You are on page 1of 17

Subject: Urdu

Module: 22
Paper: Ghalib
Topic: Ghalib Ki Shayari Ka Istefhamiya Andaaz
Content writer: Prof. Kausar Mazhari
Jamia Millia Islamia, New Delhi
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi

‫غالب کی شاعری کا استفہامیہ انداز‬


‫تعارف‪/‬تمہید‬
‫اگر سوال قائم کرنا چھوڑ دیا جائے تو زندگی میں انجماد کی صورت پیدا ہوجائے گی۔ زندگی اس لیے ہے‬
‫کہ اسے جیا جائے اور اس میں در آنے والے غلط رویوں پر سوال بھی قائم کیا جائے۔ سوال سے جہاں انسان‬
‫گھبراتا ہے وہیں‪ ،‬اس سے بصیرت اور دانش کے سوتے بھی پھوٹتے ہیں۔‬
‫مرزا غالب کی شاعری کے اَن گنت پہلو ہیں‪ ،‬لیکن جب ہم ان کے انداز بیان کی بات کرتے ہیں تو اس میں‬
‫ان کا استفہامیہ طرز تخاطب بھی شامل ہوتا ہے۔ یہ انداز غالب کی ذکاوت‪ ،‬فطانت‪ ،‬دوراندیشی‪ ،‬تحیرخیزی اور‬
‫کائنات کے تئیں ان کے گہرے مشاہدے کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے ان کی شاعری میں برجستگی اور‬
‫‪ Informality‬پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی طرز اظہار سے کام لے کر انھوں نے محبوب پر سوال قائم کیے اور اپنے‬
‫احباب کی مکّاریوں کا پردہ بھی فاش کیا۔ اسی کی روشنی میں زندگی کے مد و جزر کو سمجھنے اور سمجھانے‬
‫کی کوشش کی۔ کائنات اور اس کے مظاہر‪ ،‬خدا اور اس کے حوالے سے دیر و حرم کے پاسبانوں کو بھی اسی‬
‫استفہامیہ طرز اظہار کے حصار میں الکھڑا کیا۔‬

‫سبق کا مقصد‬
‫غالب کی شاعری کی یہ ایک اہم جہت ہے۔ یوں تو اسے ان کے مکمل انداز بیان کا ایک تتمہ کہا جائے گا‪،‬‬
‫لیکن اس کی اہمیت کا راز اس میں پوشیدہ معانی کی پرتوں میں ہے۔ شعور اور الشعور کی گرہوں کو غالب نے‬
‫بڑی ہی تخلیقی ہنرمندی سے اس استفہامیہ انداز میں کھولنے کی کوشش کی ہے۔ لہٰ ذا اس سبق میں اسی جانب‬
‫توجہ کی جائے گی کہ غالب کے اس استفہامیہ انداز بیان کی اہمیت‪ ،‬معنویت اور ان کے پورے شعری و فکری‬
‫نظام سے اس کے انسالک کو سمجھا جاسکے۔ جگہ جگہ ضرورت کے تحت اشعار اور ان کی تعبیر و تشریح کے‬
‫ذریعہ تفہیم کی صورت اور بھی صاف اور شفاف طور پر پیش کی جائے گی۔‬
‫شاعری ا ور استفہام‬
‫اردو شاعری میں استفہامیہ اندازکی شاعری بہت کم شعراکے حصے میں آئی ہے۔ غالب کے بعد اقبال کے‬
‫یہاں اس کااہتمام ملتا ہے۔ شاعری اگر استفہامیہ رنگ میں ہوتی ہے تو اس میں طنز اور تعریض کی صورتیں‬
‫زیادہ پیدا ہوتی ہیں۔ اس سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر نے کائنات کو تجسس اور تشکیک کی‬
‫روشنی میں دیکھا ہے‪ ،‬جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ شاعری پڑھنے یا سننے والے کے ذہنو ں میں‬
‫سس کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔‬
‫بھی تج ّ‬
‫شاعری محض الفاظ کا گورکھ دھندا نہیں‪ ،‬بلکہ شعر میں شاعر کی ت ّجسس بھری زندگی کی عکاّسی نظر‬
‫آتی ہے۔ جس شاعر میں مشاہدہ اور تشکیک کا جوہر تابناک اور شدید ہوگا اس کی شاعری میں استفہام کی نئی‬
‫نئی صورتیں پیدا ہوں گی۔ غالب جیسا بالغ نظر فنکار ہی یہ سوال قائم کرسکتا ہے‪:‬‬
‫تھمے‬ ‫دیکھیے‬ ‫کہاں‬ ‫عمر‬ ‫رخش‬ ‫ہے‬ ‫میں‬ ‫رو‬
‫میں‬ ‫رکاب‬ ‫ہے‬ ‫پا‬ ‫نہ‬ ‫ہے‬ ‫پر‬ ‫باگ‬ ‫ہاتھ‬ ‫نَے‬
‫شاعری میں استفہامیہ انداز کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ شاعر کسی بھی عمل یا شے پر سوال قائم‬
‫کرسکتاہے اور اسی انداز میں احتجاج بھی درج کراسکتا ہے۔ لہٰ ذا بغیر کسی تامل کے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ‬
‫شاعری اور استفہامیہ انداز کا رشتہ گہرا ہے۔‬
‫غالب کی شاعری میں استفہامیہ انداز‬
‫غالب نے زندگی اور کائنات کو شک کی نظر سے دیکھا ہے۔ ذہن میں جب شک پیدا ہوتے ہیں تو سوال اور‬
‫اشکال بھی پیداہوتے ہیں۔ محبت کا رنگ ہو یا حسن و جمال کا‪ ،‬رقابت کی بات ہو یا احباب کے سلوک و خلوص‬
‫کی‪ ،‬امید و آس کی بات ہو یا یاس و محرومی کی‪ ،‬غالب ہر جگہ اور ہر موقعے پر ایک طرح کا سوال‪ ،‬ایک طرح‬
‫کا شبہ یا کم ازکم اس کا ایک زاویہ تو پیدا کرہی دیتے ہیں‪:‬‬

