Professional Documents
Culture Documents
جہاں تک سیاسی زاویے کا تعلق ہے۔ تو اگر دیکھا جائے تو جنگ آزادی کے بعد چونکہ اقتدار
مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد مسلمان قوم جمود اور اضمحالل کا شکار ہو چکی تھی ۔
جبکہ ہندوئوں نے انگریزوں سے مفاہمت کی راہ اختیار کر لی اور حکومت میں اہم خدمت انجام
دے رہے تھے اوران کے برعکس مسلمان قوم جو ایک صدی پہلے تک ساری حکومت کی اجارہ
دار تھی اب حکومتی شعبوں میں اس کا تناسب کم ہوتے ہوتے ایک اور تیس کا رہ گیا۔ علی گڑھ
تحریک نے مسلمانوں کی اس پسماندگی کو سیاسی انداز میں دور کرنے کی کوشش کی ۔کالج اور
تہذیب اخالق نے مسلمانوں کی سیاسی اور تمدنی زندگی میں ایک انقالب برپا کیا ۔ اور انھیں
سیاسی طور پرایک عالحدہ قوم کا درجہ دیا۔
مذہبی حوالے سے سرسید احمد خان نے مذہب کا خول توڑنے کے بجائے فعال بنانے کی کوشش
کی۔ ایک ایسے زمانے میں جب مذہب کے روایتی تصور نے ذہن کو زنگ آلود کر دیا تھا۔ سرسید
احمد خان نے عقل سلیم کے ذریعے اسالم کی مدافعت کی اور ثابت کر دیا کہ اسالم ایک ایسا مذہب
ہے جو نئے زمانے کے نئے تقاضوں کو نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ نئے حقائق کی عقلی
توضیح کی صالحیت بھی رکھتا ہے۔
ادبی زاویہ
علی گڑھ تحریک کا تیسرا فعال زوایہ ادبی ہے اور اس کے تحت نہ صرف اردو زبان کو وسعت
ملی بلکہ اردو ادب کے اسالیب ِ بیان اور روح معانی بھی متاثر ہوئے ۔ اور اس کے موضوعات کا
دائرہ وسیع تر ہو گیا۔سرسید سے پہلے اردو ادبیات کا دائرہ تصوف ،تاریخ اور تذکرہ نگاری تک
محدود تھا ۔ طبعی علوم ،ریاضیات اور فنون لطیفہ کی طرف توجہ بہت کم دی جاتی تھی۔ سرسید
کااثر اسلوب بیان پر بھی ہوا اور موضوع پر بھی ۔ اگرچہ سرسید سے پہلے فورٹ ولیم کالج کی
سلیس افسانوی نثر ،دہلی کی علمی نثر اور مرزا غالب کی نجی نثر جس میں ادبیت اعلی درجے
کی ہے۔ نظر انداز نہیں کی جا سکتی ۔ لیکن ان سب کوششوں کا دائرہ بہت زیادہ وسیع نہیں تھا۔
سرسید احمد خان کی بدولت نثر میں موضوعات کا تنوع اور سادگی پید اہوئی ۔آئیے جائزہ لیتے ہیں
کہ سرسید تحریک نے اردو ادب کے کون کون سے شعبوں کو متاثر کیا۔
اردو نثر
چونکہ علی گڑھ تحریک نے قومی مقاصد کو پروان چڑھانے کا عہد کیا تھا اور ان کا روئے سخن
خواص سے کہیں زیادہ عوام کی طرف تھا اس لئے صرف شاعری اس تحریک کی ضرورت کی
کفیل نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لئے علی گڑھ تحریک نے سستی جذباتیت کو فروغ دینے کے بجائے
گہرے تعقل تدبر اور شعور کو پروان چڑھانے کا عہد کیا تھا اور صرف اردو نثر ان مقاصد میں
زیادہ معاونت کر سکتی تھی۔ چنانچہ ادبی سطح پر علی گڑھ تحریک نے اردو نثر کا ایک باوقار ،
مقفی اور مسجع اسلوب سے نجات دال کرسنجیدہ اور متوازن معیار قائم کیا اور اُسے شاعری کے ٰ
سادگی اور متانت کی کشادہ ڈگر پر ڈال دیا اور یوں ادب کی افادی اور مقصدی حیثیت اُبھر کر
سامنے آئی۔
تاریخ نگاری
سرسید احمد خان نئی تعلیم کے حامی اور جدیدیت کے علمبردار تھے انہوں نے حضور نبی کریم
کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کے لئے اخالقیات کی خالص قدروں کو فروغ دینے کی کوشش کی۔
علی گڑھ تحریک نے قومی زندگی میں جو ولولہ پیدا کیا تھا اسے بیدار رکھنے کے لئے ملی تاریخ
سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن اس تحریک نے تاریخ کو سپاٹ بیانیہ نہیں بنایا
بلکہ اس فلسفے کو جنم دیا کہ تاریخ کے اوراق میں قوم اور معاشرے کا دھڑکتا ہوا دل محفوظ ہوتا
ہے۔ جس کا آہنگ دریافت کرلینے سے مستقبل کو سنوارا اور ارتقاءکے تسلسل کو برقرار رکھا جا
سکتا ہے۔ اسی نقطہ نظر سے سرسید احمد خان نے ”آئین اکبری“ ”تزک جہانگیری“ اور تاریخ
فیروز شاہی دوبارہ مرتب کیں۔ شبلی نعمانی نے ”الفاروق“ ” ،المامون“ اور اورنگزیب عالمگیر پر
ایک نظر لکھیں۔ جبکہ مولوی ذکا ہللا نے ”تاریخ ہندوستان “ مرتب کی۔
علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کے شاندار ماضی کی قصیدہ خوانی نہیں کی اور نہ ہی اسالف کی
عظمت سے قوم کو مسحور کیا بلکہ سرسید احمد خان کا ایمان تھا کہ بزرگوں کے یادگار کارناموں
کو یاد رکھنا اچھی اور برا دونوں طرح کا پھل دیتا ہے۔ چنانچہ اس تحریک نے تاریخ کے برے
پھل سے عوام کو بچانے کی کوشش کی اور ماضی کے تذکرہ جمیل سے صرف اتنی توانائی
حاصل کی کہ قوم مستقبل کی مایوسی ختم کرنے کے لئے ایک معیار مقرر کر سکے۔ علی گڑھ
تحریک نے تاریخ نگاری کے ایک الگ اسلوب کی بنیاد رکھی بقول سرسید
” ہر فن کے لئے زبان کا طرز بیان جداگانہ ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں ناول اور ناول میں تاریخانہ
طرز کو کیسی ہی فصاحت و بالغت سے برتا گیا ہو دونوں کو برباد کر دیتا ہے۔“ اس لئے علی
گڑھ تحرےک نے تاریخ نگاری میں غیر شخصی اسلوب کو مروج کیا اور اسے غیر جانبداری
سے تاریخ نگاری میں استعمال کیا ۔ اس میں شک نہیں کہ تاریخ کا بیانیہ انداز نثر کی بیشتر
رعنائیوں کو زائل کر دیتا ہے۔ تاہم سرسید احمد خان تاریخ کو افسانہ یا ناول بنانے کے حق میں
ہرگز نہیں تھے اور وہ شخصی تعصبات سے الگ رہ کر واقعات کی سچی شیرازہ بندی کرنا
چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے تاریخ کے لئے سادہ اور بیانیہ نثر استعمال کرنے پر زور دیا۔ اور
اس نقطہ نظر کے تحت آثار الصنادید کی بوجھل نثر کو سادہ بنایا۔
مجموعی /جائزہ
علی گڑھ تحریک ایک بہت بڑی فکری اور ادبی تحریک تھی ۔ خصوصا ادبی لحاظ سے اس کے
اثرات کا دائرہ بہت وسیع ثابت ہوا۔ اس تحریک کی بدولت نہ صرف اسلوب بیان اور روح مضمون
میں بلکہ ادبی انواع کے معاملے میں بھی نامور ان علی گڑھ کی توسیعی کوششوں نے بڑا کام کیا۔
4|Page )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
اور بعض ایسی اصناف ادب کو رواج دیا جو مغرب سے حاصل کردہ تھیں۔ ان میں سے بعض
رجحانات خاص توجہ کے الئق ہیں۔ مثالً نیچرل شاعری کی تحریک جس میں محمد حسین آزاد کے
عالوہ موالنا الطاف حسین حالی بھی برابر کے شریک تھے۔ قدیم طرز شاعری سے انحراف بھی
اسی تحریک کا ایک جزو ہے۔ اردو تنقید جدید کا آغاز بھی سرسید احمد خان اور اُن کے رفقاءسے
ہوتا ہے۔ سوانح نگار ،سیرت نگاری ،ناول اردو نظم اور مضمون نگاری سب کچھ ہی سرسید
تحریک کے زیر اثر پروان چڑھا۔
خ ف ت
حری ک ال ت
خلفائے راشدین رضی ہللا ٰ
تعالی عنھم کے بعد بنو امیہ اور بنو عباس سے ہوتی ہوئی ترکی کے
عثمانی خاندان کو منتقل ہوئی۔ پہلی جنگ عظیم کے وقت اسالمی سلطنت کا مرکز ترکی تھا اور
اس کے سربراہ خلیفہ عبدالحمید تھے۔
خلفائے راشدین نے دارالحکومت کا درجہ مدینہ منورہ کو دیا جبکہ حضرت علی نے انتظامی
مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے دارالحکومت کو کوفہ منتقل کیا ۔بنوامیہ کے دور میں دارالحکومت
کوفہ سے دمشق لے جایا گیا بنی عباس کے دور میں دارالحکومت کی سرگرمیوں کا مرکز بغداد بنا
۔بغدادکی تباہی (1258ء ) کے بعد دارالحکومت کو قاہرہ میں لے جایا گیا ۔ 1518ء میں ترک
عثمانی بادشاہ سلطان سلیم نے خالفت کے اختیارات سنبھال کر دارالحکومت قسطنطنیہ (استنبول)
کا اعالن کیا ۔
پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے برطانیہ کے خالف جرمنی کا ساتھ دیا۔ترکی کی جنگ میں شمولیت
سے ہندوستان کے مسلمان پریشان ہوئے کہ اگر انگریز کامیاب ہو گیا تو ترکی کے ساتھ اچھا
سلوک نہیں کیا جائے گا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کا ساتھ دینے کے لیے وزیراعظم
برطانیہ الئیڈ جارج سے وعدہ لیا کہ جنگ کے دوران میں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے
حرمتی نہیں ہو گی اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خالفت محفوظ رہے گی۔
پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست اور برطانیہ کو فتح ہوئی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد
برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے وعدہ خالفی کرتے ہوئے اپنی فوجیں بصرہ اور جدہ میں داخل
کردیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کو وعدے یاد دالنے کے لیے اور خالفت کے تحفظ
کے لیے ایک تحریک شروع کی جسے "تحریک خالفت" کا نام دیا گیا۔
مقاصد
تحریک خالفت کے بڑے بڑے مقاصد یہ تھے:
ترکی کی خالفت برقرار رکھی جائے۔ .1
مقامات مقدسہ(مکہ مکرمہ ،مدینہ منورہ ) ترکی کی تحویل میں رہیں۔ .2
ترکی سلطنت کو تقسیم نہ کیا جائے۔ .3
معاہدہ سیورے
مکمل مضمون کے لئے دیکھئے معاہدہ سیورے
خالفت وفد ابھی انگلستان میں ہی تھا کہ ترکی پر معاہدہ سیورے مسلط کردیا گیا۔ جس کے نتیجے
میں تمام بیرونی مقبوضات ترکی سے چھین لئے گئے ،ترکی پر فضائی فوج رکھنے پر پابندی لگا
دی گئی اور درہ دانیال پر اتحادیوں کی باالدستی قائم رکھی گئی۔
تحریک ہجرت
حوالہ درکار؟
تحریک کے دوران میں کچھ علماء(موالنا عبدالباری ،موالنا ابولکالم آزاد ،علی برادران )
ٰ
فتوی دیا۔ جس پر ہزاروں نے بر عظیم کو دارالحرب قرار دے کر یہاں سے ہجرت کرنے کا
مسلمانوں نے اپنے گھربار چھوڑ کر افغانستان کی راہ لی۔ یہ ہجرت حکومت افغانستان کے عدم
تعاون سے ناکام ہوگئی اور مسلمانوں کو کافی جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
موپلہ بغاوت
ساحل ماالبار موپلہ مسلمانوں نے تحریک خالفت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کے نتیجے میں
انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ چنانچہ انہوں نے تنگ آ کر 1925ء میں بغاوت کر دی۔ حکومت نے
اس بغاوت کو سختی سے کچل دیا اور ہزاروں موپلوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔
ناکامی کے اسباب
ناپائیدار /اتحاد
ہندوؤں اور مسلمانوں کا اتحاد سطحی ،جذباتی اور وقتی تھا۔ دونوں قوموں کو حکومت کے خالف
نفرت نے عارضی طور پر اکھٹا کر دیا تھا لیکن شدھی اور سنگھٹن کی تحریکوں نےجلد ہی اس
اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا اور تحریک خالفت کمزور ہونا شروع ہو گئی۔
گاندھی جی کی قالبازی
گاندھی نے اس تحریک کو اس وقت ختم کرنے کا اعالن کیا جب مسلمانوں کے تمام رہنما جیل میں
تھے اور تحریک کی قیادت سنبھالنے واال کوئی موجود نہیں تھا۔ اس سے تحریک بھی ختم ہو کر
رہ گئی اور مسلمانوں کا اپنے قائدین سے بھی اعتماد اٹھ گیا۔
گاندھی جی ہندوؤں کے مہاتما بن گئے اور موالنا محمد علی جوہر گوشہ گم نامی میں چلے گئے۔
اوراسی حالت یعنی گمنامی میں ان کی وفات ہو گئی۔
خ
طب ہ الہ آب اد
ن ق ن ٹ نق س
ق
کی۔ستا ہوں
م ے ال ب ا دمحم سر
ش ر ڈاک صدارت
ن کی اس وا۔ ہ د 1930نء کو م تلم ل یخگ کا ساالن ہ اج ضالس الہ آب اد می نں م ع ن
س م
ں شبڑی و احت سے ہ دوست ان کے حاالت ،لما وں کی م کالت ،ان کے ب ل اور ے می ن صدار ی ن بط ے
ن ے ناپ
مسلما ان ہ د کی م زل کی ان د ی کی۔
ہ
ن ن مم ن ت ئ ت ن ن ض ن
ئ کاری و ی ھی اس سے ا کار کن نہی ں ن ت ت
ھا۔ ان د وں ہ ا سے
ق ود ج و کے ت
وں ما ل س م ں م
ف ین
ی ن ما طرح س ج گرس نکا
پ ن ع ی ل ہ ہ ت
ے کہ کو یے ھ ھی کن نالمہ ا ب ال گا دھی کی ہ ٹ دھرمی کے یش ظ ر ج ا گول مینز کا رن س و ر ی ن ں ن دن می خ
خ ل
ے۔ ہ لمم ع
ے گا اور لما وں کی م زل ای ک الحدہ کت ی ہ س م ب ھی اطر واہ ی ج ہ ہی ں ل
ک
تعارف
جنگ آزادی 1857ء کے دس سال بعد علی گڑھ مکتبہ فکر کے بانی سرسید احمد خان نے ہندی
اردو جھگڑے کے باعث 1867ء میں جو نظریہ پیش کیا ،اسے ہم دو قومی نظریے کے نام سے
جانتے ہیں۔ اس نظریے کی آسان تشریح یوں کی جاسکتی ہے کہ اس کے مطابق نہ صرف
ہندوستان کے متحدہ قومیت کے نظرئیے کو مسترد کیا گیا بلکہ ہندوستان ہی کے ہندوؤں اور
مسلمانوں کو دو عالحدہ اورکامل قومیں قراردیا گیا۔ انڈین نیشنل ازم پر یقین رکھنے والوں کے لیے
دو قومی نظریہ صور اسرافیل بن کر گونجا ۔ ہماری شاہراہ آزادی پر دو قومی نظریہ وہ پہال سنگ
میل ہے جسے مشعل راہ بنا کر مسلمانان ہند باآلخر 1947ء میں اپنی منزل مقصد کو پانے میں
سرخرو ہوئے۔
عالمہ اقبال
1906ء سے 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاست کا مرکز دو قومی نظریہ ہی رہا ہے۔ اس
ضمن میں آل انڈیا کانگریس ،ہندو مہا سبھا دیگر ہندو تنظمیں اورہندو رہنما اپنی تمام تر کوششوں ،
حربوں اور چالوں میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے قائدین کو دو قومی
قائداعظم
بانی پاکستان دو قومی نظرئیے کے سب سے بڑے علمبردار رہے ہیں آپ نے نہ صرف آل انڈیا
کانگریس کے تا حیات صدر بننے کی پیشکش کو مسترد کیا بلکہ علمائے دیوبند اورمسلم نیشنلسٹ
رہنماؤں کی مخالفت بھی مول لی۔ لیکن دو قومی نظرئیے کی صداقت پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ نے پاکستان کا مقدمہ دو قومی نظرئیے ہی کی بنیاد پر لڑا اور اسی بنیاد پر ہی
آل انڈیا سلم لیگ کو ہندوستان کے شمال مشرق اور شمال مغرب میں آباد مسلمانوں کی واحد نمائندہ
اور سیاسی جماعت منوائی ۔ دو قومی نظرئیے کو نظریہ پاکستان میں منتقل کرنے کا سہرا آپ ہی
کو جاتا ہے۔
نف ن
گول می ز کا ر س
نت نت
ن ج ون 1929ء م ں رطان
ہ
Ramazyو اں کے ش Mac Donaldت نم ی ڈون لڈ ے می ں ری مزے ج ی
ن کے ات با خ ا عام کے ہ ی ئ
ع ق ی ب
ت ش ع ئ ن
نم ورے کے ب عد روں کے سا ھ صالح ن ےم ی ئ پے وزیرا ظ نم ے نا ارے فمی ں کے ب ئ ے۔ ہ دو نست ان ت ف وزیرا ظ م مئ رر ہ و
ے ط
ئی ا تکہ ب رطا وی ہ تد می ئں آ ی ی ع ل کو دور کرے ے ہ وے ی صلہ ک
کے یل ہ ن ضسر ج ان سا من کی س ارش م ظ ور کر
ت می ا کی ان ں م ارے
ع ن ن ب ی نئ ب ع ی ن ب ش کے ن آ و ےک س و ہاگر اکہ ے ا ا
ق ئ ک یعج مدعو دن ل کو ڈروں صہ اں کےئل ی ے کہ و روری ہ
ے وزیرا ظ م کو چک ھ کرے نکا مش ورہ دی ا ھا دمحم ف لیق ج اح ے ھی م ظ دا ا کہ ے
ن ر اد ے۔ ا ا ک لئ حا کو دی رض ام ن
ق ت ہ ی مس ئ ج ین ن
ے م عل ہ ری ی ن کے درم ی ان می ں ب ات چ ی ت کو ازسر و روع ک ی ا ے کو حل کرے کے لی کہن ہ دوست ان کے آ ی ی ل
ے۔ ج ا ا چ اہ ی
تقئ ف ن ئ ق
ع
ے کا اعالن ک ی ا و ا دان ظ م اور ص
ے ج ب اس ی ل Lord ت ن Irwin ارون الرڈ سرے وا کے ت و اس کے ان ت س دو ہن
ن ق خ ن خ
سے اسلپر ن کت ہ چ ف ی یغاں ے میعمں کا گریس قکی طرف ت ج نکا ی ر م دم ک ی ا جس کے ی ال ل ی ڈروں ے اس ن ی شآپ کےئ ہ م
سے عب یر ک ی ا ،ی کن کا ن فی ن ور و ےندم ف ے ا شسے ’’لی ن دی ن ‘‘کے تل تمی ں پہل سورماؤں ن ش خ روع و گ ی ں۔ نکا گری سی
ے م روط طور پر حکومت کے سا ھ عاون کرے کا ی صلہ ک ی ا اور جموزہ کا ر س سی ل ی ڈر پش ئ وص کے ب عد کا گری
پ ن ش
ے م درج ہ ذی ل را ط یش کی ں۔ می ں رکت کے یل
ئ ق ت
1۔ مام س ی اسی ی دیوں کو رہ ا ک ی ا ج اے
ئ ث ن ن نف ن
ن ئ
2۔ جموزہ گول می ز کا ر س می ں کا گریس کو مؤ ر ما دگی دی ج اے۔
پ ہال دور
خ غ ن ئ ن ن ت جن ش ن
س م
ک ج اری رہ ا ۔ ن لما وں ہ
نکی ما دگی سر آئ ا ان ،دمحم 1931ء ن اور 19عوری غ 1930ء کوخ روع وا ن پعہال ندور 10ومب ر ظ ف
ے اس دور کا ب ا ی کاٹ ک ی ا ۔ ج ج
لی ج اح ،سر دمحم ر ہللا ان ،اور موال ا ئدمحم لی وہ ر و ی رہ ے کی ۔ ب ت فکہ کا گریس
ے سب سے کے لی ان ت دو ن
اس بقات سے ا اق ک ی ا گ ی ا ہ س
کہ وں کے بش تعد السوں اور کاروا ی ت اس پہل
ت ف م م ت ے دورثمی نں طوی ل اج
ےے اس کے عالوہ م عدد امور کے یل ح
وں اور ری ا گسئ وں پر ل و ا ی طرز کومت ہ ح
موزوں اور مو ر ظ ام ٹ کومت صوبش
ک ٹ
کم ی ی اں اور سب کم ی ی اں ب ھی ی ل دی ی ں۔
ت ئ ن ن ف
ے دور میضں ا گرنیزتسرکار کو ج و خ اص کام ی انبی صی ب ہ و ی وہ ری ا ت ن
س قوں کے نآک ئس ن ورڈ ہ سٹ ری نآففا ڈی ا شکے م طاشبق پہل
آل ا ڈیتا ی خڈری ن می ں مولی ت پر را ی ہ و ا ھا۔ناسف دور می ں موال ا دمحم علی ج وہ ر کی ای ک ریر ج و آزادی ما دوں کا ت
م ہ ع م
ے۔ آپ ے رمای ا: کا ل سے م لق ھی اص ا می ت کی حا ل ہ
ن نغ ق ق ت
ے الم ملک می تںت واپس ج ہی ں ج اؤں نی ں اس و ن ت ت ک پا ’’می ں و تآزادی کنامل کو اپ ن ا مسلک رار دے چ کا ہ توں۔ م
ے ی ہاں ے ہ مراہ آزادی کو ل ی کر ن ہ ج اؤں ۔ اگر م ے ہ می ں ہ دوست ان می ں آزادی ن ہ دی و مہی ں م ھ قگا ۔ ج ب نک اپ
ب ر کی ج گہ دی ا ہ وگی۔‘‘
ن ن فق ن ق نت
ہ ن ن تق ن ت ہللا کو ش
اسب ہ م ے اء ر کے آپ وا۔ ہئ ال ا ں ت
ی م ی دن غ ل کا ا موال عد ب کے ر ی ر اس ۔ اھ ور ظ م ہی ی د یا
ق
آپ کی وصی ت کے ب رعکس آپ کا جسد خ اکی الم ہ ن دو ان لے آ ی ں۔ لہٰذا آپ کا جسد خ اکی ب ی ت الم دس ن جم ھا کہ ف
س
لے ج ا کر د ای ا گ ی ا۔
دوسرا دور
ت ہ ن دوسرا دور 7دسم ر 1931ء کو ش روع ہ وا اور ی کم دسم ر 1931ء ت
سحت کے دے
ٹم ہ ق عا ارون دھی۔ اگ ۔ ا ر اری ش جک ت ئ ب ئ ن ن نب ن
م ی
ال د گر لم ع ن ن ہ ن
ڈاک ر المہ ا ب ت ن طرف ت دوسریف کی۔ رکت ں ی م دور
ت اس
ق ے و ن ے
س
کر دگی ام کی
ش م ہ ئ ن س یگر کا ے دھی گا
کہ ھا
من م ط ن ن ننن
اصرار کا دھی اگ ۔ ھا رق ا ک آسمان ن
س ی یئمز ں م ر ظ طۂ کے وں امل م اور دھی ا
گن نگ ے۔ و ل ا ں م
ن یزعماء
ے ن قفکو ما ے عی اس مان خ س م کن ی ے۔ ل ا ا ک م لی ماعت دہ واحد ن مائ ن کی وں ی ت ا ت س دو ہ سارے کو ق
س کا گری
ل ت ہ بن ب غی ج ج ن ت
ٹس کی دھی تے کا ر ے ۔ن اسی طرح ی ہ ئدوسرا دور ھین ب یشر کسی کا نم ی ابی کے م وا ۔ نگا ے تط عی تطور پر ی ار ہ ھ نکے لی
ن ج
ے م ن می ں اکامی کے ب عد وہ و ہی ہ دو ان لوے ،ان ذمہ داری ب رطا ی ہ سرکار پر عا د کر دی ۔ اپ ج
اکامی کیف مام ر
کو دوب ارہ گر ت ار کروا کر ی ل می ں ڈال دی ا گ ی ا۔
ن ض ض
ن عار ی طور پر ہ ن دوست ا ی نس ی است سے لی ج ن اح
دوسرے دور کے ب عد دمحم ع ٹ اس ے کہ ٹ روری احت ہاں ہ وض
ف ن ہ ین ی ہ ئ
ے ملک می ں کے ب اوج ود ب ھی آپ ن پا ن دن ہ یتمی ں ھہرے کا ی نص فلہ نک ی ا۔ ل ی کن وہ اں ھہرے ب ئ
ے۔ اور ل ن
غ کش و گ ت ک ارہ
ع ت ئ
دوسرے دور کی اکامی کےق ب عد ب رطا نوی فوزی فرا ظ م ئ
گول می ز کا ر س کےح ن ق ل ی
ے۔ ل ت ے ر نہ وں کانور ج ا نزہ ی س ی اسی ب د لی ن
کے ح وق کو آ ی ی نح ظ راہ م ن ان ے ی
ل ن
کے ے کر ل ل سا م کے ف
وں ی ا ں م
ہ ید وی رطا ب ے لڈ مزے م ی کڈو ری ن
ہ ق
وارڈ کے
س
ے کا اعالن ک ی ا۔ جس کو کی مو ل نایورڈ کا ام دی ا گ ی ا۔ ت ئ
اس ای ش ت
س سم ست ن ت1932ء کو ای ک ا م ی صلئ ن ے 4اگ کے یل تکرے ل ت
ے ای ک ہا ی ی ں دی گ ی۔ مرکزی ات بئلی می ں م ق لما وں کے یل ت ن خحت ا ی وں کو ئج داگا ہ ا خ ابتات کی رعای ن
ک س
ے ایقک چ و ھا ئی حصہ رر کر دی ا گ ی ا۔ مزی د ب رآن ھوں، م کے لیالزم وں می ں مسلما وں ت
ش ش دی گن ی ں۔ م ن صوص کر ئ م
گ س ب
ے ھی ی ں م رر کر دی ی ں۔ عیسا ی وں ،ای گلو ا ڈی ن اور ودروں کے یل
ت
یسرا دور
ن ن ن خ ت نف ن
ق ن ت ومب ر ت گول شمی ز کا ر تس کا یسرا اور آ ن
1932ء ک ل دن میشں م ع دنہ ہوا۔ ق ئ سے 24ومب رئ ن
اس دور 1932ء ن ری دور 17ف
ع ن ئ
ھی۔ کا فگری ئس کا کو ی ما دہ اس تدور قمی ں نری ک ہ وا۔ ا دات ظ م رکاء کینعداد پہل
ے ادوارخ کی سب ت کا شی کم ن ن می ں
ح ب
دمحم لی ج اح ے ھی اس آ ری دور می ں رکت ہی ں رما ی۔ اس دور کا زی ادہ ر و ت ہ دوست ان می ں کوم ی ع
15 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
ن غ ن ت ن ف ف ئن ت ق ن
ی ل ع م ہ ت ل
ے سے ئ ق امور پر ور کرے می ں گزرا ۔ کن کا گریس کی عدم ل آت را م کر ت ف ح
ے اور ا ی وں کو آ ی ی ٹ ظ ف ڈھا چ
ہ ن
موج ودگی کے ب اعث سی ھوس ارمولے پر ا اق راے ہ و سکا۔ ک
من ت ف ش ٹ ن خ خ نف ن
م ک ن
گول تمی ز قکا ر س کے ا ت ت ام پر حکومت ب رطا ی ہ ے م ت لف ئی ٹ ی وں کی رپور وں ،س نارف نوں اور ج ناویز پر ب ی ای ک
گول نمی ز کا ر س می ں اکامی کے ب عد ۔ دی کر ع ا وض ا ی رطاس ای ب ض White paperمارچ 1933ء م ں ش
ق ن ئ ن قن ی ن ن پن ح
ن ح
1935ء (ے ا ون نکومت ہ د مج ری ہ ن ت وری دی جس ون کی م ظ ت حکومت ب رطا ی ہ ے ا ی طرف سے این ک آ ی ن ما ا ق ن
عام ا خ اب ات
امسدی ا گ ی ا۔ اسن ا وننکے حت 1937ء می ں ہ ن تدوست ان می ں ن )Govtکا of Indiaن ئ Act 1935ئ نق
ات ئمی ں ئکا گریس کا ا خ ا کے ء1937 ا۔ صہ ے وں دو گ لم م اور ست ن گر اک ں م ن ج ے۔ ے کروا د مع
تب ق ن ح لی ت لی ی نت ی گ
ے می ں ہ ن دوست ان کی اری خ می ں پ ہلی مرت ب ہ کا گری سی وزار ی ں ا م ہ و ی ں۔ یج کے ات ا خ ا ان ا۔ ہ ر ھاری پ بلڑہ
ب
ق
رارداد پ اکست ان
فض
ل الحق
پیدائش 26اکوبر 1873ء
ستوریہ ,ضلع
جھلوکاتی ,بنگلہ دیش
وفات 27اپریل 1962ء
ڈھاکہ( ,اس وقت مشرقی
پاکستان)
دیگر نام شیر بنگال (بنگال کا
شیر)
تنظیم انڈین نیشنل کانگریس
آل انڈیا مسلم لیگ
کرشک پراجا پارٹی
سرامک-کرشک دال
تحریک تحریک خالفت
تحریک عدم تعاون
تحریک پاکستان
ابوالکاشم فضل الحق (بنگالی )আবুল কাশেম ফজলুল হক :جو مولوی فضل الحق کے نام سے
پہچانے جاتے ہیں 26،اکتوبر سن 1873میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق بنگال سے تھا ۔ مولوی فضل
الحق لے قرارداد پاکستان میں اہم کام کیا جس کی وجہ سے انہیں شیر بنگال کا خطاب مال۔ یہ اپنے
وقت کے مشہور و معروف سیا ستدان تھے۔مولوی فضل الحق نے 1935میں کلکتہ بطور ناظم کام
کیا 1937،تا 1943بنگال کے وزیر اعلی رہے اور پھر مغربی بنگال کے وزیر اعلی 1954میں
بنے ۔انہوں نے پاکستان کے ھوم منسٹر کا کام 1955میں کیا اور 1956تا 1958وہ مغربی
پاکستان کے گورنر بھی رھے۔ ان کا انتقال 27اپریل 1962میں ہوا۔
شق
ع ن ای ت ہللا خ اں م ر ی
عنایت ہللا خاں مشرقی
پیدائ 25اگست 1888
ش ,Amritsarپنجاب,
برطانوی ہند
• عالم اسالم کے فرزند....جنہوں نے ۱۸سال کی عمر میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے ریاضی
اول پوزیشن ( )۱۹۰۶میں کلیئر کر کے دنیا کو محو حیرت کردیا(....یہ ریکارڈ آج تک قائم ہے)
• عالم اسالم کے فرزند....جنہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے ()۱۳-۱۹۱۲میں بیک وقت چار
اعلی
ٰ ٹرائی پوز آنرز رینگلر سکالر ،بیچلر سکالر ،فاﺅنڈیشن سکالر اورمکینیکل انجینئرنگ میں
پوزیشن مع وظائف حاصل کر کے دنیا کے طالب علموں کو حیران کردیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ
کوبرمال اعتراف کرنا پڑا کہ آٹھ سو سالہ یورپی تاریخ میں ایسا ذہین طالب علم پیدا نہیں ہوا۔ (یہ
ریکارڈ آج تک قائم ہے)۔
• عالم اسالم کے فرزند....جنہوں نے دنیا کی قوموں کو اجتماعی موت و حیات کے متعلق پیغام
اخیر اور تسخیر کائنات کا پروگرام اپنی شہرہ آفاق کتاب”تذکرہ“ ( )۱۹۲۴کے ذریعے دیاتو دنیا
بھر کے عالم دنگ رہ گئے۔ جس پر ۱۹۲۵ءمیں مشروط طور پر ادب کا ”نوبل پرائز“ پیش ہوا کہ
اردو ہماری تسلیم شدہ زبان نہیں ،کسی یورپی زبان میں اس کا ترجمہ کیا جائے مگر شہرت و
دولت سے بے نیاز مصنف نے لینے سے انکار کر دیا۔
• عالم اسالم کے فرزند....جنہوں نے مصر میں مسئلہ خالفت پر عالم اسالم کی عالم آراءہستیوں کی
ب مصر کانفرنس کی صدارت کرنے کے ساتھ ساتھ جب ان ہستیوں سے پُر مغز خطاب(خطا ِ
)۱۹۲۶کیا تو ان ہستیوں اور جامعہ ازہرمصر سے متفقہ طورپر ”عالمہ مشرقی“ یعنی ”مشرق
کے عالم“ کا خطاب دے کر آپ کی علمی صالحیتوں کا اعتراف کیاگیا۔
• عالم اسالم کے فرزند....جنہوں نے۱۳سو برس کے بعدذاتی اللچ کی بجائے فرض کی ادائیگی
قوم سازی و کردار سازی کی بنیاد پر ”خاکسار تحریک“(۱۹۳۱ء) کے ذریعے قرن اول کا سماں
باندھ کر ہندوستان کے مسلمانوں میں حقیقی مومنانہ کرداراور خلق خدا کی خدمت کا بے لوث جذبہ
پیدا کر دیا۔
• عالم اسالم کے پہلے مسلم سائنس دان....جنہوں نے ۱۹۵۲ءمیں دنیا کے بیس ہزار سائنسدانوں کو
”انسانی مسئلہ“ کے عنوان سے خط لکھ کر دنیاوی ترقی کو بے جان مشینوں کے چنگل سے نکال
ادبی خدمات
عالمہ مشرقی بلند پایہ انشاپرداز ،فلسفی ،مورخ تھے۔ تذکرہ ،خریطہ ،اشارات قول فیصل ،مولوی
کا غلط مذہب ،حدیث القران ،تین شعری مجموعے ،حریم غیب ،دہ الباب اور ارمغان حکیم آپ کی
مشہور تصانیف ہیں۔ انتقال کے بعد ادارہ علیہ ہندیہ ،اچھرہ الہور میں دفن ہوئے۔ 1925ء میں جو
انہوں نے قرآن کی تفسیر لکھی تھی اس کی بنا پر انہیں نوبل انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔
ن ن ت ت ئ شق ق
خ
ے پ اب دی بوڑے ہ وئے ای ک قعسکری پری ڈ کی خ اعت المہئ نم ر ی کی اکسار ج م ق ف اتج الس سے 4نروز ب ل الہ ور می ںنع
کی وج ہ تسے ے۔ اسٹوا عہ ق ے پولتیس ے ا ر نگ کی۔ 35سکے ری ب ت اکسار ج اں حق ہ و ن ن ے کےشلی ھی جس کو روک
ی م
ردست ک ت ی دگی خ ھی اور صوب ہ ج اب می ں لم ل یسگ کی ا حادی ج ماعت یو نسٹ پ ار ی ب رسراق ت دار نھی پ الہ ور می ں زب خ
ن م ب
اور اس ب ات کا طرہ ھا کہ اکسار کے ی لچ ہ ب ردار کارکن ،لم ل ی گ کا ی ہ اج الس ہ ہ وے دی ں ی ا اس مو ع پر ہ گامہ
ب رپ ا کری ں۔
ن ن خ ف ع ن ن قئ ن ن ق
ے اح ے ا ت ت احی اج الس قسے طاب ک ینا جس می قں ا ہوں دمحم لی ج ن ع پ
موہ ع کی اسی نزاکت کے یش ئ ظ ر ف ا قدا ظ م ن
ئ
وموں کا مس لہت ے ع ی ی ہ دو ی ے بض لکہ ب ی ن اال وامی ورارن ہ وعی فت کا ت نہی ں پ لی ب ارنکہا کہ ہندوست ان می نں مس لہ ر ہ ن
ہ ہ
ے کہ ای ک مرکزی حکومت کےمم تحت ان ہ وں می ں رق ا ا بڑا اور وا ح ے۔ اخ ہوں ے کہا کہ ہ دوؤں اورن مسلمان ہت
کل ع
ے کہ ان کی الحدہ ی ں ہ ہ ب
کا ا حاد طرات سے ھر پور و گا۔ ا ہوں ے کہا کہ اس صورت می ں ای ک ی راہ ہ
ف ہ وں۔
ن ق ض ن خ
پ ہ حل
گالقکے وزیر ا لی مولوی نل ا قق ے رار داد ال ت ور یش ع ن
زما نہ کے ب ت ن ئ
مارچ کو اس ئ 23
س ن عم ن ت ہی طوط پر ق دوسرے دن ا ت
بک ہ م ہ
ت فک کو ن ٹی آ ی ی پ الن نہ و اقب ل ل وگا ن اور ہن لما قوں کو ب ول وگا ج ت ئ ئ غ کی جس می ں کہا گ ی ا ھا کہ اس و
قکہ ان رار داد می شں قکہا گ ی ا ھا
ش و۔ ہ ہغ دی بش حد ں ی م وں الع ہ اگ دا جج کی وں و ی
ی ثی ا را ج ے ای قک دوسرے سے م نل
ےہ و
ن عنال وں می ں ج ہاں مسلما وں کی مم ت
ال م خربی اور مال م ر ی عالے،
ص ع کے م خ ے کہ ہ دو شست مان ن ٹ ے یس عددی اک قری ئت ہ ئ
ا ہی ں ی کج ا کر کے ان می ں آزاد لک ی ں ا م کی ج ا ی ں ج ن می ں ا ل یو وں کو ود م ت اری اور حاکمی ت ا لی حا ل
ہ و۔
سر سک ن در ح ی ات خ ان
آپ یونیونسٹ پارٹی کے صدر ،پنجاب (بامشعول ہندی پنجاب) کے گورنر اور ریزرو بنک آف انڈیا
کے ڈپٹی گورنر رہے ہیں۔
ش
حسی ن ہ ی د سہروردی
غ خ
چ ودھری یل ق الزماں اور آ ا خ ان سوم
ت ث ت ئ ت ق
ت ج ب پ اقکست ان کی فدس ور ساز اسم بخلی آ ی ن مرت ب کرے گی و وہ اس مس ئ لہ کی ح می الث ہ وگی اور اسے الب ہ اس ومم ت
ت
دو عالحدہ لک وں کے ی ام کے ی صلہ کا پورا ا ت ی ار ہ وگا۔
ق ن ن ع سم ن ن ت ق ئ ت
کن پ اکست نان کی دس لی
ب سن 1956ء می ں ملک کا ق ج غت و اس ہ اور ں
خ ی خ مم تم دگی ز کی م ظ ا د ا ون ہ ے لی غب ا ساز ور
ت ئ
پ ہال آ ی ن م ظ ور ہ و رہ ا ھا ب ر ص ی ر می ں مسلما وں کی دو آزاد اور ود م ت ار لک وں کے ی ام پر ور ک ی ا۔
غ ن
ش ت پت
ت ن م
25نسال کی س ی اسی ا ھل ممل تاور کش اور 1971ء می ں بق گلہ دیش کی ج گ کی ب اہ ی کے ب عد افلب ہ ب رص ی ر می ں
ت ک ھ
ب ک
ے۔ مسلما وں کی دو الگ الگ ل ی ں اب ھری ں ج ن کا م طالب ہ رارداد الہ ور کی صورت می ں آج ھی مح وظ ہ
ق
یوم راست ا دام
یوم راست اقدام (بنگالی 16 ,)প্রত্যক্ষ সংগ্রাম দিবস :اگست 1946ء کو کلکتہ کے عظیم قتل و
غارت ( )Great Calcutta Killingsکے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اس دن کلکتہ ،جسے اب
ے ،میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان خونریز فسادات پھوٹ پڑے۔ ]1[.۔ مسلم
کولکتہ کہا جاتا ہ
لیگ کی کونسل نے اپنے مقاصد کے حصول یعنی قیام پاکستان کے لیے یوم راست اقدام اعالن کیا
تھا۔ اس کے نتیجے میں ہندوستان کی تاریخ کے بدترین فسادات شروع ہو گئے۔
ش
ک ی بن ٹ م ن پ الن1946 ،ء
پس منظر
انتخابات 1946ء کے فوراً بعد حکومت برطانیہ نےہندوستان کی گھتی سلجھانے اور انتقال اقتدار
کے لیے راہ ہموار کرنے کی غرض سے تین وزراء پر مشتمل ایک مشن ہندوستان بھیجا۔ یہ مشن
کیبنٹ مشن یا وزارتی مشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس مشن میں مندرجہ ذیل تین وزراء
شامل تھے۔
1۔ الرڈ پیتھک الرنسLord Pathick Lawrence
2۔ سر سٹیفورڈ کرپسSir Stafford Cripps
3۔اے ۔ وی ۔ الیگزینڈرAV Alexander
اہم نکات
1۔ برطانوی ہند کے صوبوں پر مشتمل ایک کل ہند یونین (مرکزی حکومت) کا قیام عمل میں الیا
جائے گا ۔ اس یونین کے پاس خارجہ امور ،دفاع اور مواصالت کے شعبے ہوں گے
2۔ برطانوی ہند اور ریاستوں کے نمائندوں کے باہمی اشتراک سے مرکزی حکومت اپنی انتظامیہ
اور مقننہ تشکیل دے گی۔ مقننہ میں زیر غور ہر ایسا معاملہ جس سے کوئی بڑا فرقہ ورانہ مسئلہ
پیدا ہونے کا امکان ہو ،کو فیصلہ کرنے کے لیے ہر دو بڑی قومیتوں کے نمائندوں کی اکثریت اور
پارلیمنٹ میں موجود اراکین کی اکثریت ضروری قرار دی گئی۔
4۔ پالن ہذا کے مطابق برطانوی ہند کے تمام گیارہ صوبوں کو مندرجہ ذیل تین گروپوں میں تقسیم
