Professional Documents
Culture Documents
نوٹس
اردو
اہم محاورات
آ
شرمندہ ہونا( ،پانی پانی
اشکبار ہونا آب دیدہ ہونا ہونا) سخت بے بسی آب آب ہونا
محسوس کرنا
دانہ پانی ختم ہونا ،رزق
عزت پر حرف آنا ،عزت نہ رہنا
آبرو پر حرف آنا ختم ہونا ،موت انا ،الوداع آب و دانہ ختم ہونا
بے عزت ہونا ،رسوا ہونا
ہونا
حواس باختہ ہو جانا ،ہوش نارہنا آپ میں نہ رہنا خوشامد اور چاپلوسی کرنا آپ آپ (کرنا) کہنا
آپ سے بے آپ اپنا غصہ کسی اور پر آپ ہارے ،بہو کو
بہت بے تاب و بے قرار ہونا
ہونا نکالنا مارے
احمقوں کی طرح خود بخود
دل خوش کرنا ،روح راضی کرنا آتما ٹھنڈی کرنا آپ ہی آپ باتیں کرنا
بولتے جانا
بھوک لگنا ،خواہش ہونا،
گل سڑ جانا ،بوسیدہ ہونا آٹا آٹا ہو جانا آتما میں آگ لگنا
محبت کی آگ ،پیاس
گناہ گار کے ساتھ معصوم کو سزا آٹے کے ساتھ گھن دھمکانا ،ڈرانا ،خوفزدہ
آٹے دال کا بھاؤ بتانا
ملنا پیسا کرنا
پھوٹ پھوٹ کر زارو قطار
کبھی کبھی آٹا ،گاہے گاہے آنا آٹھویں ساتویں آنا آٹھ آٹھ آنسو بہانا
رونا
آدمی کے جامے میں
مسلح ہونا ،خود کو سجانا آراستہ پیراستہ ہونا شرافت اپنانا
آنا
ہاں ہاں کرنا ،ٹالنا آرے بلے کرنا تمنا پوری نہ ہونا آرزو کا خون ہونا
لڑنے مرنے پر تیار ہونا ،مستعد
بُرا بھال کہنا ،خوب خبر لینا آستین چڑھنا آڑے ہاتھوں لینا
ہونا
بے جا تعریف و توصیف آسمان پرچڑھنا،
مصیبت میں گرفتار ہونا آسمان ٹوٹ پڑنا
کرنا ،خوشامد کرنا چڑھانا
انتہا درجے کی کوشش آسمان زمین کے
شوروغل مچانا آسمان سر پراٹھانا
کرنا ،مبالغہ آرائی کرنا قالبے مالنا
آسمان سے باتیں آسمان سےآگ
بہت اونچا ہونا سخت گرمی ہونا
کرنا برسنا
نا ممکن کو ممکن بنانا، آسمان کے تارے
آزاد پہنچناُ ،دکھ پہنچنا ،صدمہ ملنا آسیب پہنچنا
مشکل کام کرنا توڑنا
آفتاب سوا نیزے پر آسمان میں تھگلی
سخت گرمی ہونا ،قیامت آنا چاالک ہوشیار ہونا
آنا لگانا
دوپہر کا وقت ،اوج کمال پر آفتاب نصف النہار پر
ناگوار گزرنا ،بیزاری کا اظہار آنتیں منہ کو آنا
ہونا ،سورج سر پر ہونا ہونا
عزت کرنا ،احتراف کرنا آنکھوں پر بٹھانا نقصان نہ پہنچنا آنچ نہ آنا
بے شرم ہونا ،بے نیاز ہونا ،بے آنکھوں ٹھیکری آنکھوں پر پٹی
دانستہ انجان بننا
پروا ہونا رکھنا باندھا
آنکھوں میں خون
سخت غصہ کی حالت میں ہونا احترام کرنا ،استقبال کرنا آنکھیں بچھانا
اترنا
کترانا ،دامن بچانا آنکھیں چرانا سامنا ہونا آنکھیں چار ہونا
نوٹس:۔اردو
سخت غصے میں ہونا آنکھیں الل ہونا غصے میں آنا آنکھیں دکھانا
آنکھوں سے نکیل
مذاق اڑانا آواز کسنا مرنے لگنا
ڈالنا
اوپر سے نیچے تک خرابی آوے کا آوا بگڑنا توجہ کرنا ،دھیان دینا آواز پر کان دھرنا
شک و شبہ پیدا ہونا آئینے میں بال آنا واضح کرنا آئینہ کر دینا
بےحس ہونا آنکھیں پتھراجانا
اپنا سامنہ لےکے رہ
رنج اٹھانا ،دکھ سہنا اپنا خون پینا شرمندگی محسوس کرنا
جانا
اپنے کام میں مست رہنا ،اپنا راستہ
اپنی رادھا یادآنا شکایت کرنا اپنی جان کو رونا
پکڑنا
اڑتی چڑیا کے پر
اپنے آپ میں رہنا ازخود رفتہ ہونا چاالک ہونا
گننا
خالف عقل خالف ضابطہ ِ
پاگل بنانا ،بے وقوف بنانا الو بنانا الٹی گنگا بہنا
کوئی کام ہونا
حسد اور غصے میں جلنا انگاروں پر لوٹنا اپنا مفاد نکالنا اپنا الو سیدھا کرنا
اوکھلی میں سر دینا اپنے آپ کو ہالکت میں ڈالنا تنگ کرنا ،ذلیل کرنا انگلیوں پر نچانا
بڑی دوڑ دھوپ کرنا ،
حواس کا بگڑنا ،ہوش کھو دینا اوسان خطا ہونا ایڑیاں گھس جانا
کوشش کرنا
اینٹ سے اینٹ تمام کے ساتھ ایک جیسا ایک الٹھی سے
تباہ کر دینا ،اجاڑ دینا
بجانا سلوک کرنا ہانکنا
ب
معمولی بات کو بڑھا چڑھا
عزت بچ جانا بات رہ جانا بات کا بتنگڑ بنانا
کر پیش کرنا
بات کو گرہ میں
کسی قول کو پلے باندھنا فساد کھڑا کر دینا بات بڑھانا
باندھنا
باتوں باتوں میں رام
گفتگو سے قائل کرنا کام ہو جانا بات بن جانا
کرنا
زیادہ چہل پہل ،رونق اور چرچا ، بہانہ بنانا ،جھوٹ اور
بازار گرم ہونا باتیں بنانا
خوب ،خریدہ فروخت ہونا دھوکہ دینا
باریکیوں میں پڑنا ،بے جا
کٹھن کام ہونا ٹیڑھی کھیر ہونا بال کی کھال اتارنا
کریدنا
دعوی کرنا ،غرورٰ بے جا
شرمندہ ہونا بغلیں جھانکنا بڑا بول بولنا
کرنا
لمبی زبان ،باتونی ہونا اور
غصہ نکالنا بر س پڑنا بڑی زبان ہونا
بد زبان ہونا
باعث آزاد ہونا ،باعث دکھ
کچھ نہ بگاڑ سکنا بال بیکا نہ کرنا بالئے جان
ہونا
راز فاش کرنا بھانڈا پھوڑنا خراب کر دینا بنگاتھونکنا
شرمندہ اور ذلیل و خوار
مقبولیت ہونا بول باال ہونا بھیگی بلی بننا
ہونا
جھوٹ بولنا بےپر کی اڑانا غصے سے اونچا بولنا بادل کی طرح گرجنا
نوٹس:۔اردو
اجاڑ ،ویران ،برباد ہونا بے چراغ ہونا برا بھال کہنا ،گالیاں دینا بے نقط سنانا
درگت بننا ،زیادہ مار پڑنا بے بھاؤ کی پڑنا ذمہ داری لینا بیٹرا اٹھا
ناپسندیدگی کا اظہار بھاویں ہی نہ آنا نادان اور بے وقوف بے دال کا بودم
پ
محنت ضائع کر دینا پانی پھیرنا واسطہ پڑنا پاال پڑنا
سخت محنت اور جدو جہد
شرمندہ اور پشیمان ہونا پانی پانی ہونا پاپڑ بیلنا
کرنا
پانی چھا جو ں
فساد پیدا کرنا پانی میں آگ لگانا شدید بارش ہونا
برسنا
خوفزدہ ہونا پتا پانی ہونا پاؤں میں مہندی لگنا بے جا عذر اور بہانہ کرنا
انمٹ نقش ہونا ،پکی بات
چاالک ہونا پر ،پرزے نکالنا پتھر پر لکیر ہونا
ہونا
پتھر کا جگر پانی
سخت دل کو ترس آنا پتھر چھاتی پر دھرنا جبر برداشت کرنا
ہونا
استقبال کرنا بے عزتی کرنا ،رسوا کرنا پلکیں بچھانا پگڑی اچھالنا
مصیبت میں گرفتار ہونا پہاڑ ٹوٹنا چڑھاوا چڑھانا پرشاد چڑھانا
بھوک برداشت کرنا پیٹ پر پتھر باندھنا بچت کرنا پیٹ کاٹنا
غصے میں آنا ،ناراضگی پھونک پھونک کر
احتیاط کرنا پیچ و تاب کھانا
قدم رکھنا کا اظہار کرنا
ٹال مٹول کرنا پس و پیش کرنا بدلہ لینا ،غصہ نکالنا پھپولے پھوڑنا
فخر سے چلنا باعث رنج ہونا ،پریشان ہونا پنجوں کے بل چلنا پیٹ تھامے پھرنا
ت
فوراً جواب دینا ،برجستہ جواب ترکی بہ ترکی
شب بھر جاگتے رہنا تارے گننا
دینا جواب دینا
غرور و تکبر خاک میں
برداشت نہ کرنا تاب نہ النا ترکی تمام ہونا
ملنا
اعتبار کرنا تکیہ کرنا خوشامد کرنا تلوے چاٹنا
بد لحاظ ہونا ،محبت ختم
بہادری ختم ہونا تلوار گر جانا تلوں میں تیل نہ ہونا
ہونا
اچھی ڈیل ڈول کا ہونا ،سخت جان
تن و توش کا آدمی پریشان کرنا تگنی کا ناچ نچانا
آدمی ہونا
پرزے پرزے کرنا ،تقسیم
نفرت کا اظہار کرنا تھو تھو کرنا تیاپانچا کر رنا
کرنا
تھوڑے پانی کا بلبلہ کم ہمت ،کم طرفی ،کمینہ معمولی مدد ہونا تقدیر پھوٹ جانا
لعنت بھیجنا تبرا بھیجنا لعنت بھیجنا تیور حرف بھیجنا
وعدہ یا قسم توڑنا توبہ توڑنا
نوٹس:۔اردو
ٹ ،ث
ٹس سے مس نہ
اثر نہ ہونا میل کرانا ٹانکا لگانا
ہونا
ٹکٹکی باندھ کر
رنج پہنچنا ،صدمی ہونا ٹھیس لگنا متواتر دیکھنا ،گھورنا
دیکھنا
پٹڑی سے اتر جانا ،بُری صحبت نفرت اور دشمنی سے
ٹیڑھی چال چلنا ٹیڑھی آنکھ دیکھنا
میں پڑنا دیکھنا
منتیں کرنا ٹھوڑی پکڑنا منہ پر صاف انکار ٹکاسا جواب
مستقل مزاجی ،ڈٹے رہنا ثابت قدم رہنا دوستی اور بھائی چارہ ہونا ٹوپی بدلنا
ضامن ہونا ثالثی کرنا کامیابی ملنا ثمر بار ہونا
ج۔ چ
ث مصیبت عذاب ہونا ،باع ِ
قریب الموت ہونا جان بلب ہونا جان کا وبال ہونا
ہونا
آسرا ہونا ،حوصلہ قائم ہوجانا جان میں جان آنا جامے سے باہر ہونا آپے سے باہر ہونا
موت کے قریب ہونا جان ہونٹوں پر آنا مصیبت میں گرفتار ہونا جان کے اللے پڑنا
برداشت سے کام لینا جگر تھامنا مصیبت میں ہونا جان سولی پر ہونا
سخت صدمہ اٹھانا جگر نا سور ہونا جگر پر پتھر رکھنا صبرو تحمل کرنا
جنگل میں منگل
ویرانی میں آبادی یا رونق ہونا جھگڑا بڑھانا جلتی پر تیل ڈالنا
ہونا
لڑائی جھگڑا ہونا جوتا اچھلنا جوتیوں میں دال بٹنا دنگا فساد ہونا
کٹھن کام کرنا جوئے شیر النا سخت جدو جہد کرنا جوتیاں توڑنا
صالحیتیں ظاہر ہونا جوہر کھلنا حماقت کرنا جھک مارنا
برباد ہو جانا جیتے جی مرنا ترس آنا جی بھر آنا
ت رنج و غم شد ِ جہاں سیاہ ہونا اجاال کرنا جوت جگانا
عزت و احترام کرنا جوتیاں سیدھی کرنا بد دل اور مایوس ہونا جی چھوٹ جانا
جان قربان کرنا جان نثار کرنا غصے میں آنا جنون چڑھنا
خوبصورتی میں اضافہ
بہت بے تاب ہونا چار ہاتھ اچھلنا چار چاند لگانا
کرنا
چادر دیکھ کر پاؤں
اپنی اوقات کے مطابق رہنا کسی پر تہمت لگانا چاند پر تھوکنا
پھیالنا
ختم ہونا چراغ گل ہونا موت کے قریب ہونا چراغ سحری ہونا
چولی دامن کا ساتھ
زبر دست واسطہ ہونا دوڑ جانا ،غائب ہو نا چمپت ہونا
ہونا
تلمالنا ،سخت غصے میں ہونا، چھاتی پر سانپ پریشانی میں حواس کھو
چوکٹری بھول جانا
اذیت میں ہونا لوٹنا بیٹھنا
دکھ مصیبت میں اچھے
شکست تسلیم کرلینا چیں بولنا چھٹی کا دودھ یادآنا
دنوں کو یاد کرنا
زوال کے قریب ہونا چیونٹی کے پر نکلنا
نوٹس:۔اردو
ح
اعتراض کی گنجائش نہ ہونے
حجت تمام کرنا الزام آنا حرف آنا
دینا
شرم و حیا ختم ہو نا حجاب اٹھنا بائیکاٹ کرنا حقہ پانی بند کرنا
آفت یاد نگا فساد کا منظر حشر برپا ہونا افسوس ناک صورتحال حسرت برسنا
محنت سے رزق کمانا حالل کرکے کھانا
خ
موت آنا خاک پیوند ہونا بدنام کرنا خاک اڑانا
بھٹکنا پھرنا خاک چھاننا برباد ہونا خاک ہونا
بد لحاظ ہونا ،محبت باقی نہ رہنا خون سفید ہونا دھن سوار ہونا خبط سوار ہونا
خواب خرگوش کے
نقصان ہونا خمیازہ بھگتنا نیند کے مزے اڑانا
مزے لینا
سخت غصے کی حالت میں
خواب دیکھنا ،دور منصوبے خون آنکھوں میں
ہونا ،قتل کرنے کے درپے خیالی پالؤ پکانا
باندھنا اترنا
ہونا
فاصلہ پیدا ہو جانا ،ناراضگی خلیج حائل ہونا ترک کر دینا خیر باد کہہ دینا
خون کے گھونٹ پینا صبر کرنا
د
سولی چڑھنا دار پر چڑھنا کامیابی ہاتھ نہ آنا دال نہ گلنا
جال بچھانہ ،دھوکہ دینا دام بچھانا رعب پڑنا داب بیٹھ جانا
دانتوں تلے انگلی
حیران ہونا شکست ہونا دانت کھٹے ہونا
دبانا
دروازے پر ہاتھی
متمول ہونا مفلس ہونا دانت پر میل نہ ہونا
جھومنا
دقیقہ فروگزاشت نہ دریا کر ہاتھ سے
سخت کوشش کرنا کٹھن کام کی نیت باندھنا
کرنا روکنا
طویل کہانی ،مختصر بات دریا کوزے میں بند
اندر سے بے چین کرنا دل میں چٹکی لینا
میں کہہ دینا کرنا
مایوس ہونا دل بیٹھنا دل کا بھید چھپا کر رکھنا دل پر قفل لگانا
حسرت پوری نہ ہونا دل کی دل میں رہنا تمنا پوری ہونا دل کی کلی کھلنا
مجال نہ ہونا دم نہ مارنا خوف سے گھبراجانا دل ہوا ہو جانا
جنون ،بھوت سوار ہونا دماغ کا خلل ہونا خوفزدہ ہو کر بھاگنا دم دبا کر بھاگنا
دودھ کے دانت نہ
پرزے اڑانا ،ذلیل و رسوا کرنا دھجیاں اڑانا نا بالغ ہونا
ٹوٹنا
سخت محنت اور جدو جہد دوڑ دھوپ آمنے سامنے ہونا دُوبدو ہونا
تنہا شور مچاتے رہنا دیوار سے لڑنا بے شرم ہو جانا دیدے کا پانی ڈھلنا
نوٹس:۔اردو
ر۔ز
خون خشک ہونا۔ حیران و معمولی بات کو بڑھا چڑھا
رنگ فق ہونا رائی کا پہاڑ بنانا
ششدررہ جانا کر پیش کرنا
رنگ میں بھنگ
خوشی میں بد مزگی پیدا کر دینا بھاگ جانا۔غائب ہو جانا رفو چکر ہونا
ڈالنا
آنا رونق افروز ہونا سکہ جمانا رنگ جمانا
جھگڑا مٹانا۔ فیصلہ دینا راندھ کاٹنا شدید دکھ کر اظہار راکھ سر پر ڈالنا
رونگٹے کھڑے ہو
خوفزدہ ہونا۔ اوسان خطا ہو جانا رنگ و روپ ختم ہو جانا رنگ مٹ ہونا
نا
روپیہ ٹھیکری کر
فضول خرچی کرنا صبر کر لینا رو پیٹ کر بیٹھ جانا
دینا
روٹی پر روٹی رکھ
عیش و آرام میں ہونا باز آجانا رفت گزشت کرنا
کے کھانا
موافق آجانا راس آنا راستہ نکالنا ،چارہ کرنا راہ نکالنا
زمین و آسماں کے
کچھ زیادہ ہی مبالغہ آرائی کرنا بات کاٹنا ،سچ کو دبانا زبان کاٹنا
قالبے مالنا
انقالبی تبدیلی یاد آجانا زمانا الٹ جانا سخت شرمندہ ہونا زمین میں گڑنا
زندگی و بال جان
کسی کے خالف بات کرنا زہراُگلنا سخت آزار میں ہونا
ہونا
زخموں پر نمک
سخت اذیت دینا
پاشی کرنا
س۔ ش
حاالت کے مطابق تبدیل کرنا سانچے میں ڈھالنا خاموش ہوجانا سانپ سونگھ جانا
ذلیل و کمینہ ہونا سبک سر ہونا خواب دکھانا ۔ دھوکہ دینا سبز باغ دکھانا
عذاب میں ہونا ،مرنے پر
احتیاط ہونا۔ اہم خاصیت ہونا سرخاب کا پر لگنا سروبال دوش ہونا
آمادہ
سورج کو چراغ
عقل مند کو دانائی کی بات کہنا حاالت کا مقابلہ کرنا سینہ سپر ہونا
دکھانا
ستارہ عروج پر سر پر بھوت سوار
خوشی بختی ہونا کوئی دھن سوار ہونا
ہونا ہونا
ستارہ گردش میں
