You are on page 1of 4

‫نقاد کے فرائض یا منصب مندرجہ زیل ہیں۔‬

‫تخلیقی ادب کی ماہیت معلوم کرنا‪:‬۔‬

‫نقاد فن پاروں کا مطالعہ کرکے تخلیقی ادب کی ماہیت معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تنقید کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ‬

‫ادب کیا چیز ہے ؟ یہ زبان کی دوسری صورتوں اور اظہار و بیان کی دیگر قسموں سے کس طرح مختلف ہے؟ اور فنون لطیفہ میں اس کا کیا‬

‫مقام و مرتبہ ہے۔ نقادکا کام چونکہ تجزیاتی ہوتا ہے اس لئے وہ ادب کی ماہیت معلوم کرنے کے لئے دیگر علوم سے بھی مدد لیتا ہے۔ ارسطو‬

‫وہ پہال نقاد ہے جس نے اپنی شہر آفاق کتاب ”بوطیقا“ کی شکل می ں سب سے بڑا تنقیدی کارنامہ انجام دیا ہے اس نے فلسفیانہ انداز میں ادب کی‬

‫ماہیت سے متعلق حقائق دریافت کئے ہیں۔ اور استقرائی طریق کار اختیار کرکے اکثر فن پاروں میں مشترک خصوصیات کی نشاندہی کی ہے۔‬

‫کولرج کے نزدیک بھی تنقید کا منصب فلسفیانہ ہے وہ کہتا ہے۔‬

‫” تنقی د کا آخری مقصد دوسروں کی تخلیقات کا محاکمہ کرنا نہیں بلکہ تخلیقی ادب کے اصول دریافت کرنا ہے۔“‬

‫اس منصب کے مطابق ایک نقاد فن کو معروضی نقط نظر سے دیکھ کر ایک سائنس دان کی طرح اس کے عناصر ترکیبی معلوم کرنے کی‬

‫سعی کرتا ہے۔‬

‫فن کار کے لئے درس و ہدایت‪:‬۔‬

‫تنقید فن کو سنوارتی ہے اور فنکار کی رہنمائی اور اصالح کا فریضہ انجام دیتی ہے ۔ نقاد اپنے تجربات سے فن کار میں تخلیق کا بہتر شعور‬

‫اور فن سے دلچسپی رکھنے والوں کو متاثر کرکے ان میں صحیح مذاق پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نقاد چونکہ فن کی ترقی کا خواہاں ہوتا‬

‫ہے اس لئے اس کی تنقید کا مقصد ہمیشہ مثبت اور تعمیر ی ہوتا ہے۔ وہ مصنف کی تضحیک نہیں اڑاتا اور نہ اس کی تصنیف کی بے قدری‬

‫کرتا ہے بلکہ اسے فنکار سے ایک گونہ ہمدردی ہوتی ہے۔ وہ اس کی تخلیق کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے محاسن و معائب کی نشاندہی کرتا‬

‫ہے۔ اس سے اس کا مقصد فنک ار کی حوصلہ شکنی نہیں ہوتا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی ‪ ،‬رہنمائی اور اصالح پیش نظر ہوتی ہے۔‬

‫تخلیقی تجربے کی باز آفرینی‪:‬۔‬

‫نقاد ایک لحاظ سے تخلیقی بھی ہوتا ہے اس کی تنقید میں فن کار کے تخلیقی تجربے اور عمل کی صدائے بازگشت ہوتی ہے۔ جب وہ کسی فن‬

‫پارے کو تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے تو وہ صرف فن پارے کے حسن و قبح کا احاطہ ہی نہیں کرتا بلکہ اس میں یہ جذبہ کارفرما ہوتا ہے‬

‫کہ اس کے ساتھ ساتھ قارئین بھی اس تخلیق سے بہرہ مند ہوں اور انہیں معلوم ہوجائے کہ مصنف نے اپنے فن پارے کو کن جذبات و احساسات‬

