You are on page 1of 15

‫‪{ XE "ٍ۱‬‬

‫‪ " }{ XE "ٍ۱‬صفح نمبر ٍ‬‫‪ :" }{ XE "ٍ۱‬صفح نمبر ٍ‬‫" ‪ :" }{ XE‬صفح نمبر ٍ‬
‫‪ :" }{ XE "ٍ۱‬صفح نمبر ‪۱‬‬‫سکندر حیات میکن} "‪ :‬صفح نمبر ٍ‬
‫استاد شعبہ اُردو‬
‫گورنمنٹ کالج شاہ پورصدر ‪،‬سرگودھا‬

‫" ـ" اُردو تنقیداور اُردو تنقید پر تحقیق کا جائزہ‬


‫‪Sikandar Hayat Maken‬‬
‫‪Department of urdu,Govt College Shah Pur Sadar,Sargodha .‬‬

‫" ‪" URDU TANQEED AUR URDU TANQEED PER TAHQEEQ‬‬

‫‪In This article , Urdu criticisim has been discussed. It‬‬


‫‪throws light on the journey of Urdu criticism. Many a critical attempts‬‬
‫‪have been done on urdu criticism. This article‬‬ ‫‪provides good‬‬
‫‪introduction to these critical attemps .‬‬

‫فن تنقید ‪،‬انسانی شعور کی معراج کے ساتھ وابستہ ہے ۔ قدرت نے انسان کوسوچنے‬
‫اور سمجھنے کی صالحیت عطا کی ہے ۔ انسان اپنے گردوبیش کی زندگی اور چارسُو‬
‫کائنات میں پھیلے ہوئے مظاہر فطرت پر غور کرتا ہے اور نمو پاتی زندگی کو مختلف‬
‫زاویوں سے دیکھتا ہے ۔تنقید کے ابتدائی نقوش انسانی شعور اور اس شعور کی روشنی‬
‫میں ذہن میں پیدا ہونے والے سواال ت اور اعترافات کی صورت میں نظر ٓاتے ہیں ۔‬
‫‪ :‬ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں‬
‫انسان نے ایک تنقیدی شعورہی کے ماتحت اپنا تخلیقی کارنامہ پیش کیا ۔ وہ ’’‬
‫تنقیدی شعور پہلے زندگی سے دو چار ہوا ۔اس نے اس کے سارے نشیب و فرازکو دیکھا‬
‫؎ اور تخیل کے سہارے اسے فن کی صورت د ے دی ۔‘‘ ‪۱‬‬
‫ادبی تنقید کی ابتدا افالطون اور ارسطو سے پہلے ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر سلیم اختر‬
‫کے بقول تنقید چار ہزار برس پُرانی ہے ۔ ‪؎ ۲‬جب کہ عارفہ صبح خان اسے پانچ ہزار‬
‫‪ :‬سال پُرانا قرار دیتی ہیں ۔وہ لکھتی ہیں‬
‫مصر کے میوزیم میں فرعون کے اہرام میں مصری رسم الخط میں ایسے کئی ’’‬
‫ادبی نسخے موجودہیں جن سے پانچ ہزار سال پہلے کے مصریوں میں پائے جانے والے‬
‫ادبی رویے اور تنقیدی بصیرت کے ثبوت فراہم ہوتے ہیں ۔پانچ ہزار سال سے مصر ‪،‬‬
‫؎ یونان اور روم میں علم و ادب ترقی یافتہ صورت میں موجود تھا۔‘‘ ‪۳‬‬
‫یہ بات درست ہے کہ افالطون اور ارسطو سے پہلے تنقیداور تنقیدی شعور کی‬
‫جھلکیاں ملتی ہیںلیکن تنقید کا باقاعدہ ٓاغاز اور تنقید کے سلسلے کو تقویت ارسطو کی‬
‫‪ :‬بوطیقاہی کے ذریعے ملتی ہے ۔ ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں‬

