Professional Documents
Culture Documents
Galib UGC22
Galib UGC22
Module: 22
Paper: Ghalib
Topic: Ghalib Ki Shayari Ka Istefhamiya Andaaz
Content writer: Prof. Kausar Mazhari
Jamia Millia Islamia, New Delhi
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi
سبق کا مقصد
غالب کی شاعری کی یہ ایک اہم جہت ہے۔ یوں تو اسے ان کے مکمل انداز بیان کا ایک تتمہ کہا جائے گا،
لیکن اس کی اہمیت کا راز اس میں پوشیدہ معانی کی پرتوں میں ہے۔ شعور اور الشعور کی گرہوں کو غالب نے
بڑی ہی تخلیقی ہنرمندی سے اس استفہامیہ انداز میں کھولنے کی کوشش کی ہے۔ لہٰ ذا اس سبق میں اسی جانب
توجہ کی جائے گی کہ غالب کے اس استفہامیہ انداز بیان کی اہمیت ،معنویت اور ان کے پورے شعری و فکری
نظام سے اس کے انسالک کو سمجھا جاسکے۔ جگہ جگہ ضرورت کے تحت اشعار اور ان کی تعبیر و تشریح کے
ذریعہ تفہیم کی صورت اور بھی صاف اور شفاف طور پر پیش کی جائے گی۔
شاعری ا ور استفہام
اردو شاعری میں استفہامیہ اندازکی شاعری بہت کم شعراکے حصے میں آئی ہے۔ غالب کے بعد اقبال کے
یہاں اس کااہتمام ملتا ہے۔ شاعری اگر استفہامیہ رنگ میں ہوتی ہے تو اس میں طنز اور تعریض کی صورتیں
زیادہ پیدا ہوتی ہیں۔ اس سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر نے کائنات کو تجسس اور تشکیک کی
روشنی میں دیکھا ہے ،جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ شاعری پڑھنے یا سننے والے کے ذہنو ں میں
سس کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔
بھی تج ّ
شاعری محض الفاظ کا گورکھ دھندا نہیں ،بلکہ شعر میں شاعر کی ت ّجسس بھری زندگی کی عکاّسی نظر
آتی ہے۔ جس شاعر میں مشاہدہ اور تشکیک کا جوہر تابناک اور شدید ہوگا اس کی شاعری میں استفہام کی نئی
نئی صورتیں پیدا ہوں گی۔ غالب جیسا بالغ نظر فنکار ہی یہ سوال قائم کرسکتا ہے:
تھمے دیکھیے کہاں عمر رخش ہے میں رو
میں رکاب ہے پا نہ ہے پر باگ ہاتھ نَے
شاعری میں استفہامیہ انداز کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ شاعر کسی بھی عمل یا شے پر سوال قائم
کرسکتاہے اور اسی انداز میں احتجاج بھی درج کراسکتا ہے۔ لہٰ ذا بغیر کسی تامل کے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ
شاعری اور استفہامیہ انداز کا رشتہ گہرا ہے۔
غالب کی شاعری میں استفہامیہ انداز
غالب نے زندگی اور کائنات کو شک کی نظر سے دیکھا ہے۔ ذہن میں جب شک پیدا ہوتے ہیں تو سوال اور
اشکال بھی پیداہوتے ہیں۔ محبت کا رنگ ہو یا حسن و جمال کا ،رقابت کی بات ہو یا احباب کے سلوک و خلوص
کی ،امید و آس کی بات ہو یا یاس و محرومی کی ،غالب ہر جگہ اور ہر موقعے پر ایک طرح کا سوال ،ایک طرح
کا شبہ یا کم ازکم اس کا ایک زاویہ تو پیدا کرہی دیتے ہیں:
پوری غزل آپ کی نظر میں ہوگی۔ مختلف مضامین کو اسی ‘کیا ہے’ ردیف سے باندھ کر نئے نئے زاویے
پیدا کیے گئے ہیں۔ سوال پیدا کرتے ہوئے ان کا المیہ کردار سامنے ابھر آتاہے:
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو رہی نہ طاقت گفتار اور اگر
ہے کیا بھی ہو
