You are on page 1of 9

‫بسم ہللا الرحمٰ ن الرحیم‬

‫وجۂتسمی ٔہ‬
‫ٔ‬
‫سفسطائیت یونانی لفظ سوفیست کا معرب ہے جس کا مطلب ہے عقلیات۔ یونانی میں لفظ صوفیا سے بنا ہے جس کا معنی عقل ہے‬
‫اور اس سے منسوب شخص کو سوفوس یعنی دانشور کہا جاتا ہے لیکن درحقیقت اس سے ُمراد ایک گمراہ کن طبقہ ہے‬
‫نہند زنگی را کافور نام‬ ‫؏‬
‫اس طبقہ کی معلوم تاریخ یہ ہے کہ پانچویں صدی قبل مسیح یہ لوگ ایتھنز آئے۔ اس وقت اقتدار کا حصول فن تقریر اور بالغت‬
‫سے مشروط تھا اس لئے نوجوانوں میں ان کی خاص طلب تھی چنانچہ سفسطائیوں کا مدعا حقیقت کی جستجو کی بجائے بالغت‬
‫اور فصاحت میں کمال رہا وہ ایک موضوع پر کالم کرتے اس کو ثابت کرتے اور دالئل سے اس کو مضبوط کرتے پھر اسی کو‬
‫رد کرتے اور ہر دلیل کو ناکارہ بنا ک دکھاتے۔ ان کے اس طریق فکر نے جن دو اولین گمراہ کن عقائد کو جنم دیا وہ یہ ہیں۔‬

‫‪۱‬۔ صداقت یا سچ نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔‬


‫‪۲‬۔ ہر شے کا پیمانہ انسان ہے۔‬

‫ہپیاس‪ ،‬گارگائس‪ ،‬تھرسامیکس اور پراٹاگورس ان کے معروف اساتذہ اور آئمہ ہوئے ہیں ان کے عقائد نے جو الزمی نتیجہ دیا وہ‬
‫علم کی محدودیت کا تھا جس میں علم کی حیثیت بھی قطعی نہیں رہی۔‬

‫نٔ‬
‫یٔرجحا ٔ‬
‫یٔمنف ٔ‬
‫سٔفسطائیتٔغیرعلم ٔ‬

‫ان معلوم تاریخی حقائق سے یہ نہیں سمجھنا چاہئیے کہ سفسطائیت اپنی پیدائش میں صرف یونانی دانش کا ایک پہلو ہے بلکہ‬
‫حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کسی رجحان عقلی یا فکری نے خود کو ممتاز کیا ہے پہلے سے اس کی کہیں نا کہیں فکری نشونما پائی‬
‫جاتی ہے۔ سفسطائیت کی شناخت کا اولین موجب یونانی دانش ضرور بنی ہے مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ یہ بغیر‬
‫شناخت پہلے بھی پائی جاتی تھی اور وہ اقوام و ملل جہاں یونانی فکر کبھی پہنچی ہی نہیں وہاں بھی کسی نا کسی صورت‬
‫سفسطائیت اپنی قدرتی شکل میں موجود رہی۔ معرعض سخن یہ ہے کہ اس رجحان کا قدرتی یا فطری سبب کیا ہے؟ تاکہ ہم اس‬
‫موضوع کی حدبندی کرتے ہوئے آگے بڑھ سکیں۔‬
‫سفسطائیت جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہورہا ہے اگر اس کو اس کے لغوی معنوں پر بھی محمول کرلیں اور یونانی دانش سے‬ ‫ُ‬
‫الگ رکھ کر اس کا جائزہ لیں تو یہ کسی قسم کا علمی رجحان نہیں ہے چنانچہ ہم بخوبی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک قسم کا عقلی‬
‫دعوی کئے ایک یہ کہ سفسطہ عقلی رجحان ہے علمی نہیں دوم یہ منفی یا مذموم‬‫ٰ‬ ‫رجحان ہے جو محمود نہیں ہے۔ یہاں ہم نے دو‬
‫رجحان ہے قابل تعریف نہیں۔ تفصیل ان کی یوں ہے کہ دیکھو علم اور عقل میں فرق ہے بسا اوقات انسان عالم ہوتا ہے لیکن عقل‬
‫کم ہوتی ہے اور بعض اوقات انسان عاقل ہوتا ہے لیکن علم کم ہوتا ہے کمال عالمیت کا تقاضا تو یہی ہے کہ دونوں مکمل صورت‬
‫میں پائے جائیں مگر ان کو الگ الگ ہی شناخت کیا جاتا ہے علم خارجی دنیا کے انکشاف سے خود اپنی دریافت پر محیط ہے‬
‫لیکن عقل فکر‪ ،‬حافظہ‪ ،‬وہم اور خیال وغیرہ کے وظائف کی صورت کام کررہی ہوتی ہے۔ بس عقل کے ایک رجحان کا نام‬
‫"سفسطہ" ہے۔ اب ہم دوسرے دعوے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں یعنی سفسطہ ایک سلبی رجحان عقلی ہے۔ اس کو سلبی کیوں کر‬
‫کہا جائے؟ تو جاننا چاہئیے کہ رجحانات عقلیہ کے مفید یا مضر ہونے کا فیصلہ ان کی ترکیب اور نتائج سے اخذ کیا جاتا ہے چوں‬
‫کہ سفسطہ میں خود صداقت کا انکار ہے اور یہ انکار یہاں ایک صداقت کے طور پر پایا جاتا ہے تو دونوں بیانات تقاضا کرتے‬
‫ہیں کہ کم ازکم ایک دوسرے کا نقیض ہے یہ ہوا ترکیب میں نقص اب ہم دیکھتے ہیں کہ نتائج کیا ہیں؟ خود سفسطیانہ سوچ کا‬
‫نتیجہ علم دشمنی اور ترقی کے دروازوں کو بند کردینا ہے۔ انسان کو اس بات کا وہم دینا ہے جو اس میں پائی ہی نہیں جاتی یعنی‬
‫اس کا خود پیمانہ ہونا۔ سفسطیوں میں اکثر رجعت پسندانہ ذہنیت کے حامل ہیں کسی کو بھی ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی‬
‫سوائے اس کہ کے جو جیسا ماحول ہے اس کو ویسا مان کر جھوٹے دعوؤں اور مکاری سے اقتدار وغیرہ کا حصول کیا جائے یا‬
‫ایسا کرنے کی ترغیب دی جائے ظاہر ہے یہ نتیجہ بہت ہی تخریب کی پیدائش کا سبب ہے اس لئے "سفسطہ ایک سلبی عقلی‬
‫رجحان" ہے۔‬