‫غالب‬ ‫گئی‬ ‫اٹھ‬ ‫ہی‬ ‫توقع‬ ‫جب‬


‫کوئی؟‬ ‫کرے‬ ‫گلہ‬ ‫کا‬ ‫کسی‬ ‫کیوں‬
‫اس میں یاس و محرومی کا مضمون ہے لیکن انداز استفہامیہ ہے۔ اسی طرح ان کا مشہور زمانہ شعر‬
‫مالحظہ کیجیے جس کی ردیف ہی ہے ‘کیا ہے؟’‬
‫آخر اس درد کی دوا کیا ہے‬ ‫دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے‬
‫یا ٰالہی! یہ ماجرا کیا ہے‬ ‫ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار‬

‫پوری غزل آپ کی نظر میں ہوگی۔ مختلف مضامین کو اسی ‘کیا ہے’ ردیف سے باندھ کر نئے نئے زاویے‬
‫پیدا کیے گئے ہیں۔ سوال پیدا کرتے ہوئے ان کا المیہ کردار سامنے ابھر آتاہے‪:‬‬
‫تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو‬ ‫رہی نہ طاقت گفتار اور اگر‬
‫ہے‬ ‫کیا‬ ‫بھی‬ ‫ہو‬
‫نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ‬ ‫ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا‬
‫کیا‬
‫غالب کے یہاں ان کی اپنی سی ایک دنیا تشکیل پاتی ہے جہاں ایک ایسا کردار دکھائی دیتا ہے جس کی فقط‬
‫سس ہے۔ اسی لیے وہ خارج کو باطن سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ‬ ‫سم تج ّ‬
‫آنکھیں ہی نہیں‪ ،‬بلکہ وہ مج ّ‬
‫جب اپنے دیوان کی پہلی غزل کا مطلع کہتے ہیں تو وہیں سے ان کا استفہامیہ انداز ابھرتا ہوا دکھائی دینے لگتا‬
‫ہے‪:‬‬
‫کا‬ ‫تحریر‬ ‫شوخی‬ ‫کی‬ ‫کس‬ ‫ہے‬ ‫فریادی‬ ‫نقش‬
‫کا‬ ‫تصویر‬ ‫پیکر‬ ‫ہر‬ ‫پیرہن‬ ‫ہے‬ ‫کاغذی‬
‫اس شعر میں خدا کی شوخی تحریر (خالقیت) اور انسان کی ناپائیدار زندگی کو پیش کیا گیا ہے۔ غالب کو‬
‫سب معلوم ہے کہ یہ کائنات خدا نے بنائی ہے اور انسان کا وجودکاغذی پیرہن سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا‪ ،‬لیکن‬
‫غالب نے تجاہل عارفانہ سے کام لے کر سوالیہ اسلوب اپنایا ہے۔ اسی طرح جب وہ زندگی اور موت یا انسان اور‬
‫غم کے رشتے کو شعری پیکر عطا کرتے ہیں تو اسی استفہامیہ انداز کو اختیار کرتے ہیں‪ ،‬یہ بھی ان کاایک‬
‫انفرادی طرز اظہار ہے‪:‬‬
‫شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر‬ ‫غم ہستی کا اسد کس سے ہو ُجز‬
‫تک‬ ‫ہونے‬ ‫عالج‬ ‫مرگ‬
‫موت سے پہلے آدمی غم سے نجات‬ ‫قید حیات و بند غم اصل میں دونوں‬
‫کیوں‬ ‫پائے‬ ‫ہیں‬ ‫ایک‬

‫غالب اسی طرح شب غم اور محرومی قسمت کو کچھ اس انداز میں پیش کرتے ہیں‪:‬‬
‫ہم نے چاہا تھا کہ مرجائیں‪ ،‬سو وہ‬ ‫کس سے محرومی قسمت کی شکایت‬
‫ہوا‬ ‫نہ‬ ‫بھی‬ ‫کیجے‬
‫آج ادھر ہی کو رہے گا‪ ،‬دیدہ اختر‬ ‫کیوں اندھیری ہے شب غم؟ ہے بالوں‬
‫ک ُھال‬ ‫نزول‬ ‫کا‬

