You are on page 1of 18

Subject: Urdu

Module: 20
Paper: Maghribi Tanqeed
Topic: Coleridge
Content writer: Prof. Atiqullah
Formerly Dehli University, Delhi
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi

‫کالرج‬
(1772-1834)
‫کالرج کا پورا نام سیموئل ٹیلر کالرج تھا۔ ‪ 1772‬میں اوٹری سینٹ میری‪ ،‬ڈیوان شایر میں‬
‫والدت ہوئی۔ کرائسٹ ہاسپیٹل اور جیسس کالج‪ ،‬کیمبرج میں تعلیم کے مراحل طے کیے۔‬
‫تلون مزاجی کے تحت اس نے‬ ‫متلون تھا۔ اسی ّ‬
‫طبیعت کے لحاظ سے ابتدائے عمر سے ّ‬
‫‪ 1794‬میں بغیر کوئی سند لیے کیمبرج کو خیرباد کہہ دیا۔ شاعری کی دیوی کی پرستاری‬
‫مطلوب تھی۔ سو اسی میں غرق ہوگیا۔ ‪ 1795‬میں سارا فریکر سے اس کی شادی ہوگئی۔‬
‫اسی سال کے دورانیے میں ورڈزورتھ کے ساتھ دوستانہ رشتے سے منسلک ہوا۔ ‪1798-‬‬
‫‪ 99‬میں جرمنی سے لوٹنے کے بعد شلر ‪ Shiller‬کے تراجم شائع کیے۔ کیمبرج چھوڑنے‬
‫کے دو برس بعد یعنی ‪ 1796‬میں اس کی نظموں کا پہال مجموعہ شائع ہوا۔ ‪ 1798‬میں‬
‫مجموعہ کالم‬
‫ٔ‬ ‫ورڈزورتھ کے اشتراک میں ‪ Lyrical Ballads‬کی اشاعت عمل میں آئی۔ یہ‬
‫اس کی چار اور ورڈزورتھ کی انیس نظموں پر مشتمل تھا۔ یہ نظمیں اپنی زبان و اسلوب‬
‫اور زندگی و فطرت فہمی کے اعتبار سے ایک نئے اور چونکانے والے تاثر کی حامل‬
‫تھیں۔ لیکن ان نظموں سے زیادہ اِس کا مقدمہ جو ورڈزورتھ کے نام سے مشتہر ہے طویل‬
‫محرک بنا۔ ادبی تنقید کو جس نے ایک نئی جہت عطا کی۔ روایت کو سوال‬ ‫ّ‬ ‫سلسلہ بحث کا‬
‫زد کیا اور نشان زدبھی۔ اسے رد بھی کیا اور قدیم کے بہترین عناصر کی طرف توجہ بھی‬
‫اقدار فن کے خالف‬ ‫ِ‬ ‫مروجہ‬
‫ّ‬ ‫دالئی۔ اپنی بیش تر صورت میں اسے اٹھارہویں صدی میں‬
‫طرز احساس کا مظہر بھی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا‬ ‫ِ‬ ‫ر ِدّعمل بھی کہا جاتا ہے اور جو ایک نئے‬
‫ہے کہ ورڈزورتھ نے بعض کالرج کے لکھے ہوئے نوٹس کی بنیاد پر اسے تیار کیا تھا یا‬
‫کالرج ہی نے اسے لکھا تھا۔ بالفرض محال اگر یہ صحیح ہے تو کالرج ہی نے اپنی معرکۃ‬
‫الرا تصنیف ‘بائیوگرافیہ لٹرریہ )‪ (1817‬میں اسے سخت تنقید کا نشانہ کیوں بنایا۔ کالرج‬ ‫ا ٓ‬
‫نے‪ XIX ،XVIII ،XVII ،XIV‬اور ‪ XX‬نمبر کے ابواب میں نہایت بسط و تفصیل کے‬
‫ت بحث کا تجزیہ کیا اور اپنے اختالفات و اعتراض کو‬
‫ساتھ لیریکل بیلڈز کے مشموال ِ‬
‫واضح اور مدلل طریقے سے مگر ہم دردانہ فہم کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی۔‬
‫‪ 1804‬میں اس نے مالٹا اور اٹلی کے سفر کیے۔ افیم نوشی کے باعث اس کی صحت بگڑتی‬
‫چلی گئی۔ ‪ 1806‬میں وہ واپس انگلستان چال آیا۔ کالرج نے اپنی زندگی کا بیش تر وقت اپنے‬
‫دوستوں کے یہاں ہی گزارا۔ فلسفیانہ مضامین اور تین ڈرامے بھی لکھے۔ شاعری اور‬
‫فلسفے کے موضوع کے عالوہ بالخصوص شیکسپیئر کے ڈراموں اور اس کے شعری فن‬
‫پراس نے متواتر کئی لیکچر دیے۔‬
‫شاعری کے عال وہ ادبی تنقید میں اس کا بلند ترین مقام ہے۔ اس کا بنیادی موقف یہ تھا کہ‬
‫‘سچی شاعری کا مقصد حسن کے ذریعے لطف و انبساط عطا کرنا ہے‪ ،‬بائیوگرافیہ میں‬
‫ورڈزورتھ کی شاعری پر تنقید کے عالوہ ورڈزورتھ کے بعض تنقیدی تصورات کو بھی‬
‫موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ فلسفے میں اس نے زندگی کی روحانی اور مذہبی تفہیم کی۔ جو‬
‫ق فہم پر مبنی تھی۔ ‪ 1834‬میں اس کا انتقال‬
‫کانٹ اور شیلنگ ‪ Shelling‬سے اخذ کردہ طری ِ‬
‫ہوگیا۔‬