کیا گیا۔ گروپ الف میں ہندو اکثریت صوبے اُڑیسہ ،بہار ،بمبئی ،سی پی ،مدراس اور یو۔ پی ۔
گروپ ب میں شمال مغرب میں مسلم اکثریت کے صوبے پنجاب ،صوبہ سرحد ،اورسندھ جبکہ
گروپ ج میں شمال مشرق میں مسلم آبادی کے صوبے بنگال اور آسام شامل کیے گئے۔
5۔ خارجہ امور ،دفاع اور مواصالت کے شعبوں کے عالوہ دیگر تمام شعبے صوبوں اور
ریاستوں کو دینے کی سفارش کی گئی۔
6۔ کل ہند یونین کے آئین اور ہر گروپ کے آئین میں ایک شق ایسی ہوگی جس کے تحت کوئی بھی
صوبہ اگر چاہے تو ہر دس سال کے بعد اپنی قانون ساز اسمبلی کی اکثریت کی خواہش پر آئین کی
نکات یا شقوں پر ازسرنو غور کرنے کا مجاز ہوگا۔ شق ہذا کے مطابق تمام صوبوں کو یہ اختیار
دیا گیا کہ دس سال گذرنے کے بعد وہ انفرادی طور پر یا گروپ کی صورت میں اگر چاہیں ،توکل
ہندوستان یونین سے علیحدگی اختیار کرسکتے ہیں۔
مجموعی /جائزہ
کیبنٹ مشن پالن اور اس پرمسلم لیگ اورکانگرس کے ردعمل کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے
پر پہنچنا نہایت ہی آسان ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریز سرکار ہندوستان کو آزادی
دینے کے لیے راضی ہے لیکن وہ ہندوستان کا مسئلہ ہندوستانیوں ہی ذریعے حل کروانا چاہتی ہیں۔
دوسری طرف کانگریس اور لیگ کے مؤقف میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد کانگریس ہندوستان کی سالمیت پر کوئی آنچ آنے کے لیے تیار نہیں
ہے جبکہ مسلم لیگ کی قیادت کے لیے ہندوستان کی تقسیم کے بغیر کوئی دوسرا حل قابل قبول
نہیں ہے۔ اس موقع پر کانگریسی پنڈتوں کی سیاسی چالوں کا بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو معلوم
ہوگا کہ وہ مسلم لیگی زعماء کے ساتھ ایک انوکھا سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں۔ وہ ہر جائز و
ناجائز طریقے سے مسلم لیگ کو عبوری حکومت سے باہر رکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کی راہ میں
قائد ایک ایسا ناقابل تسخیر چٹان کی مانند ہے جس کو ٹوڑنا یا مسخر کرنا ان کے بس کا روگ نہیں
ہے۔
ن ن ق
ا ون آزادی ہ د 1947ء
جوالئی 1947ء کو ایک مسودہ قانون برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ 15جوالئی کو دارالعوام
نے اس کی منظوری دے دی 16 ،جوالئی 1947ء کو دار االمراء نے بھی اس کو منظور کیا۔ 18
جوالئی 1947ء کو شاہ برطانیہ نے اس کی منظوری دے دی ،پھر اس قانون کے تحت تقسیم ہند
عمل میں الئی گئی اور دو نئی عملداریاں مملکت پاکستان اور مملکت بھارت وجود میں آئیں۔ قانون
کو شاہی اجازت 18جوالئی 1947ء کو حاصل ہوئی۔ اور دو نئے ممالک پاکستان اور بھارت 15
اگست کو وجود میں آئے۔
اس قانون کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
دو نئے ممالک پاکستان اور بھارت بنائے جائیں گے۔ .1
دونوں ممالک مکمل طور پر آزاد و خود مختار ہوں گے ان پر برطانوی حکومت مکمل .2
طور پر ختم کر دی جائے گی۔
دونوں ممالک کی اپنی مجالس قانون ساز ہوں گی جو ان ممالک کے لئے آئین بنائیں گی۔ .3
جب تک نیا آئین نہیں بنتا اس وقت تک 1935ء کا آئین رائج رہے گا دونوں ممالک کی .4
اسمبلیاں اس آئین میں ترمیم کا اختیار رکھتی ہیں۔
حکومت برطانیہ اور ہندوستانی شاہی ریاستوں کے درمیان تمام معاہدے ختم کئے جاتے ہیں۔ .5
پس منظر
15جوالئی 1947ء کو برطانیہ کی پارلیمنٹ نے قانون آزادی ہند 1947منظور کیا جس کے
مطابق ہندوسنان پر برطانوی راج ایک ماہ بعد 15اگست 1947ء کو ختم ہو جائے گا۔ قانون آزادی
ہند 1947میں یہ کہا گیا تھا کہ ہندستان دو زیر برطانیہ دو خود مختار ڈومنین یا مملکتوں مملکت
پاکستان اور مملکت بھارت میں تقسیم ہو گا۔
تقسیم سے پہلے ہندوستان کے تقریبا 40فیصد عالقے پر نوابی ریاستیں قائم تھیں۔ نوابی ریاستیں
چونکہ برطانوی راج کے ماتحت اتحاد میں شامل تھیں اور اپنے امور خارجہ کے خود ذمہ دار
تھیں اس لیے یہ تقسیم ہند کا حصہ نہیں بنیں۔ اس طرح برطانیہ نہ تو انہیں آزادی اور نہ ہی تقسیم
کر سکتا تھا۔ ریاستوں کے حکمرانوں کو یہ اختیار حاصل تھا وہ نئے بننے والے ڈومنین میں سے
ایک کے ساتھ الحاق کر لیں یا آزاد رہیں۔
اس صورت حال میں تقریبا تمام نوابی ریاستوں نے فوری طور پر بھارت یا پاکستان میں شمولیت
کا فیصلہ کیا۔ جبکہ ایک چھوٹی تعداد نے عالحدہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان ایک مسلم سر زمین
کے طور پر سامنے آیا جبکہ بھارت ہندو اکثریت کے ساتھ سیکولر ریاست تھی۔ شمال میں مسلم
اکثریتی برطانوی صوبے پاکستان کی بنیاد بنے۔
سیاسی نمائندگی
انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے سیاستدانوں کو برابر نمائندگی دی گئی تا کہ توازن
برقرار رہے لیکن یہ تعطل کا باعث بنی۔ انکے باہمی تعلقات اتنے رجحانی تھے کہ جج "بمشکل
ایک دوسرے سے بات کرنا گوارا کرتے تھے"۔
مقامی معلومات
27 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
ریڈکلف کی ہندوستان میں تقرری سے پہلے نہ تو کبھی ہندوستان کا دورہ کیا اور نہ ہی وہ وہاں
کوئی نہیں جانتا تھا۔
رازداری
تنازعات اور تاخیر سے بچنے کے لئے تقسیم کو خفیہ رکھا گیا تھا۔ حتمی مسودہ 9اگست اور 12
اگست کو تیار تھا لیکن اس کا اعالن آزادی کے دو دن بعد کیا گیا۔ ریڈ کے مطابق کچھ واقعاتی
ثبوت ہیں جن کے مطابق نہرو اور پٹیل کو خفیہ طور پر الرڈ ماؤنٹ بیٹن یا ریڈکلف کے بھارتی
اسسٹنٹ سیکرٹری کی جانب سے 9اگست یا 10کو پنجاب کی تقسیم کے بارے میں مطلع کر دیا
گیا تھا۔
عمل درآمد
تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان کے نوخیز حکومتوں سرحد پر عملدرآمد کی تمام ذمہ داری
سونپ دی گئی۔ اگست میں الہور کے دورے کے بعد وائسرائے الرڈ ماؤنٹ بیٹن نے الہور میں امن
برقرار رکھنے کے لئے عجلت میں ایک پنجاب سرحد فورس کا اہتمام کیا ،لیکن 50،000افراد
ہزاروں لوگوں کو قتل کرنے کے واقعات کے لیے کافی نہیں تھے جن میں سے 77فیصد دیہی
عالقوں میں تھے۔
ضلع گرداسپور
برطانوی راج کے تحت گرداسپر صوبہ پنجاب کا شمالی ترین ضلع تھا۔ ضلع کو انتظامی طور پر
چار تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ تحصیل شکر گڑھ ،تحصیل گرداسپور ،تحصیل بٹاال اور
تحصیل پٹھان کوٹ۔ چار تحصیلوں میں سے صرف تحصیل شکر گڑھ جو دریائے راوی سے باقی
ضلع سے جدا تھی پاکستان کو دی گئی۔ باقی تمام ضلع بھارت کی ریاست مشرقی پنجاب کا حصہ
بنا۔
تقسیم کے وقت مردم شماری کے بطابق مسلمانوں اور غیر مسلموں کی تقسیم مندرجہ ذیل تھی:
یہ تصور کیا جاتا ہے کہ گرداسپر کو بھارت کو دینے کے لیے مندرجہ ذیل دالئل الرڈ ماؤنٹبیٹن
اور دیگر سرحد کمیشن کے سامنے پیش کئے گئے تھے۔
ریاست کشمیر بھارت کے لیے قابل رسائی ہو جائے گی تا کہ اس کے حکمران بھارتی یونین .1
کے ساتھ الحاق کر سکیں۔
تحصیل پٹھان کوٹ وسطی پنجاب کے ملحقہ شہر ہوشیارپر اور کانگڑا کے ساتھ ایک براہ .2
راست ریلوے سے منسلک تھا۔
بٹاالاور گرداسپور کی تحصیلیں سکھوں کے مقدس شہر امرتسر کے لئے ایک بفر فراہم .3
کریں گی۔
اگر دریائے راوی کے عالقے مشرق کو ایک بالک تصور کیا جائے تو یہ تھوڑا غیر مسلم .4
اکثریتی عالقہ ہو گا۔ یہ بالک امرتسر اور ضلع گرداسپور کی تمام تحصیلوں (شکرگڑھ کو
چھوڑ کر) پر مشتمل ہو گا۔
اس کے عالوہ اس طرح سے سکھ آبادی کی اکثریت ( 58فیصد) مشرقی پنجاب میں شامل ہو .5
جائے گی۔
یہ مغربی پنجاب میں زمین کے بڑے عالقوں کو کھو دینے کے بعد سکھ آبادی کو پرسکون .6
کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔
ضلع فیروزپور/
ضلع گرداسپور کا زیادہ حصہ بھارت کو دیے جانے کو متوازن کرنے کے لیے ریڈکلف نے ضلع
فیروزپور کی تحصیلیں فیروزپور اور زیرا پاکستان میں شامل کرنے کی کوشش کی ،لیکن بیکانیر
کے مہاراجہ نے اس کی مخالفت کی کیونکہ ہاریکے ہیڈورکس جو دریائے ستلج اور دریائے بیاس
سنگم پر واقع ہے جہاں سے نہریں شروع ہوتی ہیں اور یہ فیروز پور کو سیراب کرتا ہے۔ اور یہ
بیکانیر کے مہاراجہ کی الرڈ ماؤنٹ بیٹن کو دھمکی کے بعد کہ اگر ضلع فیروزپور مغربی پنجاب
میں شامل کیا جاتا ہے تو وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کر لے گا۔ آخری وقت میں ضلع فیروزپور
تبدیل کر کے پاکستان کی بجائے بھارت کو دے دیا گیا۔
ضلع مالدہ
ریڈکلف کا ایک متنازع فیصلہ بنگال کے ضلع مالدہ کی تقسیم تھا۔ ضلع مجموعی طور پر ایک
معمولی مسلم اکثریتی تھا لیکن اسے تقسیم کیا گیا اور زیادہ تر حصہ بشمول مالدہ شہر بھارت کو
29 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
دے دیا گیا۔ ضلع 15اگست 1947ء کے بعد 4-3دنوں تک مشرقی پاکستان کی انتظامیہ کے تحت
رہا۔
کریم گنج
آسام کا صلع سلہٹ ایک رائے شماری کے ذریعے پاکستان میں شامل ہو گیا کیکن کریم گنج ایک
مسلم اکثریت عالقہ اور سلہٹ ذیلی تقسیم لیکن سلہٹ سے منقطع بھارت کو دیا گیا۔ 2001ء کی
بھارتی مردم شماری کے بطابق اب بھی کریم گنج میں 52،3فیصد مسلم اکثریت ہے۔
ق ق
رارداد م اصد
قیام پاکستان کے وقت پاکستان کا آئین نہیں تھا آئین 1935ء میں ترامیم کرکےعبوری آئین کے طور پر
نافذ کیا گیا پاکستان اس وقت التعداد مسائل میں گھرا ہوا تھا الکھوں مہاجرین ہندوستان سے پاکستان میں
پناہ لے رہے تھے ان کی رہائش اور خوراک کا بندوبست ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ مغربی پاکستان میں
غیر مسلموں کی تعداد تقریبا ً 3فی صد جبکہ مشرقی پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد 22فی صد تھی
اس لئے بہت سے ایسے سیاست دان تھے جو 25فی صد غیر مسلم آبادی واال ملک کہتے ہوئے ایسے
آئین کا مطالبہ کررہے تھے جو سیکولر ہو جبکہ علمائے کرام کا ایک گروہ اس نقطہ پر زور دے رہا تھا
کہ پاکستان اسالم کے نام پر قائم ہوا ل ٰہذا پاکستان کا سرکاری مذہب اسالم ہوگا نواب زادہ لیاقت علی خان
ان حاالت سے آگاہ اور باخبر تھے وہ بھی علماء کے خیاالت سے متفق تھے اس لئے انہوں نے علمائے
کرام کے تعاون سے ایک قرارداد تیار کی جسے قرارداد مقاصد کا نام دیا گیا قراردا ِد مقاصد ایک قرارداد
تھی جسے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے 12مارچ 1949ء کو منظور کیا۔ یہ قرارداد 7مارچ 1949ء
کو وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان نے اسمبلی میں پیش کی۔ اس کے مطابق مستقبل میں پاکستان کے
آئین کا ڈھانچہ یورپی طرز کا قطعی نہیں ہوگا ،بلکہ اس کی بنیاد اسالمی جمہوریت و نظریات پر ہوگی۔
تقاریب
14اگست کو پاکستان میں سرکاری طور پر تعطیل ہوتی ہے ،جبکہ سرکاری ونیم سرکاری
عمارات میں چراغاں ہوتا ہے اور سبز ہاللی پرچم لہرایاجاتا ہے۔ اسی طرح تمام صوبوں میں
مرکزی مقامات پر تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے او ر ساتھ ساتھ ثقافتی پروگرام کا بھی اہتمام ہوتا
ہے۔ پاکستان کی تمام شہروں میں ناظم قومی پرچم بلند کرتے ہیں جبکہ کثیر تعداد میں نجی اداروں
کے سربراہان پرچم کشائی کی تقاریب میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ سکولوں اور کالجوں میں بھی پرچم
کشائی کی تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رنگارنگ تقاریب ،تقاریر اور
مذاکروں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ گھروں میں بچوں ،جوانوں اور بوڑھوں کا جوش و خروش
توقابل دید ہوتا ہے جہاں مختلف تقاریب کے عالوہ دوپہر اور رات کے کھانے کا بھی اہتمام کیا
جاتا ہے اور بعد ازاں سیروتفریح سے بھی لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ رہائشی عالقوں ،ثقافتی
اداروں اور معاشرتی انجمنوں کے زیر راہتمام تفریحی پروگرام تو انتہائی شاندار طریقے سے
منائے جاتے ہیں۔عالوہ ازیں مقبرہء قائداعظم پر سرکاری طور پر گارڈ کی تبدیلی کی تقریب کا
انعقاد ہوتا ہے ۔ اسی طرح واہگہ باڈر پر بھی ثقافتی تقاریب میں احترامی محافظوں کی تبدیلی کا
عمل وقوع پزیر ہوتا ہے جبکہ غلطی سے واہگہ سرحد پار کرنے والے قیدیوں کی دوطرفہ رہائی
بھی ہوتی ہے۔
ثن
ع ما ست ان
عثمانستان ( )Osmanistanچوہدری رحمت علی کی طرف سے نوابی ریاست حیدرآباد کے لیے
ٹ پن
تجویز کردہ نام تھا۔
ن ن
یو ی سٹ پ ار ی ( ج اب)
یونینسٹ پارٹی ( )Unionist Partyبرطانوی راج کے دوران صوبہ پنجاب میں ایک سیاسی
جماعت تھی۔
ن مس ٹ ن ف ی ش
آل ا ڈی ا لم س وڈ ٹ ی ڈر ن
ن ن مس ٹ ن ف ی ش
س ن
Muslimٹ IndiaفAllش) ای ک ہ دوست ا ی قم ئ لمان Students Federation آل ا ت ڈی ا ت لم س وڈ نٹ ی ڈر ن (
ی ن ن ت ت مس
وابس ہ ھا۔ ی ہ 1937می ں آل ا ڈی ا س وڈ ٹ ی ڈر ن سے الگ ہ و کر ا دگ سے ت مطل ب ا ا حاد عھا ج و آل ا ڈی ا لم ل ی ت
لت اسما ی ل صاحب کی سرپرس ی می ں م حد ہ وا۔
خ ت
حری ک اکسار
تقسیم ہند سے پہلے کی ایک نیم فوجی جماعت ،جس کے بانی عالمہ مشرقی تھے۔یہ تنظیم بیلچہ
پارٹی کے نام سے بھی مشہور تھی کیونکہ اس کے پیروکار کندھے پر بیلچہ رکھ کر چلتے تھے
32 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
ان کا باقاعدہ خاکی یونیفارم تھا ۔ہر خاکسار کے لئے الزم تھا کہ وہ خاکی یونیفارم پہنے بلکہ نماز
روزہ کی پابندی الزم تھی اس سلسلہ میں کوئی عذر قابل قبول نہ تھا غلطی کرنے والے خاکسار کو
جسمانی سزا بھی دی جاتی تھی۔
مارچ 1940ء میں خاکساروں نے اندرون الہور جلوس نکاالجوکہ فوجی پریڈ سے ملتا جلتاتھاجلوس
بھاٹی دروازہ سے شروع ہوا حکومت نے اسے خالف قانون قرار دے کر روکنے کی کوشش کی ۔
ڈبی بازار کے پاس برطانوی پولیس آفیسر نے جلوس روکنے کا حکم جاری کیا جس سے خاکسار
مشتعل ہوگئے انہوں نے پولیس پر حملہ کردیا جس کے نتیجہ میں پولیس آفیسر مارا گیا پولیس نے
گولی چالدی جس کے نتیجہ میں بہت سے خاکسار شہید ہوئے ۔کافی خون خرابے کے بعد حکومت
نے اس کو کالعدم قرار دے کر پابندی لگا دی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد یہ جماعت دوبارہ بحال
ہوئی۔ اس جماعت کے کارکن خاکسار کہالتے ہیں اور وہ عمومی طور پر خاکی رنگ کا لباس
پہنتے ہیں۔ تقسیم سے پہلے یہ جماعت تقسیم ہند کے خالف تھی لیکن بعد میں حمایتی بن گئی۔
خ ع ق
ل ی ا ت لی ان
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے۔ آپ ہندوستان کے عالقے کرنال میں پیدا ہوئے
اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی اور 1922ء میں انگلینڈ بار میں شمولیت اختیار
کی۔ 1923ء میں ہندوستان واپس آئے اور مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ 1936ء میں آپ مسلم لیگ
کے سیکرٹری جنرل بنے۔ آپ قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست تھے۔
عہدہ سنبھاال
15اگست 16 – 1947اکتوبر 1951
شاہی جارج ششم
حکمران
گورنر محمد علی جناح
جنرل خواجہ ناظم الدین
پیشرو تحریک پاکستان
جانشین خواجہ ناظم الدین
Minister of Foreign Affairs of
Pakistan
عہدہ سنبھاال
15اگست 27 – 1947دسمبر1949 /
پیشرو Office established
جانشین محمد ظفر ہللا خان
وزیر دفاع پاکستان
عہدہ سنبھاال
15اگست 16 – 1947اکتوبر 1951
پیشرو آغاز دفتر
جانشین خواجہ ناظم الدین
ابتدائی زندگی
آپ کرنال کے ایک نامور نواب جاٹ خاندان میں پیدا ہوئے۔ نواب زادہ لیاقت علی خان ،نواب رستم
علی خان کے دوسرے بیٹے تھے۔ آپ 2اکتوبر1896 ،ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ محمودہ بیگم
نے گھر پر آپ کے لئے قرآن اور احادیث کی تعلیم کا انتظام کروایا۔ 1918ء میں آپ نے ایم اے او
کالج علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ 1918ء میں ہی آپ نے جہانگیر بیگم سے شادی کی۔ شادی کے
بعد آپ برطانیہ چلے گئے جہاں سے آپ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔
سیاسی زندگی
1923ء میں برطانیہ سے واپس آنے کے بعد آپ نے اپنے ملک کو غیر ملکی تسلط سے آزاد
کروانے کے لئے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ 1924ء
میں قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت مسلم لیگ کا اجالس الہور میں ہوا۔ اس اس اجالس کا
مقصد مسلم لیگ کو دربارہ منظم کرنا تھا۔ اس اجالس میں لیاقت علی خان نے بھی شرکت کی۔
1926ء میں آپ اتر پردیش سے قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1940ء میں مرکزی
قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہونے تک آپ یو پی اسمبلی کے رکن رہے۔
پہلی کابینہ
لیاقت علی خان کی کابینہ
مدت وزیر وزارتی دفتر
–1947 Liaquat Ali
وزیر اعظم پاکستان
1951 Khan
–1947
محمد علی جناح 1948
گورنر جنرل پاکستان
خواجہ ناظم الدین –1948
1951
–1947
محمد ظفر ہللا خان Foreign Affairs
1954
–1947 وزیر خزانہ پاکستان،
ملک غالم محمد
1954 Economic
–1947 جوگيندرا ناتھ
Law، Justice، Labor
1951 ماندل
–1947
Fazlur
1948
Rehman Interior
–1948
خواجہ شہاب الدین
1951
–1947
اسکندر مرزا Defence
1954
–1951 سلیم الزماں
Science advisor
1959 صدیقی
–1947 فضل الہی
Education، Health
1956 چوہدری
–1947 Sir Victor ،Financeادارہ
1951 Turner شماریات پاکستان
–1947 بیگم رعنا لیاقت حکومت پاکستان،
1951 علی حکومت پاکستان
–1947 سردار عبدالرب
Communications
1951 نشتر
قاتالنہ حملے
وفات
38 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
کہا جاتا ہے کہ 25جون 1944کو حرکت قلب بند ہونے سے آپ کا انتقال ہوا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے
کہ آپ کو زہر دیا گیا
ج ی ای م س ی د
جی ایم سید (پیدائش 17 : جنوری 1904ء -وفات 25 :اپریل 1995ء) سندھ سے تعلق رکھنے
والے پاکستان کے ممتاز سیاستدان اور دانشور تھے جنہوں نے سندھ کو بمبئی سے علیحدگی اور
سندھ کی پاکستان میں شمولیت کے حوالے سے ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔
حاالت زندگی
جی ایم سید 17جنوری 1904ء کو سندھ میں ضلع دادو کے قصبہ "سن" میں پیدا ہوئے۔ آپ کا
اصل نام غالم مرتضی سید تھا۔ جی ایم سید سندہ کے قوم پرست رہنما تو تھے مگر ان کی دلچسپیان
صوفی ازم ،شاعری ،تاریخ ،اسالمی فلسفہ ،نسلیات اور ثقافت میں بھی تھی۔ 1930ء میں سندھ
ہاری کمیٹی کی بنیاد دکھی۔ جس کی عنان بعد میں حیدر بخش جتوئی ہاتھوں میں آئی۔ ان کا تعلق
سندھ کےصوفی بزرگ سید حیدر شاہ کاظمی کے خانوادوں میں تھا اور وہ ان کی درگاہ کے سجادہ
نشین بھی رہے۔ سید صاحب "سندھ عوامی محاذ" کے بانی بھی تھے۔ سائیں جی ایم سید قیام
پاکستان کے ہیروز میں سے ایک ہیں ان کا تحریک آزادی میں ایک اہم قردار ہے انہی کی بدولت
آج صوبہ سندھ پاکستان کا ایک حصہ ہے .وہ سائیں جی ایم سید ہی تھے جنہوں نے سندھ اسمبلی
میں قیام پاکستان کے حق میں پیش کی اور اسے بھاری اکثریت سے پاس کروایا جس کی بدولت
سندھ پاکستان کا ایک حصہ بنی۔ 1955ء میں انھوں نے نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار
کی پھر ممتاز سندھی دانشور ،ادیب ،معلم محمد ابراہیم جویو ( پیدائش 2اگست 1915ء) کی
مشاورت میں سندھی قوم پرستی کا نعرہ بلند کیا جو مارکسزم ،کبیر،گرونانک اور گاندھیائی فلسفہ
حیات کا ملغوبہ تھا۔ 1966ء میں بزم صوفی سندھ1969 ،ء میں سندھ یونائیڈڈ فرنٹ ،اور 1972ء
میں جے سندھ محاذ کی تشکیل اور انصرام میں اہم کردار ادا کیا۔ سائیں جی ایم سید نے ساٹھ ()60
کتابیں لکھیں۔ "مذہب اور حقیقت" ان کی معرکتہ آرا کتاب ہے۔ ان کی زیادہ تر تصانیف سیاست،
مذہب ،صوفی ازم،سندھی قومیت اور ثقافت اور سندھی قوم پرستی کے موضوعات پر لکھی گی
ہیں۔ 1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد سید صاحب نے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار
علی بھٹو سے " سندھو دیش" کا مطالبہ کیا تھا۔ جی ایم سید کی سیاست ان نکات کے گرد گھومتی
تھی:
عدم تشدد
جمہوریت
سیکولرازم
قومی خود انحصاری اورخود مختاری
جنوبی ایشاہ کی قوموں کے ساتھ اشتراک اور یگانگت
معاشرتی اور اقتصادی مساوات
وہ " اسالمی جمہوریہ پاکستان" کے سخت مخالف تھے۔ تیس ( )30سال پابند سالسل رھے۔ 19
جنوری 1992ء کو ان کو گرفتار کیا گیا اور ان کی موت تک ان کا گھر "زیلی جیل" قرار دے کر
نظر بند کردیا گیا تھا۔
وفات
جی ایم سید 25اپریل 1995ء کو 91سال کی عمر میں جناح ہسپتال کراچی میں وفات پا گئے۔
سردار ع دالرب ن ش رت
ب
39 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
سردار
عبدالرب نشتر
دوسرے گورنر پنجاب
عہدہ سنبھاال
2اگست 24 – 1949نومبر1951 /
گورنر سر خواجہ ناظم الدین
جنرل
وزیر اعظم لیاقت علی خان
پیشرو فرانسس موڈی
جانشین ابراہیم اسماعیل چندریگر
ذاتی تفصیالت
پیدائش عبد الرب نشتر
13جون 1899
پشاور ،برطانوی راج
14فروری ( 1958عمر 58 سال) وفات
کراچی ،مغربی پاکستان
مقام تدفین کراچی ،مغربی پاکستان
قومیت پاکستانی
سیاسی مسلم لیگ
جماعت
مادر علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور
جامعہ پنجاب
پیشہ سیاستدان
سردار عبدالرب نشتر 2اگست 1949ء تا 24نومبر 1951ء تک پاکستان کے صوبہ پنجاب کے
گورنر رہے۔ آپ 13جون 1899ء کو پشاور میں پیدا ہوۓ اور 14فروری 1958ء کو کراچی میں
فوت ہوۓ۔
تعلیم
ۤاپ نے ابتدائی تعلیم مشن اسکول اور بعد میں سناتن دھرم ہائی اسکول ممبئی سے حاصل کی۔ ۤپ
نے بی اے پنجاب یونیورسٹی سے کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری
1995حوالہ درکار؟ میں حاصل کی۔
سیاسی زندگی
فاطمہ جناح مادرملت یعنی قوم کی ماں۔ ہمارے ماہرین تاریخ وسیاست نے مادر ملت کو قائداعظم
کے گھر کی دیکھ بھال کرنے والی بہن کے حوالے سے بہت بلند مقام دیا ہے لیکن انہوں نے قیام
پاکستان اور خصوصا ً 1965ء کے بعد کے سیاسی نقشے پر جو حیرت انگیز اثرات چھوڑے ہیں
ان کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ یہ ایک معنی خیز امر ہے کہ قائد اعظم کی زندگی میں مادر
ملت ان کے ہمر اہ موثر طور پر 19سال رہیں یعنی 1929ء سے 1948ء تک اور وفات قائد کے
41 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
بعد بھی وہ اتنا ہی عرصہ بقید حیات رہیں یعنی 1946ء سے 1967ء تک لیکن اس دوسرے دور
میں ان کی اپنی شخصیت کچھ اس طرح ابھری اور ان کے افکارو کردار کچھ اس طرح نکھر کر
سامنے آئے کہ انہیں بجا طور پر قائداعظم کی جمہوری' بے باک اور شفاف سیاسی اقدار کو ازسر
نو زندہ کرنے کا کریڈیٹ دیا جا سکتا ہے جنہیں حکمران بھول چکے تھے۔
اس سلسلے میں مادر ملت نے جن آرا کا اظہار کیا ان سے عصری سیاسیات و معامالت پر ان کی
ذہنی گرفت نا قابل یقین حد تک مکمل اور مضبوط نظر آتی ہے ۔ 1965ء کے صدارتی انتخاب کے
موقع پر ایوب خاں کی نکتہ چینی کے جواب میں مادر ملت نے خود کہا تھا کہ ایوب فوجی
معامالت کا ماہر تو ہو سکتا ہے لیکن سیاسی فہم و فراست میں نے قائد اعظم سے براہ راست
حاصل کی ہے اور یہ ایسا شعبہ ہے جس میں آمر مطلق نا بلد ہے۔
1965ء کے بعد رونما ہونے والے واقعات مادرملت کے اس بیان کی تصدیق کرنے کے لئے کافی
ہیں۔ مثال کے طور پر مادر ملت نے جن خطرات کی بار بار نشاندہی کی ان میں سے چند ایک یہ
ہیں:
امریکہ کی بڑھتی ہوئی مداخلت۔
بیرونی قرضوں کے ناقابل برداشت دباؤ۔
غربت اور معاشی نا ہمواریوں کے خطر ناک اضافے۔
مشرقی پاکستان اور دیگر پس ماندہ عالقوں کی حالت زار۔
ناخواندگی اور سائنٹیفک تعلیم کے بارے میں حکومت کی مجرمانہ خاموشی۔
نصابات میں اسالمی اقدار اور خاص کر قرآنی تعلیمات کا فقدان۔
جمہوری اور پارلیمانی دستور کی تشکیل میں تاخیر۔
خارجہ پالیسی کے یک طرفہ اور غیر متوازن رویے۔
مادرملت نے اس نوع کے دیگر قومی اور بین االقوامی معامالت کے بارے میں صاحبان اقتدار اور
قوم کوآنے والے خطرات سے آگاہ کرنے والے جو بیانات دیے وہ ان کی دور رس نگاہوں اور
سیاسی بصیرت کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر ہم نی مادر ملت کے برو قت انتبہ پر کان دھرے ہوتے
اور ان خطرات سے بچنے کا اہتمام کیا ہوتا جن کو ان کی نگاہیں صاف طور پر دیکھ رہی تھیں تو
آج ہم ان سخت گیر سیاسی 'اقتصادی اور سماجی بحرانوں کی زد میں نہ ہوتے جن کا ہماری قوم
شب و روز سامنا کر رہی ہے اور یہ بات تو یقینی معلوم ہوتی ہے کہ مشرقی پاکستان کا دلخراش
سانحہ وقوع پزیر نہ ہوتا۔
مادر ملت کی سیاسی زندگی کے قطع نظر انہوں نے جس انداز سے اپنے شب و روز گزارے
اورقوم وملت کے لیے جو قربانیاں دیں ان کے اندر بال شبہ ایک مثالی کردار کے پورے عوامل
موجود ہیں۔ ان عوامل میں پانچ خاص طور پر قابل ذکر ہیں:
اول :وہ ایک مثالی گریلو خاتون تھیں۔ فضول خرچی سے مکمل پرہیز اور سادہ لیکن ضروری
آسائشوں اور سہولتوں سے بھر پور گھر ' قائد اعظم کے لئے طعام و آرام کا ایک نظام االو قات '
سایسی چہل پہل اور مالقاتیوں کے ہجوم کے با وجود پر سکون ماحول 'قائد اعظم اپنی سر گر
میوں کے اختتام پر جب گھر لوٹتے تو اپنے استقبال کے لئے ایک خنداں و شاداں بہن کو موجود
پاتے۔ یہی وہ اطمینان بخش اور آ سودہ خانگی ماحول تھا جس کے طفیل اپنی بیماری کے باوجود
قائد اعظم اپنی پوری لگن اور یک سوئی کے ساتھ تحریک پاکستان کو کا میابی سے ہمکنار کر
سکے۔
دوم :مادر ملت کی زندگی سے ایک اہم سبق یہ بھی ملتا ہے کہ خواتین کو پرو فیشنل تعلیم سے آ
راستہ ہوناچاہئے تا کہ وہ مالی طور پر خود کفیل ہوں اور قومی آمدنی میں بھی اضافہ کر سکیں۔
مادر ملت نے دانتوں کے عالج معالجے میں تخصیص حاصل کی اور کئی سال تک پر یکٹس کی
اور اس دوران غریبوں کا مفت عالج کیا۔
42 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
سوم :مادرملت نے اپنی زندگی کا بیش تر حصہ بے شمار سماجی اور رفاہی اداروں کی سرپر ستی
میں صرف کیا اور ان کی ترقی اور تعمیر میں دامے ،درمے،سخنے مدد کی اس حوالے سے
کشمیری مہاجرین کے لئے ان کی خدمات نا قابل فرا موش ہیں ۔
چہارم :مادر ملت کا سب سے اہم کارنامہ پاکستان کو جمہوریت کے راستے پر دوبارہ گامزن کرنا
ہے انہوں نے1965ء کے صدارتی انتخاب میں حصہ لے کر تحریک پاکستان کی ہما گیر عوامی
شرکت کی یادیں تازہ کردیں اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے مابین یک جہتی اور یگانگت کے
جذبوں کو بیدار کردیا۔ اگرچہ انہیں دھاندلی سے ہرایا گیا لیکن اس کا نتیجہ چند سالوں کے اندر
ایوب خان کی آمریت کے خاتمہ کی شکل میں نکال۔
مادرملت کی سیاسی جدوجہد کے اندر پاکستان کی خواتین کیلئے یہ پیغام مضمر ہے کہ انہیں
سیاسیات سے بے تعلق نہیں رہنا چاہیے۔ اپنے اندر سیاسی شعور پیدا کرنا چاہیے اور انتخابات میں
بھر پور حصہ لے کر محب وطن اور ایماندار لوگوں کو کامیاب بنانا چاہئے۔
اعلی حلقوںاور اقتدار کے ایوانوں میں گھومنے کے باوجود مادر ملت نے اسالمی شعائر کےٰ پنجم:
مطابق زندگی بسر کی اور اپنے آپ کو ہر قسم کے سکینڈل سے محفوظ رکھا۔وہ قائد اعظم کی
طرح بے حد خوددار اور پر وقار تھیں وہ اتحاد اسالمی کی شیدائی تھیں اور ان کی زبر دست
خواہش تھی کہ نوجوان طلبہ و طالبات کیلئے قرآن مجید کی تعلیم کو الزمی قرار دیا جائے۔
خواتین اور خاص کر طالبات پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ قائد اعظم کی اس محترم بہن کی
حیات و خدمات کا مطالعہ کریں اور اپنے اندر کم از کم وہ خصوصیات پیدا کریں جن کا اوپر تذکرہ
کیا گیا ہے۔ انہی خصوصیات کی بدولت خواتین قوم کی ترقی و تعمیر میں بھر پور انداز میں کردار
ادا کر سکتی ہیں۔
مادر ملت کے چند بصیرت افروز افکار:مادر ملت کی حیات و خدمات کے مطالعے سے پتہ چلتا
ہے کہ پاکستان کے معاشرے کی تشکیل و تعمیر اور ترقیاتی پالیسیوں کے بارے میں وہ واضح
نظریات رکھتی تھیں۔ جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا ہے انہیں محض ایک گھریلو خاتون سمجھنا
صحیح نہ ہو گا۔ وہ قائد اعظم کی وفات کے بعد 19سال تک بقید حیات رہیں اور ملک کے سیاسی
'معاشی'سماجی اور تعلیمی مسائل کے بارے میں تواتر کے ساتھ اپنی آرا دیتی رہیں ۔
پنجاب یونیورسٹی کی ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان نے ان کی دو سو سے زیادہ تقاریرچھاپی ہیں
اور اس کے عالوہ اندرونی اور بیرونی معامالت پر ان کے بصیرت افروز تبصرے دیگر کتب
ورسائل میں بگھرے پڑے ہیں۔ ان خیاالت و بیانات کی رہنمائی کیلئے قائد اعظم موجود نہ تھے۔
مادر ملت اپنے طور پر کتب بینی اور مطالعے کی بے حد شوقین تھیں اور مختلف معامالت کے
بارے میں آزادانہ انداز سے سوچتی تھیں۔ ان کے افکار و خیاالت کے بارے میں ابھی تک کوئی
تجزیاتی تصنیف نظر سے نہیں گزری۔
یھاں نمونے کے طور پر ان کے چار بیانات درج کئے جاتے ہیں جن سے مسائل پر ان کی فکری
گرفت کا پتہ چلتا ہے:
اسالمی تعلیمات :اس وقت دنیا عجیب دور سے گزر رہی ہے اور یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کشمکش
کا کیا نتیجہ برآمد ہو گا۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ جو ساری دنیا کیلئے درد سر بنا ہوا ہے وہ یہ
کہ بنی نوع انسان میں کس طرح یگانگت اور مساوات قائم کی جائے.........
