You are on page 1of 4

‫‪‬‬

‫تنقید کیا ہے؟ تنقید اور تخلیق کا رشتہ‬


‫تنقید عربی کا لفظ ہے جو نقد سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی ” کھرے اور کھوٹے کو‬
‫پرکھنا “ ہے۔ اصطالح میں اس کامطلب کسی ادیب یا شاعر کے فن پارے کے حسن و قبح کا‬
‫احاطہ کرتے ہوئے اس کا مقام و مرتبہ متعین کرنا ہے۔ خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کر کے‬
‫یہ ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے کہ شاعر یا ادیب نے موضوع کے لحاظ سے اپنی تخلیقی کاوش‬
‫کے ساتھ کس حد تک انصاف کیا ہے مختصرا ً فن تنقید وہ فن ہے جس میں کسی فنکار کے‬
‫تخلیق کردہ ادب پارے پر اصول و ضوابط و قواعد اور حق و انصاف سے بے الگ تبصرہ‬
‫کرتے ہوئے فیصلہ صادر کیا جاتا ہے اور حق و باطل ‪ ،‬صحیح و غلط اور اچھے اور برے‬
‫کے مابین ذاتی نظریات و اعتقادات کو باالئے طاق رکھتے ہوئے فرق واضح کیا جاتا ہے۔ اس‬
‫پرکھ تول کی بدولت قارئین میں ذوق سلیم پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔انگریزی‬
‫میں ‪Criticism‬کہتے ہیں۔ اس کا ماخذ یونانی لفظ ‪ Krinien‬ہے۔ویسے مختلف نقادوں نے اس‬
‫کی مختلف تعریف و توصیحات کی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں‬

‫‪ ١‬۔ کسی ادب پارے میں فن پارے کے خصائص اور ان کی نوعیت کا تعین کرنا نیز کسی نقاد‬
‫کے عمل یا منصب یا وظیفہ ۔‬

‫‪٢‬۔تنقید کامل علم و بصیرت کے ساتھ اور موزوں اور مناسب طریقے سے کسی ادب پارے یا فن‬
‫پارے کے محاسن و معائب کی قدر شناسی یا اس بارے میں فیصلہ صادر کرنا ہے۔‬

‫‪٣‬۔ تنقید اس عمل یا ذہنی حرکت کا نام ہے جو کسی شے یا ادب پارے کے بارے میں ان‬
‫خصوصیات کا امتیاز کرے جو قیمت رکھتی ہے۔ بخالف ان کے جن میں قیمت نہیں۔‬

‫‪٤‬۔ محدود معنوں میں تنقید کا مطلب کسی ادب پارے کی خوبیوں اور خامیوں کا مطالعہ ہے‬
‫وسیع تر معنوں میں اس میں تنقید کے اصول قائم کرنا اور ان اصولوں کو تنقید کے لئے استعما‬
‫ل کرنا بھی شامل ہے۔‬

‫‪٥‬۔تنقید کا کام کسی مصنف کے کام کاتجزیہ ‪ ،‬اس کی مدلل توضیح کے بعد اس کی جمالیاتی‬
‫قدروں کے بارے میں فیصلہ صادر کرناہے۔‬
‫‪٧‬۔ سچی تنقید کا فرض ہے کہ وہ زمانہ قدیم کے عظیم فن کاروں کی بالترتیب درجہ بندی اور‬
‫رتبہ شناسی کرے اور زمانہ جدید کی تخلیقات کا بھی امتحان کرے۔ بلند تر نوع تنقید یہ بھی ہے‬
‫کہ نقاد کے انداز و اسلوب کا تجزیہ کرے اور ان وسائل کی چھان بین کرے جن کی مدد سے‬
‫شاعر اپنے ادراک و کشف کو اپنے قارئین تک پہنچاتا ہے۔‬

‫‪ ٩‬۔ تنقید ‪،‬فکر کا وہ شعبہ ہے جو یا تو یہ دریافت کرتا ہے کہ شاعری کیا ہے؟ اس کے مناصب‬
‫و وظائف اور فوائد کیا ہیں؟ یہ کن خواہشات کو تسکین پہنچاتی ہے؟ شاعر شاعر ی کیوں‬
‫کرتاہے؟ اور لوگ اسے کیو ں پڑھتے ہیں؟ یا پھر یہ اندازہ لگاتا ہے کہ کوئی شاعری یا نظم‬
‫اچھی ہے یا بری۔ ایلیٹ‬

