ہیں عشق میں محبوب کی یادمیں رونے کے عالوہ بھال اورکیا کام ہوسکتا ہے۔‬
‫مژگاں کی ہی گھٹا ئیں اب تک برستیاں ہیں‬ ‫برسات کا تو موسم کب کا نکل گیا‬
‫مفہوم‪ :‬بارش کا موسم گزر چکا ہے لیکن آنکھوں کی گھٹائیں تاحال برس رہی ہیں۔‬
‫تشریح ‪:‬شاعر اپنے دکھوں اور غموں کی کیفیت میں ایک افشانی کا تذکرہ کر رہا ہے وہ کہتا ہے کہ‬
‫ساون کے دنوں میں محبوب کی یاد میں تو لوگ روتے ہیں۔ محبوب کی یاد میں رونے کا موسم بیت‬
‫گیا ہے۔ مگر ہماری آنکھیں ابھی تک برس رہی ہے۔ محبوب کی جدائی میں عاشق رات دن آنسو بہاتا‬
‫ہے۔ اور یہ آنسواسی وقت تھکتے ہیں جب محبوب سے مالقات ہوجائے ۔ مرزا سودا اسی کیفیت کو‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫بیان کرتے ہیں کہ برسات کب کی گزرچکی لیکن ہماری آنکھوں کے بادل بدستور برس رہے ہیں۔‬
‫نجانے یہ کب تھمیں گے‬
‫پھڑکنا بھی ہے بھوال ہو وہ پرواز کیا سمجھے‬ ‫رہا کرنا ہمیں صیاد اب پامال کرنا ہے‬
‫مفہوم‪:‬اے صیاد ہمیں اب رہا مت کر میں پرواز بھول چکی ہے بلکہ ہمیں تو اب پھڑکنا بھی نہیں‬
‫آتا۔‬
‫تشریح‪:‬عاشق کی اسیری کا ذکر کیا جارہا ہے۔ اور صیاد سے مراد محبوب ہے۔ سودا اپنے محبوب‬
‫سے مخاطب ہیں اور کہتے ہیں اے محبوب ہمیں اپنی زلفوں کا اسیر رہنے دے۔ اب ہمیں آزادمت‬
‫کرنا۔ اب ہم اور کسی کام کے نہیں ہیں اپنی محبت میں گرفتار رہنے دے۔ ہمیں تو پھڑکنا ہی بھول گیا‬
‫ہے تو آزاد کرے گا تو پرواز کیا کریں گے۔ ہمیں اپنے پاس ہی رہنے دے ہمیں یہ اسیری آزادی سے‬
‫بہتر ہے۔‬
‫اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو‬ ‫گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی‬
‫ادھر بھی‬
‫مفہوم‪ :‬تو دوسروں کی طرف پھول تو کیا پھل بھی پھینک رہا ہے اے باغ کے روح رواں کچھ‬
‫ادھربھی عنایت کر۔‬
‫تشریح‪:‬محبوب سے التفات کی درخواست ہے شاعرمحبوب کے عالوہ بادشاہ وقت سے بھی مخاطب‬
‫ہوسکتا ہے۔ کہ دوسروں پرنوازشات کی برسات ہورہی ہیں۔کچھ ادھربھی عطا ہو جائے۔" ثمر" سے‬
‫دھیان بادشاہ یا صاحب اقتدار یاصاحب دولت کی طرف جاتا ہے مراد یہ ہے کہ دوسروں پر عنایات‬
‫ہیں تو مجھ پر کیوں نہیں۔‬
‫اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں‬ ‫ا وے صورتیں الہی کس دیس بستیاں ہیں‬
‫مفہوم‪ :‬وہ چہرے اب کس ملک میں بہتے ہیں جنھیں دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں۔‬
‫تشریح‪ :‬سودا کے مذکورہ باال شعر میں چھوڑنے والوں کو یاد کیا جارہا ہے۔ شاعر کہتا ہے یا الہی‬
‫دہ چہرے جنھیں دیکھنے کا بہت جی کرتا ہے کہاں چلے گئے کسی دیس میں جابسے ہیں۔ اب ان‬
‫چہروں کو دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس گئیں ہیں ۔ وہ لوگ جو رات دن ہمارے ساتھ رہتے تھے۔‬
‫اب وہ کہاں چلے گئے ہم انھیں کسی جگہ تالش کریں۔ مرنے والے لوٹ کر نہیں آتے اور انسان کے‬
‫پاس یادوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اور وہ بیتے دنوں کو یاد کر کے آنسو بہاتا ہے۔ شاعر ماضی کے‬
‫گزرے لمحوں کو یاد کر رہا ہے اور اپنے پیاروں کے لیے فریاد کناں ہے۔‬
‫کون جا سوختہ جلتا ہے تہہ خاک ہنوز‬ ‫گل زمین سے جو نکلتا ہے برنگِ شعلہ‬
‫مفہوم‪ :‬پھول زمین سے شعلے کی طرح نکل رہا ہے۔ یہ کون زمین کے نیچے ابھی تک جل رہا ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬شاعر بعض اوقات رعایت لفظی سے بھی کام لیتے ہیں ۔ پھول کے رنگ کو شعلے سے‬
‫تشبیہ دی گئی ہے اور پھر یہ قیاس کیا گیا ہے کہ کوئی زمین کے نچے دل جال محبت کی آگ میں‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫ابھی تک جل رہا ہے۔ ورنہ یہ پھول شعلے کی طرح کیوں دکھائی دیتا۔ شاعر کہنا یہ چاہتا ہے یہ کون‬
‫محبت کا مارا ہے تہہ خاک جل رہا ہے کہ پھول بھی شعلے کی طرح نکل رہا ہے۔ اس طرح کا ایک‬
‫شعر آتش کابھی ہے جس میں وہ دور کی کوڑی التے ہیں۔‬
‫قاروں نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا‬ ‫زیر زمیں سے آتا ہے جو گل سو زربکف‬
‫تجھ چشم سے ٹپکا ہے کبھی لخت جگر بھی‬ ‫اے ابرقسم ہے تجھے رونے کی ہماری‬
‫مفہوم‪ :‬اے بادل تجھے ہمارے رونے کی قسم سچھ بتا! کبھی تیری آنکھوں سے جگر بھی ٹپکا ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬سودا بادل سے کہہ رہے ہیں تو کیا برستا ہے بتا تیری آنکھوں سے دل ٹپکا ہے۔ میں تو اکثر‬
‫خون جگر کے آنسو روتا ہوں۔ کیا تو کبھی اس طرح رویا ہے۔ سچ بتا تجھے میری آنکھوں کی قسم !‬
‫کیا تو نے کبھی روتے ہوئے آنکھوں سے جگر کا ٹکڑا بہایا ہے۔ میری آنکھوں کو دیکھ کر جگر کٹ‬
‫کٹ کر بہہ رہا ہے کیا کبھی تیرا یہ حال ہوا ہے۔‬
‫آئی ہے سحر ہونے کو ٹک تو کہیں مر بھی‬ ‫سودا تری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات‬
‫مفہوم ‪ :‬سودا تو تمام رات فریاد کناں رہا ہے اب سی ہوگئی ہے اب تجھے مر جانا چاہیے۔‬
‫تشریح‪ :‬شاعر محبت کے دکھوں پر آہ و زاری کر رہا ہے۔ سودا اپنے آپ سے مخاطب ہے کہ اے‬
‫سودا تیری فریاد سے رات آنکھوں میں کٹ گئی ہے ۔ تو نے تو ہمسایوں کو بھی سونے نہیں دیا۔‬
‫تیری فریاد سے کون سوئے گا۔ لیکن اب صبح ہوگئی ہے۔ اب تو تمھیں چین آ جانا چاہیے۔ رات بھر‬
‫رونے سے مریض کو یا تو نیند آ جاتی ہے یا پھر وہ ہمیشہ کے لیے چپ ہوجاتا ہے۔ یعنی مرجاتا ہے‬
‫ایسی ہی کیفیت اس شعر میں بیان کی گئی ۔ کہ سودا صبح ہونے کو ہے اب تو مربھی سہی ۔ یہ فریاد‬
‫کر رات آنکھوں میں کٹ گئی ہے اور نیند بر باد ہو کر رہ گئی ہے۔‬
‫مجھ کو نہ کیا دل سے میں زنہار‬ ‫بھوال پھرو ں ہوں آپ کو اک عمر سےلیکن‬
‫فراموش‬
‫مفہوم ‪:‬۔میں اپنے آپ کو ایک عمر سے بھوال ہوا ہوں لیکن ایک پل میں تجھے دل سے نہیں بھوال۔‬
‫تشریح‪:‬محبوب کو یاد رکھنے کا بیان ہے۔ سودا کہتے ہیں کہ دنیا کے ہنگاموں میں اور دکھوں میں‬
‫مجھے اپنا آپ بھوال ہوا ہے۔ اپنی خبر ہی نہیں ۔ نہ کھانے پینے کی فکر‬
‫ہے اور نہ آرام کی ۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اے مرے محبوب میں نے اپنے دل سے تجھے‬
‫کبھی فراموش نہیں کیا۔ ہر حال میں کچھ یاد رکھا ہے۔ تیری یاد میرےساتھ ساتھ ہے۔ میں جیسے بھی‬
‫ہوں جہاں بھی ہوں تجھے نہیں بھول سکا۔‬

‫میر تقی میر‬


‫(‪1135‬تا‪1225‬ھ)‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫میرتقی میر ‪1725‬ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد میرمحمد علی متقی ایک دیندار‪ ،‬متقی اور‬
‫پرہیز گار شخص تھے۔ میر تقی میرا بھی کم سن ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اس کے بعد‬
‫آپ کی پرورش آپ کے ماموں سراج الدین آرزو نے کی اور انہی کی محبت سے شاعری کی طرف‬
‫مائل ہوئے ۔ میر کی ساری زندگی رنج و آالم میں گزری بچپن‪ ،‬جوانی اور آخری عمربھی انتہائی‬
‫کسمپرسی کے عالم میں گزاری۔ عشق کی ناکامی نے انھیں بدحال کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی‬
‫شاعری میں دردوغم اور آنسو آہیں نمایاں محسوس کئے جاسکتے ہیں ۔ خود میر اپنی شاعری کو‬
‫درودآالم کا کامجموعہ قرار دیے ہیں۔‬
‫درد و غم کتنے کئے جمع تع دیوان کیا‬ ‫مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے‬
‫میر نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سید امان ہللا سے حاصل کی ۔ سراج الدین خان آرزو کی تربیت نے ان‬
‫کی شاعری کو جالبخشی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دلی میں آئے دن کی خانہ جنگی اور بدامنی سے لوگ‬
‫تنگ تھے۔ میربھی ان حاالت سے دلبرداشتہ ہوئے اور پھر نواب آصف الدولہ کی دعوت پر ‪1197‬ھہ‬
‫‪1782‬ء میں‬
‫لکھنو چلے گئے ۔ کسی بات پرنواب سے ان بن ہوگئی اور دربار سے ناطہ تو ڑلیا اورپھرمفلسی کے‬
‫عالم ہی میں وفات پائی۔ اردو شعرا کا پہال تذکرہ نکات الشعراء اور ذکرمیر (فارسی کے عالوہ"‬
‫کلیات میر" ان کی یادگار تصانیف ہیں۔‬

‫میرتقی میر کے اہم اشعار کی تشریح‬


‫کل اس پر یہیں شور ہے پھرنوحہ گری‬ ‫جس سرکو غرور آج ہے یہاں تاج وری کا‬
‫کا‬
‫مفہوم‪ :‬جس سرمیں تاج وری کے غرور کا سودا سمایا ہوا ہے آخر اس نے خاک میں ملنا ہے کل اس‬
‫پرنوحہ گری کا شور ہورہا ہوگا۔‬
‫تشریح‪ :‬اس شعر میں میرتقی میر غرورتکبر کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اس فانی دنیا میں‬
‫بادشاہی کا غرور انسان کو زیب نہیں دیتا۔ کہ یہاں کی ہر شے آخر کوفنا ہو جانی ہے۔ ایسے میں اپنی‬
‫بادشاہت پر تکبر کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ بادشاہوں نے بھی خاک میں سمانا ہے۔ آج جو شخص‬
‫اپنی تاجوری پر غرور کررہا ہے تو کل اس سرکاغرور خاک میں مل جائے گا اور لوگ اس پر نوحہ‬
‫کناں ہوں گے۔‬
‫‪ .‬آفاق کی منزل سے گیا کون سالمت اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا‬
‫مفہوم‪ :‬دنیا کی منزل سے کوئی بھی شخص سالمت واپس نہیں جاتا۔ اور سب کچھ یہیں چھوڑ جاتا‬
‫ہے۔‬
‫تشریح‪:‬دنیا فانی ہے۔ یہاں کی ہر شے آخر فنا ہو جائے گی ۔ دنیا کے مال و اسباب دولت و جائیداد‬
‫سب کچھ یہیں رہ جائے گا۔ لہذا اس فانی دنیا میں دل لگانا نادانی ہے۔ یہاں ہر مسافر کامال واسباب‬
‫راستے ہی میں لوٹ لیا جاتا ہے۔ یہ دنیا اسی منزل ہے کہ جوآتا ہے واپس لٹ کر ہی جاتا ہے۔ دوسرا‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫مفہوم یہ ہے کہ انسان دنیا میں آتا ہے بہت کی صالحتیں لے کر آتا ہے اس کے حواس بہترین ہوتے‬
‫ہیں مگر بوڑھا ہوتے ہی اس کے قوی کمزور ناتواں ہوجاتے ہیں ۔ حواس پہلے جیسے نہیں‬
‫رہتے۔یعنی اسباب راہ میں ہی لٹ جاتے ہیں۔‬
‫آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا‬ ‫لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام‬
‫مفہوم‪ :‬یہ دنیاشیشے کے کارخانے کی طرح ہے اور یہاں احتیاط الزم ہے۔ سانس بھی آہستہ لے کہ‬
‫یہاں کام نازک ہے۔‬
‫تشریح‪:‬میر دنیا کوشیشے کی فیکٹری قرار دیتے ہیں جہاں لوگ احتیاط سے ہر کام کرتے ہیں ۔‬
‫شیشے کے کارخانے میں بے حد احتیاط کی جاتی ہے اور پھونک پھونک کر قدم رکھا جاتا ہے۔‬
‫شیشے کے کارخانہ میں شیشے کا سامان تیار ہوتا ہے۔ اور ذراسی ٹھیس پروہ سامان ٹوٹ سکتا ہے۔‬
‫میرتقی میر دنیا کوبھی شیشے کا کارخانہ قرار دیتے ہیں ۔ جہاں وہ بے حد احتیاط سے زندگی‬
‫گزارنے کا درس دیتے ہیں۔ اور سانس بھی آہستہ آہستہ لینے کی تلقین کرتے ہیں مراد یہ ہے کہ بہت‬
‫ہوش اور احتیاط کی ضرورت ہے لوگوں میں رہتے ہوئے نازک دلوں کا خیال رکھا جائے یعنی‬

‫انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو‬


‫اس شعر میں نکتہ یہ ہے کہ دوسروں کی دل آزاری نہ کی جائے اور احساس اور ہمدردی کی جائے‬
‫کہ دل ٹوٹنے کا اندیشہ ہے۔‬
‫کیا یار بھروسہ ہے چراغ سحری کا‬ ‫ٹک میر جگر سوختہ کی جلد خبر لے‬
‫مفہوم ‪ :‬میر دل جلے کی ذرا جلدی خبر لی جائے وہ مین کا چراغ ہے کس وقت بھی بجھ سکتا ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬اس شعر میں شاعر اپنے آپ کو چراغ سحری قرار دے رہا ہے کہ اے محبوب میرسوختہ دل‬
‫کی خبرلے ۔ کیونکہ وصبح کا چراغ ہے۔ جو صبح ہوتے ہی بجھ جاتا ہے۔ گویا میر تقی کادم کسی‬
‫وقت بھی نکل سکتا ہے۔ اس چراغ سحری کی خبر گیری کرکہ صبح کے چراغ کا کوئی بھر وسہ‬
‫نہیں کسی وقت بھی گل ہوسکتا ہے۔‬
‫لوہو آتا ہے جب نہیں آتا‬ ‫‪ .‬اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا‬
‫مفہوم‪ :‬آنکھوں میں کسی وقت آنسو نہیں آتا جب آنسونہیں ہوتے تو لہوآنکھوں سے بہتا ہے۔‬
‫تشریح‪:‬اس شعر میں میر تقی میر نے اپنی زندگی کے آالم پررونے اور کڑھنے کی بات کی ہے کہ‬
‫میری آنکھوں سے ہر وقت آنسوؤں کی جھڑی لگی رہتی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں ہے جب آنکھوں میں‬
‫آنسو نہیں ہوتے۔ بلکہ آنسوختم ہو جائیں تو آنکھوں سے لہو بہنے لگتا ہے۔ اور دل کٹ کر خون ہو کر‬
‫آنکھوں میں آجاتا ہے۔ لیکن میری آنکھیں ہر وقت آنسوؤں میں تر رہتی ہیں اور صرف اس وقت‬
‫آنسونہیں ہوتے جب شدت سے آنسوؤں کی بجائے خون بہنے لگتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ آنکھوں سے‬
‫خون کے آنسو بہنے لگتے ہیں۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫سوو ہ مدت سے اب نہیں آتا‬ ‫صبر تھا ایک مونس ہجراں‬


‫مفہوم‪ :‬غم میں میرا دوست اور ساتھی صبر ہی تھا جس سے مجھے تسکین ملتی تھی اب وہ بھی میرا‬
‫ساتھ چھوڑ گیا ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬شاعر کا خیال ہے کہ محبوب کی جدائی کے دکھ میں صبر میرا ساتھ دیتا تھا اور مجھے یہ‬
‫دکھ برداشت کرنے کا حوصلہ دیتا تھا۔ میں چپ چاپ جدائی کے غم کو سہہ لیتا تھا۔ صبرآ جا تا تھا‬
‫اب توغم سے یہ حال ہو گیا ہے کہ صبر بھی مرا ساتھ چھوڑ گیا ہے۔ یعنی شدت غم میں صبر‬
‫کاپیمانہ بھی لبریز ہوگیا ہے۔ اب یہ ُدکھ برداشت کرنامشکل ہے۔ مومن کا ایک شعر بھی اس کیفیت‬
‫کی عکاسی کرتا ہے۔‬
‫سو تمھارے سوا نہیں آتا‬ ‫چارہ دل سوائے صبر نہیں‬
‫دل سےرخصت ہوئی کوئی خواہش گر یہ کچھ بے سبب نہیں آتا‬
‫مفہوم‪ :‬مجھے جو اس قدر روناآرہا ہے یہ بال وجہ نہیں ہے میرے دل سے خواہش جدا ہورہی ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬دل تمناؤں کی آماجگاہ ہے۔ ہزاروں خواہشیں دل میں موجود رہتی ہیں اور کتنی آرزوؤئیں‬
‫پوری نہیں ہوتیں اور پھر وہ خواہشیں انسان ترک کر دیتا‬
‫ہے۔ شاعر نے ایسی کیفیت کو بیان کیا ہے کہ میرے دل سے کوئی خواہش رخصت ہورہی ہے۔‬
‫جدائی یارخصتی ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ انسان جدائی کے لمحوں میں اشکبار ہو جاتا ہے۔ شاعر‬
‫رونے کا سبب بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں بے سبب نہیں روتا‪ ،‬میرے دل سے کوئی خواہش‬
‫بچھڑرہی ہے۔یعنی میری تمنا پوری ہوئے بغیر دل سے جدا ہورہی ہے ۔ ایسے میں آنسونکل آئے ہیں۔‬
‫ناصر کاظمی نے اس مضمون کو نئے انداز میں بیان کیا ہے۔‬
‫یہ نگری آج خالی ہو رہی ہے‬ ‫چلے دل سے امیدوں کے مسافر‬
‫بات کا کسی کو ڈھب نہیں آتا‬ ‫حوصلہ شرط عشق ہے ورنہ‬
‫مفہوم‪ :‬بات کرنے کا ڈھنگ تو سبھی کو آتا ہے لیکن عشق کرنے کے لیے حوصلہ یہاں پہلی شرط‬
‫ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬شاعر کا خیال ہے کہ عشق آسان راستہ نہیں ہے اس میں لمحہ لمحہ کٹھن مراحل طے کرنے‬
‫پڑتے ہیں اور میں بھی ان دکھوں کو برداشت کر رہا ہوں لیکن میں ان دکھوں پرگلہ یا شکایت نہیں‬
‫کرتا چپ چاپ ہر غم سہہ رہا ہوں اورعشق کے لیے یہی شرط ہے کہ دکھ سہنے کا حوصلہ اور‬
‫ہمت ہونی چاہیے۔ میں اگر خاموش ہوں تو یہ میری برداشت ہے اس کا مطلب نہیں کہ مجھے بات‬
‫کرنی نہیں آتی میں بات کرنے کا سلیقہ رکھتاہوں مگرعشق میں سختیاں آئیں توان پر شکایت نہیں‬
‫ہونی چاہیے۔ بقول شاعر‬
‫ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں‬
‫ورنہ کیا بات کر نہیں آتی‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫دور بیٹھا غبار میر اس سے‬


‫عشق بن یہ ادب نہیں آتا‬
‫مفہوم ‪:‬میر کا غبار بھی مجبوب سے دور بیٹھا ہے اور عشق کے بغیر ادب آ نہیں سکتا۔‬
‫تشریح‪ :‬میرتقی میر نے اس شعر میں محبت کے آداب بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں‬
‫کہ محبت میں ادب بھی ایک مرحلہ ہے۔ عاشق محبوب کی رسوائی برداشت نہیں کرتا۔ شاعر کہتا ہے‬
‫میری دھول اور غباربھی محبوب سے دور رہتا ہے تاکہ محبوب کے احترام میں کوئی کسرنہ رہ‬
‫جائے۔ اور عشق کے بغیر یہ ادب کوئی سیکھ ہی نہیں سکتا۔‬
‫زور بے قرار کیا‬
‫ِ‬ ‫دل نے اب‬ ‫تا بمقدور انتظار کیا‬
‫مفہوم‪:‬اے مرے محبوب مجھ سے جتنا ہوسکا تیرا انتظار کیا لیکن اب دل شدت سے بے قرار ہوگیا۔‬
‫تشریح‪ :‬میرتقی میر اس شعر میں دل کی بے قراری کا تذکرہ کررہے ہیں کہ وہ اپنے محبوب کے‬
‫وعدے پر اس کا انتظار کر رہے ہیں اور اس سے ملنے کے لیے بے چین ہیں مگر انتظار کی بھی‬
‫ایک حد ہوتی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ مجھ سے جس قدر ہوسکاجہاں تک ممکن تھا میں نے تمھارا‬
‫انتظار کیا مگر اب میں اپنے دل کے ہاتھوں بے حد بے چین و بے قرار ہوگیا ہوں ۔ اب مزید انتظار‬
‫مشکل ہے۔ فیض احمد فیض انتظارکی کیفیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں۔‬
‫تالش میں ہے سحر بار بار گزری ہے‬ ‫تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے‬
‫مختصر یہ ہے کہ اس شعر میں میرتقی میر انتظار کی شدت میں انتہائی بے قرار ہو گئے ہیں۔‬
‫کہ جفا کار‪ ،‬تجھ سا یار کیا‬ ‫دشمنی ہم سے کی زمانے نے‬
‫تشریح‪ :‬اس شعر میں شاعر زمانے سے شکایت کر رہا ہے کہ اس نے نجانے یہ دشمنی کیوں کی‬
‫ہے کہ میرے یارکومجھ سے جدا کر دیا ہے۔ اور اب میرا محبوب مجھ پر ستم ڈھارہا ہے اور وہ مجھ‬
‫سے دور رہنے کا ستم کر رہا ہے۔ لوگوں نے اس کے کان بھر دیئے ہیں اور اسے میرے خالف‬
‫اکسادیا ہے اب وہ میری طرف نہیں آتا گویا مجھ پر ظلم کرتا ہے۔‬
‫یاں وہی ہے جو اعتبار کیا‬ ‫یہ توہم کا کارخانہ ہے‬
‫مفہوم‪:‬یہ جہاں شکوک وشبہات اور وہم وگماں کا کارخانہ ہے یہاں پرحقیقت کچھ نہیں ہے بلکہ وہی‬
‫حقیقت ہوتی ہے جسے ہم تسلیم کریں یا جس کا یقین کرلیں۔‬
‫تشریح‪ :‬اہل دانش دنیا کو ایک گمان اور وہم قرار دیتے ہیں اور اس کی حقیقت پر یقین نہیں رکھتے‬
‫ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کائنات کی ہر شے محض وہم وگمانہے۔ یہاں کسی چیز کی اصلیت یا حقیقت‬
‫کا یقین نہیں کیا جاسکتا ۔ شاعر کا خیال بھی ایسا ہے کہ دنیا میں سب کچھ وہم و گمان ہے البتہ جس‬
‫پر ہم یقین کر لیں اور بغیر دلیل کے اسے تسلیم کرلیں وہ حقیقت ہے۔ خدا کی ذات سے لے کر ہمارے‬
‫مذہبی عقائدانہی لوگوں کے لیے حقیقت ہیں جو انہیں مانتے ہیں۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫طائر سدرہ تک شکار کیا‬ ‫ایک ناوک نے اس کی مژگاں کے‬