(عید میالالنبیۖ کی ایک تقریب سے خطاب 14،جنوری 1950ء)
کشمیر :اس وقت پاکستان کو مختلف اہم مسائل کا سامنا ہے اور یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ان میں
مسئلہ کشمیر سب سے زیادہ اہم ہے ۔مدافعتی نقطہ نگاہ سے کشمیر پاکستان کی زندگی اور روح
کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اقتصادی لحاظ سے کشمیر ہماری مرفع الحالی کا منبع ہے۔پاکستان کے بڑے
43 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
دریا اسی ریاست کی حدود سے گزر کر پاکستان میں داخل ہوتے اور ہماری خوشحالی میں مدد
دیتے اس کے بغیر پاکستان کے مرفع الحالی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اگر خدا نہ کرے ہم کشمیر
سے محروم ہو جائیں تو قدرت کی عطا کردہ نعمت عظمیٰ کا بڑا حصہ ہم سے چھن جائے گا۔
کشمیر ہماری مدافعت کا کلیدی نقطہ ہے۔اگر دشمن کشمیر کی خوبصورت وادی اور پہاڑیوں میں
مورچہ بندی کا موقع مل جائے تو پھر یہ اٹل امر ہے کہ وہ ہمارے معامالت میں مداخلت اور اپنی
مرضی چالنے کی کوشش کرے گا۔ پس اپنے آپ کو مضبوط اور حقیقتا َ طاقتور قوم بنانے کیلئے یہ
انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان کو دشمن کی ایسی سرگرمیوں کی زد میں نہ آنے دیا جائے۔اس
لحاظ سے کشمیر کی مدد ہمارا اولین فرض ہوجاتا ہے۔
یوم پیدائش کے موقع پر جاری کردہ اس پیغام میں انہوں نے مشرقی پاکستان میں
قائ ِد اعظم کے ِ
آنے والے سمندری طوفان سے متاثر ہونے والوں سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا۔
یوم پیدائش منا رہے ہیں ،تو اس
انہوں نے کہا" :آج جب ہم بابائے قوم قائ ِد اعظم محمد علی جناح کا ِ
وقت ہم ان مشکل حاالت سے بھی گھرے ہوئے ہیں جو سنگین روپ اختیار کر سکتے ہیں اور جن
کے نتائج دور رس ہو سکتے ہیں؛ اور کوئی بھی ان حاالت پر تشویش کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ
سکتا۔ یہ حاالت اس لیے پیدا ہوئے ہیں کیونکہ آپ نے قائ ِد اعظم کی وفات کے بعد تمام اسباق کو
بھال دیا ہے۔
"بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان کے لوگوں کو ان اصولوں ،نظریات اور تعلیمات سے دور ہٹایا
جا رہا ہے جن کی وجہ سے یہ مملکت وجود میں آئی۔ یہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحیح کو
غلط سے جدا کریں ،صحیح راستہ اپنائیں اور غلط کو جھٹک دیں۔
"مجھے یقین ہے کہ قائ ِد اعظم کا اپنا گیا جدوجہد ،خدمت اور قربانی کا عظیم راستہ ہمیشہ ہمارے
لیے ہر زمانے میں روشنی کا ایک منار رہے گا۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہم قائ ِد اعظم
کے سکھائے گئے اصولوں پر اپنی عملی زندگی میں کتنا عمل کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ان کی شبیہ
ذہن میں ابھرتی ہے جس میں وہ ہمیں خبردار کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ بھلے ہی اب ہمارے درمیان
اظہار
ِ نہیں پر ان کی عظیم شخصیت اب بھی متاثر کن ہے۔ یہاں میں ان ہزاروں لوگوں سے
ہمدردی کرنا چاہتی ہوں جنہیں اس سمندری طوفان کی وجہ سے بے پناہ نقصان اٹھانا اور بے گھر
ہونا پڑا۔ میری دلی ہمدردی ان تمام لوگوں کے ساتھ ہے۔" (انجمن تاجران کراچی سے خطاب
دسمبر1948ء )
داخلی استحکام :آج صورتحال کیا ہے؟ داخلی طور پر ہم مقصد عمل کے اتحاد سے محروم ہیں
ِ'بیرونی طور پر ہمیں وہ وقار اور عزت حاصل نہیں جس کے ہم مستحق ہیں۔ ُّآپ استحاب نفس
کریں اور سوچیں کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے یقینا َ آپ کو اب وہ دشواریاں پیش نہیں جو آزادی
سے قبل دو عظیم طاقتور کے مقابلے میں در پیش تھیں کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ اب تک اس
کی قیادت پیدا کرنے میں ناکام رہے جو آپ کے نظریات اور مساوات کی صدق دلی سے حامی
ہو ؟
کیااس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے آزادی کا مطلب محنت اور جدوجہد کی بجائے آرام اور تن آسانی
سمجھ لیا ہے ؟کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے دشمنوں کو موقع دیا جائے کہ وہ دوستوں کے بھیس
میںآپ کی صفوں میں انتشار پیدا کریںاور ان نظریات سے آپ کو بہکائیںجن کی خاطر پاکستان
معرض وجود میں آیا تھا۔یہ ایسے سواالت ہیں جن کا جواب خود آپ کو دینا چاہیے۔
آج کل خارجہ پالیسی اور خارجہ معامالت پر یہاں بڑی باتیں ہو رہی ہیں لیکن میرے رائے یہ ہے
کہ ان باتوں میں حقیقت شناسی کو بہت کم دخل ہے۔سب سے مقدم یہ ہے کہ ہم اپنے اندرونی حاالت
کو سدھاریں،اگرحکو مت کو سیاسی اور اقتصادی استحکام حاصل ہو جائے تو اسے بیرون ملک
ابتدائی زندگی
چودھری رحمت علی 16نومبر1897 ،ء کو مشرقی پنجاب کےضلع ہوشیار پور کےگاؤں مو ہراں
میں ایک متوسط زمیندار جناب حاجی شاہ گجر کےہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نےایک مکتب
سےحاصل کی جو ایک عالم دین چال رہےتھے۔میٹرک اینگلو سنسکرت ہائی اسکول جالندھر
45 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
سےکیا۔ 1914ءمیں مزید تعلیم کےلئےالہور تشریف الئےانہوں نےاسالمیہ کالج الہور میں داخلہ لیا
۔1915ء میں ایف اے اور 1918ء میں بی اے کیا۔
تعلیمی زندگی
1915ء میں اسالمیہ کالج میں بزم شبلی کی بنیاد رکھی کیونکہ وہ موالنا شبلی سےبہت متاثر
تھےاور پھر اس کےپلیٹ فارم سے 1915ء میں تقسیم ہند کا نظریہ پیش کیا۔ 1918ء میں بی
اےکرنےکےبعد جناب محمد دین فوق کےاخبار کشمیر گزٹ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت
سےاپنےکیئریر کا آغاز بھی کیا۔ 1928ء میں ایچی سن کالج میں اتالیق بھی مقرر ہوئے۔کچھ
عرصہ بعد انگلستان تشریف لےگئے جہاں جنوری 1931ء میں انھوں نے کیمبرج کے کالج ایمنویل
میں شعبہ قانون میں ٰ
اعلی تعلیم کے لئے داخلہ لیا۔ کیمبرج اور ڈبلن یونیورسٹیوں سے قانون اور
اعلی ڈگریاں حاصل کیں۔
ٰ سیاست میں
چودھری رحمت علی ڈاکٹر محمد اقبال کی 1932ء میں بریطانیہ آمد کے موقع پر ان کے ساتھ
عملی زندگی
اخبار کشمیر گزٹ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سےاپنےکیئریر کا آغاز کیا۔ آپ نے "پاکستان دی
فادرلینڈ آف پاک نیشن" " ،مسلم ازم" اور "انڈس ازم" وغیرہ کتابچے بھی لکھے۔ چوہدری رحمت
علی ایچی سن کالج الہور میں لیکچرار مقرر ہوئے اور جیفس کالج میں بھی مالزمت کی۔ آپ نے
بعض اخباروں میں مالزمت بھی اختیار کی۔
1933ء میں آپ نے لندن میں پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی۔ 28جنوری1933 ،ء ،جب وہ
کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھتے تھے "اب یا پھر کبھی نہیں" ( )Now OR Neverکے عنوان سے
چار صفحات پر مشتمل شہرہ آفاق کتابچہ جاری کیا ۔ جو تحریک پاکستان کے قلعے کی آہنی دیوار
ثابت ہوا۔ اور برصغیر کے مسلمانان و دیگر اقوام لفظ "پاکستان" سے آشنا ہوئے ۔آپ کے مطابق
آپ نے یہ نام پنجاب (پ) افغانیہ (ا) کشمیر (ک) سندھ (س) اور بلوچستان (تان) سے اخذ کیا جہاں
مسلمان 1200سال سے آباد ہیں۔ 1935ء میں آپ نے ایک ہفت روزہ اخبار "پاکستان" کیمبرج سے
جاری کیا۔ اور اپنی آواز پہنچانے کے لئے جرمنی اور فرانس کا سفر کیا اور جرمنی کے ہٹلر سے
انگریزوں کے خالف مدد کا وعدہ لیا۔ اس کے عالوہ اسی سلسلہ میں امریکہ اور جاپان وغیرہ کے
سفر بھی اختیار کیا۔
ایسے وقت میں جب ہندو و مسلم قائدین لندن میں جاری گول میز کانفرنسوں کے دوران وفاقی آئین
کے بارے میں سوچ رہے تھے ،یکم اگست1933 ،ء کو جوائینٹ پارلیمینٹری سلیکٹ کمیٹی نے
چودھری رحمت علی کے مطالبہ پاکستان کا نوٹس لیتے ہوئے ہندوستان وفد کے مسلم اراکین سے
سواالت کئے۔ جوابا ً سر ظفر ہللا ،عبدہللا یوسف علی اور خلیفہ شجاع الدین وغیرہ نے کہا کہ یہ
46 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
صرف چند طلباء کی سرگرمیاں ہیں ،کسی سنجیدہ شخصیت کا مطالبہ نہیں کہ جس پر توجہ دی
جائے۔ 1938ء میں آپ نے بنگال ،آسام اور حیدرآباد دکن کی آزادی کے حق میں بھی آواز بلند کی
اور "سب کانٹیننٹ آف براعظم دینیہ " کا تصور پیش کیا۔ جن میں پاکستان ،صیفستان ،موبلستان ،
بانگلستان ،حیدرستان ،فاروقستان ،عثمانستان وغیرہ شامل تھے۔ جن میں جغرافیائی محل وقوع کا
تعین کیا گیا تھا اور با قاعدہ نقشے دئیے گئے تھے ۔ اور 8مارچ1940 ،ء کو کراچی میں پاکستان
نیشنل موومنٹ کی سپریم کونسل سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے حیدر آباد دکن کے لئے
"عثمانستان" کے نام سے آزاد اسالمی ریاست کا خاکہ پھر پیش کیا۔
آپ الہور میں ہونے 23مارچ 1940ء کےمسلم لیگ کے تاریخ ساز جلسے میں شرکت نہ کر
سکے کہ خاکسار تحریک اور پولیس میں تصادم کے باعث اس کشیدہ صورتحال میں پنجاب
حکومت نے آپ پر پنجاب میں داخلے کی پابندی عائد کر دی۔ جبکہ بعض حلقوں کے مطابق اس
اجالس میں شرکت نہ کرنے کی وجہ "مسلم لیگ" کے ساتھ "آل انڈیا" کے لفظ کا استعمال تھا۔
کیونکہ آپ اس کے سخت مخالف تھے اور اس خطے کا ذکر برصغیر یا دینیہ کہہ کرکرتے تھے۔
آپ مسلمانوں کو برصغیر کے اصل وارث سمجھتے تھے کیونکہ انگریزوں نے مسلمانوں سے ہی
حکومت چھینی تھی اور تمام برصغیر کو ایک ریاست میں متحد کرنے والے بھی مسلم ہی تھے۔
اس جلسے میں اگرچہ آپ کا تجویز کردہ نام "پاکستان" شامل نہیں تھا مگر برصغیر کے ہندو
پریس نے طنزاً اسے قرارداد پاکستان کہنا شروع کیا اور باالخر یہ طنز سچ کا روپ دھار گیا۔
قیام پاکستان کے بعد آپ دو بار پاکستان تشریف الئے مگر نامناسب حاالت اور رویوں کے باعث
آپ دلبرداشتہ ہو کر دوبارہ برطانیہ چلے گئے اسی دوران آپ کا 20مئی 1948ء کو پاکستان ٹائمز
میں انٹرویو بھی شائع ہوا۔
آراء
مورخ ڈاکٹر راجندر پرشاد اپنی کتاب India Dividedمیں رقمطراز ہیں کہ
"جہاں تک مجھے علم ہے چوہدری رحمت علی پاکستان نیشنل موومنٹ کے بانی صدر ہیں۔
وہ واحد شخص ہیں جو ہندوستان کی وحدت کو تسلیم کئے جانے کی مخالفت کرتے ہیں اور
اسے مسلمانوں کو ظلم و بربریت میں مبتال کرنے کے مترادف قرار دیتے ہیں"
مشہور ترک ادیبہ خالدہ خانم کی مشہور کتاب Inside Indiaکا ایک باب چوہدری رحمت علی
کے انٹرویو پر مشتمل ہے جو 1937ء میں پیرس میں شائع ہوئی۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ
"پاکستان نیشنل موومنٹ کا منصوبہ فرقہ واریت سے الگ بات ہے۔ تحریک کے مطابق
ہندوستان موجودہ حالت میں ایک ملک نہیں۔ بلکہ برصغیر ہے جو دو ملکوں ہندوستان اور
پاکستان پر مشتمل ہے۔ تحریک کا بانی چوہدری رحمت علی کو قرار دیا جاتا ہے ،وہ قابل
ترین قانون دان ہے لیکن وکالت ترک کر کے انھوں نے پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد
رکھی۔ اس وقت ان کی زندگی کا غالب مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل ہے ۔ میں
نے مالقات کے دوران یہ محسوس کیا ہے کہ یہ تلخی جو ان کے دل میں ہے ہندوؤں کی
معتصبانہ اور اسالم دشمن ذہنیت سے جوانی میں پیدا ہو گئی تھی ہرگز ان کے نظریہ
پاکستان پر اثر انداز نہیں ہوئی اور وہ اس تحریک کی بنیاد ہندو عداوت پر نہیں رکھتے"
بیماری و وفات
آپ کا آخری پتہ 114ہیری ہٹن روڈ تھا اور آپ مسٹر ایم سی کرین کے کرائے دار تھے۔ مسٹر
کرین کی بیوہ کے مطابق چوہدری رحمت علی اپنا خیال ٹھیک سے نہیں رکھتے تھے ۔ جنوری
کے مہینے میں سخت سردی کے دوران ایک رات آپ ضرورت کے کپڑے پہنے بغیر باہر چلے
گئے اور واپسی پر بیمار ہو گئے ۔ 29جنوری نمونیہ میں مبتال ہو کر شدید بیماری کی حالت میں
آپ کو ایوالئن نرسنگ ہوم میں داخل کرایا گیا لیکن صحت یاب نہ ہو سکے اور وہیں پر 3فروری
1951ء ہفتے کی صبح انتقال ہوا۔
ایمنوئیل کالج ،کیمبرج شہر کے قبرستان اور کیمبرج کے پیدائش و اموات کے ریکارڈ کے مطابق
3فروری1951 ،ء بروز ہفتہ کی صبح اس عظیم محسن نے کسمپرسی کی حالت میں برطانیہ میں
اپنی جان ،جان آفرین کے سپرد کر دی۔
تدفین
17روز تک کولڈ اسٹوریج میں ہم وطنوں ،ہم عقیدوں ،ہم مذہبوں کا انتظار کرتے کرتے باالخر
20فروری1951 ،ء کو دو مصری طلبہ کے ہاتھوں اس غریب الوطن کے جسد خاکی کو انگلستان
کےشہر کیمبرج کے قبرستان کی قبر نمبر بی 8330 -میں ال وارث کے طور پر امانتا ً دفن کر دیا
گیا (کیمبرج سمیٹری ،مارکٹ روڈ – کیمبرج -برطانیہ) ۔
وزراتوں ،االٹمنٹوں ،کلیموں ،ہوس اقتدار کے ماروں کو خبر بھی نہ ہوئی کہ ان کے ملک کی
تحریک کے صف اول کا مجاہد 200پونڈ کا قرض اپنی تجہیز و تکفین کی مد میں کندھوں پر لے
چال ہے ۔مگر سات دہائیوں کے بعد بھی یونہی دیار غیر میں چند گمنام مقبروں کے درمیان ابھی
تک امانتا ً دفن ہے۔
اعزاز
ت پاکستان نے ان کی یاد میں ہیروز آف پاکستان سیریز میں یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری
حکوم ِ
کیا تھا۔
ق ع
ع ب د ال لی م صد ی
ی
عبدالعلیم صدیقی موالنا شاہ احمد نورانی کے والد اور ایک بلند پایہ عالم دین تھے۔
48 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
پیدائش
شہر میرٹھ
ِ محمد عبد العلیم صدیقی قادری 15رمضان المبارک 1310ھ بمطابق 3اپریل 1893ء کو
یوپی بھارت میں قاضی مفتی شاہ عبد الحکیم صدیقی قادری علیہ الرحمہ کے ہاں پیدا ہوئے۔
خاندان
معروف ادیب و شاعر حضرت موالنا اسماعیل میرٹھی ان کے چچا تھے۔ شاہ عبد العلیم صدیقی
نجیب الطرفین صدیقی تھے۔ چنانچہ آپ کا سلسلۂنسب 36ویں پشت میں حضرت محمد بن ابو بکر
تعالی عنہما تک اور سلسلۂحسب 32ویں پشت میں حضرت ابو بکر صدیق رضی ٰ صدیق رضی ہللا
اعلی حضرت موالنا قاضی حمید الدین صدیقی خجندی
ٰ تعالی عنہ تک پہنچتا ہے۔ آپ کے مورث
ٰ ہللا
1525ء میں ظہیر الدین محمد بابر بادشاہ کے ہمراہ ہندوستان تشریف الئے تھے۔اس طرح آپ کے
آبا و اجداد میں سے کئی حضرات قاضی القضات کے منصب پر فائز رہے۔
تعلیم و تربیت
آپ نے اردو ،عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی
چار سال دس ماہ کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ ختم کیا اور صرف سات سال کی عمر میں قرآن
پاک مکمل حفظ کر لیا۔ بعد ازاں ،مدرسۂ عربیہ اسالمیہ ،میرٹھ ،میں داخل ہوئے۔ تین جمادی
االخری 1322ھ (اگست 1904ء) کو والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھا ،تو بقیہ تعلیم و تربیت آپ کےٰ
بھائی عالمہ احمد مختار صدیقی نے کی۔ پھر انہوں نے مدرسہ قومیہ عربیہ ،میرٹھ ،میں داخلہ لیا
درس نظامی کی سند حاصل کی۔ دینیات کے موضوع پر ِ اور 1326ھ میں امتیازی حیثیت سے
نیشنل عربک انسٹی ٹیوٹ سے ڈپلوما کیا۔ بعدازاں بی۔اے کیا اور پھر وکالت کا امتحان پاس کر کے
ٰالہ آباد یونیورسٹی سے ایل۔ایل۔ بی کی سند حاصل کی۔ میرٹھ کے مشہور حکیم احتشام الدین
(علم طب) سیکھا
ِ صاحب سے فن حکمت
دمحم علی ج وہ ر
پیدائش1878 :ء
انتقال1931 :ء
ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم رہنما۔ جوہر تخلص۔ ریاست رام پور میں پیدا ہوئے۔ دو سال کے
تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا۔ والدہ مذہبی خصوصیات کا مرقع تھیں ،اس لیے بچپن ہی سے تعلیمات
اسالمی سے گہرا شغف تھا۔ ابتدائی تعلیم رام پور اور بریلی میں پائی۔ اعلی تعلیم کے لیے علی گڑھ
چلے گئے۔ بی اے کا امتحان اس شاندار کامیابی سے پاس کیا کہ آلہ آباد یونیورسٹی میں اول آئے۔
آئی سی ایس کی تکمیل آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی۔ واپسی پر رام پور اور بڑودہ کی ریاستوں میں
مالزمت کی مگر جلد ہی مالزمت سے دل بھر گیا۔ اور کلکتہ جا کر انگریزی اخبار کامریڈ جاری
کیا۔ موالنا کی الجواب انشاء پردازی اور ذہانت طبع کی بدولت نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ہند
بھی کامریڈ بڑے شوق سے پڑھا جاتا جاتا تھا۔
انگریزی زبان پر عبور کے عالوہ موالنا کی اردو دانی بھی مسلم تھی۔ انھوں نے ایک اردو
روزنامہ ہمدرد بھی جاری کیا جو بے باکی اور بے خوفی کے ساتھ اظہار خیال کا کامیاب نمونہ
تھا۔ جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینے کے جرم میں موالنا کی زندگی کا کافی حصہ قید و بند
میں بسر ہوا۔ تحریک عدم تعاون کی پاداش میں کئی سال جیل میں رہے۔ 1919ء کی تحریک
خالفت کے بانی آپ ہی تھے۔ ترک مواالت کی تحریک میں گاندھی جی کے برابر شریک تھے۔
جامعہ ملیہ دہلی آپ ہی کی کوششوں سے قائم ہوا۔ آپ جنوری 1931ء میں گول میز کانفرنس میں
49 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
شرکت کی غرض سے انگلستان گئے۔ یہاں آپ نے آزادیء وطن کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ
اگر تم انگریز میرے ملک کو آزاد نہ کرو گے تو میں واپس نہیں جاؤں گا اور تمہیں میری قبر بھی
یہیں بنانا ہوگی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے لندن میں انتقال فرمایا۔ تدفین کی غرض سے نعش
بیت المقدس لے جائی گئی۔ موالنا کو اردو شعر و ادب سے بھی دلی شغف تھا۔ بے شمار غزلیں
اور نظمیں لکھیں جو مجاہدانہ رنگ سے بھرپور ہیں۔ مثالً
پیدائ 1873ء
ش وزیر آباد،
پنجاب
وفات 1956ء
وزیر آباد،
پنجاب
پیشہ شاعر،
صحافی
ابتدائی حاالت
موالنا ظفر علی خان 19جنوری1873 ،ء میں کوٹ میرٹھ شہر وزیر آباد میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے
اپنی ابتدائی تعلیم مشن ہائی اسکول وزیر آباد سے مکمل کی اور گریجویشن علی گڑھ مسلم
یونیورسٹی سے کی۔ کچھ عرصہ وہ نواب محسن الملک کے معتمد ( )Secretaryکے طور پر
بمبئی میں کام کرتے رہے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ مترجم کی حیثیت سے حیدرآباد دکن میں کام
کیا اور محکمہ داخلہ ( )Home Departmentکے معتمد کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ اخبار
"دکن ریویو" جاري كيا اور بہت سی کتابیں تصنیف کرکے اپنی حیثیت بطور ادیب و صحافی
خاصی مستحکم کی۔
زمیندار کی ادارت
”
وہ جوان ،زور آور اور جرات مند تھے اور نئے سیاسی اطوار کا پرجوش انداز میں سامنا
کیا۔ ان کی ادارت میں زمیندار شمالی ہند کا سب سے اثر انگیز اخبار بن گیا اور خالفت
“ تحریک میں ان سے زیادہ فعال کردار صرف علی برادران اور موالنا ابو الکالم آزاد ہی
تھے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب پاکستان کا واحد صوبہ تھا جس نے اردو کو اپنی زبان کے طور پر
اپنایا اور اسے کام کی زبان بنایا باوجود اس کے کہ پنجابی اس صوبے کی مادری زبان ہے اور
سب سے زیادہ بولی جاتی ہے۔ پنجابی کا اصل رسم الخط گورمکھی کو مسلمانوں نے اس لیے نہیں
اپنایا کہ یہ سکھ مذہب سے جڑا ہوا تھا۔ اس طرح اردو انگریزی کے ساتھ پنجاب کی اہم لکھی
جانے والی زبان بن گئی اور دونوں تقریبا ایک جتنی مقدار میں سرکاری اور تعلیمی زبان کے
طور پر استعمال ہوتی رہیں۔ وفات :انھوں نے 27نومبر 1956ء کو وزیر آباد کے قریب اپنے آبائی
نماز جنازہ ان کے ساتھی محمد عبدالغفور ہزاروی نے
ِ شہر کارامآباد میں وفات پائی۔ ان کی
پڑھائی۔ پنجاب کے دانشوروں ،لکھاریوں ،شاعروں اور صحافیوں نے ،جن میں سر فہرست
عالمہ اقبال اور موالنا ظفر علی خان تھے ،اردو کی زلف گرہ گیر کو محبت اور توجہ سے اس
طرح سنوارا کہ وہ صوبے کی الڈلی زبان بن گئی ۔ دلی اور لکھنو کے بعد پنجاب نے اردو کی
51 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
ترقی و ترویج میں انتہائی اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔ اس ضمن میں کتاب"پنجاب میں اردو" از
حافظ محمود شیرانی بہت معلوماتی اور علمی تحقیق سے مزین ہے۔
پنجابی یا ہندی کا اپنا کوئی رسم الخط نہیں بلکہ یہ گورمکھی سنسکرت کا رسم الخط تھا جوکہ اب
معدوم ہو چکی ہے اور ہندؤں نے بھارت میں تعصب برتتے ہوئے اردو کو گورمکھی رسم الخط
میں تحریر کر کے اسے ہندی کا نام دے دیا .پنجابی .نے اردو رسم الخط کو اپنا رسم الخط قرار
دے لیا ہے اور برصغیر کے تمام پنجابی بولنے والے شعرراء اور ادیبوں نے اسی رسم الخط میں
لکھا ہے جن میں سکھ لکھاری مثلن مہندر سنگھ بیدی وغیرہ شامل ہیں اسی رسم الخط کو اپنایا ہے.
[آفتاب الدین قریشی]
کتابیں
موالنا ظفر علی خان غیر معمولی قابلیت کے حامل خطیب اور استثنائی معیار کے انشا پرداز
تھے ۔صحافت کی شاندار قابلیت کے ساتھ ساتھ موالنا ظفر علی خان شاعری کے بے مثال تحفہ
سے بھی ماال مال تھے۔ ان کی نظمیں مذہبی اور سیاسی نکتہ نظر سے بہترین کاوشیں کہالتی ہیں۔
وہ اسالم کے سچے شیدائی ،محب رسول صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم اور اپنی نعت گوئی کے لیے
مشہور و معروف ہیں۔ ان کی شاعرانہ کاوشیں بہارستان ،نگارستان اور چمنستان کی شکل میں
چھپ چکی ہیں۔ ان کی مشہور کتابیں درج ذیل ہیں:
معرکہ مذہب و سائنس
غلبہ روم
سیر ظلمت
جنگ روس و جاپان
وہ میلہ رام وفا کی شاعری سے بہت متاثر تھے اور ایک نوآموز شاعر کو میلہ رام کا شعر سنا کر
نصیحت بھی کیا کرتے تھے:
توڑتا ہے شاعری کی ٹانگ کیوں اے بے ہنر!
جا سلیقہ شاعری کا سیکھ میلہ رام سے
واج ہ ا م الدی ن
وزیراعظم پاکستان
عہدہ سنبھاال
17اکتوبر 1951ء 17 – اپریل 1953ء
شاہی جارج ششم
حکمران الزبتھ دوئم
گورنر ملک غالم محمد
جنرل
پیشرو لیاقت علی خان
جانشین محمد علی بوگرہ
گورنر جنرل پاکستان
عہدہ سنبھاال
14ستمبر 1948ء 17 – اکتوبر 1951ء
11نومبر 1948تک عبوری
خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل تھے۔ لیاقت علی خان کی وفات کے بعد آپ
نے پاکستان کے دوسرے وزیر اعظم کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔
آپ ڈھاکہ ،بنگال (موجودہ بنگلہ دیش) میں نواب آف ڈھاکہ کے خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ نے
ابتدائی تعلیم برطانیہ سے حاصل کی۔ آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل بھی ہیں۔
اعلی بھی رہے.
ٰ آپ نے بنگال کی سیاست میں حصہ لیا۔ آپ بنگال میں وزیر تعلیم اور پھر وزیر
خ ق
د ال ی وم ان عب
ن ت ف ئ ئ ق
خ خ
ع ب دال ی وم ان ق(پ ی دا خ
ش
ش 16 :ج توال ی1901 ،تء ،وت ات 22 :اک وب ر ،ء 1981ن) ئپ اکست ا ی س ی است اور اص طور پر صوب ہ
ع
ے۔ صوب ہ سرحد می ں آپ ا ب سپ ی کر ،وزیرا ٰلی اور مرکزی حکومت ے ج اے ھ سرحد فمی قں ای ک خ د آور صی ت ف
صور یکئ
ے۔ می ں و ا ی وزیر دا لہ کے عہدوں پر ا ز رہ
ن
ت
خ ا دان
ع ئ پش فئ ت خ ق
حاظ سے ا لجٰی پ اےشکے کے ے ئآپ ے۔ھ ز ا ر عہدے کےت لدار صح ں م
ق سرحد ہ صو ت
والد کے ان ومتی ع دال
ل ی پ ی ی ش ب کب
ے۔ آپ کے ای ک ب ھا ی ع ب د الحم ی د خ ان آزاد موں و ک می ر ا
یج ہ ا ا ا ت ب سے وم ری ئ
ی م ک ق ل ے ج کہ آپ تکا ع
ع ب مخ ب ھ ل ی و
ہ ن
کے وزیرا ظ م ھی ب وے۔
پیر علی محمد راشدی (انگریزی( ،)Pir Ali Muhammad Rashidi :پیدائش 5 :اگست1905 ،ء -
وفات 14 :مارچ1987 ،ء) سندھ سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے ممتاز سیاستدان ،صحافی،
مورخ ،سفارت کار اور ادیب تھے۔ وہ تحریک پاکستان کے کارکن اور قائد اعظم محمد علی جناح کے
قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ آپ تحریک پاکستان کے ان اشخاص میں شامل تھے جنہوں نے
تاریخی قرارداد پاکستان کی ڈرافٹنگ کا کام سرنجام دیا۔ آپ سندھ کے ممتاز مورخ ،محقق اور فارسی
ادبیات کے ماہر پیر حسام الدین راشدی کے بڑے بھائی ہیں۔
حاالت زندگی
پیر علی محمد راشدی 5اگست1905 ،ء کو سندھ میں ضلع الڑکانہ کے گاؤں بہمن ،برطانوی
ہندوستان موجودہ پاکستان میں سندھ کے مشہور روحانی گھرانے راشدی خاندان میں پیر سید حامد
شاہ راشدی کے گھر پیدا ہوئے[]2[]1۔ انہوں نے کسی اسکول یا کالج سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ
[]2
گھر پر ہی عربی ،فارسی اور انگریزی زبانوں میں مہارت حاصل کی۔
صحافت
پیر علی محمد راشدی نے گھر پر تعلیم حاصل کرنے کے بعد صحافت کے پیشے سے وابستہ ہو
گئے۔[ ]2ان میں پندرہ سال کی عمر میں ہی لکھنے کی صالحیت پیدا ہو چکی تھی اور وہ اتنا مطالعہ
بھی رکھتے تھے کہ اخبار کے لیے مضامین لکھنے لگے۔ انھوں نے اپنے گائوں سے ایک ماہنامہ
الراشد جاری کیا۔ یہ موالنا ابوالکالم آزاد کے الھالل اور البالغ کی طرز پر شائع ہونے لگا۔ اس کا
دفتر پیر صاحب نے اپنے گاؤں 'بہمن ' میں ہی رکھا ۔ خود لکھتے ہیں کہ1924 :ء تک جب میری
عمر انیس برس کی تھی ،مجھ میں اتنی صالحیت پیدا ہو گئی تھی کہ میں کچھ لکھ سکتا ہوں ۔ میں
نے ایک ماہنامہ 'الراشد' کے نام سے وہیں گاؤں سے نکالنا شروع کر دیا ،اس کو چھپوایا سکھر
[]1
سے تھا مگر دفتر گاؤں میں ہی رکھا۔
سیاست
پیر علی محمد راشدی ان کا شمار تحریک پاکستان کے بنیادی کارکنوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان بنانے
میں ان کا کردار اہم رہا ہے اور پاکستان کی آبیاری میں بھی پیش پیش رہے۔ پیر صاحب قائد اعظم
محمد علی جناح کے قریبی ساتھی اور تحریک پاکستان میں ان کے شانہ بشانہ رہے۔ خود قائد اعظم
ان کے معترف تھے۔ بعض موقعوں پر دونوں کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ 23
مارچ 1940ء کو الہور میں قائد اعظم کی زیر صدارت اجالس میں پیش کی گئی تاریخی قرارداد
پاکستان کی ڈرافٹنگ پیر صاحب نے کی تھی ۔ اسی سلسلے میں پیر صاحب نے ایک سال تک
الہور میں قیام بھی کیاتھا۔ انھوں نے 1938ء میں کراچی میں مسلم لیگ کانفرنس کے انعقاد میں اہم
کردار ادا کیا جس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی۔ اس اجالس میں ہندوستان کے
بڑے مسلم لیگی رہنما شریک تھے۔ اسی اجالس میں شیخ عبدالمجید سندھی نے مسلمانوں کے لیے
ایک عالحدہ وطن کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد قائد اعظم اور عبدہللا ہارون کی سربراہی میں ایک
فیکٹس فائنڈنگ کمیٹی بنائی گئی اور راشدی صاحب کو ان کا سیکریٹری بنایا گیا ۔ بعد ازاں قائد
اعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے راشدی صا حب کو لیگ کی فارن کمیٹی کا
سیکریٹری مقرر کیا ۔ وہ مسلم لیگ کے صوبائی سیکریٹری بھی بنے۔ حقیقت کی نگاہ سے دیکھا
جائے تو پیر صاحب قومی یکجہتی کا مکمل نمونہ تھے۔ وہ سچے محب وطن اور پکے مسلم لیگی
[]1
تھے۔
سفارتی خدمات
1957ء میں مرکزی مجلس قانون ساز سے مستعفی ہو کر فلپائن میں پاکستان کے سفیر بن گئے۔
اعلی سول اعزاز
ٰ فلپائن کی حکومت نے ان کو چار سال تک سفیر کی حیثیت سے خدمات دینے پر
آرڈر آف سیکا تونا سے نوازا ۔ 1962ء میں وہ چین میں سفیر مقرر ہوئے ۔ اسی دوران ان کی
مالقاتیں ماؤ زے تنگ اور چو این الئی کے ساتھ ہوتی رہیں ۔ چین اور پاکستان کو قریب النے میں
[]1
راشدی صاحب کا تاریخی کردار اہم ہے۔
57 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
ادبی خدمات
پیر علی محمد راشدی اپنی ذات میں ایک تحریک تھے۔ ان کے قلم سے افسر شاہی سے لے کر
نوکر شاہی تک کتراتے تھے۔ حکمران ان کی تحریروں سے خائف رہتے تھے۔ لکھنے کے
معاملے میں وہ بے باک تھے اور ان کا قلم حق و صداقت کی پاسداری کرتا تھا۔ سندھی ان کی
مادری زبان تھی۔ مگر اردو پر ان کو ملکہ حاصل تھا۔ پیر علی محمد راشدی خاص نظریے کے
تحت لکھتے تھے۔ وہ بالواسطہ یا بالواسطہ مسائل کی نشاندہی کرتے اور ان کا حل بتاتے رہتے
تھے۔ ملکی خواہ غیر ملکی حاالت پر کڑی نگاہ رکھتے تھے۔ان کی نظر میں ملکی اور دیگر
ملکوں کی خرابیوں کا اصل محرک ،نوکر شاہی اور افسر شاہی تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان کو یہ
بیماری والدت سے ہی لگ چکی تھی۔ لیاقت علی خان کے قتل سے ملک میں نوکر شاہی اور افسر
شاہی کے بھاگ جاگ گئے ۔ وہ خود لکھتے ہیں
قائد ملت کی شہادت 16اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں واقع ہوئی ،اس دن جمہوریت
”
“ کا چراغ بجھ گیا اور نوکر شاہی کے لیے آگے بڑھنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کا
[]1
راستہ کھل گیا۔
اگرچہ پاکستانی عوام سے پیر علی محمد راشدی کا حقیقی تعارف سادہ اور عام فہم زبان میں
تحریر اردو کالم ہی بنے ،لیکن سیاست و صحافت میں مصروف رہتے ہوئے وہ اپنی تاریخ ،تہذیب
اور ثقافت سے بھی غافل نہ رہے۔ راشدی صاحب نے سندھ کی تاریخ پر مضامین اور تحقیقی
مقالے بھی تحریر کیے ،جو تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے ۔ سکھر میں رہائش کے دوران راشدی
صاحب کا واسطہ سکھر اور روہڑی کے آثار قدیمہ سے بھی پڑا اور ان پر تحقیقی کام کیا۔ پیر علی
محمد راشدی کی یادداشت پر مبنی سندھی کتاب اھے ڈینھن اھے شینھن کو کالسک کا درجہ حاصل
ہے ۔ یہ کتاب تین ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے جو سندھی ادب کا شاہکار ہے۔ اس کے عالوہ فریاد
سندھ کتاب بھی سندھی ادب میں اہم ہے۔ راشدی صاحب نے ایک انگریزی کتاب STORY OF
SUFFERINGS OF SINDکے عنوان سے لکھی لیکن جو خان بہادر محمد ایوب کھوڑو کے
نام سے شائع ہوئی تھی ،اس کے عالوہ پیر صاحب کی ایک اہم کتاب SINDH WAYS AND
[]1
DAYSمنظر عام پر آچکی ہے۔
تصانیف/
رودا ِد چمن (اردو)
اھے ڈینھن اھے شینھن (سندھی)
فریاد سندھ (سندھی)
چین جی ڈائری (سندھی)
ون یونٹ کی تاریخ (اردو)
(بہ زبان انگریزی) SINDH: WAYS AND DAYS
وفات
58 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
پیر علی محمد راشدی 14مارچ 1987ء کو کراچی ،پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں واقع
[2
سندھی مسلم جماعت کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
ش
حسی ن ہ ی د سہروردی
حسین شہید سہروردی پاکستان کے سیاست دان تھے آپ 1956ء سے 1957ء تک پاکستان کے
وزیراعظم رہے۔ آپ قائد اعظم کے پسندیدہ افراد میں سے تھے۔ 16اگست1946 ،ء کے راست
اقدام کے موقع پر آپ نے شہرت حاصل کی۔
عہدہ سنبھاال
12ستمبر 1956ء 17 – اکتوبر 1957ء
صدر اسکندر مرزا
پیشرو چودھری محمد علی
جانشین ابراہیم اسماعیل چندریگر
وزیر دفاع پاکستان
عہدہ سنبھاال
12ستمبر 1956ء 17 – اکتوبر 1957ء
پیشرو چودھری محمد علی
جانشین ممتاز دولتانہ
وزیر اعظم بنگال
عہدہ سنبھاال
3جوالئی 1946ء 14 – اگست 1947ء
گورنر Frederick Burrows
پیشرو خواجہ ناظم الدین
جانشین عہدہ ختم
ذاتی تفصیالت
پیدائش 8ستمبر 1892
مدناپور ،بنگال پریذیڈنسی،
برطانوی راج
وفات 5دسمبر ( 1963عمر 71 سال)
بیروت ,لبنان
مقام تدفین تین رہنماؤں کے مزار ،ڈھاکہ
سیاسی عوامی لیگ
جماعت
59 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
مادر علمی سینٹ زیویرس کالج ،کلکتہ
کلکتہ یونیورسٹی
سینٹ کیتھرین کالج ،آکسفورڈ
Inns of Court School of
Law
ن ق
ب ی گم رع ا ل ی ا ت لی
ع
بیگم رعنا لیاقت علی1961 ،
دسویں گورنر سندھ
عہدہ سنبھاال
15فروری 28 – 1973فروری 1976
صدر فضل الہی چوہدری
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو
پیشرو میر بخش تالپور
جانشین محمد دالور
حلقہ کراچی
خاتون اول پاکستان
عہدہ سنبھاال
14اگست 16 – 1947اکتوبر 1951
صدر آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن
عہدہ سنبھاال
14اگست 29 – 1949اکتوبر 1951
ذاتی تفصیالت
پیدائش شیال ارانی پنٹ (Sheila
)Irene Pant
13فروری 1905
الموڑا ،آگرہ اور اودھ متحدہ
صوبہ
13جون ( 1990عمر 85 سال) وفات
کراچی ,سندھ
شہریت برطانوی راج ()1947–1912
پاکستان ()1990–1947
بیگم رعنا لیاقت علی پاکستان کی خاتون اول ،پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی
بیگم ،تحریک پاکستان کی رکن اور سندھ کی پہلی خاتون گورنر تھیں۔
حاالت زندگی
بیگم رعنا لیاقت علی لکھنو ،برطانوی ہندوستان میں 1912ء میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم نینی تال
کے ایک زنانہ ہائی اسکول میں حاصل کی۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے معاشیات اور عمرانیات
کیا ۔ کچھ عرصہ ٹیچر رہیں۔ 1933ء میں خان لیاقت علی خان سے شادی ہوئی۔ پاکستان بننے سے
قبل آپ نے عورتوں کی ایک تنظیم "اپوا" قائم کی۔ قیام پاکستان کے بعد ایمپالئمنٹ ایکسچینج
اوراغوا شدہ لڑکیوں کی تالش اور شادی بیاہ کے محکمے ان کے حوالے کیے گئے۔ اقوام متحدہ
وفات
ت قلب بند ہونے کے سبب کراچی میں انتقال کرگئیں اور بیگم رعنا لیاقت علی 1990ء میں حرک ِ
مزار قائد کے احاطے لیاقت علی خان کے پہلو میں مدفون ہیں۔
ِ
ش ئ
ا ست ہ اکرام ہللا
بیگم ڈاکٹر شائستہ اکرام ہللا
پیدائش شائستہ اختر سہروردی 22جوالئی 1915
ءکلکتہ ،برطانوی ہندوستان
وفات 10دسمبر 2000ءمتحدہ عرب امارات
آخری آرام کراچی ،پاکستان
گاہ
قلمی نام شائستہ سہروردی
پیشہ ادیبہ ،سیاستدان ،سفارت کار
زبان اردو ،انگریزی
نسل مہاجر
شہریت پاکستانی
تعلیم پی ایچ ڈی
مادر علمی لندن یونیورسٹی
نمایاں کام کوشش نا تمام
ِ
پردے سے پارلیمنٹ تک
دلی کی خواتین کی کہاوتیں اور محاورے
اہم نشان امتیاز
اعزازات
بیگم ڈاکٹر شائستہ سہروردی اکرام ہللا (انگریزی)Shaista Suhrawardy Ikramullah :
(پیدائش 22 :جوالئی1915 ،ء -وفات 10 :دسمبر2000 ،ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو
کی نامور مصنفہ ،تحریک پاکستان کی مشہور خاتون رہنما ،پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کی
رکن اور سفارت کار تھیں۔
حاالت زندگی
شائستہ اکرام ہللا 22جوالئی1915 ،ء کو کلکتہ ،برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئیں۔[]2[]1۔ ان کے والد
حسان سہروری برطانوی وزیر ہند کے مشیر تھے۔1932ء میں ان کی شادی مشہور سفارت کار
محمد اکرام ہللا سے ہوئی جو قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر
فائز ہوئے۔ بیگم شائستہ اکرام ہللا شادی سے پہلے ہی شائستہ اختر سہروردی کے نام سے افسانہ
62 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
لکھا کرتی تھیں اور ان کے افسانے اس زمانے کے اہم ادبی جرائد ہمایون ،ادبی دنیا ،تہذیب نسواں
اور عالمگیر وغیرہ میں شائع ہوتے تھے۔ 1940ء میں انہوں نے لندن یونیورسٹی سے ناول نگاری
کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ،وہ اس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی ہندوستانی
خاتون تھیں۔ تحریک پاکستان کے دنوں میں انہوں نے جدوجہد آزادی میں بھی فعال حصہ لیا اور
بنگال لیجسلیٹو اسمبلی کی رکن رہیں۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی
کی رکن بھی رہیں۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی اور
مراکش میں سفارتی خدمات انجام دیں۔ ان کی تصانیف میں افسانوں کا مجموعہ کوشش ناتمام ،دلی
کی خواتین کی کہاوتیں اور محاورے ،فرام پردہ ٹو پارلیمنٹ (پردے سے پارلیمنٹ تک) ،لیٹرز ٹو
نینا ،بیہائینڈ دی ویل اور اے کریٹیکل سروے آف دی ڈیولپمنٹ آف دی اردو ناول اینڈ شارٹ
[]1
اسٹوری شامل ہیں۔
بیگم شائستہ اکرام ہللا کی ایک وجہ شہرت یہ بھی ہے کہ وہ اردن کے سابق ولی عہد شہزادہ حسن
[]1
بن طالل اور بنگلہ دیش کے سابق وزیر خارجہ رحمن سبحان کی خوش دامن تھیں۔
تصانیف/
کوشش ناتمام
دلی کی خواتین کی کہاوتیں اور محاورے
فرام پردہ ٹو پارلیمنٹ (اردو ترجمہ پردے سے پارلیمنٹ تک)
لیٹرز ٹو نینا
بیہائینڈ دی ویل
اے کریٹیکل سروے آف دی ڈیولپمنٹ آف دی اردو ناول اینڈ شارٹ اسٹوری
اعزازات
حکومت پاکستان نے بیگم شائستہ اکرام ہللا کی خدمات کے اعتراف کے طور پر نشان امتیاز کا
[]1
اعزاز عطا کیا تھا۔
وفات
بیگم شائستہ اکرام ہللا 10دسمبر2000 ،ء کو متحدہ عرب امارات میں وفات پا گئیں۔ وہ کراچی میں
[]2[]1
حضرت عبدہللا شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں سپرد خاک ہوئیں۔
ج ن نت ن
وگي درا ا ھ ما دل
جوگيندرا ناتھ ماندل (پیدائش 29 :جنوری 1904ء -وفات 5 :اکتوبر 1968ء) پاکستان کے بانیان میں
ایک تھے ،آپ تحریک پاکستان کے سرگرم رکن اور پاکستان کے پہلے وزیر قانون اور انصاف تھے۔
آپ شیڈول کاسٹ کے لیڈر بھی تھے ۔ پاکستان کی پہلی کابینہ میں شامل ہو کر اقلیتوں کی بہبود کے
لیے بھی کام کیا۔
لس ض
ی اء الدی ن احمد ہری
' ضیاء الدین احمد سلہری '(پیدائش ،1913وفات 21اپریل )1999ایک مشہور سیاسی صحافی اور
قدامت پسند مصنف تھے۔آپ کی پیدائش ظفروال کے ایک گاؤں “دیولی“ میں ہوئی۔آپ تحریک کے
سرگرم کارکن رہے۔پاکستان کے اولین صحافیوں میں اُن کا شمار ہوتا ہے۔انہوں نے پاکستان پر
بہت سی تاریخی اور سیاسی کتابیں لکھی۔اس کے عالوہ برصغیر میں اسالم کے حوالے سے بھی
کافی کچھ لکھا۔ .