‫تنقید اور تخلیق کے باہمی رشتے کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح شاعر یا ادیب‬
‫فن کی تخلیق سے پہلے کسی نہ کسی مفہوم میں ناقد ہوتا ہے۔ اسی طرح ناقد کو بھی تنقید سے‬
‫پہلے فن پارے میں مضمر تاثرات و تجربات سے اسی طرح گزرنا ہوتا ہے جس طرح اس فن‬
‫پارے کا خالق پہلے گزر چکا ہوتا ہے۔‬
‫یعنی فنکار اپنے تجربات و تاثرات کے انتخاب اور ترتیب میں ناقدانہ عمل کرتا ہے۔ عالوہ ازیں‬
‫فن کی روایت اور تکنیک سے بھی اس کی واقفیت ضروری ہے‪ ،‬جس کے باعث وہ خود اپنے‬
‫فن پر تنقیدی نظر ڈال سکتا ہے۔ جس طرح فن کی تخلیق سے پہلے فن کار اپنے مواد کے رد و‬
‫قبول اور روایت فن کے بارے میں تنقیدی عمل سے گزرتا ہے اسی طرح فن کی تخلیق کے بعد‬
‫بھی اسے ناقد بننا پڑتا ہے۔ وہ خود اپنے تخلیق کردہ فن پارے کو بہ حیثیت ناقد دیکھتا ہے۔ اس‬
‫کے حسن و قبح پر نظر ڈالتا ہے‪ ،‬اس میں ترمیم و تنسیخ کرتا ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے‬
‫ہیں کہ فن کی تخلیق سے پہلے اور فن کی تخلیق کے بعد تخلیقی فن کار ناقد کا رول ادا کرتا‬
‫ہے۔‬
‫ناقد کو بھی کچھ اسی قسم کی صورت حال درپیش ہوتی ہے۔ وہ تنقید کرنے سے پہلے کسی فن‬
‫پارے کے مشاہدات و تخیالت ‪ ،‬تجربات و تاثرات سے اسی طرح گذرتا ہے جیسے فنکار گزرا‬
‫تھا۔ وہ تخلیقی فن پارے کو اپنی ذات کا مکمل تجربہ بنا کر ہی اس کے حسن و قبح کا اندازہ کر‬
‫سکتا ہے۔ کسی نظم کا تجزیہ کرنے سے پہلے وہ اسے اپنی ذات میں حل کر تا ہے۔ یہاں تک‬
‫کہ فن کار کا تاثر اس کا اپنا تاثر اور فن کار کے جذبات اور احساسات اس کے اپنے جذبات اور‬
‫احساسات بن جاتے ہیں۔ اس کے بغیر وہ فن پارے کی ہمدردانہ وضاحت نہیں کر سکتا ۔ ظاہر‬
‫ہے کہ ایسی صورت میں ناقد کو تخلیقی فن کار کی طرح مشاہدے اور تجربات کی وسعت اور‬
‫جذبات کی شدت کا حامل ہونا چاہیے ورنہ وہ فن پارے کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے گا۔ اور‬
‫اس کے لئے وہ ہمہ وقت مطالعے اور مشاہدے سے اپنے ذوق کی تربیت کرتا ہے۔ وہ فن کا ر‬
‫کی طرح فن کی روایت اور تکنیک سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ اور کم از کم ہر اچھے ناقد سے‬
‫ہم ان تمام صالحیتوں کا تقاضا کرتے ہیں۔‬
‫تنقید اور تخلیق کے درمیان ایک اور رابطہ ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے‬
‫لئے مشعل راہ ہوتی ہیں۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ ان دونوں میں کسے اولیت ہے‪ ،‬اگر ہم ادب‬
‫کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ یہ دونوں صالحیتیں ایک دوسرے کے فروغ کے لئے‬
‫ممدو معاو ن ہوتی ہیں۔‬
‫تنقید ی اصول ہمیشہ فنی تخلیقات کی بنیاد پر استوار ہوتے اور عظیم فن پاروں سے اخذ کئے‬