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
کیا
غالب کے یہاں ان کی اپنی سی ایک دنیا تشکیل پاتی ہے جہاں ایک ایسا کردار دکھائی دیتا ہے جس کی فقط
سس ہے۔ اسی لیے وہ خارج کو باطن سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ سم تج ّ
آنکھیں ہی نہیں ،بلکہ وہ مج ّ
جب اپنے دیوان کی پہلی غزل کا مطلع کہتے ہیں تو وہیں سے ان کا استفہامیہ انداز ابھرتا ہوا دکھائی دینے لگتا
ہے:
کا تحریر شوخی کی کس ہے فریادی نقش
کا تصویر پیکر ہر پیرہن ہے کاغذی
اس شعر میں خدا کی شوخی تحریر (خالقیت) اور انسان کی ناپائیدار زندگی کو پیش کیا گیا ہے۔ غالب کو
سب معلوم ہے کہ یہ کائنات خدا نے بنائی ہے اور انسان کا وجودکاغذی پیرہن سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ،لیکن
غالب نے تجاہل عارفانہ سے کام لے کر سوالیہ اسلوب اپنایا ہے۔ اسی طرح جب وہ زندگی اور موت یا انسان اور
غم کے رشتے کو شعری پیکر عطا کرتے ہیں تو اسی استفہامیہ انداز کو اختیار کرتے ہیں ،یہ بھی ان کاایک
انفرادی طرز اظہار ہے:
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر غم ہستی کا اسد کس سے ہو ُجز
تک ہونے عالج مرگ
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات قید حیات و بند غم اصل میں دونوں
کیوں پائے ہیں ایک
غالب اسی طرح شب غم اور محرومی قسمت کو کچھ اس انداز میں پیش کرتے ہیں:
ہم نے چاہا تھا کہ مرجائیں ،سو وہ کس سے محرومی قسمت کی شکایت
ہوا نہ بھی کیجے
آج ادھر ہی کو رہے گا ،دیدہ اختر کیوں اندھیری ہے شب غم؟ ہے بالوں
ک ُھال نزول کا
مرزا غالب کی زندگی میں غم و نشاط دونوں سائے کی طرح ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ شاعری پر اس کے
اثرات مرتب ہوئے۔ غالب کی تخلیقی قوت مضمون آفرینی سے مل کر ایک ایسا جہان خلق کرتی ہے کہ استفہامیہ
انداز میں ایک خاص طرح کی گہرائی پیدا ہوجاتی ہے۔ آپ دیکھیے کہ اس شعر میں کس طرح مضمون کو پیش کیا
گیا ہے جس کی کئی معنوی جہتیں ابھر کر سامنے آسکتی ہیں:
ہوگئیں نمایاں میں گل و اللہ کچھ کہاں؟ سب
ہوگئیں پنہاں کہ گی ہوں صورتیں کیا میں خاک
یہاں درس فنا پذیری بھی ہے اور پھولوں (اللہ و گل) کی شکل میں نموپذیری کو بھی پیش کیا گیاہے۔ یہ
کہہ سکتے ہیں کہ وہ صرف سوالیہ انداز زیب داستان کے لیے نہیں ،بلکہ معنوی گہرائی پیدا کرنے کے لیے
اختیار کرتے ہیں۔ مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں:
‘‘وہ ان سچے لوگوں میں سے تھے جن کے دلوں میں کسی نقطہ نظر کو تسلیم کرلینے
کے بعد بھی شکوک و سواالت رہ رہ کر ابھرتے رہتے ہیں اور جو کبھی اپنے فطری میالن
(غالب ،شخص اور شاعر، تفتیش و تفحص کے ساتھ ناانصافی نہیں کرسکتے۔’’
ایجوکیشنل بک ہاوس ،علی گڑھ ،2010 ،ص )37
غالب کا یہ شعر دیکھیے اور غور کیجیے کہ وہ ذات مطلق کے وجود بلکہ ‘وحدت الوجود’ کو قبول کرنے
کے باوجود کہتے ہیں:
موجود کوئی نہیں بن تجھ جبکہ
ہے؟ کیا خدا اے ہنگامہ یہ پھر
غالب کا میالن طبع ہی کچھ ایسا تھا کہ ان کے ذہن میں سواالت ابھرتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے ان