سر پرست اور نگران کا مرنا سایہ سر سے اٹھنا خراب حاالت ہونا
ہونا
جھوٹ سے فساد بر پا کرنے کی
شگوفہ چھوڑنا تقسیم ہو کر رہ جانا شیرازہ بکھرنا
کوشش کرنا
تسخیر کر لینا شیشے میں اتارنا گھل مل جانا شیرو شکر ہونا
شدید شرمندہ ہونا شرم سے ڈوب مرنا
نوٹس:۔اردو
ص۔ ض
قربان ہونا صدقے جانا ختم کرنا صفایا کرنا
چوٹ لگانا ضرب لگانا شدید نفرت کرنا صورت زہر لگنا
عمر کا اخیر ہونا ظرف لبریز ہونا بہت مقبول ہو جانا ضرب المثل ہونا
ط۔ ظ
ترک کر دینا طاق پر رکھنا سر سری انداز میں دیکھنا طائرانہ نگاہ ڈالنا
مالنا طاق نسیاں ہونا موت کی آرزو کرنا طالب کفن ہونا
انہونی بات کا ہونا طرف گل پھولنا تیز دوڑنا طرارے بھرنا
ظاہر ہو جانا طشت ازبام ہونا شہرت ہونا طوطی بولنا
شوروغل ہونا طنطنہ بلند ہونا طبیعت پر گرانی ہونا پیٹ خراب ہونا۔ بد ہضمی
ع۔ غ
غرور کرنا عرش پر دماغ ہونا سوجھ بوجھ کی بات عقل کے ناخن
عقل کے طوطے
اوسان خطا ہونا زیادہ محنت عرق ریزی
اڑنا
تھک جانا۔ بے بسی کا
بے جا تعریف و توصیف کرنا عرش پر چڑھانا عاری ہونا
اظہار
پگڑی اتارنا۔ ذلیل کرنا عمامہ اتارنا عزت خراب ہونا عزت پر حرف اآنا
دل بہالنا غم غلط کرنا کبھی کبھی دکھائی دینا عید کا چاند ہونا
غیر ت سے کٹ
شدید شرمندہ ہونا دل کی بھڑاس نکالنا غبار دل نکالنا
جانا
ف۔ق
مرنےوالے کے لیے مغفرت کی
فاتحہ پڑھنا عیش کرنا فاختہ اڑانا
دعا کرنا
سخت مصیبت میں گرفتار ہونا فلک ٹوٹ پڑنا سخت فکر کرنا فکر میں دبال ہونا
پیروی میں چلنا قدم بہ قدم چلنا دق کرنا قافیہ تنگ ہونا
ظلم کرنا قیامت ڈھانا راز ظاہر ہو جانا قلعی کھلنا
ختم کرنا ،فیصلہ کرنا قصہ پاک کرنا
ک۔گ
ختم کر ڈالنا کام تمام کرنا غائب ہونا۔ ختم ہونا۔ مٹ کافور ہونا
نوٹس:۔اردو
جانا
کھوے سے کھوا
بہت ہجوم ۔ رش ہونا تراش خراش کانٹ چھانٹ
چھلنا
معاملہ الجھ جانا۔ ٹال مٹول
رنج اٹھانا کوفت اٹھانا کھٹاتی میں پڑنا
ہونا
سزا دینا گردن توڑنا شرمندگی محسوس کرنا گریبان میں منہ ڈالنا
مفاد کے لیے کسی کی خوشامد
گدھے کو باپ بنانا انوکھا کام کرنا گل کھالنا
کرنا
گور میں الت مار
موت کے منہ سے واپس آنا عیش کرنا گل چھرے اڑانا
کے کھڑا ہونا
گھاٹ گھاٹ کا پانی
بہت تجربہ کا ر ہونا گھی کے چراغ جالنا خوشی منانا
پینا
گڑھے مردے بچپن سے کسی عادت کا
پرانی باتیں یاد کرنا گھٹی میں پڑنا
اکھاڑنا شکار ہونا
بچپن ،سیکھنے کی عمر ہونا۔ غفلت ہونا۔ بے فکری کی
گھٹنوں کے بل چلنا گھوڑے بیچ کر سونا
آہستہ چلنا نیند
باعث مصیبت ہونا۔ پیچھے
گلے کا ہار ہونا
ہی پڑ جانا
ل
تسلیم کرنا آرے ہاتھوں لینا۔ رسوا کرنا لوہا ماننا لتے لینا
الکھ کا گھر خاک
عزت اور دولت برباد کر دینا ٹھکرانا۔ نظر انداز کرنا الت مارنا
ہونا
لقمہ حلق سے نہ
ناگواری کا اظہار کام بگاڑ دینا لٹیا ڈبونا
اترنا
ڈر جانا لہو خشک ہونا لوہے کےچنے چبانا سخت اور کٹھن کام کرنا
پچھتانا۔ افسوس کا اظہار لکیر پیٹنا لینے کے دینے پڑنا نفع کی جگہ خسارہ ہونا
ضبط اور برداشت کرنا لہو پی کر رہ جانا
م
بگاڑنا۔ خراب کرنا مٹی میں مالنا رشوت دینا مٹھی گرم کرنا
رسوا ہونا مٹی پلید کرنا قبل از وقت چوکس ہونا ماتھا ٹھنکنا
آشنا ہونا محرم ہونا دربدر بھٹکنا مارا مارا پھرنا
رونق ختم ہونا۔ یا مانند پڑ
نگران یا سر پرست بنانا مربی بنانا محفل سرد پڑنا
جانا
مرُدوں سے شرط
غفلت کا شکار ہونا مقصد میں کامیابی ہونا مراد پانا
باندھ کر سونا
مغز سے کیڑے
مقدر بگڑنا مقدر پر پتھر پڑنا جوتے لگانا
جھاڑنا
مزاج ساتویں آسمان
دل کو بھانا منظور نظر ہونا غرور کرنا
پر ہونا
نوٹس:۔اردو
عیش و آرام کرنا موج مارنا ذلیل و رسوا کرنا منہ کاال کرنا
منہ میں پانی بھر آنا رال ٹپکنا۔ دل للچانا میدان ہاتھ سے جانا شکست ہو جانا
منہ اپنا سا لے کر منہ پر ٹھیکری راکھ بد لحاظی اور بے مروتی
شرمندگی محسوس کرنا
رہ جانا سے پیش آنا لینا
شکست کھنا منہ کی کھانا پاس رکھنا منہ رکھنا
موت کے گھاٹ
قتل کر دینا
اتارنا
ن
ممنون احسان نہ ہونا۔
ِ کسی کا ناک پر مکھی نہ
عزت بڑھنا ناک اونچی
کسی کی بات برداشت نہ کرنا بیٹھنے دینا
نفرت کا اظہار ،نا پسندیدگی ناک میں دم کرنا۔ تنگ کرنا ناک بھوں چڑھانا ناکوں چنے چبوانا
دکھ میں اضافہ کرنا نمک چھڑکنا رسوا اور ذلیل کروانا ناک کٹانا
انوکھی اور عجیب بات کرنا نیا راگ النا خوش کرنا نہال کرنا
ذلیل و شرمندہ کرنا نیچا دکھانا نیت خراب ہونا نیت میں فتور آنا
حقیر سمجھنا نظر سے گرنا احسان مند ہونا نیچی نظریں
حالت بگڑنا نقشہ بگڑنا
و۔ہ۔ی
عذاب ہونا وبال ہونا خوب فائدہ ہونا وارے نیار ہونا
رونا دھونا۔ شوروغل کرنا واویال کرنا وعدہ پورا کر دینا وعدہ وفا کرنا
مایوس اور بد دل ہونا ہاتھ اٹھانا طرز تبدیل کرنا وضع بدلنا
کوشش اور جدوجہد کرنا ہاتھ پاؤں مارنا مدد کرنا ہاتھ بٹانا
فوراً لینا۔ عزت کرنا ہاتھوں ہاتھ لینا ہاتھ پر سونا اچھا لنا امن و راحت ہونا
ہتھیلی پر سرسوں
ہڈی پسلی ایک کرنا تشدد کرنا۔ مارنا عجیب اور انوکھا کام کرنا
جمانا
دولتمندی کے باعث فضول خرچی ہرے میں آنکھیں بھروسہ ختم ہونا۔ ساکھ ختم
ہوا اکھڑ جانا
کی عادت ہونا ہونا
اکسانا اور بھڑکانا ہوا دینا شہرت و مقبولت ہوا باندھنا
ہوا مٹھی میں بند
مہارت ہونا طولی رکھنا
ٰ ید نا ممکن اور کٹھن کام کرنا
کرنا
یک جان دو قالب
گہرا رشتہ ہونا ،دوستی ہونا ہوش و حواس ختم ہونا ہوش پر اگندہ ہونا
ہونا
ہوش اڑ جانا ہوش کافور ہونا رنگ اڑنا ہوائیاں اڑنا
پریشان ہونا ہاتھ پاؤں پھولنا
نوٹس:۔اردو
اور بھی اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اسی ( ہللا تعالی) کی عبادت کرتے ہیں ۔ مذکورہ باال شعر میں
شاعر یہی کہتا ہے کہ مسجد مندر کعبہ یا بت خانہ بھی خدا کے گھر ہیں ۔ اور وہی ان کامالک
ومختار ہے۔ جب کہ انسان اگر وہاں جاتے ہیں تو وہ کچھ دیر عبادت کے لیے جاتے ہیں ۔ صاحب
خانہ ہللا تعالی ہے اور انسان مہمان ہیں۔ انسان اس فانی دنیا میں آ کر چال جاتا ہے۔ لوگ آتے جاتے
رہتے ہیں اور اپنے اپنے عقیدے کی عبادت گاہ میں صرف اور صرف ہللا تعالی کی عبادت کرتے
رہتے ہیں مگر وہ مالک ومختار اپنے مہمانوں کا خیال رکھتا ہے۔ ان کی آرزوئیں پوری کرتا ہے
چاہے وہ کسی بھی عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں ۔ وہ سب کی سنتا ہے ۔ کیونکہ میز بان (مالک)
اپنے مہمانوں کی خاطر داری میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھتا۔ ہللا تعالی بھی تمام انسانوں کا مالک ہے
وہ سب کا رازق ہے۔ اس شعر میں شاعر نے انسانوں کو گھڑی پل کا مہمان (فانی) قرار دیا ہے اور
رب ذوالجالل کی ذات کو دائمی اور ہمیشہ رہنے واال کہا ہے۔
خواب تھا جو کچھ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔ ت مرگ یہ ثابت ہوا
وائے نادانی کہ وق ِ
مفہوم :افسوس میری کم عقلی کی موت کے وقت یہ بات ثابت ہوئی دنیامیں جو کچھ دیکھا وہ خواب
تھا اور جوسنتا رہا وہ محض افسانہ تھا۔ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔
تشریح :میر در داس شعر میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کرتے ہیں ۔ وہ انسانی زندگی کی ناپائیداری
اور بے حقیقتی کوظاہرکر رہے ہیں انسان اپنی ساری زندگی موت کو فراموش کر کے دنیا کے
کھیلوں میں گم رہتا ہے۔ آخری وقت میں جب موت اسے آن لیتی ہے تو اسے اپنے جانے اور دنیا کی
بے ثباتی اور حقیقت کا پتہ چلتا ہے۔ اور وہ سوچتا ہے کہ یہ دنیا تو چند گھڑیوں کا میلہ ہے۔یہ
تومحض ایک خواب تھا۔ اس کا حقیقت سے قطعی کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ دنیا کی زیبائش اور
خوبصورتی اور اس کے بارے میں سنے جانے والے قصے محض افسانہ تھے۔ مگر اس وقت ہوش
میں آنے کا کچھ فائدہ نہیں۔ شاعراپنی نادانی پر ماتم کناں ہے اور اپنی کم عقلی پرافسوس کا اظہار کر
رہا ہے کہ اسے ان آخری لمحوں میں یہ بات سمجھ میں آئی کہ یہ دنیا فانی ہے اور اس کا حقیقت
سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہے ۔مگر اب تو وقت ختم ہو چکا ہے۔
آج وہ کل جاری باری ہے موت سے کسی کو رستگاری ہے
صوفیاء کے نزدیک اس فانی دنیا میں دل لگانا حماقت ہے۔ اور جولوگ خدا کو بھول کر دنیا کی
بھول بھلیوں میں غرق ہو جاتے ہیں انھیں آخری سانسوں میں پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
مذکورہ باال شعر میں اس کیفیت کو انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا۔ بقول میرتقی میر
ہم نے کر دی ہے خبر تم کو خبردار رہو یہ سرا سونے کی جاگہ نہیں بیدار رہو
آشنا اپنا بھی واں اک سبزہ بیگانہ تھا حیف کہتے ہیں ،ہوا گلزار تاراج خزاں
نوٹس:۔اردو
مفہوم :افسوں ،سنا ہے چمن خزاں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوگیا اس باغ میں میرا بھی ایک واقف
کارخودر وسبزہ تھا۔
تشریح :میر درد گلشن کی تباہی بیان کرتے ہوئے وہاں کے سبزےسے اپنی آشنائی کا ذکر کر رہے
ہیں کہ باغ کی تباہی اور اجڑنے سے ان کا ایک واقف یعنی "سبزہ بیگانہ " بھی اجڑ گیا ہے۔
گلشن میں بہار کے جانے کے بعد خزاں آتی ہے۔شاخوں پر کھلے ہوئے پھول مرجھا جاتے ہیں۔ پتے
خشک ہو کر گر جاتے ہیں ہر چیز پر ویرانی چھاجاتی ہے۔ شاعرخزاں کے اثرات بیان کر رہا ہے کہ
باغ کی ایک ایک شے برباد ہوگئی ہے ظاہر ہے خودروسبزہ بھی باغ کا ایک حصہ ہے۔ وہ بھی اس
تباہی سے کب بچ سکتا ہے۔ مگر شاعر کو باغ کی دیگر اشیاء سے کہیں زیادہ خود بخود اگنے والی
گھاس کا افسوس ہے کہ باغ کے پھولوں ،پودوں پرندوں کے ساتھ گھاس بھی اجڑ گئی ہے۔ جس کا
بے حد دکھ ہے۔
اس شعر میں استعاراتی انداز اختیار کیا گیا ہے اور شاعر اپنے عہد کے حاالت کی طرف اشارہ کرتا
ہے۔ دلی شہر پربیرونی حملہ آوروں نے کئی حملے کئے۔ یہ شہر کئی بارا جڑا۔ شہر کی تباہی پر میر
در دافسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے شہر میں امراء ،دولت مند ،خوبصورت اور طاقتور لوگ
شہر کی تباہی کے ساتھ تباہ ہو گئے ہیں لیکن شہر بے کس مفلس ،مسکین اور غریب لوگ بھی تو
رہتے تھے۔ وہ شہر کی تباہی و بربادی کے ساتھ کچلے گئے ہیں ۔ شاعر کو ان مفلسوں اور بے کس
لوگوں کے مرنے کا افسوس ہے کہ جو شہر کے دیگر با اثر خوشحال لوگوں کے ساتھ بربادہوگئے
ہیں۔
وہ دل ِخالی جو ترا خاص خلوت خانہ تھا ت موہوم آہ
ہو گیا مہماں سرائے ،کثر ِ
مفہوم :وہ دل جہاں صرف ترابسیرا تھا اب وہاں وہم وگماں اور وسوسوں نے گھر کر لیا ہے۔
تشریح :مذکورہ باال شعر میں میر درداپنے دل میں وسوسوں اور وہم و گماں کے گھر کرنے پر
افسوس کا اظہار کررہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں اے ہللا ! میراوہ دل ! جس میں تیرے سوا اور کچھ نہ
تھا۔ اب اس خالی دل میں وہم و گمان اور شکوک وشبہات نے جگہ بنالی ہے۔ درد کا خیال ہے کہ دل
میں ہللا کی یاد کے سوا کچھ نہیں ہونا چاہے ان لوگوں کے دل آرزوؤں ،حسرتوں اور تمناؤں سے
بھرے ہوتے ہیں اور تمنائیں بتوں کی طرح دل کو گمراہ کئے رہتی ہیں۔ اور انسان ان آرزوؤں
کے لیے دنیا کی بھول بھلیوں میں کھوجاتا ہے۔ وہ ہللا تعالی اور اپنی اصل سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔
شاعرایسی کیفیت کو بیان کر رہا ہے کہ وہ دل جوکبھی تیرا خاص خلوت خانہ (گھر) تھا اب اس دل
میں وسوے رہنے لگے ہیں۔
تو ہی آیا نظر جدھردیکھا جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا
مفہوم :دنیامیں آ کر ادھر ادھر دیکھا تو تیرے سوا اور کچھ دکھائی نہ دیا۔
تشریح :صوفیا کا نظریہ ہے کہ اس دنیا کے ذرے ذرے میں ہللا تعالی کا نور کارفرما ہے۔ وہ ہر چیز
میں دکھائی دے رہا ہے اور اس کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔ درد اس موضوع کو بیان کر رہے ہیں کہ
نوٹس:۔اردو
میں نے دنیامیں ادھر ادھر د یکھا ہرطرف تیرا ہی جلوہ نظر آیا۔ مجھے تیرے جلوؤوں کے سوا کچھ
نظر نہیں آتا۔
جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے تجلی ترے زات کی سو بہ سو ہے
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
مفہوم :اے شیخ ! تو ہمارے بھیگے دامن پہ مت جا۔یہ نہ سمجھ کہ ہم گنہگاروں نے رو رو کر امن
گیال کر رکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہی دامن نچوڑ دیں تو اس پاکیزہ پانی سے فرشتے وضو کر
