Professional Documents
Culture Documents
" }{ XE "ٍ۱صفح نمبر ٍ :" }{ XE "ٍ۱صفح نمبر ٍ" :" }{ XEصفح نمبر ٍ
:" }{ XE "ٍ۱صفح نمبر ۱سکندر حیات میکن} " :صفح نمبر ٍ
استاد شعبہ اُردو
گورنمنٹ کالج شاہ پورصدر ،سرگودھا
فن تنقید ،انسانی شعور کی معراج کے ساتھ وابستہ ہے ۔ قدرت نے انسان کوسوچنے
اور سمجھنے کی صالحیت عطا کی ہے ۔ انسان اپنے گردوبیش کی زندگی اور چارسُو
کائنات میں پھیلے ہوئے مظاہر فطرت پر غور کرتا ہے اور نمو پاتی زندگی کو مختلف
زاویوں سے دیکھتا ہے ۔تنقید کے ابتدائی نقوش انسانی شعور اور اس شعور کی روشنی
میں ذہن میں پیدا ہونے والے سواال ت اور اعترافات کی صورت میں نظر ٓاتے ہیں ۔
:ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں
انسان نے ایک تنقیدی شعورہی کے ماتحت اپنا تخلیقی کارنامہ پیش کیا ۔ وہ ’’
تنقیدی شعور پہلے زندگی سے دو چار ہوا ۔اس نے اس کے سارے نشیب و فرازکو دیکھا
؎ اور تخیل کے سہارے اسے فن کی صورت د ے دی ۔‘‘ ۱
ادبی تنقید کی ابتدا افالطون اور ارسطو سے پہلے ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر سلیم اختر
کے بقول تنقید چار ہزار برس پُرانی ہے ۔ ؎ ۲جب کہ عارفہ صبح خان اسے پانچ ہزار
:سال پُرانا قرار دیتی ہیں ۔وہ لکھتی ہیں
مصر کے میوزیم میں فرعون کے اہرام میں مصری رسم الخط میں ایسے کئی ’’
ادبی نسخے موجودہیں جن سے پانچ ہزار سال پہلے کے مصریوں میں پائے جانے والے
ادبی رویے اور تنقیدی بصیرت کے ثبوت فراہم ہوتے ہیں ۔پانچ ہزار سال سے مصر ،
؎ یونان اور روم میں علم و ادب ترقی یافتہ صورت میں موجود تھا۔‘‘ ۳
یہ بات درست ہے کہ افالطون اور ارسطو سے پہلے تنقیداور تنقیدی شعور کی
جھلکیاں ملتی ہیںلیکن تنقید کا باقاعدہ ٓاغاز اور تنقید کے سلسلے کو تقویت ارسطو کی
:بوطیقاہی کے ذریعے ملتی ہے ۔ ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں
جو سوال ارسطو نے اٹھائے تھے وہ ٓاج بھی زندہ ہیںاور ادبی تنقید کے المتناہی ’’
سلسلے کا ٓاغازکرتے ۔ہیں ،اس وجہ سے ذہن انسان کی تاریخ میں بوطیقا ایک دائمی اہمیت
ہے ۔بو طیقا کے بغیر ٓاپ کا مطالعہ نامکمل ہے ۔ اس کے بغیر ٓاپ مغرب کی قدیم و
؎ جدیدتنقیدی و ادبی روایت کو نہیں سمجھ سکتے۔‘‘ ۴
ادبی تنقید کے سفر میں ارسطو کی بوطیقا بہت معاون ثابت ہوئی ہے اور اس نے
مشرق و مغرب کے تنقیدی نظریا ت کو متاثرکیا ہے ۔ڈاکٹرسجاد باقر رضوی اس ضمن
:میںلکھتے ہیں
تنقیدی تصورات کے ارتقا میں بوطیقاکے نظریات ایک عظیم اہمیت کے حامل ہیں’’
۔ارسطو کے اس رسالے نے ہرعہد ادبی تصورات اور تنقیدی نظریات کو متاثر کیا ہے ۔‘‘