کے شعری اظہار میں استفہامیہ انداز آیا اور اسی سبب حیرت و استعجاب کے عناصر بھی شامل ہوئے:
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے شکن زلف عنبریں کیوں ہے
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے اللہ و گل کہاں سے آئے ہیں
غالب رومان سے ذہنی طور پر بہت قریب تھے۔ وہ محبوب سے قرب یا اس سے محرومی ،دونوں
صورتوں میں استفہامیہ انداز میں گویا ہوتے ہیں:
کیا فائدہ کہ جیب کو رسوا کرے چاک جگر سے جب رہ پُرسش نہ
کوئی ہوئی وا
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں ،تو پھر کیا بیکاری جنوں کو ہے سر پیٹنے کا
کوئی کرے شغل
غالب اپنے فکر و خیال کو مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں۔ محبوب کے دوست ہونے اور اپنی خانہ
ویرانی سے لے کر ،گردش روزگار کی شکایت تک اور دوست کی غم خواری اور زخم و ناخن کے رشتے کے
بیان تک ،محبوب کے رخسار کی تابندگی سے جل جانے کے ذکر سے لے کر ناصح کی نصیحت اور جنون عشق
کے بیان تک اور اسی طرح غم کے بیان سے لے کر موت اور جنازے کے ذکر تک ،گویا زندگی کے بیشتر گوشے
ایسے ہیں ،جن پر غالب غور و فکر کی دعوت بھی دیتے ہیں اور سوالیہ نشان بھی قائم کرتے ہیں۔ کچھ اشعار
مالحظہ کیجیے:
نہ کبھی جنازہ اٹھتا ،نہ کہیں مزار ہوئے مر کے ہم جو رسوا ،ہوئے کیوں
ہوتا دریا غرق نہ
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر ترے وعدے پہ جئے ہم ،تو یہ جان
ہوتا اعتبار جانا جھوٹ
یہ جنون عشق کے انداز چھٹ جائیں گر کیا ناصح نے ہم کو قید ،اچھا یوں
کیا گے سہی
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ دوست غم خواری میں میری سعی
کیا گے آئیں کیا گے فرمائیں
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے
میں دل
اسی طرح پوری ایک غزل ہے جس کی ردیف ‘کیا’ ہے جس میں محبوب کے تغافل و تجاہل ،اس کے بوئے
پیرہن اور رقیب پر نوازش بے جا کی شکایت ملتی ہے۔ عاشق کے اندر صبر و سکون کا فقدان ہوتاہے ،اس پر
سوال قائم کیاگیا ہے۔ بارہ (بارہ) اشعار کی اس غزل سے چند شعر لکھے جاتے ہیں:
کہاں تک اے سراپا ناز ‘کیا تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کیا’
شکایت ہائے رنگیں کا گلہ نوازش ہائے بیجا دیکھتا ہوں
کیا
غم آوارگی ہائے صبا کیا دماغ عطر پیراہن نہیں ہے
شہیدان نگہ کا خوں بہا کیا محابا کا ہے؟ میں ضامن
دیکھ؟ ادھر
شکیب خاطر عاشق بھال کیا کیا کس نے جگر داری کا
دعوی
ٰ
غالب نے اپنی شاعری میں اکثر اپنی ‘انا’ اور اپنی شخصیت کے استحکام کو بھی ظاہر کیا ہے۔ ان کا یہ
بھی ماننا ہے کہ جس قدر میں نے دکھ اور غم اٹھائے ہیں ،یا یہ کہ جس طرح میں نے قہر و غضب کا مقابلہ کیا
دعوی بھی وہ کرتے ہیں کہ اس میں حیرت کی بات کیا ہے کہ میرے جیسا
ٰ ہے ،کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ لہٰ ذا یہ
کوئی دوسرا شخص پیدا نہیں ہوا ،جو کہ ان مصائب کو برداشت کرسکے:
ہوا نہ سا ہم کوئی جب غضب و قہر درخور
پھر غضب کیا ہے جو ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا
اور پھر جب واعظ پر طنز کرنا ہوتا ہے تو اس انداز میں گویا ہوتے ہیں:
کیا بات ہے تمھاری شراب طہور کی؟ واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پال سکو
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ کہاں میخانہ کا دروازہ غالب اور کہاں
نکلے ہم واعظ؟
غالب یہیں نہیں ُرکتے بلکہ ان کے سوال کا سلسلہ دراز ہوتا ہوا شوخی کے رنگ میں ڈھل کر یوں اداہوتا
ہے:
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا؟ پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے
ناحق پر
مسجد ہو ،مدرسہ ہو ،کوئی خانقاہ ہو جب میکدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ
قید کی
لیکن یہ صرف شوخی نہیں بلکہ اوپر کے شعر کے حوالے سے اسلوب احمد انصاری لکھتے ہیں:
’’لفظ ناحق استعمال کرکے اس فیصلے کو نہ صرف مشکوک اور مشتبہ قرار دیا گیا ہے
بلکہ اسے مسترد بھی کردیا گیا ہے۔ یہ گویا الوہی انصاف یعنی Divine Justiceکے
بارے میں تشکیک کا رویہ ہے۔‘‘ (نقش ہائے رنگ رنگ ،از اسلوب احمد انصاری ،غالب انسٹی
ٹیوٹ نئی دہلی ،1998 ،ص )280
غالب کی شاعری میں جو استفہامیہ انداز ملتا ہے وہ فیشن کے طور پر نہیں ،بلکہ اس کی اطالقی نوعیت
معنی خیز ہوتی ہے۔ کبھی طنز کے طور پر ،کبھی خودکالمی کے طور پر ،کبھی احباب یا دنیا کی ستم ظریفی پر
سوالیہ نشان قائم کرنے کے لیے ،کبھی معشوق اور رقیبوں کے رویے پر المیہ انداز میں ،تو کبھی کھلے طور پر
گویا چیلنج کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں۔ غرض یہ کہ غالب نے اپنی شاعری میں یہاں تک کہ قصیدے میں بھی
جہاں موقع مال ہے ،اس طرز اظہار سے کام لیا ہے:
آسماں نے بچھا رکھا تھا دام اڑ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا
مجھ کو کیا بانٹ دے گا تو ماہ بن ،ماہتاب بن ،میں کون
انعام؟
اسی قصیدے میں جب طبیعت غزل پر مائل ہوتی ہے تو وہاں بھی اس طرح کے اشعار ملتے ہیں:
غم سے جب ہوگئی ہو زیست مے ہی پھر کیوں نہ میں
حرام جاوں پیے
کہ نہ سمجھیں وہ لذت دشنام بوسہ کیسا؟ یہی غنیمت ہے
غالب کی ایک پوری غزل ہے جس کی ردیف ہے ‘کیوں کر’ اور اسی طرح ایک غزل کی ردیف ہے ‘تو
کیوں ہو’ اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ غالب کو یہ استفہامیہ انداز کس درجہ پسند تھا۔ یہ شعر مالحظہ کیجیے:
کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں؟ ہو تو ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام
ہو کر کیوں وصال
جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو ،تو الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ
ہو کر کیوں
وہ شخص دن نہ کہے رات کو ،تو جسے نصیب ہو روز سیاہ میرا سا
ہو کر کیوں
یہ ‘کیوں کر ہو’ غالب کے ذہن میں پیدا ہونے والے شکوک اور سواالت دونوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی
طرح دوسری غزل کے یہ اشعار مالحظہ کیجیے:
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ،ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو؟
ٹھہرا پھوڑنا سر جب عشق؟ کا کہاں کیسی؟ وفا
ہو؟ کیوں آستاں سنگ ہی تیرا دل! سنگ اے پھر تو
ہمدم ڈر نہ کہتے چمن روداد سے مجھ میں قفس