‫مرزا غالب کی زندگی میں غم و نشاط دونوں سائے کی طرح ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ شاعری پر اس کے‬
‫اثرات مرتب ہوئے۔ غالب کی تخلیقی قوت مضمون آفرینی سے مل کر ایک ایسا جہان خلق کرتی ہے کہ استفہامیہ‬
‫انداز میں ایک خاص طرح کی گہرائی پیدا ہوجاتی ہے۔ آپ دیکھیے کہ اس شعر میں کس طرح مضمون کو پیش کیا‬
‫گیا ہے جس کی کئی معنوی جہتیں ابھر کر سامنے آسکتی ہیں‪:‬‬
‫ہوگئیں‬ ‫نمایاں‬ ‫میں‬ ‫گل‬ ‫و‬ ‫اللہ‬ ‫کچھ‬ ‫کہاں؟‬ ‫سب‬
‫ہوگئیں‬ ‫پنہاں‬ ‫کہ‬ ‫گی‬ ‫ہوں‬ ‫صورتیں‬ ‫کیا‬ ‫میں‬ ‫خاک‬
‫یہاں درس فنا پذیری بھی ہے اور پھولوں (اللہ و گل) کی شکل میں نموپذیری کو بھی پیش کیا گیاہے۔ یہ‬
‫کہہ سکتے ہیں کہ وہ صرف سوالیہ انداز زیب داستان کے لیے نہیں‪ ،‬بلکہ معنوی گہرائی پیدا کرنے کے لیے‬
‫اختیار کرتے ہیں۔ مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں‪:‬‬
‫‘‘وہ ان سچے لوگوں میں سے تھے جن کے دلوں میں کسی نقطہ نظر کو تسلیم کرلینے‬
‫کے بعد بھی شکوک و سواالت رہ رہ کر ابھرتے رہتے ہیں اور جو کبھی اپنے فطری میالن‬
‫(غالب‪ ،‬شخص اور شاعر‪،‬‬ ‫تفتیش و تفحص کے ساتھ ناانصافی نہیں کرسکتے۔’’‬
‫ایجوکیشنل بک ہاوس‪ ،‬علی گڑھ‪ ،2010 ،‬ص ‪)37‬‬
‫غالب کا یہ شعر دیکھیے اور غور کیجیے کہ وہ ذات مطلق کے وجود بلکہ ‘وحدت الوجود’ کو قبول کرنے‬
‫کے باوجود کہتے ہیں‪:‬‬
‫موجود‬ ‫کوئی‬ ‫نہیں‬ ‫بن‬ ‫تجھ‬ ‫جبکہ‬
‫ہے؟‬ ‫کیا‬ ‫خدا‬ ‫اے‬ ‫ہنگامہ‬ ‫یہ‬ ‫پھر‬
‫غالب کا میالن طبع ہی کچھ ایسا تھا کہ ان کے ذہن میں سواالت ابھرتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے ان‬
‫کے شعری اظہار میں استفہامیہ انداز آیا اور اسی سبب حیرت و استعجاب کے عناصر بھی شامل ہوئے‪:‬‬
‫غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے‬ ‫یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں‬
‫نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے‬ ‫شکن زلف عنبریں کیوں ہے‬
‫ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے‬ ‫اللہ و گل کہاں سے آئے ہیں‬

‫غالب رومان سے ذہنی طور پر بہت قریب تھے۔ وہ محبوب سے قرب یا اس سے محرومی‪ ،‬دونوں‬
‫صورتوں میں استفہامیہ انداز میں گویا ہوتے ہیں‪:‬‬
‫کیا فائدہ کہ جیب کو رسوا کرے‬ ‫چاک جگر سے جب رہ پُرسش نہ‬
‫کوئی‬ ‫ہوئی‬ ‫وا‬
‫جب ہاتھ ٹوٹ جائیں‪ ،‬تو پھر کیا‬ ‫بیکاری جنوں کو ہے سر پیٹنے کا‬
‫کوئی‬ ‫کرے‬ ‫شغل‬