‫‪‬‬

‫تجربہ ادراک کو ہوبہو پیش‬


‫ٔ‬ ‫کالرج شاعری یا کسی بھی فن پارے کو تخیل کی تخلیق کہتا ہے۔ فن کار اپنے‬
‫نہیں کردیتا بلکہ اس کا اپنا تاثر یا عکس بھی اس میں شامل ہوتا ہے۔ فن‪ ،‬نقل نہیں ہے خودافشائی کا عمل ہے۔ روح‪،‬‬
‫خارجی دنیا کے محض ان مظاہر کی طرف راغب ہوتی ہے جن میں وہ کوئی چیز مشترک پاتی ہے اور اس لیے وہ‬
‫اپنے ایک عکس کے طور پر متاثر کرتی ہے۔ اس طرح فن خارجی دنیا یا فطرت اور روح کے اتحاد کا نام ہے۔ اس‬
‫کا قصد فطرت کو خیال کے طور پر اور خیال کو فطرت کے طور پر پیش کرنے کی طرف ہوتا ہے۔ فن میں نقل‬
‫کردہ شئےبہ یک وقت کم یا زیادہ ہوتی ہے‪ ،‬یعنی ہوبہو معروض کے مطابق نہیں ہوتی۔ وہ اپنے میں فن کار کی‬
‫روح کو حل کرلیتی ہے اور وہ ہر اس چیز کو فراموش کردیتا ہے جو روح سے بیگانہ ہوتی ہے۔ اس لیے فن اپنے‬
‫خارجی ظہور میں حقیقت کی نقل نہیں ہے بلکہ باطن کی گہرائی میں جاکر عین فطرت کی روح کو منکشف کرنے‬
‫کا عمل ہے۔ جو یہ فرض کرتا ہے کہ فطرت اور آدمی کی روح کے مابین ایک گہرا رشتہ ہے۔‬

‫نقل ایک نفسیاتی عملیہ ہے جو فطرت اور روح اور فطرت کے مابین تصادم سے نمودار ہوتا ہے اور‬
‫مثنی بھی نہیں ہے۔ متخیلہ جو روح کی مداخلت کارانہ‬
‫ٰ‬ ‫جو منتج ہوتا ہے دونوں کے امتزاج پر ۔یہ اوریجنل کا‬
‫صالحیت ہے اپنی طرف سے کچھ نہ کچھ نیا ضرور جوڑتی ہے۔ تاریکی کو منور کردیتی ہے اور پستی کو‬
‫سرفرازی میں بدل دیتی ہے۔ اس کا عمل اس کے برخالف بھی ہوسکتا ہے۔ ہر دو صورت میں وہ مانوس کو‬
‫نامانوس اور نامانوس کو مانوس میں تبدیل کرنے کی اہل ہوتی ہے۔ نقل‪ ،‬اس طرح اوریجنل کی ایک کاپی ہے۔‬
‫مشابہت اور افتراق کی یکجائی کی ایک صورت۔ افتراق بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنی مشابہت۔ کیونکہ بغیر‬
‫مثنی کی ہوگی یا چربے کی۔ اس لیے فن اور بالخصوص شعری فن تضادات‬ ‫ٰ‬ ‫افتراق کے اس کی صورت ہوبہو‬
‫یا باہم ناموافق خاصوں کو وحدت میں ضم کرتا یا توازن پیدا کرتا ہے۔ یہ فن کی آفاقیانے کی قوت ہے جو‬
‫مشابہت کو افتراق‪ ،‬عمومیت کو خصوصیت‪ ،‬جدید کو قدیم‪ ،‬جذبا تی تجربے کو فنی اظہار‪ ،‬خیال کو پیکر‪،‬‬
‫تجرید کو ٹھوس‪ ،‬انفراد کو نمائندگی اور دل کو دماغ کے ساتھ رشتہ اتحاد میں باندھنے سے عبارت ہے۔ یہ‬
‫وہی صورت ہے جسے دوسرے لفظوں میں ورڈزورتھ نے گہرے احساس اور گہرے خیال کی وحدت کا نام‬
‫دیا تھا۔ کالرج کہتا ہے کہ وحدت کے اس سا رے عمل کی بنیاد تخیل پر ہے۔‬

‫‪‬‬

‫کالرج فن کو عمومی معنوں میں اخذ کرتا ہے۔ فن سے اس کی مراد دوسرے متخیلہ فنون کے عالوہ‬
‫شاعری بھی ہے۔ وہ اکثر شاعری اور فن کو خلط ملط بھی کردیتا ہے۔ شاعری وسیع معنی میں تخیل کے تفاعل‬
‫کے ساتھ مشروط ہے۔ متخیلہ حقیقت کی تصور سازی کرتا اور تصور کو حقیقت آفریں بناتا ہے۔ لیکن شاعری‬
‫کا ایک امتیاز یہ ہے کہ وہ اپنی ایک ہیئت رکھتی ہے۔ کالرج واضح کرتا ہے کہ اس کی ہیئت کیا ہے اور وہ‬
‫کیسے واقع ہوتی ہے اور اس کا موضوع و مواد سے کیا تعلق ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ شاعری اور نثر دونوں‬
‫طریقہ استعمال کا ہے۔‬
‫ٔ‬ ‫ہی ‘الفاظ’ کو بروئے کار التے ہیں۔ دونوں کے مابین اگر کوئی فرق ہے تو وہ محض‬
‫کیونکہ دونوں کے مقاصد کی دنیا الگ ہوتی ہے۔‬