‫اور حاالت و واقعات ک ے تحت تخلیق و تشکیل کی صورت عطا کی ہے۔ کن الفاظ اور کس انداز سے قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس کی‬

‫تخلیق کا مقصد کیا ہے۔ اور اسے اپنے مقصد میں کس حد تک کامیابی یا ناکامی ہوئی ہے۔ یہی احساس نقاد کو ایک گونہ مسرت بہم پہنچاتا ہے۔‬

‫اور وہ قارئین کو بھی اپنی مسرت میں شریک کرنے کی سعی کرتا ہے۔ بقول آرنلڈ‪،‬‬
‫” قوت تخلیق سے بہر مند ی کا احساس بڑا مسرت افزاءاور صحت بخش ہوتا ہے اور ایک کامیاب نقاد جو زندہ دل مصلح ہوتا ہے اس سے یقینا‬

‫محروم نہیں رہتا بلکہ وہ اپنے اس احساس مسرت میں دوسروں کو بھی شریک کر لیتا ہے۔“‬

‫گویا نقاد فنکار کے خواب کی بھی تشریح و تعبیر بیان کرتا ہے اور کسی فن پارے کے تجزیہ سے حاصل شدہ تاثرات و تجربات سے صاحبان‬

‫ذوق کو لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔‬

‫تخلیق فن کے لئے سازگار فضا پید ا کرنا‪:‬۔‬

‫اعلی و ارفع افکار و خیاالت حاصل کرکے ان کی ترویج و اشاعت کرے۔“ اس عمل سے وہ‬
‫ٰ‬ ‫بقول آرنلڈ نقاد کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ”‬

‫معاشرے میں ایسے عنصر پیدا کرنے میں کامیا ب ہو جائے گا۔ جو تخلیقی ذہن کو جال بخش کر تخلیق فن کا موجب بنیں گے اور اس طرح‬

‫معاشرے کے لئے درس و ہدایت کا سامان فراہم کرے گا جس سے معاشرے میں اچھی صحت مند روایات قائم ہو جائیں گی۔ اس طرح تنقید ادب‬

‫معاشرتی اصطالح کا ایک موثر ذریعہ بن جائے گی۔ اور نقاد کو ایک مصلح اور معلم اخالق کا درجہ بھی حاصل ہو جائے گا جو والٹ وٹیمن‬

‫اعلی و ارفع نصب العین ہے۔‬


‫ٰ‬ ‫کے نزدیک تنقید کی رفعت اور نقاد کا‬

‫فن پاروں کی تشریح و توضیح‪:‬۔‬

‫بقول ایلیٹ ”تنقید کا مقصد فن پاروں کی تشریح و توضیح کرنا ہے۔“ نقاد نقد و جرح کرتے وقت صرف کسی فن پارے کے محاسن و معائب ہی‬

‫بیان نہیں کرتا بلکہ اس کی معنویت کو بھی اس طرح عیاں اور واضح کردیتا ہے کہ اس کی تفہیم میں قاری کو بڑی مدد ملتی ہے۔ اور وہ اس‬

‫کی ا ثر انگیزی سے بڑا متاثر ہوتا ہے۔ اور یہی وہ فنی تاثر ہے جو نقاد کی کوشش کے بغیر ممکن نہیں۔ کومز لکھتا ہے کہ‬

‫” ایک اچھا نقاد ‪ ،‬جہاں تک اس سے ہو سکتا ہے‪ ،‬اپنے سوچے سمجھے تاثر کو جو اس نے کسی مصنف کسی ڈرامے‪ ،‬کسی ناول ‪ ،‬کسی نظم‪،‬‬

‫کسی مضمون وغیرہ سے حاصل کیا ہوتا ہے ممکن اور واضح طور پر ہمارے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ اس طرح فن پارے کی اس تفہیم اور‬