‫غالب اپنے فکر و خیال کو مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں۔ محبوب کے دوست ہونے اور اپنی خانہ‬
‫ویرانی سے لے کر‪ ،‬گردش روزگار کی شکایت تک اور دوست کی غم خواری اور زخم و ناخن کے رشتے کے‬
‫بیان تک‪ ،‬محبوب کے رخسار کی تابندگی سے جل جانے کے ذکر سے لے کر ناصح کی نصیحت اور جنون عشق‬
‫کے بیان تک اور اسی طرح غم کے بیان سے لے کر موت اور جنازے کے ذکر تک‪ ،‬گویا زندگی کے بیشتر گوشے‬
‫ایسے ہیں‪ ،‬جن پر غالب غور و فکر کی دعوت بھی دیتے ہیں اور سوالیہ نشان بھی قائم کرتے ہیں۔ کچھ اشعار‬
‫مالحظہ کیجیے‪:‬‬
‫نہ کبھی جنازہ اٹھتا‪ ،‬نہ کہیں مزار‬ ‫ہوئے مر کے ہم جو رسوا‪ ،‬ہوئے کیوں‬
‫ہوتا‬ ‫دریا‬ ‫غرق‬ ‫نہ‬
‫کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر‬ ‫ترے وعدے پہ جئے ہم‪ ،‬تو یہ جان‬
‫ہوتا‬ ‫اعتبار‬ ‫جانا‬ ‫جھوٹ‬
‫یہ جنون عشق کے انداز چھٹ جائیں‬ ‫گر کیا ناصح نے ہم کو قید‪ ،‬اچھا یوں‬
‫کیا‬ ‫گے‬ ‫سہی‬
‫زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ‬ ‫دوست غم خواری میں میری سعی‬
‫کیا‬ ‫گے‬ ‫آئیں‬ ‫کیا‬ ‫گے‬ ‫فرمائیں‬
‫انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں‬ ‫کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے‬
‫میں‬ ‫دل‬
‫اسی طرح پوری ایک غزل ہے جس کی ردیف ‘کیا’ ہے جس میں محبوب کے تغافل و تجاہل‪ ،‬اس کے بوئے‬
‫پیرہن اور رقیب پر نوازش بے جا کی شکایت ملتی ہے۔ عاشق کے اندر صبر و سکون کا فقدان ہوتاہے‪ ،‬اس پر‬
‫سوال قائم کیاگیا ہے۔ بارہ (بارہ) اشعار کی اس غزل سے چند شعر لکھے جاتے ہیں‪:‬‬
‫کہاں تک اے سراپا ناز ‘کیا‬ ‫تجاہل پیشگی سے مدعا کیا‬
‫کیا’‬
‫شکایت ہائے رنگیں کا گلہ‬ ‫نوازش ہائے بیجا دیکھتا ہوں‬
‫کیا‬
‫غم آوارگی ہائے صبا کیا‬ ‫دماغ عطر پیراہن نہیں ہے‬
‫شہیدان نگہ کا خوں بہا کیا‬ ‫محابا کا ہے؟ میں ضامن‬
‫دیکھ؟‬ ‫ادھر‬
‫شکیب خاطر عاشق بھال کیا‬ ‫کیا کس نے جگر داری کا‬
‫دعوی‬
‫ٰ‬

‫غالب نے اپنی شاعری میں اکثر اپنی ‘انا’ اور اپنی شخصیت کے استحکام کو بھی ظاہر کیا ہے۔ ان کا یہ‬
‫بھی ماننا ہے کہ جس قدر میں نے دکھ اور غم اٹھائے ہیں‪ ،‬یا یہ کہ جس طرح میں نے قہر و غضب کا مقابلہ کیا‬
‫دعوی بھی وہ کرتے ہیں کہ اس میں حیرت کی بات کیا ہے کہ میرے جیسا‬
‫ٰ‬ ‫ہے‪ ،‬کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ لہٰ ذا یہ‬
‫کوئی دوسرا شخص پیدا نہیں ہوا‪ ،‬جو کہ ان مصائب کو برداشت کرسکے‪:‬‬
‫ہوا‬ ‫نہ‬ ‫سا‬ ‫ہم‬ ‫کوئی‬ ‫جب‬ ‫غضب‬ ‫و‬ ‫قہر‬ ‫درخور‬
‫پھر غضب کیا ہے جو ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا‬
‫اور پھر جب واعظ پر طنز کرنا ہوتا ہے تو اس انداز میں گویا ہوتے ہیں‪:‬‬
‫کیا بات ہے تمھاری شراب طہور کی؟‬ ‫واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پال سکو‬
‫پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ‬ ‫کہاں میخانہ کا دروازہ غالب اور کہاں‬
‫نکلے‬ ‫ہم‬ ‫واعظ؟‬

‫غالب یہیں نہیں ُرکتے بلکہ ان کے سوال کا سلسلہ دراز ہوتا ہوا شوخی کے رنگ میں ڈھل کر یوں اداہوتا‬
‫ہے‪:‬‬
‫آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا؟‬ ‫پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے‬
‫ناحق‬ ‫پر‬
‫مسجد ہو‪ ،‬مدرسہ ہو‪ ،‬کوئی خانقاہ ہو‬ ‫جب میکدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ‬
‫قید‬ ‫کی‬
‫لیکن یہ صرف شوخی نہیں بلکہ اوپر کے شعر کے حوالے سے اسلوب احمد انصاری لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’لفظ ناحق استعمال کرکے اس فیصلے کو نہ صرف مشکوک اور مشتبہ قرار دیا گیا ہے‬
‫بلکہ اسے مسترد بھی کردیا گیا ہے۔ یہ گویا الوہی انصاف یعنی ‪ Divine Justice‬کے‬
‫بارے میں تشکیک کا رویہ ہے۔‘‘ (نقش ہائے رنگ رنگ‪ ،‬از اسلوب احمد انصاری‪ ،‬غالب انسٹی‬
‫ٹیوٹ نئی دہلی‪ ،1998 ،‬ص ‪)280‬‬