‫سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کسی نظم کے مواد ہی کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ اس کا اظہار موزوں ہیئت میں ہو‬
‫جیسا کہ مواد کا تعین مقصد پر مبنی ہوتا ہے اور مقصد کے تحت ہی تحریر دو زمروں میں منقسم ہوجاتی ہے۔‬
‫سائنسی اور شاعرانہ۔ دونوں کا ایک فوری مقصد ہوتا ہے اور دوسرا حتمی۔ سائنسی عمل کا فوری مقص ِد‬
‫حصول صداقت اور شاعری کا بالعموم لطف اندوزی ہے۔ سائنس کی کوئی بھی دریافت یا اس کا کوئی بھی کام‬
‫کبھی اس کے قاری کو گہری مسرت نہیں بخش سکتا۔ شاعری خود گہری صداقت کی حامل ہوسکتی ہے اور‬
‫یہی اس کا حتمی مقصد بھی ہوتا ہے۔ ایک مثالی صورت یہ ہوگی جس میں صداقت‪ ،‬لطف و انبساط ہے اور‬
‫لطف و انبساط‪ ،‬صداقت ہے۔ تاہم لطف اندوزی نہ کہ صداقت اس کا فوری مقصد ہے اور بحر و وزن مخصوص‬
‫حاالت میں اس کے لیے معاونت کرتے ہیں۔ شاعری جسے نثری زبان کے مقابلے میں ترجیح دیتی ہے۔ شعر‬
‫کی زیب و زینت یا یاداشت کی معاونت اس کا مقصد نہیں ہوتا۔ جوش آفریں حالت ہی میں جوش آفریں زبان عمل‬
‫آور ہوتی ہے اور اس کا سبب تجربے کی جوش آفرینی ہوتا ہے۔ اس طرح جب بحر و وزن نظم کے مواد اور‬
‫زبان کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ اس کا ہر جز ہمیں اپنی طرف مائل کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اس جوش‬
‫آفرینی ہی میں لطف اندوزی کا جوہر بھی مضمر ہے۔ جس کا سلسلہ درمیان میں کہیں ٹوٹتا نہیں ہے۔ جو شروع‬
‫ہوتا ہے جزوں سے اور پہنچتا ہے‘ ُکل’ تک۔ اسی لیے کالرج کا کہنا ہے کوئی ناول یا کوئی اور نثری کارنامہ‪،‬‬
‫جس کا مقصد بھی فوری لطف و انبساط فراہم کرنا ہے‪ ،‬اسے اگر بحر و وزن میں ادا کیا جائے تو محض اپنی‬
‫موزونیت کے باعث شاعری کا مرتبہ نہیں پاسکتا۔ شاعری میں عروضی ہیئت کا تعلق زبان اور مواد سے گہرا‬
‫ہوتا ہے۔ جو نثری زبان کی نسبت ہمیں زیادہ اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اکساتی ہے۔ آخر میں فیصلہ کن‬
‫لفظوں میں وہ کہتا ہے‪‘‘ :‬میں بحر و وزن میں لکھتا ہوں‪ ،‬میں قریب قریب ایسی زبان استعمال کرتا ہوں جو‬
‫شاعری سے مختلف ہوتی ہے۔’’‬
‫کالرج کے نزدیک نظم چھوٹی ہو یا بڑی پوری کی پوری شاعری نہیں ہوتی۔ خصوصا ً طویل نظم میں‬
‫کچھ ہی حصے شعری منصب کو پورا کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کالرج‪ ،‬ایڈگر ایلن پو‪ ،‬کی طرح‬
‫طویل نظم ہی کا مخالف ہے۔ کالرج ملٹن کی ‘فردوس گم شدہ’ اور شیکسپیئر کے ڈراموں کے مطالعے کے‬
‫دوران ان کی طوالت پر انگشت نہیں رکھتا بلکہ ان کی ستائش کرتا ہے۔ کالرج کا کہنا ہے کہ ہیئت کو مواد کی‬
‫ماہیت سے نمو پانا چاہیے۔ تمام اجزا مل کر فن پارے کو نامیاتی وحدت عطا کریں‪ ،‬اجزا کو اجزا کے طور پر‬
‫نہیں ‘اکائی’ کے طور پر ظاہر ہونا چاہیے۔‬