‫ف‬
‫سفسط ٔۂکیٔتعری ٔ‬

‫استدالل کی وہ قسم جو بنیادی طور پر غلطی پر مشتمل ہو اپنے مکمل قالب میں مغالطہ کہلواتی ہے اس کی دو اقسام ہوتی ہیں۔‬
‫‪۱‬۔ قیاس فاسد‬
‫)نادانستہ طور پر سرزد ہونے والی منطقی اغالط(‬

‫‪۲‬۔ سفسطہ‬
‫)غلط استدالل جو دھوکہ دہی کی نیّت سے کیا جارہا ہو(‬

‫محور مغالطہ کی پہلی قسم نہیں ہے کیونکہ انسان خطا کا پُتال ہے اور اس سے تحریر یا تقریر کے دوران منطقی‬
‫ہماری بحث کا ّ‬
‫غلطیاں صادر ہوجانا ایک عام بات ہے لیکن ایسا منطقی مغالطہ جس کی بنیاد اس نیت سے ہو کہ دھوکہ دہی میں مفید ثابت ہورہا‬
‫ہو جزوی یا کلّی طور پر پس وہ سفسطہ ہے۔ کیونکہ ہم اول مقالہ میں پڑھ چکے ہیں کہ سفسطہ حق کی تردید پر استوار کیا جاتا‬
‫ہے اور اس میں قوت ارادی کا ملوث ہونا ضروری ہے ایسا مغالطہ جس میں متکلم یا محرر کی نیت دھوکہ دہی کی نا ہو وہ‬
‫سفسطہ نہیں کہالئے گا۔‬

‫ت‬
‫سفسط ٔۂکیٔعالما ٔ‬
‫اس کے بعد ہمیں یہ بخوبی جاننا چاہئیے کہ سفسطہ وہ تحریر یا تقریر ہے جو کسی سفسطی نے خواہ وہ کسی بھی قسم کا ہو کہی‬
‫یا لکھی ہو۔ اس کو مندرجہ ذیل نشانیوں سے پہچانا جاسکتا ہے۔‬

‫ی‬
‫یٔساحر ٔ‬
‫‪۱‬۔ٔلفظ ٔ‬
‫ایسی باتیں کہنا یا لکھنا جو ایسے دعوؤں پر مشتمل ہوں جن کے دالئل تو مسلم ہوں لیکن جو بآور کروانے کی کوشش کی جارہی‬
‫ہو اس کے حق میں وہ دالئل جزوی یا کلی طور پر تائید نہیں کررہے ہو مگر مخاطب کو یقین دلوانے کے لئے ان کو ایسی ترتیب‬
‫سے پیش کیا جاتا ہو کہ مخاطب قائل ہوجائے اس کی بڑی واضح مثال کسی بھی تجارتی کمپنی کی کسی مصنوع یا بینک کی‬
‫مشہوری ہے عمو ًما اشتہار سے ایسی بات اخذ ہورہی ہوتی ہے کہ جو فالں برانڈ کے کپڑے یا بسکٹ خریدے گا اس کی زندگی‬
‫میں انقالبی تبدیلی آجائے گی ظاہر ہے کسی جنس کا خریدنا زندگی میں فیصلہ کن تبدیلیاں النے کا کبھی سبب نہیں ہوتا چنانچہ‬
‫دالئل مدلول سے مکمل انقطاع کئے ہوئے ہیں جزوی تردید کی مثال یوں ہے کہ نپولین جنگ ہارا اس لئے آج کی تاریخ میں‬
‫برصغیر میں غربت ہے اب نپولین جنگ ہارا یہ ایک حقیقت ہے لیکن برصغیر کی عسرت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر یہ‬
‫کہ احتمالی تعلق ہے کہ اگر نپولین جنگ جیت جاتا تو ظاہر ہے کہ دنیا کے حاالت موجودہ سے کچھ اور ہوتے مگر تب بھی‬
‫برصغیر کے افالس کی اس سے کوئی نسبت ثابت نہیں ہوتی۔‬

‫دعوی‬
‫ٔ‬ ‫‪۲‬۔ٔناقاب ٔلٔتفتیشٔ‬
‫عبارت میں ایسی چیز النا جس کی تصدیق یا تردید جزوی یا مکمل طور پر کر سکنا مخاطب کے لئے ناممکن ہو یعنی ایسی جگہ‪،‬‬
‫شخص‪ ،‬طبقہ یا زمانے کا حوالہ بطور دلیل دے دینا جس تک رسائی ہی اتنی مشکل ہو کہ محال کے حکم میں آجائے یا سرے سے‬
‫دعوی کیا جانا جب کہ خود اس کشف و‬‫ٰ‬ ‫ہی محال ہو جیسے وفات ہوچکی ہو یا خواب کا حوالہ یا پھر کشف و الہام کو دلیل بنا کر‬
‫ً‬
‫احتماال منکر ہو۔‬ ‫دعوی کیا گیا ہو وہ خود اس سے مکمل یا جزوی طور پر صراحتًا یا‬‫ٰ‬ ‫الہام میں نواقض ہوں یا پھر جس کے متعلق‬
‫ی‬
‫‪۳‬۔ٔشرحٔٔاختراع ٔ‬
‫شارح کا کسی مصنف زندہ یا مردہ کی کسی بات کی شرح و بسط کرتے ہوئے مشروح کی طرف ایسی بات منسوب کرنا جو‬
‫دعوی کیا۔‬
‫ٰ‬ ‫مشروح نے صراحتًا نا کہی ہو نا لکھی ہو نا ہی اس کا‬

