You are on page 1of 169

‫وجوہات‬

‫جہاں تک سیاسی زاویے کا تعلق ہے۔ تو اگر دیکھا جائے تو جنگ آزادی کے بعد چونکہ اقتدار‬
‫مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد مسلمان قوم جمود اور اضمحالل کا شکار ہو چکی تھی ۔‬
‫جبکہ ہندوئوں نے انگریزوں سے مفاہمت کی راہ اختیار کر لی اور حکومت میں اہم خدمت انجام‬
‫دے رہے تھے اوران کے برعکس مسلمان قوم جو ایک صدی پہلے تک ساری حکومت کی اجارہ‬
‫دار تھی اب حکومتی شعبوں میں اس کا تناسب کم ہوتے ہوتے ایک اور تیس کا رہ گیا۔ علی گڑھ‬
‫تحریک نے مسلمانوں کی اس پسماندگی کو سیاسی انداز میں دور کرنے کی کوشش کی ۔کالج اور‬
‫تہذیب اخالق نے مسلمانوں کی سیاسی اور تمدنی زندگی میں ایک انقالب برپا کیا ۔ اور انھیں‬
‫سیاسی طور پرایک عالحدہ قوم کا درجہ دیا۔‬
‫مذہبی حوالے سے سرسید احمد خان نے مذہب کا خول توڑنے کے بجائے فعال بنانے کی کوشش‬
‫کی۔ ایک ایسے زمانے میں جب مذہب کے روایتی تصور نے ذہن کو زنگ آلود کر دیا تھا۔ سرسید‬
‫احمد خان نے عقل سلیم کے ذریعے اسالم کی مدافعت کی اور ثابت کر دیا کہ اسالم ایک ایسا مذہب‬
‫ہے جو نئے زمانے کے نئے تقاضوں کو نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ نئے حقائق کی عقلی‬
‫توضیح کی صالحیت بھی رکھتا ہے۔‬

‫ادبی زاویہ‬
‫علی گڑھ تحریک کا تیسرا فعال زوایہ ادبی ہے اور اس کے تحت نہ صرف اردو زبان کو وسعت‬
‫ملی بلکہ اردو ادب کے اسالیب ِ بیان اور روح معانی بھی متاثر ہوئے ۔ اور اس کے موضوعات کا‬
‫دائرہ وسیع تر ہو گیا۔سرسید سے پہلے اردو ادبیات کا دائرہ تصوف ‪ ،‬تاریخ اور تذکرہ نگاری تک‬
‫محدود تھا ۔ طبعی علوم ‪ ،‬ریاضیات اور فنون لطیفہ کی طرف توجہ بہت کم دی جاتی تھی۔ سرسید‬
‫کااثر اسلوب بیان پر بھی ہوا اور موضوع پر بھی ۔ اگرچہ سرسید سے پہلے فورٹ ولیم کالج کی‬
‫سلیس افسانوی نثر ‪ ،‬دہلی کی علمی نثر اور مرزا غالب کی نجی نثر جس میں ادبیت اعلی درجے‬
‫کی ہے۔ نظر انداز نہیں کی جا سکتی ۔ لیکن ان سب کوششوں کا دائرہ بہت زیادہ وسیع نہیں تھا۔‬
‫سرسید احمد خان کی بدولت نثر میں موضوعات کا تنوع اور سادگی پید اہوئی ۔آئیے جائزہ لیتے ہیں‬
‫کہ سرسید تحریک نے اردو ادب کے کون کون سے شعبوں کو متاثر کیا۔‬

‫اردو نثر‬
‫چونکہ علی گڑھ تحریک نے قومی مقاصد کو پروان چڑھانے کا عہد کیا تھا اور ان کا روئے سخن‬
‫خواص سے کہیں زیادہ عوام کی طرف تھا اس لئے صرف شاعری اس تحریک کی ضرورت کی‬
‫کفیل نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لئے علی گڑھ تحریک نے سستی جذباتیت کو فروغ دینے کے بجائے‬
‫گہرے تعقل تدبر اور شعور کو پروان چڑھانے کا عہد کیا تھا اور صرف اردو نثر ان مقاصد میں‬
‫زیادہ معاونت کر سکتی تھی۔ چنانچہ ادبی سطح پر علی گڑھ تحریک نے اردو نثر کا ایک باوقار ‪،‬‬
‫مقفی اور مسجع اسلوب سے نجات دال کر‬‫سنجیدہ اور متوازن معیار قائم کیا اور اُسے شاعری کے ٰ‬
‫سادگی اور متانت کی کشادہ ڈگر پر ڈال دیا اور یوں ادب کی افادی اور مقصدی حیثیت اُبھر کر‬
‫سامنے آئی۔‬

‫سوانح اور سیرت نگاری‬


‫علی گڑھ تحریک نے سائنسی نقطہ نظر اور اظہار کی صداقت کو اہمیت دی تھی اور اس کا سب‬
‫سے زیادہ اثر سوانح اور سیرت نگاری کی صنف پر پڑا ۔ اٹھارویں صدی میں عیسائی مبلغین نے‬
‫ہادی اسالم حضرت محمد اور دیگر نامور مسلمانوں کے غلط سوانحی کوائف شائع کرکے اسالم‬
‫کے بارے میں غلط فہمیاں پھیالنے کی کوشش کی تھی۔ عیسائی مبلغین کی ان کوششوں میں کبھی‬
‫کبھی ہندو مورخ بھی شامل ہو جاتے تھے۔ علی گڑھ تحریک چونکہ مسلمانوں کی نشاة ثانیہ کو‬
‫‪1|Page‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫فروغ دے رہی تھی اس لئے اسالم اور بانی اسالم کے بارے میں پھیالئی گئی غلط فہمیوں کے‬
‫ازالہ کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ سرسید کی ”خطبات احمدیہ “ مولوی چراغ علی کے دورسالے‬
‫”بی بی حاجرہ“ ‪ ،‬اور ”ماریہ قبطیہ“ڈپٹی نذیر احمد کی ”امہات اال“ میں تاریخی صداقتوں کو پیش‬
‫کیا گیا۔‬
‫لیکن اس دور کے سب سے بڑے سوانح نگار شبلی نعمانی اور الطاف حسین حالی تھے۔ موالنا‬
‫شبلی نے نامور ان اسالم کوسوانح نگاری کا موضوع بنایا اور ان کی زندگی اور کارناموں کو‬
‫تاریخ کے تناظر میں پیش کرکے عوام کو اسالم کی مثالی شخصیتوں سے روشناس کرایا جبکہ‬
‫موالنا حالی نے اپنے عہد کی عظیم شخصیات کا سوانحی خاکہ مرتب کیا۔ چنانچہ ”یادگار غالب“‬
‫”حیات جاوید“ اور ”حیات سعدی“ اس سلسلے کی کڑیا ں ہیں۔ اس عہد کے دیگر لوگ جنہوں نے‬
‫سوانح عمریا ں لکھیں ان میں ڈپٹی نذیر احمد ‪ ،‬مولوی چراغ علی اور عبدالحلیم شرر شامل ہیں۔‬

‫تاریخ نگاری‬
‫سرسید احمد خان نئی تعلیم کے حامی اور جدیدیت کے علمبردار تھے انہوں نے حضور نبی کریم‬
‫کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کے لئے اخالقیات کی خالص قدروں کو فروغ دینے کی کوشش کی۔‬
‫علی گڑھ تحریک نے قومی زندگی میں جو ولولہ پیدا کیا تھا اسے بیدار رکھنے کے لئے ملی تاریخ‬
‫سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن اس تحریک نے تاریخ کو سپاٹ بیانیہ نہیں بنایا‬
‫بلکہ اس فلسفے کو جنم دیا کہ تاریخ کے اوراق میں قوم اور معاشرے کا دھڑکتا ہوا دل محفوظ ہوتا‬
‫ہے۔ جس کا آہنگ دریافت کرلینے سے مستقبل کو سنوارا اور ارتقاءکے تسلسل کو برقرار رکھا جا‬
‫سکتا ہے۔ اسی نقطہ نظر سے سرسید احمد خان نے ”آئین اکبری“ ”تزک جہانگیری“ اور تاریخ‬
‫فیروز شاہی دوبارہ مرتب کیں۔ شبلی نعمانی نے ”الفاروق“ ‪” ،‬المامون“ اور اورنگزیب عالمگیر پر‬
‫ایک نظر لکھیں۔ جبکہ مولوی ذکا ہللا نے ”تاریخ ہندوستان “ مرتب کی۔‬
‫علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کے شاندار ماضی کی قصیدہ خوانی نہیں کی اور نہ ہی اسالف کی‬
‫عظمت سے قوم کو مسحور کیا بلکہ سرسید احمد خان کا ایمان تھا کہ بزرگوں کے یادگار کارناموں‬
‫کو یاد رکھنا اچھی اور برا دونوں طرح کا پھل دیتا ہے۔ چنانچہ اس تحریک نے تاریخ کے برے‬
‫پھل سے عوام کو بچانے کی کوشش کی اور ماضی کے تذکرہ جمیل سے صرف اتنی توانائی‬
‫حاصل کی کہ قوم مستقبل کی مایوسی ختم کرنے کے لئے ایک معیار مقرر کر سکے۔ علی گڑھ‬
‫تحریک نے تاریخ نگاری کے ایک الگ اسلوب کی بنیاد رکھی بقول سرسید‬
‫” ہر فن کے لئے زبان کا طرز بیان جداگانہ ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں ناول اور ناول میں تاریخانہ‬
‫طرز کو کیسی ہی فصاحت و بالغت سے برتا گیا ہو دونوں کو برباد کر دیتا ہے۔“ اس لئے علی‬
‫گڑھ تحرےک نے تاریخ نگاری میں غیر شخصی اسلوب کو مروج کیا اور اسے غیر جانبداری‬
‫سے تاریخ نگاری میں استعمال کیا ۔ اس میں شک نہیں کہ تاریخ کا بیانیہ انداز نثر کی بیشتر‬
‫رعنائیوں کو زائل کر دیتا ہے۔ تاہم سرسید احمد خان تاریخ کو افسانہ یا ناول بنانے کے حق میں‬
‫ہرگز نہیں تھے اور وہ شخصی تعصبات سے الگ رہ کر واقعات کی سچی شیرازہ بندی کرنا‬
‫چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے تاریخ کے لئے سادہ اور بیانیہ نثر استعمال کرنے پر زور دیا۔ اور‬
‫اس نقطہ نظر کے تحت آثار الصنادید کی بوجھل نثر کو سادہ بنایا۔‬

‫علی گڑھ تحریک اور تنقید‬


‫علی گڑھ تحریک نے زندگی کے جمال کو اجاگر کرنے کے بجائے مادی قدروں کو اہمیت دی۔‬
‫چنانچہ ادب کو بے غرضانہ مسرت کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے ایک ایسا مفید وسیلہ قرار دیا‬
‫گیا جو مادی زندگی کو بدلنے اور اسے مائل بہ ارتقاءرکھنے کی صالحیت رکھتاتھا۔ ادب کا یہ‬
‫افادی پہلو بیسویں صدی میں ترقی پسند تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ تاہم یہ اعزاز علی گڑھ‬
‫تحریک کو حاصل ہے کہ اردو زبان کے بالکل ابتدائی دور میں ہی اس ی عملی حیثیت کو اس‬
‫تحریک نے قبول کیا اور ادب کو عین زندگی بنا دیا۔ اس اعتبار سے بقول سید عبدہللا سرسید سب‬
‫پہلے ترقی پسند ادیب اور نقاد تھے۔ اول الذکر حیثیت سے سرسید احمد خان نے ادب کو تنقید حیات‬
‫‪2|Page‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫کا فریضہ سرانجام دینے پر آمادہ کیا اور موخر الذکر حیثیت سے ادب کی تنقید کے موقر اصول‬
‫وضع کرکے اپنے رفقاءکو ان پر عمل کرنے کی تلقین کی۔‬
‫اگرچہ سرسید احمد خان نے خودفن تنقید کی کوئی باقاعدہ کتاب نہیں لکھی لیکن اُن کے خیاالت نے‬
‫اعلی تحریر وہی ہے جس میں سچائی‬ ‫ٰ‬ ‫تنقیدی رجحانا ت پر بڑا اثر ڈاال۔ ان کا یہ بنیادی تصور کہ‬
‫ہو‪ ،‬جو دل سے نکلے اور دل پر اثر کرے بعد میں آنے والے تمام تنقیدی تصورات کی اساس ہے۔‬
‫اعلی نثر کی ضروری شرط خیا ل کیا‬ ‫ٰ‬ ‫سرسید احمد خان نے قبل عبا ت آرائی اور قافیہ پیمائی کو‬
‫جاتاتھا لیکن سرسید احمد خان نے مضمون کا ایک صاف اور سیدھا طریقہ اختیار کیا ۔ انہوں نے‬
‫انداز بیان کے بجائے مضمون کو مرکزی اہمیت دی اور طریق ادا کو اس کے تابع کر دیا ۔ سرسید‬
‫احمد خان کے یہ تنقیدی نظریات ان کے متعدد مضامین میں جابجا بکھرے ہوئے ہیں اور ان سے‬
‫سرسید احمد خان کا جامع نقطہ نظر مرتب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا‬
‫ہے کہ علی گڑھ تحریک نے ایک ان لکھی کتاب پر عمل کیا۔‬
‫علی گڑھ تحریک سے اگر پہلے کی تنقیدی پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ علی گڑھ تحریک‬
‫سے قبل کی تنقید صرف ذاتی تاثرات کے اظہار تک محدود تھی ۔ لیکن سرسید احمد خان نے ادب‬
‫کو بھی زندگی کے مماثل قرار دیا۔ اور اس پر نظری اور عملی زاویوں سے تنقیدی کی ۔ گو کہ‬
‫سرسید احمد خان نے خود تنقید کی کوئی باضابطہ کتاب نہیں لکھی ۔ تاہم ان کے رفقاءمیں سے‬
‫الطاف حسین حالی نے ”مقدمہ شعر و شاعری“ جیسی اردو تنقید کی باقاعدہ کتاب لکھی اور اس کا‬
‫عملی اطالق ”یادگار غالب “ میں کیا۔ موالنا حالی کے عالوہ شبلی نعمانی کے تنقیدی نظریات ان‬
‫کی متعدد کتابوں میں موجود ہیں۔ ان نظریات کی عملی تقلید ”شعر العجم “ ہے۔‬
‫سرسید نے صرف ادب اور اس کی تخلیق کو ہی اہمیت نہیں دی بلکہ انہوں نے قار ی کو اساسی‬
‫حیثیت کو بھی تسلیم کیا۔ انہوں نے مضمون کو طرزادا پر فوقیت دی ۔ لیکن انشاءکے بنیادی‬
‫تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ بلکہ طرز ادا میں مناسب لطف پیدا کرکے قاری کو سحر‬
‫اسلوب میں لینے کی تلقین بھی کی۔ چنانچہ ان کے رفقاءمیں سے موالنا شبلی اور ڈپٹی نذیر احمد‬
‫کے ہاں مضمون اور اسلوب کی ہم آہنگی فطری طور پرعمل میں آتی ہے اور اثر و تاثیر کی‬
‫ضامن بن جاتی ہے۔ اگرچہ ان کے مقابلے میں حالی کے ہاں تشبیہ اور استعارے کی شیرینی کم‬
‫ہے تاہم وہ موضوع کا فکری زاویہ ابھارتے ہیں او ر قاری ان کے دالئل میں کھو جاتا ہے۔ اس‬
‫طرح مولوی ذکاءہللا کا بیانیہ سادہ ہے لیکن خلوص سے عاری نہیں جبکہ نواب محسن الملک کا‬
‫اسلوب تمثیلی ہے اور ان کی سادگی میں بھی حالوت موجود ہے۔‬

‫علی گڑھ تحریک اور مضمون نویسی‬


‫اصناف نثر میں علی گڑھ تحریک کا ایک اور اہم کارنامہ مضمون نویسی یا مقالہ نگاری ہے۔ اردو‬
‫نثر میں مضمون نویسی کے اولین نمونے بھی علی گڑھ تحریک نے ہی فراہم کئے ۔ جیسا کہ پہلے‬
‫ذکر ہو چکا ہے کہ سفر یورپ کے دوران سرسید احمد خان وہاں کے بعض اخبارات مثالً سپکٹیڑ‪،‬‬
‫ٹیٹلر ‪ ،‬اور گارڈین وغیر ہ کی خدمات سے بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے اور سرسید احمد خان نے‬
‫انہی اخباروں کے انداز میں ہندوستان سے بھی ایک اخبار کا اجراءکا پروگرام بنایا تھا۔ چنانچہ‬
‫وطن واپسی کے بعد سرسید احمد خان نے ”رسالہ تہذیب االخالق“ جاری کیا۔ اس رسالے میں‬
‫سرسید احمد خان نے مسائل زندگی کو اُسی فرحت بخش انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی جو‬
‫مذکورہ باال رسائل کا تھا۔‬
‫سرسید احمد خان کے پیش نظر چونکہ ایک اصالحی مقصد تھا اس لئے ان کے مضامین اگرچہ‬
‫انگریزی ‪Essay‬کی پوری روح بیدار نہ ہو سکی تاہم علی گڑھ تحریک اور تہذیب االخالق کی‬
‫بدولت اردو ادب کا تعارف ایک ایسی صنف سے ہوگیا جس کی جہتیں بے شمار تھیں اور جس میں‬
‫اظہار کے رنگا رنگ قرینے موجود تھے۔‬
‫تہذیب االخالق کے مضمون نگاروں میں سرسید احمد خان ‪ ،‬محسن الملک ‪ ،‬اور مولوی پیر بخش‬
‫کے عالوہ دیگر کئی حضرات شامل تھے۔ ان بزرگوں کے زیر اثر کچھ مدت بعد اردو میں مقالہ‬
‫نگاری کے فن نے ہمارے ہاں بڑے فنون ادبی کا درجہ حاصل کر لیا ۔ چنانچہ محسن الملک ‪ ،‬وقار‬
‫الملک ‪ ،‬مولوی چراغ علی ‪ ،‬موالنا شبلی اور حالی کے مقالے ادب میں بلند مقام رکھتے ہیں۔‬
‫‪3|Page‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫علی گڑھ تحریک اور ناول نگاری‬
‫علی گڑھ تحریک میں اصالحی اور منطقی نقطہ نظر کو تمثیل میں بیان کرنے کا رجحان سرسید‬
‫احمد خان ‪ ،‬موالنا حالی اور محسن الملک کے ہاں نمایاں ہے۔ تاہم مولوی نذیر احمد نے اسے فن کا‬
‫درجہ دیا اور تحریک کے عقلی زاویے اور فکری نظریے کے گرد جیتے جاگتے اور سوچتے‬
‫ہوئے کرداروں کاجمگھٹاکھڑا کردیا۔ چنانچہ وہ تما م باتیں جنہیں سرسید احمد خان نسبتا ً بے رنگ‬
‫ناصحانہ لہجے میں کہتے ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد نے انہیں کرداروں کی زبا ن میں کہلوایا ہے اور ان‬
‫میں زندگی کی حقیقی رمق پیدا کر دی ہے۔‬
‫اگرچہ زندگی کی یہ تصویریں بالشبہ یک رخی ہیں اور نذیر احمد نے اپنا سارا زور بیان کرداروں‬
‫کے مثالی نمونے کی تخلیق میں صرف کیا ۔ لیکن یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ سکوت‬
‫دہلی کے بعد مسلمانوں کی زبوں حالی کے پیش نظر اس وقت مثالی کرداروں کو پیش کرنے کی‬
‫ضرورت تھی ۔ چنانچہ صاف اور واضح نظرآتا ہے کہ موالنا شبلی اور موالنا حالی نے جو قوت‬
‫اسالف کے تذکروں سے حاصل کی تھی وہی قوت نذیر احمد مثالی کرداروں کی تخلیق سے حاصل‬
‫کرنے کے آرزو مند ہیں۔ مولوی نذیر احمد کے ناول چونکہ داستانوں کے تخیلی اسلوب سے ہٹ‬
‫کر لکھے گئے تھے اور ان میں حقیقی زندگی کی جھلکیاں بھی موجود تھیں اس لئے انہیں وسیع‬
‫طبقے میں قبولیت حاصل ہوئی اور ان ناولوں کے ذریعے علی گڑھ تحریک کی معتدل اور متوازن‬
‫عقلیت کو زیادہ فروغ حاصل ہوا اس طرح نذیر احمد کی کاوشوں سے نہ صرف تحریک کے‬
‫مقاصد حاصل ہوئے بلکہ ناول کی صنف کو بے پایاں ترقی ملی۔‬

‫علی گڑھ تحریک اور نظم‬


‫علی گڑھ تحریک نے غزل کے برعکس نظم کو رائج کرنے کی کوشش کی ۔ اس کا سبب خود‬
‫سرسید احمد خان یہ بتاتے ہیں کہ‬
‫” ہماری زبان کے علم و ادب میں بڑا نقصان یہ تھا کہ نظم پوری نہ تھی۔ شاعروں نے اپنی ہمت‬
‫عاشقانہ غزلوں اور واسوختوں اور مدحیہ قصوں اور ہجر کے قطعوں اور قصہ کہانی کی مثنویوں‬
‫میں صرف کی تھی۔“ اس بناءپر سرسید احمد خان نے غزل کی ریزہ خیالی کے برعکس نظم کو‬
‫رائج کرنے کی سعی کی۔ نظم کے فروغ میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے موالنا‬
‫الطاف حسین حالی سے ”مسدس حالی“ لکھوائی اور پھر اُسے اپنے اعمال حسنہ میں شمار کیا۔‬
‫سرسید احمد خان شاعری کے مخالف نہ تھے لیکن وہ شاعری کو نیچرل شاعری کے قریب النا‬
‫چاہتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے محمد حسین آزاد کے نےچر مشاعرے کی داد دی اور ان‬
‫کی مثنوی ”خواب امن“ کو دل کھول کر سراہا۔ سرسید احمد خان کی جدیدیت نے اس حقیقت کو‬
‫بھی پالیا تھا کہ قافیہ اور ردیف کی پابندی خیاالت کے فطری بہائو میں رکاوٹ ہے۔ چنانچہ انہوں‬
‫نے بے قافیہ نظم کی حمایت کی اور لکھا کہ‬
‫”ردیف اور قافیہ کی پابندی گویا ذات شعر میں داخل تھی ۔ رجز اور بے قافیہ شعر گوئی کا رواج‬
‫نہیں تھا اور اب بھی شروع نہیں ہوا۔ ان باتوں کے نہ ہونے سے ہماری نظم صرف ناقص ہی نہ‬
‫تھی بلکہ غیر مفید بھی تھی۔“ چنانچہ سرسیداحمد خان کے ان نظریات کااثر یہ ہو ا کہ اردو نظم‬
‫میں فطرت نگاری کی ایک موثر تحریک پیداہوئی ۔ نظم جدید کے تشکیلی دور میں علی گڑھ‬
‫تحریک کے ایک رکن عبدالحلیم شرر نے سرگرم حصہ لیا اور ”رسالہ دلگداز“ میں کئی ایسی‬
‫نظمیں شائع کیں جن میں جامد قواعد و ضوابط سے انحراف برت کر تخلیقی رو کو اظہار کی‬
‫آزادی عطا کی گئی تھی۔‬

‫مجموعی‪ /‬جائزہ‬
‫علی گڑھ تحریک ایک بہت بڑی فکری اور ادبی تحریک تھی ۔ خصوصا ادبی لحاظ سے اس کے‬
‫اثرات کا دائرہ بہت وسیع ثابت ہوا۔ اس تحریک کی بدولت نہ صرف اسلوب بیان اور روح مضمون‬
‫میں بلکہ ادبی انواع کے معاملے میں بھی نامور ان علی گڑھ کی توسیعی کوششوں نے بڑا کام کیا۔‬
‫‪4|Page‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫اور بعض ایسی اصناف ادب کو رواج دیا جو مغرب سے حاصل کردہ تھیں۔ ان میں سے بعض‬
‫رجحانات خاص توجہ کے الئق ہیں۔ مثالً نیچرل شاعری کی تحریک جس میں محمد حسین آزاد کے‬
‫عالوہ موالنا الطاف حسین حالی بھی برابر کے شریک تھے۔ قدیم طرز شاعری سے انحراف بھی‬
‫اسی تحریک کا ایک جزو ہے۔ اردو تنقید جدید کا آغاز بھی سرسید احمد خان اور اُن کے رفقاءسے‬
‫ہوتا ہے۔ سوانح نگار ‪ ،‬سیرت نگاری ‪ ،‬ناول اردو نظم اور مضمون نگاری سب کچھ ہی سرسید‬
‫تحریک کے زیر اثر پروان چڑھا۔‬
‫خ ف‬ ‫ت‬
‫حری ک ال ت‬
‫خلفائے راشدین رضی ہللا ٰ‬
‫تعالی عنھم کے بعد بنو امیہ اور بنو عباس سے ہوتی ہوئی ترکی کے‬
‫عثمانی خاندان کو منتقل ہوئی۔ پہلی جنگ عظیم کے وقت اسالمی سلطنت کا مرکز ترکی تھا اور‬
‫اس کے سربراہ خلیفہ عبدالحمید تھے۔‬
‫خلفائے راشدین نے دارالحکومت کا درجہ مدینہ منورہ کو دیا جبکہ حضرت علی نے انتظامی‬
‫مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے دارالحکومت کو کوفہ منتقل کیا ۔بنوامیہ کے دور میں دارالحکومت‬
‫کوفہ سے دمشق لے جایا گیا بنی عباس کے دور میں دارالحکومت کی سرگرمیوں کا مرکز بغداد بنا‬
‫۔بغدادکی تباہی (‪1258‬ء ) کے بعد دارالحکومت کو قاہرہ میں لے جایا گیا ۔ ‪1518‬ء میں ترک‬
‫عثمانی بادشاہ سلطان سلیم نے خالفت کے اختیارات سنبھال کر دارالحکومت قسطنطنیہ (استنبول)‬
‫کا اعالن کیا ۔‬
‫پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے برطانیہ کے خالف جرمنی کا ساتھ دیا۔ترکی کی جنگ میں شمولیت‬
‫سے ہندوستان کے مسلمان پریشان ہوئے کہ اگر انگریز کامیاب ہو گیا تو ترکی کے ساتھ اچھا‬
‫سلوک نہیں کیا جائے گا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کا ساتھ دینے کے لیے وزیراعظم‬
‫برطانیہ الئیڈ جارج سے وعدہ لیا کہ جنگ کے دوران میں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے‬
‫حرمتی نہیں ہو گی اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خالفت محفوظ رہے گی۔‬
‫پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست اور برطانیہ کو فتح ہوئی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد‬
‫برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے وعدہ خالفی کرتے ہوئے اپنی فوجیں بصرہ اور جدہ میں داخل‬
‫کردیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کو وعدے یاد دالنے کے لیے اور خالفت کے تحفظ‬
‫کے لیے ایک تحریک شروع کی جسے "تحریک خالفت" کا نام دیا گیا۔‬

‫خالفت کمیٹی کا قیام‬


‫‪ 5‬جوالئی‪1919 ،‬ء کو خالفت کے مسئلے پر رائے عامہ کو منظم کرنے اور متفقہ الئحہ عمل تیار‬
‫کرنے کے لئے بمبئی میں آل انڈیا خالفت کمیٹی قائم کر دی گئی جس کے صدر سیٹھ چھوٹانی اور‬
‫سیکرٹری حاجی صدیق کھتری منتخب ہوئے۔‬

‫مقاصد‬
‫تحریک خالفت کے بڑے بڑے مقاصد یہ تھے‪:‬‬
‫ترکی کی خالفت برقرار رکھی جائے۔‬ ‫‪.1‬‬
‫مقامات مقدسہ(مکہ مکرمہ ‪،‬مدینہ منورہ ) ترکی کی تحویل میں رہیں۔‬ ‫‪.2‬‬
‫ترکی سلطنت کو تقسیم نہ کیا جائے۔‬ ‫‪.3‬‬

‫‪5|Page‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫خالفت کمیٹی کا پہال اجالس نومبر ‪1919‬ء میں دہلی میں ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ مسلمان‬
‫انگریز کے جشن فتح میں شریک نہیں ہوں گے اور اگر ان کے مطالبات منظور نہ ہوئے تو وہ‬
‫حکومت سے عدم تعاون کریں گے۔ اس اجالس میں ہندوؤں سے تعاون کی اپیل کی گئی۔‬

‫ہندو مسلم اتحاد‬


‫آل انڈیا کانگریس نے پہلے ہی رولٹ ایکٹ کے خالف ملک گیر مہم شروع کر رکھی تھی۔ دسمبر‬
‫‪1919‬ء میں آل انڈیا کانگریس‪ ،‬مسلم لیگ اور خالفت کمیٹی کے اجالس امرتسر میں منعقد ہوئے‬
‫جہاںگاندھی جی نے ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا۔‬

‫خالفت وفد انگلستان میں‬


‫‪1920‬ء میں موالنا محمد علی جوہر کی قیادت میں ایک وفد انگلستان‪ ،‬اٹلی اور فرانس کے دورے‬
‫پر روانہ ہوا تاکہ وزیراعظم برطانیہ اور اتحادیوں کو ان کے وعدے یاد دالئے۔ وفد نے برطانیہ‬
‫پہنچ کر وزیراعظم الئیڈ جارج سے مالقات کی لیکن اس کا جواب “آسٹریلیا اور جرمنی سے خوف‬
‫ناک انصاف ہو چکا اور ترکی اس سے کیوں کر بچ سکتا ہے۔“ سن کر مایوسی ہوئی۔ اس کے بعد‬
‫وفد نے اٹلی اور فرانس کا بھی دورہ کیا مگر کہیں سنوائی نہ ہوئی۔‬

‫معاہدہ سیورے‬
‫مکمل مضمون کے لئے دیکھئے معاہدہ سیورے‬

‫خالفت وفد ابھی انگلستان میں ہی تھا کہ ترکی پر معاہدہ سیورے مسلط کردیا گیا۔ جس کے نتیجے‬
‫میں تمام بیرونی مقبوضات ترکی سے چھین لئے گئے‪ ،‬ترکی پر فضائی فوج رکھنے پر پابندی لگا‬
‫دی گئی اور درہ دانیال پر اتحادیوں کی باالدستی قائم رکھی گئی۔‬

‫تحریک ترک مواالت‬


‫وفد خالفت کی ناکام واپسی اور معاہدہ سیورے کی ذلت آمیز شرائط کے خالف خالفت کمیٹی نے‬
‫‪1920‬ء میں تحریک ترک مواالت کا فیصلہ کیا گاندھی کو اس تحریک کا رہنما مقرر کیا گیا۔ اس‬
‫کے اہم پہلو یہ تھے۔‬
‫حکومت کے خطابات واپس کر دئیے جائیں۔‬ ‫‪‬‬
‫ٰ‬
‫استعفی دے دیا جائے۔‬ ‫کونسلوں کی رکنیت سے‬ ‫‪‬‬
‫سرکاری مالزمتوں سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔‬ ‫‪‬‬
‫تعلیمی ادارے سرکاری امداد لینا بند کر دیں۔‬ ‫‪‬‬
‫مقدمات سرکاری عدالتوں کے بجائے ثالثی عدالتوں میں پیش کیے جائیں۔‬ ‫‪‬‬
‫انگریزی مال کا بائیکاٹ کیا جائے۔‬ ‫‪‬‬

‫تحریک ہجرت‬
‫حوالہ درکار؟‬
‫تحریک کے دوران میں کچھ علماء(موالنا عبدالباری‪ ،‬موالنا ابولکالم آزاد‪ ،‬علی برادران )‬
‫ٰ‬
‫فتوی دیا۔ جس پر ہزاروں‬ ‫نے بر عظیم کو دارالحرب قرار دے کر یہاں سے ہجرت کرنے کا‬
‫مسلمانوں نے اپنے گھربار چھوڑ کر افغانستان کی راہ لی۔ یہ ہجرت حکومت افغانستان کے عدم‬
‫تعاون سے ناکام ہوگئی اور مسلمانوں کو کافی جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔‬

‫جامعہ ملیہ کا قیام‬


‫‪6|Page‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫موالنا محمد علی جوہر نے علی گڑھ کی انتظامیہ سے سرکاری امداد نہ لینے کی اپیل کی۔ کالج‬
‫کےانتظامیہ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ جس کے نتیجے میں موالنا محمد علی جوہر نے‬
‫بہت سے طلبہ کو اپنے ساتھ مال کر جامعہ ملیہ کی بنیاد رکھی۔ یہ ادارہ ‪1925‬ء میں دہلی منتقل کر‬
‫دیا گیا۔‬

‫موپلہ بغاوت‬
‫ساحل ماالبار موپلہ مسلمانوں نے تحریک خالفت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کے نتیجے میں‬
‫انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ چنانچہ انہوں نے تنگ آ کر ‪1925‬ء میں بغاوت کر دی۔ حکومت نے‬
‫اس بغاوت کو سختی سے کچل دیا اور ہزاروں موپلوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔‬

‫چورا چوری کا واقعہ‬


‫‪ 5‬فروری ‪1922‬ء کو تحریک خالفت کی حمایت میں لوگوں نے مشتعل ہو کر اترپردیش کے ایک‬
‫گاؤں چورا چوری میں ایک تھانے کو آگ لگا دی جس میں ‪ 22‬سپاہی جل مرے۔ اس واقعے کو آڑ‬
‫بنا کر کرگاندھی نے اعالن کر دیا کہ چونکہ یہ تحریک عدم تشدد پر کار بند نہیں رہی اس لیے‬
‫اسے ختم کیا جاتا ہے۔‬

‫ناکامی کے اسباب‬
‫ناپائیدار‪ /‬اتحاد‬
‫ہندوؤں اور مسلمانوں کا اتحاد سطحی‪ ،‬جذباتی اور وقتی تھا۔ دونوں قوموں کو حکومت کے خالف‬
‫نفرت نے عارضی طور پر اکھٹا کر دیا تھا لیکن شدھی اور سنگھٹن کی تحریکوں نےجلد ہی اس‬
‫اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا اور تحریک خالفت کمزور ہونا شروع ہو گئی۔‬

‫مقاصد میں تضاد‬


‫مسلمانوں کی تحریک خالفت سیاسی فائدے کے بجائے مذہبی جوش و خروش پر مبنی تھی۔ ہندو‬
‫اس سے سیاسی فائدہ تالش کر رہے تھے جو تحریک خالفت کی کامیابی سے ملنا مشکل تھا۔ چناں‬
‫چہ جب تحریک خالفت کامیابی سے ہم کنار ہونے والی تھی تو گاندھی نے تحریک ختم کرنے کا‬
‫اعالن کر کے مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔‬

‫گاندھی جی کی قالبازی‬
‫گاندھی نے اس تحریک کو اس وقت ختم کرنے کا اعالن کیا جب مسلمانوں کے تمام رہنما جیل میں‬
‫تھے اور تحریک کی قیادت سنبھالنے واال کوئی موجود نہیں تھا۔ اس سے تحریک بھی ختم ہو کر‬
‫رہ گئی اور مسلمانوں کا اپنے قائدین سے بھی اعتماد اٹھ گیا۔‬
‫گاندھی جی ہندوؤں کے مہاتما بن گئے اور موالنا محمد علی جوہر گوشہ گم نامی میں چلے گئے۔‬
‫اوراسی حالت یعنی گمنامی میں ان کی وفات ہو گئی۔‬

‫ترکی میں صدارت کا اعالن‬


‫مارچ ‪1924‬ء میں مصطفی کمال پاشا اتاترک نے ترکی کے عالقے آزاد کراکے جمہوریہ کے قیام‬
‫اور اپنی صدارت کا اعالن کر دیا اور ترکی میں خالفت کا خاتمہ ہوگیا۔‬

‫یہودی وطن کے قیام کی سازش‬

‫‪7|Page‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫پہلی جنگ عظیم کے دوران میں برطانوی حکومت نے اعالن بالفور کی رو سے فلسطین کو‬
‫یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی سازش کی۔ اس لیے ترکی خالفت کی سابقہ حدود کو بحال کرنا‬
‫نہیں چاہتی تھی۔‬

‫سعودی عرب کا قیام‬


‫شریف مکہ نے سازش کر کے سعودی عرب کو ترکی سلطنت سے الگ کر لیا تھا۔ جس پر‬
‫عبدالعزیز ابن سعود نے سعودی عرب کے نام سے الگ مملکت کے قیام کا اعالن کر دیا جس سے‬
‫تحریک خالفت ماند پڑ گئی۔‬

‫تحریک خالفت کے نتائج‪/‬‬


‫تحریک خالفت جیسی عوامی تحریک کی مثال برصغیر کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس میں شک‬
‫نہیں کہ یہ تحریک اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہی لیکن اس نے ہندوستان کی سیاست اور‬
‫مسلمانوں کی تاریخ پر گہرے نقوش مرتب کئے۔‬
‫مسلمانوں کی مایوسی‬ ‫‪.1‬‬
‫ہندو مسلم اتحاد کا خاتمہ‬ ‫‪.2‬‬
‫سیاسی شعور کی بیداری‬ ‫‪.3‬‬
‫پر جوش قیادت کا ابھرنا‬ ‫‪.4‬‬
‫علماء اور طلبہ کا سیاست میں داخلہ‬ ‫‪.5‬‬
‫گاندھی جی کی قیادت‬ ‫‪.6‬‬
‫داخلی مسائل کی طرف توجہ‬ ‫‪.7‬‬
‫آل انڈیا کانگریس اور جمعیت علمائے ہند میں تعاون‬ ‫‪.8‬‬
‫ن‬
‫ہرو رپورٹ‬
‫ئ کمیش ت ق‬ ‫ن‬
‫ت‬ ‫ن ن ش ف‬
‫ئجس کا‬
‫ے سا من ن کا رر ک ی ا گ ی ا۔‬ ‫کے ی‬
‫ل‬ ‫ئ‬ ‫‪ 1927‬ئء نمی ں حکومت ب رطا ئی ہ ےت اہ ی ن رمان کے حت ہ دوست شان‬ ‫ق‬
‫ے ج لوس ہ وے۔ اس‬ ‫م شصد آ ی ی فاصشالحات کا ج ا زہ لی ن ا ت ھا۔ ہ دوست ان ب ھر می ں اس کمی ن کا ب ا ی کاٹ ک ی ا گ ی ا اور ج لس‬
‫کمی ن کی س ار ات کو ب ھی ی کسر مس رد کر دی ا گ ی ا۔‬
‫ن‬
‫ہرو ر ورٹ‬ ‫ئ پ‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ش‬
‫ئ‬ ‫نق‬ ‫ف‬ ‫ٹ‬ ‫ق‬ ‫ئ‬
‫سا من کمی ن فن نکے ب ائ ی ت‬
‫وں کی ای ک کا ر س م ع د کی گ ی۔ اس‬ ‫ق‬ ‫امی س یناسی پٹار ی‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫کاٹ کے بن عد ‪ 19‬م ی ‪1928‬ء کو‬ ‫ٹ‬
‫ں موش ی لعل ہرو کی سرب راہ ی می ں ای ک و رک ی کمی ی کا ی ام عم تل می ں الی ا گ ی ا ن۔ دی گر ناراکی ن می ں‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫آل پ ار ی ز کا رشس م‬
‫سردار می گل س گھ ‪،‬‬ ‫ج‬ ‫ع‬
‫ے کارن ‪ ،‬ی ۔ آر ۔ پر ان ن‪ ،‬ن‬ ‫ج‬‫سرت لی امام ‪ ،‬عی تب ری یش‪ ،‬ای م ۔ ا نیس ش۔ امی ن ۔ ‪ ،‬ای مکم۔ٹآر ۔ ق‬
‫ے ای ک‬ ‫ے ہ دوست ا ی وں کے نذرفی نع‬ ‫ہادر سپ رو شاورک ای م ج و ن تی کےن ام ا ل ہ ی ں۔ت ی قیم تکا م صد ہ دو قست ان قکے یل‬ ‫ارج ب ن‬
‫سر ئ ن‬
‫کا ر س‬ ‫س کو کم از کم ت‬ ‫ہ‬
‫ل ب ول و ‪ ،‬ی ا ج‬ ‫ے اب‬ ‫ن وں ئ ن‬
‫کے لی‬ ‫ج‬
‫ے کو ٹ ی ل دی ا ھا و ہ دوصست ان می ں آب کادم ٹمام و ی‬ ‫ڈھا چ‬
‫ے آش ی ی ت‬ ‫ایس‬
‫ے۔ ہ دوست ان کی اری خ می ں‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ہ‬
‫وں کی حمای ت حا تل و۔ اس ی ی ے و آ ی ی رپورٹ ی ار کی ہ‬ ‫می ں ن ری ک مام پ ار ی ن‬
‫ے۔ ی ہ رپورٹ اگست ‪1928‬ء می ں ش ا ع ہ و ی ۔‬ ‫ا‬ ‫ا‬
‫ی کی ج ہ‬‫ا‬ ‫اد‬ ‫سے‬ ‫ام‬ ‫اسے ہرو رپورٹ کے‬
‫ن‬
‫کات‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ج شق‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے کی کو ش کی‬ ‫ڈا‬ ‫ڈاکہ‬ ‫ر‬ ‫وق‬ ‫ح‬ ‫کے‬ ‫وں‬ ‫ما‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫سے‬ ‫وں‬ ‫ن‬ ‫۔‬ ‫ا‬ ‫ا‬‫ھ‬ ‫ک‬‫ر‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫حاظ‬ ‫ی‬ ‫کو‬ ‫کا‬ ‫وں‬ ‫ورٹ می ں مسلما‬ ‫ر‬ ‫ہرو‬
‫ل‬ ‫پ‬ ‫ل‬ ‫گی‬ ‫ل ی‬ ‫پ‬ ‫ئ‬
‫گ ی۔ وہ م ن درج ہ ذی ل ہ ی ں‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ق نت‬
‫ے کہا گ ی ا ۔‬ ‫‪1‬۔ ج داگان ہ طری ہ ا خ اب ات کو م سوخ کرے کے لی‬
‫ئ‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ب ئ‬ ‫فق‬
‫ے و ا ی طرز حکومت کی ج اے وحدا ی طرز حکومت کی س ارش کی گ ی‬ ‫ن‬
‫‪2‬۔ ہ دوست ان کے یل‬

‫‪8|Page‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫ت‬ ‫ب ئ ن‬
‫ے کہا گ ی ا‬ ‫‪3‬۔ مکمل آزادی کی ج اے وآب ادی ا ی طرز آزادی کے لی‬
‫ن‬
‫‪4‬۔ ہ ن دی کو ہ ن دوست ان کی سرکاری زب ان ب ن اے کا م طالب ہ ک ی ا گ ی ا۔‬
‫لک ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫بخ ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی ک ت ئ کم ٹ‬ ‫ف ش‬
‫ن‬
‫ے۔ کی و کہ معاہ دہ ھ ؤ ‪1916‬ء می ں‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫ے کان وبی ا دازا و ا‬ ‫ے ہ وے ج ی ی کے ج ا ب داران ہ رویت‬ ‫ھ‬ ‫ات کوسد‬ ‫ان س ار ن‬ ‫ن‬
‫کا گریس ے م لم ل ی گ کے ن م طال ب ات کو م ظ ور ک ی ا ھا‪ ،‬ہرو رپورٹ می ں ان ہ ی سے ا حراف ک ی ا گ ی ا۔‬
‫ٹ ننش‬ ‫ص ن‬ ‫ضش ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫ن دہ لی‬
‫ے ای ک آل پ ار ی ز ک و ق‬ ‫ے کے لی‬ ‫کر‬ ‫ل‬ ‫حا‬ ‫وری‬ ‫ظ‬ ‫م‬ ‫طہ‬ ‫ت‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫اعدہ‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫ن‬ ‫ورٹ‬ ‫پ‬‫ر‬ ‫ہرو‬
‫‪1928‬ءا می اں۔ مس‬ ‫دسمب ر‬
‫ئ صد‬ ‫کی سرب راہ ی می ں اس م‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ے ب‪ 23‬اراکی نب ر م مل ا ک ن مائ ن دہ کمی ٹی ق ائ داع‬ ‫ن‬ ‫گ‬ ‫لم‬ ‫ئ‬ ‫ط‬
‫ق‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ی ت‬ ‫ش مپ‬ ‫نش‬ ‫تن لی‬ ‫می ں ق ک ی گ ی‬
‫لب‬
‫ے۔‬ ‫آگاہ ک ی ا نج ا ت‬
‫کے مؤ ف سے ت‬ ‫ے انم کر دی ۔ن شاکہ جموزہ ک نو ن می ں ا لسس ی اسی ج ماع وں کوق لم قل ی گ ن ن‬ ‫کے لی‬
‫م‬ ‫ن‬ ‫ع‬ ‫قئ‬
‫تک یئن قکائ ی‬ ‫ے یا‬‫ل ب ول ب اے تکے لی‬ ‫ت‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫ے‬ ‫ی‬
‫ل‬ ‫کے‬ ‫ن‬ ‫گ‬ ‫یٹ‬ ‫ل‬ ‫لم‬ ‫کو‬ ‫ورٹ‬ ‫ر‬ ‫ہرو‬ ‫ں‬ ‫م‬
‫کن ش ی ش م پ ت‬ ‫ن‬ ‫و‬ ‫مذکورہ‬ ‫ے‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫دا‬ ‫فا‬
‫ع‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫ے ک و ن می ں ا ل مام س ی اسی پ ار ی وں ے کسر مس رد ک ی ا۔ اس پر ب صرہ کرے وے ا دا ظ م‬ ‫پ‬
‫ارمولہ یش ک ی ا۔ جس‬ ‫ن ف‬
‫ے رمای ا‬
‫“ ‪”This is nothing but parting of the ways‬‬
‫ن ن‬ ‫ئ‬ ‫ش‬ ‫نف ن‬
‫خ‬ ‫غ‬ ‫ٹ‬
‫ب عد می ں آلضپ ار ی ز کا ر س تج و ‪ 31‬دسمب ر ‪1928‬ء کو سر آ ا ان کی زیر صدارت دہ لی می ں روع ہ و ی ۔ ے ہرو‬
‫رپورٹ کو ب ا اب طہ طور پر مس رد کر دی ا ۔‬
‫ئ‬ ‫ن‬
‫تا ج‬
‫خ‬ ‫ن‬ ‫ت‬
‫ڑے اور‬ ‫ب‬ ‫ہت‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫کہ‬ ‫ے‬‫ہظ‬ ‫ل‬ ‫ص‬ ‫حا‬ ‫ئ‬ ‫ے‬ ‫ی‬
‫نل‬ ‫اس‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن می‬
‫ہ‬‫ا‬ ‫صوصی‬ ‫کو‬ ‫ورٹ‬ ‫پ‬‫ر‬ ‫ہرو‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫خ‬ ‫ی‬
‫ر‬ ‫ا‬ ‫ئ‬ ‫ان کی س ی اسی‬ ‫تہ ن دوخست ن ئ‬
‫ھ‬ ‫ک‬
‫نال ا ہار تک ی ا۔ ان کی ذہ نشی ت ئل کر‬ ‫ے عزا م کا ب رم‬ ‫ے اپ‬ ‫دوؤں ق‬ ‫ےہ ئ ن‬ ‫ورٹ کے ذری ع‬ ‫اری نی تئ ا ج ب رآمد ہ وے ۔ اس رپ ن‬
‫ے منسلما وں نکے س ی اسیت اور آخ ی شی وق جکونپ امال کرئے کی ح ی االمکان کو شن کی گ ی ۔‬
‫ح‬ ‫ے آ تی اور اس کے ذری ع‬ ‫سام‬
‫ہ‬
‫وں می ں م عددند خات کو ف م دی ا۔ کن ی ای ک سوال ان کے ذتوں میئں‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ی ہی و‬
‫ع‬ ‫ورٹ ے لما ن ش‬ ‫ع‬ ‫اس رپ‬ ‫ن ہ ھی کہ ن‬ ‫ج‬
‫موال ا دمحمش لی ج وہ ر اور نموالش ا توکت لی ے س ت ال اظ می ں ہرو رپورٹ کی مذمت کرے ہ وے‬ ‫ش‬ ‫ے۔‬‫اب نھرے لگ‬
‫ت‬
‫ے اپ ا ر ہ وڑ دی ا۔‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫کا گریس سے می ہ می ہ کے یل‬
‫س‬ ‫ف‬ ‫خ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ق ن‬ ‫ٹ‬
‫م‬
‫نادرف رمای ا اور لم‬ ‫ئ‬ ‫ج‬
‫سوچ اور س ی است کے واب می ں طب ہ الہ آب اد ص‬ ‫ق‬ ‫‪،‬‬ ‫ن‬‫ت‬ ‫ی‬ ‫ذہ‬ ‫کی‬ ‫دوؤں‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ال‬ ‫ا‬ ‫المہ‬‫ع‬ ‫دمحم‬ ‫ر‬ ‫ڈاک‬
‫ن‬ ‫ف‬ ‫ب‬
‫ل ی گ کے پ لی ٹ ارم سے پ ہلی ب ار آپ ے ہ ن دوست ان کی سی م کی پ یش گو ی کر دی ۔ آپ ے رمای ا‬
‫ئ‬ ‫عم‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ل‬ ‫مم‬ ‫ہ‬ ‫س‬
‫ے ای ک الحدہ کت کا ی ام ل می ں ال ی ں گے۔‘‘‬ ‫ع‬ ‫ے یل‬ ‫’’ ہ دوست ان کے م لما وں کا آ ری م در ی ہ وگا کہ وہ اپ‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ع ن ن ن‬ ‫قئ‬
‫ے م لما وں‬‫س‬ ‫ے ت‪ ،‬ن کے ذری ع‬ ‫ج‬ ‫ا دا تعظ م دمحم لی ج اح تے ہروقرپورٹ کے واب می قں م تہور زما ہ چ ودہس کات یش ک نی‬
‫پ‬ ‫ن‬ ‫ج‬
‫گ اور کا گرقیس کے درم ی ان ای ک‬ ‫ے سے ک ی ا گ ی ا۔قی ہی وہ و ت ھا نج ت ب م‬ ‫کے م طال ب ات کا احاطہ اح‬
‫ن‬ ‫ی‬‫خ‬‫ل‬ ‫لم‬ ‫ت‬ ‫سن طری‬ ‫ط‬ ‫ع‬ ‫ط‬ ‫ع‬ ‫ئن‬
‫ہ‬
‫ے می ں ب اآل ر ہ دوست ان سی م وا۔‬ ‫ہ‬
‫آ ی ی ل پ ی دا وا۔ ی ہ ل ‪1947‬ء ک ب ر رار ر ا‪ ،‬جس کے یج‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫ف‬ ‫حق ق‬
‫ے کہئہ ن دوست ان کی س ی اسی پ یش ر فت می ں ج وں ج وں کا گریشسی پ ن ڈت اور ہ ن دو مہا س ب ا کے ان تہا پ س ن د ہ ن دوت‬ ‫ت‬ ‫ت یہ ہ‬ ‫ت ی ن‬
‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫س‬
‫ے‪ ،‬ب ال ل اسی م اسب ت اور ر ت ار سے نلم گی ل ی ڈر کپ کی س ی اسی ب صرت می ں وسعت پ ی دا و ی‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫ے‬ ‫نئگ ظ ر و‬
‫ہ‬
‫س‬ ‫گ‬ ‫ن‬
‫‪Reaction‬کے‬ ‫کے درم ی ان لڑا ج اے واال س ی اسی ھ ی ل ‪Action‬اور ئ‬ ‫گ ن‬ ‫گخ ی۔ اور یوں کا گریس تاور م نلم ل ین ق‬
‫ے۔ اس‬ ‫‪Logical Consequence‬کی طرف گامزن دکھا ی دی ت ا ہ‬ ‫خ‬ ‫ے م ت ط ی ا ج ام‬ ‫پ‬‫نحل سے گزر ات ہ وا ا‬ ‫م ت لف مرا‬
‫رپورٹ ے ہ ن دو م لم ا حاد کے اب وت می ں آ ری ک ی ل کا کردار ادا ک ی ا۔‬ ‫س‬
‫ن‬
‫ج ن اح کے چ ودہ کات‬
‫(چودہ نکات سے رجوع مکرر)‬
‫ن ت‬ ‫ق‬ ‫ے دمحم علی ج ن اح ج نہی ں موج ودہ ا ست ان م ں ق ائ د اع‬ ‫ے کے ح‬ ‫ن مس س ئ‬
‫ے‪،‬‬‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫سے‬
‫ن‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫کے‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫پ‬ ‫ی‬
‫ل‬ ‫کے‬ ‫ل‬ ‫ل‬ ‫ہندو لم م‬
‫پ‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ن‬
‫کے اج الس می ں ہرو رپورٹ کے ج واب چ ودہ کات می ں یش‬ ‫آل ا ڈی ا ح یلم ل ی گک ت‬ ‫ے تمارچ ‪1929‬ء کو دہ لی می ن ں‬
‫م‬
‫ےہی ں‬ ‫ے ج و حری ک پ اکست ان می ں س گ ی ل کی ث ی ت ر ھ‬ ‫یک‬
‫ن‬
‫چ ودہ کات‬
‫ن‬
‫دمحم علی ج ن اح کے چ ودہ کات درج ذی ل ہ ی ں‪:‬‬
‫ت فق ن‬ ‫ئن‬ ‫ن‬
‫ت کا ہخ و گا۔‬
‫تہ دوست ان کا آ دہ دس ورسد ا ی وعی خ‬ ‫‪.1‬‬
‫مام صوب وں کو مساوی طح پر مساوی ود م ت اری ہ و گی۔‬ ‫‪.2‬‬

‫‪9|Page‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫ن‬ ‫ث‬ ‫ق‬ ‫ئ‬ ‫تش‬ ‫قن‬ ‫ت‬
‫ہ‬ ‫ص‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ک‬
‫ئہ می ں ا لی ت کو مؤ ر ما دگی حا ل و اور‬ ‫ب‬‫صو‬ ‫ر‬ ‫ہ‬ ‫کہ‬ ‫ا‬‫گ‬ ‫ے‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫ی‬‫د‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫طرح‬ ‫اس‬ ‫کو‬ ‫ساز‬ ‫ون‬
‫ق‬ ‫ا‬ ‫الس‬ ‫ث‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫مام‬ ‫ملک کی‬ ‫‪.3‬‬
‫ن‬
‫ساوی ن ی ئث نی ت می ں لی م ہ ک ی ا ج اے۔‬ ‫ح‬ ‫کسی صوب ہ می ں اک ری ت نکو ا لی ت ی ا م ت ئ‬
‫ص‬
‫ں مسلما وں کو ای ک ہا ی ما دگی حا ل و۔‬
‫ہ‬ ‫مرکزی اسم ب لی م‬ ‫‪.4‬‬
‫ص‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ف ق‬
‫پن‬ ‫ئ‬ ‫ئ‬ ‫و۔‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫حا‬ ‫ق‬ ‫ح‬ ‫کا‬ ‫اب‬ ‫ئ‬
‫خ‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫داگا‬ ‫ہر ر ج‬
‫کو‬ ‫ہ‬ ‫‪.5‬‬
‫ن‬
‫ے صوب ہ سرحد‪ ،‬ج اب اور صوب ہ ب گال می ں‬ ‫ن‬ ‫عم‬
‫صوبس وںثمی ں آ دہث کو ی ا سی کی م ل می ں ہ ال ی ج اے جس کے ذری ع‬ ‫س‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫‪.6‬‬
‫ض‬ ‫ت‬ ‫تن‬ ‫م قلم اک ری ت مت ا رن ہ و۔‬
‫ص‬ ‫ج‬
‫نق‬ ‫و۔ ئ‬‫ن ی م و اخ ماعناور می ر کی قآزادی حا ت ل ہ ت‬ ‫رواج‪ ،‬ع ب نادات‪ ،‬ظ‬ ‫ے مذہ ب‪ ،‬ترسم و ت‬
‫ی‬ ‫ہ ر وم قو منلت کو اپ‬ ‫‪.7‬‬
‫ے ومی‬ ‫ے کسی وم کے ی ن چ و ھا ی ارکان اپ‬ ‫ہ‬
‫مجف الس ا ون ساز کو کسی قا سی حری ک ی ا ج ویز م ظ ور کرے کا ا ت ی ار ہ و جس‬ ‫‪.8‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ں۔ ش‬ ‫ادات ئکے حق می ں رار دی غ‬ ‫م‬ ‫مس ن‬
‫ئ‬ ‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫ا‬
‫ب یج‬‫د‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫صو‬ ‫الگ‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫طور‬ ‫روط‬ ‫ر‬
‫یم‬ ‫کے‬ ‫کر‬ ‫الحدہ‬ ‫ع‬ ‫سے‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫کو‬ ‫دھ‬ ‫‪.9‬‬
‫ئی ں۔‬ ‫طرح اصالحات کی ج ا‬ ‫کی‬ ‫وں‬‫ن‬ ‫صوب ہ سرحد اور تصوب ہ ب لوخچ ست خان می ں دوسرے صوب‬ ‫‪.10‬‬
‫ن‬ ‫حف ض‬
‫ت‬ ‫اداروں می ں مسلما وں کوق نم ن اسب حصہ دی ا ج افے۔‬ ‫ع‬
‫سرکاری مالز نوں اور ثود م ت ار ت‬
‫قف‬ ‫م‬ ‫ئ‬ ‫‪.11‬‬
‫ن می ں مسلما وں کی ا ت‪،‬ت لی م‪ ،‬زب ان‪ ،‬مذہ ب‪ ،‬وا ی ن اور ان کے الحی اداروں کے ظ کی ما ت دی‬ ‫آ یئ‬ ‫‪.12‬‬
‫ت‬ ‫ت ئ‬ ‫ئ‬ ‫ش‬ ‫ج اے۔‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ئ‬‫س‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫ی‬
‫مان ہ و۔‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫سی موزارت ت ی ل ہ دی ج اےضجس می ں ایغ ک ہا یحوزیروں ئکی عداد م ل‬ ‫ش‬ ‫ے می ں ا‬ ‫ک نسی صونب ف‬ ‫‪.13‬‬
‫ہ دوست ا ی و اق می ں ا ل ری اس وں اور صوب وں کی مر ی کے ب ی ر مرکزی کومت آ ی ن می ں کو ی ب دی لی ہ کرے۔‬ ‫‪.14‬‬
‫ت‬
‫ت‬ ‫ب صرہ‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ن س‬ ‫ن‬ ‫نق‬
‫ہوں ے مسلما ِان ہ ن د کی‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ے‬ ‫را‬ ‫کی‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ر‬‫ن‬‫ص‬ ‫کن‬
‫لمب‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ئ‬ ‫ں‬
‫ی قک‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫لی‬ ‫ے‬
‫ق‬ ‫گرس‬ ‫ف‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫ہ‬ ‫چ‬ ‫گر‬ ‫کو‬ ‫اط‬ ‫ئ‬ ‫تدمحم نعلی ج نتاح کے‬
‫ح‬
‫کے ب رطا وی کومت کو ی چہ ت‬ ‫کے ح ا ق کو مد ثل ا داز می ں پ ی فش کر‬ ‫ن‬ ‫ادات و ح وق‬ ‫ان کے م ن‬ ‫نے ش‬ ‫رج ما ی کرے ہ و‬
‫ارے می ں سو ی‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫ً‬ ‫ق‬
‫ہ‬ ‫خ‬ ‫انقکی اک ری فت ی کی الح و ہب ود کے ب‬ ‫ح‬
‫ش کی خکہ کا گرس نحض ہ دوؤں‬
‫س‬ ‫ب ات ب اور نکرواے کی کو ل ت‬
‫سے کسی فاطر می ں ی‬ ‫کے نحوالے ق‬ ‫ادات‬ ‫ن‬ ‫ص وں نکو ان کے ن وق و م‬ ‫صوصا م لما‬ ‫ے ج ب تکہ ہ دوست ان نکی ا ی نوں ت‬ ‫تنہ‬
‫ح‬ ‫س‬ ‫م‬
‫وں می ں ہئدو فست اننکے نا در لما قوں کے وقخ و م ق ادات کے‬ ‫م‬ ‫ح‬ ‫ج‬ ‫فہی ں ال ی۔ ی ہ چ ودہ ب تی تادی کات ن قھ‬
‫ے و تی ح ع ق‬
‫ے سے ان کا ی ر م دم ک ی ا۔‬ ‫ے کر ے م اسب طری‬ ‫نف ن‬
‫ہ‬
‫ے۔ اور ان اط کا مام طب ات ا‬ ‫ے ھ‬ ‫ح ظ کا موج ب ب ن سک‬
‫ن‬ ‫ئ ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ج ب ی ہ چ ودہ کات م ظ رعام پر آے و ج اح کو گول می ز کا ر س می ں مدعو ک ی ا گ ی ا۔‬

‫خ‬
‫طب ہ الہ آب اد‬
‫ن‬ ‫ق ن‬ ‫ٹ‬ ‫نق‬ ‫س‬
‫ق‬
‫کی۔ستا ہوں‬
‫م‬ ‫ے‬ ‫ال‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫دمحم‬ ‫سر‬
‫ش‬ ‫ر‬ ‫ڈاک‬ ‫صدارت‬
‫ن‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫وا۔‬ ‫ہ‬ ‫د‬ ‫‪1930‬نء کو م تلم ل یخگ کا ساالن ہ اج ضالس الہ آب اد می نں م ع‬ ‫ن‬
‫س‬ ‫م‬
‫ں شبڑی و احت سے ہ دوست ان کے حاالت‪ ،‬لما وں کی م کالت‪ ،‬ان کے ب ل اور‬ ‫ے می ن‬ ‫صدار ی ن بط‬ ‫ے‬
‫ن‬ ‫ے ناپ‬
‫مسلما ان ہ د کی م زل کی ان د ی کی۔‬
‫ہ‬
‫ن‬ ‫ن مم ن ت‬ ‫ئ ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫ن‬
‫ئ‬ ‫کاری و ی ھی اس سے ا کار کن نہی ں ن ت ت‬
‫ھا۔ ان د وں‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫سے‬
‫ق‬ ‫ود‬ ‫ج‬ ‫و‬ ‫کے‬ ‫ت‬
‫وں‬ ‫ما‬ ‫ل‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ں‬ ‫م‬
‫ف ی‬‫ن‬
‫ی‬ ‫ن‬ ‫ما‬ ‫طرح‬ ‫س‬ ‫ج‬ ‫گرس‬ ‫نکا‬
‫پ‬ ‫ن‬ ‫ع‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ت‬
‫ے کہ کو ی‬‫ے ھ‬ ‫ھی کن نالمہ ا ب ال گا دھی کی ہ ٹ دھرمی کے یش ظ ر ج ا‬ ‫گول مینز کا رن س و ر ی ن‬ ‫ں ن‬ ‫دن می خ‬
‫خ‬ ‫ل‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ل‬‫مم‬ ‫ع‬
‫ے گا اور لما وں کی م زل ای ک الحدہ کت ی ہ‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ب ھی اطر واہ ی ج ہ ہی ں ل‬
‫ک‬

‫خطبہ آلہ آباد کے اہم نکات‬


‫اسالم ایک زندہ قوت‬
‫اسالم ریاست اور فرد دونوں کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے‘ دستور‬
‫حیات ہے اور ایک نظام ہے جس شخص کو آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کے اعزاز سے‬
‫نوازا وہ اب بھی ایک اسالم کو ایک طاقت سمجھتا ہے اور یہی طاقت انسان کے ذہن کو وطن اور‬
‫نسل کے تصور کی قید سے نجات دال سکتی ہے۔‬

‫اسالم مکمل ضابطہ‪ /‬حیات ہے‬


‫یورپ میں مذہب ایک فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ وہاں فرد روح اور مادہ میں تقسیم ہے‪ ،‬ریاست اور‬
‫کلیسا جدا ہیں‪ ،‬خدا اور کائنات میں کوئی تعلق نہیں لیکن اسالم ایک وحدت ہے جس میں ایسی کوئی‬
‫‪10 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫تفریق نہیں ہے۔ اسالم چند عقائد کا مجموعہ نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ مذہب کو فرد اور‬
‫ریاست کی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔‬

‫مسلمان ایک قوم ہیں‬


‫ہندوستان کے مسلمان اپنے تہذیب و تمدن‪ ،‬ثقافت اور اسالم کی وجہ سے یہاں کی دوسری قوموں‬
‫سے مختلف ہیں۔ ان کی توداد برعظیم میں سات کروڑ ہے اور ہندوستان کے دوسرے باشندوں کی‬
‫نسبت ان میں زیادہ ہم آہنگی اور یکسانیت پائی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہی جدید‬
‫ترین معنی میں قوم کہا جا سکتا ہے۔‬

‫متحدہ قومیت کی تردید‬


‫مغربی ممالک کی طرح ہندوستان کی یہ حالت نہیں ہے کہ اس میں ایک ہی قوم آباد ہو۔ ہندوستان‬
‫مختلف اقوام کا وطن ہے جن کی نسل‪ ،‬زبان‪ ،‬مذہب سب ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ یہی وجہ ہے‬
‫کہ ان میں وہ احساس پیدا نہیں ہو سکا ہے جو ایک ہی نسل کے مختلف افراد میں ہوتا ہے۔‬

‫ہندو مسلم دو الگ قومیں‬


‫ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں‪ ،‬ان میں کوئی بھی قدر مشترک نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ‬
‫گزشتہ ایک ہزار سال میں اپنی الگ حیثیت قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ہی ملک میں رہنے کے‬
‫باوجود ہم میں یک جہتی کی فضا اس لیے قائم نہیں ہو سکی کہ یہاں ایک دوسرے کی نیتوں کو‬
‫شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ کس طرح فریق مقابل پر غلبہ‬
‫اور تسلط حاصل کیا جائے۔‬

‫مسلم ریاست کی ضرورت‬


‫ہندوستان دنیا میں سب سے بڑا اسالمی ملک ہے۔ تنہا ایک ملک میں سات کروڑ فرزندان توحید کی‬
‫جماعت کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسالم بحیثیت ایک تمدنی‬
‫قوت کے زندہ رہے تو اس مقصد کے لیے ایک مرکز قائم کرنا ہو گا۔‬

‫عالحدہ وطن کا مطالبہ‬


‫میں یہ چاہتا ہوں کہ صوبہ پنجاب‪ ،‬صوبہ شمال مغربی سرحد‪ ،‬سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست‬
‫کی شکل دی جائے یہ ریاست برطانوی ہند کے اندر اپنی حکومت خوداختیاری حاصل کرے‘ خواہ‬
‫اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم‬
‫اسالمی ریاست قائم کرنا ہی پڑے گی۔‬

‫سائمن کپیشن‪ /‬کی سفارشات پر تنقید‬


‫عالمہ سر محمد اقبال جداگانہ انتخاب‘ بنگال‘ پنجاب اور سرحد میں مسلم اکثریت کو قائم رکھنے‬
‫کے زبردست حامی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تجاویز کی مخالفت کرتے ہوئے سر شفیع کی حمایت کی‬
‫تھی۔ کیوں کہ سائمن کمیشن نے بھی بنگال اور پنجاب میں مسلمانوں کی آئینی اکثریت کی حمایت‬
‫نہیں کی تھی اس لئے آپ نے اس پر بھی سخت تنقید کی۔‬

‫ہندوستان کی آزادی کے لئے ضرورت اتحاد‬

‫‪11 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫عالمہمحمد اقبال نے اپنے خطبے میں واضح کر دیا کہ اگر مسلمانوں کے جائز مطالبات پورے نہ‬
‫کئے گئے تو وہ متحد ہو کر کوئی آزادانہ سیاسی قدم نہیں اٹھائیں گے۔ مسلم مملکت کا میرا یہ‬
‫مطالبہ ہندو اور مسلمان دونوں کے لئے منفعت بخش ہے۔ ہندوستان کو اس سے حقیقی امن و‬
‫سالمتی کی ضمانت مل جائے گی۔‬

‫اعالمی ہ پ اکست ان‬


‫اعالمیہ پاکستان ‪ ،‬چوہدری رحمت علی کا لکھا ہوا ایک کتابچہ ہے جو ‪ 28‬جنوری ‪1933‬ء کو شائع ہوا۔‬
‫اس کتابچے میں پہلی بار لفظ پاکستان استعمال ہوا۔ جسے ‪1933‬ء کی گول میز کانفرنس میں پیش کیا گیا۔‬
‫ن‬
‫اس کتابچے کو تقسیم کرتے ہوئے اس کے کور لیٹر پر صرف چوہدری رحمت علی کے دستخط تھے۔‬
‫ق‬
‫دو ومی ظ ری ہ‬
‫دو قومی نظریہ (انگریزی‪ )Two Nation Theory :‬مسلمانوں کے ہندوؤں سے عالحدہ تشخص‬
‫کا نظریہ ہے۔‬

‫تعارف‬
‫جنگ آزادی ‪1857‬ء کے دس سال بعد علی گڑھ مکتبہ فکر کے بانی سرسید احمد خان نے ہندی‬
‫اردو جھگڑے کے باعث ‪1867‬ء میں جو نظریہ پیش کیا ‪ ،‬اسے ہم دو قومی نظریے کے نام سے‬
‫جانتے ہیں۔ اس نظریے کی آسان تشریح یوں کی جاسکتی ہے کہ اس کے مطابق نہ صرف‬
‫ہندوستان کے متحدہ قومیت کے نظرئیے کو مسترد کیا گیا بلکہ ہندوستان ہی کے ہندوؤں اور‬
‫مسلمانوں کو دو عالحدہ اورکامل قومیں قراردیا گیا۔ انڈین نیشنل ازم پر یقین رکھنے والوں کے لیے‬
‫دو قومی نظریہ صور اسرافیل بن کر گونجا ۔ ہماری شاہراہ آزادی پر دو قومی نظریہ وہ پہال سنگ‬
‫میل ہے جسے مشعل راہ بنا کر مسلمانان ہند باآلخر ‪1947‬ء میں اپنی منزل مقصد کو پانے میں‬
‫سرخرو ہوئے۔‬

‫دو قومی نظریے کا پس منظر‬


‫جنگ آزادی ‪1857‬ء کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ ہندوؤں نے ایک اور مسئلے کو الکھڑا کیا۔ یہ‬
‫جھگڑا ہندی اردو جھگڑے ‪1867‬ء کے نام سے موسوم ہے۔ ‪1867‬ء میں بنارس کے ہندوؤں نے‬
‫لسانی تحریک شروع کر دی جس کا مقصد اردو کی جگہ ہندی کو سرکاری اور عدالتی زبان کے‬
‫طور پر رائج کرنا تھا۔ اور عربی رسم الخط کی جگہ دیوناگری رسم الخط کو اپنانا تھا۔ اس جنونی‬
‫اور لسانی تحریک کا صدر دفتر آلہ آباد میں قائم کیاگیا جبکہ پورے ملک میں ہندوؤں نے کئی ایک‬
‫ورکنگ کمیٹیاں تشکیل دیں‪ ،‬تاکہ پورے ہندوستان کے تمام ہندوؤں کو اس تحریک میں شامل کیا‬
‫جائے اور اس کے مقاصد کے حصول کو ممکن بنایا جائے۔‬
‫اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو اردو کے خالف ہندوؤں کی تحریک ایک ناقابل فہم اور غیر‬
‫دانشمندانہ اقدام تھا۔ کیونکہ اردو کو جنوبی ایشیاء میں نہ صرف متعارف کرانے اور ہر دلعزیز‬
‫بنانے بلکہ اسے بام عروج پر پہچانے کے لیے انہوں نے وہی کردار ادا کیا تھا جو خود مسلمانوں‬
‫کا تھا۔ اگر اردو کا کوئی قصور تھا بھی تو صرف اتنا کہ اس نے مسلمانوں کے شاندار ماضی ان‬
‫کے بہادروں ‪ ،‬عالموں اولیاء کرام او رسپہ ساالروں کے کارناموں اورکرداروں کو اپنے اصناف‬
‫اور دبستانوں میں محفوظ کر لیا ہے۔ کئی مسلمان رہنماؤں نے ہندوؤں کو سمجھانے کی کوشش کی‬
‫ان پر واضح کیا گیا کہ اردو انڈو اسالمک آرٹ کا ایک الزمی جزو بن گئی ہے۔ کوئی الکھ بار‬
‫چاہے تو جنوبی ایشیاء کی ثقافتی ورثے سے اس انمول ہیرے کو نکال باہر نہیں کرسکتے۔ مگران‬
‫دالئل کا ہندوؤں پر کچھ اثر نہ ہوا سرسید احمدخان نے بھی ‪،‬جو ان دنوں خود بنارس میں تھے‪،‬‬
‫اپنی تمام تر مصالحتی کوششیں کر لیں لیکن بری طرح ناکام رہے کیونکہ سرسید ہی کے قائم کردہ‬
‫‪12 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫سا ئینٹیفک سوسائٹی آف انڈیا کے ہندو اراکین بھی اردو کے خالف تحریک میں پیش پیش تھے۔‬
‫ہندی اور اردو کے درمیان اس قضیے کا نتیجہ بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات کی صورت میں‬
‫برآمد ہوا۔ ثقافتوں کے اس ٹکراؤ نے سرسید کے خیاالت میں ایک اورانقالب برپا کر دیا۔‬

‫دو قومی نظریہ‬


‫ایک دن بنارس کے چیف کلکٹر سکسپئیر سے ہندی اردو جھگڑے سے متعلق تبادلہ خیال کرتے‬
‫ہوئے سرسید احمد خان نے اپنا مشہور زمانہ دو قومی نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا‪: ‬‬
‫“ ‪Now I am convinced that both these communities will not join whole‬‬
‫‪heartedly in any thing. Hostility between the two communities will‬‬
‫‪”.increase immensely in the future. He who lives will see‬‬
‫یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سرسید احمد خان ہندی اردو جھگڑے سے پہلے ہندو مسلم اتحاد‬
‫کے بڑے علمبردار تھے۔ اور متحدہ قومیت کے حامی تھے لیکن اس جھگڑے کے باعث ان کو‬
‫اپنے سیاسی نظریات یکسر تبدیل کرنا پڑے۔ ہندو۔ مسلم اتحاد کی بجائے اب وہ انگریز مسلم اتحاد‬
‫کے داعی بن گئے۔ اور متحدہ قومیت کے بجائے ہندوستان میں مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کے‬
‫عظیم پیامبر بن کر ابھرے۔‬
‫سرسید احمد خان کے بعض سوانح نگاروں کے مطابق اس جھگڑے سے پہلے سرسید‬
‫‪Idealist‬تھے اور ‪ Idealism‬پر یقین رکھتے تھے لیکن اس جھگڑے نے ان کو ‪ Realist‬بنا دیا‬
‫اور اب وہ ‪ Realism‬کے پیکر بن کر سامنے آئے۔ یہ تھا وہ جھگڑا جس نے ہندوستان میں متحدہ‬
‫قومیت کے سامنے ایک بڑا سوالیہ نشان ال کھڑا کیا۔‬
‫یہ تھا وہ جھگڑا جس نے ہندو مسلم اتحاد کی حقیقت کو طشت ازبام کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندی‬
‫اردو جھگڑے کی صورت میں ہم ان دو مختلف ثقافتوں کا ٹکراؤ دیکھتے ہیں جو باوجود اس‬
‫حقیقت کے کہ صدیوں تک ایک ہی خطے میں پروان چڑھی تھیں لیکن ریل کی دو پٹریوں کی‬
‫طرح یا بجلی کے ایک ہی کیبل کے اندر دو تاروں کی طرح اور یا پھر ندی کے دو کناروں کی‬
‫طرح نہ کبھی ماضی میں آپس میں گھل مل سکے اور نہ کبھی مستقبل میں ان کے گھل مل جانے‬
‫کا کوئی امکان تھا۔‬