‫مفہوم‪ :‬میرے محبوب کی پلکوں کے ایک تیرنے سدرہ کے پرندے (حضرت جبرئیل) تک کا شکار‬
‫کر دیا ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬اس شعر میں شاعرمحبوب کی لمبی پلکوں کی تعریف کر رہا ہے اور اس میں قدرے‬
‫مبالغے سے کام لے رہا ہے۔ شاعری میں ایسا ہوتا ہے۔ محبوب کے حسن و جمال کی تعریف میں‬
‫شعر از زمین و آسمان کے قالبے مالتے ہیں ۔ اس شعر میں میر تقی میر اپنے محبوب کی پلکوں کو‬
‫تیر سے تشبیہ دے کر اس کے اثرات اور دور تک مار کرنے کی بات کررہے ہیں یعنی محبوب کی‬
‫پلکوں کے تیرنے سدرہ کے پرندے یعنی دور تک پرواز کرنے والے پرندے کو بھی گھائل کرلیا‬
‫ہے۔ یعنی محبوب کے تیر سے انسان ہی نہیں آسمان پرحضرت جبرئیل بھی متاثر ہوئے ہیں۔‬
‫تیری زلفوں کا ایک تار کیا‬ ‫صدر رگ ِجاں کو تاب دے باہم‬
‫مفہوم ‪:‬مجبوب کی زلفوں کا ایک بال سینکڑوں عاشقوں کی شہ رگوں کو جوڑ کر بنایا گیا ہے۔‬
‫تشریح‪:‬مجبوب کی زلف کے ایک تار میں سینکڑوں عاشقوں کی جان بندی ہے عشق کرنے والے‬
‫محبوب کی زلفوں کے اسیر ہوتے ہیں۔ میرتقی میر بھی محبوب کی زلفوں کی خوبصورتی کی‬
‫تعریف کررہے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ سوعاشقوں کی شہ رگوں کو مالنے سے محبوب کی زلف کا‬
‫ایک بال بناہے۔ مراد ہے کہ مجبوب کی زلف کے ایک تار پرسینکڑوں عاشق اپنی جان قربان کر‬
‫سکتے ہیں۔ میر کا ایک اور ایسا ہی شعرہے‬
‫اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے‬ ‫ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرے ہوئے‬
‫مذہب عشق اختیار کیا‬ ‫‪ .‬سخت کافر تھا جس نے پہلے میر‬
‫مفہوم‪:‬وہ کس قدرسخت کافر تھا جس نے پہلے پہل عشق کامذہب اختیار کیا۔‬
‫تشریح‪ :‬کافر حقیقت سے انکاری ہوتا ہے وہ سچی بات کو سمجھنے اور قبول کرنے کی اہلیت نہیں‬
‫رکھتا۔ بلکہ کفر اور گمراہی پراڑارہتا ہے۔ عشق کرنے واال بھی محبوب کے لیے ہر ستم برداشت‬
‫کرنے پر تیار رہتا ہے۔ وہ عشق کی راہ کے کٹھن راستوں کو نہیں چھوڑتا چاہے کچھ بھی ہو جائے‬
‫وہ اپنی بات پر قائم رہتا ہے اورکسی کی نصحیت کو نہیں مانتا اسے ال کھ سمجھایا جائےکہ عشق‬
‫میں خسارہ ہے وہ اس سودے سے باز نہیں آتا۔ شاعر عاشق کو بہت بڑا کافر قرار دے رہا ہے جس‬
‫نے عشق اختیار کیا اور اب تک اس کی پیروی جاری ہے۔ اور اب بھی عاشق کسی نقصان کے خوف‬
‫سے بے نیاز عشق پر قائم ہیں۔‬
‫کلی نے یہ سن کر تبسم کیا‬ ‫کہا میں نے گل ہے کتنا ثبات‬
‫مفہوم ‪ :‬میں نے گل (پھول) سے اس کے ثبات کے بارے میں دریافت کیاتو کلی سن کرمسکرا اٹھی۔‬
‫تشریح‪ :‬اہل خرداس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دنیافانی ہے اور یہاں کی کسی شے کوہمیشگی دوام‬
‫یاثبات حاصل نہیں۔ شاعر نے انہی خیاالت کو پیش کیا ہے کہ میں نے پھول کے ثبات کے بارے میں‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫سوال کیا تو کلی یہ سن کرمسکرا اٹھی ۔کلی کھل کر (مسکرا کر ) پھول بن جاتی ہے۔ اس کی زندگی‬
‫اتنی ہی ہے اسے بس اتناہی ثبات حاصل ہے۔ گویا شاعر نے گل سے ثبات کے بارے میں سوال کیا‬
‫تو کلی مسکرادی کہ اتنی ہی دیرثبات ہے۔ پھول غنچہ ہوتا ہے پھر وہ پھول بنتا ہے اور باآلخر‬
‫مرجھا کر شاخ سے گر جاتا ہے۔ پھول کی اتنی سی زندگی ہے انسانی زندگی بھی اتنی عارضی اور‬
‫ناپائدار ہے۔‬
‫دل ہے گویا چراغ مفلس کا‬ ‫شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے‬
‫مفہوم‪ :‬ہمارادل مفلس کے چراغ کی مانند ہے جو شام کوبھی بجھا نظر آتا ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬شاعر نے دل کومفلس کے چراغ سے تعبیر کیا ہے کہ ہے مفلس اور غریب آدمی کے گھر‬
‫چراغ نہیں جلتا۔ چولھے کی طرح اس کا چراغ بھی بجھا رہتا ہے ‪ -‬چراغ میں تیل اور بتی تک نہیں‬
‫ہوتی۔ یہی حال دل کا بھی ہے۔ جو شام ہوتے ہی اداس اور غمگین ہوجاتا ہے اور بالکل غریب کے‬
‫گھر کے چراغ کی مانند دکھائی دیتا ہے یعنی ہر وقت بجھا سا ہے۔ شاعر نے دل کو چراغ سے تشبیہ‬
‫دی ہے۔‬
‫پنکھڑی اک گالب کی سی ہے‬ ‫نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے‬
‫مفہوم‪:‬محبوب کے ہونٹوں کی نازکی اور مالئمت گالب کی پنکھڑی کی سی ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬شاعرمحبوب کے ہونٹوں کی خوبصورتی اور نازکی کو بیان کر رہا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ‬
‫مجبوب کے ہونٹ ایسے نازک‪ ،‬خوبصورت اور مالئم ہیں کہ اس پر گالب کی پنکھڑی کا گمان ہوتا‬
‫ہے۔ گالب کی رنگت اورنری کو ہونٹوں سے مماثل قرار دیا گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ محبوب کے لب‬
‫انتہائی خوبصورت اور دلکش ہیں۔‬
‫یعنی غافل ہم چلےسوتا ہے کیا‬ ‫قافلے میں صبح کے اک شور ہے‬
‫مفہوم‪ :‬صبح کے قافلے میں یہ شور ہے کہ غافل تو سوتا ہے ہم جار ہے ہیں۔‬
‫تشریح‪:‬اس شعر میں غفلت کے مارے لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ قا فلہ کسی کا انتظار نہیں‬
‫کرتا۔ قافلے کی گھنٹی کوچ کا اشارہ ہوتا ہے لوگ کوچ کرنے لگتے ہیں ایسے میں غافل اور سونے‬
‫والے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ وقت کی قدر کرنی چاہیے۔ وقت کا قافلہ کبھی نہیں رکتا۔‬
‫اور وقت ہاتھ سے چال جائے تو دوبارہ ہاتھ نہیں آتا۔ ایک اور شعر میں میر یوں بیان کرتے ہیں۔‬
‫غافل ہیں ایسے ہوتے ہیں گویا جہاں کے‬
‫لوگ‬
‫حاالنکہ رفتنی ہیں سب اس کارواں کے لوگ‬
‫یوں اٹھے آہ تو اس گلی سے ہم‬
‫جیسےکوئی جہاں سے اٹھا ہے‬
‫مفہوم‪ :‬اس گلی سے اس طرح ہماری رخصتی ہوئی جیسے کوئی جہان فانی سے رخصت ہوتا ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬میر تقی میر کوچہ محبوب سے نکلنے کی بات کر رہے ہیں جیسے غالب نے کہا تھا۔‬
‫نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم‬


‫نکلے‬
‫کچھ ایسی ہی کیفیت کا اظہار میر بھی کر رہے ہیں اس کی گلی سے نکلنا گویا زندگی سے ہاتھ دھونا‬
‫ہے۔ اس گلی سے نکل کر میں کہیں کا نہ رہا۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ اس کی (محبوب کی) گلی سے‬
‫نکلنا دنیا سے اٹھ جانے کے برابر ہے محبوب کی نظروں سے گر کر محبت کرنے واال کہیں کانہیں‬
‫رہتا۔ میرتقی میر بھی اسی کیفیت کو بیان کررہے ہیں۔‬
‫دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے‬
‫گیا‬ ‫لوٹا‬ ‫مرتبہ‬ ‫سو‬ ‫نگر‬ ‫یہ‬

‫مفہوم‪ :‬دل کی ویرانی کا کیاذ کر کریں یہ بستی کوئی بار لوٹی گئی‬
‫یعنی تباہ برباد ہوئی۔‬
‫تشریح‪ :‬اس شعر میں بھی میراپنے دل کے اجڑنے کا تذکرہ کررہے ہیں وہ عشق ومحبت میں زندگی‬
‫کےبر باد ہونے کے بارے میں کہتے ہیں دل کی بربادی اور اجڑ جانے کی بابت وہ کہتے ہیں کہ میں‬
‫اپنے دل کی ویرانی اور تباہی کے بارے میں کیا کہوں یہ کئی باراجڑ چکا ہے۔ اس شعر میں‬
‫شہردلّی کی تباہی کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔ دلّی بیرونی حملہ آوروں کی وجہ سے کئی بار‬
‫اجڑی۔ میردل کودلّی سمجھتے ہیں اور دلّی کی طرح ان کا دل بھی کئی بار محبت میں برباد ہوا اور‬
‫اب اس کی ویرانی کا کیاذ کر کریں یعنی ایک سے زیادہ بار یہ تباہی دیکھی گئی ہے۔‬
‫ہے‬ ‫نازک‬ ‫زمانہ‬ ‫صاحب‬ ‫میر‬
‫دستار‬ ‫تھامئے‬ ‫سے‬ ‫ہاتھوں‬ ‫دونوں‬
‫مفہوم‪ :‬میر صاحب زمانہ نازک ہے اپنی دستار کا خیال رکھئے اور دونوں ہاتھوں سے سنبھال کر‬
‫رکھئے۔‬
‫تشریح‪ :‬میرتقی میر اپنے اس شعر میں اپنے زمانے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ زمانہ بڑا‬
‫خطرناک ہے۔ کسی کی عزت بھی محفوظ نہیں ۔ شرفاء پگڑیاں بچاتے پھرتے ہیں۔ لہذا احتیاط کی‬
‫ضرورت ہے میں خود کالمی کے انداز میں زمانے کی کج ادائی سے محفوظ رہنے کی بات کررہے‬
‫ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ زمانہ بڑا نازک ہے اور یہاں ہر طرف ایک افراتفری‪ ،‬بے چینی ‪ ،‬لوٹ کھسوٹ‬
‫اور زبردستی ہے۔ اپنی عزت اپنے ہاتھ ہوتی ہے۔ دونوں ہاتھوں سے دستار ( پگڑی) کو سنبھالنے کا‬
‫مطلب ہے۔ کہ بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہے اور عزت سادات بچانے کے لیے ہر وقت چوکنا اور‬
‫ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ کسی وقت بھی گڑ بڑ ہوسکتی‬

‫ہے بقول بیدل حیدری‬


‫اس قدر بھی نہ سر اٹھا کے چلو‬
‫جائے‬ ‫اتر‬ ‫کہاں‬ ‫پگڑی‬ ‫جانے‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫دلّی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انھیں‬


‫تھا کل تلک دماغ جنھیں تخت و تاج کا‬

‫مفہوم‪ :‬آج دلّی میں ان کوکوئی بھیک تک نہیں دیتا کل یہی لوگ تخت وتاج کے مالک تھے اور ان‬
‫کے سر میں تخت و تاج کا غرور تھا۔‬
‫تشریح‪ :‬میر اپنے عہد کی زبوں حالی غرور اور وقت کی سفاکی کا ذکر کر رہے ہیں۔ کل جن لوگوں‬
‫کے سر میں تخت و تاج کا سودا سمایا ہوا تھا اور وہ بہت تکبر اور غرورسے پھرتے نظر آتے تھے‬
‫آج انہیں وقت نے بدحال کر کے رکھ دیا ہے۔ اب انھیں یہاں (دلّی میں) کوئی بھیک نہیں دیتا۔ وہ دو‬
‫وقت کی روٹی کو ترستے ہیں وہ گداگری کررہے ہیں وقت وقت کی بات ہے وقت ایک سا نہیں رہتا۔‬
‫کی‬ ‫دل‬ ‫شکستگی‬ ‫ہے‬ ‫دیدنی‬
‫ہے۔‬ ‫ڈھائی‬ ‫نے‬ ‫غموں‬ ‫عمارت‬ ‫کیا‬
‫مفہوم ‪ :‬دل کی ٹوٹ پھوٹ دیکھنے کے الئق ہے کیا عمارت تھی جسے دکھوں نے توڑ پھوڑ کے‬
‫رکھ دیا ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬م یراپنی دل کی ویرانی اور بربادی کا تذکرہ کررہے ہیں کہ اس دل کی ٹوٹ پھوٹ دیکھنے‬
‫والی ہے۔ شاعر نازک اور حساس ہوتا ہے وہ معمولی سی باتوں کا بھی بہت اثر لیتا ہے۔ بعض اوقات‬
‫چھوٹی چھوٹی سی بات سے اس کا دل ٹوٹ سکتا ہے۔ میر کی زندگی آالم و مصائب سے عبارت‬
‫تھی۔ بچپن سے کٹھن حاالت نے انھیں دکھی کر دیا۔ جوانی میں عشق کے ہاتھوں بہت دکھ اٹھائے ۔ وہ‬
‫اپنے دکھی دل کے بارے میں کہتے ہیں یہ دل کئی بارٹوٹ چکا ہے اور اس دل کی کرچیوں اور‬
‫ملبے کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کیسی شاندار عمارت تھی جو غموں اور دکھوں نے گرادی‬
‫ہے اور زندگی کیاتھی کیا ہوکر رہ گئی ہے۔‬
‫ہے‬ ‫نہر‬ ‫ہمارا‬ ‫گریاں‬ ‫دیدۂ‬
‫ہے‬ ‫شہر‬ ‫دلّی‬ ‫جیسے‬ ‫خرابہ‬ ‫دل‬
‫مفہوم‪ :‬ہماری روتی ہوئی آنکھیں نہر کی طرح ہیں اور یہ ویران دل اب شہر دلّی کی طرح ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬اس شعر میں بھی دلّی کود لّی کی بربادی سے منسوب کیا گیا ہے اور دل کی ویرانی کودلّی‬
‫کی ویرانی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہمارا دل بھی اب دلّی کی طرح ویران اور بر‬
‫بادنظر آتا ہے اور یہ جو ہماری آنکھوں سے اشک رواں ہیں ۔ یہ شہر کی نہر ہے جو چل رہی ہے‬
‫اپنے غم و آالم کو بیان کرنا مقصود ہے۔‬

‫خواجہ حیدر علی آتش‬


‫(متوفی ‪1263‬ھ)‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫خولہ حیدر علی آتش دلّی کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والدخواجہ علی بخش‬
‫نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں دلّی چھوڑ کر فیض آباد آئے اور محلے مغل پورہ میں سکونت‬
‫اختیار کی ۔ آتش کی والدت یہیں ہوئی۔ وہ ابھی چھ برس کے تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔‬
‫اسی وجہ سے تعلیم سے محروم رہے اور ُبری صحبت میں بیٹھ کر مزاج میں شوریدہ سری اور با‬
‫نکپں آ گیا۔ اس دوران انھوں نے نواب مرزا محمد تقی خان ترقی کی مالزمت اختیار کر لی ۔ اور‬
‫انھیں کے ساتھ لکھنوآ گئے۔ اسی زمانے میں یہاں مصحفی اور انشاء کی معاصرانہ چشمک زوروں‬
‫پرت ھی۔ آتش‪ ،‬مصحفی کے شاگرد ہوئے اور اس درجہ ریاضیت کی کہ کچھ ہی عرصہ میں‬
‫خودصاحب طرز شاعر ہو گئے ۔ ناسخ اور انشاء کی طرح ان کی علمی استعداد درجہ تکمیل کو نہیں‬
‫پہنچتی ۔ آتش نے سادہ زندگی بسر کی۔ ناسخ سے ان کی معاصراہ چشمک بھی رہی۔ مگر یہ نوک‬
‫جھونک دائرہ تہذہب سے باہر کبھی نہ گئی ان کی تصانیف میں ان کا اردو دیوان بھی شامل ہے جو‬
‫ان کی زندگی میں شائع ہو گیا تھا اور اے بے پنا مقبولیت حاصل ہوئی۔ دوسرا دیوان جسے ان کے‬
‫پہلے دیوان کا ضمیمہ سمجھنا چاہیے ان کے عزیز شاگرد میر دوست علی خلیل نے ان کے مرنے‬
‫کے بعد مرتب کیا تھا۔‬
‫آتش کے مشہور شاگرد حسب ذیل تھے۔ رند صبا خلیل ‪ ،‬نسیم نواب‪ ،‬مرزا شوق اور آغا مجھ شرف۔‬
‫آتش کو لکھنو دبستان کا نمائندہ شاعر قرار دیا جاتا ہے کالم میں تخلص کے اعتبار سے گرمی بہت‬
‫ہے۔ تصنع تکلف مطلق نہیں نہ معمولی اور متبندل خیاالت ہیں جن کا عیب شکوہ الفاظ سے چھپایا گیا‬
‫ہو۔‬

‫آتش کے اہم اشعار کی تشریح‬


‫بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا‬
‫جو چیرا تو اک قطرہ خون نہ نکال‬
‫مفہوم‪ :‬پہلو میں دل کا بہت شور سنا کرتے تھے لیکن جب چیرکر دیکھا تو ایک قطرہ خون بھی نہ‬
‫نکال۔‬
‫تشریح‪ :‬سادہ سا شعر ہے جس میں آتش اپنی روایتی شوخی اور شگفتگی سے کام لیتے نظر آتے ہیں۔‬
‫وہ کہتے ہیں دل کا یوں تو بہت شہرہ ہے دل کیا کیا کارنامے سر انجام دیتا ہے‪ ،‬دکھ برداشت کرتا‬
‫ہے‪ ،‬مصائب و آالم سہتا ہے۔ علم اور خوشی دونوں موقعوں پر اس کی کارکردگی کا چرچا رہتا ہے‬
‫لیکن ہم نے تو اس میں ایک قطرہ خون بھی نہ پایا۔ ایک عاشق کے دل میں خون کہاں سے آئے گا۔‬
‫ہنسنے واال نہیں ہے رونے پر‬
‫ہم کو غربت وطن سے بہتر ہے‬
‫مفہوم‪:‬ہماری آہ وزاری پرکوئی ہنسنے واال تو نہیں ہے میں پردیسں وطن سے اچھا ہے۔‬
‫تشریح‪:‬آتش اس شعر میں وطن سے دوری کو بہتر سمجھتے ہیں اس لیے کہ وطن سے دور جیسے‬
‫بھی حاالت ہوں ۔ مشکالت اور تکالیف میں آنسو بھی نکل آئیں تو کوئی مذاق نہیں اڑاتا اور نہ ہی‬
‫رونے پرکوہنسی اڑاتا ہے۔ کہ پردیس میں کوئی جاننے واالنہیں ہوتا۔ جہاں انسان کے اپنے ہوتے ہیں‬
‫اور زیادہ آشنا ہوتے ہیں وہی لوگ مذاق اڑاتے ہیں اور اگر کوئی رورہا ہو تو اس پر ہنسا جاتا ہے‬
‫دیار غیر میں کوئی واقف نہیں ہوتا اور وہ اس ذلت سے بچ جاتا ہے۔‬
‫ِ‬ ‫لیکن پردیس میں ایسا نہیں ہوتا۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے‬


‫ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے‬
‫مفہوم‪ :‬سفر پہلی شرط ہے اگر بندہ سفر کے لیے تیار ہوتو مسافرنواز بہت ہیں ہزاروں شجرراستے‬
‫میں اس کا استقبال کرتے نظر آتے ہیں۔ تشریح‪ :‬آتش اس شعر میں سفر اور منزل کی جستجو کو بیان‬
‫کررہے ہیں ان کا خیال ہے کہ اگر انسان منزل کے لیے نکل پڑے تو راستے کی دشواریاں خود‬
‫بخودختم ہو جاتی ہیں ۔ بس انسان ہمت نہ ہارے اور ارادوں کو مضبوط رکھے ۔ سفر کی شرط‬
‫ضروری ہے۔ سفرکرنے کا ارادہ کر لیا جائے تو راستے میں مسافرنوازی کے لیے سایہ دار درخت‬
‫تیار کھڑے رہتے ہیں درختوں کو مسافروں کے لیے سکھ چین کی عالمت قرار دیا گیا ہے۔ کہنا‬
‫مقصود یہ ہے کہ بندہ چل پڑے تو راہ کی مشکالت آسان ہوتی جاتی ہیں چلنا ضروری ہے۔‬

‫کوچہ یار میں سایہ کی طرح رہتا ہوں‬


‫در کے نزدیک کبھی ہوں کبھی دیوار کے‬
‫پاس‬
‫مفہوم‪ :‬میں اپنے محبوب کی گلی میں سائے کی طرح رہتاہوں کبھی در کے قریب اور کبھی دیوار‬
‫کے پاس۔‬
‫تشریح‪:‬آتش نے اس شعرمیں محبوب کی قربت کو موضوع بنایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ محبوب کی‬
‫گلی اسے بے حد عزیز ہے اور وہ اس سے دور نہیں ہوسکتاوہ محبوب کی گلی میں سائے کی طرح‬
‫رہتا ہے۔ کبھی یہ سایہ دروازے کے قریب ہوتا ہے اور کبھی دیوار کی طرف چال جاتا ہے۔ مراد یہ‬
‫ہے گلی میں ہی موجود رہتا ہوں لیکن دروازے سے اندر جانے کی ہمت نہیں ہے۔ دیوار اور‬
‫دروازے تک ہی رسائی ہے اس سے آگے کا مقام حاصل نہیں ہوسکا۔‬
‫یہ آرزو تھی ےتجھے گل کے روبرو کرتے‬
‫ہم اور بلبل بے تاب گفتگو کرتے‬
‫مفہوم‪:‬ہماری آرزو تھی کہ تجھے پھول کے سامنے بٹھاتے پھر بلبل اور اہم باتیں کرتے کہ کون‬
‫زیادہ اچھا لگ رہا ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬شاعرمحبوب کے حسن کی تعریف کر رہا ہے اور وہ اپنے محبوب کوگالب سے بھی زیادہ‬
‫خوبصورت دیکھ رہا ہے۔ شاعر کہتا ہے اے محبوب میری خواہش تھی کہ تجھے پھولوں کے رو‬
‫بروکر کے بلبل سے پوچھتا کہ بتا کون سا محبوب زیادہ خوبصورت ہے تمھا رامحبوب یا میر‬
‫امحبوب بلبل چونکہ پھول سے عشق کرتا ہے لہذا پھول اوربلبل کا ذکر کیا گیا ہے۔‬
‫کسی نے مول نہ پوچھا دل شکستہ کا‬
‫کوئی خرید کے ٹوٹا پیالہ کیا کرتا‬
‫مفہوم ‪ :‬ٹوٹے ہوئے دل کا کسی نے بھاؤ تک نہ پوچھ اور وہ اس لیے ک ٹوٹا ہوا پیالہ خرید کر کوئی‬
‫کیا کرتا۔‬
‫تشریح‪ :‬آتش کے اس شعر میں دل کی شکستگی کا بیان ہے کہ ٹوٹے دلوں کی ڈھارس کون بندھا تا‬
‫ہے۔ اور یہ دنیا بہت بے رحم ہے۔ یہاں کسی کمزور‪ ،‬الچار‪ ،‬مجبور اور بے کس کی کوئی قدر نہیں‬
‫ہے۔ یہاں دل توڑنے والے تو بہت مل جاتے ہیں لیکن دل جوڑنے والے نہیں ملتے ۔ شاعر نے اپنے‬
‫دل کوٹوٹا ہوا پیالہ قرار دیا ہے۔ ایک استعاراتی انداز میں وہ دل کی ٹوٹ پھوٹ کا تذکرہ کررہے ہیں‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫کہ اس جہان میں ٹوٹی اشیاء کا کوئی بھی خریدار نہیں ہے۔ ہر کوئی نئی اور ثابت و سالم چیز کو‬
‫پسند کرتا ہے۔ ٹوٹے دلوں کا آسرا نہیں ملتا۔ دنیا کی بے حسی اور مفاداتی سوچ کو زیر بحث الیا گیا‬
‫ہے۔‬
‫عدم کے کوچ کی الزم ہے فکر ہستی میں‬
‫نہ کوئی شہر نہ کوئی دیار‪ ،‬راہ میں ہے‬
‫مفہوم‪ :‬آخرت کی سمت روانہ ہونے کی فکر اس زندگی میں ضروری ہے اور اس راہ میں نہ کوئی‬
‫عالقہ ہے نہ کوئی شہر۔یہ تنہائی کا طویں سفر ہے۔‬
‫تشریح‪:‬آتش اس شعر میں سنجیدہ بحث اختیار کرتے ہیں وہ انسانی زندگی میں آخرت کی فکر کی‬
‫طرف مائل ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔ شاعر کا خیال ہے کہ زندگی میں اپنی عاقبت کا بھی‬
‫سوچنا ضروری ہے۔ آخرت کے سفر میں کسی دوست یا ساتھی نے ساتھ نہیں دینا بلکہ عدم کا سفر‬
‫تنہا اور اکیلے طے کرنا ہے۔ اس سفر کے لیے تیاری ضروری ہے اس راستے میں کوئی شہر نہیں‬
‫آتا۔‬
‫مال نہ سرو کو کچھ اپنی راستی میں پھل‬
‫کالہ کج جو نہ کرتا تو اللہ کیا کرتا‬
‫مفہوم‪ :‬سرو کے پیڑ کوسیدھار ہنے میں کوئی کیا پھال؟اللہ اگر اپنی دستارکونہ جھکاتا تو اورکیا‬
‫کرتا۔‬
‫تشریح‪:‬آتش نے ایک اہم اخالقی نقطے کو پیش کیا ہے۔ اس دنیا میں جھک کے ملنا انسان کے‬
‫اندرعجز اور انکساری پیدا کرتا ہے اور لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔ سروکا پیٹر جو بالکل سیدھا‬
‫اوپر کی جانب جاتا ہے اسے کوئی پھل نہیں لگتا اس لیے اللہ کا پھول اپنی پتیوں کو ٹیڑھا کئے‬
‫ہوئے ہے۔ اللے کے سرخ پھول کی پتیاں اوپر سے نیچے کی طرف مڑی ہوئی ہیں اور وہ پھول ایک‬
‫تاج یا دستار کی طرح لگتا ہے۔ شاعر کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جھکنے والے کچھ پاتے ہیں ۔‬
‫غرور تکبر انسان کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ انکساری سے انسان کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔‬

‫سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا‬


‫کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا‬
‫مفہوم ‪ :‬شاعر کہتا ہے کہ اپنے بارے میں ذرا ان کہانیوں پرغورکروجو ہللا کی مخلوق تیری غیر‬
‫موجودگی میں کہتی ہے۔ تب تجھے اپنی حقیقت کاصحیح علم ہوگا۔‬

‫تشریح‪ :‬اس شعر میں آتش نے بقول محمد حسین آزاد اپنے عہد کے ایک شاعر امام بخش ناسخ پر‬
‫چوٹ کی ہے۔ محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب ” آب حیات" میں تحریر کیا ہے کہ آتش لکھنوی نے یہ‬
‫غزل اس مشاعرے میں پڑھی جس میں امام بخش ناسخ بھی شریک تھے اور اس ساری غزل میں‬
‫آتش ناسخ سے مخاطب نظرآتے ہیں۔ ان کی غزل کا دوسرامصرحہ تو اب ضرب المثل کے طور پر‬
‫مشہور ہو چکا ہے وہ کہتے ہیں کہ اپنے بارے میں کسی خوش فہمی میں مبتال ہے۔ اپنے بارے میں‬
‫اگر تو حقیقت سننا چاہتا ہے تو کبھی اپنی غیر موجودگی میں لوگوں کی آراء کو سن یعنی لوگ‬
‫مجھے پیٹھ کے پیچھے کیا کہتے ہیں۔ ویسے بھی زبا ِن خلق کو نقارہ خدا سمجھنا چاہیے۔‬
‫طبل و علم نہ پاس ہے اپنے نہ ملک و مال‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫ہم سے غالف ہوکے کرے کا زمانہ کیا‬