ہو؟ کیوں آشیاں میرا وہ بجلی، کل پہ جس ہے گری
ہے کم کیا کو ویرانی خانہ کی آدمی فتنہ یہ
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟
پہلے شعر میں محبوب کے لیے خو اور اپنے لیے (عاشق) وضع استعمال کیا ہے۔ دوسرے مصرعے میں
سبک سر کی مناسبت سے سرگراں کا برمحل استعمال کیا گیا ہے۔ دونوں مصرعوں میں جو قول محال
( )Paradoxسے کام لے کر غالب نے سوال قائم کیا ہے ،اس سے ان کی تخلیقی بصیرت اور فکری ارتعاش کی
ہم آہنگی کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے اور ساتھ ہی شاعر کی انا اور عزت نفس پر آنچ بھی نہیں آتی ،بلکہ ایک توانا
لہجہ اور طنطنہ سے بھرا ہوا تیور بھی اُبھرتا ہے۔
دوسرے شعر میں تو محبوب کو ایک طرح سے گہرے طنز کے لہجے میں کہا گیا ہے کہ اب اس دنیا میں
نہ ‘وفا’ ہے نہ ‘عشق’ اگر کچھ رہ گیا ہے تو عاشق کے لیے سر پھوڑتے رہنا جو کہ اس کا مقدر بھی ہے اور
اگر ایسا ہے تو اس کے لیے اے سنگ دل محبوب! تیرا ہی سنگ آستاں کیوں؟ سنگ دل اور سنگ آستاں میں جو
معنوی انسالک اور شعری تعمق ہے ،وہ ظاہر ہے۔ یہاں بھی استفہامیہ انداز نے ان کے تیور کو مزید توانائی
بخشی ہے۔ اگر اس انداز میں شعر نہ کہا گیا ہوتا تو لہجہ سپاٹ ہوجاتا۔ اسی طرح اوپر کے آخری شعر میں بھی
غالب نے محبوب سے دوستی کو ‘فتنہ’ سے موسوم کیا ہے۔ ایک تصور اردو شاعری میں یہ بھی ہے کہ عاشق
و معشوق کے رشتے میں آسمان/فلک فتنہ پردازی کرتا رہتاہے ،یعنی پھوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
غالب نے یہ پہلو اور زاویہ بدل کر پیش کردیا ہے کہ اے محبوب تم جس کے دوست ہوجاو گے اس کا مقدر تو
خانہ ویرانی ہے ہی ،لہٰ ذا تمھارا فتنہ آسمان کے فتنے سے کسی طرح کم نہیں۔ یہاں بھی محبوب کے فتنہ کو
آسمان کی فتنہ پردازی پر فائق قرار دیا ہے۔
غالب ہمیشہ کسی مضمون کو چیلنج کی طرح پیش کرتے ہیں اور قول محال کے استعمال پر تو انھیں
دسترس حاصل ہے۔ یہ شعر مالحظہ کیجئے:
کیا کیا کار نشاط ہے کو ہوس
کیا مزا کا جینے تو مرنا ہو نہ
غالب کس کس طرح سے انسانی وجود کی نفی اور ذات مطلق کی حقانیت اور وجود برحق کو استفہام کے
انداز میں پیش کرتے ہیں۔ مالحظہ کیجیے:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا ،کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ،نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
غالب کا ذہن غیب اور امکان دونوں کے باطن میں اترنے کی صالحیت رکھتا ہے۔ انسان کا وجود پذیر ہونا
گویا اس کے غارت ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا جب بھی خدا کا وجود برحق اپنی جگہ قائم ہوتا۔
اسی پر غالب نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر مجھے بنایا نہیں گیا ہوتا تو خدا کا کیا بگڑ جاتا۔ اقبال نے بھی دوسرے
انداز میں کہا تھا:
کردیا فاش بھی کو مجھ کیا غضب کیا یہ تونے
میں کائنات سینہ تھا راز ایک تو ہی میں
دونوں شعروں میں فکر اور طرزاظہار کے لحاظ سے جو فرق ہے ،وہ واضح ہے۔ یہاں اس کی تفصیل میں
جانے کی گنجائش نہیں۔
غالب کے اس استفہامیہ انداز پراظہار خیال کرتے ہوئے اسلوب احمد انصاری لکھتے ہیں:
’’جو مسئلہ بھی ان کے ادراک کی زد میں آئے ،وہ اس پر ایک سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں
تحیر کی جبلّت کو ابھارتے ہیں ...ان کا
ّ سس اوراور اس طرح پڑھنے والے کے اندر بھی تج ّ
استفہامیہ رجحان یا انداز دو عناصر کے ساتھ منسلک اور مربوط ہے ،استعجاب اور کلبیت
یعنی Cynicism۔ غالب کے یہاں کسی طرح کا ادعا نہیں ملتا ،لیکن ایک طرح کی کھوج
اور تفتیش جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ غالب ایک طرح کی کھوج
نکالنے والی ذہانت ( )Inquiring Intelligenceکا دوسرا نام ہے۔‘‘
(نقش ہائے رنگ ،غالب انسٹی ٹیوٹ ،نئی دہلی ،1998 ،ص )278
سس کو
تحیر اور تج ّ
ّ اسلوب صاحب نے یہ بات درست فرمائی ہے کہ غالب اپنے پڑھنے والوں کے اندر بھی
ابھارتے ہیں۔ شعری مزاج جو غالب کا ہے ،اس کی تفہیم و تعبیر کے لیے اسلوب صاحب کی اس رائے سے
اختالف ممکن نہیں۔
غالب کی ایک مشہور غزل ہے :دل ہی تو ہے ،نہ سنگ و خشت ،درد سے بھر نہ آئے کیوں ...غالب نے اس
غزل میں انسانی ہمدردی ،دردمندی ،بے چارگی ،مایوسی ،محرومی اور سب سے بڑھ کر حقائق حیات کو استفہامیہ
انداز میں جس خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے ،وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انسانی دل کی اصل خوبی یہی ہے کہ وہ درد و
غم اور پریشانی سے متاثر ہوتا ہے کیوں کہ سنگ و خشت تو ہے نہیں۔ غالب کس انداز میں کہتے ہیں:
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت ،درد سے بھر نہ آئے کیوں
کیوں ستائے ہمیں کوئی بار، ہزار ہم گے روئیں
اس کے بعد جو شعر آتا ہے اس میں مایوسی اور بے گھری کا ذکر ہے لیکن یہاں بھی غالب نے اپنا لہجہ
تیکھا اور توانا رکھا ہے:
نہیں آستاں نہیں، در نہیں، حرم نہیں، دَیر
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم ،غیر ہمیں اٹھائے کیوں؟
غالب نے اس شعر میں اہل دیر و حرم کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ہم تو کسی کے
در پر یا کسی کے آستاں پر بھی نہیں اور رہگزر یا راستہ تو سب کا ہے ،ہمیں یہاں سے ہٹانے کا تو کسی کو حق
نہیں۔ کیا ہی خوبصورتی سے عام سے مضمون کو خاص اہتمام اور تناظر کے ساتھ پیش کیا گیا ہے:
اسی غزل کا وہ شعر پہلے آچکا ہے کہ :موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟
غالب مقطع میں اپنے حوالے سے کہتے ہیں کہ غالب کے بغیر تو اس دنیا کا کوئی کام رکنے واال نہیں۔ لہٰ ذا
ہائے توبہ مچانے کی ضرورت کیا ہے؟ لیکن اس کے درپردہ غالب اپنی شخصیت سے اپنے قارئین کی ہمدردی
حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس میں ‘غالب خستہ’ کی ترکیب نے بڑا کام کیا ہے:
ہیں بند کام سے کون بغیر کے خستہ غالب
کیوں ہائے ہائے کیجئے کیا، زار زار روئیے
استفہام کے انداز میں ایک غزل ہے جس کا مطلع ہے:
کہیے کیا ہے، بشر کو، اس اگر دل ہے دیا
کہئے کیا ہے، بر نامہ ہو، تو رقیب، ہوا
اس میں حسن و عشق کی واردات اور اس کے نکات پیش ہوئے ہیں۔ غالب نے ایک اچھوتے مضمون کو
اچھوتے اندازمیں پیش کیا ہے۔ آپ بھی مالحظہ کیجیے اور لطف اٹھائیے:
خالصہ