؎ ۵
کا اُردو مترادف ہے ۔ تنقید کھرے اور کھوٹے اور Criticismتنقید ،انگریزی لفظ
محاسن و معائب الگ کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔علمی اُردو لغت میں تنقید
کے معنی جانچ ،پرکھ ،تمیز ،کھرے کھوٹے میں تمیز ۔ ؎ ۶فیروز اللغات میں تبصرہ
،نکتہ چینی ؎ ۷ ،جبکہ فرہنگ عامرہ میںتنقید کے معنی پرکھنا کے ہیں ۔ ؎ ۸سید عابد
:علی عابداس لفظ کے حوالے سے لکھتے ہیں
برٓامد Grableاس کا ماخذ عربی لفظ ’’ غربال ‘‘ ہے جس سے انگریزی کلمہ’’
سے ہے ۔ Cretہوا ہے ۔ غر بال کی اصل الطینی ہے اور اس الطینی اصل کا تعلق کلمہ
؎ کے معنی پھٹکنا ،چھان پھٹک کرنا ’’۔ Cret ۹
:ڈاکٹر سید عبدہللا لفظ تنقید کے حوالے سے لکھتے ہیں
ـ ’’عربی اور فارسی کی کتابوں میں تنقید کے لئے چندلفظ اور بھی ملتے ہیں ۔ان میں
موازنہ ،محاسمہ اور تقریظ اہم ہیں لیکن درحقیقت یہ تنقید کے بعض خاص طریقوں کے نام
؎ ہیں ،تنقید کے قائم الفاظ نہیں۔ ‘‘ ۱۰
:ڈاکٹر سلیم اخترکے بقول
تنقید کا اصل منصب ’’قصیدہ در مدح ‘‘ نہیں بلکہ تخلیقات کے حوالے سے عہد ’’
اس کی اقدار اور معائیرکا مطالعہ ہو نا چاہئے اور اس امر کا تعین کہ تخلیق کار کس حد
؎ تک اپنے عہد کی اقدار اور معائیر کا حامی یا باغی تھا ۔‘‘ ۱۱
اعظمی تنقید کی اصطالح کو کسی ایک فن پارے تک محدود نہیں
ٰ ڈاکٹر فہیم
سمجھتے بلکہ اس کا اطالق پورے سسٹم یا تھیوری پر کرتے ہیں ۔ ؎ ۱۲انسائیکلوپیڈیا
:بر ٹانیکا میں درج ہے کہ
کسی جمال پارے یا فن پارے کے ادبی یا فنی خصائص اور قیمت کے بارے میں ’’
؎ محاسحمہ یا فیصلہ کرنے کا فن تنقید کہالتا ہے۔ـ‘‘ ۱۳
تنقید محض نکتہ چینی یا عیب جوئی کا فن نہیں ہے بلکہ تنقیص کے ساتھ تحسین
کے پہلو کو بھی نمایاں کرتی ہے ۔ناقدین نے تنقید کی مختلف تعریفات کی ۔ہیں جس سے
ثابت ہوتا ہے کہ تنقید فن پارے کو جانچنے کا ایسا عمل ہے جو دودھ کو دودھ اورپانی
کوپانی کہتی ہے۔
وزیر ٓاغا کے بقول تنقیدجمالیاتی چکا چوند میں اضافے کا باعث بنتی ہے ۔ ؎ ۱۴
:اسی طرح ایک اور جگہ لکھتے ہیں
ــ’’ تنقیدادب کی تقویم وتشریح کا نام ہے لیکن کیا تنقیدادب کی پُراسراریت کو پوری
طرح لینے میں کامیاب ہو سکتی ہے ؟غالبا ً نہیں ۔وجہ یہ ہے کہ پرُاسراریت خدو خال اور
؎ حدود سے ماروا ہے ‘‘۔ ۱۵
:ڈاکٹرسجاد باقر رضوی لکھتے ہیں
ـــ’’ عمارت کے بارے میں ماہر تعمیرات اور پل کے بارے مین انجنیئرکی رائے
طلب کی جاتی ہے مگرفنون کے ناقد وہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو خواہ خود فنکار نہ