‫‪‬‬

‫سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں متخیلہ اور متصورہ کو مترادف کے طور پر خیال کیا جاتا تھا۔ بعض‬
‫حضرات نے ہابس ‪Hobbes‬کے لفظوں میں حسی تاثراور یادداشت کے طور پر اسے اخذ کیا۔ ایڈیسن کا ذہن‬
‫نسبتا ً صاف تھا لیکن وہ اس کی تعریف کا تعین نہیں کرسکا۔ اکثر حضرات کے نزدیک متصورہ ایک گراں قدر‬
‫ادنی درجے کی چیز ہے۔‬
‫قوت کا نام ہے جسے ذہن کی تخلیقی قوت کہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں متخیلہ ایک ٰ‬
‫اٹھارویں صدی کے آخری اور انیسویں صدی کے ابتدائی دہوں میں یہ اصطالحات نئے معنی سے‬
‫ادنی درجہ‬
‫ٰ‬ ‫اعلی اور متصورہ کو‬
‫ٰ‬ ‫متصف ہوئیں۔ ورڈزورتھ نے ‘لیریکل بیلڈز’ کے پیش لفظ میں متخیلہ کو‬
‫ادنی قوت کا۔ متخیلہ مربوط و متحد کرتا‬
‫اعلی تخلیقی قوت کا اور متصورہ ٰ‬
‫ٰ‬ ‫تفویض کیا ہے۔ متخیلہ نام ہے ایک‬
‫ہے۔ وہ شکل سازی کرتا اور تخلیق کرتا ہے۔ متصورہ کم یا زیادہ عمدا ً ان اشیا کو پھر نئی صورت میں ڈھالتا‬
‫ہے۔ ّاول الذکر کی تخلیق کردہ اشیا میں وقار اور علوئیت ہوتی ہے جب کہ ثانی الذکر کا کام انھیں صرف حسین‬
‫بنا کر پیش کرنے تک محدود ہے۔‬

‫چارلس لیمب کے نزدیک بھی متخیلہ تمام اشیا کو ایک اکائی میں ضم کرنے والی قوت ہے جو چیزوں‬
‫صوں کے ساتھ‪ ،‬نفوس ‪subject‬‬ ‫میں زندگی کی روح پھونکتی ہے یا انھیں بے جان کرتی ہے۔ انواع اپنے خا ّ‬
‫اپنے لوازمات کے ساتھ ایک رنگ میں رنگ جاتے ہیں اور سب مل کر ایک ہی تاثر کا مقصد پورا کرتے ہیں۔‬

‫کالرج نے ‘بائیوگرافیہ لٹریریہ’ میں شاعری اور متخیلہ کو تھیوری تشکیل دینے کی کوشش کی ہے۔ نصف‬
‫صے میں‬ ‫تصور حسن کو محیط ہے۔ دوسرے ح ّ‬
‫ِ‬ ‫سے زیادہ یہ کتاب مابعدالطبیعیاتی اور فلسفیانہ تصورات اور‬
‫بالخصوص تیرہواں اور چودہواں باب شاعری کے بارے میں اس کے خیاالت کے ساتھ مخصوص ہے۔ تیرہویں‬
‫باب میں وہ متخیلہ اور متصورہ کو موضوعِ بحث بناتا ہے۔ کالرج کا تصور ِمتخیلہ ادبی اور جمالیاتی تنقید کو ایک‬
‫غیرمعمولی دین ہے۔‬

‫‪‬‬

‫کالرج‪ ،‬ورڈزورتھ کی نظم ’‪ ‘Guitt and Sorrow‬کے مطالعے کی بنیاد پر متخیلہ اور متصورہ کو دو‬
‫متضاد صالحیتوں کا نام دیتا ہے۔ وہ سوال کرتا ہے کہ نظم کی تحت میں عمیق محسوسات کی روحِ رواں کا‬
‫سرچشمہ کیا ہے؟ شاعر کس طرح حسن اور فطرت کی مستقل ہیئتوں کو منکشف کرتا ہے‪ ،‬کالرج خود اس کا‬
‫جواب یہ کہہ کر دیتا ہےکہ یہ متخیلہ کی شکل سازانہ روح کے سبب ممکن ہوسکا۔ یہی وہ قوت ہے جو خود‬
‫حسین ہے او رحسن سازی کی قوت رکھتی ہے۔ ایک باطنی اور روحانی قوت جو فطرت اور آدمی کے مابین‬
‫رابطے کا کام کرتی ہے۔ اس طرح کالرج متخیلہ کی ایک فلسفیانہ بنیاد کو پانے کی کوشش کرتا ہے۔ مذکورہ‬
‫نظم میں کالرج کو گہرے احساس اور گہرے خیال میں یگانگت‪ ،‬مشاہداتی تجربے میں نفیس صداقت اور متخیلہ‬
‫کا وہ عمل نظر آتا ہے جو مشاہداتی تجربے کو ترمیم و تبدل کے بعد ایک نئی وضع میں ڈھال دیتا ہے۔ کالرج‬
‫یہ نظریہ قائم کرتا ہے کہ متخیلہ اور متصورہ کے حدود ِعمل بھی محتلف ہیں۔ ورڈزورتھ سے پہلے کے شعرا‬
‫کے ذہنی تجربے محسوس تجربے نہیں ہوتے تھے اسی لیے وہ اپنے خیال کو پوری طرح ادا کرنے پر قادر‬
‫بھی نہیں تھے۔ ورڈزورتھ نے خیال و احساس کے مابین خلیج کو پاٹ کر دونوں کو مربوط کرنے کی سعی‬
‫کی ہے۔ اس کے محسوسات‪ ،‬خیاالت میں اور خیاالت‪ ،‬محسوسات میں ڈھل کر ادا ہوئے ہیں۔ اس صورت‬
‫ت حاالت جو اساسا ً زندگی یا فطرت کے مشاہداتی تجربے ہیں وہ بھی‬
‫میں تمام ہیئتیں‪ ،‬وارداتیں اور صور ِ‬
‫شاعر کے محسوسات و خیاالت میں رنگ جاتے ہیں اور ان میں ایک نئی چمک ا ٓجاتی ہے۔ اس طرح ان‬
‫کی معنویت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ مانوس کو نامانوس میں بدلنے کا کام صرف اور صرف متخیلہ کا‬
‫ہے۔‬