مرزا غالب کی شاعری کے اَن گنت پہلو ہیں ،لیکن جب ہم ان کے انداز بیان کی بات کرتے ہیں تو اس میں
ان کا استفہامیہ طرز تخاطب بھی شامل ہوتا ہے۔ یہ انداز غالب کی ذکاوت ،فطانت ،دوراندیشی ،تحیرخیزی اور
کائنات کے تئیں ان کے گہرے مشاہدے کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے ان کی شاعری میں برجستگی اور
Informalityپیدا ہوجاتی ہے۔
غالب کے یہاں ان کی اپنی ایک ایسی دنیا تشکیل پاتی ہے جہاں ایک کردار دکھائی دیتا ہے جس کی آنکھیں
سس ہے۔ اسی لیے وہ خارج کو باطن سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ جب اپنے ہی نہیں ،بلکہ وہ مجسم تج ّ
دیوان کی پہلی غزل کا مطلع کہتے ہیں تو وہیں سے ان کا استفہامیہ انداز ابھرتا ہوا دکھائی دینے لگتا ہے:
کا تحریر شوخی کی کس ہے فریادی نقش
کا تصویر پیکر ہر پیرہن ہے کاغذی
اس شعر میں خدا کی شوخی تحریر (خالقیت) اور انسان کی ناپائیدار زندگی کو پیش کیا گیا ہے۔ غالب کو
سب معلوم ہے کہ یہ کائنات خدا نے بنائی ہے اور انسان کا وجودکاغذی پیرہن سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ،لیکن
غالب نے تجاہل عارفانہ سے کام لے کر سوالیہ اسلوب اپنایا ہے۔
غالب نے اپنی شاعری میں اکثر اپنی ‘انا’ اور اپنی شخصیت کے استحکام کو بھی ظاہر کیا ہے۔ ان کا یہ
بھی ماننا ہے کہ جس قدر میں نے دکھ اور غم اٹھائے ہیں ،یا یہ کہ جس طرح میں نے قہر و غضب کا مقابلہ کیا
دعوی بھی وہ کرتے ہیں کہ اس میں حیرت کی بات کیا ہے کہ میرے جیسا
ٰ ہے ،کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ لہٰ ذا یہ
کوئی دوسرا شخص پیدا نہیں ہوا ،جو کہ ان مصائب کو برداشت کرسکے:
ہوا نہ سا ہم کوئی جب غضب و قہر درخور
پھر غضب کیا ہے جو ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا
کس طرح سے انسانی وجود کی نفی اور ذات مطلق کی حقانیت اور وجود برحق کو استفہام کے انداز میں
پیش کرتے ہیں۔ مالحظہ کیجیے:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا ،کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ،نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
غالب کا ذہن غیب اور حضور دونوں کے باطن میں اترنے کی صالحیت رکھتا ہے۔ انسان کا وجود پذیر ہونا
گویا اس کے غارت ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا جب بھی خدا کا وجود برحق اپنی جگہ قائم ہوتا۔
اسی پر غالب نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر مجھے بنایا نہیں گیا ہوتا تو خدا کا کیا بگڑ جاتا۔
مرزا غالب کی شاعری میں استفہامیہ انداز کی مختلف سطحیں نظر آتی ہیں۔ ایک تو وہ کائنات اور مظاہر
کائنات پر سوال قائم کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ عاشق اور معشوق کے رشتے اور ان کے مابین رشتوں یا نوک
جھونک یا پھر اپنی محرومی اور مایوسی کو سوال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ ذات مطلق یا پھر
قدرت حق پر اور کبھی کبھی احباب اور اہل دیر و حرم کو استفہامیہ انداز کے حصارمیں لے آتے ہیں۔ اس طرح
،کبھی کبھی پورا انسانی وجود ان کے شک کے گھیرے میں آجاتا ہے۔