ابتدائی زندگی
حمید نظامی فیصل آباد کے قریب سانگلہ ہل میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی الہور سے انگریزی
میں ماسٹر کیا۔یونیورسٹی میں ہی پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن بنائی اور اس کے پہلے صدر
منتخب ہوئے اور اسی وجہ سے قائد اعظم کے قریب بھی آ گئے۔
نوائے وقت
1940میں پندرہ روزہ نوائے وقت کا اجراء کیا۔
وفات
ان کا انتقال فروری 1962میں ہوا۔
66 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
ف
ال طاف حسی ن (صحا ی)
صحافی ،سلہٹ بنگلہ دیش میں پیدا ہوئے ۔ 1923ء میں ایم اے کیا۔ 1938ء تک مختلف کالجوں
میں انگریزی کے استاد رہے پھر سرکاری مالزمت اختیار کی۔ 1945ء میں روزنامہ ڈان دہلی کے
ایڈیٹر مقررہوئے ۔ قیام پاکستان کے بعد ڈان کراچی منتقل ہوا تو آپ بھی کراچی آگئے ۔ 1951ء
میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی نمائندے کی حیثیت سے شرکت کی۔ 1952ء میں
بین االقوامی اقتصادی کانفرنس منعقدہ ماسکو میں شرکت کی ۔ کچھ عرصہ پاکستان نیشنل کمیٹی
انٹرنیشل پریس انسٹی ٹیوٹ اور کامن ویلتھ پریس یونین کی پاکستان شاخ کے صدر رہے ۔ 1960ء
میں آپ کو ہالل قائداعظم کا اعزاز دیا گیا۔ 1965ء میں مرکزی حکومت کے وزیر صنعت و حرفت
بنائے گئے۔ انگریزی میں تین کتب شکوہ جواب شکوہ کا ترجمہ انڈیا گزشتہ دس سال ،اور ماسکو
میں پندرہ دن کے مصنف ہیں۔
الطاف حسین
আলতাফ হোসেইন
ت پاکستان
صناع ِ
عہدہ سنبھاال
17اگست 15 – 1965مئی 1968
صدر ساالر المیدان ایوب خان
پیشرو اے-کے خان
جانشین امیرالبحرمقابل سید محمد احسان
ایڈیٹر چیف ہائے ڈان
عہدہ سنبھاال
14اگست 16 – 1947اگست 1965
پیشرو عہدہ قائم
جانشین ضیاء الدین احمد سلہری
ذاتی تفصیالت
پیدائش الطاف
26جنوری 1900
سلہٹ ،سلہٹ ضلع ،مشرقی بنگال
(موجودہ بنگلہ دیش)
وفات 25مئی ( 1968عمر 68 سال)
کراچی ،سندھ ،پاکستان
مقام کراچی میں قبرستان ،فہرست
تدفین
خ
یوسف ٹ ک
محمد یوسف خان خٹک ( 18نومبر 1917ء 29 -جوالئی 1991ء) تحریک پاکستان کے فعال کارکن
تھے۔ آپ حالیہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے مشہور و معروف خاندان کے چشم و چراغ تھے،
آپ کے والد کا نام خان بہادر قلی خان خٹک تھا ،جو سابق گورنر اسلم خان خٹک ،لیفٹینٹ جنرل حبیب ہللا
خان اور کلثوم سیف ہللا خان کے بھائی تھے۔ یوسف خٹک صوبہ سرحد (برطانوی سامراج) میں ڈاکٹر
خان صاحب کی سربراہی میں قائم گانگریسی حکومت کے خالف تحریک پاکستان کے انتہائی فعال
کارکن رہے۔ خان لیاقت علی خان کے ساتھ دیرینہ تعلقات کی بناء پر آپ کو تقسیم ہند کے بعد مسلم لیگ
اعلی عبدالقیوم خان کے
ٰ کا سیکرٹری جنرل نامزد کیا گیا۔ تاہم ان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر
مستعفی ہو گئے۔ عبدالقیوم خان نے منظم طور پر یوسف
ٰ ساتھ اختالفات کی وجہ سے پارٹی عہدہ سے
خٹک اور ان کے حمایتی بیرسٹر سیف ہللا خان کے خالف پارٹی میں تحریک چالئی۔
1949ء میں یوسف خٹک کو پارٹی کا صوبائی جنرل سیکرٹری نامزد کیا گیا اور بعد ازاں آپ خان لیاقت
علی خان کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد مرکز میں آل پاکستان مسلم لیگ کے دوسرے سیکرٹری
جنرل نامزد ہوئے۔
آپ پاکستان کے قیام کے بعد زیادہ تر عرصہ حزب اختالف میں رہے ،اور پاکستان کی قومی اسمبلی کے
قائد حزب اختالف بھی منتخب کیے گئے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے خالف محترمہ فاطمہ جناح کی
انتخابی تحریک میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
خان عبدالغفار خان کے ساتھ شدید نظریاتی اختالفات کی بناء پر آپ نے عوامی نیشنل پارٹی کے اس
موقف کہ وہ پشتونوں کی نمائندہ جماعت ہے ،ہمیشہ سخت مخالفت کی۔
1971ء میں قیوم خان کے ساتھ مفاہمت کے نتیجے میں پاکستان مسلم لیگ (قیوم) میں شمولیت اختیار کی
اور قیوم خان کی جانب سے خالی کی جانے والی پشاور کی قومی اسمبلی کی نشست پر انتخابات میں
کامیابی حاصل کی۔
پاکستان مسلم لیگ (قیوم) کی پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت میں شراکت داری پر یوسف خٹک کو
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وفاقی وزیر برائے ایندھن ،توانائی اور قدرتی وسائل تعینات
کیا گیا۔ 1977ء میں قیوم خان کے ساتھ اختالفات اور پارٹی سے علیحدگی کے باوجود آپ نے پشاور سے
انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی۔
1990ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے یوسف خٹک کو سیاست کے میدان میں گراں قدر خدمات
کے صلے میں تمغا سے نوازا اور پاکستان ڈاک کے ان کے نام پر اعزازی ڈاک ٹکٹ جاری کیا
دمحم اسد
یہودیت چھوڑ کو اسالم قبول کرنے والے محمد اسد (سابق نام :لیوپولڈ ویز) جوالئی 1900ء میں
موجودہ یوکرین کے شہر لیویو میں پیدا ہوئے جو اس وقت آسٹرو۔ ہنگرین سلطنت کا حصہ تھا۔
بیسویں صدی میں امت اسالمیہ کے علمی افق کو جن ستاروں نے تابناک کیا ان میں جرمن نو مسلم
محمد اسد کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اسد کی پیدائش ایک یہودی گھرانے میں ہوئی۔ 23سال
کی عمر میں ایک نو عمر صحافی کی حیثیت سے عرب دنیا میں تین سال گذارے اور اس تاریخی
عالقے کے بدلتے ہوئے حاالت کی عکاسی کے ذریعے بڑا نام پایا لیکن اس سے بڑا انعام ایمان
کی دولت کی بازیافت کی شکل میں اس کی زندگی کا حاصل بن گیا۔ ستمبر 1926ء میں جرمنی
کے مشہور خیری برادران میں سے بڑے بھائی عبدالجبار خیری کے دست شفقت پر قبول اسالم
ابتدائی زندگی
لیوپولڈ ویز کے اہل خانہ نسلوں سے یہودی ربی تھے لیکن ان کے والد ایک وکیل تھے۔ محمد اسد
نے ابتدائی عمر میں ہی عبرانی زبان سیکھ لی تھی۔ بعد ازاں ان کے اہل خانہ ویانا منتقل ہوگئے
جہاں 14سال کی عمر میں انہوں نے اسکول سے بھاگ کر آسٹرین فوج میں شمولیت کی کوشش
کی تاکہ پہلی جنگ عظیم میں شرکت کرسکیں تاہم ان کا خواب آسٹرین سلطنت کے ٹوٹنے کے
ساتھ ہی ختم ہوگیا۔ جنگ کے بعد انہوں نے جامعہ ویانا سے فلسفہ اور تاریخ فن میں تعلیم حاصل
کی لیکن یہ تعلیم بھی ان کی روح کی تشفی کرنے میں ناکام رہی۔
1920ء میں ویانا چھوڑ کر وسطی یورپ کے دورے پر نکل پڑے اور کئی چھوٹی بڑی نوکریاں
کرنے کے بعد برلن پہنچ گئے جہاں انہوں نے صحافت کو منتخب کیا اور جرمنی اور یورپ کے
مؤقر ترین روزنامے " "Frankfurter Zeitungمیں شمولیت اختیار کی۔ 1922ء میں وہ بیت
المقدس میں اپنے چچا سے مالقات کے لئے مشرق وسطی روانہ ہوئے۔
قبول اسالم
69 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
23سال کی عمر میں عرب دنیا میں ٹرین میں سفر کے دوران ایک عرب ہم سفر نے لیو پولڈویز
کو جانے بغیر اسے کھانے میں شرکت کی دعوت دی تو یہ خود پسند اور اپنی ذات کے خول میں
گم مغربی دنیا کے اس نوجوان کے لئے بڑا عجیب تجربہ تھا۔ پھر اس نے عرب معاشرے میں
باہمی تعلقات ،بھائی چارے ،محبت اور دکھ درد میں شرکت کو دیکھا تو حیران رہ گیا اور وہیں
سے دل اسالم کی جانب راغب ہوگیا۔
مشرق وسطی سے واپسی کے بعد جرمنی میں قیام کے دوران ایک واقعے کے نتیجے میں انہوں
نے قرآن مجید کا مطالعہ کیا اور سورۂ تکاثر ان کے قبول اسالم کا باعث بنی۔ انہوں نے برلن کی
سب سے بڑی مسجد میں اسالم قبول کرلیا اور ان کا نام تبدیل کرکے محمد اسد رکھ دیا گیا۔ ان کے
ساتھ اہلیہ ایلسا نے بھی اسالم قبول کرلیا۔ محمد اسد نے اخبار کی نوکری چھوڑ کر حج بیت ہللا کا
قصد کیا۔
محمد اسد نے ایک جگہ لکھا کہ "اسالم اس کے دل میں بس ایک چور کی طرح خاموشی سے
داخل ہوجاتا اور پھر اس دل کو اپنا گھر بنالیتا ہے۔ چور کی تمثیل یہاں ختم ہوجاتی ہے۔ چور
چپکے چپکے داخل ہوتا ہے مگر کچھ لے کر چپکے چپکے نکل جاتا ہے۔ اسالم داخل تو چپکے
چپکے ہی ہوتا ہے لیکن کچھ لینے کے لئے نہیں ،کچھ دینے کے لئے اور پھر ہمیشہ اسی گھر میں
رہنے کے لئے"۔
انہوں نے اسالمی دنیا کو ہی اپنا مسکن بنایا ،انہوں نے مغرب سے دین کا ناتا ہی نہیں توڑا بلکہ
جغرافیائی سفر کیا پھر اسی دنیا کا حصہ ہی بن گیا جس نے اسے مقناطیس کی طرح اپنی طرف
کھینچا۔
پاکستان آمد
1932ء میں وہ ہندوستان آگئے اور شاعر مشرق عالمہ محمد اقبال سے مالقات کی۔ 1939ء میں وہ
اس وقت شدید مسائل کا شکار ہوگئے جب برطانیہ نے انہیں دشمن کا کارندہ قرار دیتے ہوئے
گرفتار کرلیا۔ محمد اسد کو 6سال بعد1945 ،ء میں رہائی ملی۔
1947ء میں قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آگئے اور نئی ریاست کی نظریاتی بنیادوں کی تشکیل
میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں پہال پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا گیا۔ بعد ازاں انہیں پاکستان کی وزارت
خارجہ کے شعبہ مشرق وسطی میں منتقل کردیا گیا جہاں انہوں نے دیگر مسلم ممالک سے
پاکستان کے تعلقات مضبوط کرنے کا کام بخوبی انجام دیا۔ انہوں نے 1952ء تک اقوام متحدہ میں
پاکستان کے پہلے سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔
انتقال
محمد اسد نے اپنی اسالمی زندگی کے 66سال عرب دنیا ،ہندوستان ،پاکستان اور تیونس میں
گذارے اور آخری ایام میں اس کا قیام اسپین کے اس عالقے میں رہا جو اندلس اور عرب دنیا کا
روحانی و ثقافتی حصہ تھا بلکہ آج بھی اس کی فضائیں باقی اسپین سے مختلف اور عرب دنیا کے
ہم ساز ہیں۔
70 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
محمد اسد 1955ء میں نیویارک چھوڑ کر اسپین میں رہائش پزیر ہوئے۔ 17سال کی کاوشوں کے
بعد 80برس کی عمر میں انہوں نے اپنی زندگی کے سب سے بڑے خواب "قرآن پاک کی
انگریزی ترجمہ و تفسیر" کو تکمیل تک پہنچایا۔ وہ 23فروری 1992ء کو اسپین میں ہی خالق
حقیقی سے جا ملے۔
کتب
محمد اسد :یورپ کا اسالم کے لئے تحفہ : مصنف محمد اکرام چغتائی
ض
ی اء الدی ن احمد
سر ضیا الدین احمد کا پیدائشی نام ضیا الدین زبیری تھا۔ آپ 13فروری1878 ،ء کو پیدا ہوئے اور
23دسمبر1947،ء کو وفات پائی۔آپ ہندوستان کے ماہر ریاضی دان اور پارلیمنٹ کے رکن تھے۔
آپ علی گڑھ تحریک کے سرگرم رکن تھے۔ جب 192میں پارلیمنٹ میں ایک قانون کے تحت علی
گڑھ مسلم یونیورسٹی کو بنایا گیا تو آپ کو اس میں ”پرو وائس چانسلر“ بنایا گیا۔
ابتدائی زندگی
سر ضیا الدین احمد 13فروری1878 ،ء کو اتر پردیش کے ایک قصبے میرٹھ میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم مدارس میں حاصل کی۔اس کے بعد ایم اے او کالج میں داخلہ لے لیا۔قابلیت کی بنیاد پر
تعلیم کے بعد وہیں پر بطور جونیئر لیکچرر مالزم ہو گئے۔
پروفیسر
اُن کی کوششوں سے علی گڑھ میں میڈیکل اور انجینئرنگ کے کالج قائم ہوئے اور علی گڑھ کو
یونیورسٹی کا درجہ مال۔یہاں پر سر ضیا الدین احمد نے لیکچرر ،پروفیسر ،پرنسپل ،پرو وائس
چانسلر ،وائس چانسلر اور ریکٹر کے کام کیا۔
نت
ا خ اب ات 1946-1945
ن نف ش خت
ات من ع ق د کروان ا ض روری ت ھا۔ ج ن گ ع نت غ
رسستکی اکامی کے ب عد ی ہ ق کا لہ
غ م اور ے
م ا کے دوم م ی ظ ت خ ب ا خ ا عام ں بنرص ی ین
م ر
م ی ح ت ہ
ارے کے ب غ کے ب ل ت اور وہ بعرص ی ر قےقئ اسی ج ما ہع نوں ککیتعوام می ں ک ی ا ن ن ث ی ت ہ ہ ا دازا لگا ا الزم و گ ی ا کہ م قلف س ی
ے کہ ا د ا ظ م کا مؤ ف درست ھا ی ا لط، کے یل
ےئ ئ ں۔ ی ہ ج ا ےہ ی
کس جتماعت کے مؤ ف سے م آ گی ر ھ می ں
ان کی راے معلوم کیئج اے۔ت دوسری ج غ ن گ عظ ی م کے ب ئعد امری کہ دن ی ا کی کے کر وع ن ئواحد طریق ہ ھا کی عوام سے رج
کے س ی اسی م خسا ل کا حل نکا دب ا و ب ڑھ جگ ی ان ھا کہ ب رص ی ر ن ئ ن گ ی ا۔ اس طرح حکومت ب رطانن ی ہ پر ب ھی امری کہ ین سپ ر پ اور ب
صورت حال می ں ب رطا وی کومت ےنعوامی ر حا ات کا پ ی ہ چ الئے کے کی اطر ن تعام ح ِ ڈھو ڈا ج اے۔ اس نت
ب مس ج سم
ں تمرکزی ا ب لی اور نوری 1946ء می ں صوب ا ی ا لیوں کے ا خ اب ات نمی ن 1945ء ات کافاعالن ک ی ا۔ت دسمب ر ت ا خ ابن
ع
ے کا ا الن ک ی ا۔ ل
کرواے کا ی صلہ وا۔ مام ج ماع وں ے ا خ اب ات می ں حصہ ی ہ
ف
ہرست
من ش ن ن ن یش ن
ل کا گرس کا ن ش ورس ن
ن 1ا ڈی
م
آل ا ڈی ا لم ل ی گ کا م ور 2نت
م
3ان ت خ ا ی ہم ن ئ
ب
4ا خ اب ات کے ت ا ج
من ش ن ی ن نش
ن
ا ڈی ن ل کا گرس کا ور
نوآبادیاتی ہندوستان یا استعماری ہندوستان ( )Colonial Indiaتجارت اور فتح کے ذریعے یورپی
نوآبادیاتی طاقتوں کے دائرہ کار کے تحت جنوبی ایشیا کا حصہ ہے۔
ن
ب رطا وی راج
دارالحکومت کلکتہ (–1858
)1912
نئی دہلی (–1912
)1947
شملہ (موسم گرما)
زبانیں ہندی-اردو,
انگریزی ,اور
ہندوستان کی
زبانیں
حکومت آئینی بادشاہت
ہندوستان کا شہنشاہ ()1947–1876
1901–1858 - 1
ملکہ وکٹوریہ
1910–1901 - ایڈورڈ ہفتم
1936–1910 - جارج پنجم
1936 - ایڈورڈ ہشتم
1947–1936 - جارج ششم
Viceroy 2
1862–1858 - چارلس کیننگ
(اول)
75 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
1947 - لوئس ماؤنٹبیٹن
(آخر)
مقننہ شاہی مقننہ مجلس
تاریخ
- جنگ آزادی ہند 10مئی 1857
1857ء
- حکومت 2اگست 1858
ہندوستان ایکٹ
1858
- آزادی ہندوستان 15اگست 1947
ایکٹ 1947
- تقسیم ہند 15اگست 1947
سکہ برطانوی
ہندوستانی روپیہ
پیشرو جانشین
ڈومنین بھارت کمپنی راج
ڈومنین پاکستان مغلیہ
سلطنت
برطانوی برما
مملکت آصفیہ
ریاست جموں و
کشمیر
خانیت قالت
مستعمر عدن
موجودہ ممالک بھارت
پاکستان
بنگلہ دیش
برما
فہرست
1شامل عالقے
2غیر شامل عالقے
3آغاز و خاتمہ
4حوالہ جات
شامل عالقے
اس عرصے میں برطانیہ کے زیر قبضہ رہنے والے عالقوں میں موجودہ بھارت ،پاکستان اور
بنگلہ دیش شامل ہیں جبکہ کبھی کبھار عدن (1858ء سے 1937ء) ،زیریں برما (1858ء تا
1937ء) ،باالئی برما (1886ء تا 1937ء) شامل ہیں (مکمل برما 1937ء میں برطانوی ہند سے
الگ کر دیا گیا) ،برطانوی ارض صومال (1884ء سے 1898ء) اور سنگاپور (1858ء سے
وسطی ،جنگ عظیم اول کے ٰ 1867ء) کو بھی برطانوی راج کا حصہ شمار کیا جاتا ہے۔ مشرق
فوراً بعد برطانیہ کے زیر قبضہ بین النہرین (موجودہ عراق) کا انتظام بھی حکومت برطانیہ کے
ٰ
وسطی کے کئی عالقوں اور مشرقی افریقہ ہندی دفتر سے چالیا جاتا تھا۔ ہندوستانی روپیہ مشرق
میں زیر استعمال رہا۔
آغاز و خاتمہ/
ہندوستان میں برطانوی راج کا آغاز 1858ء میں (جنگ آزادی ہند 1857ء کے بعد) ایسٹ انڈیا
کمپنی کے اقتدار کے خاتمے اور ہندوستان کے براہ راست تاج برطانیہ کے زیر نگیں آنے سے
ہوتا ہے اور خاتمہ 1947ء میں تقسیم ہند اور بھارت و پاکستان کے قیام کے ساتھ ہوتا ہے۔
رت گ زی ہ دن
پ ی
دارالحکومت پنجی (کوچی to
)1530
اور; کونکنی
زبان ,کنڑا زبان,
گجراتی زبان,
77 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
مراٹھی زبان,
ملیالم زبان ,دیگر
نوآبادی; عملداری سیاسی ڈھانچہ
پرتگیزی سلطنت
کی ریاست
سربراہ ریاست
- بادشاہ Manuel I of
21–1511 Portugal
- صدر Américo
61–1958 Tomás
وائسرائے
9–1505 - Francisco de
(اول) Almeida
( 1896 - Afonso, Dukeآخر)
of Porto
گورنر جنرل
15–1509 - Afonso de
(اول) Albuquerque
62–1958 - Manuel
(آخر) António
Vassalo e
Silva
تاریخی دور سامراج
- سقوط بیجاپور 15اگست 1505
سلطنت
19دسمبر - 1961ہندوستانی
قبضہ;
سکہ پرتگیزی ہند
روپیہ ()INPR
پرتگیزی ہند
ایسکودو (
)INPES
ج ن گ پ السی
23جون 1757ء ،سراج الدولہ نواب بنگال اور انگریز جرنیل کالئیو کے درمیان جنگ پالسی
کلکتے سے 70میل کے
فاصلے پر دریائے بھاگیرتی کے کنارے قاسم بازار کے قریب واقع ہے۔انگریز جرنیل کالیو تمام
بنگال پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ شہنشاہ دہلی پہلے ہی اس کے ہاتھ میں کٹھ پتلی تھا۔ بنگال پر قبضے
کے لیے ’’بلیک ہول‘‘ کا فرضی افسانہ تراشا گیا اور میر جعفر سے سازش کی گئی ۔ میر جعفر
سراج الدولہ کے نانا علی وردی خان کا بہنوئی تھا۔ اس کو نوابی کا اللچ دے کر توڑ لیا گیا۔ اس
کے عالوہ اوما چند نامی ایک سیٹھ کو بھی ساز میں شریک کیا گیا۔ لیکن اس کو تیس الکھ روپیہ
دینے کا جو معاہدہ کیاگیا وہ جعلی تھا۔
کالئیو اپنی روایتی تین ہزار فوج کو لے کر نواب پر چڑھ آیا۔ اس کی فوج میں صرف 500گورے
تھے جبکہ 2500ہندوستانی تھے۔ نواب کے پاس بقول مورخین پچاس ہزار پیادے ،اٹھارہ ہزار
گھڑ سوار اور 55توپیں تھیں۔ لیکن اس فوج کا ہر حصہ میر جعفر کے زیر کمان کالئیو سے مل
چکا تھا۔ اس لیے نواب میدان جنگ میں ناکام ہوا۔ اور گرفتار ہو کر میر جعفر کے بیٹے میرن کے
ہاتھوں قتل ہوا۔
انگریز مورخوں کا یہ دعوی کہ کالئیو نے تین ہزار سپاہیوں کی مدد سے نواب کی التعداد فوج پر
فتح پائی قرین قیاس نہیں ہو سکتا کیوں کہ پچاس ہزار میں سے ہر ایک کے حصے میں تین ہزار
کی بوٹی تک نہیں آسکتی۔ دراصل خود نواب کی فوج کا بیشتر حصہ اپنے گھر کو آگ لگا رہا تھا۔
نیز یہ کہنا کہ میر جعفر آخر دم تک کالئیو کے ساتھ نہیں مال۔ بالکل غلط ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس
کو انگریز کبھی نواب نہ بناتے یہ اسی شخص کی غداری تھی جس کے باعث بنگال میں اسالمی
حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس پر بھی اگر سراج الدولہ کا سپہ ساالر نہ مرتا تو نتیجہ کچھ اور ہوتا۔
اس سپہ ساالر کو ،جو میر جعفر کے ساتھ شریک نہ تھا۔ میر جعفر کے آدمیوں نے قتل کر دیا تھا۔
جس سے وفادار فوج بھی بدحواس گئی۔ کالئیو کے صرف بیس آدمیوں کا مارا جانا اور پچاس کا
زخمی ہونا تعجب خیز نہیں۔ کیوں کہ توپ خانے کو بھی پہلے ہی خرید لیا گیا تھا۔ اور توپوں میں
پانی ڈلوا دیا گیا تھا۔پروپیگینڈا یہ کیا گیا کہ جنگ سے پہلے بارش ہو گئی تھی اور نواب کے پاس
ترپال نہیں تھے اس لیے اس کا سارا بارود بھیگ کر نا کارہ ہو گیا تھا۔
لڑائی کے بعد کالئیو مرشد آباد پہنچا جو ان دنوں بنگال کا دارلحکومت تھا۔ کٹھ پتلی شاہ دہلی سے
پہلے ہی میر جعفر کی تقرری کا فرمان حاصل کیا جا چکا تھا۔ چنانچہ اس کو گدی پر بٹھا دیا گیا۔
میر جعفر کو تمام خزانہ اور ذاتی زروجواہر کالئیو کی نذر کرنے پڑے جن میں سے ہر انگریز
کو معقول حصہ دیاگیا۔ صرف کالئیو کا حصہ 53الکھ دس ہزار روپے تھا۔ اس کے عالوہ ایسٹ
انڈیا کمپنی کو ایک کروڑ روپیہ کلکتے کے نقصان کے عوض اور حملے کی پاداش میں دیا گیا۔
اس کے عالوہ بنگال میں چوبیس پرگنے کا زرخیز عالقہ بھی کمپنی کی نذر ہوا۔ 1759ء میں شاہ
عالم نے اس تمام عالقے کا محاصل جو چار الکھ پچاس ہزار ہوتا تھا۔ کالئیو کو بخش دیا اور اس
طرح تقریبا ً سارا بنگال انگریزوں کے تسلط میں آگیا۔ چند روز بعد انگریزوں نے میر جعفر کو بے
دست و پا کر دیا۔ لیکن یہ شخص نہایت سمجھ دار نکال۔ اس نے ایسے اقدامات شروع کیے جن سے
انگریزوں کے پنجے ڈھیلے ہونے شروع ہوگئے اور پٹنہ میں دو سو انگریز قتل کر دیے گئے۔ میر
قاسم نے دیگر مسلمان نوابوں کو متحد کرکے بکسر کے مقام پربہادری سے انگریزوں کا مقابلہ کیا
نام
اردو میں جنگ کا نام پالسی ہے ،درحقیقت یہ بنگالی زبان کا لفظ پالشی (بنگلہ )পলাশী:ہے ،جس
کے معنی "پھولوں کا عالقہ" ہے۔یہ جنگ جس عالقے میں لڑی گئی تھی اس عالقے میں پھول
زیادہ پائے جاتے ہیں اور انہی پھولوں کی وجہ سے پورے عالقے کا نام پالشی پڑگیا ہے۔
اقتباس
مورخ لکھتے ہیں کہ جنگ پالسی تو وہ جنگ تھی جو لڑی ہی نہیں گئی تھی
خ ن
سل ط ت داداد ی سور
م
جس زمانے میں بنگال اور شمالی ہند میں انگریز اپنے مقبوضات میں اضافے کررہے تھے،
جنوبی ہند میں دو ایسے مجاہد پیدا ہوئے جن کے نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ یہ حیدر علی
اور ٹیپو سلطان تھے۔ بنگال اور شمالی ہند میں انگریزوں کو مسلمانوں کی طرف سے کسی سخت
مقابلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان کی منظم افواج اور برتر اسلحے کے آگے کوئی نہ ٹھہر سکا
لیکن جنوبی ہند میں یہ صورت نہیں تھی۔ یہاں حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے قدم قدم انگریزوں کی
جارحانہ کاروائیوں کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے بے مثل سیاسی قابلیت اور تدبر کا ثبوت دیا اور میدان
جنگ میں کئی بار انگریزوں کو شکستیں دیں۔ انہوں نے جو مملکت قائم کی اس کو تاریخ میں
سلطنت خداداد میسور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
حیدر علی
ٹیپو سلطان
ٹیپو سلطان کے تحت میسور کی یہ ترقی انگریزوں کو بہت ناگوار گذری۔ وہ ٹیپو کو جنوبی ہند پر
اپنے اقتدار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔ انگریزوں اور میسور کے درمیان
صلح کو مشکل سے چھ سال ہوئے تھے کہ انگریزوں نے معاہدے کو باالئے طاق رکھ کر نظام
حیدر آباد اور مرہٹوں کے ساتھ مل کر میسور پر حمل کردیا اور اس طرح میسور کی تیسری جنگ
(1790ء تا 1792ء) کا آغاز ہوا۔ اس متحدہ قوت کا مقابلہ ٹیپو سلطان کے بس میں نہیں تھا ،اس
لیے دو سال مقابلہ کرنے کے بعد اس کو صلح کرنے اور اپنی نصف ریاست سے دستبردار ہونے
پر مجبور ہونا پڑا۔
جنگ میں یہ ناکامی ٹیپو سلطان کےلیے بڑی تکلیف دہ ثابت ہوئی اس نے ہر قسم کا عیش و آرام
ترک کردیا اور اپنی پوری توجہ انگریزوں کے خطرے سے ملک کو نجات دینے کے طریقے
81 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
اختیار کرنے پر صرف کردی۔ نظام دکن اور مرہٹوں کی طرف سے وہ مایوس ہو چکا تھا اس لیے
اس نے افغانستان ،ایران اور ترکی تک اپنے سفیر بھیجے اور انگریزوں کے خالف متحدہ اسالمی
محاذ بنانا چاہا لیکن افغانستان کے حکمران زمان شاہ کے عالوہ اور کوئی ٹیپو سے تعاون کرنے
پر تیار نہ ہوا۔ شاہ افغانستان بھی پشاور سے آگے نہ بڑھ سکا۔ انگریزوں نے ایران کو بھڑکا کر
افغانستان پر حملہ کرادیا تھا اس لیے زمان شاہ کو واپس کابل جانا پڑا۔ جبکہ عثمانی سلطان سلیم
ثالث مصر سے فرانسیسی فاتح نپولین کا قبضہ ختم کرانے میں برطانیہ کی مدد کے باعث
انگریزوں کے خالف ٹیپو سلطان کی مدد نہ کر سکا۔
انگریزوں نے ٹیپو سلطان کے سامنے امن قائم کرنے کے لیے ایسی شرائط پیش کیں جن کو کوئی
باعزت حکمران قبول نہیں کرسکتا تھا۔ نواب اودھ اور نظام دکن ان شرائط کو تسلیم کرکے
انگریزوں کی باالدستی قبول کر چکے تھے لیکن ٹیپو سلطان نے ان شرائط کو رد کردیا۔ 1799ء
میں انگریزوں نے میسور کی چوتھی جنگ چھیڑ دی۔ اس مرتبہ انگریزی فوج کی کمان الرڈ
ویلیزلی کررہا تھا جو بعد میں 1815ء میں واٹرلو کی مشہور جنگ میں نپولین کو شکست دینے
کے بعد جنرل ولنگٹن کے نام سے مشہور ہوا۔ اس جنگ میں وزیراعظم میر صادق اور غالم علی
اور دوسرے عہدیداروں کی غداری کی وجہ سے سلطان کو شکست ہوئی اور وہ دار الحکومت
سرنگاپٹنم کے قلعے کے دروازے کے باہر بہادری سے لڑتا ہوا 4مئی 1799ء کو شہید ہو گیا۔
سراج الدولہ ،واجد علی شاہ اور بہادر شاہ ظفر کے مقابلے میں اس کی موت کتنی شاندار تھی۔
انگریز جنرل ہیرس کو سلطان کی موت کی اطالع ہوئی تو وہ چیخ اٹھا کہ "اب ہندوستان ہمارا
ہے"۔ انگریزوں نے گرجوں کے گھنٹے بجا کر اور مذہبی رسوم ادا کرکے سلطان کی موت پر
مسرت کا اظہار کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے مالزمین کو انعام و اکرام سے نوازا۔ یہ اس بات
کا اعالن تھا کہ اب ہندوستان میں برطانوی اقتدار مستحکم ہو گیا اور اس کو اب کوئی خطرہ نہیں۔
میسور محل
اس میں کوئی شک نہیں کہ اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال کے بعد اسالمی ہند میں نظام الملک
آصف جاہ ،حیدر علی اور ٹیپو سلطان جیسی حیرت انگیز صالحیت رکھنے واال تیسرا کوئی
حکمران نظر نہیں آتا۔ خاص طور پر حیدر علی اور ٹیپو سلطان کو اسالمی تاریخ میں اس لیے بلند
مقام حاصل ہے کہ انہوں نے دور زوال میں انگریزوں کا بے مثل شجاعت اور سمجھداری سے
مقابلہ کیا۔ یہ دونوں باپ بیٹے دور زوال کے ان حکمرانوں میں سے ہیں جنہوں نے نئی ایجادوں
سے فائدہ اٹھایا۔ وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کی اور اپنی مملکت میں فوجی،
انتظامی اور سماجی اصالحات کی ضرورت محسوس کی۔ انہوں نے فرانسیسیوں کی مدد سے اپنی
افواج کی جدید انداز پر تنظیم کی جس کی وجہ سے وہ انگریزوں کا 35سال تک مسلسل مقابلہ
کرسکے اور ان کو کئی بار شکستیں دیں۔ یہ کارنامہ اٹھارہویں صدی کے نصف آخر میں کوئی
دوسرا حکمران انجام نہیں دے سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ بر صغیر میں انگریزوں کا جتنا کامیاب مقابلہ
حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے کیا کسی اور مسلم اور غیر مسلم حکمران نے نہیں کیا۔ ٹیپو سلطان
سلطنت عثمانیہ کے سلیم ثالث کا ہمعصر تھا۔
جن گ ن
ای لو می سور گی ں
اینگلو میسور جنگیں ( )Anglo-Mysore Warsہندوستان میں اٹھارویں صدی کی آخری تین
دہائیوں میں سلطنت خداداد میسور اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین جنگوں کا ایک سلسلہ ہے۔
چوتھی اینگلو میسور جنگ میں ٹیپو سلطان کی شہادت ہوئی اور سلطنت خداداد میسور ختم ہو کر
ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت ایک نوابی ریاست بن گئی۔
جنگ کا نقشہ
تاریخ 1769–1767
مقام جنوبی ہند
نتیجہ میسور کی فیصلہ کن فتح
شریک جنگ
83 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
ایسٹ انڈیا کمپنی میسور
مراٹھا اتحاد
نواب کرناٹک
ریاست حیدرآباد
سپہ ساالر و رہنما
جوزف سمتھ حیدر علی
جان ووڈ لطف علی بیگ
کرنل بروکس مخدوم علی
مادھو راؤ اول ٹیپو سلطان
محمد علی خان رضا صاحب
واال جاہ
آصف جاہ ثانی
ن ن
)First Anglo-Mysoreسل طن ت خ تداداد می سور اور ای سٹ ا ڈی ا کمپ نی کے ماب ی ن War ( گ پ ہلی ای ن گلو می سور ن
ن ن ن ج
ن
ھی۔ ی ہ ج گ ج زوی تطور پر ظ ام ح ی در آب اد ن
ے کی ق لی ج گ نہ پ ہ ن دوست ان ثمی نں لڑی ج انے توالی ا لو می سور ج گوں کےش لس
س گ ی
آصف ج اہ ا ی کی کمپ ی کی وج ہ ری است ح ی درآب اد کے مالی عال وں سے ہ ٹ اے کی ای ک سازش ھی۔
ن گ ن
دوسری ای لو می سور ج گ
دوسری اینگلو میسور جنگ ( )Second Anglo-Mysore Warامریکی انقالبی جنگ کے
دوران سلطنت خداداد میسور اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین ہندوستان میں لڑی جانے والی اینگلو
میسور جنگوں کے سلسے کی دوسری جنگ تھی۔ اس وقت مملکت فرانس میسور کی اہم اتحادی
تھی۔
تاریخ 1784–1780
مقام جنوبی ہند
نتیجہ معاہدہ منگلور
شریک جنگ
میسور ایسٹ انڈیا کمپنی
فرانس برطانیہ عظمی
ڈچ جمہوریہ انتخاب کنندہ
شریک محارب: گان ہینور
ریاستہائے
متحدہ امریکا
ہسپانیہ
سپہ ساالر و رہنما
حیدر علی سر آئر کوٹے
ٹیپو سلطان ہیکٹر منرو
کریم خان ایڈورڈ ہیوز
صاحب
84 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
سید صاحب
سردار علی خان
صاحب
مخدوم علی
کمال الدین
ایڈمرل سفرین
مارکوئس دے
بوسے
اریخ 1792–1789
مقام جنوبی ہند
نتیجہ معاہدہ سرنگاپٹم
عالقائ
ی میسور کا اپنی سرزمین کا تقریبا
تبدیلیا نصف حصہ مخالفین کو دینا پڑا
ں
شریک جنگ
میسور ایسٹ انڈیا کمپنی
مملکت برطانیہ اتحادی
عظمی
فرانس مراٹھا سلطنت
حیدرآباد
تراونکور
سپہ ساالر و رہنما
ٹیپو سلطان ولیم میڈوز
سید صاحب چارلس
رضا صاحب کارنوالس
سپاہدار سید کیپٹن رچرڈ جان
حامد صاحب سٹارچن
مراتب خان پرسورام بھاو
صاحب ہری پنٹ
بہادر خان ٹیگ وونٹ
صاحب دھرم راجہ
بدر الزمان خان
85 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
صاحب
حسین علی خان
صاحب
شیر خان صاحب
[]1
کمال الدین
ت
نگ
چ و ھی ای لو می سور ج ن گ
چوتھی اینگلو میسور جنگ ( )Fourth Anglo-Mysore Warسلطنت خداداد میسور اور ایسٹ
انڈیا کمپنی کے مابین ہندوستان میں لڑی جانے والی اینگلو میسور جنگوں کے سلسے کی چوتھی
جنگ تھی۔ چوتھی اینگلو میسور جنگ میں ٹیپو سلطان کی شہادت ہوئی اور سلطنت خداداد میسور
ختم ہو کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت ایک نوابی ریاست بن گئی۔
تاریخ 1799–1798
مقام برصغیر
نتیجہ میسور کی شکست
شریک جنگ
میسور ایسٹ انڈیا کمپنی
مراٹھا سلطنت
حیدرآباد
تراونکور
سپہ ساالر و رہنما
ٹیپو سلطان† جنرل جارج ہیرس
میر غالم حسین میجر جنرل ڈیوڈ
محمد میر میراں بیئرڈ
عمدة امراء کرنل آرتھر
میر صادق ویلیسلی
غالم محمد خان
ن ن
سکھ-ب رطا وی ج گ (دوم)
۱۸۴۸ء میں سکھوں اور انگریزوں کے بیچ ایک بڑا جنگ ہوا جس سے سکھوں کی حکومت
ختم ہوگئی اور پنجاب اور موجودہ پختونخوا برطانوی ہند میں شامل ہوا۔
ت
س ی اگرا
رولٹ ای کٹ
ن ن ن قن ئ ق ن ن
مارچ 1919ء 18 ے لی ہد لی ب سم ا ساز ون ا ی ا ت س دو ہ کٹ یا رولٹ ن
عروف نم لا ء1919 کٹ یا مت ا ر ج ی ال ا و ارکی ا
ت ج ن ش ش م ن ش ب ب
س
دے کو حض قک و ب ہ کی ب ی اد پر ی ل می ں ڈاال ج ا کت ا ھا۔ اس حت کسی ق ھی ہ ندوست ا ی ب ا ق ن کے
کو پشاس ک ی ا جعمس ت
ب ل ح ب
ے.پر دی د رد ل ہ وا ھا۔ عض وں ے اسے "کاال ا ون" ھی رار دی ا ہ
ن
ج ل ی ا والہ ب اغ
جلیانوالہ باغ (( )Jallianwala Baghہندی )जलियांवाला बाग :بھارت کی ریاست پنجاب کے
شہر امرتسر میں ایک عوامی باغ ہے۔ اس کی تاریخی اہمیت 13اپریل1919 ،ء کو ہونے والے
جلیانوالہ باغ قتل عام کے حوالے سے ہے۔
نتائج
اس واقعہ کے فوراً بعد گاندھی نے عدم تعاون تحریک کو ختم کرنے کا اعالن کردیا۔ بہت سے
لوگوں کو گاندھی کا یہ فیصلہ مناسب نہیں لگا۔ بالخصوص انقالبیوں نے اس کی براہ راست یا
بالواسطہ مخالفت کی۔ گوا کانگریس میں رام پرساد بسمل اور ان نوجوان ساتھیوں نے گاندھی کی
مخالفت کی۔ کانگریس میں كھنہ اور ان کے ساتھیوں نے رام پرساد بسمل کے ساتھ کندھے سے
کندھا مالكر گاندھی مخالف ایسا احتجاج کیا کہ کانگریس میں دو گروپ بن گئے -ایک اعتدال پسند
سا من م ن
تعارف
گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919ء کی شق چوراسی ۔ اے کے تحت 1927ء میں تاج برطانیہ کی
طرف سے ایک شاہی فرمان کے ذریعے برطانوی ہند کے لیے ایک آئینی کمشن مقرر کیا گیا ۔ اس
وقت برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی برسراقتدار تھی۔ اور الرڈ برکن ہیڈ برطانیہ کے وزیراعظم
تھے۔ مذکورہ کمیشن کے چیئرمین چونکہ سر جان سائمن تھے اس لیے اسے عام طور پر سائمن
کمیشن کہتے ہیں۔ سائمن کمیشن میں شامل تمام اراکین چونکہ انگریز اور گورے تھے یہی وجہ ہے
کہ بعض ناقدین نے اسے White Commissionکا نام بھی دیا۔
مقاصد
سائمن کمیشن کے مندرجہ زیل مقاصد تھے
1۔ 1919ء میں انگریز سرکار کی طرف سے برطانوی ہند میں کی گئی اصالحات کا جائزہ لینا
2۔ مستقبل میں ہندوستانی حکومت کے ڈھانچے اور طرز کا تعین کرنا
3۔ ہندوستان میں ’’ذمہ دار حکومت‘‘ کی تشکیل کے بارے میں سفارشات مرتب کرنا
عوامی ردعمل
چونکہ سائمن کمیشن کے تمام اراکین انگریز تھے اسی وجہ سے برطانوی ہند سے عوام اور
سیاسی حلقوں میں احتجاج کی ایک لہر دوڑ گئی۔ برطانوی ہند کے تقریبا ً سبھی سیاسی پارٹیوں نے
اس کمشین کے بائیکاٹ کا اعالن کر دیا۔ بائیکاٹ کرنے والوں میں آل انڈیا کانگریس سنڑل خالفت
کمیٹی ،جمعیت العلمائے ہند ،جناح لیگ اورہندوستان کے لبرل رہنما شامل تھے
88 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
اس موقع پر آل انڈیا مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ گئی۔ پہال گروہ جناح لیگ دراصل اس کمیشن
سے بائیکاٹ کے حق میں تھی جب کہ شفیع لیگ کمیشن ہذا کے ساتھ تعاون کرنے کے حق میں
تھی۔
ہندوستان آمد
عوامی احتجاج اور بائیکاٹ کے باوجود 1928میں سائمن کمیشن نے ہندوستان کا دورہ کیا۔ لیکن
ہر جگہ ہندوستانیوں نے کالی جھنڈیوں اور احتجاجی نعروں سے اس کے سامنے مظاہرہ کیا۔ اور
’’سائمن واپس چلے جاؤ‘‘ ’’ ،ہم سائمن کمیشن کا بائیکاٹ کرتے ہیں‘‘ کے نعروں اور بینروں
سے مظاہرین نے کمیشن کے ارکان کو اپنے جذبات سے آگاہ کیا۔ بعض جگہوں پر عوام نے
احتجاجی جلسے کیے اور عوام اور پولیس کے درمیان جھڑپین بھی ہوئیں۔ ایک ایسی جھڑپ میں
جو الہور میں سائمن کمیشن کے دوسرے دورے کے موقع پر پیش آئی جب پولیس نے الٹی چارج
کیا اور ایک انگریز افسر نے جب ایک ہندو سیاسی رہنما ،چونسٹھ سالہ اللہ الچیت رائے جو
مظآہرین میں شامل تھے کے سینے پر ڈنڈے سے پے درپے وار کیے تو بعد میں اللہ نے اپنے
جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’ جوانوں میرے بڑھاپے کی الج رکھنا۔ آج میرے سینے پر جو سوٹیاں لگی ہیں میری خواہش ہے
کہ یہ برطانوی سامراجیت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں۔‘‘
جن لوگوں نے عوام کے جذبات کے برعکس سائمن کمیشن کے ساتھ تعاون کیا اور جگہ جگہ
گرمجوشی سے کمیشن کا استقبال کیا۔ ان میں نواب صاحبان ،خان بہادر صاحبان ،رائے بہادر
صاحبان ،سرکاری مالزمین اور انگریز سرکار کی طرف سے انعام یافتگان قابل ذکر ہیں۔ ان بااثر
شخصیات کی بدولت کمیشن ہذا نے ہندوستان کے مختلف حصوں کے نہ صرف دورے کیے بلکہ
مختلف لوگوں سے مالقاتیں اور ان کے انٹرویوز بھی کیے
سفارشات
سائمن کمیشن نے اپنی روپورٹ میں اہم سفارشات پیش کیں۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ ہندوستان میں وفاقی طرز حکومت کی تشکیل
2۔ دو عملی نظام کا خاتمہ
3۔ صوبائی انتظامیہ کو صوبائی وزیروں ( جو صوبائی قانون ساز اسمبلی کے سامنے جوابدہ
تھے) کے سپرد کرنا۔
4۔ صوبائی سطحوں پر قانون ساز اداروں کو وسیع کرنا
5۔ حق رائے دہی کا دائرہ وسیع کرنا
6۔ وزراء کا انتخاب صوبائی گورنر کے صوابدید اور اسمبلی کے اندر جن اراکین کو اکثریت
حاصل ہو ،کی بنیاد پر کرنا
نتائج
سائمن کمیشن کی رپورٹ 7جون 1930ء کو شائع ہوئی۔ ہندوستان بھر میں مختلف حلقوں کی جانب
سے اس پر سخت تنقید اور اعتراضات کیے گئے۔ سائمن کمیشن کی رپورٹ کے بعد برطانوی
سرکار نے لندن میں گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا۔ اس کانفرنس کے تین دور 10نومبر 1930ء تا
کرپس مشن
مذکورہ حاالت کے پیش نظر برطانوی وزیراعظم چرچل نے مارچ 1942ء میں سر سٹیفورڈ کرپس
کو ایک اہم مشن پر ہندوستان بھیجا۔ یہ مشن ’’کرپس مشن‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔کرپس مشن
نے جو منصوبہ پیش کیا اس کے اہم نکات مندرجہ ذیل تھے۔
1۔ جنگ کے خاتمے پر ایک کمیٹی منتخبہ کو ہندوستان کے لیے نیا آئین نانے کی ذمہ داری سونپ
دی جائے گی۔
2۔ مجوزہ آئین کے مطابق کوئی بھی صوبہ یا صوبے اگر چاہیں تو ہندوستان کی یونین سے الگ
ہوسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے ایک عالحدہ حکومت کا قیام عمل میں السکتے ہیں۔
3۔ جنگ کے دوران موجودہ آئین میں کوئی بڑی تبدیلی نہ ہوگی اور ہندوستان کی دفاع انگریز
حکومت کی ذمہ داری ہوگی ۔ کوشش کی جائے گی کہ ہندوستان کی بڑی بڑی قومیتوں کے زعماء
کو ملکی کونسلوں ،دولت مشترکہ اور اقوام متحدہ میں فوری اور مؤثر طریقے سے شرکت دالئی
جائے۔
ردعمل
90 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
کانگریس نے کرپس مشن کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ اور فوری طور پر ملک میں کانگریس
کی خودمختار حکومت تشکیل دینے کا مطالبہ کر دیا۔ مسلم لیگ نے بھی کرپس مشن کے منصوبے
کو اس جواز پر مسترد کر دیا کہ اس میں مسلمانوں کے لیے ایک عالحدہ مملکت کے قیام کے لیے
کوئی ٹھوس ضمانت نہیں دی گئی تھی۔
کرپس مشن کی ناکامی کے بعد کانگریس نے ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کی تحریک کا نعرہ بلند کیا۔
اور ساتھ ہی سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا بھی عندیا دیا اس پر برطانوی حکومت
مشتعل ہوگئی اور کانگریس کے سرکردہ رہنماؤں کو پابند سالسل کردیا۔ جس سے ملکی سیاسی
فضا اور بھی مکدر ہوگئی اور پورے برصغیر میں تشدد کے واقعات کا آغاز ہوا۔ مسلم لیگ نے
اس تحریک میں حصہ نہیں لیا،کیونکہ بقول قائداعظم اس تحریک کا مقصد نہ صرف انگریزی
حکومت کو اس پر مجبور کرنا ہے کہ وہ کانگریس کو اختیارات منتقل کردے بلکہ اس کا مطلب یہ
بھی بنتا ہے کہ ہم اپنے لوگوں سے کہہ دیں کہ وہ کانگریس کے آگے اپنا ہتھیار ڈال دیں۔