‫غالب کی شاعری میں جو استفہامیہ انداز ملتا ہے وہ فیشن کے طور پر نہیں‪ ،‬بلکہ اس کی اطالقی نوعیت‬
‫معنی خیز ہوتی ہے۔ کبھی طنز کے طور پر‪ ،‬کبھی خودکالمی کے طور پر‪ ،‬کبھی احباب یا دنیا کی ستم ظریفی پر‬
‫سوالیہ نشان قائم کرنے کے لیے‪ ،‬کبھی معشوق اور رقیبوں کے رویے پر المیہ انداز میں‪ ،‬تو کبھی کھلے طور پر‬
‫گویا چیلنج کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں۔ غرض یہ کہ غالب نے اپنی شاعری میں یہاں تک کہ قصیدے میں بھی‬
‫جہاں موقع مال ہے‪ ،‬اس طرز اظہار سے کام لیا ہے‪:‬‬
‫آسماں نے بچھا رکھا تھا دام‬ ‫اڑ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا‬
‫مجھ کو کیا بانٹ دے گا تو‬ ‫ماہ بن‪ ،‬ماہتاب بن‪ ،‬میں کون‬
‫انعام؟‬

‫اسی قصیدے میں جب طبیعت غزل پر مائل ہوتی ہے تو وہاں بھی اس طرح کے اشعار ملتے ہیں‪:‬‬
‫غم سے جب ہوگئی ہو زیست‬ ‫مے ہی پھر کیوں نہ میں‬
‫حرام‬ ‫جاوں‬ ‫پیے‬
‫کہ نہ سمجھیں وہ لذت دشنام‬ ‫بوسہ کیسا؟ یہی غنیمت ہے‬