‫لطف اندوزی کے عمل میں مدد بہم پہنچاتا ہے جو اسے تجربے سے حاصل ہوتی ہے ‪ ،‬جو فن پارے کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیتا ہے اور اس‬

‫کی پرکھ تول کر کے ان عناصر کا انکشاف کرتا ہے جنہوں نے مل کر اس فن پارے کو مخصوص صفت عطا کی ہے۔“‬

‫ڈیوڈ ڈایشز بھی لکھتاہے کہ‬

‫” نقاد ادب کے بارے میں کئی قسم کے سواالت اٹھاتا ہے ۔ تاہم اگر وہ کوئی سوال نہ بھی اُٹھائے تو فن کی مختلف طریقوں سے شرح و بسط‬

‫کرکے قاری کی تحسین فن میں اضافہ کر دیتا ہے۔“‬

‫مختصرا ً تشریحی نقاد فن پارے کی ساخت اور تکنیک کا تجزیہ کرتا ہے اور اس کے معنی و مفاہیم کو واضح کرتا ہے اور یوں وہ اس سے‬

‫پیدا ہونے والے لطف و سرور کا ابالغ کرتا ہے اور قارئین کو زندگی سے متعلق شعور عطا کر تا ہے۔‬
‫معائب و محاسن کو بیان کرنا‪:‬۔‬

‫ٹی ۔ ایس ۔ایلیٹ کے خیال کے مطابق ” جہاں تنقید کا منصب فن پاروں کی تشریح و توضیح ہے وہاں فن کی تحسین ‪ ،‬تخلیق کے قریب چیز‬

‫بھی ہے۔ تحسین کاکام چیزوں کو اجاگر اور روشن کرنا‪ ،‬تحریک دینا اور استحسان ( ذوق ادب) کے لئے ہماری ذہانت کو جال بخشنا ہے۔ “ اور‬

‫ایڈسن کے خیال میں ”ایک سچا نقاد کسی ادیب یاکسی ادب پارے کی خامیوں پر اتنا زور نہیں دیتا جتنا کہ اس کی خوبیوں پر۔“ ہڈسن لکھتا ہے‬

‫کہ ” اگر ادب مختلف صورتوں میں تشریح حیات ہے تو تنقید ادب کی اس تشریح کی تشریح ہے۔“ ان نقادوں کی آرا ءسے یہ مترشح ہوتا ہے کہ‬

‫نقاد کا کام صرف فن پارے کے محاسن بیان کرنا ہے اور اسے اس کی خامیوں کی نشاندہی نہیں کرنی چاہیے۔ حاالنکہ تحریر کے عیوب اور‬

‫اظہار و بیان کے انداز کے معائب بے نقاب کئے بغیر محاسن کا مکمل احاطہ نہیں ہو سکتا ۔ اس لئے تنقید کا منصب صرف فن پارے کے‬

‫محاسن بیان کرنا ہی نہیں بلکہ اس کے معائب کوبھی قارئین کے سامنے النا ہے۔ کیونکہ محاسن و معائب کے ایک ساتھ بیان سے نقاد فن کار‬

‫کی رہنمائی کرتا ہے اور فن کی ترقی کے لئے راہیں کھولتا ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ نقاد کا ایسا بے الگ اور متوازن بیان عام قارئین کے‬

‫ذوق ادب میں اضافہ اور اصالح کا باعث بنتا ہے۔‬

‫شاعروں کو دوبارہ زندہ کرنا‪:‬۔‬

‫ٹی۔ایس ۔ ایلیٹ کے خیال میں تنقید کا ایک منصب ان شاعروں کو زندہ کرنا بھی بتایا ہے جو عرصہ دراز سے گوشہ گمنامی میں ہوں ۔ بعض‬

‫اوقات یو ں بھی ہوتا ہے کہ کسی شاعر کی شہرت اس کی چند ایک نظموں کی وجہ سے ہوتی ہے یا اس کی شاعری میں اس کے فن کی بلندی‬