‫جو سوال ارسطو نے اٹھائے تھے وہ ٓاج بھی زندہ ہیںاور ادبی تنقید کے المتناہی ’’‬
‫سلسلے کا ٓاغازکرتے ۔ہیں ‪ ،‬اس وجہ سے ذہن انسان کی تاریخ میں بوطیقا ایک دائمی اہمیت‬
‫ہے ۔بو طیقا کے بغیر ٓاپ کا مطالعہ نامکمل ہے ۔ اس کے بغیر ٓاپ مغرب کی قدیم و‬
‫؎ جدیدتنقیدی و ادبی روایت کو نہیں سمجھ سکتے۔‘‘ ‪۴‬‬
‫ادبی تنقید کے سفر میں ارسطو کی بوطیقا بہت معاون ثابت ہوئی ہے اور اس نے‬
‫مشرق و مغرب کے تنقیدی نظریا ت کو متاثرکیا ہے ۔ڈاکٹرسجاد باقر رضوی اس ضمن‬
‫‪ :‬میںلکھتے ہیں‬
‫تنقیدی تصورات کے ارتقا میں بوطیقاکے نظریات ایک عظیم اہمیت کے حامل ہیں’’‬
‫۔ارسطو کے اس رسالے نے ہرعہد ادبی تصورات اور تنقیدی نظریات کو متاثر کیا ہے ۔‘‘‬
‫؎ ‪۵‬‬
‫کا اُردو مترادف ہے ۔ تنقید کھرے اور کھوٹے اور ‪ Criticism‬تنقید ‪،‬انگریزی لفظ‬
‫محاسن و معائب الگ کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔علمی اُردو لغت میں تنقید‬
‫کے معنی جانچ ‪ ،‬پرکھ‪ ،‬تمیز ‪ ،‬کھرے کھوٹے میں تمیز ۔ ‪ ؎ ۶‬فیروز اللغات میں تبصرہ‬
‫‪،‬نکتہ چینی‪ ؎ ۷ ،‬جبکہ فرہنگ عامرہ میںتنقید کے معنی پرکھنا کے ہیں ۔ ‪ ؎ ۸‬سید عابد‬
‫‪ :‬علی عابداس لفظ کے حوالے سے لکھتے ہیں‬
‫برٓامد ‪ Grable‬اس کا ماخذ عربی لفظ ’’ غربال ‘‘ ہے جس سے انگریزی کلمہ’’‬
‫سے ہے ۔ ‪ Cret‬ہوا ہے ۔ غر بال کی اصل الطینی ہے اور اس الطینی اصل کا تعلق کلمہ‬
‫؎ کے معنی پھٹکنا ‪ ،‬چھان پھٹک کرنا ’’۔ ‪Cret ۹‬‬
‫‪ :‬ڈاکٹر سید عبدہللا لفظ تنقید کے حوالے سے لکھتے ہیں‬
‫ـ‬ ‫’’عربی اور فارسی کی کتابوں میں تنقید کے لئے چندلفظ اور بھی ملتے ہیں ۔ان میں‬
‫موازنہ ‪،‬محاسمہ اور تقریظ اہم ہیں لیکن درحقیقت یہ تنقید کے بعض خاص طریقوں کے نام‬
‫؎ ہیں ‪،‬تنقید کے قائم الفاظ نہیں۔ ‘‘ ‪۱۰‬‬
‫‪ :‬ڈاکٹر سلیم اخترکے بقول‬
‫تنقید کا اصل منصب ’’قصیدہ در مدح ‘‘ نہیں بلکہ تخلیقات کے حوالے سے عہد ’’‬
‫اس کی اقدار اور معائیرکا مطالعہ ہو نا چاہئے اور اس امر کا تعین کہ تخلیق کار کس حد‬
‫؎ تک اپنے عہد کی اقدار اور معائیر کا حامی یا باغی تھا ۔‘‘ ‪۱۱‬‬
‫اعظمی تنقید کی اصطالح کو کسی ایک فن پارے تک محدود نہیں‬
‫ٰ‬ ‫ڈاکٹر فہیم‬
‫سمجھتے بلکہ اس کا اطالق پورے سسٹم یا تھیوری پر کرتے ہیں ۔ ‪ ؎ ۱۲‬انسائیکلوپیڈیا‬
‫‪:‬بر ٹانیکا میں درج ہے کہ‬
‫کسی جمال پارے یا فن پارے کے ادبی یا فنی خصائص اور قیمت کے بارے میں ’’‬
‫؎ محاسحمہ یا فیصلہ کرنے کا فن تنقید کہالتا ہے۔ـ‘‘ ‪۱۳‬‬
‫تنقید محض نکتہ چینی یا عیب جوئی کا فن نہیں ہے بلکہ تنقیص کے ساتھ تحسین‬
‫کے پہلو کو بھی نمایاں کرتی ہے ۔ناقدین نے تنقید کی مختلف تعریفات کی ۔ہیں جس سے‬
‫ثابت ہوتا ہے کہ تنقید فن پارے کو جانچنے کا ایسا عمل ہے جو دودھ کو دودھ اورپانی‬
‫کوپانی کہتی ہے۔‬
‫وزیر ٓاغا کے بقول تنقیدجمالیاتی چکا چوند میں اضافے کا باعث بنتی ہے ۔ ‪؎ ۱۴‬‬
‫‪ :‬اسی طرح ایک اور جگہ لکھتے ہیں‬