سکتے ہیں۔
تشریح :میر درداس شعرمیں شیخ پرطنز کرتے نظر آتے ہیں اردو شاعری میں واعظ ،شیخ ،مال ،
اور زاہد پر ایسی چوٹیں عام ملتی ہیں۔ ایسے لوگ اپنی زہد و ریاضیت پرغرورکرتے نظر آتے ہیں ۔
اور دوسرے لوگوں کے ظاہری اعمال اور گناہوں کو طعن و طنز کا نشانہ بناتے ہیں ۔ میر درد نے
اس بات کو بیان کیا ہے کہ اے شیخ ہمارے بھیگے دامن کو حقارت سے مت دیکھ۔ تو سمجھتا ہے کہ
میں گناہوں کی شرمندگی سے رو رہا ہوں ۔ یہ بات حقیقت نہیں ہے تو جس دامن کو شراب سے گیال
سمجھ رہا ہے وہ تو خدا کی یاد میں رونے سے گیال ہوا ہے اور یہ بھیگادامن اتنے مقدس اور شفاف
آنسوؤں سے تر ہے کہ اسے نچوڑنے پر فرشتوں جیسی پا کیزہ مخلوق وضو کرسکتی ہے۔
منہ پھیر لے وہ جس کے مجھے روبرو کریں ہر چند آئینہ ہوں پر اتنا ہوں ناقبول
مفہوم :اگر چہ میں آئینے کی طرح شفاف ہوں مگر مجھے جس کے روبرو کیا جائے وہ منہ پھیر لیتا
ہے۔
تشریح :اس شعر میں شاعر نے لوگوں کی بدصورتی کی عکاسی کی ہے۔ آئینے میں وہی نظر آتا ہے
جو اس کے سامنے رکھا جائے ۔ شاعر کہتا ہے کہ میں آئینے کی طرح شفاف اور کھراہوں سچی بات
منہ پرکہتا ہوں لوگوں کو آئینے میں اپنی صورت نظر آتی ہے جو مکروہ ہے لہذا وہ آئینے سے منہ
پھیر لیتے ہیں یعنی لوگ مجھ سے کتراتے ہیں۔ میری سچائی بے باکی اور حق گوئی سے بدکتے ہیں۔
بقول میر تقی میر
مفہوم :یہ ہماری زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے کہ لمحہ لمحہ تباہ ہورہے ہیں اگریہ زندگی ہے تو ہم
اس جینے کے ہاتھوں مرتے جارہے ہیں۔
تشریح :صوفیاء کے نزدیک یہ دنیا دکھوں کا گھر ہے۔ یہاں ہرطرف دکھ ہی دکھ اور مصائب و آالم
کا ہجوم ہے۔ انسانی زندگی کسی لمحے سکون میں نہیں ہے۔ جیسےطوفان آتا ہے تو ہر چیز کو تہس
نہس کر دیتا ہے گویا زندگی الٹ پلٹ جاتی ہے۔ گویا ساری زندگی اگر طوفان بن جائے ہرلمحہ الٹ
پلٹ تباہی و بربادی اورغم و آالم میں بسر ہو تو شاعر نے یہی کہنا ہے کہ ہم تو اس جینے کے
ہاتھوں مر چلے۔ یعنی یہی سی زندگی ہے تو ہم یہاں پل پل مر رہے ہیں۔
زخم کتنوں کے سنا ہے بھر چلے ایک میں دل ریش ہوں ویسا ہی دوست
نوٹس:۔اردو
مفہوم :ایک میں ہی زخموں کا ماراویسے کاویساہوں باقی سب دکھی لوگوں کے زخم کب کے بھر
چکے ہیں۔
تشریح :شاعر اپنے دکھوں کے تسلسل اور اپنے زخموں کے ہمیشہ ہرارہنے کا ذکر کر رہا ہے۔ گویا
وہ اپنی بد بختی اور بد قسمتی پر افسوس کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے
یہاں ہرلمحہ تبدیل ہورہا ہے۔ ہر رات کے بعد صبح ہوتی ہے ہرصبح کے بعد شام ،خزاں کے بعد
بہار ،دکھ ہے تو پھر سکھ آجاتا ہے۔ کئی لوگ جو دکھی تھے اب سکھی نظر آتے ہیں۔ بیمارتندرست
ہو گیا ہے لیکن ایک میں ایسا بدنصیب ہوں جو ازل سے دکھوں میں گھرا ہوا ہے اور جس کے دل
کے زخم ہرے ہی رہتے ہیں ہر زخم بھرنے کا نام نہیں لیتے۔
بقول صوفی تبسم
دنیا کی وہی رونق دل کی وی تنہائی سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
شیخ صاحب چھوڑ گھر ،باہر چلے ڈھونڈتے ہیں آپ سے اس کو پرے
مفہوم :شیخ صاحب اپنے آپ سے اسے (ذات باری تعالیٰ کو) لگ ڈھونڈ رہے ہیں اور گھر چھوڑ
کر باہر جارہے ہیں۔
تشریح :صوفیاء کا نظریہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہماری شہ رگ سے بھی نزدیک ہے۔ حدیث قدسی ہے کہ
جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا۔ انسان کو اپنی اصل کو پانا چاہے محض
جنگلوں میں چلّے کاٹنا اور دشت و صحرا کی خاک چھانے سے ہللا تعالی نہیں ملتا۔ اس کے لیے
اپنے من میں ڈوبنا پڑتا ہے۔ شاعر نے شیخ پر طنز کی ہے کہ وہ اپنے آپ سے پرےہللا تعالیٰ کی
ذات کی تالش میں ہے حاالنکہ وہ تو اس کی شہ رگ سے بھی نزدیک ہے مگر شیخ اپنا گھر بار
چھوڑ کر باہر جنگوں اور صحراؤں میں اسے پکار رہا ہے یہ سراسرنادانی ہے۔
عالم تو خیال کا چمن ہے مت جا ترو تازگی پہ اس کی
مفہوم :تو دنیا کی تروتازگی اور شادابی ونکھار پر مت جایہ دنیا تو خیال کا چمن ہے۔
تشریح :درد دنیا کو" خیال "قرار دے رہے ہیں غالب نے ایک شعر میں یہی مضمون بیان کیا ہے۔
دام خیال ہے
عالم تو حلقہ ِ ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد
یعنی یہ جہاں حلقہء دام خیال ہے۔ میر درد بھی دنیا کی شادابی اورنکھار کی حقیقت بیان کررہے ہیں۔
اے انسان! تو دنیا کی ظاہری شان و شوکت اور تازگی اور خوبصورتی کی طرف نہ دیکھ یہ ساری
دنیا تو خیال کا ایک باغ ہے۔ اس کی حقیقت کچھ نہیں۔
ہے کوئی دن کی بات یہ گھر تھا گزروں ہوں جس خرابے پر کہتے ہیں واں کے لوگ
یہ باغ تھا
نوٹس:۔اردو
مفہوم :میں دنیا کے کسی بھی حصے سے گزرا ہوں وہاں لوگ یہی بتاتے ہیں کہ یہاں ایک گھر
آبادتھا اور یہاں ایک باغ ہوا کرتاتھا مگر اب وہاں ویرانی ہے۔ تشریح:دنیا کی ویرانی ،بے ثباتی کی
طرف اشارہ ہے۔ میر در دنیا کی بدلتی رت کو بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں کل کیا تھا ،آج کیا ہے۔
دنیا کبھی ایک سی نہیں رہتی۔ آج جہاں ویرانی اورشکستگی ہے یہاں کبھی باغ اور آبادی ہوگی ۔
شاعر کہتا ہے میں جس ویران عالقے سے گزرا ہوں وہاں سے ہی پتہ چال ہے کہ یہاں بھی آبادی
تھی۔ لوگ آباد تھے اور یہاں گھروں میں رونق اور چہل پہل تھی۔ کہیں باغ اور سر سبز عالقہ تھا۔
مگر اب وہاں ویرانی اور تباہی ہے۔یہ دینا باآلخر اسی حال کو پہنچتی ہے ۔ ہر طرف اجاڑ پن ہے۔
یہاں دل لگانا نادانی ہے۔
پانی پر نقش کب ہے آیا ہے کہ ناپائیدار ہیں ہم
مفہوم :انسانی زندگی کی ناپائیداری کی طرف اشارہ ہے یعنی انسان پانی کے نقش سے بھی ناپائیدار
ہے۔
تشریح :میر در دانسانی زندگی کی فانی حیثیت بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ دنیا فانی ہے تو انسان
بھی فنا کی طرف گامزن ہے۔ یہاں ہر شے کو زوال ہے انسانی زندگی ،پانی پر بلبلے کی حیثیت سے
بھی کم تر ہے۔
۔کیا بھروسہ ہے زندگانی کا آدی بلبلہ ہے پانی کا
پانی پر نقش پل میں مٹ جاتا ہے انسان کی ناپائیداری اس سے بھی کم تر ہے۔ یعنی زندگی کا کچھ
بھروسہ نہیں ہے تو پھر یہاں غرور تکبر کیسا؟
مجبور ہیں تو ہم ہیں مختار ہیں تو ہم ہیں وابستہ ہے ہمیں سے گر جبر ہے وگر قدر
مفہوم :ہمیں سے فلسفہ جبر وقد روابستہ ہے ہم مجبور بھی ہیں اور مختار بھی۔
تشریح :۔مذکورہ باال شعر میں فلسفہ ء جبر و قدر پیش کیا گیا ہے کہ انسان ایک طرف تو جو چاہتا
ہے ،کرتا ہے۔ اسے عقل وخرد کی نعمت دی گئی ہے۔ دوسری طرف یہ بتایا جاتا ہے کہ ہللا تعالی ہر
چیز پر قادر ہے۔ اس کی رضا کے بغیر پتہ بھی حرکت نہیں کر سکتا۔ شاعراس موضوع پر اظہار
خیال کر رہا ہے کہ دنیا میں انسان سا مجبور اور بے بس کوئی نہیں ہے۔ اور وہ اگر چاہے تو اپنی
دنیا آپ پیدا کرسکتا ہے۔ وہ خدا کی رضا حاصل کرے اپنے آپ سے آگاہ سب کچھ حاصل کرسکتا
ہے۔ بقول
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
ہے
مفہوم :زمین و آسمان تیری وسعت کونہیں پاسکتے اے ہللا ! میراہی دل وہ جگہ ہے جہاں تو
سماسکتا ہے۔
تشریح:اس شعر میں میر درد ہللا تعالیٰ کی حقیقت و وسعت کو بیان کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا
ہے خدا کا قیام ناآسمان ہے نہ زمین بلکہ وہ مومن کا قلب مصفی ٰہے۔ یہی مضمون اس شعر میں پیش
کیا گیا ہے کہ زمین و آسمان تیری وسعت کونہیں پاسکتے البتہ انسان کے دل روشن میں تو سماسکتا
ہے۔
مومن کا قلب ہللا تعالیٰ کا عرش ہے قلب المومنو عرش ہللا تعالیٰ
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے
مفہوم :مجھے یہ خوف ہے کہ میرا دل مردہ نہ ہو جائے کہ دل کی زندگی ہی سے میں زندہ ہوں۔
تشریح:دل کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ انسان کا دل اگر ٹھیک ہے تو پورا جسم درست ہے۔ حدیث
شریف میں بھی آتا ہے۔ انسان کے سینے میں یہ جو دل ہے یہ درست ہے تو اس کا سارا بدن درست
ہے ۔ مراد یہ ہے کہ دل شفاف ہے اس میں دنیاوی خواہشات حرص وہوس کی آلودگی نہیں ہے تو وہ
دل ہللا کا عرش ہے۔ وہ انسان کا بہترین دوست ہے۔ دل ہر پل انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن دل
آلودہ ہو جائے اسے زنگ لگ جائے تو انسان کی زندگی مردوں سے بھی بدتر ہو گی۔ کیونکہ اس کی
رہنمائی کرنے واال دل مردہ ہو چکا ہے۔ درددل کی زندگی کو اپنی زندگی سے عبارت رکھتے ہیں
لیکن اگر دل زندہ ہے تو سمجھ لیں کہ انسان زندہ ہے اس کا ضمیر روشن ہے اگر دل مردہ ہوجائے
تو پھر انسان ،انسان نہیں حیوان بن جاتا ہے۔
مختصر دیوان فارسی چند فارسی قصائد ،دیوان اردوملک جس میں غزلوں کے عالدہ رباعیات،
قطعات ،تاریخیں ،واسوخت ،مستزاد ،تفمین ،مخمس ،ترجیح بند غرض ہر قسم کا کالم ہے
اس کے عالوہ قصائد اور مراثی بھی خاصی تعداد میں ملتے ہیں۔
میر تقی میر کی مشہورمثنوی شعلعشق کاترجمین میں انہوں نے کیا۔
بیان کرتے ہیں کہ برسات کب کی گزرچکی لیکن ہماری آنکھوں کے بادل بدستور برس رہے ہیں۔
نجانے یہ کب تھمیں گے
پھڑکنا بھی ہے بھوال ہو وہ پرواز کیا سمجھے رہا کرنا ہمیں صیاد اب پامال کرنا ہے
مفہوم:اے صیاد ہمیں اب رہا مت کر میں پرواز بھول چکی ہے بلکہ ہمیں تو اب پھڑکنا بھی نہیں
آتا۔
تشریح:عاشق کی اسیری کا ذکر کیا جارہا ہے۔ اور صیاد سے مراد محبوب ہے۔ سودا اپنے محبوب
سے مخاطب ہیں اور کہتے ہیں اے محبوب ہمیں اپنی زلفوں کا اسیر رہنے دے۔ اب ہمیں آزادمت
کرنا۔ اب ہم اور کسی کام کے نہیں ہیں اپنی محبت میں گرفتار رہنے دے۔ ہمیں تو پھڑکنا ہی بھول گیا
ہے تو آزاد کرے گا تو پرواز کیا کریں گے۔ ہمیں اپنے پاس ہی رہنے دے ہمیں یہ اسیری آزادی سے
بہتر ہے۔
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
ادھر بھی
مفہوم :تو دوسروں کی طرف پھول تو کیا پھل بھی پھینک رہا ہے اے باغ کے روح رواں کچھ
ادھربھی عنایت کر۔
تشریح:محبوب سے التفات کی درخواست ہے شاعرمحبوب کے عالوہ بادشاہ وقت سے بھی مخاطب
ہوسکتا ہے۔ کہ دوسروں پرنوازشات کی برسات ہورہی ہیں۔کچھ ادھربھی عطا ہو جائے۔" ثمر" سے
دھیان بادشاہ یا صاحب اقتدار یاصاحب دولت کی طرف جاتا ہے مراد یہ ہے کہ دوسروں پر عنایات
ہیں تو مجھ پر کیوں نہیں۔
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں ا وے صورتیں الہی کس دیس بستیاں ہیں
مفہوم :وہ چہرے اب کس ملک میں بہتے ہیں جنھیں دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں۔
تشریح :سودا کے مذکورہ باال شعر میں چھوڑنے والوں کو یاد کیا جارہا ہے۔ شاعر کہتا ہے یا الہی
دہ چہرے جنھیں دیکھنے کا بہت جی کرتا ہے کہاں چلے گئے کسی دیس میں جابسے ہیں۔ اب ان
چہروں کو دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس گئیں ہیں ۔ وہ لوگ جو رات دن ہمارے ساتھ رہتے تھے۔
اب وہ کہاں چلے گئے ہم انھیں کسی جگہ تالش کریں۔ مرنے والے لوٹ کر نہیں آتے اور انسان کے
پاس یادوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اور وہ بیتے دنوں کو یاد کر کے آنسو بہاتا ہے۔ شاعر ماضی کے
گزرے لمحوں کو یاد کر رہا ہے اور اپنے پیاروں کے لیے فریاد کناں ہے۔
کون جا سوختہ جلتا ہے تہہ خاک ہنوز گل زمین سے جو نکلتا ہے برنگِ شعلہ
مفہوم :پھول زمین سے شعلے کی طرح نکل رہا ہے۔ یہ کون زمین کے نیچے ابھی تک جل رہا ہے۔
تشریح :شاعر بعض اوقات رعایت لفظی سے بھی کام لیتے ہیں ۔ پھول کے رنگ کو شعلے سے
تشبیہ دی گئی ہے اور پھر یہ قیاس کیا گیا ہے کہ کوئی زمین کے نچے دل جال محبت کی آگ میں
نوٹس:۔اردو
ابھی تک جل رہا ہے۔ ورنہ یہ پھول شعلے کی طرح کیوں دکھائی دیتا۔ شاعر کہنا یہ چاہتا ہے یہ کون
محبت کا مارا ہے تہہ خاک جل رہا ہے کہ پھول بھی شعلے کی طرح نکل رہا ہے۔ اس طرح کا ایک
شعر آتش کابھی ہے جس میں وہ دور کی کوڑی التے ہیں۔
قاروں نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا زیر زمیں سے آتا ہے جو گل سو زربکف
تجھ چشم سے ٹپکا ہے کبھی لخت جگر بھی اے ابرقسم ہے تجھے رونے کی ہماری
مفہوم :اے بادل تجھے ہمارے رونے کی قسم سچھ بتا! کبھی تیری آنکھوں سے جگر بھی ٹپکا ہے۔
تشریح :سودا بادل سے کہہ رہے ہیں تو کیا برستا ہے بتا تیری آنکھوں سے دل ٹپکا ہے۔ میں تو اکثر
خون جگر کے آنسو روتا ہوں۔ کیا تو کبھی اس طرح رویا ہے۔ سچ بتا تجھے میری آنکھوں کی قسم !