‫کہیں کہیں نظر آتی ہے۔ جواس کی شہرت دوام کا موجب نہیں بن سکتی ۔ ایلیٹ لکھتا ہے کہ تنقید کا یہ کام بھی ہے کہ وہ ان شاعروں کو‬

‫ازسرنو زندہ کرے ۔ ان کے کالم میں جتنے بھی محاسن موجود ہیں انہیں عوام کے سامنے پیش کرے ہو سکتا ہے کہ ان کی شاعری میں سے‬

‫بعض ایسی چیزیں مل جائیں جن کا موجودہ زمانے کوعلم نہ ہو۔‬

‫تنقید روح عصر کی عکاس ‪:‬۔‬

‫ڈرائیڈن اور شیگل کا خیال ہے کہ شاعر روح عصر ( ماحول اور زمانہ ) کی پیداوار ہوتا ہے۔ اس کے مزاج میں اس کی نسل و قوم کو بھی‬

‫دخل ہوتا ہے جو کسی فن پارے کی تخلیق پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ گویا ادب اس طرح روح عصر کا عکاس ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے نقاد کا یہ‬

‫فرض بنتا ہے کہ وہ تنقید کرتے وقت ان تمام عوامل (نسلی ‪ ،‬سماجی‪ ،‬سیاسی‪ ،‬واقعاتی) کا جائز ہ لے جو کسی عصر (دور) کا مزاج متعین‬

‫کرتے ہیں اور فن پارے کی تخلیق پر اثر انداز ہوتے ہیں۔‬

‫تنقید اور ادب کے نامیاتی عمل کا شعور‪:‬۔‬

‫بقول ایلیٹ ‪ ” ،‬ہر ملک کاادب ایک عضویاتی کل کی طرح ہوتا ہے اور زندہ شے کی طرح نشوونما پاتا ہے۔ “ اس کے مطا بق ”ہر شاعر کو‬

‫ادب سے متعلق اس حقیقت کا کامل شعور ہونا چاہیے جب وہ حقیقی تخلیق کر سکتا ہے۔ نقاد اس زندہ روایت کے حوالے سے ہر ادیب اور فن‬
‫پارے کا جائزہ لیتا ہے۔ “ مطلب یہ کہ نقاد نقاد کا فرض بنتا ہے کہ ادب کے اس تصور کو خود حاصل کرے اور پھر قارئین کے سامنے‬

‫وضاحت کے ساتھ پیش کرے۔ اس طرح نہ صرف قارئین کے عام تصور ادب کی اصالح ہوتی ہے بلکہ تخلیقی فن کاروں کے لئے بھی یہ‬

‫تصور علم و ہ دایت او ر اصالح و رہنمائی کا سبب بنتا ہے اور وہ خود کو اور اپنے فن کو ادب کی اس زند ہ روایت کی روشنی میں دیکھنے‬

‫کے قابل ہو جاتے ہیں۔‬

‫ا ن تمام باتو ں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ناقد کا فرض ہے کہ اس کا علم وسیع ہو اور ذہن تیز ہو ۔ عدل سے کام لے۔ تعصب جانبداری‬

‫سے کام نہ لے ۔ جذبات سے باالتر ہو کر بے الگ تجزیہ کے بعد کسی فن پارے پر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے تاکہ رائے متوازن معیاری‬

‫اور صحت مند سمجھی جائے ۔ وہ اپنے ان فرائض کو مکمل دیانتداری سے بجاالئے تاکہ فن کا معیار بلند ہو ادیب و قاری کے ذوق سلیم میں‬

‫اضافہ ہو۔ وہ ذاتیات اور پسند و ناپسند کا غالم نہ بنے ۔ اس کے عالوہ اسے مصنف کے احساسات اور جذبات سے آشنا ہونا چاہیے تاکہ وہ فن‬

‫پارے کا صحیح طریق سے جائزہ لے سکے ورنہ اس کے تاثرات بے ربط اور بے معنی ہوں گے۔‬

You might also like