‫ــ’’ تنقیدادب کی تقویم وتشریح کا نام ہے لیکن کیا تنقیدادب کی پُراسراریت کو پوری‬
‫طرح لینے میں کامیاب ہو سکتی ہے ؟غالبا ً نہیں ۔وجہ یہ ہے کہ پرُاسراریت خدو خال اور‬
‫؎ حدود سے ماروا ہے ‘‘۔ ‪۱۵‬‬
‫‪ :‬ڈاکٹرسجاد باقر رضوی لکھتے ہیں‬
‫ـــ’’ عمارت کے بارے میں ماہر تعمیرات اور پل کے بارے مین انجنیئرکی رائے‬
‫طلب کی جاتی ہے مگرفنون کے ناقد وہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو خواہ خود فنکار نہ‬
‫ہوں مگرفنی ذوق اور تربیت سے اس قابل ہو گئے ہوں کہ اس پرتنقیدکر سکیںاور تنقید کا‬
‫؎ بنیادی مقصد کسی فن پارے کے خصائص و نقائص ظاہر کرنے کا نام ہے ‘‘۔ ‪۱۶‬‬
‫ڈاکٹرسالمت ہللا اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ تنقید ادب کو زندگی کی شاہراہ سے‬
‫ادھر اُدھر بھٹکنے نہیں دیتی ۔ ‪ ؎ ۱۸‬جبکہ کلیم الدین احمد تنقیدی اصولوںـ پر زیادہ زور‬
‫‪ :‬دیتے ہیں اور لکھتے ہیں‬
‫اگر ٓاپ کاشت کاری کے اصول سے واقف نہیں ہیں توٓاپ کسان نہیں بن سکتے ’’‬
‫؎ اسی طرح اگر ٓاپ اصول تنقیدسے واقف نہیں توٓاپ نقاد نہیں بن سکتے ‘‘۔ ‪۱۸‬‬
‫تنقید زندگی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلتی ہے ۔تنقیداورزندگی ایک دوسرے کے‬
‫لئے ناگزیر ہیں اسی طرح ادب میں بھی تنقید الز م ہے کیونکہ تنقیدکے بغیرادب کاوجود‬
‫‪:‬بے معنی ہے ۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں‬
‫تنقید کے بغیر چلنا تو درکنار‪،‬بغیر تنقیدکے صحیح ادب پیش ہی نہیں کیا جاسکتا’’‬
‫اگر تنقیدنہ ہو تو ادب کا وجود باقی نہ رہے‪،‬تنقیدفنکاراوراسـ کے تخلیقات کے معیار کو‬
‫؎ بلند کرتی ہے اور اس کو صحیح معنوں میں ادب اور فن بناتی ہے ‘‘۔ ‪۱۹‬‬
‫اُردو میں تنقیدکے ابتدائی نقوش تذکروں میں ملنے والی داد اور خودتذکروںمیں ملتے‬
‫ہیں ۔لیکن تذکرے اُردو تنقید کے ابتدائی نقوش کو مدھم صورت میں پیش کرتے ہیں جو‬
‫‪ :‬تنقیدکے نقش کو واضح نہیں کر پاتے ۔سید محمد نواب کریم اس ضمن میں لکھتے ہیں‬
‫تذکروں کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ ان سے کوئی تاریخی ‪ ،‬سوانحی یا ’’‬
‫تنقیدی معلومات کے حصول کی امید نہیں کی جا سکتی۔ تذکرہ لکھنے والوں کا مطمع ایک‬
‫معمولی یاداشت سے زیادہ نہ تھا۔ معلومات کے سلسلے میں غورو فکر اور چھان بین کی‬
‫؎ وہ ضرور ت بھی محسوس نہیں کرتے ۔‘‘ ‪۲۰‬‬
‫جب کہ کلیم الدین احمد تذکروں کو تاریخی اہمیت تو دیتے ہیں لیکن تنقید ی اہمیت‬
‫‪ :‬نہیں دیتے وہ لکھتے ہیں‬
‫ان تذکروں کی اہمیت تاریخی ہے ۔ ان کی دنیائے تنقید میں کوئی اہمیت نہیں ۔ہمیں ’’‬
‫تذکروں سے کچھ سیکھنا نہیں ہے ۔جہاں تک تنقید کا واسطہ ہے ۔ ان تذکروں کا ہونا‬
‫؎ ناہوتابرابر ہے ۔‘‘ ‪۲۱‬‬
‫تذکروں کی اہمیت سے یو ں انکار ممکن نہیں ہے ۔تنقیدکی دھندلی تصویر کسی نہ‬
‫کسی صورت میں تذکروں سے ضرور بنتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ یہ بات اپنی جگہ‬
‫درست ہے کہ اسے باقاعدہ تنقید کا نام نہیں دیا جاسکتا لیکن اُردو تنقید کاابتدائی ڈھانچہ‬
‫تذکروں سے کسی نہ کسی صورت میں ضرور مستفید ہوتا ہے ۔ڈاکٹر شیمہ رضوی اس‬
‫‪ :‬حوالے سے لکھتی ہیں‬