‫کالرج متخیلہ کو دو زمروں میں تقسیم کرتا ہے‪:‬‬


‫بنیادی متخیلہ ‪primary imagination‬‬ ‫‪.1‬‬

‫ثانوی متخیلہ ‪secondary imagination‬‬ ‫‪.2‬‬

‫سی موضوعات‪ ،‬اشخاص‪ ،‬مقامات‪ ،‬اشیا کا جزوی یا کلّی حیثیت سے ادراک کرنا‬
‫بنیادی متخیلہ کا کام ح ّ‬
‫سی مدرکہ اشیا کی صاف و واضح تصویر کشی کرسکے۔ وہ‬
‫ہے۔ وہ ذہن کو یہ توفیق عطا کرتا ہے کہ ح ّ‬
‫مخلوط مشاہداتی تجربے یا مواد کو غیرشعوری طور پر ایک خاص وضع دینے کے لیے کاٹتا چھانٹتا اور‬
‫ممکنہ حد تک ادراک کے الئق بناتا ہے۔ جبکہ ثانوی متخیلہ اپنی قوت کو ارادی طور پر کام میں لیتا ہے۔ یہ‬
‫روح کا ایک مشترکہ شعبہ‪/‬قوت ہے جو ادراک‪ ،‬تعقل‪ ،‬ارادہ‪ ،‬جذبات جیسی تمام صالحیتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔‬
‫بنیادی متخیلہ صرف اولین ادراک ہی کو بروئے کار التا اور سب میں شامل ہوتا ہے۔ اس لیے یہ نسبتا ً زیادہ‬
‫عملی کردار ادا کرنے واال زمرہ ہے۔ جو کچھ اسے ادراک کے وسیلے سے دستیاب ہوتا ہے وہ انھیں تحلیل‬
‫کرتا‪ ،‬بکھیرتا‪ ،‬تہس نہس کرکے ایک نئی تخلیق کی صورت بخشتا ہے۔ اس طرح یہ ایک شکل سازانہ قوت ہے جو‬
‫تجربے میں آئی ہوئی اشیا کو ترمیم و تبدل سے گزارتی اور انھیں ایک نئے سانچے میں ڈھال کر پیش کرتی ہے۔ پھر‬
‫اشیا اس طرح نہیں ہوتیں جیسی فطرت (یا حقیقت) میں دکھائی دیتی ہیں بلکہ وہ اس طرح ہوجاتی ہیں جیسا ذہن انھیں‬
‫خیال میں التا یا انھیں باور کرتا ہے۔ اس عملیے کے تحت ذہن اور فطرت ایک دوسرے سے متاثر ہوتے اور ایک‬
‫دوسرے پر اثرانداز بھی ہوتے ہیں‪ ،‬ذہن فطرت پراثرانداز ہوکر فطرت جیسا ہوجاتا ہے اور فطرت ذہن پر اثرانداز ہوکر‬
‫ذہن جیسی ہوجاتی ہے‪ ،‬داخلی موضوع‪ ،‬خارجی شے کا اور خارجی شئے داخلی موضوع کا روپ لے لیتا ہے۔اس طرح‬
‫متخیلہ واحدیانے ‪ unifying‬یا صورت گرانہ ‪ emplastic‬عمل سے سروکار رکھتا ہے جو روح کے شعبوں‬
‫‪/‬صالحیتوں کو ایک واحدے میں ڈھالنے کے عالوہ ذہن کی شناخت فطرت (یا مواد) کے ساتھ اور فطرت‬
‫(یا مواد) کی شناخت ذہن کے ساتھ کرتا ہے۔ اس طرح وہ صداقت جسے شاعر دریافت کرتا ہے نہ تو‬
‫خود شاعر میں ہوتی ہے نہ ہی ان چیزوں میں جنھی ں وہ دیکھتا ہے بلکہ ان دونوں کو یعنی ذہن اور‬
‫فطرت کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کرکے ان کی شناخت کرتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے بنیادی اور‬
‫ثانوی متخیلہ میں نوع کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔ جب ایک اپنی کارکردگی میں ڈھیال پڑتا‬
‫ہے تو دوسرا پوری قوت کے ساتھ عمل ا ٓو ر ہوجاتا ہے۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے کی کمی کو پورا‬
‫کرتے ہیں۔‬

‫کالرج متصورہ کو تخلیقی قوت کا نام نہیں دیتا‪ ،‬اس کا کام صرف اشیاکو مربوط کرنا ہے۔ متصورہ ایک‬
‫ادنی شعبہ ہے جو جامد اور معین چیزوں سے سروکار رکھتا ہے جس کا یادداشت ہی کی طرح ایک معین‬ ‫ٰ‬
‫ق عمل ہے۔ جو زمان و مکان کے قیود سے آزاد ہوتا ہے اور یادداشت ہی کی طرح سارا مواد قانون تالزمہ‬
‫طری ِ‬
‫سے اخذ کرتا ہے‪ ،‬ذکاوت ‪ wit‬اور تعقل کی خوش تدبیری سے بھی وہ التعلق رہتی ہے۔ اسی کے باعث ڈن‬
‫‪ Donne‬اور کولی ‪ Cowley‬جیسے شعرا نے شدید جذبوں کو بھینٹ چڑھا دیا اور ان کی شاعری جذباتی‬
‫جوش آفرینی سےعاری رہی۔‬