ہوں مگرفنی ذوق اور تربیت سے اس قابل ہو گئے ہوں کہ اس پرتنقیدکر سکیںاور تنقید کا
؎ بنیادی مقصد کسی فن پارے کے خصائص و نقائص ظاہر کرنے کا نام ہے ‘‘۔ ۱۶
ڈاکٹرسالمت ہللا اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ تنقید ادب کو زندگی کی شاہراہ سے
ادھر اُدھر بھٹکنے نہیں دیتی ۔ ؎ ۱۸جبکہ کلیم الدین احمد تنقیدی اصولوںـ پر زیادہ زور
:دیتے ہیں اور لکھتے ہیں
اگر ٓاپ کاشت کاری کے اصول سے واقف نہیں ہیں توٓاپ کسان نہیں بن سکتے ’’
؎ اسی طرح اگر ٓاپ اصول تنقیدسے واقف نہیں توٓاپ نقاد نہیں بن سکتے ‘‘۔ ۱۸
تنقید زندگی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلتی ہے ۔تنقیداورزندگی ایک دوسرے کے
لئے ناگزیر ہیں اسی طرح ادب میں بھی تنقید الز م ہے کیونکہ تنقیدکے بغیرادب کاوجود
:بے معنی ہے ۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں
تنقید کے بغیر چلنا تو درکنار،بغیر تنقیدکے صحیح ادب پیش ہی نہیں کیا جاسکتا’’
اگر تنقیدنہ ہو تو ادب کا وجود باقی نہ رہے،تنقیدفنکاراوراسـ کے تخلیقات کے معیار کو
؎ بلند کرتی ہے اور اس کو صحیح معنوں میں ادب اور فن بناتی ہے ‘‘۔ ۱۹
اُردو میں تنقیدکے ابتدائی نقوش تذکروں میں ملنے والی داد اور خودتذکروںمیں ملتے
ہیں ۔لیکن تذکرے اُردو تنقید کے ابتدائی نقوش کو مدھم صورت میں پیش کرتے ہیں جو
:تنقیدکے نقش کو واضح نہیں کر پاتے ۔سید محمد نواب کریم اس ضمن میں لکھتے ہیں
تذکروں کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ ان سے کوئی تاریخی ،سوانحی یا ’’
تنقیدی معلومات کے حصول کی امید نہیں کی جا سکتی۔ تذکرہ لکھنے والوں کا مطمع ایک
معمولی یاداشت سے زیادہ نہ تھا۔ معلومات کے سلسلے میں غورو فکر اور چھان بین کی
؎ وہ ضرور ت بھی محسوس نہیں کرتے ۔‘‘ ۲۰
جب کہ کلیم الدین احمد تذکروں کو تاریخی اہمیت تو دیتے ہیں لیکن تنقید ی اہمیت
:نہیں دیتے وہ لکھتے ہیں
ان تذکروں کی اہمیت تاریخی ہے ۔ ان کی دنیائے تنقید میں کوئی اہمیت نہیں ۔ہمیں ’’
تذکروں سے کچھ سیکھنا نہیں ہے ۔جہاں تک تنقید کا واسطہ ہے ۔ ان تذکروں کا ہونا
؎ ناہوتابرابر ہے ۔‘‘ ۲۱
تذکروں کی اہمیت سے یو ں انکار ممکن نہیں ہے ۔تنقیدکی دھندلی تصویر کسی نہ
کسی صورت میں تذکروں سے ضرور بنتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ یہ بات اپنی جگہ
درست ہے کہ اسے باقاعدہ تنقید کا نام نہیں دیا جاسکتا لیکن اُردو تنقید کاابتدائی ڈھانچہ
تذکروں سے کسی نہ کسی صورت میں ضرور مستفید ہوتا ہے ۔ڈاکٹر شیمہ رضوی اس
:حوالے سے لکھتی ہیں
بھال ہو بیاضوں اور کشکولوں کا جو ذاتی شغف کی بنا پر تیار کیے گئے اور ’’