‫علی گڑھ اور دو قومی نظریہ‬


‫مکتبہ علی گڑھ کے قائدین نے دو قومی نظرئیے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں‬
‫چھوڑی ۔ ان کا استدالل تھا کہ دو قومی نظرئیے ہی کی بنیاد پر مسلمانان ہند اپنے دائمی حلیفوں‬
‫کی دائمی غالمی سے بچا سکتے ہیں۔ اس نظریے کے حامی راہنماؤں نے ‪1906‬ء میں نہ صرف‬
‫شملہ وفد کو منظم کیا بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے مسلمانان ہند کے لیے ایک الگ نمائندہ‬
‫سیاسی جماعت بھی قائم کر دی۔‬

‫مسلم لیگ اوردو قومی نظریہ‬

‫عالمہ اقبال‬
‫‪1906‬ء سے ‪1947‬ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاست کا مرکز دو قومی نظریہ ہی رہا ہے۔ اس‬
‫ضمن میں آل انڈیا کانگریس ‪ ،‬ہندو مہا سبھا دیگر ہندو تنظمیں اورہندو رہنما اپنی تمام تر کوششوں ‪،‬‬
‫حربوں اور چالوں میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے قائدین کو دو قومی‬

‫‪13 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫نظریے سے برگشتہ کیا جاسکے اور اس نظریے کو غلط مفروضے کے طور پر پیش کیا جائے‬
‫سکے۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔‬

‫دو قومی نظریہ اور اقبال‬


‫ی ورپ کی سیر‪ ،‬یورپ میں مطالعہ اور مسجد قرطبہ میں اذان دینے کے بعد ڈاکٹر عالمہ اقبال نے‬
‫عملی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لینا شروع کیا۔ تو آپ کے سیاسی نظریات سامنے آئے ۔‬
‫‪1930‬ء میں الہ آباد کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے اکیسویں ساالنہ اجالس کی صدارت کرتے‬
‫ہوئے آپ نے نہ صرف دو قومی نظرئیے کی کھل کر وضاحت کی بلکہ اسی نظرئیے کی بنیاد پر‬
‫آپ نے مسلمانان ہند کی ہندوستان میں ایک الگ مملکت کے قیام کی پیشن گوئی بھی کر دی۔‬
‫دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے دوران آپ نے محمد علی جناح سے کئی مالقاتیں کیں‬
‫جن کا مقصد دو قومی نظریے ہی کی بنیاد پر مسلمانان ہند کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی قابل‬
‫قبول حل تالش کرنا تھا۔ ‪1936‬ء سے ‪1938‬ء تک آپ نے قائداعظم کو جو مکتوبات بھیجے ہیں ان‬
‫میں بھی دو قومی نظرئیے کا عکس صاف اور نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔‬

‫دو قومی نظریہ اور قائداعظم‬

‫قائداعظم‬
‫بانی پاکستان دو قومی نظرئیے کے سب سے بڑے علمبردار رہے ہیں آپ نے نہ صرف آل انڈیا‬
‫کانگریس کے تا حیات صدر بننے کی پیشکش کو مسترد کیا بلکہ علمائے دیوبند اورمسلم نیشنلسٹ‬
‫رہنماؤں کی مخالفت بھی مول لی۔ لیکن دو قومی نظرئیے کی صداقت پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔‬
‫حقیقت یہ ہے کہ آپ نے پاکستان کا مقدمہ دو قومی نظرئیے ہی کی بنیاد پر لڑا اور اسی بنیاد پر ہی‬
‫آل انڈیا سلم لیگ کو ہندوستان کے شمال مشرق اور شمال مغرب میں آباد مسلمانوں کی واحد نمائندہ‬
‫اور سیاسی جماعت منوائی ۔ دو قومی نظرئیے کو نظریہ پاکستان میں منتقل کرنے کا سہرا آپ ہی‬
‫کو جاتا ہے۔‬
‫نف ن‬
‫گول می ز کا ر س‬
‫نت‬ ‫نت‬
‫ن‬ ‫ج ون ‪1929‬ء م ں رطان‬
‫ہ‬
‫‪ Ramazy‬و اں کے‬ ‫ش‬ ‫‪Mac‬‬‫‪ Donald‬ت‬ ‫نم ی ڈون لڈ‬ ‫ے می ں ری مزے‬ ‫ج‬ ‫ی‬
‫ن‬ ‫کے‬ ‫ات‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫خ‬ ‫ا‬ ‫عام‬ ‫کے‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ئ‬
‫ع ق ی ب‬
‫ت‬ ‫ش‬ ‫ع‬ ‫ئ‬ ‫ن‬
‫نم ورے کے ب عد‬ ‫روں کے سا ھ صالح‬ ‫ن‬ ‫ےم ی ئ‬ ‫پ‬‫ے وزیرا ظ نم ے نا‬ ‫ارے فمی ں‬ ‫کے ب ئ‬ ‫ے۔ ہ دو نست ان ت‬ ‫ف‬ ‫وزیرا ظ م مئ رر ہ و‬
‫ے‬ ‫ط‬
‫ئی ا تکہ ب رطا وی ہ تد می ئں آ ی ی ع ل کو دور کرے‬ ‫ے ہ وے ی صلہ ک‬
‫کے یل‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ضسر ج ان سا من کی س ارش م ظ ور کر‬
‫ت‬ ‫می‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ارے‬
‫ع ن ن ب ی نئ ب ع ی ن ب ش‬ ‫کے‬ ‫ن‬ ‫آ‬ ‫و‬ ‫ے‬‫ک‬ ‫س‬ ‫و‬ ‫ہ‬‫اگر‬ ‫اکہ‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ا‬
‫ق ئ ک یعج‬ ‫مدعو‬ ‫دن‬ ‫ل‬ ‫کو‬ ‫ڈروں‬ ‫صہ اں کےئل ی‬ ‫ے کہ و‬ ‫روری ہ‬
‫ے وزیرا ظ م کو چک ھ کرے نکا مش ورہ دی ا ھا‬ ‫دمحم ف لیق ج اح ے ھی‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫دا‬ ‫ا‬ ‫کہ‬ ‫ے‬
‫ن‬ ‫ر‬ ‫اد‬ ‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ل‬‫ئ‬ ‫حا‬ ‫کو‬ ‫دی‬ ‫رض ام ن‬
‫ق‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫مس ئ‬ ‫ج‬ ‫ی‬‫ن‬ ‫ن‬
‫ے م عل ہ ری ی ن کے درم ی ان می ں ب ات چ ی ت کو ازسر و روع ک ی ا‬ ‫ے کو حل کرے کے لی‬ ‫کہن ہ دوست ان کے آ ی ی ل‬
‫ے۔‬ ‫ج ا ا چ اہ ی‬
‫تقئ‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ق‬
‫ع‬
‫ے کا اعالن ک ی ا و ا دان ظ م اور‬ ‫ص‬
‫ے ج ب اس ی ل‬ ‫‪Lord‬‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫‪Irwin‬‬ ‫ارون‬ ‫الرڈ‬ ‫سرے‬ ‫وا‬ ‫کے‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫اس‬ ‫کے‬ ‫ان‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫دو‬ ‫ہن‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫خ‬
‫سے اسلپر ن کت ہ چ ف ی یغاں‬ ‫ے میعمں کا گریس قکی طرف ت‬ ‫ج‬ ‫نکا ی ر م دم ک ی ا جس کے ی‬ ‫ال ل ی ڈروں ے اس‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫شآپ کےئ ہ م‬
‫سے عب یر ک ی ا‪ ،‬ی کن کا ن فی ن ور و‬ ‫ےندم ف‬ ‫ے ا شسے ’’لی ن دی ن ‘‘کے تل تمی ں پہل‬ ‫سورماؤں ن‬ ‫ش‬ ‫خ روع و گ ی ں۔ نکا گری سی‬
‫ے م روط طور پر حکومت کے سا ھ عاون کرے کا ی صلہ ک ی ا اور جموزہ کا ر س‬ ‫سی ل ی ڈر پش ئ‬ ‫وص کے ب عد کا گری‬
‫پ‬ ‫ن‬ ‫ش‬
‫ے م درج ہ ذی ل را ط یش کی ں۔‬ ‫می ں رکت کے یل‬
‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ت‬
‫‪1‬۔ مام س ی اسی ی دیوں کو رہ ا ک ی ا ج اے‬
‫ئ‬ ‫ث ن‬ ‫ن‬ ‫نف ن‬
‫ن‬ ‫ئ‬
‫‪2‬۔ جموزہ گول می ز کا ر س می ں کا گریس کو مؤ ر ما دگی دی ج اے۔‬

‫‪14 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن ب ئ‬ ‫ئ‬ ‫نف ن‬
‫ت‬ ‫ب‬
‫س تمحض آ ی ن کے ب ارے می ں اصول پر حث کرے کی ج اے ای ک و آب ادی ا ی طرز کے آ ی ن کو مر ب‬ ‫نکا ر پ ن‬ ‫‪3‬۔‬
‫کرے پر ا ی وج ہ مرکوز کرے۔‬
‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬
‫ے ہ ن دوست ان می ں ای ک وآب ادی ا ی طرز کی حکومت کا ی ام عمل می ں الی ا ج اے۔‬ ‫‪4‬۔ ج ن ا ج لد ممکن ہ و سک‬
‫ت‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫اد رے کہ کان گر س اور مس‬
‫ادی ا ت الف اس ب ات پر ھا کہ‬ ‫ی خ‬ ‫ب‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ارے‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫ن‬ ‫آ‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ت‬
‫ان‬
‫ئ ل ی ض ن متی ی ی‬ ‫در‬ ‫کے‬ ‫گ‬ ‫لم‬ ‫ن ی‬ ‫ی ن یہ‬
‫ے جس کی رو سے زی ادہ ئسے زی ادہ ا ت ت یتارات مرکزی حکومت کے‬ ‫ے ھ‬ ‫ے آ ی ن کو و ع کر ا چ اہ‬
‫س‬ ‫ع‬ ‫س‬ ‫ا‬
‫یلی ی‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫ما‬ ‫ہ‬
‫ت‬‫را‬ ‫سی‬ ‫کا گر‬
‫ے جس کی رو سےسزی ادہ سے‬ ‫ہ‬
‫ن کو چ اے ھ‬ ‫ےآ ی ض‬ ‫اء ای ک ایس‬ ‫ت کس لم ل ی گف کے زعم ن‬ ‫م‬ ‫پ اس آخج اے ۔ کن اس کے ب ر‬
‫م‬ ‫ح‬ ‫س ای ک م ب وط ئ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ارات صوب وں کو م‬ ‫زی ادہئا تخ ی خ‬
‫گ‬ ‫کومت ج ب کہ لم ل ی ش‬
‫مرکزیئ ن‬ ‫ع‬ ‫ئ‬ ‫ی‬
‫ش‬‫دوسرےال ناظ می ں کا گر‬ ‫ت‬ ‫۔‬ ‫ے‬ ‫ا‬
‫ن‬ ‫ج‬ ‫ل‬
‫ہ‬ ‫خ‬
‫صوب ا ی قود م ت اری کی ئوا ش م دت ت‬
‫صرف ایتک رط‬ ‫ے ئ‬
‫ے ش‬ ‫ھی۔ ج ہاں ن ک کانگریس پ نکی ضرا ط نکا ل ظق رہ ا۔ وا سر ق ت‬
‫دی اہف ر کی اور ب ا ی مام را ط کو مس رد نکر دی ا ۔‬ ‫ھی فکو م ظن ور کر تے پر ا شی ر ام ن‬ ‫کی رہ ا ی سے م علق ن‬ ‫ج و س ی اسین ی دیوںن‬
‫آل ا ڈی ا‬‫ئک ی ا۔حدوسری طرفت ت‬ ‫ک روعنکرے کا تی صلہ‬ ‫ن‬
‫س فے ملک ب ھر می ں سول ا رما نیفکی حری ت‬ ‫اس پر کا گرین‬ ‫س‬
‫ے ہ وے کومت کے سا ھ عاون کا‬ ‫ئکا ر س کی ج ویز کی م ظ وری دی‬ ‫روری ‪1930‬ء تمی ں گول می ز‬ ‫ن‬ ‫فم لم ل ی گ ے ن ف‬
‫ی صلہ ک ی ا۔ گول می ز کا ر س کے ی ن دور ہ وے۔‬

‫پ ہال دور‬
‫خ‬ ‫غ‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫جن‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫س‬ ‫م‬
‫ک ج اری رہ ا ۔ ن لما وں‬ ‫ہ‬
‫نکی ما دگی سر آئ ا ان ‪ ،‬دمحم‬ ‫‪1931‬ء ن‬ ‫اور ‪ 19‬عوری غ‬ ‫‪1930‬ء کوخ روع وا ن‬ ‫پعہال ندور ‪ 10‬ومب ر ظ ف‬
‫ے اس دور کا ب ا ی کاٹ ک ی ا ۔‬ ‫ج‬ ‫ج‬
‫لی ج اح ‪ ،‬سر دمحم ر ہللا ان ‪ ،‬اور موال ا ئدمحم لی وہ ر و ی رہ ے کی ۔ ب ت فکہ کا گریس‬
‫ے سب سے‬ ‫کے لی‬ ‫ان‬ ‫ت‬ ‫دو‬ ‫ن‬
‫اس بقات سے ا اق ک ی ا گ ی ا ہ س‬
‫کہ‬ ‫وں کے بش تعد‬ ‫السوں اور کاروا ی ت‬ ‫اس پہل‬
‫ت‬ ‫ف‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ے دورثمی نں طوی ل اج‬
‫ے‬‫ے اس کے عالوہ م عدد امور کے یل‬ ‫ح‬
‫وں اور ری ا گسئ وں پر ل و ا ی طرز کومت ہ‬ ‫ح‬
‫موزوں اور مو ر ظ ام ٹ کومت صوبش‬
‫ک‬ ‫ٹ‬
‫کم ی ی اں اور سب کم ی ی اں ب ھی ی ل دی ی ں۔‬
‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ف‬
‫ے دور میضں ا گرنیزتسرکار کو ج و خ اص کام ی انبی صی ب ہ و ی وہ ری ا ت‬ ‫ن‬
‫س قوں کے‬ ‫نآک ئس ن ورڈ ہ سٹ ری نآففا ڈی ا شکے م طاشبق پہل‬
‫آل ا ڈیتا ی خڈری ن می ں مولی ت پر را ی ہ و ا ھا۔ناسف دور می ں موال ا دمحم علی ج وہ ر کی ای ک ریر ج و آزادی‬ ‫ما دوں کا ت‬
‫م‬ ‫ہ‬ ‫ع‬ ‫م‬
‫ے۔ آپ ے رمای ا‪:‬‬ ‫کا ل سے م لق ھی اص ا می ت کی حا ل ہ‬
‫ن‬ ‫نغ‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ت‬
‫ے الم ملک می تںت واپس ج ہی ں ج اؤں‬ ‫نی ں اس و ن ت ت ک پا‬ ‫’’می ں و تآزادی کنامل کو اپ ن ا مسلک رار دے چ کا ہ توں۔ م‬
‫ے ی ہاں‬ ‫ے ہ مراہ آزادی کو ل ی کر ن ہ ج اؤں ۔ اگر م ے ہ می ں ہ دوست ان می ں آزادی ن ہ دی و مہی ں م ھ‬ ‫قگا ۔ ج ب نک اپ‬
‫ب ر کی ج گہ دی ا ہ وگی۔‘‘‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫فق ن‬ ‫ق‬ ‫نت‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫تق‬ ‫ن ت‬ ‫ہللا کو ش‬
‫اسب ہ‬ ‫م‬ ‫ے‬ ‫اء‬ ‫ر‬ ‫کے‬ ‫آپ‬ ‫وا۔‬ ‫ہ‬‫ئ‬ ‫ال‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫ت‬
‫ی‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫دن‬ ‫غ‬ ‫ل‬ ‫کا‬ ‫ا‬ ‫موال‬ ‫عد‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫اس‬ ‫۔‬ ‫ا‬‫ھ‬ ‫ور‬ ‫ظ‬ ‫م‬ ‫ہی‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫ی‬‫ا‬
‫ق‬
‫آپ کی وصی ت کے ب رعکس آپ کا جسد خ اکی الم ہ ن دو ان لے آ ی ں۔ لہٰذا آپ کا جسد خ اکی ب ی ت الم دس‬ ‫ن‬ ‫جم ھا کہ ف‬
‫س‬
‫لے ج ا کر د ای ا گ ی ا۔‬

‫دوسرا دور‬
‫ت‬ ‫ہ ن‬ ‫دوسرا دور ‪ 7‬دسم ر ‪1931‬ء کو ش روع ہ وا اور ی کم دسم ر ‪1931‬ء ت‬
‫س‬‫حت‬ ‫کے‬ ‫دے‬
‫ٹم ہ ق‬ ‫عا‬ ‫ارون‬ ‫دھی۔‬ ‫ا‬‫گ‬ ‫۔‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫اری‬ ‫ش ج‬‫ک‬ ‫ت ئ ب‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ن نب‬ ‫ن‬
‫م‬ ‫ی‬
‫ال د گر لم‬ ‫ع‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫ڈاک ر المہ ا ب ت‬ ‫ن‬ ‫طرف‬ ‫ت‬ ‫دوسری‬‫ف‬ ‫کی۔‬ ‫رکت‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫دور‬
‫ت‬ ‫اس‬
‫ق‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫ن‬ ‫ے‬
‫س‬
‫کر‬ ‫دگی‬ ‫ا‬‫م‬ ‫کی‬
‫ش م ہ ئ ن‬ ‫س‬ ‫ی‬‫گر‬ ‫کا‬ ‫ے‬ ‫دھی‬ ‫گا‬
‫کہ‬ ‫ھا‬
‫من م ط ن ن نن‬‫ن‬
‫اصرار‬ ‫کا‬ ‫دھی‬ ‫ا‬‫گ‬ ‫۔‬ ‫ھا‬ ‫رق‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫آسمان‬ ‫ن‬
‫س ی یئ‬‫م‬‫ز‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ر‬ ‫ظ‬ ‫طۂ‬ ‫کے‬ ‫وں‬ ‫ا‬‫م‬‫ل‬ ‫م‬ ‫اور‬ ‫دھی‬ ‫ا‬
‫گن ن‬‫گ‬ ‫ے۔‬ ‫و‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫م‬
‫ن ی‬‫زعماء‬
‫ے‬ ‫ن قفکو ما‬ ‫ے عی‬ ‫اس‬ ‫مان‬ ‫خ‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫کن‬ ‫ی‬ ‫ے۔ ل‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫لی‬ ‫ماعت‬ ‫دہ‬ ‫واحد ن مائ ن‬ ‫کی‬ ‫وں‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫دو‬ ‫ہ‬ ‫سارے‬ ‫کو‬ ‫ق‬
‫س‬ ‫کا گری‬
‫ل ت ہ بن‬ ‫ب غی ج‬ ‫ج‬ ‫ن‬ ‫ت‬
‫ٹس کی‬ ‫دھی تے کا ر‬ ‫ے ۔ن اسی طرح ی ہ ئدوسرا دور ھین ب یشر کسی کا نم ی ابی کے م وا ۔ نگا‬ ‫ے تط عی تطور پر ی ار ہ ھ‬ ‫نکے لی‬
‫ن‬ ‫ج‬
‫ے م ن می ں اکامی کے ب عد وہ و ہی ہ دو ان لوے‪ ،‬ان‬ ‫ذمہ داری ب رطا ی ہ سرکار پر عا د کر دی ۔ اپ‬ ‫ج‬
‫اکامی کیف مام ر‬
‫کو دوب ارہ گر ت ار کروا کر ی ل می ں ڈال دی ا گ ی ا۔‬
‫ن‬ ‫ض‬ ‫ض‬
‫ن عار ی طور پر ہ ن دوست ا ی نس ی است سے‬ ‫لی ج ن اح‬
‫دوسرے دور کے ب عد دمحم ع ٹ‬ ‫اس‬ ‫ے کہ ٹ‬ ‫روری‬ ‫احت‬ ‫ہاں ہ وض‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ین ی ہ ئ‬
‫ے ملک می ں‬ ‫کے ب اوج ود ب ھی آپ ن پا‬ ‫ن‬ ‫دن ہ یتمی ں ھہرے کا ی نص فلہ نک ی ا۔ ل ی کن وہ اں ھہرے‬ ‫ب ئ‬
‫ے۔ اور ل ن‬
‫غ‬ ‫کش و گ‬ ‫ت‬ ‫ک ارہ‬
‫ع‬ ‫ت‬ ‫ئ‬
‫دوسرے دور کی اکامی کےق ب عد ب رطا نوی فوزی فرا ظ م‬ ‫ئ‬
‫گول می ز کا ر س کےح ن‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫ی‬
‫ے۔ ل ت‬ ‫ے ر نہ‬ ‫وں کانور ج ا نزہ ی‬ ‫س ی اسی ب د لی ن‬
‫کے ح وق کو آ ی ی نح ظ راہ م‬ ‫ن‬ ‫ان‬ ‫ے‬ ‫ی‬
‫ل‬ ‫ن‬
‫کے‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ل‬ ‫ل‬ ‫سا‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ف‬
‫وں‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫م‬
‫ہ ی‬‫د‬ ‫وی‬ ‫رطا‬ ‫ب‬ ‫ے‬ ‫لڈ‬ ‫مزے م ی کڈو‬ ‫ری ن‬
‫ہ‬ ‫ق‬
‫وارڈ کے‬
‫س‬
‫ے کا اعالن ک ی ا۔ جس کو کی مو ل نایورڈ کا ام دی ا گ ی ا۔ ت ئ‬
‫اس ای ش ت‬
‫س‬ ‫سم‬ ‫ست ن ت‪1932‬ء کو ای ک ا م ی صلئ‬ ‫ن‬ ‫ے ‪ 4‬اگ‬ ‫کے یل‬ ‫تکرے ل ت‬
‫ے ای ک ہا ی ی ں‬ ‫دی گ ی۔ مرکزی ات بئلی می ں م ق لما وں کے یل‬ ‫ت ن‬ ‫خحت ا ی وں کو ئج داگا ہ ا خ ابتات کی رعای ن‬
‫ک‬ ‫س‬
‫ے ایقک چ و ھا ئی حصہ رر کر دی ا گ ی ا۔ مزی د ب رآن ھوں‪،‬‬ ‫م‬ ‫کے لی‬‫الزم وں می ں مسلما وں ت‬
‫ش‬ ‫ش‬ ‫دی گن ی ں۔ م‬ ‫ن‬ ‫صوص کر‬ ‫ئ‬ ‫م‬
‫گ‬ ‫س‬ ‫ب‬
‫ے ھی ی ں م رر کر دی ی ں۔‬ ‫عیسا ی وں ‪ ،‬ای گلو ا ڈی ن اور ودروں کے یل‬
‫ت‬
‫یسرا دور‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫خ‬ ‫ت‬ ‫نف ن‬
‫ق‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ومب ر ت‬ ‫گول شمی ز کا ر تس کا یسرا اور آ ن‬
‫‪1932‬ء ک ل دن میشں م ع دنہ ہوا۔ ق ئ‬ ‫سے ‪ 24‬ومب رئ ن‬
‫اس دور‬ ‫‪1932‬ء ن‬ ‫ری دور ‪ 17‬ف‬
‫ع‬ ‫ن‬ ‫ئ‬
‫ھی۔ کا فگری ئس کا کو ی ما دہ اس تدور قمی ں نری ک ہ وا۔ ا دات ظ م‬ ‫رکاء کینعداد پہل‬
‫ے ادوارخ کی سب ت کا شی کم ن‬ ‫ن‬ ‫می ں‬
‫ح‬ ‫ب‬
‫دمحم لی ج اح ے ھی اس آ ری دور می ں رکت ہی ں رما ی۔ اس دور کا زی ادہ ر و ت ہ دوست ان می ں کوم ی‬ ‫ع‬
‫‪15 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫ن‬ ‫غ ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ف‬ ‫ئن ت‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫ی‬ ‫ل‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ل‬
‫ے سے ئ ق امور پر ور کرے می ں گزرا ۔ کن کا گریس کی عدم‬ ‫ل‬ ‫آت را م کر ت ف‬ ‫ح‬
‫ے اور ا ی وں کو آ ی ی ٹ ظ ف‬ ‫ڈھا چ‬
‫ہ‬ ‫ن‬
‫موج ودگی کے ب اعث سی ھوس ارمولے پر ا اق راے ہ و سکا۔‬ ‫ک‬
‫من‬ ‫ت‬ ‫ف ش‬ ‫ٹ‬ ‫ن خ‬ ‫خ‬ ‫نف ن‬
‫م‬ ‫ک‬ ‫ن‬
‫گول تمی ز قکا ر س کے ا ت ت ام پر حکومت ب رطا ی ہ ے م ت لف ئی ٹ ی وں کی رپور وں ‪ ،‬س نارف نوں اور ج ناویز پر ب ی ای ک‬
‫گول نمی ز کا ر س می ں اکامی کے ب عد‬ ‫۔‬ ‫دی‬ ‫کر‬ ‫ع‬ ‫ا‬ ‫وض ا ی رطاس ای ب ض ‪White paper‬مارچ ‪1933‬ء م ں ش‬
‫ق‬ ‫ن‬ ‫ئ ن قن ی‬ ‫ن ن پن‬ ‫ح‬
‫ن‬ ‫ح‬
‫‪1935‬ء (‬‫ے ا ون نکومت ہ د مج ری ہ ن ت‬ ‫وری دی جس‬ ‫ون کی م ظ ت‬ ‫حکومت ب رطا ی ہ ے ا ی طرف سے این ک آ ی ن ما ا ق ن‬
‫عام ا خ اب ات‬
‫امسدی ا گ ی ا۔ اسن ا وننکے حت ‪1937‬ء می ں ہ ن تدوست ان می ں ن‬ ‫‪)Govt‬کا‬ ‫‪ of India‬ن‬ ‫ئ‬ ‫‪Act‬‬‫‪ 1935‬ئ‬ ‫نق‬
‫ات ئمی ں ئکا گریس کا‬ ‫ا‬ ‫خ‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫ء‬‫‪1937‬‬ ‫ا۔‬ ‫صہ‬ ‫ے‬ ‫وں‬ ‫دو‬ ‫گ‬ ‫لم‬ ‫م‬ ‫اور‬ ‫س‬‫ت‬ ‫ن‬ ‫گر‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ے۔‬ ‫ے‬ ‫کروا‬ ‫د‬ ‫مع‬
‫تب ق‬ ‫ن‬ ‫ح لی‬ ‫ت‬ ‫لی‬ ‫ی‬ ‫نت ی‬ ‫گ‬
‫ے می ں ہ ن دوست ان کی اری خ می ں پ ہلی مرت ب ہ کا گری سی وزار ی ں ا م ہ و ی ں۔‬ ‫یج‬ ‫کے‬ ‫ات‬ ‫ا‬ ‫خ‬ ‫ا‬ ‫ان‬ ‫ا۔‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫ھاری‬ ‫پ ب‬‫لڑہ‬
‫ب‬
‫ق‬
‫رارداد پ اکست ان‬

‫ن‬ ‫ٹ‬ ‫ن‬


‫الہ ور می ں آل ا ڈی ا مسلم ل ی گ ورک ن گ کمی ی کے اج الس می ں ہ ن دوست ان ب ھر سے مسلمان رہ ما‬
‫خ‬ ‫ت‬ ‫‪ 23‬مارچ‪1940 ،‬ء کو الہ ور تکے م ٹو ارک م ں آل ان ڈ ا مس‬
‫کے ی ن روزہنساالن ہ اج الس کے ا ت ت ام پر وہ‬‫غ‬ ‫گ‬ ‫ن‬
‫ی‬ ‫ل‬ ‫لم‬ ‫ن پ ن ی مس ی‬ ‫ن ت ئ‬ ‫ت خ ق‬
‫س‬
‫اری ت ی رار شداد م ظ ور کی گ ی ھی جس کی ب ی اد پر لم نل ی گ ےنب رص ی ر مینں لما وں کے ج دا وطن کے حصول کے‬
‫م‬
‫ے حری ک روع کی ھی اور سات ب رس کے ب عد اپ ا م طالب ہ م ظ ور کراے می ں کام ی اب رہ ی۔‬ ‫یل‬
‫عم‬ ‫نن‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫غ‬
‫ں ‪1936‬ء‪1937/‬ء می ں وج‬ ‫ے می ت‬ ‫ح‬ ‫ن‬
‫ے مر ل‬ ‫ہ‬
‫ے کے ل کے پ ٹل‬ ‫پ‬ ‫سو‬ ‫کو‬ ‫عوام‬ ‫دار‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫طرف‬ ‫ت‬
‫کی‬ ‫راج‬
‫ئ‬ ‫وی‬ ‫رطا‬ ‫ب‬ ‫ں‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ب رص ی‬
‫م‬ ‫ر‬ ‫ی‬
‫سے ہ زی مت ا ھا ی پڑی ھی اور اسسکے اس‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫پ ہل‬
‫م‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫گ نکو ب ری طرح ن‬ ‫س‬ ‫ے ان می ں غ لم ل ی‬ ‫ے عامشا خ اب اتپ وے ھ‬
‫ہ‬
‫ے۔ اس وج ہ سے لم ل ی گ کی‬ ‫زک چ ی ھی کہ ٹوہ ب ر صئی ر تکے م لما وں کی واحد ما دہ ج بماعت ہ ت‬ ‫دعوی کو دی د ن‬ ‫ٰ‬ ‫ق‬
‫ے سی کا عالم ھا۔‬ ‫ب‬
‫پ ی ع ب‬ ‫ج‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫ان‬ ‫اور‬ ‫ے‬‫ھ‬ ‫ے‬ ‫گ‬ ‫وٹ‬ ‫ے‬
‫ل‬ ‫ص‬ ‫حو‬ ‫کے‬ ‫وں‬ ‫ک‬ ‫کار‬ ‫اور‬ ‫ادت‬ ‫ی‬

‫فض‬
‫ل الحق‬
‫پیدائش‬ ‫‪ 26‬اکوبر ‪1873‬ء‬
‫ستوریہ‪ ,‬ضلع‬
‫جھلوکاتی‪ ,‬بنگلہ دیش‬
‫وفات‬ ‫‪ 27‬اپریل ‪1962‬ء‬
‫ڈھاکہ‪( ,‬اس وقت مشرقی‬
‫پاکستان)‬
‫دیگر‪ ‬نام‬ ‫شیر بنگال (بنگال کا‬
‫شیر)‬
‫تنظیم‬ ‫انڈین نیشنل کانگریس‬
‫آل انڈیا مسلم لیگ‬
‫کرشک پراجا پارٹی‬
‫سرامک‪-‬کرشک دال‬
‫تحریک‬ ‫تحریک خالفت‬
‫تحریک عدم تعاون‬
‫تحریک پاکستان‬

‫‪16 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫تحریک بنگالی زبان‬
‫مذہب‬ ‫اسالم‬
‫شریک‬ ‫خدیجہ بیگم‬
‫حیات‬
‫بچے‬ ‫اے کے فضل الحق‬
‫"شیر بنگال" کا عنوان اس سے رجوع مکرر ہے۔ دیگر استعمال‪ ،‬دیکھیے شیر بنگال (ضد ابہام)۔‬

‫ابوالکاشم فضل الحق (بنگالی‪ )আবুল কাশেম ফজলুল হক :‬جو مولوی فضل الحق کے نام سے‬
‫پہچانے جاتے ہیں‪ 26،‬اکتوبر سن ‪ 1873‬میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق بنگال سے تھا ۔ مولوی فضل‬
‫الحق لے قرارداد پاکستان میں اہم کام کیا جس کی وجہ سے انہیں شیر بنگال کا خطاب مال۔ یہ اپنے‬
‫وقت کے مشہور و معروف سیا ستدان تھے۔مولوی فضل الحق نے ‪ 1935‬میں کلکتہ بطور ناظم کام‬
‫کیا‪ 1937،‬تا ‪ 1943‬بنگال کے وزیر اعلی رہے اور پھر مغربی بنگال کے وزیر اعلی ‪ 1954‬میں‬
‫بنے ۔انہوں نے پاکستان کے ھوم منسٹر کا کام ‪ 1955‬میں کیا اور ‪ 1956‬تا ‪ 1958‬وہ مغربی‬
‫پاکستان کے گورنر بھی رھے۔ ان کا انتقال ‪ 27‬اپریل ‪ 1962‬میں ہوا۔‬

‫ن‬ ‫بم ئ‬ ‫ئ ت‬ ‫ض‬ ‫ن‬


‫ث‬
‫مدراس‪ ،‬یو پی‪،‬تسی پی‪ ،‬ب ہار اور اڑی سہ متی شں وا ح اک ری ت حا ل ہ و ی ھی‪ ،‬سرحد اور ب ی می ں اس ےت‬
‫ص‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫کو‬ ‫س‬ ‫کا ی‬
‫گر‬
‫ے‬ ‫س‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ک‬
‫دوسری ج مانع وں کے سا ھ ل کر م لوط کومت ی ل دی ھی اور س دھ اور آسام می ں ھی ج ہاں م لمان حاوی ھ‬ ‫ح‬ ‫خ‬ ‫ت‬ ‫م‬
‫ھی۔‬ ‫لی‬ ‫کان گریس کو ما اں کام ا ی م‬
‫ٹ‬ ‫ض‬ ‫ف‬ ‫ٹ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ف ی ضب‬ ‫ی‬
‫ن‬
‫اب می ں الب ت ہ سر ل حسی ن کی یو ی سٹ پ ار ی اور ب ن گال می ں مولوی ل الحق کی پرج ا کرش ک پ ار ی کو ج ی ت‬ ‫پ جئ ت‬
‫ہ و ی ھی۔‬
‫ق‬ ‫غ‬
‫ں سے کسی ای غک صوب ہ می ں ب ھی مسلم ل ی گ کو ا ت دارتحاصل ن ہ ہ و سکا۔ ان‬ ‫م‬ ‫وں‬ ‫ب‬‫و‬‫ص‬ ‫‪11‬‬ ‫کے‬ ‫ان‬
‫حاالت م ں ایسا مسوس ہ وت ا ت ھا کہیمس‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫دو‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫رض‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬‫ار‬ ‫ج‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫الگ‬ ‫سے‬ ‫دھارے‬ ‫اسی‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫کے‬ ‫ر‬ ‫ر‬
‫ی ب صی‬ ‫گ‬ ‫ل‬ ‫لم‬ ‫ح‬ ‫ی‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے ج ن قسے مسلما وں‬ ‫ے م ں ھ ز ادہ ہ ی سر ش‬ ‫اس دوران کا گریس ے ج و پخ ہ‬
‫دامات یک‬‫ےا ق‬ ‫س‬ ‫ی‬‫ا‬ ‫ھی‪،‬‬
‫ن‬ ‫ار‬ ‫ن‬ ‫ً‬ ‫ی‬ ‫ک‬‫چ‬ ‫ی‬ ‫ش‬ ‫کے‬‫ن‬ ‫دار‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫ار‬ ‫ب‬ ‫لی‬
‫طرات ے م تلی نن ا قروع کردی ا۔ مث ال کا گریس ے ہ ن دی کو ومی زب ان رار دے دی ا‪،‬‬ ‫ج‬
‫ن‬ ‫کےشدلوں می نں خ دش ئات اور‬
‫ے کو ومی پرچ م کی ح ی ث ی ت دے دی۔‬ ‫گاؤ ک ی پر پ اب دی عا د کردی اور کا گریس کے ر گ‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ق‬
‫صورت می ں مسلم نل ی گ کی ا ت دار سےئمحرومی کے سان ھ اس کی ی نادت می نں ئین ہ احساس پ ی دا ہ تورہ ا ھا کہ مسلم‬ ‫اس ق‬
‫ے۔ ی ہی‬ ‫ے آپ کو م لما وں کی ما دہ ج ماعت کہال ی ہ‬ ‫س‬ ‫نلقی گغ ا ت تدار‬
‫ے کہ وہ اپ‬ ‫سے اس ب اء پقر محروم کر دی گ ی قہ‬ ‫س‬ ‫م‬
‫طہ آ از ھا لم ل ی گ کی ی ادت می ں دو ج دا وموں کے احساس کی ب ی داری ک۔‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫متق‬ ‫ق‬
‫اور کا گریس‬ ‫دوسری ج ن گ عظ ی نم کی حمای ق ت کے عوض ا ت ئدار تکی ب ھر پور ن لی کے مس لہ پر ب رطا وی تراج ئ‬ ‫اسی دوران ن ق‬
‫ھ‬ ‫ک‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫ش‬
‫ے دکھا ی‬ ‫دروازے ل‬ ‫ش‬ ‫ے چک ھ‬ ‫الگ ہ وگ ی و لم ل ی گ کے یل‬ ‫س‬ ‫م‬
‫کے درم ی ان م ا ہ نھڑکا اور کا گریس ا ت دار نسے‬ ‫ئ‬
‫ہ‬
‫دے۔ اور اسی پس م ظ ر می ں ال ور می ں آل ا ڈی ا لم ل ی گ' کا ی ہ ‪ 3‬روزہ اج الس ‪ 22‬مارچ کو روع وا۔‬ ‫ہ‬

‫شق‬
‫ع ن ای ت ہللا خ اں م ر ی‬
‫عنایت ہللا خاں مشرقی‬
‫پیدائ‬ ‫‪ 25‬اگست ‪1888‬‬
‫ش‬ ‫‪ ,Amritsar‬پنجاب‪,‬‬
‫برطانوی ہند‬

‫‪17 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫وفات‬ ‫‪ 27‬اگست ‪1963‬‬
‫(عمر‪ 75 ‬سال)‬
‫الہور‪ ,‬پنجاب‪ ،‬پاکستان‬
‫دیگر‪ ‬‬ ‫عالمہ مشرقی‬
‫نام‬
‫مادر‪ ‬‬ ‫جامعہ پنجاب‬
‫علمی‬ ‫کرئسٹز کالج‪ ,‬کیمبرج‬
‫‪ Khaksar movement‬تنظیم‬
‫تحری‬ ‫تحریک آزادی ہند‬
‫ک‬ ‫تحریک پاکستان‬
‫مذہب‬ ‫اسالم‬

‫پیدائش‪ 25 :‬اگست‪1888 ،‬ء(امرتسر)‬ ‫‪‬‬


‫وفات‪ 27 :‬اگست‪1963‬ء (الہور)‬ ‫‪‬‬

‫• عالم اسالم کے فرزند‪....‬جنہوں نے ‪۱۸‬سال کی عمر میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے ریاضی‬
‫اول پوزیشن (‪ )۱۹۰۶‬میں کلیئر کر کے دنیا کو محو حیرت کردیا‪(....‬یہ ریکارڈ آج تک قائم ہے)‬
‫• عالم اسالم کے فرزند‪....‬جنہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے (‪)۱۳-۱۹۱۲‬میں بیک وقت چار‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫ٹرائی پوز آنرز رینگلر سکالر‪ ،‬بیچلر سکالر‪ ،‬فاﺅنڈیشن سکالر اورمکینیکل انجینئرنگ میں‬
‫پوزیشن مع وظائف حاصل کر کے دنیا کے طالب علموں کو حیران کردیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ‬
‫کوبرمال اعتراف کرنا پڑا کہ آٹھ سو سالہ یورپی تاریخ میں ایسا ذہین طالب علم پیدا نہیں ہوا۔ (یہ‬
‫ریکارڈ آج تک قائم ہے)۔‬
‫• عالم اسالم کے فرزند‪....‬جنہوں نے دنیا کی قوموں کو اجتماعی موت و حیات کے متعلق پیغام‬
‫اخیر اور تسخیر کائنات کا پروگرام اپنی شہرہ آفاق کتاب”تذکرہ“ (‪ )۱۹۲۴‬کے ذریعے دیاتو دنیا‬
‫بھر کے عالم دنگ رہ گئے۔ جس پر ‪۱۹۲۵‬ءمیں مشروط طور پر ادب کا ”نوبل پرائز“ پیش ہوا کہ‬
‫اردو ہماری تسلیم شدہ زبان نہیں‪ ،‬کسی یورپی زبان میں اس کا ترجمہ کیا جائے مگر شہرت و‬
‫دولت سے بے نیاز مصنف نے لینے سے انکار کر دیا۔‬
‫• عالم اسالم کے فرزند‪....‬جنہوں نے مصر میں مسئلہ خالفت پر عالم اسالم کی عالم آراءہستیوں کی‬
‫ب مصر‬ ‫کانفرنس کی صدارت کرنے کے ساتھ ساتھ جب ان ہستیوں سے پُر مغز خطاب(خطا ِ‬
‫‪ )۱۹۲۶‬کیا تو ان ہستیوں اور جامعہ ازہرمصر سے متفقہ طورپر ”عالمہ مشرقی“ یعنی ”مشرق‬
‫کے عالم“ کا خطاب دے کر آپ کی علمی صالحیتوں کا اعتراف کیاگیا۔‬
‫• عالم اسالم کے فرزند‪....‬جنہوں نے‪۱۳‬سو برس کے بعدذاتی اللچ کی بجائے فرض کی ادائیگی‬
‫قوم سازی و کردار سازی کی بنیاد پر ”خاکسار تحریک“(‪۱۹۳۱‬ء) کے ذریعے قرن اول کا سماں‬
‫باندھ کر ہندوستان کے مسلمانوں میں حقیقی مومنانہ کرداراور خلق خدا کی خدمت کا بے لوث جذبہ‬
‫پیدا کر دیا۔‬
‫• عالم اسالم کے پہلے مسلم سائنس دان‪....‬جنہوں نے ‪۱۹۵۲‬ءمیں دنیا کے بیس ہزار سائنسدانوں کو‬
‫”انسانی مسئلہ“ کے عنوان سے خط لکھ کر دنیاوی ترقی کو بے جان مشینوں کے چنگل سے نکال‬

‫‪18 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫کر کائنات کو مسخر کرنے ‪ ،‬انسانی زندگی اور اس کی روح کو کنٹرول کرنے اور دیگر کروں‬
‫میں زندگی کی موجودگی کے آثار کے راز ازروئے قرآن افشاں کر دئیے ۔‬
‫• عالم اسالم کے فرزند‪....‬جنہوں نے اپنے حسابی اندازوں سے ہندوستان میں تین سو سال سے‬
‫بننے والی مسجدوں کے قبلے غلط ثابت کرتے ہوئے قبلہ کا صحیح رخ معلوم کرنے کا فارموال‬
‫پیش کیا۔‬
‫• عالم اسالم کے پہلے فرزند‪....‬جنہوں نے ‪۱۹۴۵‬ءمیں مروجہ مغربی جمہوریت کو زرپرست مافیا‬
‫طریق انتخاب“‬
‫ِ‬ ‫کی سازش ثابت کرتے ہوئے حقیقی اسالمی فطری جمہوریت کا فارموال ”طبقاتی‬
‫کی صورت میں پیش کیا جس میں زر پرست مافیا کا دنیا کے وسائل پر سے قبضہ ختم کروانے کا‬
‫فطرتی حل موجود ہے۔ (جس کی صحت کو آج تک کوئی چیلنج نہ کر سکا)۔‬
‫• عالم اسالم کے فرزند‪....‬جنہوں نے خاکسارتحریک میں ”روزانہ عمل اور محلہ وار نظام“ کے‬
‫ذریعے مسلم وغیر مسلم میں اخوت یعنی بھائی چارہ کا جذبہ اور ایک ہی صف میں کھڑا کر کے‬
‫حصول آزادی اور‬
‫ِ‬ ‫اونچ نیچ کا خاتمہ اور عمالً مساوات پیداکر کے ”برطانوی سامراج سے نجات‪،‬‬
‫قیام پاکستان“میں اہم کردار ادا کیا۔ جس کا واضح ثبوت ‪ ۱۹‬مارچ ‪۱۹۴۰‬ءکو الہور میں‬
‫‪۳۱۳‬خاکسارغازیوں اورشہداءنے اپنے لہو سے ‪ ۲۳‬مارچ کی قرارداد تحریر کر کے اس کی راہ‬
‫اسلم بھی شہید ہوئے۔‬
‫ہموار کی جس میں ان کے فرزند احسان اﷲ خان ؒ‬
‫• عالم اسالم کے فرزند‪....‬جنہوں نے ‪۱۹۲‬ءمیں نوبل انعام‪۱۹۱۹ ،‬ء میں کابل کی سفارت‪ ،‬چار‬
‫ہزار روپے ماہانہ وظیفہ اورسرکے خطاب کی پیشکش‪۱۹۳۶ ،‬ءمیں ہندوستان کی ریاست کی‬
‫عظمی اور انگریز کی جانب سے دیگر پُر کشش پیش کشوں اورمراعات کو ٹھکرا کر اپنی‬
‫ٰ‬ ‫وزارت‬
‫خودداری ثابت کر دی۔‬
‫• پاکستان کے پہلے سیاسی رہنما‪....‬جنہوں نے دریاﺅں کے رخ موڑنے‪ ،‬دریاﺅں پر ڈیم تعمیر‬
‫کرنے‪ ،‬مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ کھٹائی میں ڈالنے‪ ،‬معاشی و اقتصادی بدحالی‪ ،‬امریکی و برطانوی‬
‫و بھارتی سازشوں‪ ،‬سول و فوجی حکومتوں اور قومی رہنماﺅں کی وعدہ خالفیوں کا پردہ چاک‬
‫کرنے کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان کے (‪ )۷۱-۱۹۷۰‬میں جدا ہونے کی سازشوں کو بے نقاب‬
‫کرنے اور اٹک کے دریا سے لے کر چین کی سرحدوں تک کے عالقوں کو غیر مستحکم کر کے‬
‫پاکستانی قوم پر جغرافیائی‪ ،‬معاشی‪ ،‬معاشرتی‪ ،‬مذہبی‪ ،‬سماجی زندگی محدود کرنے کی پیش گوئیاں‬
‫مینار پاکستان و کراچی کے جلسہ ہائے‬
‫ِ‬ ‫‪۱۹۴۶‬ء تا ‪۱۹۵۲ ،۱۹۵۰‬ء اور ‪۱۹۵۶‬ء تا ‪۱۹۶۳‬ء میں‬
‫عام میں کیں تاکہ اصالح احوال ممکن ہو سکے۔‬
‫• پاکستان کے پہلے رہنما‪ ....‬جنہوں نے اپنی ‪ ۳۶‬دیہاتوں پر مشتمل وراثتی زمینوں کو اپنے‬
‫کسانوں میں تقسیم کرتے ہوئے ہندوستان میں باقی ماندہ آبائی گھروں اور زمینوں کے کلیم سے‬
‫دستبرداری اختیار کر کے میدا ِن سیاست میں ایک نئی بے مثال اور الزوال روایت کی بنیاد رکھی‬
‫کہ سیاست در حقیقت خدمت خلق اور عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔‬
‫• پاکستان کے پہلے رہنما‪ ....‬جنہیں‪ ۳۳‬سالہ سیاسی جدوجہد میں سے انگریز سامراج اور قیام‬
‫پاکستان کے بعد کے حکمرانوں اور اپنوں و غیروں نے مل کر‪۱۸‬سال تک قید و بند کی پُر تشدد‬
‫صعوبتوں میں گذارنے پر مجبور کر دیا ۔‬
‫• پاکستان کے پہلے رہنما‪....‬جنہوں نے سب سے پہلے ”کشمیر بزور شمشیر“ حاصل کرنے کی‬
‫آواز بلند کی‪ ،‬اپنے ہزاروں جانثاروں کے ہمراہ کشمیر کی سرحدوں پر”جہادی کیمپ“ لگائے اور‬
‫‪۱۹۴۸‬ء میں آزادی کشمیر کےلئے عمالً جہاد میں حصہ لیا اور بہ نفس نفیس خود بھی زخمی‬
‫ہوئے۔‬

‫‪19 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫• پاکستان کے پہلے رہنما‪ ....‬جنہوں نے شاہانہ زندگی چھوڑ کر مجاہدانہ زندگی اپنا کر تا حیات‬
‫اے سی گاڑی‪ ،‬بجلی کے پنکھوں کا استعمال نہ کرتے ہوئے ہندوستان بھر کے دوروں کے دوران‬
‫ادنی‬
‫اپنے کھانے پینے کے اخراجات خود سے برداشت کر کے قوم سے کچھ نہ لےنے کی اپنی ٰ‬
‫سے خواہش سے بھی بے نیازی ثابت کر دی۔‬
‫• پاکستان کے وہ رہنما‪....‬جن کی نماز جنازہ میں دس الکھ سے زائد افراد نے شرکت کر کے ان‬
‫کے عمل و کردارکی صداقت پر اپنی مہرثبت کی۔ • پاکستان کے پہلے رہنما‪....‬جن کو بعد از مرگ‬
‫حضوری باغ (بادشاہی مسجد الہور) کے وسیع و عریض مقام پر قائدین خاکسار تحریک کوحکومت‬
‫کی جانب سے تدفین کی پیش کش کی گئی تو انہوں نے اپنے عظیم المرتبت قائد کی وصیت منظر‬
‫عام پر الکر امت مسلمہ اور ملت پاکستانیہ کو حیرت زدہ کر دیا کہ”مرحوم کی تدفین‪ ،‬ان کی اپنی‬
‫زرخرید زمین ذیلدار روڈ‪ ،‬اچھرہ الہور میں ہو اور اس پر گھنٹہ گھر تعمیر کر کے تحریر کیا‬
‫جائے کہ "جو قوم وقت کی قدر نہیں کرتی تباہ ہو جاتی ہے“ ۔ جہاں پر چھولداری میں بیٹھ کرآپ‬
‫نے ”خاکسارتحریک“ کو عا لمگیر سطح پر چالیا اور اسی مقام پر ہی پیوند خاک ہوکر اپنی‬
‫خودداری ثابت کر دی۔‬
‫• مقام غور و فکر ہے کہ ایسی عظیم المرتبت شخصیت کے ساتھ ‪۱۹۴۷‬ءسے لے کر اب تک‬
‫حکمرانوں ‪ ،‬ارباب تعلیم و صحافت‪ ،‬تاریخ نویسوں‪ ،‬کالم نگاروں‪ ،‬محققوں‪ ،‬قومی رہنماﺅں اور‬
‫الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کا متعصبانہ رویہ سمجھ سے باالتر ہے کہ آخر نوجوان نسل سے انہیں‬
‫کیوں بے خبر رکھا جا رہا ہے؟ جس کا واضح ثبوت یہی ہے کہ ابھی تک ”باقیات فرنگی سامراج“‬
‫کاخاتمہ نہیں ہو سکا؟ جو ہم سب کےلئے لمحہ فکریہ ہے!‬

‫ادبی خدمات‬
‫عالمہ مشرقی بلند پایہ انشاپرداز‪ ،‬فلسفی ‪ ،‬مورخ تھے۔ تذکرہ‪ ،‬خریطہ‪ ،‬اشارات قول فیصل‪ ،‬مولوی‬
‫کا غلط مذہب‪ ،‬حدیث القران‪ ،‬تین شعری مجموعے‪ ،‬حریم غیب‪ ،‬دہ الباب اور ارمغان حکیم آپ کی‬
‫مشہور تصانیف ہیں۔ انتقال کے بعد ادارہ علیہ ہندیہ‪ ،‬اچھرہ الہور میں دفن ہوئے۔ ‪1925‬ء میں جو‬
‫انہوں نے قرآن کی تفسیر لکھی تھی اس کی بنا پر انہیں نوبل انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔‬

‫ن ن ت ت ئ‬ ‫شق‬ ‫ق‬
‫خ‬
‫ے پ اب دی بوڑے ہ وئے ای ک قعسکری پری ڈ کی‬ ‫خ‬ ‫اعت‬ ‫المہئ نم ر ی کی اکسار ج م ق‬ ‫ف‬ ‫اتج الس سے ‪4‬نروز ب ل الہ ور می ںنع‬
‫کی وج ہ تسے‬ ‫ے۔ اسٹوا عہ ق‬ ‫ے پولتیس ے ا ر نگ کی۔ ‪35‬سکے ری ب ت اکسار ج اں حق ہ و ن ن‬ ‫ے کےشلی‬ ‫ھی جس کو روک‬
‫ی‬ ‫م‬
‫ردست ک ت ی دگی خ ھی اور صوب ہ ج اب می ں لم ل یسگ کی ا حادی ج ماعت یو نسٹ پ ار ی ب رسراق ت دار نھی‬ ‫پ‬ ‫الہ ور می ں زب خ‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫ب‬
‫اور اس ب ات کا طرہ ھا کہ اکسار کے ی لچ ہ ب ردار کارکن‪ ،‬لم ل ی گ کا ی ہ اج الس ہ ہ وے دی ں ی ا اس مو ع پر ہ گامہ‬
‫ب رپ ا کری ں۔‬
‫ن ن‬ ‫خ‬ ‫ف‬ ‫ع ن ن‬ ‫قئ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ق‬
‫ے‬ ‫اح ے ا ت ت احی اج الس قسے طاب ک ینا جس می قں ا ہوں‬ ‫دمحم لی ج ن‬ ‫ع‬ ‫پ‬
‫موہ ع کی اسی نزاکت کے یش ئ ظ ر ف ا قدا ظ م ن‬
‫ئ‬
‫وموں کا مس لہ‬‫ت‬ ‫ے ع ی ی ہ دو‬ ‫ی‬ ‫ے بض لکہ ب ی ن اال وامی‬ ‫ورارن ہ وعی فت کا ت نہی ں‬ ‫پ لی ب ارنکہا کہ ہندوست ان می نں مس لہ ر ہ ن‬
‫ہ‬ ‫ہ‬
‫ے کہ ای ک مرکزی حکومت کےمم تحت ان‬ ‫ہ‬ ‫وں می ں رق ا ا بڑا اور وا ح‬ ‫ے۔ اخ ہوں ے کہا کہ ہ دوؤں اورن مسلمان‬ ‫ہت‬
‫ک‬‫ل‬ ‫ع‬
‫ے کہ ان کی الحدہ ی ں‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ب‬
‫کا ا حاد طرات سے ھر پور و گا۔ ا ہوں ے کہا کہ اس صورت می ں ای ک ی راہ ہ‬
‫ف‬ ‫ہ وں۔‬
‫ن ق‬ ‫ض‬ ‫ن خ‬
‫پ‬ ‫ہ‬ ‫ح‬‫ل‬
‫گالقکے وزیر ا لی مولوی نل ا قق ے رار داد ال ت ور یش‬ ‫ع‬ ‫ن‬
‫زما نہ کے ب ت‬ ‫ن‬ ‫ئ‬
‫مارچ کو اس ئ‬ ‫‪23‬‬
‫س‬ ‫ن‬ ‫عم‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ہی طوط پر ق‬ ‫دوسرے دن ا ت‬
‫بک‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫ہ‬
‫ت فک کو ن ٹی آ ی ی پ الن نہ و اقب ل ل وگا ن اور ہن لما قوں کو ب ول وگا ج ت‬ ‫ئ‬ ‫ئ غ‬ ‫کی جس می ں کہا گ ی ا ھا کہ اس و‬
‫قکہ ان‬ ‫رار داد می شں قکہا گ ی ا ھا‬
‫ش‬ ‫و۔‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬‫غ‬ ‫دی‬ ‫بش‬ ‫حد‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫وں‬ ‫ال‬‫ع‬ ‫ہ‬ ‫ا‬‫گ‬ ‫دا‬ ‫جج‬ ‫کی‬ ‫وں‬ ‫و‬ ‫ی‬
‫ی ثی‬ ‫ا‬ ‫را‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫ای قک دوسرے سے م نل‬
‫ےہ و‬
‫ن‬ ‫عنال وں می ں ج ہاں مسلما وں کی مم ت‬
‫ال م خربی اور مال م ر ی عالے‪،‬‬
‫ص‬ ‫ع‬ ‫کے م خ‬ ‫ے کہ ہ دو شست مان ن ٹ‬ ‫ے یس‬ ‫عددی اک قری ئت ہ ئ‬
‫ا ہی ں ی کج ا کر کے ان می ں آزاد لک ی ں ا م کی ج ا ی ں ج ن می ں ا ل یو وں کو ود م ت اری اور حاکمی ت ا لی حا ل‬
‫ہ و۔‬

‫ن‬ ‫ع‬ ‫ع‬ ‫قئ‬ ‫خ‬ ‫ع‬ ‫نظف‬


‫موال ا ر لی ان اور ا دا ظ م دمحم لی ج اح‬
‫‪20 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫پن‬ ‫خ‬ ‫مس ل ی ہ ن‬ ‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫فض‬
‫الزماں ‪ ،‬ج اب‬ ‫اس رارداد کی ن ا ی د یوپی کے لم گی ر ما چ ودھری یل ق ق ض‬ ‫ن‬ ‫ل الحق خکی طرف سے پ یش کردہ‬ ‫مولوی ن ظ ف‬
‫ی‬ ‫ع‬ ‫ہ‬
‫سے موال اق ر لی ان‪ ،‬سرحدخ سے سردار اور گ نزی ب س ئدھ سے سر ع ب دہللا ارون اور ب لوچ ست ان سے ا ی سی‬ ‫ع‬ ‫ن‬
‫ے کی۔ رارداد ‪ 23‬مارچ کو ا ت ت امی اج الس می ں م ظ ور کی گ ی۔‬
‫ش‬ ‫ئ‬ ‫ق‬
‫ت‬ ‫م‬
‫کے نآ شی نن می ںن ا ل کر لئی ا گ ی ا اور‬ ‫ہ‬
‫ں رارداد ال ور کو ج قماعت ض‬‫ق‬ ‫ی‬ ‫مدراس می ں مسشلم ل ی گ ئکے الج الس م‬ ‫ت‬ ‫‪1941‬ء می ں‬‫اپری ل ش ن‬
‫ہ‬ ‫ع‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ہ‬
‫اسی کی ب ت ی اد پر پ اکست انس کیمم حریت ک روع و ی۔ تکن اس و ت ھی ان ال وں کی وا ح ا د ی ہی ں کی گ ی ھی‬
‫ج ن پر م مل عالحدہ م لم لک وں کا م طالب ہ ک ی ا ج ارہ ا ھا۔‬
‫ت‬ ‫ق‬
‫رارداد الہ ور می ں رمی م‬
‫ف ن‬
‫اب و الحسن اص ہا ی‬
‫ئ‬ ‫ننش‬ ‫ت‬ ‫نش ن‬ ‫ق‬
‫نس‬ ‫ن‬
‫ناپریشل‪1946 ،‬ء دلی کی ی نن شروزہ ک و ن منی ں کی گ ی ج‬‫ت‬ ‫ہ‬
‫ے عالسوں یکی ا د ی ‪7‬‬ ‫ے کے لی‬ ‫پ ہلی ب ار پ اکست ان ئ‬
‫کے م طالب‬
‫سے آ تے‬ ‫رطا ی ہ ئ‬ ‫ن می ں ب ن‬ ‫ن ھی۔ اس ک و ق‬ ‫مرکزی اور شصوب ا ی اسم بف لیوں کے من لمسل گی اراکی ن ے رکت کی‬ ‫می ں‬
‫لے ک ی ن‬
‫ے ای ک ف ن‬
‫رارداد م ظنور تکی گ ی ت ھی‬ ‫ے م لم ل ی گ کا م طالب ہ پ ی خش کرے کے لی‬ ‫م‬‫ا‬‫س‬ ‫کے‬ ‫د‬ ‫و‬ ‫کے‬ ‫ن‬ ‫م‬
‫س‬ ‫ٹ‬ ‫ب‬ ‫وا‬
‫ص‬‫ت‬ ‫ل‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫م‬
‫سن ا ہا یشے یشار ک ی ا ھا۔‬ ‫الزماں ن تاورہ اب و ا ح ئ‬
‫ن چ ودھریع یل قق ن ش‬ ‫کے دو ئاراکین‬ ‫م‬ ‫ش‬ ‫جس قکا مسودہ لمضل ی گ کی لس عاملہ‬
‫لے ال وں کی ا د ی کی گ ی ھی۔ مال م قرق می ں‬ ‫ن‬ ‫ے ج اے وا‬ ‫ناس راداد می ں وا ش ح طور پر غپ اکست ان می ں ا پ نل ک‬
‫رارداد‬
‫ے کہ اس ت‬ ‫ات ہ‬ ‫دھ اور ب لوچ ست ان ق۔ ت جع ب کی ب پ ن‬
‫ث‬ ‫آسام اور نمال مت رب نمی ںشصوب ہ جغ اب ‪ ،‬سرحد ‪،‬سس‬ ‫ب گالشاور ئ‬
‫می ں ک می ر کا کو ی ذکر ہی ں ھا حاال کہ مال م رب می ں م لم اک ری ت واال عال ہ ھا اور صوب ہ ج اب سے ج ڑا ہ وا ھا۔‬
‫ت ق‬ ‫مم ت‬ ‫ق‬ ‫ننش‬
‫ے کہ دلی ک و ن کی اس رارداد می ں دو لک وں کا ذکر ی کسر تحذف کر دی ا گ ی ا ھا ج و رارداد الہ ور‬ ‫ت‬
‫ہ‬ ‫ےضحد اہ م‬ ‫ی ہ ب ات ب‬
‫پ‬ ‫ل‬‫مم‬
‫می ں ب ہت وا ح طور پر ھا اس کی ج گہ پ اکست ان کی واحد کت کا م طالب ہ یش ک ی ا گ ی ا ھا۔‬
‫ت‬ ‫خ‬ ‫ق‬
‫راردا ِد الہ ور کے مسودہ کا الق کون ھا؟‬

‫سر سک ن در ح ی ات خ ان‬

‫آپ یونیونسٹ پارٹی کے صدر ‪،‬پنجاب (بامشعول ہندی پنجاب) کے گورنر اور ریزرو بنک آف انڈیا‬
‫کے ڈپٹی گورنر رہے ہیں۔‬

‫ن ن‬ ‫پن‬ ‫ق‬ ‫ً‬


‫ی‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ص‬ ‫ع‬ ‫غ‬
‫کے یو سٹ وزیر‬ ‫زماسہ کے صوب ہ جضاب ئ‬ ‫راردا ن ِد الہ ور کا اٹ ل مسودہ اس‬
‫ن‬ ‫ے تکہ‬‫ہ‬ ‫ن تلم‬ ‫ال ب ا ب ہت نکم لوگوں کوخاس کا‬
‫اع ٰنلی سر سک خدر ح ی ات نان ے یسار ک ی ا ھا۔ یو ی سٹتپ ار ی اس زمان ہ می ں م لم ل ی گ می ں م ہ و گ ی ھی اور سر‬
‫ے۔‬‫سک در ح ی ات ان صوب ہ پ ج اب م لم ل ی گ کے صدر ھ‬
‫ن‬ ‫خ ن ق‬
‫کومت کی ب ی تاد قپر ئعملی طور پر‬
‫غ‬ ‫ے رارداد کے اصل مسودہ می ں ب ر ص غ ی ر می ں ای ک مرکزی ح‬ ‫نسر سکشن در ح ی تات ان ت‬
‫ع‬ ‫ع‬ ‫کم ٹ‬ ‫س‬ ‫ل‬ ‫ف‬
‫کی ج ویز پ یش کی ھی ی کن ج ب اس مسودہ پر م لم ل ی گ کی بس ج ی کٹ ی ی می ں ور ک ی ا گ ی ا و ا د ا ظ م دمحم لی‬ ‫خ‬ ‫ک ن ڈری ن‬
‫ن‬
‫ج اح ے ود اس مسودہ می ں واحد مرکزی حکومت کا ذکر ی کسر کاٹ دی ا۔‬
‫پن‬ ‫ن ن‬ ‫ت‬ ‫خ ن‬
‫سم‬
‫ے اور ا نہوں ے ‪11‬ن مارچ ت‪1941 ،‬خء کو ج اب کی ا ب لی م نی تں صاف‬ ‫ت اراض ھ‬ ‫س‬ ‫ر‬ ‫سر سک ن در حتی ات خ ان اس ب ات ن‬
‫پ‬
‫ے۔ ان کا کہ ا ھا کہ وہ‬ ‫خ‬ ‫ہ‬ ‫لف‬‫خ‬ ‫صاف کہا ھا کہ ان کا تپ اکست ان کا ظ ری ہ ج ن اح صاحب کے ظ ری ہ سے ب ن ی ادی قطور پر م ت‬
‫اور دوسری طرف مسلم راج کی ب ی اد پر سی م کے س ت الف ہ ی ں اور وہ ای سی‬ ‫ق‬ ‫طرف ہ ن دؤ راج‬ ‫ہق ن دوست ان می ں ا ک ق‬
‫ی‬
‫ب ول ان کے ت ب اہ کن سی م کا ڈٹ کر م اب لہ کری ں گے۔ مگر ایسا ن ہ ہ وا۔‬
‫ن‬ ‫ئ‬ ‫نتق‬ ‫سر سک ن درفح ی ات خ ٹ‬
‫ے یوں پ ج اب می ں دمحم علی ج ن اح کو‬ ‫گ‬ ‫کر‬ ‫ال‬ ‫‪1942‬ء می ں ‪50‬ئسال کی عمر می ں ا‬ ‫ن‬ ‫دوسرے سال‬ ‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ان‬ ‫ش‬
‫ے ہ وے حصار سے ج ات مل گ ی۔‬ ‫دی د مخ ال ت کے ا ھ‬

‫ش‬
‫حسی ن ہ ی د سہروردی‬

‫‪21 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫حسین شہید سہروردی پاکستان کے سیاست دان تھے آپ ‪1956‬ء سے ‪1957‬ء تک پاکستان کے‬
‫وزیراعظم رہے۔ آپ قائد اعظم کے پسندیدہ افراد میں سے تھے۔ ‪ 16‬اگست‪1946 ،‬ء کے راست اقدام کے‬
‫موقع پر آپ نے شہرت حاصل کی۔‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫س‬ ‫ہروردی ے پ یش کی ف‬ ‫ن‬
‫اور ضیو پی کے م لم‬ ‫رارداد حسی ن ہ ی د س ن‬ ‫کی ق‬ ‫ن ان کے تم طالب ہ ت‬
‫ئ‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫پ‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫و‬ ‫‪ 1946‬نء کے دلی خک‬
‫راردا ِد الہ ور یش خکرے والے تمولوی ل الحق اس‬ ‫پ‬ ‫ھی۔‬ ‫کی‬ ‫د‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫کی‬‫ن‬‫اس‬ ‫ے‬ ‫ئ‬ ‫الزماں‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ل‬
‫ی‬ ‫ودھری‬ ‫چ‬ ‫ما‬ ‫گی رہ‬
‫ش‬ ‫لی ن‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫ک و ن می ں ری ک ہی ں ہ وے کی و کہ ا ہی ں ‪1941‬ء می ں مسلم ل ی گ سے ارج کردی ا گ ی ا ھا۔‬
‫ق‬ ‫ف‬ ‫ق‬ ‫ش ن‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ش کی کہ ی ہ رارداد‬ ‫ے اس رارداد ئکی پر زور مخ ال ت کی اور ی ہ د نل ی تل پ ی ق‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫الہا‬ ‫و‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫ما‬ ‫دلی ک و قن می ں ب گال کے خرہ‬
‫ک‬
‫ے‪ -‬ان کا کہ نا ھا کہ ق رارداد الہ ورتمی ں‬ ‫ے ج و م لمتل ی گ کے آن نی شن کا محسصہ ہ‬ ‫سے ب ال ل قم ت لف ہ‬ ‫قالہضور کی راردادمم ت‬
‫طور پر خدو لنک وں کے ی ام کا م طالب ہ ک ی ا گ ی ا ھا لہذا دلی ک و ن کو لم ل ی گ کی اس ب ی ادی رارداد می ں رمی م کا‬ ‫وا ح ئ‬
‫ط عی کو ی ا ت ی ار ہی ں‪-‬‬
‫ت‬ ‫شن‬ ‫قئ ع ن‬ ‫ش‬
‫ن‬ ‫ض‬ ‫ق‬ ‫بم ئ‬ ‫ن‬
‫احت شکی ھی‬‫ن‬ ‫اب والہا مقکے نم طابق ا غ د ا ظ م ے اسی ک و ن تمی ں اور ب عد می ں ب ی قمی ں ای ک مال ات می ں ی ہ و‬
‫سم‬
‫ے لہذا دلی ک و ن کی‬ ‫قکہ اس و ت چ و کہ بممرص ی ر می ں دو الگ الگ دس ور ساز ا ب لیوں کے ی ام کی ب ات ہ و رہ ی ہ‬
‫ے۔‬ ‫رارداد می ں ای ک لکت کا ذکر ک ی ا گ ی ا ہ‬

‫غ‬ ‫خ‬
‫چ ودھری یل ق الزماں اور آ ا خ ان سوم‬
‫ت ث‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ق‬
‫ت ج ب پ اقکست ان کی فدس ور ساز اسم بخلی آ ی ن مرت ب کرے گی و وہ اس مس ئ لہ کی ح می الث ہ وگی اور اسے‬ ‫الب ہ اس ومم ت‬
‫ت‬
‫دو عالحدہ لک وں کے ی ام کے ی صلہ کا پورا ا ت ی ار ہ وگا۔‬
‫ق‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ع‬ ‫سم ن ن ت ق ئ‬ ‫ت‬
‫کن پ اکست نان کی دس‬ ‫لی‬
‫ب سن ‪1956‬ء می ں ملک کا‬ ‫ق ج غ‬‫ت‬ ‫و‬ ‫اس‬ ‫ہ‬ ‫اور‬ ‫ں‬
‫خ ی خ مم ت‬‫م‬ ‫دگی‬ ‫ز‬ ‫کی‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ا‬ ‫د‬ ‫ا‬ ‫و‬‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫لی‬ ‫غب‬ ‫ا‬ ‫ساز‬ ‫ور‬
‫ت‬ ‫ئ‬
‫پ ہال آ ی ن م ظ ور ہ و رہ ا ھا ب ر ص ی ر می ں مسلما وں کی دو آزاد اور ود م ت ار لک وں کے ی ام پر ور ک ی ا۔‬
‫غ‬ ‫ن‬
‫ش‬ ‫ت پت‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫م‬
‫‪ 25‬نسال کی س ی اسی ا ھل ممل تاور کش اور ‪1971‬ء می ں بق گلہ دیش کی ج گ کی ب اہ ی کے ب عد افلب ہ ب رص ی ر می ں‬
‫ت‬ ‫ک‬ ‫ھ‬
‫ب‬ ‫ک‬
‫ے۔‬ ‫مسلما وں کی دو الگ الگ ل ی ں اب ھری ں ج ن کا م طالب ہ رارداد الہ ور کی صورت می ں آج ھی مح وظ ہ‬
‫ق‬
‫یوم راست ا دام‬
‫یوم راست اقدام (بنگالی‪ 16 ,)প্রত্যক্ষ সংগ্রাম দিবস :‬اگست ‪1946‬ء کو کلکتہ کے عظیم قتل و‬
‫غارت (‪ )Great Calcutta Killings‬کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اس دن کلکتہ‪ ،‬جسے اب‬
‫ے‪ ،‬میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان خونریز فسادات پھوٹ پڑے۔‪ ]1[.‬۔ مسلم‬
‫کولکتہ کہا جاتا ہ‬
‫لیگ کی کونسل نے اپنے مقاصد کے حصول یعنی قیام پاکستان کے لیے یوم راست اقدام اعالن کیا‬
‫تھا۔ اس کے نتیجے میں ہندوستان کی تاریخ کے بدترین فسادات شروع ہو گئے۔‬
‫ش‬
‫ک ی بن ٹ م ن پ الن‪1946 ،‬ء‬
‫پس منظر‬
‫انتخابات ‪1946‬ء کے فوراً بعد حکومت برطانیہ نےہندوستان کی گھتی سلجھانے اور انتقال اقتدار‬
‫کے لیے راہ ہموار کرنے کی غرض سے تین وزراء پر مشتمل ایک مشن ہندوستان بھیجا۔ یہ مشن‬
‫کیبنٹ مشن یا وزارتی مشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس مشن میں مندرجہ ذیل تین وزراء‬
‫شامل تھے۔‬
‫‪1‬۔ الرڈ پیتھک الرنس‪Lord Pathick Lawrence‬‬
‫‪2‬۔ سر سٹیفورڈ کرپس‪Sir Stafford Cripps‬‬
‫‪3‬۔اے ۔ وی ۔ الیگزینڈر‪AV Alexander‬‬

‫‪22 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫وائسرے ہند الرڈ ویول کیبنٹ مشن کو ‪(The three Magi‬تین میگی) کے نام سے پکارتے تھے۔‬
‫مشن کا اصل مقصد ہندوستان میں ایک عارضی حکومت کا قیام اورکانگرس اور مسلم لیگ کے‬
‫درمیان موجود آئینی بحران کو ختم کراکے انتقال اقتدار کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔‬
‫مشن کو ہندوستان پہنچتے ہی وائسرائے ہند‪ ،‬صوبائی گورنروں ‪ ،‬ایگزیکٹیو کونسل کے اراکین اور‬
‫کانگرس اور مسلم لیگ کے لیڈروں کے ساتھ اپنی بات چیت کا سلسلہ شروع کیا۔ لیکن ان مالقاتوں‬
‫کا کوئی خاص نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ اس لیے مشن نے شملہ کے مقام پر اہم سیاسی راہنماؤں کی ایک‬
‫مشترکہ کانفرنس بالنے کا فیصلہ کیا۔ یہ کانفرنس ‪ 5‬مئی ‪1946‬ء سے ‪ 12‬مئی ‪1946‬ء تک شملہ‬
‫میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے قائداعظم محمد علی جناح ‪،‬‬
‫لیاقت علی خان ‪ ،‬نواب محمد اسماعیل خان اور سردار عبدالرب نشتر نے شرکت کی جبکہ کانگرس‬
‫کی نمائندگیابوالکالم آزاد ‪ ،‬پنڈت جواہر الل نہرو ‪ ،‬ولہ بائی پٹیل اور خان عبدالغفار خان نے کی۔‬
‫دونوں سیاسی پارٹیوں کے مؤقف میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ مسلم لیگ ہندوستان کی تقسیم چاہتی‬
‫تھی جبکہکانگرس ہندوستان کی سالمیت پر آنچ آنے کے لیے کسی بھی قیمت پر راضی نہ تھی۔‬
‫کانفرنس کے اختتام پر ’’تین میگی‘‘ ان حاالت سے دوچار تھے کہ وہ نہ تو مسلم لیگ کے‬
‫مطالبے کو جائز قرار دے سکتے تھے اور نہ ہی کانگرس کی خواہش کو جائز کہہ سکتے تھے۔‬
‫اس لیے اس مشن نے ‪ 16‬مئی ‪1946‬ء کو اپنی طرف سے ایک منصوبہ پیش کیا اس منصوبے کو‬
‫’’کیبنٹ مشن پالن‘‘ کہتے ہیں۔ اس منصوبے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں دونوں سیاسی‬
‫پارٹیوں کے نقطہ نظر کو ایک خاص تناسب کے ساتھ شامل کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے دو‬
‫حصے تھے۔ ایک قلیل المعیاد منصوبہ جس کے تحت ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں النا‬
‫تھا ‪ ،‬دوسرا طویل المعیاد منصوبہ جس کے تحت کم از کم دس سال کے لیے ہندوستان کو تقسیم‬
‫سے روکنا تھا۔‬