‫س‬
‫‪٤‬۔ٔتدلی ٔ‬
‫ثابت سے ناقابل ثبوت کا اثبات کرنا یعنی ایک مستند وقوعہ کی قدر کو اپنے مغالطہ کے ثبوت میں لے آنا جیسے کسی تعلیمی‬
‫ادارے کی سند ہو اس پر جس شخص کا نام درج ہو اس کا ہم نام شخص لے آنا اور اس کو اس سند کا حامل بتانا یا پھر یوں بھی کہ‬
‫کسی کتاب سے عبارت کو لینا اور حوالہ دے دینا لیکن ساتھ اپنے الفاظ یوں مالدینا یا ترجمہ کرتے ہوئے ایسا ترجمہ کرنا کہ‬
‫مصنف یا مؤلف کی مراد وہ کبھی ہو ہی نہیں مگر من مانے نتائج اخذ کرنے کے لئے مدلس ایسا فعل کرتا ہے جس سے سننے یا‬
‫پڑھنے والے کو دھوکہ ہوجائے۔‬

‫ضٔفیۂامو ٔر‬
‫‪٥‬۔ٔمتناق ٔ‬
‫باہم نقیض باتوں کو ایسا پرونا کہ وہ معقول عبارت نظر آئیں اور ان کا نقیض ہونا چھپ جائے اس کی تفصیل یوں ہے۔‬
‫الف۔ ایسی بات کہنا جس سے عبارت یا تقریر دل آویز ضرور ہوجائے لیکن اس میں ریاضیاتی بنیادوں پر تناقض پایا جاتا ہو‬
‫جیسے مربع دائرہ کا وجود یعنی محال کو ثابت کیا جارہا ہو۔‬
‫ب۔ ایسی چیز کا اثبات کرنا ہو جس کی تردید خود بیانیہ میں ہو جیسے بیک وقت کسی شخص کو دو یا اس سے زائد اجناس سے‬
‫منسوب کردینا‬
‫ج۔ بیان میں تو تناقض نا ہو مگر مفہوم میں شدید نقص پایا جاتا ہوں ً‬
‫مثال بادشاہ جہانگیر نے اپنے ہم منصب ایرانی شہنشاہ سے ٹیلی‬
‫فون پر رابطہ کیا جب کہ حقیقتًا عبارت درست ہے مگر مفہوم کا تقاضا ہے کہ عبارت میں تناقض ہے اور وہ یوں ہے کہ بادشاہ‬
‫دعوی میں شمار‬
‫ٰ‬ ‫جہانگیر کا عہد ٹیلیفون کی ایجاد سے قدیم ہے۔ اپنی اس صورت میں یعنی مفہومی تناقض میں یہ بات ناقابل تفتیش‬
‫ہوتی ہے مگر شرح و تفصیل دیتے ہوئے اس کو یہاں ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔‬

‫ۓدالئ ٔل‬
‫تٔبجائ ٔ‬
‫‪٦‬۔ٔاختراعا ٔ‬
‫دالئل کی بجائے من گھڑت باتوں پر انحصار کیا گیا ہو یہ بڑی اہم شرط ہے۔ من گھڑت بات کبھی مدعی خود کرتا ہے اور کبھی یہ‬
‫بات کسی سے منسوب کرکے روایت کررہا ہوتا ہے۔ اپنی اختراع میں اس کو پہچاننا آسان ہے لیکن اگر روایت کررہا ہو تو‬
‫ضروری ہے کہ انسان یہ جانے کہ وہ کیوں اور کس وجہ سے روایت کررہا ہے۔‬
‫الف۔ کوئی بھی شخص اپنی ُمراد کے خالف ایسی بات نہیں النا چاہے گا ہاں یوں کہ اس کو ادراک نہیں ہو کہ یہ بات اس کی منشآ‬
‫کے برعکس ہوجائے گی یا پھر‬
‫ب۔ کوئی بھی راوی اعتماد کی وجہ سے روایت کررہا ہوگا جو اس کو روی عنہ پر ہوگا اگر اعتبار نہیں ہے تو وہ‬
‫ج۔ اپنے ارادہ کے خالف رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے ایسی روایت کررہا ہوگا۔ اپنی اس تیسری شکل میں دیکھا جائے گا کہ‬
‫راوی کا مطلب محکی عنہ کی تردید یا اپنے مقدمے کا اثبات ہے لیکن خود اپنا مقدمہ کسی حقانیت پر ہے یا وہی مغالطہ ہے جو‬
‫در آیا ہے اس طرح ایک غلط کو ثابت کرنے کے لئے دوسری بطالت کا بطالن چنداں مقبول نہیں ہوگا۔‬
‫ت‬
‫‪٧‬۔ٔمنافئٔعل ٔمٔالہاما ٔ‬

‫سب پہلوؤں میں وجدان اور الہام ایسی چیز ہے جس کو ذکر کرنا یہاں ضروری ہے ایک شخص دھوکہ دہی کے لئے خواب یا الہام‬
‫دعوی السکتا ہے جس کی تصدیق یا تردید کی صالحیت مخاطب کے پاس نہیں ہوتی مگر ایسے جعلی الہامات کی‬ ‫ٰ‬ ‫یا ایسی بات کا‬
‫دعوی منافی علم بھی‬
‫ٰ‬ ‫نشانی خود ملہم کا ان کو لے کر وطیرہ یا سیرت سے واضح ہورہا ہوتا ہے مگر ساتھ ساتھ ایسے الہامات کا‬
‫دعوی‬
‫ٰ‬ ‫مثال کسی شخص کا‬‫ہوگا یعنی ان کا نُقص عیاں ہوجائے اگر ان میں علم دشمنی یا صداقت کی حقیقت سے انکار پایا جاتا ہو۔ ً‬
‫کہ اس کو الہام ہوا کہ وہ حکمران ہے حاآلنکہ وہ شخص ایک عام انسان سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور اس کا حکمران ہونا محال‬
‫دعوی کو لے کر تقاضا کرتا ہے کہ اس کی مؤافق حکمران کے تعظیم کی جائے یا اس کو تسلیم‬ ‫ٰ‬ ‫دعوی کے بعد اس‬
‫ٰ‬ ‫ہے مگر وہ‬
‫ً‬
‫کیا جائے جو کہ خالف واقعہ ہے یا پھر کسی مقدمہ میں الہام کو بنیاد بنا کر گواہی دے دے تو وہ گواہی اصوال مردود ہے اور‬
‫دعوی جو محال‬
‫ٰ‬ ‫لوگوں کے ساتھ فریب کاری کے لئے ایسی بات کہے جس کا الہام ممکن نہیں ہے جیسے کہ بعثت یا رسالت کا‬
‫ہے گویا تین سیبوں کو پانچ سیب کہنے پر اصرار ہے جو کہ الئق توجہ بات نہیں۔‬
‫ان نکات سے ہم بآسانی سفسطہ شدہ باتوں کو شناخت کرسکتے ہیں اور سفسطے کے شکار لوگوں کو متمیز کرسکتے ہیں۔‬