کیا تو نے کبھی روتے ہوئے آنکھوں سے جگر کا ٹکڑا بہایا ہے۔ میری آنکھوں کو دیکھ کر جگر کٹ
کٹ کر بہہ رہا ہے کیا کبھی تیرا یہ حال ہوا ہے۔
آئی ہے سحر ہونے کو ٹک تو کہیں مر بھی سودا تری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات
مفہوم :سودا تو تمام رات فریاد کناں رہا ہے اب سی ہوگئی ہے اب تجھے مر جانا چاہیے۔
تشریح :شاعر محبت کے دکھوں پر آہ و زاری کر رہا ہے۔ سودا اپنے آپ سے مخاطب ہے کہ اے
سودا تیری فریاد سے رات آنکھوں میں کٹ گئی ہے ۔ تو نے تو ہمسایوں کو بھی سونے نہیں دیا۔
تیری فریاد سے کون سوئے گا۔ لیکن اب صبح ہوگئی ہے۔ اب تو تمھیں چین آ جانا چاہیے۔ رات بھر
رونے سے مریض کو یا تو نیند آ جاتی ہے یا پھر وہ ہمیشہ کے لیے چپ ہوجاتا ہے۔ یعنی مرجاتا ہے
ایسی ہی کیفیت اس شعر میں بیان کی گئی ۔ کہ سودا صبح ہونے کو ہے اب تو مربھی سہی ۔ یہ فریاد
کر رات آنکھوں میں کٹ گئی ہے اور نیند بر باد ہو کر رہ گئی ہے۔
مجھ کو نہ کیا دل سے میں زنہار بھوال پھرو ں ہوں آپ کو اک عمر سےلیکن
فراموش
مفہوم :۔میں اپنے آپ کو ایک عمر سے بھوال ہوا ہوں لیکن ایک پل میں تجھے دل سے نہیں بھوال۔
تشریح:محبوب کو یاد رکھنے کا بیان ہے۔ سودا کہتے ہیں کہ دنیا کے ہنگاموں میں اور دکھوں میں
مجھے اپنا آپ بھوال ہوا ہے۔ اپنی خبر ہی نہیں ۔ نہ کھانے پینے کی فکر
ہے اور نہ آرام کی ۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اے مرے محبوب میں نے اپنے دل سے تجھے
کبھی فراموش نہیں کیا۔ ہر حال میں کچھ یاد رکھا ہے۔ تیری یاد میرےساتھ ساتھ ہے۔ میں جیسے بھی
ہوں جہاں بھی ہوں تجھے نہیں بھول سکا۔
میرتقی میر 1725ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد میرمحمد علی متقی ایک دیندار ،متقی اور
پرہیز گار شخص تھے۔ میر تقی میرا بھی کم سن ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اس کے بعد
آپ کی پرورش آپ کے ماموں سراج الدین آرزو نے کی اور انہی کی محبت سے شاعری کی طرف
مائل ہوئے ۔ میر کی ساری زندگی رنج و آالم میں گزری بچپن ،جوانی اور آخری عمربھی انتہائی
کسمپرسی کے عالم میں گزاری۔ عشق کی ناکامی نے انھیں بدحال کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی
شاعری میں دردوغم اور آنسو آہیں نمایاں محسوس کئے جاسکتے ہیں ۔ خود میر اپنی شاعری کو
درودآالم کا کامجموعہ قرار دیے ہیں۔
درد و غم کتنے کئے جمع تع دیوان کیا مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
میر نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سید امان ہللا سے حاصل کی ۔ سراج الدین خان آرزو کی تربیت نے ان
کی شاعری کو جالبخشی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دلی میں آئے دن کی خانہ جنگی اور بدامنی سے لوگ
تنگ تھے۔ میربھی ان حاالت سے دلبرداشتہ ہوئے اور پھر نواب آصف الدولہ کی دعوت پر 1197ھہ
1782ء میں
لکھنو چلے گئے ۔ کسی بات پرنواب سے ان بن ہوگئی اور دربار سے ناطہ تو ڑلیا اورپھرمفلسی کے
عالم ہی میں وفات پائی۔ اردو شعرا کا پہال تذکرہ نکات الشعراء اور ذکرمیر (فارسی کے عالوہ"
کلیات میر" ان کی یادگار تصانیف ہیں۔
مفہوم یہ ہے کہ انسان دنیا میں آتا ہے بہت کی صالحتیں لے کر آتا ہے اس کے حواس بہترین ہوتے
ہیں مگر بوڑھا ہوتے ہی اس کے قوی کمزور ناتواں ہوجاتے ہیں ۔ حواس پہلے جیسے نہیں
رہتے۔یعنی اسباب راہ میں ہی لٹ جاتے ہیں۔
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
مفہوم :یہ دنیاشیشے کے کارخانے کی طرح ہے اور یہاں احتیاط الزم ہے۔ سانس بھی آہستہ لے کہ
یہاں کام نازک ہے۔
تشریح:میر دنیا کوشیشے کی فیکٹری قرار دیتے ہیں جہاں لوگ احتیاط سے ہر کام کرتے ہیں ۔
شیشے کے کارخانے میں بے حد احتیاط کی جاتی ہے اور پھونک پھونک کر قدم رکھا جاتا ہے۔
شیشے کے کارخانہ میں شیشے کا سامان تیار ہوتا ہے۔ اور ذراسی ٹھیس پروہ سامان ٹوٹ سکتا ہے۔
میرتقی میر دنیا کوبھی شیشے کا کارخانہ قرار دیتے ہیں ۔ جہاں وہ بے حد احتیاط سے زندگی
گزارنے کا درس دیتے ہیں۔ اور سانس بھی آہستہ آہستہ لینے کی تلقین کرتے ہیں مراد یہ ہے کہ بہت
ہوش اور احتیاط کی ضرورت ہے لوگوں میں رہتے ہوئے نازک دلوں کا خیال رکھا جائے یعنی
سوال کیا تو کلی یہ سن کرمسکرا اٹھی ۔کلی کھل کر (مسکرا کر ) پھول بن جاتی ہے۔ اس کی زندگی
اتنی ہی ہے اسے بس اتناہی ثبات حاصل ہے۔ گویا شاعر نے گل سے ثبات کے بارے میں سوال کیا
تو کلی مسکرادی کہ اتنی ہی دیرثبات ہے۔ پھول غنچہ ہوتا ہے پھر وہ پھول بنتا ہے اور باآلخر
مرجھا کر شاخ سے گر جاتا ہے۔ پھول کی اتنی سی زندگی ہے انسانی زندگی بھی اتنی عارضی اور
ناپائدار ہے۔
دل ہے گویا چراغ مفلس کا شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
مفہوم :ہمارادل مفلس کے چراغ کی مانند ہے جو شام کوبھی بجھا نظر آتا ہے۔
تشریح :شاعر نے دل کومفلس کے چراغ سے تعبیر کیا ہے کہ ہے مفلس اور غریب آدمی کے گھر
چراغ نہیں جلتا۔ چولھے کی طرح اس کا چراغ بھی بجھا رہتا ہے -چراغ میں تیل اور بتی تک نہیں
ہوتی۔ یہی حال دل کا بھی ہے۔ جو شام ہوتے ہی اداس اور غمگین ہوجاتا ہے اور بالکل غریب کے
گھر کے چراغ کی مانند دکھائی دیتا ہے یعنی ہر وقت بجھا سا ہے۔ شاعر نے دل کو چراغ سے تشبیہ
دی ہے۔
پنکھڑی اک گالب کی سی ہے نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے
مفہوم:محبوب کے ہونٹوں کی نازکی اور مالئمت گالب کی پنکھڑی کی سی ہے۔
تشریح :شاعرمحبوب کے ہونٹوں کی خوبصورتی اور نازکی کو بیان کر رہا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ
مجبوب کے ہونٹ ایسے نازک ،خوبصورت اور مالئم ہیں کہ اس پر گالب کی پنکھڑی کا گمان ہوتا
ہے۔ گالب کی رنگت اورنری کو ہونٹوں سے مماثل قرار دیا گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ محبوب کے لب
انتہائی خوبصورت اور دلکش ہیں۔
یعنی غافل ہم چلےسوتا ہے کیا قافلے میں صبح کے اک شور ہے
مفہوم :صبح کے قافلے میں یہ شور ہے کہ غافل تو سوتا ہے ہم جار ہے ہیں۔
تشریح:اس شعر میں غفلت کے مارے لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ قا فلہ کسی کا انتظار نہیں
کرتا۔ قافلے کی گھنٹی کوچ کا اشارہ ہوتا ہے لوگ کوچ کرنے لگتے ہیں ایسے میں غافل اور سونے
والے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ وقت کی قدر کرنی چاہیے۔ وقت کا قافلہ کبھی نہیں رکتا۔
اور وقت ہاتھ سے چال جائے تو دوبارہ ہاتھ نہیں آتا۔ ایک اور شعر میں میر یوں بیان کرتے ہیں۔
غافل ہیں ایسے ہوتے ہیں گویا جہاں کے
لوگ
حاالنکہ رفتنی ہیں سب اس کارواں کے لوگ
یوں اٹھے آہ تو اس گلی سے ہم
جیسےکوئی جہاں سے اٹھا ہے
مفہوم :اس گلی سے اس طرح ہماری رخصتی ہوئی جیسے کوئی جہان فانی سے رخصت ہوتا ہے۔
تشریح :میر تقی میر کوچہ محبوب سے نکلنے کی بات کر رہے ہیں جیسے غالب نے کہا تھا۔
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
نوٹس:۔اردو
مفہوم :دل کی ویرانی کا کیاذ کر کریں یہ بستی کوئی بار لوٹی گئی
یعنی تباہ برباد ہوئی۔
تشریح :اس شعر میں بھی میراپنے دل کے اجڑنے کا تذکرہ کررہے ہیں وہ عشق ومحبت میں زندگی
کےبر باد ہونے کے بارے میں کہتے ہیں دل کی بربادی اور اجڑ جانے کی بابت وہ کہتے ہیں کہ میں
اپنے دل کی ویرانی اور تباہی کے بارے میں کیا کہوں یہ کئی باراجڑ چکا ہے۔ اس شعر میں
شہردلّی کی تباہی کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔ دلّی بیرونی حملہ آوروں کی وجہ سے کئی بار
اجڑی۔ میردل کودلّی سمجھتے ہیں اور دلّی کی طرح ان کا دل بھی کئی بار محبت میں برباد ہوا اور
اب اس کی ویرانی کا کیاذ کر کریں یعنی ایک سے زیادہ بار یہ تباہی دیکھی گئی ہے۔
ہے نازک زمانہ صاحب میر
دستار تھامئے سے ہاتھوں دونوں
مفہوم :میر صاحب زمانہ نازک ہے اپنی دستار کا خیال رکھئے اور دونوں ہاتھوں سے سنبھال کر
رکھئے۔
تشریح :میرتقی میر اپنے اس شعر میں اپنے زمانے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ زمانہ بڑا
خطرناک ہے۔ کسی کی عزت بھی محفوظ نہیں ۔ شرفاء پگڑیاں بچاتے پھرتے ہیں۔ لہذا احتیاط کی
ضرورت ہے میں خود کالمی کے انداز میں زمانے کی کج ادائی سے محفوظ رہنے کی بات کررہے
ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ زمانہ بڑا نازک ہے اور یہاں ہر طرف ایک افراتفری ،بے چینی ،لوٹ کھسوٹ
اور زبردستی ہے۔ اپنی عزت اپنے ہاتھ ہوتی ہے۔ دونوں ہاتھوں سے دستار ( پگڑی) کو سنبھالنے کا
مطلب ہے۔ کہ بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہے اور عزت سادات بچانے کے لیے ہر وقت چوکنا اور
ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ کسی وقت بھی گڑ بڑ ہوسکتی
مفہوم :آج دلّی میں ان کوکوئی بھیک تک نہیں دیتا کل یہی لوگ تخت وتاج کے مالک تھے اور ان
کے سر میں تخت و تاج کا غرور تھا۔
تشریح :میر اپنے عہد کی زبوں حالی غرور اور وقت کی سفاکی کا ذکر کر رہے ہیں۔ کل جن لوگوں
کے سر میں تخت و تاج کا سودا سمایا ہوا تھا اور وہ بہت تکبر اور غرورسے پھرتے نظر آتے تھے
آج انہیں وقت نے بدحال کر کے رکھ دیا ہے۔ اب انھیں یہاں (دلّی میں) کوئی بھیک نہیں دیتا۔ وہ دو
وقت کی روٹی کو ترستے ہیں وہ گداگری کررہے ہیں وقت وقت کی بات ہے وقت ایک سا نہیں رہتا۔
کی دل شکستگی ہے دیدنی
ہے۔ ڈھائی نے غموں عمارت کیا
مفہوم :دل کی ٹوٹ پھوٹ دیکھنے کے الئق ہے کیا عمارت تھی جسے دکھوں نے توڑ پھوڑ کے
رکھ دیا ہے۔
تشریح :م یراپنی دل کی ویرانی اور بربادی کا تذکرہ کررہے ہیں کہ اس دل کی ٹوٹ پھوٹ دیکھنے
والی ہے۔ شاعر نازک اور حساس ہوتا ہے وہ معمولی سی باتوں کا بھی بہت اثر لیتا ہے۔ بعض اوقات
چھوٹی چھوٹی سی بات سے اس کا دل ٹوٹ سکتا ہے۔ میر کی زندگی آالم و مصائب سے عبارت
تھی۔ بچپن سے کٹھن حاالت نے انھیں دکھی کر دیا۔ جوانی میں عشق کے ہاتھوں بہت دکھ اٹھائے ۔ وہ
اپنے دکھی دل کے بارے میں کہتے ہیں یہ دل کئی بارٹوٹ چکا ہے اور اس دل کی کرچیوں اور
ملبے کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کیسی شاندار عمارت تھی جو غموں اور دکھوں نے گرادی
ہے اور زندگی کیاتھی کیا ہوکر رہ گئی ہے۔
ہے نہر ہمارا گریاں دیدۂ
ہے شہر دلّی جیسے خرابہ دل
مفہوم :ہماری روتی ہوئی آنکھیں نہر کی طرح ہیں اور یہ ویران دل اب شہر دلّی کی طرح ہے۔
تشریح :اس شعر میں بھی دلّی کود لّی کی بربادی سے منسوب کیا گیا ہے اور دل کی ویرانی کودلّی
کی ویرانی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہمارا دل بھی اب دلّی کی طرح ویران اور بر
بادنظر آتا ہے اور یہ جو ہماری آنکھوں سے اشک رواں ہیں ۔ یہ شہر کی نہر ہے جو چل رہی ہے
اپنے غم و آالم کو بیان کرنا مقصود ہے۔
خولہ حیدر علی آتش دلّی کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والدخواجہ علی بخش
نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں دلّی چھوڑ کر فیض آباد آئے اور محلے مغل پورہ میں سکونت
اختیار کی ۔ آتش کی والدت یہیں ہوئی۔ وہ ابھی چھ برس کے تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔
اسی وجہ سے تعلیم سے محروم رہے اور ُبری صحبت میں بیٹھ کر مزاج میں شوریدہ سری اور با
نکپں آ گیا۔ اس دوران انھوں نے نواب مرزا محمد تقی خان ترقی کی مالزمت اختیار کر لی ۔ اور
انھیں کے ساتھ لکھنوآ گئے۔ اسی زمانے میں یہاں مصحفی اور انشاء کی معاصرانہ چشمک زوروں
پرت ھی۔ آتش ،مصحفی کے شاگرد ہوئے اور اس درجہ ریاضیت کی کہ کچھ ہی عرصہ میں
خودصاحب طرز شاعر ہو گئے ۔ ناسخ اور انشاء کی طرح ان کی علمی استعداد درجہ تکمیل کو نہیں
پہنچتی ۔ آتش نے سادہ زندگی بسر کی۔ ناسخ سے ان کی معاصراہ چشمک بھی رہی۔ مگر یہ نوک
جھونک دائرہ تہذہب سے باہر کبھی نہ گئی ان کی تصانیف میں ان کا اردو دیوان بھی شامل ہے جو