‫بھال ہو بیاضوں اور کشکولوں کا جو ذاتی شغف کی بنا پر تیار کیے گئے اور ’’‬
‫تذکروں کا جنھوں نے نہ صرف ما ضی کی تاریکیوں میں پنہاں کوائف کو اپنے دامن‬
‫عافیت میں لے کر ہم تک پہنچایا بلکہ فن ِ نقدو تبصرہ کے ابتدائی نقوش بھی فراہم کئے‘‘۔‬
‫؎ ‪۲۲‬‬
‫اُردوتنقیدکا ٓاغاز محمد حسین ٓازاد سے ہوتا ہے ۔وزیر ٓاغاکے بقول تاریخی اعتبار‬
‫سے محمد حسین ٓازاد کو اولیت کادرجہ حاصل ہے کیونکہ انھوں نے اپنے تنقیدی موقف کا‬
‫اظہارمقدمہ شعرو شاعری سے ‪ ۲۶‬برس پہلے ‪ ۱۵‬اکست ‪ ۱۸۶۷‬؁ء کو انجمن پنجاب‬
‫کے ایک جلسے میں کیا تھا ‪،‬لیکن اُردو میں پہلی بارنظری تنقید کے حوالے سے اولیت‬
‫حالی کو حاصل ہے ۔‪ ؎ ۲۳‬اسی طرح ڈاکٹراحسن فاروقی نے بھی مقدمہ شعرو شاعری‬
‫کو اُردو کی پہلی تصنیف قرار دیا ہے جس میں ادب اور زندگی کے تعلق کا مسئلہ چھیڑا‬
‫گیا ہے ۔ ‪ ؎ ۲۴‬کلیم الدین احمد بھی اُردو تنقید کی ابتداحالی سے ہی کرتے ہیں ۔‬
‫‪ :‬بقول کلیم الدین احمد‬
‫اُردو تنقید کی ابتدا حالی سے ہوتی ہے۔ حالی نے سب سے پہلے جزئیات سے ’’‬
‫؎ قطع نظر کی اور بنیادی اصول پرغور و فکر کیاہے‘‘ ‪۲۵‬‬
‫حالی سے اُردو تنقید کا باقاعدہ ٓاغاز ہوتا ہے اور حالی کی تصنیف ’’ مقدمہ‬
‫شعروشاعری ‘‘ ادب میں نئے راستوں کا تعین کرتی ہے اور اُردو تنقید کو ترقی کی راہ‬
‫‪ :‬پر گامزن کرتی ہے ۔وقار احمد رضوی اس حوالے سے لکھتے ہیں‬
‫حالی نے جو کام کیا وہ یہ کہ شاعروں کو ایک صاف راستے پر چلنے کی ہدایت ’’‬
‫کی ‪،‬گھسے پٹے مضامین‪ ،‬غزل سے اجتناب کی دعوت دی۔مقدمے کا فائدہ ہوا کہ ادب کا‬
‫؎ کینوس وسیع ہوا ‘‘۔ ‪۲۶‬‬
‫درج باال ناقدین کی ٓارا سے پتا چلتا ہے کہ اُردو تنقید کا باقاعدہ ٓاغاز حالی سے‬
‫ہوتاہے اور حالی کے تنقیدی نظریات اُردو تنقید میں وسعت کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں ۔‬
‫اُردوتنقید کی تاریخ کے حوالے سے بھی ایک بات واضح ہوتی ہے کہ یہ اتنی زیادہ پرانی‬
‫‪ :‬نہیں ہے ۔ڈاکٹر ابرار رحمانی اس بارے میںلکھتے ہیں‬
‫اُردو تنقید کی تاریخ پرانی نہیں ہے ۔شائدسب سے بڑی وجہ فارسی ادب کا تتبع ’’‬
‫ہے جہاں تنقید کی روایت بہت زیادہ مضبوط نہیں ۔فارسی میں اگرتنقید ہے بھی توزیادہ تر‬
‫؎ علم بیان اور علم بدیع تک ہی محدودہے ‘‘۔ ‪۲۷‬‬
‫حالی کے معاصرین نے اور بعد میں ٓانے والے ناقدین نے اُردوتنقید کو مزید‬
‫مستحکم کیا ۔حالی کے بعد شبلی ‪،‬عبدالحق‪ٓ ،‬ال احمد سرور‪ ،‬اختر حسین رائے پوری ‪،‬‬
‫مجنوں گورکھپوری ‪ ،‬احتشام حسین ‪،‬کلیم الدین احمد ‪ ،‬احسن فاروقی ‪ ،‬اور دیگرناقدین نے‬
‫اُردو تنقید کے ارتقا کو جاری رکھا ۔ ٓاگے چل کر تنقید میں بالخصوص محمد حسن عسکری‬
‫‪،‬شمس الرحمن فاروقی اور وارث علوی جسے ناقدین میںمغربی اثرات کی تقلید واضح‬
‫دکھائی دینے لگی ۔علی حماد عباس کے بقول ایک نام نہادرحجان پیدا ہوگیا جس میں جب‬
‫تک مغرب کے حوالے سے کوئی بات نہ کہی جائے اس میں وزن اور معنی پیدا نہ ہوتے‬
‫اور یہی مغربی پیروی ہے ۔‪ٓ ؎ ۲۸‬ازادی(‪ ۹۴۷‬ا؁ ئ) کے بعد بھی اُردو تنقید نے اپنا‬
‫سفر جاری رکھا ۔پاکستان کے وجود میں ٓاجانے کے بعد اُردو تنقید کوترقی پسند تحریک‬
‫نے مزید تقویت دی ۔بقول انورسدیدجو اہم ترقی پسند نقاد اُبھرے‪،‬ان میں ممتاز حسین ‪،‬حنیف‬
‫‪،‬مجتبی حسین ‪،‬عتیق احمد ‪،‬ظہیر کاشمیری ‪ ،‬سحر‬ ‫ٰ‬ ‫فوق ‪،‬انجم اعظمی‪،‬محمد علی صدیقی‬
‫انصاری ‪،‬عابد حسن منٹو‪،‬شہزادمنظر‪،‬صفدر میر ‪،‬عبادت بریلوی ‪ ،‬وقارعظیم ‪،‬احمد ندیم‬
‫قاسمی اور فیض احمد فیض وغیرہ شامل ہیں ۔ ‪ ؎ ۲۹‬پاکستان میں ٓازادی کے بعد اُردو‬
‫تنقید اور اُردوتنقید کے مختلف پہلوئوں ‪ ،‬اقسام اور تنقید ی نظریات پر کافی کام ہوا ۔ یہ‬
‫الگ بات کہ تنقیدکو روایتی سانچوں میں ہی پرکھا گیا ہے ۔لیکن اُردو تنقید نے پاکستان میں‬
‫اپنادامن وسیع کیا ہے۔‪ ۱۹۴۷‬؁ء سے ‪ ۲۰۱۲‬؁ء تک ‪ ۶۵‬سالوں میں نقادوں کی اچھی‬
‫خا صی تعداد سامنے ٓائی ہے گو ان ناقدین میں اہم نقاد انگلیوںـ پر گنے جاسکتے ہیں ۔‬
‫‪ :‬شہزادمنظر اس ضمن میں لکھتے ہیں‬
‫گذشتہ پچاس سال کی تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے جو بات اہم اور نمایا ںنظر ٓائی وہ یہ ہے’’‬
‫کہ قیام پاکستان کے بعد اُردو کا جائزہ لینے میں کئی نئے علوم سے استفادہ کرنے کا خیال‬
‫عام ہوا۔ اس سے قبل ادب کے مطالعے میں زیادہ تر معاشی ‪ ،‬جمالیاتی عمرانی اور نفسیاتی‬
‫علوم سے استفادہ کیا جاتاتھا لیکن اس میں علم االنسان (مبشریات ) کے ساتھ لسانیات‪،‬‬
‫؎ تہذیبی تاریخ اور ساختیات سے بھی مدد لینے کا رحجان عام ہوا ‘‘۔ ‪۳۰‬‬
‫ٓازادی کے بعد بھارت میں بھی تنقید کو خاص پذیرائی ہوئی اور تنقید نے فکری‬
‫سانچوں میں اپنا سفر جاری رکھا ۔پاکستان اور بھارت میں لکھی گئی تنقید کا تقابلی جائزہ‬
‫اپنی جگہ ایک الگ موضوع ہے ۔ لیکن پاکستان کی نسبت بھارت میں تنقیدی کام زیادہ‬
‫ہواہے ۔‬
‫بھارت کے اہم کے اہم نقادوں میں ٓال احمدسرور ‪،‬علی عباس حسینی ‪ ،‬شمس الرحمن‬
‫فاروقی ‪،‬اختر اور نیوی ‪ ،‬شمیم حنفی ‪،‬ڈاکٹر محمد حسن ‪ ،‬مجنوں گورکھپوریـ ‪،‬فراق‬
‫گورکھپوری ‪،‬گوپی چند نارنگ ‪،‬خلیق انجم ‪ ،‬شارب ردولوی‪ ،‬وارث علوی‪ ،‬عبدالستار دلوی‬
‫‪ :‬وغیرہ زیادہ اہم ہیں ۔عارفہ صبح خان بھارت میں اُردو تنقیدکے حوالے سے لکھتی ہیں‬
‫بھارت میں دوسرے درجے کے کم و بیش دوسو نقاد مزیدہیں جو اپنی بساط کے ’’‬
‫مطابق دنیائے اُردومیں ساکھ بنانے کی سعی میں مشغول ہیں اور اگر یہ کہا جائے بھارت‬
‫میں اُردو قومی زبان نہ ہونے کے باوجوداُردوادب و نقد پر بکثرت اورمبسوط کام ہو رہا‬
‫؎ ہے ۔ تو یہ بالکل مبنی بر حقیقت ہے ‘‘ ‪۳۱‬‬
‫اُردو تنقید کا یہ سفر اپنے ارتقائی عمل کے ساتھ جاری ہے جس میں نئے امکانات‬
‫اور نئی تنقیدی تھیوریاں جنم لیں گی۔اُردو تنقید مین مغربی تنقید کی شناسائی کا عمل بھی‬
‫تیزی سے جاری ہے ۔ اس حوالے سے ڈاکٹر ناصر عباس نیرکی خدمات قابل تحسین ہیں۔‬
‫‪ :‬ابوالکالمـ قاسمی اس حوالے سے لکھتے ہیں‬
‫ـ’’ ناصر عباس نیر کا نام اُردو کے تنقیدی منظر نامے میں بہت ہی کم عرصے میں‬
‫اعتبار حاصل کرچکا ہے ۔ مغربی تنقید سے عمومی دلچسپی اور نئے تنقیدی نظریات سے‬
‫گہری وابستگی ان کی شناخت ہے۔ گزشتہ پندرہ برسوں میں ساختیات اور مابعد ساختیات‬
‫؎ ‪،‬مسائل ومضمرات نے اُردوتنقیدی صورت حال کوخاصا مغرب ٓاشنا کردیا ہے ۔‘‘ ‪۳۲‬‬