‫اہم نکات‬
‫‪1‬۔ برطانوی ہند کے صوبوں پر مشتمل ایک کل ہند یونین (مرکزی حکومت) کا قیام عمل میں الیا‬
‫جائے گا ۔ اس یونین کے پاس خارجہ امور ‪ ،‬دفاع اور مواصالت کے شعبے ہوں گے‬
‫‪2‬۔ برطانوی ہند اور ریاستوں کے نمائندوں کے باہمی اشتراک سے مرکزی حکومت اپنی انتظامیہ‬
‫اور مقننہ تشکیل دے گی۔ مقننہ میں زیر غور ہر ایسا معاملہ جس سے کوئی بڑا فرقہ ورانہ مسئلہ‬
‫پیدا ہونے کا امکان ہو‪ ،‬کو فیصلہ کرنے کے لیے ہر دو بڑی قومیتوں کے نمائندوں کی اکثریت اور‬
‫پارلیمنٹ میں موجود اراکین کی اکثریت ضروری قرار دی گئی۔‬
‫‪ 4‬۔ پالن ہذا کے مطابق برطانوی ہند کے تمام گیارہ صوبوں کو مندرجہ ذیل تین گروپوں میں تقسیم‬
‫کیا گیا۔ گروپ الف میں ہندو اکثریت صوبے اُڑیسہ ‪ ،‬بہار ‪ ،‬بمبئی ‪ ،‬سی پی ‪ ،‬مدراس اور یو۔ پی ۔‬
‫گروپ ب میں شمال مغرب میں مسلم اکثریت کے صوبے پنجاب ‪ ،‬صوبہ سرحد‪ ،‬اورسندھ جبکہ‬
‫گروپ ج میں شمال مشرق میں مسلم آبادی کے صوبے بنگال اور آسام شامل کیے گئے۔‬
‫‪5‬۔ خارجہ امور ‪ ،‬دفاع اور مواصالت کے شعبوں کے عالوہ دیگر تمام شعبے صوبوں اور‬
‫ریاستوں کو دینے کی سفارش کی گئی۔‬
‫‪6‬۔ کل ہند یونین کے آئین اور ہر گروپ کے آئین میں ایک شق ایسی ہوگی جس کے تحت کوئی بھی‬
‫صوبہ اگر چاہے تو ہر دس سال کے بعد اپنی قانون ساز اسمبلی کی اکثریت کی خواہش پر آئین کی‬
‫نکات یا شقوں پر ازسرنو غور کرنے کا مجاز ہوگا۔ شق ہذا کے مطابق تمام صوبوں کو یہ اختیار‬
‫دیا گیا کہ دس سال گذرنے کے بعد وہ انفرادی طور پر یا گروپ کی صورت میں اگر چاہیں ‪ ،‬توکل‬
‫ہندوستان یونین سے علیحدگی اختیار کرسکتے ہیں۔‬

‫‪23 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫‪7‬۔ صوبائی اسمبلیوں میں صوبوں کو آبادی کے تناسب سے نشستیں االٹ کرنے کے لیے کہا گیا ۔‬
‫ہر دس الکھ افراد کے لیے ایک نشست مخصوص کی گئی۔ برطانوی ہند کے گیارہ صوبوں کو کل‬
‫دو سو نوے نشستوں میں تقسیم کیا گیا جن میں اٹھہتر مسلمانوں کے لیے مقرر کی گئیں اسی طرح‬
‫ریاستوں کو زیادہ سے زیادہ تریانو ‪ 93‬نشستیں دی گئیں‬
‫منصوبے کو قابل عمل بنانے کے لیے کیبنٹ مشن نے یہ بھی شرط عائد کر دی کہ جو بھی سیاسی‬
‫پارٹی اس پالن کو مسترد کرے گی اسے عبوری حکومت میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دی‬
‫جائے گی۔‬

‫مسلم لیگ اور کانگریس کاردعمل‬


‫ابتداء میں کیبنٹ مشن پالن پرکانگرس اور مسلم لیگ کا ردعمل مختلف رہا۔ ‪ 6‬جون ‪1946‬ء کو‬
‫مسلم لیگ نے کیبنٹ مشن پالن کو منظور کر لیا ‪ ،‬کیونکہ اس میں ہندوستان کی تقسیم اور قیام‬
‫پاکستان کے آثار موجود تھے۔ دوسری طرف کانگرسنے پس و پیش سے کام لیتے ہوئے باآلخر ‪25‬‬
‫جون ‪1946‬ء کو کیبنٹ مشن پالن کے ایک حصے کو مشروط طور پر منظور کر لیا اور دوسرے‬
‫کو نامنظور کرلیا۔ جو طویل المعیاد منصوبہ تھا جس کے تحت صوبوں کو گروپوں میں تقسیم اور‬
‫آل انڈیا یونین کا قیام عمل میں النا تھا کو قبول کر لیا گیا۔ جو قلیل المعیاد منصوبہ تھا۔ جس کے‬
‫تحت ایک عارضی حکومت کا قیام عمل میں النا تھا‪ ،‬کو مسترد کر دیا گیا۔‬
‫اس صورت حال میں انگریز سرکار کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ مسلم لیگ کو عبوری حکومت‬
‫بنانے کی پیشکش کرتے ‪ ،‬کیونکہ مسلم لیگنے کابینہ مشن پالن کو مکمل طور پر قبول کر لیا تھا ‪،‬‬
‫لیکن افسوس کہ انگریز سرکار ایسا نہ کر سکی انگریز کی اس بدعدہ کے نتیجے میں مسلم لیگ‬
‫نے احتجاجا ً ‪ 29‬جوالئی ‪1946‬ء کو نہ صرف اپنی قبولیت (کابینہ مشن پالن کی قبولیت) واپس لی‬
‫بلکہ راست اقدام لینے کا بھی فیصلہ کیا ۔ اور پورے ہندوستان کی سطح پر ہڑتال کرانے کے لیے‬
‫‪ 16‬اگست ‪1946‬ء کی تاریخ بھی مقرر کر دی گئی۔ اس موقع پر کانگرس پنڈتوں نے ایک نیا‬
‫سیاسی کارڈ کھیلتے ہوئے ‪ 10‬اگست ‪1946‬ء کو کابینہ مشن پالن کے دونوں حصوں کو منظور کر‬
‫لیا۔ اس سیاسی پیش رفت کے بعد وائسرائے ہند نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ‪ 12‬اگست‬
‫‪1946‬ء کو کانگرس کے صدر پنڈت جواہر الل نہرو سے عبوری حکومت کے قیام سے متعلق‬
‫تجاویز طلب کیں۔ لندن سے منظوری حاصل کرنے کے بعد وائسرائے نے ‪ 24‬اگست کو پنڈت‬
‫جواہر الل نہرو اور ان کے ساتھیوں کی عبوری حکومت میں شمولیت کا اعالن کیا ۔ اس اعالن‬
‫کے بعد ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات کا ایک الفانی سلسلہ شروع ہوا جو عالقے اور شہر سب‬
‫سے زیادہ متاثر ہوئے ان میں کلکتہ ‪ ،‬بمبئی ‪،‬آگرہ ‪،‬احمد آباد‪ ،‬نواں کلی ‪ ،‬بہار اور دہلی کے نام قابل‬
‫ذکرہ یں۔ ان حاالت و واقعات میں کانگریسی لیڈروں نے انگریزوں کے ساتھ اپنی دوستی اور وفا کا‬
‫بھرم رکھتے ہوئے ‪ 2‬ستمبر ‪1946‬ء کو عبوری حکومت میں شامل ہونے کا حلف اٹھایا‬
‫اس کے بعد وائسرائے ہند الرڈ ویول ‪ ،‬قائداعظم اورپنڈت نہرو کے درمیان بات چیت کا ایک نیا‬
‫سلسلہ شروع ہوا ۔ نواب صاحب آف بھوپال نے کانگرساور آل انڈیا مسلم لیگ کے درمیان مستقل‬
‫بنیادوں پر مفاہمت پیدا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔ مگر ان کی کوششیں بار آور ثابت‬
‫نہ ہوئیں۔ بات چیت کے اس دور کا ایک نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے ‪ 16‬اکتوبر‬
‫‪1946‬ء کو عبوری حکومت میں شامل ہونے کا اعالن کر دیا۔ لیکن لیگ میں شمولیت سے‬
‫ہندوستانی مسئلے کی نوعیت میں کوئی فرق نہ آیا۔کیونکہ قائداعظم محمد علی جناح نے مجوزہ‬
‫قانون ساز اسمبلی میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا ۔ انکار کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پنڈت‬
‫جواہر الل نہرو کابینہ کو مشن کے بعض نکات جو طویل العمیاد منصوبے سے متعلق تھے کو توڑ‬
‫مروڑ کر پیش کر رہے تھے۔ اور مجوزہ قانون ساز اسمبلی کی تعریف و توضیح اور دائرہ کار‬
‫کے اختیارات سے متعلق وضاحتیں اور تشریحات اپنے مفاد اور اپنی خواہشات کے مطابق کر‬
‫رہے تھے۔‬

‫‪24 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫نہرو کا استدالل یہ تھا کہ مجوزہ قانون ساز اسمبلی مکمل طور پر ایک خودمختار ادارہ ہوگا ۔ اور‬
‫یہ ادارہ جو چاہے کر سکے گا۔ لیگ کے لیے ایسے ادارے میں شرکت اپنے مطالبے (مطالبہ‬
‫پاکستان) سے خود بخود دستبردار ہونے کے مترادف تھا۔ بقول لیاقت علی خان‪:‬‬
‫’’ اگر مجوزہ قانون ساز اسمبلی کو مکمل طور پر خود مختار ادارہ مان لیا جائے تو اس میں مسلم‬
‫لیگ کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی ‪ ،‬کیونکہ اس اسمبلی میں ایک مسلم ممبر کا مقابلہ دیگر چار‬
‫اراکین سے ہوگا۔‘‘‬
‫اگر قائداعظم مجوزہ قانون ساز اسمبلی میں شرکت نہ کرنے کا اعالن نہ کرتے تو کانگریس اپنی‬
‫اکثریت کی بنیاد پر اپنی ہی خواہشات کے مطابق ہندوستان کے لیے آئین تیارکرتی ۔ لیکن مسلم لیگ‬
‫کسی بھی قیمت پر کانگریس کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی تھی اور یوں اتنی سیاسی پیش‬
‫رفت کے باوجود ان دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان موجود آئینی بحران اور سیاسی اختالف‬
‫بدستور قائم رہا۔‬

‫مجموعی‪ /‬جائزہ‬
‫کیبنٹ مشن پالن اور اس پرمسلم لیگ اورکانگرس کے ردعمل کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے‬
‫پر پہنچنا نہایت ہی آسان ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریز سرکار ہندوستان کو آزادی‬
‫دینے کے لیے راضی ہے لیکن وہ ہندوستان کا مسئلہ ہندوستانیوں ہی ذریعے حل کروانا چاہتی ہیں۔‬
‫دوسری طرف کانگریس اور لیگ کے مؤقف میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔‬
‫دوسری جنگ عظیم کے بعد کانگریس ہندوستان کی سالمیت پر کوئی آنچ آنے کے لیے تیار نہیں‬
‫ہے جبکہ مسلم لیگ کی قیادت کے لیے ہندوستان کی تقسیم کے بغیر کوئی دوسرا حل قابل قبول‬
‫نہیں ہے۔ اس موقع پر کانگریسی پنڈتوں کی سیاسی چالوں کا بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو معلوم‬
‫ہوگا کہ وہ مسلم لیگی زعماء کے ساتھ ایک انوکھا سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں۔ وہ ہر جائز و‬
‫ناجائز طریقے سے مسلم لیگ کو عبوری حکومت سے باہر رکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کی راہ میں‬
‫قائد ایک ایسا ناقابل تسخیر چٹان کی مانند ہے جس کو ٹوڑنا یا مسخر کرنا ان کے بس کا روگ نہیں‬
‫ہے۔‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ق‬
‫ا ون آزادی ہ د ‪1947‬ء‬
‫جوالئی ‪1947‬ء کو ایک مسودہ قانون برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ ‪15‬جوالئی کو دارالعوام‬
‫نے اس کی منظوری دے دی‪ 16 ،‬جوالئی ‪1947‬ء کو دار االمراء نے بھی اس کو منظور کیا۔ ‪18‬‬
‫جوالئی ‪1947‬ء کو شاہ برطانیہ نے اس کی منظوری دے دی‪ ،‬پھر اس قانون کے تحت تقسیم ہند‬
‫عمل میں الئی گئی اور دو نئی عملداریاں مملکت پاکستان اور مملکت بھارت وجود میں آئیں۔ قانون‬
‫کو شاہی اجازت ‪ 18‬جوالئی ‪1947‬ء کو حاصل ہوئی۔ اور دو نئے ممالک پاکستان اور بھارت ‪15‬‬
‫اگست کو وجود میں آئے۔‬
‫اس قانون کے اہم نکات درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫دو نئے ممالک پاکستان اور بھارت بنائے جائیں گے۔‬ ‫‪.1‬‬
‫دونوں ممالک مکمل طور پر آزاد و خود مختار ہوں گے ان پر برطانوی حکومت مکمل‬ ‫‪.2‬‬
‫طور پر ختم کر دی جائے گی۔‬
‫دونوں ممالک کی اپنی مجالس قانون ساز ہوں گی جو ان ممالک کے لئے آئین بنائیں گی۔‬ ‫‪.3‬‬
‫جب تک نیا آئین نہیں بنتا اس وقت تک ‪1935‬ء کا آئین رائج رہے گا دونوں ممالک کی‬ ‫‪.4‬‬
‫اسمبلیاں اس آئین میں ترمیم کا اختیار رکھتی ہیں۔‬
‫حکومت برطانیہ اور ہندوستانی شاہی ریاستوں کے درمیان تمام معاہدے ختم کئے جاتے ہیں۔‬ ‫‪.5‬‬

‫‪25 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫حکومت برطانیہ کو یہ اختیارات نہیں ہونگے کہ وہ کسی ملک کی قانون ساز اسمبلی کے‬ ‫‪.6‬‬
‫بنائے ہوئے قانون کو رد یا منظور کریں یہ اختیارات اس ملک کے گورنر جنرل کو حاصل‬
‫ہیں۔‬
‫شاہ برطانیہ کے خطابات میں سے شہنشاہ ہند کا خطاب ختم کیا جاتا ہے۔‬ ‫‪.7‬‬ ‫تق‬
‫سی م ہ ن د‬
‫برطانوی قانون آزادی ہند ‪1947‬ء کے تحت ‪ 15‬اگست ‪1947‬ء کو پاکستان اور بھارت کے قیام کو‬
‫تقسیم ہند کہا جاتا ہے جس کے تحت دونوں ممالک نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ اس تقسیم‬
‫کے نتیجے میں مشرقی بنگال پاکستان اور مغربی بنگال بھارت میں شامل ہوا اور پنجاب بھی‬
‫پاکستان کے موجودہ صوبہ پنجاب اور بھارت کے مشرقی پنجاب میں تقسیم ہوگیا۔‬
‫اس تقسیم کے بعد نوزائیدہ پاکستانی ریاست کا دارالحکومت کراچی قرار پایا جہاں قائد اعظم محمد‬
‫علی جناح نے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ پاکستان اپنا یوم آزادی ‪ 14‬اگست‬
‫جبکہ بھارت ‪ 15‬اگست کو مناتا ہے۔‬
‫تقسیم ہند کا بنیادی محرک مسلمانان ہند کی وہ عظیم تحریک تھی جو انہوں نے برصغیر میں ایک‬
‫الگ وطن قائم کرنے کے لیے شروع کی تھی۔ جس کے لیے انہوں نے مسلم لیگ کا پلیٹ فارم‬
‫استعمال کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانان ہند کا خواب ‪ 14‬اگست ‪1947‬ء کی‬
‫شب پورا ہوا جب ‪ 27‬رمضان المبارک کی مبارک ساعتیں تھیں۔‬
‫ئ‬
‫ری ڈکلف ال ن‬
‫ریڈکلف الئن (‪ )Radcliffe Line‬تقسیم ہند کے وقت بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک خط تھا‬
‫جو دونوں ملکوں کے مابین تعین حدود کرتا تھا جس کا اعالن ‪ 17‬اگست ‪1947‬ء کو کیا گیا۔ اس‬
‫خط کا نام سیریل ریڈکلف (‪ )Cyril Radcliffe‬کے نام پر ہے جو تقسیم ہند کے وقت سرحد کمیشن‬
‫کا چیئرمین تھا۔ سرحد کمیشن کو ‪ 88‬ملین افراد کے ساتھ ‪ 175،000‬مربع میل (‪ 450،000‬مربع‬
‫کلومیٹر) اراضی کی غیر جانب دارانہ اور منصفانہ تقسیم کی ذمہ داری دی گئی تھی۔‬

‫پس منظر‬
‫‪ 15‬جوالئی ‪1947‬ء کو برطانیہ کی پارلیمنٹ نے قانون آزادی ہند ‪ 1947‬منظور کیا جس کے‬
‫مطابق ہندوسنان پر برطانوی راج ایک ماہ بعد ‪ 15‬اگست ‪1947‬ء کو ختم ہو جائے گا۔ قانون آزادی‬
‫ہند ‪ 1947‬میں یہ کہا گیا تھا کہ ہندستان دو زیر برطانیہ دو خود مختار ڈومنین یا مملکتوں مملکت‬
‫پاکستان اور مملکت بھارت میں تقسیم ہو گا۔‬
‫تقسیم سے پہلے ہندوستان کے تقریبا ‪ 40‬فیصد عالقے پر نوابی ریاستیں قائم تھیں۔ نوابی ریاستیں‬
‫چونکہ برطانوی راج کے ماتحت اتحاد میں شامل تھیں اور اپنے امور خارجہ کے خود ذمہ دار‬
‫تھیں اس لیے یہ تقسیم ہند کا حصہ نہیں بنیں۔ اس طرح برطانیہ نہ تو انہیں آزادی اور نہ ہی تقسیم‬
‫کر سکتا تھا۔ ریاستوں کے حکمرانوں کو یہ اختیار حاصل تھا وہ نئے بننے والے ڈومنین میں سے‬
‫ایک کے ساتھ الحاق کر لیں یا آزاد رہیں۔‬
‫اس صورت حال میں تقریبا تمام نوابی ریاستوں نے فوری طور پر بھارت یا پاکستان میں شمولیت‬
‫کا فیصلہ کیا۔ جبکہ ایک چھوٹی تعداد نے عالحدہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان ایک مسلم سر زمین‬
‫کے طور پر سامنے آیا جبکہ بھارت ہندو اکثریت کے ساتھ سیکولر ریاست تھی۔ شمال میں مسلم‬
‫اکثریتی برطانوی صوبے پاکستان کی بنیاد بنے۔‬

‫‪26 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫بلوچستان (مسلم ‪ )٪91،8‬اور سندھ (مسلم ‪ )٪72.7‬کے صوبے مکمل طور پر پاکستان کو دے‬
‫دیے گئے۔ تاہم شمال مشرق میں بنگال (‪ ٪54.4‬مسلم) شمال مغرب میں اور پنجاب (‪ ٪55.7‬مسلم)‪،‬‬
‫دو صوبوں میں بھاری اکثریت نہ ہونے کی صورت میں انہیں تقسیم کا فیصلہ کیا گیا۔ یوں صوبہ‬
‫پنجاب کا مغربی حصہ مغربی پاکستان کا صوبہ مغربی پنجاب (بعد میں پنجاب) بنا۔ جبکہ دوسرا‬
‫حصہ بھارت کی ریاست مشرقی پیجاب بنا جسے بعد میں پنجاب اور دیگر دو ریاستوں میں تقسیم‬
‫کر دیا گیا۔ بنگال کو مشرقی بنگال (مشرقی پاکستان میں) اور مغربی بنگال (بھارت میں) تقسیم کر‬
‫دیا گیا۔ آزادی کے بعد شمال مغربی سرحدی صوبہ (جس کی سرحد افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈ الئن‬
‫کے تحت معین کی گئی تھی) میں ریفرنڈم کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔‬

‫طریقہ کار اور اہم شخصیات‪/‬‬


‫ایک خام سرحد پہلے سے ہی وائسرائے آرچیبالڈ ویول کے تحت نئے وائسرائے الرڈ ماؤنٹ بیٹن‬
‫کے فروری ‪1947‬ء میں قلم دان سنبھالنے سے قبل تیار کر لی گئی تھی۔ برطانیہ نے دو سرحدی‬
‫[‪]1‬‬
‫کمیشن پر سر سیریل ریڈکلف چیئرمین مقرر کیا ایک پنجاب اور ایک بنگال کے لئے۔‬
‫کمیشن کر مسلمان اکثریتی عالقوں اور غیر مسلم عالقوں کی بنیاد پر پنجاب اور بنگال کو دو‬
‫حصوں میں تقسیم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ہر کمیشن میں چار ہندوستان نمائندے تھے‪ ،‬دو آل‬
‫انڈیا کانگریس سے اور دو آل انڈیا مسلم لیگ سے۔ دونوں فریقوں کے مفادات اور ان کے متعصبانہ‬
‫رویوں کی وجہ سے تعطل کو دیکھتے ہوئے حتمی فیصلہ ریڈکلف کا تھا۔ ‪ 8‬جوالئی ‪1947‬ء کو‬
‫ہندوستان پہنچنے کے بعد ریڈکلف کو سرحد پر فیصلہ کرنے کے لئے صرف پانچ ہفتوں کا وقت‬
‫[‪]2‬‬
‫دیا گیا۔‬
‫ریڈکلف نے جلد ہی اپنے کالج کے ساتھی سابق طالب علم الرڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مالقات کی‬
‫اور کمیشن کے ارکان کو ملنے کے لئے الہور اور کلکتہ کا سفر کیا۔ بنیادی طور پر نہرو‬
‫کانگریس اور جناح مسلم لیگ کے نمائندوں کے طور پر۔ سرحد پر فیصلہ صرف دو دن قبل کیا گیا‬
‫لیکن اس کا اعالن ‪ 17‬اگست ‪1947‬ء کو پاکستان اور بھارت کی آزادی کے دو دن بعد کیا گیا۔‬

‫طریقہ کار میں‪ /‬مشکالت‬


‫سرحد سازی طریقہ کار‬

‫ریڈکلف الئن‪ ،‬پنجاب‬


‫تمام وکالء بلحاظ پیشہ بشمول ریڈکلف اور دیگر کمشنروں کو اس مخصوص کام کا کوئی تجربہ‬
‫نہیں تھا۔ ان کے پاس کوئی تجربہ کار مشیر بھی نہ تھا جو حد بندی کے معامالت میں بہتر طریقہ‬
‫کار اور معلومات رکھتا ہو۔ اور نہ ہی سروے اور عالقائی معلومات جمع کرنے کا وقت تھا۔ اسی‬
‫طرح اقوام متحدہ کے ماہرین اور مشیروں کی عدم موجودگی‪ ،‬تاخیر سے بچنے کے لئے‪ ،‬جان‬
‫بوجھ کی گئی تھی۔ [‪ ]3‬جنگ کی وجہ سے قرض میں گھری ہوئی برطانیہ کی نئی "لیبر حکومت"‬
‫[‪]5[]4‬‬
‫اس قسم کے اخراجات کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔‬

‫سیاسی نمائندگی‬
‫انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے سیاستدانوں کو برابر نمائندگی دی گئی تا کہ توازن‬
‫برقرار رہے لیکن یہ تعطل کا باعث بنی۔ انکے باہمی تعلقات اتنے رجحانی تھے کہ جج "بمشکل‬
‫ایک دوسرے سے بات کرنا گوارا کرتے تھے"۔‬

‫مقامی معلومات‬
‫‪27 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫ریڈکلف کی ہندوستان میں تقرری سے پہلے نہ تو کبھی ہندوستان کا دورہ کیا اور نہ ہی وہ وہاں‬
‫کوئی نہیں جانتا تھا۔‬

‫جلدبازی اور بے حسی‬


‫اگر کمیشن زیادہ محتاط ہوتا تقسیم میں ایسی فاش غلطیوں سے بچا جا سکتا تھا۔ ریڈکلف نے اس‬
‫بات اعتراف یوں کیا کہ کچھ بھی کر لیتا پھر بھی مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ لوگ اس سے ناالں‬
‫[‪]6‬‬
‫رہتے۔‬

‫رازداری‬
‫تنازعات اور تاخیر سے بچنے کے لئے تقسیم کو خفیہ رکھا گیا تھا۔ حتمی مسودہ ‪ 9‬اگست اور ‪12‬‬
‫اگست کو تیار تھا لیکن اس کا اعالن آزادی کے دو دن بعد کیا گیا۔ ریڈ کے مطابق کچھ واقعاتی‬
‫ثبوت ہیں جن کے مطابق نہرو اور پٹیل کو خفیہ طور پر الرڈ ماؤنٹ بیٹن یا ریڈکلف کے بھارتی‬
‫اسسٹنٹ سیکرٹری کی جانب سے ‪ 9‬اگست یا ‪ 10‬کو پنجاب کی تقسیم کے بارے میں مطلع کر دیا‬
‫گیا تھا۔‬

‫عمل درآمد‬
‫تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان کے نوخیز حکومتوں سرحد پر عملدرآمد کی تمام ذمہ داری‬
‫سونپ دی گئی۔ اگست میں الہور کے دورے کے بعد وائسرائے الرڈ ماؤنٹ بیٹن نے الہور میں امن‬
‫برقرار رکھنے کے لئے عجلت میں ایک پنجاب سرحد فورس کا اہتمام کیا‪ ،‬لیکن ‪ 50،000‬افراد‬
‫ہزاروں لوگوں کو قتل کرنے کے واقعات کے لیے کافی نہیں تھے جن میں سے ‪ 77‬فیصد دیہی‬
‫عالقوں میں تھے۔‬

‫ریڈکلف الئن پر تنازعات‬


‫ریڈکلف الئن کے حوالے سے دو بڑے تنازعات تھے۔ چٹاگانگ پہاڑی عالقہ اور ضلع گرداسپور۔‬
‫جبکہ معمولی تنازعات بنگال کے اضالع مالدا‪ ،‬کھلنا اور مرشدآباد اور آسام کے ضلع کریم گنج‬
‫میں پیش آئے۔‬

‫چٹگانگ پہاڑی عالقہ‬


‫چٹاگانگ پہاڑی عالق ‪ 97‬فیصد غیر مسلم آبادی (بدھ مت پیروکارو) کی اکثریت تھی لیکن پاکستان‬
‫کو دیا گیا۔ پاکستان کو چٹاگانگ پہاڑی عالقہ دینے کی وجہ بھارت کے لئے ناقابل رسائی عالقہ‬
‫تھا۔‬

‫ضلع گرداسپور‬
‫برطانوی راج کے تحت گرداسپر صوبہ پنجاب کا شمالی ترین ضلع تھا۔ ضلع کو انتظامی طور پر‬
‫چار تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ تحصیل شکر گڑھ‪ ،‬تحصیل گرداسپور‪ ،‬تحصیل بٹاال اور‬
‫تحصیل پٹھان کوٹ۔ چار تحصیلوں میں سے صرف تحصیل شکر گڑھ جو دریائے راوی سے باقی‬
‫ضلع سے جدا تھی پاکستان کو دی گئی۔ باقی تمام ضلع بھارت کی ریاست مشرقی پنجاب کا حصہ‬
‫بنا۔‬
‫تقسیم کے وقت مردم شماری کے بطابق مسلمانوں اور غیر مسلموں کی تقسیم مندرجہ ذیل تھی‪:‬‬

‫‪ % ‬مسلم (احمدیہ اکثریت ضلع کا حصہ‬

‫‪28 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫سمیت)‬
‫تحصیل شکر گڑھ‬ ‫مسلم‬ ‫‪51%‬‬
‫تحصیل گرداسپور‬ ‫مسلم‬ ‫‪51%‬‬
‫تحصیل بٹاال‬ ‫مسلم‬ ‫‪53%‬‬
‫تحصیل پٹھان کوٹ‬ ‫غیر‪-‬‬ ‫‪33%‬‬
‫مسلم‬
‫کل ضلع (تمام چار‬ ‫مسلم‬ ‫‪50.6%‬‬
‫تحصیلیں)‬
‫عالقہ بھارت کو دیا‬ ‫‪ 50‬فیصد سے کم غیر‬
‫گیا‬ ‫مسلم‬

‫یہ تصور کیا جاتا ہے کہ گرداسپر کو بھارت کو دینے کے لیے مندرجہ ذیل دالئل الرڈ ماؤنٹبیٹن‬
‫اور دیگر سرحد کمیشن کے سامنے پیش کئے گئے تھے۔‬
‫ریاست کشمیر بھارت کے لیے قابل رسائی ہو جائے گی تا کہ اس کے حکمران بھارتی یونین‬ ‫‪.1‬‬
‫کے ساتھ الحاق کر سکیں۔‬
‫تحصیل پٹھان کوٹ وسطی پنجاب کے ملحقہ شہر ہوشیارپر اور کانگڑا کے ساتھ ایک براہ‬ ‫‪.2‬‬
‫راست ریلوے سے منسلک تھا۔‬
‫بٹاالاور گرداسپور کی تحصیلیں سکھوں کے مقدس شہر امرتسر کے لئے ایک بفر فراہم‬ ‫‪.3‬‬
‫کریں گی۔‬
‫اگر دریائے راوی کے عالقے مشرق کو ایک بالک تصور کیا جائے تو یہ تھوڑا غیر مسلم‬ ‫‪.4‬‬
‫اکثریتی عالقہ ہو گا۔ یہ بالک امرتسر اور ضلع گرداسپور کی تمام تحصیلوں (شکرگڑھ کو‬
‫چھوڑ کر) پر مشتمل ہو گا۔‬
‫اس کے عالوہ اس طرح سے سکھ آبادی کی اکثریت (‪ 58‬فیصد) مشرقی پنجاب میں شامل ہو‬ ‫‪.5‬‬
‫جائے گی۔‬
‫یہ مغربی پنجاب میں زمین کے بڑے عالقوں کو کھو دینے کے بعد سکھ آبادی کو پرسکون‬ ‫‪.6‬‬
‫کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔‬

‫ضلع فیروزپور‪/‬‬
‫ضلع گرداسپور کا زیادہ حصہ بھارت کو دیے جانے کو متوازن کرنے کے لیے ریڈکلف نے ضلع‬
‫فیروزپور کی تحصیلیں فیروزپور اور زیرا پاکستان میں شامل کرنے کی کوشش کی‪ ،‬لیکن بیکانیر‬
‫کے مہاراجہ نے اس کی مخالفت کی کیونکہ ہاریکے ہیڈورکس جو دریائے ستلج اور دریائے بیاس‬
‫سنگم پر واقع ہے جہاں سے نہریں شروع ہوتی ہیں اور یہ فیروز پور کو سیراب کرتا ہے۔ اور یہ‬
‫بیکانیر کے مہاراجہ کی الرڈ ماؤنٹ بیٹن کو دھمکی کے بعد کہ اگر ضلع فیروزپور مغربی پنجاب‬
‫میں شامل کیا جاتا ہے تو وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کر لے گا۔ آخری وقت میں ضلع فیروزپور‬
‫تبدیل کر کے پاکستان کی بجائے بھارت کو دے دیا گیا۔‬

‫ضلع مالدہ‬
‫ریڈکلف کا ایک متنازع فیصلہ بنگال کے ضلع مالدہ کی تقسیم تھا۔ ضلع مجموعی طور پر ایک‬
‫معمولی مسلم اکثریتی تھا لیکن اسے تقسیم کیا گیا اور زیادہ تر حصہ بشمول مالدہ شہر بھارت کو‬
‫‪29 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫دے دیا گیا۔ ضلع ‪ 15‬اگست ‪1947‬ء کے بعد ‪ 4-3‬دنوں تک مشرقی پاکستان کی انتظامیہ کے تحت‬
‫رہا۔‬

‫کھلنا اور مرشدآباد‪ /‬اضالع‬


‫ضلع مرشداباد جو ‪ 70‬فیصد مسلم اکثریت کا عالقہ تھا بھارت کو دے دیا گیا جبکہ ضلع کھلنا جو‬
‫‪ 52‬فیصد کا معمولی ہندو اکثریت عالقہ تھا مشرقی پاکستان کو دیا گیا۔‬

‫کریم گنج‬
‫آسام کا صلع سلہٹ ایک رائے شماری کے ذریعے پاکستان میں شامل ہو گیا کیکن کریم گنج ایک‬
‫مسلم اکثریت عالقہ اور سلہٹ ذیلی تقسیم لیکن سلہٹ سے منقطع بھارت کو دیا گیا۔ ‪2001‬ء کی‬
‫بھارتی مردم شماری کے بطابق اب بھی کریم گنج میں ‪ 52،3‬فیصد مسلم اکثریت ہے۔‬
‫ق‬ ‫ق‬
‫رارداد م اصد‬
‫قیام پاکستان کے وقت پاکستان کا آئین نہیں تھا آئین ‪1935‬ء میں ترامیم کرکےعبوری آئین کے طور پر‬
‫نافذ کیا گیا پاکستان اس وقت التعداد مسائل میں گھرا ہوا تھا الکھوں مہاجرین ہندوستان سے پاکستان میں‬
‫پناہ لے رہے تھے ان کی رہائش اور خوراک کا بندوبست ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ مغربی پاکستان میں‬
‫غیر مسلموں کی تعداد تقریبا ً ‪ 3‬فی صد جبکہ مشرقی پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد ‪ 22‬فی صد تھی‬
‫اس لئے بہت سے ایسے سیاست دان تھے جو ‪ 25‬فی صد غیر مسلم آبادی واال ملک کہتے ہوئے ایسے‬
‫آئین کا مطالبہ کررہے تھے جو سیکولر ہو جبکہ علمائے کرام کا ایک گروہ اس نقطہ پر زور دے رہا تھا‬
‫کہ پاکستان اسالم کے نام پر قائم ہوا ل ٰہذا پاکستان کا سرکاری مذہب اسالم ہوگا نواب زادہ لیاقت علی خان‬
‫ان حاالت سے آگاہ اور باخبر تھے وہ بھی علماء کے خیاالت سے متفق تھے اس لئے انہوں نے علمائے‬
‫کرام کے تعاون سے ایک قرارداد تیار کی جسے قرارداد مقاصد کا نام دیا گیا قراردا ِد مقاصد ایک قرارداد‬
‫تھی جسے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے ‪ 12‬مارچ ‪1949‬ء کو منظور کیا۔ یہ قرارداد ‪ 7‬مارچ ‪1949‬ء‬
‫کو وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان نے اسمبلی میں پیش کی۔ اس کے مطابق مستقبل میں پاکستان کے‬
‫آئین کا ڈھانچہ یورپی طرز کا قطعی نہیں ہوگا‪ ،‬بلکہ اس کی بنیاد اسالمی جمہوریت و نظریات پر ہوگی۔‬

‫قراردار مقاصد کا متن‪/‬‬


‫حاکم مطلق ہے۔ اُس نے جمہور کے ذریعے‬ ‫ِ‬ ‫ت غیرے‬ ‫تعالی ہی کل کائنات کا بال شرک ِ‬
‫ٰ‬ ‫ہللا تبارک و‬ ‫‪‬‬
‫ُ‬
‫مملکت پاکستان کو جو اِختیار سونپا ہے‪ ،‬وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور‬
‫پر استعمال کیا جائے گا۔‬
‫مجلس دستور ساز نے جو جمہور پا کستان کی نما ئندہ ہے ‪،‬آزاد و خود مختار پا کستان کے لیے‬ ‫‪‬‬
‫ایک دستور مرتب کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔‬
‫جس کی رو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نما ئندوں کے ذریعے‬ ‫‪‬‬
‫استعمال کرے گی۔‬
‫جس کی رو سے اسالم کے جمہوریت‪،‬حریت‪،‬مساوات‪،‬رواداری اور عدل ِعمرانی کے اصولوں کا‬ ‫‪‬‬
‫پورا اتباع کیا جائے گا۔‬
‫جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتما عی طور پر اپنی‬ ‫‪‬‬
‫زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسالمی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔‬
‫جس کی رو سے اس امر کا قرارواقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں‪،‬اپنے مذاہب پر عقیدہ‬ ‫‪‬‬
‫رکھنے‪،‬عمل کر نے اور اپنی تقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں۔‬
‫جس کی رو سے وہ عالقے جو اب تک پا کستان میں داخل یا شامل ہو جا ئیں‪،‬ایک وفاق بنا ئیں‬ ‫‪‬‬
‫گے *‬
‫جس کے صوبوں کو مقررہ اختیارات واقتدار کی حدتک خود مختاری حاصل ہو گی۔‬ ‫‪‬‬

‫‪30 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جا ئے گی اور ان حقوق میں جہاں تک قانون‬ ‫‪‬‬
‫واخالق اجازت دیں‪ ،‬مساوات‪،‬حیثیت ومواقع کی نظر میں برابری‪،‬عمرانی‪،‬اقتصادی اور سیاسی‬
‫اظہار خیال‪ ،‬عقیدہ‪ ،‬دین‪ ،‬عبادت اور جماعت کی آزادی شامل ہوگی۔‬
‫ِ‬ ‫انساف‪،‬‬
‫جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقات کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی‬ ‫‪‬‬
‫انتظام کیا جائے گا۔‬
‫جس کی رو سے نظام ِعدل گستری کی آزادی پو ری طرح محفوظ ہوگی۔‬ ‫‪‬‬
‫جس کی رو سے وفاق کے عالقوں کی صیانت‪،‬آزادی اور جملہ حقوق ‪،‬بشمول خشکی و تری اور‬ ‫‪‬‬
‫فضا پر صیانت کے حقوق کا تحفظ کیا جا ئے گا۔ تاکہ اہل ِپاکستان فالح وبہبود کی منزل پا سکیں‬
‫اور قوام عالم کی صف میں اپنا جائز و ممتاز مقام حاصل کریں اور امن عالم اور بنی نوع انسان‬
‫کی تر قی و خوش حالی کے لیے اپنا بھر پور کر دار ادا کر سکیں۔[‪]1‬‬

‫قراردا ِد مقاصد آئین‪ /‬پاکستان میں‪/‬‬


‫‪_2‬مارچ ‪1985‬ء کو صدر پاکستان محمد_ضیاء_الحق کے صدارتی فرمان کے ذریعہ آئین پاکستان‬
‫میں آٹھویں ترمیم کی گئی جس کے مطابق قراردا ِد مقاصد کو آئین پاکستان میں شامل کرلیا گیا۔‬
‫صدارتی فرمان ‪ 14‬کے تحت آئین پاکستان کی دفعہ نمبر ‪ 2‬کے بعد اُس کے ضمیمہ کے طور پر‬
‫‪ Article 2-A‬کے نام سے شامل کرلیا گیا۔ اِس صدارتی فرمان کے آخر میں ضمیمہ کے مطابق‬
‫[‪]1‬‬
‫کہا گیا تھا کہ قراردا ِد مقاصد آئین پاکستان کے متن میں شامل سمجھی جائے گی۔‬
‫آئین پاکستان مجریہ ‪1973‬ء کی دفعہ نمبر ‪  2‬کے مطابق اسالم مملکتی مذہب ہوگا جبکہ دفعہ نمبر‬
‫‪ 2‬کے ضمیمہ میں قراردا ِد مقاصد کو آٹھویں ترمیم صدارتی فرمان ‪_2‬مارچ ‪1985‬ءکے مطابق‬
‫شامل کرلیا گیا ہے جو یوں ہے‪:‬‬
‫"ضمیمہ میں نقل کردہ قراردا ِد مقاصد میں بیان کردہ اُصول اور احکام کو بذریعہ ہذا دستور کا‬ ‫‪‬‬
‫[‪]2‬‬
‫مستقل حصہ قرار دیا جاتا ہے اور وہ بحسبہ مؤثر‪ /‬ہوں گے۔"‬

‫قراردا ِد مقاصد سے متعلق آراء و بیانات‪/‬‬


‫جسٹس حمود الرحمٰ ن نے قراردا ِد مقاصد کے متعلق کہا تھا کہ‪:‬‬
‫اِسے ابھی تک کسی نے منسوخ نہیں کیا‪ ،‬نہ کسی عہ ِد حکومت‪ ،‬فوجی یا سول میں اِس سے‬ ‫‪‬‬
‫اِنحراف کیا گیا۔ بالشبہ یہ ہو بھی نہیں سکتا۔ یہ اُن اساسی اُصولوں میں سے ایک ہے جنہیں‬
‫[‪]3‬‬
‫قرآن میں تقدس حاصل ہے۔‬

‫یوم آزادی پ اکست ان‬


‫یوم آزادی پاکستان یا یوم استقالل ہر سال ‪ 14‬اگست کو پاکستان میں آزادی کے دن کی نسبت سے‬
‫منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب پاکستان ‪1947‬ء میں انگلستان سے آزاد ہو کر معرض وجود میں‬
‫آیا۔ ‪ 14‬اگست کا دن پاکستان میں سرکار ی سطح پر قومی تہوار کے طور پر بڑے دھوم دھام سے‬
‫منایا جاتا ہے پاکستانی عوام اس روز اپنا قومی پرچم فضاء میں بلند کرتے ہوئے اپنے قومی‬
‫محسنوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔ ملک بھر کی اہم سرکاری عمارات پر چراغاں کیا جاتا‬
‫ہے۔اسالم آباد جو پاکستان ک ادارالحکومت ہے‪ ،‬اس کو خاص طور پر سجایا جاتا ہے‪ ،‬اسکے‬
‫مناظر کسی جشن کا سماں پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ اور یہیں ایک قومی حیثیت کی حامل تقریب میں‬
‫صدر پاکستان اور وزیرآعظم قومی پرچم بلند کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اس‬
‫پرچم کی طرح اس وطن عزیز کو بھی عروج و ترقی کی بلندیوں تک پہنچائیں گے۔ ان تقاریب کے‬
‫عالوہ نہ صرف صدارتی اور پارلیمانی عمارات پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے بلکہ پورے ملک‬
‫میں سرکاری اور نیم سرکاری عمارات پر بھی سبز ہاللی پرچم پوری آب و تا ب سے بلندی کا‬
‫نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے۔ یوم اسقالل کے روز ریڈیو‪ ،‬بعید نُما اور جالبین پہ براہ راست صدر اور‬
‫‪31 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫وزیراعظم پاکستان کی تقاریر کو نشر کیا جاتا ہے اور اس عہد کی تجدید کی جاتی ہے کہ ہم سب‬
‫نے مل کراس وطن عزیز کو ترقی‪ ،‬خوشحالی اور کامیابیوں کی بلند سطح پہ لیجانا ہے۔‬
‫سرکاری طور پر یوم آزادی انتہائی شاندار طریقے سے مناتے ہوئے اعلی عہدہ دار اپنی حکومت‬
‫کی کامیابیوں اور بہترین حکمت عملیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے عوام سے یہ عہد کرتے ہیں‬
‫کہ ہم اپنے تن من دھن کی بازی لگاکر بھی اس وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھیں گے‬
‫اور ہمیشہ اپنے رہنما قائداعظم محمد علی جناح کے قول "ایمان‪ ،‬اتحاد اور تنظیم" کی پاسداری‬
‫کریں گے۔‬

‫تقاریب‬
‫‪ 14‬اگست کو پاکستان میں سرکاری طور پر تعطیل ہوتی ہے‪ ،‬جبکہ سرکاری ونیم سرکاری‬
‫عمارات میں چراغاں ہوتا ہے اور سبز ہاللی پرچم لہرایاجاتا ہے۔ اسی طرح تمام صوبوں میں‬
‫مرکزی مقامات پر تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے او ر ساتھ ساتھ ثقافتی پروگرام کا بھی اہتمام ہوتا‬
‫ہے۔ پاکستان کی تمام شہروں میں ناظم قومی پرچم بلند کرتے ہیں جبکہ کثیر تعداد میں نجی اداروں‬
‫کے سربراہان پرچم کشائی کی تقاریب میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ سکولوں اور کالجوں میں بھی پرچم‬
‫کشائی کی تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رنگارنگ تقاریب‪ ،‬تقاریر اور‬
‫مذاکروں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ گھروں میں بچوں ‪ ،‬جوانوں اور بوڑھوں کا جوش و خروش‬
‫توقابل دید ہوتا ہے جہاں مختلف تقاریب کے عالوہ دوپہر اور رات کے کھانے کا بھی اہتمام کیا‬
‫جاتا ہے اور بعد ازاں سیروتفریح سے بھی لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ رہائشی عالقوں ‪ ،‬ثقافتی‬
‫اداروں اور معاشرتی انجمنوں کے زیر راہتمام تفریحی پروگرام تو انتہائی شاندار طریقے سے‬
‫منائے جاتے ہیں۔عالوہ ازیں مقبرہء قائداعظم پر سرکاری طور پر گارڈ کی تبدیلی کی تقریب کا‬
‫انعقاد ہوتا ہے ۔ اسی طرح واہگہ باڈر پر بھی ثقافتی تقاریب میں احترامی محافظوں کی تبدیلی کا‬
‫عمل وقوع پزیر ہوتا ہے جبکہ غلطی سے واہگہ سرحد پار کرنے والے قیدیوں کی دوطرفہ رہائی‬
‫بھی ہوتی ہے۔‬
‫ثن‬
‫ع ما ست ان‬
‫عثمانستان (‪ )Osmanistan‬چوہدری رحمت علی کی طرف سے نوابی ریاست حیدرآباد کے لیے‬

‫ٹ پن‬
‫تجویز کردہ نام تھا۔‬
‫ن ن‬
‫یو ی سٹ پ ار ی ( ج اب)‬
‫یونینسٹ پارٹی (‪ )Unionist Party‬برطانوی راج کے دوران صوبہ پنجاب میں ایک سیاسی‬
‫جماعت تھی۔‬
‫ن مس ٹ ن ف ی ش‬
‫آل ا ڈی ا لم س وڈ ٹ ی ڈر ن‬
‫ن‬ ‫ن مس ٹ ن ف ی ش‬
‫س‬ ‫ن‬
‫‪ Muslim‬ٹ‪ India‬ف‪All‬ش) ای ک ہ دوست ا ی قم ئ لمان‬ ‫‪Students Federation‬‬ ‫آل ا ت ڈی ا ت لم س وڈ نٹ ی ڈر ن (‬
‫ی‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت ت‬ ‫مس‬
‫وابس ہ ھا۔ ی ہ ‪ 1937‬می ں آل ا ڈی ا س وڈ ٹ ی ڈر ن سے الگ ہ و کر ا د‬‫گ سے ت‬ ‫مطل ب ا ا حاد عھا ج و آل ا ڈی ا لم ل ی ت‬
‫لت اسما ی ل صاحب کی سرپرس ی می ں م حد ہ وا۔‬
‫خ‬ ‫ت‬
‫حری ک اکسار‬
‫تقسیم ہند سے پہلے کی ایک نیم فوجی جماعت‪ ،‬جس کے بانی عالمہ مشرقی تھے۔یہ تنظیم بیلچہ‬
‫پارٹی کے نام سے بھی مشہور تھی کیونکہ اس کے پیروکار کندھے پر بیلچہ رکھ کر چلتے تھے‬
‫‪32 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫ان کا باقاعدہ خاکی یونیفارم تھا ۔ہر خاکسار کے لئے الزم تھا کہ وہ خاکی یونیفارم پہنے بلکہ نماز‬
‫روزہ کی پابندی الزم تھی اس سلسلہ میں کوئی عذر قابل قبول نہ تھا غلطی کرنے والے خاکسار کو‬
‫جسمانی سزا بھی دی جاتی تھی۔‬
‫مارچ ‪1940‬ء میں خاکساروں نے اندرون الہور جلوس نکاالجوکہ فوجی پریڈ سے ملتا جلتاتھاجلوس‬
‫بھاٹی دروازہ سے شروع ہوا حکومت نے اسے خالف قانون قرار دے کر روکنے کی کوشش کی ۔‬
‫ڈبی بازار کے پاس برطانوی پولیس آفیسر نے جلوس روکنے کا حکم جاری کیا جس سے خاکسار‬
‫مشتعل ہوگئے انہوں نے پولیس پر حملہ کردیا جس کے نتیجہ میں پولیس آفیسر مارا گیا پولیس نے‬
‫گولی چالدی جس کے نتیجہ میں بہت سے خاکسار شہید ہوئے ۔کافی خون خرابے کے بعد حکومت‬
‫نے اس کو کالعدم قرار دے کر پابندی لگا دی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد یہ جماعت دوبارہ بحال‬
‫ہوئی۔ اس جماعت کے کارکن خاکسار کہالتے ہیں اور وہ عمومی طور پر خاکی رنگ کا لباس‬
‫پہنتے ہیں۔ تقسیم سے پہلے یہ جماعت تقسیم ہند کے خالف تھی لیکن بعد میں حمایتی بن گئی۔‬
‫خ‬ ‫ع‬ ‫ق‬
‫ل ی ا ت لی ان‬
‫لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے۔ آپ ہندوستان کے عالقے کرنال میں پیدا ہوئے‬
‫اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی اور ‪1922‬ء میں انگلینڈ بار میں شمولیت اختیار‬
‫کی۔ ‪1923‬ء میں ہندوستان واپس آئے اور مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ ‪1936‬ء میں آپ مسلم لیگ‬
‫کے سیکرٹری جنرل بنے۔ آپ قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست تھے۔‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 15‬اگست ‪ 16 – 1947‬اکتوبر ‪1951‬‬
‫شاہی‬ ‫جارج ششم‬
‫حکمران‬
‫گورنر‬ ‫محمد علی جناح‬
‫جنرل‬ ‫خواجہ ناظم الدین‬
‫پیشرو‬ ‫تحریک پاکستان‬
‫جانشین‬ ‫خواجہ ناظم الدین‬
‫‪Minister of Foreign Affairs of‬‬
‫‪Pakistan‬‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 15‬اگست ‪ 27 – 1947‬دسمبر‪1949 /‬‬
‫پیشرو‬ ‫‪Office established‬‬
‫جانشین‬ ‫محمد ظفر ہللا خان‬
‫وزیر دفاع پاکستان‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 15‬اگست ‪ 16 – 1947‬اکتوبر ‪1951‬‬
‫پیشرو‬ ‫آغاز دفتر‬
‫جانشین‬ ‫خواجہ ناظم الدین‬

‫‪33 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫‪Minister of Finance of India‬‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 29‬اکتوبر ‪ 14 – 1946‬اگست ‪1947‬‬
‫پیشرو‬ ‫آغاز دفتر‬
‫جانشین‬ ‫‪Shanmukham Chetty‬‬
‫ذاتی تفصیالت‬
‫پیدائش‬ ‫‪ 1‬اکتوبر ‪1895‬‬
‫مظفر نگر‪،United Provinces ،‬‬
‫برطانوی ہند‬
‫(اب بھارت میں)‬

‫وفات‬ ‫‪ 16‬اکتوبر ‪( 1951‬عمر‪ 56 ‬سال)‬


‫راولپنڈی‪ ،‬پنجاب‪ ،‬پاکستان‪ ،‬ڈومنین‬
‫پاکستان‬
‫قومیت‬ ‫برطانوی ہند (‪،)1947–1895‬‬
‫پاکستانی قوم (‪)1951–1947‬‬
‫سیاسی‬ ‫‪Muslim League‬‬
‫جماعت‬
‫مادر‬ ‫علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‬
‫علمی‬ ‫‪Exeter College, Oxford‬‬
‫‪Inns of Court School of Law‬‬
‫مذہب‬ ‫اسالم‬

‫ابتدائی زندگی‬
‫آپ کرنال کے ایک نامور نواب جاٹ خاندان میں پیدا ہوئے۔ نواب زادہ لیاقت علی خان‪ ،‬نواب رستم‬
‫علی خان کے دوسرے بیٹے تھے۔ آپ ‪ 2‬اکتوبر‪1896 ،‬ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ محمودہ بیگم‬
‫نے گھر پر آپ کے لئے قرآن اور احادیث کی تعلیم کا انتظام کروایا۔ ‪1918‬ء میں آپ نے ایم اے او‬
‫کالج علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ ‪1918‬ء میں ہی آپ نے جہانگیر بیگم سے شادی کی۔ شادی کے‬
‫بعد آپ برطانیہ چلے گئے جہاں سے آپ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔‬

‫سیاسی زندگی‬
‫‪1923‬ء میں برطانیہ سے واپس آنے کے بعد آپ نے اپنے ملک کو غیر ملکی تسلط سے آزاد‬
‫کروانے کے لئے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ ‪1924‬ء‬
‫میں قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت مسلم لیگ کا اجالس الہور میں ہوا۔ اس اس اجالس کا‬
‫مقصد مسلم لیگ کو دربارہ منظم کرنا تھا۔ اس اجالس میں لیاقت علی خان نے بھی شرکت کی۔‬
‫‪1926‬ء میں آپ اتر پردیش سے قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور ‪1940‬ء میں مرکزی‬
‫قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہونے تک آپ یو پی اسمبلی کے رکن رہے۔‬

‫‪34 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫‪1932‬ء میں آپ نے دوسری شادی کی۔ آپ کی دوسری بیگم بیگم رعنا لیاقت علی ایک ماہر تعلیم‬
‫اور معیشت دان تھیں۔ آپ لیاقت علی خان کے سیاسی زندگی کی ایک بہتر معاون ثابت ہوئیں۔‬

‫پہلی کابینہ‬
‫لیاقت علی خان کی کابینہ‬
‫مدت‬ ‫وزیر‬ ‫وزارتی دفتر‬
‫‪–1947‬‬ ‫‪Liaquat Ali‬‬
‫وزیر اعظم پاکستان‬
‫‪1951‬‬ ‫‪Khan‬‬
‫‪–1947‬‬
‫محمد علی جناح ‪1948‬‬
‫گورنر جنرل پاکستان‬
‫خواجہ ناظم الدین ‪–1948‬‬
‫‪1951‬‬
‫‪–1947‬‬
‫محمد ظفر ہللا خان‬ ‫‪Foreign Affairs‬‬
‫‪1954‬‬
‫‪–1947‬‬ ‫وزیر خزانہ پاکستان‪،‬‬
‫ملک غالم محمد‬
‫‪1954‬‬ ‫‪Economic‬‬
‫‪–1947‬‬ ‫جوگيندرا ناتھ‬
‫‪Law، Justice، Labor‬‬
‫‪1951‬‬ ‫ماندل‬
‫‪–1947‬‬
‫‪Fazlur‬‬
‫‪1948‬‬
‫‪Rehman‬‬ ‫‪Interior‬‬
‫‪–1948‬‬
‫خواجہ شہاب الدین‬
‫‪1951‬‬
‫‪–1947‬‬
‫اسکندر مرزا‬ ‫‪Defence‬‬
‫‪1954‬‬
‫‪–1951‬‬ ‫سلیم الزماں‬
‫‪Science advisor‬‬
‫‪1959‬‬ ‫صدیقی‬
‫‪–1947‬‬ ‫فضل الہی‬
‫‪Education، Health‬‬
‫‪1956‬‬ ‫چوہدری‬
‫‪–1947‬‬ ‫‪Sir Victor‬‬ ‫‪ ،Finance‬ادارہ‬
‫‪1951‬‬ ‫‪Turner‬‬ ‫شماریات پاکستان‬
‫‪–1947‬‬ ‫بیگم رعنا لیاقت‬ ‫حکومت پاکستان‪،‬‬
‫‪1951‬‬ ‫علی‬ ‫حکومت پاکستان‬
‫‪–1947‬‬ ‫سردار عبدالرب‬
‫‪Communications‬‬
‫‪1951‬‬ ‫نشتر‬

‫قاتالنہ حملے‬

‫‪35 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫‪ 16‬اکتوبر ‪1951‬ء کی اس شام کمپنی باغ راولپنڈی میں پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں‬
‫لیاقت علی خاں کے قتل کو ایک انفرادی جرم قرار دینا مشکل ہے ۔ وزیر اعظم پر قاتالنہ حملے‬
‫کے فوراً بعد کمپنی باغ میں ہونے والے واقعات پر ان گنت سواالت اٹھائے جا سکتے ہیں۔‬
‫اعلی اور آئی جی پولیس تو موجود تھے مگر‬
‫ٰ‬ ‫وزیر اعظم کے جلسے میں صوبہ سرحد کے وزیر‬
‫اعلی ممتاز دولتانہ‪ ،‬آئی جی پولیس قربان علی خاں اور ڈی آئی جی‪ ،‬سی آئی ڈی‬
‫ٰ‬ ‫پنجاب کے وزیر‬
‫فرائض منصبی پر مامور پولیس کا اعلی ترین‬
‫ِ‬ ‫انور علی غائب تھے۔ درحقیقت جلسہ گاہ میں‬
‫عہدیدار راولپنڈی کا ایس پی نجف خاں تھا۔ پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل یوسف خٹک‬
‫پنڈی میں تھے مگر جلسہ گاہ میں موجود نہیں تھے۔‬
‫گولی کی آواز سنتے ہی نجف خاں نے پشتو میں چال کر کہا‪’ ،‬اسے مارو‘۔ نجف خاں نے پنڈی‬
‫(پنجاب) کے جلسے میں پنجابی کی بجائے پشتو کیوں استعمال کی؟ کیا انہیں معلوم تھا کہ قاتل‬
‫افغانی ہے؟ ان کے حکم پر سید اکبر کو ہالک کرنے واال انسپکٹر محمد شاہ بھی پشتو بولنے واال‬
‫تھا۔ کیا پولیس کا ضلعی سربراہ اضطراری حالت میں یاد رکھ سکتا ہے کہ اس کے درجنوں ماتحت‬
‫تھانیدار کون کون سی زبان بولتے ہیں؟ کیا تجربہ کار پولیس افسر نجف خاں کو معلوم نہیں تھا کہ‬
‫وزیر اعظم پر حملہ کرنے والے کو زندہ گرفتار کرنا ضروری ہے؟‬
‫جب انسپکٹر شاہ محمد نے سید اکبر پر ایک دو نہیں‪ ،‬پانچ گولیاں چالئیں‪ ،‬اس وقت سفید پوش‬
‫انسپکٹر ابرار احمد نے حاضری ِن جلسہ سے مل کر قاتل سے پستول چھین لیا تھا اور اسے قابو کر‬
‫رکھا تھا ۔ کیا انسپکٹر شاہ محمد قاتل پر قابو پانے کی بجائے اسے ختم کرنے میں دلچسپی رکھتے‬
‫تھے؟‬
‫لیاقت علی کے صاحبزادے اکبر لیاقت علی کا کہنا ہے کہ سید اکبر کو تو خواہ مخواہ نشانہ بنایا‬
‫گیا‪ ،‬اصل قاتل کوئی اور تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ لیاقت علی خاں کو گولی سامنے سے نہیں‪،‬‬
‫عقب سے ماری گئی تھی۔ جلسہ گاہ میں موجود مسلم لیگ گارڈ بھالوں سے سید اکبر پر ٹوٹ پڑے۔‬
‫اس کے جسم پر بھالوں کے درجنوں زخم تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم کے آس پاس بہت‬
‫سے مسلح افراد موجود تھے جس سے ناقص حفاظتی انتظامات کی نشاندہی ہوتی ہے۔‬
‫نجف خاں کے حکم پر حفاظتی گارڈ نے ہوا میں فائرنگ شروع کر دی جس سے جلسہ گاہ میں‬
‫افراتفری پھیل گئی اور زخمی وزیراعظم کو طبی امداد پہنچانے میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ اس ہوائی‬
‫فائرنگ کا مقصد واضح نہیں ہو سکا۔‬
‫ایس پی نجف خاں نے انکوائری کمیشن کو بتایا کہ انہوں نے اپنے ماتحتوں کو ہوائی فائرنگ کا‬
‫حکم نہیں دیا بلکہ ایس پی نے اپنے ماتحتوں سے جواب طلبی کر لی۔ انکوائری کمیشن کے سامنے‬
‫اس ضمن میں پیش کیا جانے واال حکم ‪ 29‬اکتوبر کا تھا۔ تاہم عدالت نے رائے دی کہ ریکارڈ میں‬
‫تحریف کی گئی تھی۔ اصل تاریخ ‪ 20‬نومبر کو بدل کر ‪ 29‬اکتوبر بنایا گیا مگر اس کے نیچے اصل‬
‫تاریخ ‪ 20‬نومبر صاف دکھائی دیتی تھی۔ ظاہر ہے کہ نجف خاں نے فائرنگ کا حکم دینے کے‬
‫الزام کی تردید کا فیصلہ ‪ 20‬نومبر کو کیا۔ سرکاری کاغذات میں ردوبدل ایس پی نجف خاں کے‬
‫سازش میں ملوث ہونے یا کم از کم پیشہ وارانہ بددیانتی کا پختہ ثبوت تھا۔‬
‫انکوائری کمیشن کے مطابق نجف خاں نے ایک ذمہ دار پولیس افسر کے طور پر اپنے فرائض کی‬
‫ادائیگی میں کوتاہی کی تھی۔ اس عدالتی رائے کی روشنی میں نجف خان کے خالف محکمانہ‬
‫کارروائی ہوئی لیکن انہیں باعزت بحال کر دیا گیا۔ وزیر اعظم کے جلسے میں ممکنہ ہنگامی‬
‫صورت حال کے لیے طبی امداد کا کوئی انتظام نہیں تھا ٰ‬
‫حتی کہ کسی زخمی کو ہسپتال لے جانے‬
‫کے لیے ایمبولنس تک موجود نہیں تھی۔‬
‫چاروں طرف اندھا دھند گولیاں چل رہی تھیں اور چند افراد اس بھگڈر میں سید اکبر کو ختم کرنے‬
‫میں مصروف تھے۔ کچھ لوگ ایک وزنی آرائشی گمال اٹھا الئے اور اسے سید اکبر پر دے مارا‬
‫‪36 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫جس سے اس کی پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ اس افراتفری میں سید اکبر پر حملہ کرنے والوں کا اطمینان‬
‫حیران کن تھا۔‬
‫سید اکبر نے زرد رنگ کی شلوار قمیص پر اچکن پہن رکھی تھی۔ یہ خاکسار تحریک کی وردی‬
‫نہیں تھی۔ واردات کے فوراً بعد یہ افواہ کیسے پھیلی کہ قاتل خاکسار تھا بلکہ صوبہ بھر میں‬
‫خاکساروں کی گرفتاریاں بھی شروع ہو گئیں۔ کیا یہ عوام کے اشتعال کو کسی خاص سمت موڑنے‬
‫کی سوچی سمجھی کوشش تھی؟‬
‫خواجہ ناظم الدین نتھیا گلی میں تھے جب کہ غالم محمد پنڈی ہی میں تھے۔ دونوں نے جلسے میں‬
‫شرکت کی زحمت نہیں کی۔ البتہ وزیر اعظم کے قتل کی خبر پاتے ہی یہ اصحاب صالح مشورے‬
‫کے لیے جمع ہو گئے۔ مشتاق گورمانی کی گاڑی جلسہ گاہ میں اس وقت پہنچی جب نیم مردہ‬
‫وزیراعظم کو جلسہ گاہ سے باہر الیا جا رہا تھا۔ وزیراعظم کی موت کی تصدیق ہوتے ہی گورمانی‬
‫صاحب ان کے جسد خاکی کو ہسپتال چھوڑ کر اپنے گھر چلے گئے اور اگلے روز کراچی میں‬
‫منظر عام پر نہیں آئے۔‬
‫ِ‬ ‫تدفین تک‬
‫اس سازش کے ڈانڈوں پر غور و فکر کرنے والوں نے تین اہم کرداروں کی راولپنڈی سے بیک‬
‫وقت ُدوری کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سیکرٹری دفاع سکندر مرزا کراچی میں ٹینس کھیل رہے‬
‫تھے۔ فوج کے سربراہ ایوب خان لندن کے ہسپتال میں تھے اور سیکرٹری خارجہ اکرام ہللا ایک‬
‫خاص مشن پر ہالینڈ میں بیٹھے اگلے احکامات کے منتظر تھے۔‬
‫قتل کی تفتیش‬
‫غالم نبی پٹھان (تب جوائنٹ سیکرٹری مسلم لیگ) کے مطابق لیاقت علی کے قتل کی نہ تو ایف آئی‬
‫آر درج ہوئی اور نہ تفتیش کی گئی‪ ،‬چاالن پیش کیا گیا اور نہ مقدمہ چالیا گیا۔‬
‫جسٹس منیر اور اختر حسین پر مشتمل ایک جوڈیشل انکوائری ہوئی مگر اس انکوائری کا مقصد‬
‫لیاقت علی خان کے قاتلوں کا تعین کرنے کی بجائے قتل سے متعلقہ انتظامی غفلت کا جائزہ لینا تھا۔‬
‫بیگم لیاقت علی کے مطابق کمیشن کا تقرر حکومت کی دانستہ یا نا دانستہ غلطی تھی۔ اس کے‬
‫نتیجے میں پنجاب اور سرحد کے پولیس افسر قتل کی تفتیش پر توجہ دینے کی بجائے غفلت کے‬
‫الزامات کی صفائی پیش کرنے میں مصروف ہوگئے۔‬
‫انکوائری کمیشن کے نتائج نہایت مبہم اور بڑی حد تک بے معنی تھے۔ مثال کے طور پر‪: ‬‬
‫زیر تفتیش ہے۔ تحقیقات‬
‫الف) ہم بیان کردہ واقعات کی بنا پر کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے۔ معاملہ ِ‬
‫کرنے والے افسر کئی نظریات پر غور و فکر کر رہے ہیں۔‬
‫ب) اس ضمن میں تین سازشوں کا سراغ مال ہے جن میں سے دو کا ایک دوسرے سے تعلق ہے‬
‫اور تیسری کے متعلق مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان میں خط و کتابت ہو رہی ہے ۔‬
‫ہم نے ان سازشوں کی تفصیل بتانے سے گریز کیا ہے کیونکہ ان کا انکشاف مفاد عامہ میں نہیں‬
‫ہے۔‬
‫مصروف‬
‫ِ‬ ‫ج) سید اکبر کا کسی سازش سے تعلق معلوم نہیں ہو سکا‪ ،‬بہرحال ایک قابل پولیس افسر‬
‫تفتیش ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ایک یا دو سازشوں سے سید اکبر کے تعلق کا پتہ مل جائے گا۔‬
‫د) اگر سید اکبر زندہ مل جاتا تو ہمیں یقین تھا کہ ہم ایسے بھیانک جرم کے سازشیوں کا اتا پتا‬
‫معلوم کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔‬
‫سید اکبر کی موت کے متعلق پولیس رپورٹ میں سب انسپکٹر محمد شاہ کی فائرنگ کا کوئی ذکر‬
‫نہیں کیا گیا۔ اس چشم پوشی کا مقصد پولیس کی غفلت یا ملی بھگت پر پردہ ڈالنا تھا۔‬
‫‪37 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫واب ب ہادر ی ار ج گ‬
‫پیدائش‬ ‫محمد بہادر خان‬
‫‪ 3‬فروری ‪1905‬ء‬
‫حیدرآباد‪ ،‬دکن‪ ،‬ریاست حیدرآباد‪ ،‬برطانوی ہندوستان‪ ،‬موجودہ بھارت‬
‫وفات‬ ‫‪ 25‬جون‪1944 ،‬ء (عمر‪ 39 :‬سال)‬
‫حیدرآباد‪ ،‬دکن‪ ،‬ریاست حیدرآباد‪ ،‬برطانوی ہندوستان‪ ،‬موجودہ بھارت‬
‫وجۂ‪ ‬وفات‬ ‫مخالف جماعت کے جانب سے حقہ میں زہر دیا گیا‬
‫آخری آرام‬ ‫حیدرآباد‪ ،‬دکن‪ ،‬ریاست حیدرآباد‪ ،‬برطانوی ہند کے صوبے اور عالقے‪ ،‬برطانوی‬
‫گاہ‬ ‫ہندوستان‪ ،‬موجودہ بھارت‬
‫قومیت‬ ‫برطانوی ہندوستان‬
‫دیگر‪ ‬نام‬ ‫قائد ملت‪ ،‬بہادر یار جنگ‬
‫مادر‪ ‬علم‬ ‫مدرسہ دارالعلوم‪ ،‬موجودہ سٹی کالج‪ ،‬حیدرآباد‬
‫ی‬
‫وجۂ‪ ‬شہر‬ ‫نمایاں شخصیت تحریک پاکستان‪ ،‬فلسفی‪ ،‬سرگرم عمل شریعت‪ ،‬قانون‪ ،‬اسالم آل انڈیا‬
‫ت‬ ‫مجلس اتحاد المسلمین‪ ،‬آل انڈیا مسلم لیگ‪ ،‬تحریک خاکسار‬
‫سیاسی‬ ‫آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین‪ ،‬آل انڈیا مسلم لیگ‪ ،‬تحریک خاکسار‬
‫جماعت‬
‫مذہب‬ ‫اسالم‬
‫شریک‬ ‫تلمین خاتون‬
‫حیات‬
‫والدین‬ ‫والد‪ :‬نواب یاسر یار جنگ والدہ‪ :‬خاتون‬

‫تحریک پاکستان میں‬


‫ِ‬ ‫نواب بہادر یار جنگ (اصل نام سعدی خان) ‪ ،‬پیدائش‪1905 :‬ء‪ ،‬وفات‪1944 :‬ء‬
‫مسلمانوں کے ایک رہنماء تھے۔ حیدر آباد دکن میں پیداہوئے۔ نسالً سدو زئی پٹھان تھے۔ والد نواب‬
‫نصیر یار جنگ جاگیردار تھے۔ بیس بائس سال کی عمر میں سماجی بہبود کے کاموں میں حصہ‬
‫لینا شروع کیا۔ مسلم ممالک اور مسلمانوں کے حاالت سے گہرا شغف تھا۔ اسالمی ملکوں کا دورہ‬
‫بھی کیا۔ برطانوی اقتدار کے مخالف تھے۔ حیدرآباد کے جاگیردار ان کے اس رویے سے ناالں‬
‫تھے لیکن ان کی مخالفت نے ان کی عزم کو اور پختہ کیا اور وہ برصغیر کے مسلمانوں کی بہتری‬
‫کے لیے آخر دم تک کوشاں رہے۔ آپ نے مجلس اتحاد المسلمین کی بنیاد ڈالی۔ اس جماعت نے‬
‫ریاست اور ریاست کے باہر‪ ،‬مسلمانوں کی بہتری کے لیے بڑا کام کیا۔ آپ کا شمار چوٹی کے‬
‫مقرروں میں ہوتا ہے۔‬
‫مارچ ‪1940‬ء میں مسلم لیگ کے تاریخی اجالس منعقدہ الہور میں شرکت کی۔ اور بڑی معرکہ آرا‬
‫تقریر کی۔ آل انڈیا سٹیٹس مسلم لیگ کے بانی اور صدر تھے۔ سیاسی سرگرمیوں کی بنا پر والئی‬
‫ریاست کی طرف سے پابندیاں بھی عائد ہوئیں ۔ آپ نے خطاب و منصب چھوڑا۔ جاگیر سے بھی‬
‫دشت کش ہوگئے لیکن اپنے نظریات سے منحرف نہ ہوئے۔‬

‫وفات‬
‫‪38 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫کہا جاتا ہے کہ ‪ 25‬جون ‪ 1944‬کو حرکت قلب بند ہونے سے آپ کا انتقال ہوا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے‬
‫کہ آپ کو زہر دیا گیا‬

‫ج ی ای م س ی د‬
‫جی ایم سید (پیدائش‪ 17 : ‬جنوری ‪1904‬ء ‪ -‬وفات‪ 25 :‬اپریل ‪1995‬ء) سندھ سے تعلق رکھنے‬
‫والے پاکستان کے ممتاز سیاستدان اور دانشور تھے جنہوں نے سندھ کو بمبئی سے علیحدگی اور‬
‫سندھ کی پاکستان میں شمولیت کے حوالے سے ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔‬

‫حاالت زندگی‬
‫جی ایم سید ‪ 17‬جنوری ‪1904‬ء کو سندھ میں ضلع دادو کے قصبہ "سن" میں پیدا ہوئے۔ آپ کا‬
‫اصل نام غالم مرتضی سید تھا۔ جی ایم سید سندہ کے قوم پرست رہنما تو تھے مگر ان کی دلچسپیان‬
‫صوفی ازم ‪ ،‬شاعری‪ ،‬تاریخ‪ ،‬اسالمی فلسفہ‪ ،‬نسلیات اور ثقافت میں بھی تھی۔ ‪1930‬ء میں سندھ‬
‫ہاری کمیٹی کی بنیاد دکھی۔ جس کی عنان بعد میں حیدر بخش جتوئی ہاتھوں میں آئی۔ ان کا تعلق‬
‫سندھ کےصوفی بزرگ سید حیدر شاہ کاظمی کے خانوادوں میں تھا اور وہ ان کی درگاہ کے سجادہ‬
‫نشین بھی رہے۔ سید صاحب "سندھ عوامی محاذ" کے بانی بھی تھے۔ سائیں جی ایم سید قیام‬
‫پاکستان کے ہیروز میں سے ایک ہیں ان کا تحریک آزادی میں ایک اہم قردار ہے انہی کی بدولت‬
‫آج صوبہ سندھ پاکستان کا ایک حصہ ہے‪ .‬وہ سائیں جی ایم سید ہی تھے جنہوں نے سندھ اسمبلی‬
‫میں قیام پاکستان کے حق میں پیش کی اور اسے بھاری اکثریت سے پاس کروایا جس کی بدولت‬
‫سندھ پاکستان کا ایک حصہ بنی۔ ‪1955‬ء میں انھوں نے نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار‬
‫کی پھر ممتاز سندھی دانشور‪ ،‬ادیب‪ ،‬معلم محمد ابراہیم جویو ( پیدائش ‪ 2‬اگست ‪1915‬ء) کی‬
‫مشاورت میں سندھی قوم پرستی کا نعرہ بلند کیا جو مارکسزم ‪ ،‬کبیر‪،‬گرونانک اور گاندھیائی فلسفہ‬
‫حیات کا ملغوبہ تھا۔ ‪1966‬ء میں بزم صوفی سندھ‪1969 ،‬ء میں سندھ یونائیڈڈ فرنٹ‪ ،‬اور ‪1972‬ء‬
‫میں جے سندھ محاذ کی تشکیل اور انصرام میں اہم کردار ادا کیا۔ سائیں جی ایم سید نے ساٹھ (‪)60‬‬
‫کتابیں لکھیں۔ "مذہب اور حقیقت" ان کی معرکتہ آرا کتاب ہے۔ ان کی زیادہ تر تصانیف سیاست‪،‬‬
‫مذہب‪ ،‬صوفی ازم‪،‬سندھی قومیت اور ثقافت اور سندھی قوم پرستی کے موضوعات پر لکھی گی‬
‫ہیں۔ ‪1971‬ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد سید صاحب نے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار‬
‫علی بھٹو سے " سندھو دیش" کا مطالبہ کیا تھا۔ جی ایم سید کی سیاست ان نکات کے گرد گھومتی‬
‫تھی‪:‬‬
‫عدم تشدد‬ ‫‪‬‬
‫جمہوریت‬ ‫‪‬‬
‫سیکولرازم‬ ‫‪‬‬
‫قومی خود انحصاری اورخود مختاری‬ ‫‪‬‬
‫جنوبی ایشاہ کی قوموں کے ساتھ اشتراک اور یگانگت‬ ‫‪‬‬
‫معاشرتی اور اقتصادی مساوات‬ ‫‪‬‬