تذکروں کا جنھوں نے نہ صرف ما ضی کی تاریکیوں میں پنہاں کوائف کو اپنے دامن
عافیت میں لے کر ہم تک پہنچایا بلکہ فن ِ نقدو تبصرہ کے ابتدائی نقوش بھی فراہم کئے‘‘۔
؎ ۲۲
اُردوتنقیدکا ٓاغاز محمد حسین ٓازاد سے ہوتا ہے ۔وزیر ٓاغاکے بقول تاریخی اعتبار
سے محمد حسین ٓازاد کو اولیت کادرجہ حاصل ہے کیونکہ انھوں نے اپنے تنقیدی موقف کا
اظہارمقدمہ شعرو شاعری سے ۲۶برس پہلے ۱۵اکست ۱۸۶۷ء کو انجمن پنجاب
کے ایک جلسے میں کیا تھا ،لیکن اُردو میں پہلی بارنظری تنقید کے حوالے سے اولیت
حالی کو حاصل ہے ۔ ؎ ۲۳اسی طرح ڈاکٹراحسن فاروقی نے بھی مقدمہ شعرو شاعری
کو اُردو کی پہلی تصنیف قرار دیا ہے جس میں ادب اور زندگی کے تعلق کا مسئلہ چھیڑا
گیا ہے ۔ ؎ ۲۴کلیم الدین احمد بھی اُردو تنقید کی ابتداحالی سے ہی کرتے ہیں ۔
:بقول کلیم الدین احمد
اُردو تنقید کی ابتدا حالی سے ہوتی ہے۔ حالی نے سب سے پہلے جزئیات سے ’’
؎ قطع نظر کی اور بنیادی اصول پرغور و فکر کیاہے‘‘ ۲۵
حالی سے اُردو تنقید کا باقاعدہ ٓاغاز ہوتا ہے اور حالی کی تصنیف ’’ مقدمہ
شعروشاعری ‘‘ ادب میں نئے راستوں کا تعین کرتی ہے اور اُردو تنقید کو ترقی کی راہ
:پر گامزن کرتی ہے ۔وقار احمد رضوی اس حوالے سے لکھتے ہیں
حالی نے جو کام کیا وہ یہ کہ شاعروں کو ایک صاف راستے پر چلنے کی ہدایت ’’
کی ،گھسے پٹے مضامین ،غزل سے اجتناب کی دعوت دی۔مقدمے کا فائدہ ہوا کہ ادب کا
؎ کینوس وسیع ہوا ‘‘۔ ۲۶
درج باال ناقدین کی ٓارا سے پتا چلتا ہے کہ اُردو تنقید کا باقاعدہ ٓاغاز حالی سے
ہوتاہے اور حالی کے تنقیدی نظریات اُردو تنقید میں وسعت کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں ۔
اُردوتنقید کی تاریخ کے حوالے سے بھی ایک بات واضح ہوتی ہے کہ یہ اتنی زیادہ پرانی
:نہیں ہے ۔ڈاکٹر ابرار رحمانی اس بارے میںلکھتے ہیں
اُردو تنقید کی تاریخ پرانی نہیں ہے ۔شائدسب سے بڑی وجہ فارسی ادب کا تتبع ’’
ہے جہاں تنقید کی روایت بہت زیادہ مضبوط نہیں ۔فارسی میں اگرتنقید ہے بھی توزیادہ تر
؎ علم بیان اور علم بدیع تک ہی محدودہے ‘‘۔ ۲۷
حالی کے معاصرین نے اور بعد میں ٓانے والے ناقدین نے اُردوتنقید کو مزید
مستحکم کیا ۔حالی کے بعد شبلی ،عبدالحقٓ ،ال احمد سرور ،اختر حسین رائے پوری ،
مجنوں گورکھپوری ،احتشام حسین ،کلیم الدین احمد ،احسن فاروقی ،اور دیگرناقدین نے
اُردو تنقید کے ارتقا کو جاری رکھا ۔ ٓاگے چل کر تنقید میں بالخصوص محمد حسن عسکری
،شمس الرحمن فاروقی اور وارث علوی جسے ناقدین میںمغربی اثرات کی تقلید واضح
