Professional Documents
Culture Documents
Magribi T20
Magribi T20
Module: 20
Paper: Maghribi Tanqeed
Topic: Coleridge
Content writer: Prof. Atiqullah
Formerly Dehli University, Delhi
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi
کالرج
(1772-1834)
کالرج کا پورا نام سیموئل ٹیلر کالرج تھا۔ 1772میں اوٹری سینٹ میری ،ڈیوان شایر میں
والدت ہوئی۔ کرائسٹ ہاسپیٹل اور جیسس کالج ،کیمبرج میں تعلیم کے مراحل طے کیے۔
تلون مزاجی کے تحت اس نے متلون تھا۔ اسی ّ
طبیعت کے لحاظ سے ابتدائے عمر سے ّ
1794میں بغیر کوئی سند لیے کیمبرج کو خیرباد کہہ دیا۔ شاعری کی دیوی کی پرستاری
مطلوب تھی۔ سو اسی میں غرق ہوگیا۔ 1795میں سارا فریکر سے اس کی شادی ہوگئی۔
اسی سال کے دورانیے میں ورڈزورتھ کے ساتھ دوستانہ رشتے سے منسلک ہوا۔ 1798-
99میں جرمنی سے لوٹنے کے بعد شلر Shillerکے تراجم شائع کیے۔ کیمبرج چھوڑنے
کے دو برس بعد یعنی 1796میں اس کی نظموں کا پہال مجموعہ شائع ہوا۔ 1798میں
مجموعہ کالم
ٔ ورڈزورتھ کے اشتراک میں Lyrical Balladsکی اشاعت عمل میں آئی۔ یہ
اس کی چار اور ورڈزورتھ کی انیس نظموں پر مشتمل تھا۔ یہ نظمیں اپنی زبان و اسلوب
اور زندگی و فطرت فہمی کے اعتبار سے ایک نئے اور چونکانے والے تاثر کی حامل
تھیں۔ لیکن ان نظموں سے زیادہ اِس کا مقدمہ جو ورڈزورتھ کے نام سے مشتہر ہے طویل
محرک بنا۔ ادبی تنقید کو جس نے ایک نئی جہت عطا کی۔ روایت کو سوال ّ سلسلہ بحث کا
زد کیا اور نشان زدبھی۔ اسے رد بھی کیا اور قدیم کے بہترین عناصر کی طرف توجہ بھی
اقدار فن کے خالف ِ مروجہ
ّ دالئی۔ اپنی بیش تر صورت میں اسے اٹھارہویں صدی میں
طرز احساس کا مظہر بھی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ِ ر ِدّعمل بھی کہا جاتا ہے اور جو ایک نئے
ہے کہ ورڈزورتھ نے بعض کالرج کے لکھے ہوئے نوٹس کی بنیاد پر اسے تیار کیا تھا یا
کالرج ہی نے اسے لکھا تھا۔ بالفرض محال اگر یہ صحیح ہے تو کالرج ہی نے اپنی معرکۃ
الرا تصنیف ‘بائیوگرافیہ لٹرریہ ) (1817میں اسے سخت تنقید کا نشانہ کیوں بنایا۔ کالرج ا ٓ
نے XIX ،XVIII ،XVII ،XIVاور XXنمبر کے ابواب میں نہایت بسط و تفصیل کے
ت بحث کا تجزیہ کیا اور اپنے اختالفات و اعتراض کو
ساتھ لیریکل بیلڈز کے مشموال ِ
واضح اور مدلل طریقے سے مگر ہم دردانہ فہم کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی۔
1804میں اس نے مالٹا اور اٹلی کے سفر کیے۔ افیم نوشی کے باعث اس کی صحت بگڑتی
چلی گئی۔ 1806میں وہ واپس انگلستان چال آیا۔ کالرج نے اپنی زندگی کا بیش تر وقت اپنے
دوستوں کے یہاں ہی گزارا۔ فلسفیانہ مضامین اور تین ڈرامے بھی لکھے۔ شاعری اور
فلسفے کے موضوع کے عالوہ بالخصوص شیکسپیئر کے ڈراموں اور اس کے شعری فن
پراس نے متواتر کئی لیکچر دیے۔
شاعری کے عال وہ ادبی تنقید میں اس کا بلند ترین مقام ہے۔ اس کا بنیادی موقف یہ تھا کہ
‘سچی شاعری کا مقصد حسن کے ذریعے لطف و انبساط عطا کرنا ہے ،بائیوگرافیہ میں