‫وہ " اسالمی جمہوریہ پاکستان" کے سخت مخالف تھے۔ تیس (‪ )30‬سال پابند سالسل رھے۔ ‪19‬‬
‫جنوری ‪1992‬ء کو ان کو گرفتار کیا گیا اور ان کی موت تک ان کا گھر "زیلی جیل" قرار دے کر‬
‫نظر بند کردیا گیا تھا۔‬

‫وفات‬
‫جی ایم سید ‪ 25‬اپریل ‪1995‬ء کو ‪ 91‬سال کی عمر میں جناح ہسپتال کراچی میں وفات پا گئے۔‬
‫سردار ع دالرب ن ش رت‬
‫ب‬
‫‪39 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫سردار‬
‫عبدالرب نشتر‬
‫دوسرے گورنر پنجاب‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 2‬اگست ‪ 24 – 1949‬نومبر‪1951 /‬‬
‫گورنر‬ ‫سر خواجہ ناظم الدین‬
‫جنرل‬
‫وزیر اعظم‬ ‫لیاقت علی خان‬
‫پیشرو‬ ‫فرانسس موڈی‬
‫جانشین‬ ‫ابراہیم اسماعیل چندریگر‬
‫ذاتی تفصیالت‬
‫پیدائش‬ ‫عبد الرب نشتر‬
‫‪ 13‬جون ‪1899‬‬
‫پشاور‪ ،‬برطانوی راج‬
‫‪ 14‬فروری ‪( 1958‬عمر‪ 58 ‬سال) وفات‬
‫کراچی‪ ،‬مغربی پاکستان‬
‫مقام تدفین‬ ‫کراچی‪ ،‬مغربی پاکستان‬
‫قومیت‬ ‫پاکستانی‬
‫سیاسی‬ ‫مسلم لیگ‬
‫جماعت‬
‫مادر علمی‬ ‫علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور‬
‫جامعہ پنجاب‬
‫پیشہ‬ ‫سیاستدان‬

‫سردار عبدالرب نشتر ‪ 2‬اگست ‪1949‬ء تا ‪ 24‬نومبر ‪1951‬ء تک پاکستان کے صوبہ پنجاب کے‬
‫گورنر رہے۔ آپ ‪ 13‬جون ‪1899‬ء کو پشاور میں پیدا ہوۓ اور ‪ 14‬فروری ‪1958‬ء کو کراچی میں‬
‫فوت ہوۓ۔‬

‫تعلیم‬
‫ۤاپ نے ابتدائی تعلیم مشن اسکول اور بعد میں سناتن دھرم ہائی اسکول ممبئی سے حاصل کی۔ ۤپ‬
‫نے بی اے پنجاب یونیورسٹی سے کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری‬
‫‪1995‬حوالہ درکار؟ میں حاصل کی۔‬

‫سیاسی زندگی‬

‫‪40 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫ۤاپ ‪ 1927‬سے ‪ 1931‬تک آل انڈیا کانگریس کے رکن رہے اور ‪ 1929‬سے ‪ 1938‬تک پشاور‬
‫میونسپل کمیٹی کے کمشنر رہے۔ بعد میں ۤاپ نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور‬
‫‪ 1932‬میں آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل کے رکن بنے۔‬
‫ن‬ ‫ف‬
‫اطمہ ج اح‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 1‬جنوری ‪1960‬ء‪ 9 – ‬جوالئی ‪1967‬ء‬
‫پیشرو‬ ‫نیا عہدہ‬
‫جانشین‬ ‫نور االمین‬
‫ذاتی تفصیالت‬
‫پیدائش‬ ‫فاطمہ علی جناح‬
‫‪ 31‬جوالئی ‪1893‬‬
‫کراچی‪ ،‬برطانوی راج‬
‫(موجودہ پاکستان)‬

‫وفات‬ ‫‪ 9‬جوالئی ‪( 1967‬عمر‪ 73 ‬سال)‬


‫کراچی‪ ،‬پاکستان‬
‫شہریت‬ ‫پاکستانی‬
‫قومیت‬ ‫پاکستانی‬
‫آل انڈیا مسلم لیگ (‪ 1947‬سے قبل) سیاسی‬
‫جماعت‬ ‫مسلم لیگ (‪)1958–1947‬‬
‫آزاد (‪)1967–1960‬‬

‫تعلقات‬ ‫محمد علی جناح‬


‫احمد علی جناح‬
‫بندے علی جناح‬
‫رحمت علی جناح‬
‫مریم علی جناح‬
‫شیریں علی جناح‬
‫مادر علمی‬ ‫جامعہ کلکتہ‬
‫(‪)D.D.S‬‬
‫ذریعہ معاش‬ ‫معالج دندان‪ ،‬ماہر دنداں‬
‫مذہب‬ ‫اسالم‬

‫فاطمہ جناح مادرملت یعنی قوم کی ماں۔ ہمارے ماہرین تاریخ وسیاست نے مادر ملت کو قائداعظم‬
‫کے گھر کی دیکھ بھال کرنے والی بہن کے حوالے سے بہت بلند مقام دیا ہے لیکن انہوں نے قیام‬
‫پاکستان اور خصوصا ً ‪1965‬ء کے بعد کے سیاسی نقشے پر جو حیرت انگیز اثرات چھوڑے ہیں‬
‫ان کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ یہ ایک معنی خیز امر ہے کہ قائد اعظم کی زندگی میں مادر‬
‫ملت ان کے ہمر اہ موثر طور پر ‪19‬سال رہیں یعنی ‪1929‬ء سے ‪1948‬ء تک اور وفات قائد کے‬
‫‪41 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫بعد بھی وہ اتنا ہی عرصہ بقید حیات رہیں یعنی ‪1946‬ء سے ‪1967‬ء تک لیکن اس دوسرے دور‬
‫میں ان کی اپنی شخصیت کچھ اس طرح ابھری اور ان کے افکارو کردار کچھ اس طرح نکھر کر‬
‫سامنے آئے کہ انہیں بجا طور پر قائداعظم کی جمہوری' بے باک اور شفاف سیاسی اقدار کو ازسر‬
‫نو زندہ کرنے کا کریڈیٹ دیا جا سکتا ہے جنہیں حکمران بھول چکے تھے۔‬
‫اس سلسلے میں مادر ملت نے جن آرا کا اظہار کیا ان سے عصری سیاسیات و معامالت پر ان کی‬
‫ذہنی گرفت نا قابل یقین حد تک مکمل اور مضبوط نظر آتی ہے ۔ ‪1965‬ء کے صدارتی انتخاب کے‬
‫موقع پر ایوب خاں کی نکتہ چینی کے جواب میں مادر ملت نے خود کہا تھا کہ ایوب فوجی‬
‫معامالت کا ماہر تو ہو سکتا ہے لیکن سیاسی فہم و فراست میں نے قائد اعظم سے براہ راست‬
‫حاصل کی ہے اور یہ ایسا شعبہ ہے جس میں آمر مطلق نا بلد ہے۔‬
‫‪1965‬ء کے بعد رونما ہونے والے واقعات مادرملت کے اس بیان کی تصدیق کرنے کے لئے کافی‬
‫ہیں۔ مثال کے طور پر مادر ملت نے جن خطرات کی بار بار نشاندہی کی ان میں سے چند ایک یہ‬
‫ہیں‪: ‬‬
‫امریکہ کی بڑھتی ہوئی مداخلت۔‬ ‫‪‬‬
‫بیرونی قرضوں کے ناقابل برداشت دباؤ۔‬ ‫‪‬‬
‫غربت اور معاشی نا ہمواریوں کے خطر ناک اضافے۔‬ ‫‪‬‬
‫مشرقی پاکستان اور دیگر پس ماندہ عالقوں کی حالت زار۔‬ ‫‪‬‬
‫ناخواندگی اور سائنٹیفک تعلیم کے بارے میں حکومت کی مجرمانہ خاموشی۔‬ ‫‪‬‬
‫نصابات میں اسالمی اقدار اور خاص کر قرآنی تعلیمات کا فقدان۔‬ ‫‪‬‬
‫جمہوری اور پارلیمانی دستور کی تشکیل میں تاخیر۔‬ ‫‪‬‬
‫خارجہ پالیسی کے یک طرفہ اور غیر متوازن رویے۔‬ ‫‪‬‬

‫مادرملت نے اس نوع کے دیگر قومی اور بین االقوامی معامالت کے بارے میں صاحبان اقتدار اور‬
‫قوم کوآنے والے خطرات سے آگاہ کرنے والے جو بیانات دیے وہ ان کی دور رس نگاہوں اور‬
‫سیاسی بصیرت کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر ہم نی مادر ملت کے برو قت انتبہ پر کان دھرے ہوتے‬
‫اور ان خطرات سے بچنے کا اہتمام کیا ہوتا جن کو ان کی نگاہیں صاف طور پر دیکھ رہی تھیں تو‬
‫آج ہم ان سخت گیر سیاسی 'اقتصادی اور سماجی بحرانوں کی زد میں نہ ہوتے جن کا ہماری قوم‬
‫شب و روز سامنا کر رہی ہے اور یہ بات تو یقینی معلوم ہوتی ہے کہ مشرقی پاکستان کا دلخراش‬
‫سانحہ وقوع پزیر نہ ہوتا۔‬
‫مادر ملت کی سیاسی زندگی کے قطع نظر انہوں نے جس انداز سے اپنے شب و روز گزارے‬
‫اورقوم وملت کے لیے جو قربانیاں دیں ان کے اندر بال شبہ ایک مثالی کردار کے پورے عوامل‬
‫موجود ہیں۔ ان عوامل میں پانچ خاص طور پر قابل ذکر ہیں‪: ‬‬
‫اول‪ :‬وہ ایک مثالی گریلو خاتون تھیں۔ فضول خرچی سے مکمل پرہیز اور سادہ لیکن ضروری‬
‫آسائشوں اور سہولتوں سے بھر پور گھر ' قائد اعظم کے لئے طعام و آرام کا ایک نظام االو قات '‬
‫سایسی چہل پہل اور مالقاتیوں کے ہجوم کے با وجود پر سکون ماحول 'قائد اعظم اپنی سر گر‬
‫میوں کے اختتام پر جب گھر لوٹتے تو اپنے استقبال کے لئے ایک خنداں و شاداں بہن کو موجود‬
‫پاتے۔ یہی وہ اطمینان بخش اور آ سودہ خانگی ماحول تھا جس کے طفیل اپنی بیماری کے باوجود‬
‫قائد اعظم اپنی پوری لگن اور یک سوئی کے ساتھ تحریک پاکستان کو کا میابی سے ہمکنار کر‬
‫سکے۔‬
‫دوم‪ :‬مادر ملت کی زندگی سے ایک اہم سبق یہ بھی ملتا ہے کہ خواتین کو پرو فیشنل تعلیم سے آ‬
‫راستہ ہوناچاہئے تا کہ وہ مالی طور پر خود کفیل ہوں اور قومی آمدنی میں بھی اضافہ کر سکیں۔‬
‫مادر ملت نے دانتوں کے عالج معالجے میں تخصیص حاصل کی اور کئی سال تک پر یکٹس کی‬
‫اور اس دوران غریبوں کا مفت عالج کیا۔‬
‫‪42 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫سوم‪ :‬مادرملت نے اپنی زندگی کا بیش تر حصہ بے شمار سماجی اور رفاہی اداروں کی سرپر ستی‬
‫میں صرف کیا اور ان کی ترقی اور تعمیر میں دامے‪ ،‬درمے‪،‬سخنے مدد کی اس حوالے سے‬
‫کشمیری مہاجرین کے لئے ان کی خدمات نا قابل فرا موش ہیں ۔‬
‫چہارم‪ :‬مادر ملت کا سب سے اہم کارنامہ پاکستان کو جمہوریت کے راستے پر دوبارہ گامزن کرنا‬
‫ہے انہوں نے‪1965‬ء کے صدارتی انتخاب میں حصہ لے کر تحریک پاکستان کی ہما گیر عوامی‬
‫شرکت کی یادیں تازہ کردیں اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے مابین یک جہتی اور یگانگت کے‬
‫جذبوں کو بیدار کردیا۔ اگرچہ انہیں دھاندلی سے ہرایا گیا لیکن اس کا نتیجہ چند سالوں کے اندر‬
‫ایوب خان کی آمریت کے خاتمہ کی شکل میں نکال۔‬
‫مادرملت کی سیاسی جدوجہد کے اندر پاکستان کی خواتین کیلئے یہ پیغام مضمر ہے کہ انہیں‬
‫سیاسیات سے بے تعلق نہیں رہنا چاہیے۔ اپنے اندر سیاسی شعور پیدا کرنا چاہیے اور انتخابات میں‬
‫بھر پور حصہ لے کر محب وطن اور ایماندار لوگوں کو کامیاب بنانا چاہئے۔‬
‫اعلی حلقوںاور اقتدار کے ایوانوں میں گھومنے کے باوجود مادر ملت نے اسالمی شعائر کے‬‫ٰ‬ ‫پنجم‪:‬‬
‫مطابق زندگی بسر کی اور اپنے آپ کو ہر قسم کے سکینڈل سے محفوظ رکھا۔وہ قائد اعظم کی‬
‫طرح بے حد خوددار اور پر وقار تھیں وہ اتحاد اسالمی کی شیدائی تھیں اور ان کی زبر دست‬
‫خواہش تھی کہ نوجوان طلبہ و طالبات کیلئے قرآن مجید کی تعلیم کو الزمی قرار دیا جائے۔‬
‫خواتین اور خاص کر طالبات پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ قائد اعظم کی اس محترم بہن کی‬
‫حیات و خدمات کا مطالعہ کریں اور اپنے اندر کم از کم وہ خصوصیات پیدا کریں جن کا اوپر تذکرہ‬
‫کیا گیا ہے۔ انہی خصوصیات کی بدولت خواتین قوم کی ترقی و تعمیر میں بھر پور انداز میں کردار‬
‫ادا کر سکتی ہیں۔‬
‫مادر ملت کے چند بصیرت افروز افکار‪:‬مادر ملت کی حیات و خدمات کے مطالعے سے پتہ چلتا‬
‫ہے کہ پاکستان کے معاشرے کی تشکیل و تعمیر اور ترقیاتی پالیسیوں کے بارے میں وہ واضح‬
‫نظریات رکھتی تھیں۔ جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا ہے انہیں محض ایک گھریلو خاتون سمجھنا‬
‫صحیح نہ ہو گا۔ وہ قائد اعظم کی وفات کے بعد ‪19‬سال تک بقید حیات رہیں اور ملک کے سیاسی‬
‫'معاشی'سماجی اور تعلیمی مسائل کے بارے میں تواتر کے ساتھ اپنی آرا دیتی رہیں ۔‬
‫پنجاب یونیورسٹی کی ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان نے ان کی دو سو سے زیادہ تقاریرچھاپی ہیں‬
‫اور اس کے عالوہ اندرونی اور بیرونی معامالت پر ان کے بصیرت افروز تبصرے دیگر کتب‬
‫ورسائل میں بگھرے پڑے ہیں۔ ان خیاالت و بیانات کی رہنمائی کیلئے قائد اعظم موجود نہ تھے۔‬
‫مادر ملت اپنے طور پر کتب بینی اور مطالعے کی بے حد شوقین تھیں اور مختلف معامالت کے‬
‫بارے میں آزادانہ انداز سے سوچتی تھیں۔ ان کے افکار و خیاالت کے بارے میں ابھی تک کوئی‬
‫تجزیاتی تصنیف نظر سے نہیں گزری۔‬
‫یھاں نمونے کے طور پر ان کے چار بیانات درج کئے جاتے ہیں جن سے مسائل پر ان کی فکری‬
‫گرفت کا پتہ چلتا ہے‪:‬‬
‫اسالمی تعلیمات‪ :‬اس وقت دنیا عجیب دور سے گزر رہی ہے اور یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کشمکش‬
‫کا کیا نتیجہ برآمد ہو گا۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ جو ساری دنیا کیلئے درد سر بنا ہوا ہے وہ یہ‬
‫کہ بنی نوع انسان میں کس طرح یگانگت اور مساوات قائم کی جائے‪.........‬‬
‫(عید میالالنبیۖ کی ایک تقریب سے خطاب ‪14،‬جنوری ‪1950‬ء)‬
‫کشمیر‪ :‬اس وقت پاکستان کو مختلف اہم مسائل کا سامنا ہے اور یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ان میں‬
‫مسئلہ کشمیر سب سے زیادہ اہم ہے ۔مدافعتی نقطہ نگاہ سے کشمیر پاکستان کی زندگی اور روح‬
‫کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اقتصادی لحاظ سے کشمیر ہماری مرفع الحالی کا منبع ہے۔پاکستان کے بڑے‬
‫‪43 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫دریا اسی ریاست کی حدود سے گزر کر پاکستان میں داخل ہوتے اور ہماری خوشحالی میں مدد‬
‫دیتے اس کے بغیر پاکستان کے مرفع الحالی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اگر خدا نہ کرے ہم کشمیر‬
‫سے محروم ہو جائیں تو قدرت کی عطا کردہ نعمت عظمیٰ کا بڑا حصہ ہم سے چھن جائے گا۔‬
‫کشمیر ہماری مدافعت کا کلیدی نقطہ ہے۔اگر دشمن کشمیر کی خوبصورت وادی اور پہاڑیوں میں‬
‫مورچہ بندی کا موقع مل جائے تو پھر یہ اٹل امر ہے کہ وہ ہمارے معامالت میں مداخلت اور اپنی‬
‫مرضی چالنے کی کوشش کرے گا۔ پس اپنے آپ کو مضبوط اور حقیقتا َ طاقتور قوم بنانے کیلئے یہ‬
‫انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان کو دشمن کی ایسی سرگرمیوں کی زد میں نہ آنے دیا جائے۔اس‬
‫لحاظ سے کشمیر کی مدد ہمارا اولین فرض ہوجاتا ہے۔‬
‫یوم پیدائش کے موقع پر جاری کردہ اس پیغام میں انہوں نے مشرقی پاکستان میں‬
‫قائ ِد اعظم کے ِ‬
‫آنے والے سمندری طوفان سے متاثر ہونے والوں سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا۔‬
‫یوم پیدائش منا رہے ہیں‪ ،‬تو اس‬
‫انہوں نے کہا‪" :‬آج جب ہم بابائے قوم قائ ِد اعظم محمد علی جناح کا ِ‬
‫وقت ہم ان مشکل حاالت سے بھی گھرے ہوئے ہیں جو سنگین روپ اختیار کر سکتے ہیں اور جن‬
‫کے نتائج دور رس ہو سکتے ہیں؛ اور کوئی بھی ان حاالت پر تشویش کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ‬
‫سکتا۔ یہ حاالت اس لیے پیدا ہوئے ہیں کیونکہ آپ نے قائ ِد اعظم کی وفات کے بعد تمام اسباق کو‬
‫بھال دیا ہے۔‬
‫"بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان کے لوگوں کو ان اصولوں‪ ،‬نظریات اور تعلیمات سے دور ہٹایا‬
‫جا رہا ہے جن کی وجہ سے یہ مملکت وجود میں آئی۔ یہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحیح کو‬
‫غلط سے جدا کریں‪ ،‬صحیح راستہ اپنائیں اور غلط کو جھٹک دیں۔‬
‫"مجھے یقین ہے کہ قائ ِد اعظم کا اپنا گیا جدوجہد‪ ،‬خدمت اور قربانی کا عظیم راستہ ہمیشہ ہمارے‬
‫لیے ہر زمانے میں روشنی کا ایک منار رہے گا۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہم قائ ِد اعظم‬
‫کے سکھائے گئے اصولوں پر اپنی عملی زندگی میں کتنا عمل کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ان کی شبیہ‬
‫ذہن میں ابھرتی ہے جس میں وہ ہمیں خبردار کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ بھلے ہی اب ہمارے درمیان‬
‫اظہار‬
‫ِ‬ ‫نہیں پر ان کی عظیم شخصیت اب بھی متاثر کن ہے۔ یہاں میں ان ہزاروں لوگوں سے‬
‫ہمدردی کرنا چاہتی ہوں جنہیں اس سمندری طوفان کی وجہ سے بے پناہ نقصان اٹھانا اور بے گھر‬
‫ہونا پڑا۔ میری دلی ہمدردی ان تمام لوگوں کے ساتھ ہے۔" (انجمن تاجران کراچی سے خطاب‬
‫دسمبر‪1948‬ء )‬
‫داخلی استحکام‪ :‬آج صورتحال کیا ہے؟ داخلی طور پر ہم مقصد عمل کے اتحاد سے محروم ہیں‬
‫ِ'بیرونی طور پر ہمیں وہ وقار اور عزت حاصل نہیں جس کے ہم مستحق ہیں۔ ُّآپ استحاب نفس‬
‫کریں اور سوچیں کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے یقینا َ آپ کو اب وہ دشواریاں پیش نہیں جو آزادی‬
‫سے قبل دو عظیم طاقتور کے مقابلے میں در پیش تھیں کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ اب تک اس‬
‫کی قیادت پیدا کرنے میں ناکام رہے جو آپ کے نظریات اور مساوات کی صدق دلی سے حامی‬
‫ہو ؟‬
‫کیااس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے آزادی کا مطلب محنت اور جدوجہد کی بجائے آرام اور تن آسانی‬
‫سمجھ لیا ہے ؟کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے دشمنوں کو موقع دیا جائے کہ وہ دوستوں کے بھیس‬
‫میںآپ کی صفوں میں انتشار پیدا کریںاور ان نظریات سے آپ کو بہکائیںجن کی خاطر پاکستان‬
‫معرض وجود میں آیا تھا۔یہ ایسے سواالت ہیں جن کا جواب خود آپ کو دینا چاہیے۔‬
‫آج کل خارجہ پالیسی اور خارجہ معامالت پر یہاں بڑی باتیں ہو رہی ہیں لیکن میرے رائے یہ ہے‬
‫کہ ان باتوں میں حقیقت شناسی کو بہت کم دخل ہے۔سب سے مقدم یہ ہے کہ ہم اپنے اندرونی حاالت‬
‫کو سدھاریں‪،‬اگرحکو مت کو سیاسی اور اقتصادی استحکام حاصل ہو جائے تو اسے بیرون ملک‬

‫‪44 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫بھی عزت نصیب ہوتی ہے ۔ اس کی خارجہ پالیسی تو شاید کسی کو پسند آئے یا نہ آئے لیکن اسے‬
‫احترام سے دیکھا جاتا ہے ۔؛‬
‫(قائد اعظم کی یوم والدت پر نشری تقریر ‪ 25،‬دسمبر ‪1956‬ء)‬
‫جمہوریت‪ :‬ہمارے راستے میں داخلی اور بیرونی مشکالت حائل ہوئی ہیں۔ہم مختلف آزمائشوں سے‬
‫گزرے ہیں ہم پر پریشان کن لمحے آئے ہیں لیکن ہمارا یقین متزلزل نہیں ہوا اور ہم مایوس نہیں‬
‫ہوئے۔آج دس سال بعد ہمیں اس امر کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم عوامی امنگوں کے حصول میں کس‬
‫حد تک کامیاب ہوئے ۔پاکستان چند جاہ پسند افراد کی شکار گاہ بننے کیلئے قائم نہیں ہوا تھا جہاں‬
‫وہ الکھوں افراد کے آنسو َوں ‪،‬پسینے اور خون پر پل کر موٹے ہوتے رہیں ۔‬
‫پاکستان سماجی انصاف ‪ ،‬مساوات ‪ ،‬اخوت ‪،‬اجتماعی بھالئی‪ ،‬امن اور مسرت کے حصول کے لئے‬
‫قائم کیا گیا تھا۔ آج ہمیں اس نصب العین سے دور پھینک دیا گیا ہے ۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ‬
‫چھپا ہوا ہاتھ کس کا ہے جس نے پبلک کی زندگی میں زہر گھول دیا ہے ذاتی مفادات اور اقتدار‬
‫کے لیے سازشیں اور مول تول کے رجحانات بڑھ رہے ہیں ۔‬
‫لوگوں کو جموری حقوق کے استعمال سے محروم رکھنے کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں ۔ آپ کو‬
‫دستور کی حفاظت اور غیر جمہوریت رجحانات کو روکنے کے لیے متحد ہونا چاہیے‪،‬جلد از جلد‬
‫انتخابات کا مطالبہ ہی اس صورت حال کا واحد حل ہے ۔ میں پاکستانیوں سے اپیل کرتی ہوں کے‬
‫وہ ملک میں پراگندگی پھیالنے والوں کے خالف ڈٹ جائیں اور جمہوریت کی طرف گامزن رہیں‬

‫چ وہ دری رحمت علی‬


‫چودھری رحمت علی پاكستان كا نام تجويز كرنے والے ايك مخلص سیاستدان تھے۔ انہیں دنیا کا پہال‬
‫پاکستانی کہا جاتا ہے۔‬
‫پیدائش‬ ‫‪ 16‬نومبر‪1897 /‬ء‬
‫باالچور‪ ،‬پنجاب (برطانوی‬
‫راج)‪ ،‬برطانوی راج‬
‫وفات‬ ‫‪ 3‬فروری ‪( 1951‬عمر‪55 ‬‬
‫سال)‬
‫کیمبرج‪ ،‬کیمبرج شائر‪ ،‬برطانیہ‬
‫دیگر‪ ‬نام‬ ‫نقاش‬
‫ِ‬ ‫لفظ پاکستان‪،‬‬
‫خالق ِ‬
‫پاکستان‬
‫اہم‬ ‫ابھی یا کبھی نہیں‬
‫تصانیف‬
‫تحریک‬ ‫تحریک پاکستان‪،‬‬
‫پاکستان قومی تحریک‬

‫ابتدائی زندگی‬
‫چودھری رحمت علی ‪ 16‬نومبر‪1897 ،‬ء کو مشرقی پنجاب کےضلع ہوشیار پور کےگاؤں مو ہراں‬
‫میں ایک متوسط زمیندار جناب حاجی شاہ گجر کےہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نےایک مکتب‬
‫سےحاصل کی جو ایک عالم دین چال رہےتھے۔میٹرک اینگلو سنسکرت ہائی اسکول جالندھر‬
‫‪45 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫سےکیا۔ ‪1914‬ءمیں مزید تعلیم کےلئےالہور تشریف الئےانہوں نےاسالمیہ کالج الہور میں داخلہ لیا‬
‫۔‪1915‬ء میں ایف اے اور ‪1918‬ء میں بی اے کیا۔‬

‫تعلیمی زندگی‬
‫‪1915‬ء میں اسالمیہ کالج میں بزم شبلی کی بنیاد رکھی کیونکہ وہ موالنا شبلی سےبہت متاثر‬
‫تھےاور پھر اس کےپلیٹ فارم سے ‪1915‬ء میں تقسیم ہند کا نظریہ پیش کیا۔ ‪1918‬ء میں بی‬
‫اےکرنےکےبعد جناب محمد دین فوق کےاخبار کشمیر گزٹ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت‬
‫سےاپنےکیئریر کا آغاز بھی کیا۔ ‪1928‬ء میں ایچی سن کالج میں اتالیق بھی مقرر ہوئے۔کچھ‬
‫عرصہ بعد انگلستان تشریف لےگئے جہاں جنوری ‪1931‬ء میں انھوں نے کیمبرج کے کالج ایمنویل‬
‫میں شعبہ قانون میں ٰ‬
‫اعلی تعلیم کے لئے داخلہ لیا۔ کیمبرج اور ڈبلن یونیورسٹیوں سے قانون اور‬
‫اعلی ڈگریاں حاصل کیں۔‬
‫ٰ‬ ‫سیاست میں‬
‫چودھری رحمت علی ڈاکٹر محمد اقبال کی ‪1932‬ء میں بریطانیہ آمد کے موقع پر ان کے ساتھ‬

‫تقسیم ہند کا نظریہ‬


‫اسالمیہ کالج کے مجلے "دی کریسنٹ" کے ایڈیٹر اور اور کئی دیگر طلباء سے متعلق بزموں کے‬
‫عہدیدار بھی رہے ۔ اسالمیہ کالج میں بزم شبلی قائم کی ‪ ،‬جس کے ‪1915‬ء کے اجالس میں محض‬
‫‪ 18‬برس کی عمر میں تقسیم ملک کا انقالب آفرین نظریہ پیش کیا ‪ ،‬جس کی مخالفت پر آپ اس بزم‬
‫سے الگ ہو گئے ۔ آپ نے یہ نظریہ پیش کرتے ہوئے فرمایا‬
‫"ہندوستان کا شمالی منطقہ اسالمی عالقہ ہے ‪ ،‬ہم اسے اسالمی ریاست میں تبدیل کریں‬
‫گے ‪ ،‬لیکن یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب اس عالقے کے باشندے خود کو باقی ہندوستان سے‬
‫منقطع کر لیں۔ اسالم اور خود ہمارے لئے بہتری اسی میں ہے کہ ہم ہندوستانیت سے جلد‬
‫سے جلد جان چھڑا لیں"‬

‫عملی زندگی‬
‫اخبار کشمیر گزٹ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سےاپنےکیئریر کا آغاز کیا۔ آپ نے "پاکستان دی‬
‫فادرلینڈ آف پاک نیشن" ‪" ،‬مسلم ازم" اور "انڈس ازم" وغیرہ کتابچے بھی لکھے۔ چوہدری رحمت‬
‫علی ایچی سن کالج الہور میں لیکچرار مقرر ہوئے اور جیفس کالج میں بھی مالزمت کی۔ آپ نے‬
‫بعض اخباروں میں مالزمت بھی اختیار کی۔‬
‫‪1933‬ء میں آپ نے لندن میں پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی۔ ‪ 28‬جنوری‪1933 ،‬ء ‪ ،‬جب وہ‬
‫کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھتے تھے "اب یا پھر کبھی نہیں" (‪ )Now OR Never‬کے عنوان سے‬
‫چار صفحات پر مشتمل شہرہ آفاق کتابچہ جاری کیا ۔ جو تحریک پاکستان کے قلعے کی آہنی دیوار‬
‫ثابت ہوا۔ اور برصغیر کے مسلمانان و دیگر اقوام لفظ "پاکستان" سے آشنا ہوئے ۔آپ کے مطابق‬
‫آپ نے یہ نام پنجاب (پ) افغانیہ (ا) کشمیر (ک) سندھ (س) اور بلوچستان (تان) سے اخذ کیا جہاں‬
‫مسلمان ‪ 1200‬سال سے آباد ہیں۔ ‪1935‬ء میں آپ نے ایک ہفت روزہ اخبار "پاکستان" کیمبرج سے‬
‫جاری کیا۔ اور اپنی آواز پہنچانے کے لئے جرمنی اور فرانس کا سفر کیا اور جرمنی کے ہٹلر سے‬
‫انگریزوں کے خالف مدد کا وعدہ لیا۔ اس کے عالوہ اسی سلسلہ میں امریکہ اور جاپان وغیرہ کے‬
‫سفر بھی اختیار کیا۔‬
‫ایسے وقت میں جب ہندو و مسلم قائدین لندن میں جاری گول میز کانفرنسوں کے دوران وفاقی آئین‬
‫کے بارے میں سوچ رہے تھے ‪ ،‬یکم اگست‪1933 ،‬ء کو جوائینٹ پارلیمینٹری سلیکٹ کمیٹی نے‬
‫چودھری رحمت علی کے مطالبہ پاکستان کا نوٹس لیتے ہوئے ہندوستان وفد کے مسلم اراکین سے‬
‫سواالت کئے۔ جوابا ً سر ظفر ہللا‪ ،‬عبدہللا یوسف علی اور خلیفہ شجاع الدین وغیرہ نے کہا کہ یہ‬
‫‪46 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫صرف چند طلباء کی سرگرمیاں ہیں ‪ ،‬کسی سنجیدہ شخصیت کا مطالبہ نہیں کہ جس پر توجہ دی‬
‫جائے۔ ‪1938‬ء میں آپ نے بنگال ‪ ،‬آسام اور حیدرآباد دکن کی آزادی کے حق میں بھی آواز بلند کی‬
‫اور "سب کانٹیننٹ آف براعظم دینیہ " کا تصور پیش کیا۔ جن میں پاکستان ‪ ،‬صیفستان ‪ ،‬موبلستان ‪،‬‬
‫بانگلستان ‪ ،‬حیدرستان ‪ ،‬فاروقستان ‪ ،‬عثمانستان وغیرہ شامل تھے۔ جن میں جغرافیائی محل وقوع کا‬
‫تعین کیا گیا تھا اور با قاعدہ نقشے دئیے گئے تھے ۔ اور ‪ 8‬مارچ‪1940 ،‬ء کو کراچی میں پاکستان‬
‫نیشنل موومنٹ کی سپریم کونسل سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے حیدر آباد دکن کے لئے‬
‫"عثمانستان" کے نام سے آزاد اسالمی ریاست کا خاکہ پھر پیش کیا۔‬
‫آپ الہور میں ہونے ‪ 23‬مارچ ‪1940‬ء کےمسلم لیگ کے تاریخ ساز جلسے میں شرکت نہ کر‬
‫سکے کہ خاکسار تحریک اور پولیس میں تصادم کے باعث اس کشیدہ صورتحال میں پنجاب‬
‫حکومت نے آپ پر پنجاب میں داخلے کی پابندی عائد کر دی۔ جبکہ بعض حلقوں کے مطابق اس‬
‫اجالس میں شرکت نہ کرنے کی وجہ "مسلم لیگ" کے ساتھ "آل انڈیا" کے لفظ کا استعمال تھا۔‬
‫کیونکہ آپ اس کے سخت مخالف تھے اور اس خطے کا ذکر برصغیر یا دینیہ کہہ کرکرتے تھے۔‬
‫آپ مسلمانوں کو برصغیر کے اصل وارث سمجھتے تھے کیونکہ انگریزوں نے مسلمانوں سے ہی‬
‫حکومت چھینی تھی اور تمام برصغیر کو ایک ریاست میں متحد کرنے والے بھی مسلم ہی تھے۔‬
‫اس جلسے میں اگرچہ آپ کا تجویز کردہ نام "پاکستان" شامل نہیں تھا مگر برصغیر کے ہندو‬
‫پریس نے طنزاً اسے قرارداد پاکستان کہنا شروع کیا اور باالخر یہ طنز سچ کا روپ دھار گیا۔‬
‫قیام پاکستان کے بعد آپ دو بار پاکستان تشریف الئے مگر نامناسب حاالت اور رویوں کے باعث‬
‫آپ دلبرداشتہ ہو کر دوبارہ برطانیہ چلے گئے اسی دوران آپ کا ‪ 20‬مئی ‪1948‬ء کو پاکستان ٹائمز‬
‫میں انٹرویو بھی شائع ہوا۔‬

‫آراء‬
‫مورخ ڈاکٹر راجندر پرشاد اپنی کتاب ‪ India Divided‬میں رقمطراز ہیں کہ‬
‫"جہاں تک مجھے علم ہے چوہدری رحمت علی پاکستان نیشنل موومنٹ کے بانی صدر ہیں۔‬
‫وہ واحد شخص ہیں جو ہندوستان کی وحدت کو تسلیم کئے جانے کی مخالفت کرتے ہیں اور‬
‫اسے مسلمانوں کو ظلم و بربریت میں مبتال کرنے کے مترادف قرار دیتے ہیں"‬
‫مشہور ترک ادیبہ خالدہ خانم کی مشہور کتاب ‪ Inside India‬کا ایک باب چوہدری رحمت علی‬
‫کے انٹرویو پر مشتمل ہے جو ‪1937‬ء میں پیرس میں شائع ہوئی۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ‬
‫"پاکستان نیشنل موومنٹ کا منصوبہ فرقہ واریت سے الگ بات ہے۔ تحریک کے مطابق‬
‫ہندوستان موجودہ حالت میں ایک ملک نہیں۔ بلکہ برصغیر ہے جو دو ملکوں ہندوستان اور‬
‫پاکستان پر مشتمل ہے۔ تحریک کا بانی چوہدری رحمت علی کو قرار دیا جاتا ہے ‪ ،‬وہ قابل‬
‫ترین قانون دان ہے لیکن وکالت ترک کر کے انھوں نے پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد‬
‫رکھی۔ اس وقت ان کی زندگی کا غالب مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل ہے ۔ میں‬
‫نے مالقات کے دوران یہ محسوس کیا ہے کہ یہ تلخی جو ان کے دل میں ہے ہندوؤں کی‬
‫معتصبانہ اور اسالم دشمن ذہنیت سے جوانی میں پیدا ہو گئی تھی ہرگز ان کے نظریہ‬
‫پاکستان پر اثر انداز نہیں ہوئی اور وہ اس تحریک کی بنیاد ہندو عداوت پر نہیں رکھتے"‬

‫لفظ پاکستان و نقشہ پاکستان‬


‫چودھری رحمت علی کا پیش کردہ نقشہ‬
‫اس طرح ‪1933‬ء میں انہوں نےبرصغیر کےطلباءپر مشتمل ایک تنظیم پاکستان نیشنل لبریشن‬
‫موومنٹ کےنام سےقائم کی ۔ اسی سال چودھری رحمت علی نے دوسری گول میز کانفرنس‬
‫‪47 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫کےموقع پر اپنا مشہور کتابچہ ‪Now or Never‬۔۔ابھی یا کبھی نہیں۔۔۔شائع کیا جس میں پہلی مرتبہ‬
‫لفظ پاکستان استعمال کیا ۔اسی طرح انہوں نے پاکستان‪ ،‬بنگلستان اور عثمانستان کے نام سے تین‬
‫ممالک کا نقشہ بھی پیش کیا۔پاکستان میں کشمیر‪ ،‬پنجاب‪ ،‬دہلی سمیت‪ ،‬سرحد‪ ،‬بلوچستان اور سندھ‬
‫شامل تھے۔ جبکہ بنگلستان میں بنگال‪ ،‬بہار اور آسام کے عالقے تھے اس کے عالوہ ریاست‬
‫حیدرآباد دکن کو عثمانستان کا نام دیا۔ ‪1935‬ء میں انہوں نے کیمبرج سےایک ہفت روزہ اخبار‬
‫نکاال جس کا نام بھی پاکستان تھا۔ چودھری رحمت علی ‪ 23‬مارچ ‪1940‬ء کو آل انڈیا مسلم لیگ‬
‫کےچونتیسویں ساالنہ اجالس میں الہور تشریف النا چاہتےتھےلیکن چند روز قبل خاکساروں کی‬
‫اعلی پنجاب جناب سکندر حیات نےچودھری رحمت علی‬ ‫ٰ‬ ‫فائرنگ کی وجہ سےاس وقت کےوزیر‬
‫کےپنجاب میں داخلےپر پابندی عائد کر دی ۔وہ ‪1947‬ء میں اقوام متحدہ گئے اور کشمیر پر اپنا‬
‫موقف بیان کیا۔‪ 6‬اپریل ‪1948‬ء میں واپس پاکستان آئے اور پاکستانی بیوروکریسی نے اکتوبر‬
‫‪1948‬ء میں ان کو پاکستان سے خالی ہاتھ برطانیہ واپس جانے پر مجبور کر دیا۔‬

‫بیماری و وفات‬
‫آپ کا آخری پتہ ‪ 114‬ہیری ہٹن روڈ تھا اور آپ مسٹر ایم سی کرین کے کرائے دار تھے۔ مسٹر‬
‫کرین کی بیوہ کے مطابق چوہدری رحمت علی اپنا خیال ٹھیک سے نہیں رکھتے تھے ۔ جنوری‬
‫کے مہینے میں سخت سردی کے دوران ایک رات آپ ضرورت کے کپڑے پہنے بغیر باہر چلے‬
‫گئے اور واپسی پر بیمار ہو گئے ۔ ‪ 29‬جنوری نمونیہ میں مبتال ہو کر شدید بیماری کی حالت میں‬
‫آپ کو ایوالئن نرسنگ ہوم میں داخل کرایا گیا لیکن صحت یاب نہ ہو سکے اور وہیں پر ‪ 3‬فروری‬
‫‪1951‬ء ہفتے کی صبح انتقال ہوا۔‬
‫ایمنوئیل کالج ‪ ،‬کیمبرج شہر کے قبرستان اور کیمبرج کے پیدائش و اموات کے ریکارڈ کے مطابق‬
‫‪ 3‬فروری‪1951 ،‬ء بروز ہفتہ کی صبح اس عظیم محسن نے کسمپرسی کی حالت میں برطانیہ میں‬
‫اپنی جان‪ ،‬جان آفرین کے سپرد کر دی۔‬

‫چودھری رحمت علی کے مزار کا کتبہ‬

‫تدفین‬
‫‪ 17‬روز تک کولڈ اسٹوریج میں ہم وطنوں ‪ ،‬ہم عقیدوں ‪ ،‬ہم مذہبوں کا انتظار کرتے کرتے باالخر‬
‫‪ 20‬فروری‪1951 ،‬ء کو دو مصری طلبہ کے ہاتھوں اس غریب الوطن کے جسد خاکی کو انگلستان‬
‫کےشہر کیمبرج کے قبرستان کی قبر نمبر بی ‪ 8330 -‬میں ال وارث کے طور پر امانتا ً دفن کر دیا‬
‫گیا (کیمبرج سمیٹری ‪ ،‬مارکٹ روڈ – کیمبرج ‪ -‬برطانیہ) ۔‬
‫وزراتوں ‪ ،‬االٹمنٹوں ‪ ،‬کلیموں ‪ ،‬ہوس اقتدار کے ماروں کو خبر بھی نہ ہوئی کہ ان کے ملک کی‬
‫تحریک کے صف اول کا مجاہد ‪ 200‬پونڈ کا قرض اپنی تجہیز و تکفین کی مد میں کندھوں پر لے‬
‫چال ہے ۔مگر سات دہائیوں کے بعد بھی یونہی دیار غیر میں چند گمنام مقبروں کے درمیان ابھی‬
‫تک امانتا ً دفن ہے۔‬

‫اعزاز‬
‫ت پاکستان نے ان کی یاد میں ہیروز آف پاکستان سیریز میں یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری‬
‫حکوم ِ‬
‫کیا تھا۔‬
‫ق‬ ‫ع‬
‫ع ب د ال لی م صد ی‬
‫ی‬
‫عبدالعلیم صدیقی موالنا شاہ احمد نورانی کے والد اور ایک بلند پایہ عالم دین تھے۔‬
‫‪48 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫پیدائش‬
‫شہر میرٹھ‬
‫ِ‬ ‫محمد عبد العلیم صدیقی قادری ‪ 15‬رمضان المبارک ‪1310‬ھ بمطابق ‪ 3‬اپریل ‪1893‬ء کو‬
‫یوپی بھارت میں قاضی مفتی شاہ عبد الحکیم صدیقی قادری علیہ الرحمہ کے ہاں پیدا ہوئے۔‬

‫خاندان‬
‫معروف ادیب و شاعر حضرت موالنا اسماعیل میرٹھی ان کے چچا تھے۔ شاہ عبد العلیم صدیقی‬
‫نجیب الطرفین صدیقی تھے۔ چنانچہ آپ کا سلسلۂنسب ‪ 36‬ویں پشت میں حضرت محمد بن ابو بکر‬
‫تعالی عنہما تک اور سلسلۂحسب ‪ 32‬ویں پشت میں حضرت ابو بکر صدیق رضی‬ ‫ٰ‬ ‫صدیق رضی ہللا‬
‫اعلی حضرت موالنا قاضی حمید الدین صدیقی خجندی‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ تک پہنچتا ہے۔ آپ کے مورث‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫‪1525‬ء میں ظہیر الدین محمد بابر بادشاہ کے ہمراہ ہندوستان تشریف الئے تھے۔اس طرح آپ کے‬
‫آبا و اجداد میں سے کئی حضرات قاضی القضات کے منصب پر فائز رہے۔‬

‫تعلیم و تربیت‬
‫آپ نے اردو‪ ،‬عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی‬
‫چار سال دس ماہ کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ ختم کیا اور صرف سات سال کی عمر میں قرآن‬
‫پاک مکمل حفظ کر لیا۔ بعد ازاں‪ ،‬مدرسۂ عربیہ اسالمیہ‪ ،‬میرٹھ‪ ،‬میں داخل ہوئے۔ تین جمادی‬
‫االخری ‪1322‬ھ (اگست ‪1904‬ء) کو والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھا‪ ،‬تو بقیہ تعلیم و تربیت آپ کے‬‫ٰ‬
‫بھائی عالمہ احمد مختار صدیقی نے کی۔ پھر انہوں نے مدرسہ قومیہ عربیہ‪ ،‬میرٹھ‪ ،‬میں داخلہ لیا‬
‫درس نظامی کی سند حاصل کی۔ دینیات کے موضوع پر‬ ‫ِ‬ ‫اور ‪1326‬ھ میں امتیازی حیثیت سے‬
‫نیشنل عربک انسٹی ٹیوٹ سے ڈپلوما کیا۔ بعدازاں بی۔اے کیا اور پھر وکالت کا امتحان پاس کر کے‬
‫ٰالہ آباد یونیورسٹی سے ایل۔ایل۔ بی کی سند حاصل کی۔ میرٹھ کے مشہور حکیم احتشام الدین‬
‫(علم طب) سیکھا‬
‫ِ‬ ‫صاحب سے فن حکمت‬

‫دمحم علی ج وہ ر‬
‫پیدائش‪1878 :‬ء‬
‫انتقال‪1931 :‬ء‬
‫ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم رہنما۔ جوہر تخلص۔ ریاست رام پور میں پیدا ہوئے۔ دو سال کے‬
‫تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا۔ والدہ مذہبی خصوصیات کا مرقع تھیں‪ ،‬اس لیے بچپن ہی سے تعلیمات‬
‫اسالمی سے گہرا شغف تھا۔ ابتدائی تعلیم رام پور اور بریلی میں پائی۔ اعلی تعلیم کے لیے علی گڑھ‬
‫چلے گئے۔ بی اے کا امتحان اس شاندار کامیابی سے پاس کیا کہ آلہ آباد یونیورسٹی میں اول آئے۔‬
‫آئی سی ایس کی تکمیل آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی۔ واپسی پر رام پور اور بڑودہ کی ریاستوں میں‬
‫مالزمت کی مگر جلد ہی مالزمت سے دل بھر گیا۔ اور کلکتہ جا کر انگریزی اخبار کامریڈ جاری‬
‫کیا۔ موالنا کی الجواب انشاء پردازی اور ذہانت طبع کی بدولت نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ہند‬
‫بھی کامریڈ بڑے شوق سے پڑھا جاتا جاتا تھا۔‬
‫انگریزی زبان پر عبور کے عالوہ موالنا کی اردو دانی بھی مسلم تھی۔ انھوں نے ایک اردو‬
‫روزنامہ ہمدرد بھی جاری کیا جو بے باکی اور بے خوفی کے ساتھ اظہار خیال کا کامیاب نمونہ‬
‫تھا۔ جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینے کے جرم میں موالنا کی زندگی کا کافی حصہ قید و بند‬
‫میں بسر ہوا۔ تحریک عدم تعاون کی پاداش میں کئی سال جیل میں رہے۔ ‪1919‬ء کی تحریک‬
‫خالفت کے بانی آپ ہی تھے۔ ترک مواالت کی تحریک میں گاندھی جی کے برابر شریک تھے۔‬
‫جامعہ ملیہ دہلی آپ ہی کی کوششوں سے قائم ہوا۔ آپ جنوری ‪1931‬ء میں گول میز کانفرنس میں‬
‫‪49 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫شرکت کی غرض سے انگلستان گئے۔ یہاں آپ نے آزادیء وطن کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ‬
‫اگر تم انگریز میرے ملک کو آزاد نہ کرو گے تو میں واپس نہیں جاؤں گا اور تمہیں میری قبر بھی‬
‫یہیں بنانا ہوگی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے لندن میں انتقال فرمایا۔ تدفین کی غرض سے نعش‬
‫بیت المقدس لے جائی گئی۔ موالنا کو اردو شعر و ادب سے بھی دلی شغف تھا۔ بے شمار غزلیں‬
‫اور نظمیں لکھیں جو مجاہدانہ رنگ سے بھرپور ہیں۔ مثالً‬

‫قتل حسین اصل میں َمرگِ یزید ہے‬


‫ِ‬
‫اسالم زندہ ہوتا ہے ہر کربال کے بعد‬
‫ع‬ ‫ش‬
‫وکت لی‬
‫پیدائش‪1873 : ‬ء رامپور‪ ،‬اترپردیش بھارت۔‬
‫وفات‪1938 : ‬ء‬
‫شوکت علی موالنا محمد علی جوہر کے بھائی تھے اور خالفت تحریک میں اُن کے شانہ بشانہ‬
‫تھے۔‬
‫خ‬ ‫ع‬ ‫ظف‬
‫ر لی ان‬
‫موالنا ظفر علی خان معروف مصنف‪ ،‬شاعر اور صحافی گزرے ہیں جو تحریک پاکستان کے اہم‬
‫رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ کو بابائے اردو صحافت کہا جاتا ہے۔ آپ نے الہور سے معروف‬
‫اردو اخبار زمیندار جاری کیا۔‬

‫پیدائ‬ ‫‪1873‬ء‬
‫ش‬ ‫وزیر آباد‪،‬‬
‫پنجاب‬
‫وفات‬ ‫‪1956‬ء‬
‫وزیر آباد‪،‬‬
‫پنجاب‬
‫پیشہ‬ ‫شاعر‪،‬‬
‫صحافی‬

‫ابتدائی حاالت‬
‫موالنا ظفر علی خان‪ 19‬جنوری‪1873 ،‬ء میں کوٹ میرٹھ شہر وزیر آباد میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے‬
‫اپنی ابتدائی تعلیم مشن ہائی اسکول وزیر آباد سے مکمل کی اور گریجویشن علی گڑھ مسلم‬
‫یونیورسٹی سے کی۔ کچھ عرصہ وہ نواب محسن الملک کے معتمد (‪ )Secretary‬کے طور پر‬
‫بمبئی میں کام کرتے رہے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ مترجم کی حیثیت سے حیدرآباد دکن میں کام‬
‫کیا اور محکمہ داخلہ (‪ )Home Department‬کے معتمد کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ اخبار‬
‫"دکن ریویو" جاري كيا اور بہت سی کتابیں تصنیف کرکے اپنی حیثیت بطور ادیب و صحافی‬
‫خاصی مستحکم کی۔‬

‫زمیندار کی ادارت‬

‫‪50 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫‪1908‬ء میں الہور آئے‪ ،‬روزنامہ زمیندار کی ادارت سنبھالی جسے ان کے والد مولوی سراج الدین‬
‫احمد نے ‪1903‬ء میں شروع کیا تھا۔ موالنا کو "اردو صحافت کا امام" کہا جاتا ہے اور زمیندار‬
‫ایک موقع پر پنجاب کا سب سے اہم اخبار بن گیا تھا۔ زمیندار ایک اردو اخبار تھا جو بطور خاص‬
‫مسلمانوں کے لیے نکاال گیا تھا۔ اس اخبار نے مسلمانوں کی بیداری اور ان کے سیاسی شعور کی‬
‫تربیت کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا باوجود اس حقیقت کے کہ اس کی اشاعت محدود تھی اور‬
‫مسلمانوں کے پاس نہ صنعت تھی نہ تجارت جس کی وجہ سے اشتہارات کی تعداد اتنی کم تھی کہ‬
‫اخبار کو چالنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ بعض اوقات ایسی صورت بھی پیدا ہو جاتی تھی کہ عملے‬
‫کو تنخواہ دینے کے لیے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے۔‬

‫کامریڈ اور زمیندار‬


‫موالنا نے صحافیانہ زندگی کی شروعات انتہائی دشوار گزار اور ناموافق حاالت میں کی۔ اس‬
‫زمانے میں الہور اشاعت کا مرکز تھا اور تینوں بڑے اخبار پرتاب ‪ ،‬محراب اور وی بھارت ہندو‬
‫مالکان کے پاس تھے ۔ اسی دور میں موالنا اور زمیندار نے تحریک پاکستان کے لیے بے لوث‬
‫خدمات انجام دیں ۔ کامریڈ (موالنا محمد علی جوہر کا اخبار ) اور زمیندار دو ایسے اخبار تھے جن‬
‫کی اہمیت تحریک پاکستان میں مسلم ہے اور دونوں کے کردار کو بیک وقت تسلیم کیا جانا چاہیے۔‬
‫‪1934‬ء میں جب پنجاب حکومت نے اخبار پر پابندی عائد کی تو موالنا ظفر علی خان جو اپنی‬
‫جرات اور شاندار عزم کے مالک تھے انہوں نے حکومت پر مقدمہ کردیا اور عدلیہ کے ذریعے‬
‫حکومت کو اپنے احکامات واپس لینے پر مجبور کر دیا۔ اگلے دن انہوں نے ہللا کا شکر ادا کیا اور‬
‫ایک طویل نظم لکھی جس کے ابتدائی اشعار یہ ہیں‬
‫یہ کل عرش اعظم سے تار آگیا‬
‫زمیندار ہوگا نہ تا حشر بند‬
‫تری قدرت کاملہ کا یقین‬
‫مجھے میرے پروردگار آگیا‬

‫زمیندار اور پنجاب‬


‫"جدید مسلم ہندوستان اور قیام پاکستان" (‪Modern Muslim India and the Birth of‬‬
‫‪ )Pakistan‬میں ڈاکٹر ایس ایم اکرام لکھتے ہیں‬

‫”‬
‫وہ جوان ‪ ،‬زور آور اور جرات مند تھے اور نئے سیاسی اطوار کا پرجوش انداز میں سامنا‬
‫کیا۔ ان کی ادارت میں زمیندار شمالی ہند کا سب سے اثر انگیز اخبار بن گیا اور خالفت‬

‫“‬ ‫تحریک میں ان سے زیادہ فعال کردار صرف علی برادران اور موالنا ابو الکالم آزاد ہی‬
‫تھے۔‬

‫یہ بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب پاکستان کا واحد صوبہ تھا جس نے اردو کو اپنی زبان کے طور پر‬
‫اپنایا اور اسے کام کی زبان بنایا باوجود اس کے کہ پنجابی اس صوبے کی مادری زبان ہے اور‬
‫سب سے زیادہ بولی جاتی ہے۔ پنجابی کا اصل رسم الخط گورمکھی کو مسلمانوں نے اس لیے نہیں‬
‫اپنایا کہ یہ سکھ مذہب سے جڑا ہوا تھا۔ اس طرح اردو انگریزی کے ساتھ پنجاب کی اہم لکھی‬
‫جانے والی زبان بن گئی اور دونوں تقریبا ایک جتنی مقدار میں سرکاری اور تعلیمی زبان کے‬
‫طور پر استعمال ہوتی رہیں۔ وفات‪ :‬انھوں نے ‪ 27‬نومبر ‪1956‬ء کو وزیر آباد کے قریب اپنے آبائی‬
‫نماز جنازہ ان کے ساتھی محمد عبدالغفور ہزاروی نے‬
‫ِ‬ ‫شہر کارامآباد میں وفات پائی۔ ان کی‬
‫پڑھائی۔ پنجاب کے دانشوروں ‪ ،‬لکھاریوں ‪ ،‬شاعروں اور صحافیوں نے‪ ،‬جن میں سر فہرست‬
‫عالمہ اقبال اور موالنا ظفر علی خان تھے ‪ ،‬اردو کی زلف گرہ گیر کو محبت اور توجہ سے اس‬
‫طرح سنوارا کہ وہ صوبے کی الڈلی زبان بن گئی ۔ دلی اور لکھنو کے بعد پنجاب نے اردو کی‬
‫‪51 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫ترقی و ترویج میں انتہائی اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔ اس ضمن میں کتاب"پنجاب میں اردو" از‬
‫حافظ محمود شیرانی بہت معلوماتی اور علمی تحقیق سے مزین ہے۔‬

‫پنجابی یا ہندی کا اپنا کوئی رسم الخط نہیں بلکہ یہ گورمکھی سنسکرت کا رسم الخط تھا جوکہ اب‬
‫معدوم ہو چکی ہے اور ہندؤں نے بھارت میں تعصب برتتے ہوئے اردو کو گورمکھی رسم الخط‬
‫میں تحریر کر کے اسے ہندی کا نام دے دیا‪ .‬پنجابی‪ .‬نے اردو رسم الخط کو اپنا رسم الخط قرار‬
‫دے لیا ہے اور برصغیر کے تمام پنجابی بولنے والے شعرراء اور ادیبوں نے اسی رسم الخط میں‬
‫لکھا ہے جن میں سکھ لکھاری مثلن مہندر سنگھ بیدی وغیرہ شامل ہیں اسی رسم الخط کو اپنایا ہے‪.‬‬
‫[آفتاب الدین قریشی]‬

‫کتابیں‬
‫موالنا ظفر علی خان غیر معمولی قابلیت کے حامل خطیب اور استثنائی معیار کے انشا پرداز‬
‫تھے ۔صحافت کی شاندار قابلیت کے ساتھ ساتھ موالنا ظفر علی خان شاعری کے بے مثال تحفہ‬
‫سے بھی ماال مال تھے۔ ان کی نظمیں مذہبی اور سیاسی نکتہ نظر سے بہترین کاوشیں کہالتی ہیں۔‬
‫وہ اسالم کے سچے شیدائی‪ ،‬محب رسول صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم اور اپنی نعت گوئی کے لیے‬
‫مشہور و معروف ہیں۔ ان کی شاعرانہ کاوشیں بہارستان‪ ،‬نگارستان اور چمنستان کی شکل میں‬
‫چھپ چکی ہیں۔ ان کی مشہور کتابیں درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫معرکہ مذہب و سائنس‬ ‫‪‬‬
‫غلبہ روم‬ ‫‪‬‬
‫سیر ظلمت‬ ‫‪‬‬
‫جنگ روس و جاپان‬ ‫‪‬‬

‫وہ میلہ رام وفا کی شاعری سے بہت متاثر تھے اور ایک نوآموز شاعر کو میلہ رام کا شعر سنا کر‬
‫نصیحت بھی کیا کرتے تھے‪:‬‬
‫توڑتا ہے شاعری کی ٹانگ کیوں اے بے ہنر!‬
‫جا سلیقہ شاعری کا سیکھ میلہ رام سے‬

‫نمونہ فارسی کالم‬


‫فصل گل در بوستان‬ ‫ساقیا برخیز و َمی در‬
‫آید همی‬ ‫جام کن‬
‫نغمه‌اش عنبرفشان‬ ‫باد نوروزی وزید اندر‬
‫آید همی‬ ‫چمن‬
‫انقالب اندر میان آید‬ ‫مسلم از خواب گران‬
‫همی‬ ‫بیدار شد‬
‫غیرت حق درمیان‬ ‫باش تا برقی درخشد از‬
‫آید همی‬ ‫حجاز‬
‫یاد یار مهربان آید‬ ‫رودکی چنگ است و‬
‫همی‬ ‫کلکم زخمه‌اش‬

‫‪52 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫وفات‬
‫موالنا ظفر علی خان نے ‪ 27‬نومبر‪1956 ،‬ء کو وزیرآباد کے قریب اپنے آبائی شہر کرم آباد میں‬
‫نماز جنازہ محمد عبدالغفور ہزاروی نے ادا کی‬
‫ِ‬ ‫خ نظ‬
‫وفات پائی۔ ان کی‬

‫واج ہ ا م الدی ن‬
‫وزیراعظم پاکستان‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 17‬اکتوبر ‪1951‬ء‪ 17 – ‬اپریل ‪1953‬ء‬
‫شاہی‬ ‫جارج ششم‬
‫حکمران‬ ‫الزبتھ دوئم‬
‫گورنر‬ ‫ملک غالم محمد‬
‫جنرل‬
‫پیشرو‬ ‫لیاقت علی خان‬
‫جانشین‬ ‫محمد علی بوگرہ‬
‫گورنر جنرل پاکستان‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 14‬ستمبر ‪1948‬ء‪ 17 – ‬اکتوبر ‪1951‬ء‬
‫‪ 11‬نومبر ‪ 1948‬تک عبوری‬

‫شاہی‬ ‫جارج ششم‬


‫حکمران‬
‫وزیر اعظم‬ ‫لیاقت علی خان‬
‫پیشرو‬ ‫محمد علی جناح‬
‫جانشین‬ ‫ملک غالم محمد‬
‫ذاتی تفصیالت‬
‫پیدائش‬ ‫‪ 19‬جوالئی ‪ 1894‬ء‬
‫ڈھاکہ ‪ ،‬برطانوی راج (اب بنگلہ‬
‫دیش)‬

‫وفات‬ ‫‪ 22‬اکتوبر ‪( 1964‬عمر‪70 ‬‬


‫سال)‬
‫ڈھاکہ ‪ ،‬پاکستان (اب بنگلہ دیش)‬

‫سیاسی‬ ‫مسلم لیگ‬


‫‪53 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫جماعت‬
‫مادر علمی‬ ‫جامعہ علی گڑھ‬
‫ٹرینٹی ہال‪ ,‬کیمبرج‬
‫مذہب‬ ‫اسالم‬

‫خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل تھے۔ لیاقت علی خان کی وفات کے بعد آپ‬
‫نے پاکستان کے دوسرے وزیر اعظم کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔‬
‫آپ ڈھاکہ‪ ،‬بنگال (موجودہ بنگلہ دیش) میں نواب آف ڈھاکہ کے خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ نے‬
‫ابتدائی تعلیم برطانیہ سے حاصل کی۔ آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل بھی ہیں۔‬
‫اعلی بھی رہے‪.‬‬
‫ٰ‬ ‫آپ نے بنگال کی سیاست میں حصہ لیا۔ آپ بنگال میں وزیر تعلیم اور پھر وزیر‬
‫خ‬ ‫ق‬
‫د ال ی وم ان‬ ‫عب‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫ئ‬ ‫ئ‬ ‫ق‬
‫خ‬ ‫خ‬
‫ع ب دال ی وم ان ق(پ ی دا خ‬
‫ش‬
‫ش‪ 16 :‬ج توال ی‪1901 ،‬تء‪ ،‬وت ات‪ 22 :‬اک وب ر‪ ،‬ء‪ 1981‬ن) ئپ اکست ا ی س ی است اور اص طور پر صوب ہ‬
‫ع‬
‫ے۔ صوب ہ سرحد می ں آپ ا ب سپ ی کر‪ ،‬وزیرا ٰلی اور مرکزی حکومت‬ ‫ے ج اے ھ‬ ‫سرحد فمی قں ای ک خ د آور صی ت ف‬
‫صور یکئ‬
‫ے۔‬ ‫می ں و ا ی وزیر دا لہ کے عہدوں پر ا ز رہ‬
‫ن‬
‫ت‬
‫خ ا دان‬
‫ع ئ‬ ‫پش‬ ‫فئ ت‬ ‫خ‬ ‫ق‬
‫حاظ سے ا لجٰی پ اےشکے‬ ‫کے‬ ‫ے‬ ‫ئ‬‫آپ‬ ‫ے۔‬‫ھ‬ ‫ز‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫عہدے‬ ‫کے‬‫ت‬ ‫لدار‬ ‫ص‬‫ح‬ ‫ں‬ ‫م‬
‫ق‬ ‫سرحد‬ ‫ہ‬ ‫صو‬ ‫ت‬
‫والد‬ ‫کے‬ ‫ان‬ ‫وم‬‫ت‬‫ی‬ ‫ع دال‬
‫ل‬ ‫ی‬ ‫پ‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ش‬ ‫ب‬ ‫کب‬
‫ے۔ آپ کے ای ک ب ھا ی ع ب د الحم ی د خ ان آزاد موں و ک می ر‬ ‫ا‬
‫یج ہ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫سے‬ ‫وم‬ ‫ری‬ ‫ئ‬
‫ی‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫ے ج کہ آپ تکا ع‬
‫ع ب مخ‬ ‫ب‬ ‫ھ‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫و‬
‫ہ‬ ‫ن‬
‫کے وزیرا ظ م ھی ب وے۔‬

‫س اسی دور‬ ‫ی‬


‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن ن یش ن‬ ‫شم ن‬ ‫آپ مس‬
‫آپ ے‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ء‬ ‫‪1940‬‬ ‫ے۔‬
‫ش‬ ‫حرک رکن بھ خ‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫س‬ ‫ی‬ ‫گر‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ڈ‬ ‫ا‬ ‫ے‬‫ل‬ ‫ہ‬ ‫پ‬ ‫سے‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ل‬
‫خ‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬‫ش‬‫گ‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫لم‬
‫ن‬ ‫ئ ن‬
‫ان کو ای ک ی ز دگی ی۔ آپ ای ک ای ما دار‬ ‫تست ت‬ ‫ک‬ ‫نک پ ا‬ ‫ی‬ ‫شم خسلم ل یلگ منی تںئ مول خی ت ا ت ی ار کی اور صوب ہ سرحد می ں حر‬
‫ے‬ ‫کی دوران ح‬ ‫ے اور آپ ت‬ ‫ص ی کن ا ہا ی س ت طب ی عت حکمران ت‬
‫کےم یل‬ ‫ے‬ ‫ب‬ ‫صو‬‫ن‬ ‫کومت‬ ‫ھ‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫طور‬ ‫ع‬‫کے‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫خ دمات ج‬
‫ےش ا ل‬ ‫صو‬
‫خ ت تب‬ ‫م‬ ‫ڑے‬‫ئ‬ ‫ے‬‫س‬
‫ی ف ی خب‬ ‫ج‬ ‫ر‬ ‫ت‬
‫عم‬ ‫کی‬ ‫ٹ‬
‫م‬ ‫ڈی‬ ‫وارسک‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫الحات‪،‬‬
‫رست ماعت عوامی ی‬
‫ص‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫م‬ ‫لی‬ ‫ادی‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ام‪،‬‬ ‫ی‬ ‫کا‬ ‫اور‬ ‫پ‬ ‫عہ‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ن‬‫ت‬ ‫ق‬
‫ے‬ ‫کو‬ ‫گار‬ ‫د‬ ‫ی‬ ‫دا‬ ‫ک‬ ‫یف‬ ‫حر‬ ‫کی‬ ‫ی‬ ‫ار‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫ج‬ ‫ن‬ ‫پ‬ ‫ن‬ ‫وم‬ ‫ان‬ ‫چ‬ ‫ہ‬ ‫پ‬ ‫کی‬ ‫ش‬ ‫آپ‬ ‫ں۔‬ ‫ہ‬
‫ن ی‬ ‫ف‬ ‫ی‬ ‫عر‬ ‫ل‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫ہ ی ں‪،‬‬
‫ب‬
‫ی‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫ل‬ ‫پش‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ی‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫ک‬
‫ے پر گامزن ھی۔ ہی وج ہ‬ ‫ے و حکاق گر سی ظ ری ہ کےن تم طابقفعدم دد کے ت‬ ‫ہ‬ ‫ے ھی ہور پ ش‬ ‫ے کے لی ق‬ ‫دردی سے چ ل‬
‫ے۔‬ ‫ج ہ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ھا‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫سے‬ ‫رت‬ ‫ی‬ ‫ا‬‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کو‬ ‫آپ‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫وں‬ ‫ل‬ ‫ون‬ ‫رست‬ ‫پ‬ ‫وم‬ ‫کے‬ ‫سرحد‬ ‫ے کہ صوب ہ‬ ‫ہ‬
‫ئ‬ ‫ب م خت‬ ‫خ‬ ‫ئ ن‬ ‫ق‬ ‫ف‬
‫‪1953‬ء می ں آپ و ا ی وزیر ب راے ص عت‪ ،‬وراک و زراعت ھی ن ب ہ وے۔‬
‫س‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫خ‬
‫ے ااہ ل سرار دی ا گ ی ا اور قآپ دو سال نک پ اب ت د سال ل‬ ‫کے ی‬
‫ل‬ ‫است ٹ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫وب ان کے دور ح ن تکومت می ں آپ کو س‬ ‫ن‬ ‫ای‬
‫ے حصہ ل ی ا اور‬ ‫ڈے ل‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫ٹ‬ ‫پ‬ ‫ترہ ش‬
‫ے ا ی پ ار ی قپ اکست تانسق لم نل ی گ ( ی وم)حکے ھ ش‬ ‫پ‬
‫ے۔ ت‪1970‬ء کے ا خ اب ات می ں آپ‬
‫ص‬ ‫س‬
‫کے سا ھ خوط ب قگال کے ب عد کومت می ن تں راکت کی۔‬ ‫پ‬
‫کی۔ پ اکست ان ی لز پ ار ی ف‬ ‫حا نل ن‬ ‫ی ن وں پفر قکام ی ا ی ٹ‬
‫‪1977‬شء کے ا خن اب ات ت ک آپ‬ ‫ن‬ ‫نراعظ م ذوال ار ع فبلی ئب ھ و ے اپ ی کاب ی ن ہ می ںن تآپ کو و ا ی وزیر دا لہ م رر ک ی ا ئاور‬ ‫وزی‬
‫ن‬ ‫ج‬ ‫ب‬
‫ے می ں کام یس اب ہ‬ ‫ست ی ت‬ ‫ئ‬ ‫اعت کونیت ھیت ت ن‬ ‫کے ا خ اب ات می ں لقآپ خکی ج م ن‬ ‫‪1977‬ء ق ض‬ ‫ے۔ ق‬ ‫ے اس نعہدے پضر ا ز رہ‬
‫م‬
‫ے کے ب شعد شع ب دا ی وم ان ےتا ی مام ر وا اف ی اں پ اکست ان لم ل ی گ‬ ‫پ‬
‫ب‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫دار‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫ق‬ ‫ن الح‬ ‫اء‬ ‫ی‬ ‫دمحم‬ ‫رل‬ ‫ہ وسکی۔ ج‬
‫کے دھڑوں کو ی کج ا کرے می ں صرف کر دی ں ل ی کن ی ہ کو ی ں آپ کی ‪ 22‬اک وب ر‪1981 ،‬ء کو و ات کی وج ہ سے‬
‫ادھوری رہ ی ں۔‬

‫علی دمحم راش دی‬


‫پیر علی محمد راشدی‬
‫پیدائش‬ ‫‪ 5‬اگست ‪ 1905‬ءالڑکانہ‪،‬‬
‫‪54 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫موجودہ پاکستان‬
‫وفات‬ ‫‪ 14‬مارچ ‪ 1987‬ءکراچی‪،‬‬
‫پاکستان‬
‫قلمی نام‬ ‫پیر علی محمد راشدی‬
‫پیشہ‬ ‫سیاست دان‪ ،‬صحافی‪ ،‬ادیب‪،‬‬
‫سفارت کار‪ ،‬مورخ‬
‫زبان‬ ‫اردو‪ ،‬سندھی‪ ،‬انگریزی‬
‫نسل‬ ‫سندھی‬
‫شہریت‬ ‫پاکستانی‬
‫صنف‬ ‫سیاسیات‪ ،‬صحافت‪ ،‬آپ بیتی‪،‬‬
‫تاریخ‬
‫نمایاں کام‬ ‫رودا ِد چمن‬
‫اھے ڈینھن اھے شینھن‬
‫فریاد سندھ‬
‫اہم‬ ‫فلپائن‬ ‫آرڈر آف سیکا تونا‬
‫اعزازات‬

‫پیر علی محمد راشدی (انگریزی‪( ،)Pir Ali Muhammad Rashidi :‬پیدائش‪ 5 :‬اگست‪1905 ،‬ء ‪-‬‬
‫وفات‪ 14 :‬مارچ‪1987 ،‬ء) سندھ سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے ممتاز سیاستدان‪ ،‬صحافی‪،‬‬
‫مورخ‪ ،‬سفارت کار اور ادیب تھے۔ وہ تحریک پاکستان کے کارکن اور قائد اعظم محمد علی جناح کے‬
‫قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ آپ تحریک پاکستان کے ان اشخاص میں شامل تھے جنہوں نے‬
‫تاریخی قرارداد پاکستان کی ڈرافٹنگ کا کام سرنجام دیا۔ آپ سندھ کے ممتاز مورخ‪ ،‬محقق اور فارسی‬
‫ادبیات کے ماہر پیر حسام الدین راشدی کے بڑے بھائی ہیں۔‬

‫حاالت زندگی‬
‫پیر علی محمد راشدی ‪ 5‬اگست‪1905 ،‬ء کو سندھ میں ضلع الڑکانہ کے گاؤں بہمن‪ ،‬برطانوی‬
‫ہندوستان موجودہ پاکستان میں سندھ کے مشہور روحانی گھرانے راشدی خاندان میں پیر سید حامد‬
‫شاہ راشدی کے گھر پیدا ہوئے[‪]2[]1‬۔ انہوں نے کسی اسکول یا کالج سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ‬
‫[‪]2‬‬
‫گھر پر ہی عربی‪ ،‬فارسی اور انگریزی زبانوں میں مہارت حاصل کی۔‬

‫صحافت‬
‫پیر علی محمد راشدی نے گھر پر تعلیم حاصل کرنے کے بعد صحافت کے پیشے سے وابستہ ہو‬
‫گئے۔[‪ ]2‬ان میں پندرہ سال کی عمر میں ہی لکھنے کی صالحیت پیدا ہو چکی تھی اور وہ اتنا مطالعہ‬
‫بھی رکھتے تھے کہ اخبار کے لیے مضامین لکھنے لگے۔ انھوں نے اپنے گائوں سے ایک ماہنامہ‬
‫الراشد جاری کیا۔ یہ موالنا ابوالکالم آزاد کے الھالل اور البالغ کی طرز پر شائع ہونے لگا۔ اس کا‬
‫دفتر پیر صاحب نے اپنے گاؤں 'بہمن ' میں ہی رکھا ۔ خود لکھتے ہیں کہ‪1924 :‬ء تک جب میری‬
‫عمر انیس برس کی تھی‪ ،‬مجھ میں اتنی صالحیت پیدا ہو گئی تھی کہ میں کچھ لکھ سکتا ہوں ۔ میں‬
‫نے ایک ماہنامہ 'الراشد' کے نام سے وہیں گاؤں سے نکالنا شروع کر دیا‪ ،‬اس کو چھپوایا سکھر‬
‫[‪]1‬‬
‫سے تھا مگر دفتر گاؤں میں ہی رکھا۔‬