یہی وہ وقت تھا جب آل انڈیا مسلم لیگ قائداعظم کی قیادت میں اپنی سیاست کے فیصلہ کن مرحلے
میں داخل ہوتی ہے۔ قائداعظم کی سیاست ہند کے اُفق پر عروج کو چھوتی ہے۔ لیگ اور انگریزوں
کے درمیان گہری مفاہمت جنم لیتی ہے جس کے نتیجے میں انگریزوں کی سوچ میں مسلمانان ہند
کے لیے کافی مثبت تبدیلی رونما ہوتی ہے۔
ت
ہ ن دوست ان چ ھوڑ دو حری ک
ہندوستان چھوڑدو تحریک (انگریزی ، Quit India Movement:ہندیभारत छोड़ो आन्दोलन:
تلفظ:بھارت چھوڑو آندولن) ،برصغیر پاک وہند میں چلنے والی ایک تحریک کو کہا جاتا ہے جس
کا آغاز مہاتما گاندھی نے کیا۔ یہ انڈین نیشنل کانگریس کی تحریک تھی جس کا مقصد سول
نافرمانی کر کے انگریز سرکار کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا۔کرپس کی تجاویز غیر
موثر ہوچکی تھیں۔ کانگریس نے انگریز سرکار کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوری طور
پر انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے کا الٹی میٹم دیا۔ مہاتما گاندھی نے 8اگست 1942ء کو اپنے
خطاب میں کہا کرو یا مرو ،مہاتما گاندھی کے سخت بیان کے بعد کانگریس نے احتجاجی ریلیاں
نکالیں اور انگریزوں سے ہندوستان چھوڑنے کا مطالبہ کیا[]1۔ان سب چیزوں کا برطانوی حکومت
نے سخت نوٹس لیا یہاں تک کہ مہاتما گاندھی سمیت کئی کانگریسی لیڈران گرفتار کیے گئے۔
مسلم لیگ نے اس تحریک کی کوئی حمایت نہیں کی اور نہ ہی اس تحریک میں کانگریس ساتھ دیا۔
مسلم لیگ کے پارٹی بیان میں کہا گیا کہ مسلم لیگ کانگریس کو اس بات کی اجازت نہیں دے گی
بزور دست حکومت پر مسلط کرے اور اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ انگریز ِ کہ وہ اپنی شرائط
سرکار کو بھی اجازت نہیں دے گی کہ وہ ہندوستان کو تقسیم کیے بغیر ہندوستان چھوڑ کر جائے۔
آری ہ سماج
ے 1875ء م ں رکھی۔ اس کے روکار عام ہ ن نن ن ن ف ق
دوؤں کی طرح
ن ج پی ی د ا یدنسوامی
ق اد ی ف ب کی س ج ہ، ر
ن کہ ن دو مذہ تب کا ای ق ئ
ں۔ اس رے ے ہ ن دوؤں می ں ب ہت سی مذہ ب ی اور سما ی اصالحات کی ں۔ کاح ش ب ت پرس ی کے ا ل ن ہی
ے۔ ب یوگان کا حامی اور کم س ی کی ادیوں کا مخ الف ہ
آزاد ہ ن د
سربراہان (کمانڈر)
سبھاش چندر بوس سربرا ِہ
جشن
ب جامع موہن سنگھ دیب قاب ِل ذکر منص ِ
سربراہان
جامع اکبر محمد زمان کیانی
ب
جامع اکبر شاہ نواز خان (منص ِ
جامع)
کرنل پریم سہگل
کرنل شوکت ملک
کرنل گنپت رام نگر
ئ
خ دا ی خ دمت گار
خدائی خدمتگار آزادی کی ایک تحریک جو عدم تشدد کے فلسفے پر برطانوی راج کے خالف صوبہ
خیبر پختونخوا کے پشتون قبائل نے شروع کی تھی۔ اس تحریک کی سربراہی خان عبدالغفار خان نے کی
[]1
جو مقامی طور پر باچا خان یا بادشاہ خان کے نام سے جانے جاتے تھے۔
بنیادی طور یہ تحریک پشتون عالقوں میں سماجی و فالحی کاموں کے لیے ترتیب دی گئی تھی جس کا
مقصد تعلیم بارے شعور اور خوں ریزی کے خالف آگاہی پیدا کرنا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ سیاسی
رنگ میں ڈھلتی گئی اور کئی بار برطانوی راج کے زیر عتاب آئی۔ 1929ء تک اس تحریک کے تمام
راہنما صوبہ بدر کر دیے گئے اور مرکزی راہنما گرفتار کر لیے گئے۔ سیاسی حمایت حاصل کرنے کے
لیے اس تحریک کے راہنماؤں نے آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس سے رابطے بھی قائم
کیے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت نہ ملنے پر اس تحریک نے باقاعدہ طور پر 1929ء میں انڈین نیشنل
کانگریس سے الحاق کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ کانگریس کی حمایت کے بعد برطانوی حکام پر سیاسی طور
پر دباؤ میں اضافہ ہو گیا ،دوسری طرف مسلم لیگی رہنماؤں نے بھی اخالقی طور پر سیاسی قیدیوں کی
حمایت شروع کر دی جس کے بعد خان عبدالغفار خان کو رہا کر دیا گیا اور تحریک پر عائد پابندیوں کا
خاتمہ کر دیا گیا۔ تعزیرات ہند 1935ء کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی چھوٹے پیمانے پر
انتخابی عمل شروع کیا گیا اور اسی کے بعد 1937ء میں منعقد ہوئے انتخابات میں خان عبدالغفار خان
کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر ٰ
اعلی منتخب ہوئے۔
خدائی خدمتگار تحریک کو 1940ء کے بعد ایک بار پھر برطانوی راج کے زیر عتاب آنا پڑا کیونکہ اس
تحریک نے “ہندوستان چھوڑ دو“ تحریک میں نہایت شدت پیدا کی۔ اس دور میں خدائی خدمتگار تحریک
کو صوبہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ 1946ء میں خدائی خدمتگار تحریک
نے کانگریس کی اتحادی کے طور پر انتخابات میں حصہ لیا اور بھاری کامیابی حاصل کی ،گو کہ اس
تحریک کو مسلمانوں کی تحریک پاکستان کے نمائندگان کی جانب سے انتہائی شدید مخالفت کا سامنا تھا۔
حکومت برطانیہ کے ہندوستان میں خاتمے اور حکومت کی منتقلی کے مذاکرات کے دوران کانگریس
اس بات پر رضامند ہو گئی کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں ریفرنڈم کے ذریعہ فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ
ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کر دیں۔ کانگریس کو اس بات کا یقین تھا کہ خدائی خدمتگار تحریک
کی حمایت کی وجہ سے وہ نہایت آسانی سے اس ریفرنڈم میں صوبہ خیبر پختونخوا کو ہندوستان میں
شامل کروا سکیں گے ،مگر خدائی خدمتگار تحریک نے ریفرنڈم میں حصہ لینے سے انکار کردیا ،جس
کی وجہ سے صوبہ کا الحاق پاکستان سے ممکن بنایا جا سکا۔
93 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
قیام پاکستان کے فوراً بعد غیر متوقع طور پر خدائی خدمتگار تحریک کو نئی پاکستانی حکومت کے زیر
عتاب آنا پڑا۔ خدائی خدمتگار تحریک کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا اور اس تحریک پر پابندی عائد
کر دی گئی۔
تحریک کا منبع
پشتونوں کی سماجی اصالح واسطے چالئی گئی تحریک جو “انجمن اصالح افغان“ کہالتی ہے،
اس تحریک کا ابتدائی مقصد سماجی بگاڑ کی اصالح اور جسم فروشی کے خالف آواز اٹھانا تھا۔
خان عبدالغفار خان جو اس تحریک کے بانی تھے ،اس بات سے آگاہ تھے کہ جب بھی برطانوی
حکومت نے تحاریک کو کچلنے کی ٹھانی ہے تو براہ راست افواج کا استعمال کیا ہے ،اگر
برطانوی حکومت کو اس حوالے سے مکمل کامیابی حاصل نہیں بھی ہوتی ،پھر بھی ان کی اس
تحریک کو جزوی نقصان بھی خاصہ مہنگا پڑ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے خان عبدالغفار خان نے اس
تحریک کو مجموعی طور پر عدم تشدد کے فلسفے سے جوڑنے کا فیصلہ کیا۔
یہ تحریک قصہ خوانی بازار پشاور میں ہوئے فسادات سے پہلے شروع کی گئی تھی جب اس
تحریک کے سینکڑوں غیر مسلح حامیوں پر برطانوی فوجیوں نے کھلے عام گولی چالئی۔ اس
واقعہ کے بعد اس تحریک کو پشتون حلقوں میں کافی پذیرائی ملی ،یہ نقصان شاید اس نقصان سے
کہیں کم تھا جو 1947ء میں پاکستان کے قائم ہونے کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا کے مسلم لیگی
اعل ی عبدالقیوم خان نے اس تحریک کو گرفتاریوں اور سرکاری تحویل میں تشدد کے ذریعے وزیر ٰ
پہنچایا۔ اس تحریک پر پابندی عائد کرنے کے عالوہ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور مشہور بابرہ
قتل عام دراصل اس تحریک کو پہنچنے واال ناقابل تالفی نقصان تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس
تحریک کو اپنے جوبن کے زمانے میں تقریبا ً 100000غیر مسلح سرخ پوشوں کی حمایت حاصل
تھی۔
بینر جی مکولیکا جو “غیر مسلح پٹھان“ کے مصنف ہیں ،ان کے مطابق“ ،خدائی خدمتگار تحریک
مقامی طور پر چالئی جانے والی نہایت اثر انگیز تحریک تھی ،اس تحریک کے دو بنیادی اجزاء
تھے ،اسالم اور پشتونولی۔ عدم تشدد کا فلسفہ دراصل اسالم اور پشتونولی کی اصل روح سے
مالپ کھاتا تھا اور یہی اس تحریک کی برطانوی راج کے دوران کامیابی کی ضمانت بھی بن گیا“۔
تحریک کی اٹھان
تحریک کے ابتدائی دور میں سماجی اصالح اور پشتونوں کی برطانوی سامراج کے سامنے اہمیت
واضع کرنا دو اہم ستون تھے۔ خان عبدالغفار خان نے خدائی خدمتگار تحریک کو باقاعدہ شروع
کرنے سے پہلے مقامی طور پر دوروں ،جلسوں اور مباحثوں کے ذریعے اپنے نکتہ نظر کو نہایت
94 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
خوب انداز میں پشتون حلقوں میں منوا لیا تھا۔ انجمن اصالح افغان کے نام سے شروع ہونے والی
یہ تحریک مختلف شاخوں پر مشتمل تھی ،جن میں سب سے زیادہ اثرانداز ہونے والی شاخیں
“انجمن زمینداران“ اور “نوجوان تحریک برائے پشتون جرگہ“ تھیں جو 1927ء میں قائم کی گئیں۔
1928ء میں پشتون مسائل اور سماجی اصالحات کو اجاگر کرنے کے لیے خان عبدالغفار خان نے
ایک میگزین “پختون“ کے نام سے جاری کیا۔ 1929ء میں قصہ خوانی بازار پشاور میں ہوئے قتل
عام کے بعد ،اسی شام کو خان عبدالغفار خان نے انجمن اصالح افغان کو خدائی خدمتگار تحریک
[]1
میں ضم کرنے اور اس کے سیاسی مقاصد کی نشاندہی کا اعالن کر دیا۔
"سرخ پوش"
خان عبدالغفار خان نے اس تحریک میں بھرتیوں کے لیے سب سے پہلے ان نوجوانوں کو ترجیح
دی جو کہ مدارس سے فارغ التحصیل ہو چکے تھے۔ یہ نوجوان تربیتی مراحل سے گزرتے تھے
اور خاص لباس زیب تن کرتے اور مکمل طور پر تحریک سے وابستہ تھے۔ گاؤں گاؤں جا کر
تحریک کا پیغام پہنچانا اور نئی بھرتیاں ممکن بنانا ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔ پہلے تحریک
کے لیے سفید لباس کا انتخاب کیا گیا ،لیکن یہ لباس سفر کی وجہ سے جلد میال ہو جاتا تھا۔ مقامی
طور پر رضاکاروں نے اپنے لباسوں کو اول ہلکے اینٹ کے رنگ جیسے رنگنا شروع کر دیا اور
پھر باقاعدہ طور پر اینٹ کا گہرا رنگ لباس پر استعمال کیا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ پشتون حلقوں میں
یہ رضا کار “سرخ پوش“ کے نام سے مشہور ہو گئے۔
ایک اور حربہ جو کہ غیر مسلح اور عدم تشدد کا پرچار کرنے والے سرخ پوشوں کے خالف
راستہ بند کرنے کے دوران آزمایا جاتا تھا وہ جلوس پر گاڑیاں اور گھوڑوں کے ذریعے چڑھائی
کرنا ہوتا تھا۔ 1930ء میں ایک موقع پر گھروال رائفلز کے سپاہیوں نے غیر مسلح خدائی
خدمتگاروں پر گولی چالنے سے انکار کردیا۔ اس حکم عدولی کے بعد رجمنٹ کی جانب سے لندن
کو براہ راست یہ پیغام بھجوایا گیا کہ ہندوستان کی فوج کسی بھی ناخوشگوار موقعہ اور جنگ میں
قابل بھروسہ تصور نہیں کی جا سکتی۔ 1931ء تک خدائی خدمتگار کے 5000جبکہ گانگریس
[]5
کے 2000اراکین کو گرفتار کیا جا چکا تھا۔
1932ء میں خدائی خدمتگار تحریک نے نئے طور سے اپنی جدوجہد کو استوار کیا۔ اس بار
خواتین کو مرکزی کردار دیا گیا۔ سماجی روایات کے عین مطابق خواتین کی تضحیک اور ان سے
بدتمیزی نہایت برا خیال کیا جاتا تھا۔ گو یہ تحریک اس نئے طریقہ کار سے انتہائی تیزی سے
مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی مگر پھر بھی ایک بار پانچ پولیس افسران کو بنارس میں
معطل کر دیا گیا۔ اس کی وجہ وہ رپورٹ تھی جس میں ان کے خالف خواتین رضاکاروں کے
خالف تشدد کا ثابت ہوا تھا۔
برطانوی افواج نے 1932ء میں ہی باجوڑ کے ایک گاؤں پر بمباری کی اور خان عبدالغفار خان کو
4000سرخ پوش رضا کاروں کے ہمراہ گرفتار کر لیا۔ باجوڑ میں یہ بمباری 1936ء کے اواخر
تک جاری رہی ،یہ نہایت ظالمانہ فعل تھا اور ایک برطانوی افسر نے اپنے 1933ء میں ایک
تجزیاتی رپورٹ میں تحریر کیا تھا کہ“ ،ہندوستان مشقوں کے لیے بہترین جگہ ہے ،برطانوی
سلطنت میں شاید ایسا کوئی دوسرا مقام نہ ہو گا جہاں افواج برطانیہ کو اپنی صالحیتوں کو ہر طرح
سے آزمانے کا موقع نہ ملتا ہو ،حالیہ بمباری اس کی بہترین مثال ہے“۔
96 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
ان تمام حربوں کے عالوہ سرخ پوشوں کو زہر دینا اور گرفتار مردوں کو انتہائی ظالمانہ طریقہ
سے خصی کر دینے کے حربے انتہائی درجہ کی انسانی تذلیل میں شامل تھے۔[ ]7[ ]6دوسری جنگ
استعفی کے بعد ،برطانوی حربوں میں ایک نیا رخ ٰ عظیم کی مخالفت میں ڈاکٹر خان صاحب کے
دیکھا گیا۔ اب وہ پہلے جیسے تشدد کے قائل نہ رہے تھے بلکہ اب ان کے حربے محالتی سازشوں
پر مبنی تھے۔ یعنی تحریک کی مختلف شاخوں میں پھوٹ ڈلوانے کا کام شروع کیا گیا۔ پشتونوں
میں اسالم کے نام پر ایک بار پھر سے نفرت اور فرقہ وارانہ تشدد کا حربہ آزمایا جانے لگا اور
سب سے بڑھ کر صوبہ خیبر پختونخوا میں یہ پروپیگنڈہ بہت عام ہو گیا کہ ہندو اور پٹھانوں کے
اتحاد میں یہ تحریک دراصل نہایت خوفناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ
یہ کام مسجدوں کے امام یا مولویوں کے ذریعہ کیا جانے لگا۔ گورنر جارج کننگھم نے اپنے ایک
تجزیاتی پرچے میں حکومت برطانیہ کو کچھ ایسے کلمات ارسال کیے جو ستمبر 1943ء میں
جاری کیے گئے تھے“ ،حکومت برطانیہ کی یہ حکمت عملی اب تک نہایت کامیاب ثابت ہو رہی
[]8
ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ یہ دراصل اسالم کے گرد گھومتی ہے۔
تحریک کا ضابطہ
تحریک کے ضابطے کے حوالے سے دو مختلف نسخے اس وقت دستیاب ہیں جو یہ ہیں:
تحریک کا ترانہ
ہم ہیں ہللا کے سپاہی ،ملک اور موت اسی کے لیے
ہم بڑھتے ہیں آگے ،ساتھ اپنے راہنما ،ہم ہیں ہر دم تیار ،موت ہے ہماری
ہم بڑھتے رہیں گے آگے ،ہللا ہی کے لیے ،اس کے نام کے ہیں شیدائی ،ہم مر بھی جائیں
ہم خدمت کے قائل ،ہللا ہے ہمارا ساتھ ،ہم ہیں سپاہی ،ہم ہیں خدام ،ہللا کے سپاہی
ہللا ہی ہمارا بادشاہ ،عظیم تر ہے وہ بادشاہ ،ہم اپنے بادشاہ کے سپاہی
ہللا ہے مالک ہمارا ،ہم ہیں ہللا کے سپاہی
یہ ملک ہمارا ہے ،ہم پاسباں اس کے ہیں
ہم مر جائیں اس کی خاطر ،راضی ہے ہمارا رب ،ہم ہللا کے سپاہی
ہم خدمت کے قائل ،ہم محبت کرنے والے ،عظیم تر ہے ہمارا مقصد ،عظیم ہے ہماری قوم
ہم آزادی کے حامی ،کٹ کیوں نہ جائے گردن ،ہم ہللا کے سپاہی ،ہم ہللا کے سپاہی
[]11
تعزیرات ہند 1935ء کے تحت جب صوبائی خودمختاری میسر آ گئی تو خیبر پختونخوا میں
چھوٹے پیمانے پر 1936ء میں انتخابات کا انعقاد کروایا گیا۔ خان عبدالغفار خان کو صوبہ بدر کر
کے ان کی یہاں آمد پر پابندی لگا دی گئی۔ آپ کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب ان اس موقع پر صوبہ
میں تحریک کا انتظام سنبھاال اور اس کو نیا سیاسی رخ عطا کیا۔ اس نئی سیاسی جماعت نے نہایت
اعلی منتخب ہو گئے۔ خان
ٰ قلیل اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور ڈاکٹر خان صاحب وزیر
عبدالغفار خان 29اگست 1937ء کو پشاور واپس آ گئے اور پشاور کے روزنامہ خیبر میل نے اس
دن کو ان کی زندگی کا خوشگوار ترین دن گردانا۔کانگریس کے ساتھ اتحاد میں قائم یہ حکومت دو
اعلی کئی اصالحات متعارف کروائیں۔ ٰ سال تک قائم رہی اور ڈاکٹر خان صاحب نے بطور وزیر
جن میں زرعی اصالحات ،پشتو کو بطور تدریسی زبان متعارف کروانا اور سیاسی قیدیوں کی
رہائی شامل تھیں۔
98 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
کانگریس کی مرکزی قیادت کی ہدایت پر صوبے کے گیارہ میں سے آٹھ وزراء نے دوسری جنگ
استعفی دے دیا۔ ان استعفوں نے
ٰ عظیم کے خاتمے پر آزادی نہ دینے پر احتجاج کرتے ہوئے
ہندوستانی تاریخ میں نیا سیاسی منظر نامہ واضع کیا اور خیبر پختونخوا میں خدائی خدمتگار
تحریک کے مخالفین کو اپنے قدم جمانے کا موقع میسر آ گیا۔
اکتوبر 1946ء میں جواہر لعل نہرو نے صوبہ خیبر پختونخوا کا دورہ کیا اور اس دورہ کے اثرات
نہایت افسوسناک حد تک ڈاکٹر خان صاحب کی وزارت کی برطرفی کی شکل میں برآمد ہوئے۔ اس
دورہ کے بعد جب سرخ پوش احتجاجا ً سڑکوں پر نکل آئے تو یہاں آباد ہندؤں اور سکھوں کو یہ
خطرات الحق ہو گئے کہ شاید یہ تقسیم ہند سے پہلے ہوئے دوسروں عالقوں میں ہندو مسلم فسادات
[
کی ہی کڑی ہے۔ سرخ پوش اس احتجاج کے بعد صوبہ کی عوام میں انتہائی غیر مقبول ہو گئے۔
]13
گو 1972ء میں خدائی خدمتگار تحریک پر عائد پابندی ختم کر دی گئی مگر سیاسی طور پر یہ
تحریک ختم ہو چکی تھی۔
تنقید
گو برطانیہ کے سامراجی قبضہ کے خالف خدائی خدمتگار تحریک نہایت موثر تھی ،مگر اس
تحریک کے سماجی اثرات دیرپا ثابت نہ ہوئے۔ خان عبدالغفار خان کے خاندان کا تحریک کے
سیاسی مقاصد پر مضبوط گرفت ہونے کی وجہ سے یہ تحریک ،پاکستان کے سرکاری حلقوں میں
خاص مقام پیدا نہ کر سکی۔ اس تحریک پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ تقسیم ہند کی
مخالفت دراصل اس موقف کی ترجمانی تھا کہ یہ تحریک قیام پاکستان کی بھی مخالف تھی۔ [ ]18ان
وجوہات کی بناء پر اس تحریک کو پاکستان کے قیام کے بعد کئی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا،
1950ء اور 1960ء کے درمیانی عرصہ میں اس تحریک کو باقاعدہ کمیونسٹ قرار دیا جاتا تھا۔
کئی مخالف دھڑوں نے اس تحریک کو اسالم مخالف نظریات کی حامل بھی قرار دیا۔ اس تحریک
دعوی بھی کئی موقعوں پر موثر دکھائی نہ دیا ،کئی مخالفین کے مطابق جیسے اسٰ کا عدم تشدد کا
تحریک کو سلطنت برطانیہ کے خالف کامیابیاں ملیں شاید کسی اور سامراجی طاقت اس طرح کی
تحریک کو کسی بھی صورت قبول نہ کرتی ،جیسے کہ برطانوی راج نے قبول کیا تھا۔ اس کا ایک
ثبوت پاکستانی حکومت کے اس تحریک کے خالف پر تشدد اور سیاسی واقعات کا دیا جاتا ہے،
جس کی وجہ سے اس تحریک کا سیاسی ڈھانچہ اس طور متاثر ہوا کہ 1972ء میں یہ تحریک
اپنے پاؤں پر کھڑے رہنے کے قابل نہ تھی۔ [ ]2کئی تنقید نگاروں کے خیال میں خدائی خدمت گار
دعوی دراصل اتنا بھی موثر اور قابل قبول نہ تھا جتنا کہ اس تحریک کےٰ تحریک کا عدم تشدد کا
100 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
حامی گردانتے ہیں۔ بینر جی اور شوف فیلڈ جیسے مصنفین نے اپنی تصانیف میں کئی واقعات
حوالوں کے ساتھ شائع کیے ہیں جہاں اس تحریک کے رضا کار اپنے عدم تشدد کے فلسفے سے
ہٹتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
سن ٹ ش
را ری ہ سوی م سی وک گھ
راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس بھارت کی ایک ہندو تنظیم۔ یہ خود کو قوم پرست
تنظیم قرار دیتی ہے۔ لیکن یہ بھی دیکھا گیا کہ چند دہشت گردانہ معاملوں میں اس تنظیم کا ہاتھ رہا
ہے []4۔ اس کی اشاعت ۱۹۲۵ء کو ناگپور میں ہوئی۔ اس کا بانی کیشوا بلی رام ہیڑگیوار ہے۔ یہ
ہندو سوائم سیوک سنگھ کے نام سے بیرون ممالک میں سرگرم ہے۔ یہ بھارت کو ہندو ملک گردانتا
ہے۔ اور یہ اس تنظیم کا اہم مقصد بھی ہے۔ بھارت میں برطانوی حکومت نے ایک بار [ ]5۔ اور
ت ہند نے تین بار اس تنظیم کو ممنوع کر دیا۔
آزادی کے بعد حکوم ِ
فسادات
بھارت میں دنگے فسادات برپا کرنے میں اس تنظیم کا نام سر فہرت ہے۔ ۱۹۲۷ء کا ناگپور فساد
ان میں اہم اور اول ہے۔ ۱۹۴۸ء کو اس تنظیم کے ایک رکن ناتھورام ونائک گوڑسے نے مہاتما
گاندھی کو قتل کر دیا۔ ۱۹۶۹ء کو احمد آباد فساد ۱۹۷۱ ،ء کو تلشیری فساد اور ۱۹۷۹ء کو بہار
کے جمشید پور فرقہ وارانہ فساد میں ملوث رہی۔ ۶دسمبر ۱۹۹۲ء کو اس تنظیم کے اراکین
(کارسیوک) نے بابری مسجد میں گھس کر اس کو منہدم کر دی۔ آر ایس ایس کو مختلف فرقہ
وارانہ فسادات میں ملوث ہونے پر تحقیقی کمیشن کی جانب سے سرزنش کا سامنا کرنا پڑا ،وہ
درج ذیل ہیں
۱۹۶۹ء کے احمدآباد فساد پر جگموہن رپورٹ
۱۹۷۰ء کے بھیونڈی فساد پر ڈی پی ماڈن رپورٹ
۱۹۷۱ء کے تلشیری فساد پر وتایاتیل رپورٹ
۱۹۷۹ء کے جمشیدپور فساد پر جتیندر نارائن رپورٹ
۱۹۸۲ء کے کنیاکماری فساد پر وینوگوپال رپورٹ
۱۹۸۹ء کے بھاگلپور فساد کی رپورٹ
سوراج پ ار ی
ن ن قئ ت ن قئ ت ن ن
ن ن ت
ے۔ ا ہوں ے 1922ء می ں گ ی ا می ںطور کا قگری سی ات د ھ چ نر ج ن داس ب گال کے ای ک کات گری سی ا د ھ
ے۔ وہ ب ی ادی ٹ
[1
کا گریس اج الس کی صدارت کی ھی۔ وہ اسی سال سوراج پ ار ی کا ی ام ک ی ا ھا۔
ابتدائی زندگی
مرلی دھر دیوی داس آمٹے عرف بابا آمٹے کی پیدائش انیس سو چودہ میں مہاراشٹر کے ایک
متمول گھرانے میں ہوئی تھی۔ ان کے والد ایک اعلی سرکاری افسر تھے اور ان کا خاندان ایک
زمیندار خاندان تھا۔
تعلیم
ان کی ابتدائی تعلیم عیسائی مشنری اسکول ناگ پور میں ہوئی اور پھر قانون کی تعلیم انہوں نے
ناگ پور یونیورسٹی سے کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے کافی عرصے تک وکالت کی۔
ت خلق
خدم ِ
1949ء میں انہوں نے جذام کے مریضوں کے لیے ’مہا روگ سیوا سمیتی‘ بنائی اور ان کی
مریضوں کی خدمت میں لگ گئے۔
اعزازات
اس کے بعد انہوں نے سماج کے مختلف طبقوں میں کئی شعبوں میں فالحی کام کیے۔ ان کی
خدمات کے اعتراف میں انیس سو اکہتر میں انہیں اعلی شہری اعزار ’پدم شری‘[ ،]2انیس سو
چھیاسی میں ’پدم وبھوشن ‘ اور انیس سو ننانوے میں ’گاندھی شانتی ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔ 9
فروری 2008ء کو ان کا انتقال ہوا۔
ن
موہ ن داس گا دھی
موہن داس گاندھی
پیدائش 2اکتوبر 1869
پوربندر ،بمبئ پریسیڈینسی ،برطانوی
ہندوستان
وفات 30جنوری ( 1948عمر 78 سال)
نئ دہلی ،بھارت
وجۂ وفات قتل (سینے میں تین گولیاں داغی گئی)
دیو داس
والدین پتلی بائ (والدہ)
موہن داس کرم چند گاندھی (گجراتیમોહનદાસ કરમચંદ ગાંધી :؛ ہندیमोहनदास करमचंद :
गांधी؛ 2اکتوبر1869 ،ء تا 30جنوری 1948ء) بھارت کے سیاسی اور روحانی رہنماء اور آزادی کی
تحریک کے اہم ترین کردار تھے۔ انہوں نے ستیہ گرہ اور اہنسا (عدم تشدد) کو اپنا ہتھیار بنایا۔ ستیہ گرہ،
ظلم کے خالف عوامی سطح پر منظم سول نافرمانی ہے جو عدم تشدد پر مبنی ہے۔ یہ طریقئہ کار
ہندوستان کی آزادی کی وجہ بنی۔ اور ساری دنیا کے لئے حقوق انسانی ،اور آزادی کی تحاریک کےلئے
روح رواں ثابت ہوئی۔ بھارت میں انھیں احترام سے مہاتما گاندھی اور باپو جی کہا جاتا ہے۔ انہیں بھارت
سرکار کی طرف سے بابائے قوم(راشٹر پتا) کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ گاندھی کی یوم پیدائش (گاندھی
جینتی) بھارت میں قومی تعطیل کا درجہ رکھتا ہے ا ور دنیا بھر میں یوم عدم تشدد کی طور پر منایا جاتا
ہے۔ 30جنوری1948 ،ء کو ایک ہندو قوم پرست ناتھو رام گوڈسے نے ان کا قتل کر دیا۔
جنوبی افریقہ میں وکالت کے دوران میں گاندھی جی نے رہائشی ہندوستانی باشندوں کے شہری حقوق
کی جدوجہد کے لئے شہری نافرمانی کا استعمال پہلی بار کیا۔ 1915ء میں ہندوستان واپسی کے بعد،
انہوں نے کسانوں اور شہری مزدوردں کے ساتھ بےتحاشہ زمین کی چنگی اور تعصب کے خالف
احتجاج کیا۔ 1921ء میں انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت سنبھالنے کے بعد ،گاندھی ملک سے غربت کم
کرنے ،خواتین کے حقوق کو بڑھانے ،مذہبی اور نسلی خیرسگالی ،چھواچھوت کے خاتمہ اور معاشی
خود انحصاری کا درس بڑھانے کی مہم کی قیادت کی۔ انہوں نے بھارت کوغیر ملکی تسلّط سے آزاد
کرانے کے لیے سوراج کا عزم کیا۔ گاندھی نے مشہور عدم تعاون تحریک کی قیادت کی۔ جو 1930ء
میں مارچ سے برطانوی حکومت کی طرف سے عائد نمک چنگی کی مخالفت میں 400کلومیٹر (240
میل) لمبی دانڈی نمک احتجاج سے شروع ہوئی۔ اس کے بعد 1942ء میں انہوں نے بھارت چھوڑو
شہری نافرمانی تحریک کا آغاز فوری طور پر آزادی کا مطالبہ کے ساتھ کیا۔ گاندھی دونوں جگہ جنوبی
104 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
افریقہ اور بھارت میں کئی سال قید میں گزارے۔
عدم تشدد کے پیشوا طور پر ،گاندھی نےسچ بولنے کی قسم کھائی تھی اور دوسروں سے ایسا ہی کرنے
کی وکالت کرتے تھے ۔ وہ سابرمتی آشرم میں رہتے اور سادہ زندگی بسرکرتےتھے۔ لباس کے طور پر
روایتی ہندوستانی دھوتی اور شال کا استعمال کرتے ،جو وہ خود سے چرخے پر بُنتے تھے۔ وہ سادہ اور
سبز کھانا کھاتے ،اور روحانی پاکیزگی اور سماجی احتجاج کے لئے لمبے اُپواس (روزے) رکھا کرتے
تھے۔
گاندھی گجرات ،بھارت کے مغربی ساحلی شہر پوربندر (جو اُس وقت بمبئ پریسیڈینسی ،برطانوی
ہندوستان کا حصّہ تھا) میں 2اکتوبر1869 ،ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کرم چند گاندھی(1822ء-
1885ء) ہندو مودھ فرقہ سے تھے اور ریاست پوربندر کے دیوان تھے۔ ان کی ماں کا نام پُتلی بائ
تھا جو ہندو پرنامی ویشنو فرقہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ کرمچند کی چوتھی بیوی تھی۔ غالبًا پہلی
تین بیویوں کا انتقال زچگی کے دوران میں ہو گیا تھا۔
ان کے والد کرم چند گاندھی ہندو مودھ برادری سے تعلق رکھتے تھے اور انگریزوں کے زیر
تسلط والے بھارت کے امییواڑ ایجنسی میں ایک چھوٹی سی ریاست پوربندر صوبے کے دیوان
یعنی وزیر اعظم تھے۔[ ]1ان کے دادا کا نام اُتّم چند گاندھی تھا جو اتّا گاندھی سے بھی مشہور تھے۔
پرنامی ویشنو ہندو برادری کی ان کی ماں پتلی بائی کرم چند کی چوتھی بیوی تھی ،ان کی پہلی
تین بیویاں زچگی کے وقت مر گئی تھیں۔[ ]2عقیدت کرنے والی ماں کی دیکھ بھال اور اس عالقے
کی جین برادری کی وجہ سے نوجوان موہن داس پر ابتدائی اثرات جلد ہی پڑ گئے جو ان کی
زندگی میں اہم کردار ادا کرنے والے تھے۔ ان اثرات میں کمزوروں میں جوش کا جذبہ ،سبزی
خواری کی زندگی ،روح کی پاکیزگی کے لئے بپوبس اور مختلف ذاتوں کے لوگوں کے درمیان
میں رواداری شامل تھیں۔
مئی 1883ء میں جب وہ 13سال کے تھے تب ان کی شادی 14سال کی کستوربا ماکھنجی سے کر
دی گئی جن کا پہال نام چھوٹا کرکے کستوربا تھا اور اسے لوگ پیار سے با کہتے تھے۔ یہ شادی
ایک منظم کم سنی کی شادی تھی جو اس وقت اس عالقے میں عام تھی۔ لیکن یہ اس عالقے میں
وہاں یہی رسم تھی کہ نابالغ دلہن کو اپنے ماں باپ کے گھر اور اپنے شوہر سے الگ زیادہ وقت
تک رہنا پڑتا تھا۔1885ء میں جب گاندھی جی 15سال کے تھے تب ان کی پہلی اوالد کی پیدائش
ہوئی لیکن وہ صرف کچھ دن ہی زندہ رہی اور اسی سال کے شروعات میں گاندھی جی کے والد
کرمچند گاھی بھی چل بسے۔ موہن داس اور کستوربا کے چار اوالد ہوئیں جو تمام بیٹے تھے -
ہری الل 1888ء میں ،منی الل 1892ء میں ،رام داس1897 ،ء میں ،اور دیوداس 1900ء میں پیدا
ہوۓ۔ پوربندرمیں ان کے مڈل اسکول اور راجکوٹ میں ان کے ہائی اسکول دونوں میں ہی تعلیمی
سطح پر گاندھی جی ایک اوسط طالب علم رہے۔ انہوں نے اپنی میٹرک کا امتحان بداؤنگر گجرات
کے سملداس کالج سے کچھ پریشانیوں کے ساتھ پاس کیا اور جب تک وہ وہاں رہے ناخوش ہی
رہے کیونکہ ان کا خاندان انہیں بیرسٹر بنانا چاہتا تھا۔
گاندھی اور ان کی بیوی کستوربا سن 1902ء میں
4ستمبر 1888ء کو اپنی شادی کی 19ویں سالگرہ سے کچھ ماہ قبل ،گاندھی جی قانون کی پڑھائی
کرنے اور بیرسٹر بننے کے لئے لندن ،برطانیہ کے یونیورسٹی کالج آف لندن گئے۔ شاہی دار
الحکومت لندن میں ان کے اوقات ،اپنی ماں سے جین بھکشو کے سامنے بھارت چھوڑتے وقت
کۓ وعدے ،ہندوؤں کی تہذیب کے تحت گوشت ،شراب اور تنگ نظریہ سے پرہیز کرتے گزرا۔
حاالنکہ گاندھی جی نے انگریزی رسم و رواج کا تجربہ بھی کیا جیسے مثال کے طور پر -رقص
کی کالس میں جانا -پھر بھی وہ اپنی مکان مالکن سے گوشت اور پتہ گوبھی کو ہضم نہیں کر
105 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
سکے۔ اور انہوں نے بھوکا رہنا پسند کیا جب تک انھیں لندن میں کچھ خالص سبزی ریستراں نہیں
ملے۔ سالٹ سے متاثر ہو کر ،انہوں نے سبزخور سماج کی رکنیت اختیار کی۔ اور اس کی
ایگزیکٹو کمیٹی کے لئے انکا انتخاب بھی ہو گیا جہاں انہوں نے ایک مقامی باب کی بنیاد رکھی۔ وہ
جن سبزخور لوگوں سے ملے ان میں سے کچھ تھیوسوفیکل سوسائٹی کے رکن تھے جس کا قیام
1875ء میں عالمی بھائی چارگی کو مضبوط کرنے کے لئے اور بودھ مت اور ہندو مت کے ادب
کے مطالعہ کے لئے وقف کیا گیا تھا۔ انہوں نے گاندھی کو ان کے ساتھ بھگوت گیتا اصل اور
ترجمہ دونوں میں پڑھنے کے لئے متاثر کیا۔ جس گاندھی جی کو پہلے مذاہب میں خاص دلچسپی
نہیں تھی ،وہ مذہب میں دلچسپی لینے لگے اور ہندواور عیسائی دونوں مذاہب کی کتابوں کو
پڑھنے لگے۔
10جون 1810ء میں ان کو انگلینڈ اور ویلز بار بالیا گیا۔ اور 12جون 1892ء کو لندن سے،
بھارت لوٹ آئے۔ جہاں انہیں اپنی والدہ کی موت کا علم ہوا۔ لیکن ممبئی میں وکالت کرنے میں انہیں
کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔ بعد میں ایک ہائی اسکول کے استاد کے طور پر جزوقتی کام کے
ساتھ ساتھ انہوں نے دعوں کے لئے مقدمے لکھنے کے لئے راجکوٹ کو ہی اپنا مقام بنا لیا لیکن
ایک انگریز افسر کی حمایت کی وجہ سے انھیں یہ کاروبار بھی چھوڑنا پڑا۔ اپنی آپ بیتی My
Experiments with the Truthمیں ،نے اس واقعہ کا بیان انہوں نے اپنے بڑے بھائی کی
طرف سے پیروی کی ناکام کوشش کے طور پر کیا ہے۔ یہی وہ وجہ تھی جس وجہ سے انہوں نے
1893ء میں ایک بھارتی فرم دادا عبد ہللا اینڈ کمپنی کی ایک سالہ قرار پر نیٹال ،جنوبی افریقہ جو
اس وقت انگریزی سلطنت کا حصہ ہوتا تھا ،جانا قبول کیا تھا۔
جنوبی افریقہ میں گاندھی جی کو ہندوستانیوں اور کالے رنگ کے لوگوں کے ساتھ روا رکھے
جانے والے غیرامتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ شروع میں انہیں پہلے درجے کے کوچ کی
درست ٹکٹ رکھنے کے باوجود تیسرے درجہ کے ڈبے میں سفرکرنے پر مجبور کرنے
اورگاندھی جی کے انکار کرنے پرانھیں پیٹرمارتسبرگ میں ٹرین سے باہراتارا جا چکا تھا۔
پائےدان پر باقی سفر کرتے ہوئے ایک یورپی مسافر کے اندر آنے کے لئے اسے ڈرائیور سے
پٹائی بھی جھیلنی پڑی تھی۔ انہوں نے جنوبی افریقہ کے قیام کے دوران میں پیش آئیں دیگر
دشواریوں کا سامنا کیا جس میں کئی ہوٹلوں میں ان کے لئے پابندی لگا دی گئی تھی۔ اسی طرح کا
ایک اور واقعہ میں ڈربن کی ایک عدالت کے جج نے گاندھی جی کو اپنی پگڑی اتارنے کے لئے
حکم دیا تھا جسے گاندھی جی نے نہیں مانا۔ یہ سارےواقعات گاندھی جی کی زندگی میں ایک اہم
موڑ بن گئی اور سماجی نا انصافی کے فی بیداری کا سبب بنا اور سماجی سرگرمی کے لۓ متاثر
کیا۔ جنوبی افریقہ میں پہلی نظر میں ہی ہندوستانیوں پر اور نا انصافی ،نسل پرستی اور تعصب کو
دیکھتے ہوئے گاندھی نے برطانوی سلطنت کے تحت اپنے لوگوں کے احترام اور ملک میں خود
اپنی حالت کے لیے سوال اٹھا دیے۔
ت جنوبی افریقہ کے ذریعے پیش کردہ بل کی ،جس میں ہندستنیوں کے ووٹ گاندھی جی نے حکوم ِ
دینے کے حق کو چھینا گیا تھا ،مخالفت کی۔ حاالں کہ بل کو منظوری سے روکنے میں وہ ناکام
رہے۔ تاہم ،اس مہم سے بھارتیوں کی شکایات پر جنوبی افریقہ کی توجہ اپنی طرف متوجہ کرنے
میں کامیاب رہے تھے۔ انہوں نے 1894ء میں نیٹال انڈین کانگریس قائم کرنے میں مدد کی اور اس
کی تنظیم کے ذریعے سے ،انہوں نے جنوبی افریقہ کے بھارتی کمیونٹی کو ایک متحدہ سیاسی
طاقت میں تبدیل کر دیا۔ جنوری 1897ء میں جب گاندھی ڈربن میں اترے تو سفید آبادکاروں کے
ایک ہجوم نے ان پر حملہ کر دیا تھا اور صرف پولیس سپرنٹنڈنٹ کی بیوی کی کوششوں سے بچ
گئے۔ تاہم انہوں نے بھیڑ کے کسی بھی رکن کے خالف الزامات عائد کرنے سے انکار کیا اور کہا
گاندھی کی پہلی بڑی کامیابی 1918ء میں چمپارن تحریک اور کھیڑا ستیہ گرہ میں ملی ،کھیڑا میں
اپنے گزر بسرکے لئے ضروری خوراکی فصلوں کی بجائے نیل اور نقدی فصلوں کی کھیتی کا
معاملہ تھا۔ زمیندار (زیادہ تر انگریز) کی طاقت سے مظالم ہوئے ہندوستانیوں کو برائے نام محنتانہ
دیا جاتا تھا جس سے وہ انتہائی غربت میں رہ رہے تھے۔ گاؤں میں بری طرح گندی اور شراب
خوری تھی۔ اب ایک تباہ کن قحط کی وجہ سے شاہی خزانے کی تالفی کے لیے انگریزوں نے
چنگی لگا دیے جن کا بوجھ دن روزانہ دن بہ دن بڑھتا ہی گیا۔ یہ صورتحال پریشان کن تھی۔
کھیڑا ،گجرات میں بھی یہی مسئلہ تھا۔ گاندھی جی نے وہاں ایک آشرم بنایا جہاں ان کے بہت
سارے حامیوں اور نئے کارکنوں کو منظم کیا گیا۔ انہوں نے گاؤں کا ایک وسیع مطالعہ اور سروے
کیا جس میں لوگوں پر ہوئے ظلم کے خوفناک کانڈوں کا ریکارڈ رکھا گیا اور اس میں لوگوں کی
تنزیلی حالت کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ دیہاتوں میں یقین پیدا کرتے ہوئے انہوں نے اپنا کام گاؤں کی
صفائی کرنے سے شروع کیا جس کے تحت اسکول اور ہسپتال بنائے گئے اور سماجی برائیوں
جیسے چھواچھوت ،شراب خوری کو ختم کرنے کے لئے دیہی قیادت کی حوصلہ افزائی کی۔
لیکن اس کے اصل اثرات اس وقت دیکھنے کو ملے جب انہیں بدامنی پھیالنے کے لئے پولیس نے
گرفتار کیا اور انہیں صوبے چھوڑنے کے لئے حکم دیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے
احتجاجی مظاہرے کئے اور جیل ،پولیس اسٹیشن اور عدالتوں کے باہر ریلیاں نکال کر گاندھی کو
بغیر شرط رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ گاندھی نے زمیںدارز کے خالف احتجاجی مظاہرے اور
ہڑتالوں کی قیادت کی جنہوں نے انگریزی حکومت کی رہنمائی میں اس خطے کے غریب کسانوں
کو زیادہ معاوضہ منظور کرنے اور کھیتی پر کنٹرول ،قحط تک چنگی کو منسوخ کرنا والے ایک
معاہدے پر دستخط کۓ۔ اس جدوجہد کے دوران میں ہی ،گاندھی جی کو عوام نے باپو اور مہاتما
(عظیم روح) کے نام سے خطاب کیا۔ کھیڑا میں سردار پٹیل نے انگریزوں کے ساتھ گفتگو کے
لئے کسانوں کی قیادت کی جس میں انگریزوں نے چنگی کو منسوخ کر تمام قیدیوں کو رہا کر دیا۔
اس کے نتیجے میں ،گاندھی کی شہرت پورے ملک میں پھیل گئی۔ اور وہ باباۓ قوم کہالۓ۔
لندن سے وکالت کا امتحان پاس کیا۔ کچھ وقت جنوبی افریقہ میں گزارا اور وہیں سیاست میں آۓ۔
ہندوستان آکر انھوں نے انڈین نیشنل کانگرس کے پلیٹ فارم سے سیاسی اور سماجی بیداری کا
آغاز کیا۔ آزادی کے لیے عدم تشدد انکا اہم ہتھیار تھا۔ آزادی کے بعد 30جنوری 1948ء کو انہیں
نئی دہلی میں قتل کر دیا گیا۔
عدم تعاون
گاندھی نے عدم تعاون ،عدم تشدد اور پرامن مزاحمت کو برطانوی راج کے خالف جدوجہد میں
"ہتھیار" کے طور پر اپنایا۔ پنجاب کی جلیانوالہ باغ قتل عام (جسے امرتسر قتل عام سے بھی جانا
جاتا ہے) کی وجہ سے عام شہریوں میں کافی غم و غصہ تھا ،جس وجہ سے برطانوی فوجیوں کو
عوام کے غصے اور تشددی کارروائیوں کا سامنہ کرنا پڑا۔ گاندھی نے دونوں برطانوی راج کے
اقدامات اور بھارت کی جوابی تشدد پر تنقید کی۔ انہوں نے برطانوی شہریوں کے متاثرین کے لئے
تعزیت کی پیشکش اور فسادات کی مذمت کی قرارداد لکھی ،جسے پارٹی میں ابتدائی مخالفت اور
گاندھی کی اس اصول کی جذباتی وکالت کہ ،تمام تشدد ہی برا ہیں اور ناقال قبول ہیں ،کے بعد
109 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
منظور کر لیا گیا۔ لیکن قتل عام اور اسکے بعد کی تشدد نے گاندھی کی توجہ مکمل خود حکومت
اور تمام بھارتی حکومتی ادارے کا کنٹرول حاصل کرنے پر مرکوز کر دیا ،جو جلد ہی سوراج یا
مکمل ذاتی ،روحانی ،سیاسی آزادی میں بدل گئی ۔
سابرمتی آشرم میں مہاتما گاندھی کا کمرہ
سابرمتی آشرم ،گجرات میں گاندھی کے گھر
دسمبر 1921ء میں انڈین نیشنل کانگریس نے گاندھی کو خصوصی اختیارات کے ساتھ پارٹی کا
ذمہ سونپا۔ ان کی قیادت میں کانگریس کو ایک نۓ آئین اور سوراج کے مقاصد کے ساتھ دوبارہ
سے منظم کیا گیا۔ پارٹی میں رکنیت کے ایک ٹوکن فیس ادا کرنے کے بعد کسی کے لئے کھول دیا
گیا تھا۔ پارٹی کو مخصوص طبقے کی جماعت سے ،منظم اور قومی اپیل میں تدیل کرنے کے لۓ
کئی درجاتی ذیلی تناظیم قائم کۓ گئے۔ گاندھی اپنی عدم تشدد الئحہ عمل میں سودیشی پالیسی(غیر
ملکی مال کے بائیکاٹ کی ،خاص طور پر برطانوی اشیاء ) کو شامل کر اسے توسیع دی۔ اس
سے منسلک انہوں نے ہر بھارتی کو انگریزی ٹکسٹائل کے بجاۓ کھادی(گھروں میں بنے کپڑے)
کے استعمال کی وکالت کی۔ گاندھی بھارت کے مردوں اور عورتوں ،امیر ہو یا غریب کو آزادی
کی تحریک کی حمایت میں ہر دن کھادی کی کتائی کے لۓ وقت خرچ کرنے کی نصیحت دی۔
گاندھی نے ایک چھوٹی سی چرخہ بنوائ جو ایک چھوٹی سی ٹائپ رائٹر کے سائز میں موڑا جا
سکتا تھا۔ انہوں نے ایسا لوگوں میں نظم و ضبط ،جذبہ ،خوداعتمادی میں اضافہ اور منفی خیاالت
کو دور کرنے ،اور عورتوں کو بھی اس تحریک میں شامل کرنے کے لۓ کیا جو کے وقت سوچ