‫جاتے ہیں۔ مگر ایک بار جب یہ اصول وضع کر لئے جاتے ہیں تو آیندہ فنی تخلیق کی رہنمائی‬
‫کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ارسطو نے اپنی کتاب بوطیقا میں فن کے جو اصول پیش کئے ہیں‬
‫‪ ،‬وہ اس نے یونان کے عظیم ڈرامہ نگاروں کو سامنے رکھ کروضع کئے تھے۔ لیکن ارسطو‬
‫کی بوطیقا صدیوں تک تخلیق فن کے لئے مشعل راہ بنی رہی اور آج بھی مستند ہے۔ بسا اوقات‬
‫اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔ انگلستان میں سڈنی کی تنقید کے اخالق اور اصالحی پہلو سے‬
‫متاثر ہو کر دور ِ ایلزبتھ کے مشہور شاعر سپنسر نے اپنی تمثیل فیری کوئین لکھی ۔‬
‫ہمار ے اپنے ادب کے لئے آزاد کے لیکچر اورحالی کا مقدمہ اردو شاعری کی ایک انقالبی رو‬
‫کی بنیاد ٹھہرے ۔ آزاد اورحالی نے اپنے تنقیدی تصورات کے ذریعے اردو شاعری میں‬
‫موضوع اور تکنیک کے لئے نئے راستے ہموار کئے اور اس طرح ہماری زبان میں نئے‬
‫شعری تجربات کی بنیاد ڈالی۔‬
‫اس کے باوجود تنقیدجلد ہی ایک قسم کا تعصب بھی بن جاتی ہے ۔ معاشرے کے بندھے ٹکے‬
‫اصولوں کی طرح یہ ہر فنی تخلیق کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتی ہے۔ ایسی صورت میں‬
‫تخلیق ایک انقالبی رول ادا کرتی ہے۔ یعنی یہ تنقید کے پرانے اصولوں کو توڑ کر اپنے‬
‫پرکھے جانے کے لئے نئے معیارات اور نئی کسوٹیاں بنواتی ہے۔ ورڈزورتھ اور ٹی ایس ایلیٹ‬
‫کا جو اپنے زمانے کے عظیم نقاد اور عظیم شاعر مانے جاتے ہیں‪،‬کا یہ کہنا ہے کہ ہر عظیم‬
‫فن پارہ اپنے تنقیدی اصولوں کو لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ ہم کسی ایسی تخلیق کوجو فی‬
‫الوقعی نئی ہو اور ساتھ کسی عظمت کی حامل ہو تنقید کی پرانی کسوٹی پر پرکھ نہیں سکتے ۔‬
‫اس طرح ہمیں کسی عظیم شاعر کی عظمت دیکھنا ہو تو ہم اسے یوں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ‬
‫آیاو ہ اپنے سے پہلے کے تنقیدی اصولوں میں ترمیم و تنسیخ کے لئے جواز پیدا کرتا ہے یا‬
‫نہیں۔ ایسا شاعر جو اپنے زمانے کے تنقیدی اصولوں پر مکمل طور پر پورا اترے وہ اچھا‬
‫شاعر توہو سکتا ہے عظیم شاعر نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس مقام پر ہمیں تھوڑا سا چوکنا ہو جانا‬
‫چاہیے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ہر ایسی تخلیق کو جو محض اچھنبھا پیدا کرے یا ادب کی دنیا‬
‫میں خلفشار اور انتشار کا باعث ہو عظیم شاعری کے زمرے میں شمار کر رہے ہیں؟ ہمیں‬
‫چاہیے کہ ہم ایسی تخلیقات کو سرے سے فن پارہ ماننے سے انکار کر دیں اس لئے کہ تخلیق‬
‫کے معنی بنانے کے ہیں ‪ ،‬بگاڑنے کے نہیں ‪ ،‬فن بنیادی طور پر تعمیری عمل ہے اور اس کا‬
‫تخریب و انتشار سے کوئی تعلق نہیں‬

You might also like