‫مفہوم‪ :‬ہمارے پاس لشکروسپاہ ہے اور اقتدار اور دولت ہمارے خالف کوئی کیا ہوگا۔‬
‫تشریح‪:‬آتش مذکورہ باال شعر میں اپنی درویشانہ زندگی کی طرف اشارہ کرتے نظر آتے ہیں ۔ دنیا‬
‫میں ہمیشہ مخالفت اسی کی ہوتی ہے۔ جس کے پاس یا تو دولت ہو یا پھر اقتدار ہو سلطنت ہو یا پھر‬
‫بہت سی فوج ہو۔ طبل وعلم جنگ میں نقارہ اور پرچم ضروری ہوتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ یہ ساری‬
‫چیزیں ہمارے پاس نہیں ہیں۔ ہم فقیرلوگ ہیں لوگ ہمارے دشمن نہیں ہو سکتے کہ ہمارے پاس چھن‬
‫جانے کوکچھ نہیں ہے۔ لہذا زمانہ ہمارے خالف کس لیے ہو گا۔‬
‫زیر زمیں سے آتا ہے جو گل سو زربکف‬
‫قاروں نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا۔‬
‫مفہوم‪ :‬زمین کے نیچے سے پھول اپنی مٹھی میں زروجواہر لیے آتا کیا راستے میں قارون کا خزانہ‬
‫ہے۔‬
‫تشریح‪:‬اس شعر میں حسن تعلیل کی صنعت استعمال کی گئی ہے۔ جو شعر کی حسن و خوبی میں‬
‫اضافہ کر رہی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ پھول کی مٹھی میں زر و جواہر ہیں۔ پھولوں کے اندر سنہرے‬
‫رنگ کے زیرے کوزروجواہر قرار دیا گیا ہے۔ یہ دراصل پھول کے بیج ہوتے ہیں جن کی رنگت‬
‫سونے جیسی زردہوتی ہے۔ اسی مناسبت سے اسے "زرگل" بھی کہتے ہیں۔ شاعراس خیال کی‬
‫توجہیہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ قارون کو بطور سزا اپنے خزانوں سمیت زمین میں دفن کر دیا‬
‫گیا تھا۔ اب اس زمین سے جو پھول نکلتا ہے وہ قارون کے خزانوں میں سے تھوڑا تھوڑا سونا‬
‫ہاتھوں میں لیے آتا ہے تا کہ دنیا والے اس سونے کو دیکھ کر عبرت حاصل کریں کہ دنیا کا مال و‬
‫دولت کسی کام نہیں آتا۔‬
‫شوق‪ .‬راحت منزل سے اسپ عمر‬ ‫ِ‬ ‫اڑتا ہے‬
‫مہمیز کہتے ہیں کسے اور تازیانہ کیا‬
‫مفہوم‪ :‬عمر کا گھوڑا منزل پر پہنچ کر آرام پانے کے شوق میں خودہی تیز بھاگ رہا ہے اسے تیز‬
‫دوڑانے کے لیے کی ایٹر لگانے یا چابک مارنے کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬آتش انسانی زندگی اور وقت کی تیز رفتاری کو موضوع بتاتے ہیں ۔ وقت کس قدر جلدی‬
‫گزرتا جاتا ہے کہ عمر کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ اور عمر گزر جاتی ہے۔ گویا عمرکا گھوڑاسرپٹ بھاگ‬
‫رہا ہے۔ اور اسے بھگانے کے لیے ایڑ لگانے یا چھانٹا مارنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ غالب نے‬
‫اسی مضمون کو یوں بیان کیا۔‬
‫رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے‬‫ِ‬ ‫رو میں ہے‬
‫نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‬
‫مراد یہ ہے کہ انسانی زندگی تیزی سے بیت جاتی ہے وقت کا احساس کیا جائے۔‬
‫بے تاب ہے کمال ہمارا دل حزیں‬
‫مہماں سرائے جسم کا ہو گا روانہ کیا‬

‫مفہوم‪ :‬ہمارا دل بے حد اداس اور بے چین ہے کیا ہمارے جسم سے روح رخصت ہونے والی ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬انسانی زندگی فانی ہے ہر انسان نے باآلخر یہ دنیا چھوڑ کر جانا ہے۔ روح جسم کی سرائے‬
‫سے ایک دن ہر حال میں رخصت ہو جائے گی ۔ روح اور جسم کا ساتھ جتنا بھی لمبا ہو آخریہ ساتھ‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫ٹوٹ جاتا ہے۔ شاعر نے موت کے لمحوں کوقریب سے محسوس کیا ہے ایسے میں اپنی دل کی بے‬
‫چینی سے یہ بھانپ رہا ہے کہ کیا روح تن سے جدا ہونے والی ہے کہ ہمارا دل اس قدر بے قرار‬
‫ہورہا ہے۔ آتش نے روح کو مہمان قرار دیا ہے جو سرائے یعنی جسم میں ٹھہرتی ہے۔ مہمان کو آخر‬
‫ایک دن الوداح ہونا پڑتا ہے۔‬
‫آرائش جمال کو مشاطہ چاہیے‬
‫بے باغباں کے رہ نہیں سکتا چمن درست‬
‫مفہوم‪:‬حسن کے سنوارنے کے لیے سنگھار کرنے والی عورت کی ضرورت ہوتی ہے کہ باغ بھی‬
‫بغیر مالی کے سرسبزوشاداب نہیں رہتا۔‬

‫تشریح‪ :‬حسن کے بناؤ سنگھار کے لیے کسی نہ کسی مشاطہ کی ضرورت رہتی ہے کیونکہ حسن کا‬
‫خیال نہ رکھا جائے تو وہ ماند پڑ جاتا ہے۔ بالکل ایسے جیسے باغ کی مناسب دیکھ بھال کرنے واال‬
‫کوئی نہ ہو تو وہ باغ ویران ہو جاتا ہے مالی پودوں کو وقت پر پانی دیتا ہے ان کی کانٹ چھانٹ کرتا‬
‫رہتا ہے۔ پھولوں اور ان کی کیاریوں کو خودرو جڑی بوٹیوں سے پاک کرتا ہے۔ گویا باغبان باغ کے‬
‫لیے بے حد ضروری ہے۔ اس کے بغیر کوئی باغ ہرا بھرا نہیں رہ سکتا۔ جیسے باغ کی شاداب کے‬
‫لیے ایک مالی کی ضرورت ہوتی ہے حسن کے نکھار اور سنگھار کے لیے بھی ایک بیوٹیشن کی‬
‫ضرورت ہوتی ہے۔ جو اس کے حسن و جمال کو چار چاند لگانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔‬

‫اسدہللا خاں غالب‬


‫(‪)1869-1797‬‬
‫اسد ہللا خاں غالب رجب ‪1212‬ھ بمطابق ‪ 27‬دسمبر ‪1797‬ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا‬
‫نام مرزا عبد ہللا بیگ تھا۔ غالب ابھی پانچ برس کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ بعد میں ان‬
‫کے چچا مرز انصرہللا بیگ نے ان کی پرورش کی مگر وہ بھی غالب کو ‪ 9‬برس کا چھوڑ کر اس‬
‫جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ چچا کی وفات کے بعد ان کے نانا نے ان کی پرورش کی۔ ابتدائی تعلیم‬
‫آگرہ کے معروف معلم شیخ معظم سے حاصل کی۔ مرزاغالب بھی ‪ 13‬برس کے تھے کہ ان کی شادی‬
‫نواب الہی بخش معروف کی صاحبزادی امراؤ بیگم سے کر دی گئی۔ شادی کے بعد غالب آگرہ کی‬
‫سکونت ترک کر کے دہلی چلے آئے۔انھیں نواب احمد بخش کی طرف سے جاگیرکی پنشن ملتی تھی‬
‫جو بعد میں کم ہوکر ساڑھے سات سو روپے رہ گئی تھی جس سے ان کی گزر بسر مشکل سے ہوتی‬
‫تھی۔ غالب نے پنشن کی بحالی کے لیے مقدمات بھی کئے مگر ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔ استادذوق‬
‫کی وفات کے بعد بہادر شاہ ظفر کے استاد ٹھہرے۔ عمر کے آخری ایام دہلی میں گزرے۔ ‪1857‬ء کی‬
‫جنگ آزادی کے صدمات نے ان کی رہی سہی کسر نکال دی انہوں نے ‪ 15‬فروری ‪1869‬ء میں‬
‫وفات پائی۔‬
‫معلی‪ ،‬مکاتیب غالب‪ ،‬نادرات غالب‪ ،‬نکات‬ ‫ان کی اردو تصانیف میں دیوان غالب‪ ،‬عود ہندی‪ ،‬اردوئے ٰ‬
‫غالب‪ ،‬قادر نامہ اور فارسی میں کلیات نثر‪ ،‬مہر نیمروز‪ ،‬دستنبو ‪ ،‬قاطع برہان‪ ،‬درفش کا وبائی‪،‬‬
‫سبدچین اور دیگر کتب شامل ہیں۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫غالب کے دیگر اشعار کی تشرتح‬


‫نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا‬
‫کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصور کا‬

‫مفہوم‪ :‬نقش (تصور) کس کی شوخئی تحریر کا فریادی ہے کہ ہر پیکر تصویر نے کاغذی پیرہن‬
‫(فریادیوں کا لباس) پہن رکھا ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬ایران کے عہد قدیم میں جو شخص کسی ظلم کے خالف فریاد کرنا چاہتا تھا وہ کاغذ کا‬
‫لباس پہن کر بادشاہ کے دربار میں دادرسی کے لیے جاتا تھا۔ اس کےکاغذی لباس سے اندازہ ہو جاتا‬
‫تھا کہ وہ شخص فریادی ہے۔یعنی کاغذی پیراہن "فریادی" کی عالمت سمجھا جاتا تھا۔ اس شعر میں‬
‫غالب بھی یہی کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی ذات حقیقی سے علیحدگی کا باعث ہوتی ہے۔ ہر‬
‫تصویر( ذی روح) کی کی شوخئی تحریرکی فریادی ہے اور وہ اپنے ہونے (عارضی اور فانی‬
‫زندگی ) پرسراپا احتجاج ہے۔ ہستی کو تصویر (نقش) اس لیے کہا گیا ہے کہ اس کا وجودغیرحقیقی‬
‫ہے مگر عارضی ہونے کے باوجود وہ اتنے رنج و مالل اور آزار کا باعث ہوتی ہے کہ ہر ہستی‬
‫سراپا فریاد بن گئی ہے۔‬
‫ڈاکٹر وحید قریشی "نذر غالب" میں اس شعرکوحمد قرار دیتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ نقش اور‬
‫مصور کی اصطالحیں محض مصوری سے تعلق نہیں بلکہ اپنی تعبیر کے اعتبار سے ان کا سلسلہ‬
‫تصوف سے بھی ملتا ہے۔‬
‫ایک اور مفہوم بھی لیا جاتا ہے کہ مصور جوتصویر بناتا ہے وہ اس کے نقوش (خاکہ ) کاغذ پر‬
‫اتارتا ہے۔ لیکن اس تصویر کے پیکر کوزندگی نہیں بخش سکتا۔ اس طرح کاغذی پیراہن والی‬
‫(عارضی) تصویر مصور (خالق) کی شوخی کے خالف سراپا احتجاج یا سراپافراد معلوم ہوتی ہے۔‬
‫کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ‬‫ِ‬ ‫کاو‬
‫ِ‬
‫صبح کرنا شام کا النا ہے جوئے شیر کا‬
‫کاوکاو۔۔۔۔۔فارسی مصدر کا ویدن سے ہے۔ جس کے معنی کھودنا‪ ،‬کاوش اور سخت محنت ہیں ۔‬
‫شعری رعایت کی بنا پر کاوش کےش کو گرادیا گیا ہے۔ کاو کاو کی تکرارشدت اظہار کے لیے‬
‫استعمال ہوتی ہے۔‬
‫مفہوم‪ :‬تنہائی کی تکلیف کا کیا پوچھتے ہواس عالم میں صبح سے شام کرنا گویا دودھ کی نہر نکالنا‬
‫ہے۔ یعنی سخت دشوار کام ہے۔‬
‫تشریح‪:‬مرزاغالب اپنی تنہائی کو نرالے انداز میں بیان کرتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ جس طرح‬
‫فرہادنے شیریں کے لیے دودھ کی نہر کھودنے کی شرط قبول کر لی تھی نہایت دشوار اور سخت کام‬
‫کا چیلنج قبول کرلیا تھا اور ناممکن کو ممکن بنا دکھایا۔ سومحبت کرنے والے غم فرقت کو کاٹنے‬
‫کے لیے جگر کاری سے کام لیتے ہیں۔ تنہائی کی اذیت برداشت کرناسخت جان کام ہے۔ اس کے لیے‬
‫بڑی کاوش کرنی پڑتی ہے۔ اور اپنے دلدار (محبوب) کے بغیرصبح سے شام کرنا یعنی دن رات‬
‫گزارنا جوئے شیر النے کے مترادف ہے۔ یعنی ہجر اور فراق کے مارے ہوئے لوگوں کے لیے اپنی‬
‫صبح کاشام کر نابڑا کٹھن اور جان جوکھوں کا کام ہے۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫ایک اور مفہوم بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ جدائی ( تنہائی) کی حالت میں جن جن کاوشوں‪ ،‬کاہشوں‬
‫اور مشقتوں کا میں تختہ ءمشق بنا ہوا ہوں ان کا حال مت پو چھ اور نہ ہی میں بیان کرسکتا ہوں اور‬
‫نہ ہی میری سخت جانی کے باعث دم نکلتا ہے۔ بس یہ سمجھ لو کہ رات گزارنا اور شام کاصبح کرنا‬
‫اتناہی سخت کٹھن اور دشوار کام ہے جتنافرہاد کے لیے پہاڑ کاٹ کر جوئے شیر النا دشوار تھا۔‬
‫اس شعر میں شاعر نے جدائی کی حالت میں اپنی سخت جانی کو پہاڑ سے اور شام کےصبح ہونے‬
‫کو جوئے شیر (دودھ کی نہر) سے تشبیہ دی ہے۔‬
‫آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے‬
‫مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریرکا‬
‫مفہوم‪ :‬سمجھ عقل اور شعور بے شک جس قدر چاہے سماعت کے جال بچھاۓ ہماری گفتگو ہمارے‬
‫مفہوم ومطالب کو پھانس نہیں سکتے۔ تشریح‪:‬غالب اپنی مشکل پسندی کے حوالے سے انوکھے انداز‬
‫میں وضاحت کر رہے ہیں کہ ہمارے مفہوم اور مطالب کو پانا اتنا آسان نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ‬
‫ہمارا مطلب اتنا دقیق اور نازک ہوتا ہے کہ اس تک عام علم وعقل کی رسائی نہیں ہوسکتی ہے اور‬
‫ہرکوئی ہمارے "کہے" تک نہیں پہنچ سکتا۔ یعنی ہم جو کچھ کہتے ہیں اس کا مفہوم اور مطلب بہت‬
‫بلند ہے اسے عنقا کی طرح نا پید کہنا بھی نا مناسب نہیں۔ عنقا اس خیال فرضی پرندےکو کہتے ہیں‬
‫جو ناپید ہے اس سے مرادنا پید اور نہ ملنے واال ہے۔‬
‫جز قیس اور کوئی نہ آیا بروے کار‬
‫صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا‬

‫مفہوم‪ :‬عمریں گزریں قیس کے عالوہ کوئی دوسرا شخص جنو ِن عشق میں نمایاں حیثیت حاصل نہ‬
‫کر سکا۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحرابھی وسعت کے باوجود حسد کرنے والےشخص اس کی آنکھ‬
‫کی طرح تنگ تھا کہ کوئی اور نہ سکا۔‬
‫تشریح‪ :‬چشم حاسد کی تنگی اس لیے مشہور ہے کہ وہ اپنے سوا ہر شخص کی نعمت کا زوال مانگتا‬
‫ہے۔ وہ کسی کو پھولتا پھلتا نہیں دیکھ سکتا۔‬
‫مرزا غالب ہی اسی مفہوم کو بیان کرتے ہیں کہ صحرا دیکھنے میں کتنا ہی وسیع اور کشادہ کیوں نہ‬
‫ہو لیکن جب ہم پر حقیقت پیش نظر رکھتے ہیں کہ قیس (مجنون) کے عالوہ کوئی اور عشق کر نے‬
‫واال جنون عشق میں صحرا میں نہیں آیا تو معلوم ہوا کہ میرا صحرا چشم حاسد کی طرح تنگ ہے‬
‫یعنی وہاں کسی اور کے قدم رکھنے کے لیے جگہ نہیں۔ ورنہ ضرور کوئی جنون عشق کا سودا سر‬
‫میں سمائے صحراؤں کی خاک چھانتا نظرآتا۔‬
‫اس شعر میں قیس کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ اس کے سوا کوئی اور محبت اور عشق کے آزار‬
‫اٹھانے واال نہیں آیا۔ دنیا کی مصیبتوں اور تکالیف کو برداشت صرف عاشق میں ہوتا ہے کہ اس پر‬
‫محبوب کو پانے کی دھن سوار ہوتی ہے۔ وہ اس جنون عشق میں ہر دکھ اور تکلیف برداشت کر لیتا‬
‫ہے۔ حاسد کا رویہ بھی بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس لیے غالب نے صحرا کی تنگی کو حاسد کی آنکھ‬
‫کی تنگی یعنی تنگ نظری سے مماثل قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ قیس کے عالوہ اور کوئی‬
‫دشت اورصحرا کے دکھ برداشت نہیں کر سکا کیونکہ صحرا بھی سخت تنگ یعنی تکلیف دہ تھا۔‬
‫صحرا کی عصبیت چشم حاسد کی تنگی یاد دالتی ہے۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد‬


‫سرگشتہ خمار رسوم و قیود تھا‬
‫مفہوم‪ :‬اس شعر میں مرزا غالب فرہاد پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے اسد! فرہاد تیشے کے‬
‫بغیر مر بھی نہ سکا حاالنکہ اسے شیریں کی موت کی خبر سن کر مر جاناچاہیے تھا مگر فرہادبھی‬
‫دنیادی پابندیوں اور رسم ورواج کا پابند نکال۔ اسے بھی باآلخر تیشے سے سر پھوڑ کر مرنا پڑا۔‬
‫تشریح‪ :‬مذکورہ باال شعر اس دور کا شعر ہے جب غالب اسدتخلص کرتے تھے غالب نے اس شعر‬
‫میں شیریں فرہاد کے قصے کی تلمیح استعمال کرتے ہوئے انوکھا مضمون نکاال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ‬
‫فرہاد کو شیریں کے لیے نہر کھودنی پڑی کیونکہ خسرو پرویز کی یہی شرط تھی ۔ فرہاد نے شرط‬
‫پوری کردی خسرونے سازش سے یہ بات فرہادتک پہنچائی کہ شیریں مرگیا ہے یہ خبر سن کر فرہاد‬
‫نے اپنے تیشے ہی سے ہر پھوڑ کر موت کو گلے لگالیا۔‬
‫غالب اسی بات پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فرہاد اگرسچا عاشق تھا تو شیریں کی موت کا سن‬
‫کر اس کی جان بھی نکل جانی چاہیے تھی مگر فرہادبھی مرنے کے نے دنیاوی رسم ورواج اور‬
‫پابندیوں کامحتاج نکال اسے بھی مرنے کے لیے تیشہ استعمال کرنا پڑا۔‬

‫شوق ہر رنگ رقیب سرو ساماں نکال‬


‫قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکال‬
‫مفہوم‪ :‬عشق ظاہری ساز و سامان اور شان و شوکت کا مخالف ہے حاالنکہ قیس تصویر کے پردے‬
‫میں بھی عریاں نظر آتا ہے۔‬
‫تشریح‪:‬اس شعر میں عشق کی بے سروسامانی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ غالب کے نزدیک عشق میں‬
‫ظاہری بناؤ سنگھار اور دنیا داری کے سامان کچھ اہمیت نہیں رکھتے۔ غالب سروسامان کو عشق کا‬
‫رقیب خیال کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ شوق (عشق) ہر حال میں سروسامانی کا رقیب ہے اور قیس‬
‫کو عشق میں اپنے تن من اور کپڑوں کا کچھ خیال نہیں ہے۔ اگر مصور اس کی تصویر بنائے گا تو‬
‫اسے کپڑوں سے بے نیاز دکھائے گا کہ عشق میں ہوش وخرد کا کوئی کام نہیں ہے اور عشق کی‬
‫پہچان یہی ہے کہ وہ دنیاوی رکھ رکھاؤ سے بیگانہ ہوتا ہے۔ اس لیے مجنون تصویر کے پردے میں‬
‫بھی عریاں دکھائی دیتا ہے کہ عشق سرو سامان کا مخالف ہے اور محبوب کی دھن اور دھیان کے‬
‫عالوہ اسے کچھ نہیں سوجھتا۔‬

‫بوئے گل نالۂ دل دور چراغ محفل‬


‫جو تیری بزم سے نکال سو پریشاں نکال‬
‫مفہوم‪:‬اے محبوب تیری بزم سے صرف عاشق لوگ ہی نہیں بلکہ تری محفل سے ہرشے پریشاں‬
‫نکلتی ہے۔‬
‫تشریح‪:‬اس شعر میں غالب نے محبوب کی محفل کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ محبوب کی محفل‬
‫میں سے کوئی بھی نکلنانہیں چاہتا ہے۔ عاشق تو اس کے حسن کےتابع ہے اسے اگرمحبوب کی‬
‫محفل سے نکلنا پڑےتو وہ پریشان ہوجاتا ہے غالب کہتے ہیں کہ میرے محبوب تری محفل سے تو‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫دل کی آہ سے لے کر پھول کی خوشبو اور چراغ کا دھواں تک پریشان نکلتا ہے۔ غالب نے صنعت‬
‫حسن تعلیل کوخوبصورتی سے بیان کیا ہے اور محبوب کے حسن کی تا ثیر پیش کیا ہے۔‬
‫عورت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا‬
‫درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا‬
‫مفہوم‪ :‬مرزا غالب کے نزدیک قطرے کا سکون دریا میں تحلیل ہو جانا ہے اور درد کا حد سے‬
‫گزرنا گویا اس کی دوا بن جانا ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬دروجب حد سے بڑھ جائے تکلیف جب زیادہ ہو جائے تو انسان اس کا عادی ہو کر اسے‬
‫برداشت کر لیتا ہے۔ غالب اس نقطے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ درد کی انتہا اس کی دوا ہے‬
‫جیسے قطرہ دریامیں تحلیل ہوکر اپنی ہستی کوفنا کر لیتا ہےاسی طرح درد کا عادی ہونا دراصل اس‬
‫کا عالج بن جاتا ہے۔ یہی مضمون ایک اور شعر میں بیان کیا گیا ہے۔‬
‫رنج سے خو گر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے‬
‫رنج‬
‫مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آسان ہو گئیں‬
‫دل سے مٹنا تیری انگشت حنائی کا خیال‬
‫ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہو جانا‬
‫مفہوم ‪ :‬میرے دل سے تیری مہندی لگی انگی کا تصورمٹنا ایسے ہی ناممکن ہے جیسے گوشت کا‬
‫ناخن سے الگ ہونا۔‬
‫تشریح‪ :‬ضرب المثل ہے کہ ناخن سے گوشت جدا نہیں ہوسکتا مراد یہ ہے کہ گوشت اور ناخن ایک‬
‫ہی ہیں ان کو الگ کرناممکن نہیں غالب اس مضمون کو سامنے رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ تری حنا‬
‫آلودانگلی کا خیال بھالنا اسی طرح ناممکن ہے جیسے گوشت سے ناخن کا الگ ہونا۔ مراد یہ ہے کہ‬
‫اے محبوب تری حنا آلودانگلی میرے دل میں اس طرح پیوست ہے جیسے ناخن گوشت میں پیوست‬
‫ہوتا ہے۔ دونوں کی جدائی ممکن نہیں۔‬
‫شور پند ناصح نے زخم پر چھڑکا نمک‬
‫آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا‬
‫مفہوم‪:‬ناصح کی نصیحتوں کے شور نے میرے دل کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے ان سے کوئی‬
‫پوچھے انھیں اس سے کیامل گیا ہے۔‬
‫تشریح‪:‬عاشق کتنی تکالیف برداشت کرے وہ عشق سے باز نہیں آتا۔ اسے ناصح کی نصیحتیں بھی‬
‫عشق سےباز نہیں رکھ سکیں بلکہ اسےناصح کی نصیحتوں کا شور زخموں پر نمک کی طرح‬
‫محسوس ہوتا ہے۔ غالب کہتے ہیں کہ اسے اس سے کیامال ہے۔‬
‫ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب‬
‫ت امکاں کو ایک نقش پا پایا‬ ‫ہم نے دش ِ‬
‫مفہوم‪:‬انسانی خواہشات اور آرزوؤئیں میں بے حد وسعت رکھتی ہیں ذات باری تعالی کی آرزو کا‬
‫ایک نقش یہ جہان ہے۔‬
‫نقش پا قرار دیتے ہیں۔ خالق دو جہاں کاجذبہ‬
‫ِ‬ ‫ت امکاں میں ایک‬ ‫تشریح‪:‬اس شعر میں غالب دنیا کودش ِ‬
‫تخلیق کا دوسراقدم نہ جانے کہاں پڑا ہوگا۔ کیونکہ بہت سے دنیا ئیں ہماری نظروں سے ابھی اوجھل‬
‫ہیں۔ غالب نے اس شعر میں تمنا خواہیش اور امنگ کے محدود معانی کی بجائے رب ذوالجالل کے‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫جذ بہ تخلیق کی وسعت کو موضوع بنایا۔انسانی خواہشات اور تمنائیں بے حد وسیع ہیں اور تمناؤں کا‬
‫ت امکاں میں ایک نقش پا قرار دیتے ہیں۔‬‫کوئی کنارہ نہیں۔ شاعر دنیا کو دش ِ‬
‫سب کہاں کچھ اللہ و گل میں نمایاں ہو گئیں‬
‫خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو‬
‫گئیں‬
‫مفہوم‪:‬سب نہیں کچھ صورتیں اللہ و گل میں ظاہر ہوئی ہیں اور نہ جانے کتنی صورتیں ہیں جو خاک‬
‫میں مل گئیں اور وہ ظاہر نہ ہو سکیں۔‬
‫تشریح‪:‬اس شعر میں غالب کا خیا ل یہ ہے کہ گل و اللہ کی شکل میں جو خوشنما پھول نظر آتے ہیں‬
‫یہ دراصل وہ حسین لوگ ہیں جو مر کر خاک میں ملک گئے اور اب ایک جنم کے بعد دوسرے جنم‬
‫میں پھولوں کی صورت میں ظاہر ہو گئے ہیں۔ بقل غالب یہ تو چند صورتیں ہیں جو پھولوں کی شکل‬
‫میں ظاہر ہو تی ہیں نہ جانے اور کتنے چہرے اور حسین لوگ ہوں گے جو ابھی خاک میں چھپے‬
‫ہوئے ہیں اور انھیں ظاہر ہونے کا موقع نہیں مال گویا ایک نہ ایک روز وہ بھی کسی نہ کسی شکل‬
‫میں ظاہر ہوں گی۔ بعض ناقدین کے نزدیک اس شعر میں غالب بھی ہندوؤں کے عقیدے آواگون سے‬
‫متاثر دکھائی دتے ہیں۔ ہندوؤں کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان مر کر کسی اور روپ میں دوسرا جنم بھی‬
‫لیتا ہے۔‬

‫تھیں بنات النعش گردوں دن کو پردے میں‬


‫نہاں‬
‫شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں‬
‫ہوگئیں‬
‫مفہوم‪ :‬آسمان کی بیٹیاں دن کے پردے میں چھپی ہوئی تھیں کہ اچانک ان کے جی میں کیا آئی کہ وہ‬
‫رات کو آسمان پر عریاں ہوگئیں یعنی دکھائی دینے لگیں‬
‫تشریح‪ :‬غالب کہتے ہیں کہ بیٹیاں تو پردے میں رہتی ہیں انھیں پردوں میں چھپاہونا چاہے۔آسمان کی‬
‫بیٹیاں بھی دن کو تو پردے میں چھپی رہی ہیں لیکن رات ہوتے ہیں اچانک نمودار ہو گئیں۔ اصل بات‬
‫یہ ہے کہ ستارے دن کو نظر نہیں آنے جیسے ہی سورج غروب ہوتا ہے وہ آسمان پر دکھائی دینے‬
‫لگتے ہیں۔ آسان پر سات ستاروں کے جھرمٹ (دب اکبر) کو شاعر آسمان کی بیٹیاں قرار دیتا ہے۔ اس‬
‫شعر میں غالب نے نبات کے لفظوں کی رعایت سے معنی آفرینی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور‬
‫حسن تعلیل سے شعر میں مزید لطافت پیدا ہوگئی ہے۔‬
‫جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے‬
‫فراق‬ ‫شام‬
‫میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فرزواں ہو‬
‫گئیں‬
‫مفہوم ‪ :‬آج میری آنکھوں سے خون کی ندیاں بہنے دو میں یہ سمجھوں گا کہ ہجر کی شام کو روشن‬
‫کرنے کے لیے دو شمعیں جل اٹھی ہیں تشریح‪ :‬شاعرشام فراق میں خون کے آنسو روتے ہوئے اپنی‬
‫آنکھوں کو روشنی بکھیرتے محسوس کرتا ہے۔ خون کے آنسورونا محاورے کے طور بھی استعمال‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫ہوا ہے۔شاعروں کا خیال ہے کہ جب روتے ہوئےآنسوں خشک ہو جاتے ہیں تو آنکھوں سے آنسوؤں‬
‫کی بجائے خون رواں ہوجاتا ہے۔ میرتقی میربھی اس نظریےکے قائل ہیں۔‬
‫اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا‬
‫آتا‬ ‫نہیں‬ ‫جب‬ ‫ہے‬ ‫آتا‬ ‫لوہو‬