کہ ،اس طرح کی سرگرمیوں میں عورتوں کے لئے عزت کا مقام نہیں ہے کو بدل دیا۔ برطانوی
مصنوعات کے بائیکاٹ کے عالوہ ،گاندھی نے برطانوی تعلیمی اداروں اور قانونی عدالت کی
بائیکاٹ پر بھی زور دیا کہ ،حکومت کی مالزمت سے استعفی دے دیں ،اور برطانیہ کے القاب
اور اعزازات چھوڑنے کے لئے کہا۔
عدم تعاون کو بڑے پیمانے پر اپیل اور کامیابی کا لطف اٹھایا ،بھارتی سماج کے تمام طبقات کی
طرف سے حوصلہ افزائی ملی اور شرکت میں اضافہ ہوا۔ پھر جب تحریک اپنی فراز پر تھا ،اس
چوری چورا ،اتر پردیش کی ایک بستی میں فروری 1922ء کے پر تشدد تصادم کے نتیجے میں
اچانک ختم ہو گیا۔ اس ڈر سے کہ تحریک تشدد کی طرف موڑ نہ لے لے ،اور سارے کرے کراۓ
پر پانی نہ پھر جاۓ۔ گاندھی نے عوامی سول نافرمانی کی مہم کے خاتمے کا اعالن کیا۔ 10مارچ
1922ء کو گاندھی کو گرفتار کیا گیا ،بغاوت کے لئے کوشش کے الزام میں چھ سال قید کی سزا
سنائی گئی۔ انہوں نے 18مارچ 1922ء اس سزا کی شروعات کی۔ انہیں ایک پتری کے آپریشن
کے لیے 1924ء فروری میں رہا کر دیا گیا اس طرح انہوں نے صرف 2سال تک ہی جیل میں
رہے۔
گاندھی کی ایسی متحدہ کی شخصیت کے بغیر ،انڈین نیشنل کانگریس ،دو دھڑوں میں بنٹ گئی،
ایک چتّا رنجن داس اور موتی الل نہرو کی قیادت میں جو اسمبلی میں پارٹی کی شرکت کے حامی
تھے اور دوسرا چکرورتی راج گوپال آچاریہ اور سردار وللببائی پٹیل کی قیادت میں جو اس اقدام
کی مخالف تھے۔ اس کے عالوہ ،ہندو اور مسلمان اتحاد ،جو عدم تشدد کی مہم کی بلندی پر مضبوط
تھا ،ٹوٹ گیا تھا۔ گاندھی 1924ء کے موسم خزاں میں تین ہفتے کا احتجاجی روزہ کے ذریعے ان
اختالفات کو حل کرنے کی کوشش کی ،لیکن ان کو محدود کامیابی ملی۔
گاندھی جی سرگرم سیاست سے دور ہی رہے اور 1920ء کی زیادہ تر مدت تک وہ سوراج پارٹی
اور انڈین نیشنل کانگریس کے درمیان میں کی خلیج کو پر کرنے میں لگے رہے اور اس کے
110 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
عالوہ وہ چھواچھوت ،شراب ،جہالت اور غربت کے خالف تحریک چھیڑتے بھی رہے۔ وہ
1928ء میں منظر عام پر لوٹے۔ ایک سال پہلے انگریزی حکومت نے سر جان سائمن کی قیادت
میں ایک نئ قانون اصالحات کمیشن تشکیل دے دیا جس میں ایک بھی رکن ہندوستانی نہیں تھا۔ اس
کا نتیجہ بھارتی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بائیکاٹ نکال۔ دسمبر 1928ء میں گاندھی جی نے
کلکتہ میں منعقد کانگریس کے ایک اجالس میں ایک تجویز پیش کی جس میں بھارتی سلطنت کو
اقتدار فراہم کرنے کے لئے کہا گیا تھا یا ایسا نہ کرنے کے بدلے اپنے مقصد کے طور پر مکمل
ملک کی آزادی کے لئے عدم تعاون تحریک کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہیں۔ گاندھی جی نے نہ
صرف نوجوان طبقے سبھاش چندر بوس اور جواہر الل نہرو جیسے مردوں سے فوری آزادی کا
مطالبہ کے خیاالت کو معتدل کیا بلکہ اپنی خود کی مانگ کو دو سال کی بجائے ایک سال کر دیا۔
انگریزوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ 31دسمبر 1929ء کو الہور میں بھارت کا جھنڈا پھیرایا گیا۔
26جنوری 1930ء کا دن الہور میں بھارتی یوم آزادی کے طور پر انڈین نیشنل کانگریس نے منایا۔
یہ دن تقریبا ً ہر ہندوستانی تنظیموں کی طرف سے بھی منایا گیا۔ اس کے بعد گاندھی جی نے مارچ
1930ء میں نمک پر چنگی لگائے جانے کی مخالفت میں نیا ستیہ گرہ چالیا جسے 12مارچ سے
6اپریل تک نمک تحریک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میں 400کلومیٹر ( 248میل) تک کا
سفر احمد آباد سے دازڈی ،گجرات تک چالیا گیا تاکہ خود نمک پیدا کیا جا سکے۔ سمندر کی
طرف کی اس سفر میں ہزاروں کی تعداد میں ہندوستانیوں نے حصہ لیا۔ بھارت میں انگریزوں کی
پکڑ کو کمزور کرنے واال یہ ایک سب سے زیادہ کامیاب تحریک تھی جس میں انگریزوں نے
80،000سے زیادہ لوگوں کو جیل بھیجا۔
الرڈ ایڈورڈ اروین ( )Lord Edward Irwinکی طرف سے نمائندگی والی حکومت نے گاندھی
جی کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کا فیصلہ لیا۔ یہ اروین گاندھی کی صلح (Gandhi – Irwin
)Pactمارچ 1931ء میں دستخط کئے تھے۔ شہری نافرمانی تحریک کو بند کرنے کے عوض
برطانوی حکومت نے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کے لئے اپنی رضامندی دے دی۔ اس
معاہدے کے نتیجے میں گاندھی کو انڈین نیشنل کانگریس کے واحد نمائندے کے طور پر لندن میں
منعقد ہونے والے گول میز کانفرنس میں حصہ لینے کے لئے مدعو کیا گیا۔ یہ کانفرنس گاندھی جی
اور قومیت وادیوں کے لئے سخت مایوس کن رہا ،اس کی وجہ اقتدار کا منتقلی کرنے کی بجائے
بھارتی راجواڑے اور بھارتی اقلیتوں پر مرکوز ہونا تھا۔ اس کے عالوہ ،الرڈ اروین کے جانشیں
الرڈ ولنگٹن ( ، )Lord Willingdonنے قومیت وادیوں کے تحریک کو کنٹرول اور کچلنے کی
ایک نئ مہم شروع کردیا۔ گاندھی پھر سے گرفتار کر لئے گئے اور حکومت نے ان کے عاملین کو
ان سے پوری طرح دور رکھتے ہوئے گاندھی جی کی طرف سے متاثر ہونے سے روکنے کی
کوشش کی۔ لیکن ،یہ مشین کامیاب نہیں ہوئی۔
مادھو دیسائ (بایئں) گاندھی کو وائسرۓ کا خط سنتے ،برال ہاؤس بمبئ میں 7 ،اپریل 1939ء
1932ء میں ،دلت رہنما بھیم راؤ امبیڈکر ()BR Ambedkarکے انتخابی مہم کے ذریعے،
حکومت نے اچھوتوں کو ایک نئے آئین کے تحت الگ سے انتخاب کو منظور کر دیا۔ اس فیصلے
کی مخالفت میں گاندھی جی نے ستمبر 1932ء میں چھ دن کے احتجاجی روزہ رکھا جس کی
کامیابی کہ باعث عوامی احتجاج نے طول پکڑا۔ اس کے اثر سے حکومت نے دلت کرکٹر سے
سیاسی لیڈر بنے پلوانکر بالو کی ثالثی میں ایک یکساں نظام کو اپنانے پر زور دیا۔ اس واقعہ نے
اچھوتوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے گاندھی جی کی طرف سے مہم کی شروعات کی۔
گاندھی جی نے ان اچھوتوں کو ہریجن کا نام دیا جنہیں وہ خدا کی اوالد سمجھتے تھے۔ 8مئی
1933ء کو گاندھی جی نے ہریجن تحریک میں مدد کرنے کے لئے اور خود پاکیزگی کے لۓ 21
دن تک کا روزہ رکھا۔ یہ نئی مہم دلتوں کو پسند نہیں آؤ تاہم وہ ایک اہم رہنما بنے رہے۔ بی آر
امبیڈکر ( )BR Ambedkarنے گاندھی جی سے ہریجن لفظ کا استعمال کرنے کی مذمت کی کہ
دلت سماجی طور پر نادان ہیں اور اونچے ذات والے ہندوستانی انکے ساتھ پدری کردار ادا کیا ہے۔
111 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
امبیڈکر اور اس کی اتحادی جماعتوں کو بھی محسوس ہوا کہ گاندھی جی دلتوں کے سیاسی حقوق
کو ہلکا لے رہے ہیں۔ حاالنکہ گاندھی جی ایک ویشو ذات میں پیدا ہوئے پھر بھی انھوں نے اس
بات پر زور دیا کہ وہ امبیڈکر جیسے دلت کارکن کے ہوتے ہوئے بھی وہ دلتوں کے لئے آواز اٹھا
سکتا ہے۔
1934ء کی گرمیوں میں ،ان کی جان لینے کے لیے ان پر تین ناکام کوشش کئے گئے تھے
جب کانگریس پارٹی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا اور وفاقی منصوبہ کے تحت اقتدار قبول کی تو
گاندھی جی نے پارٹی کی رکنیت سے استعفی دینے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ پارٹی کے اس قدم سے
متفق نہیں تھے لیکن محسوس کرتے تھے کہ اگر وہ استعفی دیتے ہیں تب ہندوستانیوں کے ساتھ
اس کی مقبولیت پارٹی کی رکنیت کو مضبوط کرنے میں آسانی فراہم کرے گی جو اب تک
کمیونسٹوں ،ماوعوادیوں ،کاروباری مئوز ،طلبہ ،مذہبی رہنماؤں سے لے کر کاروبار مئوز اور
مختلف آواز جو انکے درمیان موجود تھی۔ اس سے ان تمام کو اپنی اپنی باتوں کے سن جانے کا
موقع حاصل ہوگا۔ گاندھی راج کے لئے کسی پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے مہم سے کوئی ایسا
ہدف ثابت نہیں کرنا چاہتے تھے جسے راج کے ساتھ عارضی طور پر سیاسی نظام کے طور پر
قبول کر لیا ہو۔
گاندھی جی نہرو کی صدارت اور کانگریس کے الہور اجالس کے ساتھ ہی 1936ء میں فعّال
سیاست میں لوٹ آئے۔ حاالنکہ گاندھی کی مکمل خواہش تھی کہ وہ آزادی حاصل کرنے پر اپنا
مکمل توجہ مرکوز کریں نہ کہ بھارت کے مستقبل کے بارے میں نانکلوں پر۔ اس نے کانگریس کو
سماجواد کو اپنے مقصد کے طور پر اپنانے سے نہیں روکا۔ 1938ء میں صدر کے عہدے کے
لئے منتخب سبھاش چندر بوس کے ساتھ گاندھی جی کے اختالفات تھے۔ بوس کے ساتھ اختالفات
میں گاندھی کے اہم نقطہ بوس کی جمہوریت میں عزم کی کمی اور عدم تشدد میں یقین کی کمی
تھی۔ بوس نے گاندھی جی کی تنقید کے باوجود بھی دوسری بار کامیابی حاصل کی لیکن کانگریس
کو اس وقت چھوڑ دیا جب تمام ہندوستانی رہنماؤں نے گاندھی کے الگو کئے گئے تمام اصولوں کو
نظر انداز کرنے پر احتجاجی طور پر متحدہ استعفا دے دیا۔
دونوں برطانوی حامی اور مخالف ،کچھ کانگریس پارٹی کے اراکین اور دیگر بھارتی سیاسی
گروپ نے گاندھی کے اس قدم کی تنقید کی۔ بعض نے محسوس کیا کہ نازی جرمنی کے خالف
جدوجہد میں برطانیہ کی حمایت نہیں کرنا غیر اخالقی تھا۔ دیگر نے محسوس کیا کہ بھارت کا
جنگ میں حصہ لینے گاندھی سے انکار ناکافی تھا اور زیادہ براہ راست حزب اختالف کی
کارروائی کی جانی چاہئے تھی ،جبکہ برطانیہ جو ابھی تک نازیوں کے خالف لڑ ہی رہی تھی
112 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
بھارت کو آزادی دینے سے انکار کر کے تردید جاری رکھا۔ بھارت چھوڑو جدوجہد بڑے پیمانے
پر گرفتاریوں اور بے اندازا تشدد کے ساتھ تاریخ کی سب سے زیادہ مضبوط تحریک بن گی۔
ہزاروں مجاہد آزادی پولس کے گولیوں سے قتل یا زخمی ہوۓ ،اور ہزاروں کو گرفتار کیا گیا۔
گاندھی اور ان کے حامیوں نے یہ واضح کیا کہ وہ جنگ کی کوشش کی حمایت نہیں کرتے جب
تک کہ بھارت کو فوری طور پر آزادی دی جاتی ہے۔ اس نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس وقت
تحریک کو تشدد کے انفرادی کارروائیوں کی بنا پر بند نہیں کیا جاۓ گا ،انہوں نے کہا کہ "حکم
دیا اراجکتا" انکے گرد کے "اصلی انتشار سے بھی بڑھ کر۔" ہے۔ انہوں نے تمام کانگریس اور
بھارتیوں پر عدم تشدد کے ذریعہ نظم و نسق بناۓ رکھنے اور آزادی کے لۓ کرو یا مرو پر زور
دیا۔
برطانوی حکومت نے 9اگست 1942ء میں گاندھی اور پوری کانگریس ورکنگ کمیٹی گرفتار کر
لیا گیا۔ گاندھی کو پونے میں آغا خان محل میں دو سال کے لئے مقید کیا گیا۔ یہاں گاندھی کو ذاتی
زندگی میں دو خوفناک حادثے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے 50سالہ سیکرٹری مہادیو دسائی کا دل کا
دورہ سے اور 6دن بعد ان کی بیوی کستوربا 18ماہ قید کی سزا کے بعد 22فروری 1944ء کو
فوت کر گئے۔ چھ ہفتوں کے بعد میں گاندھی کو ایک سخت ملیریا کے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔
انہیں جنگ کے اختتام سے پہلے 6مئی 1944ء کو گرتی صحت اور ضروری سرجری کی وجہ
سے رہا کر دیا گیا۔ ،راج جیل میں انکی موت کی وجہ سے متحدہ قوم نہیں چاہتا تھا۔ اگرچہ بھارت
چھوڑو تحریک اس مقصد میں معتدل کامیابی ملی تھی ،اس تحریک کی ش ّدت نے 1943ء کے
آخر تک بھارت کے لئے آزادی کا پیغام الیا تھا۔ جنگ کے اختتام پر برطانوی حکومت نے اقتدار
کو بھارتی ہاتھ منتقل کرنے کا واضح اشارہ دیا۔ اس وقت گاندھی نے جدوجہد کی اختتام کا اعالن
کیا۔ اورکانگریس کی قیادت سمیت تقریبا ً 100،000سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔
تقسیم ہند
جب انڈین نیشنل کانگریس اور گاندھی برطانیہ پر بھارت چھوڑنے کا دباؤ بنا رہے تھے 1943 ،ء
میں مسلم لیگ ملک کو تقسیم کرنے اور چھوڑ نے کا قرارداد منظور کریا ،مانا جاتا ہے کہ مہاتما
گاندھی aلک کو تقسیم کرنے کی مخالفت تھے۔ اور مشورہ دیا کہ ایک معاہدہ کے تحت کانگریس
اور مسلم لیگ کی تعاون سے ایک عارضی حکومت کے تحت آزادی حاصل کر لیا جاۓ۔ اس کے
بعد ،تقسیم کے سوال پر مسلم اکثریت کے اضالع میں ایک رائے شماری کے ذریعے حل ہو سکتا
ہے۔ پر محمد علی جناح براہ راست کارروائی کے حق میں تھے۔ 16اگست 1946ء کو گاندھی
مشتعل تھے اور فسادات زدہ عالقوں کا دورہ کر قتل عام کو روکنے کی ذاتی طور پر کوشش کی۔
انہوں نے بھارتی ہندو ،مسلمان اور عیسائی کی اتحاد کی مضبوط کوشش کی۔ اور ہندو سماج میں
"اچھوت" کی آزادی کے لئے جدوجہد کی۔
14اور 15اگست1947 ،ء کو برطانوی انڈین سلطنت نے بھارتی آزادی ایکٹ پاس کر دیا ،جو قتل
عام اور 12.5الکھ لوگوں کے منتقلی اور کروڑوں کے نقصان کی گواہ بنی۔ ممتاز نارویجن تاریخ
داں جینس اروپ سیپ کے متابق گاندھی کی تعلیمات ،اس کے پیروکاروں کی کوشش ،اور انکی
اپنی موجودگی تقسیم کے دوران میں نقصانات کو کم تر کرنے میں کامیاب رہی۔
اسٹینلے والپرٹ تقسیم پر گاندھی کے کردار اور خیاالت کا خالصہ ان الفاظوں میں کیا ہے:
”
برطانوی ہند کو باٹنے کا منصوبہ گاندھی کو کبھی منظور نہیں تھا۔ تاہم انہیں احساس ہو
چکا تھا کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ ان کے ساتھیوں اور حواریوں کو اصول سے زیادہ
“ اقتدار میں دلچسپی ہے ،اور انکی اپنی اس بھرم سے گھری رہی کہ بھارت کی آزادی کی
جدوجہد جس کی قیادت انہوں نے کی وہ ایک بے تشدد تھا۔
قتل
راج گھاٹ گاندھی کے نظر آتش کی جگہ
آغا خان محل (پونے ،بھارت) میں گاندھی کی راکھ
30جنوری 1948ء کو ایک عبادتی خطبے کے لۓ چبترے کی طرف جاتے وقت گاندھی کو گولی
مار کر قتل کر دیا گیا۔ قاتل ناتھو رام گوڈسے ایک ہندو قوم پرست اور ہندو انتہاپسند تنظیم ہندو
مہاسبھا سے وابسطہ تھا جو گاندھی کو پاکستان کو ادایئگی کے لۓ مجبور کرنے اور کمزور
کرنے کے لۓ ذمہ دار سمجھتی تھی۔ گوڈسے اور اسکا ساتھی سازش کار نارایئن آپٹے کو بعد میں
سنوائ کے بعد مجرم قرار دیا گیا اور 15نومبر 1949ء کو ان دونوں کو پھانسی دے دی گئی۔
گاندھی کی سمادھی راج گھاٹ نئ دہلی میں ہے۔ جس پر بڑے حروف میں ہے رام () یعنی یا خدا
لکھا ہے۔ عموما یہ گاندھی کے آخری الفاظ مانے جاتے ہیں حاالنکہ یہ متنازع ہے۔ جواہر لعل نہرو
نے ریڈیو سے قوم کو خطاب کرتے ہوۓ کہا:
”
دوستوں اور ساتھیوں کو ،روشنی ہماری زندگی سے نکل گئی ہے ،اور ہر جگہ تاریکی
ہے ،اور میں واقعی نہیں جانتا کہ آپ کو کیا بتاؤں اور کس طرح بتاؤں۔ کہ ہمارے محبوب
قائد ،باپو جیسا کہ ہم انکو کہتے تھے ،باباۓ قوم ،اب نہیں رہے۔ شاید میں کہتا ہوں کہ میں
غلط ہوں ،پھر بھی ،ہم انہیں پھر نہیں دیکھ سکیں گے جیسا کہ ہم نے ان کو کئی سالوں سے
دیکھا ہے ،ہم مشورہ کے لئے اس کے پاس نہ جا سکیں گے نا ان سے سکون حاصل کر
“ پائيں گے ،اور یہ کہ ایک سخت دھچکا ہے ،نہ صرف میرے لئے ،لیکن اس ملک کے
الکھوں الکھ لوگوں کے لئے۔
گاندھی کی راکھ کلشوں میں ڈال کر پورے بھارت میں یادگار کی طور پر بھیجا گیا۔ زیادہ تر کا الہ
آباد کی سنگم پر 12فروری 1948ء میں ڈوبو دۓ گئے ،لیکن کچھ چھپا کر دور لے جایا گیا
1997ء میں تشار گاندھی ایک کلش کا مواد ،ایک بینک کے والٹ میں پایا اور عدالتوں کے
ذریعے حاصل کر الہ آباد میں سنگم میں ڈوبو دۓ۔ مہاتما کے راکھ کا کچھ حصہ یوگنڈا کے قریب
دریائے نیل کے منبع پر منتشر کۓ گئے۔ 30جنوری 2008ء ایک کلش کا مواد اس کے خاندان کی
طرف سے گرگوام چوپاٹی میں ڈوب گیا جو دبئی کے ایک تاجر ممبئی کے ایک میوزیم کو بھیج
دیا تھا۔ ایک اور کلش آغا خان کی ایک محل میں پونے ہے (جہاں انہیں 1942سے 1944قید کر
رکھا گیا تھا) اور دوسرا سیلف ریاالیئز فیلوشپ جھیل (Self-Realization Fellowship Lake
)shrineالس اینجلس میں ہے۔ خاندان کے علم ہے کہ ان راکھ کا سیاسی مقاصد کے لئے غلط
استعمال کیا جا سکتا ہے ،لیکن ان عالمات کو توڑ کر ہٹانا نہیں چاہتے۔
– God is truth. The way to truth lies through ahimsaسابرمتی 13 ،مارچ 1927
عدم تشدد
اگرچہ مہاتما گاندھی عدم تشدد کے اصول کے موجد تو نہیں تھے مگر ،انہوں نے بڑے پیمانے پر
اس کا سیاسی میدان میں استعمال پہلی بار کیا تھا۔ اہنسا (عدم تشدد) کا تصور بھارتی مذہبوں میں
ایک طویل تاریخ ہے۔ ہندو ،بدھ ،جین ،یہودی اور عیسائی مذاہب میں اسکا اعادہ ہے۔ گاندھی اپنی
سوانح عمری "حق کے ساتھ میرے تجربات کی کہانی" میں اس فلسفہ اور زندگی کی راہ بتاتے
ہیں۔ذیل اقتباس انکے سوانح عمری سے ماخوذ ہیں۔
”
جب میں مایوس ہوتا ،ممں یاد کرتا کہ پوری تاریخ میں سچ اور محبت کے راستہ ہمیشہ
“ جیت ہوئی ہے۔ دنیا میں بڑے سے بڑے قاتل اور ظالم ہوۓ ہیں جو ایک وقت ناقابل شکست
لگے ،لیکن آخر میں وہ ہارے -اس کے بارے میں سوچنا ،ہمیشہ۔
“ ”
"آنکھ کے لئے ایک آنکھ پورے دنیا کو
اندھا بنا دیتا ہے۔"
“ ”
"بہت سی وجوہات ہیں جن کے لۓ میں مرنے کے لئے تیار ہوں ،لیکن کوئی وجہ نہیں جن
کے لۓ میں قتل کرنے کے لئے تیار ہوں۔"
سبزہ خوری
نوجوان گاندھی نے تجسس میں گوشتخوری کی کوشش کی تھی۔ لیکن وہ اپنے عالقے کے ہندو اور
جین سے متاثر ہو کر ہمیشہ سبز خور رہے۔ اور سن بلوغ کو پہنچتے ہی پ ّکا سبز خور بن چکے
تھے۔ انہوں نے اپنے لندن کے دنوں میں اس پر ایک کئی مقالے بھی لکھے جو لندن کے رسالہ
"دی وجیٹیرین"( )The Vegeterianمیں شائع بھی ہوۓ۔ انہوں نے اس پر ایک کتاب "سبزہ
خوری کے اخالقی اصول" بھی تصنیف کی۔
اپنے کامیاب برہم آچاری ہونے کی وجہ بھی سبزہ خوری کو بتاتے۔ جس کا ذکر انہوں نے اپنے
سوانح عمری میں کیا ہے۔
گاندھی نے پھل خوری کا بھی تجربہ کیا۔ اپنے سوانح عمری میں اسکا ذکر کرتے گاندھی نے کہا،
""میں صرف پھل کھا کر زندہ کرنے کا فیصلہ کیا ،اور وہ بھی سب سے سستا پھلوں سے …
مونگپھلی ،کیلے ،کھجور ،نیبو اور زیتون کے تیل پر مشتمل کھانا"۔
حاالنکہ طبیبوں کے صالح پر اس اصول کو توڑا اور اخیر دنوں میں بکری کا دودھ استعمال
کرتے تھے۔
برت
برہم آچاری
جب گاندھی کی عمر 16سال تھی انکے والد سخت بیمار پڑ گئے تھے گاندھی ایک فرماںبردار
اوالد کی طرح اپنے والد کی خدمت میں دن رات لگے رہتے تھے۔ ایک ربت انکے چاچا خود ذمہ
دری لیکر انہیں آرام کرنے بھیج دیا۔ گاندھی اپنے کمرے میں آرام کر رہے تھے کہ نفسیاتی
خواہش میں آکر اپنی اہلیہ کے ساتھ ہمبستر ہو گئے۔ تھوڑے ہی دیر میں نوکر نے انہیں انکے والد
کے موت کی خبر دی۔ گاندھی اپنے آپ پر شرمندگی محسوس کرنے لگے اور کبھی اپنے آپ کو
اس کے لۓ معاف نہیں کر پاۓ۔ بعد میں گاندھی نے اسے دوہری شرمندگی کا نام دیا۔ اس کے
نتیجہ میں گاندھی نے 36سال کی عمر میں ہی خود کو جسمانی تعلقات سے دور کر لیا حاالنکہ وہ
شادی شدہ ہی رہے۔
یہ فیصلہ برہم آچاری کے فلسفہ سے بہت متاثر تھا۔ گاندھی کو برہم آچاری خود کو خدا کے قریب
تر کر لینے اور خود آشنائ سمجھتے تھے۔ اپنے سوانح عمری میں اسکا ذکر کرتے ہوۓ گاندھی
معاشیات
گاندھی کے نزدیک آزاد ہندوستان کا مطلب ہزاروں کی تعداد میں خود کفیل اور خوشحال چھوٹی
چھوٹی آبادیاں تھا جو خودمختار ہوں اور دوسروں سے الگ تھلگ کام کریں۔ گاندھی کے نظریے
کے مطابق دیہات کی سطح پر خود کفالت اہمیت رکھتی تھی۔ سرودیا کی پالیسی کے مطابق گھریلو
صنعتوں اور زراعت کی صورتحال بہتر بنا کر غربت کو ختم کیا جا سکتا تھا۔ گاندھی نے نہرو
کے معاشی نمونے کو مکمل طور پر رد کیا جس میں روسی طرز پر صنعتی ترقی اہمیت رکھتی
تھی۔ گاندھی کے ذہن میں مقامی آبادی اور ان کی ضروریات تھیں۔ گاندھی کی وفات کے بعد نہرو
نے ہندوستان کو جدید بنایا اور ہیوی انڈسٹری کے عالوہ زراعت کو بھی جدید خطوط پر استوار
کیا۔ مؤرخ پانڈی کتو کے مطابق “ہندوستان کی حکومت نے گاندھی نہیں بلکہ نہرو کی پالیسی کو
اپنایا”۔ گاندھی کے مطابق “غربت بدترین تشدد ہے”۔
عقیدہ
سوراج
رڈولف کے خیال میں جنوبی افریقہ سے انگریزوں کو نکالنے میں ناکامی کے بعد گاندھی کو
حوصلہ مال۔ انہوں نے روایتی بنگالی طریقے سے خود تکلیف سہہ کر ستیہ گرہ یا اہنسا کو پورے
ہندوستان میں پھیال دیا۔ گاندھی کے مطابق آزادی کے چار معنی ہیں :ہندوستان کی قومی آزادی،
انفرادی سیاسی آزادی ،غربت سے اجتماعی چھٹکارا اور خود پر حکومت کرنا۔
ادبی سرگرمیاں
گاندھی کو لکھنے کا جنون تھا۔ گاندھی کی ابتدائی تصانیف میں سے ایک ‘ہند سوراج‘ 1909ء میں
گجراتی زبان میں چھپی۔کئی دہائیوں تک گاندھی نے گجراتی اور ہندی کے عالوہ انگریزی
اخبارات میں ادارت کے فرائض سرانجام دیے اور یہ سلسلہ جنوبی افریقہ میں بھی جاری رہا۔ اس
کے عالوہ گاندھی نے تقریبا ً ہر روز ہی مختلف اخبارات کے مدیران کو اور عام افراد کو خطوط
لکھے۔
گاندھی کی ڈھیر ساری تصانیف میں ان کی اپنی سوانح حیات بھی شامل ہے جس کا نام The
Story of My Experiments with Truthہے۔ گاندھی نے اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کو پورا
کا پورا خرید لیا تاکہ اس کا دوسرا ایڈیشن چھپ سکے۔ دیگر سوانح حیات میں ‘جنوبی افریقہ میں
ستیہ گرہ‘ ،اپنی جدوجہد کے بارے کتابچہ ‘ہند سوراج‘ وغیرہ بھی لکھے۔ ان کا آخری مضمون
معاشیات کے بارے تھا۔ اس کے عالوہ انہوں نے سبزی خوری ،غذائیات اور صحت ،مذہب،
سماجی بدالؤ وغیرہ پر بھی لکھا۔ گاندھی نے عموما ً گجراتی میں لکھا لیکن ان کی کتب کے ہندی
اور انگریزی تراجم بھی عام ملتے ہیں۔
گاندھی کی تمام کتب کو انڈین حکومت نے The Collected Works of Mahatma Gandhi
کے نام سے 1960کی دہائی میں چھپوایا۔ اس کے کل صفحات کی تعداد 50.000ہے اور 100
جلدوں میں چھاپی گئی ہیں۔
”
مہاتما گاندھی کی کامیابیاں دنیا کی سیاسی تاریخ میں بہت منفرد اہمیت رکھتی ہیں۔ انہوں
نے غالم ملک کی آزادی کے لیے انتہائی اچھوتے طریقے متعارف کرائے جن کے اثرات
پوری مہذب دنیا میں طویل عرصے تک محسوس کیے جاتے رہیں گے اور ان کی مدد سے
ظالم طاقتوں کو شکست دی جا سکے گی۔ گاندھی آنے والی نسلوں کے لیے رہنما شخصیت
رہیں گے۔
“ آنے والی نسلوں کو شاید یقین نہ آئے کہ ایسا انسان کبھی ہمارے درمیان میں گوشت
پوست کی شکل میں بھی رہتا تھا۔
لنزا ڈیل واستو 1936ء میں گاندھی کے ساتھ رہنے کی نیت سے آیا اور پھر جب یورپ واپس گیا
تو گاندھی کے فلسفے کی ترویج میں لگ گیا۔ میڈیلین سلیڈ ایک برطانوی امیر البحر کی بیٹھی تھی
اور اس نے اپنی بالغ زندگی کا زیادہ تر وقت گاندھی کی خدمت میں ہندوستان میں گذارا۔
برطانوی مویسقار جان لینن نے گاندھی کے بارے بات کرتے ہوئے ان کے عدم تشدد کے فلسفے
پر بات کی۔ سابقہ امریکی نائب صدر الگور نے بھی 2007ء میں گاندھی کے اہنسا کے فلسفے پر
بات کی۔
امریکی صدر براک اوبامہ نے 2010ء میں انڈین پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے گاندھی کا
حوالہ دیا:
“ ”
اگر گاندھی اور ان کے فلسفے کو امریکہ اور دنیا بھر میں نہ پھیالیا جاتا تو میں آج امریکی
صدر کی حیثیت سے آپ کے سامنے نہ کھڑا ہوتا۔
ٹائمز میگزین نے 14ویں دالئی المہ ،لیچ ویلیسا ،مارٹن لوتھر کنگ ،سیزر شاویز ،آنگ سان
سوچی ،ڈاکٹر ڈیسمنڈ ٹوٹو اور نیلسن منڈیال کو گاندھی کی روحانی اوالد قرار دیا۔ ہیوسٹن ،ٹیکساس
میں انڈین آبادی کے ایک عالقے کو سرکاری طور پر ‘گاندھی‘ کا نام دیا گیا۔
عالمی تعطیالت
یوم پیدائش 2اکتوبر کو ‘بین االقوامی عدم
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گاندھی کے ِ
ِ 2007میں
تشدد کا دن‘ قرار دیا۔ یونسکو نے 1948میں 30جنوری کو ‘عدم تشدد اور امن کے اسکول ڈے‘
کی تجویز پیش کی تھی۔ جنوبی نصف کرے میں یہ دن 30مارچ کو منایا جاتا ہے۔
انعامات
ٹائم میگزین نے 1930ء میں گاندھی کو سال کا بہترین مرد قرار دیا تھا۔ 1999ء میں صدی کے
بہترین انسان کے لیے گاندھی کو آئن سٹائن کے بعد دوسرا نمبر دیا گیا۔ انڈیا کی حکومت ہر سال
گاندھی کا امن انعام بہترین سماجی کارکنوں ،دنیا بھر کے رہنماؤں اور شہریوں وک دیتی ہے۔
نیلسن منڈیال یہ انعام پانے والے غیر ہندوستانیوں میں نمایاں نام ہیں۔ 2011میں ٹائم میگزین نے
گاندھی کو دنیا بھر کے 25بہترین سیاسی رہنماؤں میں شمار کیا ہے۔
1937ء سے 1948ء کے دوران میں گاندھی کو امن کے نوبل انعام کے لیے پانچ بار نامزد کیا گیا
تھا لیکن انہیں یہ ایوارڈ نہ مل سکا۔ نوبل کمیٹی نے بعد میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ
119 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
انہوں نے گاندھی کو یہ انعام نہیں دیا۔ 1948میں فیصلے سے قبل گاندھی کو قتل کر دیا گیا تھا۔
اس سال کمیٹی نے اعالن کیا کہ اس سال یہ انعام نہیں دیا جائے گا کہ کوئی بھی مناسب امیدوار
زندہ نہیں۔ جب 1989ء میں 14ویں دالئی المہ کو امن کا نوبل انعام دیا گیا تو کمیٹی کے سربراہ کا
کہنا تھا کہ ‘یہ مہاتما گاندھی کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے‘۔
بابائے قوم
انڈین لوگوں کی اکثریت گاندھی کو ‘بابائے قوم‘ مانتی ہے۔ تاہم یہ خطاب سرکاری نہیں اور انڈین
حکومت اسے نہیں مانتی اور نہ ہی یہ خطاب حکومت کی طرف سے کبھی عطا کیا گیا۔ تاہم اس
خطاب کی ابتداء شاید 1944ء میں سبھاش چندر بھوس سے ہوئی جنہوں نے اپنے ریڈیو خطاب میں
گاندھی کو ‘بابائے قوم‘ کہا۔ 28اپریل 1947ء میں سروجنی نائیڈو نے ایک کانفرنس کے دوران
میں گاندھی کو ‘بابائے قوم‘ کہا۔ بعد میں یہ درخواست بھی دی گئی کہ گاندھی کو ‘بابائے قوم‘ کا
خطاب دیا جائے لیکن انڈین آئین میں تعلیمی اور فوجی اعزازات کے عالوہ اور کوئی اعزاز نہیں
دیا جا سکتا۔
ج یو ی راؤ پھل
ے
پیدائش 11اپریل 1827ء
،Katgunستارا (شہر) ،برطانوی ہند (حال
مہاراشٹر ،بھارت)
وفات 28نومبر ( 1890عمر 63 سال)
پونہ ،برطانوی ہند (حال مہاراشٹر ،بھارت)
دیگر نام Mahatma Phule. Jyotiba Phule /
Jyotirao Phule
مذہب Satyashodhak Samaj, Deist
شریک Savitribai Phule
حیات
عہد انیسویں صدی
شعبہ اخالقیات ،مذہب ،انسانیت نوازی
عمل
مؤثر شخصیات
شیواجی Tukaram · Thomas Paine ·
جیوتی راؤ گو ِوند راؤ پھلے (ہندی 11( )जोतिराव गोविंदराव फुले :اپریل 1827ء – 28نومبر
1890ء) جو جیوتی با پھلے کے نام سے مشہور ہیں ،ایک بھارتی فعالیت پسند ،مفکر ،معاشرتی
مصلح ،مصنف اور ماہر الہیات تھے۔ جیوتی با پھلے اور ان کی بیوی ساوتری بائی پھلے بھارت
میں تعلیم نسواں کے سرخیل رہنما اور داعیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ بعد ازاں ان کی سرگرمیوں کا
دائرہ کاشتکاری ،ذات پات کا نظام ،خواتین اور خصوصا ً بیواؤں کی بہبود و ترقی اور اچھوت کا
خاتمہ جیسے اہم میدانوں تک وسیع ہو گیا۔ تاہم بنیادی طور پر جیوتی راؤ تعلیم نسواں اور نچلی
ذاتوں کے حق میں اپنی بے پناہ کوششوں کے لیے سب سے زیادہ معروف ہیں۔ اپنی بیوی ساوتری
بائی کو تعلیم دالنے کے بعد اگست 1848ء کو بھارت کا سب پہال نسواں اسکول قائم کیا۔
ستمبر 1873ء میں اپنے پیروکاروں کے ساتھ مل کر ستیہ شودھک سماج (جویائے حق سماج) قائم
کیا ،بنیادی طور پر اس سوسائٹی کا مقصد کسانوں اور نچلی ذات کے لوگوں کے لیے مساوی
حقوق کا حصول تھا۔ نیز جیوتی با پھلے مہاراشٹر کی تحریک سماجی اصالح کے اہم رکن بھی
سمجھے جاتے ہیں۔
ئ
راج ا رام موہ ن راے
پیدائش1774 :ء
121 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
انتقال1833 :ء
بانی برہمو سماج ۔ بنگال میں پیدا ہوئے ۔ بنگالی اور سنسکرت کے عالوہ عربی ،فارسی اور
انگریزی کے بھی بڑے فاضل تھے۔ اسالم اور عیسائی مذہب کی تعلیمات نے ان پر بڑا اثر کیا اور
انہوں نے ہندو سماج کے سدھار کا کام شروع کیا۔ 1830ء میں برہمو سماج کی بنا ڈالی ۔ مورتی
پوجا کی مخالفت کی اور خدا کی وحدانیت کی تعلیم دی ۔ ستی کی خوفناک رسم ختم کرنے میں بھی
بڑا کام کیا۔ اس کے عالوہ عورتوں کے حقوق اور اپنی قوم کی تعلیم و تربیت پر زور دیا۔ 1831ء
میں انگلستان گئے اور وہاں برسٹل کے مقام پر وفات پائی۔
ت ن
ب ال گ گا دھر لک
پیدائش1856 :ء
وفات1920 :ء
ہندوستانی قوم پرست لیڈر۔ اگرچہ پیدائشی برہمن تھا۔ مگر اس کی پرورش مہاراشٹر کے عامی
ماحول میں ہوئی۔ اس کا باپ ایک مدرس تھا۔ جس نے اس کو مغربی تصورات سے آگاہ کیا۔ 10
سال کی عمر میں وہ پونا چال گیا جو مرہٹہ قومیت کا مرکز تھا۔ تلک نے یہاں درس و تدریس کے
ساتھ صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ اور اخبارات میں قومیت پر مضمون لکھنے شروع کیے۔ ہندوستان
میں محمد علی جناح اور اینی بیسنٹ کے ساتھ انڈین ہوم رول لیگ قائم کی۔ تلک نے مکمل آزادی’’
سوراج‘‘ کا مطالبہ کیا۔ جب 1885ء میں آل انڈیا کانگریس وجود میں آئی تو اس میں انتہا پسند
گروہ کا لیڈر بن گیا۔ اس نے کانگرس میں اعتدال پسند گروہ کے لیڈر مسٹر گوکھلے کی زبردست
مخالفت کی اور کہا کہ انگریزوں کو بزور ملک سے نکال دنیا چاہیے۔ 1897ء میں تلک کو گرفتار
کرکے ڈیڑھ سال کی سزا دی گئی۔ 1907ء میں دونوں گروہوں میں زبردست چپقلش شروع ہوئی۔
انگریزوں نے تلک کو 6سال کی سزا دی۔
ابوالکالم محی الدین احمد آزاد( : پیدائش 11نومبر1888 ،ء -وفات 22فروری1958،ء) (بنگالی:
)আবুল কালাম মুহিয়ুদ্দিন আহমেদ আজাদموالنا ابوالکالم آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا
ان کے والد بزرگوار محمد خیر الدین انہیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ موالنا
1888ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین
سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میںہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
1857ء کی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنی پڑی کئی سال عرب میں
رہے۔ موالنا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ
ازہر(مصر) چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔ موالنا
کی ذہنی صالحتیوں کا اندازا اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ
لسان الصدق جاری کیا۔ جس کی موالنا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی۔ 1914ء میں
الہالل نکاال۔ یہ اپنی طرز کا پہال پرچہ تھا۔ ترقی پسند سیاسی تخیالت اور عقل پر پوری اترنے
والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔
موالنا بیک وقت عمدہ انشا پرداز ،جادو بیان خطیب ،بے مثال صحافی اور ایک بہترین مفسر تھے۔
اگرچہ موالنا سیاسی مسلک میں آل انڈیا کانگریس کے ہمنوا تھے لیکن ان کے دل میں مسلمانوں کا
درد ضرور تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تقسیم کے بعد جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وقار کو صدمہ
پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو موالنا آگے بڑھے اور اس کے وقار کو ٹھیس پہنچانے سے بچا لیا۔
یوم تعلیم
ِ
تفصیلی مضمون کے لیے مالحظہ کریں :قومی یوم تعلیم (بھارت)
موالنا ابوالکالم آزاد ،آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔ان کے یوم پیدائش 11نومبر،
یوم تعلیم منایا جاتا ہے۔
1888ء کو ہندوستان میں قومی ِ
بھارت کی سیاست میں مشہور ،معروف اور مقبول ناموں میں سے موالنا آزاد کا نام تھا۔ بھارت
کے عظیم لیڈروں میں موالنا کا شمار ہوتا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس ورکنگ کمیٹی کے لیڈر کے
عہدہ کے ساتھ ساتھ پارٹی کے قومی صدر بھی کئی مرتبہ منتخب ہوئے۔
غبار خاطر
تفصیلی مضمون کے لیے مالحظہ کریں :غبار خاطر
”غبار خاطر“ موالنا آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ یہ تمام خطوط نواب صدر یار جنگ موالنا
حبیب الرحمن خاں شروانی رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے نام لکھے گئے۔یہ خطوط قلعہ
احمد نگر میں 1942ء تا 1945ء کے درمیان زمانہ اسیری میں لکھے گئے ۔ موالنا کی زندگی کا
ایک بڑا حصہ قید و بند میں گزرا مگر اس بار قلعہ احمد نگر کی اسیری ہر بار سے سخت تھی
کیونکہ اس بار نہ کسی سے مالقات کی اجازت تھی اور نہ کسی سے خط و کتابت کرنے کی۔ اس
لیے موالنا نے دل کا غبار نکالنے کا ایک راستہ ڈھونڈنکاال۔اور خطوط لکھ کر اپنے پاس محفوظ
کرنا شروع کر دیے۔ موالنا نے خود اسی مناسبت سے ان خطوط کو غبار خاطر کا نام دیا ہے اور
”خط غبار من است این غبار خاطر“ سے اسے تعبیر کیا ہے۔ایک خط میں شروانی صاحب کو
مخاطب کرکے فرماتے ہیں ” :جانتا ہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ تاہم طبع ِ
نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد و شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی ۔ آ پ سن رہے ہوں یا نہ رہے ہوں
میری ذوق مخاطبت کے لئے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے۔“
الہالل
تفصیلی مضمون کے لیے مالحظہ کریں :الہالل
اردو کا ہفت روزہ اخبار جسے موالنا ابوالکالم آزاد نے جوالئی 1912ء میں کلکتے سے جاری
کیا۔ ٹائپ میں چھپتا تھا اور تصاویر سے مزین ہوتا تھا۔ مصری اورعربی اخبارات سے بھی خبریں
ترجمہ کرکے شائع کی جاتی تھیں۔ مذہب ،سیاسیات ،معاشیات ،نفسیات ،جغرافیہ ،تاریخ ،ادب
اور حاالت حاظرہ پر معیاری مضامین اور فیچر چھپتے تھے۔ تحریک خالفت اور سول نافرمانی کا
زبردست مبلغ و موید تھا۔ الہالل پریس سے دو ہزار روپے کی ضمانت طلب کر لی۔ اس کے بعد
18نومبر 1914ء کو مزید دس ہزار روپے کی ضمانت طلب کر لی گئی جو جمع نہ کرائی جاسکی
اور اخبار بند ہوگیا ۔ 1927ء میں الہالل پھر نکال مگر صرف چھ ماہ کے لیے۔ پہلی جنگ عظیم
کے دوران میں ان کی اشاعت 25ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ اردو زبان کا یہ پہال باتصویر سیاسی
اعلی تزئین و ترتیب ٹھوس مقالوں اور تصاویر کے لحاظ سے صحافتی تکنیک ٰ پرچہ تھا جو اپنی
میں انقالب آفریں تبدیلیاں الیا۔
ڈاکٹر اینی بیسنٹ( /پیدائش 1 :اکتوبر 1847ء -انتقال 20 :ستمبر 1933ء) معروف انگریز
ب وطن بھارتی خاتون تھیں جنھوں
تھیاسوفسٹ ،حقوق نسواں کی حامی ،مصنفہ ،اسپیکر اور مح ِ
نے ہندوستان میں قائد اعظم محمد علی جناح اور بال گنگا دھر تلک کے ساتھ انڈین ہوم رول کی
تحریک چالئی۔ 1847ء میں لندن میں پیدا ہوئیں۔ وہ چارلس بریڈال سے بہت متاثر تھیں۔ 1882ء
125 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
میں مادام بالوسکی کے رابطہ میں آئیں اور 1889ء میں مادام بالوسکی کی تعلیمات سے متاثر ہو
کر تھیوسوفسٹ ہوگئیں۔ 1889ء میں لیبر کانگریس پیرس میں شامل ہوئیں ،اور 1898ء میں بنارس
میں ویدھیک قائم کیا جو بعد میں سینٹرل ہندو کالج بن گیا۔ 1907ء میں تھیو سافیکل سوسائٹی کی
صدر منتخب ہوئیں۔ 1917ء میں برطانوی حکومت نے انہیں گرفتار کر لیا۔ 1917ء ہی میں وہ آل
انڈیا کانگریس کی صدر بھی بنیں۔ انہوں نے موٹیگیو چیمسفورڈ اصالحات کی حمایت اور گاندھی
جی کی عدم تعاون تحریک کی مخالفت کی۔ مدراس 1927ء میں سوراج تجویز کی حمایت کی۔
انہیں ہندوستان سے دلی انس تھا۔ اور جدوجہد آزادی میں انھوں نے نہایت اہم کردار انجام دیا۔ بیس
سال کی عمر میں ان کی شادی فرینک سے ہوئی مگر نظریاتی اختالف کے باعث 1873ء میں
دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ ہندوستان کی مستقل شہری رہیں۔ 20ستمبر 1933ء میں 85سال کی
[]1
عمر میں اڈیار (مدراس) کے مقام پر فوت ہوئیں۔
ت زندگی
حاال ِ
ڈاکٹر اینی و ُوڈ بیسنٹ ( )Dr. Annie Wood Besantکی پیدائش لندن شہر میں 1847ء میں
ہوئی ۔ اینی کے والد پیشے سے ڈاکٹر تھے۔ والد کی ڈاکٹری پیشے کے بجائے اینی کو ریاضی اور
فلسفہ میں گہری دلچسپی تھی۔ اینی ماں ایک مثالی آئرش خاتون تھیں۔ ڈاکٹر بیسنٹ کے اوپر ان کے
والدین کے مذہبی خیاالت کا گہرا اثر تھا ،اپنے والد کی موت کے وقت ڈاکٹر بیسنٹ صرف پانچ
سال کی تھی۔ والد کی موت کے بعد غربت کی وجہ ان کی ماں انہیں ہیرو لے گئی۔ جہاں دیکھیں
مس میريٹ کی زیر نگرانی انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ مس میريٹ انہیں فرانس اور جرمنی لے
گئی اور ان ممالک کی زبانیں بھی سكھائی۔ 17سال کی عمر میں اینی اپنی ماں کے پاس واپس آ
گئیں۔ جوانی میں ان کا تعارف ایک نوجوان پادری سے ہوا اور1867ء میں اسی ریورینڈ فرینک
سے اینی و ُوڈ کی شادی بھی ہو گئی۔ شوہر کے خیاالت سے عدم مساوات کی وجہ ازدواجی زندگی
خوشحال نہیں رہی۔ تنگ نظر اور کٹر خیاالت واال شوہر ،اس غیر معمولی ذہین شخصیت اور
روشن خیال خاتون کو اہنے ساتھ نہیں رکھ سکا 1870،ء تک وہ دو بچوں کی ماں بن چکی تھیں.