‫اُردو اد ب میں تنقیداپنے پورے وجود کو ثابت کر چکی ہے اور ادب کے وجود کا‬
‫انحصار بھی تنقید کے وجود کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے ۔نہ صرف ادب بلکہ زندگی کے لئے‬
‫بھی تنقید کا وجود ناگزیر ہوتا ہے اور یہی تنقید معاشروں اور قوموں میں ادبی وقار‬
‫‪ :‬ومعیارکو زندہ بھی رکھتی ہے ۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں‬
‫ت نمو کی مظہرتھی ۔اس کا عمل دہرا ہوتا ہے ۔ ’’‬‫تنقید بھی کسی قوم کی ادبی قو ِ‬
‫یعنی وہ عام ادب سے متاثربھی ہوتی ہے اور اسے متاثر بھی کرتی ہے ۔اس کے معیاربھی‬
‫انھی حاالت و افکار کے نتیجے میں صورت پذیر ہوتے ہیں ‪ ،‬اُردو ادب نے جس وقت ٓانکھ‬
‫کھولی ‪ ،‬ہر طرف فارسی کا دور دورہ تھا ۔ اس کے سامنے فارسی ادب ہی کے نمونے‬
‫؎ تھے ۔چنانچہ وہ فارسی ادب ہی سے متاثر ہو ا‘‘۔ ‪۳۳‬‬
‫زندگی کے بنیادی معامالت اور نظریات تنقید میں اساسی اہمیت کے حامل ہوتے‬
‫ہیں ۔لہذا ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ علم و ادب میں ان کی اہمیت الز م و‬
‫‪ :‬ملزوم ہے ۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر اس ضمن میں لکھتے ہیں‬
‫علم و ادب میں اگر کسی رجحان یا نظریے کی بنیاد زندگی کے بنیادی معامالت’’‬
‫اور دائمی سواالت پر استوار ہو تو اسے طاقت یا تشہیر کے زور پر منظر سے ہٹانا محال‬
‫ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایک عہد میں مختلف ادبی رحجانات اور تنقید ی نظریات ایک‬
‫دوسرے کے متوازی سرگرم ِ عمل رہتے ہیں ۔تاہم کسی رجحان یا نظریے کی محض‬
‫؎ موجودگی اس کی عصری موزونیت یا دائمی اہمیت کی ضامن نہیں ہو سکتی ۔‘‘ ‪۳۴‬‬
‫اُردو تنقید نے ہر طرح کے عصری حاالت و واقعات میں اپنا تنقید ی سفر جاری‬
‫رکھا ہے ۔وسیع تناظر میںدیکھا جائے تو ادب کی دیگر جہتوں میں تنقید ی کام اپنی سرعت‬
‫کے ساتھ اُردو ادب کے گلزارمیںـ اپنی خوشبو پھیالتا رہا ہے ۔‬
‫بعض ناقدین نے تنقید کو تحقیق کی کسوٹی پر بھی پرکھنے کی کاوش کی ہے ۔‬
‫اردو تنقید کے فکری و فنی مباحث پر بہت سی کاوشیں منظر عام پر ٓائیں ہیں لیکن اُردو‬
‫تنقید پر جو تحقیقی نوعیت کا کام ہوا ہے ‪ ،‬اس کی فہرست درج ذیل ہے جو زمانی ترتیب‬
‫حرف ٓاخر نہیں ہے ۔‬
‫ِ‬ ‫سے دی جارہی ہے۔ یہ فہرست‬