ورڈزورتھ کی شاعری پر تنقید کے عالوہ ورڈزورتھ کے بعض تنقیدی تصورات کو بھی
موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ فلسفے میں اس نے زندگی کی روحانی اور مذہبی تفہیم کی۔ جو
ق فہم پر مبنی تھی۔ 1834میں اس کا انتقال
کانٹ اور شیلنگ Shellingسے اخذ کردہ طری ِ
ہوگیا۔
نقل ایک نفسیاتی عملیہ ہے جو فطرت اور روح اور فطرت کے مابین تصادم سے نمودار ہوتا ہے اور
مثنی بھی نہیں ہے۔ متخیلہ جو روح کی مداخلت کارانہ
ٰ جو منتج ہوتا ہے دونوں کے امتزاج پر ۔یہ اوریجنل کا
صالحیت ہے اپنی طرف سے کچھ نہ کچھ نیا ضرور جوڑتی ہے۔ تاریکی کو منور کردیتی ہے اور پستی کو
سرفرازی میں بدل دیتی ہے۔ اس کا عمل اس کے برخالف بھی ہوسکتا ہے۔ ہر دو صورت میں وہ مانوس کو
نامانوس اور نامانوس کو مانوس میں تبدیل کرنے کی اہل ہوتی ہے۔ نقل ،اس طرح اوریجنل کی ایک کاپی ہے۔
مشابہت اور افتراق کی یکجائی کی ایک صورت۔ افتراق بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنی مشابہت۔ کیونکہ بغیر
مثنی کی ہوگی یا چربے کی۔ اس لیے فن اور بالخصوص شعری فن تضادات ٰ افتراق کے اس کی صورت ہوبہو
یا باہم ناموافق خاصوں کو وحدت میں ضم کرتا یا توازن پیدا کرتا ہے۔ یہ فن کی آفاقیانے کی قوت ہے جو
مشابہت کو افتراق ،عمومیت کو خصوصیت ،جدید کو قدیم ،جذبا تی تجربے کو فنی اظہار ،خیال کو پیکر،
تجرید کو ٹھوس ،انفراد کو نمائندگی اور دل کو دماغ کے ساتھ رشتہ اتحاد میں باندھنے سے عبارت ہے۔ یہ
وہی صورت ہے جسے دوسرے لفظوں میں ورڈزورتھ نے گہرے احساس اور گہرے خیال کی وحدت کا نام
دیا تھا۔ کالرج کہتا ہے کہ وحدت کے اس سا رے عمل کی بنیاد تخیل پر ہے۔
کالرج فن کو عمومی معنوں میں اخذ کرتا ہے۔ فن سے اس کی مراد دوسرے متخیلہ فنون کے عالوہ
شاعری بھی ہے۔ وہ اکثر شاعری اور فن کو خلط ملط بھی کردیتا ہے۔ شاعری وسیع معنی میں تخیل کے تفاعل
کے ساتھ مشروط ہے۔ متخیلہ حقیقت کی تصور سازی کرتا اور تصور کو حقیقت آفریں بناتا ہے۔ لیکن شاعری
کا ایک امتیاز یہ ہے کہ وہ اپنی ایک ہیئت رکھتی ہے۔ کالرج واضح کرتا ہے کہ اس کی ہیئت کیا ہے اور وہ
کیسے واقع ہوتی ہے اور اس کا موضوع و مواد سے کیا تعلق ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ شاعری اور نثر دونوں
طریقہ استعمال کا ہے۔
ٔ ہی ‘الفاظ’ کو بروئے کار التے ہیں۔ دونوں کے مابین اگر کوئی فرق ہے تو وہ محض
کیونکہ دونوں کے مقاصد کی دنیا الگ ہوتی ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کسی نظم کے مواد ہی کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ اس کا اظہار موزوں ہیئت میں ہو
جیسا کہ مواد کا تعین مقصد پر مبنی ہوتا ہے اور مقصد کے تحت ہی تحریر دو زمروں میں منقسم ہوجاتی ہے۔
سائنسی اور شاعرانہ۔ دونوں کا ایک فوری مقصد ہوتا ہے اور دوسرا حتمی۔ سائنسی عمل کا فوری مقص ِد
حصول صداقت اور شاعری کا بالعموم لطف اندوزی ہے۔ سائنس کی کوئی بھی دریافت یا اس کا کوئی بھی کام