‫غالب بھی فراق کے دکھ میں خون کی ندیاں بہارہے ہیں ۔ دوسرے مصرعے میں وہ ان خون کے‬
‫شام فراق میں دو‬
‫آنسوؤں کونئے زاویے سے پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں سمجھوں گا کہ ِ‬
‫شمعیں روشن کر رکھی ہیں گویا محبوب کی جدائی میں خون روتی آنکھوں کو روشن شمعیں قرار دیا‬
‫گیاہے۔‬
‫ک رسوم‬ ‫ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے تر ِ‬
‫ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں‬

‫مفہوم ‪ :‬ہم توحید کے عقیدے کو ماننے والے ہیں یعنی موحد ہیں اور ایسے لوگ رسوم ورواج ترک‬
‫کردیتے ہیں۔ جب ملتیں مٹ جاتی ہیں ایک امت بن جاتی ہے اورملتیں مٹ کر ایمان کے اجزا بن‬
‫جاتی ہے۔‬
‫تشریح‪:‬شاعراس شعر میں فلسفہ ء تو حید پیش کرتا ہے کہ جس طرح توحید کو ماننے واال (موحد)‬
‫تمام رسوم ورواج کوتسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی ان پرعمل کرتا ہے اگر تمام لوگ اسی عقیدے کو‬
‫ماننے لگیں تو یہ فرقہ بندیاں ختم ہو جا ئیں اور فرقے ختم ہو جائیں تو سب ایک ہو کر ایک خدا اور‬
‫ایک رسول کو ماننے والے اکٹھے ہو جائیں اس طرح ایمان مکمل ہو جاتا ہے جب ملتیں (فرقہ‬
‫بندیاں) ٹوٹتی ہیں توایمان کے اجزاء بن جاتی ہیں۔‬
‫رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے‬
‫رنج‬
‫مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں‬
‫مفہوم‪ :‬جب انسان رنج کا خوگر(عادی) ہو جاتا ہے تومشکالت اور مصائب برداشت کرنے کے‬
‫حوصلے سے مشکلیں بھی آسان لگنے لگتی ہیں۔ تشریح‪:‬اس شعر میں شاعر نے ایک نفسیاتی نکتہ‬
‫بیان کیا ہے کہ انسان کو جب مستقل دکھ اور مصائب برداشت کرنے پڑتے ہیں تو وہ ان کا عادی ہو‬
‫جاتا ہے۔ مشکالت میں جتنی مشکالت بھی آجائیں پھر وہ آسان لگتی ہیں۔ گویا مسلسل مصائب میں‬
‫انسان کی برداشت بڑھ جاتی ہے اور وہ اس کا عادی ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اسے دکھوں اور غموں‬
‫کا احساس نہیں ہوتا۔ غالب اس نکتے کو پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مشکالت کا عادی ہونے پر‬
‫انسان کورنج کچھ نہیں کہتے اور مجھ پر بھی اتنی مشکالت پڑی ہیں کہ وہ ساری مشکلیں میرے‬
‫لیے آسان ہوگئی ہیں۔‬

‫نہ گل نغمہ ہوں نہ پردہ ساز‬


‫میں ہوں اپنی شکست کی آواز‬
‫مفہوم‪ :‬میں نہ تو پھولوں کا گیت ہوں ساز کا ُسر ہوں۔ میں تو اپنی شکست کا نوحہ ہوں۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫تشریح‪ :‬درج باال شعر میں غالب اپنے حاالت کا رونا روتے نظر آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میری‬
‫شاعری میں دکھ اور در نمایاں ہیں میں خوشیوں کا گیت نہیں اور نہ ہی میں ساز سے نکلنے والی‬
‫خوش کن آواز ہوں جسے سن کر لوگ لطف اندوز ہوسکیں۔ میں تو ایک نوحہ ہوں۔ میری شاعری‬
‫میں درد و غم اور تلخیاں ہیں اور میں اپنی ٹوٹ پھوٹ کی آواز ہوں۔‬
‫کل‬ ‫کا‬ ‫خم‬ ‫آرائش‬ ‫اور‬ ‫تو‬
‫میں اور اندیشہ ہائے دور دراز‬
‫مفہوم‪:‬یہاں شاعر اپنی اور محبوب کی متضادنفسیاتی کیفیات کا تذکرہ کر رہا ہے کہ اے محبوب ! تو‬
‫اپنے آپ کو سنوارنے میں مصروف ہے اور میں اندیشہ ہائے دور دراز میں بھٹک رہا ہوں۔‬
‫تشریح‪:‬غالب ایک نکتہ آفرین شاعر ہے اس کی شاعری میں فکر و خیال کی بلندی دیدنی ہے یہ شعر‬
‫بظاہر سادہ ہے کہ محبوب اپنی زلفوں کو سنوارنے میں محو ہے اور شاعر اندیشہ ہائے دور دراز‬
‫میں کھویا ہوا ہے۔ غالب کہتے ہیں کہ میری اور میرے محبوب کی سوچ میں نمایاں فرق ہے محبوب‬
‫اپنے آپ میں مگن بننے سنورنےسے فارغ نہیں جب کہ میری سوچ کہاں کہاں جاتی ہے۔ حسن کی‬
‫حقیقت سے لے کر اپنی اصل تک میں مسلسل فکر میں غلطاں ہوں۔ ایک اور معنی بھی ہو سکتے ہیں‬
‫کہ غالب محبوب کو ہنسے سنورتے دیکھ کرتشویش میں مبتال ہیں کہ آرائش کے بعد محبوب مزید‬
‫خوبصورت ہو جائے گا اور رقیبوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔ شاعر کی سوچ کہاں کہاں‬
‫بھٹکتی ہے۔‬
‫دلی‬ ‫سادہ‬ ‫فریب‬ ‫نمکین‬ ‫الف‬
‫ہم ہیں اور راز ہائے سینہ گداز‬
‫مفہوم ‪:‬غالب کا کہنا ہے کہ وضع داری میں رکھ رکھاؤ کی شیخی بگھارنا ہماری سادہ دلی ہے ورنہ‬
‫عشق کی آتش ہمارا سینہ پگھالئے جارہی ہے۔‬
‫تشریح ‪:‬۔ غالب ایک انا پرست اور وضع دار انسان تھے وہ محبوب کے ستم پربھی آہ زاری کرتے‬
‫نظر نہیں آتے۔ وہ محبت میں ستم برداشت کرنے کے قائل ہیں۔غالب اپنہ وضع داری اور تمکنت کو‬
‫فریب سادہ دلی قرار دیتے ہیں کہ اندر سے تو عشق کی آگ سے سینہ پگھال جاتا ہے اور دل عشق‬
‫کی آگ میں دھواں دے رہا ہے لیکن کم ظرف عاشقوں کی مانند ہم شور مچانے کے قائل نہیں بلکہ‬
‫اپنے آپ کوتمکنت اور وقار کا دھوکہ دے کر خاموشی سے ہر ستم دکھ اور درد برداشت کر رہے‬
‫ہیں۔‬
‫یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا‬
‫اگر اور جیتے رہتے ہی انتظار ہوتا‬
‫مفہوم ‪:‬ہماری ایسی قسمت کہاں کی محبوب کا وصال ہوتا ہم اگر اور زندہ رہتے تو ہمیں انتظار ہی‬
‫کرنا پڑتا‬
‫تشریح ‪:‬غالب محبوب کے انتظار کا مضمون خوبصورتی سے بیان کر رہے ہیں عموما ً محبوب ملنے‬
‫کا وعدہ کر لیتا ہے لیکن یہ وعدہ بھی وفا نہیں ہوتا غالب اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے کہتے‬
‫ہیں کہ محبوب سے مالپ ہمارے مقدر ہی میں نہیں ہے ہم اس ملن کو ترستے ہوئے اگر نہ بھی‬
‫مرتے یعنی اگر مزید زندہ رہتے تو بھی میں ہمیں محبوب کا انتظارہی کر نا پڑتا۔۔۔۔ مگر وصا ِل یار‬
‫ہمارے نصیب میں نہیں ہے۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫تیرے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ‬


‫جانا‬
‫کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا‬
‫تشریح‪ :‬ہم اگر تیرے وعدے پرزند ہیں تومت سمجھ کہ ہم تیرے وعدے پراعتبار کرتے ہوئے زندہ‬
‫ہیں کہ تم سے مالقات ہوگی اگر ایسا ہوتا کہ تیرے وعدے کا ہمیں یقین ہوتا کی تو اپنا وعدہ نبھائے گا‬
‫تو ہم خوشی سے مر جاتے۔ شاعر کا خیال ہے کہ ہم تمہارے جھوٹے وعدوں کی بناپر ابھی تک زندہ‬
‫ہیں یہ قطعی غلط ہے ہمیں پتہ ہے تیراکوئی وعدہ وفا نہیں ہوتا کیونکہ اگر ہمیں تیرے وعدوں کا ذرا‬
‫بھی اعتبار ہوتا تو ہم خوشی سے ہی مر جاتے اور اب تک زندہ نہ ہوتے۔‬
‫کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیر نیم‬
‫کو‬ ‫کش‬
‫یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار‬
‫ہوتا‬
‫مفہوم‪ :‬تیرے عشق کا جو تیر میرے دل میں پیوست ہے اس کی خلش میرادل ہی جانتا ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬عموما ً محبوب کی پلکوں کو تیرسے تعبیر کیا جاتا ہے اوربھنوؤں کو کمان قرار دیا جاتا‬
‫ہے۔ مذکورہ شعر میں شاعر کہتا ہے کہ تو نے تیر پورے زور سے کمان سے کھینچ کرنہیں‬
‫مارااگرتو کھینچ کر زور سے تیر مارتا تو جگر کے پار ہو جاتا اس کے برعکس تیر میرے دل میں‬
‫پیوست ہو کر رہ گیا ہے۔ اور میں مسلسل ایک کسک (چبھن) اور لذت درد میں مبتال ہوں۔ شاعر نے‬
‫کہا کہ کوئی میرے دل سےپوچھے کہ تیر کے درد اور لذت آفرینی کا ذکر کیا ہے۔ اور وہ محبوب‬
‫کی آنکھوں کی چبھن محسوس کر رہا ہے اگر یہ تیردل کے پار ہو جاتا تھا تو زخم کچھ عرصے‬
‫بعدٹھیک ہوجاتا تکلیف ختم ہوجاتی مگر تیر دل میں اٹک کر رہ گیا ہے اور یہ دردمسلسل دل میں‬
‫محبوب کی یاد سلگائے ہوئے ہے۔ بعض نفسیاتی تنقید کے ناقدین نے غالب کے بعض اشعار میں‬
‫خوداذیتی عناصربھی تالش کئے ہیں یہ شعربھی خوداذیتی کی کیفیت کا حامل ہے۔‬

‫غم اگرچہ بل گسل ہے پر کہاں ہیں کہ دل‬


‫ہے‬
‫غم عشق گرنہ ہوتا غم روزگار ہوتا‬
‫مفہوم‪ :‬اگر چہ غم جان گھُال دینے واال ہے لیکن اس سے بھاگنا ممکن نہیں ہے اگر میں غم عشق نہ‬
‫ہوتاتو غم روزگار میں برباد کر دیتا۔ تشریح‪:‬غالب اس شعر میں زندگی کو دردغم کی تفسیر قرار‬
‫دیتے ہیں اس شعر میں بھی ان کا فلسفہ غم نمایاں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بہرحال ہماری جان کبھی نہ‬
‫چھوڑتا یعنی غم سے نجات کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اگرعشق کاغم نہ ہوتاتو غم روزگار ہماری‬
‫جان کو کھاتا۔ اگر ہمیں عشق کا غم نہ ہوتا تو دنیا جہاں کے دوسرے غم پریشان کرتے رہتے۔ اب‬
‫ایک ہی غم ہماری جان کوکھارہاہے۔ "غم عشق" غم روزگار سے بہرحال بہتر ہے کہ عشق کا مقصد‬
‫ارفع و اعلیٰ ہے۔‬
‫وہ ایک جگہ لکھتے ہیں۔‬

‫قید حیات و بندغم اصل میں دونوں ایک ہیں‬


‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫غم سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں‬


‫ہوئے‬
‫ہوئے ہم جو مر کے رسوا ہوئے کیوں نہ‬
‫دریا‬ ‫غرق‬
‫نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزارہو تا‬
‫مفہوم‪:‬مر کے رسوا ہونے سے بہتر ہے کہ غرق در یاہو جاتے تا کہ نہ جنازہ اٹھتا اور نہ کہیں‬
‫مزار ہوتا۔‬
‫تشریح‪:‬شاعر محبت میں مرنے کے تو قائل ہیں مگر محبت میں رسوائی پسند نہیں کرتے۔ یہی وجہ‬
‫ہے کہ وہ تمنا کرتے ہیں اگر محبت میں مرنا ضروری ٹھہراتا تھاتو کم ازکم دریا میں غرق ہو جاتے‬
‫تا کہ جنازہ اور اس کے بعد مزار سے بچ جاتے۔ جنازے میں عاشق نا کام کی رسوائی ہوتی اور بعد‬
‫ازاں قبرکو دیکھ کر بھی لوگ محبت کے مارے کو یاد کرتے اس طرح محبوب کی رسوائی ہوتی اور‬
‫بہت بدنام ہوتی۔ سوغالب یہی آرزو کرتے ہیں کہ مرنے پر جو رسوائی ملی ہے کاش ہم غرق دریا‬
‫ہوتے نہ جنازہ اٹھتانہ کہیں مزار ہوتا اور مزید رسوانہ ہوتے۔‬
‫ث تاخیر بھی‬ ‫ہوئی تاخیر تو کچھ باع ِ‬
‫تھا‬
‫آپ آتے تھے مگر کوئی عناں گیر‬
‫تھا‬ ‫بھی‬
‫مفہوم‪:‬غالب محبوب کی دیر سے آنے کی عادت اپنے رقیب کوقراردیتے ہیں۔‬
‫تشریح‪ :‬محبوب دیر سے آئے تو عاشق کی جان پر بن جاتی ہے۔ غالب اپنے محبوب کے تاخیر سے‬
‫آنے پر اسے کہتے ہیں کہ اگر آنے میں تاخیر ہوتی ہے تو یقینا ً اس تاخیر کا سبب بھی ہوگا اور اس‬
‫میں شرمندگی کیسی۔ اگر روکنے واال ہو تو آنے میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ غالب محبوب کے تاخیر‬
‫سے آنے کا سبب جانتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اے محبوب رقیب نے تمھارے گھوڑے کی باگیں‬
‫پکڑرکھی تھیں اس میں تمھارا کیاقصور لہذاشرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی‬
‫گلہ‬ ‫کا‬
‫اس میں کچھ شائبہ خوبی تقدیر بھی‬
‫تھا‬
‫مفہوم ‪ :‬میں تم سے خوامخواہ اپنی بربادی کی شکایت کر رہا ہوں اس میں میری قسمت کا بھی کچھ‬
‫دخل ہے کہ میں تباہ ہوگیا ہوں۔‬
‫تشریح‪:‬اس شعر میں بھی غالب اپنے محبوب کو شرمندہ نہ ہونے کی تلقین کرتے ہیں کہ میں‬
‫تمھارے عشق میں تباہ و برباد ہوا تو اس میں تمھارا کو قصورنہیں ۔ میری قسمت ہی میں یہی لکھا تھا‬
‫میرامقدر یہی تھا کہ میں عشق میں تباہ ہوتا۔ اگر میری قسمت خراب نہ ہوتی تو میرا واسطہ عشق‬
‫سے کیوں پڑتا۔ اگر عشق ہونا ہی تھا تو محبوب اس قدر سنگدل نہ ملتا اور میں محبوب کے ظلم وستم‬
‫کا شکار نہ ہوتا آج اگر میں برباد ہوں تو مجھے تم سے گلہ نہیں کرنا چاہیے کہ میری قسمت ہی‬
‫ایسی تھی۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے‬


‫ناحق‬ ‫پر‬
‫دم تحریر بھی تھا‬‫آدمی کوئی ہمارا ِ‬
‫مفہوم‪ :‬ہمیں فرشتوں کے لکھے ہوئے نامہ اعمال پر گرفتار کیا جاتا ہے کیا اس اعمال نامے‬
‫پرہمارے کسی آدی کی گواہی بھی موجود ہے۔ تشریح‪ :‬حشر کے روز جو اعمال نامہ پیش کیا جائے‬
‫گا وہ" کراما ً کاتبین" کا لکھا ہوا ہوگا اس پر سزاو جزا کا دارومدار ہو گا۔ شاعر اس مضمون کو‬
‫خوبصورتی سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حشر کے روز اگر ہمیں فرشتوں کے لکھے پر‬
‫پکڑاگیاتویہ انصاف نہیں ہوگا۔ کیا اس تحریر کے وقت ہمارا کوئی گواہ بھی ہے۔ انسان کا تقاضا تو یہ‬
‫ہے کہ ہمارے نامہ اعمال پر گواہوں کے بھی دستخط ہوں تا کہ ہم جھوٹ سچ کا اندازہ کرسکیں۔ اس‬
‫شعر میں بھی ایک شوخی ہے۔‬

‫حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں‬


‫میں‬ ‫کو‬ ‫جگر‬
‫مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو‬
‫میں‬
‫‪ ..‬مفہوم ‪ :‬غالب کہتے ہیں کہ مجھے حیرت ہے کہ شدت غم میں کیا کروں دل کوروؤں کہ جگر کو‬
‫پیٹوں۔ استطاعت ہوتی تومیں رونے واال ساتھ رکھ لیتا۔‬
‫تشریح‪:‬عموما ً شعراء حضرات عشق میں دل و جگر کی تباہی کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اس شعر میں غالب‬
‫کی دل و جگر پر ماتم کناں دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں شدیدغم میں مجھ سے کوئی فیصلہ نہیں ہو‬
‫پاتا کہ میں دل کور روؤں یاجگر کا ماتم کروں ۔ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اپنے ساتھ ایک نوحہ‬
‫گربھی رکھ لیا تا کہ دل اور جگر دونوں کا ماتم ہوسکتا۔ اب اکیال میں دل اور جگر دونوں کا ماتم‬
‫کیسے کروں ۔ غالب کا ایک اور شعر ہے‬
‫میری قسمت میں غم اگر اتنا تھا‬
‫دل بھی یارب کئی دئےہوتے‬
‫جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار‬
‫اے کاش جانتا نہ تیری رہگذر کو‬
‫میں‬
‫مفہوم‪ :‬اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب کاش میں تیری رہگذرسےآشیانہ ہوتا اور مجھے‬
‫رقیب کے در پر ہزار بار نہ جانا پڑتا۔ تشریح‪:‬شاعر کا خیال ہے کہ اس کا محبوب رقیب سے زیادہ‬
‫راہ و رسم رکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کاش میں تری رہگذر سے واقف نہ ہوتا میں ترے راہ دیکھتے‬
‫دیکھتے اور تیرے تعاقب میں رقیب کے در پر پہنچ جاتا ہوں ۔ اور کوئی بھی عاشق رقیب کو‬
‫برداشت نہیں کرتا‪ ،‬کاش مجھے ہزار بار رقیب کے دور تک نہ جانا پڑتا اور یہ صرف اس وجہ سے‬
‫ہوا کہ میں ترے تعاقب میں اس دور تک جا پہنچا۔ کاش میں تیرے راستے سے واقف ہی نہ ہوتا کم از‬
‫کم رقیب کے در پر جانے کی اذیت سے تو بچ جاتا۔ ایسا ہی مضمون غالب ایک اور شعر میں‬
‫باندھتے ہیں۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫اک نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا‬


‫ذلیل‬
‫میں کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل‬
‫گیا‬
‫لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و‬
‫ہے‬ ‫نام‬
‫یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں‬
‫مفہوم‪ :‬اور سنیئے آج وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ذیل شخص ہے اگر ہے مجھے علم ہوتا کہ محبوب‬
‫بھی یہی طنعہ دے گا تو میں اپنا گھر کبھی برباد نہ کرتا۔ تشریح‪:‬غالب محبوب کے طعنوں پرافسوس‬
‫کا اظہار کررہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں عشق میں تباہ و برباد ہو گیا ہوں اور جس کے عشق میں‬
‫تباہ ہوا ہوں آج وہ بھی مجھے قالش اور مفلس کہنے لگا ہے اگر مجھے اس بات کا علم ہوتا کہ‬
‫محبوب میری قربانی اور محبت کا یہ صلہ دے گا اور رقیب کے سامنے میری ذلت کا باعث ہوگا تو‬
‫میں اس کی خاطر اپنا گھر بارنہ لٹاتا۔ اور آج اس حالت کو نہ پہنچتا۔ اگر میں محبوب کے عشق میں‬
‫گرفتار نہ ہوتا تو میرا گھر بار ہوتا اور آج میرے پاس دولت ہوتی تو محبوب مجھے طعنے نہ دیتا‬
‫اور وہ میری حالت زار پر پھبتی نہ کستا۔ کاش میں نے اس کے عشق میں گھر نہ لٹایا ہوتا۔‬
‫دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں‬
‫خاک ایسی زندگی پر کہ پتھر نہیں‬
‫میں‬ ‫ہوں‬
‫مفہوم‪ :‬اس شعر میں غالب افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ افسوسں میں تیرے دروازے پر پڑے‬
‫ہوئے پتھرکی ماندبھی نہیں جو ہمیشہ تیرے دروازے پر پڑا رہتا ہے۔‬
‫تشریح‪:‬محبوب کے قرب کے لیے اس کے دروازے کا پتھر ہونے میں ہی مسرت محسوس کرنا عشق‬
‫والوں کا کام ہے۔ غالب محبوب کے دروازے کے پتھرکو اپنے سے زیادہ خوش نصیب خیال کرتے‬
‫ہیں جس سے روزمحبوب گزرتا ہے۔ غالب بھی اپنی زندگی پر افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ‬
‫ایسی زندگی پر خا ک کہ میں تیرے دروازے کا پتھربھی نہیں ہوں جو مجھ سے اچھا ہے کہ ہمیشہ‬
‫تیرے دروازے پر پڑارہتاہے۔‬
‫گردش مدام سے گھبرا نہ‬ ‫ِ‬ ‫کیوں‬
‫دل‬ ‫جائے‬
‫انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں‬
‫مفہوم‪ :‬ہمیشہ کی گردش سے دل کیوں گھبرائے آخر میں انسان ہوں یا پیالہ یا ساغر نہیں ہوں۔‬
‫تشریح‪ :‬پیالہ وساغر بزم میں گردش کرتے رہتے ہیں اور اس ہمیشہ کی گردش سے نہیں گھبراتے‬
‫لیکن میں تو انسان ہوں۔ ہمیشہ کے دکھوں اور زمانے کے مصائب سے ا کتا بھی جاتا ہونمسلسل رنج‬
‫و غم سے دل گھبرا جاتا ہے۔ غالب کہتے ہیں کہ اگر میں زندگی کے دکھوں سے گھبرا گیا ہوں تو‬
‫اس میں ایسی کون سی بات ہے آخر انسان ہوں پیالہ وساغر تو نہیں ہوں۔ بے جان نہیں ہوں دل رکھتا‬
‫ہوں اور دل کیوں کرنہ گھبرائے۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫یا رب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس‬


‫لیے‬
‫لوح جہاں پر حرف مکرر نہیں ہوں‬ ‫ِ‬
‫میں‬
‫مفہوم ‪ :‬یارب !یہ زمانہ مجھے کیوں مناتا ہے آخر میں دنیا کی تختی پر دوبارلکھاہوا لفظ تو نہیں‬
‫ہوں۔‬
‫تشریح‪:‬شاعر کہتا ہے کہ زمانہ بہت ظالم اور بے درد ہے وہ مجھے ختم کرنا چاہتا ہے۔ کیا میں دنیا‬
‫کی تختی پردوبارہ لکھا ہوا ایسا لفظ ہوں جسے فالتو سمجھ کر مٹانا ضروری ہے۔‬
‫دل سے تیری نگاہ جگر تک اتر گئی‬
‫دونوں کو اک ادا میں رضا مند کر‬
‫گئی‬
‫مفہوم‪ :‬تمھاری نگاہ دل سے ہوتی ہوئی جگر تک اتر گئی ہے اور دونوں کو راضی کرگئی ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬دل اور جگر دونوں ایک ہی نظر میں متاثر ہو جائیں بظاہر یہ ممکن نہیں کہ دونوں الگ‬
‫الگ ہوتے ہیں غالب محبوب کی نگاہ کے اثر کو دونوں پر بیک وقت محسوس کررہے ہیں محبوب‬
‫کی ترچھی نظرول اور جگر کے آر پار ہو کر دونوں کو بے حال کرگئی ہے۔‬
‫انداز نقش پا‬
‫ِ‬ ‫ا ب دیکھو تو دل فریبی‬
‫موج خرا ِم یار بھی کیا گل ُکتر گئی‬
‫مفہوم ‪:‬محبوب کے چلنے کا کیا دلفریب انداز ہے۔ اس کی چال میں کیا خوبصورتی ہے کہ معلوم‬
‫ہوتا ہے کہ چال گل کتر رہی ہے تشریح‪:‬شاعرمحبوب کی چال کی دل فریبی بیان کر رہے ہیں ان کا‬
‫نقش پا بھی گلکاری کانمونہ نظر آتے ہیں اس کے‬ ‫ِ‬ ‫خیال ہے کہ محبوب اس طرح چلتا ہے کہ اس کے‬
‫گزرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے با ِدصباگل کتر گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں۔‬
‫جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں‬
‫خیابان خیابان ارم دیکھتے ہیں‬
‫ب غم کا‬‫ظلمت کدے میں میرے ش ِ‬
‫ہے‬ ‫جوش‬
‫اک شمع ہے دلی ِل سحر سو خموش‬
‫ہے‬
‫ب غم کی سیاہی ہے اک شمع صبح کاثبوت ہے‬ ‫مفہوم ‪ :‬شاعر کہتا ہے کہ میرے تاریک گھر میں ش ِ‬
‫لیکن وہ بھی بجھی ہوئی ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬درج باال شعر میں غالب اپنے سیاسی حاالت کو عالمتی انداز میں بیان کرتے ہیں۔ غالب‬
‫ظلمت کدے کی بات کرتے ہوئے اپنے دور کے سیاسی حاالت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ وہ اک‬
‫شمع سے مرادآخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر ہے شعر ‪1857‬ء کی جنگ آزادی کے بعد کے حاالت‬
‫کا منظر نامہ ہے۔ وہ اپنے وطن کی بربادی اور تباہی کا ذکر کر رہے ہیں اور حاالت کی زبوں حالی‬
‫کا رونا رورہے ہیں۔ زیرنظر شعر غالب کی سیاسی اپروچ کا ثبوت ہے۔ وہ اپنے اردگرد کے حاالت‬
‫سے بے خبرنہیں تھے۔ بعض ناقدین اسے رومانی شعر قرار دیتے ہیں جو درست نہیں ہے۔ یہ بالکل‬
‫واضع سیاسی شعر ہے البتہ غالب نے عالمتی انداز بیاں اختیار کیا ہے اس دور کی سیاسی زبوں‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫حالی اور مسلمانوں کی تباہ حالی کا آئینہ ہے جس میں غالب نے مایوسی اور محرومی کونمایاں کیا‬
‫ہے۔‬