ان کی زندگی میں شائع ہو گیا تھا اور اے بے پنا مقبولیت حاصل ہوئی۔ دوسرا دیوان جسے ان کے
پہلے دیوان کا ضمیمہ سمجھنا چاہیے ان کے عزیز شاگرد میر دوست علی خلیل نے ان کے مرنے
کے بعد مرتب کیا تھا۔
آتش کے مشہور شاگرد حسب ذیل تھے۔ رند صبا خلیل ،نسیم نواب ،مرزا شوق اور آغا مجھ شرف۔
آتش کو لکھنو دبستان کا نمائندہ شاعر قرار دیا جاتا ہے کالم میں تخلص کے اعتبار سے گرمی بہت
ہے۔ تصنع تکلف مطلق نہیں نہ معمولی اور متبندل خیاالت ہیں جن کا عیب شکوہ الفاظ سے چھپایا گیا
ہو۔
کہ اس جہان میں ٹوٹی اشیاء کا کوئی بھی خریدار نہیں ہے۔ ہر کوئی نئی اور ثابت و سالم چیز کو
پسند کرتا ہے۔ ٹوٹے دلوں کا آسرا نہیں ملتا۔ دنیا کی بے حسی اور مفاداتی سوچ کو زیر بحث الیا گیا
ہے۔
عدم کے کوچ کی الزم ہے فکر ہستی میں
نہ کوئی شہر نہ کوئی دیار ،راہ میں ہے
مفہوم :آخرت کی سمت روانہ ہونے کی فکر اس زندگی میں ضروری ہے اور اس راہ میں نہ کوئی
عالقہ ہے نہ کوئی شہر۔یہ تنہائی کا طویں سفر ہے۔
تشریح:آتش اس شعر میں سنجیدہ بحث اختیار کرتے ہیں وہ انسانی زندگی میں آخرت کی فکر کی
طرف مائل ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔ شاعر کا خیال ہے کہ زندگی میں اپنی عاقبت کا بھی
سوچنا ضروری ہے۔ آخرت کے سفر میں کسی دوست یا ساتھی نے ساتھ نہیں دینا بلکہ عدم کا سفر
تنہا اور اکیلے طے کرنا ہے۔ اس سفر کے لیے تیاری ضروری ہے اس راستے میں کوئی شہر نہیں
آتا۔
مال نہ سرو کو کچھ اپنی راستی میں پھل
کالہ کج جو نہ کرتا تو اللہ کیا کرتا
مفہوم :سرو کے پیڑ کوسیدھار ہنے میں کوئی کیا پھال؟اللہ اگر اپنی دستارکونہ جھکاتا تو اورکیا
کرتا۔
تشریح:آتش نے ایک اہم اخالقی نقطے کو پیش کیا ہے۔ اس دنیا میں جھک کے ملنا انسان کے
اندرعجز اور انکساری پیدا کرتا ہے اور لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔ سروکا پیٹر جو بالکل سیدھا
اوپر کی جانب جاتا ہے اسے کوئی پھل نہیں لگتا اس لیے اللہ کا پھول اپنی پتیوں کو ٹیڑھا کئے
ہوئے ہے۔ اللے کے سرخ پھول کی پتیاں اوپر سے نیچے کی طرف مڑی ہوئی ہیں اور وہ پھول ایک
تاج یا دستار کی طرح لگتا ہے۔ شاعر کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جھکنے والے کچھ پاتے ہیں ۔
غرور تکبر انسان کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ انکساری سے انسان کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔
تشریح :اس شعر میں آتش نے بقول محمد حسین آزاد اپنے عہد کے ایک شاعر امام بخش ناسخ پر
چوٹ کی ہے۔ محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب ” آب حیات" میں تحریر کیا ہے کہ آتش لکھنوی نے یہ
غزل اس مشاعرے میں پڑھی جس میں امام بخش ناسخ بھی شریک تھے اور اس ساری غزل میں
آتش ناسخ سے مخاطب نظرآتے ہیں۔ ان کی غزل کا دوسرامصرحہ تو اب ضرب المثل کے طور پر
مشہور ہو چکا ہے وہ کہتے ہیں کہ اپنے بارے میں کسی خوش فہمی میں مبتال ہے۔ اپنے بارے میں
اگر تو حقیقت سننا چاہتا ہے تو کبھی اپنی غیر موجودگی میں لوگوں کی آراء کو سن یعنی لوگ
مجھے پیٹھ کے پیچھے کیا کہتے ہیں۔ ویسے بھی زبا ِن خلق کو نقارہ خدا سمجھنا چاہیے۔
طبل و علم نہ پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
نوٹس:۔اردو
مفہوم :ہمارا دل بے حد اداس اور بے چین ہے کیا ہمارے جسم سے روح رخصت ہونے والی ہے۔
تشریح :انسانی زندگی فانی ہے ہر انسان نے باآلخر یہ دنیا چھوڑ کر جانا ہے۔ روح جسم کی سرائے
سے ایک دن ہر حال میں رخصت ہو جائے گی ۔ روح اور جسم کا ساتھ جتنا بھی لمبا ہو آخریہ ساتھ
نوٹس:۔اردو
ٹوٹ جاتا ہے۔ شاعر نے موت کے لمحوں کوقریب سے محسوس کیا ہے ایسے میں اپنی دل کی بے
چینی سے یہ بھانپ رہا ہے کہ کیا روح تن سے جدا ہونے والی ہے کہ ہمارا دل اس قدر بے قرار
ہورہا ہے۔ آتش نے روح کو مہمان قرار دیا ہے جو سرائے یعنی جسم میں ٹھہرتی ہے۔ مہمان کو آخر
ایک دن الوداح ہونا پڑتا ہے۔
آرائش جمال کو مشاطہ چاہیے
بے باغباں کے رہ نہیں سکتا چمن درست
مفہوم:حسن کے سنوارنے کے لیے سنگھار کرنے والی عورت کی ضرورت ہوتی ہے کہ باغ بھی
بغیر مالی کے سرسبزوشاداب نہیں رہتا۔
تشریح :حسن کے بناؤ سنگھار کے لیے کسی نہ کسی مشاطہ کی ضرورت رہتی ہے کیونکہ حسن کا
خیال نہ رکھا جائے تو وہ ماند پڑ جاتا ہے۔ بالکل ایسے جیسے باغ کی مناسب دیکھ بھال کرنے واال
کوئی نہ ہو تو وہ باغ ویران ہو جاتا ہے مالی پودوں کو وقت پر پانی دیتا ہے ان کی کانٹ چھانٹ کرتا
رہتا ہے۔ پھولوں اور ان کی کیاریوں کو خودرو جڑی بوٹیوں سے پاک کرتا ہے۔ گویا باغبان باغ کے
لیے بے حد ضروری ہے۔ اس کے بغیر کوئی باغ ہرا بھرا نہیں رہ سکتا۔ جیسے باغ کی شاداب کے
لیے ایک مالی کی ضرورت ہوتی ہے حسن کے نکھار اور سنگھار کے لیے بھی ایک بیوٹیشن کی
ضرورت ہوتی ہے۔ جو اس کے حسن و جمال کو چار چاند لگانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
مفہوم :نقش (تصور) کس کی شوخئی تحریر کا فریادی ہے کہ ہر پیکر تصویر نے کاغذی پیرہن
(فریادیوں کا لباس) پہن رکھا ہے۔
تشریح :ایران کے عہد قدیم میں جو شخص کسی ظلم کے خالف فریاد کرنا چاہتا تھا وہ کاغذ کا
لباس پہن کر بادشاہ کے دربار میں دادرسی کے لیے جاتا تھا۔ اس کےکاغذی لباس سے اندازہ ہو جاتا
تھا کہ وہ شخص فریادی ہے۔یعنی کاغذی پیراہن "فریادی" کی عالمت سمجھا جاتا تھا۔ اس شعر میں
غالب بھی یہی کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی ذات حقیقی سے علیحدگی کا باعث ہوتی ہے۔ ہر
تصویر( ذی روح) کی کی شوخئی تحریرکی فریادی ہے اور وہ اپنے ہونے (عارضی اور فانی
زندگی ) پرسراپا احتجاج ہے۔ ہستی کو تصویر (نقش) اس لیے کہا گیا ہے کہ اس کا وجودغیرحقیقی
ہے مگر عارضی ہونے کے باوجود وہ اتنے رنج و مالل اور آزار کا باعث ہوتی ہے کہ ہر ہستی
سراپا فریاد بن گئی ہے۔
ڈاکٹر وحید قریشی "نذر غالب" میں اس شعرکوحمد قرار دیتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ نقش اور
مصور کی اصطالحیں محض مصوری سے تعلق نہیں بلکہ اپنی تعبیر کے اعتبار سے ان کا سلسلہ
تصوف سے بھی ملتا ہے۔
ایک اور مفہوم بھی لیا جاتا ہے کہ مصور جوتصویر بناتا ہے وہ اس کے نقوش (خاکہ ) کاغذ پر
اتارتا ہے۔ لیکن اس تصویر کے پیکر کوزندگی نہیں بخش سکتا۔ اس طرح کاغذی پیراہن والی
(عارضی) تصویر مصور (خالق) کی شوخی کے خالف سراپا احتجاج یا سراپافراد معلوم ہوتی ہے۔
کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھِ کاو
ِ
صبح کرنا شام کا النا ہے جوئے شیر کا
کاوکاو۔۔۔۔۔فارسی مصدر کا ویدن سے ہے۔ جس کے معنی کھودنا ،کاوش اور سخت محنت ہیں ۔
شعری رعایت کی بنا پر کاوش کےش کو گرادیا گیا ہے۔ کاو کاو کی تکرارشدت اظہار کے لیے
استعمال ہوتی ہے۔
مفہوم :تنہائی کی تکلیف کا کیا پوچھتے ہواس عالم میں صبح سے شام کرنا گویا دودھ کی نہر نکالنا
ہے۔ یعنی سخت دشوار کام ہے۔
تشریح:مرزاغالب اپنی تنہائی کو نرالے انداز میں بیان کرتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ جس طرح
فرہادنے شیریں کے لیے دودھ کی نہر کھودنے کی شرط قبول کر لی تھی نہایت دشوار اور سخت کام
کا چیلنج قبول کرلیا تھا اور ناممکن کو ممکن بنا دکھایا۔ سومحبت کرنے والے غم فرقت کو کاٹنے
کے لیے جگر کاری سے کام لیتے ہیں۔ تنہائی کی اذیت برداشت کرناسخت جان کام ہے۔ اس کے لیے
بڑی کاوش کرنی پڑتی ہے۔ اور اپنے دلدار (محبوب) کے بغیرصبح سے شام کرنا یعنی دن رات
گزارنا جوئے شیر النے کے مترادف ہے۔ یعنی ہجر اور فراق کے مارے ہوئے لوگوں کے لیے اپنی
صبح کاشام کر نابڑا کٹھن اور جان جوکھوں کا کام ہے۔
نوٹس:۔اردو
ایک اور مفہوم بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ جدائی ( تنہائی) کی حالت میں جن جن کاوشوں ،کاہشوں
اور مشقتوں کا میں تختہ ءمشق بنا ہوا ہوں ان کا حال مت پو چھ اور نہ ہی میں بیان کرسکتا ہوں اور
نہ ہی میری سخت جانی کے باعث دم نکلتا ہے۔ بس یہ سمجھ لو کہ رات گزارنا اور شام کاصبح کرنا
اتناہی سخت کٹھن اور دشوار کام ہے جتنافرہاد کے لیے پہاڑ کاٹ کر جوئے شیر النا دشوار تھا۔
اس شعر میں شاعر نے جدائی کی حالت میں اپنی سخت جانی کو پہاڑ سے اور شام کےصبح ہونے
کو جوئے شیر (دودھ کی نہر) سے تشبیہ دی ہے۔
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریرکا
مفہوم :سمجھ عقل اور شعور بے شک جس قدر چاہے سماعت کے جال بچھاۓ ہماری گفتگو ہمارے
مفہوم ومطالب کو پھانس نہیں سکتے۔ تشریح:غالب اپنی مشکل پسندی کے حوالے سے انوکھے انداز
میں وضاحت کر رہے ہیں کہ ہمارے مفہوم اور مطالب کو پانا اتنا آسان نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ
ہمارا مطلب اتنا دقیق اور نازک ہوتا ہے کہ اس تک عام علم وعقل کی رسائی نہیں ہوسکتی ہے اور
ہرکوئی ہمارے "کہے" تک نہیں پہنچ سکتا۔ یعنی ہم جو کچھ کہتے ہیں اس کا مفہوم اور مطلب بہت
بلند ہے اسے عنقا کی طرح نا پید کہنا بھی نا مناسب نہیں۔ عنقا اس خیال فرضی پرندےکو کہتے ہیں
جو ناپید ہے اس سے مرادنا پید اور نہ ملنے واال ہے۔
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروے کار
صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا
مفہوم :عمریں گزریں قیس کے عالوہ کوئی دوسرا شخص جنو ِن عشق میں نمایاں حیثیت حاصل نہ
کر سکا۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحرابھی وسعت کے باوجود حسد کرنے والےشخص اس کی آنکھ
کی طرح تنگ تھا کہ کوئی اور نہ سکا۔
تشریح :چشم حاسد کی تنگی اس لیے مشہور ہے کہ وہ اپنے سوا ہر شخص کی نعمت کا زوال مانگتا
ہے۔ وہ کسی کو پھولتا پھلتا نہیں دیکھ سکتا۔
مرزا غالب ہی اسی مفہوم کو بیان کرتے ہیں کہ صحرا دیکھنے میں کتنا ہی وسیع اور کشادہ کیوں نہ
ہو لیکن جب ہم پر حقیقت پیش نظر رکھتے ہیں کہ قیس (مجنون) کے عالوہ کوئی اور عشق کر نے
واال جنون عشق میں صحرا میں نہیں آیا تو معلوم ہوا کہ میرا صحرا چشم حاسد کی طرح تنگ ہے
یعنی وہاں کسی اور کے قدم رکھنے کے لیے جگہ نہیں۔ ورنہ ضرور کوئی جنون عشق کا سودا سر
میں سمائے صحراؤں کی خاک چھانتا نظرآتا۔
اس شعر میں قیس کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ اس کے سوا کوئی اور محبت اور عشق کے آزار
اٹھانے واال نہیں آیا۔ دنیا کی مصیبتوں اور تکالیف کو برداشت صرف عاشق میں ہوتا ہے کہ اس پر
محبوب کو پانے کی دھن سوار ہوتی ہے۔ وہ اس جنون عشق میں ہر دکھ اور تکلیف برداشت کر لیتا
ہے۔ حاسد کا رویہ بھی بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس لیے غالب نے صحرا کی تنگی کو حاسد کی آنکھ
کی تنگی یعنی تنگ نظری سے مماثل قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ قیس کے عالوہ اور کوئی
دشت اورصحرا کے دکھ برداشت نہیں کر سکا کیونکہ صحرا بھی سخت تنگ یعنی تکلیف دہ تھا۔
صحرا کی عصبیت چشم حاسد کی تنگی یاد دالتی ہے۔
نوٹس:۔اردو
دل کی آہ سے لے کر پھول کی خوشبو اور چراغ کا دھواں تک پریشان نکلتا ہے۔ غالب نے صنعت
حسن تعلیل کوخوبصورتی سے بیان کیا ہے اور محبوب کے حسن کی تا ثیر پیش کیا ہے۔
عورت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
مفہوم :مرزا غالب کے نزدیک قطرے کا سکون دریا میں تحلیل ہو جانا ہے اور درد کا حد سے
گزرنا گویا اس کی دوا بن جانا ہے۔
تشریح :دروجب حد سے بڑھ جائے تکلیف جب زیادہ ہو جائے تو انسان اس کا عادی ہو کر اسے
برداشت کر لیتا ہے۔ غالب اس نقطے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ درد کی انتہا اس کی دوا ہے
جیسے قطرہ دریامیں تحلیل ہوکر اپنی ہستی کوفنا کر لیتا ہےاسی طرح درد کا عادی ہونا دراصل اس
کا عالج بن جاتا ہے۔ یہی مضمون ایک اور شعر میں بیان کیا گیا ہے۔