کبھی اس کے قاری کو گہری مسرت نہیں بخش سکتا۔ شاعری خود گہری صداقت کی حامل ہوسکتی ہے اور
یہی اس کا حتمی مقصد بھی ہوتا ہے۔ ایک مثالی صورت یہ ہوگی جس میں صداقت ،لطف و انبساط ہے اور
لطف و انبساط ،صداقت ہے۔ تاہم لطف اندوزی نہ کہ صداقت اس کا فوری مقصد ہے اور بحر و وزن مخصوص
حاالت میں اس کے لیے معاونت کرتے ہیں۔ شاعری جسے نثری زبان کے مقابلے میں ترجیح دیتی ہے۔ شعر
کی زیب و زینت یا یاداشت کی معاونت اس کا مقصد نہیں ہوتا۔ جوش آفریں حالت ہی میں جوش آفریں زبان عمل
آور ہوتی ہے اور اس کا سبب تجربے کی جوش آفرینی ہوتا ہے۔ اس طرح جب بحر و وزن نظم کے مواد اور
زبان کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ اس کا ہر جز ہمیں اپنی طرف مائل کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اس جوش
آفرینی ہی میں لطف اندوزی کا جوہر بھی مضمر ہے۔ جس کا سلسلہ درمیان میں کہیں ٹوٹتا نہیں ہے۔ جو شروع
ہوتا ہے جزوں سے اور پہنچتا ہے‘ ُکل’ تک۔ اسی لیے کالرج کا کہنا ہے کوئی ناول یا کوئی اور نثری کارنامہ،
جس کا مقصد بھی فوری لطف و انبساط فراہم کرنا ہے ،اسے اگر بحر و وزن میں ادا کیا جائے تو محض اپنی
موزونیت کے باعث شاعری کا مرتبہ نہیں پاسکتا۔ شاعری میں عروضی ہیئت کا تعلق زبان اور مواد سے گہرا
ہوتا ہے۔ جو نثری زبان کی نسبت ہمیں زیادہ اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اکساتی ہے۔ آخر میں فیصلہ کن
لفظوں میں وہ کہتا ہے‘‘ :میں بحر و وزن میں لکھتا ہوں ،میں قریب قریب ایسی زبان استعمال کرتا ہوں جو
شاعری سے مختلف ہوتی ہے۔’’
کالرج کے نزدیک نظم چھوٹی ہو یا بڑی پوری کی پوری شاعری نہیں ہوتی۔ خصوصا ً طویل نظم میں
کچھ ہی حصے شعری منصب کو پورا کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کالرج ،ایڈگر ایلن پو ،کی طرح
طویل نظم ہی کا مخالف ہے۔ کالرج ملٹن کی ‘فردوس گم شدہ’ اور شیکسپیئر کے ڈراموں کے مطالعے کے
دوران ان کی طوالت پر انگشت نہیں رکھتا بلکہ ان کی ستائش کرتا ہے۔ کالرج کا کہنا ہے کہ ہیئت کو مواد کی
ماہیت سے نمو پانا چاہیے۔ تمام اجزا مل کر فن پارے کو نامیاتی وحدت عطا کریں ،اجزا کو اجزا کے طور پر
نہیں ‘اکائی’ کے طور پر ظاہر ہونا چاہیے۔
سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں متخیلہ اور متصورہ کو مترادف کے طور پر خیال کیا جاتا تھا۔ بعض
حضرات نے ہابس Hobbesکے لفظوں میں حسی تاثراور یادداشت کے طور پر اسے اخذ کیا۔ ایڈیسن کا ذہن
نسبتا ً صاف تھا لیکن وہ اس کی تعریف کا تعین نہیں کرسکا۔ اکثر حضرات کے نزدیک متصورہ ایک گراں قدر
ادنی درجے کی چیز ہے۔
قوت کا نام ہے جسے ذہن کی تخلیقی قوت کہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں متخیلہ ایک ٰ
اٹھارویں صدی کے آخری اور انیسویں صدی کے ابتدائی دہوں میں یہ اصطالحات نئے معنی سے
ادنی درجہ
ٰ اعلی اور متصورہ کو
ٰ متصف ہوئیں۔ ورڈزورتھ نے ‘لیریکل بیلڈز’ کے پیش لفظ میں متخیلہ کو
ادنی قوت کا۔ متخیلہ مربوط و متحد کرتا
اعلی تخلیقی قوت کا اور متصورہ ٰ