دکھائی دینے لگی ۔علی حماد عباس کے بقول ایک نام نہادرحجان پیدا ہوگیا جس میں جب
تک مغرب کے حوالے سے کوئی بات نہ کہی جائے اس میں وزن اور معنی پیدا نہ ہوتے
اور یہی مغربی پیروی ہے ۔ٓ ؎ ۲۸ازادی( ۹۴۷ا ئ) کے بعد بھی اُردو تنقید نے اپنا
سفر جاری رکھا ۔پاکستان کے وجود میں ٓاجانے کے بعد اُردو تنقید کوترقی پسند تحریک
نے مزید تقویت دی ۔بقول انورسدیدجو اہم ترقی پسند نقاد اُبھرے،ان میں ممتاز حسین ،حنیف
،مجتبی حسین ،عتیق احمد ،ظہیر کاشمیری ،سحر ٰ فوق ،انجم اعظمی،محمد علی صدیقی
انصاری ،عابد حسن منٹو،شہزادمنظر،صفدر میر ،عبادت بریلوی ،وقارعظیم ،احمد ندیم
قاسمی اور فیض احمد فیض وغیرہ شامل ہیں ۔ ؎ ۲۹پاکستان میں ٓازادی کے بعد اُردو
تنقید اور اُردوتنقید کے مختلف پہلوئوں ،اقسام اور تنقید ی نظریات پر کافی کام ہوا ۔ یہ
الگ بات کہ تنقیدکو روایتی سانچوں میں ہی پرکھا گیا ہے ۔لیکن اُردو تنقید نے پاکستان میں
اپنادامن وسیع کیا ہے۔ ۱۹۴۷ء سے ۲۰۱۲ء تک ۶۵سالوں میں نقادوں کی اچھی
خا صی تعداد سامنے ٓائی ہے گو ان ناقدین میں اہم نقاد انگلیوںـ پر گنے جاسکتے ہیں ۔
:شہزادمنظر اس ضمن میں لکھتے ہیں
گذشتہ پچاس سال کی تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے جو بات اہم اور نمایا ںنظر ٓائی وہ یہ ہے’’
کہ قیام پاکستان کے بعد اُردو کا جائزہ لینے میں کئی نئے علوم سے استفادہ کرنے کا خیال
عام ہوا۔ اس سے قبل ادب کے مطالعے میں زیادہ تر معاشی ،جمالیاتی عمرانی اور نفسیاتی
علوم سے استفادہ کیا جاتاتھا لیکن اس میں علم االنسان (مبشریات ) کے ساتھ لسانیات،
؎ تہذیبی تاریخ اور ساختیات سے بھی مدد لینے کا رحجان عام ہوا ‘‘۔ ۳۰
ٓازادی کے بعد بھارت میں بھی تنقید کو خاص پذیرائی ہوئی اور تنقید نے فکری
سانچوں میں اپنا سفر جاری رکھا ۔پاکستان اور بھارت میں لکھی گئی تنقید کا تقابلی جائزہ
اپنی جگہ ایک الگ موضوع ہے ۔ لیکن پاکستان کی نسبت بھارت میں تنقیدی کام زیادہ
ہواہے ۔
بھارت کے اہم کے اہم نقادوں میں ٓال احمدسرور ،علی عباس حسینی ،شمس الرحمن
فاروقی ،اختر اور نیوی ،شمیم حنفی ،ڈاکٹر محمد حسن ،مجنوں گورکھپوریـ ،فراق
گورکھپوری ،گوپی چند نارنگ ،خلیق انجم ،شارب ردولوی ،وارث علوی ،عبدالستار دلوی
:وغیرہ زیادہ اہم ہیں ۔عارفہ صبح خان بھارت میں اُردو تنقیدکے حوالے سے لکھتی ہیں
بھارت میں دوسرے درجے کے کم و بیش دوسو نقاد مزیدہیں جو اپنی بساط کے ’’
مطابق دنیائے اُردومیں ساکھ بنانے کی سعی میں مشغول ہیں اور اگر یہ کہا جائے بھارت
میں اُردو قومی زبان نہ ہونے کے باوجوداُردوادب و نقد پر بکثرت اورمبسوط کام ہو رہا