‫‪55 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫سکھر آنے جانے سے ان کا واسطہ پریس اور اخباری دنیا کے ساتھ بھی پڑال ٰہذا وہ جلد ہی‬
‫صحافتی دنیا میں آگئے اور چھاگئے۔ اس زمانے (‪1924‬ء) میں راشدی صاحب سندھ نیوز‬
‫اخبارکے نامہ نگار بنے۔ ‪1926‬ء میں الحزب شکار پور کے ایڈیٹر بنے ۔ ‪1927‬ء سے ‪1934‬ء میں‬
‫اپنا اخبار ستارہ سندھ جاری کیا جو ‪1937‬ء تک نکلتا رہا ۔ اس دوران پیر صاحب ‪1936‬ء میں ایک‬
‫اخبار صبح سندھ کے نام سے جاری کرچکے تھے۔ بعد میں وہ مسلم وائیس کے نام سے پہلے‬
‫سکھر سے بعد میں کراچی سے شائع کرتے رہے۔ یہ اخبار ‪1946‬ء تک جاری رہا۔ اس اخبار کے‬
‫ذریعے پاکستان کے متعلق ہندو پریس کے زہرآلودہ بیانات کا مقابلہ بڑی جرأت کے ساتھ کیا گیا ۔‬
‫بعد میں پیر صاحب (‪1947‬ء) قربانی اخبار سے وابستہ ہو گئے۔ یہ اخبار محمد ایوب کھوڑو کی‬
‫وزارت میں بند کرایا گیا۔ ‪1949‬ء میں محمد ایوب کھوڑو نے جب انگریزی اخبار سندھ آبزرور کا‬
‫انتظام سنبھاال تو پیر صاحب دوبرس کے لیے اس کے ایڈیٹر بنے۔ اسی زمانے میں اس اخبار کا‬
‫تصادم انتہائی طاقتور اخبار ڈان سے ہوا۔ روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کی پیر صاحب سے‬
‫قلمی جنگ پاکستان کی صحافتی تاریخ کا ایک اہم اور دلچسپ باب ہے۔ ‪1949‬ء میں راشدی‬
‫صاحب آل پاکستان نیوزپیپرز ایڈیٹرز کانفرنس کے صدر منتخب ہوئے۔ ‪1951‬ء میں پاک بھارت‬
‫کے ایڈیٹرز کی تنظیم جوائنٹ پریس کمیشن کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کی سربراہی میں کئی وفود‬
‫نے مصر‪ ،‬برطانیہ اور ہندوستان کے دورے کیے۔ ایک وفد ہندوستان بھی گیا تھا ‪ ،‬جس سے لیاقت‬
‫نہرو معاہدے کے لیے راہ ہموار ہوئی تھی۔وفد نے یوپی‪ ،‬دہلی اور بھارتی پنجاب کے فسادات‬
‫والے عالقوں کا دورہ بھی کیا تھا۔ بعد ازاں وہ ‪1952‬ء میں اسٹیٹس مین اخبار جاری کر چکے‬
‫تھے۔ ‪1954‬ء میں کراچی سے انگریز ی اخبار ایسٹرن ایکسپریس کے نام سے شائع کرتے رہے‬
‫اور یہ سلسلہ ‪1955‬ء تک جاری رہا ۔ اس کے بعد اخباری کالم نگاری تک محدود ہو گئے۔‬
‫روزنامہ جنگ میں ان کے کالم پوری آب و تاب سے شائع ہوتے رہے ۔ وہ ‪ 23‬سال مسلسل جنگ‬
‫کے لیے کالم لکھتے رہے۔ انھوں نے ہانگ کانگ میں رہتے ہوئے ‪1963‬ء سے ‪1964‬ء تک جنگ‬
‫کے لیے مکتوب مشرق بعید کے عنوان سے کالم لکھے۔ ‪1964‬ء سے ‪1978‬ء تک مشرق و مغرب‬
‫عنوان کے تحت کالم لکھے۔ اسی دوران روزنامہ جنگ میں ہی مزاحیہ کالم وغیرہ وغیرہ لکھنا‬
‫شروع کیا ۔ ‪1967‬ء تا ‪1969‬ء تک روز نامہ سندھی اخبار عبرت میں رندء پند کے عنوان سے ہفتہ‬
‫وار کالم لکھا اور ‪1974‬ء میں لندن سے شائع ہونے والے روزنامہ جنگ میں ‪A point of view‬‬
‫کے عنوان سے ہفتہ وار کالم لکھا اور ‪1974‬ء میں کراچی کے شام کے اخبار لیڈر میں کچھ ماہ‬
‫[‪]1‬‬
‫کے لیے ‪ IMPRESSIONS AND REFLECTIONS‬نام سے کالم لکھے۔‬

‫سیاست‬
‫پیر علی محمد راشدی ان کا شمار تحریک پاکستان کے بنیادی کارکنوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان بنانے‬
‫میں ان کا کردار اہم رہا ہے اور پاکستان کی آبیاری میں بھی پیش پیش رہے۔ پیر صاحب قائد اعظم‬
‫محمد علی جناح کے قریبی ساتھی اور تحریک پاکستان میں ان کے شانہ بشانہ رہے۔ خود قائد اعظم‬
‫ان کے معترف تھے۔ بعض موقعوں پر دونوں کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ ‪23‬‬
‫مارچ ‪1940‬ء کو الہور میں قائد اعظم کی زیر صدارت اجالس میں پیش کی گئی تاریخی قرارداد‬
‫پاکستان کی ڈرافٹنگ پیر صاحب نے کی تھی ۔ اسی سلسلے میں پیر صاحب نے ایک سال تک‬
‫الہور میں قیام بھی کیاتھا۔ انھوں نے ‪1938‬ء میں کراچی میں مسلم لیگ کانفرنس کے انعقاد میں اہم‬
‫کردار ادا کیا جس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی۔ اس اجالس میں ہندوستان کے‬
‫بڑے مسلم لیگی رہنما شریک تھے۔ اسی اجالس میں شیخ عبدالمجید سندھی نے مسلمانوں کے لیے‬
‫ایک عالحدہ وطن کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد قائد اعظم اور عبدہللا ہارون کی سربراہی میں ایک‬
‫فیکٹس فائنڈنگ کمیٹی بنائی گئی اور راشدی صاحب کو ان کا سیکریٹری بنایا گیا ۔ بعد ازاں قائد‬
‫اعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے راشدی صا حب کو لیگ کی فارن کمیٹی کا‬
‫سیکریٹری مقرر کیا ۔ وہ مسلم لیگ کے صوبائی سیکریٹری بھی بنے۔ حقیقت کی نگاہ سے دیکھا‬
‫جائے تو پیر صاحب قومی یکجہتی کا مکمل نمونہ تھے۔ وہ سچے محب وطن اور پکے مسلم لیگی‬
‫[‪]1‬‬
‫تھے۔‬

‫‪56 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫پیر علی محمد راشدی نے صحافتی زندگی کے ساتھ ادبی اور سیاسی زندگی کا آغاز بیک وقت کیا۔‬
‫سیاسی زندگی کی ابتدا انھوں نے ‪1924‬ء سے کی۔ جب انہوں نے حیدر آباد میں سندھی تعلیمی‬
‫کانفرنس میں شرکت کی وہاں ان کی مالقات جی ایم سید سے ہوئی۔ بعد میں انھوں نے انجمن‬
‫سادات راشدیہ قائم کی اوراس کی ترجمانی کے لیے الراشد رسالہ جاری کیا۔ اس کے بعد وہ سندھ‬
‫کے مسلمانوں کی واحد سیاسی تنظیم سندھ محمڈن ایسوسی ایشن کے رکن بن گئے۔ اس تنظیم کے‬
‫صدر سر شاہنواز بھٹو اور سیکریٹری خان بہادر ولی محمد حسن تھے۔ ‪1927‬ء تک راشدی اس‬
‫تنظیم کے سیکریٹری بنے رہے۔ ‪1929‬ء میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی تحریک میں بھر پور‬
‫حصہ لیا اور ‪1936‬ء تک‪ ،‬سندھ کی علیحدگی تک اپنا قلمی جہاد جاری رکھا۔ ‪1933‬ء میں الڑکانہ‬
‫ڈسٹرک اسکول بورڈ کے ممبر بنے۔ ‪1939‬ء میں سکھر میں مسجد منزل گاہ تحریک شروع ہوئی‬
‫تو ہندو مسلم فسادات کے اسباب جاننے کے لیے جسٹس ویسٹن کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی‬
‫کمیشن بنا دیا گیا۔ جس کے سامنے راشدی صاحب نے نہایت کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کی وکالت‬
‫کی۔ وہ خود رقم طراز ہیں کہ اسی اثناء میں سکھر میں منزل گاہ تحریک چلی تھی اور ایک‬
‫زبردست ٹربیونل بیٹھا تھا۔ اس ٹربیونل کے سامنے بھی مسلم لیگ کی طرف سے میں نے وکالت‬
‫کے تھی اور کیس جیتے تھے۔ ‪1934‬ء میں سر شاہنواز بھٹو کی لیڈر شپ میں پیپلز پارٹی وجود‬
‫میں آئی تو اس میں پیر صاحب شریک ہوئے۔ ‪1936‬ء میں سر حاجی عبدہللا ہارون کے ساتھ مل کر‬
‫سندھ اتحاد پارٹی بنائی ۔ ‪1940‬ء میں الہور میں رہ کر اس اجالس کا بندوبست کیا جس میں ‪23‬‬
‫[‪]1‬‬
‫مارچ ‪1940‬ء کی قرارداد پاکستان منظور کی گئی۔‬
‫‪1946‬ء میں مشترکہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے الیکشن میں مسلم لیگی امیدوار یوسف ہارون‬
‫کے مقابلے میں کھڑے ہوئے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ ‪1953‬ء میں سندھ اسمبلی کے بال مقابلہ‬
‫ممبر منتخب ہوئے۔ اور مالیات ‪ ،‬صحت عامہ اور اطالعات کے وزیر بنے۔ وزیر مالیات کی حیثیت‬
‫سے ‪1954‬ء میں سندھ کی جاگیروں کا خاتمہ کیا اور زمین غریبوں میں تقسیم کی۔ صحت عامہ‬
‫سے متعلق اداروں کو منظم کیا ۔ جامشورو میں لیاقت میڈیکل کالج قائم کیا ۔ الڑکانہ‪ ،‬سکھر اور‬
‫نواب شاہ میں سول اسپتال قائم کیے۔ سجاول میں زچہ خانہ اور کوٹری میں تپ دق کے مریضوں‬
‫کے عالج کے لیے ادارہ قائم کیا۔ اس سے پہلے گورنر دین محمد نے جب سندھ میں قلم ‪ 92‬نافذ کر‬
‫کے حکومت کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ رکھی تو پیر صاحب نے ان سے تین اہم کام کروائے جن میں‬
‫پیر پاگارہ کی گدی بحال کروانا ‪ ،‬فرنٹیئر ریگیولیشن رد کرانا اور کرمنل ٹرائیس ایکٹ ختم کروا‬
‫کر حروں کو حاضریوں سے نجات دالئی۔ انھوں نے ‪1954‬ء میں سندھ اسمبلی کی جانب سے ون‬
‫یونٹ میں شامل ہونے والی قرارداد منظور کرانے میں محمد ایوب کھوڑو کی سربراہی میں‬
‫سرگرمی سے حصہ لیا۔ ون یونٹ کے بعد پیر صاحب ‪1956‬ء تک مرکزی حکومت میں نشر و‬
‫اشاعت کے وزیر بنے۔ اسی دوران حیدرآباد میں ریڈیو اسٹیشن قائم کیا۔ پاکستان کے ‪1956‬ء کے‬
‫آئین کو بنانے میں ان کا بڑا ہاتھ رہا۔ ‪1949‬ء میں اینٹی ون یونٹ فرنٹ میں جی ایم سید کے ساتھ‬
‫ون یونٹ ختم کروانے کے لیے کام کیا اور ‪1970‬ء میں ون یونٹ کاخاتمہ ہوا۔ ‪1970‬ء میں ہی‬
‫سندھ اسمبلی کی ممبر شپ کے لیے سیہون کوٹری حلقے سے الیکشن لڑے مگر کامیاب نہ ہو‬
‫سکے۔ ‪1972‬ء تا ‪1977‬ء ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اطالعات و نشریات کی وزارت‬
‫[‪]1‬‬
‫میں مشیر رہے۔‬
‫پیر علی محمد راشدی ملک کے واحد سیاستدان تھے جو نہ کبھی عتاب میں آئے‪ ،‬نہ کیس داخل ہوا‪،‬‬
‫[‪]1‬‬
‫نہ ایبڈو میں آئے اور نہ کبھی جیل میں گئے۔‬

‫سفارتی خدمات‬
‫‪1957‬ء میں مرکزی مجلس قانون ساز سے مستعفی ہو کر فلپائن میں پاکستان کے سفیر بن گئے۔‬
‫اعلی سول اعزاز‬
‫ٰ‬ ‫فلپائن کی حکومت نے ان کو چار سال تک سفیر کی حیثیت سے خدمات دینے پر‬
‫آرڈر آف سیکا تونا سے نوازا ۔ ‪1962‬ء میں وہ چین میں سفیر مقرر ہوئے ۔ اسی دوران ان کی‬
‫مالقاتیں ماؤ زے تنگ اور چو این الئی کے ساتھ ہوتی رہیں ۔ چین اور پاکستان کو قریب النے میں‬
‫[‪]1‬‬
‫راشدی صاحب کا تاریخی کردار اہم ہے۔‬
‫‪57 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫ادبی خدمات‬
‫پیر علی محمد راشدی اپنی ذات میں ایک تحریک تھے۔ ان کے قلم سے افسر شاہی سے لے کر‬
‫نوکر شاہی تک کتراتے تھے۔ حکمران ان کی تحریروں سے خائف رہتے تھے۔ لکھنے کے‬
‫معاملے میں وہ بے باک تھے اور ان کا قلم حق و صداقت کی پاسداری کرتا تھا۔ سندھی ان کی‬
‫مادری زبان تھی۔ مگر اردو پر ان کو ملکہ حاصل تھا۔ پیر علی محمد راشدی خاص نظریے کے‬
‫تحت لکھتے تھے۔ وہ بالواسطہ یا بالواسطہ مسائل کی نشاندہی کرتے اور ان کا حل بتاتے رہتے‬
‫تھے۔ ملکی خواہ غیر ملکی حاالت پر کڑی نگاہ رکھتے تھے۔ان کی نظر میں ملکی اور دیگر‬
‫ملکوں کی خرابیوں کا اصل محرک‪ ،‬نوکر شاہی اور افسر شاہی تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان کو یہ‬
‫بیماری والدت سے ہی لگ چکی تھی۔ لیاقت علی خان کے قتل سے ملک میں نوکر شاہی اور افسر‬
‫شاہی کے بھاگ جاگ گئے ۔ وہ خود لکھتے ہیں‬

‫قائد ملت کی شہادت ‪ 16‬اکتوبر ‪1951‬ء کو راولپنڈی میں واقع ہوئی‪ ،‬اس دن جمہوریت‬
‫”‬
‫“‬ ‫کا چراغ بجھ گیا اور نوکر شاہی کے لیے آگے بڑھنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کا‬
‫[‪]1‬‬
‫راستہ کھل گیا۔‬

‫اگرچہ پاکستانی عوام سے پیر علی محمد راشدی کا حقیقی تعارف سادہ اور عام فہم زبان میں‬
‫تحریر اردو کالم ہی بنے‪ ،‬لیکن سیاست و صحافت میں مصروف رہتے ہوئے وہ اپنی تاریخ ‪ ،‬تہذیب‬
‫اور ثقافت سے بھی غافل نہ رہے۔ راشدی صاحب نے سندھ کی تاریخ پر مضامین اور تحقیقی‬
‫مقالے بھی تحریر کیے‪ ،‬جو تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے ۔ سکھر میں رہائش کے دوران راشدی‬
‫صاحب کا واسطہ سکھر اور روہڑی کے آثار قدیمہ سے بھی پڑا اور ان پر تحقیقی کام کیا۔ پیر علی‬
‫محمد راشدی کی یادداشت پر مبنی سندھی کتاب اھے ڈینھن اھے شینھن کو کالسک کا درجہ حاصل‬
‫ہے ۔ یہ کتاب تین ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے جو سندھی ادب کا شاہکار ہے۔ اس کے عالوہ فریاد‬
‫سندھ کتاب بھی سندھی ادب میں اہم ہے۔ راشدی صاحب نے ایک انگریزی کتاب ‪STORY OF‬‬
‫‪ SUFFERINGS OF SIND‬کے عنوان سے لکھی لیکن جو خان بہادر محمد ایوب کھوڑو کے‬
‫نام سے شائع ہوئی تھی‪ ،‬اس کے عالوہ پیر صاحب کی ایک اہم کتاب ‪SINDH WAYS AND‬‬
‫[‪]1‬‬
‫‪ DAYS‬منظر عام پر آچکی ہے۔‬

‫اوالد و اہل خانہ‬


‫پیر علی محمد راشدی کے بڑے صاحبزادے حسین شاہ راشدی مرحوم بھی ایک مایہ ناز ادیب اور‬
‫دانشور ہونے کے ساتھ سیاستدان بھی تھے اور سینیٹر بھی بنے۔ پیر صاحب کے دوسرے‬
‫صاحبزادے عادل راشدی شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں ۔ پیر علی محمد راشدی کی اہلیہ بیگم‬
‫ممتاز راشدی بنگال سے مولوی فضل الحق کی پوتی تھیں اور جو خود بھی نامور اہل قلم اور‬
‫[‪]1[]1‬‬
‫سماجی شخصیت تھیں۔‬

‫تصانیف‪/‬‬
‫رودا ِد چمن (اردو)‬ ‫‪‬‬
‫اھے ڈینھن اھے شینھن (سندھی)‬ ‫‪‬‬
‫فریاد سندھ (سندھی)‬ ‫‪‬‬
‫چین جی ڈائری (سندھی)‬ ‫‪‬‬
‫ون یونٹ کی تاریخ (اردو)‬ ‫‪‬‬
‫(بہ زبان انگریزی) ‪SINDH: WAYS AND DAYS‬‬ ‫‪‬‬

‫وفات‬
‫‪58 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫پیر علی محمد راشدی ‪ 14‬مارچ ‪1987‬ء کو کراچی‪ ،‬پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں واقع‬
‫[‪2‬‬
‫سندھی مسلم جماعت کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔‬
‫ش‬
‫حسی ن ہ ی د سہروردی‬
‫حسین شہید سہروردی پاکستان کے سیاست دان تھے آپ ‪1956‬ء سے ‪1957‬ء تک پاکستان کے‬
‫وزیراعظم رہے۔ آپ قائد اعظم کے پسندیدہ افراد میں سے تھے۔ ‪ 16‬اگست‪1946 ،‬ء کے راست‬
‫اقدام کے موقع پر آپ نے شہرت حاصل کی۔‬

‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 12‬ستمبر ‪1956‬ء‪ 17 – ‬اکتوبر ‪1957‬ء‬
‫صدر‬ ‫اسکندر مرزا‬
‫پیشرو‬ ‫چودھری محمد علی‬
‫جانشین‬ ‫ابراہیم اسماعیل چندریگر‬
‫وزیر دفاع پاکستان‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 12‬ستمبر ‪1956‬ء‪ 17 – ‬اکتوبر ‪1957‬ء‬
‫پیشرو‬ ‫چودھری محمد علی‬
‫جانشین‬ ‫ممتاز دولتانہ‬
‫وزیر اعظم بنگال‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 3‬جوالئی ‪1946‬ء‪ 14 – ‬اگست ‪1947‬ء‬
‫گورنر‬ ‫‪Frederick Burrows‬‬
‫پیشرو‬ ‫خواجہ ناظم الدین‬
‫جانشین‬ ‫عہدہ ختم‬
‫ذاتی تفصیالت‬
‫پیدائش‬ ‫‪ 8‬ستمبر ‪1892‬‬
‫مدناپور‪ ،‬بنگال پریذیڈنسی‪،‬‬
‫برطانوی راج‬
‫وفات‬ ‫‪ 5‬دسمبر ‪( 1963‬عمر‪ 71 ‬سال)‬
‫بیروت‪ ,‬لبنان‬
‫مقام تدفین‬ ‫تین رہنماؤں کے مزار‪ ،‬ڈھاکہ‬
‫سیاسی‬ ‫عوامی لیگ‬
‫جماعت‬
‫‪59 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫مادر علمی‬ ‫سینٹ زیویرس کالج‪ ،‬کلکتہ‬
‫کلکتہ یونیورسٹی‬
‫سینٹ کیتھرین کالج‪ ،‬آکسفورڈ‬
‫‪Inns of Court School of‬‬
‫‪Law‬‬
‫ن ق‬
‫ب ی گم رع ا ل ی ا ت لی‬
‫ع‬
‫بیگم رعنا لیاقت علی‪1961 ،‬‬
‫دسویں گورنر سندھ‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 15‬فروری ‪ 28 – 1973‬فروری ‪1976‬‬
‫صدر‬ ‫فضل الہی چوہدری‬
‫وزیر اعظم‬ ‫ذوالفقار علی بھٹو‬
‫پیشرو‬ ‫میر بخش تالپور‬
‫جانشین‬ ‫محمد دالور‬
‫حلقہ‬ ‫کراچی‬
‫خاتون اول پاکستان‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 14‬اگست ‪ 16 – 1947‬اکتوبر ‪1951‬‬
‫صدر آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 14‬اگست ‪ 29 – 1949‬اکتوبر ‪1951‬‬
‫ذاتی تفصیالت‬
‫پیدائش‬ ‫شیال ارانی پنٹ (‪Sheila‬‬
‫‪)Irene Pant‬‬
‫‪ 13‬فروری ‪1905‬‬
‫الموڑا‪ ،‬آگرہ اور اودھ متحدہ‬
‫صوبہ‬
‫‪ 13‬جون ‪( 1990‬عمر‪ 85 ‬سال) وفات‬
‫کراچی‪ ,‬سندھ‬
‫شہریت‬ ‫برطانوی راج (‪)1947–1912‬‬
‫پاکستان (‪)1990–1947‬‬

‫‪60 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫قومیت‬ ‫ہندوستانی‪،‬پاکستانی‬
‫سیاسی‬ ‫مسلم لیگ‬
‫جماعت‬ ‫آزاد (سیاستدان)‬
‫شریک‬ ‫لیاقت علی خان‬
‫حیات‬
‫جامعہ لکھنؤ (بی ایس سی اور ایم مادر علمی‬
‫ایس سی)‬
‫ذریعہ معاش‬ ‫سیاست دان‬
‫مذہب‬ ‫اسالم‬
‫اعزازات‬ ‫نشان امتیاز (فوجی)‬
‫فوجی خدمات‬
‫عرفیت‬ ‫[‪]1‬‬
‫مادر پاکستان‬
‫‪Allegianc‬‬ ‫‪ ‬پاکستان‬
‫‪e‬‬
‫سروس‪/‬شاخ‬ ‫‪ ‬پاکستان فوج‬
‫سالہائے‬ ‫‪1951–1947‬‬
‫خدمات‬
‫عہدہ‬ ‫[‪]1‬‬
‫بریگیڈیئر جنرل (اعزازی)‬
‫کماندز‬ ‫پاک بحریہ‬
‫پاک فوج‬
‫پاکستان آرمی میڈیکل کور‬
‫لڑائیاں‪/‬‬ ‫پاک بھارت جنگ ‪1947‬‬
‫جنگیں‬

‫بیگم رعنا لیاقت علی پاکستان کی خاتون اول‪ ،‬پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی‬
‫بیگم‪ ،‬تحریک پاکستان کی رکن اور سندھ کی پہلی خاتون گورنر تھیں۔‬

‫حاالت زندگی‬
‫بیگم رعنا لیاقت علی لکھنو‪ ،‬برطانوی ہندوستان میں ‪1912‬ء میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم نینی تال‬
‫کے ایک زنانہ ہائی اسکول میں حاصل کی۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے معاشیات اور عمرانیات‬
‫کیا ۔ کچھ عرصہ ٹیچر رہیں۔ ‪1933‬ء میں خان لیاقت علی خان سے شادی ہوئی۔ پاکستان بننے سے‬
‫قبل آپ نے عورتوں کی ایک تنظیم "اپوا" قائم کی۔ قیام پاکستان کے بعد ایمپالئمنٹ ایکسچینج‬
‫اوراغوا شدہ لڑکیوں کی تالش اور شادی بیاہ کے محکمے ان کے حوالے کیے گئے۔ اقوام متحدہ‬

‫‪61 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫کے اجالس منعقدہ ‪1952‬ء میں پاکستان کے مندوب کی حیثیت سے شریک ہوئیں۔ ‪1954‬ء میں‬
‫ہالینڈ اور بعد ازاںاٹلی میں سفیراور سندھ کی گورنر بھی رہیں۔‬

‫وفات‬
‫ت قلب بند ہونے کے سبب کراچی میں انتقال کرگئیں اور‬ ‫بیگم رعنا لیاقت علی ‪1990‬ء میں حرک ِ‬
‫مزار قائد کے احاطے لیاقت علی خان کے پہلو میں مدفون ہیں۔‬
‫ِ‬
‫ش ئ‬
‫ا ست ہ اکرام ہللا‬
‫بیگم ڈاکٹر شائستہ اکرام ہللا‬
‫پیدائش‬ ‫شائستہ اختر سہروردی‪ 22‬جوالئی ‪1915‬‬
‫ءکلکتہ‪ ،‬برطانوی ہندوستان‬
‫وفات‬ ‫‪ 10‬دسمبر ‪ 2000‬ءمتحدہ عرب امارات‬
‫آخری آرام‬ ‫کراچی‪ ،‬پاکستان‬
‫گاہ‬
‫قلمی نام‬ ‫شائستہ سہروردی‬
‫پیشہ‬ ‫ادیبہ‪ ،‬سیاستدان‪ ،‬سفارت کار‬
‫زبان‬ ‫اردو‪ ،‬انگریزی‬
‫نسل‬ ‫مہاجر‬
‫شہریت‬ ‫پاکستانی‬
‫تعلیم‬ ‫پی ایچ ڈی‬
‫مادر‪ ‬علمی‬ ‫لندن یونیورسٹی‬
‫نمایاں کام‬ ‫کوشش نا تمام‬
‫ِ‬
‫پردے سے پارلیمنٹ تک‬
‫دلی کی خواتین کی کہاوتیں اور محاورے‬
‫اہم‬ ‫نشان امتیاز‬
‫اعزازات‬

‫بیگم ڈاکٹر شائستہ سہروردی اکرام ہللا (انگریزی‪)Shaista Suhrawardy Ikramullah :‬‬
‫(پیدائش‪ 22 :‬جوالئی‪1915 ،‬ء ‪ -‬وفات‪ 10 :‬دسمبر‪2000 ،‬ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو‬
‫کی نامور مصنفہ‪ ،‬تحریک پاکستان کی مشہور خاتون رہنما‪ ،‬پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کی‬
‫رکن اور سفارت کار تھیں۔‬

‫حاالت زندگی‬
‫شائستہ اکرام ہللا ‪ 22‬جوالئی‪1915 ،‬ء کو کلکتہ ‪ ،‬برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئیں۔[‪]2[]1‬۔ ان کے والد‬
‫حسان سہروری برطانوی وزیر ہند کے مشیر تھے۔‪1932‬ء میں ان کی شادی مشہور سفارت کار‬
‫محمد اکرام ہللا سے ہوئی جو قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر‬
‫فائز ہوئے۔ بیگم شائستہ اکرام ہللا شادی سے پہلے ہی شائستہ اختر سہروردی کے نام سے افسانہ‬
‫‪62 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫لکھا کرتی تھیں اور ان کے افسانے اس زمانے کے اہم ادبی جرائد ہمایون‪ ،‬ادبی دنیا‪ ،‬تہذیب نسواں‬
‫اور عالمگیر وغیرہ میں شائع ہوتے تھے۔ ‪1940‬ء میں انہوں نے لندن یونیورسٹی سے ناول نگاری‬
‫کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی‪ ،‬وہ اس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی ہندوستانی‬
‫خاتون تھیں۔ تحریک پاکستان کے دنوں میں انہوں نے جدوجہد آزادی میں بھی فعال حصہ لیا اور‬
‫بنگال لیجسلیٹو اسمبلی کی رکن رہیں۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی‬
‫کی رکن بھی رہیں۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی اور‬
‫مراکش میں سفارتی خدمات انجام دیں۔ ان کی تصانیف میں افسانوں کا مجموعہ کوشش ناتمام‪ ،‬دلی‬
‫کی خواتین کی کہاوتیں اور محاورے‪ ،‬فرام پردہ ٹو پارلیمنٹ (پردے سے پارلیمنٹ تک)‪ ،‬لیٹرز ٹو‬
‫نینا‪ ،‬بیہائینڈ دی ویل اور اے کریٹیکل سروے آف دی ڈیولپمنٹ آف دی اردو ناول اینڈ شارٹ‬
‫[‪]1‬‬
‫اسٹوری شامل ہیں۔‬
‫بیگم شائستہ اکرام ہللا کی ایک وجہ شہرت یہ بھی ہے کہ وہ اردن کے سابق ولی عہد شہزادہ حسن‬
‫[‪]1‬‬
‫بن طالل اور بنگلہ دیش کے سابق وزیر خارجہ رحمن سبحان کی خوش دامن تھیں۔‬

‫تصانیف‪/‬‬
‫کوشش ناتمام‬ ‫‪‬‬
‫دلی کی خواتین کی کہاوتیں اور محاورے‬ ‫‪‬‬
‫فرام پردہ ٹو پارلیمنٹ (اردو ترجمہ پردے سے پارلیمنٹ تک)‬ ‫‪‬‬
‫لیٹرز ٹو نینا‬ ‫‪‬‬
‫بیہائینڈ دی ویل‬ ‫‪‬‬
‫اے کریٹیکل سروے آف دی ڈیولپمنٹ آف دی اردو ناول اینڈ شارٹ اسٹوری‬ ‫‪‬‬

‫اعزازات‬
‫حکومت پاکستان نے بیگم شائستہ اکرام ہللا کی خدمات کے اعتراف کے طور پر نشان امتیاز کا‬
‫[‪]1‬‬
‫اعزاز عطا کیا تھا۔‬

‫وفات‬
‫بیگم شائستہ اکرام ہللا ‪ 10‬دسمبر‪2000 ،‬ء کو متحدہ عرب امارات میں وفات پا گئیں۔ وہ کراچی میں‬
‫[‪]2[]1‬‬
‫حضرت عبدہللا شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں سپرد خاک ہوئیں۔‬
‫ج ن نت ن‬
‫وگي درا ا ھ ما دل‬
‫جوگيندرا ناتھ ماندل (پیدائش‪ 29 :‬جنوری ‪1904‬ء ‪ -‬وفات‪ 5 :‬اکتوبر ‪1968‬ء) پاکستان کے بانیان میں‬
‫ایک تھے‪ ،‬آپ تحریک پاکستان کے سرگرم رکن اور پاکستان کے پہلے وزیر قانون اور انصاف تھے۔‬
‫آپ شیڈول کاسٹ کے لیڈر بھی تھے ۔ پاکستان کی پہلی کابینہ میں شامل ہو کر اقلیتوں کی بہبود کے‬
‫لیے بھی کام کیا۔‬

‫پاکستان میں‪ /‬سیاسی زندگی‬


‫پاکستان بننے کے بعد پہلی آئین اسمبلی کے عارضی چیئر مین بھی منتخب ہوئے۔اس کے بعد وزیر‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫قانون اور محنت بننے کے لیے بھی راضی ہو ئے۔ وہ پاکستان میں پہلے ہندو تھے جو اتنے‬
‫عہدے تک پہنچے۔ ‪1947‬ء سے ‪1950‬ء تک پاکستان کے ساحلی شہر اور دارالحکومت کراچی‬
‫میں قیام پزیر رہے۔‬

‫‪63 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫جوگيندرا ناتھ ماندل‬
‫‪1st Minister of Law and Justice‬‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 15‬اگست ‪ 8 – 1947‬اکتوبر ‪1950‬‬
‫شاہی‬ ‫جارج ششم‬
‫حکمران‬
‫گورنر‬ ‫محمد علی جناح‬
‫جنرل‬ ‫خواجہ ناظم الدین‬
‫وزیر اعظم‬ ‫لیاقت علی خان‬
‫پہلے ‪Minister of Labour‬‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 15‬اگست ‪ 8 – 1947‬اکتوبر ‪1950‬‬
‫شاہی‬ ‫جارج ششم‬
‫حکمران‬
‫صدر‬ ‫لیاقت علی خان‬
‫گورنر‬ ‫محمد علی جناح‬
‫جنرل‬ ‫خواجہ ناظم الدین‬
‫‪2nd Minister of Commonwealth and‬‬
‫‪Kashmir Affairs‬‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 1‬اکتوبر ‪ 8 – 1949‬اکتوبر ‪1950‬‬
‫شاہی‬ ‫جارج ششم‬
‫حکمران‬
‫گورنر‬ ‫محمد علی جناح‬
‫جنرل‬ ‫خواجہ ناظم الدین‬
‫وزیر اعظم‬ ‫لیاقت علی خان‬
‫ذاتی تفصیالت‬
‫پیدائش‬ ‫‪ 29‬جنوری ‪1904‬‬
‫بنگال‪ ،‬برطانوی ہند‬
‫وفات‬ ‫‪ 5‬اکتوبر ‪( 1968‬عمر‪ 64 ‬سال)‬
‫‪،Bangaon، West Bengal‬‬

‫‪64 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫بھارت‬
‫شہریت‬ ‫متحدہ ہندستان (‪)1947–1904‬‬
‫پاکستان (‪)1968–1947‬‬
‫قومیت‬ ‫پاکستانی‬
‫سیاسی‬ ‫آل انڈیا مسلم لیگ‬
‫جماعت‬

‫ل‬‫س‬ ‫ض‬
‫ی اء الدی ن احمد ہری‬
‫' ضیاء الدین احمد سلہری '(پیدائش ‪ ،1913‬وفات ‪ 21‬اپریل ‪ )1999‬ایک مشہور سیاسی صحافی اور‬
‫قدامت پسند مصنف تھے۔آپ کی پیدائش ظفروال کے ایک گاؤں “دیولی“ میں ہوئی۔آپ تحریک کے‬
‫سرگرم کارکن رہے۔پاکستان کے اولین صحافیوں میں اُن کا شمار ہوتا ہے۔انہوں نے پاکستان پر‬
‫بہت سی تاریخی اور سیاسی کتابیں لکھی۔اس کے عالوہ برصغیر میں اسالم کے حوالے سے بھی‬
‫کافی کچھ لکھا۔ ‪.‬‬

‫ضیاء الدین احمد سلہری‬


‫‪Additional Secretary of the Ministry‬‬
‫‪of Information and Mass-media‬‬
‫‪Broadcasting‬‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪September 1978 – 5 March 1980 6‬‬
‫‪ Serving with‬برگیڈئیر‪-‬جنرل صدیق‬
‫سالک‪ ،‬پی اے‬
‫صدر‬ ‫جنرل محمد ضیاء الحق‬
‫مدیر اعلی‪ ،‬ڈان اخبار‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 16‬اگست ‪ 5 – 1965‬ستمبر ‪1965‬‬
‫پیشرو‬ ‫الطاف حسین (صحافی)‬
‫ذاتی تفصیالت‬
‫پیدائش‬ ‫ضیاء الدین احمد سلہری‬
‫‪1913‬‬
‫دیولی ‪ ,‬ظفروال‪ ،‬برطانوی‬
‫راج‬
‫وفات‬ ‫‪ 22‬اپریل ‪ 86( 1999‬سال)‬
‫کراچی‪ ،‬سندھ‬

‫‪65 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫مقام تدفین‬ ‫نیو کراچی قبرستان‬
‫شہریت‬ ‫‪British Subject‬‬
‫)‪(1913-47‬‬
‫‪ ‬پاکستان (‪)99-1947‬‬
‫سیاسی جماعت‬ ‫پاکستان مسلم لیگ‬
‫اوالد‬ ‫سارہ سلہری‬
‫مادر علمی‬ ‫جامعہ پنجاب‬
‫جامعہ پٹنہ‬
‫مذہب‬ ‫اسالم‬
‫فوجی خدمات‬
‫عرفیت‬ ‫‪Pip‬‬
‫‪Allegiance‬‬ ‫‪ ‬پاکستان‬
‫سروس‪/‬شاخ‬ ‫‪ ‬پاکستان فوج‬
‫سالہائے خدمات‬ ‫‪1965-66‬‬
‫عہدہ‬ ‫کرنل‬
‫کماندز‬ ‫آئی ایس آئی‬
‫لڑائیاں‪/‬جنگیں‬ ‫پاک بھارت جنگ ‪1965‬ء‬
‫ن‬
‫حم ی د ظ امی‬
‫حمید نظامی (‪3‬اکتوبر ‪ 1915‬تافروری ‪ )1962‬ایک صحافی تھے جنہوں نےروزنامہ نوائے وقت‬
‫اخبار کی بنیاد رکھی۔روزنامہ نوائے وقت پاکستان کا بڑا مشہور اخبار ہے جس نے تحریک‬
‫پاکستان میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔‬

‫ابتدائی زندگی‬
‫حمید نظامی فیصل آباد کے قریب سانگلہ ہل میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی الہور سے انگریزی‬
‫میں ماسٹر کیا۔یونیورسٹی میں ہی پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن بنائی اور اس کے پہلے صدر‬
‫منتخب ہوئے اور اسی وجہ سے قائد اعظم کے قریب بھی آ گئے۔‬

‫نوائے وقت‬
‫‪ 1940‬میں پندرہ روزہ نوائے وقت کا اجراء کیا۔‬

‫وفات‬
‫ان کا انتقال فروری ‪ 1962‬میں ہوا۔‬
‫‪66 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫ف‬
‫ال طاف حسی ن (صحا ی)‬
‫صحافی ‪ ،‬سلہٹ بنگلہ دیش میں پیدا ہوئے ۔ ‪1923‬ء میں ایم اے کیا۔ ‪1938‬ء تک مختلف کالجوں‬
‫میں انگریزی کے استاد رہے پھر سرکاری مالزمت اختیار کی۔ ‪1945‬ء میں روزنامہ ڈان دہلی کے‬
‫ایڈیٹر مقررہوئے ۔ قیام پاکستان کے بعد ڈان کراچی منتقل ہوا تو آپ بھی کراچی آگئے ۔ ‪1951‬ء‬
‫میں‌ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی نمائندے کی حیثیت سے شرکت کی۔ ‪1952‬ء میں‬
‫بین االقوامی اقتصادی کانفرنس منعقدہ ماسکو میں شرکت کی ۔ کچھ عرصہ پاکستان نیشنل کمیٹی‬
‫انٹرنیشل پریس انسٹی ٹیوٹ اور کامن ویلتھ پریس یونین کی پاکستان شاخ‌ کے صدر رہے ۔ ‪1960‬ء‬
‫میں آپ کو ہالل قائداعظم کا اعزاز دیا گیا۔ ‪1965‬ء میں مرکزی حکومت کے وزیر صنعت و حرفت‬
‫بنائے گئے۔ انگریزی میں تین کتب شکوہ جواب شکوہ کا ترجمہ انڈیا گزشتہ دس سال ‪ ،‬اور ماسکو‬
‫میں پندرہ دن کے مصنف ہیں۔‬

‫الطاف حسین‬
‫‪আলতাফ হোসেইন‬‬
‫ت پاکستان‬
‫صناع ِ‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 17‬اگست ‪ 15 – 1965‬مئی ‪1968‬‬
‫صدر‬ ‫ساالر المیدان ایوب خان‬
‫پیشرو‬ ‫اے‪-‬کے خان‬
‫جانشین‬ ‫امیرالبحرمقابل سید محمد احسان‬
‫ایڈیٹر چیف ہائے ڈان‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 14‬اگست ‪ 16 – 1947‬اگست ‪1965‬‬
‫پیشرو‬ ‫عہدہ قائم‬
‫جانشین‬ ‫ضیاء الدین احمد سلہری‬
‫ذاتی تفصیالت‬
‫پیدائش‬ ‫الطاف‬
‫‪ 26‬جنوری ‪1900‬‬
‫سلہٹ‪ ،‬سلہٹ ضلع‪ ،‬مشرقی بنگال‬
‫(موجودہ بنگلہ دیش)‬
‫وفات‬ ‫‪ 25‬مئی ‪( 1968‬عمر‪ 68 ‬سال)‬
‫کراچی‪ ،‬سندھ‪ ،‬پاکستان‬
‫مقام‬ ‫کراچی میں قبرستان‪ ،‬فہرست‬
‫تدفین‬

‫‪67 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫قومیت‬ ‫پاکستانی‬
‫سیاسی‬ ‫پاکستان مسلم لیگ (ن)‬
‫جماعت‬

‫خ‬
‫یوسف ٹ ک‬
‫محمد یوسف خان خٹک (‪ 18‬نومبر ‪1917‬ء ‪ 29 -‬جوالئی ‪1991‬ء) تحریک پاکستان کے فعال کارکن‬
‫تھے۔ آپ حالیہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے مشہور و معروف خاندان کے چشم و چراغ تھے‪،‬‬
‫آپ کے والد کا نام خان بہادر قلی خان خٹک تھا‪ ،‬جو سابق گورنر اسلم خان خٹک‪ ،‬لیفٹینٹ جنرل حبیب ہللا‬
‫خان اور کلثوم سیف ہللا خان کے بھائی تھے۔ یوسف خٹک صوبہ سرحد (برطانوی سامراج) میں ڈاکٹر‬
‫خان صاحب کی سربراہی میں قائم گانگریسی حکومت کے خالف تحریک پاکستان کے انتہائی فعال‬
‫کارکن رہے۔ خان لیاقت علی خان کے ساتھ دیرینہ تعلقات کی بناء پر آپ کو تقسیم ہند کے بعد مسلم لیگ‬
‫اعلی عبدالقیوم خان کے‬
‫ٰ‬ ‫کا سیکرٹری جنرل نامزد کیا گیا۔ تاہم ان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر‬
‫مستعفی ہو گئے۔ عبدالقیوم خان نے منظم طور پر یوسف‬
‫ٰ‬ ‫ساتھ اختالفات کی وجہ سے پارٹی عہدہ سے‬
‫خٹک اور ان کے حمایتی بیرسٹر سیف ہللا خان کے خالف پارٹی میں تحریک چالئی۔‬
‫‪1949‬ء میں یوسف خٹک کو پارٹی کا صوبائی جنرل سیکرٹری نامزد کیا گیا اور بعد ازاں آپ خان لیاقت‬
‫علی خان کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد مرکز میں آل پاکستان مسلم لیگ کے دوسرے سیکرٹری‬
‫جنرل نامزد ہوئے۔‬
‫آپ پاکستان کے قیام کے بعد زیادہ تر عرصہ حزب اختالف میں رہے‪ ،‬اور پاکستان کی قومی اسمبلی کے‬
‫قائد حزب اختالف بھی منتخب کیے گئے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے خالف محترمہ فاطمہ جناح کی‬
‫انتخابی تحریک میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔‬
‫خان عبدالغفار خان کے ساتھ شدید نظریاتی اختالفات کی بناء پر آپ نے عوامی نیشنل پارٹی کے اس‬
‫موقف کہ وہ پشتونوں کی نمائندہ جماعت ہے‪ ،‬ہمیشہ سخت مخالفت کی۔‬
‫‪1971‬ء میں قیوم خان کے ساتھ مفاہمت کے نتیجے میں پاکستان مسلم لیگ (قیوم) میں شمولیت اختیار کی‬
‫اور قیوم خان کی جانب سے خالی کی جانے والی پشاور کی قومی اسمبلی کی نشست پر انتخابات میں‬
‫کامیابی حاصل کی۔‬
‫پاکستان مسلم لیگ (قیوم) کی پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت میں شراکت داری پر یوسف خٹک کو‬
‫وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وفاقی وزیر برائے ایندھن‪ ،‬توانائی اور قدرتی وسائل تعینات‬
‫کیا گیا۔ ‪1977‬ء میں قیوم خان کے ساتھ اختالفات اور پارٹی سے علیحدگی کے باوجود آپ نے پشاور سے‬
‫انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی۔‬
‫‪1990‬ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے یوسف خٹک کو سیاست کے میدان میں گراں قدر خدمات‬
‫کے صلے میں تمغا سے نوازا اور پاکستان ڈاک کے ان کے نام پر اعزازی ڈاک ٹکٹ جاری کیا‬

‫دمحم اسد‬
‫یہودیت چھوڑ کو اسالم قبول کرنے والے محمد اسد (سابق نام‪ :‬لیوپولڈ ویز) جوالئی ‪1900‬ء میں‬
‫موجودہ یوکرین کے شہر لیویو میں پیدا ہوئے جو اس وقت آسٹرو۔ ہنگرین سلطنت کا حصہ تھا۔‬
‫بیسویں صدی میں امت اسالمیہ کے علمی افق کو جن ستاروں نے تابناک کیا ان میں جرمن نو مسلم‬
‫محمد اسد کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اسد کی پیدائش ایک یہودی گھرانے میں ہوئی۔ ‪ 23‬سال‬
‫کی عمر میں ایک نو عمر صحافی کی حیثیت سے عرب دنیا میں تین سال گذارے اور اس تاریخی‬
‫عالقے کے بدلتے ہوئے حاالت کی عکاسی کے ذریعے بڑا نام پایا لیکن اس سے بڑا انعام ایمان‬
‫کی دولت کی با‌زیافت کی شکل میں اس کی زندگی کا حاصل بن گیا۔ ستمبر ‪1926‬ء میں جرمنی‬
‫کے مشہور خیری برادران میں سے بڑے بھائی عبدالجبار خیری کے دست شفقت پر قبول اسالم‬

‫‪68 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫کی بیعت کی اور پھر آخری سانس تک ہللا سے وفا کا رشتہ نبھاتے ہوئے اسالمی فکر کی تشکیل‬
‫اور دعوت میں ‪ 66‬سال صرف کرکے باآلخر ‪1992‬ء میں خالق حقیقی سے جا ملے۔‬

‫پیدائش‬ ‫‪ 2‬جوالئی ‪1900‬‬


‫لیمبرگ‪ ،‬آسٹریا‪-‬مجارستان‬
‫وفات‬ ‫‪ 20‬فروری ‪( 1992‬عمر‪ 91 ‬سال)‬
‫غرناطہ‪ ،‬ہسپانیہ‬
‫قومیت‬ ‫[‪]1‬‬
‫آسٹریائی‬
‫[‪]2‬‬
‫پاکستانی‬
‫دیگر‪ ‬نام‬ ‫لیو پولڈ اسد‬
‫مادر‪ ‬علم‬ ‫‪dropped out( University of Vienna‬‬
‫ی‬ ‫‪1920‬ء میں)‬
‫اہم‬ ‫قرآن کا پیغام‪ ،‬کاروان مکہ‬
‫تصانیف‬
‫مذہب‬ ‫اسالم (پہلے یہودی)‬
‫عالقہ‬ ‫مشرق وسطی‪ ،‬پاکستان‬
‫شعبہ‬ ‫اسالمیات‪ ،Islamic Democracy ،‬عالم‬
‫عمل‬ ‫اسالم‬
‫اہم‬ ‫[‪]3‬‬
‫اسالمی ریاست‬
‫نظریات‬ ‫[‪]4‬‬
‫آزاد استدالل‬
‫مؤثر شخصیات◄‬
‫متاثر شخصیات‬

‫ابتدائی زندگی‬
‫لیوپولڈ ویز کے اہل خانہ نسلوں سے یہودی ربی تھے لیکن ان کے والد ایک وکیل تھے۔ محمد اسد‬
‫نے ابتدائی عمر میں ہی عبرانی زبان سیکھ لی تھی۔ بعد ازاں ان کے اہل خانہ ویانا منتقل ہوگئے‬
‫جہاں ‪ 14‬سال کی عمر میں انہوں نے اسکول سے بھاگ کر آسٹرین فوج میں شمولیت کی کوشش‬
‫کی تاکہ پہلی جنگ عظیم میں شرکت کرسکیں تاہم ان کا خواب آسٹرین سلطنت کے ٹوٹنے کے‬
‫ساتھ ہی ختم ہوگیا۔ جنگ کے بعد انہوں نے جامعہ ویانا سے فلسفہ اور تاریخ فن میں تعلیم حاصل‬
‫کی لیکن یہ تعلیم بھی ان کی روح کی تشفی کرنے میں ناکام رہی۔‬
‫‪1920‬ء میں ویانا چھوڑ کر وسطی یورپ کے دورے پر نکل پڑے اور کئی چھوٹی بڑی نوکریاں‬
‫کرنے کے بعد برلن پہنچ گئے جہاں انہوں نے صحافت کو منتخب کیا اور جرمنی اور یورپ کے‬
‫مؤقر ترین روزنامے "‪ "Frankfurter Zeitung‬میں شمولیت اختیار کی۔ ‪1922‬ء میں وہ بیت‬
‫المقدس میں اپنے چچا سے مالقات کے لئے مشرق وسطی روانہ ہوئے۔‬

‫قبول اسالم‬
‫‪69 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫‪ 23‬سال کی عمر میں عرب دنیا میں ٹرین میں سفر کے دوران ایک عرب ہم سفر نے لیو پولڈویز‬
‫کو جانے بغیر اسے کھانے میں شرکت کی دعوت دی تو یہ خود پسند اور اپنی ذات کے خول میں‬
‫گم مغربی دنیا کے اس نوجوان کے لئے بڑا عجیب تجربہ تھا۔ پھر اس نے عرب معاشرے میں‬
‫باہمی تعلقات‪ ،‬بھائی چارے‪ ،‬محبت اور دکھ درد میں شرکت کو دیکھا تو حیران رہ گیا اور وہیں‬
‫سے دل اسالم کی جانب راغب ہوگیا۔‬
‫مشرق وسطی سے واپسی کے بعد جرمنی میں قیام کے دوران ایک واقعے کے نتیجے میں انہوں‬
‫نے قرآن مجید کا مطالعہ کیا اور سورۂ تکاثر ان کے قبول اسالم کا باعث بنی۔ انہوں نے برلن کی‬
‫سب سے بڑی مسجد میں اسالم قبول کرلیا اور ان کا نام تبدیل کرکے محمد اسد رکھ دیا گیا۔ ان کے‬
‫ساتھ اہلیہ ایلسا نے بھی اسالم قبول کرلیا۔ محمد اسد نے اخبار کی نوکری چھوڑ کر حج بیت ہللا کا‬
‫قصد کیا۔‬
‫محمد اسد نے ایک جگہ لکھا کہ "اسالم اس کے دل میں بس ایک چور کی طرح خاموشی سے‬
‫داخل ہوجاتا اور پھر اس دل کو اپنا گھر بنالیتا ہے۔ چور کی تمثیل یہاں ختم ہوجاتی ہے۔ چور‬
‫چپکے چپکے داخل ہوتا ہے مگر کچھ لے کر چپکے چپکے نکل جاتا ہے۔ اسالم داخل تو چپکے‬
‫چپکے ہی ہوتا ہے لیکن کچھ لینے کے لئے نہیں‪ ،‬کچھ دینے کے لئے اور پھر ہمیشہ اسی گھر میں‬
‫رہنے کے لئے"۔‬
‫انہوں نے اسالمی دنیا کو ہی اپنا مسکن بنایا‪ ،‬انہوں نے مغرب سے دین کا ناتا ہی نہیں توڑا بلکہ‬
‫جغرافیائی سفر کیا پھر اسی دنیا کا حصہ ہی بن گیا جس نے اسے مقناطیس کی طرح اپنی طرف‬
‫کھینچا۔‬

‫حج بیت ہللا‬


‫بیت ہللا پر پہلی نظر پڑنے کے ‪ 9‬دن بعد اسد کی زندگی ایک نئے موڑ پر آگئی‪ ،‬ایلسا خالق حقیقی‬
‫سے جا ملیں۔ بعد ازاں اسد نے مکہ میں قیام کے دوران شاہ فیصل سے مالقات کی جو اس وقت‬
‫ولی عہد تھے اور بعد ازاں سعودی مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز السعود سے مالقات کی۔ انہوں‬
‫نے مکہ و مدینہ میں ‪ 6‬سال گذارے اور عربی‪ ،‬قرآن‪ ،‬حدیث اور اسالمی تاریخ کی تعلیم حاصل‬
‫کی۔‬

‫پاکستان آمد‬
‫‪1932‬ء میں وہ ہندوستان آگئے اور شاعر مشرق عالمہ محمد اقبال سے مالقات کی۔ ‪1939‬ء میں وہ‬
‫اس وقت شدید مسائل کا شکار ہوگئے جب برطانیہ نے انہیں دشمن کا کارندہ قرار دیتے ہوئے‬
‫گرفتار کرلیا۔ محمد اسد کو ‪ 6‬سال بعد‪1945 ،‬ء میں رہائی ملی۔‬
‫‪1947‬ء میں قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آگئے اور نئی ریاست کی نظریاتی بنیادوں کی تشکیل‬
‫میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں پہال پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا گیا۔ بعد ازاں انہیں پاکستان کی وزارت‬
‫خارجہ کے شعبہ مشرق وسطی میں منتقل کردیا گیا جہاں انہوں نے دیگر مسلم ممالک سے‬
‫پاکستان کے تعلقات مضبوط کرنے کا کام بخوبی انجام دیا۔ انہوں نے ‪1952‬ء تک اقوام متحدہ میں‬
‫پاکستان کے پہلے سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔‬

‫انتقال‬
‫محمد اسد نے اپنی اسالمی زندگی کے ‪ 66‬سال عرب دنیا‪ ،‬ہندوستان‪ ،‬پاکستان اور تیونس میں‬
‫گذارے اور آخری ایام میں اس کا قیام اسپین کے اس عالقے میں رہا جو اندلس اور عرب دنیا کا‬
‫روحانی و ثقافتی حصہ تھا بلکہ آج بھی اس کی فضائیں باقی اسپین سے مختلف اور عرب دنیا کے‬
‫ہم ساز ہیں۔‬
‫‪70 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫محمد اسد ‪1955‬ء میں نیویارک چھوڑ کر اسپین میں رہائش پزیر ہوئے۔ ‪ 17‬سال کی کاوشوں کے‬
‫بعد ‪ 80‬برس کی عمر میں انہوں نے اپنی زندگی کے سب سے بڑے خواب "قرآن پاک کی‬
‫انگریزی ترجمہ و تفسیر" کو تکمیل تک پہنچایا۔ وہ ‪ 23‬فروری ‪1992‬ء کو اسپین میں ہی خالق‬
‫حقیقی سے جا ملے۔‬

‫محمد اسد‪ :‬قیمتی ہیرا‬


‫ایک دوسرے جرمن نو مسلم ولفریڈ ہوفمین نے ان کے لئے کہا تھا کہ محمد اسد اسالم کے لئے‬
‫یورپ کا تحفہ ہیں۔ جبکہ جماعت اسالمی کے بانی موالنا سید ابو االعلی مودودی نے ‪1936‬ء میں‬
‫محمد اسد کے بارے میں تاریخی جملہ لکھا تھا کہ "میرا خیال یہ ہے کہ دور جدید میں اسالم کو‬
‫جتنے غنائم یورپ سے ملے ہیں ان میں یہ سب سے زیادہ قیمتی ہیرا ہے"۔‬

‫نظریات‪ ،‬افکار‪ ،‬کارنامے‬


‫محمد اسد کوئی سرگرم کارکن نہ تھے لیکن فکری اعتبار سے ان کا کارنامہ بڑا واضح ہے اور‬
‫اس میں چار چیزیں نمایاں ہیں‪:‬‬
‫پہلی چیز مغربی تہذیب اور یہود عیسائی روایت (‪ )Judeo-Christian Tradition‬کے‬ ‫‪‬‬
‫بارے میں ان کا واضح اور مبنی برحق تبصرہ و تجزیہ ہے۔ مغرب کی قابل قدر چیزوں کے‬
‫کھلے دل سے اعتراف کے ساتھ مغربی تہذیب اور عیسائی تہذیبی روایت کی جو بنیادی‬
‫خامی اور کمزوری ہے اس کا نہایت واضح ادراک اور دو ٹوک اظہار ان کا بڑا علمی‬
‫کارنامہ ہے۔ مغرب کے تصور کائنات‪ ،‬انسان‪ ،‬تاریخ اور معاشرے پر ان کی گہری نظر تھی‬
‫اور اسالم سے اس کے تصادم کا انہیں پورا پورا شعور اور ادراک تھا۔ وہ کسی تہذیبی‬
‫تصادم کے قائل نہ تھے مگر تہذیبوں کے اساسی فرق کے بارے میں انہوں نے کبھی‬
‫سمجھوتہ نہیں کیا۔‬
‫وہ اسالم کے ایک مکمل دین ہونے اور اس دین کی بنیاد پر اس کی تہذیب کے منفرد اظہار‬ ‫‪‬‬
‫کو یقینی بنانے اور دور حاضر میں اسالم کی بنیاد پر صرف انفرادی کردار ہی نہیں بلکہ وہ‬
‫اجتماعی نظام کی تشکیل نو کے داعی تھے اور اپنے اس مؤقف کو دلیل اور یقین کے ساتھ‬
‫پیش کرتے تھے۔ اسالم کا یہ جامع تصور ان کے فکر اور کارنامے کا دوسرا نمایاں پہلو تھا۔‬
‫ان کا تیسرا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے امت کے زوال کے اسباب کا گہری نظر سے‬ ‫‪‬‬
‫مطالعہ کیا اور اس سلسلے میں جن بنیادی کمزوریوں کی نشاندہی کی ان میں تصور دین‬
‫کے غبار آلود ہوجانے کے ساتھ سیرت و کردار کے فقدان‪ ،‬دین و دنیا کی عملی تقسیم‪،‬‬
‫اجتہاد سے غفلت اور رسوم و رواج کی محکومی اور سب سے بڑھ کر قرآن و سنت سے‬
‫بالواسطہ تعلق اور استفادے کی جگہ ثانوی مآخذ پر ضرورت سے زیادہ انحصار بلکہ ان‬
‫کی اندھی تقلید بھی شامل ہے۔ فقہی مسالک سے وابستگی کے بارے میں ان کی پوزیشن‬
‫ظاہری مکتب فکر سے قریب تھی۔ ان کی دعوت کا خالصہ قرآن و سنت سے رجوع اور ان‬
‫کی بنیاد پر مستقل کی تعمیر و تشکیل تھی۔‬
‫محمد اسد کے کام کی اہمیت کا چوتھا پہلو دور جدید میں اسالم کے اطالق اور نفاذ کے‬ ‫‪‬‬
‫سلسلے میں ان کی حکمت عملی اور اس سلسلے میں تحریک پاکستان سے ان کی وابستگی‬
‫اور پاکستان کے بارے میں ان کا وژن اور عملی کوششیں ہیں جو قومی تعمیر نو کے ادارے‬
‫"عرفات" کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی نگارشات‪ ،‬ان کی تقاریر اور پھر ان کی دو‬
‫کتب ‪ Islam at the Crossroads‬اور ‪ Road to Mecca‬ہیں۔ عرفات کے زمانے میں یہ‬
‫مضامین دور حاضر میں نفاذ اسالم کا وژن اور اس کے لئے واضح حکمت عملی پیش‬
‫کرتے ہیں۔ چند امور پر اختالف کے باوجود محمد اسد کی فکر اور دور جدید کی اسالمی‬
‫تحریکات کی فکر میں بڑی مناسبت اور یکسانی ہے حاالنکہ وہ ان تحریکوں سے کبھی بھی‬
‫عمال وابستہ نہیں رہے۔‬

‫‪71 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫تصانیف‪/‬‬

‫محمد اسد کی مشہور کتاب "شارع مکہ"‬


‫قرآن محمد اسد کی فکر کا محور رہا اور حدیث و سنت کو وہ اسالمی نشاۃ ثانیہ کی اساس سمجھتے‬
‫تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے تمام بڑے قیمتی مضامین کے باوصف ان کا اصل علمی کارنامہ قرآن‬
‫پاک ترجمہ و تفسیر اور صحیح بخاری کے چند ابواب کا ترجمہ و تشریح ہے۔ ان کی معروف کتب‬
‫میں ‪ Islam at the Crossroads، Road to Mecca‬اور ‪The Principles of State and‬‬
‫‪ Government in Islam‬شامل ہیں۔‬
‫‪ Road to Mecca‬علمی‪ ،‬ادبی اور تہذیبی ہر اعتبار سے ایک منفرد کارنامہ اور صدیوں زندہ‬
‫رہنے والی سوغات ہے۔ اس کے عالوہ انہوں نے ایک کتاب ‪ This Law of Ours‬بھی تحریر کی۔‬

‫محمد اسد اور پاکستان‬


‫محمد اسد کا دیگر مسلم ممالک کی طرح پاکستان سے انتہائی گہرا اور قریبی تعلق تھا اور وہ اقوام‬
‫متحدہ میں پاکستان کے پہلے سفیر بھی رہے۔‬
‫محمد اسد پاکستان اور تحریک پاکستان کے اصل مقاصد اور اہداف کا بڑا واضح ادراک رکھتے‬
‫تھے اور آج کی پاکستانی قیادت کے لئے اسد کی تحریروں میں بڑا سبق اور پاکستانی قوم کے لئے‬
‫عبرت کا پیغام ہے۔ محمد اسد نے فروری ‪1947‬ء میں اپنے پرچے "عرفات" میں تصور پاکستان‬
‫کو اس طرح بیان کیا اور ماضی میں ابھرنے والی کئی اصالح تحریکوں کا ذکر کرتے ہوا لکھا‬
‫کہ‪" :  ‬تحریک پاکستان اس طرح کی تمام صوفیانہ تحریکوں سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ یہ‬
‫کسی روحانی رہنما پر لوگوں کے اعتقاد سے جذبہ و توانائی حاصل نہیں کرتی‪ ،‬بلکہ اس کا یہ‬
‫ادراک‪ ،‬جو بیشتر معامالت میں ہدایت دیتا ہے اور علمی حلقوں میں صاف صاف سمجھا جاتا ہے‪،‬‬
‫کہ اسالم (پورے نظام زندگی کی تعمیر نو کی) ایک معقول تدبیر ہے اور اس کی سماجی و‬
‫اقتصادی اسکیم انسانیت کو درپیش تمام مسائل کا حل فراہم کرسکتی ہے اور اس کا واضح تقاضا یہ‬
‫ہے کہ اس کے اصولوں کی پیروی کی جائے۔ نظریۂ پاکستان کا یہ علمی پہلو اس کا سب سے اہم‬
‫پہلو ہے۔ اس کی تاریخ کا ہم کھلی آنکھوں سے مطالعہ کریں تو ہم یہ پائیں گے کہ اپنے اولین دور‬
‫میں اسالم کی فتح کی وجہ اس کی انسان کی فہم‪ ،‬دانش اور عقل عام سے اپیل ہے۔ تحریک‬
‫پاکستان‪ ،‬جس کی نظیر جدید مسلم تاریخ میں موجود نہیں ہے‪ ،‬ایک نئے اسالمی ارتقا کا نقطۂ آغاز‬
‫ہوسکتی ہے‪ ،‬اگر مسلمان یہ محسوس کریں‪ ،‬اور جب پاکستان حاصل ہوجائے تب بھی محسوس‬
‫کرتے رہیں کہ اس تحریک کا حقیقی تاریخی جواز اس بات میں نہیں ہے کہ ہم اس ملک کے‬
‫دوسرے باشندوں سے لباس‪ ،‬گفتگو یا سالم کرنے کے طریقے میں مختلف ہیں‪ ،‬یا دوسری آبادیوں‬
‫سے جو ہماری شکایات ہیں اس میں یا ان لوگوں کے لئے جو محض عادتا خود کو مسلمان کہتے‬
‫ہیں‪ ،‬زیادہ معاشی مواقع اور ترقی کے امکانات حاصل کریں‪ ،‬بلکہ ایک سچا اسالمی معاشرہ قائم‬
‫کرنے میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسالم کے احکامات کو عملی زندگی میں نافذ کرنا ہے"۔‬
‫(عرفات‪ ،‬فروری ‪1947‬ء صفحہ ‪ 863‬تا ‪)865‬‬
‫اسی رسالے میں آگے لکھتے ہیں کہ "ہم پاکستان کے ذریعے اسالم کو صرف اپنی زندگیوں میں‬
‫ایک حقیقت بنانا چاہتے ہیں۔ ہم اس لئے پاکستان چاہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک اس قابل ہو کہ‬
‫لفظ کے وسیع تر مفہوم میں ایک سچی اسالمی زندگی بسر کرسکے۔ اور یہ بالکل ناممکن ہے کہ‬
‫کوئی شخص ہللا کے رسول کی بتائی ہوئی اسکیم کے مطابق زندگی گزار سکے جب تک پورا‬
‫معاشرہ شعوری طور پر اس کے مطابق نہ ہو اور اسالم کے قانون کو ملک کا قانون نہ‬
‫بنائے"(عرفات‪ ،‬فروری ‪1947‬ء صفحہ ‪)918‬‬

‫‪72 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫آخری پیرے میں انہوں نے پوری تحریک پاکستان کا جوہر اور ہدف بیان کرتے ہوئے لکھا کہ‬
‫"مسلمان عوام وجدانی طور پر پاکستان کی اسالمی اہمیت کو محسوس کرتے ہیں اور واقعی ایسے‬
‫حاالت کی خواہش رکھتے ہیں جن میں معاشرے کے ارتقاء کا نقطہ آغاز "ال الہ اال ہللا" ہو"۔‬
‫(عرفات‪ ،‬فروری ‪1947‬ء صفحہ ‪)925‬‬

‫کتب‬
‫محمد اسد‪ :‬یورپ کا اسالم کے لئے تحفہ‪ : ‬مصنف محمد اکرام چغتائی‬ ‫‪‬‬

‫ض‬
‫ی اء الدی ن احمد‬
‫سر ضیا الدین احمد کا پیدائشی نام ضیا الدین زبیری تھا۔ آپ ‪ 13‬فروری‪1878 ،‬ء کو پیدا ہوئے اور‬
‫‪ 23‬دسمبر‪1947،‬ء کو وفات پائی۔آپ ہندوستان کے ماہر ریاضی دان اور پارلیمنٹ کے رکن تھے۔‬
‫آپ علی گڑھ تحریک کے سرگرم رکن تھے۔ جب ‪ 192‬میں پارلیمنٹ میں ایک قانون کے تحت علی‬
‫گڑھ مسلم یونیورسٹی کو بنایا گیا تو آپ کو اس میں ”پرو وائس چانسلر“ بنایا گیا۔‬

‫ابتدائی زندگی‬
‫سر ضیا الدین احمد ‪ 13‬فروری‪1878 ،‬ء کو اتر پردیش کے ایک قصبے میرٹھ میں پیدا ہوئے۔‬
‫ابتدائی تعلیم مدارس میں حاصل کی۔اس کے بعد ایم اے او کالج میں داخلہ لے لیا۔قابلیت کی بنیاد پر‬
‫تعلیم کے بعد وہیں پر بطور جونیئر لیکچرر مالزم ہو گئے۔‬

‫پروفیسر‬
‫اُن کی کوششوں سے علی گڑھ میں میڈیکل اور انجینئرنگ کے کالج قائم ہوئے اور علی گڑھ کو‬
‫یونیورسٹی کا درجہ مال۔یہاں پر سر ضیا الدین احمد نے لیکچرر‪ ،‬پروفیسر‪ ،‬پرنسپل‪ ،‬پرو وائس‬
‫چانسلر‪ ،‬وائس چانسلر اور ریکٹر کے کام کیا۔‬
‫نت‬
‫ا خ اب ات ‪1946-1945‬‬
‫ن‬ ‫نف‬ ‫ش‬ ‫خت‬
‫ات من ع ق د کروان ا ض روری ت ھا۔ ج ن گ ع‬ ‫نت‬ ‫غ‬
‫رسستکی اکامی کے ب عد ی ہ‬ ‫ق‬ ‫کا‬ ‫لہ‬
‫غ‬ ‫م‬ ‫اور‬ ‫ے‬
‫م‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫دوم‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ظ‬ ‫ت‬ ‫خ‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫خ‬ ‫ا‬ ‫عام‬ ‫ں‬ ‫بنرص ی ین‬
‫م‬ ‫ر‬
‫م‬ ‫ی‬ ‫ح‬ ‫ت‬ ‫ہ‬
‫ارے‬ ‫کے ب غ‬ ‫کے ب ل ت‬ ‫اور وہ بعرص ی ر ق‬‫ےقئ‬ ‫اسی ج ما ہع نوں ککیتعوام می ں ک ی ا ن ن ث ی ت ہ‬ ‫ہ‬ ‫ا دازا لگا ا الزم و گ ی ا کہ م قلف س ی‬
‫ے کہ ا د ا ظ م کا مؤ ف درست ھا ی ا لط‪،‬‬ ‫کے یل‬
‫ےئ‬ ‫ئ ں۔ ی ہ ج ا‬ ‫ےہ ی‬
‫کس جتماعت کے مؤ ف سے م آ گی ر ھ‬ ‫می ں‬
‫ان کی راے معلوم کیئج اے۔ت دوسری ج غ ن گ عظ ی م کے ب ئعد امری کہ دن ی ا کی‬ ‫کے‬ ‫کر‬ ‫وع‬ ‫ن ئواحد طریق ہ ھا کی عوام سے رج‬
‫کے س ی اسی م خسا ل کا حل‬ ‫نکا دب ا و ب ڑھ جگ ی ان ھا کہ ب رص ی ر ن‬ ‫ئ ن گ ی ا۔ اس طرح حکومت ب رطانن ی ہ پر ب ھی امری کہ‬ ‫ین سپ ر پ اور ب‬
‫صورت حال می ں ب رطا وی کومت ےنعوامی ر حا ات کا پ ی ہ چ الئے کے کی اطر ن تعام‬ ‫ح‬ ‫ِ‬ ‫ڈھو ڈا ج اے۔ اس‬ ‫نت‬
‫ب‬ ‫م‬‫س‬ ‫ج‬ ‫سم‬
‫ں تمرکزی ا ب لی اور نوری ‪ 1946‬ء می ں صوب ا ی ا لیوں کے ا خ اب ات‬ ‫نمی ن‬‫‪ 1945‬ء‬ ‫ات کافاعالن ک ی ا۔ت دسمب ر ت‬ ‫ا خ ابن‬
‫ع‬
‫ے کا ا الن ک ی ا۔‬ ‫ل‬
‫کرواے کا ی صلہ وا۔ مام ج ماع وں ے ا خ اب ات می ں حصہ ی‬ ‫ہ‬
‫ف‬
‫ہرست‬
‫من ش‬ ‫ن‬ ‫ن ن یش ن‬
‫ل کا گرس کا ن ش ور‬‫س‬ ‫ن‬
‫ن‬ ‫‪ 1‬ا ڈی‬ ‫‪‬‬
‫م‬
‫آل ا ڈی ا لم ل ی گ کا م ور‬ ‫‪ 2‬نت‬ ‫‪‬‬
‫م‬
‫‪ 3‬ان ت خ ا ی ہم ن ئ‬ ‫‪‬‬
‫ب‬
‫‪ 4‬ا خ اب ات کے ت ا ج‬
‫من ش‬ ‫ن‬ ‫ی ن‬ ‫نش‬ ‫‪‬‬

‫ن‬
‫ا ڈی ن ل کا گرس کا ور‬

‫‪73 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫ئ‬ ‫تق‬ ‫ن ن یش ن‬
‫ئ‬ ‫من ش ت ج ن ی ش‬ ‫ن‬
‫صورت می ں آزاد نکروای ا ج اے گا۔ ت سی م کی کو ی غ‬
‫ن‬ ‫وحدت کی‬‫ن‬ ‫ک‬
‫ن قل کا گرس کا ور نی ہ ھا کہن وب ن تی ا ی ا کو ای ک‬
‫ن‬ ‫اسڈی ق‬
‫ن‬
‫گرسق ے ا ن خ ا ئب نات می ں "ا ھ ڈ ب ھارت" کا عرہ لگاینا۔ کا گرس ن قکا دعوی ھا کہ وہ ب نرص ی ر‬ ‫ہ‬
‫کی م ابن ل ب ولت ہ و گی۔ کا ف‬
‫ہ‬ ‫ب‬ ‫س‬ ‫می ں رہ‬
‫ے اور لمان ھی گا گرس کے طۂ ظ ر سے م آہ گ‬ ‫م‬ ‫ے والے مام گروہ وں اور ر وں کی ما دہ ج ماعت ہ‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬
‫من ش‬ ‫ن‬
‫آل ا ڈی ا مسلم ل ی گ کا ور‬
‫ن‬ ‫غ‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ن نت‬ ‫آل ان ڈ ا مس‬
‫ص یتر کےسمسلما وں کیتواحد‬ ‫ر‬ ‫ب‬ ‫وہ‬
‫ق ہ ں رک‬ ‫کہ‬
‫ن‬ ‫ھا‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫کے‬ ‫دعوے‬ ‫اس‬ ‫دم‬ ‫ں‬ ‫ی‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫ھاڑے‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫خ‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫گ‬ ‫ل‬ ‫لم‬
‫ن مائ ن دہ یماعت ے۔ مس ب‬
‫مان مس‬ ‫ی‬
‫ے‬ ‫ی‬ ‫ے۔ نم لم ل گ قاہ‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫ع‬ ‫سے‬ ‫اعت‬ ‫م‬ ‫اور‬‫ئ‬‫سی‬ ‫ک‬ ‫الوہ‬‫ع‬ ‫کے‬ ‫ق‬ ‫گ‬ ‫ل‬ ‫لم‬
‫ہ‬‫ع‬ ‫یمکم چ‬ ‫س‬ ‫ھ‬ ‫ی‬ ‫ج مس ث ی ت‬ ‫ش‬ ‫ل جن ی‬ ‫ہ‬ ‫ق ج‬
‫ئ ل ا ت دار ا لی‬ ‫کے م طابق وبی ای تی ا کو سی م کر ندتی ا ج اے اور لم اک ر ی عال وں می ں م لما وں کو‬ ‫رارداد پ اکستئان ق ئ‬ ‫کہ‬
‫صوات راے(‬ ‫س‬ ‫ع‬ ‫ہ‬ ‫ص‬
‫ن‬ ‫ارے می ں ا ت ت‬ ‫س‬ ‫کے ب‬
‫حا ل و ج اے۔ ا د ا ظ م کا دعوی ھا کی عام ا خ اب ات پ اکست ان ت‬
‫‪ )Referendum‬ہئوں گے۔ اگر مسلمان پ اکست ان کے حق می ں ہ ی ں و وہ لم ل ی گ کا سا ھ دی ں ور ہ اس م طالب ہ‬
‫م‬
‫خ‬
‫کو از ود مست رد سجم ھا ج اے۔‬
‫م‬ ‫نت‬
‫ا خ ابی ہم‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫قئ ن‬ ‫ت‬ ‫ئ ت‬ ‫ت ن‬ ‫ت‬
‫ے‬ ‫س‬ ‫ے۔ نکا گرس‬ ‫دورے ت ی‬
‫ک‬ ‫ئج ماع نوں کے ا دی ن ےتپورے ملک می ں ن ت‬ ‫مام ج ماع وں ٹے زب ردست مجہم چ ال ی۔ مام‬ ‫ن ن‬
‫م‬ ‫ع‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫ی‬
‫ت ال لماٹے ہ د اور دی گر اسالمی ج ماع وں سے زب ردست ا خ ابی ا حاد ب ای ا۔ اور لم‬ ‫یو ی سٹ پ ارت ی‪ ،‬ن لس احرار‪ ،‬معممی ق‬
‫ے ہ ر کن دم ا ھای ا۔‬ ‫ے کے یل‬ ‫ل ی گ کا راس ہ روک‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫نت‬ ‫دوسری ان‬
‫ے م نسلمخل ی گ کے ل ی ڈروں کے‬ ‫نی‬
‫ل‬ ‫اس‬ ‫ے‬‫ھ‬ ‫لہ‬
‫قئ‬‫م‬‫عا‬‫م‬ ‫کا‬‫ن‬ ‫ات‬ ‫ی‬ ‫ح‬ ‫اور‬ ‫موت‬ ‫ے‬‫ی‬
‫ل‬ ‫کے‬ ‫ن‬ ‫وں‬ ‫ا‬‫م‬ ‫ل‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫کہ‬ ‫و‬ ‫چ‬ ‫ات‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫خ‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫ج‬
‫ان کا پ ی غ ام پ ہ چ ای ا۔ ا د اعظ م ے اپ سی رابی تصحت کے ب اوج ود‬ ‫ت‬ ‫س‬
‫سی پ ک ق‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ے‬ ‫کو‬ ‫ر‬ ‫ک ہ‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫دورے‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫کے‬ ‫لک‬ ‫پورے م‬
‫م‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫پ قورے ملک می ں طو ا‬
‫گ ی زی سے‬ ‫س‬ ‫ے اور م لما وںسکا و ت کی ا می ت کاتاحساس دالی ا۔ لم ل ی‬ ‫ن یلدورے یک‬
‫م‬
‫ے گی ھی۔ ہت سے لمان ل ی ڈر دوسری ج ماع وں سے کٹ کٹ کر لم ل ی گ می ں‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫ت شحاصل کر ت‬ ‫شم بمولی ن‬
‫ے۔‬ ‫ے ھ‬ ‫ا ل ہ و ا روع ہ و گی‬
‫س‬ ‫چ ی ن ت نت‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫ع ن ن‬
‫نارے می ں‬ ‫م‬ ‫ل‬
‫ے لسوں می ں ن لم ھال غکا گرس کو ج ک ی ا کہ خا خ اب ات می ں لم ل ی گ‪ ،‬پ اکست ن‬ ‫ک‬ ‫ج‬
‫ب‬ ‫ان کے ب‬ ‫س‬ ‫س‬ ‫اح ے اپ‬ ‫دمحم لی ج ث‬
‫ے ھی‬ ‫گے۔ ق لمالیوں ن‬ ‫م‬ ‫کے دم لشی ںش ق‬ ‫ق کر ئ‬ ‫ن‬ ‫ے پ اکست ان یل‬ ‫م‬
‫ے کا سچ ا اب ت کر ظکے اور م لسما ان ب رص ی ر کے یل‬ ‫م طالب‬
‫دان می ں ل آے اور ہر ہر ری ہ ری ہ گی کارک وں کی‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫ط‬ ‫ن‬
‫اتض کا ا ہار ک ی نا۔ لم لب ہناور طال ب ات م ی ن‬ ‫ردست ج ذب ف‬ ‫ٹزب پ‬
‫ے لگی۔‬ ‫ج‬ ‫گو‬ ‫سے‬ ‫عروں‬ ‫کے‬ ‫اد‬ ‫ب‬ ‫دہ‬ ‫ز‬ ‫ان‬ ‫ت‬ ‫ا‬
‫پ کس‬ ‫ا‬ ‫ں۔‬ ‫ہ‬
‫ول ی اں ی‬
‫چ‬
‫ن ئ‬ ‫نت‬
‫ا خ اب ات کے ت ا ج‬
‫نق‬ ‫ن‬ ‫نت‬ ‫ئ‬ ‫نت‬ ‫قن‬
‫مرکزی ا وں ساز اسم غب لی کے ا خ ناب دسمب ر ‪ 1945‬نمیش تں کروا خے گی ت‬
‫ے۔ ی ہ ج داگانسہ طریق ا خناب نکی بش ی اد پر م عن د‬ ‫ئ‬
‫ے ام ی دوار‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫س‬
‫ہ وے۔ پورے ب رص ی ر می ں مئ لما وں کے لی‬
‫‪ 30‬ی ں ئصوص ھی ں۔ لم ل ی گ ے ہ ر ست پر اپ‬ ‫ے نت‬
‫ے۔ ‪ 1946‬می ں صوب ا ی اسم ب لیوں کے ا خ اب ات وے۔‬
‫ہ‬ ‫کھڑے کی‬
‫ت‬ ‫ٹ‬
‫مرکزی اسم ب لی می تں مسئلم سی ٹوں کی عداد‪30 :‬‬ ‫‪‬‬
‫ت‬ ‫مسلمئ ل ی گ کی ج ی ی ہ و ی سی ی ٹں‪ 30 :‬خ‬ ‫‪‬‬
‫صوسب ا ی اسم ب لیوں تمی ں ئمسلم ٹسی وں کی م صوص عداد‪495 :‬‬ ‫‪‬‬
‫م لم ل ی گ کی ج ی ی ہ و ی سی ی ں‪434 :‬‬ ‫‪‬‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت ن ن‬ ‫ئ‬ ‫ش ن ت‬ ‫ف ت‬
‫ی ہش مسلم ل ی گ کی ا دار ح ھی۔ ک ی س ی اسی ج ماع وں ے کا گرس کی حمای ت کی ھی کن لم ل ی گ ے ان سب‬
‫س‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ل‬
‫کو کست دی۔‬
‫ت‬ ‫ن‬
‫ن‬
‫وآب ادی ا ی ہ دوست ان‬
‫نوآبادیاتی ہندوستان کے شاہی وجود‬