‫‪‬‬
‫‪(Restoration‬‬ ‫دور بحالی‬
‫ِ‬ ‫اختراعی استعداد‪ ،‬طباعی یا طبعی رجحان یا عقبریت کو قدیم تا‬
‫)‪Period‬کے نقادوں نے بارہا موضوع بحث بنایا ہے۔ اسی طرح ِوٹ‪ ،‬فینسی اور تخیل کے تفاعل کے تعلق‬
‫سے جب بھی درجہ بندی کی کوشش کی گئی ہے۔ امتیاز قائم ہونے کے بجائے چیزیں خلط ملط زیادہ ہوئی ہیں۔‬
‫مجرد قوتوں کی معیاربندی میں ان صورتوں سے بچنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ پھر یہ کہ ان تمام صالحیتوں کے‬
‫ّ‬
‫مختلف شعبے قائم کرنے میں فلسفیانہ اور ذہنی تجربے کو بنیاد بنایا گیا اور معیار متعین کیے گئے۔ پھر بھی‬
‫بے آہنگی کی صورت بدستور قائم رہی۔ یہی وجہ ہے کہ کالرج کو فینسی ‪ ،fancy‬لیاقت‪ ،talent‬تخیل‬
‫‪ ،imagination‬صالحیت اختراع ‪ inventive power‬یا عبقریت ‪ genius‬کے تعلق سے ماضی کے‬
‫تصورات میں ایک دوسرے کے ساتھ مدغم و آمیز کی صورت زیادہ نظر آئی۔ ورڈزورتھ کا فینسی اور‬
‫امیجینیشن کا تصور بھی اندرونی تناقض سے خالی نہیں تھا۔‬

‫ق‬
‫کالرج متخیلہ کو تخلیقی اور لیاقت ‪ talent‬کو فینسی‪ /‬متصورہ سے موسوم کرتا ہے جو محض ایک فری ِ‬
‫متحد ہے۔ عقبریت ‪ genius‬ایک پیدائشی جبلّت ہے اور لیاقت کو حاصل کیا جاتا ہے۔ شاعر پیدائشی عبقری ہوتا‬
‫ہے وہ ہوتا ہے بنتا یا بنایا نہیں جاتا۔ کالرج بائیوگرافیہ کے پندرہویں باب میں شیکسپیئر کی ایک نظم میں جن‬
‫خصوصیات کو نشان زد کرتا ہے وہ اس کی عبقریت پر منتج ہیں اور جو لیاقت سے ممتاز بھی ہیں اور جنھیں‬
‫کوشش کرکے بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ وہ کہتا ہے کہ جینیس درج ذیل چار طریقے سے اپنے آپ کو ظاہر‬
‫کرتا ہے۔‬
‫موسیقانہ فرحت کا حساس؛ یہ مشتمل ہوتا ہے نظمانے ‪ versification‬کی شیرینی‪ ،‬اس کے موضوع‪،‬‬ ‫‪.1‬‬
‫انداز توافق اور خیال کے مطابق الفاظ کی متنوع موسیقی کی قوت پر۔ جسے کالرج شاعر کی باطنی روح‬
‫ِ‬
‫کی موسیقی کے خارجی ظہور کا نام دیتا ہے۔‬

‫ت حاالت سے‬
‫معروضیت؛ یعنی موضوعات کے انتخاب میں نجی رغبتوں اور خود مصنف کی صور ِ‬ ‫‪.2‬‬
‫بہت بعید ہونے کی صورت ‪،‬جو شاعر کے اپنے محسوسات سے قطعی بے تعلقی کو ظاہر کرتی ہے۔‬
‫عالم موجودات میں ہوتا ہر چار طرف ہے‬
‫شاعر کا یہ عمل خدا کے عمل ِ تخلیق کے مماثل ہے جو اس ِ‬
‫لیکن دکھائی کہیں نہیں دیتا۔‬

‫متخیلہ کی ترمیم و تبدل اور شکل سازی کی قوت؛ شاعر کی خلق کردہ زندگی کی تصویریں اعتماد کے‬ ‫‪.3‬‬
‫الئق نقلیں اور شعری تجربہ اس وقت بنتی ہیں جب انھیں ایک حاوی جوش آفریں جذبے کے تحت ترمیم‬
‫و تبدل سے گزارا جائے یا جذبے کے وفور کے تحت تخیلی پیکروں اور خیاالت کو ان سے منسلک کیا‬
‫جائے۔ زندگی میں ہم جن مشاہدات سے دوچار ہوتے ہیں وہ آپ اپنے میں زندگی سے عاری ہوتے ہیں۔‬
‫یعنی بے جان‪ُ ،‬مردہ اور سرد۔ جب شاعر کی اپنی روح انھیں انسانی اور تعقلی زندگی میں تبدیل کردیتی‬
‫ہے تو وہ یک لخت زندگی اور قوت کے طور پر ہم پر پھٹ پڑتے ہیں۔ یعنی شاعر اپنے فن میں جو‬
‫تصویریں یا پیکروں کے جھرمٹ پیش کررہا ہے ان کے تحت میں ایک حاوی خیال یا احساس کی‬
‫صورت روحِ رواں کی ہونی چاہیے جو انھیں ایک واحد وژن اور جو کثرت ہے اسے ایک وحدت میں‬
‫ڈھال سکے۔‬