رنج سے خو گر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے
رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آسان ہو گئیں
دل سے مٹنا تیری انگشت حنائی کا خیال
ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہو جانا
مفہوم :میرے دل سے تیری مہندی لگی انگی کا تصورمٹنا ایسے ہی ناممکن ہے جیسے گوشت کا
ناخن سے الگ ہونا۔
تشریح :ضرب المثل ہے کہ ناخن سے گوشت جدا نہیں ہوسکتا مراد یہ ہے کہ گوشت اور ناخن ایک
ہی ہیں ان کو الگ کرناممکن نہیں غالب اس مضمون کو سامنے رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ تری حنا
آلودانگلی کا خیال بھالنا اسی طرح ناممکن ہے جیسے گوشت سے ناخن کا الگ ہونا۔ مراد یہ ہے کہ
اے محبوب تری حنا آلودانگلی میرے دل میں اس طرح پیوست ہے جیسے ناخن گوشت میں پیوست
ہوتا ہے۔ دونوں کی جدائی ممکن نہیں۔
شور پند ناصح نے زخم پر چھڑکا نمک
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
مفہوم:ناصح کی نصیحتوں کے شور نے میرے دل کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے ان سے کوئی
پوچھے انھیں اس سے کیامل گیا ہے۔
تشریح:عاشق کتنی تکالیف برداشت کرے وہ عشق سے باز نہیں آتا۔ اسے ناصح کی نصیحتیں بھی
عشق سےباز نہیں رکھ سکیں بلکہ اسےناصح کی نصیحتوں کا شور زخموں پر نمک کی طرح
محسوس ہوتا ہے۔ غالب کہتے ہیں کہ اسے اس سے کیامال ہے۔
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ت امکاں کو ایک نقش پا پایا ہم نے دش ِ
مفہوم:انسانی خواہشات اور آرزوؤئیں میں بے حد وسعت رکھتی ہیں ذات باری تعالی کی آرزو کا
ایک نقش یہ جہان ہے۔
نقش پا قرار دیتے ہیں۔ خالق دو جہاں کاجذبہ
ِ ت امکاں میں ایک تشریح:اس شعر میں غالب دنیا کودش ِ
تخلیق کا دوسراقدم نہ جانے کہاں پڑا ہوگا۔ کیونکہ بہت سے دنیا ئیں ہماری نظروں سے ابھی اوجھل
ہیں۔ غالب نے اس شعر میں تمنا خواہیش اور امنگ کے محدود معانی کی بجائے رب ذوالجالل کے
نوٹس:۔اردو
جذ بہ تخلیق کی وسعت کو موضوع بنایا۔انسانی خواہشات اور تمنائیں بے حد وسیع ہیں اور تمناؤں کا
ت امکاں میں ایک نقش پا قرار دیتے ہیں۔کوئی کنارہ نہیں۔ شاعر دنیا کو دش ِ
سب کہاں کچھ اللہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو
گئیں
مفہوم:سب نہیں کچھ صورتیں اللہ و گل میں ظاہر ہوئی ہیں اور نہ جانے کتنی صورتیں ہیں جو خاک
میں مل گئیں اور وہ ظاہر نہ ہو سکیں۔
تشریح:اس شعر میں غالب کا خیا ل یہ ہے کہ گل و اللہ کی شکل میں جو خوشنما پھول نظر آتے ہیں
یہ دراصل وہ حسین لوگ ہیں جو مر کر خاک میں ملک گئے اور اب ایک جنم کے بعد دوسرے جنم
میں پھولوں کی صورت میں ظاہر ہو گئے ہیں۔ بقل غالب یہ تو چند صورتیں ہیں جو پھولوں کی شکل
میں ظاہر ہو تی ہیں نہ جانے اور کتنے چہرے اور حسین لوگ ہوں گے جو ابھی خاک میں چھپے
ہوئے ہیں اور انھیں ظاہر ہونے کا موقع نہیں مال گویا ایک نہ ایک روز وہ بھی کسی نہ کسی شکل
میں ظاہر ہوں گی۔ بعض ناقدین کے نزدیک اس شعر میں غالب بھی ہندوؤں کے عقیدے آواگون سے
متاثر دکھائی دتے ہیں۔ ہندوؤں کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان مر کر کسی اور روپ میں دوسرا جنم بھی
لیتا ہے۔
ہوا ہے۔شاعروں کا خیال ہے کہ جب روتے ہوئےآنسوں خشک ہو جاتے ہیں تو آنکھوں سے آنسوؤں
کی بجائے خون رواں ہوجاتا ہے۔ میرتقی میربھی اس نظریےکے قائل ہیں۔
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
آتا نہیں جب ہے آتا لوہو
غالب بھی فراق کے دکھ میں خون کی ندیاں بہارہے ہیں ۔ دوسرے مصرعے میں وہ ان خون کے
شام فراق میں دو
آنسوؤں کونئے زاویے سے پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں سمجھوں گا کہ ِ
شمعیں روشن کر رکھی ہیں گویا محبوب کی جدائی میں خون روتی آنکھوں کو روشن شمعیں قرار دیا
گیاہے۔
ک رسوم ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے تر ِ
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
مفہوم :ہم توحید کے عقیدے کو ماننے والے ہیں یعنی موحد ہیں اور ایسے لوگ رسوم ورواج ترک
کردیتے ہیں۔ جب ملتیں مٹ جاتی ہیں ایک امت بن جاتی ہے اورملتیں مٹ کر ایمان کے اجزا بن
جاتی ہے۔
تشریح:شاعراس شعر میں فلسفہ ء تو حید پیش کرتا ہے کہ جس طرح توحید کو ماننے واال (موحد)
تمام رسوم ورواج کوتسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی ان پرعمل کرتا ہے اگر تمام لوگ اسی عقیدے کو
ماننے لگیں تو یہ فرقہ بندیاں ختم ہو جا ئیں اور فرقے ختم ہو جائیں تو سب ایک ہو کر ایک خدا اور
ایک رسول کو ماننے والے اکٹھے ہو جائیں اس طرح ایمان مکمل ہو جاتا ہے جب ملتیں (فرقہ
بندیاں) ٹوٹتی ہیں توایمان کے اجزاء بن جاتی ہیں۔
رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے
رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
مفہوم :جب انسان رنج کا خوگر(عادی) ہو جاتا ہے تومشکالت اور مصائب برداشت کرنے کے
حوصلے سے مشکلیں بھی آسان لگنے لگتی ہیں۔ تشریح:اس شعر میں شاعر نے ایک نفسیاتی نکتہ
بیان کیا ہے کہ انسان کو جب مستقل دکھ اور مصائب برداشت کرنے پڑتے ہیں تو وہ ان کا عادی ہو
جاتا ہے۔ مشکالت میں جتنی مشکالت بھی آجائیں پھر وہ آسان لگتی ہیں۔ گویا مسلسل مصائب میں
انسان کی برداشت بڑھ جاتی ہے اور وہ اس کا عادی ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اسے دکھوں اور غموں
کا احساس نہیں ہوتا۔ غالب اس نکتے کو پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مشکالت کا عادی ہونے پر
انسان کورنج کچھ نہیں کہتے اور مجھ پر بھی اتنی مشکالت پڑی ہیں کہ وہ ساری مشکلیں میرے
لیے آسان ہوگئی ہیں۔
تشریح :درج باال شعر میں غالب اپنے حاالت کا رونا روتے نظر آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میری
شاعری میں دکھ اور در نمایاں ہیں میں خوشیوں کا گیت نہیں اور نہ ہی میں ساز سے نکلنے والی
خوش کن آواز ہوں جسے سن کر لوگ لطف اندوز ہوسکیں۔ میں تو ایک نوحہ ہوں۔ میری شاعری
میں درد و غم اور تلخیاں ہیں اور میں اپنی ٹوٹ پھوٹ کی آواز ہوں۔
کل کا خم آرائش اور تو
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
مفہوم:یہاں شاعر اپنی اور محبوب کی متضادنفسیاتی کیفیات کا تذکرہ کر رہا ہے کہ اے محبوب ! تو
اپنے آپ کو سنوارنے میں مصروف ہے اور میں اندیشہ ہائے دور دراز میں بھٹک رہا ہوں۔
تشریح:غالب ایک نکتہ آفرین شاعر ہے اس کی شاعری میں فکر و خیال کی بلندی دیدنی ہے یہ شعر
بظاہر سادہ ہے کہ محبوب اپنی زلفوں کو سنوارنے میں محو ہے اور شاعر اندیشہ ہائے دور دراز
میں کھویا ہوا ہے۔ غالب کہتے ہیں کہ میری اور میرے محبوب کی سوچ میں نمایاں فرق ہے محبوب
اپنے آپ میں مگن بننے سنورنےسے فارغ نہیں جب کہ میری سوچ کہاں کہاں جاتی ہے۔ حسن کی
حقیقت سے لے کر اپنی اصل تک میں مسلسل فکر میں غلطاں ہوں۔ ایک اور معنی بھی ہو سکتے ہیں
کہ غالب محبوب کو ہنسے سنورتے دیکھ کرتشویش میں مبتال ہیں کہ آرائش کے بعد محبوب مزید
خوبصورت ہو جائے گا اور رقیبوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔ شاعر کی سوچ کہاں کہاں
بھٹکتی ہے۔
دلی سادہ فریب نمکین الف
ہم ہیں اور راز ہائے سینہ گداز
مفہوم :غالب کا کہنا ہے کہ وضع داری میں رکھ رکھاؤ کی شیخی بگھارنا ہماری سادہ دلی ہے ورنہ
عشق کی آتش ہمارا سینہ پگھالئے جارہی ہے۔
تشریح :۔ غالب ایک انا پرست اور وضع دار انسان تھے وہ محبوب کے ستم پربھی آہ زاری کرتے
نظر نہیں آتے۔ وہ محبت میں ستم برداشت کرنے کے قائل ہیں۔غالب اپنہ وضع داری اور تمکنت کو
فریب سادہ دلی قرار دیتے ہیں کہ اندر سے تو عشق کی آگ سے سینہ پگھال جاتا ہے اور دل عشق
کی آگ میں دھواں دے رہا ہے لیکن کم ظرف عاشقوں کی مانند ہم شور مچانے کے قائل نہیں بلکہ
اپنے آپ کوتمکنت اور وقار کا دھوکہ دے کر خاموشی سے ہر ستم دکھ اور درد برداشت کر رہے
ہیں۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے ہی انتظار ہوتا
مفہوم :ہماری ایسی قسمت کہاں کی محبوب کا وصال ہوتا ہم اگر اور زندہ رہتے تو ہمیں انتظار ہی
کرنا پڑتا
تشریح :غالب محبوب کے انتظار کا مضمون خوبصورتی سے بیان کر رہے ہیں عموما ً محبوب ملنے
کا وعدہ کر لیتا ہے لیکن یہ وعدہ بھی وفا نہیں ہوتا غالب اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے کہتے
ہیں کہ محبوب سے مالپ ہمارے مقدر ہی میں نہیں ہے ہم اس ملن کو ترستے ہوئے اگر نہ بھی
مرتے یعنی اگر مزید زندہ رہتے تو بھی میں ہمیں محبوب کا انتظارہی کر نا پڑتا۔۔۔۔ مگر وصا ِل یار
ہمارے نصیب میں نہیں ہے۔
نوٹس:۔اردو
حالی اور مسلمانوں کی تباہ حالی کا آئینہ ہے جس میں غالب نے مایوسی اور محرومی کونمایاں کیا
ہے۔
تشریح:غالب اپنی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی حالت زار بیان کر رہے ہیں اور دوسروں
کونصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میری حالت دیکھ کر سبق حال کرد ،عبرت حاصل کرو کہ
عشق کرنے والے کا یہی حال ہوتا ہے۔ دراصل عشق ایک کٹھن کام ہے جس میں آزار اور اذیت کے
سوا کچھ نہیں لہذاعشق کی راہ پرآنے والومیری حالت سے عبرت حاصل کرو اور میرے تجربات
اور مشاہدات پر غور کرو۔ میری نصیحت سن کر اس پر مل کروبین عشق سے باز رہو۔ آسان کام
نہیں ہے اس میں زندگی تباہ و برباد ہو جاتی ہے اور میں اس کی زندہ مثال ہوں۔
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع راہ گئی سو وہ خموش ہوئی
مفہوم :شمع اپنے سینے پر رات کی محفل کی جدائی کا داغ لیے خاموش پڑی ہے (یعنی بجھ چکی
ہے)۔
تشریح:اس شعر میں غالب نے صنعت حسن تعلیل سے کام لیا ہے۔صبح دم شمع ویسے بھی بجھا دی
جاتی ہے اور بجھی ہوئی شمع کاگل سیاہ ہوتا ہے۔ اسے غالب نے داغ فراق صحبت شب قرار دیا ہے۔
اس شعر میں بھی سیاسی حاالت کی طرف اشارہ ہے اور غالب اپنے دور کی زبوں حالی بد امنی کا
تذکرہ کررہے ہیں۔
ت مغلیہ کےحکیم مومن خان مومن کے دادا حکیم نامدار خاں کشمیر کے رہنے والے تھے۔ سلطن ِ
آخری دور میں آکر شاہی طبیبوں میں داخل ہو گئے ۔ مومن کے والد کا نام حکیم غالم نبی خان تھا۔
شاہ عالم کے زمانے میں ان کے خاندان کو جاگیر عطا ہوئی۔ انگریزی دور میں انھیں پنشن ملنے
لگی ۔ مومن 1215ھ میں پیدا ہوئے بچپن ہی سے ذہین تھے۔ ان کا حافظہ بال کا تھا۔ عربی و فارسی
میں مہارت رکھتے تھے فن طب تو ان کا موروئی پیشہ تھا۔ اس کے عالوہ شاعری ،نجوم اور
شطرنج سے بھی شغف تھا۔ تمام مشاغل حق مشاغل تھے۔ ان فنون کوانہوں نے ذریعہ معاش نہیں
بنایا۔ خوبرو اورخوش لباس انسان تھے ابتداء میں شاہ نضیر سے اصالح لی۔ تاریخ گوئی میں بھی
انہیں کمال حاصل تھا۔
ان کی تصانیف میں ایک دیوان کے عالوہ چھ مثنویا بھی شامل ہیں۔ ان کے کالم میں نازک خیالی اور
بلند پروازی نمایاں ہے۔
تشریح :مومن کے کالم میں شوخی او شگفتگی کے ساتھ قدرے سنجیدگی کے آثار بھی نمایاں ہیں ۔
مومن ایک خوش رو اور خوش لباس انسان تھے۔ ان کی زندگی عشق و عاشقی میں بسر ہوئی اورپھر
دلّی کا ماحول۔ اپنی زندگی کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ساری عمرتو بتوں کے عشق میں
گزرگئی ہے اب آخری وقت میں خاک مسلماں ہوئے ویسے مومن آخری عمرمیں تائب ہو کر دین کے
پابند ہو گئے تھے۔
تم ہمارے کس طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
مفہوم :اے محبوب! تم کسی بھی طرح ہمارے نہ بن سکے ورنہ اس دنیا میں کیا کیا ناممکن کام
بھی ممکن بن جاتے ہیں۔
تشریح :مومن نے نہایت سادگی سے اپنے دل کی کسک کا اظہار کیا ہے وہ محبوب سے مخاطب
ہیں کہ الکھ جتن کرنے کے باوجودتو میرا نہیں بن سکا۔ ورنہ دنیا میں کون سا کا ایساہے جو ناممکن
ہے۔ لیکن بدقسمتی سے تو ہی ہمارا نہ ہو سکا۔ کاش ایسا ہوسکتا بقول شاعر۔