‫ی‬
‫سفسط ٔ‬

‫جو شخص سفسطیانہ باتیں کہتا یا لکھتا ہے اس کو ہم سفسطی کہیں گے خواہ وہ خود کو سفسطی مانتا ہو یا نہیں۔ چنانچہ غور سے‬
‫سمجھنا چاہئیے کہ یونانی دانش کے اوائل میں سفسطہ اپنا انتساب بخوشی بیان کرتے رہتے تھے لیکن ان کے باطل عقائد جوں‬
‫جوں واضح ہوتے گئے ایک قسم کی نفرت عوام میں ان کے متعلق پیدا ہوتی گئی یہاں تک کہ سفسطیوں کا گروہ ناپید ہوگیا یا یوں‬
‫کہہ لیں کہ اس نے مختلف فکری رویوں سے متاثر ہوکر انفرادیت کو گنوا دیا لیکن کسی نا کسی شکل میں پایا جاتا رہا خواہ وہ اس‬
‫کے ماضی کے وجود کے تذکرہ کے ذریعہ ہو یا پھر انسان میں فطری یا قدرتی طور پر پایا جانے واال سفسطیانہ رجحان ہو۔ البتہ‬
‫میرے جائزہ کے مطابق سفسطی اب عیا ًنا پایا نہیں جاتا یا کوئی شخص مسدود ابالغ کا شکار ہوجانے کے خوف سے خود کو‬
‫سفسطہ کی طرف منسوب نہیں کرتا مگر حقیقت یوں ہے کہ سفسطہ کو مٹانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ اکثر شناخت‬
‫نہیں کیا جاسکا مگر میں کوشش کرتا ہوں کہ سفسطیوں کی مختلف اقسام کا ذکر کروں تاکہ اس موضوع پر روشنی پڑے۔‬

‫سفسطیوںٔکیٔاقسا ٔم‬

‫سفسطیانہ تحریر یا تقریر کا صادر ہونا ضروری ہے یاد رکھیں کسی کو‬
‫سفسطہ کی بنیاد فریب ہے اس لئے سفسطی کے لئے ُ‬
‫سفسطی کہہ دینے سے وہ سفسطی نہیں ہوجاتا۔ سفسطیوں کی پہلی تقسیم ان کی حالت کے مطابق یوں ہے۔‬

‫‪۱‬۔ دائمی سفسطی‬


‫‪۲‬۔ عارضی سفسطی‬

‫ی‬
‫یٔسفسط ٔ‬
‫‪۱‬۔ٔدائم ٔ‬

‫دائمی سفسطی وہ شخص ہے جو جانتا ہے کہ وہ سفسطی ہے لیکن وہ اس بات کا اظہار یا اخفاء بھی سفسطہ کے تحت کرتا ہے‬
‫یعنی اس کو سفسطہ کچھ ایسا مرغوب طبع ہوچکا ہوتا ہے کہ وہ اس سے باز نہیں آتا خواہ کسی بھی حالت میں ہو۔ ایسے شخص‬
‫کی سفسطہ سے نسبت معلوم کرلینا بہت آسان کام ہے۔ آپ اس کے دالئل کے بودے پن اور مغالطوں سے بآسانی محسوس کرجائیں‬
‫گے اور اس کی سیرت پر غور کرکے بآسانی اس کو سفسطی جان لیں گے لیکن اگر کوئی نادانستہ مغالطوں کا شکار رہتا ہے تو‬
‫وہ سفسطی نہیں کہالئے گا خواہ تمام عمر اس سے مغالطے ہی صادر ہوتے رہیں اس کو ہم احمق کہیں گے یا اس کے مغالطوں‬
‫کو بآسانی مغالطے قرار دے دیں گے۔ یاد رکھیں ایسا شخص جو مغالطے کا شکار ہو یا اس سے صدور مغالطہ (قیاس فاسد) ہو وہ‬
‫ساقط االعتبار نہیں ہوگا بلکہ اس کی اخبار یا روایات یا بیانات کو ضروری تصحیح کے بعد قبولیت حاصل ہوجائے گی یا پھر‬
‫ممکن ہے ایک دو جگہ تسامح ہو باقی اس کے بیانات بالکل درست ہوں یوں کہہ لیں انار کے چند دانے خراب ہوں تو کل انار‬
‫پھینکا نہیں جاتا لیکن اتنی اہلیت ہونا چاہئیے کہ انسان خراب دانوں کا الگ کرنا جانتا ہو۔‬

‫ی‬
‫‪۲‬۔ٔعارضیٔسفسط ٔ‬

‫سفسطیوں کی سب سے زیادہ پیچیدہ اور قابل توجہ قسم عارضی طور پر سفسطہ کا عارضہ الحق ہوجانا ہے۔ سفسطہ کی یہ قسم‬
‫اپنی شرح و بسط کے لحاظ سے ذرا تفصیل چاہتی ہے اس میں مختلف اقسام ہیں۔‬

‫الف۔ نفسیاتی بحران کا شکار‬

‫ایسا شخص جو معاشرتی رویوں سے یا کسی خاص قسم کے حاالت و واقعات کے تحت ایسی بات کا شکار ہوچکا ہو جس سے وہ‬
‫کسی مخصوص طبقہ کی توجہ حاصل کرنے یا کسی خاص فرد کو چڑانے کے لئے خود کو سفسطی کہلوانا شروع کردے یا ایسی‬
‫اداکاری کرے یا خود پر سفسطہ کو طاری کرلے لیکن درحقیقت ایسا شخص علم نفسیات کا موضوع ہوگا نا کہ سفسطی۔‬