‫اُردوتنقید کا ارتقا ءُ‬


‫عبادت بریلو ی‬
‫ء‪۱۹۵۱‬‬
‫انجمن ترقی اُردو ‪،‬کراچی‬
‫تنقید اور عملی تنقید‬
‫احتشام حسین‬
‫ء‪۱۹۵۲‬‬
‫ٓازاد کتاب گھر دہلی‬
‫روح تنقید‬
‫ِ‬
‫محی الدین قادری زور‬
‫ء‪۱۹۵۵‬‬
‫مکتبہ معین االدب الہور‬
‫اُردو تنقید پر ایک نظر‬
‫کلیم الدین احمد‬
‫ء‪۱۹۶۵‬‬
‫عشرت پبلشنگ ہائوس الہور‬
‫اصول انتقا ِدادبیات‬
‫عابد علی عابد‬
‫ء‪۱۹۶۶‬‬
‫مجلس ترقی ادب الہور‬
‫اُردو میں تنقید‬
‫احسن فاروقی‬
‫ء‪۱۹۶۶‬‬
‫باب االسالم پریس کراچی‬
‫ت تنقید‬
‫اشارا ِ‬
‫سیدعبدہللا‬
‫ء‪۱۹۶۶‬‬
‫مکتبہ خیابان الہور‬
‫متنی تنقید‬
‫خلیق انجم‬
‫ء‪۱۹۶۷‬‬
‫مکتبہ جامعہ دہلی‬
‫اُردو تنقید میں نفسیاتی عناصر‬
‫سید محمودالحسن‬
‫ء‪۱۹۶۷‬‬
‫ادارہ فروغ اُردو لکھنو‬
‫نفسیاتی تنقید‬
‫سلیم اختر‬
‫ء‪۱۹۸۶‬‬
‫مجلس ترقی ادب الہور‬
‫جدیداُردو تنقید پر مغرب کے اثرات‬
‫علی حماد عباسی‬
‫ء‪۱۹۸۸‬‬
‫نصرت پبلشرز لکھنو‬
‫تنقید اور جدید اُردو تنقید‬
‫وزیرٓاغا‬
‫ئ‪۱۹۸۹‬‬
‫ٍ‬
‫انجمن ترقی اُردو ‪،‬کراچی‬
‫ادبی تنقید اورا سلوبیات‬
‫گوپی چند نارنگ‬
‫ء‪۱۹۸۹‬‬
‫ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس نئی دہلی‬
‫مشرقی شعریات اور اُردو تنقید کی روایت‬
‫ابوالکالم قاسمی‬
‫ء‪۱۹۹۲‬‬
‫ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس نئی دہلی‬
‫اُردو فکشن کی تنقید‬
‫ارتضی کریم‬
‫ٰ‬
‫ء‪۱۹۹۶‬‬
‫نئی دہلی‬
‫پاکستان میں اُردو تنقید کے پچاس سال‬
‫شہزاد منظر‬
‫ء‪۱۹۹۶‬‬
‫شہزادپبلی کیشنز کراچی‬
‫تاریخ نقد‬
‫وقار احمدرضوی‬
‫ء‪۱۹۹۷‬‬
‫ٓاگہی پبلی کیشنز کراچی‬
‫اُردو تنقید حالی سے کلیم تک‬
‫سید محمد نواب کریم‬
‫ء‪۲۰۰۲‬‬
‫تخلیق کار پبلشرز دہلی‬
‫جدیداور مابعد جدید تنقید‬
‫ناصر عباس نیر‬
‫ء‪۲۰۰۴‬‬
‫انجمن ترقی اُردو کراچی‬
‫تنقید اور اسلوبیاتی تنقید‬
‫مرزاخلیل احمد‬
‫ء‪۲۰۰۵‬‬
‫مسلم یونیورسٹی علی گڑھ‬
‫امتزاجی تنقید کا سائنسی اور فکری تناظر‬
‫وزیر ٓاغا‬
‫ء‪۲۰۰۷‬‬
‫اُردو سائنس بورڈ الہور‬
‫اُردو تنقید کا اصلی چہرہ‬
‫عارفہ صبح خان‬
‫ء‪۲۰۰۷‬‬
‫علم و عرفان پبلشرز الہور‬