‫اب آتے ہیں غیب سے یہ مضامین‬


‫میں‬ ‫خیال‬
‫غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے‬
‫مفہوم‪ :‬اس شعر میں غالب کہتے ہیں یہ سارے مضامیں غیب سے مجھے آتے ہیں اور میں نے خود‬
‫کوئی شعوری کوشش نہیں کی۔‬
‫تشریح‪ :‬عموما ًیہ خیال کیا جاتا ہے کہ شاعری عطیہ خداوندی ہے اور شاعر کو مضامین خیال کی‬
‫صورت میں رب ذوالجالل سے عطا ہوتے ہیں ۔ غالب اس مضمون کو بیان کررہے ہیں وہ کہتے ہیں‬
‫میری شاعری شعوری کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ سب کچھ غیب سے آنے والے مضامین ہیں اور‬
‫میرے قلم کے چلنے سے جو آواز جنم لیتی ہے وہ محض میرے علم کی آواز ہر گز نہیں ہے بلکہ‬
‫خدا کے بھیجے ہوئے فرشتوں کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ ہے اور یہ فرشتے خدا کی طرف سے‬
‫میرے لیے نئے مضامین التے ہیں ۔ کہناوہ یہ چاہتے ہیں کہ میری شاعری میرے تخیل کا کارنامہ‬
‫نہیں بلکہ یہ خدائی مضامین ہیں۔‬
‫ایک ہنگاے پر موقوف ہے گھر کی‬
‫رونق‬
‫نوحہ غم ہی سہی نغمہ ء شادی نہ‬
‫سہی‬
‫مفہوم‪ :‬شاعر کہتا ہے کہ میرے گھر کی تمام تر رونق ہنگا مے پر منحصر ہے یعنی شور شرابے‬
‫اور ہنگامہ آرائی پر موقوف ہے سواگر خوشی کا نغمہ نہیں ہے تو رونا دھوناہی سی۔‬
‫تشریح ‪:‬غالب اس شعر میں دائمی غم کا ذکر کر رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ میرے گھر میں رونے‬
‫دھونے کے عالوہ اور ہوبھی کیا سکتا ہے اور رونق تو ہے ہی شور شرابے اور ہنگامے کا نام۔‬
‫میرے گھر میں خوشی کی دھوم دھام اور شوروغل نہ سہی۔ نوحہ غم ہی سہی۔ یعنی ماتم ہی سہی یہ‬
‫رونا دھونا ہی میرے گھر کی پہچان ہے کہ ایک ہنگامہ تو بہرحال موجود ہے۔‬
‫رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم‬
‫قائل‬ ‫نہیں‬
‫جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو‬
‫ہے‬ ‫کیا‬
‫مفہوم‪ :‬غالب کہتے ہیں کہ ہم خون کے رگوں کے اندر دوڑنے پھرنے کے قائل نہیں ہیں لہوتو وہ‬
‫ہے کہ آنکھوں سے ٹپکنے لگے۔‬
‫تشریح‪ :‬یہ شعر انسانی کیفیات کا نمونہ ہے لہوتو جانوروں کی رگوں میں بھی گردش کر رہا ہے۔‬
‫مگر یہ انسان ہی ہے جو دردوغم پراشک کناں ہوتا ہے۔ دردمندی اور ہمدردی انسان ہونے کی‬
‫عالمت ہے۔ غالب کا خیال ہے کہ اگر لہو ہمدردی اور غمگساری کے جذبے کے تحت آنکھوں سے‬
‫آنسو بن کرنہ ٹپکے پھر رگوں میں گردش کرنے والے لہو کا فائدہ ہی کیا ہے ایک اور شعر میں وہ‬
‫کہتے ہیں۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫جوئے خون آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے‬


‫فراق‬ ‫شام‬
‫ِ‬
‫میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں رو فروزاں ہو‬
‫گئیں‬

‫میر تقی میر اس طرح کا مضمون بیان کرتے ہیں۔‬


‫آتا‬ ‫نہیں‬ ‫کب‬ ‫میں‬ ‫آنکھوں‬ ‫اشک‬
‫آتا‬ ‫نہیں‬ ‫جب‬ ‫ہے‬ ‫آتا‬ ‫لوہو‬
‫ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا‬
‫وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو ہے‬
‫مفہوم‪:‬اس مقطع میں غالب کہتے ہیں کہ میری عزت اور تو قیر بادشاہ کی مصاحبت سے ہے ورنہ‬
‫اس شہر میں میری کیا آبروتھی۔‬
‫تشریح‪ :‬درج باال شعر میں غالب نے بادشاہ کی عزت افزائی کی ہے اور اپنی آبروکو بادشاہ کی‬
‫مصاحبت سے جوڑنے کی کوشش کی ہے وگرنہ ایسا نہیں ہے۔ یہ قصیدے کا شعر ہے۔‬

‫مانع دشت نور دی کوئی تدبیر نہیں‬


‫ایک چکر ہے مرے پاؤں میں زنجیر‬
‫نہیں‬
‫مفہوم‪:‬مجھے دشت نوردی (صحراگردی) سے کوئی منع نہیں کرسکتا کیونکہ میرے پاؤں میں‬
‫بیڑیاں نہیں چکر پڑا ہوا جو ہر وقت مجھے حرکت میں رکھتا ہے۔‬
‫تشریح‪:‬غالب نے روایتی انداز میں جنوں کے عالم میں دشت کی خاک چھاننے کی بات کی ہے اس کا‬
‫خیال ہے کہ جنون کی کیفیت میں کوئی زنجیر مری راہ نہیں روک سکتی۔ یعنی کوئی تدبیربھی‬
‫مجھے دشت نوردی سے باز نہیں رکھ سکتی اور پھر یہاں میرے پاؤں میں توزنجیر بھی نہیں ہے‬
‫بلکہ میرے پیروں میں چکر پڑا ہوا ہے جو مجھے چکر میں رکھتا ہے۔ غالب نے پاؤں میں چکر کہہ‬
‫کر دشت نوردی کا حلقہ (دائرہ) وسیع تر کر دیا ہے۔‬
‫شوق اس وشت میں دوڑائے ہے مجھ‬
‫جہاں‬ ‫کہ‬ ‫کو‬
‫جادہ غیر ازنگہ دیدہ تصویر نہیں‬
‫مفہوم‪ :‬عشق مجھے صحرا میں اس طرح دوڑاتے پھرتا ہے کہ جہاں کوئی واضع اور مقررہ راستہ‬
‫بھی نظر نہیں آتا۔‬
‫تشریح‪:‬غالب کہتے ہیں کہ عشق مجھے دشت کی خاک چھاننے پرمجبور کئے ہوئے ہے اور میں‬
‫دشت میں مارا مارا پھر رہا ہوں۔ جہاں دشت کی ویرانی ہے اور کوئی واضح راستہ دکھائی نہیں دیتا‬
‫مجھے کدھر جاتا ہے کچھ علم نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسے دیدہ تصویر میں یعنی تصویر کی‬
‫آنکھ میں بینائی نہیں ہوتی ‪ ،‬دیکھ نہیں سکتی‪ ،‬وہی حال میرا ہے۔ عشق کے ہاتھوں میں بھی پریشاں و‬
‫حیران بھٹک رہا ہوں۔ غالب اس شعر میں عشق کے جذبے کی فراوانی اور عاشق کی بے چینی و‬
‫بے قراری بیان کر۔ رہے ہیں۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫ت لذت آزار رہی جاتی ہے‬ ‫حسر ِ‬


‫جادہ راہ وفا جز دم شمشیر نہیں‬
‫مفہوم‪ :‬عشق کے آزارواذیت میں جولذت ہے وہ تلوار کی دھار کے عالوہ طے نہیں ہوسکتی۔‬
‫تشریح‪:‬عموما ًعاشق محبوب کے آزار پردل برداشتہ نہیں ہوتے۔ وہ ان دکھوں کووفا کا امتحان‬
‫سمجھتے ہیں ۔ وفا کاراستہ تلوار کی دھار پر چل کر طے کیا جاتا ہے۔ لیکن محبوب اپنے عاشق‬
‫صادق کو قتل سے احتراز کرتا ہے اس طرح عاشق کی تلوار کی دھار پر چلنے کی آرزو دل میں رہ‬
‫جاتی ہے۔ غالب کا خیال ہے کہ میرے دل میں آزار کی لذت حسرت بن رہی ہے کیونکہ وفا کار‬
‫راستہ تلوار کی دھار پر چلنے سے طے ہوتا ہے مگر مجھے اس کا موقع نہیں ملتا۔‬
‫غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ‬
‫آپ بے بہرا ہے جو معتقد میر نہیں‬
‫مفہوم‪:‬غالب اپنا عقیدہ ہے کہ بقول ناسخ جو میرتقی میر کا معتقد نہیں وہ خود بدنصیب وبد قسمت‬
‫ہے۔‬
‫تشریح‪:‬اس مقطع میں غالب نے میرتقی میر کی شاعرانہ اور استادانہ حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے‬
‫اسے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔‬
‫غالب کہتے ہیں کہ میر کے بارے میں امام بخش ناسخ کا قول بالکل سچ ہے اور میں بھی دل سے یہ‬
‫قول تسلیم کرتا ہوں کہ وہ خود بدنصیب بد بخت ہے اور عقل کا اندھا ہے جو میر کی شاعرانہ اور‬
‫استادانہ حیثیت و اہمیت کونہیں مانتا۔ غالب میر کی شاعری پر یقین رکھنے والے کو ناسخ کے بقول‬
‫بے بہرہ قرار دیتے ہیں گویا میری استادانہ حیثیت مسلم ہے۔ کوئی اس کا جوڑیا مقابلہ نہیں ہے۔ اس‬
‫لیے غالب بھی میر کی استادی کا اعتراف کرتے ہیں۔‬

‫ظلمت کدے میں میرے شب غم کا‬


‫ہے‬ ‫جوش‬
‫اک شمع ہے دلی ِل سحر سو خموش‬
‫ہے‬
‫مفہوم‪ :‬میرے اندھیرے اور تاریک گھر میں شب غم کی سیاہی کے سوا کچھ نہیں ہے ایک شمع جو‬
‫صبح ہونے کی دلیل ہے‪ ،‬موجود ہے مگروہ بجھی ہوئی ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬یہ شعر بظاہر سادہ اور عام سا لگتا ہے جس میں شاعر اپنے گھر کی تباہی و بربادی کا‬
‫تذکرہ کر رہا ہے۔ اور اپنے غم آالم میں گھر کی کیفیت بیان کر رہا ہے۔مگر اس شعر میں غالب نے‬
‫اپنے سیاسی حاالت کی طرف اشارہ بھی کیا ہے ۔ شمع دلیل سحر سے مراد آخری مغل بادشاہ بھی‬
‫لی جاسکتی ہے اور اس دور کے ابتر سیاسی حاالت اور مسلمانوں سے ہونے والے ظلم و ستم‬
‫کابیان بھی نمایاں قرار دیا جاسکتا ہے۔‬
‫دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو‬
‫میری سنو جو گوش نصیحت نیوش‬
‫ہو‬
‫مفہوم ‪ :‬مجھے دیکھ کر عبرت حاصل کرو اور میری نصیحت سن کر اس پرعمل کرو۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫تشریح‪:‬غالب اپنی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی حالت زار بیان کر رہے ہیں اور دوسروں‬
‫کونصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میری حالت دیکھ کر سبق حال کرد‪ ،‬عبرت حاصل کرو کہ‬
‫عشق کرنے والے کا یہی حال ہوتا ہے۔ دراصل عشق ایک کٹھن کام ہے جس میں آزار اور اذیت کے‬
‫سوا کچھ نہیں لہذاعشق کی راہ پرآنے والومیری حالت سے عبرت حاصل کرو اور میرے تجربات‬
‫اور مشاہدات پر غور کرو۔ میری نصیحت سن کر اس پر مل کروبین عشق سے باز رہو۔ آسان کام‬
‫نہیں ہے اس میں زندگی تباہ و برباد ہو جاتی ہے اور میں اس کی زندہ مثال ہوں۔‬
‫داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی‬
‫اک شمع راہ گئی سو وہ خموش ہوئی‬
‫مفہوم‪ :‬شمع اپنے سینے پر رات کی محفل کی جدائی کا داغ لیے خاموش پڑی ہے (یعنی بجھ چکی‬
‫ہے)۔‬
‫تشریح‪:‬اس شعر میں غالب نے صنعت حسن تعلیل سے کام لیا ہے۔صبح دم شمع ویسے بھی بجھا دی‬
‫جاتی ہے اور بجھی ہوئی شمع کاگل سیاہ ہوتا ہے۔ اسے غالب نے داغ فراق صحبت شب قرار دیا ہے۔‬
‫اس شعر میں بھی سیاسی حاالت کی طرف اشارہ ہے اور غالب اپنے دور کی زبوں حالی بد امنی کا‬
‫تذکرہ کررہے ہیں۔‬

‫حکیم مومن خان مومن‬


‫(‪1215‬ھ ۔‪1268‬ھ)‬

‫ت مغلیہ کے‬‫حکیم مومن خان مومن کے دادا حکیم نامدار خاں کشمیر کے رہنے والے تھے۔ سلطن ِ‬
‫آخری دور میں آکر شاہی طبیبوں میں داخل ہو گئے ۔ مومن کے والد کا نام حکیم غالم نبی خان تھا۔‬
‫شاہ عالم کے زمانے میں ان کے خاندان کو جاگیر عطا ہوئی۔ انگریزی دور میں انھیں پنشن ملنے‬
‫لگی ۔ مومن ‪1215‬ھ میں پیدا ہوئے بچپن ہی سے ذہین تھے۔ ان کا حافظہ بال کا تھا۔ عربی و فارسی‬
‫میں مہارت رکھتے تھے فن طب تو ان کا موروئی پیشہ تھا۔ اس کے عالوہ شاعری‪ ،‬نجوم اور‬
‫شطرنج سے بھی شغف تھا۔ تمام مشاغل حق مشاغل تھے۔ ان فنون کوانہوں نے ذریعہ معاش نہیں‬
‫بنایا۔ خوبرو اورخوش لباس انسان تھے ابتداء میں شاہ نضیر سے اصالح لی۔ تاریخ گوئی میں بھی‬
‫انہیں کمال حاصل تھا۔‬
‫ان کی تصانیف میں ایک دیوان کے عالوہ چھ مثنویا بھی شامل ہیں۔ ان کے کالم میں نازک خیالی اور‬
‫بلند پروازی نمایاں ہے۔‬

‫حکیم مومن کے اہم اشعار کی تشریح‬


‫عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومن‬
‫آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے‬
‫مفہوم‪ :‬ساری عمرتوبتوں(حسینوں) کے عشق میں گزرگئی اب آخری عمر میں ہللا ہللا کرنے سے کیا‬
‫فائدہ؟‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫تشریح‪ :‬مومن کے کالم میں شوخی او شگفتگی کے ساتھ قدرے سنجیدگی کے آثار بھی نمایاں ہیں ۔‬
‫مومن ایک خوش رو اور خوش لباس انسان تھے۔ ان کی زندگی عشق و عاشقی میں بسر ہوئی اورپھر‬
‫دلّی کا ماحول۔ اپنی زندگی کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ساری عمرتو بتوں کے عشق میں‬
‫گزرگئی ہے اب آخری وقت میں خاک مسلماں ہوئے ویسے مومن آخری عمرمیں تائب ہو کر دین کے‬
‫پابند ہو گئے تھے۔‬
‫تم ہمارے کس طرح نہ ہوئے‬
‫ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا‬
‫مفہوم ‪ :‬اے محبوب! تم کسی بھی طرح ہمارے نہ بن سکے ورنہ اس دنیا میں کیا کیا ناممکن کام‬
‫بھی ممکن بن جاتے ہیں۔‬
‫تشریح‪ :‬مومن نے نہایت سادگی سے اپنے دل کی کسک کا اظہار کیا ہے وہ محبوب سے مخاطب‬
‫ہیں کہ الکھ جتن کرنے کے باوجودتو میرا نہیں بن سکا۔ ورنہ دنیا میں کون سا کا ایساہے جو ناممکن‬
‫ہے۔ لیکن بدقسمتی سے تو ہی ہمارا نہ ہو سکا۔ کاش ایسا ہوسکتا بقول شاعر۔‬
‫ایک تم ہی نہ مل سکے ورنہ‬
‫ملنے والے پر بچھڑ بچھڑکے ملے‬
‫تم مرے پاس ہوتے ہو گویا‬
‫جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا‬
‫مفہوم‪ :‬جب میرے پاس کوئی دو سراموجود نہیں ہوا تو اس وقت تم مرے قریب ہوتے ہو۔‬
‫تشریح‪ :‬مومن کا یہ شعر سہل ممتنع کا بہترین نمونہ ہے۔ جس میں سادگی محبوب کے تصور اور‬
‫اس کی یادکا ذکر ہے۔ شاعر محبوب سے مخاطب ہے کہ اے میرے ہمدم میں جس وقت اکیال ہوتا ہوں‬
‫اور کوئی دوسرا میرے پاس نہیں ہوتا تو میرے خیالوں میں تم یوں چپکے سے چلے آتے ہو جیسے‬
‫تم میرے سامنے بیٹھے ہو۔ بظاہر تو میں اکیال ہوتا ہوں لیکن تم سے الگ نہیں ہوتا میری یادوں اور‬
‫تصورات میں تم میرے بہت نزدیک ہوتے ہو۔‬
‫وہ آتے ہیں پیشماں الش پر اب‬
‫تھے اے زندگی الؤں کہاں سے‬
‫مفہوم‪:‬وہ مری الش پر پشمانی کی حالت میں آئے اے زندگی اب تجھے کہاں سے الؤں ۔ کاش میں‬
‫جی سکتا۔‬
‫تشریح‪ :‬مومن اپنے محبوب کی پشیماں صورت کو دیکھ کرافسردگی کا اظہار کررہے ہیں محبوب‬
‫آخری وقت میں عاشق کی الش پر آیا ہے۔ اور وہ پیشماں ہے کہ اس نے زندگی میں عاشق کو کیا کیا‬
‫رنج دیئے ہیں ۔ اور اس کی پریشان حالت دیکھی نہیں جاتی ۔ مگراے زندگی اب تجھے کہاں سے الیا‬
‫جائے ۔ مرنے والے لوٹ کر کب آتے ہیں۔ کاش زندگی دوبارہ مل جاتی بقول شاعر۔‬

‫اے خدا مجھے تھوڑی کی زندگی‬


‫دے‬ ‫دے‬
‫اداس میرے جنازے میں جا رہا کوئی‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫زلف دراز‬
‫ِ‬ ‫الجھا ہے پاؤں یار کا‬
‫میں‬
‫لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا‬
‫مفہوم‪ :‬مرے محبوب کا پاؤں اس کی لمبی زلفوں میں الجھ گیا ہے گویا صیاداپنے بچھائے جال میں‬
‫خودا گیا۔‬
‫تشریح‪ :‬سادہ سارومانی شعر ہے جس میں محبوب کی لمبی زلفوں کے جادو کا ذکر ہے۔ جس کی‬
‫زلفوں کے سینکڑوں اسیر ہیں۔ اس کی زلفوں کے کئی غالم ہیں مگر یہی زلفیں خودمحبوب کے پاؤں‬
‫میں الجھ رہی ہیں اور صیادخوداپنے جال میں پھنس گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ لمبی زلفیں عاشقوں کا دل‬
‫موہ لیتی ہیں لیکن یہی زلفیں پاؤں میں الجھ جائیں تو انسان ٹھوکربھی کھاسکتا ہے۔‬
‫چارہ دل سوائے صبر نہیں‬
‫سو تمھارے سوا نہیں ہوتا‬
‫مفہوم ‪:‬ول کا عالج صبر کے سوا کچھ نہیں یہ صبر ترے سوا نہیں آتا۔‬
‫تشریح‪:‬اس شعر میں مومن اپنے دل کی بے قراری بیان کر رہے ہیں ۔محبوب کی یاد میں دل بے‬
‫چین اور بے قرار ہے۔ اور اس دل کا عالج یہ ہے کہ صبر کیا جائے کہ محبوب کا ملنامشکل ہے۔‬
‫گراہم بات یہی ہے کہ صبر بھی محبوب کے سوانہیں آ تایعنی اے میرے محبوب مرے دل کا عالج‬
‫صرف اور صرف صبر ہے لیکن اب تیرے سوا صبربھی آنامشکل ہے۔ گویاتوہی میر واحد عالج ہے‬
‫بغیر دل کوقرارملنا مشکل ہے۔‬
‫مرزا ابراہیم ذوق‬
‫(‪1203‬ھ‪1271-‬ھ)‬
‫شیخ محمد ابراہیم ذوق ایک غریب سپاسی شیخ محمد رمضان کے صاحبزادے تھے۔ ابتدائی تعلیم‬
‫حافظ غالم رسول کے سپرد ہوئی جو معمولی درجہ کے شاعر بھی تھے۔ ذوق نے شعری ذوق انہی‬
‫کی صحبت میں حاصل کیا۔ اکثر ان کے ہمراہ ذوق مشاعروں میں جایا کرتے تھے۔ ان کے ہم سبق‬
‫میر کاظم بھی حافظ غالم رسول کے پاس پڑھنے آتے تھے۔ کاظم ‪ ،‬شاہ نصیر کے شاگرد تھے۔ انہی‬
‫کی دیکھا دیکھی ذوق بھی شاہ نصیر کے شاگرد ہو گئے جن کا اس وقت دلّی میں بڑا چرچا تھا لیکن‬
‫شاگردی کا یہ رشتہ زیارو دیرنہ چل سکا۔ ذوق چونکہ غیر معمولی ذہین تھے سوا پنی غزلوں کو بہ ِ‬
‫نظر اصالح خود ہی دیکھنے لگے اور ان کی درستی و چستی میں بڑی کدو کاوش کرنے لگے اس‬
‫کا نتیجہ یہ نکال کہ ان کے کالم کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ شاہ نصیر نے دلّی چھوڑی تو‬
‫ولی عہد سلطنت بہادر شاہ ظفر کی غزلیں میر کاظم حسین اصالح کرنے لگے۔ میر کاظم ذوق کے‬
‫دوست تھے۔ جب ّمیر کاظم کو بھی کہیں اور مالزمت مل گئی تو ظفر کی غزلوں کی اصالح کا‬
‫فریضہ ذوق کے سپرد ہو گیا جس پر ان چار روپے ماہوار وظیفہ ملتا تھا۔ ولی عہد کے استاد ہونے‬
‫کے ناطے ان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوگیا ۔ ان کی استادی کی شہرت ہوئی۔ ولی عہد بہادر شاہ‬
‫شرکت افروز ہوئے تو ان کی قدر و منزلت میں مزید ترقی ہوئی ۔ ایک گاؤں جا گیر عنایت ہوا۔ ذوق‬
‫کا انتقال ‪1271‬ھ میں ہوا۔ زوق موتی نجوم‪ ،‬طب فقہ حدیث‪ ،‬تاریخ اور تصوف میں دستگاہ کامل تھی۔‬
‫انہوں نے ولی کو بھی نہ چھوڑا اور کہا‬
‫ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر‬
‫وسخن‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫کون جائے ذوق پر دلی کی گلیاں‬


‫کر‬ ‫چھوڑ‬

‫ذوق کے اہم اشعار کی تشریح‬


‫الئی حیات آئے‪ ،‬قضا لے چلی چلے‬
‫اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی‬
‫چلے‬
‫مفہوم‪ :‬زندگی ہمیں دنیا میں الئی اور موت واپس لے چلی ہم اپنی خوشی کب آئے اور کب واپس‬
‫گئے۔‬
‫تشریح‪:‬اس میں فلسفہ جبر و قدرپیش کیا گیا ہے کہ اس جہان میں انسان اپنی خوشی اپنی مرضی‬
‫سے نہ تو آتا ہے اور نہ ہی خوشی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔ہللا تعالیٰ کی رضا کے بغیر‬
‫پتا بھی نہیں ہلتا وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ سوانسان کا اس دنیا میں آنا اور پھر واپس جانا اس کی رضا‬
‫اور مرضی سے ہے۔ ذوق مذکورہ باال شعر میں اسی فلسفے کو بیان کرتے نظر آتے ہیں کہ انسان‬
‫کے اپنے اختیار میں کچھ نہیں ہے وہ خالق کائنات کی مرضی پر ہی چلتا ہے۔‬
‫نہ چھوڑ تو کسی عالم میں راستی کہ‬
‫شے‬ ‫یہ‬
‫عصا ہے پیر کو اور سیف ہے جواں‬
‫لیے‬ ‫کے‬
‫مفہوم‪ :‬راستی کا راستہ کسی حالت میں ترک نہ کرکہ بوڑھوں کے لیے یہ الٹھی کی طرح اور‬
‫جوانوں کے لیے تلوار ہے۔‬
‫تشریح‪:‬راستی سیدھی راہ پر چلنے کو کہا جاتا ہے۔ صراط مستقیم مسلسل چلنا۔ انسان کے لیے بہت‬
‫سی کامیابیاں التا ہے حق وصداقت کا راستہ بھی یہی ہے اس پر چلنا اگرکٹھن ہے لیکن اس پرمستقل‬
‫مزاجی سے چلنے والے بہت کچھ پا لیتے ہیں۔ ذوق یہی تلقین کرتے ہیں کہ راستی کو کسی صورت‬
‫میں نہ چھوڑا جائے کہ یہ بوڑھوں کے لیے الٹھی (سہارے) کا درجہ رکھتی ہے اور جوان اس سے‬
‫تلوار کا کام لے سکتے ہیں۔ تلوار سے ساری دنیا فتح کی جاسکتی ہے ۔ ضعیف اس سے سہارے کا‬
‫کام لے سکتے ہیں۔‬
‫عمر خضر بھی ہو تو ہو معلوم وقت‬
‫مرگ‬
‫ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے‬
‫مفہوم‪ :‬اگرخضرکی لمبی عمر بھی انسان کومل جائے تو بھی وہ یہی کہے گا کہ میں اس دنیا میں‬
‫کتنارہا۔ ابھی آیا اور چل دیاہوں۔‬
‫تشریح‪ :‬انسانی فطرت کی عکاسی کی گئی ہے کہ وہ جتنی طویل عمر زندہ رہے دنیا سے واپس‬
‫جانے پر تیارنہیں ہوتا۔ جینے کی یہ خواہش کم نہیں ہوتی ذوق اس نکتے کو بیان کررہے ہیں کہ اگر‬
‫عمر خضربھی عطا ہو جائے تو انسان یہی سمجھتا ہے کہ وہ اس دنیا میں بہت کم رہا ہے اور اس کی‬
‫زندگی بہت تھوڑی تھی۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫ِکھل کے گل کچھ تو بہار اپنی صبا‬