‫ولندیزی ہند‬ ‫‪1825–1605‬‬


‫ولندیزی‪-‬ناروے ہند‬ ‫‪1869–1620‬‬
‫فرانسیسی‪ /‬ہند‬ ‫‪1954–1769‬‬
‫پرتگیزی ہند‬
‫(‪)1961–1505‬‬
‫‪74 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫ہندوستان گھر‬ ‫‪1833–1434‬‬
‫پرتگیزی‪ /‬ایسٹ انڈیا کمپنی‬ ‫‪1633–1628‬‬
‫برطانوی ہند‬
‫(‪)1947–1612‬‬
‫برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی‬ ‫‪1757–1612‬‬
‫کمپنی راج‬ ‫‪1858–1757‬‬
‫برطانوی راج‬ ‫‪1947–1858‬‬
‫برما میں برطانوی راج‬ ‫‪1948–1824‬‬
‫نوابی ریاستیں‬ ‫‪1949–1721‬‬
‫تقسیم ہند‬ ‫‪1947‬‬

‫نوآبادیاتی ہندوستان یا استعماری ہندوستان (‪ )Colonial India‬تجارت اور فتح کے ذریعے یورپی‬
‫نوآبادیاتی طاقتوں کے دائرہ کار کے تحت جنوبی ایشیا کا حصہ ہے۔‬
‫ن‬
‫ب رطا وی راج‬
‫دارالحکومت‬ ‫کلکتہ (‪–1858‬‬
‫‪)1912‬‬
‫نئی دہلی (‪–1912‬‬
‫‪)1947‬‬
‫شملہ (موسم گرما)‬

‫زبانیں‬ ‫ہندی‪-‬اردو‪,‬‬
‫انگریزی‪ ,‬اور‬
‫ہندوستان کی‬
‫زبانیں‬
‫حکومت‬ ‫آئینی بادشاہت‬
‫ہندوستان کا شہنشاہ (‪)1947–1876‬‬
‫‪1901–1858 - ‬‬ ‫‪1‬‬
‫ملکہ وکٹوریہ‬
‫‪1910–1901 - ‬‬ ‫ایڈورڈ ہفتم‬
‫‪1936–1910 - ‬‬ ‫جارج پنجم‬
‫‪1936 - ‬‬ ‫ایڈورڈ ہشتم‬
‫‪1947–1936 - ‬‬ ‫جارج ششم‬
‫‪Viceroy 2‬‬
‫‪1862–1858 - ‬‬ ‫چارلس کیننگ‬
‫(اول)‬
‫‪75 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫‪1947 - ‬‬ ‫لوئس ماؤنٹبیٹن‬
‫(آخر)‬
‫مقننہ‬ ‫شاہی مقننہ مجلس‬
‫تاریخ‬
‫‪ - ‬جنگ آزادی ہند‬ ‫‪ 10‬مئی ‪1857‬‬
‫‪1857‬ء‬
‫‪ - ‬حکومت‬ ‫‪ 2‬اگست ‪1858‬‬
‫ہندوستان ایکٹ‬
‫‪1858‬‬
‫‪ - ‬آزادی ہندوستان‬ ‫‪ 15‬اگست ‪1947‬‬
‫ایکٹ ‪1947‬‬
‫‪ - ‬تقسیم ہند‬ ‫‪ 15‬اگست ‪1947‬‬
‫سکہ‬ ‫برطانوی‬
‫ہندوستانی روپیہ‬
‫پیشرو‬ ‫جانشین‬
‫ڈومنین بھارت‬ ‫کمپنی راج‬
‫ڈومنین پاکستان‬ ‫مغلیہ‬
‫سلطنت‬
‫برطانوی برما‬
‫مملکت آصفیہ‬
‫ریاست جموں و‬
‫کشمیر‬
‫خانیت قالت‬
‫مستعمر عدن‬
‫موجودہ ممالک‬ ‫‪ ‬بھارت‬
‫‪ ‬پاکستان‬
‫‪ ‬بنگلہ دیش‬
‫‪ ‬برما‬

‫نو آبادیاتی دور کے برطانوی عالقوں کے لیے دیکھیے سلطنت برطانیہ‬

‫برطانوی راج بمطابق ‪1909‬ء‬


‫برطانوی راج یا برطانوی ہند (باضابطہ نام‪ :‬سلطنت ہندوستان) (انگریزی‪ British Raj :‬یا‬
‫‪ ،British India‬باضابطہ نام ‪ )Indian Empire‬کی اصالح ‪1858‬ء سے ‪1947‬ء تک برطانیہ‬
‫کے زیر نگیں بر صغیر کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔‬

‫‪76 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫سلطنت ہندوستان عالقائی و بین االقوامی سطح پر "ہندوستان" کے نام سے جانی جاتی تھی۔‬
‫"ہندوستان" جمعیت اقوام کا تاسیسی رکن اور ‪1900‬ء‪1920 ،‬ء‪1928 ،‬ء‪1932 ،‬ء اور ‪1936‬ء کے‬
‫گرمائی اولمپک کھیلوں میں شامل ہوا۔‬

‫فہرست‬
‫‪ 1‬شامل عالقے‬ ‫‪‬‬
‫‪ 2‬غیر شامل عالقے‬ ‫‪‬‬
‫‪ 3‬آغاز و خاتمہ‬ ‫‪‬‬
‫‪ 4‬حوالہ جات‬ ‫‪‬‬

‫شامل عالقے‬
‫اس عرصے میں برطانیہ کے زیر قبضہ رہنے والے عالقوں میں موجودہ بھارت‪ ،‬پاکستان اور‬
‫بنگلہ دیش شامل ہیں جبکہ کبھی کبھار عدن (‪1858‬ء سے ‪1937‬ء)‪ ،‬زیریں برما (‪1858‬ء تا‬
‫‪1937‬ء)‪ ،‬باالئی برما (‪1886‬ء تا ‪1937‬ء) شامل ہیں (مکمل برما ‪1937‬ء میں برطانوی ہند سے‬
‫الگ کر دیا گیا)‪ ،‬برطانوی ارض صومال (‪1884‬ء سے ‪1898‬ء) اور سنگاپور (‪1858‬ء سے‬
‫وسطی‪ ،‬جنگ عظیم اول کے‬ ‫ٰ‬ ‫‪1867‬ء) کو بھی برطانوی راج کا حصہ شمار کیا جاتا ہے۔ مشرق‬
‫فوراً بعد برطانیہ کے زیر قبضہ بین النہرین (موجودہ عراق) کا انتظام بھی حکومت برطانیہ کے‬
‫ٰ‬
‫وسطی کے کئی عالقوں اور مشرقی افریقہ‬ ‫ہندی دفتر سے چالیا جاتا تھا۔ ہندوستانی روپیہ مشرق‬
‫میں زیر استعمال رہا۔‬

‫غیر شامل عالقے‬


‫خطے کے دیگر ممالک میں ‪1802‬ء میں معاہدۂ ایمینز کے تحت برطانیہ کے زیر نگیں آنے واال‬
‫عالقہ سیلون (موجودہ سری لنکا) برطانیہ کی شاہی نو آبادی تھی اور برطانوی ہند کا حصہ شمار‬
‫نہیں ہوتی تھی۔ عالوہ ازیں نیپال اور بھوٹان کی بادشاہتیں برطانیہ سے معاہدے کے تحت آزاد‬
‫ریاستوں کی حیثيت سے تسلیم کی گئی تھیں اور برطانوی راج کا حصہ نہیں تھیں۔ [‪]2[]1‬۔ ‪1861‬ء‬
‫کے معاہدے کے نتیجے میں سکم کی ریاست خودمختاری تسلیم کی گئی [‪]3‬۔ جزائر مالدیپ ‪1867‬ء‬
‫سے ‪1965‬ء تک برطانیہ کے زیر نگیں رہے اور برطانوی راج کا حصہ شمار نہیں ہوتے تھے۔‬

‫آغاز و خاتمہ‪/‬‬
‫ہندوستان میں برطانوی راج کا آغاز ‪1858‬ء میں (جنگ آزادی ہند ‪1857‬ء کے بعد) ایسٹ انڈیا‬
‫کمپنی کے اقتدار کے خاتمے اور ہندوستان کے براہ راست تاج برطانیہ کے زیر نگیں آنے سے‬
‫ہوتا ہے اور خاتمہ ‪1947‬ء میں تقسیم ہند اور بھارت و پاکستان کے قیام کے ساتھ ہوتا ہے۔‬
‫رت گ زی ہ دن‬
‫پ ی‬
‫دارالحکومت‬ ‫پنجی (کوچی ‪to‬‬
‫‪)1530‬‬

‫زبانیں‬ ‫پرتگالی زبان‬

‫اور; کونکنی‬
‫زبان‪ ,‬کنڑا زبان‪,‬‬
‫گجراتی زبان‪,‬‬
‫‪77 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫مراٹھی زبان‪,‬‬
‫ملیالم زبان‪ ,‬دیگر‬
‫نوآبادی; عملداری سیاسی ڈھانچہ‬
‫پرتگیزی سلطنت‬
‫کی ریاست‬
‫سربراہ ریاست‬
‫‪ - ‬بادشاہ‬ ‫‪Manuel I of‬‬
‫‪21–1511   ‬‬ ‫‪Portugal‬‬
‫‪ - ‬صدر‬ ‫‪Américo‬‬
‫‪61–1958   ‬‬ ‫‪Tomás‬‬
‫وائسرائے‬
‫‪9–1505 - ‬‬ ‫‪Francisco de‬‬
‫(اول)‬ ‫‪Almeida‬‬
‫‪( 1896 -  Afonso, Duke‬آخر)‬
‫‪of Porto‬‬
‫گورنر جنرل‬
‫‪15–1509 - ‬‬ ‫‪Afonso de‬‬
‫(اول)‬ ‫‪Albuquerque‬‬
‫‪62–1958 - ‬‬ ‫‪Manuel‬‬
‫(آخر)‬ ‫‪António‬‬
‫‪Vassalo e‬‬
‫‪Silva‬‬
‫تاریخی دور‬ ‫سامراج‬
‫‪ - ‬سقوط بیجاپور‬ ‫‪ 15‬اگست ‪1505‬‬
‫سلطنت‬
‫‪ 19‬دسمبر ‪ -  1961‬ہندوستانی‬
‫قبضہ;‬
‫سکہ‬ ‫پرتگیزی ہند‬
‫روپیہ (‪)INPR‬‬
‫پرتگیزی ہند‬
‫ایسکودو (‬
‫‪)INPES‬‬

‫‪78 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫پرتگیزی ہند یا پرتگیزی ہندوستان (‪ )Portuguese India‬رسمی نام ریاست ہندوستان (‪State of‬‬
‫‪( )India‬پرتگالی زبان‪ )Estado da Índia :‬جسے پرتگیزی ریاست ہندوستان (‪Portuguese‬‬
‫‪( )State of India‬پرتگالی زبان‪ )Estado Português da Índia :‬برصغیر میں پرتگیزی‬
‫سلطنت کی ایک نوآبادی ریاست تھی۔‬

‫ج ن گ پ السی‬
‫‪ 23‬جون ‪1757‬ء‪ ،‬سراج الدولہ نواب بنگال اور انگریز جرنیل کالئیو کے درمیان جنگ پالسی‬
‫کلکتے سے ‪ 70‬میل کے‬
‫فاصلے پر دریائے بھاگیرتی کے کنارے قاسم بازار کے قریب واقع ہے۔انگریز جرنیل کالیو تمام‬
‫بنگال پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ شہنشاہ دہلی پہلے ہی اس کے ہاتھ میں کٹھ پتلی تھا۔ بنگال پر قبضے‬
‫کے لیے ’’بلیک ہول‘‘ کا فرضی افسانہ تراشا گیا اور میر جعفر سے سازش کی گئی ۔ میر جعفر‬
‫سراج الدولہ کے نانا علی وردی خان کا بہنوئی تھا۔ اس کو نوابی کا اللچ دے کر توڑ لیا گیا۔ اس‬
‫کے عالوہ اوما چند نامی ایک سیٹھ کو بھی ساز میں شریک کیا گیا۔ لیکن اس کو تیس الکھ روپیہ‬
‫دینے کا جو معاہدہ کیاگیا وہ جعلی تھا۔‬
‫کالئیو اپنی روایتی تین ہزار فوج کو لے کر نواب پر چڑھ آیا۔ اس کی فوج میں صرف ‪ 500‬گورے‬
‫تھے جبکہ ‪ 2500‬ہندوستانی تھے۔ نواب کے پاس بقول مورخین پچاس ہزار پیادے ‪ ،‬اٹھارہ ہزار‬
‫گھڑ سوار اور ‪ 55‬توپیں تھیں۔ لیکن اس فوج کا ہر حصہ میر جعفر کے زیر کمان کالئیو سے مل‬
‫چکا تھا۔ اس لیے نواب میدان جنگ میں ناکام ہوا۔ اور گرفتار ہو کر میر جعفر کے بیٹے میرن کے‬
‫ہاتھوں قتل ہوا۔‬
‫انگریز مورخوں کا یہ دعوی کہ کالئیو نے تین ہزار سپاہیوں کی مدد سے نواب کی التعداد فوج پر‬
‫فتح پائی قرین قیاس نہیں ہو سکتا کیوں کہ پچاس ہزار میں سے ہر ایک کے حصے میں تین ہزار‬
‫کی بوٹی تک نہیں آسکتی۔ دراصل خود نواب کی فوج کا بیشتر حصہ اپنے گھر کو آگ لگا رہا تھا۔‬
‫نیز یہ کہنا کہ میر جعفر آخر دم تک کالئیو کے ساتھ نہیں مال۔ بالکل غلط ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس‬
‫کو انگریز کبھی نواب نہ بناتے یہ اسی شخص کی غداری تھی جس کے باعث بنگال میں اسالمی‬
‫حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس پر بھی اگر سراج الدولہ کا سپہ ساالر نہ مرتا تو نتیجہ کچھ اور ہوتا۔‬
‫اس سپہ ساالر کو‪ ،‬جو میر جعفر کے ساتھ شریک نہ تھا۔ میر جعفر کے آدمیوں نے قتل کر دیا تھا۔‬
‫جس سے وفادار فوج بھی بدحواس گئی۔ کالئیو کے صرف بیس آدمیوں کا مارا جانا اور پچاس کا‬
‫زخمی ہونا تعجب خیز نہیں۔ کیوں کہ توپ خانے کو بھی پہلے ہی خرید لیا گیا تھا۔ اور توپوں میں‬
‫پانی ڈلوا دیا گیا تھا۔پروپیگینڈا یہ کیا گیا کہ جنگ سے پہلے بارش ہو گئی تھی اور نواب کے پاس‬
‫ترپال نہیں تھے اس لیے اس کا سارا بارود بھیگ کر نا کارہ ہو گیا تھا۔‬
‫لڑائی کے بعد کالئیو مرشد آباد پہنچا جو ان دنوں بنگال کا دارلحکومت تھا۔ کٹھ پتلی شاہ دہلی سے‬
‫پہلے ہی میر جعفر کی تقرری کا فرمان حاصل کیا جا چکا تھا۔ چنانچہ اس کو گدی پر بٹھا دیا گیا۔‬
‫میر جعفر کو تمام خزانہ اور ذاتی زروجواہر کالئیو کی نذر کرنے پڑے جن میں سے ہر انگریز‬
‫کو معقول حصہ دیاگیا۔ صرف کالئیو کا حصہ ‪ 53‬الکھ دس ہزار روپے تھا۔ اس کے عالوہ ایسٹ‬
‫انڈیا کمپنی کو ایک کروڑ روپیہ کلکتے کے نقصان کے عوض اور حملے کی پاداش میں دیا گیا۔‬
‫اس کے عالوہ بنگال میں چوبیس پرگنے کا زرخیز عالقہ بھی کمپنی کی نذر ہوا۔ ‪1759‬ء میں شاہ‬
‫عالم نے اس تمام عالقے کا محاصل جو چار الکھ پچاس ہزار ہوتا تھا۔ کالئیو کو بخش دیا اور اس‬
‫طرح تقریبا ً سارا بنگال انگریزوں کے تسلط میں آگیا۔ چند روز بعد انگریزوں نے میر جعفر کو بے‬
‫دست و پا کر دیا۔ لیکن یہ شخص نہایت سمجھ دار نکال۔ اس نے ایسے اقدامات شروع کیے جن سے‬
‫انگریزوں کے پنجے ڈھیلے ہونے شروع ہوگئے اور پٹنہ میں دو سو انگریز قتل کر دیے گئے۔ میر‬
‫قاسم نے دیگر مسلمان نوابوں کو متحد کرکے بکسر کے مقام پربہادری سے انگریزوں کا مقابلہ کیا‬

‫‪79 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫جس میں ایک ہزار انگریز مارے گئے لیکن پھر غداری اور سازش اپنا رنگ الئی ۔ میر قاسم کی‬
‫فوج میں بھگدڑ مچ گئی اور انگریز بنگال پر قابض ہوگئے۔‬

‫نام‬
‫اردو میں جنگ کا نام پالسی ہے‪ ،‬درحقیقت یہ بنگالی زبان کا لفظ پالشی (بنگلہ‪ )পলাশী:‬ہے ‪ ،‬جس‬
‫کے معنی "پھولوں کا عالقہ" ہے۔یہ جنگ جس عالقے میں لڑی گئی تھی اس عالقے میں پھول‬
‫زیادہ پائے جاتے ہیں اور انہی پھولوں کی وجہ سے پورے عالقے کا نام پالشی پڑگیا ہے۔‬

‫اقتباس‬
‫مورخ لکھتے ہیں کہ جنگ پالسی تو وہ جنگ تھی جو لڑی ہی نہیں گئی تھی‬ ‫‪‬‬

‫خ‬ ‫ن‬
‫سل ط ت داداد ی سور‬
‫م‬
‫جس زمانے میں بنگال اور شمالی ہند میں انگریز اپنے مقبوضات میں اضافے کررہے تھے‪،‬‬
‫جنوبی ہند میں دو ایسے مجاہد پیدا ہوئے جن کے نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ یہ حیدر علی‬
‫اور ٹیپو سلطان تھے۔ بنگال اور شمالی ہند میں انگریزوں کو مسلمانوں کی طرف سے کسی سخت‬
‫مقابلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان کی منظم افواج اور برتر اسلحے کے آگے کوئی نہ ٹھہر سکا‬
‫لیکن جنوبی ہند میں یہ صورت نہیں تھی۔ یہاں حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے قدم قدم انگریزوں کی‬
‫جارحانہ کاروائیوں کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے بے مثل سیاسی قابلیت اور تدبر کا ثبوت دیا اور میدان‬
‫جنگ میں کئی بار انگریزوں کو شکستیں دیں۔ انہوں نے جو مملکت قائم کی اس کو تاریخ میں‬
‫سلطنت خداداد میسور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔‬

‫حیدر علی‬

‫حیدر علی ایک مصور کی نظر میں‬

‫حکمران از ‪1761‬ء تا ‪1783‬ء‬


‫حیدر علی نے میسور کے ہندو راجہ کی فوج میں ایک سپاہی کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز‬
‫کیا لیکن وہ اپنی بہادری اور قابلیت کی بدولت جلد ہی راجہ کی فوجوں کا سپہ ساالر بن گیا۔ راجہ‬
‫اور اس کے وزیر نے حیدر علی کے بڑھتے ہوئے اقتدار سے خوفزدہ ہو کر جب اس کو قتل‬
‫کرنے کا منصوبہ بنایا تو حیدر علی نے میسور کے تخت پر قبضہ کرلیا۔ راجہ کو اس نے اب بھی‬
‫برقرار رکھا‪ ،‬لیکن اقتدار پوری طرح اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس کی حکومت کا آغاز ‪1761‬ء سے‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫حیدر علی کواپنے ‪ 20‬سالہ دور حکومت میں مرہٹوں‪ ،‬نظام دکن اور انگریزوں تینوں کا مقابلہ کرنا‬
‫پڑا۔ اگرچہ ان لڑائیوں میں اس کو ناکامیاں بھی ہوئیں‪ ،‬لیکن اس کے باوجود اس نے ماالبار کے‬
‫ساحل سے لے کر دریائے کرشنا تک ایک بہت بڑی ریاست قائم کرلی جس میں نظام دکن‪ ،‬مرہٹوں‬
‫اور انگریزوں سے چھینے ہوئے عالقے بھی شامل تھے۔ اس نے میسور کی پہلی جنگ (‪1767‬ء‬
‫تا ‪1769‬ء) اور دوسری جنگ (‪1780‬ء تا ‪1784‬ء) میںانگریزوں کو کئی بار شکست دی۔ دوسری‬
‫جنگ میں حیدر علی نے نظام دکن اور مرہٹوں کو ساتھ مال کرانگریزوں کے خالف متحدہ محاذ‬
‫بنایا تھا اور اگر مرہٹے اور نظام اس کے ساتھ غداری نہ کرتے اور عین وقت پر ساتھ نہ چھوڑتے‬
‫‪80 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫تو کم از کم جنوبی ہند سے حیدر علی انگریزی اقتدار کا خاتمہ کردیتا۔ حیدر علی کی ان کامیابیوں‬
‫کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس نے فرانسیسیوں کی مدد سے اپنی افواج کو جدید ترین طرز‬
‫پر منظم کیا اور ان کو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کیا۔‬

‫ٹیپو سلطان‬

‫ٹیپو سلطان کی خیالی تصویر‬

‫حکمران از ‪1782‬ء تا ‪1799‬ء‬


‫ابھی میسور کی دوسری جنگ جاری تھی کہ حیدر علی کا اچانک انتقال ہو گیا۔ اس کا لڑکا فتح علی‬
‫ٹیپو سلطان جانشیں ہوا۔ ٹیپو سلطان جب تخت پر بیٹھا تو اس کی عمر ‪ 32‬سال تھی۔ وہ ایک تجربہ‬
‫کار سپہ ساالر تھا اور باپ کے زمانے میں میسور کی تمام لڑائیوں میں شریک رہ چکا تھا۔ حیدر‬
‫علی کے انتقال کے بعد اس نے تنہا جنگ جاری رکھی کیونکہ مرہٹے اور نظام دکن انگریزوں کی‬
‫سازش کا شکار ہو کر اتحاد سے عالحدہ ہو چکے تھے۔ ٹیپو سلطان نے انگریزوں کو کئی شکستیں‬
‫دیں اور وہ ‪1784‬ء میں سلطان سے صلح کرنے پر مجبور ہو گئے۔‬
‫ٹیپو سلطان ایک اچھا سپہ ساالر ہونے کے عالوہ ایک مصلح بھی تھا۔ حیدر علی ان پڑھ تھا لیکن‬
‫ٹیپو سلطان ایک پڑھا لکھا اور دیندار انسان تھا۔ نماز پابندی سے پڑھتا تھا اور قرآن پاک کی تالوت‬
‫اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ ٹیپو سلطان نے اپنی ریاست کے عوام کی اخالقی و معاشرتی خرابیاں‬
‫دور کرنے کے لیے اصالحات کیں۔ شراب اور نشہ آور چیزوں پر پابندی لگائی اور شادی بیاہ کے‬
‫موقع پر ہونے والی فضول رسومات بند کرائیں اور پیری مریدی پر بھی پابندی لگائی۔‬
‫ٹیپو سلطان نے ریاست سے زمینداریاں بھی ختم کردی تھیں اور زمین کاشتکاروں کو دے دے تھی‬
‫جس سے کسانوں کو بہت فائدہ پہنچا۔ ٹیپو سلطان نے کوشش کی کہ ہر چیز ریاست میں تیار ہو اور‬
‫باہر سے منگوانا نہ پڑے۔ اس مقصد کے لیے اس نے کئی کارخانے قائم کیے۔ جنگی ہتھیار بھی‬
‫ریاست میں تیار ہونے لگے۔ اس کے عہد میں ریاست میں پہلی مرتبہ بینک قائم کیے گئے۔‬
‫ان اصالحات میں اگرچہ مفاد پرستوں کو نقصان پہنچا اور بہت سے لوگ سلطان کے خالف ہوگئے‬
‫لیکن عوام کی خوشحالی میں اضافہ ہوا اور ترقی کی رفتار تیز ہو گئی۔ میسور کی خوشحالی کا‬
‫اعتراف اس زمانے کے ایک انگریز نے ان الفاظ میں کیا ہے‪:‬‬
‫میسور ہندوستان میں سب سے سر سبز عالقہ ہے۔ یہاں ٹیپو کی حکمرانی ہے۔ میسور کے باشندے‬
‫ہندوستان میں سب سے زیادہ خوشحال ہیں۔ اس کے برعکس انگریزی مقبوضات صفحۂ عالم پر‬
‫[‬
‫بدنما دھبوں کی حیثیت رکھتے ہیں‪ ،‬جہاں رعایا قانون شکنجوں میں جکڑی ہوئی پریشان حال ہے۔‬
‫‪]1‬‬

‫ٹیپو سلطان کے تحت میسور کی یہ ترقی انگریزوں کو بہت ناگوار گذری۔ وہ ٹیپو کو جنوبی ہند پر‬
‫اپنے اقتدار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔ انگریزوں اور میسور کے درمیان‬
‫صلح کو مشکل سے چھ سال ہوئے تھے کہ انگریزوں نے معاہدے کو باالئے طاق رکھ کر نظام‬
‫حیدر آباد اور مرہٹوں کے ساتھ مل کر میسور پر حمل کردیا اور اس طرح میسور کی تیسری جنگ‬
‫(‪1790‬ء تا ‪1792‬ء) کا آغاز ہوا۔ اس متحدہ قوت کا مقابلہ ٹیپو سلطان کے بس میں نہیں تھا ‪ ،‬اس‬
‫لیے دو سال مقابلہ کرنے کے بعد اس کو صلح کرنے اور اپنی نصف ریاست سے دستبردار ہونے‬
‫پر مجبور ہونا پڑا۔‬
‫جنگ میں یہ ناکامی ٹیپو سلطان کےلیے بڑی تکلیف دہ ثابت ہوئی اس نے ہر قسم کا عیش و آرام‬
‫ترک کردیا اور اپنی پوری توجہ انگریزوں کے خطرے سے ملک کو نجات دینے کے طریقے‬
‫‪81 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫اختیار کرنے پر صرف کردی۔ نظام دکن اور مرہٹوں کی طرف سے وہ مایوس ہو چکا تھا اس لیے‬
‫اس نے افغانستان‪ ،‬ایران اور ترکی تک اپنے سفیر بھیجے اور انگریزوں کے خالف متحدہ اسالمی‬
‫محاذ بنانا چاہا لیکن افغانستان کے حکمران زمان شاہ کے عالوہ اور کوئی ٹیپو سے تعاون کرنے‬
‫پر تیار نہ ہوا۔ شاہ افغانستان بھی پشاور سے آگے نہ بڑھ سکا۔ انگریزوں نے ایران کو بھڑکا کر‬
‫افغانستان پر حملہ کرادیا تھا اس لیے زمان شاہ کو واپس کابل جانا پڑا۔ جبکہ عثمانی سلطان سلیم‬
‫ثالث مصر سے فرانسیسی فاتح نپولین کا قبضہ ختم کرانے میں برطانیہ کی مدد کے باعث‬
‫انگریزوں کے خالف ٹیپو سلطان کی مدد نہ کر سکا۔‬
‫انگریزوں نے ٹیپو سلطان کے سامنے امن قائم کرنے کے لیے ایسی شرائط پیش کیں جن کو کوئی‬
‫باعزت حکمران قبول نہیں کرسکتا تھا۔ نواب اودھ اور نظام دکن ان شرائط کو تسلیم کرکے‬
‫انگریزوں کی باالدستی قبول کر چکے تھے لیکن ٹیپو سلطان نے ان شرائط کو رد کردیا۔ ‪1799‬ء‬
‫میں انگریزوں نے میسور کی چوتھی جنگ چھیڑ دی۔ اس مرتبہ انگریزی فوج کی کمان الرڈ‬
‫ویلیزلی کررہا تھا جو بعد میں ‪1815‬ء میں واٹرلو کی مشہور جنگ میں نپولین کو شکست دینے‬
‫کے بعد جنرل ولنگٹن کے نام سے مشہور ہوا۔ اس جنگ میں وزیراعظم میر صادق اور غالم علی‬
‫اور دوسرے عہدیداروں کی غداری کی وجہ سے سلطان کو شکست ہوئی اور وہ دار الحکومت‬
‫سرنگاپٹنم کے قلعے کے دروازے کے باہر بہادری سے لڑتا ہوا ‪ 4‬مئی ‪1799‬ء کو شہید ہو گیا۔‬
‫سراج الدولہ‪ ،‬واجد علی شاہ اور بہادر شاہ ظفر کے مقابلے میں اس کی موت کتنی شاندار تھی۔‬
‫انگریز جنرل ہیرس کو سلطان کی موت کی اطالع ہوئی تو وہ چیخ اٹھا کہ "اب ہندوستان ہمارا‬
‫ہے"۔ انگریزوں نے گرجوں کے گھنٹے بجا کر اور مذہبی رسوم ادا کرکے سلطان کی موت پر‬
‫مسرت کا اظہار کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے مالزمین کو انعام و اکرام سے نوازا۔ یہ اس بات‬
‫کا اعالن تھا کہ اب ہندوستان میں برطانوی اقتدار مستحکم ہو گیا اور اس کو اب کوئی خطرہ نہیں۔‬

‫میسور محل‬

‫اس میں کوئی شک نہیں کہ اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال کے بعد اسالمی ہند میں نظام الملک‬
‫آصف جاہ‪ ،‬حیدر علی اور ٹیپو سلطان جیسی حیرت انگیز صالحیت رکھنے واال تیسرا کوئی‬
‫حکمران نظر نہیں آتا۔ خاص طور پر حیدر علی اور ٹیپو سلطان کو اسالمی تاریخ میں اس لیے بلند‬
‫مقام حاصل ہے کہ انہوں نے دور زوال میں انگریزوں کا بے مثل شجاعت اور سمجھداری سے‬
‫مقابلہ کیا۔ یہ دونوں باپ بیٹے دور زوال کے ان حکمرانوں میں سے ہیں جنہوں نے نئی ایجادوں‬
‫سے فائدہ اٹھایا۔ وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کی اور اپنی مملکت میں فوجی‪،‬‬
‫انتظامی اور سماجی اصالحات کی ضرورت محسوس کی۔ انہوں نے فرانسیسیوں کی مدد سے اپنی‬
‫افواج کی جدید انداز پر تنظیم کی جس کی وجہ سے وہ انگریزوں کا ‪ 35‬سال تک مسلسل مقابلہ‬
‫کرسکے اور ان کو کئی بار شکستیں دیں۔ یہ کارنامہ اٹھارہویں صدی کے نصف آخر میں کوئی‬
‫دوسرا حکمران انجام نہیں دے سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ بر صغیر میں انگریزوں کا جتنا کامیاب مقابلہ‬
‫حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے کیا کسی اور مسلم اور غیر مسلم حکمران نے نہیں کیا۔ ٹیپو سلطان‬
‫سلطنت عثمانیہ کے سلیم ثالث کا ہمعصر تھا۔‬
‫جن‬ ‫گ‬ ‫ن‬
‫ای لو می سور گی ں‬
‫اینگلو میسور جنگیں (‪ )Anglo-Mysore Wars‬ہندوستان میں اٹھارویں صدی کی آخری تین‬
‫دہائیوں میں سلطنت خداداد میسور اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین جنگوں کا ایک سلسلہ ہے۔‬
‫چوتھی اینگلو میسور جنگ میں ٹیپو سلطان کی شہادت ہوئی اور سلطنت خداداد میسور ختم ہو کر‬
‫ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت ایک نوابی ریاست بن گئی۔‬

‫پہلی اینگلو میسور جنگ‬


‫‪82 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫پہلی اینگلو میسور جنگ (‪ )1767–1769( )First Anglo-Mysore War‬سلطنت خداداد میسور‬
‫اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین ہندوستان میں لڑی جانے والی اینگلو میسور جنگوں کے سلسے‬
‫کی پہلی جنگ تھی۔ یہ جنگ جزوی طور پر نظام حیدر آباد آصف جاہ ثانی کی کمپنی کی توجہ‬
‫ریاست حیدرآباد کے شمالی عالقوں سے ہٹانے کی ایک سازش تھی۔‬

‫دوسری اینگلو میسور جنگ‬


‫دوسری اینگلو میسور جنگ (‪ )1780–1784( )Second Anglo-Mysore War‬امریکی انقالبی‬
‫جنگ کے دوران سلطنت خداداد میسور اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین ہندوستان میں لڑی جانے‬
‫والی اینگلو میسور جنگوں کے سلسے کی دوسری جنگ تھی۔ اس وقت مملکت فرانس میسور کی‬
‫اہم اتحادی تھی۔‬

‫تیسری اینگلو میسور جنگ‬


‫تیسری اینگلو میسور جنگ (‪ )1789–92( )Third Anglo-Mysore War‬سلطنت خداداد میسور‬
‫اور ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے اتحادیوں مراٹھا سلطنت اور نظام حیدر آباد مابین ہندوستان میں‬
‫لڑی جانے والی اینگلو میسور جنگوں کے سلسے کی تیسری جنگ تھی۔‬

‫چوتھی اینگلو میسور جنگ‬


‫چوتھی اینگلو میسور جنگ (‪ )1798–1799( )Fourth Anglo-Mysore War‬سلطنت خداداد‬
‫میسور اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین ہندوستان میں لڑی جانے والی اینگلو میسور جنگوں کے‬
‫سلسے کی چوتھی جنگ تھی۔ اس جنگ میں انگریزوں کو سلطان کے امراء اور جرنیلوں کا مکمل‬
‫تعاون حاصل تھا اس کے عالوہ ہندوستان کی عظیم طاقتیں مرہٹے اور نظام حیدرآباد بھی ان کے‬
‫ہمراہ تھے جبکہ سلطان نے یہ جنگ تنہا ہی لڑی اس نے سلطان ترکی کو ساتھ مالنے کی کوشش‬
‫کی مگر سلطان نے اسے انگریزوں سے دوستی کی نصیحت کی ۔ سلطان نے فرانس کے نپولین‬
‫سے تعاون کی درخواست کی ۔شاہ زماں والئ کابل نے امداد کا وعدہ کیا مگر بروقت کسی نے بھی‬
‫مدد نہ کی ۔غداروں کی وجہ سےچوتھی اینگلو میسور جنگ میں ٹیپو سلطان کی شہادت ہوئی اور‬
‫سلطنت خداداد میسور ختم ہو کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت ایک نوابی ریاست بن گئی۔ قدیم ہندو‬
‫راجہ کے خاندان کو اس ریاست کی سربراہی دی گئی مگر یہ ریاست اور سربراہی مختصر تھی‬
‫کیونکہ یہ ریاست برطانوی حکمرانوں کی مرضی سے تقسیم کی گئی۔‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫پ ہلی ای گلو می سور ج گ‬
‫پہلی اینگلو میسور جنگ‬
‫‪First Anglo–Mysore War‬‬
‫بسلسلہ اینگلو میسور جنگیں‬

‫جنگ کا نقشہ‬
‫تاریخ ‪1769–1767‬‬
‫مقام جنوبی ہند‬
‫نتیجہ میسور کی فیصلہ کن فتح‬
‫شریک جنگ‬
‫‪83 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫ایسٹ انڈیا کمپنی‬ ‫میسور‬
‫مراٹھا اتحاد‬
‫نواب کرناٹک‬
‫ریاست حیدرآباد‬
‫سپہ ساالر و رہنما‬
‫جوزف سمتھ‬ ‫حیدر علی‬
‫جان ووڈ‬ ‫لطف علی بیگ‬
‫کرنل بروکس‬ ‫مخدوم علی‬
‫مادھو راؤ اول‬ ‫ٹیپو سلطان‬
‫محمد علی خان‬ ‫رضا صاحب‬
‫واال جاہ‬
‫آصف جاہ ثانی‬

‫ن‬ ‫ن‬
‫‪ )First Anglo-Mysore‬سل طن ت خ تداداد می سور اور ای سٹ ا ڈی ا کمپ نی کے ماب ی ن‬ ‫‪War‬‬ ‫(‬ ‫گ‬ ‫پ ہلی ای ن گلو می سور ن‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ج‬
‫ن‬
‫ھی۔ ی ہ ج گ ج زوی تطور پر ظ ام ح ی در آب اد‬ ‫ن‬
‫ے کی ق لی ج گ ن‬‫ہ‬ ‫پ‬ ‫ہ ن دوست ان ثمی نں لڑی ج انے توالی ا لو می سور ج گوں کےش لس‬
‫س‬ ‫گ‬ ‫ی‬
‫آصف ج اہ ا ی کی کمپ ی کی وج ہ ری است ح ی درآب اد کے مالی عال وں سے ہ ٹ اے کی ای ک سازش ھی۔‬
‫ن‬ ‫گ‬ ‫ن‬
‫دوسری ای لو می سور ج گ‬
‫دوسری اینگلو میسور جنگ (‪ )Second Anglo-Mysore War‬امریکی انقالبی جنگ کے‬
‫دوران سلطنت خداداد میسور اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین ہندوستان میں لڑی جانے والی اینگلو‬
‫میسور جنگوں کے سلسے کی دوسری جنگ تھی۔ اس وقت مملکت فرانس میسور کی اہم اتحادی‬
‫تھی۔‬

‫تاریخ ‪1784–1780‬‬
‫مقام جنوبی ہند‬
‫نتیجہ معاہدہ منگلور‬
‫شریک جنگ‬
‫میسور‬ ‫ایسٹ انڈیا کمپنی‬
‫‪ ‬فرانس‬ ‫‪ ‬برطانیہ عظمی‬
‫‪ ‬ڈچ جمہوریہ‬ ‫‪ ‬انتخاب کنندہ‬
‫شریک محارب‪:‬‬ ‫گان ہینور‬
‫‪ ‬ریاستہائے‬
‫متحدہ امریکا‬
‫ہسپانیہ‬
‫سپہ ساالر و رہنما‬
‫حیدر علی‬ ‫سر آئر کوٹے‬
‫ٹیپو سلطان‬ ‫ہیکٹر منرو‬
‫کریم خان‬ ‫ایڈورڈ ہیوز‬
‫صاحب‬
‫‪84 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫سید صاحب‬
‫سردار علی خان‬
‫صاحب‬
‫مخدوم علی‬
‫کمال الدین‬
‫ایڈمرل سفرین‬
‫مارکوئس دے‬
‫بوسے‬

‫ن‬ ‫گ‬ ‫ن‬ ‫ت‬


‫یسری ای لو می سور ج گ‬
‫تیسری اینگلو میسور جنگ (‪ )Third Anglo-Mysore War‬سلطنت خداداد میسور اور ایسٹ‬
‫انڈیا کمپنی اور اس کے اتحادیوں مراٹھا سلطنت اور نظام حیدر آباد مابین ہندوستان میں لڑی جانے‬
‫والی اینگلو میسور جنگوں کے سلسے کی تیسری جنگ تھی۔‬

‫اریخ ‪1792–1789‬‬
‫مقام جنوبی ہند‬
‫نتیجہ معاہدہ سرنگاپٹم‬
‫عالقائ‬
‫ی میسور کا اپنی سرزمین کا تقریبا‬
‫تبدیلیا نصف حصہ مخالفین کو دینا پڑا‬
‫ں‬
‫شریک جنگ‬
‫میسور‬ ‫ایسٹ انڈیا کمپنی‬
‫مملکت برطانیہ اتحادی‬
‫عظمی‬
‫‪ ‬فرانس‬ ‫مراٹھا سلطنت‬
‫حیدرآباد‬

‫‪ ‬تراونکور‬
‫سپہ ساالر و رہنما‬
‫ٹیپو سلطان‬ ‫ولیم میڈوز‬
‫سید صاحب‬ ‫چارلس‬
‫رضا صاحب‬ ‫کارنوالس‬
‫سپاہدار سید‬ ‫کیپٹن رچرڈ جان‬
‫حامد صاحب‬ ‫سٹارچن‬
‫مراتب خان‬ ‫پرسورام بھاو‬
‫صاحب‬ ‫ہری پنٹ‬
‫بہادر خان‬ ‫ٹیگ وونٹ‬
‫صاحب‬ ‫دھرم راجہ‬
‫بدر الزمان خان‬
‫‪85 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫صاحب‬
‫حسین علی خان‬
‫صاحب‬
‫شیر خان صاحب‬
‫[‪]1‬‬
‫کمال الدین‬

‫ت‬
‫نگ‬
‫چ و ھی ای لو می سور ج ن گ‬
‫چوتھی اینگلو میسور جنگ (‪ )Fourth Anglo-Mysore War‬سلطنت خداداد میسور اور ایسٹ‬
‫انڈیا کمپنی کے مابین ہندوستان میں لڑی جانے والی اینگلو میسور جنگوں کے سلسے کی چوتھی‬
‫جنگ تھی۔ چوتھی اینگلو میسور جنگ میں ٹیپو سلطان کی شہادت ہوئی اور سلطنت خداداد میسور‬
‫ختم ہو کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت ایک نوابی ریاست بن گئی۔‬

‫تاریخ ‪1799–1798‬‬
‫مقام برصغیر‬
‫نتیجہ میسور کی شکست‬
‫شریک جنگ‬
‫میسور‬ ‫ایسٹ انڈیا کمپنی‬
‫مراٹھا سلطنت‬
‫حیدرآباد‬

‫تراونکور‬
‫سپہ ساالر و رہنما‬
‫ٹیپو سلطان‪† ‬‬ ‫جنرل جارج ہیرس‬
‫میر غالم حسین‬ ‫میجر جنرل ڈیوڈ‬
‫محمد میر میراں‬ ‫بیئرڈ‬
‫عمدة امراء‬ ‫کرنل آرتھر‬
‫میر صادق‬ ‫ویلیسلی‬
‫غالم محمد خان‬

‫ن‬ ‫ن‬
‫سکھ‪-‬ب رطا وی ج گ (دوم)‬
‫‪۱۸۴۸‬ء؁ میں سکھوں اور انگریزوں کے بیچ ایک بڑا جنگ ہوا جس سے سکھوں کی حکومت‬
‫ختم ہوگئی اور پنجاب اور موجودہ پختونخوا برطانوی ہند میں شامل ہوا۔‬
‫ت‬
‫س ی اگرا‬

‫‪86 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫م‬ ‫ت‬ ‫ج ن ش‬ ‫ن ن‬ ‫ن‬ ‫م ن‬ ‫ن‬ ‫من ت‬ ‫ت‬
‫ے کا گری سی رہ ما گا دھی ی ے روع نک ی ا ھا تاس نہم می ں‬ ‫ےشجس‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ام‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫ہم‬ ‫ک‬ ‫ی‬‫ا‬ ‫ا)‬ ‫ا‪:‬سچ‪:‬گرا‪:‬اڑ‬
‫ت‬
‫ف ی ش‬ ‫س‬ ‫ی‪:‬‬
‫ف‬ ‫ع‬ ‫(‬ ‫اگرا‬ ‫سن ی‬
‫ب‬ ‫ص‬ ‫م‬
‫ے۔گا دھی‬‫ں۔اس انالح کےئموج د ھی گا دھی ھف ف‬ ‫مزاحمت دو نوں نا ل ہ ی ق‬
‫ف‬‫ح‬ ‫عوامی ف ق‬
‫کے لس ہ عدم مدد اور ج ن‬ ‫ندھی غ‬ ‫گا‬
‫ے اس تکا سہارا ل ی تا۔ی ہ لس ہ‬
‫ک‬ ‫ل‬ ‫وق دالے کے‬
‫عم‬ ‫ن یے ب ر نص ی ر کی ٹآذادی کی ہمئ اور جوبی ا رین ہ می ں ہ ثدوست ا ی وں کو ف‬
‫ت‬
‫ے ہ ی ں۔‬‫ے پر ل پ یرا لوگوں کو س ی اگراہ ی ہ‬‫لسن م ڈی ال ‪،‬مار ن لو ھر اور ک ی سما ی کارک وں کو مت ا ر کر گ ی ا۔اس لس‬

‫رولٹ ای کٹ‬
‫ن‬ ‫ن ن قن‬ ‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫مارچ ‪1919‬ء‬ ‫‪18‬‬ ‫ے‬ ‫لی‬ ‫ہ‬‫د‬ ‫لی‬ ‫ب‬ ‫سم‬ ‫ا‬ ‫ساز‬ ‫ون‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫دو‬ ‫ہ‬ ‫کٹ‬ ‫ی‬‫ا‬ ‫رولٹ‬ ‫ن‬
‫عروف‬ ‫نم‬ ‫ل‬‫ا‬ ‫ء‬‫‪1919‬‬ ‫کٹ‬ ‫ی‬‫ا‬ ‫م‬‫ت‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫ج‬ ‫ی‬ ‫ال‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ارکی‬ ‫ا‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ش‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ب‬ ‫ب‬
‫س‬
‫دے کو حض قک و ب ہ کی ب ی اد پر ی ل می ں ڈاال ج ا کت ا ھا۔ اس‬ ‫حت کسی ق ھی ہ ندوست ا ی ب ا ق ن‬ ‫کے‬
‫کو پشاس ک ی ا جعمس ت‬
‫ب‬ ‫ل‬ ‫ح‬ ‫ب‬
‫ے‪.‬‬‫پر دی د رد ل ہ وا ھا۔ عض وں ے اسے "کاال ا ون" ھی رار دی ا ہ‬
‫ن‬
‫ج ل ی ا والہ ب اغ‬
‫جلیانوالہ باغ (‪( )Jallianwala Bagh‬ہندی‪ )जलियांवाला बाग :‬بھارت کی ریاست پنجاب کے‬
‫شہر امرتسر میں ایک عوامی باغ ہے۔ اس کی تاریخی اہمیت ‪ 13‬اپریل‪1919 ،‬ء کو ہونے والے‬
‫جلیانوالہ باغ قتل عام کے حوالے سے ہے۔‬

‫مقام امرتسر‪ ،‬پنجاب‪ ،‬بھارت‬


‫ت‬ ‫ت‬
‫حری ک عدم عاون‬
‫ت‬
‫ت‬
‫دی‪आन्दोलन( : ‬ن‪ : असहयोग‬س مب ر‬ ‫حر ک عدم ت عاون (‪ The Non-cooperation movement‬ہ ن‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن ن‬ ‫ہ‬
‫ت‬ ‫ی ت ف‬
‫ن اگرا طرز‬
‫ےس ی‬‫ے اپ‬ ‫کی پ لی کڑی ما یتج اے والی ی ہ حری ک‪ ،‬گا ق‬
‫دھی ن‬ ‫‪ )1922‬حری نک آزادی غ‬‫‪1920‬ء ا روری ت‬
‫ش‬
‫ہ‬ ‫ہ‬
‫سے روع ک ی ا۔ اس حری ک گا دھی دور کا آ از وا۔ اور اس حری ک کی سرب را ی ب ھارت ومی کا گریس ے کی۔‬
‫ن‬
‫چ وری چ ورا سا حہ‬
‫چوری چورا سانحہ ‪ 4‬فروری‪1922 ،‬ء کو تحریک خالفت کی حمایت میں لوگوں نے مشتعل ہو کر‬
‫اتر پردیش کے ضلع گورکھپور ایک گاؤں چوری چورا میں ایک تھانے کو آگ لگا دی جس میں‬
‫‪ 22‬سپاہی جل مرے۔ اس واقعے کو آڑ بنا کر کرگاندھی نے اعالن کر دیا کہ چونکہ یہ تحریک عدم‬
‫تشدد پر کار بند نہیں رہی اس لیے اسے ختم کیا جاتا ہے۔‬
‫چوری چورا‪ ،‬اتر پردیش میں گورکھپور کے قریب ایک قصبہ ہے جہاں ‪ 4‬فروری‪1922 ،‬ء کو‬
‫ہندوستانیوں نے برطانوی حکومت کی ایک پولیس چوکی کو آگ لگا دی تھی جس سے اس میں‬
‫چھپے ہوئے ‪ 22‬پولیس مالزم زندہ جل کے مر گئے تھے۔ اس واقعہ کو 'چوری چورا سانحہ' کے‬
‫نام سے جانا جاتا ہے۔‬

‫نتائج‬
‫اس واقعہ کے فوراً بعد گاندھی نے عدم تعاون تحریک کو ختم کرنے کا اعالن کردیا۔ بہت سے‬
‫لوگوں کو گاندھی کا یہ فیصلہ مناسب نہیں لگا۔ بالخصوص انقالبیوں نے اس کی براہ راست یا‬
‫بالواسطہ مخالفت کی۔ گوا کانگریس میں رام پرساد بسمل اور ان نوجوان ساتھیوں نے گاندھی کی‬
‫مخالفت کی۔ کانگریس میں كھنہ اور ان کے ساتھیوں نے رام پرساد بسمل کے ساتھ کندھے سے‬
‫کندھا مالكر گاندھی مخالف ایسا احتجاج کیا کہ کانگریس میں دو گروپ بن گئے ‪ -‬ایک اعتدال پسند‬

‫‪87 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫یا لبرل اور دوسرا باغی یا انقالبی۔ گاندھی باغی نظریے کے حامیوں کو کانگریس کے عام جلسوں‬
‫میں احتجاج کرنے کی وجہ سے ہمیشہ ہلڑباز کہا کرتے تھے۔‬
‫گاندھی نے عوامی سول نافرمانی کی مہم کے خاتمے کا اعالن کیا۔ گاندھی کے اس کام سے‬
‫تحریک خالفت کو نقصان پہنچا اور اتنی بڑی تحریک دم توڑ گئی ہندو مسلم اتحاد و اعتماد پارہ‬
‫پارہ ہو گیا۔‬
‫گاندھی نے جب ینگ انڈیا میں تین مضامین لکھے تو ‪ 10‬مارچ‪1922 ،‬ء کو گاندھی کو گرفتار کیا‬
‫گیا[‪ ،]1‬بغاوت کے لئے کوشش کے الزام میں چھ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ‪ 18‬مارچ‪1922 ،‬ء اس‬
‫سزا کا آغاز ہوا۔ انہیں پتھری کے آپریشن کے لیے ‪1924‬ء فروری میں رہا کر دیا گیا اس طرح‬
‫انہوں نے صرف ‪ 2‬سال تک ہی جیل کاٹی۔‬
‫کت‬
‫کاکوری ڈ ی ی‬
‫(کاکوری ٹرین ڈکیتی سے رجوع مکرر)‬
‫ت ت‬
‫ن‬ ‫ک‬
‫ن‬
‫ہ‬ ‫نق‬ ‫کت‬
‫س می ںلکہ ن دست انقکی آزادی کے چک ھ‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ھی‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ڈ‬ ‫ک‬ ‫ی‬‫ا‬ ‫والی‬ ‫ے‬
‫ن‬ ‫و‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ی‬‫ر‬ ‫الب‬
‫ق‬ ‫ا‬ ‫کاکوری‬
‫ت‬ ‫ا‬ ‫ی‬
‫ن ی‬ ‫کاکوری ڈ ی‬
‫ن‬
‫ے۔ ‪ 9‬اگست‬ ‫کے ری شب ہت‬ ‫ن‬ ‫ؤ‬ ‫ھ‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ھا‬ ‫ا‬ ‫آ‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫پ‬ ‫ان‬ ‫م‬‫در‬ ‫کے‬ ‫گر‬ ‫الم‬ ‫اور‬ ‫کاکوری‬ ‫عہ‬ ‫ٹ‬ ‫وا‬ ‫ہ‬ ‫ھا۔‬ ‫ا‬ ‫ل‬ ‫صہ‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫وں‬ ‫کارک‬
‫ہللا خن ان اور دی گر ا ق ال ی ام‬‫ی‬ ‫ئ ب سم ی ش ف‬ ‫ح ی ٹ ی ن‬
‫ے۔اس مینں‬‫ش‬ ‫ھ‬ ‫ل‬ ‫یپ‬ ‫اق‬‫ت‬ ‫ا‬ ‫‪،‬‬ ‫ل‬ ‫رساد‬ ‫پ‬ ‫رام‬ ‫ں‬ ‫م‬
‫ف ی‬‫والوں‬ ‫ے‬ ‫لو‬ ‫کو‬ ‫ن‬ ‫ر‬ ‫کی‬
‫ی ن ی‬ ‫زوں‬ ‫گر‬ ‫ا‬ ‫کو‬ ‫ء‬ ‫ت‬
‫‪1925‬‬ ‫ث‬
‫ے سے ای ک مسا ر کی موت ہ و ی ج ب کہ اس ڈکی ی کا م صوب ہ ہ ن دوست انبر بل ی کن ای سوسی ن ے‬ ‫گ‬ ‫ل‬ ‫گولی‬ ‫ر‬ ‫نحاد ت [‪ ]1‬پ‬
‫طور‬ ‫ی‬ ‫ا‬
‫ئ کش‬
‫ب ای ا ھا۔‬

‫سا من م ن‬
‫تعارف‬
‫گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ‪1919‬ء کی شق چوراسی ۔ اے کے تحت ‪1927‬ء میں تاج برطانیہ کی‬
‫طرف سے ایک شاہی فرمان کے ذریعے برطانوی ہند کے لیے ایک آئینی کمشن مقرر کیا گیا ۔ اس‬
‫وقت برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی برسراقتدار تھی۔ اور الرڈ برکن ہیڈ برطانیہ کے وزیراعظم‬
‫تھے۔ مذکورہ کمیشن کے چیئرمین چونکہ سر جان سائمن تھے اس لیے اسے عام طور پر سائمن‬
‫کمیشن کہتے ہیں۔ سائمن کمیشن میں شامل تمام اراکین چونکہ انگریز اور گورے تھے یہی وجہ ہے‬
‫کہ بعض ناقدین نے اسے ‪White Commission‬کا نام بھی دیا۔‬

‫مقاصد‬
‫سائمن کمیشن کے مندرجہ زیل مقاصد تھے‬
‫‪1‬۔ ‪1919‬ء میں انگریز سرکار کی طرف سے برطانوی ہند میں کی گئی اصالحات کا جائزہ لینا‬
‫‪2‬۔ مستقبل میں ہندوستانی حکومت کے ڈھانچے اور طرز کا تعین کرنا‬
‫‪3‬۔ ہندوستان میں ’’ذمہ دار حکومت‘‘ کی تشکیل کے بارے میں سفارشات مرتب کرنا‬

‫عوامی ردعمل‬
‫چونکہ سائمن کمیشن کے تمام اراکین انگریز تھے اسی وجہ سے برطانوی ہند سے عوام اور‬
‫سیاسی حلقوں میں احتجاج کی ایک لہر دوڑ گئی۔ برطانوی ہند کے تقریبا ً سبھی سیاسی پارٹیوں نے‬
‫اس کمشین کے بائیکاٹ کا اعالن کر دیا۔ بائیکاٹ کرنے والوں میں آل انڈیا کانگریس سنڑل خالفت‬
‫کمیٹی ‪ ،‬جمعیت العلمائے ہند ‪ ،‬جناح لیگ اورہندوستان کے لبرل رہنما شامل تھے‬
‫‪88 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫اس موقع پر آل انڈیا مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ گئی۔ پہال گروہ جناح لیگ دراصل اس کمیشن‬
‫سے بائیکاٹ کے حق میں تھی جب کہ شفیع لیگ کمیشن ہذا کے ساتھ تعاون کرنے کے حق میں‬
‫تھی۔‬

‫ہندوستان آمد‬
‫عوامی احتجاج اور بائیکاٹ کے باوجود ‪ 1928‬میں سائمن کمیشن نے ہندوستان کا دورہ کیا۔ لیکن‬
‫ہر جگہ ہندوستانیوں نے کالی جھنڈیوں اور احتجاجی نعروں سے اس کے سامنے مظاہرہ کیا۔ اور‬
‫’’سائمن واپس چلے جاؤ‘‘ ‪’’ ،‬ہم سائمن کمیشن کا بائیکاٹ کرتے ہیں‘‘ کے نعروں اور بینروں‬
‫سے مظاہرین نے کمیشن کے ارکان کو اپنے جذبات سے آگاہ کیا۔ بعض جگہوں پر عوام نے‬
‫احتجاجی جلسے کیے اور عوام اور پولیس کے درمیان جھڑپین بھی ہوئیں۔ ایک ایسی جھڑپ میں‬
‫جو الہور میں سائمن کمیشن کے دوسرے دورے کے موقع پر پیش آئی جب پولیس نے الٹی چارج‬
‫کیا اور ایک انگریز افسر نے جب ایک ہندو سیاسی رہنما ‪ ،‬چونسٹھ سالہ اللہ الچیت رائے جو‬
‫مظآہرین میں شامل تھے کے سینے پر ڈنڈے سے پے درپے وار کیے تو بعد میں اللہ نے اپنے‬
‫جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا‪:‬‬
‫’’ جوانوں میرے بڑھاپے کی الج رکھنا۔ آج میرے سینے پر جو سوٹیاں لگی ہیں میری خواہش ہے‬
‫کہ یہ برطانوی سامراجیت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں۔‘‘‬
‫جن لوگوں نے عوام کے جذبات کے برعکس سائمن کمیشن کے ساتھ تعاون کیا اور جگہ جگہ‬
‫گرمجوشی سے کمیشن کا استقبال کیا۔ ان میں نواب صاحبان ‪ ،‬خان بہادر صاحبان ‪ ،‬رائے بہادر‬
‫صاحبان ‪ ،‬سرکاری مالزمین اور انگریز سرکار کی طرف سے انعام یافتگان قابل ذکر ہیں۔ ان بااثر‬
‫شخصیات کی بدولت کمیشن ہذا نے ہندوستان کے مختلف حصوں کے نہ صرف دورے کیے بلکہ‬
‫مختلف لوگوں سے مالقاتیں اور ان کے انٹرویوز بھی کیے‬

‫سفارشات‬
‫سائمن کمیشن نے اپنی روپورٹ میں اہم سفارشات پیش کیں۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں۔‬
‫‪1‬۔ ہندوستان میں وفاقی طرز حکومت کی تشکیل‬
‫‪2‬۔ دو عملی نظام کا خاتمہ‬
‫‪3‬۔ صوبائی انتظامیہ کو صوبائی وزیروں ( جو صوبائی قانون ساز اسمبلی کے سامنے جوابدہ‬
‫تھے) کے سپرد کرنا۔‬
‫‪4‬۔ صوبائی سطحوں پر قانون ساز اداروں کو وسیع کرنا‬
‫‪5‬۔ حق رائے دہی کا دائرہ وسیع کرنا‬
‫‪6‬۔ وزراء کا انتخاب صوبائی گورنر کے صوابدید اور اسمبلی کے اندر جن اراکین کو اکثریت‬
‫حاصل ہو ‪ ،‬کی بنیاد پر کرنا‬

‫نتائج‬
‫سائمن کمیشن کی رپورٹ ‪ 7‬جون ‪1930‬ء کو شائع ہوئی۔ ہندوستان بھر میں مختلف حلقوں کی جانب‬
‫سے اس پر سخت تنقید اور اعتراضات کیے گئے۔ سائمن کمیشن کی رپورٹ کے بعد برطانوی‬
‫سرکار نے لندن میں گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا۔ اس کانفرنس کے تین دور ‪ 10‬نومبر ‪1930‬ء تا‬

‫‪89 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫‪ 24‬نومبر ‪1932‬ء تک منعقد ہوئے۔ ان کانفرنسوں کا بنیادی مقصد ہندوستان کے لیے ایک متفقہ‬
‫آئین تیار کرنا تھا۔‬
‫ن‬
‫مک مارچ‬
‫ڈنڈی مارچ یا نمک مارچ تحریک آزادی ہند کا اہم واقعہ ہے۔یہ مارچ ‪ 12‬مارچ ‪1930‬ء کو ہوا۔ ‪12‬‬
‫مارچ ‪ 1930‬کو گاندھی نے اپنے ‪ 80‬ستیہ گری ساحلی شہر ڈانڈی گجرات کی طرف پیدل مارچ‬
‫کیا۔ یہ مارچ ‪ 390‬کلو میٹر (‪ 240‬میل) تھا۔ نمک مارچ کو وائٹ فلوئنگ ریور(‪White Flowing‬‬
‫‪ )River‬بھی کہا جاتا ہے‪ ،‬کیونکہ اس مارچ میں شریک سب افراد نے سفید کھدر پہنی ہوئی تھی۔‬
‫کرپس مشن‬
‫ش‬
‫کرپس م ن‬
‫عالمی سطح پر دوسری جنگ عظیم کے کئی ایک نتائج برآمد ہوئے ۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی‬
‫بڑے پیمانے پر سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ جنگ کے آغاز پر جب انگریزوں نے جرمنی کے‬
‫خالف اعالن جنگ کرکے اور ہندوستان کو بالواسطہ طور پر اس میں ملوث کیا تو انگریز کے اس‬
‫اقدام کے نتیجے میں کانگریسی وزارتیں مستعفی ہوئیں۔‬
‫دسمبر ‪1940‬ء میں جاپان جرمنی کی طرف سے جنگ میں کود پڑا جس سے جنگ کا نقشہ یکسر‬
‫تبدیل ہوا۔ جاپان کے پے درپے حملوں اور کامیابیوں سے جنوب مشرقی ایشیاء جاپانیوں کے ہاتھ‬
‫لگا اور اس کے ایک ماہ بعد رنگون پر بھی جاپانیوں کا قبضہ ہو گیا۔ اب وہ ہندوستان کی سرحدوں‬
‫پر دستک دینے والے تھے۔ جاپانیوں کے ان پے درپے کامیابیوں نے ہندوستان میں انگریزوں پر‬
‫عرصہ حیات تنگ کر دیا ۔ان کی سلطنت کی بنیادیں متزلزل ہونے لگیں۔ کیونکہ ایک طرف ان کو‬
‫جاپانیوں کا سامنا تھا تو دوسری طرف ہندوستان کے اندرونی حاالت بھی سازگار نہ تھے۔‬
‫کانگریسی وزارتیں احتجاجا ً مستعفی ہو گئیں تھیں۔ مسلم لیگ نے قرارداد الہور کے ذریعے اپنے‬
‫لیے ایک عالحدہ منزل مقصود کا تعین کیا تھا۔ جاپانیوں کا بہاؤ روکنے کے لیے انگریزوں کو‬
‫ہندوستانیوں کے تعاون اور مدد کی اشد ضرورت تھی۔ اس خیال کے پیش نظر حکومت برطانیہ‬
‫نے اپنے رویے میں تھوڑی نرمی اور لچک پیدا کردی ۔‬

‫کرپس مشن‬
‫مذکورہ حاالت کے پیش نظر برطانوی وزیراعظم چرچل نے مارچ ‪1942‬ء میں سر سٹیفورڈ کرپس‬
‫کو ایک اہم مشن پر ہندوستان بھیجا۔ یہ مشن ’’کرپس مشن‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔کرپس مشن‬
‫نے جو منصوبہ پیش کیا اس کے اہم نکات مندرجہ ذیل تھے۔‬
‫‪ 1‬۔ جنگ کے خاتمے پر ایک کمیٹی منتخبہ کو ہندوستان کے لیے نیا آئین نانے کی ذمہ داری سونپ‬
‫دی جائے گی۔‬
‫‪ 2‬۔ مجوزہ آئین کے مطابق کوئی بھی صوبہ یا صوبے اگر چاہیں تو ہندوستان کی یونین سے الگ‬
‫ہوسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے ایک عالحدہ حکومت کا قیام عمل میں السکتے ہیں۔‬
‫‪3‬۔ جنگ کے دوران موجودہ آئین میں کوئی بڑی تبدیلی نہ ہوگی اور ہندوستان کی دفاع انگریز‬
‫حکومت کی ذمہ داری ہوگی ۔ کوشش کی جائے گی کہ ہندوستان کی بڑی بڑی قومیتوں کے زعماء‬
‫کو ملکی کونسلوں ‪ ،‬دولت مشترکہ اور اقوام متحدہ میں فوری اور مؤثر طریقے سے شرکت دالئی‬
‫جائے۔‬

‫ردعمل‬
‫‪90 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫کانگریس نے کرپس مشن کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ اور فوری طور پر ملک میں کانگریس‬
‫کی خودمختار حکومت تشکیل دینے کا مطالبہ کر دیا۔ مسلم لیگ نے بھی کرپس مشن کے منصوبے‬
‫کو اس جواز پر مسترد کر دیا کہ اس میں مسلمانوں کے لیے ایک عالحدہ مملکت کے قیام کے لیے‬
‫کوئی ٹھوس ضمانت نہیں دی گئی تھی۔‬
‫کرپس مشن کی ناکامی کے بعد کانگریس نے ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کی تحریک کا نعرہ بلند کیا۔‬
‫اور ساتھ ہی سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا بھی عندیا دیا اس پر برطانوی حکومت‬
‫مشتعل ہوگئی اور کانگریس کے سرکردہ رہنماؤں کو پابند سالسل کردیا۔ جس سے ملکی سیاسی‬
‫فضا اور بھی مکدر ہوگئی اور پورے برصغیر میں تشدد کے واقعات کا آغاز ہوا۔ مسلم لیگ نے‬
‫اس تحریک میں حصہ نہیں لیا‪،‬کیونکہ بقول قائداعظم اس تحریک کا مقصد نہ صرف انگریزی‬
‫حکومت کو اس پر مجبور کرنا ہے کہ وہ کانگریس کو اختیارات منتقل کردے بلکہ اس کا مطلب یہ‬
‫بھی بنتا ہے کہ ہم اپنے لوگوں سے کہہ دیں کہ وہ کانگریس کے آگے اپنا ہتھیار ڈال دیں۔‬
‫یہی وہ وقت تھا جب آل انڈیا مسلم لیگ قائداعظم کی قیادت میں اپنی سیاست کے فیصلہ کن مرحلے‬
‫میں داخل ہوتی ہے۔ قائداعظم کی سیاست ہند کے اُفق پر عروج کو چھوتی ہے۔ لیگ اور انگریزوں‬
‫کے درمیان گہری مفاہمت جنم لیتی ہے جس کے نتیجے میں انگریزوں کی سوچ میں مسلمانان ہند‬
‫کے لیے کافی مثبت تبدیلی رونما ہوتی ہے۔‬
‫ت‬
‫ہ ن دوست ان چ ھوڑ دو حری ک‬
‫ہندوستان چھوڑدو تحریک (انگریزی‪ ، Quit India Movement:‬ہندی‪भारत छोड़ो आन्दोलन:‬‬
‫تلفظ‪:‬بھارت چھوڑو آندولن)‪ ،‬برصغیر پاک وہند میں چلنے والی ایک تحریک کو کہا جاتا ہے جس‬
‫کا آغاز مہاتما گاندھی نے کیا۔ یہ انڈین نیشنل کانگریس کی تحریک تھی جس کا مقصد سول‬
‫نافرمانی کر کے انگریز سرکار کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا۔کرپس کی تجاویز غیر‬
‫موثر ہوچکی تھیں۔ کانگریس نے انگریز سرکار کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوری طور‬
‫پر انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے کا الٹی میٹم دیا۔ مہاتما گاندھی نے ‪ 8‬اگست ‪1942‬ء کو اپنے‬
‫خطاب میں کہا کرو یا مرو‪ ،‬مہاتما گاندھی کے سخت بیان کے بعد کانگریس نے احتجاجی ریلیاں‬
‫نکالیں اور انگریزوں سے ہندوستان چھوڑنے کا مطالبہ کیا[‪]1‬۔ان سب چیزوں کا برطانوی حکومت‬
‫نے سخت نوٹس لیا یہاں تک کہ مہاتما گاندھی سمیت کئی کانگریسی لیڈران گرفتار کیے گئے۔‬
‫مسلم لیگ نے اس تحریک کی کوئی حمایت نہیں کی اور نہ ہی اس تحریک میں کانگریس ساتھ دیا۔‬
‫مسلم لیگ کے پارٹی بیان میں کہا گیا کہ مسلم لیگ کانگریس کو اس بات کی اجازت نہیں دے گی‬
‫بزور دست حکومت پر مسلط کرے اور اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ انگریز‬ ‫ِ‬ ‫کہ وہ اپنی شرائط‬
‫سرکار کو بھی اجازت نہیں دے گی کہ وہ ہندوستان کو تقسیم کیے بغیر ہندوستان چھوڑ کر جائے۔‬

‫آری ہ سماج‬
‫ے ‪1875‬ء م ں رکھی۔ اس کے روکار عام ہ ن‬ ‫نن ن‬ ‫ن‬ ‫ف ق‬
‫دوؤں کی طرح‬
‫ن‬ ‫ج پی‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫ا‬ ‫ی‬‫د‬‫ن‬‫سوامی‬
‫ق‬ ‫اد‬ ‫ی‬ ‫ف‬ ‫ب‬ ‫کی‬ ‫س‬ ‫ج‬ ‫ہ‪،‬‬ ‫ر‬
‫ن‬ ‫ک‬‫ہ ن دو مذہ تب کا ای ق ئ‬
‫ں۔ اس رے ے ہ ن دوؤں می ں ب ہت سی مذہ ب ی اور سما ی اصالحات کی ں۔ کاح‬ ‫ش‬ ‫ب ت پرس ی کے ا ل ن ہی‬
‫ے۔‬ ‫ب یوگان کا حامی اور کم س ی کی ادیوں کا مخ الف ہ‬

‫آزاد ہ ن د‬

‫‪91 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫‪Provisional Government‬‬
‫ض‬
‫‪of Free India‬‬
‫عار ی حکومت آزاد ہ ن د (‪Provisional Government of‬‬
‫‪( )Free India‬ہ ن دی‪आर्ज़ी हुक़ूमत-ए-आज़ाद :‬‬
‫ن ن‬ ‫ض‬ ‫ت‌ آزاد ہند‬
‫عارضی حکوم ِ‬
‫ح‬
‫‪ ;हिन्द‬اردو‪ :‬عار ی ضکوم ِت‌ آزاد ہ ت د; ی پ الی‪)आजाद हिन्द :‬‬ ‫‪Ārzī Hukūmat-e-Āzād‬‬
‫قہ نئ دوست ئان کی ای ک عار ی حکومت تھی ج و ‪1943‬ء می ں سن گاپور می ں‬ ‫‪Hind‬‬
‫ے ج اپ ان کی حمای ت حاصل ھی۔‬
‫ا م ہ و ی جس‬
‫ن‬ ‫ت‌ زیر حمایت‬
‫عارضی حکوم ِ‬
‫ا ڈی ن ہ وم رول ل ی گ‬ ‫جاپان‬
‫تن ت‬ ‫غ ق‬ ‫←‬ ‫‪1945–1943‬‬ ‫→‬
‫ے‬ ‫ومی س ی تاسی ظ ی م ت ھی جس‬ ‫کی‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫ص‬ ‫ر‬ ‫ب‬ ‫ک‬ ‫ی‬‫ا‬ ‫گ‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫رول‬
‫ن‬ ‫وم‬‫ن‬ ‫ان نڈی ن ہ‬
‫م‬ ‫ن‬ ‫ع تن‬ ‫ای ی ب ی س ٹ ق ئ‬
‫ل کر‬ ‫ے دمحم لی ج ناح اور بم قال گ نگا دھر لک سا ھ خ‬
‫‪1916‬نء تمی ں ا م ک ی ٹا۔ اس نظ ی م نکا صد ہ ن دوست ان کون ای ک ب اا ت‬
‫ق ی ار‬ ‫خ‬
‫ے ب رطا وی عالے‬ ‫ت طہ ب ن ا ا ھا ج یسا کہ آس ری ل ی ا‪ ،‬ک ی ی ڈا‪ ،‬ی وزی لی ڈ ج ی س‬
‫ے۔‬ ‫ھ‬
‫ن ف‬ ‫نشان‬
‫ترانہ‬
‫پرچم‬