ٰ تفویض کیا ہے۔ متخیلہ نام ہے ایک
ہے۔ وہ شکل سازی کرتا اور تخلیق کرتا ہے۔ متصورہ کم یا زیادہ عمدا ً ان اشیا کو پھر نئی صورت میں ڈھالتا
ہے۔ ّاول الذکر کی تخلیق کردہ اشیا میں وقار اور علوئیت ہوتی ہے جب کہ ثانی الذکر کا کام انھیں صرف حسین
بنا کر پیش کرنے تک محدود ہے۔
چارلس لیمب کے نزدیک بھی متخیلہ تمام اشیا کو ایک اکائی میں ضم کرنے والی قوت ہے جو چیزوں
صوں کے ساتھ ،نفوس subject میں زندگی کی روح پھونکتی ہے یا انھیں بے جان کرتی ہے۔ انواع اپنے خا ّ
اپنے لوازمات کے ساتھ ایک رنگ میں رنگ جاتے ہیں اور سب مل کر ایک ہی تاثر کا مقصد پورا کرتے ہیں۔
کالرج نے ‘بائیوگرافیہ لٹریریہ’ میں شاعری اور متخیلہ کو تھیوری تشکیل دینے کی کوشش کی ہے۔ نصف
صے میں تصور حسن کو محیط ہے۔ دوسرے ح ّ
ِ سے زیادہ یہ کتاب مابعدالطبیعیاتی اور فلسفیانہ تصورات اور
بالخصوص تیرہواں اور چودہواں باب شاعری کے بارے میں اس کے خیاالت کے ساتھ مخصوص ہے۔ تیرہویں
باب میں وہ متخیلہ اور متصورہ کو موضوعِ بحث بناتا ہے۔ کالرج کا تصور ِمتخیلہ ادبی اور جمالیاتی تنقید کو ایک
غیرمعمولی دین ہے۔
کالرج ،ورڈزورتھ کی نظم ’ ‘Guitt and Sorrowکے مطالعے کی بنیاد پر متخیلہ اور متصورہ کو دو
متضاد صالحیتوں کا نام دیتا ہے۔ وہ سوال کرتا ہے کہ نظم کی تحت میں عمیق محسوسات کی روحِ رواں کا
سرچشمہ کیا ہے؟ شاعر کس طرح حسن اور فطرت کی مستقل ہیئتوں کو منکشف کرتا ہے ،کالرج خود اس کا
جواب یہ کہہ کر دیتا ہےکہ یہ متخیلہ کی شکل سازانہ روح کے سبب ممکن ہوسکا۔ یہی وہ قوت ہے جو خود
حسین ہے او رحسن سازی کی قوت رکھتی ہے۔ ایک باطنی اور روحانی قوت جو فطرت اور آدمی کے مابین
رابطے کا کام کرتی ہے۔ اس طرح کالرج متخیلہ کی ایک فلسفیانہ بنیاد کو پانے کی کوشش کرتا ہے۔ مذکورہ
نظم میں کالرج کو گہرے احساس اور گہرے خیال میں یگانگت ،مشاہداتی تجربے میں نفیس صداقت اور متخیلہ
کا وہ عمل نظر آتا ہے جو مشاہداتی تجربے کو ترمیم و تبدل کے بعد ایک نئی وضع میں ڈھال دیتا ہے۔ کالرج
یہ نظریہ قائم کرتا ہے کہ متخیلہ اور متصورہ کے حدود ِعمل بھی محتلف ہیں۔ ورڈزورتھ سے پہلے کے شعرا
کے ذہنی تجربے محسوس تجربے نہیں ہوتے تھے اسی لیے وہ اپنے خیال کو پوری طرح ادا کرنے پر قادر
بھی نہیں تھے۔ ورڈزورتھ نے خیال و احساس کے مابین خلیج کو پاٹ کر دونوں کو مربوط کرنے کی سعی
کی ہے۔ اس کے محسوسات ،خیاالت میں اور خیاالت ،محسوسات میں ڈھل کر ادا ہوئے ہیں۔ اس صورت
ت حاالت جو اساسا ً زندگی یا فطرت کے مشاہداتی تجربے ہیں وہ بھی
میں تمام ہیئتیں ،وارداتیں اور صور ِ
شاعر کے محسوسات و خیاالت میں رنگ جاتے ہیں اور ان میں ایک نئی چمک ا ٓجاتی ہے۔ اس طرح ان
کی معنویت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ مانوس کو نامانوس میں بدلنے کا کام صرف اور صرف متخیلہ کا
ہے۔
سی موضوعات ،اشخاص ،مقامات ،اشیا کا جزوی یا کلّی حیثیت سے ادراک کرنا
بنیادی متخیلہ کا کام ح ّ
سی مدرکہ اشیا کی صاف و واضح تصویر کشی کرسکے۔ وہ