‫غالب کی ایک پوری غزل ہے جس کی ردیف ہے ‘کیوں کر’ اور اسی طرح ایک غزل کی ردیف ہے ‘تو‬
‫کیوں ہو’ اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ غالب کو یہ استفہامیہ انداز کس درجہ پسند تھا۔ یہ شعر مالحظہ کیجیے‪:‬‬
‫کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں؟ ہو تو‬ ‫ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام‬
‫ہو‬ ‫کر‬ ‫کیوں‬ ‫وصال‬
‫جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو‪ ،‬تو‬ ‫الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ‬
‫ہو‬ ‫کر‬ ‫کیوں‬
‫وہ شخص دن نہ کہے رات کو‪ ،‬تو‬ ‫جسے نصیب ہو روز سیاہ میرا سا‬
‫ہو‬ ‫کر‬ ‫کیوں‬
‫یہ ‘کیوں کر ہو’ غالب کے ذہن میں پیدا ہونے والے شکوک اور سواالت دونوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی‬
‫طرح دوسری غزل کے یہ اشعار مالحظہ کیجیے‪:‬‬
‫وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے‪ ،‬ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں‬
‫سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو؟‬
‫ٹھہرا‬ ‫پھوڑنا‬ ‫سر‬ ‫جب‬ ‫عشق؟‬ ‫کا‬ ‫کہاں‬ ‫کیسی؟‬ ‫وفا‬
‫ہو؟‬ ‫کیوں‬ ‫آستاں‬ ‫سنگ‬ ‫ہی‬ ‫تیرا‬ ‫دل!‬ ‫سنگ‬ ‫اے‬ ‫پھر‬ ‫تو‬
‫ہمدم‬ ‫ڈر‬ ‫نہ‬ ‫کہتے‬ ‫چمن‬ ‫روداد‬ ‫سے‬ ‫مجھ‬ ‫میں‬ ‫قفس‬
‫ہو؟‬ ‫کیوں‬ ‫آشیاں‬ ‫میرا‬ ‫وہ‬ ‫بجلی‪،‬‬ ‫کل‬ ‫پہ‬ ‫جس‬ ‫ہے‬ ‫گری‬
‫ہے‬ ‫کم‬ ‫کیا‬ ‫کو‬ ‫ویرانی‬ ‫خانہ‬ ‫کی‬ ‫آدمی‬ ‫فتنہ‬ ‫یہ‬
‫ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟‬
‫پہلے شعر میں محبوب کے لیے خو اور اپنے لیے (عاشق) وضع استعمال کیا ہے۔ دوسرے مصرعے میں‬
‫سبک سر کی مناسبت سے سرگراں کا برمحل استعمال کیا گیا ہے۔ دونوں مصرعوں میں جو قول محال‬
‫(‪ )Paradox‬سے کام لے کر غالب نے سوال قائم کیا ہے‪ ،‬اس سے ان کی تخلیقی بصیرت اور فکری ارتعاش کی‬
‫ہم آہنگی کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے اور ساتھ ہی شاعر کی انا اور عزت نفس پر آنچ بھی نہیں آتی‪ ،‬بلکہ ایک توانا‬
‫لہجہ اور طنطنہ سے بھرا ہوا تیور بھی اُبھرتا ہے۔‬
‫دوسرے شعر میں تو محبوب کو ایک طرح سے گہرے طنز کے لہجے میں کہا گیا ہے کہ اب اس دنیا میں‬
‫نہ ‘وفا’ ہے نہ ‘عشق’ اگر کچھ رہ گیا ہے تو عاشق کے لیے سر پھوڑتے رہنا جو کہ اس کا مقدر بھی ہے اور‬
‫اگر ایسا ہے تو اس کے لیے اے سنگ دل محبوب! تیرا ہی سنگ آستاں کیوں؟ سنگ دل اور سنگ آستاں میں جو‬
‫معنوی انسالک اور شعری تعمق ہے‪ ،‬وہ ظاہر ہے۔ یہاں بھی استفہامیہ انداز نے ان کے تیور کو مزید توانائی‬
‫بخشی ہے۔ اگر اس انداز میں شعر نہ کہا گیا ہوتا تو لہجہ سپاٹ ہوجاتا۔ اسی طرح اوپر کے آخری شعر میں بھی‬
‫غالب نے محبوب سے دوستی کو ‘فتنہ’ سے موسوم کیا ہے۔ ایک تصور اردو شاعری میں یہ بھی ہے کہ عاشق‬
‫و معشوق کے رشتے میں آسمان‪/‬فلک فتنہ پردازی کرتا رہتاہے‪ ،‬یعنی پھوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔‬
‫غالب نے یہ پہلو اور زاویہ بدل کر پیش کردیا ہے کہ اے محبوب تم جس کے دوست ہوجاو گے اس کا مقدر تو‬
‫خانہ ویرانی ہے ہی‪ ،‬لہٰ ذا تمھارا فتنہ آسمان کے فتنے سے کسی طرح کم نہیں۔ یہاں بھی محبوب کے فتنہ کو‬
‫آسمان کی فتنہ پردازی پر فائق قرار دیا ہے۔‬
‫غالب ہمیشہ کسی مضمون کو چیلنج کی طرح پیش کرتے ہیں اور قول محال کے استعمال پر تو انھیں‬
‫دسترس حاصل ہے۔ یہ شعر مالحظہ کیجئے‪:‬‬
‫کیا‬ ‫کیا‬ ‫کار‬ ‫نشاط‬ ‫ہے‬ ‫کو‬ ‫ہوس‬
‫کیا‬ ‫مزا‬ ‫کا‬ ‫جینے‬ ‫تو‬ ‫مرنا‬ ‫ہو‬ ‫نہ‬
‫غالب کس کس طرح سے انسانی وجود کی نفی اور ذات مطلق کی حقانیت اور وجود برحق کو استفہام کے‬
‫انداز میں پیش کرتے ہیں۔ مالحظہ کیجیے‪:‬‬
‫نہ تھا کچھ تو خدا تھا‪ ،‬کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا‬
‫ڈبویا مجھ کو ہونے نے‪ ،‬نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا‬
‫غالب کا ذہن غیب اور امکان دونوں کے باطن میں اترنے کی صالحیت رکھتا ہے۔ انسان کا وجود پذیر ہونا‬
‫گویا اس کے غارت ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا جب بھی خدا کا وجود برحق اپنی جگہ قائم ہوتا۔‬