‫آزاد ہ د وج‬ ‫شبھ سکھ چین‬

‫آزاد ہند فوج‬ ‫ہلکا سبز‪ :‬دعوی عالقہ‬


‫‪August 1942 – September‬‬ ‫فعالیت‬ ‫گہرا سبز‪ :‬عالقہ پر کنٹرول (جاپانی‬
‫معاونت سے)‬
‫‪1945‬‬
‫پورٹ بلیئر‬ ‫دارالحکومت‬
‫بھارت‬ ‫ملک‬
‫(عارضی)‬
‫وفاداری آزاد ہند‬ ‫رنگون‬ ‫جالوطن پایۂ‬
‫پیادہ‬ ‫شاخ‬ ‫سنگاپور‬ ‫تخت‬

‫گوریال پیادہ ‪ ،‬خصوصی فوجی نقل‬ ‫کردار‬ ‫ہندوستانی‬ ‫زبانیں‬


‫و حمل‬ ‫عارضی‬ ‫حکومت‬
‫‪)approx( 43,000‬‬ ‫حجم‬ ‫حکومت‬
‫اعتماد ‪ ،‬اتحاد اور قربانی‬ ‫شعار‬ ‫سربراہ ریاست‬
‫(‪Unity, Faith and Sacrifice‬‬ ‫‪ 1945–1943 - ‬سبھاش چندر‬
‫‪ in‬اردو)‬ ‫بوس‬
‫قدم قدم بڑھائے جا‬ ‫راہ‬ ‫وزیر اعظم‬
‫پیمائی‬
‫‪ 1945–1943 - ‬سبھاش چندر‬
‫التزامات جنگ عظیم دوم‬ ‫بوس‬
‫برما مہم‬ ‫‪‬‬ ‫دوسری جنگ‬ ‫تاریخی دور‬
‫‪ o‬جنگ ِ‪Ngakyedauk‬‬ ‫عظیم‬
‫‪ o‬جنگِ امپھال‬
‫‪ o‬جنگِ کوہیما‬ ‫‪ 21‬اکتوبر‬ ‫‪ - ‬قیام‬
‫‪ o‬جنگِ پوکوکو‬ ‫‪1943‬‬
‫‪92 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫‪ 18‬اگست ‪1945‬‬ ‫‪ - ‬اختتام‬
‫روپیہ‬ ‫سکہ‬
‫جنگِ مرکزی برما‬ ‫‪o‬‬

‫سربراہان (کمانڈر)‬
‫سبھاش چندر بوس‬ ‫سربرا ِہ‬
‫جشن‪ ‬‬
‫ب جامع موہن سنگھ دیب‬ ‫قاب ِل ذکر منص ِ‬
‫سربراہان‬
‫جامع اکبر محمد زمان کیانی‬
‫ب‬
‫جامع اکبر شاہ نواز خان (منص ِ‬
‫جامع)‬
‫کرنل پریم سہگل‬
‫کرنل شوکت ملک‬
‫کرنل گنپت رام نگر‬
‫ئ‬
‫خ دا ی خ دمت گار‬
‫خدائی خدمتگار آزادی کی ایک تحریک جو عدم تشدد کے فلسفے پر برطانوی راج کے خالف صوبہ‬
‫خیبر پختونخوا کے پشتون قبائل نے شروع کی تھی۔ اس تحریک کی سربراہی خان عبدالغفار خان نے کی‬
‫[‪]1‬‬
‫جو مقامی طور پر باچا خان یا بادشاہ خان کے نام سے جانے جاتے تھے۔‬
‫بنیادی طور یہ تحریک پشتون عالقوں میں سماجی و فالحی کاموں کے لیے ترتیب دی گئی تھی جس کا‬
‫مقصد تعلیم بارے شعور اور خوں ریزی کے خالف آگاہی پیدا کرنا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ سیاسی‬
‫رنگ میں ڈھلتی گئی اور کئی بار برطانوی راج کے زیر عتاب آئی۔ ‪1929‬ء تک اس تحریک کے تمام‬
‫راہنما صوبہ بدر کر دیے گئے اور مرکزی راہنما گرفتار کر لیے گئے۔ سیاسی حمایت حاصل کرنے کے‬
‫لیے اس تحریک کے راہنماؤں نے آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس سے رابطے بھی قائم‬
‫کیے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت نہ ملنے پر اس تحریک نے باقاعدہ طور پر ‪1929‬ء میں انڈین نیشنل‬
‫کانگریس سے الحاق کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ کانگریس کی حمایت کے بعد برطانوی حکام پر سیاسی طور‬
‫پر دباؤ میں اضافہ ہو گیا‪ ،‬دوسری طرف مسلم لیگی رہنماؤں نے بھی اخالقی طور پر سیاسی قیدیوں کی‬
‫حمایت شروع کر دی جس کے بعد خان عبدالغفار خان کو رہا کر دیا گیا اور تحریک پر عائد پابندیوں کا‬
‫خاتمہ کر دیا گیا۔ تعزیرات ہند ‪1935‬ء کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی چھوٹے پیمانے پر‬
‫انتخابی عمل شروع کیا گیا اور اسی کے بعد ‪1937‬ء میں منعقد ہوئے انتخابات میں خان عبدالغفار خان‬
‫کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر ٰ‬
‫اعلی منتخب ہوئے۔‬
‫خدائی خدمتگار تحریک کو ‪1940‬ء کے بعد ایک بار پھر برطانوی راج کے زیر عتاب آنا پڑا کیونکہ اس‬
‫تحریک نے “ہندوستان چھوڑ دو“ تحریک میں نہایت شدت پیدا کی۔ اس دور میں خدائی خدمتگار تحریک‬
‫کو صوبہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ‪1946‬ء میں خدائی خدمتگار تحریک‬
‫نے کانگریس کی اتحادی کے طور پر انتخابات میں حصہ لیا اور بھاری کامیابی حاصل کی‪ ،‬گو کہ اس‬
‫تحریک کو مسلمانوں کی تحریک پاکستان کے نمائندگان کی جانب سے انتہائی شدید مخالفت کا سامنا تھا۔‬
‫حکومت برطانیہ کے ہندوستان میں خاتمے اور حکومت کی منتقلی کے مذاکرات کے دوران کانگریس‬
‫اس بات پر رضامند ہو گئی کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں ریفرنڈم کے ذریعہ فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ‬
‫ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کر دیں۔ کانگریس کو اس بات کا یقین تھا کہ خدائی خدمتگار تحریک‬
‫کی حمایت کی وجہ سے وہ نہایت آسانی سے اس ریفرنڈم میں صوبہ خیبر پختونخوا کو ہندوستان میں‬
‫شامل کروا سکیں گے‪ ،‬مگر خدائی خدمتگار تحریک نے ریفرنڈم میں حصہ لینے سے انکار کردیا‪ ،‬جس‬
‫کی وجہ سے صوبہ کا الحاق پاکستان سے ممکن بنایا جا سکا۔‬
‫‪93 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫قیام پاکستان کے فوراً بعد غیر متوقع طور پر خدائی خدمتگار تحریک کو نئی پاکستانی حکومت کے زیر‬
‫عتاب آنا پڑا۔ خدائی خدمتگار تحریک کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا اور اس تحریک پر پابندی عائد‬
‫کر دی گئی۔‬

‫خدائی خدمتگار تحریک سے پہلے کے حاالت‬


‫بیسیوں صدی سے پہلے پشتون معاشرہ نہایت جنگجو‪ ،‬غیر مساوی‪ ،‬بنیاد پرست‪ ،‬سماجی بگاڑ‪،‬‬
‫جہالت اور غیر تعلیم یافتہ بنیادوں پر استوار تھا۔ [‪ ]2‬تعلیم کے مواقع نہایت محدود تھے۔ یہاں آباد‬
‫تمام پشتون قبائل مسلمان تھے اور معاشرے پر مذہب کی چھاپ واضع تھی‪ ،‬معاشرے پر مساجد‬
‫کے امام جو مولوی کہالتے تھے کی گرفت نہایت مضبوط تھی۔ تعلیم حاصل کرنا اور خاص طور‬
‫پر انگریزی طرز پر قائم سرکاری مدرسوں میں بچوں کا تعلیم حاصل کرنا جہنم واصل ہونے سے‬
‫منسوب کر دیا گیا تھا۔ خان عبدالغفار خان کے مطابق‪“ ،‬تعلیم بارے اس تمام پروپیگنڈہ کا مقصد‬
‫پشتونوں کو غیر تعلیم یافتہ اور جہالت میں غرق رکھنا تھا‪ ،‬اسی وجہ سے یہاں کی آبادی ہندوستان‬
‫میں سب سے زیادہ پسماندہ تصور کی جاتی ہے‪ ،‬افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ مولوی انگریز‬
‫سرکار کی منشاء پر یہ کام کر رہے ہیں۔“ [‪ ]3‬وہ اپنی اسی کتاب میں لکھتے ہیں کہ “چونکہ یہاں‬
‫اسالم کو آئے کافی عرصہ بیت چکا ہے‪ ،‬اسالمی تعلیمات اپنی اصل شکل سے مسخ ہو چکی ہیں“۔‬
‫[‪]4‬‬

‫تحریک کا منبع‬
‫پشتونوں کی سماجی اصالح واسطے چالئی گئی تحریک جو “انجمن اصالح افغان“ کہالتی ہے‪،‬‬
‫اس تحریک کا ابتدائی مقصد سماجی بگاڑ کی اصالح اور جسم فروشی کے خالف آواز اٹھانا تھا۔‬
‫خان عبدالغفار خان جو اس تحریک کے بانی تھے‪ ،‬اس بات سے آگاہ تھے کہ جب بھی برطانوی‬
‫حکومت نے تحاریک کو کچلنے کی ٹھانی ہے تو براہ راست افواج کا استعمال کیا ہے‪ ،‬اگر‬
‫برطانوی حکومت کو اس حوالے سے مکمل کامیابی حاصل نہیں بھی ہوتی‪ ،‬پھر بھی ان کی اس‬
‫تحریک کو جزوی نقصان بھی خاصہ مہنگا پڑ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے خان عبدالغفار خان نے اس‬
‫تحریک کو مجموعی طور پر عدم تشدد کے فلسفے سے جوڑنے کا فیصلہ کیا۔‬
‫یہ تحریک قصہ خوانی بازار پشاور میں ہوئے فسادات سے پہلے شروع کی گئی تھی جب اس‬
‫تحریک کے سینکڑوں غیر مسلح حامیوں پر برطانوی فوجیوں نے کھلے عام گولی چالئی۔ اس‬
‫واقعہ کے بعد اس تحریک کو پشتون حلقوں میں کافی پذیرائی ملی‪ ،‬یہ نقصان شاید اس نقصان سے‬
‫کہیں کم تھا جو ‪1947‬ء میں پاکستان کے قائم ہونے کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا کے مسلم لیگی‬
‫اعل ی عبدالقیوم خان نے اس تحریک کو گرفتاریوں اور سرکاری تحویل میں تشدد کے ذریعے‬ ‫وزیر ٰ‬
‫پہنچایا۔ اس تحریک پر پابندی عائد کرنے کے عالوہ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور مشہور بابرہ‬
‫قتل عام دراصل اس تحریک کو پہنچنے واال ناقابل تالفی نقصان تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس‬
‫تحریک کو اپنے جوبن کے زمانے میں تقریبا ً ‪ 100000‬غیر مسلح سرخ پوشوں کی حمایت حاصل‬
‫تھی۔‬
‫بینر جی مکولیکا جو “غیر مسلح پٹھان“ کے مصنف ہیں‪ ،‬ان کے مطابق‪“ ،‬خدائی خدمتگار تحریک‬
‫مقامی طور پر چالئی جانے والی نہایت اثر انگیز تحریک تھی‪ ،‬اس تحریک کے دو بنیادی اجزاء‬
‫تھے‪ ،‬اسالم اور پشتونولی۔ عدم تشدد کا فلسفہ دراصل اسالم اور پشتونولی کی اصل روح سے‬
‫مالپ کھاتا تھا اور یہی اس تحریک کی برطانوی راج کے دوران کامیابی کی ضمانت بھی بن گیا“۔‬

‫تحریک کی اٹھان‬
‫تحریک کے ابتدائی دور میں سماجی اصالح اور پشتونوں کی برطانوی سامراج کے سامنے اہمیت‬
‫واضع کرنا دو اہم ستون تھے۔ خان عبدالغفار خان نے خدائی خدمتگار تحریک کو باقاعدہ شروع‬
‫کرنے سے پہلے مقامی طور پر دوروں‪ ،‬جلسوں اور مباحثوں کے ذریعے اپنے نکتہ نظر کو نہایت‬
‫‪94 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫خوب انداز میں پشتون حلقوں میں منوا لیا تھا۔ انجمن اصالح افغان کے نام سے شروع ہونے والی‬
‫یہ تحریک مختلف شاخوں پر مشتمل تھی‪ ،‬جن میں سب سے زیادہ اثرانداز ہونے والی شاخیں‬
‫“انجمن زمینداران“ اور “نوجوان تحریک برائے پشتون جرگہ“ تھیں جو ‪1927‬ء میں قائم کی گئیں۔‬
‫‪1928‬ء میں پشتون مسائل اور سماجی اصالحات کو اجاگر کرنے کے لیے خان عبدالغفار خان نے‬
‫ایک میگزین “پختون“ کے نام سے جاری کیا۔ ‪1929‬ء میں قصہ خوانی بازار پشاور میں ہوئے قتل‬
‫عام کے بعد‪ ،‬اسی شام کو خان عبدالغفار خان نے انجمن اصالح افغان کو خدائی خدمتگار تحریک‬
‫[‪]1‬‬
‫میں ضم کرنے اور اس کے سیاسی مقاصد کی نشاندہی کا اعالن کر دیا۔‬

‫"سرخ پوش"‬
‫خان عبدالغفار خان نے اس تحریک میں بھرتیوں کے لیے سب سے پہلے ان نوجوانوں کو ترجیح‬
‫دی جو کہ مدارس سے فارغ التحصیل ہو چکے تھے۔ یہ نوجوان تربیتی مراحل سے گزرتے تھے‬
‫اور خاص لباس زیب تن کرتے اور مکمل طور پر تحریک سے وابستہ تھے۔ گاؤں گاؤں جا کر‬
‫تحریک کا پیغام پہنچانا اور نئی بھرتیاں ممکن بنانا ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔ پہلے تحریک‬
‫کے لیے سفید لباس کا انتخاب کیا گیا‪ ،‬لیکن یہ لباس سفر کی وجہ سے جلد میال ہو جاتا تھا۔ مقامی‬
‫طور پر رضاکاروں نے اپنے لباسوں کو اول ہلکے اینٹ کے رنگ جیسے رنگنا شروع کر دیا اور‬
‫پھر باقاعدہ طور پر اینٹ کا گہرا رنگ لباس پر استعمال کیا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ پشتون حلقوں میں‬
‫یہ رضا کار “سرخ پوش“ کے نام سے مشہور ہو گئے۔‬

‫تحریک کی تنظیمی ساخت‬


‫اس تحریک میں شامل ہونے والے رضاکاروں کو بنیادی تربیت فراہم کی جاتی تھی اور ان کی‬
‫فوجی طرز پر پالٹون بنائی جاتی تھیں۔ ہر پالٹون کی سربراہی چیدہ شخصیت کے ہاتھ میں ہوتی‬
‫تھی اور ان رضا کاروں کو بنیادی فوجی تربیت بھی فراہم کی جاتی تھی۔ ان رضاکاروں کے پاس‬
‫اپنے اپنے جھنڈے ہوتے تھے جو پہلے تو سرخ رنگ‪ ،‬پھر تین رنگی لیکن حتمی طور پر سرخ‬
‫رنگ کے جھنڈے ان کی پہچان بن گئے۔ مرد سرخ جبکہ خواتین کاال لباس پہنتی تھیں۔ فوجی طرز‬
‫پر ہر پالٹون کا اپنا جھنڈا‪ ،‬بیج‪ ،‬نشانی اور نعرہ بھی مختص ہوا کرتا تھا۔‬
‫خان عبدالغفار خان نے کئی ذیلی کمیٹیاں بھی تشکیل دیں جو کہ جرگہ کہالتی تھیں۔ جرگہ دراصل‬
‫پشتون معاشرے میں روایتی قبائلی کمیٹی کو کہا جاتا ہے۔ گاؤں کی سطح پر قائم تنظیمیں مل کر‬
‫بڑی تنظیمیں بناتیں تھیں جو کہ ضلعی سطح پر قائم کمیٹیوں یا جرگوں کو جوابدہ ہوتی تھیں۔‬
‫صوبائی جرگہ اس تحریک کا تنظیمی مرکز تھا اور اس میں شامل ارکان ذیلی قصباتی اور گاؤں‬
‫کے جرگوں سے نامزد کیے جاتے تھے۔ خان عبدالغفار خان صوبائی جرگہ اور تحریک کے‬
‫سربراہ تھے۔‬
‫پالٹون کے افسران یا سربراہان منتخب نہیں کیے جاتے تھے‪ ،‬اس کی وجہ پشتون قبائل میں اس‬
‫طرز پر ہونے والی چپقلشوں اور اختالفات کا ہونا تھا۔ خان عبدالغفار خان نے اس رکاوٹ سے‬
‫بچنے کے لیے ساالر اعظم مقرر کیا جو کہ اپنے لیے ذیلی افسران نامزد کرتا تھا۔ اس کے عالوہ‬
‫جرنیل بھی مقرر کیے جاتے تھے۔ یہ تمام عہدے رضاکارانہ ہوتے تھے‪ ،‬افسران‪ ،‬جرنیل‪ ،‬ساالر‪،‬‬
‫جرگے کے ارکان اور تحریک کا سربراہ بھی تحریک کے لیے یکسوئی سے کارکنوں کے شانہ‬
‫بشانہ کام کرتا اور ماہانہ چندہ دینے کا پابند ہوتا۔ اس تحریک میں خواتین کو بھی بھرتی کیا جاتا تھا‬
‫جنھوں نے خواتین میں سماجی بہتری اور تحریک کے مقصد کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا‬
‫کیا۔‬
‫اس تحریک کے رضا کار گاؤں گاؤں جاتے اور وہاں مدرسے قائم کرتے‪ ،‬سماجی خدمات اور‬
‫کھیتوں میں کام کرتے۔ عوامی اجتماعات کا انعقاد کرتے اور وقتا فوقتا ً تربیتی مشقیں اور پہاڑوں‬
‫میں فوجی طرز کے مارچ پاسٹ کا انعقاد کرتے۔‬
‫ن‬
‫ظ ری ہ‬

‫‪95 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫خان عبدالغفار خان کی سربراہی میں اس تحریک نے عدم تشدد کے فلسفے پر گامزن رہتے ہوں‬
‫اسالمی تعلیمات کے عین مطابق سماجی خرابیوں کے خالف اور پشتون حقوق کے لیے آواز‬
‫اٹھائی۔ مسلمان پشتون کے حقوق کی آواز اٹھائے اس تحریک نے کئی موقعوں پر جب پشاور میں‬
‫ہندوؤں اور سکھوں پر برطانوی افواج نے تشدد کیا‪ ،‬خدائی خدمتگار تحریک کے رضاکاروں نے‬
‫امدادی کاروائیاں جاری کیں۔‬
‫“نبی پاک صلی ہللا علیہ وسلم نے اس دنیا میں آکر ہمیں یہ سکھایا ہے کہ‪“،‬مسلمان وہ شخص ہے‬
‫جس کسی کو بھی زبان یا اپنے فعل سے نقصان نہ پہنچائے اور وہ خدا کی بنائی مخلوقات کے لیے‬
‫فائدہ اور خوشی کا پیغام الئے۔ خدا کی زات پر ایمان دراصل اس کے پیدا کیے ہوئے انسانوں سے‬
‫محبت کا دوسرا نام ہے“۔۔خان عبدالغفار خان‬
‫“مسلمان یا پشتون کو عدم تشدد کا حامی سمجھتے ہوئے مجھے کوئی عار محسوس نہیں ہوتے۔ یہ‬
‫کوئی نیا فلسفہ نہیں ہے‪ ،‬بلکہ یہ تو چودہ سو سال پہلے نبی پاک صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فتح‬
‫مکہ میں ثابت کر دیا تھا‪ ،‬ہم دراصل نبی کریم کی سنت پر عمل کر رہے ہیں“۔۔خان عبدالغفار خان‬

‫تحریک کے خالف برطانوی‪ /‬راج کے حربے‬


‫برطانوی افواج خدائی خدمتگار تحریک کے خالف کئی حربوں کا استعمال کرتی رہی‪،‬‬
‫“برطانوی فوجی ہمیں تشدد کا نشانہ بناتے‪ ،‬ہمیں انتہائی سرد موسم میں تاالبوں میں گھنٹے ڈبوئے‬
‫رکھتے‪ ،‬داڑھیاں مونڈ ھ دیتے لیکن اس کے باوجود خان عبدالغفار خان نے ہمیں اور دوسرے‬
‫کارکنان کو بتا رکھا تھا کہ کسی بھی صورت صبر کا دامن نہیں چھوڑنا۔ باچا خان کہا کرتے تھے‬
‫کہ تشدد کا کوئی جواب صرف یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر تشدد ہو‪ ،‬لیکن یاد رکھو کہ عدم تشدد کو‬
‫کوئی فتح نہیں کر سکتا۔ تم عدم تشدد کے فلسفہ اور اس سے جڑے صبر کو قتل نہیں کر سکتے‪ ،‬یہ‬
‫ہمیشہ بڑھتا ہی رہتا ہے۔ کئی موقعوں پر برطانوی فوجی ہم پر اپنے گھوڑے اور گاڑیاں چڑھا‬
‫دیتے مگر ہم منہ میں چادریں ڈال کر اسے بھینچ لیتے تاکہ ہماری آہیں باہر نہ نکلیں۔ گو ہم انسان‬
‫تھے‪ ،‬مگر ہمیں اپنے زخموں اور کمزوریوں کو واضع کرنے کی اجازت نہ تھی۔“ ‪ --‬مشرف دین‬
‫(سرخ پوش)۔‬

‫ایک اور حربہ جو کہ غیر مسلح اور عدم تشدد کا پرچار کرنے والے سرخ پوشوں کے خالف‬
‫راستہ بند کرنے کے دوران آزمایا جاتا تھا وہ جلوس پر گاڑیاں اور گھوڑوں کے ذریعے چڑھائی‬
‫کرنا ہوتا تھا۔ ‪1930‬ء میں ایک موقع پر گھروال رائفلز کے سپاہیوں نے غیر مسلح خدائی‬
‫خدمتگاروں پر گولی چالنے سے انکار کردیا۔ اس حکم عدولی کے بعد رجمنٹ کی جانب سے لندن‬
‫کو براہ راست یہ پیغام بھجوایا گیا کہ ہندوستان کی فوج کسی بھی ناخوشگوار موقعہ اور جنگ میں‬
‫قابل بھروسہ تصور نہیں کی جا سکتی۔ ‪1931‬ء تک خدائی خدمتگار کے ‪ 5000‬جبکہ گانگریس‬
‫[‪]5‬‬
‫کے ‪ 2000‬اراکین کو گرفتار کیا جا چکا تھا۔‬
‫‪1932‬ء میں خدائی خدمتگار تحریک نے نئے طور سے اپنی جدوجہد کو استوار کیا۔ اس بار‬
‫خواتین کو مرکزی کردار دیا گیا۔ سماجی روایات کے عین مطابق خواتین کی تضحیک اور ان سے‬
‫بدتمیزی نہایت برا خیال کیا جاتا تھا۔ گو یہ تحریک اس نئے طریقہ کار سے انتہائی تیزی سے‬
‫مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی مگر پھر بھی ایک بار پانچ پولیس افسران کو بنارس میں‬
‫معطل کر دیا گیا۔ اس کی وجہ وہ رپورٹ تھی جس میں ان کے خالف خواتین رضاکاروں کے‬
‫خالف تشدد کا ثابت ہوا تھا۔‬
‫برطانوی افواج نے ‪1932‬ء میں ہی باجوڑ کے ایک گاؤں پر بمباری کی اور خان عبدالغفار خان کو‬
‫‪ 4000‬سرخ پوش رضا کاروں کے ہمراہ گرفتار کر لیا۔ باجوڑ میں یہ بمباری ‪1936‬ء کے اواخر‬
‫تک جاری رہی‪ ،‬یہ نہایت ظالمانہ فعل تھا اور ایک برطانوی افسر نے اپنے ‪1933‬ء میں ایک‬
‫تجزیاتی رپورٹ میں تحریر کیا تھا کہ‪“ ،‬ہندوستان مشقوں کے لیے بہترین جگہ ہے‪ ،‬برطانوی‬
‫سلطنت میں شاید ایسا کوئی دوسرا مقام نہ ہو گا جہاں افواج برطانیہ کو اپنی صالحیتوں کو ہر طرح‬
‫سے آزمانے کا موقع نہ ملتا ہو‪ ،‬حالیہ بمباری اس کی بہترین مثال ہے“۔‬
‫‪96 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫ان تمام حربوں کے عالوہ سرخ پوشوں کو زہر دینا اور گرفتار مردوں کو انتہائی ظالمانہ طریقہ‬
‫سے خصی کر دینے کے حربے انتہائی درجہ کی انسانی تذلیل میں شامل تھے۔[‪ ]7[ ]6‬دوسری جنگ‬
‫استعفی کے بعد‪ ،‬برطانوی حربوں میں ایک نیا رخ‬ ‫ٰ‬ ‫عظیم کی مخالفت میں ڈاکٹر خان صاحب کے‬
‫دیکھا گیا۔ اب وہ پہلے جیسے تشدد کے قائل نہ رہے تھے بلکہ اب ان کے حربے محالتی سازشوں‬
‫پر مبنی تھے۔ یعنی تحریک کی مختلف شاخوں میں پھوٹ ڈلوانے کا کام شروع کیا گیا۔ پشتونوں‬
‫میں اسالم کے نام پر ایک بار پھر سے نفرت اور فرقہ وارانہ تشدد کا حربہ آزمایا جانے لگا اور‬
‫سب سے بڑھ کر صوبہ خیبر پختونخوا میں یہ پروپیگنڈہ بہت عام ہو گیا کہ ہندو اور پٹھانوں کے‬
‫اتحاد میں یہ تحریک دراصل نہایت خوفناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ‬
‫یہ کام مسجدوں کے امام یا مولویوں کے ذریعہ کیا جانے لگا۔ گورنر جارج کننگھم نے اپنے ایک‬
‫تجزیاتی پرچے میں حکومت برطانیہ کو کچھ ایسے کلمات ارسال کیے جو ستمبر ‪1943‬ء میں‬
‫جاری کیے گئے تھے‪“ ،‬حکومت برطانیہ کی یہ حکمت عملی اب تک نہایت کامیاب ثابت ہو رہی‬
‫[‪]8‬‬
‫ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ یہ دراصل اسالم کے گرد گھومتی ہے۔‬

‫انڈین نیشنل کانگریس سے تعلقات‬


‫خدائی خدمتگار تحریک کو ‪1930‬ء میں انتہائی درجے کے حکومتی دباؤ کا سامنا تھا اور خان عبدالغفار‬
‫خان اور ان کے ساتھی اس بات پر متفق تھے کہ انھیں سیاسی حمایتیوں کی جلد یا بدیر ضرورت پڑے‬
‫گی تاکہ اس دباؤ کو کم کیا جا سکے۔ یہ صرف سیاسی قوتیں ہی کر سکتی تھیں۔اسی حوالے سے دسمبر‬
‫‪1928‬ء میں بیرسٹر محمد جان عباسی نے خان عبدالغفار خان کو خالفت کانفرنس میں شرکت کی دعوت‬
‫بھی دی تھی۔ سیاسی اتحاد کے ان مذاکرات کا نتیجہ کچھ اتنا خوشگوار نہ نکال تھا کیونکہ موالنا شوکت‬
‫علی پر پنجاب سے ایک رکن نے جسمانی حملہ کر دیا اور یہ مذاکرات ناکامی سے دوچار ہوئے۔‬
‫اس واقعے کے بعد گو خان عبدالغفار خان کے علی برادران سے تعلقات خوشگوار رہے مگر پھر بھی‬
‫گاندھی پر ان کی کڑی تنقید سے باچا خان کی نظر میں گاندھی کی عزت بڑھ گئی۔ اس کے عالوہ‬
‫کانگریس نے تحریک کو اس کی تحریک آزادی ہندوستان میں شمولیت کے بدلے ہر قسم کی سیاسی‪،‬‬
‫سماجی اور عددی حمایت کی یقین دہانی بھی کروا دی۔ کانگریس کی طرف سے حمایت کا یہ مسودہ جب‬
‫خدائی خدمت گار تحریک کے صوبائی جرگہ میں پیش کیا گیا تو ‪1931‬ء میں غور و خوض کے بعد‬
‫متفقہ طور پر کانگریس سے اتحاد کر دیا گیا۔‬
‫خیبر پختونخوا میں اس اتحاد کا قائم ہونا برطانوی حکومت کے لیے بڑا جھٹکا ثابت ہوا اور سیاسی طور‬
‫پر اس تحریک پر سے دباؤ میں کافی حد تک خاتمہ ہو گیا۔‬

‫تحریک کا ضابطہ‬
‫تحریک کے ضابطے کے حوالے سے دو مختلف نسخے اس وقت دستیاب ہیں جو یہ ہیں‪:‬‬

‫نسخہ نمبر ‪1‬‬


‫میں خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ اعالن کرتا ہوں کہ میں خدائی خدمتگار ہوں۔ میں بغیر کسی‬
‫ذاتی فائدے کے اپنی قوم کی خدمت کروں گا۔ میں اپنے ساتھ ہونے والی کسی بھی نا انصافی کا‬
‫ذاتی طور پر بدلہ نہیں لوں گا اور اس بات کا پابند رہوں گا کہ میرے فعل کسی کے لیے بھی بوجھ‬
‫یا تکلیف نہ بن پائیں۔ میں عدم تشدد کا داعی ہوں۔ اس راستے پر گامزن رہتے ہوئے میں ہر قسم کی‬
‫قربانی پیش کرنے کو تیار ہوں۔ میں انسانوں کی خدمت کروں گا‪ ،‬میری اس خدمت کا دائرہ کار‬
‫کسی بھی صورت کوئی مذہب یا قبیلہ نہیں ہو گا بلکہ ہر انسان کی خدمت میرا فرض قرار پایا‬
‫جائے۔ میں یہاں مقامی طور پر بنائی گئی اشیاء استعمال کرنے کا پابند ہوں۔ میں کسی عہدے کا‬
‫[‪]9‬‬
‫خواہشمند نہیں ہوں۔‬

‫نسخہ نمبر ‪2‬‬


‫‪97 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫میں خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ گواہی دیتا ہوں کہ‪،‬‬
‫میں اپنے آپ کو خدائی خدمتگار میں شریک کرنے کی اور اس کا حصہ بننے کی درخواست پیش‬ ‫‪.1‬‬
‫کرتا ہوں۔‬
‫میں ہر موقع پر اپنے ذاتی آرام‪ ،‬جائداد اور یہاں تک کہ زندگی کی قربانی بھی قوم کی خدمت اور‬ ‫‪.2‬‬
‫آزادی کے لیے پیش کرنے کو تیار ہوں۔‬
‫میں قبائلی جھگڑوں اور خاندانی جھگڑوں میں حصہ دار نہیں بنوں گا اور نہ ہی کسی سے‬ ‫‪.3‬‬
‫جھگڑا‪ ،‬جھڑپ یا مار پیٹ کروں گا۔ میں ہمیشہ عدم تشدد کا پاسدار رہوں گا اور اپنے دشمن یا‬
‫مخالف کو پناہ اور آرام دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا۔‬
‫میں کسی بھی دوسری تنظیم کا حصہ نہیں بنوں گا اور نہ ہی عدم تشدد کے فلسفے کی پاسداری‬ ‫‪.4‬‬
‫میں ہونے والے نقصان کا ازالہ طلب کروں گا۔‬
‫میں ہمیشہ اپنے افسران کی ہدایات کا پابند رہوں گا۔‬ ‫‪.5‬‬
‫میں ہمیشہ عدم تشدد کے فلسفے پر زندگی گزاروں گا۔‬ ‫‪.6‬‬
‫میں انسانیت کی خدمت کروں گا۔ میری زندگی کا مقصد مکمل آزادی کا حصول ہے۔ ملکی بھی‬ ‫‪.7‬‬
‫اور مذہبی۔‬
‫میں اپنے افعال میں ہمیشہ سچائی اور پارسائی کو فروغ دوں گا۔‬ ‫‪.8‬‬
‫میں اپنی ان خدمات کا کوئی بھی صلہ کسی بھی انسان سے طلب نہیں کروں گا۔‬ ‫‪.9‬‬
‫میری تمام تر خدمات خدائے بزرگ برتر کی خوشنودی کے لیے ہیں‪ ،‬میں کسی بھی طور کسی‬ ‫‪.10‬‬
‫[‪]10‬‬
‫انسان سے ان خدمات کے صلے میں کچھ طلب کرنا پسند نہیں کروں گا۔‬

‫تحریک کا ترانہ‬
‫ہم ہیں ہللا کے سپاہی‪ ،‬ملک اور موت اسی کے لیے‬
‫ہم بڑھتے ہیں آگے‪ ،‬ساتھ اپنے راہنما‪ ،‬ہم ہیں ہر دم تیار‪ ،‬موت ہے ہماری‬
‫ہم بڑھتے رہیں گے آگے‪ ،‬ہللا ہی کے لیے‪ ،‬اس کے نام کے ہیں شیدائی‪ ،‬ہم مر بھی جائیں‬
‫ہم خدمت کے قائل‪ ،‬ہللا ہے ہمارا ساتھ‪ ،‬ہم ہیں سپاہی‪ ،‬ہم ہیں خدام‪ ،‬ہللا کے سپاہی‬
‫ہللا ہی ہمارا بادشاہ‪ ،‬عظیم تر ہے وہ بادشاہ‪ ،‬ہم اپنے بادشاہ کے سپاہی‬
‫ہللا ہے مالک ہمارا‪ ،‬ہم ہیں ہللا کے سپاہی‬
‫یہ ملک ہمارا ہے‪ ،‬ہم پاسباں اس کے ہیں‬
‫ہم مر جائیں اس کی خاطر‪ ،‬راضی ہے ہمارا رب‪ ،‬ہم ہللا کے سپاہی‬
‫ہم خدمت کے قائل‪ ،‬ہم محبت کرنے والے‪ ،‬عظیم تر ہے ہمارا مقصد‪ ،‬عظیم ہے ہماری قوم‬
‫ہم آزادی کے حامی‪ ،‬کٹ کیوں نہ جائے گردن‪ ،‬ہم ہللا کے سپاہی‪ ،‬ہم ہللا کے سپاہی‬
‫[‪]11‬‬

‫تحریک سے سیاسی جماعت تک‬


‫تفصیلی مضمون کے لیے مالحظہ کریں‪ :‬عوامی نیشنل پارٹی‬

‫تعزیرات ہند ‪1935‬ء کے تحت جب صوبائی خودمختاری میسر آ گئی تو خیبر پختونخوا میں‬
‫چھوٹے پیمانے پر ‪1936‬ء میں انتخابات کا انعقاد کروایا گیا۔ خان عبدالغفار خان کو صوبہ بدر کر‬
‫کے ان کی یہاں آمد پر پابندی لگا دی گئی۔ آپ کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب ان اس موقع پر صوبہ‬
‫میں تحریک کا انتظام سنبھاال اور اس کو نیا سیاسی رخ عطا کیا۔ اس نئی سیاسی جماعت نے نہایت‬
‫اعلی منتخب ہو گئے۔ خان‬
‫ٰ‬ ‫قلیل اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور ڈاکٹر خان صاحب وزیر‬
‫عبدالغفار خان ‪ 29‬اگست ‪1937‬ء کو پشاور واپس آ گئے اور پشاور کے روزنامہ خیبر میل نے اس‬
‫دن کو ان کی زندگی کا خوشگوار ترین دن گردانا۔کانگریس کے ساتھ اتحاد میں قائم یہ حکومت دو‬
‫اعلی کئی اصالحات متعارف کروائیں۔‬ ‫ٰ‬ ‫سال تک قائم رہی اور ڈاکٹر خان صاحب نے بطور وزیر‬
‫جن میں زرعی اصالحات‪ ،‬پشتو کو بطور تدریسی زبان متعارف کروانا اور سیاسی قیدیوں کی‬
‫رہائی شامل تھیں۔‬
‫‪98 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫کانگریس کی مرکزی قیادت کی ہدایت پر صوبے کے گیارہ میں سے آٹھ وزراء نے دوسری جنگ‬
‫استعفی دے دیا۔ ان استعفوں نے‬
‫ٰ‬ ‫عظیم کے خاتمے پر آزادی نہ دینے پر احتجاج کرتے ہوئے‬
‫ہندوستانی تاریخ میں نیا سیاسی منظر نامہ واضع کیا اور خیبر پختونخوا میں خدائی خدمتگار‬
‫تحریک کے مخالفین کو اپنے قدم جمانے کا موقع میسر آ گیا۔‬

‫خدائی خدمتگار تحریک کا زوال‬


‫خدائی خدمتگار تحریک کے زوال کے پس پردہ دو بڑے عوامل تھے۔ ان دو عوامل میں پہال‬
‫استعفی تھا۔ خدائی‬
‫ٰ‬ ‫‪1939‬ء میں کانگریسی قیادت کی ہدایت پر بطور احتجاج صوبائی حکومت سے‬
‫استعفی صوبے میں مسلم لیگ کے لیے سیاسی طور پر نہایت موزوں ثابت‬ ‫ٰ‬ ‫خدمتگار تحریک کا یہ‬
‫استعفی کی وجہ سے برطانوی حکومت کا دباؤ پھر سے اس تحریک پر‬ ‫ٰ‬ ‫ہوا۔ اس کے عالوہ اس‬
‫درپیش ہو گیا۔‬
‫‪1940‬ء میں پختون اتحاد میں پھوٹ پڑ گئی۔ یہ پھوٹ نوجوانوں کی اس تنظیم میں واقع ہوئی جو‬
‫خدائی خدمتگار تحریک سے وابستہ تھی۔ ‪1940‬ء میں یہ پھوٹ اندرونی انتخابات کے نتائج پر‬
‫سامنے آئی جب کوہاٹ کےساالر اسلم خان نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی مگر خان‬
‫عبد الغفار خان نے ان نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا۔ خان عبدالغفار خان کے اس فیصلہ نے‬
‫جنوبی اضالع میں تحریک کو نمایاں نقصان پہنچایا۔ یہاں سے ہی تحریک نے صوبائی اور قومی‬
‫نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ عبدالغفار خان کا نکتہ نظر یہ تھا کہ ساالر اسلم خان چونکہ‬
‫فارورڈ بالک سے تعلق رکھتے تھے‪ ،‬اس لیے ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس ضمن میں‬
‫انھیں اپنے بیٹے غنی خان کا فیصلہ قابل قبول ہو گا جو نوجوانوں کی اس تنظیم کے سربراہ تھے۔‬
‫برطانوی حکومت نے اس صورتحال کا خوب فائدہ اٹھایا۔“یہ خان عبدالغفار خان کی انتہائی فاش‬
‫سیاسی غلطی تھی‪ ،‬گو وہ اس پر بعد میں پشیمان بھی ہوئے مگر یہ بھی درست ہے کہ ان کا نکتہ‬
‫[‪]12‬‬
‫نظر بالکل درست تھا۔ اس وقت غنی خان کے عالوہ کسی پر بھی اعتماد نہیں کیا جاسکتا تھا۔‬
‫عدم تشدد کے فلسفے کا بھی بعض اوقات خیال نہ رکھنا اس تحریک کے زوال کا سبب بنا‪ ،‬مثال‬
‫کے طور پر غنی خان نے اپریل ‪1947‬ء میں نوجوانوں کی تنظیم میں ایک مسلح گروہ تشکیل دیا۔‬
‫یہ گروہ مسلم لیگی کارکنوں کی جانب سے گانگریسی ارکان اور خدائی خدمتگار تحریک کے‬
‫سرخ پوشوں پر حملوں کے بعد تشکیل دیا گیا تھا۔ اس گروہ کا بظاہر خدائی خدمتگار تحریک سے‬
‫کوئی واسطہ نہ تھا مگر غنی خان جو عبدالغفار خان کے فرزند تھے اور خدائی خدمتگار تحریک‬
‫سے وابستہ بھی رہے‪ ،‬ان کا یہ طرز عمل تحریک کے لیے کچھ اچھا شگون ثابت نہ ہوا۔‬

‫اکتوبر ‪1946‬ء میں جواہر لعل نہرو نے صوبہ خیبر پختونخوا کا دورہ کیا اور اس دورہ کے اثرات‬
‫نہایت افسوسناک حد تک ڈاکٹر خان صاحب کی وزارت کی برطرفی کی شکل میں برآمد ہوئے۔ اس‬
‫دورہ کے بعد جب سرخ پوش احتجاجا ً سڑکوں پر نکل آئے تو یہاں آباد ہندؤں اور سکھوں کو یہ‬
‫خطرات الحق ہو گئے کہ شاید یہ تقسیم ہند سے پہلے ہوئے دوسروں عالقوں میں ہندو مسلم فسادات‬
‫[‬
‫کی ہی کڑی ہے۔ سرخ پوش اس احتجاج کے بعد صوبہ کی عوام میں انتہائی غیر مقبول ہو گئے۔‬
‫‪]13‬‬

‫بعد از تقسیم ہند‬


‫‪1947‬ء میں تقسیم ہند خدائی خدمتگار تحریک کے باقاعدہ خاتمے کا نشان بن گئی۔ گو خیبر‬
‫پختونخوا میں گانگریسی حمایت یافتہ خدائی خدمت گار تحریک کی حکومت قائم تھی مگر بانی‬
‫پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر گورنر خیبر پختونخوا نے اس حکومت کو برطرف‬
‫کر دیا۔ ڈاکٹر خان صاحب کی جگہ عبدالقیوم خان نے وزارت ٰ‬
‫اعلی کا منصب سنبھال لیا‪ ،‬جو پہلے‬
‫کانگریس میں ہی شامل تھے اور بعد میں مسلم لیگ کا حصہ بنے۔ عبدالقیوم خان نے عبدالغفار خان‬
‫اور محمد علی جناح کے درمیان ہوئے روابط کو ایک سازش کے تحت منسوخ کروا دیا‪ ،‬یہی موقع‬
‫تھا کہ اس کے بعد حکومت خیبر پختونخوا اور حکومت پاکستان نے اس تحریک کے راہنماؤں اور‬
‫رضا کاروں پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حاالت دراصل ذاتی نوعیت کی‬
‫‪99 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫مخالفتوں کی وجہ سے پیدا کیے گئے۔ [‪ ]14‬محمد علی جناح نے عبدالقیوم خان کو صوبہ میں‬
‫کانگریسیوں اور خدائی خدمتگار تحریک کے رضاکاروں سے نمٹنے کے لیے کھلی چھٹی دے‬
‫دی۔ تحریک کے خالف ہوئے پرتشدد اقدامات کے نتائج نہایت بھیانک ہیں اور پشاور میں بابرہ قتل‬
‫عام کا واقع اس دور کی یادگار ہے۔ گو خدائی خدمتگار تحریک قیام پاکستان کے کٹر مخالفین‬
‫تصور کیے جاتے تھے مگر یاد رہے کہ ستمبر ‪1947‬ء میں سردریاب کے مقام پر اس تحریک‬
‫کے مرکزی قائدین نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں پاکستان کو تسلیم کیا گیا تھا۔ مزید یہ‬
‫کہ اس سے پہلے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کر کے صوبہ خیبر پختونخوا کی پاکستان میں شمولیت کے‬
‫ساتھ ہی پاکستان کی وفاداری کا عہد کیا گیا مگر مقامی طور پر مسلم لیگی قیادت نے مرکزی‬
‫قیادت کو اندھیرے میں رکھا‪ ،‬مقامی قیادت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بعد کے پر تشدد واقعات‬
‫[‪]15‬‬
‫اس تحریک اور صوبہ کے پختونوں کے لیے نہایت بھیانک رخ اختیار کر گئے۔‬
‫گو قیوم خان اور مرکزی قیادت نے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ خدائی خدمتگار تحریک کے ساتھ‬
‫امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا مگر پھر بھی اس تحریک کو وسط ستمبر ‪1948‬ء میں غیر قانونی‬
‫قرار دے کر پابندی عائد کر دی۔ وسیع پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں اور صوبائی حکومت نے‬
‫مرکزی دفاتر جو سردریاب کے مقام پر ‪1942‬ء میں قائم کیے گئے تھے نذر آتش کر دیے۔ اس کے‬
‫[‪]16‬‬
‫بعد ہی برپا ہونے والے پرتشدد احتجاج میں بابرہ کا قتل عام وقع پزیر ہوا۔‬
‫اس تحریک کو راہنماؤں کی ذاتی فوائد یا بدلتے حاالت کی وجہ سے چھوڑ جانے پر بھی نقصان‬
‫کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی کلیدی اراکین نے سیاسی طور پر قیوم خان کو باور کرانے کے لیے مسلم‬
‫لیگی دھڑے تشکیل دیے‪ ،‬مثال کے طور پر پیر مانکی شریف نے مسلم لیگی دھڑا تشکیل دے کر‬
‫اعلی تقرری پر سیاسی‬ ‫قیوم خان سے الحاق کیا اور ‪1951‬ء میں قیوم خان کی دوبارہ بطور وزیر ٰ‬
‫[‪]16‬‬
‫فائدہ حاصل کیا۔‬
‫‪1951‬ء میں عارضی طور پر اس تحریک پر سے پابندی اٹھا لی گئی لیکن ‪1955‬ء میں ایک بار‬
‫پھر مرکزی حکومت نے پابندی عائد کر دی۔ اس بار یہ پابندی خان عبدالغفار خان کی ون یونٹ‬
‫کے قیام کے خالف احتجاج کے بعد عائد کی گئی تھی۔ مرکزی حکومت نے خان عبدالغفار خان کو‬
‫اس ضمن میں مرکزی حکومت میں وزارت کی پیشکش کے ساتھ خدائی خدمتگار تحریک کو‬
‫مرکزی دھارے کی جماعت بنانے کی بھی پیشکش کی مگر خان عبدالغفار خان نے اسے رد کردیا۔‬
‫[‪]17‬‬

‫گو ‪1972‬ء میں خدائی خدمتگار تحریک پر عائد پابندی ختم کر دی گئی مگر سیاسی طور پر یہ‬
‫تحریک ختم ہو چکی تھی۔‬

‫تنقید‬
‫گو برطانیہ کے سامراجی قبضہ کے خالف خدائی خدمتگار تحریک نہایت موثر تھی‪ ،‬مگر اس‬
‫تحریک کے سماجی اثرات دیرپا ثابت نہ ہوئے۔ خان عبدالغفار خان کے خاندان کا تحریک کے‬
‫سیاسی مقاصد پر مضبوط گرفت ہونے کی وجہ سے یہ تحریک‪ ،‬پاکستان کے سرکاری حلقوں میں‬
‫خاص مقام پیدا نہ کر سکی۔ اس تحریک پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ تقسیم ہند کی‬
‫مخالفت دراصل اس موقف کی ترجمانی تھا کہ یہ تحریک قیام پاکستان کی بھی مخالف تھی۔ [‪ ]18‬ان‬
‫وجوہات کی بناء پر اس تحریک کو پاکستان کے قیام کے بعد کئی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا‪،‬‬
‫‪1950‬ء اور ‪1960‬ء کے درمیانی عرصہ میں اس تحریک کو باقاعدہ کمیونسٹ قرار دیا جاتا تھا۔‬
‫کئی مخالف دھڑوں نے اس تحریک کو اسالم مخالف نظریات کی حامل بھی قرار دیا۔ اس تحریک‬
‫دعوی بھی کئی موقعوں پر موثر دکھائی نہ دیا‪ ،‬کئی مخالفین کے مطابق جیسے اس‬‫ٰ‬ ‫کا عدم تشدد کا‬
‫تحریک کو سلطنت برطانیہ کے خالف کامیابیاں ملیں شاید کسی اور سامراجی طاقت اس طرح کی‬
‫تحریک کو کسی بھی صورت قبول نہ کرتی‪ ،‬جیسے کہ برطانوی راج نے قبول کیا تھا۔ اس کا ایک‬
‫ثبوت پاکستانی حکومت کے اس تحریک کے خالف پر تشدد اور سیاسی واقعات کا دیا جاتا ہے‪،‬‬
‫جس کی وجہ سے اس تحریک کا سیاسی ڈھانچہ اس طور متاثر ہوا کہ ‪1972‬ء میں یہ تحریک‬
‫اپنے پاؤں پر کھڑے رہنے کے قابل نہ تھی۔ [‪ ]2‬کئی تنقید نگاروں کے خیال میں خدائی خدمت گار‬
‫دعوی دراصل اتنا بھی موثر اور قابل قبول نہ تھا جتنا کہ اس تحریک کے‬‫ٰ‬ ‫تحریک کا عدم تشدد کا‬
‫‪100 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫حامی گردانتے ہیں۔ بینر جی اور شوف فیلڈ جیسے مصنفین نے اپنی تصانیف میں کئی واقعات‬
‫حوالوں کے ساتھ شائع کیے ہیں جہاں اس تحریک کے رضا کار اپنے عدم تشدد کے فلسفے سے‬
‫ہٹتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔‬
‫سن‬ ‫ٹ‬ ‫ش‬
‫را ری ہ سوی م سی وک گھ‬
‫راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس بھارت کی ایک ہندو تنظیم۔ یہ خود کو قوم پرست‬
‫تنظیم قرار دیتی ہے۔ لیکن یہ بھی دیکھا گیا کہ چند دہشت گردانہ معاملوں میں اس تنظیم کا ہاتھ رہا‬
‫ہے [‪]4‬۔ اس کی اشاعت ‪ ۱۹۲۵‬ء کو ناگپور میں ہوئی۔ اس کا بانی کیشوا بلی رام ہیڑگیوار ہے۔ یہ‬
‫ہندو سوائم سیوک سنگھ کے نام سے بیرون ممالک میں سرگرم ہے۔ یہ بھارت کو ہندو ملک گردانتا‬
‫ہے۔ اور یہ اس تنظیم کا اہم مقصد بھی ہے۔ بھارت میں برطانوی حکومت نے ایک بار [‪ ]5‬۔ اور‬
‫ت ہند نے تین بار اس تنظیم کو ممنوع کر دیا۔‬
‫آزادی کے بعد حکوم ِ‬

‫فسادات‬
‫بھارت میں دنگے فسادات برپا کرنے میں اس تنظیم کا نام سر فہرت ہے۔ ‪ ۱۹۲۷‬ء کا ناگپور فساد‬
‫ان میں اہم اور اول ہے۔ ‪ ۱۹۴۸‬ء کو اس تنظیم کے ایک رکن ناتھورام ونائک گوڑسے نے مہاتما‬
‫گاندھی کو قتل کر دیا۔ ‪۱۹۶۹‬ء کو احمد آباد فساد ‪ ۱۹۷۱ ،‬ء کو تلشیری فساد اور ‪ ۱۹۷۹‬ء کو بہار‬
‫کے جمشید پور فرقہ وارانہ فساد میں ملوث رہی۔ ‪ ۶‬دسمبر ‪۱۹۹۲‬ء کو اس تنظیم کے اراکین‬
‫(کارسیوک) نے بابری مسجد میں گھس کر اس کو منہدم کر دی۔ آر ایس ایس کو مختلف فرقہ‬
‫وارانہ فسادات میں ملوث ہونے پر تحقیقی کمیشن کی جانب سے سرزنش کا سامنا کرنا پڑا ‪ ،‬وہ‬
‫درج ذیل ہیں‬
‫‪ ۱۹۶۹‬ء کے احمدآباد فساد پر جگموہن رپورٹ‬ ‫‪‬‬
‫‪ ۱۹۷۰‬ء کے بھیونڈی فساد پر ڈی پی ماڈن رپورٹ‬ ‫‪‬‬
‫‪ ۱۹۷۱‬ء کے تلشیری فساد پر وتایاتیل رپورٹ‬ ‫‪‬‬
‫‪ ۱۹۷۹‬ء کے جمشیدپور فساد پر جتیندر نارائن رپورٹ‬ ‫‪‬‬
‫‪ ۱۹۸۲‬ء کے کنیاکماری فساد پر وینوگوپال رپورٹ‬ ‫‪‬‬
‫‪ ۱۹۸۹‬ء کے بھاگلپور فساد کی رپورٹ‬ ‫‪‬‬

‫ہم خیال تنظیمیں‪/‬‬


‫سنگھ پریوار‪ : ‬یعنی سنگھ کا خاندان۔ اس خاندان یعنی پریوار کے اراکین تنظیمیں۔ آر ایس ایس کے‬ ‫‪‬‬
‫آدرشوں کے مطابق سرگرم تنظیموں کو عام طور پر سنگھ پریوار کہتے ہیں۔‬

‫آر ایس ایس کی دوسری ہم خیال تنظیموں میں‬


‫وشوا ہندو پریشد‬ ‫‪‬‬
‫بھارتیہ جنتا پارٹی ‪ -‬سنگھ پریوار کی سیاسی تنظیم‬ ‫‪‬‬
‫ون بندھو پریشد ‪،‬‬ ‫‪‬‬
‫راشٹریہ سیوکا سمیتی ‪،‬‬ ‫‪‬‬
‫سیوا بھارتی ‪،‬‬ ‫‪‬‬
‫اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد ‪ -‬سنگھ پریوار کا اسٹوڈینٹس ونگ‬ ‫‪‬‬
‫ونواسی کلیان آشرم ‪،‬‬ ‫‪‬‬
‫بھارتیہ مزدور سنگھ ‪،‬‬ ‫‪‬‬
‫ودیا بھارتی وغیرہ شامل ہیں۔‬ ‫‪‬‬

‫دہشت گردانہ سرگرمیاں‬


‫‪101 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫درج ذیل وطن مخالف سرگرمیوں میں سنگھ پریوار تنظیمیں مل ّوث ہیں۔‬
‫ِ‬
‫مالیگاؤ بم دھماکا‬ ‫‪‬‬
‫حیدرآباد مکہ مسجد بم دھماکا‬ ‫‪‬‬
‫اجمیر بم دھماکا‬ ‫‪‬‬
‫سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکا‬ ‫‪‬‬

‫زعفرانی دہشت گردی‬


‫زیر قیادت بھارت میں ہونے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو زعفرانی دہشت‬
‫سنگھ پریوار کے ِ‬
‫گردی کا نام دے سکتا ہے ۔‬
‫ٹ‬
‫[‪]6‬‬

‫سوراج پ ار ی‬
‫ن ن‬ ‫قئ ت‬ ‫ن‬ ‫قئ ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬
‫ے۔ ا ہوں ے ‪1922‬ء می ں گ ی ا می ں‬‫طور کا قگری سی ات د ھ‬ ‫چ نر ج ن داس ب گال کے ای ک کات گری سی ا د ھ‬
‫ے۔ وہ ب ی ادی ٹ‬
‫[‪1‬‬
‫کا گریس اج الس کی صدارت کی ھی۔ وہ اسی سال سوراج پ ار ی کا ی ام ک ی ا ھا۔‬

‫ب ھی مراو را جم ی آمب ی ڈکر‬


‫ڈاکٹر بھیمراو رامجی آمبیڈکر (‪ 14‬اپریل ‪ 6 - 1891‬دسمبر ‪ )1956‬ایک بھارتی فقیہہ‪ ،‬سیاسی‬
‫اقتصادیات‪،‬تجدیدی بدھ مت۔ آزاد بھارت کے پہلے‬
‫ِ‬ ‫رہنما‪ ،‬فلسفی‪ ،‬انسانی اشتھانی‪ ،‬تاریخ دان‪ ،‬ماہر‬
‫وزیر قانون کی حیثیت سے وہ بھارتی دستور کے اہم مصنف تھے۔ انہیں باباصاحب کے نام سے‬
‫بھی جانا جاتا ہے۔‬
‫ٹ‬
‫ے‬ ‫ب اب ا آ م‬
‫بابا آمٹے ہندوستان کے مشہور سماجی کارکن تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کوڑھ یعنی جذام میں‬
‫مبتال مریضوں‪ ،‬غریب اور پسماندہ طبقہ کے بدحال لوگوں اور ترقیاتی منصوبوں کے سبب ہونی‬
‫والی نقل مکانی سے متاثرہ افراد کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی تھی ۔‬

‫پیدائش‬ ‫مرلی دھر دیوی داس آمٹے‬


‫[‪]1‬‬
‫‪ 26‬دسمبر ‪1914‬‬
‫ہنگن گھاٹ‪ ،‬وردھا‪.‬برطانوی ہند (موجودہ‪:‬‬
‫مہاراشٹر‪ ،‬بھارت)‬
‫وفات‬ ‫‪ 9‬فروری ‪( 2008‬عمر‪ 93 ‬سال)‬
‫آنندون‪ ،‬مہاراشٹر‪ ،‬بھارت‬
‫قومیت‬ ‫بھارتی‬
‫شریک‬ ‫سادھنا آمٹے‬
‫حیات‬
‫بچے‬ ‫وکاس آمٹے‬
‫پرکاش آمٹے‬

‫‪102 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫بابا آمٹے ہندوستان کے مشہور سماجی کارکن تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کوڑھ یعنی جذام میں مبتال‬
‫مریضوں‪ ،‬غریب اور پسماندہ طبقہ کے بدحال لوگوں اور ترقیاتی منصوبوں کے سبب ہونی والی نقل‬
‫مکانی سے متاثرہ افراد کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی تھی ۔‬

‫ابتدائی زندگی‬
‫مرلی دھر دیوی داس آمٹے عرف بابا آمٹے کی پیدائش انیس سو چودہ میں مہاراشٹر کے ایک‬
‫متمول گھرانے میں ہوئی تھی۔ ان کے والد ایک اعلی سرکاری افسر تھے اور ان کا خاندان ایک‬
‫زمیندار خاندان تھا۔‬

‫تعلیم‬
‫ان کی ابتدائی تعلیم عیسائی مشنری اسکول ناگ پور میں ہوئی اور پھر قانون کی تعلیم انہوں نے‬
‫ناگ پور یونیورسٹی سے کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے کافی عرصے تک وکالت کی۔‬

‫غیر معمولی تبدیلی‪/‬‬


‫شادی کے بعد ان کی زندگی میں غیر معمولی تبدیلی آئی اور انہوں نے اپنی زندگی کو سماجی‬
‫خدمات کے لیے وقف کردیا اور سماج کے پسماندہ طبقے کی زندگی میں امید کی روشنی بکھیرنا‬
‫اپنا نصب العین مقرر کیا۔‬

‫ت خلق‬
‫خدم ِ‬
‫‪1949‬ء میں انہوں نے جذام کے مریضوں کے لیے ’مہا روگ سیوا سمیتی‘ بنائی اور ان کی‬
‫مریضوں کی خدمت میں لگ گئے۔‬

‫اعزازات‬
‫اس کے بعد انہوں نے سماج کے مختلف طبقوں میں کئی شعبوں میں فالحی کام کیے۔ ان کی‬
‫خدمات کے اعتراف میں انیس سو اکہتر میں انہیں اعلی شہری اعزار ’پدم شری‘[‪ ،]2‬انیس سو‬
‫چھیاسی میں ’پدم وبھوشن ‘ اور انیس سو ننانوے میں ’گاندھی شانتی ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔ ‪9‬‬
‫فروری ‪2008‬ء کو ان کا انتقال ہوا۔‬
‫ن‬
‫موہ ن داس گا دھی‬
‫موہن داس گاندھی‬
‫پیدائش‬ ‫‪ 2‬اکتوبر ‪1869‬‬
‫پوربندر‪ ،‬بمبئ پریسیڈینسی‪ ،‬برطانوی‬
‫ہندوستان‬
‫وفات‬ ‫‪ 30‬جنوری ‪( 1948‬عمر‪ 78 ‬سال)‬
‫نئ دہلی‪ ،‬بھارت‬
‫وجۂ‪ ‬وفات‬ ‫قتل (سینے میں تین گولیاں داغی گئی)‬

‫‪103 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫آخری آرام‬ ‫راج گھاٹ‪ ،‬نئی دہلی‪ ،‬بھارت‬
‫گاہ‬
‫قومیت‬ ‫بھارتی‬
‫دیگر‪ ‬نام‬ ‫مہاتما گاندھی‪ ،‬باپو‬
‫مادر‪ ‬علمی‬ ‫یونیورسٹی کالج لندن‪ ،‬جامعہ لندن‬
‫وجۂ‪ ‬شہر‬ ‫تحریک آزادی کے عظیم شخصیت‪ ،‬عدم تشدد‬
‫ت‬ ‫اور ستیہ گرہ کے حامی‬
‫مذہب‬ ‫ہندومت‬
‫شریک‬ ‫کستوربہ گاندھی‬
‫حیات‬
‫بچے‬ ‫ہری الل‬
‫منی الل‬
‫رام داس‬

‫دیو داس‬
‫والدین‬ ‫پتلی بائ (والدہ)‬

‫کرمچند گاندھی (والد)‬

‫موہن داس کرم چند گاندھی (گجراتی‪મોહનદાસ કરમચંદ ગાંધી :‬؛ ہندی‪मोहनदास करमचंद :‬‬

‫‪गांधी‬؛ ‪ 2‬اکتوبر‪1869 ،‬ء تا ‪ 30‬جنوری ‪1948‬ء) بھارت کے سیاسی اور روحانی رہنماء اور آزادی کی‬
‫تحریک کے اہم ترین کردار تھے۔ انہوں نے ستیہ گرہ اور اہنسا (عدم تشدد) کو اپنا ہتھیار بنایا۔ ستیہ گرہ‪،‬‬
‫ظلم کے خالف عوامی سطح پر منظم سول نافرمانی ہے جو عدم تشدد پر مبنی ہے۔ یہ طریقئہ کار‬
‫ہندوستان کی آزادی کی وجہ بنی۔ اور ساری دنیا کے لئے حقوق انسانی‪ ،‬اور آزادی کی تحاریک کےلئے‬
‫روح رواں ثابت ہوئی۔ بھارت میں انھیں احترام سے مہاتما گاندھی اور باپو جی کہا جاتا ہے۔ انہیں بھارت‬
‫سرکار کی طرف سے بابائے قوم(راشٹر پتا) کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ گاندھی کی یوم پیدائش (گاندھی‬
‫جینتی) بھارت میں قومی تعطیل کا درجہ رکھتا ہے ا ور دنیا بھر میں یوم عدم تشدد کی طور پر منایا جاتا‬
‫ہے۔ ‪ 30‬جنوری‪1948 ،‬ء کو ایک ہندو قوم پرست ناتھو رام گوڈسے نے ان کا قتل کر دیا۔‬
‫جنوبی افریقہ میں وکالت کے دوران میں گاندھی جی نے رہائشی ہندوستانی باشندوں کے شہری حقوق‬
‫کی جدوجہد کے لئے شہری نافرمانی کا استعمال پہلی بار کیا۔ ‪1915‬ء میں ہندوستان واپسی کے بعد‪،‬‬
‫انہوں نے کسانوں اور شہری مزدوردں کے ساتھ بےتحاشہ زمین کی چنگی اور تعصب کے خالف‬
‫احتجاج کیا۔ ‪1921‬ء میں انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت سنبھالنے کے بعد‪ ،‬گاندھی ملک سے غربت کم‬
‫کرنے ‪ ،‬خواتین کے حقوق کو بڑھانے ‪ ،‬مذہبی اور نسلی خیرسگالی‪ ،‬چھواچھوت کے خاتمہ اور معاشی‬
‫خود انحصاری کا درس بڑھانے کی مہم کی قیادت کی۔ انہوں نے بھارت کوغیر ملکی تسلّط سے آزاد‬
‫کرانے کے لیے سوراج کا عزم کیا۔ گاندھی نے مشہور عدم تعاون تحریک کی قیادت کی۔ جو ‪1930‬ء‬
‫میں مارچ سے برطانوی حکومت کی طرف سے عائد نمک چنگی کی مخالفت میں ‪ 400‬کلومیٹر (‪240‬‬
‫میل) لمبی دانڈی نمک احتجاج سے شروع ہوئی۔ اس کے بعد ‪1942‬ء میں انہوں نے بھارت چھوڑو‬
‫شہری نافرمانی تحریک کا آغاز فوری طور پر آزادی کا مطالبہ کے ساتھ کیا۔ گاندھی دونوں جگہ جنوبی‬
‫‪104 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫افریقہ اور بھارت میں کئی سال قید میں گزارے۔‬
‫عدم تشدد کے پیشوا طور پر ‪ ،‬گاندھی نےسچ بولنے کی قسم کھائی تھی اور دوسروں سے ایسا ہی کرنے‬
‫کی وکالت کرتے تھے ۔ وہ سابرمتی آشرم میں رہتے اور سادہ زندگی بسرکرتےتھے۔ لباس کے طور پر‬
‫روایتی ہندوستانی دھوتی اور شال کا استعمال کرتے‪ ،‬جو وہ خود سے چرخے پر بُنتے تھے۔ وہ سادہ اور‬
‫سبز کھانا کھاتے‪ ،‬اور روحانی پاکیزگی اور سماجی احتجاج کے لئے لمبے اُپواس (روزے) رکھا کرتے‬
‫تھے۔‬

‫ابتدائی زندگی اور پس منظر‬


‫نوجوان گاندھی‪ ،‬سن ‪1876‬ء‬

‫گاندھی گجرات‪ ،‬بھارت کے مغربی ساحلی شہر پوربندر (جو اُس وقت بمبئ پریسیڈینسی‪ ،‬برطانوی‬
‫ہندوستان کا حصّہ تھا) میں ‪ 2‬اکتوبر‪1869 ،‬ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کرم چند گاندھی(‪1822‬ء‪-‬‬
‫‪1885‬ء) ہندو مودھ فرقہ سے تھے اور ریاست پوربندر کے دیوان تھے۔ ان کی ماں کا نام پُتلی بائ‬
‫تھا جو ہندو پرنامی ویشنو فرقہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ کرمچند کی چوتھی بیوی تھی۔ غالبًا پہلی‬
‫تین بیویوں کا انتقال زچگی کے دوران میں ہو گیا تھا۔‬
‫ان کے والد کرم چند گاندھی ہندو مودھ برادری سے تعلق رکھتے تھے اور انگریزوں کے زیر‬
‫تسلط والے بھارت کے امییواڑ ایجنسی میں ایک چھوٹی سی ریاست پوربندر صوبے کے دیوان‬
‫یعنی وزیر اعظم تھے۔[‪ ]1‬ان کے دادا کا نام اُتّم چند گاندھی تھا جو اتّا گاندھی سے بھی مشہور تھے۔‬
‫پرنامی ویشنو ہندو برادری کی ان کی ماں پتلی بائی کرم چند کی چوتھی بیوی تھی ‪ ،‬ان کی پہلی‬
‫تین بیویاں زچگی کے وقت مر گئی تھیں۔[‪ ]2‬عقیدت کرنے والی ماں کی دیکھ بھال اور اس عالقے‬
‫کی جین برادری کی وجہ سے نوجوان موہن داس پر ابتدائی اثرات جلد ہی پڑ گئے جو ان کی‬
‫زندگی میں اہم کردار ادا کرنے والے تھے۔ ان اثرات میں کمزوروں میں جوش کا جذبہ ‪ ،‬سبزی‬
‫خواری کی زندگی ‪ ،‬روح کی پاکیزگی کے لئے بپوبس اور مختلف ذاتوں کے لوگوں کے درمیان‬
‫میں رواداری شامل تھیں۔‬
‫مئی ‪1883‬ء میں جب وہ ‪ 13‬سال کے تھے تب ان کی شادی ‪ 14‬سال کی کستوربا ماکھنجی سے کر‬
‫دی گئی جن کا پہال نام چھوٹا کرکے کستوربا تھا اور اسے لوگ پیار سے با کہتے تھے۔ یہ شادی‬
‫ایک منظم کم سنی کی شادی تھی جو اس وقت اس عالقے میں عام تھی۔ لیکن یہ اس عالقے میں‬
‫وہاں یہی رسم تھی کہ نابالغ دلہن کو اپنے ماں باپ کے گھر اور اپنے شوہر سے الگ زیادہ وقت‬
‫تک رہنا پڑتا تھا۔‪1885‬ء میں جب گاندھی جی ‪ 15‬سال کے تھے تب ان کی پہلی اوالد کی پیدائش‬
‫ہوئی لیکن وہ صرف کچھ دن ہی زندہ رہی اور اسی سال کے شروعات میں گاندھی جی کے والد‬
‫کرمچند گاھی بھی چل بسے۔ موہن داس اور کستوربا کے چار اوالد ہوئیں جو تمام بیٹے تھے ‪-‬‬
‫ہری الل ‪1888‬ء میں‪ ،‬منی الل ‪1892‬ء میں‪ ،‬رام داس‪1897 ،‬ء میں‪ ،‬اور دیوداس ‪1900‬ء میں پیدا‬
‫ہوۓ۔ پوربندرمیں ان کے مڈل اسکول اور راجکوٹ میں ان کے ہائی اسکول دونوں میں ہی تعلیمی‬
‫سطح پر گاندھی جی ایک اوسط طالب علم رہے۔ انہوں نے اپنی میٹرک کا امتحان بداؤنگر گجرات‬
‫کے سملداس کالج سے کچھ پریشانیوں کے ساتھ پاس کیا اور جب تک وہ وہاں رہے ناخوش ہی‬
‫رہے کیونکہ ان کا خاندان انہیں بیرسٹر بنانا چاہتا تھا۔‬
‫گاندھی اور ان کی بیوی کستوربا سن ‪1902‬ء میں‬

‫‪ 4‬ستمبر ‪1888‬ء کو اپنی شادی کی ‪19‬ویں سالگرہ سے کچھ ماہ قبل‪ ،‬گاندھی جی قانون کی پڑھائی‬
‫کرنے اور بیرسٹر بننے کے لئے لندن‪ ،‬برطانیہ کے یونیورسٹی کالج آف لندن گئے۔ شاہی دار‬
‫الحکومت لندن میں ان کے اوقات‪ ،‬اپنی ماں سے جین بھکشو کے سامنے بھارت چھوڑتے وقت‬
‫کۓ وعدے‪ ،‬ہندوؤں کی تہذیب کے تحت گوشت ‪ ،‬شراب اور تنگ نظریہ سے پرہیز کرتے گزرا۔‬
‫حاالنکہ گاندھی جی نے انگریزی رسم و رواج کا تجربہ بھی کیا جیسے مثال کے طور پر‪ -‬رقص‬
‫کی کالس میں جانا‪ -‬پھر بھی وہ اپنی مکان مالکن سے گوشت اور پتہ گوبھی کو ہضم نہیں کر‬
‫‪105 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫سکے۔ اور انہوں نے بھوکا رہنا پسند کیا جب تک انھیں لندن میں کچھ خالص سبزی ریستراں نہیں‬
‫ملے۔ سالٹ سے متاثر ہو کر‪ ،‬انہوں نے سبزخور سماج کی رکنیت اختیار کی۔ اور اس کی‬
‫ایگزیکٹو کمیٹی کے لئے انکا انتخاب بھی ہو گیا جہاں انہوں نے ایک مقامی باب کی بنیاد رکھی۔ وہ‬
‫جن سبزخور لوگوں سے ملے ان میں سے کچھ تھیوسوفیکل سوسائٹی کے رکن تھے جس کا قیام‬
‫‪1875‬ء میں عالمی بھائی چارگی کو مضبوط کرنے کے لئے اور بودھ مت اور ہندو مت کے ادب‬
‫کے مطالعہ کے لئے وقف کیا گیا تھا۔ انہوں نے گاندھی کو ان کے ساتھ بھگوت گیتا اصل اور‬
‫ترجمہ دونوں میں پڑھنے کے لئے متاثر کیا۔ جس گاندھی جی کو پہلے مذاہب میں خاص دلچسپی‬
‫نہیں تھی‪ ،‬وہ مذہب میں دلچسپی لینے لگے اور ہندواور عیسائی دونوں مذاہب کی کتابوں کو‬
‫پڑھنے لگے۔‬
‫‪ 10‬جون ‪1810‬ء میں ان کو انگلینڈ اور ویلز بار بالیا گیا۔ اور ‪ 12‬جون ‪1892‬ء کو لندن سے‪،‬‬
‫بھارت لوٹ آئے۔ جہاں انہیں اپنی والدہ کی موت کا علم ہوا۔ لیکن ممبئی میں وکالت کرنے میں انہیں‬
‫کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔ بعد میں ایک ہائی اسکول کے استاد کے طور پر جزوقتی کام کے‬
‫ساتھ ساتھ انہوں نے دعوں کے لئے مقدمے لکھنے کے لئے راجکوٹ کو ہی اپنا مقام بنا لیا لیکن‬
‫ایک انگریز افسر کی حمایت کی وجہ سے انھیں یہ کاروبار بھی چھوڑنا پڑا۔ اپنی آپ بیتی ‪My‬‬
‫‪ Experiments with the Truth‬میں ‪ ،‬نے اس واقعہ کا بیان انہوں نے اپنے بڑے بھائی کی‬
‫طرف سے پیروی کی ناکام کوشش کے طور پر کیا ہے۔ یہی وہ وجہ تھی جس وجہ سے انہوں نے‬
‫‪1893‬ء میں ایک بھارتی فرم دادا عبد ہللا اینڈ کمپنی کی ایک سالہ قرار پر نیٹال‪ ،‬جنوبی افریقہ جو‬
‫اس وقت انگریزی سلطنت کا حصہ ہوتا تھا‪ ،‬جانا قبول کیا تھا۔‬