ہے۔ وہ ذہن کو یہ توفیق عطا کرتا ہے کہ ح ّ
مخلوط مشاہداتی تجربے یا مواد کو غیرشعوری طور پر ایک خاص وضع دینے کے لیے کاٹتا چھانٹتا اور
ممکنہ حد تک ادراک کے الئق بناتا ہے۔ جبکہ ثانوی متخیلہ اپنی قوت کو ارادی طور پر کام میں لیتا ہے۔ یہ
روح کا ایک مشترکہ شعبہ/قوت ہے جو ادراک ،تعقل ،ارادہ ،جذبات جیسی تمام صالحیتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
بنیادی متخیلہ صرف اولین ادراک ہی کو بروئے کار التا اور سب میں شامل ہوتا ہے۔ اس لیے یہ نسبتا ً زیادہ
عملی کردار ادا کرنے واال زمرہ ہے۔ جو کچھ اسے ادراک کے وسیلے سے دستیاب ہوتا ہے وہ انھیں تحلیل
کرتا ،بکھیرتا ،تہس نہس کرکے ایک نئی تخلیق کی صورت بخشتا ہے۔ اس طرح یہ ایک شکل سازانہ قوت ہے جو
تجربے میں آئی ہوئی اشیا کو ترمیم و تبدل سے گزارتی اور انھیں ایک نئے سانچے میں ڈھال کر پیش کرتی ہے۔ پھر
اشیا اس طرح نہیں ہوتیں جیسی فطرت (یا حقیقت) میں دکھائی دیتی ہیں بلکہ وہ اس طرح ہوجاتی ہیں جیسا ذہن انھیں
خیال میں التا یا انھیں باور کرتا ہے۔ اس عملیے کے تحت ذہن اور فطرت ایک دوسرے سے متاثر ہوتے اور ایک
دوسرے پر اثرانداز بھی ہوتے ہیں ،ذہن فطرت پراثرانداز ہوکر فطرت جیسا ہوجاتا ہے اور فطرت ذہن پر اثرانداز ہوکر
ذہن جیسی ہوجاتی ہے ،داخلی موضوع ،خارجی شے کا اور خارجی شئے داخلی موضوع کا روپ لے لیتا ہے۔اس طرح
متخیلہ واحدیانے unifyingیا صورت گرانہ emplasticعمل سے سروکار رکھتا ہے جو روح کے شعبوں
/صالحیتوں کو ایک واحدے میں ڈھالنے کے عالوہ ذہن کی شناخت فطرت (یا مواد) کے ساتھ اور فطرت
(یا مواد) کی شناخت ذہن کے ساتھ کرتا ہے۔ اس طرح وہ صداقت جسے شاعر دریافت کرتا ہے نہ تو
خود شاعر میں ہوتی ہے نہ ہی ان چیزوں میں جنھی ں وہ دیکھتا ہے بلکہ ان دونوں کو یعنی ذہن اور
فطرت کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کرکے ان کی شناخت کرتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے بنیادی اور
ثانوی متخیلہ میں نوع کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔ جب ایک اپنی کارکردگی میں ڈھیال پڑتا
ہے تو دوسرا پوری قوت کے ساتھ عمل ا ٓو ر ہوجاتا ہے۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے کی کمی کو پورا
کرتے ہیں۔
کالرج متصورہ کو تخلیقی قوت کا نام نہیں دیتا ،اس کا کام صرف اشیاکو مربوط کرنا ہے۔ متصورہ ایک
ادنی شعبہ ہے جو جامد اور معین چیزوں سے سروکار رکھتا ہے جس کا یادداشت ہی کی طرح ایک معین ٰ
ق عمل ہے۔ جو زمان و مکان کے قیود سے آزاد ہوتا ہے اور یادداشت ہی کی طرح سارا مواد قانون تالزمہ
طری ِ
سے اخذ کرتا ہے ،ذکاوت witاور تعقل کی خوش تدبیری سے بھی وہ التعلق رہتی ہے۔ اسی کے باعث ڈن
Donneاور کولی Cowleyجیسے شعرا نے شدید جذبوں کو بھینٹ چڑھا دیا اور ان کی شاعری جذباتی
جوش آفرینی سےعاری رہی۔
(Restoration دور بحالی
ِ اختراعی استعداد ،طباعی یا طبعی رجحان یا عقبریت کو قدیم تا