‫اسی پر غالب نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر مجھے بنایا نہیں گیا ہوتا تو خدا کا کیا بگڑ جاتا۔ اقبال نے بھی دوسرے‬
‫انداز میں کہا تھا‪:‬‬
‫کردیا‬ ‫فاش‬ ‫بھی‬ ‫کو‬ ‫مجھ‬ ‫کیا‬ ‫غضب‬ ‫کیا‬ ‫یہ‬ ‫تونے‬
‫میں‬ ‫کائنات‬ ‫سینہ‬ ‫تھا‬ ‫راز‬ ‫ایک‬ ‫تو‬ ‫ہی‬ ‫میں‬
‫دونوں شعروں میں فکر اور طرزاظہار کے لحاظ سے جو فرق ہے‪ ،‬وہ واضح ہے۔ یہاں اس کی تفصیل میں‬
‫جانے کی گنجائش نہیں۔‬
‫غالب کے اس استفہامیہ انداز پراظہار خیال کرتے ہوئے اسلوب احمد انصاری لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’جو مسئلہ بھی ان کے ادراک کی زد میں آئے‪ ،‬وہ اس پر ایک سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں‬
‫تحیر کی جبلّت کو ابھارتے ہیں‪ ...‬ان کا‬
‫ّ‬ ‫سس اور‬‫اور اس طرح پڑھنے والے کے اندر بھی تج ّ‬
‫استفہامیہ رجحان یا انداز دو عناصر کے ساتھ منسلک اور مربوط ہے‪ ،‬استعجاب اور کلبیت‬
‫یعنی ‪Cynicism‬۔ غالب کے یہاں کسی طرح کا ادعا نہیں ملتا‪ ،‬لیکن ایک طرح کی کھوج‬
‫اور تفتیش جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ غالب ایک طرح کی کھوج‬
‫نکالنے والی ذہانت (‪ )Inquiring Intelligence‬کا دوسرا نام ہے۔‘‘‬
‫(نقش ہائے رنگ‪ ،‬غالب انسٹی ٹیوٹ‪ ،‬نئی دہلی‪ ،1998 ،‬ص ‪)278‬‬
‫سس کو‬
‫تحیر اور تج ّ‬
‫ّ‬ ‫اسلوب صاحب نے یہ بات درست فرمائی ہے کہ غالب اپنے پڑھنے والوں کے اندر بھی‬
‫ابھارتے ہیں۔ شعری مزاج جو غالب کا ہے‪ ،‬اس کی تفہیم و تعبیر کے لیے اسلوب صاحب کی اس رائے سے‬
‫اختالف ممکن نہیں۔‬
‫غالب کی ایک مشہور غزل ہے‪ :‬دل ہی تو ہے‪ ،‬نہ سنگ و خشت‪ ،‬درد سے بھر نہ آئے کیوں‪ ...‬غالب نے اس‬
‫غزل میں انسانی ہمدردی‪ ،‬دردمندی‪ ،‬بے چارگی‪ ،‬مایوسی‪ ،‬محرومی اور سب سے بڑھ کر حقائق حیات کو استفہامیہ‬
‫انداز میں جس خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے‪ ،‬وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انسانی دل کی اصل خوبی یہی ہے کہ وہ درد و‬
‫غم اور پریشانی سے متاثر ہوتا ہے کیوں کہ سنگ و خشت تو ہے نہیں۔ غالب کس انداز میں کہتے ہیں‪:‬‬
‫دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت‪ ،‬درد سے بھر نہ آئے کیوں‬
‫کیوں‬ ‫ستائے‬ ‫ہمیں‬ ‫کوئی‬ ‫بار‪،‬‬ ‫ہزار‬ ‫ہم‬ ‫گے‬ ‫روئیں‬
‫اس کے بعد جو شعر آتا ہے اس میں مایوسی اور بے گھری کا ذکر ہے لیکن یہاں بھی غالب نے اپنا لہجہ‬
‫تیکھا اور توانا رکھا ہے‪:‬‬
‫نہیں‬ ‫آستاں‬ ‫نہیں‪،‬‬ ‫در‬ ‫نہیں‪،‬‬ ‫حرم‬ ‫نہیں‪،‬‬ ‫دَیر‬
‫بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم‪ ،‬غیر ہمیں اٹھائے کیوں؟‬
‫غالب نے اس شعر میں اہل دیر و حرم کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ہم تو کسی کے‬
‫در پر یا کسی کے آستاں پر بھی نہیں اور رہگزر یا راستہ تو سب کا ہے‪ ،‬ہمیں یہاں سے ہٹانے کا تو کسی کو حق‬
‫نہیں۔ کیا ہی خوبصورتی سے عام سے مضمون کو خاص اہتمام اور تناظر کے ساتھ پیش کیا گیا ہے‪:‬‬
‫اسی غزل کا وہ شعر پہلے آچکا ہے کہ‪ :‬موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟‬
‫غالب مقطع میں اپنے حوالے سے کہتے ہیں کہ غالب کے بغیر تو اس دنیا کا کوئی کام رکنے واال نہیں۔ لہٰ ذا‬
‫ہائے توبہ مچانے کی ضرورت کیا ہے؟ لیکن اس کے درپردہ غالب اپنی شخصیت سے اپنے قارئین کی ہمدردی‬
‫حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس میں ‘غالب خستہ’ کی ترکیب نے بڑا کام کیا ہے‪:‬‬
‫ہیں‬ ‫بند‬ ‫کام‬ ‫سے‬ ‫کون‬ ‫بغیر‬ ‫کے‬ ‫خستہ‬ ‫غالب‬
‫کیوں‬ ‫ہائے‬ ‫ہائے‬ ‫کیجئے‬ ‫کیا‪،‬‬ ‫زار‬ ‫زار‬ ‫روئیے‬
‫استفہام کے انداز میں ایک غزل ہے جس کا مطلع ہے‪:‬‬
‫کہیے‬ ‫کیا‬ ‫ہے‪،‬‬ ‫بشر‬ ‫کو‪،‬‬ ‫اس‬ ‫اگر‬ ‫دل‬ ‫ہے‬ ‫دیا‬
‫کہئے‬ ‫کیا‬ ‫ہے‪،‬‬ ‫بر‬ ‫نامہ‬ ‫ہو‪،‬‬ ‫تو‬ ‫رقیب‪،‬‬ ‫ہوا‬
‫اس میں حسن و عشق کی واردات اور اس کے نکات پیش ہوئے ہیں۔ غالب نے ایک اچھوتے مضمون کو‬
‫اچھوتے اندازمیں پیش کیا ہے۔ آپ بھی مالحظہ کیجیے اور لطف اٹھائیے‪:‬‬