‫ٓازادی کے بعد لکھی گئی ان تنقیدی کتب میں زیادہ تر تحقیقی نقطہ نظر سے‬
‫اُردو تنقیدکا جائزہ لیا گیا ہے ۔درج باال کتب میں بعض کتابوں میں تحقیق کی کارفرمائی‬
‫زیادہ ہے اور بعض میں نیم تحقیقی انداز اپنایا گیا ہے ۔ ‪۱۹۴۷‬ء سے ‪۲۰۱۲‬ء تک ان ‪۶۵‬‬
‫برسوں میں اُردو تنقید پر تحقیقی نقطہ نظر سے کی گئی کوششیں اہم ہیں ۔تنقید پر خالص‬
‫تحقیقی نوعیت کی کاوشیںبہرحال کم ہیں ۔‬
‫اُردو تنقید اور اُردو تنقید پر کی گئی تحقیق کی داستان نشیب و فراز کی کہانی ہے‬
‫تحسین فراقی‬
‫ِ‬ ‫‪:‬جو مختلف ادوار کے فکری رجحانات سے متاثر ہوتی رہی ہے ۔ بقول‬
‫ـــ’’تہذیبی انحطاط اور فکری انتشار کے دور میں جہاں زندگی کے دوسرے‬
‫؎ شعبے متاثر ہوتے ہیں وہاں تنقید کا متاثر ہونا بھی اعجوبہ نہیں ‘‘۔ ‪۳۵‬‬
‫اُردو تنقید اور اُردو تنقید پر کی جانے والی تحقیقی و تنقیدی کاوشیں قاری کا رشتہ‬
‫ادب کے ساتھ جوڑتی ہیں ۔ یہ کاوشیں جہاں تنقید کے مختلف پہلوئوںـ کو اُجاگر کرتی ہیں‬
‫ت فکر بھی دیتی ہیں کیونکہ تنقید کی تعلیم قاری کو‬
‫وہاں تنقید کے تشنہ پہلوئوں پر دعو ِ‬
‫‪ :‬ادب شناس کرتی ہے۔بقول جیالنی کامران‬
‫تنقید ادب تک رسائی حاصل کرنے کے ٓاداب سکھاتی ہے ۔ تنقید ادب پارے اور‬
‫؎ قاری کے درمیان معنوی اور فنی اشتراک کو پیدا کرتی ہے ‘‘ ۔‪۳۶‬‬
‫الغرض اُردو ناقدین ‪ ،‬محققین اور قائدین اپنا ادبی رشتہ تنقید کے ساتھ جوڑے‬
‫رکھیں گے ۔‬
‫حوالہ جات‬

‫ڈاکٹر عبادت بریلوی‪ ،‬اُردو تنقید کا ارتقائ‪،‬کراچی ‪،‬انجمن ترقی اُردو ‪۱ ؎ ۲۰۰۱ ،‬‬
‫ء ‪،‬ص ‪۴۶‬‬
‫؎‪۲‬‬ ‫ڈاکٹرسلیم اختر ‪ ،‬تنقیدی دبستان ‪ ،‬الہور ‪ ،‬سنگ میل پبلی کیشنز ‪۱۹۹۷‬ء ‪ ،‬ص‬
‫‪۱۶‬‬
‫؎‪۳‬‬ ‫عارفہ صبح خان ‪ ،‬اُردو تنقید کا اصلی چہرہ‪ ،‬الہور ‪،‬علم و عرفان پبلشرز‪۲۰۰۹ ،‬ء‬
‫ص ‪۳۹‬‬
‫ڈاکٹر جمیل جالبی ‪ ،‬ارسطو سے ایلیٹ تک ‪ ،‬اسالم ٓاباد ‪،‬نیشنل بک فائونڈیشن ‪۴ ؎ ،‬‬
‫‪۱۹۹۷‬ئ‪،‬ص‪۸۸‬‬
‫ڈاکٹر سجاد باقر رضوی ‪ ،‬مغرب کے تنقیدی اصول‪،‬اسالم ٓاباد‪ ،‬مقتدرہ قومی زبان‪۵ ؎ ،‬‬
‫‪۲۰۰۳‬ئ‪،‬ص ‪۴۱‬‬
‫؎‪۶‬‬ ‫وارث سرہندی ‪،‬علمی اُردو لغت‪،‬الہورعلمی کتاب خانہ‪۱۹۷۶ ،‬ء ‪،‬ص‪۴۷۰‬‬
‫فیروزاللغات ‪ ،‬الہور‪ ،‬فیروز سنز‪،‬ص ‪،۲۱۶‬س ۔ن ؎ ‪۷‬‬
‫محمد عبدہللا خان خویشگی ‪ ،‬فرہنگ ِ عامرہ ‪ ،‬اسالم ٓاباد‪،‬مقتدرہ قومی زبان ۔ ؎ ‪۸‬‬
‫‪۲۰۰۷‬ئ‪۱۷۰ ،‬‬
‫؎‪۹‬‬ ‫سید عابد علی عابد ‪ ،‬اصول انتقا ِد ادبیات‪ ،‬الہور مجلس ترقی ادب ‪۱۹۶۶ ،‬ئ‪ ،‬ص‬
‫‪۶‬‬
‫ڈاکٹر سید عبدہللا‪ ،‬اشارات ِتنقید ‪،‬الہور‪ ،‬مکتبہ خیابان ادب ‪۱۹۶۶ ،‬ء ص ‪۱۰ ؎ ۷‬‬
‫ڈاکٹرسلیم اختر ‪ ،‬تنقیدی دبستان ‪ ،‬الہور ‪ ،‬سنگ میل پبلی کیشنز ‪۲۹۹۷‬ء ‪ ،‬ص ‪۱۱ ؎ ۱۵‬‬
‫ڈاکٹر فہم اعظمی ‪،‬ماہنامہ صریر‪ ،‬کراچی ‪ ،‬اگست ‪۱۹۹۴‬ئ‪،‬ص‪۱۲؎ ۱۹‬‬
‫انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ‪ ،‬گیارھواں ایڈیشن ‪،‬برطانیہ‪،‬ص‪۱۳؎ ۴۱۱‬‬
‫ڈاکٹر وزیر ٓاغا‪،‬تنقید اور مجلسی تنقید ‪ ،‬سرگودھا ‪ ،‬مکتبہ اُردو زبان ‪۱۹۷۶ ،‬ء ص‪۱۴ ؎ ۹‬‬
‫ڈاکٹر وزیر ٓاغا‪،‬تنقید اور جدید اُردوتنقید ‪،‬نئی دہلی ‪ ،‬مکتبہ جامعہ ‪۱۹۸۹ ،‬ء ‪،‬ص ‪۱۵؎ ۱۸‬‬
‫ڈاکٹر سجاد باقر رضوی ‪ ،‬مغرب کے تنقیدی اصول‪،‬ص ‪۱۶؎ ۱۶‬‬
‫ڈاکٹر سالمت ہللا ‪ ،‬ادبی تنقید ‪ ،‬مشمولہ ٓازادی کے بعد دہلی میں اُردوتنقید ‪،‬مرتبہ ؎‪۱۷‬‬
‫شارب ردولوی دہلی ‪ ،‬اُردو اکادمی‪۲۰۱۱،‬ء ص‪۱۹‬‬
‫کلیم الدین احمد ‪ ،‬اُردو تنقید پر ایک نظر ‪ ،‬الہور ‪،‬عشرت پبلشنگ ہائوس‪۱۹۶۵ ،‬ء ؎‪۱۸‬‬
‫ص‪۹‬‬
‫ڈاکٹر عبادت بریلوی‪ ،‬اُردو تنقید کا ارتقاء ص ‪۱۹؎ ۸۶‬‬
‫سید محمد نواب کریم ‪ ،‬اُردو تنقید حالی سے کلیم تک ‪،‬دہلی تخلیق کارپبلشرز‪۲۰ ؎ ،‬‬
‫‪۲۰۰۲‬ئ‪،‬ص‪۴۷‬‬
‫کلیم الدین احمد ‪ ،‬اُردو تنقید پر ایک نظر ‪ ،‬ص ‪۲۱؎ ۲۹‬‬
‫ڈاکٹر شیمہ رضوی‪ ،‬پیش لفظ‪ ،‬شعرائے اُردو کے تذکرے ‪،‬حنیف نقوی ‪ ،‬اترپردیش‪۲۲؎ ،‬‬
‫اُردو اکادمی ‪۱۹۹۸ ،‬ء ‪،‬ص ‪۷‬‬
‫ڈاکٹر وزیر ٓاغا‪،‬تنقید اور جدیداُردو تنقید ‪،‬دہلی ‪ ،‬مکتبہ جامعہ ‪۱۹۸۹ ،‬ئ‪ ،‬ص‪۲۳؎ ۱۵۸‬‬
‫ڈاکٹراحسن فاروقی ۔ اُردو میںتنقدید‪ ،‬کراچی ‪ ،‬باب االسالم پریس ‪۱۹۶۶ ،‬ء ‪ ،‬ص ؎‪۲۴‬‬
‫‪۴۵‬‬
‫کلیم الدین احمد ‪ ،‬اُردو تنقید پر ایک نظرر ‪ ،‬الہور ‪،‬عشرت پبلشنگ ہائوس‪۱۹۶۵ ،‬ء ؎‪۲۵‬‬
‫ص ‪۸۷‬‬