)Periodکے نقادوں نے بارہا موضوع بحث بنایا ہے۔ اسی طرح ِوٹ ،فینسی اور تخیل کے تفاعل کے تعلق
سے جب بھی درجہ بندی کی کوشش کی گئی ہے۔ امتیاز قائم ہونے کے بجائے چیزیں خلط ملط زیادہ ہوئی ہیں۔
مجرد قوتوں کی معیاربندی میں ان صورتوں سے بچنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ پھر یہ کہ ان تمام صالحیتوں کے
ّ
مختلف شعبے قائم کرنے میں فلسفیانہ اور ذہنی تجربے کو بنیاد بنایا گیا اور معیار متعین کیے گئے۔ پھر بھی
بے آہنگی کی صورت بدستور قائم رہی۔ یہی وجہ ہے کہ کالرج کو فینسی ،fancyلیاقت ،talentتخیل
،imaginationصالحیت اختراع inventive powerیا عبقریت geniusکے تعلق سے ماضی کے
تصورات میں ایک دوسرے کے ساتھ مدغم و آمیز کی صورت زیادہ نظر آئی۔ ورڈزورتھ کا فینسی اور
امیجینیشن کا تصور بھی اندرونی تناقض سے خالی نہیں تھا۔
ق
کالرج متخیلہ کو تخلیقی اور لیاقت talentکو فینسی /متصورہ سے موسوم کرتا ہے جو محض ایک فری ِ
متحد ہے۔ عقبریت geniusایک پیدائشی جبلّت ہے اور لیاقت کو حاصل کیا جاتا ہے۔ شاعر پیدائشی عبقری ہوتا
ہے وہ ہوتا ہے بنتا یا بنایا نہیں جاتا۔ کالرج بائیوگرافیہ کے پندرہویں باب میں شیکسپیئر کی ایک نظم میں جن
خصوصیات کو نشان زد کرتا ہے وہ اس کی عبقریت پر منتج ہیں اور جو لیاقت سے ممتاز بھی ہیں اور جنھیں
کوشش کرکے بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ وہ کہتا ہے کہ جینیس درج ذیل چار طریقے سے اپنے آپ کو ظاہر
کرتا ہے۔
موسیقانہ فرحت کا حساس؛ یہ مشتمل ہوتا ہے نظمانے versificationکی شیرینی ،اس کے موضوع، .1
انداز توافق اور خیال کے مطابق الفاظ کی متنوع موسیقی کی قوت پر۔ جسے کالرج شاعر کی باطنی روح
ِ
کی موسیقی کے خارجی ظہور کا نام دیتا ہے۔
ت حاالت سے
معروضیت؛ یعنی موضوعات کے انتخاب میں نجی رغبتوں اور خود مصنف کی صور ِ .2
بہت بعید ہونے کی صورت ،جو شاعر کے اپنے محسوسات سے قطعی بے تعلقی کو ظاہر کرتی ہے۔
عالم موجودات میں ہوتا ہر چار طرف ہے
شاعر کا یہ عمل خدا کے عمل ِ تخلیق کے مماثل ہے جو اس ِ
لیکن دکھائی کہیں نہیں دیتا۔
متخیلہ کی ترمیم و تبدل اور شکل سازی کی قوت؛ شاعر کی خلق کردہ زندگی کی تصویریں اعتماد کے .3
الئق نقلیں اور شعری تجربہ اس وقت بنتی ہیں جب انھیں ایک حاوی جوش آفریں جذبے کے تحت ترمیم
و تبدل سے گزارا جائے یا جذبے کے وفور کے تحت تخیلی پیکروں اور خیاالت کو ان سے منسلک کیا
جائے۔ زندگی میں ہم جن مشاہدات سے دوچار ہوتے ہیں وہ آپ اپنے میں زندگی سے عاری ہوتے ہیں۔
یعنی بے جانُ ،مردہ اور سرد۔ جب شاعر کی اپنی روح انھیں انسانی اور تعقلی زندگی میں تبدیل کردیتی
ہے تو وہ یک لخت زندگی اور قوت کے طور پر ہم پر پھٹ پڑتے ہیں۔ یعنی شاعر اپنے فن میں جو
تصویریں یا پیکروں کے جھرمٹ پیش کررہا ہے ان کے تحت میں ایک حاوی خیال یا احساس کی
صورت روحِ رواں کی ہونی چاہیے جو انھیں ایک واحد وژن اور جو کثرت ہے اسے ایک وحدت میں
ڈھال سکے۔
کالرج ایک شاعر ،ایک فلسفی اور ایک نقاد کے عالوہ ڈرامہ نگار بھی تھا۔ اس کی ذہنی اور جذباتی