‫حال‬ ‫پُرسش‬ ‫وہ‬ ‫میں‬ ‫بازار‬ ‫ہیں‬ ‫کرتے‬ ‫کے‬ ‫سمجھ‬


‫کہیے؟‬ ‫کیا‬ ‫ہے‪،‬‬ ‫گزر‬ ‫رہ‬ ‫سر‬ ‫کہ‬ ‫کہے‬ ‫یہ‬ ‫کہ‬
‫محبوب اگر سرراہ مجھ سے ملتا ہے تو جان بوجھ کر حال دل پوچھتا ہے تاکہ میں یہ کہہ سکوں کہ بھال‬
‫سر رہ گزر کیا حال بیان کیا جائے۔ یعنی محبوب کی چاالکی کو نشان َزد کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں غالب‬
‫کا جو غیررسمی انداز ہے‪ ،‬اس سے لطف میں اضافہ ہوجاتا ہے۔‬

‫خالصہ‬
‫مرزا غالب کی شاعری کے اَن گنت پہلو ہیں‪ ،‬لیکن جب ہم ان کے انداز بیان کی بات کرتے ہیں تو اس میں‬
‫ان کا استفہامیہ طرز تخاطب بھی شامل ہوتا ہے۔ یہ انداز غالب کی ذکاوت‪ ،‬فطانت‪ ،‬دوراندیشی‪ ،‬تحیرخیزی اور‬
‫کائنات کے تئیں ان کے گہرے مشاہدے کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے ان کی شاعری میں برجستگی اور‬
‫‪ Informality‬پیدا ہوجاتی ہے۔‬
‫غالب کے یہاں ان کی اپنی ایک ایسی دنیا تشکیل پاتی ہے جہاں ایک کردار دکھائی دیتا ہے جس کی آنکھیں‬
‫سس ہے۔ اسی لیے وہ خارج کو باطن سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ جب اپنے‬ ‫ہی نہیں‪ ،‬بلکہ وہ مجسم تج ّ‬
‫دیوان کی پہلی غزل کا مطلع کہتے ہیں تو وہیں سے ان کا استفہامیہ انداز ابھرتا ہوا دکھائی دینے لگتا ہے‪:‬‬
‫کا‬ ‫تحریر‬ ‫شوخی‬ ‫کی‬ ‫کس‬ ‫ہے‬ ‫فریادی‬ ‫نقش‬
‫کا‬ ‫تصویر‬ ‫پیکر‬ ‫ہر‬ ‫پیرہن‬ ‫ہے‬ ‫کاغذی‬
‫اس شعر میں خدا کی شوخی تحریر (خالقیت) اور انسان کی ناپائیدار زندگی کو پیش کیا گیا ہے۔ غالب کو‬
‫سب معلوم ہے کہ یہ کائنات خدا نے بنائی ہے اور انسان کا وجودکاغذی پیرہن سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا‪ ،‬لیکن‬
‫غالب نے تجاہل عارفانہ سے کام لے کر سوالیہ اسلوب اپنایا ہے۔‬
‫غالب نے اپنی شاعری میں اکثر اپنی ‘انا’ اور اپنی شخصیت کے استحکام کو بھی ظاہر کیا ہے۔ ان کا یہ‬
‫بھی ماننا ہے کہ جس قدر میں نے دکھ اور غم اٹھائے ہیں‪ ،‬یا یہ کہ جس طرح میں نے قہر و غضب کا مقابلہ کیا‬
‫دعوی بھی وہ کرتے ہیں کہ اس میں حیرت کی بات کیا ہے کہ میرے جیسا‬
‫ٰ‬ ‫ہے‪ ،‬کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ لہٰ ذا یہ‬
‫کوئی دوسرا شخص پیدا نہیں ہوا‪ ،‬جو کہ ان مصائب کو برداشت کرسکے‪:‬‬
‫ہوا‬ ‫نہ‬ ‫سا‬ ‫ہم‬ ‫کوئی‬ ‫جب‬ ‫غضب‬ ‫و‬ ‫قہر‬ ‫درخور‬
‫پھر غضب کیا ہے جو ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا‬
‫کس طرح سے انسانی وجود کی نفی اور ذات مطلق کی حقانیت اور وجود برحق کو استفہام کے انداز میں‬
‫پیش کرتے ہیں۔ مالحظہ کیجیے‪:‬‬
‫نہ تھا کچھ تو خدا تھا‪ ،‬کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا‬
‫ڈبویا مجھ کو ہونے نے‪ ،‬نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا‬
‫غالب کا ذہن غیب اور حضور دونوں کے باطن میں اترنے کی صالحیت رکھتا ہے۔ انسان کا وجود پذیر ہونا‬
‫گویا اس کے غارت ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا جب بھی خدا کا وجود برحق اپنی جگہ قائم ہوتا۔‬
‫اسی پر غالب نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر مجھے بنایا نہیں گیا ہوتا تو خدا کا کیا بگڑ جاتا۔‬
‫مرزا غالب کی شاعری میں استفہامیہ انداز کی مختلف سطحیں نظر آتی ہیں۔ ایک تو وہ کائنات اور مظاہر‬
‫کائنات پر سوال قائم کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ عاشق اور معشوق کے رشتے اور ان کے مابین رشتوں یا نوک‬
‫جھونک یا پھر اپنی محرومی اور مایوسی کو سوال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ ذات مطلق یا پھر‬
‫قدرت حق پر اور کبھی کبھی احباب اور اہل دیر و حرم کو استفہامیہ انداز کے حصارمیں لے آتے ہیں۔ اس طرح‬
‫‪،‬کبھی کبھی پورا انسانی وجود ان کے شک کے گھیرے میں آجاتا ہے۔‬

You might also like