‫ق فکر کے بغیر فن‬


‫خیال کی توانائی اور گہرائی؛ کالرج کا خیال ہے کہ فلسفیانہ وژن اور فلسفیانہ طری ِ‬ ‫‪.4‬‬
‫میں توانائی اور گہرائی پیدا نہیں ہوسکتی۔ فرد کا بہ یک وقت شاعر اور فلسفی ہونا ضروری ہے۔ شاعری‬
‫میں اگریہ صورت پیدا ہوتی ہے اور وہ محض پرزور محسوسات کے بے ساختہ اظہار کے ساتھ‬
‫مخصوص نہیں ہے (جیسا کہ ورڈزورتھ کا کہنا ہے) تو وہ نہ صرف طمانیت کی موجب ہوتی ہے بلکہ‬
‫سرفرازبھی کرتی ہے۔‬

‫‪‬‬

‫کالرج ایک شاعر‪ ،‬ایک فلسفی اور ایک نقاد کے عالوہ ڈرامہ نگار بھی تھا۔ اس کی ذہنی اور جذباتی‬
‫دلچسپی کے کئی محور تھے لیکن فلسفیانہ تنقید اس کی شخصیت کی سب سے نمایاں شناخت تھی۔ انگریزی‬
‫میں رومانویت کو اس نے فلسفیانہ اساس مہیا کی۔ اس کی تنقید کی ایک سطح وہ ہے جو اس کے فلسفیانہ وژن‬
‫کے ساتھ مخصوص ہے‪ ،‬جس میں ایک خاص ترتیب‪ ،‬تنظیم اور استدالل کا جوہر پہلوبہ پہلو کارفرما ہے۔‬
‫دوسری سطح وہ ہے جس کا تعلق اس کے وجدان کے عمل سے ہے۔ یہی وہ سرگرمی ہے جو اس کی تنقید کو‬
‫دریافت سے آگے بڑھ کر انکشاف کے درجے پر فائز کردیتی ہے۔ شیفٹس بری کی نظر میں دانتے‪ ،‬فونٹیل‪،‬‬
‫لیسنگ‪ ،‬ڈرائڈن‪ ،‬ہیزلٹ‪ ،‬اور آرنلڈ سب ہی بڑے نقاد ہیں لیکن کالرج سب سے بڑا نقاد ہے۔ اس کے برابر اگر‬
‫کوئی ہے تو وہ ارسطو اور النجائنس ہیں۔‬

‫آرتھر سمنس ‪ Arthur Symons‬بائیو گرافیہ کو انگریزی تنقید میں ایک عظیم کتاب کا درجہ دیتا ہے۔‬
‫آرنلڈ کے نزدیک وہ جدید معنیات کی سائنس کا پیش رو ہے‪ ،‬جس طرح گیللیو ‪ Galileo‬کے ساتھ ہم ایک نئی‬
‫دنیا میں داخل ہوئے اسی طرح کالرج کے ساتھ زبان کے مطالعے کی ایک عمومی تھیوری کی دہلیزکو ہم نے‬
‫پار کیا ہے۔ رینے ویلیک کالرج کو انگریزی رومانویت اور جرمنی کی ماورائیت کے درمیان رابطے کی کڑی‬
‫کہتا ہے۔ ہربرٹ ریڈ اسے وجودیت اور فروئڈی نفسیات کا پیش رو قرار دیتا ہے۔‬

‫کالرج کی تنقید کئی معنوں میں گزشتہ انگریزی تنقید سے کئی قدم آگے مستقبل سازانہ حیثیت رکھتی ہے۔‬
‫نظام معیار‬
‫ِ‬ ‫انداز نظر سے مطالعہ کیا۔ انگریزی تنقید میں بائیوگرافیہ لٹریریہ کو‬
‫ِ‬ ‫اس نے ادبی مسائل کا نفسیاتی‬
‫و فن کی تبدیلی ‪paradigm‬کی ایک عالمت کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ اس کے شعری تصورات میں‬
‫فلسفیانہ و مابعدالطبیعیاتی رنگ کی آمیزش نے تنقید کو نئے معنی اور نئے میزان سے متعارف کرایا۔ فنی‬
‫مطالعے کو ماورائیت کے اصول سے وابستہ کیا کہ اس کا دوسرا نام خودافشائی ہے۔ شعری تلفیظ پر وہ انسانی‬
‫تکلّم کی بنیادوں کے حوالے سے بحث کرتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد تھیوری سازی ہے۔ جو شاعری اور اس کے‬
‫مقصد یا متخیلہ کے تفاعل پر ایک ادبی نقاد سے زیادہ فلسفیانہ بنیاد پر بحث کرتا ہے۔‬
‫کالرج سے قبل نقادوں کا منصب فن پارے کے محاسن اور معائب کی کھوج بین تک محدود تھا یا ان‬
‫طرز وجود پر‬
‫ِ‬ ‫کے تجزیے کا عمل ان کے چند مخصوص تصورات کا پابند تھا۔ کالرج نے فن پارے کے‬
‫بحث کی۔ اس کی خاص توجہ کا مرکز تخلیقی عمل کا نفسیاتی کردار تھا کہ کوئی فن پارہ کیسے اپنی آخری‬
‫شکل تک پہنچتا ہے۔ اس طرح اس کا مقصد تخلیق کے عمل کے اصولوں کی دریافت تھا۔ تخلیق کو جانچنے‬
‫کے اصول وضع کرنے کی طرف اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس طرح اس نے انسان کی فطرت کو‬
‫دریافت کرنے کی کوشش کی اور انسانی روح کے ان شعبوں یا شعبے کی تالش اس کا مقصود تھا جو اس‬
‫کی تخلیق کا منبع ہے۔‬