‫گئے‬ ‫دکھال‬
‫حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن‬
‫گئے‬ ‫مرجھا‬ ‫کھلے‬
‫مفہوم‪:‬اے صبا! پھول کھل کر کچھ اپنی بہار دکھا گئے ہیں لیکن ان غنچوں پر حسرت ہے جو کھلے‬
‫بغیر ہی مر جھا کے رہ گئے۔‬
‫تشریح‪ :‬پھول شاخ پرکھلتا ہے تو بھاللگتا ہے۔ شاعر بادصبا سے مخاطب ہے کہ جو پھول چمن میں‬
‫کھلے ان کی بہار اپنی جگہ لیکن وہ غنچے جو کھلے بغیر ہی شاخوں پر مرجھا گئے ان کا بے حد‬
‫افسوس ہے۔ انہوں نے اپنا جوبن ہی نہ دیکھا اور خزاں کی نذر ہو گئے ۔ ان لوگوں کی طرف اشارہ‬
‫ہے جو جوانی دیکھے بغیر ہی اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے ۔ شاعران پرحسرت کناں ہے اور‬
‫دل میں افسوس رکھتا ہے۔‬
‫رن ِد خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو‬
‫تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو‬
‫مفہوم‪:‬اے زاہد! تو خراب حال رندکومت چھیڑ ‪ ،‬تجھ کو پرائی سے کیا تو اپنی نبیڑ۔‬
‫تشریح‪:‬اس شعر میں ذوق زاہد پر چوٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور وہ زاہد سے مخاطب ہو کر کہتے‬
‫ہیں کہ توکسی مست حال شرابی کو مت چھیڑ تجھے دوسروں کے معامالت میں ٹانگ اڑانے سے کیا‬
‫حاصل تو اپنی نبھا۔ اپنا آپ سنبھال اپنا خیال کر دوسرے کیا کررہے ہیں اس کی طرف مت دھیان دے۔‬
‫نہ مارا آپ کو جو خاک ہو اکسیر بن‬
‫جاتا‬
‫اگر پارے کو اے اکسیر گر مارا تو‬
‫مارا‬ ‫کیا‬
‫مفہوم‪:‬اے کیمیاگر تو نے اپنے آپ کو نہ مارا کرتوخاک ہو کر سونا بن جا تاتونے پارے کو مارا تو‬
‫کیا مارا۔‬
‫تشریح‪:‬ذوق اپنے نفس کو مارنے کی بات کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انسان کو دل سے غرور‬
‫تکبر نکال کر‪ ،‬اپنی"میں" کو مارنا چاہیے۔ انسان عجز و انکساری سے بہت کچھ حاصل کر لیتا ہے۔‬
‫انسان جس قدر جھلتا ہے اسی قدر پھل پاتا۔ ذوق انسان کو اپنا آپ مارنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہتے‬
‫ہیں ۔ اے کیمیاگر! اے سونا بنانے والے تو کیسے کیسے نسخے تیار کرتا ہے تو پارے کو مارتا ہے۔‬
‫کاش تو اپنے آپ کو مارتا اور خاک کا پتال ہوکر بھی خودسونا بن جاتا ہے۔ یعنی اپنی اصل سے آگاہ‬
‫ت حقیقی تک رسائی حاصل کر لیتا مگر پارے کے مارنے کے تجربوں میں گھرا ہوا ہے۔ یہ‬ ‫ہوکر ذا ِ‬
‫سارے تجربوں میں گھرا ہوا ہے۔یہ سارے تجربے تیرے کس کام کا۔‬
‫اے شمع تیری عمرطبیعی ہے ایک‬
‫رات‬
‫ہنس کر گزار یا اسے رو کر گزار‬
‫دے‬
‫مفہوم‪ :‬اسے شمع تو نے رات بھر جلنا ہےہنس کر یارو کر تجھے ایک رات اسی طرح گزارنی ہے۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫تشریح‪ :‬زندگی کوغم و آالم کی عالمت قرار دیا جارہا ہے اور اس کے لیے شمع کی مثال دی جارہی‬
‫ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے شمع! تیری عمر طبیعی بس ایک رات ہے۔ اسے ہنستے سوتے گزار یا‬
‫پھر روتے ہوئے ۔ بہر حال میں تو نے رات بھر جلنا ہے اور یہ دیکھ برداشت کئے بغیر چارہ ہیں۔‬

‫اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر‬


‫گے‬ ‫جائیں‬
‫مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر‬
‫گے‬ ‫جائیں‬
‫مفہوم‪:‬اب تو دنیا سے تنگ آ کر کہتے ہیں ہم مر جائیں گے لیکن اگر مرنے کے بعدبھی چین نصیب‬
‫نہ ہوا تو کیا ہوگا۔‬
‫تشریح‪ :‬شاعر نے زندگی کے دکھوں کی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ‬
‫زندگی غم و آالم کا مجموعہ ہے۔ ایسے میں انسان ان دکھوں سے تنگ آ جاتا ہے اور وہ مرنے کی‬
‫آرزو کرتا ہے یا پھر وہ گھبرا کر کہتا ہے کہ اتنے مصائب و آالم سے وہ مر جائے گا۔ شاعر سوال‬
‫اٹھاتا ہے کہ اگر مرنے کے بعد بھی سکون نہ مال ‪ ،‬دنیا جیسی بے قراری‪ ،‬بے چینی اور مشکالت‬
‫حائل رہیں تو پھر کیا ہو گا۔ اب تو ہم گھبرا کر مرنے کی بات کرتے ہیں لیکن مرنے کے بعد بھی یہ‬
‫دکھ ختم نہ ہوئے تو پھر کہاں جائیں گے شعر میں زندگی کو دکھوں کا مجموعہ قراردیا گیا۔ گویا‬
‫زندگی انسان کی ہے مانند مرغ خوش‬
‫نو‬
‫شاخ پر بیٹھا کوئی دم چہچہا یا اڑ گیا‬
‫اے ذوق کسی ہمدم دیرنیہ کا ملنا‬
‫بہتر ہے مالقات مسیحا و خضر سے‬
‫مفہوم‪ :‬ذوق کسی پرانے دوست کا ملنا حضرت خضر علیہ السالم یا حضرت عیسی علیہ اسالم کی‬
‫مالقات سے زیادہ بہتر ہے۔‬
‫تشریح‪:‬مذکورہ باال شعر میں ذوق اپنے دوست کی مال قات کوکسی مسیحایا رہنما سے ملنے سے‬
‫زیادہ اہم گردانتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ حضرت خضر علیہ السالم اگر چہ رہنمائی کرتے ہیں اور‬
‫راستہ بتاتے ہیں اور حضرت عیسی مسیحائی میں مشہور ہیں ان کی مالقات اپنی جگہ متبرک سہی‬
‫لیکن دوست کا ملنا ان بزرگوں کی مالقات سے زیادہ اہم ہے کہ دوست دل کا محرم ہوتا ہے وہ غم‬
‫گسار اور ہم مزاج ہوتا ہے۔‬
‫زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ‬
‫کر‬
‫یا وہ جگہ بتا دے جہاں پر خدا نہیں‬
‫مفہوم‪ :‬اے زاہد! مجھے مسجد میں بیٹھ کر شراب پینے دیا یا پھر وہ جگہبتا جہاں خدا موجودنہ ہو۔‬
‫تشریح‪ :‬شاعر خدا کی موجودگی کا اعتراف کر رہا ہے کہ ہللا تعالی ہر جگہ موجود ہے لہذا لوگوں‬
‫کے خوف سے چھپ چھپ کر گناہ کرنے سے بہتر ہے کہ سرعام گناہ کیا جائے ڈرنا ہے تو صرف‬
‫خدا سے ڈریں ۔ لوگوں سے کیاڈرنا۔ شاعر مسجد میں شراب کی اجازت طلب کر رہا ہے اور زاہد اس‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫بات کو پسند نہیں کرتا کہ ہللا کے گھر میں ایسی بری حرکت ہو لیکن شاعر کہتا ہے کہ خداصرف‬
‫مسجد میں نہیں ہر جگہ موجود ہے لہذا مسجد میں شراب پینے کی پابندی کیوں لگائی جائے۔ اس شعر‬
‫میں دراصل زاہد پر چوٹ کرتا مقصور ہے۔‬

‫حکیم االمت عالمہ محمد اقبال رحمتہ ہللا علیہ‬


‫(‪1877‬ء‪1938-‬ء)‬
‫حکیم االمت حضرت عالمہ محمد اقبال رحمتہ ہللا علیہ ‪9‬نومبر ‪1877‬ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ‬
‫کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا۔ ابتدائی تعلیم سیالکوٹ ہی میں حاصل کی ۔ ایف اے کرنے کے بعد‬
‫آپ نے گورنمنٹ کالج الہور سے بی اے اور پھر ایم اے فلسفہ کے امتحانات پاس کئے۔‬
‫الہور میں علی گڑھ کالج کے مشہور اور ہردلعز یز پروفیسر مسٹر آرنلڈ سے فخر تلمند حاصل ہوا۔‬
‫کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج میں پڑھاتے رہے پھر ‪1908‬ء میں انگلستان روانہ ہوئے کچھ عرصہ‬
‫انگلستان ہی میں زیر تعلیم رہے پھر جرمنی چلے گئے یہاں انھوں نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالمہ مکمل‬
‫کیا۔ جرمنی سے انگلستان آئے اور یہاں سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ بعدازاں الہور میں وکالت‬
‫کرتے رہے۔ ‪1922‬ء میں انھیں سر کا خطاب مال۔ ‪1930‬ء میں آپ نے دو قومی نظریے کے حوالے‬
‫سے خطبہ الہ آباد پیش کیا اور یہیں سے مسلمانوں نے اپنے لیے الگ خطہء زمین کی تحریک‬
‫شروع کی۔‬
‫اقبال کی تصانیف میں بانگ درا‪ ،‬بال جبریئل‪ ،‬ضرب کلیم کے عالوہ اسرار خودی‪ ،‬رموز بے خودی‪،‬‬
‫پیام مشرق شامل ہیں۔‬
‫عالمہ محمد اقبال رحمتہ ہللا علیہ کی غزلوں کے اہم اشعار کی تشریح‬
‫گزر جا بن کے سیل تند رو کوہ و‬
‫سے‬ ‫بیاباں‬
‫گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ‬
‫جا‬ ‫ہو‬ ‫خواں‬
‫مفہوم‪ :‬کوہ و بیاباں سے تیز رفتار پانی (سیالب ) کی طرح گزراور اگر راستے میں گلستان (باغ)‬
‫آجائے تو گاتی ہوئی ندی کی طرح اس میں سے گزر۔‬
‫تشریح‪ :‬عالمہ محمد اقبال کی شاعری ہمیں زندگی کے اسرار رموز سے آگاہ کرتی ہے ان کی فکر‬
‫سے شعور وفکر میں بھی روشنی سی بکھر جاتی ہے اور انسان آگہی کے نور سے روشن ہوجاتا‬
‫ہے۔ مذکورہ باال شعر میں بھی اقبال انسان کو حاالت کے مطابق ڈھلنے کا پیام دیتے ہیں کہ جیسے‬
‫حاالت ہوں ویساہی بن جانا چا ہے۔ نہ ہی زیادہ سخت اور نہ ہی زیادہ نرم ۔ ان کا کہنا ہے کہ پہاڑ اور‬
‫بیاباں جیسی سختیاں آئیں تو سخت ہو جاؤ۔ پہاڑ‪ ،‬تیز رفتار پانی (سی ِل تندرو) چر کر اپنا راستہ بنالیتا‬
‫ہے۔ یعنی چٹانیں بھی اس بہاؤ کا راستہ نہیں روک سکتیں۔ انسان کوبھی سخت حاالت میں فوالد بن‬
‫جانا چاہیے۔ یعنی جیساماحول اور فضاہواس میں ڈھل جانا چاہیے۔ لیکن اگر راستے میں پھول کھلے‬
‫ہوں ہرطرف شادابی ہو‪ ،‬سبزہ ہو‪ ،‬گلستان راہ میں آجائے تو وہاں تیز رفتار پانی گاتی ندی بن جائے ۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫وہاں سیل تند رو کا روپ نہیں اپنانا چاہے۔ چمن سے تو گیت گاتی ہوئی ندی کی طرح گزرنا چاہیے۔‬
‫سخت گیر لوگوں کے لیے رویہ سخت ہونا چاہیے اور کمزور‪ ،‬نرم ‪ ،‬مسکین اور بے کسی لوگوں‬
‫کے ساتھ ہمیشہ نرمی‪ ،‬ہمدردی اور شفقت کا سلوک کرنا چاہیے ۔ یعنی انسان کو جیسے حاالت پیش‬
‫آئیں ان کے مطابق خودکوڈھال لینا چاہیے۔‬
‫کافر ہے تو شمشیر پر کرتا ہے‬
‫بھروسہ‬
‫مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے‬
‫سپاہی‬
‫مفہوم‪ :‬کافر کو اپنی تلوار پرناز رہتا ہے وہ تلوار کا سہارا لیتا ہے جب کہ مومن اس کے مقابلے میں‬
‫محض تلوار کے بھروسے پرنہیں رہتا وہ تلوار کے بغیر بھی لڑنے کا حوصلہ اور ہمت رکھتا ہے۔‬
‫تشریح‪:‬اقبال رحمتہ ہللا علیہ کے اس شعر میں مومن کی ایک خوبی یہی بیان کی گئی ہے کہ وہ ہللا‬
‫تعالی کے سواکسی اورکواپنا سہارا نہیں بناتا۔ وہ جہاد میں اس کی رضا کومدنظر رکھتا ہے۔ وہ مال و‬
‫اسباب اور شکر و سپاہ کو خاطر میں نہیں لیتا۔ وہ ہللا کی راہ میں کی جانے والی جنگ میں ہتھیاروں‬
‫اور لشکر کی تعدادپر زیادہ بھرور نہیں کرتا وہ ہللا تعالی پر یقین کامل رکھتے ہوئے تلوار ہاتھ میں نہ‬
‫بھی ہو تو حق کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا سکتا ہے۔ البتہ کافر ہر آن مادی اشیاء کے بھروسے پر‬
‫رہتا ہے‪ ،‬وہ جنگ میں پہلے لشکر کی قوت اور ہتھیار کی طاقت کو سامنے رکھتا ہے۔ وہ محض‬
‫طاقت سے جنگ جیتنے کی کوشش کرتا ہے اس کے پاس یقین اور جذبہ صادق اور کوئی خاص‬
‫مشن نہیں ہوتا اور اس کے بر عکس مومن کے پاس اپنے دین کے لیے لڑنا اور جہاد بہت بڑا درجہ‬
‫ہے۔ اقبال رحمتہ ہللا علیہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔‬
‫فاتح عالم‬
‫ِ‬ ‫یقین محکم‪ ،‬عمل پیہم محبت‬
‫جہا ِدن زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی‬
‫شمشیریں‬

‫ہو حلقہ ء یاراں تو بریشم کی طرح‬


‫نرم‬
‫رزم حق و باطل ہو تو فوالد ہے‬‫ِ‬
‫مومن‬

‫طائر ال ہوتی اس رزق سے موت‬


‫ِ‬ ‫اے‬
‫اچھی‬
‫جس رزق سے آتی ہو پرواز میں‬
‫کوتاہی‬

‫مفہوم‪:‬اے الہوت تک سفر کرنے والے پرندے !اس رزق سے موت اچھی ہے جس سے پرواز میں‬
‫رکاوٹ آجائے۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫تشریح‪ :‬عالمہ اقبال ؒ نے مذکورہ باال شعر میں بھی ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ ان کا‬
‫مخاطب مسلمان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس رزق پرواز میں خلل آۓ اسے ترک کر دینا چاہیے۔ پرواز‬
‫وہی اچھی ہے جو اوپر کی سمت ہو کہ‬
‫شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں‬
‫گرتا‬
‫اس شعرمیں مقصدیت کوملحوظ ر کھنے کی طرف اشارہ ہے۔ اللچ و حرص وہوسں سے الگ رہ‬
‫کر محض بلند پروازی ہی مطمع نظر ہونا چاہیے۔ یعنی‬
‫نہ ما ِل غنیمت نہ کشور کشائی‬
‫مومن کو اپنے مقصد اورلگن سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ کیونکہ‬
‫دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت‬
‫ہے ایسی تجارت میں مسلماں کو‬
‫خسارہ‬
‫مومن کو "طائر الہوت" قرار دیا گیا ہے ۔ مومن کو اپنی منزل دھیان میں رکھنی ہے اس کی منزل‬
‫اس کا مقام بہت بلند ہے۔ اگر طائر الہوتی رزق کے لیے کرگس کی طرح اڑتے اڑتے مردار کھانے‬
‫زمین پرغوطہ زن ہو جائے گا تو وہ اپنی منزل بھی نہ پا سکے گا۔ اسے تو مسلسل اڑتے رہنا ہے۔‬
‫ترے سامنے آسان اور بھی ہیں‬
‫مراد یہ ہے رزق کے لیے پرواز میں خلل برداشت نہیں کرنا چاہیے۔‬
‫ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق‬
‫یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق‬
‫مفہوم‪ :‬کتناہی خوف اورخطرہ کیوں نہ ہو زبان دل کی حمایت کرتی ہے اور ازل سے ہی قلندروں کا‬
‫شیوہ رہا ہے۔‬
‫(قلندروں کا طریق یہی ہے کہ وہ دل کی بات زباں پر النے سے کبھی نہیں ڈرتے)۔‬
‫اقبال نام اس شعر میں یہ درس دیتے‬
‫تشریح‪ :‬حق گوئی اور صداقت پر قائم رہنے کی بات ہورہی ہے۔ ؒ‬
‫نظر آتے ہیں کہ چاہے جان کو کتنا ہی خطرہ ہو۔ سچ کا راستہ نہیں چھوڑنا چا ہے اور قلندروں کا‬
‫یہی شیوہ ہے کہ وہ دل کی بات کہنے سے بھی خوفزدہ نہیں ہوتے چاہے زندگی میں کتنی مشکالت ‪،‬‬
‫مصائب و آالم آئیں وہ اپنے ضمیر کے خالف کوئی بات نہیں کرتے۔ وہ وہی کہتے اور کرتے ہیں‬
‫اقبال‬
‫جوان کے ضمیر اور دل کے مطابق درست ہو ۔ بقول ؒ‬

‫آئین جواں مرداں حق گوئی و بے‬


‫باکی‬
‫ہللا کے شیروں کو آتی نہیں روباہی‬
‫اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ‬
‫زندگی‬
‫تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن‬
‫مفہوم ‪ :‬اے مومن !اپنے دل میں ڈوب اور زندگی کا سراغ پالے تو میر انہیں بنتا نہ بن لیکن اپن تو بن‬
‫جا۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫تشریح‪:‬اقوال زندگی کے راز سے پردہ اٹھاتے ہیں اور سراغ زندگی کے لیے دل میں غوطہ زن‬
‫ہونے کا مشورہ دیتے ہیں۔ انسان اگر اپنے اندر جھانک لے تو اپنے آپ سے آگاہ ہوسکتا ہے۔‬
‫جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے رب کو پہچان لیا‬
‫خودآگہی کے لیے ضروری ہے کہ من میں ڈوبا جائے۔ اس طرح انسان زندگی کے اسرار ورموز‬
‫اقبال اسی نکتے کو پیش کرتے ہوئے مومن کو کہتے ہیں تو کسی اور کا نہیں‬ ‫سے آشنا ہوسکتا ہے۔ ؒ‬
‫بنتا تو کم ازکم اپنی فکر کر اپنا تو بن ۔‬

‫بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں‬


‫عشق‬
‫عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی‬
‫مفہوم‪ :‬عشق نمرود کی جالئی ہوئی آگ میں بال خوف و خطرکود پڑا عقل بھی کنارے پر کھڑی سوچ‬
‫رہی ہے۔‬
‫اقبال عقل پر عشق‬‫اقبال کی فکر میں عقل اور عشق نمایاں اہمیت رکھتے ہیں۔ ؒ‬
‫تشریح‪ :‬عالمہ ؒ‬
‫کوترجیح دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ قل سو دوزیاں کے چکر میں کھو جاتی ہے۔ جب کہ عشق‬
‫خسارے کی پرواہ کئے بغیر چھالنگ لگادیتا ہے اور اس کا بیڑا پار ہو جاتا ہے۔ اسی مضمون کو‬
‫مذکورہ باال شعر میں بیان کیا گیا ہے۔ آتش نمرود تلمیح ہے۔ نمرود نے حضرت ابراہیم خلیل ہللا کو‬
‫آگ میں ڈالنے کاحکم دیاعشق نے سوچے بغیر چھانگ لگائی اور اگر گلزار بن گئی۔ یعنی عقل ابھی‬
‫سوچ رہی ہوتی ہے اورعشق منزل پالیتا ہے۔ اقبال ایک اور شعر میں کہتے ہیں۔‬

‫گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور‬


‫چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے‬
‫خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور‬
‫نہیں‬
‫ترا عالج نظر کے سوا کچھ اور نہیں‬
‫مفہوم‪ :‬عقل کے پاس محض خبر ہے۔ جب کہ ترا عالج نظر کے سوا کچھ ہیں۔‬
‫تشریح‪:‬اس شعر میں بھی عقل کی حقیقت کا ذکر کیا گیا ہے کہ عقل محض اطالعات کا فریضہ انجام‬
‫دیتی ہے۔ حواس خمسہ کے ذریعے انسان صرف آگاہ ہوتا ہے۔خرد علم ہے لیکن یہ منزل نہیں‬
‫جب کہ انسان کو منزل پر عشق‬
‫ہے‬ ‫پہنچاتا‬
‫عشق کی اک جست نے طے کر دیا‬
‫تمام‬ ‫قصہ‬
‫مومن محض علم و عقل سے اپنی اصل تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔ بلکہ اس کے لیے کسی‬
‫صاحب نظر کی مدد درکار ہوتی ہے۔‬
‫جو اک نگاہ سے تقدیر بدلنے‬
‫ہو‬ ‫رکھتا‬ ‫پرقدرت‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے‬


‫کا‬ ‫بازو‬ ‫زور‬
‫ِ‬
‫نگار مرد مومن سے بدل جاتی ہیں‬ ‫ِ‬
‫تقدیریں‬
‫قبال‬
‫اقبال فرماتے ہیں ترا عالج محض نظر ہے۔ خرد کے پاس تراکوئی عالج نہیں۔ ایک اور جگر ا ؒ‬ ‫ؒ‬
‫فرماتے ہیں۔‬
‫تجھے منزل ملے گی عشق و ایمان‬
‫سے‬ ‫بصیرت‬ ‫کی‬
‫فقد عقل و خرد کی شعبدہ بازی نہیں‬
‫کافی‬
‫گویا منزل کے محض عقل و خرد کافی نہیں منزل کے لیے عشق ضروری ہے جو بال خوف و خطر‬
‫بڑے سے بڑا فیصلہ کردیتا ہے۔‬
‫بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق‬
‫عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی‬
‫تمنا در ِد دل کی ہو تو خدمت کر فقیروں کی‬
‫نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں‬
‫مفہوم‪:‬اگر در ِددل کی آرزو ہے تو فقیروں کی خدمت کر کہ بادشاہوں کے خزانوں میں یہ گوہر‬
‫مقصود نہیں مال کرتا۔‬
‫اقبال زندگی گزرانے کے لیے در ِد دل ضروری خیال کرتے ہیں وہ انسان ہی نہیں ہے جس‬ ‫تشریح‪ؒ :‬‬
‫کے اندر دردنہ ہو۔ اگر کسی کے پاس یہ جذبہ نہیں ہے تو اسے فقیروں کی خدمت میں حاضر رہنا‬
‫چاہیے۔ در ِد دل کی تمنا کرنی چاہیے۔ در ِد دل انہی فقیروں کی خدمت سے نصیب ہوتا ہے اور یہ ایک‬
‫ایسا گوہر ہے جو بادشاہوں کے خزانوں میں بھی ہیں۔ گویا انسان کودر ِد دل کی تمنا کرنی چاہیے۔‬
‫در ِددل‪ ،‬جذ بہ عشق اور ہمدردی ہے۔ اس سے انسان اپنی حقیقت سے آگاہ ہوتا ہے اور انسان آگہی کی‬
‫منزل سے آشنا ہوجاتا ہے۔‬
‫عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے‬
‫میں‬ ‫جوانوں‬
‫نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل‬
‫پر‬ ‫آسمانوں‬
‫مفہوم‪ :‬جب جوانوں میں شاہین کی روح جاگ اٹھتی ہے تو وہ اپنی منزل آسمانوں میں تالش کرتے‬
‫ہیں۔‬
‫تشریح‪" :‬شاہین" اقبال کی شاعری کا ایک بلیغ استعارہ ہے۔ وہ شاہین کو اس کی کئی صفات کی وجہ‬
‫سے پسند کرتے ہیں ۔ وہ شاہین کی کی صفات اپنے نوجوانوں میں دینا چاہتے ہیں ۔ شاہین کی نظر تیز‬
‫ہوتی ہے وہ مسلسل پرواز پسند کرتا ہے۔ مردارنہیں کھاتا بلند پروازی کی صفت اسے نشیمن سے‬
‫اقبال نوجوانوں کو شاہین بنانا چاہتے ہیں وہ کہتے ہیں اگر یہ عقابی روح نو‬
‫بھی آزاد رکھتی ہے۔ ؒ‬
‫جوانوں میں بیدار ہو جائے تو وہ اپنی منزل آسمانوں میں ڈھونڈیں گے اور تسخیر کائنات ان کے لیے‬
‫معمولی بات رہ جائے گی ۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر‬


‫وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں‬
‫ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی‬
‫تڑپ‬
‫پہلے اپنے پیک ِر خاکی میں جان پیدا کرے‬
‫مفہوم‪ :‬جس انسان کو صداقت کی راہ پر جانے کا شوق ہواسے پہلے اپنے مٹی کے پیکر میں جان‬
‫پیدا کرنی چاہیے۔‬
‫تشریح‪ :‬راہ صداقت میں جان کی بازی لگانی پڑتی ہے۔ یہ راہ یونہی ہاتھ آتی کب ہے۔ اقبا ؒل فرماتے‬
‫ہیں جسے حق و صداقت کے لیے مرنے کی تڑپ جس دل میں ہوا سے اپنے اندر یقین محکم کی‬
‫توانائی پیدا کرنی چاہیے۔‬
‫یقیں محکم‪ ،‬عمل پیہم محبت فاتح عالم‬
‫جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی‬
‫شمشیریں‬
‫یہ پیکر خاکی اپنے اندر وہ چنگاری (توانائی ) رکھتا ہے کہ جس سے کائنات تسخیر کی جاسکتی‬
‫ہے۔‬

‫یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری‬


‫ہے‬ ‫ناری‬ ‫نہ‬ ‫ہے‬
‫محبت مجھے ان جوانوں سے ہے‬
‫ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند‬
‫مفہوم‪ :‬مجھے ان نوجوانوں سے محبت ہے جو ستاروں پر بھی کمند ڈال سکتے ہیں۔‬
‫تشریح‪ :‬اقبال نوجوانوں کو اپنا شاہین قرار دیتے ہیں ۔ وہ جوانوں سے ہی مخاطب ہیں اور انھیں‬
‫اقبال کہتے ہیں کہ انھیں وہی جوان پسند ہیں جو‬
‫ستاروں پر کمندیں ڈالنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ؒ‬
‫ستاروں سے آگے کے جہانوں کوتسخیر کرنے کا عزم اور حوصلہ رکھتے ہیں۔ وہ انہی جوانوں سے‬
‫محبت کرتے ہیں اور انہی پر فخر کرتے ہیں۔‬
‫جب عشق سکھاتا ہے آداب خود‬
‫آگاہی‬
‫کھلتے ہیں غالموں پر اسرار‬
‫شہنشاہی‬
‫مفہوم‪ :‬عشق جب آداب خود آگاہی سکھا دیتا ہے تو غالموں پربھی شہنشاہی کےبھید کھل جاتے ہیں۔‬
‫تشریح‪ :‬اقبال کے نزدیک عشق کے بغیر زندگی کچھ نہیں ہے اوریہ عشق ہی ہے جو انسان کوآداب‬
‫خود آگاہی سکھاتا ہے۔‬
‫انسان اپنی خودی کو پہچانتا ہے جو اپنی خودی سے آشنا ہوا وہ زندگی کے راز سے آگاہ ہوا۔‬
‫خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر‬
‫پہلے‬ ‫سے‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری‬