خدا ،بائبل اور عیسائی مذہب پر سے ان کی یقین ڈگمگا گیا ،پادری شوہر اور اینی میں باہمی قیام
مشکل ہوگیا اور انیوں نے 1874ء میں علیحدگی اختیار کرلی۔ طالق کے بعد اینی بیسنٹ کو
اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں مضامین لکھ کر اپنی معاشی ضروریات پوری کتنی
پڑی۔
ک فلسفہ Scepsisکے بجائےاس وقت ڈاکٹر بیسنٹ کی مالقات چارلس ویڈال سے ہوئی ۔ اب وہ ش ِ
توحید پرست Theisticہو گئیں ۔ لیکن قانون کی مدد سے ان کے شوہر دونوں بچوں کو حاصل
کرنے میں کامیاب ہو گئے .اس واقعہ سے انہیں دلی تکلیف ہوئی۔ ڈاکٹر بیسنٹ نے برطانیہ کے
قانون کی مذمت کرتے ہوئے کہا’’ ،یہ انتہائی غیر انسانی قانون ہے جو بچوں کو ان کی ماں سے
الگ کروا دیا ہے۔ اب میں اپنے دکھوں کا سدباب دوسروں کے دکھوں کو دور کرکے کروں گی
اور سب یتیم اور بے بس بچوں کی ماں بنوں گی۔‘‘ ڈاکٹر بیسنٹ نے اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے
اپنی زیادہ تر زندگی غریبوں اور یتیموں کی خدمت میں ہی بسر کی۔
عظیم شہرت حاصل صحافی ویلین سٹيڈ سے مالقات کے بعد اینی بیسنٹ تحریری اور اشاعتی
کاموں میں زیادہ دلچسپی لینے لگیں ،اپنا زیادہ تر وقت مزدوروں ،قحط زدہ متاثرین اور جھگی
جھونپڑیوں میں رہنے والوں کو سہولت دالنے میں بسر کرتیں۔ وہ کئی سال تک انگلینڈ کی سب
سے زیادہ طاقتور عورت ٹریڈ یونین کی سیکریٹری رہیں ،وہ اپنے علم اور طاقت کو سروس کے
ذریعے ارد گرد پھیالنا ضروری سمجھتی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ بغیر آزاد روشن خیاالت کے حق
کی تالش ممکن نہیں ہے۔
1878ء میں ہی انہوں نے پہلی بار ہندوستان کے بارے میں اپنے خیاالت ظاہر کیا ۔ ان مضامین
اور خیاالت نے ہندوستانیوں کے دل میں ان کے لیے محبت پیدا کر دی۔ اب وہ ہندوستانیوں کے
126 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
درمیان کام کرنے کے بارے میں دن رات سوچنے لگیں۔ 1883ء میں وہ سماج وادی نظریہ کی
طرف متوجہ ہوئیں۔ وہ 'سوشلسٹ ڈیفنس تنظیم' نام کے ادارے سے جڑگئیں۔ اس ادارے میں ان کی
خدمات نے انہیں کافی احترام دیا۔ اس ادارے نے ان مزدوروں کو سزا ملنے سے تحفظ فراہم کیا
جو لندن کی سڑکوں پر نکلنے والے جلوس میں حصہ لیتے تھے۔ 1889ء میں اینی بیسنٹ
تھياسوفی نظریات سے متاثر ہوئیں ،ان کے اندر ایک طاقتور منفرد اور واحد تقریر کا فن موجود
تھا۔ اس لئے بہت جلد انہوں نے اپنے لئے تھياسوفیكل سوسائٹی کی ایک اہم اسپیکر کے طور پر اہم
مقام بنا لیا۔ انہوں نے تمام دنیا کو تھياسوفی کے اصولوں کے ذریعے اتحاد کے فارمولے میں
باندھنے کی عمر بھر کوشش کی۔ بڑے ہی خوش قسمتی کی بات یہ ہوئی کہ انہوں نے ہندوستان کو
تھياسوفی کی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ چنانچہ ان کی ہندوستان آمد 1893ء میں ہوئی ۔ سن 1906ء
تک ان کا زیادہ تر وقت بنارس میں گزرا1907 ،ء میں وہ تھياسوفیکل سوسائٹی کی صدر منتخب
ہوئیں۔
1917ء میں برطانوی حکومت نے انہیں گرفتار کر لیا۔ 1917ء ہی میں وہ انڈین نیشنل کانگریس
کی صدر بھی بنیں۔
انہوں نے مغربی مادی تہذیب کی سخت تنقید کرتے ہوئے قدیم ہندو تہذیب کو بہترین ثابت کیا۔
مذہبی ،تعلیمی ،سماجی اور سیاسی میدان میں انہوں نے قومی نشاۃ ثانیہ کا کام شروع کیا۔ بھارت
کے لئے سیاسی آزادی ضروری ہے اس مقصد کی وصولی کے لئے انہوں نے 'ہوم رول تحریک'
منظم کرکے اس کی قیادت کی۔ انہوں نے موٹیگیو چیمفورڈ کے اصالح کی حمایت کی اور گاندھی
جی کے غیر تعاون تحریک کی مخالفت۔ مدراس 1927ء میں سوراج تجویز کی حمایت۔ انہیں
ہندوستان سے دلی انس تھا۔ اور جدوجہد آزادی میں انھوں نے نہایت اہم کردار سرانجام دیا۔
نظریات
ڈاکٹر بیسنٹ کی زندگی کا ایک ہی عقیدہ تھا ’’اعمال‘‘۔ وہ جس اصول پر یقین کرتیں اسے اپنی
زندگی میں اتار کر تبلیغ دیتیں۔ وہ بھارت کو اپنے وطن سمجھتی تھیں۔ وہ پیدائش سے آئرش تھیں ،
شادی انگریز سے کی اور بھارت کو اپنا لینے کی وجہ سے بھارتی طگی تھیں۔ بال گنگا دھر تلک،
محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی تک نے ان کی شخصیت کی تعریف کی ہے ۔ وہ ہندوستان کی
آزادی کے نام پر قربان ہونے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی تھیں۔ وہ بھارتی حروف نظام کی پرستار
تھیں۔ لیکن ان کے سامنے مسئلہ تھا کہ اسے عملی کس طرح بنایا جائے تاکہ سماجی کشیدگی کم
ہو۔ ان کی منظوری تھی کہ تعلیم کا مناسب مینیجنگ ہونا چاہئے۔ تعلیم میں مذہبی تعلیم کی شمولیت
ہو۔ ایسی تعلیم دینے کے لئے انہوں نے 1898ء میں بنارس میں سینٹرل ہندو اسکول قائم کیا،
سماجی برائیوں جیسے بچوں کی شادی ،ذات پات کے نظام ،بیوہ کی شادی ،بیرون ملک سفر
وغیرہ کو دور کرنے کے لئے انہوں نے 'برادران آف سروس' نامی ادارے کی تنظیم کی ،اس
ادارے کی رکنیت کے لئے ضروری تھا کہ اسے نیچے لکھے عہد نامہ پر دستخط کرنا پڑتا تھا -
میں ذات پات پر مبنی چھوت چھات نہیں کروں گا۔ .1
میں نے اپنے بیٹوں کی شادی 18سال سے پہلے نہیں کروں گا۔ .2
میں اپنی بیٹیوں کی شادی 16سال سے پہلے نہیں کروں گا۔ .3
میں بیوی ،بیٹیوں اور رشتہ دار کی دیگر عورتوں کو تعلیم دالؤں گا اور عورتوں کہ تعلیم کی .4
تشہیر کروں گا۔ عورتوں کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کروں گا۔
میں ہر خاص و عام میں تعلیم کی تشہیر کروں گا۔ .5
میں سماجی اور سیاسی زندگی میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق کو مٹانے کی کوشش کروں گا۔ .6
میں فعال طور پر ان سماجی بندشوں کی مخالفت کروں گا جو بیوہ ،خواتین کے سامنے آتے ہیں تو .7
وہ دوبارہ شادی کرتی ہیں۔
میں کارکنوں میں روحانی تعلیم اور سماجی اور سیاسی ترقی کے شعبے میں اتحاد النے کی .8
کوشش بھارتی قومی کانگریس کی قیادت اور ہدایت میں کروں گا۔
تصانیف/
مصنفہ اور آزاد مفکر ہونے کے ناطے محترمہ اینی بیسنٹ نے قریبا ً 220کتابوں اور مضامین
تحریر اور اجیكس کے قلمی نام سے بھی کتابیں لکھیں ۔
تھیاسوفیكل کتابوں اور مضامین کی تعداد تقریبا 105ہے۔ 1893ء میں انہوں نے اپنی سوانح عمری
شائع کی تھی۔ مزید سوانح عمریوں پر تصانیف کی تعداد 6ہے۔ انہوں نے صرف ایک سال کے
اندر 1895ء میں سولہ کتابیں اور کئی پمفلیٹ شائع کئے جو 900سے بھی زیادہ صفحات بنتے ہیں۔
اینی بیسنٹ نے بھگودگيتا کا انگریزی ترجمہ کیا اور دیگر تخلیقات کے لئے پرستاوناے بھی
لکھے .ان کے دیئے گئے لیکچر کی تعداد 20ہوگی۔ بھارتی ثقافت ،تعلیم اور سماجی اصالحات پر
48نصوص اور پمفلیٹ تخلیق کیے۔ .بھارتی سیاست پر تقریبا 77اور بنیادی حقوق سے منتخب
تقریبا 28نصوص لکھے ۔ وقت وقت پر 'لوسیفر'' ،دی كامنويل' اور 'نیو انڈیا' کی ترمیم بھی اینی
بیسنٹ نے کی
سم ب
رام پرساد ل
رام پرساد بسمل
پیدائش 11جون
1897ء
شاہجہاں پور
وفات 19دسمبر
1927ء
گورکھپور
دیگر نام بسمل
شاہجہاں
پوری
وجۂ شہ مجاہد آزادی
رت
رام پرساد بسمل تلفظ معاونت·معلومات( پیدائش 11 : جون1897 ]1[ ،ء 19 : -دسمبر1927 ،ء [) ]2
ہندوستان کے ایک انقالبی اور معروف مجاہد آزادی تھے نیز وہ معروف شاعر ،مترجم ،ماہر
السنہ ،مورخ اور ادیب بھی تھے۔ہندوستان کی آزادی کے لیے ان کی کوششوں کو دیکھ کر
[]3
انگریزوں نے انہیں خطرہ جانتے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی تھی۔
وہ کانگریس کے رکن تھے اور ان کی رکنیت کے حوالے سے کانگریسی رہنما اکثر بحث کرتے
تھے ،جس کی وجہ بسمل کا آزادی کے حوالے سے انقالبی رویہ تھا ،بسمل کاکوری ٹرین ڈکیتی
128 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
میں شامل رہے تھے ،جس میں ایک مسافر ہالک ہو گيا تھا۔[ 11 ]4جون 1897ء (ہندو جنتری کے
مطابق بروز جمعہ نرجال ایکادشی بكرمی سن )1954کو اتر پردیش کے شاہجہاں پور میں پیدا
ہوئے۔ رام پرساد کو 30سال کی عمر میں 19دسمبر 1927ء (پیر پوش کرشن نرجال ایکادشی
(جسے سپھل ایکادشی بھی کہا جاتا ہے) بكرمی سن )1984کو برطانوی حکومت نے گورکھپور
جیل میں پھانسی دے دی۔
بسمل ان کا اردو تخلص تھا جس کا مطلب مجروح (روحانی طور پر ) ہے۔ بسمل کے عالوہ وہ رام
اور نا معلوم کے نام سے بھی مضمون لکھتے تھے اور شاعری کرتے تھے۔ انہوں نے سن
1916ء میں 19سال کی عمر میں انقالبی راستے میں قدم رکھا اور 30سال کی عمر میں پھانسی
چڑھ گئے۔
11سال کی انقالبی زندگی میں انہوں نے کئی کتابیں لکھیں اور خود ہی انہیں شائع کیا۔ ان کتابوں
کو فروخت کرکے جو پیسہ مال اس سے وہ ہتھیار خریدا کرتے اور یہ ہتھیار وہ انگریزوں کے
خالف استعمال کیا کرتے۔ انہوں نے کئی کتابی لکھی جن میں 11کتابیں ہی ان زندگی کے دور میں
[]5
شائع ہوئیں۔ برطانوی حکومت نے ان تمام کتابوں کو ضبط کر لیا۔
بنكم چندر چٹوپادھیائے نوشتہ وندے ماترم کے بعد رام پرساد بسمل کی تخلیق سرفروشی کی تمنا
ک آزادی میں بہت مقبولیت پائی۔
کارکنان تحری ِ
ِ نے
رام پرساد میں غیر متوقع تبدیلی ہو چکی تھی۔ جسم خوبصورت اور طاقتور ہو گیا تھا۔ وہ باقاعدہ
پوجا میں وقت گزارنے لگا تھا۔ اسی دوران مندر میں آنے والے نمائندے اندرجیت سے اس کا
رابطہ ہوا۔ منشی اندرجیت نے رام پرساد کو آریہ سماج کے بارے میں بتایا اور سوامی دیانند
سرسوتی کی لکھی کتاب ستیارتھ پرکاش پڑھنے کو دی۔ ستیارتھ پرکاش کے سنجیدہ مطالعے سے
[]6
رام پرساد کی زندگی پر حیرت انگیز اثر پڑا۔
ایچ آر اے کی تشکیل
جنوری 1923ء میں موتی الل نہرو اور دیش بندھو چترجن داس جیسے دولت مند لوگوں نے مل
کر سوراج پارٹی بنا لی۔ نوجوانوں نے ایڈہاک پارٹی کے طور پر ریولیوشنری پارٹی کا اعالن کر
دیا۔ ستمبر 1923ء میں ہوئے دہلی کے خصوصی کانگریس اجالس میں اسنتشٹ نوجوانوں نے یہ
فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنی پارٹی کا نام و آئین وغیرہ کا یقین کرکے سیاست میں دخل ہونا شروع
کریں گے۔ دوسری جانب میں ملک میں جمہوریت کے نام پر غاصبیت حاوی ہو نے کا اندیشہ تھا۔
دیکھا جائے تو اس وقت ان کی یہ بڑی بصیرت افروز سوچ تھی۔ مشہور انقالبی اللہ ہردیال ،جو
ان دنوں بیرون ملک رہ کر ہندوستان کو آزاد کرانے کی حکمت عملی بنانے میں لگے ہوئے تھے،
رام پرساد بسمل کے رابطہ میں سوامی سوم دیو کے وقت سے ہی تھے۔ اللہ جی نے ہی خط لکھ
کر رام پرساد بسمل کو شچیدرناتھ سانیال اور ید گوپال مکھرجی سے مل کر نئی پارٹی کا آئین تیار
کرنے کی صالح دی تھی۔ اللہ جی کا مشورہ مان کر رام پرساد الہ آباد گئے اور شچیدرناتھ سانیال
[]10
کے گھر پر پارٹی کا آئین تیار کیا۔
نوتشکیل شدہ پارٹی کا نام مختصر میں ایچ آر اے رکھا گیا اور اس کا آئین پیلے رنگ کے پرچے
پر ٹائپ کرکے ارکان کو بھیجا گیا۔ 3اکتوبر 1924ء کو اس پارٹی (ہندوستان ریپبلکن ایسوسی
ایشن) کی ایک مجلس عاملہ کا اجالس کانپور میں ہوا جس میں شچیندرناتھ سانیال ،یوگیش چندر
چٹرجی اور رام پرساد بسمل وغیرہ کئی اہم رکن شامل ہوئے۔ اس اجالس میں پارٹی کی قیادت
بسمل کو سونپ كر سانیال اور چٹرجی بنگال چلے گئے۔ پارٹی کے لئے چندہ جمع کرنے میں
مشکل کو دیکھتے ہوئے آئرلینڈ کے انقالبیوں کا طریقہ اپنایا گیا تھا اور پارٹی کی طرف سے پہلی
ڈکیتی 25دسمبر 1924ء (کرسمس کی رات ) کو بمرولی میں ڈالی گئی جس کی قیادت بسمل نے
[]11
کی تھی۔ اس کا ذکر چیف کورٹ آف اودھ کے فیصلے میں ملتا ہے۔
133 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
" دی ریوولیوشنری " ( اعالمیہ ) /کی اشاعت
انقالبی پارٹی کی طرف سے 1جنوری1925 ،ء کو کسی گمنام جگہ سے شائع اور 28سے 31
جنوری1925 ،ء کے درمیان پورے ہندوستان کے تمام اہم مقامات پر تقسیم 4صفحہ کے پمفلٹ "
دی ریوولیوشنری " میں رام پرساد بسمل نے وجے کمار کے تخلص سے اپنے دل کی خیاالت کا
تحریری طور پر اظہار کرتے ہوئے صاف الفاظ میں اعالن کر دیا تھا کہ انقالبی اس ملک کے
نظام حکومت میں کس طرح کی تبدیلی کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ کیا کیا کر سکتے ہیں ؟
صرف اتنا ہی نہیں ،انہوں نے موہن داس گاندھی کی پالیسیوں کا مذاق بناتے ہوئے یہ سوال بھی کیا
تھا کہ جو شخص خود کو روحانی کہتا ہے وہ انگریزوں سے کھل کر بات کرنے میں ڈرتا کیوں
ہے؟ انہوں نے ہندوستان کے تمام نوجوانوں کو ایسے فرضی مہاتما کے بہکاوے میں نہ آنے کا
مشورہ دیتے ہوئے ان کی انقالبی پارٹی میں شامل ہو کر انگریزوں سے ٹکر لینے کا کھال مطالبہ
کیا تھا۔ دی ریوولیوشنری کے نام سے انگریزی میں شائع اس انقالبی ( منشور ) میں انقالبیوں کے
نظریاتی تفکر [ ]12کو بہ حسن طرز سمجھا جا سکتا ہے۔ اس خط کا عکس ہندی كاویانواد میں [ ]13اب
دستیاب ہے۔
كاكوری سانحہ
دی روولیوشنری نام سے شائع اس 4صفحاتی منشور کو دیکھتے ہی برطانوی حکومت اس کے
مصنف کو بنگال میں تالش کرنے لگی۔ اتفاق سے شچیندر ناتھ سانیال باكرا میں اس وقت گرفتار
کر لئے گئے جب وہ یہ پمفلٹ اپنے کسی ساتھی کو پوسٹ کرنے جا رہے تھے۔ اسی طرح یوگیش
چندر چٹرجی کانپور سے پارٹی کی میٹنگ کرکے جیسے ہی ہاوڑہ اسٹیشن پر ٹرین سے اترے کہ
ایچ آر اے کے آئین کی ڈھیر ساری نقول کے ساتھ پکڑ لیے گئے۔ انہیں ہزاری باغ جیل میں بند کر
دیا گیا۔ دونوں رہنماؤں کے گرفتار ہو جانے سے رام پرساد بسمل کے کندھوں پر اتر پردیش کے
ساتھ ساتھ بنگال کے انقالبی ارکان کی ذمہ داری بھی آ گئی۔ بسمل کا مزاج تھا کہ وہ یا تو کسی کام
کو ہاتھ میں لیتے نہ تھے اور اگر ایک بار کام ہاتھ میں لے لیا تو اسے مکمل کئے بغیر چھوڑتے
نہ تھے۔ پارٹی کے کام کے لئے رقم کی ضرورت پہلے بھی تھی لیکن اب تو اور بھی زیادہ اضافہ
ہو گیا ہے۔ کہیں سے بھی پیسہ حاصل ہوتا نہ دیکھ انہوں نے 7مارچ 1925ء کو بچپری اور 24
مئی 1925ء کو دواركاپور میں دو سیاسی ڈكیتیاں کیں۔ لیکن ان میں کچھ خاص دولت کو حاصل نہ
ہو سکی۔
ان دونوں ڈکیتیوں میں ایک ایک شخص موقع پر ہی ہالک ہو گیا۔ اس سے بسمل کو بے انتہا تکلیف
ہوئی۔ آخر کار انہوں نے یہ پکا فیصلہ کر لیا کہ وہ اب صرف سرکاری خزانہ ہی لوٹیں گے،
ہندوستان کے کسی بھی رئیس کے گھر چوری بالکل نہ ڈالیں گے۔
شاہجہاں پور میں ان کے گھر پر ہوئی ایک ایمرجینسی میٹنگ میں فیصلہ لے کر منصوبہ بنا اور 9
اگست 1925ء کو شاہجہاں پور ریلوے اسٹیشن سے بسمل کی قیادت میں کل 10لوگ ،جن میں
اشفاق ہللا خان ،راجندر الهڑی ،چندر شیکھر آزاد ،شچیندرناتھ بخشی ،منمتھ ناتھ گپت ،مكندی الل،
ٰ
(فرضی نام یا تخلص) ،مراری شرما ( اصلی نام مراری گپت ) اور بنواری الل کیشو چکرورتی
شامل تھے 8 ،ڈاؤن سہارنپور -لکھنؤ پسینجر ٹرین میں سوار ہوئے۔ ان سب کے پاس عام پستولوں
کے عالوہ جرمنی کے بنے چار موزر پستول بھی تھے جن کے بٹ میں كندا لگا لینے سے وہ
چھوٹی آٹومیٹك رائفل کی طرح لگتا تھا اور سامنے والے کے دل میں مزید خوف پیدا کر دیتا تھا۔
ان کے ٹریگروں کی صالحیت [ ]14بھی عام پستولوں سے زیادہ ہوتی تھی۔ ان دنوں یہ ٹریگر آج کی
اے کے 47 -رائفل کی طرح مشہور تھے۔ لکھنؤ سے پہلے كاكوری ریلوے اسٹیشن پر رک کر
جیسے ہی گاڑی آگے بڑھی ،انقالبیوں نے چین کھینچ کر اسے روک لیا اور گارڈ کے ڈبے سے
سرکاری خزانے کا بکس نیچے گرا دیا۔ اسے کھولنے کی کوشش کی گئی لیکن جب وہ نہیں کھال
تو اشفاق ہللا خاں نے اپنا پستول منمتھ ناتھ کو پکڑا دیا اور ہتھوڑا لے کر تاال توڑنے میں مصروف
ہو گئے۔ منمتھ ناتھ گپت نے غلطی سے ٹریگر دبا دیا جس سے گولی چلی اور احمد علی نام کے
134 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
مسافر کو لگ گئی اور وہ موقع پر ہی انتقال کر گیا۔ چاندی کے سکوں اور نوٹوں سے بھرے
چمڑے کے تھیلے شیٹ میں باندھ کر وہاں سے فرار یہ لوگوں کی جلدی میں ان کی ایک چادر
وہیں چھوٹ گئی۔ اگلے دن اخبارات کے ذریعے اس ڈکیتی کی خبر پوری دنیا میں پھیل گئی۔
برطانوی حکومت نے اس ٹرین ڈکیتی کو سنجیدگی سے لیا اور ڈی آئی جی۔ کے اسسٹنٹ ( سی آئی
ڈی انسپکٹر ) آر اے ہارٹن [ ]15کی قیادت میں سب سے تیز طرار پولیس اہلکاروں کو اس کی جانچ
کا کام سونپ دیا۔
جب بسمل کو شاہی كونسل سے اپیل مسترد ہو جانے کی اطالع ملی تو انہوں نے اپنی ایک غزل
لکھ کر گورکھپور جیل سے باہر بھجوائی جس کا مطلع ( مکھڑا ) یہ تھا۔
جیسا انہوں نے اپنی آپ بیتی میں لکھا بھی ،اور ان کی یہ تڑپ بھی تھی کہ کہیں سے کوئی انہیں
ایک ریوالور جیل میں بھیج دیتا تو پھر ساری دنیا یہ دیکھتی کہ وہ کیا کیا کرتے ؟ ان کی ساری
حسرتیں ان کے ساتھ ہی مٹ گئیں۔ مرنے سے پہلے آپ بیتی کے طور پر وہ ایک ایسی وراثت
ہمیں ضرور سونپ گئے جسے اپنا کرکے ہندوستان ہی نہیں ،ساری دنیا میں جمہوریت کی جڑیں
مضبوط کی جا سکتی ہیں۔ اگرچہ ان کی یہ حیرت انگیز سوانح آج انٹرنیٹ پر بنیادی طور پر ہندی
زبان میں بھی دستیاب ہے تاہم یہاں پر یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ یہ سب کس طرح ممکن ہو
سکا۔
بسمل کو جیل کے تمام مالزمین بڑی عزت کرتے تھے۔ ایسی صورت میں اگر وہ اپنے مضامین
اور شعری کالم جیل سے باہر بھیجتے بھی رہے ہوں تو انہیں اس کی سہولت ضرور ہی جیل کے
ان مالزمین نے دستیاب کرائی ہوگی۔ بہرحال اتنا سچ ہے کہ یہ سوانح عمری اس وقت کے
برطانوی دور اقتدار میں جتنی بار شائع ہوئی ،اتنی بار ضبط ہوئی۔
پرتاپ پریس کانپور سے كاكوری کے شہید نامی کتاب کے اندر جو سوانح عمری شائع ہوئی تھی
اسے برطانوی حکومت نے نہ صرف ضبط کیا بلکہ انگریزی زبان میں ترجمہ کراکر پورے
139 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
ہندوستان کی خفیہ پولیس اور ضلع كلیكٹرس کو سرکاری تبصرے کے ساتھ بھیجا تھا۔[ ]25سرکاری
تبصرے میں صاف لکھا تھا کہ اپنی آپ بیتی میں جو کچھ رام پرساد بسمل نے لکھا ہے وہ ایک دم
سچ نہیں ہے۔ اس نے حکومت پر جو الزام لگائے گئے ہیں وہ بے بنیاد ہیں۔ کوئی بھی ہندوستانی،
جو سرکاری خدمت میں ہے ،اسے سچ نہ مانے۔ اس سرکاری بیان سے اس بات کا انکشاف اپنے
آپ ہو جاتا ہے کہ برطانوی حکومت نے بسمل کو اتنا خطرناک سازشی سمجھ لیا تھا کہ ان کی
سوانح عمری پڑھنے تک سے اسے سرکاری معامالت میں بغاوت پھیل جانے کا خوف ہو گیا تھا۔
موجودہ دور کے یو پی کے سی آئی ڈی ہیڈ کوارٹر ،لکھنؤ کے خفیہ محکمہ میں اصل سوانح
عمری کا انگریزی ترجمہ آج بھی محفوظ رکھا ہوا ہے۔ بسمل کی جو سوانح كاكوری سازش کے
نام سے موجودہ پاکستان کے سندھ صوبے میں اس وقت کتاب پبلیشر بھجن الل بكسیلر نے آرٹ
پریس ،سندھ ( موجودہ پاکستان ) سے پہلی بار 1927ء میں بسمل کو پھانسی دیے جانے کے کچھ
دنوں بعد ہی شائع کر دی تھی وہ بھی سرفروشی کی تمنا گرنتھاولی (مجموعہ کالم) کے تین
حصوں میں مدون ہو کر 1927ء میں آ چکی ہے۔
سرفروشی کی تمنا
تفصیلی مضمون کے لیے مالحظہ کریں :سرفروشی کی تمنا
(بسمل کی مشہور تخلیق)
اس غزل کی شہرت رام پرساد بسمل کی وجہ سے ہی ہے ،تاہم محققین نے اس حقیقت کو آشکارا
کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کے مطلع کے خالق رام پرساد بسمل نہیں بلکہ اس کے خالق
شاعر بسمل عظیم آبادی تھے اور ان کے مجموعہ کالم حکایت ہستی میں بقیہ کچھ مختلف ابیات
کے ساتھ موجود ہے۔ مگر رام پرساد بسمل نے بھی اسی مطلع کو لے کر اسی زمین پر غزل کہی
تھی۔ اور آخری ایام میں آخری دم تک ان کا ورد زباں رہی۔
اس طرح بسمل کی درج باال پسندیدہ غزل انقالبی گاکر قیدی جیل سے پولیس کی الری میں عدالت
میں جاتے ہوئے ،عدالت میں مجسٹریٹ کو چڑھاتے ہوئے اور عدالت سے لوٹ کر واپس جیل آتے
ہوئے کورس کے روپ میں گایا کرتے تھے۔ بسمل کے انتقال کے بعد تو یہ انتخاب سبھی انقالبیوں
میں زبان زد عام ہو گیا تھا۔[]29۔ جتنی تحریر یہاں دی جا رہی ہے وہ لوگ اتنی ہی گاتے تھے۔ لیکن
بعد میں یہ نظم سب سے پہلے 1965ء میں منوج کمار کی فلم ’’ شہید آن دا الئف ‘‘ بھگت سنگھ
میں شامل کی گئی تھی۔ دوبارہ اس صدی کے شروع کے دور میں اسے کچھ مبدل سطور کے ساتھ
2002ء میں ہندی فلم ’’ لیجنڈ بھگت سنگھ ‘‘ میں شامل کیا گیا تھا ،اس کے بعد 2006ء میں اس
کی سطور ’’ رنگ دے بسنتی ‘‘ میں استعمال کی گئیں،اور یہی نظم ایک بار پھر 2009ء میں
اورنگ کاشیپ کی فلم ’’ گالل‘‘ میں بھی شامل کی گئی تھی۔
سراج الدولہ
سراج الدولہ
نواب بنگال
صوبے دار بہار و اوڑیشہ
دور 9اپریل 1756ء – 2جون
1757ء
پیشرو علی وردی خان
جانشین میر جعفر
رفیق حیات
ِ لطف النساء
پورا نام
مرزا محمد سراج الدولہ
والد زین الدین احمد خان
والدہ امینہ بیگم
پیدائش 1733ء
145 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
مرشد آباد ،بنگال صوبہ
وفات 12جوالئی 1757ء
مرشید آباد ،کمپنی راج
دفن خوش باغ ،مرشید آباد
مذہب اسالم
فوجی زندگی
وابستگی []1
مغلیہ سلطنت
نوکری/شاخ نواب بنگال
عہدہ نوابزادہ ،نواب
جنگیں/ جنگ پالسی
محارب
مرزا محمد سراج الدولہ المعروف نواب سراج الدولہ (1733ء تا 2جوالئی 1757ء) بنگال ،بہار
اور اڑیسہ کے آخری صحیح المعنی آزاد حکمران تھے۔ 1757ء میں ان کی شکست سے بنگال میں
ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا۔
حکمرانی
دور حکمرانی مختصر تھا۔ 1756ء میں علی وردی خان کے انتقال پر 23سال کی عمر میں ان کا ِ
بنگال کے حکمران بنے۔ شروع سے ہی بنگال میں عیار برطانوی لوگوں سے ہشیار تھے جو بنگال
میں تجارت کی آڑ میں اپنا اثر بڑھا رہے تھے۔ خصوصا ً ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان کے خالف
سازشیں تیار کی جو نواب کو معلوم ہو گئیں۔ اوالً انگریزوں نے نواب کی اجازت کے بغیر کلکتہ
کے فورٹ ولیم (قلعہ ولیم) کی دیواریں پختہ اور مزید اونچی کیں جو معاہدوں کی صریح خالف
ورزی تھی۔ دوم انگریزوں نے بنگال کے کچھ ایسے افسران کو پناہ دی جو ریاست کے خزانے
میں خرد برد کے مجرم تھے۔ سوم انگریز خود بنگال کی کسٹم ڈیوٹی میں چوری کے مرتکب
تھے۔ ان وجوہات کی بنا پر نواب اور انگریزوں میں مخالفت کی شدید فضا پیدا ہو گئی۔ جب رنگے
ہاتھوں ٹیکس اور کسٹم کی چوری پکڑی گئی اور انگریزوں معاہدوں کے خالف کلکتہ میں اپنی
فوجی قوت بڑھانا شروع کی تو نواب سراج الدولہ نے جون 1756ء میں کلکتہ میں انگریزوں کے
خالف کارروائی کرتے ہوئے متعدد انگریزوں کو قانون کی خالف ورزی کی وجہ سے قید کر لیا۔
146 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
نواب سراج الدولہ کے مخالفین سے انگریزوں نے رابطہ کیا۔ ان مخالفین میں گھسیٹی بیگم (سراج
غدار بنگال اور شوکت جنگ (سراج الدولہ کا رشتہ دار) شامل ِ الدولہ کی خالہ) ،میر جعفر المشہور
تھے۔ میر جعفر نواب سراج الدولہ کی فوج میں ایک سردار تھا۔ نہائت بد فطرت آدمی تھا۔ نواب
سراج الدولہ سے غداری کر کے ان کی شکست اور انگریزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا جس
کے بعد بنگال پر انگریزوں کا عمالً قبضہ ہو گیا۔ پاکستان کےپہلے صدر اسکندر مرزا اس کی نسل
سے تھے۔ سازش سے واقف ہونے کے بعد نواب سراج الدولہ نے گھسیٹی بیگم کی جائداد ضبط کی
اور میر جعفر کو اس کے حکومتی عہدہ سے تبدیل کر دیا۔ میر جعفر اگرچہ ریاستی معامالت سے
متعلق رہا مگر اس نے انگریزوں سے ساز باز کر لی اور جنگ پالسی میں نواب سے غداری
کرتے ہوئے نواب کی شکست کا باعث بنا۔ انگریزوں نے میر جعفر کو اقتدار کا اللچ دیا تھا۔
جنگ پالسی/
اس جنگ کی تفصیل کے لیے دیکھیں جنگ پالسی
نواب اور الرڈ کالئیو کے درمیان پالسی کے مقام پر جو کلکتہ سے 70میل کے فاصلے پر ہے،
23جون 1757ء کو جنگ ہوئی۔ جنگ کے میدان میں میر جعفر نواب کی فوج کے ایک بڑے
حصے کا ساالر تھا۔ اس کے ساتھیوں نے نواب کے وفادار ساالروں کو قتل کر دیا جس کی کوئی
توقع بھی نہیں کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی میر جعفر اپنے فوج کے حصے کو لے کر الگ ہو گیا
اور جنگ کا فیصلہ انگریزوں کے حق میں ہو گیا۔ نواب کے توپ خانہ کو پہلے ہی خریدا جا چکا
تھا جس کی رشوت کے لیے انگریزوں نے بہت روپیہ خرچ کیا تھا۔حاالنکہ تاریخی روایات کے
مطابق میر جعفر نے قرآن پر ہاتھ ركھ کر نواب سے وفاداری کا حلف دیا تھا۔توپ خانے کیوں
استعمال نہیں ہوا؟ اس کے بارے یہ کہاگیا کہ بارش کی وجہ سے گولہ وبارود گیال اور ناقابل
استعمال ہوچکاتھا۔
نواب کی شہادت
نواب جنگ میں شکست کے بعد مرشد آباد اور بعد میں پٹنہ چلے گئے انہوں نے اپنی بیوی لطف
النساء بیگم اور بیٹی کے ہمراہ بھیس بدل کر ایک خانقاہ“میر بعنہ شاہ“ میں روپوش تھے جہاں میر
جعفر کے سپاہیوں نے انہیں گرفتار کر لیا۔ میر جعفر کے بیٹے میرمیران کے حکم پر محمد علی
بیگ نے نواب کو نماز فجر کے بعد شہید کر دیا۔بعض روایات میں نواب کو نماز اور سجدہ کی
حالت میں سرقلم کرکے سزائے موت دی گئی نواب کا مزار مرشد آباد کے ایک باغ “خوش باغ“
میں واقع ہے اگرچہ یہ مزار کی عمارت سادہ ہے مگر عوام کے آداب کامرکزہے ۔اس طرح ایک
مسلمان نے مسلمان کے ساتھ غداری اور قتل کرکے غیر مسلموں یعنی انگریزوں کی حکومت کے
قیام میں مدد کی۔
جنگ کے بعد
انگریزوں نے نواب کا خزانہ لوٹ لیا۔ انگریزوں نے مال تقسیم کیا۔ صرف کالئیو کے ہاتھ 53الکھ
سے زیادہ رقم ہاتھ آئی۔ جوہرات کا تو کوئی حساب نہ تھا۔ میر جعفر کو ایک کٹھ پتلی حکمران کے
طور پر رکھا گیا مگر عمالً انگریزوں کی حکمرانی تھی۔ تاریخ نے خود کو دہرایا اور بیسویں
صدی میں اسکندر مرزا پاکستان کے صدر کی حیثیت سے امریکیوں کے مفادات کی ترجمانی کرتا
147 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
رہا۔ انگریزوں نے ایسے حاالت پیدا کیے جس سے میر جعفر کو بے دست و پا کر دیا اور بعد میں
میر قاسم کو حکمران بنا دیا گیا جس کے بھی انگریزوں سے اختالفات ہو گئے۔ چنانچہ ان کے
درمیان جنگ کے بعد پورے بنگال پر انگریز قابض ہو گئے اور یہ سلسلہ پورے ہندوستان پر
غاصبانہ قبضہ کی صورت میں نکال۔
خ شف
ا اق ہللا ان
اشفاق ہللا خان
فائلAshfaq Ulla Khan (2).JPG:
پیدائش 22اکتوبر 1900
شاہجہاں پورBritish India ,
وفات 19دسمبر ( 1927عمر 27 سال)
فیض آباد Jail British India
قومیت Indian
تنظیم Hindustan Republican
Association
وجۂ شہ Indian freedom fighter
رت
اشفاق ہللا خان برصغیر کے معروف انقالبی ،مجاہد آزادی اور شاعر تھے جنہوں نے برصغیر کی
[]1
آزادی کے لیے اپنی جان دے دی۔
پیدائش
اشفاق ہللا خان کی پیدائش 22اکتوبر 1900کوشاہجہاں پوراتر پردیش کے معزز گھرانے میں ہوئی۔
ان کے والد کا نام شفیق ہللا خان اور والدہ کا نام مظہرالنساء بیگم تھا۔
س منظر
خاندانی پ ِ
اعلی عہدوں پر فائز تھے۔ اشفاق ہللا خان اپنے
ٰ آپ کے خاندان کے اکثر لوگ برطانوی راج میں
چاروں بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے بڑے بھائی ریاست ہللا خانرام پرساد بسمل کے
ہم جماعت تھے ،وہ اشفاق ہللا خان کو اکثربسمل کی شاعری اور انقالبی کاروائیوں کے قصے سنایا
کرتے تھے ،جس سے اشفاق ہللا خان کے دل میں انقالبی فکرو کردارجاگزیں ہوگیا۔
عملی زندگی
شاعری
’’وارثی‘‘ اور ’’ حسرت‘‘ کا تخلص استعمال
ؔ آپادبوشاعریکا شغف رکھتے تھے ،کالم میں وہ
کرتے تھے۔
انقالبی زندگی
148 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
اشفاق ہللا خان بچپن ہی سے مجاہدی ِن آزادی سے کافی متاثر تھے۔ عمر کے 20ویں سال میں قدم
رکھتے رکھتے آپ اپنے شہر اور اس دور کے ایک بڑے انقالبی رام پرساد بسمل سے رابطہ
کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ بسمل سے رابطہ میں آتے ہی آپ عملی جدوجہ ِد آزادی میں سرگرم
ہوگئے۔ جن دنوںموالنا محمد علی جوہرتحریک خالفت چال رہے تھے تب بسمل اور دیگر انقالبیوں
کے ساتھ مل کر آپ اس تحریک کے بارے میں عوام کو واقف کرانے اور آزادی کی جدوجہدکے
لیے انہیں بیدار کرنے میں مصروف ہوگئے۔اس دور میں آزادی کی جدوجہد تو درکنا ر آزادی کا
خواب دیکھنا بھیبرطانوی راج کے ظلم کو دعوت دینا تھا۔ اشفاق ہللا خان بھی حکومت کی نظروں
میں آنے سے نہیں بچ سکے اورحکومت کے باغیوں میں شامل ہوگئے۔
1922ء میں تحریک خالفت کے دورانچوری چوراکا پر تشدد واقعہ پیش آیا ،جس کے
بعدگاندھیجی نےخالفت تحریککے خاتمے کا اعالن کردیا۔ تحریک عدم تعاون کی منسوخی سے
پر جوش انقالبیوں میں ایک بے چینی پید ا ہوگئی اور کئی انقالبیوں نے اعتدال کی راہ چھوڑ کر
مسلح جدوجہد کو اپنا لیا۔ اشفاق ہللا خان بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان سے جا ملے اور حصول
آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کو اپنا مقصد بنالیا۔
کاکوری واقعہ : مسلح جنگِ آزادی کے لیے سب سے اہم مسئلہ اسلحہ جات کی فراہمی اور اس کے
لیے کثیر رقم کی حصولی کا تھا۔ انقالبیوں نے طے کیا کہ برطانوی حکومت پچھلی تین صدیوں
سے ہندوستان کو لوٹ رہی ہے ،چنانچہ یہ رقم برطانوی حکومت کو لوٹ کر حاصل کی جائے گی۔
اس مقصد کے تحت انقالبیوں نے 8اگست 1925کو ایک خفیہ نشست کی اور 9اگست1925ء
کوکاکوری کے مقام پر سرکاری خزانہ لے جارہی 8ڈاؤن سہارنپور-لکھنؤ پیسنجر ٹرین روک کر
خزانہ لوٹ لیا ۔ اس ساری کارروائی میں اشفاق ہللا خان نے اکیلے ہی چھینی اور ہتھوڑے کی مدد
سے آہنی تجوری کو تو ڑا۔ اس مہم کی سربراہی انقالبیوں کے سردار رام پرساد بسمل نے کی ۔
اس مہم میں بسمل اور اشفاق ہللا خان کے عالوہ دیگر 8انقالبی بھی شامل تھے۔ کاکوری واقعہ
تاریخ آزادی ہند میں ایک سنگ میل کی حیثیت سے درج ہوا۔ یہ واقعہ انگریزوں کی طاقت ،ان کے
غرور و گھمنڈ پر ایک کاری ضرب تھا ،جس سے برطانوی حکومت بوکھال اُٹھی۔ ہندوستان میں
موجود برطانوی وائسرائےالرڈ ریڈنگ نے فوراً اسکاٹ لینڈ یارڈ پولس محکمے کو تفتیش کے لیے
نامزد کیا ۔ خفیہ پولس نے مہینے بھر ہی میں اس واقعہ میں ملوث انقالبیوں کو شاہجہاں
پورشاہجہاں پور سے گرفتا ر کرلیا۔ اشفاق ہللا خان گرفتاری سے بچ کر کسی طرح روپوش ہونے
میں کامیاب ہوگئے۔ بنارسپہنچ کر وہ ایک انجینئرنگ کمپنی میں مالزمت کرنے لگے۔ وہ رات دن
اس فکر میں تھے کہ کسی طرح ملک سے باہر جاکراللہ ہردیال سے ملیں۔ اللہ ہردیا ل ان
دنوںامریکہمیں مقیم تھے اور اپنے ذاتی افکار کی تحریر و تقاریر کی مدد سے عوام میں تبلیغ
کررہے تھے۔ شروعاتی دور میں اللہ ہردیالکمیونزم سے خاصے متاثر رہے۔اشفاق ہللا خان اللہ
ہردیال سے مل کر انھیں آزادی وطن کی سرگرمیوں میںشامل کرنا چاہتے تھے۔ انہی سے ملنے کی
خاطر اشفاق ہللا خان بنارس سے دلی آئے تاکہ جلد ملک سے باہر جاسکیں ،لیکن ان کے ایک پٹھان
دوست نے سیاہ بختی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کو گرفتار کروادیا۔ اشفاق ہللا خان فیض آباد جیل
روانہ کردیے گئے جہاں پر ان کے خالف قتل ،ڈکیتی اور حکومت کے خالف سازش کا مقدمہ
چالیاگیا۔ اشفاق ہللا خان کے بھائی ریاست ہللا خان نے کرپا شنکر ہجیلہ کو ان کے مقدمے کی
پیروی سونپی۔ کرپاشنکر صاحب نے مقدمے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ،لیکن برطانوی ظالم
حکومت نے عدالتی کارروائی محض خانہ پوری کے لیے کی تھی ،چنانچہ انہیں سزائے موت
سنائی گئی۔ کاکوری سازش کے تحت برطانوی حکومت نےاشفاق ہللا خان،رام پرساد بسمل ،راجندر
لہری اور ٹھاکر روشن سنگھ کو سزائے موت اور دیگر 16انقالبیوں میں سے چار کو سزائے
عمر قید و باقی کو چار سال کے لیے قید بامشقت کی سزا تفویض کی۔ مقدمے کے دوران
انگریزوں نے اشفاق ہللا خان کو سرکاری گواہ بنانے اوررام پرساد بسمل کے خالف گواہی دینے
کے لیے رضامند کرنے کی خاطر پولس انسپکٹر تصدق حسین کو نامزد کیا ،جس نے اشفاق ہللا
خان کو مذہب کا واسطہ دے کر کہا کہ تم کیسے مسلمان ہو جو ایک ہندو کا ساتھ دے رہے ہو ،جو
اس ملک کو ہندو راشٹربنانا چاہتے ہیں۔ اس کے جواب میں اشفاق ہللا خان نے کہا کہ رام پرساد کا
ہندو راشٹر آپ کے برطانوی حکومت سے بہتر ہوگا۔ جن لوگوں نے اشفاق ہللا خان کو اسیری کے
149 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
زمانے میں دیکھا ان کا بیان ہے کہ جیل میں بھی اشفاق ہللا خان پابندی سے پانچوں وقت کی نماز
ادا کرتے اور روزانہ تالوت قرآن بھی کرتے۔یہ قرآن ہی کا اعزاز ہے کہ وہ انگریزوں کی چالوں
میں نہیں آئے اور انہوں نے سرکاری گواہ بننے کی انگریزوں کی درخواست کو پائے حقارت سے
ٹھکرادیا۔بھال ایک شاہین صفت کرگس کے پھندوں میں کب آنے واال تھا۔ ایک دفعہ جب اشفاق ہللا
خان نماز پڑھ رہے تھے ،تب کچھ انگریز افسر وہاں آئے۔ ان میں سے ایک نے اشفاق ہللا خان پر
فقرہ کسا کہ ’ دیکھتے ہیں جب ہم اس چوہے کو پھانسی پر لٹکائیں گے اس کا مذہب اور اس کی یہ
عبادت اس کو کیسے بچائے گی ‘،اس پر اشفاق ہللا خان نے بالکل دھیان نہ دیا اور اپنی نماز میں
مشغول رہے ،گویا انھوں نے کچھ سنا ہی نہیں۔ اس پر وہ انگریز افسر بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے
چالگیا۔
سزائے موت
19دسمبر1927ء کو اشفاق ہللا خان تختہ دار کی طرف اس شان سے کوچ کرنے لگے کہ ان کا ہر
قدم دگنا فاصلہ طے کرتا ،اس درمیان وہ کہہ رہے تھے کہ
“ ”
مجھ پر جو قتل کا مقدمہ چالیا گیا وہ جعلی ہے۔میرا یقین ہللا
پر ہے ،وہ ہی مجھے انصاف دے گا
پھانسی کی جگہ پر پہنچتے ہی پھندے کو بے ساختہ چوم لیا۔ کچھ دیر تک ہللا رب العزت سے
دعائیں کرتے رہے پھر کلمہ طیبہ کا مسلسل ورد کرنے لگے۔ یہاں تک کہ پھندا کسا گیا اور آپ