ایک تم ہی نہ مل سکے ورنہ
ملنے والے پر بچھڑ بچھڑکے ملے
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
مفہوم :جب میرے پاس کوئی دو سراموجود نہیں ہوا تو اس وقت تم مرے قریب ہوتے ہو۔
تشریح :مومن کا یہ شعر سہل ممتنع کا بہترین نمونہ ہے۔ جس میں سادگی محبوب کے تصور اور
اس کی یادکا ذکر ہے۔ شاعر محبوب سے مخاطب ہے کہ اے میرے ہمدم میں جس وقت اکیال ہوتا ہوں
اور کوئی دوسرا میرے پاس نہیں ہوتا تو میرے خیالوں میں تم یوں چپکے سے چلے آتے ہو جیسے
تم میرے سامنے بیٹھے ہو۔ بظاہر تو میں اکیال ہوتا ہوں لیکن تم سے الگ نہیں ہوتا میری یادوں اور
تصورات میں تم میرے بہت نزدیک ہوتے ہو۔
وہ آتے ہیں پیشماں الش پر اب
تھے اے زندگی الؤں کہاں سے
مفہوم:وہ مری الش پر پشمانی کی حالت میں آئے اے زندگی اب تجھے کہاں سے الؤں ۔ کاش میں
جی سکتا۔
تشریح :مومن اپنے محبوب کی پشیماں صورت کو دیکھ کرافسردگی کا اظہار کررہے ہیں محبوب
آخری وقت میں عاشق کی الش پر آیا ہے۔ اور وہ پیشماں ہے کہ اس نے زندگی میں عاشق کو کیا کیا
رنج دیئے ہیں ۔ اور اس کی پریشان حالت دیکھی نہیں جاتی ۔ مگراے زندگی اب تجھے کہاں سے الیا
جائے ۔ مرنے والے لوٹ کر کب آتے ہیں۔ کاش زندگی دوبارہ مل جاتی بقول شاعر۔
زلف دراز
ِ الجھا ہے پاؤں یار کا
میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
مفہوم :مرے محبوب کا پاؤں اس کی لمبی زلفوں میں الجھ گیا ہے گویا صیاداپنے بچھائے جال میں
خودا گیا۔
تشریح :سادہ سارومانی شعر ہے جس میں محبوب کی لمبی زلفوں کے جادو کا ذکر ہے۔ جس کی
زلفوں کے سینکڑوں اسیر ہیں۔ اس کی زلفوں کے کئی غالم ہیں مگر یہی زلفیں خودمحبوب کے پاؤں
میں الجھ رہی ہیں اور صیادخوداپنے جال میں پھنس گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ لمبی زلفیں عاشقوں کا دل
موہ لیتی ہیں لیکن یہی زلفیں پاؤں میں الجھ جائیں تو انسان ٹھوکربھی کھاسکتا ہے۔
چارہ دل سوائے صبر نہیں
سو تمھارے سوا نہیں ہوتا
مفہوم :ول کا عالج صبر کے سوا کچھ نہیں یہ صبر ترے سوا نہیں آتا۔
تشریح:اس شعر میں مومن اپنے دل کی بے قراری بیان کر رہے ہیں ۔محبوب کی یاد میں دل بے
چین اور بے قرار ہے۔ اور اس دل کا عالج یہ ہے کہ صبر کیا جائے کہ محبوب کا ملنامشکل ہے۔
گراہم بات یہی ہے کہ صبر بھی محبوب کے سوانہیں آ تایعنی اے میرے محبوب مرے دل کا عالج
صرف اور صرف صبر ہے لیکن اب تیرے سوا صبربھی آنامشکل ہے۔ گویاتوہی میر واحد عالج ہے
بغیر دل کوقرارملنا مشکل ہے۔
مرزا ابراہیم ذوق
(1203ھ1271-ھ)
شیخ محمد ابراہیم ذوق ایک غریب سپاسی شیخ محمد رمضان کے صاحبزادے تھے۔ ابتدائی تعلیم
حافظ غالم رسول کے سپرد ہوئی جو معمولی درجہ کے شاعر بھی تھے۔ ذوق نے شعری ذوق انہی
کی صحبت میں حاصل کیا۔ اکثر ان کے ہمراہ ذوق مشاعروں میں جایا کرتے تھے۔ ان کے ہم سبق
میر کاظم بھی حافظ غالم رسول کے پاس پڑھنے آتے تھے۔ کاظم ،شاہ نصیر کے شاگرد تھے۔ انہی
کی دیکھا دیکھی ذوق بھی شاہ نصیر کے شاگرد ہو گئے جن کا اس وقت دلّی میں بڑا چرچا تھا لیکن
شاگردی کا یہ رشتہ زیارو دیرنہ چل سکا۔ ذوق چونکہ غیر معمولی ذہین تھے سوا پنی غزلوں کو بہ ِ
نظر اصالح خود ہی دیکھنے لگے اور ان کی درستی و چستی میں بڑی کدو کاوش کرنے لگے اس
کا نتیجہ یہ نکال کہ ان کے کالم کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ شاہ نصیر نے دلّی چھوڑی تو
ولی عہد سلطنت بہادر شاہ ظفر کی غزلیں میر کاظم حسین اصالح کرنے لگے۔ میر کاظم ذوق کے
دوست تھے۔ جب ّمیر کاظم کو بھی کہیں اور مالزمت مل گئی تو ظفر کی غزلوں کی اصالح کا
فریضہ ذوق کے سپرد ہو گیا جس پر ان چار روپے ماہوار وظیفہ ملتا تھا۔ ولی عہد کے استاد ہونے
کے ناطے ان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوگیا ۔ ان کی استادی کی شہرت ہوئی۔ ولی عہد بہادر شاہ
شرکت افروز ہوئے تو ان کی قدر و منزلت میں مزید ترقی ہوئی ۔ ایک گاؤں جا گیر عنایت ہوا۔ ذوق
کا انتقال 1271ھ میں ہوا۔ زوق موتی نجوم ،طب فقہ حدیث ،تاریخ اور تصوف میں دستگاہ کامل تھی۔
انہوں نے ولی کو بھی نہ چھوڑا اور کہا
ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر
وسخن
نوٹس:۔اردو
تشریح :زندگی کوغم و آالم کی عالمت قرار دیا جارہا ہے اور اس کے لیے شمع کی مثال دی جارہی
ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے شمع! تیری عمر طبیعی بس ایک رات ہے۔ اسے ہنستے سوتے گزار یا
پھر روتے ہوئے ۔ بہر حال میں تو نے رات بھر جلنا ہے اور یہ دیکھ برداشت کئے بغیر چارہ ہیں۔
بات کو پسند نہیں کرتا کہ ہللا کے گھر میں ایسی بری حرکت ہو لیکن شاعر کہتا ہے کہ خداصرف
مسجد میں نہیں ہر جگہ موجود ہے لہذا مسجد میں شراب پینے کی پابندی کیوں لگائی جائے۔ اس شعر
میں دراصل زاہد پر چوٹ کرتا مقصور ہے۔
وہاں سیل تند رو کا روپ نہیں اپنانا چاہے۔ چمن سے تو گیت گاتی ہوئی ندی کی طرح گزرنا چاہیے۔
سخت گیر لوگوں کے لیے رویہ سخت ہونا چاہیے اور کمزور ،نرم ،مسکین اور بے کسی لوگوں
کے ساتھ ہمیشہ نرمی ،ہمدردی اور شفقت کا سلوک کرنا چاہیے ۔ یعنی انسان کو جیسے حاالت پیش
آئیں ان کے مطابق خودکوڈھال لینا چاہیے۔
کافر ہے تو شمشیر پر کرتا ہے
بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے
سپاہی
مفہوم :کافر کو اپنی تلوار پرناز رہتا ہے وہ تلوار کا سہارا لیتا ہے جب کہ مومن اس کے مقابلے میں
محض تلوار کے بھروسے پرنہیں رہتا وہ تلوار کے بغیر بھی لڑنے کا حوصلہ اور ہمت رکھتا ہے۔
تشریح:اقبال رحمتہ ہللا علیہ کے اس شعر میں مومن کی ایک خوبی یہی بیان کی گئی ہے کہ وہ ہللا
تعالی کے سواکسی اورکواپنا سہارا نہیں بناتا۔ وہ جہاد میں اس کی رضا کومدنظر رکھتا ہے۔ وہ مال و
اسباب اور شکر و سپاہ کو خاطر میں نہیں لیتا۔ وہ ہللا کی راہ میں کی جانے والی جنگ میں ہتھیاروں
اور لشکر کی تعدادپر زیادہ بھرور نہیں کرتا وہ ہللا تعالی پر یقین کامل رکھتے ہوئے تلوار ہاتھ میں نہ
بھی ہو تو حق کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا سکتا ہے۔ البتہ کافر ہر آن مادی اشیاء کے بھروسے پر
رہتا ہے ،وہ جنگ میں پہلے لشکر کی قوت اور ہتھیار کی طاقت کو سامنے رکھتا ہے۔ وہ محض
طاقت سے جنگ جیتنے کی کوشش کرتا ہے اس کے پاس یقین اور جذبہ صادق اور کوئی خاص
مشن نہیں ہوتا اور اس کے بر عکس مومن کے پاس اپنے دین کے لیے لڑنا اور جہاد بہت بڑا درجہ
ہے۔ اقبال رحمتہ ہللا علیہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔
فاتح عالم
ِ یقین محکم ،عمل پیہم محبت
جہا ِدن زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی
شمشیریں
مفہوم:اے الہوت تک سفر کرنے والے پرندے !اس رزق سے موت اچھی ہے جس سے پرواز میں
رکاوٹ آجائے۔
نوٹس:۔اردو
تشریح :عالمہ اقبال ؒ نے مذکورہ باال شعر میں بھی ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ ان کا
مخاطب مسلمان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس رزق پرواز میں خلل آۓ اسے ترک کر دینا چاہیے۔ پرواز
وہی اچھی ہے جو اوپر کی سمت ہو کہ
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں
گرتا
اس شعرمیں مقصدیت کوملحوظ ر کھنے کی طرف اشارہ ہے۔ اللچ و حرص وہوسں سے الگ رہ
کر محض بلند پروازی ہی مطمع نظر ہونا چاہیے۔ یعنی
نہ ما ِل غنیمت نہ کشور کشائی
مومن کو اپنے مقصد اورلگن سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ کیونکہ
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کو
خسارہ
مومن کو "طائر الہوت" قرار دیا گیا ہے ۔ مومن کو اپنی منزل دھیان میں رکھنی ہے اس کی منزل
اس کا مقام بہت بلند ہے۔ اگر طائر الہوتی رزق کے لیے کرگس کی طرح اڑتے اڑتے مردار کھانے
زمین پرغوطہ زن ہو جائے گا تو وہ اپنی منزل بھی نہ پا سکے گا۔ اسے تو مسلسل اڑتے رہنا ہے۔
ترے سامنے آسان اور بھی ہیں
مراد یہ ہے رزق کے لیے پرواز میں خلل برداشت نہیں کرنا چاہیے۔
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
مفہوم :کتناہی خوف اورخطرہ کیوں نہ ہو زبان دل کی حمایت کرتی ہے اور ازل سے ہی قلندروں کا
شیوہ رہا ہے۔
(قلندروں کا طریق یہی ہے کہ وہ دل کی بات زباں پر النے سے کبھی نہیں ڈرتے)۔
اقبال نام اس شعر میں یہ درس دیتے
تشریح :حق گوئی اور صداقت پر قائم رہنے کی بات ہورہی ہے۔ ؒ
نظر آتے ہیں کہ چاہے جان کو کتنا ہی خطرہ ہو۔ سچ کا راستہ نہیں چھوڑنا چا ہے اور قلندروں کا
یہی شیوہ ہے کہ وہ دل کی بات کہنے سے بھی خوفزدہ نہیں ہوتے چاہے زندگی میں کتنی مشکالت ،
مصائب و آالم آئیں وہ اپنے ضمیر کے خالف کوئی بات نہیں کرتے۔ وہ وہی کہتے اور کرتے ہیں
اقبال
جوان کے ضمیر اور دل کے مطابق درست ہو ۔ بقول ؒ
تشریح:اقوال زندگی کے راز سے پردہ اٹھاتے ہیں اور سراغ زندگی کے لیے دل میں غوطہ زن
ہونے کا مشورہ دیتے ہیں۔ انسان اگر اپنے اندر جھانک لے تو اپنے آپ سے آگاہ ہوسکتا ہے۔
جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے رب کو پہچان لیا
خودآگہی کے لیے ضروری ہے کہ من میں ڈوبا جائے۔ اس طرح انسان زندگی کے اسرار ورموز
اقبال اسی نکتے کو پیش کرتے ہوئے مومن کو کہتے ہیں تو کسی اور کا نہیں سے آشنا ہوسکتا ہے۔ ؒ
بنتا تو کم ازکم اپنی فکر کر اپنا تو بن ۔
مفہوم :شاہین کوہ بیاباں میں اپنی گزر بسر کر لیتا ہے اس کے لیے آشیاں بنانا ذلت کا درجہ رکھتا
ہے۔
تشریح:اس شعر میں اقبال شاہین کی ایک صفت بیان کر رہے ہیں کہ شاہین آشیانہ نہیں بناتا ۔ وہ
پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہی گزربسر کر لیتا ہے۔ اقبال شاہین کو پرندوں کی دنیا کا درویش قرار دیتے
ہیں۔
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا ہیں آشیانہ
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن
فیکوں
مفہوم :یہ جہاں بھی شاید نامکمل ہے کہ پل پل صدائے کن فیکوں کی آواز آرہی ہے۔
اقبال اس کائنات کی تخلیق کا تصور پیش کرتے نظر آتے ہیں ان کا خیال مذکورہ باال شعر میں عالمہ ؒ
ہے کہ کائنات لمحہ لمحہ تغیر پذیر ہے اسے پل بھر سکون نہیں ہے بلکہ وہ کہتے ہیں۔
.سکون محال ہے قدرت کے
میں کارخانے
قرآن مجید میں آتا ہے کہ ہللا تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ کن فیکون کہتا ہے اور کام مکمل ہوجاتا
ہے۔ اس کائنات کے لیے بھی ابھی اس نے فقد کن فیکوں کہا اور کائنات بن گئی۔ مراد یہ ہے کہ ابھی
تخلیق کا سلسلہ ر کا نہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ ہر لمحہ صدائے کن فیکوں سنائی دے رہی ہے۔
غالب اس خیال کو اپنے انداز میں بیان کرتے ہیں۔
آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
مفہوم :مراطریق زندگی امارت نہیں غربت ہے خود کو سنبھال اور غریبی میں نام پیدا کر۔
تشریح :درج باالشعرنظم جاوید کے نام سے لیا گیا یورپ میں جاوید کے ہاتھ کا لکھاپہال خط ملنے
اقبال اپنے بیٹے کو ایک نظم جواب میں ارسال کرتے ہیں یہ نظر صرف جاوید کے لیے پر عالمہ ؒ
نہیں بلکہ تمام نوجوانوں کے لیے مشعل راہ بن گئی ہے۔ اس شعر میں وہ اپنے صاحبزادے کو تلقین
کرتے ہیں کہ کسی صورت میں اپنی خودی کو داؤ پرمت لگانا۔ اپنے محدود حاالت و سائل میں رہ کر
نام ومقام بنانے کی کوشش کرنا کیونکہ میرا طریق امارت نہیں غریبی ہے اور خودی ہی اصل
سرمایہ ہے۔ اسے عارضی سکون ،تعیش آرام کے لیے داؤ نہیں لگایا جاسکتا۔
تشریح :یاالہیٰ محبوب کا ہم سے میل جول تھامگر اس قدر نہیں تھا ان دنوں یہ قربت بڑھ گئی ہے خدا
اس کا انجام ٹھیک کرے ۔ بعض اوقات قربت نفرت میں بھی بدل جاتی ہے اور زیادہ میل جول انسان
کو ایک دوسرے سے دور بھی کر دیتا ہے۔ شاعر اس کیفیت کو بیان کرتا نظر آتا ہے کہ ان دنوں
محبوب ہم پر کچھ زیادہ مہربان ہے اور یہ یہ مہربانی کیا رنگ التی ہے بقل عدیم ہاشمی