‫ب۔ عبوری سفسطی‬

‫ایسا شخص جو ممکنہ طور پر عوام میں کسی وجہ سے اعتبار حاصل کرلیتا ہے اور ان معامالت میں دخل دیتا ہے جس کا اس کو‬
‫چنداں علم نہیں ہے یا ناقص علم ہے پس وہ اپنی رائے کے تحفظ میں سفسطیانہ گفتگو شروع کردیتا ہے ممکن ہے اس کی کسی‬
‫خاص فن میں مہارت مسلم و مصدق ہو لیکن عبوری طور پر وہ مخصوص یا محدود معامالت میں سفسطیانہ باتیں کررہا ہوتا ہے‬
‫طلَب ہے ہاں وہ خود تائب ہوجائے اور ایسا شاذ ہی ہوتا‬
‫پس ایسے شخص کے سفسطہ کو پہچاننا سب سے زیادہ مشکل اور مہارت َ‬
‫اس میں تو بعض کا حال یہ ہے کہ سفسطہ کا ارتکاب کرتے ہے اور یوں ہے کہ اس موضوع کا کوئی عالم اس کو بےنقاب کردے‬
‫ہیں اس سے باز بھی آجاتے ہیں اور تاحیات بےعلم رہتے ہیں کہ کبھی سفسطہ کے مرض کا شکار بھی رہے ہیں جیسے بحث‬
‫بازی میں کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت یا کسی فرقہ‪/‬طبقہ کی تائید یا تردید یا پھر مسلم عقلی مقدمات پر حرف گیری‬
‫کیونکہ خود ان کے الحاد پر ضرب پڑ رہی ہوتی ہے۔ پس ان کی آراء کو مطلق توجہ نہیں دی جائے گی اور مطلق سفسطہ قرار‬
‫دے کر رد کردیا جائے گا۔‬
‫اس متعلق میں واضح کرتا چلوں کہ سفسطہ کے نقصانات کیا ہیں؟ اور اس کے فروغ کے اسباب کیا ہیں؟‬

‫سفسطہ نے فکری دنیا کو ایک ایسا زاویہ متعارف کروایا کہ جس میں شک کیا جاسکے اور شک کے وظیفے کو باقاعدہ ایک‬
‫مکتب فکر کی صورت دی اس سے اتنا ضرور ہوا کہ جو لوگ اس رجحان کے شکار ہوتے ان کی کمزوری ظاہر ہوگئی اور علم‬
‫دشمنی یا رجعت پسندی کو انہوں نے باقاعدہ ایک صورت سے متعارف کروا دیا۔ سفسطہ نے کسی خاص موضوع فکر کو کبھی‬
‫نہیں اپنایا بلکہ ہر موضوع پر مغالطوں کو دھوکہ دہی کی نیت سے قائم کیا اور بدنامی اکٹھی کی۔ انسان کسی بھی چیز کو جب‬
‫سیکھتا ہے تو اس سے حاصل ہورہے نتائج اس کی یقینیات میں دخل پیدا کرتے ہیں جس سے کے تحت اس کا شعور متاثر ہوتا ہے‬
‫اور انسان اپنے شعور کے تحت ہی زندگی بسر کرتا ہے اقوام کی تشکیل میں فردی شعور کا گہرا ہاتھ ہوتا ہے چنانچہ سفسطہ کا‬
‫تعلق چونکہ نفس پسندی و خود پرستی سے ہے اس لئے افراد کے شعور میں یہ خلل اقوام کی تخریب کا باعث اور خاندانوں میں‬
‫بربادی پیدا کرتا ہے۔ سفسطیانہ فکر انسان کو ہٹ دھرم‪ ،‬بدتہذیب‪ ،‬بےوقوف‪ ،‬اجڈ‪ ،‬بےدین اور نکما بنادیتی ہے ظاہرا یہ باتیں اگر‬
‫کسی بھی قوم میں پھیل جائیں تو اس کا مجموعی قالب ترقی کی متعین قدرتی شرح سے سست روی کا شکار ہوجائے گا اور نتیجہ‬
‫میں وہ قوم یا تو مغلوب پائی جائے گی یا پھر فنا ہوجائے گی۔ سفسطہ اگر یوں ہے کہ کوئی شخص کسی خاص مقدمہ میں جھوٹ‬
‫کہہ دے یا بیان درست نا دے یا پھر اس سے کوئی رذائل اخالق صادر ہو تو وہ سفسطی نہیں کہالئے گا جب تک وہ سفسطہ کو‬
‫باقاعدہ اپنی مکمل فکر و شعور میں اتار نہیں لے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں روبیضہ یا سفسطہ کا عمل دخل‬
‫بہت زیادہ ہوگیا ہے جس کی بڑی وجہ ذرائع ابالغ میں سرعت آجانا ہے یقی ًنا سرعت معیوب امر نہیں ہے لیکن سرعت کے منفی‬
‫پہلوؤں میں سفسطیانہ فکر کا فروغ ہے اب ہم سفسطہ کے پھیالؤ کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔‬

‫غٔسفسط ٔہ‬
‫فرو ٔ‬

‫سفسطیانہ فکر کے فروغ کے اسباب جو مندرجہ ذیل ہیں۔‬


‫‪۱‬۔ بےعلم مگر عقلمند ہونا۔‬
‫الف۔ بےعلم ہونے کی کئی ایک وجوہات ہوسکتی ہیں علم سے گھبراہٹ کا شکار ہونا محنتی نا ہونے کی دلیل ہے ذہن میں ایک‬
‫قسم کا فتور آجاتا ہے جس سے انسان علمی قحط کا شکار ہوجاتا ہے یہاں علم سے ُمراد قطعی طور پر رائج نصابی علوم یا فنون‬
‫نہیں ہیں بلکہ سیکھنے کا وہ ُملکہ مراد ہے جس کے تحت انسان مختلف معامالت کی مفید معلومات اخذ کرتا ہے اور ان میں‬
‫تصریف کرسکتا ہے۔‬
‫‪۲‬۔ کسی خاص علم کا عالم ہونا لیکن موضوع بحث کے علم اس کی مبادیات اصطالحات اور کوائف سے انجان ہونا یا ناقص‬
‫معلومات ہونا ایک مصیبت پیدا کردیتے ہیں عالم انسان کسی اور علم کا ہوتا ہے لیکن دوسرے علوم میں دخل دیتا ہے اور بجائے‬
‫اس علم کے ماہرین کی رائے قبول کرنے کے اپنی رائے کو ان پر فوق کرتا ہے ناقص تصریف کا سبب بن جاتا ہے۔‬
‫‪۳‬۔ اپنی محرومیوں کا ازالہ علمی رویہ پر تنقید کی صورت کرنے کی کوشش کرنا اور ایک الگ سے مکتب فکر بنانے کی کوشش‬
‫کرنا جس کی پوری عمارت ہی بےدلیل اور مغالطوں پر مبنی ہو۔‬
‫‪۴‬۔ بسااوقات حکومت اور مالی اقتدار رکھنے والے ادارے بھی ایسے علوم و فنون کی ترویج و ابالغ کا باعث ہوتے ہیں جو‬
‫صراحتًا باطل ہیں اور ان کو اصالً علوم و فنون کہلوانے تک کا حق نہیں ہے مگر وہ اس لبادے میں پیش کئے جاتے ہیں جس سے‬
‫کسی خاص مقصد کی تکمیل مراد رہتی ہے۔‬
‫‪ ۵‬۔ تجارتی امور میں ایسے بیانات دینا جس سے صارف کو دھوکا ہو یا مالوٹ کرنا یا ذخیرہ اندوزی کرنا اور ان امور کو مالی‬
‫مفاد کی خاطر جائز قرار دیتے جانا اور حجت بازی کرنا یہ سب سفسطہ ہی کے فروغ کا سامان ہے۔‬

‫ے‬
‫یٔسفسطیوںٔکۓمتعلقٔرائ ٔ‬
‫حکماءٔاو ٔرٔعلما ٔءٔک ٔ‬

‫اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسفہ یا حکمت کا مسخ شدہ پہلو ہی سفسطہ ہے خود حکماء کا سفسطیوں سے نزاع رہا ہے۔ شیخ‬
‫بوعلی سینا کی رائے سفسطیوں کے متعلق اس پس منظر میں پڑھنے کے الئق ہے کہ سفسطہ حق کو نہیں مانتے۔ شیخ کا مؤقف‬
‫بقول مالصدرا کتاب شفا میں یوں ہے‬
‫آیا تم اسے بھی جانتے ہو یا نہیں کہ تمہارا "انکار" حق ہے یا باطل یا تمہیں اس میں بھی شک ہے؟ اگر ان امور میں سے کسی کو‬
‫جاننے اور علم کا یہ اقرار کرلیں تو پھر انہوں نے کسی ایک بات کی حقیّت کا اعتقاد تو کرلیا خواہ یہ عقیدہ حق کے انکار کا ہی‬
‫دعوی تو ساقط‬
‫ٰ‬ ‫ہو یا پھر باطل بات کا یقین ہو یا ان میں شک کرنے کا‪ ،‬بہرحال یہ جو حق کے مطلق انکار کے مدعی تھے یہ‬
‫ہوگیا لیکن یہ کہیں کہ ہمیں تو سب ہی میں شک ہے تو ان سے پوچھ لیا جائے کہ تم کو اس کا بھی علم ہے یا نہیں کہ تم شک‬
‫کررہے ہو یا تم انکار کررہے ہو؟ بہرحال تمہیں ان میں سے کسی خاص قول کا علم ہے یا نہیں اب اگر یہ اس کا اقرار کریں کہ یہ‬
‫شک میں مبتال ہیں یا یہ منکر ہیں اور ان اشیا میں سے کسی خاص شے کا انہیں علم ہے تو انہوں نے کسی ایک چیز کے علم کا‬
‫اور کسی ایک حق کا اقرار کرلیا اور اگر یوں کہیں کہ ہم تو کچھ نہیں سمجھ رہے بلکہ یہ بھی نہیں سمجھ رہے کہ ہم نہیں سمجھ‬
‫رہے اور ہمیں ہر چیز میں شک ہے یہاں تک کہ اپنے وجود اور عدم میں بھی ہمیں شک ہے بلکہ اس شک میں بھی شک ہے اور‬
‫حتی کہ اس انکار کے بھی تو گویا ان کی زبان اب وہ باتیں بولنے لگی ہے جو دشمنی پر مبنی ہیں‬ ‫تمام اشیاء کے ہم منکر ہیں ٰ‬
‫ایسی صورت میں تو ان کے سامنے حیل و حجت پیش کرنے کی بنیاد ہی منہدم ہوگئی اور اب ان کی راہنمائی کی امید منقطع‬
‫ہوجاتی ہے اس کے بعد ان کا عالج صرف یہی ہے کہ ان کو آگ میں گھسنے پر مجبور کیا جائے کیونکہ اب تو آگ اور اس کا‬
‫انتہی‬
‫ٰ‬ ‫عدم ایک ہی بات ہے یا انہیں مارا پیٹا جائے کیونکہ درد اور درد کا نا ہونا ایک ہی بات ہے۔‬
‫اسی طرح افالطون اور ارسطو یونانی فالسفہ نے بھی ان کا رد کیا ہے اور رد کرنے میں بعض اوقات مذہبی علماء بھی موجود‬
‫رہے ہیں لیکن ان کا رد اکثر سفسطہ کو فلسفہ ُکل سمجھ کر ہوتا ہے اور ان کی تنقید کا دائرہ صرف فساد کے مؤطن تک محدود‬
‫نہیں ہوتا بلکہ وہ اس شخص کو بھی اسی میں ذمہ دار مان لیتے ہیں جس سے وہ بدالئل وضوح انکار کررہا ہوتا ہے۔ اس طرح کی‬
‫صورتحال کم و بیش ہمارے یہاں پیش آئی ہے کہ بجائے مفاسد کو دور کرنے کے خود اس مکمل علم کو ایک پہلو سے دیکھتے‬
‫ہوئے حکم صادر کیا جاتا رہا ہے۔‬

‫امام شافعی کہتے ہیں۔‬


‫ّللا کے حرام کردہ کسی بھی کام کا ارتکاب علم الکالم میں غور و غوض کرنے سے بہتر ہے۔‬
‫شرک کے عالوہ ٰ‬