‫کالرج کی عمر کا ایک بڑا حصہ منشیات کی نذر ہونے کی وجہ سے‪ ،‬نظم و نسق سے عاری تھا۔ اس‬
‫بدنظمی سے اس کی شاعری اور خود تنقید محفوظ نہیں رہ سکی۔ وہ یک سوئی کے ساتھ کبھی کسی کام کے‬
‫لیے اپنے کو وقف نہیں کرسکا۔ اس کی ‘قبلہ خان’ اور ‪ Ancient Marinar‬جیسی مشہور نظموں پر بھی اس‬
‫کی طبیعت کا یہ میالن اثرانداز ہوا۔ ‘بائیوگرافیہ’ میں بھی اسی باعث نظم و ضبط کی کمی ہے اور یہ اسی‬
‫طرح نامکمل رہ گئی جس طرح اس کی مشہور نظم ‘قبال خان’ ہے۔ اس کی دوسری اہم تصنیف ‪Lectures on‬‬
‫‪ Shakespeare‬میں بھی اس طرح کی بے ربطی ملتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ باقاعدہ تحریر‬
‫کی شکل میں نہیں تھے‪ ،‬زبانی اور فی البدیہہ دیے گئے تھے۔ اسی لیے ان میں تکرار بھی ہے اور اکثر بیانات‬
‫‪The Anima Poetae,‬‬ ‫بھی بے جوڑ سے ہیں۔ اس کی نظری اور عملی تنقید کے اعتبار سے‬
‫‪ Mescellanies, Table-Talk‬اور ‪ The Letters‬اس کی گہری تنقیدی بصیرت کی مظہر ہیں۔ ان میں بھی‬
‫صہ ہے۔ لیکن اپنی پارگی اور شکستگی کے‬
‫وہی انتشار اور بدنظمی ہے جو دوسری تحریروں کا بھی خا ّ‬
‫باوجود خیال و فکر میں غیرمعمولی اوریجنلٹی اور جودت و ذکاوت کے باعث عالمی ادبی تنقید کی تاریخ میں‬
‫وہ عظیم نقادوں میں سے ایک ہے۔ جس نے کئی نئے مباحث کے در کھولے اور متخیلہ کی تعریف کا تعین کیا‪،‬‬
‫بہت سے پرانے بھرم توڑے‪ ،‬نفسیاتی بینش کوکام میں لیا‪ ،‬شاعری کے عمل کی باریکیوں تک پہنچنے کی سعی‬
‫کی اور یہ بتایا کہ تنقید سرسری ذہنی عمل نہیں ہے۔ چیزوں میں کھب جانے والی اور باطن کو باہر نکال النے‬
‫والی بصیرت سے اگر کوئی نقاد محروم ہے تو وہ محض ایک محدود معنی میں تشریح و ترجمانی کا منصب ادا‬
‫کرسکتا ہے انکشاف کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی تخلیق کے بنیادی سروکاروں کی فہم اور انھیں‬
‫دریافت کرنے کا وہ اہل ہوسکتا ہے۔‬

‫‪‬‬

‫کالرج ایک شاعر اور ایک فلسفی نقاد تھا۔ تنقید میں اس کا سب سے اہم کام ‘لٹرری بائیوگرافیہ’ )‪(1817‬‬
‫ہے۔ اپنے تصورات کے خلقی پن اور طباعی کے باعث اس کا درجہ ارسطو اور النجائنس کے برابر‬
‫سمجھا جاتا ہے۔ کالرج پر جرمن فلسفیوں اور نقادوں کا گہرا اثر تھا جس کی بنیاد پر اس نے متخیلہ کی‬
‫ایک تھیوری تشکیل کی اور انگریزی تنقید کو متخیلہ کے مطالعے اور نفسیات کے مطالعے سے‬
‫متعارف کرایا۔ اس نے بڑی تفصیل اور جزرسی کے ساتھ شاعری کے تصور‪ ،‬فن کے تصور‪ ،‬متخیلہ‬
‫اور متصورہ‪ ،‬عبقریت (جینیس) وغیرہ کو موضوع بحث بنایا اور ایک ادبی تھیوری کی تشکیل کی سعی‬
‫الجھاو ہے۔ وہ جتنا بروں بین ہے‬
‫ٔ‬ ‫کی۔ لیکن اس کے خیاالت میں تنظیم کی کمی ہے‪ ،‬زبان میں بھی کافی‬
‫اس سے زیادہ دروں بین ہے۔ اسی لیے اس کی فکر میں تہہ بہ تہہ مابعدالطبیعیا تی رنگ کی ا ٓمیزش کو‬
‫بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اپنے تمام ذہنی انتشار‪ ،‬جابجا بے ربطیوں اور خل ِط مباحث کے باوجود‬
‫کالرج انگریزی ادبی تنقید کی تاریخ میں سب سے بڑا نقاد ہے۔ انگریزی تنقید کو اس نے نظری اور‬
‫فلسفیانہ مطالعے کا جو طرز دیا ہے اس کی توسیع و تسلسل کو قائم رکھنے میں ا ٓرنلڈ‪ ،‬ایلیٹ‪ ،‬رچرڈس‪،‬‬
‫ولیم ایمپسن اور ایڈگرایلن پو کے عالوہ ساسیئر اور دریدا کے نام بھی لیے جاسکتے ہیں۔‬

‫‪‬‬

You might also like