دلچسپی کے کئی محور تھے لیکن فلسفیانہ تنقید اس کی شخصیت کی سب سے نمایاں شناخت تھی۔ انگریزی
میں رومانویت کو اس نے فلسفیانہ اساس مہیا کی۔ اس کی تنقید کی ایک سطح وہ ہے جو اس کے فلسفیانہ وژن
کے ساتھ مخصوص ہے ،جس میں ایک خاص ترتیب ،تنظیم اور استدالل کا جوہر پہلوبہ پہلو کارفرما ہے۔
دوسری سطح وہ ہے جس کا تعلق اس کے وجدان کے عمل سے ہے۔ یہی وہ سرگرمی ہے جو اس کی تنقید کو
دریافت سے آگے بڑھ کر انکشاف کے درجے پر فائز کردیتی ہے۔ شیفٹس بری کی نظر میں دانتے ،فونٹیل،
لیسنگ ،ڈرائڈن ،ہیزلٹ ،اور آرنلڈ سب ہی بڑے نقاد ہیں لیکن کالرج سب سے بڑا نقاد ہے۔ اس کے برابر اگر
کوئی ہے تو وہ ارسطو اور النجائنس ہیں۔
آرتھر سمنس Arthur Symonsبائیو گرافیہ کو انگریزی تنقید میں ایک عظیم کتاب کا درجہ دیتا ہے۔
آرنلڈ کے نزدیک وہ جدید معنیات کی سائنس کا پیش رو ہے ،جس طرح گیللیو Galileoکے ساتھ ہم ایک نئی
دنیا میں داخل ہوئے اسی طرح کالرج کے ساتھ زبان کے مطالعے کی ایک عمومی تھیوری کی دہلیزکو ہم نے
پار کیا ہے۔ رینے ویلیک کالرج کو انگریزی رومانویت اور جرمنی کی ماورائیت کے درمیان رابطے کی کڑی
کہتا ہے۔ ہربرٹ ریڈ اسے وجودیت اور فروئڈی نفسیات کا پیش رو قرار دیتا ہے۔
کالرج کی تنقید کئی معنوں میں گزشتہ انگریزی تنقید سے کئی قدم آگے مستقبل سازانہ حیثیت رکھتی ہے۔
نظام معیار
ِ انداز نظر سے مطالعہ کیا۔ انگریزی تنقید میں بائیوگرافیہ لٹریریہ کو
ِ اس نے ادبی مسائل کا نفسیاتی
و فن کی تبدیلی paradigmکی ایک عالمت کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ اس کے شعری تصورات میں
فلسفیانہ و مابعدالطبیعیاتی رنگ کی آمیزش نے تنقید کو نئے معنی اور نئے میزان سے متعارف کرایا۔ فنی
مطالعے کو ماورائیت کے اصول سے وابستہ کیا کہ اس کا دوسرا نام خودافشائی ہے۔ شعری تلفیظ پر وہ انسانی
تکلّم کی بنیادوں کے حوالے سے بحث کرتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد تھیوری سازی ہے۔ جو شاعری اور اس کے
مقصد یا متخیلہ کے تفاعل پر ایک ادبی نقاد سے زیادہ فلسفیانہ بنیاد پر بحث کرتا ہے۔
کالرج سے قبل نقادوں کا منصب فن پارے کے محاسن اور معائب کی کھوج بین تک محدود تھا یا ان
طرز وجود پر
ِ کے تجزیے کا عمل ان کے چند مخصوص تصورات کا پابند تھا۔ کالرج نے فن پارے کے
بحث کی۔ اس کی خاص توجہ کا مرکز تخلیقی عمل کا نفسیاتی کردار تھا کہ کوئی فن پارہ کیسے اپنی آخری
شکل تک پہنچتا ہے۔ اس طرح اس کا مقصد تخلیق کے عمل کے اصولوں کی دریافت تھا۔ تخلیق کو جانچنے
کے اصول وضع کرنے کی طرف اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس طرح اس نے انسان کی فطرت کو
دریافت کرنے کی کوشش کی اور انسانی روح کے ان شعبوں یا شعبے کی تالش اس کا مقصود تھا جو اس
کی تخلیق کا منبع ہے۔
کالرج کی عمر کا ایک بڑا حصہ منشیات کی نذر ہونے کی وجہ سے ،نظم و نسق سے عاری تھا۔ اس
بدنظمی سے اس کی شاعری اور خود تنقید محفوظ نہیں رہ سکی۔ وہ یک سوئی کے ساتھ کبھی کسی کام کے