‫امام احمد کی رائے میں۔‬


‫علم الکالم کا حامل کبھی بھی صراط مستقیم پر نہیں آسکتا علماےکالم زندیق ہیں۔‬

‫امام اوزاعی کہتے ہیں‬


‫ّللا کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو انہیں جدل اور مناظروں میں مبتال کردیتا ہے اور عمل سے روک دیتا ہے۔‬
‫جب ٰ‬

‫امام ابویوسف کہتے ہیں‬


‫جس نے کیمیاء کے ذریعہ مال بنانے کی کوشش کی وہ مفلس ہوگیا جس نے کالم کے ذریعہ دین چاہا وہ زندیق ہوگیا۔‬

‫یہ مختصر علماء کے اقوال شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ لاللکائی اور تلبیس ابلیس سے نقل کردہ ہیں۔ جب کہ اس فن کی مذمت میں‬
‫خود امام غزالی کی مکمل کتاب تہافۃالفالسفہ موجود ہے جو چاہے اس کو پڑھ لے۔ البتہ قرین انصاف بات یہی ہے کہ انہوں نے‬
‫فلسفہ یا کالم کو حکمۃ کے مسخ شدہ پہلوؤں پر اطالق مطلق کرتے ہوئے باتیں کی ہیں ورنہ درحقیقت فساد ہر علم میں کہیں نا‬
‫کہیں پیدا ہوجاتا ہے میری رائے اس سلسلہ میں یہی ہے کہ بدعتیوں کی محدثات اس قابل نہیں ہیں کہ ان پر گرفت کرتے ہوئے‬
‫مذہب کو مشکوک یا ممنوع بنالیا جائے لیکن اگر ان اقوال و تنقید کا اطالق کسی پر ہوتا ہے تو وہ سفسطی طبقہ ہے۔‬

‫ب‬
‫سفسط ٔۂاورٔمذہ ٔ‬

‫دین اسالم میں سفسطہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دھوکہ یا فریب کسی اچھے مقصد کے لئے بھی دیا جائے تو اس کا جواز نہیں‬
‫ہے۔‬
‫االخر َو َما ہ ُم ب ُمومنینَ ۘ۝ ی ُٰخدعُونَ ہللاَ َوالَّذینَ ٰا َمنُوا َو َما َیخ َدعُونَ ا َّ اال اَنفُ َ‬
‫س ُہم َو َما َیشعُ ُرونَ ۝‬ ‫َو منَ ال َّناس َمن َّیقُو ُل ٰا َم َّنا بالل َو بال َیوم ٰ‬
‫عذَاب اَلیم ۙ ب َما کَانُوا َیکذبُونَ ۝‬ ‫فی قُلُوبہم َّم َرض ۙ فَزَ ا َدہ ُ ُم ُ‬
‫ہللا َم َرضًا َولَ ُہم َ‬

‫لوگوں میں وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم ہللا پر اور آخری دن پر ایمان رکھتے ہیں لیکن وہ مؤمن نہیں ہیں۔ وہ ہللا اور ایمان والوں‬
‫کو فریب دیتے ہیں لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں مگر شعور نہیں رکھتے۔ ان کے دلوں میں بیماری ہے‬
‫ہللا نے اسی بیماری میں مزید بڑھا دیا اور ان کے جھوٹ کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب ہے {‪ ۸‬تا ‪ ۱۰‬البقرۃ‪/‬قرآن}۔‬

‫علَ َّ‬
‫ي َیلج ال َّن َ‬
‫ار‬ ‫ي فَإ َّنهُ َم ْن َی ْكذبْ َ‬
‫علَ َّ‬
‫َالتَ ْكذبُوا َ‬
‫مجھ پر جھوٹ نہ کہو جس نے مجھ پر جھوٹ بوال وہ آگ میں داخل ہوگا {بخاری‪،۱۰٦/‬مسلم‪}۲/‬۔‬

‫ش ْيء أ َ ْكذَ َ‬
‫ب م ْن ُھ ْم في‬ ‫صالحینَ في َ‬ ‫ع ْن أَبیه قَا َل لَ ْم ن ََر ال َّ‬
‫طان َ‬ ‫سعید ْالقَ َّ‬ ‫ع ْن ُم َح َّمد بْن َیحْ َیى بْن َ‬ ‫عفَّا ُن َ‬ ‫و َح َّدثَني ُم َح َّم ُد ْب ُن أَبي َ‬
‫عتَّاب قَا َل َح َّدثَني َ‬
‫ب م ْن ُھ ْم في‬ ‫َ‬
‫ش ْيء أ ْكذَ َ‬ ‫ْ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ع ْن أبیه لَ ْم ت ََر أ ْھ َل ال َخیْر في َ‬‫ع ْنهُ فَقَا َل َ‬ ‫ْ‬
‫سألتُهُ َ‬‫َ‬ ‫َّ‬ ‫ْ‬
‫سعید القَطانَ فَ َ‬ ‫َ‬
‫عتَّاب فَلَقیتُ أنَا ُم َح َّم َد بْنَ َیحْ َیى بْن َ‬ ‫ْال َحدیث قَا َل ا ْب ُن أَبي َ‬
‫سانھ ْم َو َال َیتَ َع َّمدُونَ ْالكَذ َ‬
‫ب‬ ‫علَى ل َ‬‫ْال َحدیث قَا َل ُمسْلم َیقُو ُل َیجْ ري ْالكَذبُ َ‬

‫یحیی بن سعید قطان سے حدیث بیان کی انہوں نے اپنے والد سے روایت‬


‫ٰ‬ ‫محمد بن ابی عتاب نے کہا مجھ سے عفان نے محمد بن‬
‫"کی کہا "ہم نے نیک لوگوں کو حدیث سے بڑھ کر کسی اور چیز میں جھوٹ بولنے واال نہیں پایا‬

‫یحیی بن سعید قطان سے مال تو اس (بات کے) بارے میں پوچھا‪ ،‬انہوں نے اپنے والد سے‬
‫ٰ‬ ‫ابن ابی عتاب نے کہا‪ :‬میں محمد بن‬
‫روایت کرتے ہوئے کہا‪ :‬تم اہل خیر (زہد و ورع والوں) کو حدیث سے زیادہ کسی اور چیز میں جھوٹا نہیں پاؤ گے۔‬
‫یحیی بن سعید نے فرمایا‪ :‬ان کی زبان پر جھوٹ جاری ہو جاتا ہے‪ ،‬وہ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتے۔‬
‫ٰ‬ ‫امام مسلم نے کہا کہ‬
‫{مسلم‪}٤۰/‬۔‬