‫وقار احمد رضوی ‪ ،‬تاریخ ِ نقد ‪ ،‬کراچی‪ٓ ،‬اگہی پبلی کیشنز‪۱۹۹۷ ،‬ئ‪،‬ص‪۲۶؎ ۱۰۰‬‬
‫ڈاکٹر ابراررحمانی ‪ ،‬کلیم الدین احمد کی تنقید کا تنقیدی جائزہ‪ ،‬دہلی ‪ ،‬تخلیق ؎‪۲۷‬‬
‫کارپبلشرز ‪۱۹۹۹،‬ء ص ‪۱۵‬‬
‫علی حماد عباسی ‪ ،‬جدید اُردو تنقید پر مغرب کے اثرات ‪ ،‬لکھنوئ‪ ،‬نصرت پبلشرز ‪۲۸؎،‬‬
‫‪۱۹۸۸‬ء ص ‪۲۷‬‬
‫انور سدید‪ ،‬ادب در ادب ‪،‬الہور‪،‬مقبول اکیڈمی ‪۲۰۰۹ ،‬ء ص ‪۲۹؎ ۱۸‬‬
‫شہزاد منظر‪ ،‬پاکستان مین اُردو تنقید کے پچاس سال ‪ ،‬کراچی ‪ ،‬منظر پبلی کیشنز‪۳۰؎ ،‬‬
‫‪۱۹۹۶‬ء ص ‪۲۴‬‬
‫؎‪۳۱‬‬ ‫عارفہ صبح خان ‪ ،‬اُردو تنقید کا اصلی چہرہ‪ ،‬ص ‪۲۲۵‬‬
‫ابوالکالم قاسمی ‪ ،‬تاثرات مشمولہ ’’ جدید ادب ‘‘ جرمنی ‪،‬شمارہ ‪ ،۱۷‬جوالئی تا ؎‪۳۲‬‬
‫‪،‬دسمبر ‪۲۰۱۱‬ء ‪ ،‬ص ‪۲۶۵‬‬
‫ڈاکٹر عبادت بریلوی‪ ،‬اُردو تنقید کا ارتقاء ‪،‬ص ‪۳۳؎ ۴۱۱‬‬
‫ڈاکٹر ناصر عباس نیر ‪ ،‬اُردو تنقید کے پچیس سال ‪ ،‬مشمولہ ٓافاق ‪ ،‬راولپنڈی مارچ‪۳۴؎ ،‬‬
‫‪۲۰۰۲‬ء ‪،‬ص ‪۵۳‬‬
‫تحسین فراقی‪ ،‬اُردو تنقید کے دس سال (‪۷۹‬۔‪۱۹۷۰‬ئ) مشمولہ سہ ماہی ؎‪۳۵‬‬
‫الزبیر‪،‬انتقادیات نمبر‪ ،‬اُردو اکیڈمی‬ ‫بہاولپور‪۱۹۸۶،‬ء ‪ ،‬ص ‪۱۷۳‬‬
‫جیالنی کامران ‪ ،‬تنقید کا نیا پس منظر‪ ،‬الہور ‪ ،‬اتفاق پرنٹنگ پریس ‪۱۹۶۴،‬ئ‪ ،‬ص ؎‪۳۶‬‬
‫‪۱۱‬‬

You might also like