بہت نزدیک آتے جا رہے ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا
یعنی زیادہ قربت ہمیشہ کے لیے بچھڑنے پرمجبور کر دیتی ہے قریب آ کر انسان ایک دوسرے پر
کچھ زیادہ کھل جاتا ہے اور پھر اختالف پیدا ہوجاتے ہیں۔
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنون کا خرد
جو چاہے آپ کا حس ِن کرشمہ ساز
کرے
(حسرت)
تشریح :موالنا حسرت موہانی کے اس شعر میں محبوب کے حسن کی کرشمہ سازی کی طرف اشارہ
ہے کہ حسن کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہتا ہے۔ تیری نظر جسے چاہے اوج پر پہنچا دے۔ تو چاہے تو
کسی کو عقل مند اور دانش ور قرار دے اور چاہے تو کسی عقل مند کو نادانی کی سند عطا کر دے ۔
اس لیے کہ تم حسین ہو اور تیری بات میں یہی وزن کافی ہے کہ تجھ سا حسین اور کوئی نہیں ہے۔
سوتمھاراحسن جو چاہے کرشمہ اور معجزہ د کھاسکتا ہے۔
فکر دو عالم سے کر دیا آزاد
دلوں کو ِ
ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے
(حسرت)
تشریح :حسرت اسی غزل میں آگے چل کر کہتے ہیں کہ اے محبوب یہ بھی تیرے حسن کا کرشمہ
ہے کہ تیرے چاہنے والوں کو تیرے عشق کے سوا اور کوئی کام نہیں اور تیرے عشق میں گرفتار
لوگ اور کسی کام کے نہیں رہے۔ اور یہ بھی ان کے حق میں اچھا ہوا کہ وہ دنیا جہان کے دیگر
تفکرات اور پریشانیوں سے بچ گئے۔ ورنہ
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت
سوا کے
اس طرح عشق میں گرفتار دنیا کے دکھوں سے الگ ہے اور صرف اورصرف تیری محبت کے
اسیر بن کر بہت اچھا رہے۔ شاعر محبوب کی طرف سے عطا کیے جانے والی کیفیت عشق و جنوں
کو دعادیتا ہے کےسلسلہ اس طرح پھیلتا ہے اورطول پکڑے۔ تیراحسن اسی طرح قائم دائم رہے تا کہ
لوگ دونوں جہانوں کی فکر سے آزاد ہیں۔
روش ِن جمال یار سے ہے انجمن تمام
آتش گل سے چمن تمامِ دہکا ہوا ہے
(حسرت)
تشریح :حسرت موہانی اپنے محبوب کے حسن و جمال کی رنگینی کو قدرے مبالغہ آرائی سے بیان
کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ساری انجمن میرے یار کے جلوؤں سے روشن ہوگئی ہے۔ گویا سارا
چمن پھولوں کی آگ سے دہک رہا ہے۔ مراد یہ ہے کہ پھول کھلے ہوئے ہوں تو ان کے رنگ سے
نوٹس:۔اردو
ہر طرف رنگ و نور کا سماں ہوتا ہے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہر سمت رنگینی ہے۔ رنگینی
شاعر کوآگ بھی محسوس ہوتی ہے اور سارا چمن پھولوں کی سرخ رنگت سے دہکا ہوا نظر آتا ہے۔
غرور حسن سے ،شونی سے ِ حیرت
اضطراب
دل نے بھی تیرے سیکھ لیے ہیں چلن
تمام
(حسرت)
تشریح:شاعر کہتا ہے کہ میرے دل نے بھی تیری ادائیں اپنالی ہیں ۔ تیرے غرور حسن پر دل حیران
ہو کر رہ جاتا ہے یوں ترے حسن سے میرے دل نے حیرت سیکھ لی ہے اور پھر جب اپنے حسن پر
ناز کرتا ہے اور شوخ ہو جاتا ہے تو میرا دل بے چین و بے قرار ہو جا تا ہے اور میں تیرے عشق
میں بے تاب ہو جاتا ہوں ۔ یوں تیری اداؤں نے میرے دل پر گہرا اثر ڈاال ہے۔ اور میرا دل بھی تیری
اداؤں کے رنگ میں رنگا جا چکا ہے۔ گویا میرے دل نے تیرے اطوار اپنا لیے ہیں۔ کیونکہ عشق
ومحبت کا تقاضا ہے کہ یا خود محبوب کے رنگ میں رنگے جاؤ تو اسے اپنے رنگ میں رنگ ڈالو۔
میں تمھیں اپنے انداز نہ سکھا سکا البتہ ترے انداز میں نے اپنا لیے اور میرے دل نے تری ادائیں
اپنالی ہیں۔
اچھا ہے اہل جور کیے جائیں
سختیاں
ش حب وطن پھیلے گی یوں ہی شور ِ
تمام
(حسرت)
تشریح :حسرت موہانی کے مذکورہ باال شعر میں اس وقت کے سیاسی منظر کو دیکھا جاسکتا
ہے۔فرنگی حکومت اپنی حکومت قائم رکھنے کے لئے مقامی لوگوں پر ظلم وستم ڈھاتی تھی اور
لوگ ان کے خالف زبان نہیں کھولتے تھے بلکہ چپ چاپ ان کے ظلم کی سختیاں برداشت کرتے
تھے۔ حسرت نے انہی سختیوں کی طرف اشارہ کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اچھا ہے ظلم کرنے والے
سختیاں کیے جائیں وہ جس قد ر دباؤ ڈالیں گے لوگوں کے حب الوطنی کے جذبے میں اتناہی جوش
اور ولولہ پیدا ہوگا۔
تاثیر برق حسن جو ان کے سخن میں
تھی
اک لرزش خفی مرے سارے بدن میں
تھی
(حسرت)
تشریح:خالصتا ً رومانی شعر ہے اور حسرت کی غزل کا اندزامکمل روبانی ہے۔ اس شعر میں و
محبوب کی باتوں میں حسن کی بجلی جیسی تاثیر محسوس کررہے ہیں ان کا خیال ہے کہ محبوب کی
گفتگوحال پراثر کرتی ہے اور مجھ پربھی اس کی باتوں کا گہرا اثر ہوا ہے کہ میرے بدن میں ہلکی
سی لرزش طاری ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ایک بجلی سی میرے سارے بدن میں کوند گئی ہے۔ اور
نوٹس:۔اردو
میری رگ رگ میں ایک روشنی سی سرایت کر گئی ہے۔ میں محبوب کی پرتاثیر اور محبت بھری
باتوں سے بے حد متاثر ہوا ہوں۔
ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکر پریشاں کہاں کہاں
مری
(میر تقی میر)
تشریح:اس شعر میں میرتقی میرمحبوب کی جدائی میں اپنی "فکر پریشان" کا تذکرہ کر رہا ہے جس
طرح مفلس آدمی اپنے حاالت کی بہتری اور خوشحالی کے لیے نجانے کیا کیا سوچتا ہے۔ وہ خیالوں
ہی خیالوں میں اپنی خوشحالی دیکھتا ہے اور کیا کیامنصوبہ بندیاں کرتا ہے کہ جن سے وہ جلد ہی
امیر ہو جائے بالکل ایسے ہی محبوب کی جدائی میں عاشق خیاالت میں کیا کیا سوچنے لگتا ہے۔ وہ
محبوب کے وصال کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔ شاعر نے ایسی کیفیت کو مذکور باال شعرمیں بیان
کیا ہے کہ جدائی میں غریب آدی کے خیال کی طرح میری سوچیں بھی کہاں کہاں چلی جاتی ہیں۔
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ
اپنی
تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم
ہیں بیٹھے بیزار
(انشاء)
تشریح:اس شعر میں انشاء شاعر باد بہاری سے مخاطب ہے وہ کہتا ہے کہ بہار کی مہکتی ہوا تو
ہمیں پریشاں مت کر۔ تیری شوخی ہمیں اپنی بیزاری میں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ انسان اندر سے خوش
ہو تو اسے اپنے اردگرد کا موسم ،ہر بات اچھی لگتی ہے لیکن اگر اس کے دل کا موسم اچھا نہ ہو تو
اسے کوئی بھی تفریح اچھی نہیں لگتی ،چاہے ہر طرف بہار ہو ۔ پھول کھلے ہوئے ہوں ۔ خوشبوئیں
پھیلی ہوئی ہوں ۔ اگر انسان بیزار ہے تو اسے ہر شے سے بیزاری ہونے لگتی ہے۔ شاعر نے اس
مضمون کو مذکورہ باال شعر میں بیان کیا ہے۔ وہ بہار کی مہکی ہوا سے کہتا ہے کہ مجھے اٹھکیلیاں
سوجھ رہی ہیں اور ہم بیزار بیٹھے ہیں ۔ جا اپنی راہ لگ اور میں ہمارے حال پر چھوڑ دے ہم بیزار
ہیں۔
خورشید وار دیکھتے ہیں سب کو ایک
آنکھ
روشن ضمیر ملتے ہر اک نیک و بد
ہیں سے
(ذوق)
تشریح :محمد ابراہیم ذوق کے اس شعر میں وہ روشن ضمیر کی خصوصیت کا ذکر کرتے ہیں ۔ ان
کا خیال ہے کہ ایک ضمیر کا اچھا آدمی تعصب سے قطعی کوئی سروکار نہیں رکھتا ہے۔ جیسے
سورج تمام مخلوق کے لیے بال امتیاز روشنی اور حرارت کا سامان رکھتا ہے اور ساری دنیا کو ایک
ہی نظر سے دیکھتا ہے۔ روشن ضمیر بھی مساوات کے اس برتاو پرمل کرتا ہے۔ اس شعر میں ذوق
سہی بات پیش کرتے ہیں کہ ہم بھی سورج کی طرح سبھی اچھے بُروں کو ایک آنکھ سے دیکھتے
ہیں اور اچھے ُبروں سبھی لوگوں سے نہایت اخالق سے ملتے ہیں۔
نوٹس:۔اردو
تشریح :ناصر کاظمی اس شعر میں دنیا کی رونق اور چہل پہل کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس
دنیا کی رونق اور رنگ ونورکسی کے محتاج نہیں ہیں کسی کے ہونے نہ ہونے سے اس دنیامیں
کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ دنیا کی طرح ہمیشہ آباد رہے گی کہ اگر کوئی انسان یہ سمجھتا ہے کہ جب
وہ دنیا سے چال جائے گا تو اس دنیا کے سارے کام دھندے بند ہو جائیں گے۔ ساری رونق اور چہل
پہل ختم ہو کر رہ جائے گی تو یہ اس کی خام خیالی اور حماقت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا ہمیشہ اسی
طرح آباد اور قائم دائم رہے گی۔ آج اگر مجھ سا با ہنر شاعر ہے تو کل میری جگہ کوئی اور باکمال
شاعر لے لے گا۔ ہم نہ ہوئے تو کوئی ہم جیسا ہو گا۔ دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس کے کام اسی
طرح جاری و ساری رہیں گے یہ ہمیشہ آباد رہے گی۔
تشریح:اب اس گلی میں آہی گئے ہیں تواس ظالم کےشہر کی یادگار یہی پتھر لے چلیں۔ کسی طرح تو
اس کی یاد اور نشانی ہمارے پاس رہے محبوب کی گلی کے پتھر بھی اچھے لگتے ہیں ۔ شاعر کہتا
ہے کہ وہ ستم گر خودنہیں مال اور اس کے شہر میں ہم آئے تو میں کیوں نہ اس کی گلی سے چند
پتھر ہی نشانی کے طور پر ساتھ رکھ لیں ۔ اسی بہانے اس کی یاد تو آتی رہے گی۔
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی
طرف
اپنے ہی دوستوں سے مالقات ہو گئی
(حفیظ جلندھری)
تشریح :اس شعر میں حفیظ جالندھری آج کل کے دوستوں کی بے وفائی کا گلہ خوبصورت انداز میں
کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے تیر کھا کر مورچے کی طرف سے دیکھا تو وہاں میرے ہی
دوست دکھائی دے۔ یعنی وہ میرے اپنے ہی دوست تھے۔ کوئی غیر مجھے مارنے واال نہ تھا بلکہ
میرے دوست تھے۔ چنانچہ آج کے دوستوں پر اعتبار کرنا سراسر حماقت اور نادانی ہے۔ آج دوست
ہی پیٹھ میں خنجرگھونپتے ہیں۔
شاعر زمانے کی بے حسی اور مروت واخالص کے زوال کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یعنی اب ہر
طرف مفاد پرستی ہے۔ دوستی یاری کا رشتہ بھی الئق اعتبارنہیں ہے۔
نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ
دیا گنوا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ
دیا لٹا داغ
(فیض)
تشریح :مذکورا باال شعر میں فیض احمد فیض کہتے ہیں اپنے تیروں کو روک لو میرا دل ریزہ ریزہ
ہو گیا ہے۔ اب مزید ستم برداشت کی قوت نہیں ہے تم اپنے بچے ہوئے کنکرسنبھال لو۔ یہ پھر کام
آئیں گے ہم زخموں سے چور چور ہیں ۔ مزید تمھارے ستم کا کوئی فائدہ نہیں ہے ہمارا دل ریز ریز
و اور جسم داغ داغ ہو چکا ہے ۔ اب فضول اپنے تیر اور پتھر ضائع مت کرو۔
(فیض)
تشریح :فیض محبت میں اپنا سب کچھ بنانے والے کا تذکرہ کررہے ہیں کہ دونوں جہان تیری محبت
میں ہار کر کوئی رخصت ہورہا ہے۔
یعنی شب غم گزارنے کے بعد اور اتنا طویل انتظار کرنے کے بعد بھی اگر مجبوب نہیں آتا تو اس
سے زیادہ مایوسی اور بددلی کی اور کیا بات ہوگی ۔ اور یہ تو دونوں جہان محبت میں ہارنے والی
کیفیت ہے۔
خالصتا ً رومانی شعر ہے جس میں محبوب کی بے اعتنائی اور عاشق کے خلوص اور ایثار کا
تذکرہ ہے۔
در زنداں پر آ کے صبا نے پھر ِ
دی دستک
سحر قریب ہے دل سے کہو نہ
گھبرائے
(فیض)
تشریح :فیض احمد فیض ایک ترقی پسند شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں جبر واستحصال اور نا
انصافی کے خالف ایک مزاحمت کا رنگ نمایاں ہے وہ رومان کے پردے مزاحمتی انداز رکھتے ہیں
۔ اس شعر میں ایک امید کا پیغام نظر آتا ہے کہ صبا نے ایک بار پھر زنداں کے دروازے پرآ کر
دستک دی ہے اوراس میں یہ پیغام ہے کہ صبح قریب ہے ،رات ختم ہونے والی ،دل کو کہو کہ وہ
بے تاب نہ ہو۔ رات سے مرادظلم کی سیاہ تاریکی ہے۔ نجات کی منزل قریب ہونے کا اشارہ دیا گیا
ہے۔
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خوں
چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
(فیض)
تشریح :ہم اپنے جنوں یا داستان خوں رنگ لکھتے رہتے ہیں یہ الگ بات کہ اس میں ہمارے ہاتھ قلم
کر دیئے گئے قلم لکھنے کے معنوں میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ہاتھ قلم ہوا ،محاورہ ہے ۔ شاعر
نے اس محاورے سے فائدہ اٹھایا ہے یوں شعر کے حسن میں اضافہ ہو گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ ہم
محبت اور صداقت کی راہ پر چلتے رہے ہیں اور یہ کہانیاں لکھتے ہوئے ہم سے ہمارے ہاتھ چھن
گئے لیکن ہماری ہمت ختم نہیں ہوئی ۔ ہم حق و صداقت کے راستوں پر گامزن رہے۔