شہید ہوگئے۔
نمونہ اشعار
زندگی بعد فنا تجھ کو ملے گی حسرت
تیرا جینا ،تیرے مرنے کی بدولت ہوگا
کچھ آرزو نہیں ہے آرزو تو یہ ہے
رکھ دے کوئی ذرا سی خاک ِ وطن کفن میں
ایسٹ انڈیا کمپنی کے سارے طاقتیں براہ راست برطانوی تاج کے سپرد کیا گیا
(برطانوی سلطنت میں شامل کیا گیا)،مغل سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔
برطانوی راج نے کچھ عالقوں کو ان کے اپنے باشندوں کو سونپا جبکہ زیادہ تر عالقوں عالقائ
ی کو برطانوی تاج میں شامل کردیا۔
تبدیلیا
ں
بخت خان روہیلہ 1857ء کی جنگ آزادی کے ایک اہم کردار ہیں۔ مغلیہ خاندان کے شہنشاہ بہادر
شاہ ظفر کے زمانے میں انگریزی فوج میں صوبہ دار تھے۔ انگریزوں کے خالف جنگ آزادی
میں اپنے فوجی دستے سمیت شرکت کی اور کارہائے نمایاں انجام دیے۔ جنگ آزادی کی ناکامی
کے بعد روپوش ہوگئے۔
خان عبدالغفار خان پختونوں کے سیاسی راہنما کے طور پر مشہور شخصیت ہیں ،جنھوں نے
برطانوی دور میں عدم تشدد کے فلسفے کا پرچار کیا۔ خان عبدالغفار خان زندگی بھر عدم تشدد کے
حامی رہے اور مہاتما گاندھی کے بڑے مداحوں میں سے ایک تھے۔ آپ کے مداحوں میں آپ کو
باچا خان اور سرحدی گاندھی کے طور پر پکارا جاتا ہے۔
ج ھا سی کی را ی
جھانسی کی رانی جن کا نام لکشمی بائی تھا ۔ جھانسی ریاست کی رانی تھی جو ۱۹نومبر 1828ء
کو پیدا ہوئی اور ۱۸جون ۱۸۵۸کو وفات پاگئی۔ یہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں بھرپور کردار
نبھانے والے لیڈروں میں سے تھی جنہوں نے ہندوستان کو انگریزوں سے آزادی کرانے میں
زبردست کردار آدا کیا۔
پیدائش
جھانسی کی رانی غالبا ً 19نومبر 1828کو وارانسی میں پیدا ہوئی ایک ہندو براہمن کے گھر۔ ان
کے والد کا نام موروپنت اور والدہ کا بھاگیرتی تھا۔ان کے والد ابتدائی طور پر بٹھور ریاست کے
راجا کے لئے کام کرتا تھا،لیکن بٹھور کے راجا نے لکشمی بائی کا پرورش اس طرح کیا کہ اپنے
سگی بیٹھی سے بھی زیادہ۔
رانی کا ر ِدعمل
وہ اونچا مقام جہاں سے جھانسی کی رانی اپنے بیٹے انند کو کمر سے باندھے گھوڑے پر جھانسی کے
محل سے نیچے چالنگ لگائی۔
رانی لکشمی بائی کی جھانسی پر جب فرنگیوں نے حملہ کیا تو اس میں بہت ہی مشہور واقعات
پیش آئے ۔ رانی لکشمی نے اس وقت انگریزوں کا مقابلہ کیا۔کچھ دن یہ حملہ جاری رہا۔اس کے باد
راؤ دلہاجو نام کا وزیر تھا رانی لکشمی کا ،اس کو رانی نے ایک دوار (قلعے کا بڑا گیٹ) پر کھڑا
کیا اور اسے یہ ذمہ داری دی گئی کہ اس دوار کا حفاظت کرے،مگر وہ نمک حرامی کر بیٹھا اور
انگریزوں کا ساتھ دیا۔اس دوار کے آس پاس کے تمام فوجیوں کو قلعے کے دوسرے طرف بھیجا
اور دوار انگریزوں کے لئے کھولنے لگا اس وقت رانی کی ایک وفادا اور بچپن کی باندھی کاشی
نے اسے دوار کھولنے سے روکا تو اسے بھی قتل کردیا۔جھانسی کی رانی کو پتہ چال تو وہ فوراً
اس دوار کے طرف بھاگ پڑی انگریزوں کو روکنے مگر تب تک انگریز داخل ہوچکے تھے،
رانی کے افواج نے انگریزوں کا مقابلہ کیا مگر انگریزی فوج ،رانی کے فوج سے بیس گنا سے
بھی ذیادہ تھی،اس لئے اس میں رانی کے پاس بھاگ نکلنے کے عالوہ اور کوئی راہ نہ بچ سکا
اور مجبوراً رانی محل سے جانے لگی ۔اس وقت انگریزوں نے انہیں پوری طور پر گھیرلیا
تھا،لیکن رانی ایک جانباز تھی وہ محل کے انتہائی بلند ترین مقام سے گھوڑے پر سوار چالنگ لگا
ئی اور بھاگ نکلی۔ (اس مقام کا تصویر بائیں طرف موجود ہے)۔
اس کے بعد کچھ دنوں میں رانی نے انگریزوں پر ایک زبردست حملہ کیا اور جھانسی واپس چھین
لی۔پھر رانی دربدر جا جا کہ لوگوں میں انگیزوں کے خالف آگ پھیالنی لگی۔اور اسی طر آخر کار
جنگ آزاد ہند 1857ء درپیش ہوا۔جس میں رانی اور ان کے افواج اور کہیں ریاستوں نے حصہ لیا۔
وفات
جنگ جب جنگ آزادی کی تحریک جاری ہوئی۔ تو رانی نے بھی انگریزوں کا سامنا کیا،جنگ کے
دوران بے شمار انگریزوں کو موت کی گھاٹ اتارا۔اس کے بعد اچھانک کسی فوجی نے میدان
جنگ میں رانی پر تلوار سے وار کیا جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوئی اور وہ میدان سے ایک
بیابان جگہ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں رانی نے ایک بزرگ کو دیکھا اور ان سے کہا کہ وہ لکشمی
بائی کو اس طرح جالئے کہ ان کا جسم موت کے بعد بھیانگریزوں کے ہاتھ نہ آئے جیسا زندگی
میں کبھی انگریزوں کے ہاتھ نہ آئی۔اس فقیر نے رانی کو جالیا اور کسی کو خبر بھی نہ ہوئی کے
رانی کا جسم کہا گیا۔
154 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
وہ اس کام سے انگریزوں کو یہ پیغام دینا چاہتی تھی کہ انگریز نہ تو رانی کو زندگی میں پکڑ
سکے اور نہ موت کے بعد۔
اسی طرح رانی کے بدولت ہندوستان میں آزادی کا جزبہ برپا ہوگیا،جس کے نتیجے میں 90سال
بعد آزاد پاکستان اور بھارت وجود میں آیا۔ آج بھی رانی کو بھارت میں ایک ملّی خاتون کا درجہ
حاصل ہے۔
بیگم حضرت محل کا نام زبان پرا ٓتے ہی جنگ آزادی کا تصور ذہن میں ابھر آتا ہے ۔ حضرت محل
کا نام ہندوستان کی جنگ آزادی میں پہلی سرگرم عمل خاتون رہنما کے نام سے مشہور ہے ۔
1858-1857کی جنگ آزادی میں صوبہ اودھ سے حضرت محل کی نہ قابل فراموش جدو جہد
تاریخ کے صفحات میں سنہرے الفاظ میں درج ہے حضرت محل نے صنف نازک ہوتے ہوئے بھی
بر طانوی سامراج و ایسٹ انڈیا کمپنی سے لوہا لیا ۔ برطانوی حکومت کی” تقسیم کرو اور حکومت
کرو“کی پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے ہندوﺅں اور مسلمانوں میں اتحاد پیدا کر کے
تحریک جنگ آزادی ہند 1857ء کو ایک نیا ر خ دیا ۔ بیگم حضرت محل پہلی ایسی قائد تھیں،
جنہوں نے برطانوی حکومت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے اور 20برس جال وطنی اور اپنی موت
1879تک لگاتار برطانوی حکومت کی مخالفت کی ۔ حاالنکہ حضرت محل کے متعلق مورخین کو
بھی زیادہ پختہ جانکاری نہیں ہے شاید وہ فیض آباد کے ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھیں
کچھ انگریزی مصنفین کے مطابق ان کا نام افتخار النساء تھا ۔ نام سے لگتا ہے کہ ان کے آباو
اجداد ایران سے یہاں آکر اودھ میں بس گئے تھے ۔ ان کی تعلیم ایک رقاصہ کی شکل میں ہوئی
جس کا مقصد واجد علی شاہ کو متاثر کرنا تھا ۔ نواب صاحب نے ان کو اپنے حرم میں جگہ دی ۔
پی-جے-او-ٹیلر کے مطابق جب افتخار النساء کے یہاں ایک بیٹے کی والدت ہوئی تو ان کا رتبہ
بڑھا اور انہیں نواب صاحب نے اپنی ازواج میں شامل کرکے حضرت محل کا لقب دیا اور انہیں
شاہی خاندان میں ملکہ کا درجہ دیا ۔ اپنے بیٹے برجیس قدر کی پیدائش کے بعد حضرت محل کی
شخصیت میں بہت بدالﺅ آیا اور ان کی تنظیمیں صالحیتوں کو جال ملی ۔ 1856ءمیں برطانوی
حکومت نے نواب واجد علی شاہ کو جال وطن کر کے کلکتہ بھیج دیا ۔ تب حضرت محل نے اودھ
کی باگ ڈور سنبھال لی اور بیگم حضرت محل ایک نئے وجود میں سب کے سامنے آتی ہیں۔ ان کا
یہ رخ اپنے وطن کے لئے تھا ۔ جس کا مقصد تھا اپنے ملک سے انگریزوں کو باہر پھینکنا یہ
مشعل لو ،سبھی کے دل میں جل رہی تھی ۔ لیکن اسے بھڑکانے اور جنون میں بدلنے میں بیگم
حضرت محل نے ایک خاص کردارادا کیا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ عورت صرف گھر کی چہار
155 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
دیواری کا نظام ہی خوبی سے نہیں سنبھالتی بلکہ وقت پڑنے پر وہ اپنے جوہر دکھا کر دشمنوں کو
کھدیڑنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے ۔ ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کے دوران انہوں نے اپنے
حامیوں جن کے دلوں میں اپنے ملک سے انگریزوں کے ناپاک قدموں کو دور کرنے کا جذبہ تھا ۔
انگریزی حکومت کے خالف منظم کیا اور جب ان سے اودھ کا نظام چھین لیا گیا تو انہوں نے
اپنے بیٹے برجیس قدر کو ولی عہد بنا دیا ۔ جنگ آزادی میں وہ دوسرے مجاہدین آزادی کے ساتھ
مل کر چلنے کی حامی تھیں جس میں نانا صاحب بھی شامل تھے۔ جب برطانوی فوج نے لکھنو پر
دوبارہ قبضہ کر لیا اور ان کے سارے حقوق چھین لئے تو انہوں نے برٹش حکومت کی طرف سے
دی گئی کسی بھی طرح کی عنایت کو ٹھکرادیا ۔ اس سے بیگم حضرت محل کی خود داری کا پتہ
چلتا ہے۔ وہ صرف ایک بہترین پالیسی ساز ہی نہیں تھیں۔ بلکہ جنگ کے میدان میں بھی انہوں نے
جوہر دکھائے۔ جب ان کی فوج ہار گئی تو انہوں نے دوسرے مقامات پر فوج کو منظم کیا۔ بیگم
حضرت محل کا اپنے ملک کے لئے خدمت کرنا بے شک کوئی نیا کارنامہ نہیں تھا ۔ لیکن ایک
عورت ہو کر انہوں نے جس خوبی سے انگریزوں سے ٹکرلی وہ معنی رکھتا ہے ۔ 1857کی
بغاوت کی چنگاریاں تو ملک کے کونے کونے میں پھوٹ رہی تھیں۔ ملک کے ہر کونے میں اس
کی تپش محسوس کی جارہی تھی اسی چنگاری کو آگ میں تبدیل کرنے کا سہرا بیگم حضرت محل
کے سر جاتا ہے ۔ اترپردیش کے اودھ عالقہ میں بھی آزادی کی للک تھی ۔ جگہ جگہ بغاوتیں
شروع ہو گئی تھیں۔ بیگم حضرت محل نے لکھنؤ کے مختلف عالقوں میں گھوم گھوم کر لگاتار
انقالبیوں اور اپنی فوج کی حوصلہ افزائی کرنے میں دن رات ایک کر دیا ۔ ایک عورت کا یہ
حوصلہ اور ہمت دیکھ کر فوج اور باغیوں کا حوصلہ جوش سے دگنا ہو جاتا ۔ انہوں نے آس پاس
کے جاگیر داروں کو بھی ساتھ مال کر انگریزوں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ بیگم حضرت محل کا
کردار جنگ آزادی کی اس پہلی جنگ میں نا قابل فرامو ش ہے ۔ آج جب بھی 1857کی بغاوت کا
ذکر آتا ہے تو بیگم حضرت محل کا نام خود بخود زباں پر آجاتا ہے ۔ انگریزوں کی مکاری اور
چاالکی کو حضرت محل بہت اچھی طرح سمجھ چکی تھیں۔ وہ ایک دور اندیش خاتون تھیں ۔
انگریزوں سے لوہا لینے کیلئے انہوں نے اپنی صالحیتوں کا بھر پور استعمال کیا ۔ انتظامی
حکومتی فیصلوں میں بیگم حضرت محل کی صالحیت خوب کام آئی۔ بیگم حضرت محل کے
فیصلوں کو قبول کیا گیا ۔ بڑے بڑے عہدوں پر قابل عہد یدار مقرر کئے گئے ۔ محدود وسائل اور
مشکل حاالت کے باوجود بیگم حضرت محل لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتی رہیں۔ بیگم حضرت
محل نے خواتین کی ایک فوج تیار کی اور کچھ ماہرخواتین کو جاسوسی کے کام پر بھی لگایا ۔
فوجی خواتین نے محل کی حفاظت کے لئے اپنی جان کی بھی پروا نہیں کی ۔ انگریزی فوج لگاتار
ریزی ڈینسی سے اپنے ساتھیوں کو آزاد کرانے کیلئے کوشش کرر ہی تھی ۔ لیکن بھاری مخالفت
کی وجہ سے انگریزوں کو لکھنؤ فوج بھیجنا مشکل ہو گیا تھا ۔ ادھر ریزی ڈینسی پر ناموں کے
ذریعہ لگاتار حملے کئے جارہے تھے ۔ بیگم حضرت محل لکھنؤ کے مختلف عالقوں میں تنہا
فوجیوں کا حوصلہ بڑھا رہی تھیں۔ لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا تھا ۔ دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو
چکا تھا ۔مغل شاہ بہادر شاہ ظفرکے نظر بند ہوتے ہی انقالبیوں کے حوصلے کمزور پڑنے لگے ۔
لکھنؤ بھی دھیرے دھیرے انگریزوں کے قبضہ میں آنے لگا تھا ۔ ہینری ہیوالک اور جیمز آوٹ
رام کی فوجیں لکھنؤ پہنچ گئیں۔ بیگم حضرت محل نے قیصر باغ کے دروازے پر تالے لٹکوا
دیے ۔ انگریزی فوج بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی ۔ بیگم نے اپنے فوجیوں میں جوش بھرتے
ہوئے کہا ،
” اب سب کچھ قربان کرنے کا وقت آگیا ہے“-
انگریزی فوج کا افسر ہینری ہیوالک عالم باغ تک پہنچ چکا تھا ۔ کیمپ ویل بھی کچھ اور فوج لے
کر اس کے ساتھ جا مال ۔ عالم باغ میں بہت ہجوم اکٹھا ہو گیا تھا ۔ عوام کے ساتھ محل کے سپاہی
شہر کی حفاظت کیلئے امنڈ پڑے ۔ موسال دھار بارش ہو رہی تھی ۔ دونوں طرف تیروں کی بوچھار
ہو رہی تھیں۔ بیگم حضرت محل کو قرار نہیں تھا ۔ وہ چاروں طرف گھوم گھوم کر سرداروں میں
جوش بھر رہی تھیں۔ ان کی حوصلہ افزائی سے انقالبیوں کا جوش ہزار گنا بڑھ جاتا ۔ وہ بھوکے
پیاسے سب کچھ بھول کر اپنے وطن کی ایک ایک انچ زمین کیلئے مرمٹنے کو تیار تھے ۔ آخر وہ
156 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
لمحہ بھی آگیا جب انگریزیوں نے اپنے ساتھیوں کو ریزیڈنسی سے آزاد کرا ہی لیا ۔ اور لکھنؤ پر
انگریزوں کا قبضہ ہو گیا ۔
بیگم حضرت محل کی شخصیت ہندوستانی نسوانی سماج کی پیروی کرتا ہے وہ بے حد
خوبصورت رحم دل اور نڈر خاتون تھیں۔ اودھ کی پوری قوم ،عوام عہدیدار ،فوج ان کی عزت
کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ ان کے ایک اشارے پر اپنی جان تک قربان کرنے کا جذبہ ان کی عوام
میں تھا ۔ انہیں کبھی اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ وہ عورت کی سر براہی میں کام کررہے ہیں
انہیں اپنی ا س لیڈر پر اپنے سے زیادہ بھروسا تھا ۔ اور یہ بھروسا بیگم حضرت محل نے ٹوٹنے
نہیں دیا ۔
جب باغیوں کے سردار دلپت سنگھ محل میں پہنچے اور بیگم حضرت محل سے کہا،بیگم حضور
آپ سے ایک التجا کرنے آیا ہوں۔ بیگم نے پوچھا وہ کیا ؟ اس نے کہا ۔ آپ اپنے فرنگی قیدیوں کو
مجھے سونپ دیجیئے ۔ میں اس میں سے ایک ایک کا ہاتھ پیر کاٹ کر انگریزوں کی چھاﺅنی میں
بھیجوں گا ۔ نہیں ہرگز نہیں ۔ بیگم کے لہجہ میں سختی آگئی ۔ ہم قیدیوں کے ساتھ ایسا سلوک نہ تو
خود کر سکتے ہیں اور نہ کسی کو اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔قیدیوں پر ظلم کرنے کی روایت
ہم میں نہیں ہے ۔ ہمارے جتنے بھی فرنگی قیدی اور ان کی عورتوں پر کبھی ظلم نہیں ہوگا ۔
اندازا ہوتا ہے بیگم حضرت محل انصاف پسند اور حسن سلوک کی مالک تھیں ۔ بیگم نے جن
حاالت اور مشکل وقت میں ہمت و حوصلے کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیے وہ ہمارے لئے مثال
ہے وہ بھلے ہی آج ہمارے بیچ نہ ہوں پر ان کا یہ قول عام ہندوستانیوں کیلئے ایک درس ہے ۔ یہ
ہند کی پاک و صاف سر زمین ہے ۔ یہاں جب بھی کوئی جنگ بھڑکی ہے ہمیشہ ظلم کرنے والے
ظالم کی شکست ہوئی ہے ۔ یہ میرا پختہ یقین ہے ۔ بے کسوں ،مظلوموں کا خون بہانے واال یہاں
کبھی اپنے گندے خوابوں کے محل نہیں کھڑا کر سکے گا ۔ آنے واال وقت میرے اس یقین کی تائید
کرے گا ۔
جنگ کے بعد آخر کار بیگم حضرت محل نے نیپال میں پناہ لی ۔ ابتدا میں نیپال کے رانا جنگ
بہادر نے انکار کر دیا ۔ لیکن بعد میں اجازت دے دی ۔ وہیں پر 1879میں ان کی وفات ہوئی۔ کاٹھ
منڈو کی جامع مسجد کے قبرستان میں گمنام طور پر ان کو دفنا دیا گیا ۔ 15اگست 1962 ،میں ان
کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے صوبائی حکومت نے وکٹوریہ پارک میں ان کی یادمیں سنگ مر
مر کا مقبرہ تعمیر کرا کر اسے بیگم حضرت محل پارک نام دیا ۔ حضرت محل کا یہ کارنامہ اس
بات کا ثبوت ہے کہ عورت ناچار اور مظلوم نہیں ۔ وہ وقت پڑنے پر مردوں کے ساتھ قدم مال کر
چل بھی سکتی ہے اور آگے بڑھ کر کوئی بھی ذمہ داری بہ خوبی نبھا بھی سکتی ہے ۔ ضرورت
ہے اپنی صالحیتوں کو پہچان کر انہیں استعمال کرنے کی اپنے وجود کو پہچان دینے کی-
ئ جن ن
سرو ی ا ی ڈو
سروجنی نائیڈو بیک وقت انگریزی کی ایک عظیم شاعرہ ،مجاہدہ آزادی ،دانشور و مدبّر خاتون کے ساتھ
ساتھ قائدانہ صالحیت کی حامل ،آتش بیاں مقرر ،محب وطن اور ہندو مسلم اتحاد و یگانگت کی حامی
تھیں۔ سروجنی نائیڈو 13فروری 1879کو حیدرآباد کے ایک بنگالی برہمن خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے
والداگھورے ناتھ چٹوپادھیائے ایک سائنسدان اور ماہر تعلیم تھے اور نظام کالج ،حیدرآباد ،دکن ،کے
پرنسپل بھی رہے۔
نگ ن
م ل پ ا ڈے
ہندوستان کی تحریک آزادی کی عملی طور پرابتدا کرنےاور برطانوی نو آبادیات کو للکارنے والے
پہلے شخص منگل پانڈے تھے۔ جنھوں نے آزادی ہند کے لیے پہلی گولی چالئی۔ منگل پانڈے 19
جوالئی1827 ،ء میں مشرقی اترپردیش کے ضلع بلیا کے گاؤں "نگوا" میں پیدا ہوئے۔ جہاں ان کی
اوالد اور رشتے دار اب بھی رہائش پزیر ہیں۔ منگل پانڈے کا مقام پیدائش متنازع ہے۔ کہیں لکھا
ہے کہ وہ یوپی کے ضلع فیض آباد کے شہر اکبر آباد میں پیداہوئے۔
1849ء میں 22سال کی عمر میں منگل پانڈے نے وسطی بھارت کی فوجی کمپنی " بنگال
انفنٹری" کی چونتیسویں ( )34رجیمنٹ میں بحثیت سپاہی بھرتی ہوئے ۔ 1853ء میں فوجی
مالزمت کے دوران انگریزوں سے نفرت اور جذبہ آزادی کی تمنا جاگی اور انھوں نے آزادی کے
لیے پہلی گولی چالئی۔ منگل پانڈے نےانگریز فوجیوں پر حملے کئے۔ انھوں نے 29مارچ،
1857ء کو ایک انگریز سارجنٹ اور اجونٹنٹ کو زخمی کردیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کی فوج
میں استعمال ہونے والی پی۔ 53رائفل میں جو کارتوس استعمال کئےجاتے تھے ۔ اسےاستعمال سے
پہلےان کارتوس کےفیتوں کو دانتوں سے کھینچا جاتا تھا۔ اس میں گائے اور سور کی چربی لگی
ہوتی تھی۔ جو مذہبی طور پر مسلمانوں اور ہندؤں کے لیے کسی طور پر قابل قبول نہیں تھی۔ یہی
بات منگل پانڈے کے غصے کا سبب بنی۔ منگل پانڈے کا تعلق برہمن گھرانے سے تھا۔ جبل پور
کے عجائب خانے کے ریکارڈ کے مطابق منگل پانڈے کو 18اپریل1857 ،ء میں کولکتہ کے
قریب بارک پور چھاونی میں پھانسی دی گئی۔ یہ وہی فوجی چھاونی ہے جہاں کچھ مہینے قبل
ہندوستانی فوجیوں نے" انگریزی ٹوپ" پہنے سے انکار کردیا تھا۔
ن پ ن
گوو د ولب ھ ت
پنڈت گووند ولبھ پنت یا جي وی پنت (پیدائش 10 :ستمبر 1887ء 7 -مارچ 1961ء) ایک مشہور
مجاہد آزادی اور سینئر بھارتی سیاستدان تھے ]1[.وہ اتر پردیش ریاست کے پہلے وزیر ٰ
اعلی اور
بھارت کے چوتھے وزیر داخلہ تھے .سن 1955ء میں انہیں بھارت رتن سے نوازا گیا .وزیر داخلہ
کے طور پر ان کا بنیادی کردار ادا بھارت کو زبان کے مطابق ریاستوں میں تقسیم کرنا اور ہندی
ئ ٹ
زبان کو بھارت کی دفتری طور پر نافذ کرنا تھا.
[]2
ولب ھ ب ھا ی پ ی ل
ولبھ بھائی پٹیل ( 31اکتوبر 1875ء – 15دسمبر 1950ء) بھارت کے ایک سیاسی و سماجی رہنما
تھے ،جنہوں نے تحریک آزادئ ہند اور بعد از تقسیم ہند بھارت کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا۔
بھارت اور دنیا بھر میں انہیں 'سردار' کے نام سے جانا جاتا تھا اس لیے آپ سردار ولبھ بھائی پٹیل
بھی کہالتے ہیں۔
(1907ء تا 23مارچ1931 ،ء) برصغیر کی جدوجہد آزادی کا ہیرو۔ بھگت سنگھ سوشلسٹ انقالب
کا حامی تھا۔ طبقات سے پاک برابری کی سطح پر قائم ہندوستانی معاشرہ چاہتا تھا۔ ضلع الئل پور
کے موضع بنگہ میں پیدا ہوئے۔ کاما گاٹا جہاز والے اجیت سنگھ ان کے چچا تھے۔ جلیانوالہ باغ
قتل عام اور عدم تعاون کی تحریک کے خونیں واقعات سے اثر قبول کیا۔ 1921ء میں اسکول
چھوڑ دی اور نیشنل کالج میں تعلیم شروع کی۔ 1927ء میں الہور میں دسہرہ بم کیس کے سلسلے
میں گرفتار ہوے اور شاہی قلعہ الہور میں رکھےگیے۔ ضمانت پر رہائی کے بعد نوجوان بھارت
سبھا بنائی اور پھر انقالب پسندوں میں شامل ہوگیے۔ دہلی میں عین اس وقت ،جب مرکزی اسمبلی
کا اجالس ہو رہا تھا انھوں نے اور بے کے دت نے اسمبلی ہال میں دھماکا پیدا کرنے واال بم
پھینکا۔ دونوں گرفتار کرلیے گئے۔ عدالت نے عمر قید کی سزا دی۔
1928ء میں سائمن کمیشن کی آمد پر الہور ریلوے اسٹیشن پر زبردست احتجاجی مظاہرہ ہوا۔
پولیس نے الٹھی چارج کیا جس میں اللہ الجپت رائے زخمی ہوگئے۔ اس وقت الہور کے سینئر
سپرٹینڈنٹ پولیس مسٹر سکاٹ تھے۔ انقالب پسندوں نے ان کو ہالک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن
ایک دن پچھلے پہر جب مسٹر سانڈرس اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ پولیس الہور اپنے دفتر سے موٹر
سائیکل پر دفتر سے نکلے تو راج گرو اور بھگت سنگھ وغیرہ نے ان کو گولی مارکر ہالک کر
دیا۔ حوالدار جین نے سنگھ کا تعاقب کیا۔ انہوں نے اس کو بھی گولی مار دی اور ڈی اے وی کالج
ہاسٹل میں کپڑے بدل کر منتشر ہوگئے۔ آخر خان بہادر شیخ عبدالعزیز نے کشمیر بلڈنگ الہور سے
ایک رات تمام انقالب پسندوں کو گرفتار کر لیا۔ الہور کے سینٹرل جیل کے کمرۂ عدالت میں ان پر
مقدمہ چالیا گیا۔ بھگت سنگھ اور دت اس سے قبل اسمبلی بم کیس میں سزا پا چکے تھے۔ مقدمہ تین
سال تک چلتا رہا۔ حکومت کی طرف سے خان صاحب قلندر علی خان اور ملزمان کی طرف سے
اللہ امرد اس سینئر وکیل تھے۔ بھگت سنگھ اور سکھ دیو کو سزائے موت کا حکم دیا گیا اور 23
مارچ1931 ،ء کو ان کو پھانسی دے دی گئی۔ فیروز پور کے قریب دریائے ستلج کے کنارے ،ان
کی الشوں کو جال دیا گیا۔ بعد میں یہاں ان کی یادگار قائم کی گئی۔
تن ت
ا ت ی ا وپی
مرہٹہ پیشوا۔ فوجی جرنیل تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں اس نے کارہائے نمایاں سرانجام دیے
اور اپنے فوجی دستوں سمیت کانپور کالپی وغیرہ تک جا پہنچا۔ انگریزی افواج سے ڈٹ کر مقابلہ
کیا۔ باالخر محصور اور قید ہوا اور اسے گولی کا نشانہ بنا دیا گیا۔جھانسی کی رانی انہیں اپنا گورو
مانتی تھی اور اپنی ساری سیکھتا انکے طرف منسوب کیا کرتی تھی۔
پ ہلی ج ن گ عظ ی م
پہلی جنگ عظیم کے مختلف /مناظر
آغاز
پہلی جنگ عظیم ( )World War Iکا آغاز 28جون 1914ء کے اس واقعہ سے ہوا کہ کسی سالو
دہشت پسند نے آسٹریاـہنگری کے ولی عہدشہزادہ فرانسس فرڈی ننڈ (منڈ) کو 28جون کو گولی
مار کر ہالک کر دیا۔ 28جوالئی کو آسٹریا نے سربیا کے خالف اعالن جنگ کر دیا۔اور 3اگست
کو جرمنی نے بیلجیم اور لکسمبرگ پر حملہ کردیا۔
واقعات
اگست 15کو آسٹریا کے رفیق جرمنی کی فوجیں ہالینڈ ،بیلجیم کے ممالک کو روندتی ہوئی فرانس
کی سرزمین تک پہنچنے کی کوشش کر رہی تھیں۔جرمنوں نے فرانس پر حملہ آور ہونے کے لیے
جو منصوبہ تیار کیا تھا۔ اس میں یہ قرار پایا تھا کہ فرانس کے شمالی ساحل کے ساتھ ساتھ ہو کر
فرانس کے دارلخالفہ پیرس پر اس طرح حملہ کیا جائے جیسے پھیلے ہوئے بازو کی درانتی وار
کرتی ہے۔ فرانسیسی فوج کا اعلی کمان اس منصوبے کو بھانپ نہ سکا اور اس نے اپنی مشرقی
سرحد پر سے جرمنوں پر 14اگست کو حملہ کر دیا۔ یہ حملہ تدبیر و منصوبہ کے تحت نہیں ہوا
تھا -ل ٰہذا جرمنوں نے جو پہلے ہی گھات لگائے بیٹھے تھے ،ایک بھرپور وار کیا اور فرانسیسی
واپس ہٹنے پر مجبور ہوگئے۔
اس کے بعد جرمنوں نے اپنے حملے کی سکیم کو ،جسے شلفن منصوبہ کہتے ہیں اور جو
1905ء سے تیار پڑا تھا ۔ عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا۔ جلد ہی فرانس کے دارالحکومت کو
خطرہ الحق ہوگیا۔ فرانس کی بدقسمتی سے اس وقت اس کی بے نظیر افواج کی قیادت جافرے کے
ہاتھوں میں تھی۔ جو مدبر سپہ ساالر ثابت نہ ہوا۔ انگریزوں کا جرنیل ہیگ بھی جرمنوں کے
جرنیلوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ لہذا ایسا معلوم ہونے لگا کہ پیرس چند دنوں میں ہی ہار جائے
گا۔ مگر عین اس وقت ایک ہوشمند فرانسیسی جرنیل گلینی نمودار ہوا۔ جس نے جرمنوں پر وہ
کاری وار کیا کہ انھیں پریشانی کے عالم میں پیچھے ہٹتے ہی بنی۔ اس کے بعد جرمنوں کی پیش
قدمی رک گئی اور آئندہ چار برسوں تک بھی تھوڑا جرمن بڑھ آتے تو کبھی فرانسیسی ۔ مگر
انگریزوں نے کوئی خاص کارنمایاں انجام نہ دیا۔ نہ انھوں نے س وقت تک فاش جیسا جرنیل پیدا
کیا تھا جس کے زیر قیادت اتحادیوں کو باآلخر فتح نصیب ہوئی ۔ نہ ان کے سپاہیوں نے وردن
جیسی خونریز لڑائی لڑی جس میں فرانس کے 315000آدمی بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے
مارے گئے۔ جرمن جرنیلوں میں سب سے زیادہ نام جن اشخاص نے پایا وہ لوڈنڈارف اور ہنڈنبرگ
تھے۔ فرانسیسی جرنیلوں میں فاش اور پتیان قابل ذکر ہیں۔ انگرزیوں میں الرڈ ایلن بائی ہے۔
پہلی عالمی جنگ بیسویں صدی کا پہال بڑا عالمی تنازعہ تھا۔ اس تنازعے کی ابتدا ھبزبرگ
آرکڈیوک ٖفرانز فرڈنینڈ کے قتل سے ہوئی جو اگست 1914میں شروع ہوا اور اگلی چار دہائیوں
تک مختلف محاذوں پر جاری رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحادی قوتوں۔۔برطانیہ ،فرانس،
سربیا اور روسی بادشاہت (بعد میں اٹلی ،یونان ،پرتگال ،رومانیہ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ بھی
شامل ہو گئے)۔۔جرمنی اور آسٹریہ۔ہنگری پر مشتمل مرکزی قوتوں کے خالف لڑیں جن کے ساتھ
بعد میں سلطنت عثمانیہ کا مرکز ترکی اور بلغاریہ بھی شامل ہو گئے۔ جنگ کا ابتدائی جوش و
جزبہ اس وقت ماند پڑ گیا جب لڑائی ایک انتہائی مہنگی اور خندقوں کی جنگ جیسی شکل اختیار
کر گئی۔ مغربی محاذ پر خندقوں اور قلعہ بندیوں کا سلسلہ 475میل تک پھیل گیا۔ مشرقی محاذ پر
وسیع تر عالقے کی وجہ سے بڑے پیمانے کی خندقوں کی لڑائی ممکن نہ رہی لیکن تنازعے کی
سطح مغربی محاذ کے برابر ہی تھی۔ شمالی اٹلی ،بالکن عالقے اور سلطنت عثمانیہ کے ترکی میں
بھی شدید لڑائی ہوئی۔ لڑائی سمندر کے عالوہ پہلی مرتبہ ہوا میں بھی لڑی گئی۔
نتائج
اس جنگ میں ایک طرف جرمنی ،آسٹریا ،خنگری سلطنت ،ترکی اور بلغاریہ ،اور دوسری
طرف برطانیہ ،فرانس ،روس ،اٹلی ،رومانیہ ،پرتگال ،جاپان اور امریکاتھے۔ 11نومبر
1918ء کو جرمنی نے جنگ بند کردی ۔ اور صلح کی درخواست کی ۔ 28جون 1919کو فریقین
کے مابین معاہدہ ورسائی ہوا۔ مسلمان دنیا پر اس کا بہت برا اثر پڑا۔چونکہ ترکی جرمنی کا اتحادی
رہا اس لیے اسے اس جنگ کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ انگریزوں نے عربوں کو ترکوں
کے خالف جنگ پر اکسایا اس طرح مسلمانوں میں قومیت کی بنیاد پر جنگ لڑی گئی۔ اور ترکی
کے بہت سے عرب مقبوضات ترکی سلطان کے ہاتھ سے چلے گئے۔ بعد میں انگریزوں نے ترکی
پر بھی قبضہ کر لیا اور ترقی کی تقسیم کا فیصلہ کیا۔ لیکن کمال اتاترک جیسی عظیم شخصیت نے
برطانیہ اور یونان کو ایسا کرنے سے باز رکھا۔ اسی جنگ کے نتیجے میں مسلمانوں کی عظیم
خالفت کا خاتمہ ہوگیا۔ جنگ عظیم میں دونوں فریقوں کے تقریبا ً ایک کروڑ آدمی کام آئے اور دو
کروڑ کے لگ بھگ ناکارہ ہوگئے۔
پہلی جنگ 95برس پہلے نومبر کے مہینے میں ختم ھوئی تھی۔ مگر یہ جنگ آج بھی ظلم و
برداشت کے داستانوں اور برداشت و رواداری کے جزبوں کو مزید کم سے کم تر کرتی چلی گئی۔
دنیا کے بیشتر اقوام اس جنگ میں آہستہ آہستہ حصہ بنتے گئے۔ اور یوں پوری دنیا اس جنگ کی
آگ جھلستی چلی گئی۔ دنیا میں پہلی بار جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔ پہلی بار دنیا نے کیمیائی
اور زہریلی گیس کا استعمال دیکھا۔ یہ انسانی تاریخ کی تباہ کن جنگ تھی۔ جس میں تقریبا ً 90الکھ
مرد میدان جنگ میں ہالک ھوئے۔ اور اتنے ہی افراد غربت ،بھوک اور بیماری کی نزر ھوگئے۔
تاریخ کے مطابق 19ویں صدی کے آواخر میں یورپ میں اتحاد بننے لگے تھے۔ 1904میں
فرانس اور برطانیہ نے ایک معاہدہ کیا جو باقاعدہ اتحاد تو نہیں تھا۔ تاہم قریبی تعلقات کے لیے بے
حد اہمیت کا حامل تھا۔ اسی طرح ایک معاہدہ برطانیہ اور روس کے مابین 1907میں (TRIPLE
)ENTENTEکے نام سے ایک معاہدہ ہوا تھا۔ جس میں روس ،فرانس اور برطانیہ شامل تھے۔
اب یورپ تقسیم ھوگیا۔ ایک طرف جرمنی ،آسٹریا ،ھنگری ،سربیا اور اٹلی جبکہ دوسری طرف
روس ،فرانس اور برطانیہ تھے۔ جاپان بھی 1902میں برطانیہ سے معاہدہ کر چکا تھا۔ اس لیے
اس نے برطانیہ کی طرفداری کرتے ھوئے اعالن جنگ کیا۔ اسی خوف اور طاقت کے نشے میں
دنیا کے بیشتر ممالک اس جنگ کا حصہ بنتے چلے گئے۔ پہلی عالمی جنگ بیسویں صدی کا پہال
بڑا تنازعہ تھا۔ اس تنازعے کی بظاہر ابتدا ایک قتل سے ھوئی۔ لیکن جنگ کے سائے کافی
165 | P a g e )Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM
عرصے سے ان عالقوں پر منڈال رھے تھے۔ لیکن اس کا باقاعدہ آغاز 1914میں قتل کے بعد ہوا۔
پہلی جنگ عظیم جدید تاریخ کی سب سے زیادہ تباہ کن لڑائی تھی۔ اس جنگ میں عام شہریوں کے
ساتھ ساتھ ایک کروڑ فوجی بھی ہالک ھوئے۔ ہالکتوں کی اتنی تعداد اس وجہ سے تھی کیونکہ
بری ،بحری اور فضائی لحاظ سے جدید سے جدید تر ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال ہوا۔ اس جنگ
میں ایک طرف برطانیہ اوور اس کے حواری تھے۔ جبکہ دوسری طرف جرمنی اور ترکی کے
آخری سلطان کی فوجیں صف آرا تھیں۔ اس جنگ میں جانی اور مالی لحاظ سے اتنا نقصان ہوا۔ کہ
دنیا کی تاریخ میں اسکی مثال مشکل سے ملے گی۔ بلکہ اگر یہ کھا جائے تو غلط نہ ھوگا۔ کہ دنیا
میں اس جنگ سے پہلے کی جتنی اموات ھوئی تھیں ،کو اگر ایک طرف رکھاجائے اور اس جنگ
میں جتنی اموات ھوئیں۔ یہ اموات اُن تمام جنگوں سے زیادہ تھیں۔ پہلی عالمی جنگ میں دو کروڑ
سے زیادہ افراد ہالک ،الکھوں غربت ،بھوک ،بیماریوں کی نزر ھوگئےتھے۔ ان تمام میں ہالک
فوجیوں کی تعداد الگ تھی۔ جوکہ ایک کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ پہلی عالمگیر جنگ اس بات کی
غمازھے۔ کہ دنیا چاہے جتنی بھی ترقی کرے۔ اور انسان جتنا بھی اپنے آپ کو مہذب کہالئے ،وہ
نظریئے اور زہنیت سے اب بھی ایک وحشی درندے سے کم نہیں۔ اور اُس نے اکثر مواقع پر یہ
بات ثابت کی ہے۔ پچھلی صدی کی یہ جنگ عالمی امن و برداشت کے لیے کام کرنے والے لوگوں
اور اس نظریئے کے لیے ایک زہر قاتل کی حثیت رکھتی ہے۔ انسان اب بھی اگر عالمی امن
وبرداشت کے حوالے سے کوئی قدم اٹھاتا ہے۔ تو اُسے اپنے اسالف اور آباواجداد کے ہاتھوں لڑی
گئی اس جنگ کی طرف بھی ایک بار دیکھنا پڑتاھے۔ کیونکہ مہذب دنیا کے منہ پریہ جنگ ایک
زوردار طمانچہ ہے۔
دوسری ج ن گ عظ ی م
دوسری جنگ عظیم (انگریزی World War II :یا )Second World Warایک عالمی جنگ
تھی جو 1939ء سے شروع ہوئی اور 1945ء میں ختم ہوئی۔
جنگ عظیم کے مختلف /مناظر
آغاز
دو جنگ عظیم
پہلی جنگ عظیم – دوسری جنگ عظیم
جنگ عظیم کا بیج اسی وقت بو دیاگیا تھا جب معاہدہ ورسائی پر دستخط ہوئے تھے۔ لیکن اس کا
باقاعدہ آغاز 3ستمبر 1939ء کو ہوا جب پولینڈ پر جرمنی حملہ آور ہوا اور برطانیہ نے جرمنی
کے خالف اعالن جنگ کردیا۔ 1918ء سے 1939ء تک کی یورپین تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو
معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ اس کا خواہاں تھا کہ ہٹلر زیادہ سے زیادہ طاقت پکڑ جائے۔ اسی غرض
سے اس نے چیکو سلواکیہ کے حصے بخرے کیے ،اور پھر پورے چیکوسلواکیہ پر جرمنوں کا
قبضہ ہونے پر بھی برطانیہ خاموش رہا کہ ہٹلر کی حکومت مضبوط ہو جائے تاکہ وہ روس پر
حملہ کرے۔ مگر جب ہٹلر نے روس پر حملہ کرنے کے بجائے پولینڈ پر حملہ کر دیا تو انگریز
گھبرا اٹھے اور انھوں نے پولینڈ کی حمایت میں نازی جرمنی کے خالف ہتھیار اٹھاے۔
واقعات
1939ء
1940ء
9اپریل 1940ء کو جرمنی نے ڈنمارک پر قبضہ کر لیا۔ اور ناروے پر حملہ کیا۔ 10مئی کو
جرمنی نے بلیجیم ،ہالینڈ ،اور لکسمبرگ پر حملہ کیا۔انہی دنوں چرچل وزیر اعظم بنا۔ 10جون کو
1941ء
14اپریل 1941ء روس اور جاپان نے معاہدہ غیر جانبداری سامنے آیا۔ 22جون کو روس پر
جرمنی نے حملہ کر دیا۔ 25تا 29اگست برطانیہ اور روس کا ایران پر حملہ اور قبضہ ہوا۔
7دسمبر کو جنگ میں اعالن کے بغیر جاپان نے شمولیت اختیار کی۔ 8دسمبر کو جاپان نے امریکا
کے خالف اعالن جنگ کر دیا۔ 11دسمبر کو جرمنی اور اطالیہ کی طرف سے امریکا کے خالف
اعالن جنگ کا ہوا۔
1943ء
26جوالئی 1943ء میں مسولینی کی حکومت کا تختہ الٹ دیاگیا۔ اور وہ گرفتار ہوا۔ 9ستمبر
1943ء اطالیہ نے اتحادیوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔مسولینی کو خود عوام نے چوک پر پھانسی
دینے کے بعد الش کو آگ لگادی۔
1944ء
جون 1944ء اتحادی فوجیں سرزمین فرانس پر اتریں .فرانسیسی فوج نےجرمن فوج سے بری
طرح شکست کھائی اور ہتھیار ڈال دیے .بعد میں سب موت کے گھاٹ اتار دیے گئے.جرمنی کا
زوال سٹالن گراڈ کی بھیانک جنگ سے شروع ہوا۔ جرمن فوج بالشبہ کامیاب تھی لیکن سردی اور
برف باری نے ان کی شکست یقینی بنادی .ہزاروں فوجی سردی کی وجہ سے ہالک ہوۓ.سٹالن
گرڈ کا قومی ہیرو Vasili Zaistovکو مانا جاتا ہے جوکہ بہترین نشانہ باز تھے.
1945ء
28اپریل کو مسولینی کو اطالوی عوام نے پھانسی دے دی۔ 30اپریل کو ہٹلر نے خود کشی کر لی۔
7مئی کو جرمنی نے ہتھیار ڈال دیے۔ 6اگست کو جاپان کے شہر ہیروشیما پر امریکا نے ایٹم بم
گرایا۔ 9اگست کو جاپان کا دوسرا شہر ناگا ساکی ایٹم بم کا نشانہ بنا۔ 14اگست کو جاپان نے ہتھیار
ڈال دیے۔
نتائج
اس جنگ میں 61ملکوں نے حصہ لیا۔ ان کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا 80فیصد تھی۔ اور
فوجوں کی تعداد ایک ارب سے زائد۔ تقریبا ً 40ملکوں کی سرزمین جنگ سے متاثر ہوئی۔ اور 5
کروڑ کے لگ بھگ لوگ ہالک ہوئے۔ سب سے زیادہ نقصان روس کا ہوا۔ تقریبا ً 2کروڑ روسی
مارے گئے۔ اور اس سے اور کہیں زیادہ زخمی ہوئے۔ روس کے 1710شہر اور قصبے ۔ 70000
گاؤں اور 32000کارخانے تباہ ہوئے۔ پولینڈ کے ، 600،000یوگوسالویہ کے 1700000فرانس
کے 600000برطانیہ کے ، 375000اور امریکا کے 405000افراد کام آئے۔ تقریبا ً 6500000
جرمن موت کے گھات اترے اور 1600000کے قریب اٹلی اور جرمنی کے دوسرے حلیف ملکوں
کے افراد مرے۔ جاپان کے 1900000آدمی مارے گئے۔ جنگ کا سب سے ظالمانہ پہلو ہیروشیما
اور ناگاساکی پر امریکا کا ایٹمی حملہ تھا۔ جاپان تقریبا ً جنگ ہار چکا تھا لیکن دنیا میں انسانی
حقوق کے نام نہاد ٹھیکے دار امریکہ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے الکھوں لوگوں کو
موت کے گھاٹ اتار دیا۔