؎ ہے ۔ تو یہ بالکل مبنی بر حقیقت ہے ‘‘ ۳۱
اُردو تنقید کا یہ سفر اپنے ارتقائی عمل کے ساتھ جاری ہے جس میں نئے امکانات
اور نئی تنقیدی تھیوریاں جنم لیں گی۔اُردو تنقید مین مغربی تنقید کی شناسائی کا عمل بھی
تیزی سے جاری ہے ۔ اس حوالے سے ڈاکٹر ناصر عباس نیرکی خدمات قابل تحسین ہیں۔
:ابوالکالمـ قاسمی اس حوالے سے لکھتے ہیں
ـ’’ ناصر عباس نیر کا نام اُردو کے تنقیدی منظر نامے میں بہت ہی کم عرصے میں
اعتبار حاصل کرچکا ہے ۔ مغربی تنقید سے عمومی دلچسپی اور نئے تنقیدی نظریات سے
گہری وابستگی ان کی شناخت ہے۔ گزشتہ پندرہ برسوں میں ساختیات اور مابعد ساختیات
؎ ،مسائل ومضمرات نے اُردوتنقیدی صورت حال کوخاصا مغرب ٓاشنا کردیا ہے ۔‘‘ ۳۲
اُردو اد ب میں تنقیداپنے پورے وجود کو ثابت کر چکی ہے اور ادب کے وجود کا
انحصار بھی تنقید کے وجود کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے ۔نہ صرف ادب بلکہ زندگی کے لئے
بھی تنقید کا وجود ناگزیر ہوتا ہے اور یہی تنقید معاشروں اور قوموں میں ادبی وقار
:ومعیارکو زندہ بھی رکھتی ہے ۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں
ت نمو کی مظہرتھی ۔اس کا عمل دہرا ہوتا ہے ۔ ’’تنقید بھی کسی قوم کی ادبی قو ِ
یعنی وہ عام ادب سے متاثربھی ہوتی ہے اور اسے متاثر بھی کرتی ہے ۔اس کے معیاربھی
انھی حاالت و افکار کے نتیجے میں صورت پذیر ہوتے ہیں ،اُردو ادب نے جس وقت ٓانکھ
کھولی ،ہر طرف فارسی کا دور دورہ تھا ۔ اس کے سامنے فارسی ادب ہی کے نمونے
؎ تھے ۔چنانچہ وہ فارسی ادب ہی سے متاثر ہو ا‘‘۔ ۳۳
زندگی کے بنیادی معامالت اور نظریات تنقید میں اساسی اہمیت کے حامل ہوتے
ہیں ۔لہذا ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ علم و ادب میں ان کی اہمیت الز م و
:ملزوم ہے ۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر اس ضمن میں لکھتے ہیں
علم و ادب میں اگر کسی رجحان یا نظریے کی بنیاد زندگی کے بنیادی معامالت’’
اور دائمی سواالت پر استوار ہو تو اسے طاقت یا تشہیر کے زور پر منظر سے ہٹانا محال
ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایک عہد میں مختلف ادبی رحجانات اور تنقید ی نظریات ایک
دوسرے کے متوازی سرگرم ِ عمل رہتے ہیں ۔تاہم کسی رجحان یا نظریے کی محض
؎ موجودگی اس کی عصری موزونیت یا دائمی اہمیت کی ضامن نہیں ہو سکتی ۔‘‘ ۳۴
اُردو تنقید نے ہر طرح کے عصری حاالت و واقعات میں اپنا تنقید ی سفر جاری
رکھا ہے ۔وسیع تناظر میںدیکھا جائے تو ادب کی دیگر جہتوں میں تنقید ی کام اپنی سرعت