‫ہے‬ ‫کیا‬ ‫رضا‬
‫جو انسان خود آگاہی کے آداب سے واقف ہو جاتا ہے وہ اپنی حقیقت پالیتا ہے۔ اپنی حقیقت سے‬
‫اقبال‬
‫آشنالوگ ہی خداکی ترجمانی کرتے ہیں۔ بقول ؒ‬
‫تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر‬
‫جا‬ ‫ہو‬ ‫عیاں‬
‫خودی کا راز داں ہو جا خدا کا‬
‫جا‬ ‫ہو‬ ‫ترجماں‬
‫اور اس راہ پر چلنے والوں پرشہنشاہی کے بھید خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں اور وہ زندگی کی‬
‫حقیقت تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ انہی لوگوں کے لیے‬
‫اقبال نے کہا‬
‫نگہ بلند‪ ،‬سخن دلنواز‪ ،‬جاں پرسوز‬
‫ت سفر میر کارواں کے‬ ‫یہی ہے رخ ِ‬
‫لیے‬
‫ہے دل کے لیے موت مشینوں کی‬
‫حکومت‬
‫احساسات مروت کو کچل دیتے ہیں‬
‫آالت‬
‫مفہوم ‪:‬دل زندہ کے لیے مشینوں کی حکومت موت ہے یعنی آالت مروت کے احساسات کو کچل کے‬
‫رکھ دیتے ہیں۔‬
‫اقبال ایک اہم نکتہ اٹھاتے ہیں وہ حرکت اور جدوجہدکو پسند‬ ‫ؒ‬ ‫تشریح‪ :‬اس شعر میں عالمہ محمد‬
‫کرتے ہیں۔ سائنسی اور مادی ترقی نے انسان کو کاہل اور بیکار کر دیا ہے۔ پہلے جو کام انسان اپنے‬
‫ہاتھ سے کرتا تھا آج وہ مشینیں سرانجام دے رہی ہیں۔ اس سے آسائشیں اور آرام میں تو اضافہ ہوا‬
‫ہے لیکن انسان کی روح اور بدن اس سے شدید متاثر ہورہے ہیں۔ انسانی جسم کی بقاء حرکت پر ہے۔‬
‫محنت‪ ،‬جدوجہد ہی سے وہ بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے لیکن مشینوں نے انسان کو بھی مادی دنیاکا‬
‫غالم بنا کر رکھ دیا ہے۔ وہ بھی مشین کا ایک پرزہ ہوکر رہ گیا ہے۔ رات دن تعیش اور آسودگی کے‬
‫لیے بھاگا پھرتا ہے اور اندر سے بے حس ہو کر رہ گیا ہے۔ راتوں رات دولتمند بننے کی ہوسں نے‬
‫اسے اندھا کر دیا ہے۔ وہ پیار محبت ‪ ،‬خلوص اور ہمدردی سے بیگانہ ہو گیا ہے۔ اس کے اندر مروت‬
‫لحاظ کے احساسات اور جذبات ختم ہو کر رہ گئے ہیں۔‬
‫سائنسی ترقی اور تیز رفتاری نے انسان کو اندر سے کھو کھال کر دیا ہے آج کےانسان کے پاس‬
‫مسکرانے کے لیے بھی وقت نہیں ہے۔ وہ رات دن مستقبل محفوظ کرتے کرتے اندر سے ٹوٹ پھوٹ‬
‫کا شکار ہو جاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے وہ ایک الش بن جاتا ہے۔ بیماریوں کی دیمک اسے‬
‫کہیں کا نہیں چھوڑتی پھر وہ دوسروں کی محبت‪ ،‬دوستی ‪،‬خلوس کامحتاج ہوتا ہے۔ اوراسے سچے‬
‫جذبوں کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے لیکن اب وقت گزر چکا ہوتا ہے اقبال اس سائنسی دور کو‬
‫مشینوں کی حکومت کو پسند نہیں کرتے کہ یہ انسان کو انسان سے دور کر دیتی ہیں۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر‬


‫تیزی‬ ‫کی‬
‫نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی‬
‫خیزی‬ ‫سحر‬ ‫آداب‬
‫مفہوم ‪ :‬سردیوں کی ٹھنڈی ہوا تلوارکی رکھتی تھی لیکن لندن میں بھی صبح دم اٹھنے کے آداب‬
‫سے غافل نہیں رہا۔‬
‫تشریح‪ :‬اقبال صبح دم اٹھنے کے عادی تھے علی الصبح اٹھنا نہ صرف صحت کے لیے ضروری‬
‫اور اچھا ہوتا ہے بلکہ اس سے اور بھی دنیاوی افادیت حاصل ہوتی ہے۔ لندن میں سخت سردی پڑتی‬
‫ہے اور وہاں علی الصبح اٹھنا آسان نہیں لیکن اقبال ؒفرماتے ہیں کہ لندن کی یخ بستہ صبحوں کی ہوا‬
‫میں تلوار جیسی کاٹ ہوا کرتی تھی لیکن میں نے اس سرد اور کٹھن موسم میں بھی علی الصبح بیدار‬
‫ہونے کی عادت نہ چھوڑی۔ اس سے یہ عقدہ کھلتا ہے کہ انسان سردی سے خوفزدہ ہو کر اپنی‬
‫عادات اطوار تبدیل کر لے تو وہ کیا انسان ہے۔ انسان اپنے شعار کیوں تبدیل کرے۔ سردی پر غالب آنا‬
‫تو اندر کی خوابیدہ صالحیتوں کو بیدار کرنے کے مترادف ہے۔ سخت سردی اور سخت گرمی انسان‬
‫کے فائدے کے لیے ہے۔ سرد وگرم موسموں میں بھی ایک حکمت پوشیدہ ہے جو انہیں برداشت کر‬
‫لینا ہے۔ وہ بدن کے ساتھ ارادے کا بھی‬
‫مستحکم ہو جا تا ہے اور قوت ارادی بڑی چیز ہوتی ہے۔ اس سے دنیا کے ہر امتحان میں کامیابی‬
‫حاصل کی جاسکتی ہے۔ قائد اعظم بھی سخت سردیوں کے موسم میں لندن میں ٹھنڈے پانی سے غسل‬
‫کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ سردی میرے اعصاب کو شکست کیوں کر دے سکتی ہے۔ اس سے ان‬
‫کی قوت ارادی کی مضبوتی ظاہر ہوتی ہے۔‬
‫رنگ ہو یا خشت و سنگ‪ ،‬چنگ ہو یا حرف‬
‫وصوت‬
‫معجزہ فن کی ہے خو ِن جگر سے نمود‬
‫مفہوم‪ :‬مصوری‪ ،‬فن تعمیر‪ ،‬سنگ تراشی یا موسیقی یا شاعری سب کی خون جگر سے نمود ہے۔‬
‫میں تمام فنون لطیفہ خون جگر کے معجزے سے جنم لیتے ہیں۔‬
‫اقبال فنون لطیفہ کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں ۔ یہ شعر ان‬
‫تشریچ‪ :‬مذکورہ باال شعر میں ؒ‬
‫کی مشہورنظم مسجد قرطبہ میں شامل ہے جس میں انہوں نے تمام فنون لطیف کوخون جگر‬
‫کےمعجزے کا حاصل قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مصوری‪ ،‬ف ِن تعمیر ‪،‬موسیقی ‪ ،‬سنگ تراشی یا‬
‫شاعری وہ فنون ہیں جوخون جگر سے جنم لیتے ہیں ۔ فن کا معجزہ خون جگر سے نمو پاتا ہے۔‬
‫کوئی بھی فن ہو فنکار کے خون جگر سے جنم لیتا ہے۔ خون جگر سے مرادسخت محنت‪ ،‬مسلسل‬
‫اقبال‬
‫جدوجہد کوشش سے ہی یہ فنون‪ ،‬اپنی انتہا تک پہنچتے ہیں۔ بقول ؒ‬
‫نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے‬
‫بغیر‬
‫نغمہ ہے سودائے خام خو ِن جگر‬
‫بغیر‬ ‫کے‬
‫ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫خراب کر گئی شاہین بچے کو‬


‫زاغ‬ ‫صحبت‬
‫مفہوم‪ :‬شاہین کے بچے کوزاغ کی صحت خراب کرگئی اور اس میں بلند پروازی اسی لیے پیدانہیں‬
‫ہوتی۔‬
‫تشریح‪ :‬کرگس با کو اشاہین کی طرح بلند پروا نہیں ہوتا اقبال کہتے ہیں‬
‫کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور‬
‫کرگس اور شاہین چاہے ایک ہی فضا میں اڑتے ہیں لیکن دونوں الگ الگ مزاج اوردنیا رکھتے ہیں۔‬
‫کرگس اڑتے اڑتے گوشت کی بوسونگتا رہتا ہے اور جہاں اسے مردارنظرآتا ہے وہیں اتر جاتا ہے۔‬
‫جب کہ شاہیں ایسا نہیں کرتا نہ ہی وہ مردار کھاتا ہے۔ وہ مسلسل پرواز ہی میں خوش رہتا ہے۔ زاغ‬
‫کی صحبت میں شاہین کابچہ بھی پرورش پائے گا تو اس میں شاہین کی صفات پیدا نہیں ہوں گی بلکہ‬
‫اقبال اس موضوع کو‬‫ؒ‬ ‫صحبت کے اثرات کی وجہ سے اس میں زاغ کی عادات گھر کر جائیں گی ۔‬
‫مذکورہ باال شعر میں بیان کرتے ہیں کہ شاہین کےبچے کوزاغ کی محبت نے خراب کر دیا ہے سو‬
‫اس میں شاہیں جیسی بلند پروازی پیدا نہیں ہوگی۔‬
‫ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن‬
‫گفتار میں کردار میں ہللا کی برہان‬
‫مفہوم ‪ :‬ہر لمحہ مومن کی نئی شان اورنئی آن ہوتی ہے وہ گفتگو اور کردار میں ہللا کے احکامات کو‬
‫مدنظر رکھتے ہیں ۔‬
‫تشریح‪ :‬مومن اپنے کردار اور اخالق سے پہچانا جاتا ہے۔ اقبال نے مومن کے بارے میں اپنی‬
‫شاعری میں بہت کچھ کہا ہے ۔ وہ مومن میں ہرپل نئی آن اورنئی شان دیکھتے ہیں اور وہ اسے‬
‫کردار وگفتار میں ہللا تعالی کی برہان قرار دیتے ہیں۔‬
‫نگہ بلند‪،‬سخن دلنواز جان پر سوز‬
‫ت سفر میر کارواں کے لیے‬ ‫یہی ہے رخ ِ‬
‫مفہوم ‪ :‬سفرمیں کارواں کےسردار کے لیے نگاہ کی بلند‪ ،‬دلنواز گفتگو اور پرسوز جان کی صفات‬
‫ضروری ہیں۔‬
‫اقبال والے رہنما اور میر کارواں کے لیے جو صفات الزمی ہیں۔ ان کو‬ ‫ؒ‬ ‫تشریح‪:‬اس شعر میں عالمہ‬
‫بیان کر رہے ہیں کہ سردار یالیڈر کو کیسا ہونا چاہے۔اسے اپنے اخالق و کردار کا مالک ہونا‬
‫چاہیےاس کی گفتگو میں شائستگی اور سلیقہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی نظر بندی کی طرف ہونی‬
‫چاہے۔یعنی اس کا مقصدلگن اور اونچا اور بلند ہونا چاہے گویا ارادے بلند ہوں اورتیسری بات یہ کہ‬
‫اس کے اندر ایک درد سی تاثیر ہو۔ اس کا دل سوز اورتڑپ رکھتا ہو۔ یہ ساری صفات جس کے پاس‬
‫ہوں وہی اچھارہنما ثابت ہوسکتا ہے۔‬

‫گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں‬


‫میں‬
‫کار آشیاں‬
‫کہ شاہین کے لیے ذلت ہے ِ‬
‫بندی‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫مفہوم‪ :‬شاہین کوہ بیاباں میں اپنی گزر بسر کر لیتا ہے اس کے لیے آشیاں بنانا ذلت کا درجہ رکھتا‬
‫ہے۔‬
‫تشریح‪:‬اس شعر میں اقبال شاہین کی ایک صفت بیان کر رہے ہیں کہ شاہین آشیانہ نہیں بناتا ۔ وہ‬
‫پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہی گزربسر کر لیتا ہے۔ اقبال شاہین کو پرندوں کی دنیا کا درویش قرار دیتے‬
‫ہیں۔‬
‫پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں‬
‫کہ شاہیں بناتا ہیں آشیانہ‬
‫یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید‬
‫کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن‬
‫فیکوں‬
‫مفہوم‪ :‬یہ جہاں بھی شاید نامکمل ہے کہ پل پل صدائے کن فیکوں کی آواز آرہی ہے۔‬
‫اقبال اس کائنات کی تخلیق کا تصور پیش کرتے نظر آتے ہیں ان کا خیال‬ ‫مذکورہ باال شعر میں عالمہ ؒ‬
‫ہے کہ کائنات لمحہ لمحہ تغیر پذیر ہے اسے پل بھر سکون نہیں ہے بلکہ وہ کہتے ہیں۔‬
‫‪ .‬سکون محال ہے قدرت کے‬
‫میں‬ ‫کارخانے‬
‫قرآن مجید میں آتا ہے کہ ہللا تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ کن فیکون کہتا ہے اور کام مکمل ہوجاتا‬
‫ہے۔ اس کائنات کے لیے بھی ابھی اس نے فقد کن فیکوں کہا اور کائنات بن گئی۔ مراد یہ ہے کہ ابھی‬
‫تخلیق کا سلسلہ ر کا نہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ ہر لمحہ صدائے کن فیکوں سنائی دے رہی ہے۔‬
‫غالب اس خیال کو اپنے انداز میں بیان کرتے ہیں۔‬
‫آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز‬
‫پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں‬

‫حکم سفر دیا‬‫ِ‬ ‫باغ بہشت سے مجھے‬


‫کیوں‬ ‫تھا‬
‫کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار‬
‫کر‬
‫مفہوم‪ :‬بہشت کے باغ سے مجھے نکل جانے کا حکم کس لیے دیا تھا۔ اب میں اس دنیا کے بعد ہی‬
‫تیرے پاس آؤں گا میرا انتظار کر۔‬
‫تشریح‪ :‬اس شعر میں آدم کی تخلیق کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ حضرت آدم کی تخلیق کے بعد‬
‫انہیں جنت میں مقام عطا ہوا تھا مگر وہ ہللا تعالی کے حکم کے خالف ورزی کرتے ہوئے دانہ‪ ،‬گندم‬
‫چکھ بیٹھے پھرانہیں سزا کے طورپر اس دنیامیں بھیج دیا گیا۔ اس قصے کو اس شعرمیں بیان کیا گیا‬
‫ہے کہ اے خدا تو نے مجھے باغ بہشت سے نکل جانے کو کہا میں نے حکم مان لیا اب تو مجھے‬
‫پاس دیکھنا چاہتا ہے تو انتظار کر۔‬
‫زندگانی کی حقیقت کو ہکن کے دل‬
‫پوچھ‬ ‫سے‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے‬


‫زندگی‬
‫مفہوم ‪ :‬اے انسان !ز ندگی کی حقیقت جاننا چاہتا ہے تو فرہاد سے پوچھ جس کے نزدیک دودھ کی‬
‫اقبال اس شعر میں زندگی کومسلسل‬‫نہ تیشہ اور پہاڑ کا ٹنا زندگی کا نصب العین ہے۔ تشریح‪ :‬عالمہ ؒ‬
‫جدوجہد ‪،‬لگن اور عزم راسخ سے عبارت سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ فرہاد کی مثال پیش‬
‫کرتے ہیں ۔ فرہادجس نے شیریں کے عشق میں پہاڑ کاٹ کر دودھ کی نہر نکالنے کی کوشش کی‬
‫تھی۔ یعنی اس نے عشق کے لیے ایک ممکن اور کٹھن کام پر آمادگی ظاہرکی اور عزم راسخ سے‬
‫اور سچے جذبے سے مشکل کو آسان بنایا۔ اقبال کا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اسے انسان زندگی‬
‫مسلسل جد و جہد لگن اور عزم صسمیم کا نام ہے جس کا کوئی اعلیٰ نصب العین نہیں وہ انسان ہی‬
‫نہیں۔‬
‫روشنی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن‬
‫طلسم‬ ‫کا‬
‫عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد‬
‫مفہوم‪ :‬رشی کے فاقوں سے برہمن کی اجارہ داری ختم نہ ہوئی جب تک ہاتھ میں عصا (طاقت) نہ‬
‫کلیمی بے کار کام ہے۔‬
‫تشریح‪:‬اس شعر میں عالمہ اقبال زندگی میں طاقت کو اہمیت دیتے ہیں محض پرہیز گاری شرافت‬
‫اور فاقہ کشی یعنی ریاضت سے ظلم کا نظام درست نہیں ہوسکتا اور حاالت نہیں سدھارے جا سکے۔‬
‫اس کے لیے ایک قوت کی ضرورت ہوتی ہے اگر موسیٰ کلیم ہللا کے پاس عصانہ ہوتا تو وہ اپنے‬
‫دور کے فرعون سے ٹکر لے ہی نہیں سکتے تھے کلیمی کے لیے ایک عصادرکار ہوتا ہے ورنہ‬
‫کلیمی بے کارکام ہے۔ سو بغیر طاقت عملی جدوجہد کے باطل اور استحصالی قوتوں کو شکست نہیں‬
‫دی جاسکتی۔‬
‫جالل بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا‬
‫ہو‬
‫جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی‬
‫چنگیزی‬ ‫ہے‬
‫مفہوم‪ :‬بادشاہی نظام ہو یا جمہوریت دونوں کی بنیاد مذہب پر ہونی چاہیے ورنہ وہ سیاست ظلم و‬
‫بربریت بن جاتی ہے۔‬
‫اقبال اپناتصورحکومت بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ ان‬ ‫تشریح‪ :‬مذکورہ باال شعر میں حکیم االمت عالمہ ؒ‬
‫کا خیال ہے کہ جمہوری حکومت یا بادشاہت دونوں میں ۔ دین کاعمل دخل ضروری ہے اور اسالم‬
‫ہمارا ایسا دین ہے جو معاشرے میں مساوات اخوت اور محبت کا نظام النے پر زور دیتا ہے اور اگر‬
‫ہماری سیاست اور نظام سے دین کو الگ کر دیا جائے تو پھر ہر طرف استحصال ‪،‬ظلم اور بربریت‬
‫رہ جائے گی اور معاشرے سے انصاف ‪ ،‬ہمدردی‪ ،‬اخالقیات ‪ ،‬تہذیب وتمدن عنقا ہو جائیں گے‬
‫اورلوگوں کی زندگی اجیرن ہوجائے گا۔‬

‫مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے‬


‫خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫مفہوم‪ :‬مراطریق زندگی امارت نہیں غربت ہے خود کو سنبھال اور غریبی میں نام پیدا کر۔‬
‫تشریح‪ :‬درج باالشعرنظم جاوید کے نام سے لیا گیا یورپ میں جاوید کے ہاتھ کا لکھاپہال خط ملنے‬
‫اقبال اپنے بیٹے کو ایک نظم جواب میں ارسال کرتے ہیں یہ نظر صرف جاوید کے لیے‬ ‫پر عالمہ ؒ‬
‫نہیں بلکہ تمام نوجوانوں کے لیے مشعل راہ بن گئی ہے۔ اس شعر میں وہ اپنے صاحبزادے کو تلقین‬
‫کرتے ہیں کہ کسی صورت میں اپنی خودی کو داؤ پرمت لگانا۔ اپنے محدود حاالت و سائل میں رہ کر‬
‫نام ومقام بنانے کی کوشش کرنا کیونکہ میرا طریق امارت نہیں غریبی ہے اور خودی ہی اصل‬
‫سرمایہ ہے۔ اسے عارضی سکون ‪ ،‬تعیش آرام کے لیے داؤ نہیں لگایا جاسکتا۔‬

‫متفرق اشعار کی تشریح‬

‫دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے‬


‫کام‬
‫کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے‬
‫(حالی)‬
‫مفہوم‪ :‬دریا کومحض اپنی طغیانیوں سے کام ہوتا ہے اس کامسئلہ کسی کی کشتی پارلگانا نہیں۔‬
‫تشریح‪ :‬موالنا الطاف حسین اس شعر میں وقت کو دریا قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جیسے دریا‬
‫کی موجیں اور بھنور اپنی مستی میں گم رہتے ہیں۔ انھیں کسی کی کشتی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا‬
‫کہ وہ کنارے لگ گئی ہے یا ابھی دریا کے درمیان ہے۔ دریا میں طغیانیوں کو سفینوں سے کوئی‬
‫ہمدردی نہیں ہوتی۔ ایسے ہی وقت کسی کامیابی اورناکامی کو خاطر میں الئے بغیر گزرتا چال جاتا‬
‫ہے۔ انسان کو اپنی ہمت سے اپنی منزل کو پانا ہوتا ہے وقت سے وہی کام لے سکتا ہے جو ہمت اور‬
‫عزم صمیم مسلسل جدوجہد کرتا ہے۔‬
‫یاران ِتیز گام نے محمل کو جا لیا‬
‫جرس کارواں رہے‬ ‫ِ‬ ‫محو نالہ‬
‫ِ‬ ‫ہم‬
‫(حالی)‬
‫لیلی کے محمل تک رسائی حاصل کر لی ہم ابھی قافلے کی گھنٹی کی‬ ‫مفہوم‪ :‬تیز چلنے والوں نے ٰ‬
‫فریاد میں محو ہیں۔‬
‫تشریح‪ :‬اس شعر میں بھی حالی وقت کی اہمیت بیان کر رہے ہیں کہ تیز چلنے والوں نے منزل پالی‬
‫ہے اورسست اور غافل لوگ قافلے کی گھنٹی کی آواز پراداس بیٹھے ہیں اس شعر میں مسلمان قوم‬
‫کو وقت کی اہمیت اور جدوجہد کا احساس دالنے کی کوشش کی گئی ہے کہ دیگر اقوام نے جدوجہد‬
‫سے آزادی کی نعمت حاصل کر لی ہے لیکن ہم ابھی سوچ رہے ہیں۔‬

‫کسی سے پیما ِن وفا باندھ رہی ہے‬


‫بلبل‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫کل نہ پہچان سکے گی گل تر کی‬


‫صورت‬
‫(حالی)‬
‫مفہوم ‪ :‬اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ آج بلبل کھلے ہوئے پھول کی خوبصورتی کو دیکھ کر اس‬
‫سے عمر بھر کے پیمان باندھ رہی ہے لیکن کل اس کی صورت بھی پہچان نہ پائےگی۔‬
‫تشریح‪:‬شاعر کا کہنا ہے کہ حسن بہرحال فانی ہے آج بلبل پھولوں کی محبت میں اس سے عمربھرکا‬
‫ساتھ نبھانے کا وعدہ کررہی ہے لیکن کل یہی پھول خزاں کی نذر ہو کر بکھر جائے گا۔ اس وقت وہ‬
‫اس کی حالت دیکھ کر شاید اس کی صورت بھی نہ پہچان سکے ۔ انسان کوحسن فانی کے تعاقب کی‬
‫بجائے ذات ازل سے لو لگانی چاہیے۔‬
‫آ رہی ہے چا ِہ یوسف سے صدا‬
‫دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی‬
‫بہت‬
‫(حالی)‬
‫تشریح‪ :‬درج باال شعر میں دنیا کی بے حسی کی طرف اشارہ ہے۔ اب زمانے میں ہر کوئی محض‬
‫اپنی خیر مانگتا ہے۔ کوئی کسی کا نہیں ہے۔ ایک عجیب افراتفری اور بھاگ دوڑ ہے کہ بھائی بھائی‬
‫کا گلہ کاٹ رہا ہے۔ اس شعر میں تلمیح بھی ہے۔ "چاہ یوسف" سے حضرت یوسف علیہ السالم اور‬
‫ان کے بھائی یاد آتے ہیں ۔ جنھوں نے حضرت یوسف علیہ السالم کو کنویں میں پھینک دیا تھا۔ شاعر‬
‫کہتا ہے کہ آج کل یہی حال ہے۔ بھائیوں میں محبت اور شفقت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ اللچ حرص‬
‫وہوس نے لوگوں کے دلوں سے ہمدردی ‪،‬خلوص اور پیارختم کر دیا ہے۔ اب تو رشتے ناطوں کی‬
‫حقیقت بھی دم توڑ رہی ہے۔ اس دور میں یوسف کے بھائیوں جیسے کثیر تعداد میں ہیں جب کہ مدد‬
‫کرنے والے دوست کم ہیں ۔ محبت کرنے والے احباب کی قلت ہے اور دشمن نما بھائی بہت ہے۔‬
‫اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیش‬
‫عشق‬
‫ت زخم جگر کہاں‬ ‫رکھی ہے آج لذ ِ‬
‫(حالی)‬
‫تشریح‪ :‬موالنا حسرت موہانی کے اس شعر میں سچے عشق کی خصوصیت بیان کی گئی ہیں عشق‬
‫میں دکھ اور تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں ۔ اور عشق کے دکھ برداشت کرنے کے لیے ایک عمر‬
‫کی ریاضت درکار ہے۔ ایک مدت کے بعد عشق کاز ہر گوارا کیا جاتا ہے۔ آج کے دور میں زخم‬
‫جگر کی لذت عنقا ہوگئی ہے اور نام نہادعشق کرنے والے عشق میں ملنے والے زخموں کی لذت‬
‫سے نا آشنا ہیں ۔ یہ بے خبر کیا جانیں کہ عشق کے مصائب و آالم میں بھی ایک لطف و قرار ہوا‬
‫کرتا ہے۔ اور اس کے لیے ایک عمر درکار ہوتی ہے۔ چار دنوں میں یہ لطف اورلذت محسوس نہیں‬
‫ہوسکتی۔‬
‫یا رب اس اختالط کا انجام ہو بخیر‬
‫تھا اس کو ہم سے ربطہ مگر اس قدر‬
‫کہاں‬
‫(حالی)‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫تشریح‪ :‬یاالہیٰ محبوب کا ہم سے میل جول تھامگر اس قدر نہیں تھا ان دنوں یہ قربت بڑھ گئی ہے خدا‬
‫اس کا انجام ٹھیک کرے ۔ بعض اوقات قربت نفرت میں بھی بدل جاتی ہے اور زیادہ میل جول انسان‬
‫کو ایک دوسرے سے دور بھی کر دیتا ہے۔ شاعر اس کیفیت کو بیان کرتا نظر آتا ہے کہ ان دنوں‬
‫محبوب ہم پر کچھ زیادہ مہربان ہے اور یہ یہ مہربانی کیا رنگ التی ہے بقل عدیم ہاشمی‬
‫بہت نزدیک آتے جا رہے ہو‬
‫بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا‬
‫یعنی زیادہ قربت ہمیشہ کے لیے بچھڑنے پرمجبور کر دیتی ہے قریب آ کر انسان ایک دوسرے پر‬
‫کچھ زیادہ کھل جاتا ہے اور پھر اختالف پیدا ہوجاتے ہیں۔‬
‫خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنون کا خرد‬
‫جو چاہے آپ کا حس ِن کرشمہ ساز‬
‫کرے‬
‫(حسرت)‬
‫تشریح‪ :‬موالنا حسرت موہانی کے اس شعر میں محبوب کے حسن کی کرشمہ سازی کی طرف اشارہ‬
‫ہے کہ حسن کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہتا ہے۔ تیری نظر جسے چاہے اوج پر پہنچا دے۔ تو چاہے تو‬
‫کسی کو عقل مند اور دانش ور قرار دے اور چاہے تو کسی عقل مند کو نادانی کی سند عطا کر دے ۔‬
‫اس لیے کہ تم حسین ہو اور تیری بات میں یہی وزن کافی ہے کہ تجھ سا حسین اور کوئی نہیں ہے۔‬
‫سوتمھاراحسن جو چاہے کرشمہ اور معجزہ د کھاسکتا ہے۔‬
‫فکر دو عالم سے کر دیا آزاد‬
‫دلوں کو ِ‬
‫ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے‬
‫(حسرت)‬
‫تشریح‪ :‬حسرت اسی غزل میں آگے چل کر کہتے ہیں کہ اے محبوب یہ بھی تیرے حسن کا کرشمہ‬
‫ہے کہ تیرے چاہنے والوں کو تیرے عشق کے سوا اور کوئی کام نہیں اور تیرے عشق میں گرفتار‬
‫لوگ اور کسی کام کے نہیں رہے۔ اور یہ بھی ان کے حق میں اچھا ہوا کہ وہ دنیا جہان کے دیگر‬
‫تفکرات اور پریشانیوں سے بچ گئے۔ ورنہ‬
‫اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت‬
‫سوا‬ ‫کے‬
‫اس طرح عشق میں گرفتار دنیا کے دکھوں سے الگ ہے اور صرف اورصرف تیری محبت کے‬
‫اسیر بن کر بہت اچھا رہے۔ شاعر محبوب کی طرف سے عطا کیے جانے والی کیفیت عشق و جنوں‬
‫کو دعادیتا ہے کےسلسلہ اس طرح پھیلتا ہے اورطول پکڑے۔ تیراحسن اسی طرح قائم دائم رہے تا کہ‬
‫لوگ دونوں جہانوں کی فکر سے آزاد ہیں۔‬
‫روش ِن جمال یار سے ہے انجمن تمام‬
‫آتش گل سے چمن تمام‬‫ِ‬ ‫دہکا ہوا ہے‬
‫(حسرت)‬
‫تشریح‪ :‬حسرت موہانی اپنے محبوب کے حسن و جمال کی رنگینی کو قدرے مبالغہ آرائی سے بیان‬
‫کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ساری انجمن میرے یار کے جلوؤں سے روشن ہوگئی ہے۔ گویا سارا‬
‫چمن پھولوں کی آگ سے دہک رہا ہے۔ مراد یہ ہے کہ پھول کھلے ہوئے ہوں تو ان کے رنگ سے‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫ہر طرف رنگ و نور کا سماں ہوتا ہے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہر سمت رنگینی ہے۔ رنگینی‬
‫شاعر کوآگ بھی محسوس ہوتی ہے اور سارا چمن پھولوں کی سرخ رنگت سے دہکا ہوا نظر آتا ہے۔‬
‫غرور حسن سے‪ ،‬شونی سے‬ ‫ِ‬ ‫حیرت‬
‫اضطراب‬
‫دل نے بھی تیرے سیکھ لیے ہیں چلن‬
‫تمام‬
‫(حسرت)‬
‫تشریح‪:‬شاعر کہتا ہے کہ میرے دل نے بھی تیری ادائیں اپنالی ہیں ۔ تیرے غرور حسن پر دل حیران‬
‫ہو کر رہ جاتا ہے یوں ترے حسن سے میرے دل نے حیرت سیکھ لی ہے اور پھر جب اپنے حسن پر‬
‫ناز کرتا ہے اور شوخ ہو جاتا ہے تو میرا دل بے چین و بے قرار ہو جا تا ہے اور میں تیرے عشق‬
‫میں بے تاب ہو جاتا ہوں ۔ یوں تیری اداؤں نے میرے دل پر گہرا اثر ڈاال ہے۔ اور میرا دل بھی تیری‬
‫اداؤں کے رنگ میں رنگا جا چکا ہے۔ گویا میرے دل نے تیرے اطوار اپنا لیے ہیں۔ کیونکہ عشق‬
‫ومحبت کا تقاضا ہے کہ یا خود محبوب کے رنگ میں رنگے جاؤ تو اسے اپنے رنگ میں رنگ ڈالو۔‬
‫میں تمھیں اپنے انداز نہ سکھا سکا البتہ ترے انداز میں نے اپنا لیے اور میرے دل نے تری ادائیں‬
‫اپنالی ہیں۔‬
‫اچھا ہے اہل جور کیے جائیں‬
‫سختیاں‬
‫ش حب وطن‬ ‫پھیلے گی یوں ہی شور ِ‬
‫تمام‬
‫(حسرت)‬