‫یعنی اسالم نے سفسطہ کو کسی بنیاد پر بھی قبول نہیں کیا بلکہ جہاں سفسطہ کو دیکھا اس کو رد کرنے پر کمربستہ ہوگئے یہاں‬
‫تک کہ انہوں نے سنی سنائی بات یعنی بغیر تحقیق کسی بات کو روایت کرنا بھی جھوٹ کے ضمن میں شامل کرتے ہوئے راوی‬
‫کو جھوٹا قرار دیا۔‬

‫ّللا قَا َل ب َحسْب ْال َم ْرء منَ ْالكَذب أ َ ْن ُی َح ّدثَ ب ُك ّل َما َ‬


‫سم َع‬ ‫ع ْن َ‬
‫عبْد ٰ‬ ‫َ‬
‫ہللا بن مسعود سے روایت ہے‪ ،‬کہا‪ :‬آدمی کے جھوٹ میں یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کردے {مسلم‪}۹/‬۔‬
‫عبد ہ‬

‫نیز مذہب اسالم میں منافقت کی عالمات میں سفسطہ کا شمول ہے۔ چنانچہ سفسطہ کسی طور نا ہی محمود ہے اور نا ہی اس کو‬
‫طلَب صداقت کا کوئی حیثیت شرعی طور پر حاصل ہے۔‬ ‫ہمارے دور میں جب دین سے دوری ایک قسم کا معمول بن گئی ہے اور َ‬
‫جذبہ عوام الناس میں ماند پڑ گیا ہے تحقیقی رجحان کی قلت سستی کے فروغ سے ہے اس لئے نہایت مختصر مفید مضمون میں‬
‫نے لکھا کیونکہ جو اس کاہلی کا یقینی اور بدیہی نتیجہ نکال ہے کہ خود سفسطہ بطور حکایت پھیل گیا۔ میں نے مذہبی طبقات میں‬
‫اس کی جڑوں کو مالحظہ کیا اور اپنی بدترین شکل میں مالحدہ کے پاس اس کو پایا اور کوشش کی کہ اس کو نمایاں کرکے ایک‬
‫ایسی عبارت میں پیش کروں کہ پڑھنے والے کو اس مرض کی خاصی معلومات حاصل ہوجائیں اور لوگ حکمۃ سے متنفر ہونا‬
‫چھوڑ کر علم اور عقل کی تمیز کو پہچانیں اور ان کے مباحث کو ایک دوسرے پر برائے تنقیض النا بند کردیں۔ سفسطی شخص‬
‫الئق اعتماد نہیں ہوتا اور سفسطہ کسی قسم کے علم میں میں اضافے کا باعث نہیں ہے وہ تحقیق کے نام پر دھوکہ دہی ہے یا پھر‬
‫شعلہ بیانی کے نام پر فریب کا صدور و ظہور البتہ سفسطہ پر یقین کرنا انسان کو حسرت ناک ناکامیوں سے دوچار کرتا ہے۔‬
‫ممکن ہے بعض لوگ سفسطہ کو پہچان لیں اور سفسطی کو بخوبی دریافت کرلیں لیکن چند نفسیاتی وجوہات کی بنا پر ان سے اخذ‬
‫جاری رکھیں جیسا کہ سیرت اس شخص کی بہت اچھی ہے نیک ہے پرہیزگار ہے یا عمر میں بڑا ہے یا رشتہ میں بزرگ ہے‬
‫وغیرہ وغیرہ لیکن یہ تمام امور مل کر بھی سفسطیانہ باتوں کو علم نہیں بنا سکتے اور جان بوجھ کر بھی ان کو داخل یقینیات‬
‫کرلینا تو حماقت ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہمارے معاشرے کو اب سفسطہ سے جان چھڑانا ضروری ہے اور وہ میرے‬
‫نزدیک قرآن مجید سے مضبوط تعلق استوار کئے بنا ممکن نہیں ہے کیونکہ علم داخل یقینیات ہے اور اس کا بہرحال سفسطہ سے‬
‫کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں اس حدیث کے بیان پر مضمون کو ختم کرتا ہوں‬

‫صاد ُق َویُؤْ تَ َم ُن فی َھا ْالخَائ ُن‬


‫ص َّد ُق فی َھا ْالكَاذبُ َو ُی َك َّذبُ فی َھا ال َّ‬
‫عاتُ ُی َ‬ ‫لی ال َّناس َ‬
‫سن ََوات َخدَّا َ‬ ‫ع ٰ‬‫س َیأْتي َ‬
‫س َّل َم َ‬
‫علَیْه َو َ‬ ‫ص َّلى ُ‬
‫ہللا َ‬ ‫سو ُل ہللا َ‬ ‫قَا َل َر ُ‬
‫ْ‬ ‫َ‬
‫الر ُج ُل التَّافهُ في أ ْمر العَا َّمة‬ ‫ُ‬
‫ضة قَا َل َّ‬ ‫الر َویْب َ‬ ‫ُ‬
‫ضة قی َل َو َما ُّ‬ ‫َ‬ ‫ْ‬
‫َویُخ ََّو ُن فی َھا اْلمی ُن َو َی ْنط ُق فی َھا ُّ‬
‫الر َویْب َ‬

‫ہللا نے فرمایا‪ :‬مکر و فریب والے سال آئیں گے‪ ،‬ان میں جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا‪ ،‬خائن کو‬
‫رسول ہ‬
‫امانت دار اور امانت دار کو خائن‪ ،‬اور اس زمانہ میں رویبضہ بات کرے گا۔‬
‫آپ سے سوال کیا گیا‪ :‬رویبضہ کیا ہے؟‬
‫ہ‬
‫آپ نے فرمایا‪ :‬حقیر اور کمینہ آدمی‪ ،‬وہ لوگوں کے عام انتظام میں مداخلت کرے گا۔ {ابن ماجہ‪}٤۰۳٦/‬۔‬
‫ہ‬

‫تمت بالخیر‬

‫سہیل الدین محمد شاہ جہاں‬

You might also like