لیے اپنے کو وقف نہیں کرسکا۔ اس کی ‘قبلہ خان’ اور Ancient Marinarجیسی مشہور نظموں پر بھی اس
کی طبیعت کا یہ میالن اثرانداز ہوا۔ ‘بائیوگرافیہ’ میں بھی اسی باعث نظم و ضبط کی کمی ہے اور یہ اسی
طرح نامکمل رہ گئی جس طرح اس کی مشہور نظم ‘قبال خان’ ہے۔ اس کی دوسری اہم تصنیف Lectures on
Shakespeareمیں بھی اس طرح کی بے ربطی ملتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ باقاعدہ تحریر
کی شکل میں نہیں تھے ،زبانی اور فی البدیہہ دیے گئے تھے۔ اسی لیے ان میں تکرار بھی ہے اور اکثر بیانات
The Anima Poetae, بھی بے جوڑ سے ہیں۔ اس کی نظری اور عملی تنقید کے اعتبار سے
Mescellanies, Table-Talkاور The Lettersاس کی گہری تنقیدی بصیرت کی مظہر ہیں۔ ان میں بھی
صہ ہے۔ لیکن اپنی پارگی اور شکستگی کے
وہی انتشار اور بدنظمی ہے جو دوسری تحریروں کا بھی خا ّ
باوجود خیال و فکر میں غیرمعمولی اوریجنلٹی اور جودت و ذکاوت کے باعث عالمی ادبی تنقید کی تاریخ میں
وہ عظیم نقادوں میں سے ایک ہے۔ جس نے کئی نئے مباحث کے در کھولے اور متخیلہ کی تعریف کا تعین کیا،
بہت سے پرانے بھرم توڑے ،نفسیاتی بینش کوکام میں لیا ،شاعری کے عمل کی باریکیوں تک پہنچنے کی سعی
کی اور یہ بتایا کہ تنقید سرسری ذہنی عمل نہیں ہے۔ چیزوں میں کھب جانے والی اور باطن کو باہر نکال النے
والی بصیرت سے اگر کوئی نقاد محروم ہے تو وہ محض ایک محدود معنی میں تشریح و ترجمانی کا منصب ادا
کرسکتا ہے انکشاف کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی تخلیق کے بنیادی سروکاروں کی فہم اور انھیں
دریافت کرنے کا وہ اہل ہوسکتا ہے۔
کالرج ایک شاعر اور ایک فلسفی نقاد تھا۔ تنقید میں اس کا سب سے اہم کام ‘لٹرری بائیوگرافیہ’ )(1817
ہے۔ اپنے تصورات کے خلقی پن اور طباعی کے باعث اس کا درجہ ارسطو اور النجائنس کے برابر
سمجھا جاتا ہے۔ کالرج پر جرمن فلسفیوں اور نقادوں کا گہرا اثر تھا جس کی بنیاد پر اس نے متخیلہ کی
ایک تھیوری تشکیل کی اور انگریزی تنقید کو متخیلہ کے مطالعے اور نفسیات کے مطالعے سے
متعارف کرایا۔ اس نے بڑی تفصیل اور جزرسی کے ساتھ شاعری کے تصور ،فن کے تصور ،متخیلہ
اور متصورہ ،عبقریت (جینیس) وغیرہ کو موضوع بحث بنایا اور ایک ادبی تھیوری کی تشکیل کی سعی
الجھاو ہے۔ وہ جتنا بروں بین ہے
ٔ کی۔ لیکن اس کے خیاالت میں تنظیم کی کمی ہے ،زبان میں بھی کافی
اس سے زیادہ دروں بین ہے۔ اسی لیے اس کی فکر میں تہہ بہ تہہ مابعدالطبیعیا تی رنگ کی ا ٓمیزش کو
بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اپنے تمام ذہنی انتشار ،جابجا بے ربطیوں اور خل ِط مباحث کے باوجود
کالرج انگریزی ادبی تنقید کی تاریخ میں سب سے بڑا نقاد ہے۔ انگریزی تنقید کو اس نے نظری اور
فلسفیانہ مطالعے کا جو طرز دیا ہے اس کی توسیع و تسلسل کو قائم رکھنے میں ا ٓرنلڈ ،ایلیٹ ،رچرڈس،
ولیم ایمپسن اور ایڈگرایلن پو کے عالوہ ساسیئر اور دریدا کے نام بھی لیے جاسکتے ہیں۔