‫تشریح‪ :‬حسرت موہانی کے مذکورہ باال شعر میں اس وقت کے سیاسی منظر کو دیکھا جاسکتا‬
‫ہے۔فرنگی حکومت اپنی حکومت قائم رکھنے کے لئے مقامی لوگوں پر ظلم وستم ڈھاتی تھی اور‬
‫لوگ ان کے خالف زبان نہیں کھولتے تھے بلکہ چپ چاپ ان کے ظلم کی سختیاں برداشت کرتے‬
‫تھے۔ حسرت نے انہی سختیوں کی طرف اشارہ کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اچھا ہے ظلم کرنے والے‬
‫سختیاں کیے جائیں وہ جس قد ر دباؤ ڈالیں گے لوگوں کے حب الوطنی کے جذبے میں اتناہی جوش‬
‫اور ولولہ پیدا ہوگا۔‬
‫تاثیر برق حسن جو ان کے سخن میں‬
‫تھی‬
‫اک لرزش خفی مرے سارے بدن میں‬
‫تھی‬
‫(حسرت)‬
‫تشریح‪:‬خالصتا ً رومانی شعر ہے اور حسرت کی غزل کا اندزامکمل روبانی ہے۔ اس شعر میں و‬
‫محبوب کی باتوں میں حسن کی بجلی جیسی تاثیر محسوس کررہے ہیں ان کا خیال ہے کہ محبوب کی‬
‫گفتگوحال پراثر کرتی ہے اور مجھ پربھی اس کی باتوں کا گہرا اثر ہوا ہے کہ میرے بدن میں ہلکی‬
‫سی لرزش طاری ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ایک بجلی سی میرے سارے بدن میں کوند گئی ہے۔ اور‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫میری رگ رگ میں ایک روشنی سی سرایت کر گئی ہے۔ میں محبوب کی پرتاثیر اور محبت بھری‬
‫باتوں سے بے حد متاثر ہوا ہوں۔‬
‫ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا‬
‫گئی ہے فکر پریشاں کہاں کہاں‬
‫مری‬
‫(میر تقی میر)‬
‫تشریح‪:‬اس شعر میں میرتقی میرمحبوب کی جدائی میں اپنی "فکر پریشان" کا تذکرہ کر رہا ہے جس‬
‫طرح مفلس آدمی اپنے حاالت کی بہتری اور خوشحالی کے لیے نجانے کیا کیا سوچتا ہے۔ وہ خیالوں‬
‫ہی خیالوں میں اپنی خوشحالی دیکھتا ہے اور کیا کیامنصوبہ بندیاں کرتا ہے کہ جن سے وہ جلد ہی‬
‫امیر ہو جائے بالکل ایسے ہی محبوب کی جدائی میں عاشق خیاالت میں کیا کیا سوچنے لگتا ہے۔ وہ‬
‫محبوب کے وصال کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔ شاعر نے ایسی کیفیت کو مذکور باال شعرمیں بیان‬
‫کیا ہے کہ جدائی میں غریب آدی کے خیال کی طرح میری سوچیں بھی کہاں کہاں چلی جاتی ہیں۔‬
‫نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ‬
‫اپنی‬
‫تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم‬
‫ہیں‬ ‫بیٹھے‬ ‫بیزار‬
‫(انشاء)‬
‫تشریح‪:‬اس شعر میں انشاء شاعر باد بہاری سے مخاطب ہے وہ کہتا ہے کہ بہار کی مہکتی ہوا تو‬
‫ہمیں پریشاں مت کر۔ تیری شوخی ہمیں اپنی بیزاری میں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ انسان اندر سے خوش‬
‫ہو تو اسے اپنے اردگرد کا موسم‪ ،‬ہر بات اچھی لگتی ہے لیکن اگر اس کے دل کا موسم اچھا نہ ہو تو‬
‫اسے کوئی بھی تفریح اچھی نہیں لگتی ‪ ،‬چاہے ہر طرف بہار ہو ۔ پھول کھلے ہوئے ہوں ۔ خوشبوئیں‬
‫پھیلی ہوئی ہوں ۔ اگر انسان بیزار ہے تو اسے ہر شے سے بیزاری ہونے لگتی ہے۔ شاعر نے اس‬
‫مضمون کو مذکورہ باال شعر میں بیان کیا ہے۔ وہ بہار کی مہکی ہوا سے کہتا ہے کہ مجھے اٹھکیلیاں‬
‫سوجھ رہی ہیں اور ہم بیزار بیٹھے ہیں ۔ جا اپنی راہ لگ اور میں ہمارے حال پر چھوڑ دے ہم بیزار‬
‫ہیں۔‬
‫خورشید وار دیکھتے ہیں سب کو ایک‬
‫آنکھ‬
‫روشن ضمیر ملتے ہر اک نیک و بد‬
‫ہیں‬ ‫سے‬
‫(ذوق)‬
‫تشریح‪ :‬محمد ابراہیم ذوق کے اس شعر میں وہ روشن ضمیر کی خصوصیت کا ذکر کرتے ہیں ۔ ان‬
‫کا خیال ہے کہ ایک ضمیر کا اچھا آدمی تعصب سے قطعی کوئی سروکار نہیں رکھتا ہے۔ جیسے‬
‫سورج تمام مخلوق کے لیے بال امتیاز روشنی اور حرارت کا سامان رکھتا ہے اور ساری دنیا کو ایک‬
‫ہی نظر سے دیکھتا ہے۔ روشن ضمیر بھی مساوات کے اس برتاو پرمل کرتا ہے۔ اس شعر میں ذوق‬
‫سہی بات پیش کرتے ہیں کہ ہم بھی سورج کی طرح سبھی اچھے بُروں کو ایک آنکھ سے دیکھتے‬
‫ہیں اور اچھے ُبروں سبھی لوگوں سے نہایت اخالق سے ملتے ہیں۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے‬


‫کی‬ ‫جنوں‬
‫اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری‬
‫کا‬
‫(ذوق)‬
‫تشریح‪ :‬قید خانے میں بھی ہمارا جنون کم نہیں ہوا۔ یعنی اسیری کی حالت میں بھی ہمارے جنوں میں‬
‫کوئی کمی نہیں ہے اب تو صرف اور صرف پتھر ہیں ہماری اس وحشت اور دیوانگی کا واحد عالج‬
‫ہے۔ دیوانگی میں پتھر سے سر ٹکرانے سے یہ جنوں شاید آرام پائے ۔ عالم دیوانگی میں عموما ً‬
‫متاثرہ شخص کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے تا کہ وہ خودکو اور دوسروں نقصان نہ پہنچائے ۔‬
‫شاعر کہتا ہے کہ مجھے اس قید خانے میں اس لیے رکھا گیا ہے کہ میری جنونی حالت درست‬
‫ہوجائے لیکن یہ مرض اس اسیری میں بھی ختم نہیں ہوا۔ اب تو پتھر ہی ہمارا عالج ہے۔ اس عالم‬
‫دیوانگی میں ہمیں پتھر سے ٹکرائے دیا جائے ۔ تا کہ یہ جنوں کسی کنارے پر لگے۔ اب اسے ہی‬
‫ہماراعالن سمجھاجائے۔‬
‫ہے پرے سرح ِد ادراک سے اپنا‬
‫مسجود‬
‫قبلہ کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں‬
‫(غالب)‬
‫تشریح‪:‬ہمارا مسجود ادراک و شعور کی حدوں سے آگے ہے یہ جو ہم قبلہ کی سمت منہ کر کے‬
‫عبادت کرتے ہیں یہ تومحض ہللا تعالی کو یاد کرنے کی ایک سمت متعین ہے۔ گویا قبلہ محض قبلہ‬
‫نما ہے۔ ہمارا مسجود ہمارے وہم و گماں اور تصور شعور سے بھی باالتر ہے۔ وہ سوچ میں آ ہی نہیں‬
‫ت حقیقی کا تصور‬‫سکتاہم اس کو سجدہ کرتے ہیں حقیقت میں ہم قبلہ ہی کو سامنے رکھ کر ذا ِ‬
‫باندھتے ہیں ۔ سو اہل نظر اور دانشوروں کی نگاہ میں یہ کعبہ فقط کعبہ نما ہے۔ اصل مسجود تو‬
‫ہمارے وہم و ادراک سے بلند و باال ہے۔‬
‫ہوا ہوں عشق کی غارت گری سے‬
‫شرمندہ‬
‫سوائے حسرت تعمیر گھر میں خاک‬
‫نہیں‬
‫(غالب)‬
‫تشریح‪ :‬غالب اس شعر میں عشق کی غارت گری اور تباہی سے شرمندہ ہو رہے ہیں اس لیے کہ‬
‫عشق انسان کو تاہ و برباد کر دیتا ہے۔ عشق گھر اجاڑ دیتا ہے۔ غالب عشق کی اس تباہی سے شرمندہ‬
‫اس لیے ہیں کہ ان کا گھر کی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں عشق اپنے ساتھ تباہی و بربادی التا ہے۔ میں‬
‫نے بھی عشق کیا ہے وہ مجھے بھی اجاڑ دے گا لیکن میرے پاس تو عشق کے اجاڑنے کے لیے‬
‫کچھ نہیں ہے۔ میرے پاس حسرت تعمیر کے سوا کچھ نہیں میں گھر بنانے کی حسرت رکھتا ہوں۔ اب‬
‫عشق کیا تباہ کرے گا میں عشق سے بے حد شرمندہ ہوں کہ اس کو پیش کرنے کے لیے مرے پاس‬
‫کچھ نہیں ہے۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫دام ہر موج میں ہے حلقہء صدگام‬


‫نہنگ‬
‫دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر‬
‫تک‬ ‫ہونے‬
‫(غالب)‬
‫تشریح‪ :‬غالب کہتے ہیں کہ ہرقطرے کو موتی بننے کے عمل تک پہنچنے کے لیے جانے کتنی‬
‫دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے دریا میں پانی کا قطرہ ہر لمحہ ایک مصیبت میں گرفتار ہے۔ اور ہر‬
‫موج کے جال میں سینکڑوں مگر مچھ منہ کھولے اس کے منتظر رہتے ہیں سو موتی بننے کے لیے‬
‫قطرے کو بے شمار تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ انسان کو کندن بننے کے‬
‫لیے مشکالت کی کھٹالی سے گزرنا پڑتا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں‬
‫ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ‬
‫ہے‬ ‫روتی‬
‫بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں‬
‫پیدا‬ ‫ور‬ ‫دیدہ‬
‫ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی‬
‫ہے‬
‫بیٹھ جاتے ہیں جہاں چھاؤں گھنی‬
‫ہے‬ ‫ہوتی‬
‫(غالب)‬
‫تشریح‪:‬غریب الوطنی بھی کیا چیز ہوتی ہے۔ وطن سے دوری بھی ایک عذاب ہوتا ہے جہاں کوئی‬
‫آشنانہیں ہوتاہر پل ایک نئی مصیبت ہوتی ہے۔ مسافرتھک کر چور رہتا ہے۔ اور وہ وہیں آرام سے‬
‫بیٹھ رہتا ہے جہاں چھاؤں گھنی دیکھتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ مسافرتو بس گھنی چھاؤں کومنزل سمجھ‬
‫لیتا ہے۔ غریب الوطنی دکھ ہی ایسا ہے کہ کسی پل انسان کو سکون نہیں ملتا اور وہ ہر مقام‬
‫پرسستانے کی کوشش کرتا ہے۔‬
‫اپنی تصویر پر بھی نازاں ہو‪ ،‬تمھارا‬
‫ہے‬ ‫کیا‬
‫آنکھ نرگس کی وہن غنچہ کا حیرت‬
‫میری‬
‫(داغ)‬
‫تشریح‪ :‬شاعر کہتا ہے کہ اے میرے محبوب تم اپنی تصویر پرناز کر رہے ہولیکن تمھیں شاید علم‬
‫نہیں کہ تمھارے حسن میں تمھاری کوئی چیزنہیں ہے تمھاری آنکھ نرگس کے پھول کی ہے۔ دہن‬
‫غنچے کا ہے اور حیرت میری شامل ہے۔ سوتمھاری تصویر میں یہ ساری خوبصورتیاں دوسروں‬
‫کی عطا کردہ ہیں تمھارا اس میں کیا کمال ہے سوتم کا ہے غرور اور تکبر کرتے ہو۔‬
‫دنیا‬ ‫گی‬ ‫رہے‬ ‫آباد‬ ‫دائم‬
‫ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا‬
‫(ناصر کاظمی)‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫تشریح‪ :‬ناصر کاظمی اس شعر میں دنیا کی رونق اور چہل پہل کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس‬
‫دنیا کی رونق اور رنگ ونورکسی کے محتاج نہیں ہیں کسی کے ہونے نہ ہونے سے اس دنیامیں‬
‫کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ دنیا کی طرح ہمیشہ آباد رہے گی کہ اگر کوئی انسان یہ سمجھتا ہے کہ جب‬
‫وہ دنیا سے چال جائے گا تو اس دنیا کے سارے کام دھندے بند ہو جائیں گے۔ ساری رونق اور چہل‬
‫پہل ختم ہو کر رہ جائے گی تو یہ اس کی خام خیالی اور حماقت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا ہمیشہ اسی‬
‫طرح آباد اور قائم دائم رہے گی۔ آج اگر مجھ سا با ہنر شاعر ہے تو کل میری جگہ کوئی اور باکمال‬
‫شاعر لے لے گا۔ ہم نہ ہوئے تو کوئی ہم جیسا ہو گا۔ دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس کے کام اسی‬
‫طرح جاری و ساری رہیں گے یہ ہمیشہ آباد رہے گی۔‬

‫ہمارے گھر کی دیواروں پر ناصر‬


‫اداسی بال کھولے سو رہی ہے‬
‫(ناصر کاظمی)‬
‫تشریح‪:‬ناصر کاظمی اپنی روایتی اداسی اور ویرانی کی عکاسی کررہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ‬
‫ہمارے گھر کی دیواروں پر اداسی بال کھولے سورہی ہے۔یعنی در و دیوار پر ہر سمت اداسی اور‬
‫ویرانی چھائی ہوئی ہے۔ یوں تمام گھر اداس اور غمزدہ دکھائی دیتا ہے۔ سو ہم بھی اداس ہیں ۔ اداسی‬
‫کی کیفیت کو کھلے بالوں سے واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کھلے بال ویرانی کی عالمت‬
‫ہیں دیکھ کے اظہار کے لیے بال کھولے جاتے ہیں۔ خصوصا ً عورتیں کسی کا ماتم کرنے کے لیے‬
‫بال کھول کر روتی ہیں۔ یوں ویرانی اداسی اور بدنصیبی کا اظہار کیا جاتا ہے۔‬
‫کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر‬
‫گا‬ ‫جاؤں‬
‫میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں‬
‫گا‬
‫(احمد ندیم قاسمی)‬
‫تشریح‪ :‬احمدندیم قاسمی اس شعر میں موت کے مضمون کو واضح کررہے ہیں اور فلسفے کے‬
‫حوالے سے اظہار خیال کر رہے ہیں۔‬
‫وہ کہتے ہیں کہ موت بھی ایک مرحلہ ہے۔ جیسے دریا باآلخر سمندر میں جا گرتا ہے۔ اس طرح‬
‫انسان بھی جہاں سے آتا ہے وہیں واپس چال جاتا ہے۔ شعر میں انسان کی حقیقت کو بیان کرنے کی‬
‫کوشش کی گئی ۔ جیسے غالب کہتے ہیں ‪:‬۔‬
‫قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا‬
‫لیکن‬
‫ہم کو تقلی ِد تنگ ظرفی مبضور نہیں‬
‫کچھ یادگار شہر ستمگر ہی لے چلیں‬
‫آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے‬
‫چلیں‬
‫(ناصر کاظمی)‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫تشریح‪:‬اب اس گلی میں آہی گئے ہیں تواس ظالم کےشہر کی یادگار یہی پتھر لے چلیں۔ کسی طرح تو‬
‫اس کی یاد اور نشانی ہمارے پاس رہے محبوب کی گلی کے پتھر بھی اچھے لگتے ہیں ۔ شاعر کہتا‬
‫ہے کہ وہ ستم گر خودنہیں مال اور اس کے شہر میں ہم آئے تو میں کیوں نہ اس کی گلی سے چند‬
‫پتھر ہی نشانی کے طور پر ساتھ رکھ لیں ۔ اسی بہانے اس کی یاد تو آتی رہے گی۔‬
‫دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی‬
‫طرف‬
‫اپنے ہی دوستوں سے مالقات ہو گئی‬
‫(حفیظ جلندھری)‬
‫تشریح‪ :‬اس شعر میں حفیظ جالندھری آج کل کے دوستوں کی بے وفائی کا گلہ خوبصورت انداز میں‬
‫کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے تیر کھا کر مورچے کی طرف سے دیکھا تو وہاں میرے ہی‬
‫دوست دکھائی دے۔ یعنی وہ میرے اپنے ہی دوست تھے۔ کوئی غیر مجھے مارنے واال نہ تھا بلکہ‬
‫میرے دوست تھے۔ چنانچہ آج کے دوستوں پر اعتبار کرنا سراسر حماقت اور نادانی ہے۔ آج دوست‬
‫ہی پیٹھ میں خنجرگھونپتے ہیں۔‬
‫شاعر زمانے کی بے حسی اور مروت واخالص کے زوال کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یعنی اب ہر‬
‫طرف مفاد پرستی ہے۔ دوستی یاری کا رشتہ بھی الئق اعتبارنہیں ہے۔‬
‫نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ‬
‫دیا‬ ‫گنوا‬
‫جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ‬
‫دیا‬ ‫لٹا‬ ‫داغ‬
‫(فیض)‬

‫تشریح‪ :‬مذکورا باال شعر میں فیض احمد فیض کہتے ہیں اپنے تیروں کو روک لو میرا دل ریزہ ریزہ‬
‫ہو گیا ہے۔ اب مزید ستم برداشت کی قوت نہیں ہے تم اپنے بچے ہوئے کنکرسنبھال لو۔ یہ پھر کام‬
‫آئیں گے ہم زخموں سے چور چور ہیں ۔ مزید تمھارے ستم کا کوئی فائدہ نہیں ہے ہمارا دل ریز ریز‬
‫و اور جسم داغ داغ ہو چکا ہے ۔ اب فضول اپنے تیر اور پتھر ضائع مت کرو۔‬

‫مرے چارہ گر کو نوید ہو صف‬


‫خبر‬ ‫کو‬ ‫دشمناں‬
‫وہ جوقرض رکھتے تھے جان پر وہ‬
‫دیا‬ ‫چکا‬ ‫آن‬ ‫حساب‬
‫(فیض)‬
‫تشریح‪ :‬مرے چارہ گر کویہ خوش خبری دو اور دشمنوں کی صفوں تک یہ بات پہنچا دو کہ ہم نے‬
‫اپنی جہاں وار کر وہ حساب چکا دیا ہے۔ چارہ گر کو اب میر ے عالج کی زحمت نہیں اٹھانے پڑے‬
‫گی اور دشمن بھی میری موت پر خوش ہوں گے۔ ہم اپنی جان پر جوقرض رکھتے تھے‪ ،‬آج وہ‬
‫حساب بے باق کر دیا ہے۔ اب ہم پر کوئی قرض جاں نہیں ہے۔ ہر طرف ہماری موت کی خبر پہنچا‬
‫دو کہ اب دشمنوں کے راستے کی دیوار گرگئی ہے۔ ان کی ہر رکاوٹ ختم ہو کر رہ گئی ہے۔‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫میری ساری زندگی کو بے ثمر اس‬


‫کیا‬ ‫نے‬
‫عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس‬
‫کیا‬ ‫نے‬
‫(منیر نیازی)‬
‫تشریح‪ :‬منیر نیازی کہتے ہیں کہ میری ساری زندگی کو اس نے بے ثمر کر دیا ہے اور یوں جو‬
‫زندگی میری تھی وہ اس نے گزاری ہے۔‬
‫ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ‬
‫کو‬
‫میں ایک دریا کے پار اترا تو میں‬
‫دیکھا‬ ‫نے‬
‫(منیر نیازی)‬
‫تشریح‪ :‬میں ایک دریا کو پار کر چکا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک اور دریا میرے راستے میں ہے۔‬
‫مجھے ایک کے بعد ایک اور مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ مراد یہ ہے کہ ایک مرحلہ زندگی کا ہے اور‬
‫مرنے کے بعد ایک اور مرحلہ درپیش ہے۔ فلسفیانہ انداز میں زندگی کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔‬
‫شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول‬
‫گئے‬
‫کس کی ماں نے کتنا زیوربیچا تھا‬
‫(اسلم کولسری)‬
‫تشریح‪:‬وقت بدلنے کے ساتھ انسان اپنا ماضی اپنی اوقات بھول جاتا ہے۔ اس شعر میں اس موضوع‬
‫کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا کہ گاؤں سے اپنا مستقبل بنانے کی غرض سے شہر میں آنے والے‬
‫اپناماضی فراموش کر بیٹھے ہیں کہ ان کی تعلیم و ترقی کے لیے ‪ ،‬ماؤں نے اپنے زیور تک بیچ‬
‫دیئے تھے۔ اب وہ اپنی ماں کو بھی بھول بیٹھے ہیں ۔ اپنا ماضی فراموش کر بیٹھے ہیں۔‬
‫وہ بات سارے فسانے میں جس کا‬
‫تھا‬ ‫نہ‬ ‫ذکر‬
‫وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے‬
‫(فیض)‬
‫تشریح‪ :‬وہ بات جس کا ذکر پوری کہانی میں کہیں نہیں تھاوہی بات انھیں بے حد ناگوار گزری ہے۔‬
‫مراد یہ ہے کہ عشق میں بعض اوقات ان باتوں کوبھی برداشت نہیں کیا جاتا جو معمولی ہوتی ہیں ۔‬
‫محبوب کی ایک ادا یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ معمولی سی بات پر خفا ہو جاتا ہے۔ وہ جس بات پر بظاہر‬
‫ناراض ہوتا ہے اصل بات وو نہیں ہوتی۔ یہ شکایت کا اک بہانہ ہوتا ہے۔ شاعر نے نے اس کیفیت کو‬
‫بیان کیا ہے کہ جو قصور میں نے نہیں کیا اس کی سزا بھی دی گئی ہے جو بات کی ہی نہیں گئی اس‬
‫پروہ خفا ہوتے ہیں ۔‬
‫دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے‬
‫ب غم گزار‬ ‫وہ جا رہا ہے کوئی ش ِ‬
‫کے‬
‫نوٹس‪:‬۔اردو‬

‫(فیض)‬
‫تشریح‪ :‬فیض محبت میں اپنا سب کچھ بنانے والے کا تذکرہ کررہے ہیں کہ دونوں جہان تیری محبت‬
‫میں ہار کر کوئی رخصت ہورہا ہے۔‬
‫یعنی شب غم گزارنے کے بعد اور اتنا طویل انتظار کرنے کے بعد بھی اگر مجبوب نہیں آتا تو اس‬
‫سے زیادہ مایوسی اور بددلی کی اور کیا بات ہوگی ۔ اور یہ تو دونوں جہان محبت میں ہارنے والی‬
‫کیفیت ہے۔‬
‫خالصتا ً رومانی شعر ہے جس میں محبوب کی بے اعتنائی اور عاشق کے خلوص اور ایثار کا‬
‫تذکرہ ہے۔‬
‫در زنداں پر آ کے‬ ‫صبا نے پھر ِ‬
‫دی‬ ‫دستک‬
‫سحر قریب ہے دل سے کہو نہ‬
‫گھبرائے‬
‫(فیض)‬
‫تشریح‪ :‬فیض احمد فیض ایک ترقی پسند شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں جبر واستحصال اور نا‬
‫انصافی کے خالف ایک مزاحمت کا رنگ نمایاں ہے وہ رومان کے پردے مزاحمتی انداز رکھتے ہیں‬
‫۔ اس شعر میں ایک امید کا پیغام نظر آتا ہے کہ صبا نے ایک بار پھر زنداں کے دروازے پرآ کر‬
‫دستک دی ہے اوراس میں یہ پیغام ہے کہ صبح قریب ہے‪ ،‬رات ختم ہونے والی ‪ ،‬دل کو کہو کہ وہ‬
‫بے تاب نہ ہو۔ رات سے مرادظلم کی سیاہ تاریکی ہے۔ نجات کی منزل قریب ہونے کا اشارہ دیا گیا‬
‫ہے۔‬
‫لکھتے رہے جنوں کی حکایات خوں‬
‫چکاں‬
‫ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے‬
‫(فیض)‬
‫تشریح‪ :‬ہم اپنے جنوں یا داستان خوں رنگ لکھتے رہتے ہیں یہ الگ بات کہ اس میں ہمارے ہاتھ قلم‬
‫کر دیئے گئے قلم لکھنے کے معنوں میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ہاتھ قلم ہوا ‪ ،‬محاورہ ہے ۔ شاعر‬
‫نے اس محاورے سے فائدہ اٹھایا ہے یوں شعر کے حسن میں اضافہ ہو گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ ہم‬
‫محبت اور صداقت کی راہ پر چلتے رہے ہیں اور یہ کہانیاں لکھتے ہوئے ہم سے ہمارے ہاتھ چھن‬
‫گئے لیکن ہماری ہمت ختم نہیں ہوئی ۔ ہم حق و صداقت کے راستوں پر گامزن رہے۔‬

You might also like