کے ساتھ اُردو ادب کے گلزارمیںـ اپنی خوشبو پھیالتا رہا ہے ۔
بعض ناقدین نے تنقید کو تحقیق کی کسوٹی پر بھی پرکھنے کی کاوش کی ہے ۔
اردو تنقید کے فکری و فنی مباحث پر بہت سی کاوشیں منظر عام پر ٓائیں ہیں لیکن اُردو
تنقید پر جو تحقیقی نوعیت کا کام ہوا ہے ،اس کی فہرست درج ذیل ہے جو زمانی ترتیب
حرف ٓاخر نہیں ہے ۔
ِ سے دی جارہی ہے۔ یہ فہرست
ٓازادی کے بعد لکھی گئی ان تنقیدی کتب میں زیادہ تر تحقیقی نقطہ نظر سے
اُردو تنقیدکا جائزہ لیا گیا ہے ۔درج باال کتب میں بعض کتابوں میں تحقیق کی کارفرمائی
زیادہ ہے اور بعض میں نیم تحقیقی انداز اپنایا گیا ہے ۔ ۱۹۴۷ء سے ۲۰۱۲ء تک ان ۶۵
برسوں میں اُردو تنقید پر تحقیقی نقطہ نظر سے کی گئی کوششیں اہم ہیں ۔تنقید پر خالص
تحقیقی نوعیت کی کاوشیںبہرحال کم ہیں ۔
اُردو تنقید اور اُردو تنقید پر کی گئی تحقیق کی داستان نشیب و فراز کی کہانی ہے
تحسین فراقی
ِ :جو مختلف ادوار کے فکری رجحانات سے متاثر ہوتی رہی ہے ۔ بقول
ـــ’’تہذیبی انحطاط اور فکری انتشار کے دور میں جہاں زندگی کے دوسرے
؎ شعبے متاثر ہوتے ہیں وہاں تنقید کا متاثر ہونا بھی اعجوبہ نہیں ‘‘۔ ۳۵
اُردو تنقید اور اُردو تنقید پر کی جانے والی تحقیقی و تنقیدی کاوشیں قاری کا رشتہ
ادب کے ساتھ جوڑتی ہیں ۔ یہ کاوشیں جہاں تنقید کے مختلف پہلوئوںـ کو اُجاگر کرتی ہیں
ت فکر بھی دیتی ہیں کیونکہ تنقید کی تعلیم قاری کو
وہاں تنقید کے تشنہ پہلوئوں پر دعو ِ
:ادب شناس کرتی ہے۔بقول جیالنی کامران
تنقید ادب تک رسائی حاصل کرنے کے ٓاداب سکھاتی ہے ۔ تنقید ادب پارے اور
؎ قاری کے درمیان معنوی اور فنی اشتراک کو پیدا کرتی ہے ‘‘ ۔۳۶
الغرض اُردو ناقدین ،محققین اور قائدین اپنا ادبی رشتہ تنقید کے ساتھ جوڑے
رکھیں گے ۔
حوالہ جات
ڈاکٹر عبادت بریلوی ،اُردو تنقید کا ارتقائ،کراچی ،انجمن ترقی اُردو ۱ ؎ ۲۰۰۱ ،
ء ،ص ۴۶
؎۲ ڈاکٹرسلیم اختر ،تنقیدی دبستان ،الہور ،سنگ میل پبلی کیشنز ۱۹۹۷ء ،ص
۱۶
؎۳ عارفہ صبح خان ،اُردو تنقید کا اصلی چہرہ ،الہور ،علم و عرفان پبلشرز۲۰۰۹ ،ء
ص ۳۹
ڈاکٹر جمیل جالبی ،ارسطو سے ایلیٹ تک ،اسالم ٓاباد ،نیشنل بک فائونڈیشن ۴ ؎ ،
۱۹۹۷ئ،ص۸۸
ڈاکٹر سجاد باقر رضوی ،مغرب کے تنقیدی اصول،اسالم ٓاباد ،مقتدرہ قومی زبان۵ ؎ ،
۲۰۰۳ئ،ص ۴۱
؎۶ وارث سرہندی ،علمی اُردو لغت،الہورعلمی کتاب خانہ۱۹۷۶ ،ء ،ص۴۷۰
فیروزاللغات ،الہور ،فیروز سنز،ص ،۲۱۶س ۔ن ؎ ۷
محمد عبدہللا خان خویشگی ،فرہنگ ِ عامرہ ،اسالم ٓاباد،مقتدرہ قومی زبان ۔ ؎ ۸
۲۰۰۷ئ۱۷۰ ،
؎۹ سید عابد علی عابد ،اصول انتقا ِد ادبیات ،الہور مجلس ترقی ادب ۱۹۶۶ ،ئ ،ص
۶
ڈاکٹر سید عبدہللا ،اشارات ِتنقید ،الہور ،مکتبہ خیابان ادب ۱۹۶۶ ،ء ص ۱۰ ؎ ۷
ڈاکٹرسلیم اختر ،تنقیدی دبستان ،الہور ،سنگ میل پبلی کیشنز ۲۹۹۷ء ،ص ۱۱ ؎ ۱۵
ڈاکٹر فہم اعظمی ،ماہنامہ صریر ،کراچی ،اگست ۱۹۹۴ئ،ص۱۲؎ ۱۹
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ،گیارھواں ایڈیشن ،برطانیہ،ص۱۳؎ ۴۱۱
ڈاکٹر وزیر ٓاغا،تنقید اور مجلسی تنقید ،سرگودھا ،مکتبہ اُردو زبان ۱۹۷۶ ،ء ص۱۴ ؎ ۹
ڈاکٹر وزیر ٓاغا،تنقید اور جدید اُردوتنقید ،نئی دہلی ،مکتبہ جامعہ ۱۹۸۹ ،ء ،ص ۱۵؎ ۱۸
ڈاکٹر سجاد باقر رضوی ،مغرب کے تنقیدی اصول،ص ۱۶؎ ۱۶
ڈاکٹر سالمت ہللا ،ادبی تنقید ،مشمولہ ٓازادی کے بعد دہلی میں اُردوتنقید ،مرتبہ ؎۱۷
شارب ردولوی دہلی ،اُردو اکادمی۲۰۱۱،ء ص۱۹
کلیم الدین احمد ،اُردو تنقید پر ایک نظر ،الہور ،عشرت پبلشنگ ہائوس۱۹۶۵ ،ء ؎۱۸
ص۹
ڈاکٹر عبادت بریلوی ،اُردو تنقید کا ارتقاء ص ۱۹؎ ۸۶
سید محمد نواب کریم ،اُردو تنقید حالی سے کلیم تک ،دہلی تخلیق کارپبلشرز۲۰ ؎ ،
۲۰۰۲ئ،ص۴۷
کلیم الدین احمد ،اُردو تنقید پر ایک نظر ،ص ۲۱؎ ۲۹
ڈاکٹر شیمہ رضوی ،پیش لفظ ،شعرائے اُردو کے تذکرے ،حنیف نقوی ،اترپردیش۲۲؎ ،
اُردو اکادمی ۱۹۹۸ ،ء ،ص ۷
ڈاکٹر وزیر ٓاغا،تنقید اور جدیداُردو تنقید ،دہلی ،مکتبہ جامعہ ۱۹۸۹ ،ئ ،ص۲۳؎ ۱۵۸
ڈاکٹراحسن فاروقی ۔ اُردو میںتنقدید ،کراچی ،باب االسالم پریس ۱۹۶۶ ،ء ،ص ؎۲۴
۴۵
کلیم الدین احمد ،اُردو تنقید پر ایک نظرر ،الہور ،عشرت پبلشنگ ہائوس۱۹۶۵ ،ء ؎۲۵
ص ۸۷
وقار احمد رضوی ،تاریخ ِ نقد ،کراچیٓ ،اگہی پبلی کیشنز۱۹۹۷ ،ئ،ص۲۶؎ ۱۰۰
ڈاکٹر ابراررحمانی ،کلیم الدین احمد کی تنقید کا تنقیدی جائزہ ،دہلی ،تخلیق ؎۲۷
کارپبلشرز ۱۹۹۹،ء ص ۱۵
علی حماد عباسی ،جدید اُردو تنقید پر مغرب کے اثرات ،لکھنوئ ،نصرت پبلشرز ۲۸؎،
۱۹۸۸ء ص ۲۷
انور سدید ،ادب در ادب ،الہور،مقبول اکیڈمی ۲۰۰۹ ،ء ص ۲۹؎ ۱۸
شہزاد منظر ،پاکستان مین اُردو تنقید کے پچاس سال ،کراچی ،منظر پبلی کیشنز۳۰؎ ،
۱۹۹۶ء ص ۲۴
؎۳۱ عارفہ صبح خان ،اُردو تنقید کا اصلی چہرہ ،ص ۲۲۵
ابوالکالم قاسمی ،تاثرات مشمولہ ’’ جدید ادب ‘‘ جرمنی ،شمارہ ،۱۷جوالئی تا ؎۳۲
،دسمبر ۲۰۱۱ء ،ص ۲۶۵
ڈاکٹر عبادت بریلوی ،اُردو تنقید کا ارتقاء ،ص ۳۳؎ ۴۱۱
ڈاکٹر ناصر عباس نیر ،اُردو تنقید کے پچیس سال ،مشمولہ ٓافاق ،راولپنڈی مارچ۳۴؎ ،
۲۰۰۲ء ،ص ۵۳
تحسین فراقی ،اُردو تنقید کے دس سال (۷۹۔۱۹۷۰ئ) مشمولہ سہ ماہی ؎۳۵
الزبیر،انتقادیات نمبر ،اُردو اکیڈمی بہاولپور۱۹۸۶،ء ،ص ۱۷۳
جیالنی کامران ،تنقید کا نیا پس منظر ،الہور ،اتفاق پرنٹنگ پریس ۱۹۶۴،ئ ،ص ؎۳۶
۱۱