‫جنوبی افریقہ میں شہری حقوق تحریک (‪ 1893‬تا ‪)1914‬‬

‫جنوبی افریقہ میں گاندھی (سن ‪1895‬ء)‬

‫جنوبی افریقہ میں گاندھی جی کو ہندوستانیوں اور کالے رنگ کے لوگوں کے ساتھ روا رکھے‬
‫جانے والے غیرامتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ شروع میں انہیں پہلے درجے کے کوچ کی‬
‫درست ٹکٹ رکھنے کے باوجود تیسرے درجہ کے ڈبے میں سفرکرنے پر مجبور کرنے‬
‫اورگاندھی جی کے انکار کرنے پرانھیں پیٹرمارتسبرگ میں ٹرین سے باہراتارا جا چکا تھا۔‬
‫پائےدان پر باقی سفر کرتے ہوئے ایک یورپی مسافر کے اندر آنے کے لئے اسے ڈرائیور سے‬
‫پٹائی بھی جھیلنی پڑی تھی۔ انہوں نے جنوبی افریقہ کے قیام کے دوران میں پیش آئیں دیگر‬
‫دشواریوں کا سامنا کیا جس میں کئی ہوٹلوں میں ان کے لئے پابندی لگا دی گئی تھی۔ اسی طرح کا‬
‫ایک اور واقعہ میں ڈربن کی ایک عدالت کے جج نے گاندھی جی کو اپنی پگڑی اتارنے کے لئے‬
‫حکم دیا تھا جسے گاندھی جی نے نہیں مانا۔ یہ سارےواقعات گاندھی جی کی زندگی میں ایک اہم‬
‫موڑ بن گئی اور سماجی نا انصافی کے فی بیداری کا سبب بنا اور سماجی سرگرمی کے لۓ متاثر‬
‫کیا۔ جنوبی افریقہ میں پہلی نظر میں ہی ہندوستانیوں پر اور نا انصافی‪ ،‬نسل پرستی اور تعصب کو‬
‫دیکھتے ہوئے گاندھی نے برطانوی سلطنت کے تحت اپنے لوگوں کے احترام اور ملک میں خود‬
‫اپنی حالت کے لیے سوال اٹھا دیے۔‬
‫ت جنوبی افریقہ کے ذریعے پیش کردہ بل کی‪ ،‬جس میں ہندستنیوں کے ووٹ‬ ‫گاندھی جی نے حکوم ِ‬
‫دینے کے حق کو چھینا گیا تھا‪ ،‬مخالفت کی۔ حاالں کہ بل کو منظوری سے روکنے میں وہ ناکام‬
‫رہے۔ تاہم‪ ،‬اس مہم سے بھارتیوں کی شکایات پر جنوبی افریقہ کی توجہ اپنی طرف متوجہ کرنے‬
‫میں کامیاب رہے تھے۔ انہوں نے ‪1894‬ء میں نیٹال انڈین کانگریس قائم کرنے میں مدد کی اور اس‬
‫کی تنظیم کے ذریعے سے‪ ،‬انہوں نے جنوبی افریقہ کے بھارتی کمیونٹی کو ایک متحدہ سیاسی‬
‫طاقت میں تبدیل کر دیا۔ جنوری ‪1897‬ء میں جب گاندھی ڈربن میں اترے تو سفید آبادکاروں کے‬
‫ایک ہجوم نے ان پر حملہ کر دیا تھا اور صرف پولیس سپرنٹنڈنٹ کی بیوی کی کوششوں سے بچ‬
‫گئے۔ تاہم انہوں نے بھیڑ کے کسی بھی رکن کے خالف الزامات عائد کرنے سے انکار کیا اور کہا‬

‫‪106 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫وہ ان کے اصولوں میں سے ایک تھی کہ ذاتی مسئلہ کے ازالے کے لئے عدالت میں نہیں جائيں‬
‫گے۔‬
‫‪1906‬ء میں ٹرانسوال حکومت نے ایک نیا قانون نافذ کر کہ کالونی میں بھارتی آبادی کو‬
‫رجسٹریشن کے لۓ مجبور کیا۔ اس سال جوہانسبرگ میں ایک بڑے پیمانے پر احتجاج ‪ 11‬ستمبر‬
‫کو منعقد ہوا۔ اجالس میں گاندھی نے پہلی بار ستیاگرہ (حق کی بارگاہ)‪ ،‬یا عدم تشدد پر مبنی‬
‫احتجاج کا طریقہ اختیار کی‪ ،‬اور اپنے ساتھی بھارتیوں کو بجائے تشدد کے ذریعے کی مخالفت‬
‫کے اسی طریقے سے نئے قانون پر عمل نہ کرنے اور سزا بردشت کرنے کہا۔ کمیونٹی نے اس‬
‫منصوبے کو اپنایا جو سات سال کی جدوجہد ہے جس میں گاندھی سمیت ہزاروں بھارتی جیل میں‬
‫ڈال دیۓ گئے ‪ ،‬کوڑے برساۓ گئے‪ ،‬ح ٰتّی کہ گولی مار دیے گئے۔ انہوں نے رجسٹریشن سے‬
‫انکار کیا‪ ،‬اپنے رجسٹریشن کارڈ جالۓ یا دوسری قسم کی غیر تشدد مزاحمت میں شامل ہوۓ۔‬
‫جبکہ حکومت بھارتی مظاہرین کو دبانے میں کامیاب رہی‪ ،‬مگر پرامن بھارتی مظاہرین پر سرکار‬
‫کی ذیادتی کے خالف عوام کو سخت دباؤ کا سامنا کرتے باآلخر مجبورًا جنوبی افریقہ کے جنرل‬
‫جان کرسٹین اسمٹس نے جنوبی افریقہ کی حکومت کی طرف سے گاندھی کے ساتھ بات کرکے‬
‫معاہدہ کیا۔ گاندھی کے نظریات اور ستیاگرہ کا تصور اس جدوجہد کے دوران میں واضح ہوا۔‬

‫نسل پرستی اور تنازع‬


‫گاندھی کے جنوبی افریقہ کے ابتدائی سال بعض معاملوں میں متنازع ہیں۔ ‪ 7‬مارچ ‪1908‬ء کو‬
‫انڈین اوپنین میں گاندھی نے جنوبی افریقہ کے جیل میں گزارے وقت کے بارے لکھا‪" :‬کافر‬
‫اصولی طور پر بےادب ہیں‪-‬وہ سب سے زیادہ مجرم ہیں۔ وہ شرپسند ‪ ،‬بہت ہی گندی ہیں اور تقریبًا‬
‫جانوروں کی طرح رہتے ہیں۔" ‪1903‬ء میں ہجرت کے موضوع پر گاندھی نے تبصرہ کیا‪": ‬ہم‬
‫پاکیزگی نسل میں زیادہ سے زیادہ یقین کے طور پر ہم سوچتے ہیں وہ کرتے ہیں۔‪.‬۔ ہم یہ بھی یقین‬
‫ہے کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام نسل غالب ہونی چاہئے۔" جنوبی افریقہ قیام دوران میں گاندھی‬
‫بھارتیوں کی دوجہ بندی سیاہ فام کے ساتھ کرنے کا بارہاں احتجاج کیا۔ جسے وہ "بالشبہ المتناہی‬
‫درجہ کافر سے بہتر" بتایا۔ اسی قسم کے تبصرے گاندھی پر نسل پرستی کے الزام کے لۓ ذمہ دار‬
‫حوالہ درکار؟‬
‫بنے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ لفظ کافر ان دنوں میں مختلف معنی میں لیا جا تا تھا۔‬
‫تاہم تاریخ کے دو پروفیسر سریندر بھانا‪ ،‬اور غالم واحد ‪ ،‬جو جنوبی افریقہ میں مہارت رکھتے‬
‫ہیں‪ ،‬نے اپنی عبارت‪ ،‬دی میکنگ آف پالٹیکل ریفارمر‪ :‬گاندھی ان ساؤتھ افریقہ‪1893 ،‬ء تا ‪1914‬ء‬
‫(نئ دہلی‪ :‬منوہر‪ )2005 :‬میں اس تنازع کی پڑتال کی۔ انہوں نے باب ‪" -1‬گاندھی‪ ،‬افریقی اور‬
‫بھارتی نوآبادیات نیٹال میں" میں "سفید فام راج" کے ماتحت افریقی اور ہندوستانی برادریوں کے‬
‫درمیان میں تعلقات اور وہ پالیسیاں جو ان فرقوں کے درمیان میں تنازع کی وجہ بنی کا ذکر کیا‬
‫ہے۔ وہ اس صورت حال پر کہتے ہیں "نوجوان گاندھی ‪ 1890‬کے دہے میں ان اختالف پسندوں‬
‫کے تصورات سے بہت متاثر تھے"۔ ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ‪" ،‬ایسا لگتا ہےکہ‪ ،‬جیل میں گاندھی‬
‫کے تجربات نے ان کو اس حال کے لۓ زیادہ حساس بنا دیا تھا۔‪.‬۔ بعد میں گاندھی نرم پڑے‪ ،‬وہ‬
‫افریقیوں کے خالف تعصب کے ان کے اظہاریے میں کمی آئی‪ ،‬اور وہ زیادہ تر مشترکہ امداد پر‬
‫توجہ دینے لگے۔‬
‫جوہانسبرگ جیل میں ان کے منفی خیاالت عام افریقہ نہیں بلکہ سخت گیر افریقی قیدیوں کے لیے‬
‫مخصوص تھے۔ تاہم بہت بعد کے زمانے میں جب جوہانسبرگ میں گاندھی کی ایک مورتی کی‬
‫نقاب کشائی کے منصوبوں کا اعالن کیا گیا تھا ‪ ،‬تو اس تحریک کو ناکام بنانے کے لیے گاندھی‬
‫کی "نسل پرستی پر مبنی" بیانات کو وجہ بنا کر روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔‬

‫بوئر جنگ میں کردار‬


‫برطانوی سامراج نے جب جنوبی افریقہ میں مقامی بوئر باشندوں پر جنگ مسلط کی تو مہاتما‬
‫[‪]3‬‬
‫گاندھی نے استعماری فوجوں کو ہندوستانیوں کی بھرتی کا تیقن ان الفاظ میں دالیا‪:‬‬
‫‪107 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫اس حقیر پیشکش کا مقصد یہ باور کرانے کی کوشش ہے‪ ،‬کہ جنوبی افریقہ کی ملکہ کے دوسری‬
‫رعایا کے دوش بدوش‪ ،‬ہندوستانی بھی‪ ،‬اپنی بادشاہت کی میدان جنگ میں خدمت بجا النے کے لیے‬
‫تیار ہیں۔ اس پیشکش کا مقصد ہندوستانیوں کی وفاداری کا بیعانہ ہے۔‬
‫— گاندھی‬

‫‪1906‬ء کی زولو‪ /‬جنگ میں کردار‬


‫‪1906‬ء میں زولو جنوبی افریقہ میں نئی طے کی جانے والی چنگی کے عائد کرنے کے بعد دو‬
‫انگریز افسروں کو مار ڈاال تھا۔ بدلے میں انگریزوں نے زولوؤں کے خالف جنگ چھیڑ دیا۔‬
‫گاندھی جی نے ہندوستانیوں کو بھرتی کرنے کے لئے برطانوی حکام کی حوصلہ افزائی کی۔ ان کا‬
‫کہنا تھا اپنی شہریت کے دعووں کو قانونی جامہ پہنانے کے لئے بھارتیوں کو جنگی کوششوں میں‬
‫تعاون کرنا چاہئے۔ تاہم انگریزوں نے اپنی فوج میں ہندوستانیوں کو عہدے دینے سے انکار کر دیا‬
‫تھا۔ اس کے باوجود انہوں گاندھی جی کی اس تجویز کو مان لیا کہ ہندوستانی زخمی انگریز‬
‫فوجیوں کو عالج کے لئے اسٹریچر پر النے اور عالج کا کام کر سکتے ہیں۔ اس ٹکڑی کی باگ‬
‫ڈور گاندھی نے تھامی۔ ‪ 21‬جوالئی ‪1906‬ء کو گاندھی نے انڈین اوپنین (‪ )Indian Opinion‬میں‬
‫لکھا کہ "نیٹال حکومت کے کہنے پر مقامی لوگوں کے خالف جنگ کے لۓ ‪ 23‬بھارتی باشندوں‬
‫کے ایک دستے کا قیام تجرباتی طور پر کیا گیا ہے۔گاندھی انڈین اوپینین کے مقالوں کے ذریعے‬
‫جنوبی افریقہ میں بھارتی لوگوں سے اس جنگ میں شامل ہونے کے لئے درخواست کی اور کہا‪: ‬‬
‫"اگر حکومت صرف یہی محسوس کرتی ہے کہ ریزرو فورس بیکار ہو رہے ہیں تو اس وقت وہ‬
‫اس کا استعمال کریں گے اور اصل لڑائی کے لئے بھارتیوں کا ٹریننگ دے کر اس کا موقع دیں‬
‫گے"۔‬
‫گاندھی کی رائے میں ‪1906 ،‬ء کا ڈرافٹ آرڈیننس ہندوستانیوں کی حالت مقامی شہریوں سے‬
‫نیچے النے جیسا تھا۔ اس لئے انہوں نے ستیہ گرہ کی طرز پر "کافروں" کی مثال دیتے ہوئے‬
‫ہندوستانیوں سے آرڈیننس کی مخالفت کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کے الفاظ میں ‪" ،‬یہاں تک کہ نصف‬
‫برادری اور کافر ہم سے کم جدید ہیں‪ ،‬انہوں نے بھی حکومت کی مخالفت کی ہے۔ بس وہی اصول‬
‫حوالہ درکار؟‬
‫ان پر بھی عائد ہوتا ہے لیکن وہ برابر نہیں دکھاتے ہیں۔‬
‫‪1927‬ء میں گاندھی نے اس واقعہ کا ذکر یوں کیا‪" :‬بوئر جنگ نے مجھے اتنا نہیں ڈرایا‪،‬جیسا کہ‬
‫زولو' بغاوت ' نے ڈرایا۔ کیوں کہ یہ کوئی جنگ نہیں تھی بلکہ یہ انسان کا شکار تھا‪ ،‬ایسا صرف‬
‫میرے ہی نہیں بلکہ کئی انگریز جن سے گفتگو کا موقع مال‪ ،‬کی رائے بھی ایسی ہی تھی" ۔‬

‫بھارت کی آزادی کے لئے جدوجہد (‪1915‬ء تا ‪1945‬ء)‬


‫‪1915‬ء میں گاندھی جنوبی افریقہ سے واپس بھارت میں رہنے کے لئے آئے۔ انہوں نے انڈین‬
‫نیشنل کانگریس کے کنونشن میں شرکت کی تھی ‪ ،‬لیکن بنیادی طور پر بھارتی مسائل‪ ،‬سیاست اور‬
‫عوام سے تعارف گوپال کرشن گوگھلے کے توسط سے ہوا جو اس وقت کے کانگریس پارٹی کے‬
‫قابل احترام قائد تھے۔‬

‫پہلی عالمی جنگ میں رول‬


‫اپریل ‪1918‬ء میں‪ ،‬پہلی عالمی جنگ کے اخیر جصّے کے دوران‪ ،‬وائسرائےنے دہلی میں جنگ‬
‫کی کانفرنس میں گاندھی کو مدعو کیا۔ اس امید سے کہ شاید وہ سلطنت کے لئے اپنی حمایت ظاہر‬
‫کریں اور بھارت کی آزادی کے لئے ان کے معاملے میں مدد کیا جاۓ۔ گاندھی جنگ کی کوششوں‬
‫کے لئے فعال طور پر بھارتیوں کی بھرتی سے اتفاق کیا۔ ‪1906‬ء کی زولو جنگ اور ‪1914‬ء کی‬
‫عالمی جنگ کے ہو بہ ہو جن میں انہوں نے ایمبولینس کور کے لۓ رضاکاروں کی بھرتی کی‬
‫تھی‪ ،‬اس وقت گاندھی جنگجو رضاکاروں کی بھرتی کی کوششیں کی تھی۔ ‪ 1‬جون ‪1918‬ء کے‬
‫‪108 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫ایک کتابچہ"بھرتی کے لیے اپیل" میں گاندھی نے لکھا "اس طرح کے حاالت میں ہمیں اپنے آپ‬
‫کا دفاع کرنے کی صالحیت ہونی چاہۓ جو ہتھیار اٹھانے اور انہیں استعمال کرنے کی صالحیت‬
‫ہے۔‪.‬۔ اور اگر ہم ہتھیار کا استعمال کرنا سیکھنا چاہتے ہیں تو فوج میں شامل ہونا ہمارا فرض ہے۔‬
‫حاالنہ کے انہوں نے وائسراۓ کے ذاتی سکریٹری کو خط لکھ کر آگاہ کیا کہ وہ "ذاتی طور پر‬
‫کسی کا قتل یا زخمی نہیں کرسکتے خواہ وہ دوست ہو یا دشمن"۔‬

‫چمپارن اور کھیڑا‬


‫گاندھی‪ ،‬کھیڑا اور چمپارن ستیہ گرہ کے دوربن سن ‪1918‬ء‬

‫گاندھی کی پہلی بڑی کامیابی ‪1918‬ء میں چمپارن تحریک اور کھیڑا ستیہ گرہ میں ملی‪ ،‬کھیڑا میں‬
‫اپنے گزر بسرکے لئے ضروری خوراکی فصلوں کی بجائے نیل اور نقدی فصلوں کی کھیتی کا‬
‫معاملہ تھا۔ زمیندار (زیادہ تر انگریز) کی طاقت سے مظالم ہوئے ہندوستانیوں کو برائے نام محنتانہ‬
‫دیا جاتا تھا جس سے وہ انتہائی غربت میں رہ رہے تھے۔ گاؤں میں بری طرح گندی اور شراب‬
‫خوری تھی۔ اب ایک تباہ کن قحط کی وجہ سے شاہی خزانے کی تالفی کے لیے انگریزوں نے‬
‫چنگی لگا دیے جن کا بوجھ دن روزانہ دن بہ دن بڑھتا ہی گیا۔ یہ صورتحال پریشان کن تھی۔‬
‫کھیڑا‪ ،‬گجرات میں بھی یہی مسئلہ تھا۔ گاندھی جی نے وہاں ایک آشرم بنایا جہاں ان کے بہت‬
‫سارے حامیوں اور نئے کارکنوں کو منظم کیا گیا۔ انہوں نے گاؤں کا ایک وسیع مطالعہ اور سروے‬
‫کیا جس میں لوگوں پر ہوئے ظلم کے خوفناک کانڈوں کا ریکارڈ رکھا گیا اور اس میں لوگوں کی‬
‫تنزیلی حالت کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ دیہاتوں میں یقین پیدا کرتے ہوئے انہوں نے اپنا کام گاؤں کی‬
‫صفائی کرنے سے شروع کیا جس کے تحت اسکول اور ہسپتال بنائے گئے اور سماجی برائیوں‬
‫جیسے چھواچھوت‪ ،‬شراب خوری کو ختم کرنے کے لئے دیہی قیادت کی حوصلہ افزائی کی۔‬
‫لیکن اس کے اصل اثرات اس وقت دیکھنے کو ملے جب انہیں بدامنی پھیالنے کے لئے پولیس نے‬
‫گرفتار کیا اور انہیں صوبے چھوڑنے کے لئے حکم دیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے‬
‫احتجاجی مظاہرے کئے اور جیل ‪ ،‬پولیس اسٹیشن اور عدالتوں کے باہر ریلیاں نکال کر گاندھی کو‬
‫بغیر شرط رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ گاندھی نے زمیںدارز کے خالف احتجاجی مظاہرے اور‬
‫ہڑتالوں کی قیادت کی جنہوں نے انگریزی حکومت کی رہنمائی میں اس خطے کے غریب کسانوں‬
‫کو زیادہ معاوضہ منظور کرنے اور کھیتی پر کنٹرول ‪ ،‬قحط تک چنگی کو منسوخ کرنا والے ایک‬
‫معاہدے پر دستخط کۓ۔ اس جدوجہد کے دوران میں ہی ‪ ،‬گاندھی جی کو عوام نے باپو اور مہاتما‬
‫(عظیم روح) کے نام سے خطاب کیا۔ کھیڑا میں سردار پٹیل نے انگریزوں کے ساتھ گفتگو کے‬
‫لئے کسانوں کی قیادت کی جس میں انگریزوں نے چنگی کو منسوخ کر تمام قیدیوں کو رہا کر دیا۔‬
‫اس کے نتیجے میں ‪ ،‬گاندھی کی شہرت پورے ملک میں پھیل گئی۔ اور وہ باباۓ قوم کہالۓ۔‬
‫لندن سے وکالت کا امتحان پاس کیا۔ کچھ وقت جنوبی افریقہ میں گزارا اور وہیں سیاست میں آۓ۔‬
‫ہندوستان آکر انھوں نے انڈین نیشنل کانگرس کے پلیٹ فارم سے سیاسی اور سماجی بیداری کا‬
‫آغاز کیا۔ آزادی کے لیے عدم تشدد انکا اہم ہتھیار تھا۔ آزادی کے بعد ‪ 30‬جنوری ‪1948‬ء کو انہیں‬
‫نئی دہلی میں قتل کر دیا گیا۔‬

‫عدم تعاون‬
‫گاندھی نے عدم تعاون‪ ،‬عدم تشدد اور پرامن مزاحمت کو برطانوی راج کے خالف جدوجہد میں‬
‫"ہتھیار" کے طور پر اپنایا۔ پنجاب کی جلیانوالہ باغ قتل عام (جسے امرتسر قتل عام سے بھی جانا‬
‫جاتا ہے) کی وجہ سے عام شہریوں میں کافی غم و غصہ تھا‪ ،‬جس وجہ سے برطانوی فوجیوں کو‬
‫عوام کے غصے اور تشددی کارروائیوں کا سامنہ کرنا پڑا۔ گاندھی نے دونوں برطانوی راج کے‬
‫اقدامات اور بھارت کی جوابی تشدد پر تنقید کی۔ انہوں نے برطانوی شہریوں کے متاثرین کے لئے‬
‫تعزیت کی پیشکش اور فسادات کی مذمت کی قرارداد لکھی ‪ ،‬جسے پارٹی میں ابتدائی مخالفت اور‬
‫گاندھی کی اس اصول کی جذباتی وکالت کہ‪ ،‬تمام تشدد ہی برا ہیں اور ناقال قبول ہیں‪ ،‬کے بعد‬
‫‪109 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫منظور کر لیا گیا۔ لیکن قتل عام اور اسکے بعد کی تشدد نے گاندھی کی توجہ مکمل خود حکومت‬
‫اور تمام بھارتی حکومتی ادارے کا کنٹرول حاصل کرنے پر مرکوز کر دیا‪ ،‬جو جلد ہی سوراج یا‬
‫مکمل ذاتی ‪ ،‬روحانی ‪ ،‬سیاسی آزادی میں بدل گئی ۔‬
‫سابرمتی آشرم میں مہاتما گاندھی کا کمرہ‬
‫سابرمتی آشرم ‪ ،‬گجرات میں گاندھی کے گھر‬

‫دسمبر ‪1921‬ء میں انڈین نیشنل کانگریس نے گاندھی کو خصوصی اختیارات کے ساتھ پارٹی کا‬
‫ذمہ سونپا۔ ان کی قیادت میں کانگریس کو ایک نۓ آئین اور سوراج کے مقاصد کے ساتھ دوبارہ‬
‫سے منظم کیا گیا۔ پارٹی میں رکنیت کے ایک ٹوکن فیس ادا کرنے کے بعد کسی کے لئے کھول دیا‬
‫گیا تھا۔ پارٹی کو مخصوص طبقے کی جماعت سے‪ ،‬منظم اور قومی اپیل میں تدیل کرنے کے لۓ‬
‫کئی درجاتی ذیلی تناظیم قائم کۓ گئے۔ گاندھی اپنی عدم تشدد الئحہ عمل میں سودیشی پالیسی(غیر‬
‫ملکی مال کے بائیکاٹ کی ‪ ،‬خاص طور پر برطانوی اشیاء ) کو شامل کر اسے توسیع دی۔ اس‬
‫سے منسلک انہوں نے ہر بھارتی کو انگریزی ٹکسٹائل کے بجاۓ کھادی(گھروں میں بنے کپڑے)‬
‫کے استعمال کی وکالت کی۔ گاندھی بھارت کے مردوں اور عورتوں‪ ،‬امیر ہو یا غریب کو آزادی‬
‫کی تحریک کی حمایت میں ہر دن کھادی کی کتائی کے لۓ وقت خرچ کرنے کی نصیحت دی۔‬
‫گاندھی نے ایک چھوٹی سی چرخہ بنوائ جو ایک چھوٹی سی ٹائپ رائٹر کے سائز میں موڑا جا‬
‫سکتا تھا۔ انہوں نے ایسا لوگوں میں نظم و ضبط‪ ،‬جذبہ‪ ،‬خوداعتمادی میں اضافہ اور منفی خیاالت‬
‫کو دور کرنے‪ ،‬اور عورتوں کو بھی اس تحریک میں شامل کرنے کے لۓ کیا جو کے وقت سوچ‬
‫کہ‪ ،‬اس طرح کی سرگرمیوں میں عورتوں کے لئے عزت کا مقام نہیں ہے کو بدل دیا۔ برطانوی‬
‫مصنوعات کے بائیکاٹ کے عالوہ ‪ ،‬گاندھی نے برطانوی تعلیمی اداروں اور قانونی عدالت کی‬
‫بائیکاٹ پر بھی زور دیا کہ ‪ ،‬حکومت کی مالزمت سے استعفی دے دیں‪ ،‬اور برطانیہ کے القاب‬
‫اور اعزازات چھوڑنے کے لئے کہا۔‬
‫عدم تعاون کو بڑے پیمانے پر اپیل اور کامیابی کا لطف اٹھایا ‪ ،‬بھارتی سماج کے تمام طبقات کی‬
‫طرف سے حوصلہ افزائی ملی اور شرکت میں اضافہ ہوا۔ پھر جب تحریک اپنی فراز پر تھا ‪ ،‬اس‬
‫چوری چورا‪ ،‬اتر پردیش کی ایک بستی میں فروری ‪1922‬ء کے پر تشدد تصادم کے نتیجے میں‬
‫اچانک ختم ہو گیا۔ اس ڈر سے کہ تحریک تشدد کی طرف موڑ نہ لے لے‪ ،‬اور سارے کرے کراۓ‬
‫پر پانی نہ پھر جاۓ۔ گاندھی نے عوامی سول نافرمانی کی مہم کے خاتمے کا اعالن کیا۔ ‪ 10‬مارچ‬
‫‪1922‬ء کو گاندھی کو گرفتار کیا گیا‪ ،‬بغاوت کے لئے کوشش کے الزام میں چھ سال قید کی سزا‬
‫سنائی گئی۔ انہوں نے ‪ 18‬مارچ ‪1922‬ء اس سزا کی شروعات کی۔ انہیں ایک پتری کے آپریشن‬
‫کے لیے ‪1924‬ء فروری میں رہا کر دیا گیا اس طرح انہوں نے صرف ‪ 2‬سال تک ہی جیل میں‬
‫رہے۔‬
‫گاندھی کی ایسی متحدہ کی شخصیت کے بغیر ‪ ،‬انڈین نیشنل کانگریس ‪ ،‬دو دھڑوں میں بنٹ گئی‪،‬‬
‫ایک چتّا رنجن داس اور موتی الل نہرو کی قیادت میں جو اسمبلی میں پارٹی کی شرکت کے حامی‬
‫تھے اور دوسرا چکرورتی راج گوپال آچاریہ اور سردار وللببائی پٹیل کی قیادت میں جو اس اقدام‬
‫کی مخالف تھے۔ اس کے عالوہ‪ ،‬ہندو اور مسلمان اتحاد‪ ،‬جو عدم تشدد کی مہم کی بلندی پر مضبوط‬
‫تھا‪ ،‬ٹوٹ گیا تھا۔ گاندھی ‪1924‬ء کے موسم خزاں میں تین ہفتے کا احتجاجی روزہ کے ذریعے ان‬
‫اختالفات کو حل کرنے کی کوشش کی ‪ ،‬لیکن ان کو محدود کامیابی ملی۔‬

‫نمک ستیاگرہ (نمک مارچ)‬


‫گاندھی ‪ 5‬اپریل ‪1930‬ء کو نمک مارچ کے خاتمہ کے دوران میں دانڈی میں‬

‫گاندھی جی سرگرم سیاست سے دور ہی رہے اور ‪1920‬ء کی زیادہ تر مدت تک وہ سوراج پارٹی‬
‫اور انڈین نیشنل کانگریس کے درمیان میں کی خلیج کو پر کرنے میں لگے رہے اور اس کے‬
‫‪110 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫عالوہ وہ چھواچھوت ‪ ،‬شراب ‪ ،‬جہالت اور غربت کے خالف تحریک چھیڑتے بھی رہے۔ وہ‬
‫‪1928‬ء میں منظر عام پر لوٹے۔ ایک سال پہلے انگریزی حکومت نے سر جان سائمن کی قیادت‬
‫میں ایک نئ قانون اصالحات کمیشن تشکیل دے دیا جس میں ایک بھی رکن ہندوستانی نہیں تھا۔ اس‬
‫کا نتیجہ بھارتی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بائیکاٹ نکال۔ دسمبر ‪1928‬ء میں گاندھی جی نے‬
‫کلکتہ میں منعقد کانگریس کے ایک اجالس میں ایک تجویز پیش کی جس میں بھارتی سلطنت کو‬
‫اقتدار فراہم کرنے کے لئے کہا گیا تھا یا ایسا نہ کرنے کے بدلے اپنے مقصد کے طور پر مکمل‬
‫ملک کی آزادی کے لئے عدم تعاون تحریک کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہیں۔ گاندھی جی نے نہ‬
‫صرف نوجوان طبقے سبھاش چندر بوس اور جواہر الل نہرو جیسے مردوں سے فوری آزادی کا‬
‫مطالبہ کے خیاالت کو معتدل کیا بلکہ اپنی خود کی مانگ کو دو سال کی بجائے ایک سال کر دیا۔‬
‫انگریزوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ‪ 31‬دسمبر ‪1929‬ء کو الہور میں بھارت کا جھنڈا پھیرایا گیا۔‬
‫‪ 26‬جنوری ‪1930‬ء کا دن الہور میں بھارتی یوم آزادی کے طور پر انڈین نیشنل کانگریس نے منایا۔‬
‫یہ دن تقریبا ً ہر ہندوستانی تنظیموں کی طرف سے بھی منایا گیا۔ اس کے بعد گاندھی جی نے مارچ‬
‫‪1930‬ء میں نمک پر چنگی لگائے جانے کی مخالفت میں نیا ستیہ گرہ چالیا جسے ‪ 12‬مارچ سے‬
‫‪ 6‬اپریل تک نمک تحریک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میں ‪ 400‬کلومیٹر (‪ 248‬میل) تک کا‬
‫سفر احمد آباد سے دازڈی ‪ ،‬گجرات تک چالیا گیا تاکہ خود نمک پیدا کیا جا سکے۔ سمندر کی‬
‫طرف کی اس سفر میں ہزاروں کی تعداد میں ہندوستانیوں نے حصہ لیا۔ بھارت میں انگریزوں کی‬
‫پکڑ کو کمزور کرنے واال یہ ایک سب سے زیادہ کامیاب تحریک تھی جس میں انگریزوں نے‬
‫‪ 80،000‬سے زیادہ لوگوں کو جیل بھیجا۔‬
‫الرڈ ایڈورڈ اروین (‪ )Lord Edward Irwin‬کی طرف سے نمائندگی والی حکومت نے گاندھی‬
‫جی کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کا فیصلہ لیا۔ یہ اروین گاندھی کی صلح (‪Gandhi – Irwin‬‬
‫‪ )Pact‬مارچ ‪1931‬ء میں دستخط کئے تھے۔ شہری نافرمانی تحریک کو بند کرنے کے عوض‬
‫برطانوی حکومت نے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کے لئے اپنی رضامندی دے دی۔ اس‬
‫معاہدے کے نتیجے میں گاندھی کو انڈین نیشنل کانگریس کے واحد نمائندے کے طور پر لندن میں‬
‫منعقد ہونے والے گول میز کانفرنس میں حصہ لینے کے لئے مدعو کیا گیا۔ یہ کانفرنس گاندھی جی‬
‫اور قومیت وادیوں کے لئے سخت مایوس کن رہا ‪ ،‬اس کی وجہ اقتدار کا منتقلی کرنے کی بجائے‬
‫بھارتی راجواڑے اور بھارتی اقلیتوں پر مرکوز ہونا تھا۔ اس کے عالوہ ‪ ،‬الرڈ اروین کے جانشیں‬
‫الرڈ ولنگٹن (‪ ، )Lord Willingdon‬نے قومیت وادیوں کے تحریک کو کنٹرول اور کچلنے کی‬
‫ایک نئ مہم شروع کردیا۔ گاندھی پھر سے گرفتار کر لئے گئے اور حکومت نے ان کے عاملین کو‬
‫ان سے پوری طرح دور رکھتے ہوئے گاندھی جی کی طرف سے متاثر ہونے سے روکنے کی‬
‫کوشش کی۔ لیکن ‪ ،‬یہ مشین کامیاب نہیں ہوئی۔‬

‫مادھو دیسائ (بایئں) گاندھی کو وائسرۓ کا خط سنتے‪ ،‬برال ہاؤس بمبئ میں‪ 7 ،‬اپریل ‪1939‬ء‬

‫‪1932‬ء میں ‪ ،‬دلت رہنما بھیم راؤ امبیڈکر (‪)BR Ambedkar‬کے انتخابی مہم کے ذریعے‪،‬‬
‫حکومت نے اچھوتوں کو ایک نئے آئین کے تحت الگ سے انتخاب کو منظور کر دیا۔ اس فیصلے‬
‫کی مخالفت میں گاندھی جی نے ستمبر ‪1932‬ء میں چھ دن کے احتجاجی روزہ رکھا جس کی‬
‫کامیابی کہ باعث عوامی احتجاج نے طول پکڑا۔ اس کے اثر سے حکومت نے دلت کرکٹر سے‬
‫سیاسی لیڈر بنے پلوانکر بالو کی ثالثی میں ایک یکساں نظام کو اپنانے پر زور دیا۔ اس واقعہ نے‬
‫اچھوتوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے گاندھی جی کی طرف سے مہم کی شروعات کی۔‬
‫گاندھی جی نے ان اچھوتوں کو ہریجن کا نام دیا جنہیں وہ خدا کی اوالد سمجھتے تھے۔ ‪ 8‬مئی‬
‫‪1933‬ء کو گاندھی جی نے ہریجن تحریک میں مدد کرنے کے لئے اور خود پاکیزگی کے لۓ ‪21‬‬
‫دن تک کا روزہ رکھا۔ یہ نئی مہم دلتوں کو پسند نہیں آؤ تاہم وہ ایک اہم رہنما بنے رہے۔ بی آر‬
‫امبیڈکر (‪ )BR Ambedkar‬نے گاندھی جی سے ہریجن لفظ کا استعمال کرنے کی مذمت کی کہ‬
‫دلت سماجی طور پر نادان ہیں اور اونچے ذات والے ہندوستانی انکے ساتھ پدری کردار ادا کیا ہے۔‬
‫‪111 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫امبیڈکر اور اس کی اتحادی جماعتوں کو بھی محسوس ہوا کہ گاندھی جی دلتوں کے سیاسی حقوق‬
‫کو ہلکا لے رہے ہیں۔ حاالنکہ گاندھی جی ایک ویشو ذات میں پیدا ہوئے پھر بھی انھوں نے اس‬
‫بات پر زور دیا کہ وہ امبیڈکر جیسے دلت کارکن کے ہوتے ہوئے بھی وہ دلتوں کے لئے آواز اٹھا‬
‫سکتا ہے۔‬
‫‪1934‬ء کی گرمیوں میں ‪ ،‬ان کی جان لینے کے لیے ان پر تین ناکام کوشش کئے گئے تھے‬
‫جب کانگریس پارٹی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا اور وفاقی منصوبہ کے تحت اقتدار قبول کی تو‬
‫گاندھی جی نے پارٹی کی رکنیت سے استعفی دینے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ پارٹی کے اس قدم سے‬
‫متفق نہیں تھے لیکن محسوس کرتے تھے کہ اگر وہ استعفی دیتے ہیں تب ہندوستانیوں کے ساتھ‬
‫اس کی مقبولیت پارٹی کی رکنیت کو مضبوط کرنے میں آسانی فراہم کرے گی جو اب تک‬
‫کمیونسٹوں ‪ ،‬ماوعوادیوں ‪ ،‬کاروباری مئوز ‪ ،‬طلبہ ‪ ،‬مذہبی رہنماؤں سے لے کر کاروبار مئوز اور‬
‫مختلف آواز جو انکے درمیان موجود تھی۔ اس سے ان تمام کو اپنی اپنی باتوں کے سن جانے کا‬
‫موقع حاصل ہوگا۔ گاندھی راج کے لئے کسی پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے مہم سے کوئی ایسا‬
‫ہدف ثابت نہیں کرنا چاہتے تھے جسے راج کے ساتھ عارضی طور پر سیاسی نظام کے طور پر‬
‫قبول کر لیا ہو۔‬
‫گاندھی جی نہرو کی صدارت اور کانگریس کے الہور اجالس کے ساتھ ہی ‪1936‬ء میں فعّال‬
‫سیاست میں لوٹ آئے۔ حاالنکہ گاندھی کی مکمل خواہش تھی کہ وہ آزادی حاصل کرنے پر اپنا‬
‫مکمل توجہ مرکوز کریں نہ کہ بھارت کے مستقبل کے بارے میں نانکلوں پر۔ اس نے کانگریس کو‬
‫سماجواد کو اپنے مقصد کے طور پر اپنانے سے نہیں روکا۔ ‪1938‬ء میں صدر کے عہدے کے‬
‫لئے منتخب سبھاش چندر بوس کے ساتھ گاندھی جی کے اختالفات تھے۔ بوس کے ساتھ اختالفات‬
‫میں گاندھی کے اہم نقطہ بوس کی جمہوریت میں عزم کی کمی اور عدم تشدد میں یقین کی کمی‬
‫تھی۔ بوس نے گاندھی جی کی تنقید کے باوجود بھی دوسری بار کامیابی حاصل کی لیکن کانگریس‬
‫کو اس وقت چھوڑ دیا جب تمام ہندوستانی رہنماؤں نے گاندھی کے الگو کئے گئے تمام اصولوں کو‬
‫نظر انداز کرنے پر احتجاجی طور پر متحدہ استعفا دے دیا۔‬

‫دوسری عالمی جنگ اور بھارت چھوڑو‪/‬‬


‫نازی جرمنی کے پولینڈ پر حملہ سے دوسری عالمی جنگ ‪1939‬ء میں پھوٹ پڑا۔ ابتدا میں گاندھی‬
‫نے برطانوی کوشش کی "غیر متشدد اخالقی حمایت" کی پیشکش کی‪ ،‬لیکن کانگریس کے دوسرے‬
‫رہنما عوام کے منتخب نمائندے کی مشاورت کے بغیر بھارت کو جنگ میں یک طرفہ شامل کئے‬
‫جانے سے ناراض تھے ‪،‬۔ سب کانگریس کے دفتر سے استعفی دے دیا۔ طویل بحث کے بعد‪،‬‬
‫گاندھی نے اعالن کیا ہے کہ بھارت ایک ظاہر طور جمہوری آزادی کے لئے لڑے جا رہا ہے‬
‫جنگ کی پارٹی نہیں بنے گی‪ ،‬جبکہ خود بھارت کو آزادی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ جنگ‬
‫بڑھنے کے ساتھ‪ ،‬گاندھی نے آزادی کے لئے ان کی مانگ کو تیز کر دیا۔ ایک قرارداد تیار کر‬
‫برطانوی حکومت سے بھارت چھوڑو کی مانگ کی گئی۔ یہ گاندھی اور کانگریس پارٹی کی طرف‬
‫سے‪ ،‬بھارت سے برطانوی اخراج کو یقینی بنانے کے مقصد سے کی گئی سب سے زیادہ واح‬
‫بغاوت تھی۔‬
‫گاندھی کی تحریر(" ‪ - )"I want world sympathy in this battle of right against might‬دانڈی‬
‫‪ 5‬اپریل ‪1930‬ء‬

‫دونوں برطانوی حامی اور مخالف‪ ،‬کچھ کانگریس پارٹی کے اراکین اور دیگر بھارتی سیاسی‬
‫گروپ نے گاندھی کے اس قدم کی تنقید کی۔ بعض نے محسوس کیا کہ نازی جرمنی کے خالف‬
‫جدوجہد میں برطانیہ کی حمایت نہیں کرنا غیر اخالقی تھا۔ دیگر نے محسوس کیا کہ بھارت کا‬
‫جنگ میں حصہ لینے گاندھی سے انکار ناکافی تھا اور زیادہ براہ راست حزب اختالف کی‬
‫کارروائی کی جانی چاہئے تھی ‪ ،‬جبکہ برطانیہ جو ابھی تک نازیوں کے خالف لڑ ہی رہی تھی‬
‫‪112 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫بھارت کو آزادی دینے سے انکار کر کے تردید جاری رکھا۔ بھارت چھوڑو جدوجہد بڑے پیمانے‬
‫پر گرفتاریوں اور بے اندازا تشدد کے ساتھ تاریخ کی سب سے زیادہ مضبوط تحریک بن گی۔‬
‫ہزاروں مجاہد آزادی پولس کے گولیوں سے قتل یا زخمی ہوۓ‪ ،‬اور ہزاروں کو گرفتار کیا گیا۔‬
‫گاندھی اور ان کے حامیوں نے یہ واضح کیا کہ وہ جنگ کی کوشش کی حمایت نہیں کرتے جب‬
‫تک کہ بھارت کو فوری طور پر آزادی دی جاتی ہے۔ اس نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس وقت‬
‫تحریک کو تشدد کے انفرادی کارروائیوں کی بنا پر بند نہیں کیا جاۓ گا‪ ،‬انہوں نے کہا کہ "حکم‬
‫دیا اراجکتا" انکے گرد کے "اصلی انتشار سے بھی بڑھ کر۔" ہے۔ انہوں نے تمام کانگریس اور‬
‫بھارتیوں پر عدم تشدد کے ذریعہ نظم و نس‍ق بناۓ رکھنے اور آزادی کے لۓ کرو یا مرو پر زور‬
‫دیا۔‬
‫برطانوی حکومت نے ‪ 9‬اگست ‪1942‬ء میں گاندھی اور پوری کانگریس ورکنگ کمیٹی گرفتار کر‬
‫لیا گیا۔ گاندھی کو پونے میں آغا خان محل میں دو سال کے لئے مقید کیا گیا۔ یہاں گاندھی کو ذاتی‬
‫زندگی میں دو خوفناک حادثے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے ‪ 50‬سالہ سیکرٹری مہادیو دسائی کا دل کا‬
‫دورہ سے اور ‪ 6‬دن بعد ان کی بیوی کستوربا ‪ 18‬ماہ قید کی سزا کے بعد ‪ 22‬فروری ‪1944‬ء کو‬
‫فوت کر گئے۔ چھ ہفتوں کے بعد میں گاندھی کو ایک سخت ملیریا کے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔‬
‫انہیں جنگ کے اختتام سے پہلے ‪ 6‬مئی ‪1944‬ء کو گرتی صحت اور ضروری سرجری کی وجہ‬
‫سے رہا کر دیا گیا۔ ‪ ،‬راج جیل میں انکی موت کی وجہ سے متحدہ قوم نہیں چاہتا تھا۔ اگرچہ بھارت‬
‫چھوڑو تحریک اس مقصد میں معتدل کامیابی ملی تھی ‪ ،‬اس تحریک کی ش ّدت نے ‪1943‬ء کے‬
‫آخر تک بھارت کے لئے آزادی کا پیغام الیا تھا۔ جنگ کے اختتام پر برطانوی حکومت نے اقتدار‬
‫کو بھارتی ہاتھ منتقل کرنے کا واضح اشارہ دیا۔ اس وقت گاندھی نے جدوجہد کی اختتام کا اعالن‬
‫کیا۔ اورکانگریس کی قیادت سمیت تقریبا ً ‪ 100،000‬سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔‬

‫تقسیم ہند‬
‫جب انڈین نیشنل کانگریس اور گاندھی برطانیہ پر بھارت چھوڑنے کا دباؤ بنا رہے تھے ‪1943 ،‬ء‬
‫میں مسلم لیگ ملک کو تقسیم کرنے اور چھوڑ نے کا قرارداد منظور کریا‪ ،‬مانا جاتا ہے کہ مہاتما‬
‫گاندھی ‪a‬لک کو تقسیم کرنے کی مخالفت تھے۔ اور مشورہ دیا کہ ایک معاہدہ کے تحت کانگریس‬
‫اور مسلم لیگ کی تعاون سے ایک عارضی حکومت کے تحت آزادی حاصل کر لیا جاۓ۔ اس کے‬
‫بعد‪ ،‬تقسیم کے سوال پر مسلم اکثریت کے اضالع میں ایک رائے شماری کے ذریعے حل ہو سکتا‬
‫ہے۔ پر محمد علی جناح براہ راست کارروائی کے حق میں تھے۔ ‪ 16‬اگست ‪1946‬ء کو گاندھی‬
‫مشتعل تھے اور فسادات زدہ عالقوں کا دورہ کر قتل عام کو روکنے کی ذاتی طور پر کوشش کی۔‬
‫انہوں نے بھارتی ہندو‪ ،‬مسلمان اور عیسائی کی اتحاد کی مضبوط کوشش کی۔ اور ہندو سماج میں‬
‫"اچھوت" کی آزادی کے لئے جدوجہد کی۔‬
‫‪ 14‬اور ‪ 15‬اگست‪1947 ،‬ء کو برطانوی انڈین سلطنت نے بھارتی آزادی ایکٹ پاس کر دیا‪ ،‬جو قتل‬
‫عام اور ‪ 12.5‬الکھ لوگوں کے منتقلی اور کروڑوں کے نقصان کی گواہ بنی۔ ممتاز نارویجن تاریخ‬
‫داں جینس اروپ سیپ کے متابق گاندھی کی تعلیمات‪ ،‬اس کے پیروکاروں کی کوشش‪ ،‬اور انکی‬
‫اپنی موجودگی تقسیم کے دوران میں نقصانات کو کم تر کرنے میں کامیاب رہی۔‬
‫اسٹینلے والپرٹ تقسیم پر گاندھی کے کردار اور خیاالت کا خالصہ ان الفاظوں میں کیا ہے‪:‬‬

‫”‬
‫برطانوی ہند کو باٹنے کا منصوبہ گاندھی کو کبھی منظور نہیں تھا۔ تاہم انہیں احساس ہو‬
‫چکا تھا کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ ان کے ساتھیوں اور حواریوں کو اصول سے زیادہ‬

‫“‬ ‫اقتدار میں دلچسپی ہے‪ ،‬اور انکی اپنی اس بھرم سے گھری رہی کہ بھارت کی آزادی کی‬
‫جدوجہد جس کی قیادت انہوں نے کی وہ ایک بے تشدد تھا۔‬

‫‪113 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫— ‪Stanley Wolpert: Gandhi's Passion, The Life and Legacy of Mahatma Gandhi, Oxford‬‬
‫‪University Press‬‬

‫قتل‬
‫راج گھاٹ گاندھی کے نظر آتش کی جگہ‬
‫آغا خان محل (پونے‪ ،‬بھارت) میں گاندھی کی راکھ‬

‫‪ 30‬جنوری ‪1948‬ء کو ایک عبادتی خطبے کے لۓ چبترے کی طرف جاتے وقت گاندھی کو گولی‬
‫مار کر قتل کر دیا گیا۔ قاتل ناتھو رام گوڈسے ایک ہندو قوم پرست اور ہندو انتہاپسند تنظیم ہندو‬
‫مہاسبھا سے وابسطہ تھا جو گاندھی کو پاکستان کو ادایئگی کے لۓ مجبور کرنے اور کمزور‬
‫کرنے کے لۓ ذمہ دار سمجھتی تھی۔ گوڈسے اور اسکا ساتھی سازش کار نارایئن آپٹے کو بعد میں‬
‫سنوائ کے بعد مجرم قرار دیا گیا اور ‪ 15‬نومبر ‪1949‬ء کو ان دونوں کو پھانسی دے دی گئی۔‬
‫گاندھی کی سمادھی راج گھاٹ نئ دہلی میں ہے۔ جس پر بڑے حروف میں ہے رام () یعنی یا خدا‬
‫لکھا ہے۔ عموما یہ گاندھی کے آخری الفاظ مانے جاتے ہیں حاالنکہ یہ متنازع ہے۔ جواہر لعل نہرو‬
‫نے ریڈیو سے قوم کو خطاب کرتے ہوۓ کہا‪:‬‬

‫”‬
‫دوستوں اور ساتھیوں کو‪ ،‬روشنی ہماری زندگی سے نکل گئی ہے‪ ،‬اور ہر جگہ تاریکی‬
‫ہے‪ ،‬اور میں واقعی نہیں جانتا کہ آپ کو کیا بتاؤں اور کس طرح بتاؤں۔ کہ ہمارے محبوب‬
‫قائد‪ ،‬باپو جیسا کہ ہم انکو کہتے تھے‪ ،‬باباۓ قوم‪ ،‬اب نہیں رہے۔ شاید میں کہتا ہوں کہ میں‬
‫غلط ہوں‪ ،‬پھر بھی‪ ،‬ہم انہیں پھر نہیں دیکھ سکیں گے جیسا کہ ہم نے ان کو کئی سالوں سے‬
‫دیکھا ہے‪ ،‬ہم مشورہ کے لئے اس کے پاس نہ جا سکیں گے نا ان سے سکون حاصل کر‬

‫“‬ ‫پائيں گے‪ ،‬اور یہ کہ ایک سخت دھچکا ہے‪ ،‬نہ صرف میرے لئے‪ ،‬لیکن اس ملک کے‬
‫الکھوں الکھ لوگوں کے لئے۔‬

‫گاندھی کی راکھ کلشوں میں ڈال کر پورے بھارت میں یادگار کی طور پر بھیجا گیا۔ زیادہ تر کا الہ‬
‫آباد کی سنگم پر ‪ 12‬فروری ‪1948‬ء میں ڈوبو دۓ گئے‪ ،‬لیکن کچھ چھپا کر دور لے جایا گیا‬
‫‪ 1997‬ء میں تشار گاندھی ایک کلش کا مواد‪ ،‬ایک بینک کے والٹ میں پایا اور عدالتوں کے‬
‫ذریعے حاصل کر الہ آباد میں سنگم میں ڈوبو دۓ۔ مہاتما کے راکھ کا کچھ حصہ یوگنڈا کے قریب‬
‫دریائے نیل کے منبع پر منتشر کۓ گئے۔ ‪ 30‬جنوری ‪2008‬ء ایک کلش کا مواد اس کے خاندان کی‬
‫طرف سے گرگوام چوپاٹی میں ڈوب گیا جو دبئی کے ایک تاجر ممبئی کے ایک میوزیم کو بھیج‬
‫دیا تھا۔ ایک اور کلش آغا خان کی ایک محل میں پونے ہے (جہاں انہیں ‪ 1942‬سے ‪ 1944‬قید کر‬
‫رکھا گیا تھا) اور دوسرا سیلف ریاالیئز فیلوشپ جھیل (‪Self-Realization Fellowship Lake‬‬
‫‪ )shrine‬الس اینجلس میں ہے۔ خاندان کے علم ہے کہ ان راکھ کا سیاسی مقاصد کے لئے غلط‬
‫استعمال کیا جا سکتا ہے‪ ،‬لیکن ان عالمات کو توڑ کر ہٹانا نہیں چاہتے۔‬

‫اصول عمل‪ ،‬اور عقائد‬


‫حق‬

‫‪ – God is truth. The way to truth lies through ahimsa‬سابرمتی‪ 13 ،‬مارچ ‪1927‬‬

‫‪114 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫گاندھی نے اپنی زندگی کو سچّائ کی تالش (حق) کے لۓ نذر کر دیا۔ انہوں نے اسے اپنی غلطیوں‬
‫اور تجربات سے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنی سوانح عمری کو "سچائ کے ساتھ‬
‫میرے تجربات کی کہانی" (‪ )The Story of My Experiment with Truth‬کا عنوان دیا۔‬
‫گاندھی نے کہا کہ انہوں نے سب سے اہم جنگ اپنی نفسیاتی خوف اور عدم تحفظ پر قابو پانے کے‬
‫لئے لڑی۔ گاندھی اپنے عقائد کا خالصہ ان الفاظ میں کیا‪" ،‬خدا حق ہے"۔ انہوں نے اس بیان کو بعد‬
‫میں "حق خدا ہے" سے تبدیل کردیا۔ اس طرح‪ ،‬گاندھی کے فلسفہ میں حق (ستیا) "خدا" ہے۔‬

‫عدم تشدد‬
‫اگرچہ مہاتما گاندھی عدم تشدد کے اصول کے موجد تو نہیں تھے مگر‪ ،‬انہوں نے بڑے پیمانے پر‬
‫اس کا سیاسی میدان میں استعمال پہلی بار کیا تھا۔ اہنسا (عدم تشدد) کا تصور بھارتی مذہبوں میں‬
‫ایک طویل تاریخ ہے۔ ہندو‪ ،‬بدھ‪ ،‬جین‪ ،‬یہودی اور عیسائی مذاہب میں اسکا اعادہ ہے۔ گاندھی اپنی‬
‫سوانح عمری "حق کے ساتھ میرے تجربات کی کہانی" میں اس فلسفہ اور زندگی کی راہ بتاتے‬
‫ہیں۔ذیل اقتباس انکے سوانح عمری سے ماخوذ ہیں۔‬

‫”‬
‫جب میں مایوس ہوتا‪ ،‬ممں یاد کرتا کہ پوری تاریخ میں سچ اور محبت کے راستہ ہمیشہ‬

‫“‬ ‫جیت ہوئی ہے۔ دنیا میں بڑے سے بڑے قاتل اور ظالم ہوۓ ہیں جو ایک وقت ناقابل شکست‬
‫لگے‪ ،‬لیکن آخر میں وہ ہارے‪ -‬اس کے بارے میں سوچنا‪ ،‬ہمیشہ۔‬

‫“‬ ‫”‬
‫"آنکھ کے لئے ایک آنکھ پورے دنیا کو‬
‫اندھا بنا دیتا ہے۔"‬

‫“‬ ‫”‬
‫"بہت سی وجوہات ہیں جن کے لۓ میں مرنے کے لئے تیار ہوں‪ ،‬لیکن کوئی وجہ نہیں جن‬
‫کے لۓ میں قتل کرنے کے لئے تیار ہوں۔"‬

‫سبزہ خوری‬
‫نوجوان گاندھی نے تجسس میں گوشتخوری کی کوشش کی تھی۔ لیکن وہ اپنے عالقے کے ہندو اور‬
‫جین سے متاثر ہو کر ہمیشہ سبز خور رہے۔ اور سن بلوغ کو پہنچتے ہی پ ّکا سبز خور بن چکے‬
‫تھے۔ انہوں نے اپنے لندن کے دنوں میں اس پر ایک کئی مقالے بھی لکھے جو لندن کے رسالہ‬
‫"دی وجیٹیرین"(‪ )The Vegeterian‬میں شائع بھی ہوۓ۔ انہوں نے اس پر ایک کتاب "سبزہ‬
‫خوری کے اخالقی اصول" بھی تصنیف کی۔‬
‫اپنے کامیاب برہم آچاری ہونے کی وجہ بھی سبزہ خوری کو بتاتے۔ جس کا ذکر انہوں نے اپنے‬
‫سوانح عمری میں کیا ہے۔‬
‫گاندھی نے پھل خوری کا بھی تجربہ کیا۔ اپنے سوانح عمری میں اسکا ذکر کرتے گاندھی نے کہا‪،‬‬
‫""میں صرف پھل کھا کر زندہ کرنے کا فیصلہ کیا‪ ،‬اور وہ بھی سب سے سستا پھلوں سے …‬
‫مونگپھلی‪ ،‬کیلے‪ ،‬کھجور‪ ،‬نیبو اور زیتون کے تیل پر مشتمل کھانا"۔‬
‫حاالنکہ طبیبوں کے صالح پر اس اصول کو توڑا اور اخیر دنوں میں بکری کا دودھ استعمال‬
‫کرتے تھے۔‬

‫برت‬

‫‪115 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫گاندھی نے برت کو سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا۔ کانگریس نے برتوں کو سیاسی‬
‫مقاصد کے لیے تشہیر دی جس سے وسیع پیمانے پر ہمدردی حاصل ہوتی تھی۔ بدلے میں حکومت‬
‫نے اپنے راج کو تحفظ دینے کے لیے ایسی خبروں کو کم سے کم جگہ دی۔ گاندھی نے ‪ 1932‬میں‬
‫دلتوں کے لیے الگ سے سیاسی نمائندگی دیے جانے کے خالف برت رکھا کیونکہ وہ دلتوں کو‬
‫الگ کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ حکومت نے لندن پریس کو گاندھی کی فاقہ زدہ تصاویر‬
‫دکھانے سے روک دیا کیونکہ اس طرح عوام میں ہمدردی پیدا ہوتی۔ گاندھی کی ‪ 1943‬کی بھوک‬
‫ماہرین غذائیات‬
‫ِ‬ ‫ہڑتال کا سبب ‪ Quit India‬نامی نوآبادیاتی نظام کی مخالف مہم تھی۔ حکومت نے‬
‫سے مدد لی اور تصاویر پر پابندی لگا دی۔ تاہم ‪ 1948‬میں ان کے آخری برت جو بھارت کی آزادی‬
‫کے بعد رکھا گیا‪ ،‬کو برطانوی پریس نے پوری توجہ دی اور پورے صفحات کی تصاویر شائع‬
‫کیں۔‬
‫آلٹر کا خیال ہے کہ گاندھی کی مستقل بھوک ہڑتالوں اور برہمچاریہ کے پیچھے اپنی ذات پر ضبط‬
‫سے زیادہ گہری وجوہات تھیں۔ ان کے اپنے خیاالت روایتی ہندو آیورویدک اور مغربی خیاالت پر‬
‫مشتمل تھے۔ گاندھی کے نزدیک جدت پسندی اور روایات بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی تھیں جتنا کہ‬
‫صحت اور عدم تشدد۔‬

‫نئی تعلیم‪ ،‬بنیادی تعلیم‬


‫گاندھی کی تعلیمی پالیسیوں کی جھلک نئی تعلیم سے ملتی ہے جس کا مطلب “تعلیم سب کے لیے”‬
‫تھا۔ اس کے پیچھے وہ مذہبی اصول کارفرما تھا کہ کام اور علم کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل‬
‫یہ نظام برطانوی نظام تعلیم اور نوآبادیاتی نظام کی مخالفت میں بنایا گیا تھا جس کی وجہ سے‬
‫نظام تعلیم مشکل ہو جاتا تھا اور جسمانی کام سے نفرت پیدا ہوتی تھی‬
‫ِ‬ ‫ہندوستانی بچوں کے لیے‬
‫اور ایک نیا طبقہ اشرافیہ پیدا ہو جاتا تھا اور انڈسٹریالئزیشن اور شہروں کو رخ کرنے کا رحجان‬
‫پیدا ہوتا تھا۔‬
‫نئ تعلیم ایک روحانی اصول ہے جس کے مطابق علم کام سے جدا نہیں ہے۔ گاندھی نے اسی‬
‫اصول پر "نئ تعلیم" کے نام سے ایک نۓ تعلیمی نصاب کو فروغ دیا۔‬
‫گاندھی کے درس کے تین ستون یوں ہیں‪:‬‬
‫علم ایک کل زندگی مرحلہ ہے‬ ‫‪‬‬
‫علم کا سماجی کردار اور‬ ‫‪‬‬
‫علم ایک مکمل حکمت عملی ہے۔‬ ‫‪‬‬

‫برہم آچاری‬
‫جب گاندھی کی عمر ‪ 16‬سال تھی انکے والد سخت بیمار پڑ گئے تھے گاندھی ایک فرماںبردار‬
‫اوالد کی طرح اپنے والد کی خدمت میں دن رات لگے رہتے تھے۔ ایک ربت انکے چاچا خود ذمہ‬
‫دری لیکر انہیں آرام کرنے بھیج دیا۔ گاندھی اپنے کمرے میں آرام کر رہے تھے کہ نفسیاتی‬
‫خواہش میں آکر اپنی اہلیہ کے ساتھ ہمبستر ہو گئے۔ تھوڑے ہی دیر میں نوکر نے انہیں انکے والد‬
‫کے موت کی خبر دی۔ گاندھی اپنے آپ پر شرمندگی محسوس کرنے لگے اور کبھی اپنے آپ کو‬
‫اس کے لۓ معاف نہیں کر پاۓ۔ بعد میں گاندھی نے اسے دوہری شرمندگی کا نام دیا۔ اس کے‬
‫نتیجہ میں گاندھی نے ‪ 36‬سال کی عمر میں ہی خود کو جسمانی تعلقات سے دور کر لیا حاالنکہ وہ‬
‫شادی شدہ ہی رہے۔‬
‫یہ فیصلہ برہم آچاری کے فلسفہ سے بہت متاثر تھا۔ گاندھی کو برہم آچاری خود کو خدا کے قریب‬
‫تر کر لینے اور خود آشنائ سمجھتے تھے۔ اپنے سوانح عمری میں اسکا ذکر کرتے ہوۓ گاندھی‬

‫‪116 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫نے کہا کہ انکا خود کو نفسیاتی ضروریات سے روک لینے کا فیصلہ ہوس کے بجاۓ محبت کو‬
‫سیکھنا تھا۔ گاندھی کے مطبق برہم آچاری " اپنے سوچ‪ ،‬الفاظ اور عمل پر قابو" ہے۔‬
‫اخیر مراحل تک یہ بات عام ہو گئی تھی کے گاندھی رات کو مختلف جوان عورتوں‬ ‫زندگی کے ٖ‬
‫کے ساتھ سوتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا وہ ایسا جسمانی گرمی کو محسوس کرنےکے لۓ کرتے‬
‫ہیں اور اسے "فطرتی عالج" کہا۔ گاندھی نے اپنے نفس پر قابو کو پرکھنے کے لۓ اپنے اخری‬
‫دنوں میں کئی تجربات کۓ۔ برلہ کے نام اپریل ‪1945‬ء کا ایک خط میں انہوں نے 'کئی عورتوں‬
‫اور لڑکیوں کا انکے ساتھ برہنہ ہونے' کا ذکر کیا ہے اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انکے‬
‫ان تجربات میں کئی عورت شامل تھیں۔ انہوں نے برہم آچاری پر عمل پیراں ہونے پر پانچ اداریہ‬
‫لکھے۔‬
‫اپنے اس تجربے کے لۓ وہ پہلے اپنے عورت کارکنوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں دور دور‬
‫سوۓ پھر ایک ساتھ سوۓ اور آخر میں برہنہ سوۓ۔ اور یہ تجربہ کئی عورتوں کے ساتھ کیا‬
‫جیسے ‪ 16‬سالہ آبھا (جو انکے بھتیجے کے بیٹا کنو گاندھی کی بیوی تھی)‪ ،‬بھتیجے جۓ سکھ الل‬
‫کی ‪ 19‬سالہ بیٹی منو گاندھی (جس کا ذکر گاندھی نے اسکے والد سے خود خط میں کیا کہ میں‬
‫اسکے سونے کی عادتوں کو درست کرنے ساتھ سوتے ہیں)‪ ،‬گاندھی خود کو انکی ماں مانتے تھے‬
‫اور انہیں اپنی بیساکھی بتاتے تھے۔‬
‫گاندھی سرال دیوی کو اپنی روحانی بیوی بتاتے تھے جو خود شادی شدہ اور با اوالد تھیں۔ گاندھی‬
‫نے خالصہ کیا کہ وہ دونوں اتنے قریب ہو گئے تھے کہ جسمانی تعلقات بنا بیٹھتے۔‬
‫ان تجربات کی وجہ سے گاندھی کی فضیحت بھی ہوئی۔ انکے اسٹونوگرافر آر پی پرسو رام‬
‫استعفی دے دیا۔ گاندھی نے کہا کہ وہ انکے ساتھ سوتے‬ ‫ٰ‬ ‫گاندھی کو منو کے ساتھ برہنہ سوتے دیکھ‬
‫کبھی نفسیاتی خواہش نہیں ہوئی۔ انہوں نے پرسو رام سے کہا کہ مجھے افسوس ہے تاہم اگر تم جانا‬
‫چاہو توجا سکتے ہو۔ گاندھی کے ساتھی نرمل کمار بوس اور دتتاتیریا بالکرشنا کیلکر نے بھی کچھ‬
‫اس قسم کے واقعات بتاۓ تاہم انہوں نے اسے ان کے ساتھ گاندھی کی ممتا بتایا۔‬

‫معاشیات‬
‫گاندھی کے نزدیک آزاد ہندوستان کا مطلب ہزاروں کی تعداد میں خود کفیل اور خوشحال چھوٹی‬
‫چھوٹی آبادیاں تھا جو خودمختار ہوں اور دوسروں سے الگ تھلگ کام کریں۔ گاندھی کے نظریے‬
‫کے مطابق دیہات کی سطح پر خود کفالت اہمیت رکھتی تھی۔ سرودیا کی پالیسی کے مطابق گھریلو‬
‫صنعتوں اور زراعت کی صورتحال بہتر بنا کر غربت کو ختم کیا جا سکتا تھا۔ گاندھی نے نہرو‬
‫کے معاشی نمونے کو مکمل طور پر رد کیا جس میں روسی طرز پر صنعتی ترقی اہمیت رکھتی‬
‫تھی۔ گاندھی کے ذہن میں مقامی آبادی اور ان کی ضروریات تھیں۔ گاندھی کی وفات کے بعد نہرو‬
‫نے ہندوستان کو جدید بنایا اور ہیوی انڈسٹری کے عالوہ زراعت کو بھی جدید خطوط پر استوار‬
‫کیا۔ مؤرخ پانڈی کتو کے مطابق “ہندوستان کی حکومت نے گاندھی نہیں بلکہ نہرو کی پالیسی کو‬
‫اپنایا”۔ گاندھی کے مطابق “غربت بدترین تشدد ہے”۔‬

‫عقیدہ‬
‫سوراج‬
‫رڈولف کے خیال میں جنوبی افریقہ سے انگریزوں کو نکالنے میں ناکامی کے بعد گاندھی کو‬
‫حوصلہ مال۔ انہوں نے روایتی بنگالی طریقے سے خود تکلیف سہہ کر ستیہ گرہ یا اہنسا کو پورے‬
‫ہندوستان میں پھیال دیا۔ گاندھی کے مطابق آزادی کے چار معنی ہیں‪ :‬ہندوستان کی قومی آزادی‪،‬‬
‫انفرادی سیاسی آزادی‪ ،‬غربت سے اجتماعی چھٹکارا اور خود پر حکومت کرنا۔‬

‫‪117 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫گاندھی کے مطابق ہر انسان کی مرضی کے بغیر اس سے متعلق کوئی کام نہ کیا جائے۔‬
‫جنوبی افریقہ سے لوٹ کر جب گاندھی کو انسانی حقوق سے متعلق شمولیت کی درخواست کی گئی‬
‫تو انہوں نے کہا کہ زیادہ اہمیت انسانی فرائض کو متعین کرنے کی ہونی چاہیے۔‬
‫آزاد ہندوستان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ انگریز آقاؤں کی جگہ دیسی آقا لے لیں۔ اگر ایسا ہوتا تو‬
‫ہندوستان آزاد ہونے کے بعد بھی انگلشتان ہی رہتا جو سوراج نہیں۔ گاندھی کے خیال میں‬
‫جمہوریت زندگی بسر کرنے کا ایک طریقہ ہے۔‬

‫ادبی سرگرمیاں‬
‫گاندھی کو لکھنے کا جنون تھا۔ گاندھی کی ابتدائی تصانیف میں سے ایک ‘ہند سوراج‘ ‪1909‬ء میں‬
‫گجراتی زبان میں چھپی۔کئی دہائیوں تک گاندھی نے گجراتی اور ہندی کے عالوہ انگریزی‬
‫اخبارات میں ادارت کے فرائض سرانجام دیے اور یہ سلسلہ جنوبی افریقہ میں بھی جاری رہا۔ اس‬
‫کے عالوہ گاندھی نے تقریبا ً ہر روز ہی مختلف اخبارات کے مدیران کو اور عام افراد کو خطوط‬
‫لکھے۔‬
‫گاندھی کی ڈھیر ساری تصانیف میں ان کی اپنی سوانح حیات بھی شامل ہے جس کا نام ‪The‬‬
‫‪ Story of My Experiments with Truth‬ہے۔ گاندھی نے اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کو پورا‬
‫کا پورا خرید لیا تاکہ اس کا دوسرا ایڈیشن چھپ سکے۔ دیگر سوانح حیات میں ‘جنوبی افریقہ میں‬
‫ستیہ گرہ‘‪ ،‬اپنی جدوجہد کے بارے کتابچہ ‘ہند سوراج‘ وغیرہ بھی لکھے۔ ان کا آخری مضمون‬
‫معاشیات کے بارے تھا۔ اس کے عالوہ انہوں نے سبزی خوری‪ ،‬غذائیات اور صحت‪ ،‬مذہب‪،‬‬
‫سماجی بدالؤ وغیرہ پر بھی لکھا۔ گاندھی نے عموما ً گجراتی میں لکھا لیکن ان کی کتب کے ہندی‬
‫اور انگریزی تراجم بھی عام ملتے ہیں۔‬
‫گاندھی کی تمام کتب کو انڈین حکومت نے ‪The Collected Works of Mahatma Gandhi‬‬
‫کے نام سے ‪ 1960‬کی دہائی میں چھپوایا۔ اس کے کل صفحات کی تعداد ‪ 50.000‬ہے اور ‪100‬‬
‫جلدوں میں چھاپی گئی ہیں۔‬

‫ورثہ اور مقبول ثقافت میں خاکہ عمل‬


‫لفظ مہاتما کو مغرب میں گاندھی کا اصل نام سمجھا جاتا ہے جبکہ سنسکرت سے نکلے اس لفظ کا‬ ‫‪‬‬
‫مطلب مہا یعنی عظیم اور آتما یعنی روح ہے۔ کہا جاتا ہے کہ رابندر ناتھ ٹیگور نے یہ خطاب‬
‫گاندھی کو دیا۔ اپنی سوانح حیات میں گاندھی نے واضح کیا ہے کہ انہیں اس خطاب سے خوشی‬
‫نہیں بلکہ تکلیف ہوتی ہے۔‬
‫ہندوستان میں بے شمار سڑکوں‪ ،‬گلیوں اور آبادیوں کو گاندھی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔‬ ‫‪‬‬
‫‪ 2009‬میں سرچ انجن گوگل نے اپنا ایک ڈوڈل گاندھی سے منسوب کیا۔‬ ‫‪‬‬

‫پیروکار اور بین االقوامی اثرات‬


‫گاندھی نے بین االقوامی سطح پر بہت سارے لیڈران اور سیاسی تحاریک پر اثر ڈاال۔ ریاست ہائے‬
‫متحدہ امریکہ میں شہری حقوق کی تحریک میں مارٹن لوتھر کنگ‪ ،‬جیمز السن اور جیمز بیول نے‬
‫گاندھی کی تحاریر سے عدم تشدد کا فلسفہ نکاال۔ مارٹن لوتھر کنگ کے مطابق “مسیح نے ہمیں‬
‫مقاصد عطا کیے اور گاندھی نے ان کے حصول کے طریقے بتائے”۔ مارٹن کنگ نے گاندھی کو‬
‫بعض اوقات ‘ننھا بھورا ولی‘ بھی کہا ہے۔ اس کے عالوہ نیلسن منڈیال‪ ،‬خان عبدالغفار خان‪ ،‬سٹیو‬
‫بیکو اور آنگ سان سوچی بھی گاندھی سے متائثر ہیں۔‬
‫گاندھی کی زندگی سے متائثر ہونے والے افراد نے گاندھی کو اپنا محسن کہا ہے اور ان کی‬
‫تعلیمات کو آگے پھیالنے میں زندگیاں صرف کی ہیں۔ یورپ کے مشہور لیڈران نے بھی ان کا ذکر‬
‫‪118 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫ماہر طبعیات البرٹ آئن سٹائن نے ‪ 1931‬میں گاندھی کو خطوط لکھے اور گاندھی‬‫ِ‬ ‫کیا ہے۔ یورپی‬
‫کو ‘آنے والی نسلوں کا رہنما‘ قرار دیا۔ آئن سٹائن کے مطابق‪:‬‬

‫”‬
‫مہاتما گاندھی کی کامیابیاں دنیا کی سیاسی تاریخ میں بہت منفرد اہمیت رکھتی ہیں۔ انہوں‬
‫نے غالم ملک کی آزادی کے لیے انتہائی اچھوتے طریقے متعارف کرائے جن کے اثرات‬
‫پوری مہذب دنیا میں طویل عرصے تک محسوس کیے جاتے رہیں گے اور ان کی مدد سے‬
‫ظالم طاقتوں کو شکست دی جا سکے گی۔ گاندھی آنے والی نسلوں کے لیے رہنما شخصیت‬
‫رہیں گے۔‬

‫“‬ ‫آنے والی نسلوں کو شاید یقین نہ آئے کہ ایسا انسان کبھی ہمارے درمیان میں گوشت‬
‫پوست کی شکل میں بھی رہتا تھا۔‬

‫لنزا ڈیل واستو ‪1936‬ء میں گاندھی کے ساتھ رہنے کی نیت سے آیا اور پھر جب یورپ واپس گیا‬
‫تو گاندھی کے فلسفے کی ترویج میں لگ گیا۔ میڈیلین سلیڈ ایک برطانوی امیر البحر کی بیٹھی تھی‬
‫اور اس نے اپنی بالغ زندگی کا زیادہ تر وقت گاندھی کی خدمت میں ہندوستان میں گذارا۔‬
‫برطانوی مویسقار جان لینن نے گاندھی کے بارے بات کرتے ہوئے ان کے عدم تشدد کے فلسفے‬
‫پر بات کی۔ سابقہ امریکی نائب صدر الگور نے بھی ‪2007‬ء میں گاندھی کے اہنسا کے فلسفے پر‬
‫بات کی۔‬
‫امریکی صدر براک اوبامہ نے ‪2010‬ء میں انڈین پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے گاندھی کا‬
‫حوالہ دیا‪:‬‬

‫“‬ ‫”‬
‫اگر گاندھی اور ان کے فلسفے کو امریکہ اور دنیا بھر میں نہ پھیالیا جاتا تو میں آج امریکی‬
‫صدر کی حیثیت سے آپ کے سامنے نہ کھڑا ہوتا۔‬

‫ٹائمز میگزین نے ‪14‬ویں دالئی المہ‪ ،‬لیچ ویلیسا‪ ،‬مارٹن لوتھر کنگ‪ ،‬سیزر شاویز‪ ،‬آنگ سان‬
‫سوچی‪ ،‬ڈاکٹر ڈیسمنڈ ٹوٹو اور نیلسن منڈیال کو گاندھی کی روحانی اوالد قرار دیا۔ ہیوسٹن‪ ،‬ٹیکساس‬
‫میں انڈین آبادی کے ایک عالقے کو سرکاری طور پر ‘گاندھی‘ کا نام دیا گیا۔‬

‫عالمی تعطیالت‬
‫یوم پیدائش ‪ 2‬اکتوبر کو ‘بین االقوامی عدم‬
‫اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گاندھی کے ِ‬
‫ِ‬ ‫‪ 2007‬میں‬
‫تشدد کا دن‘ قرار دیا۔ یونسکو نے ‪ 1948‬میں ‪ 30‬جنوری کو ‘عدم تشدد اور امن کے اسکول ڈے‘‬
‫کی تجویز پیش کی تھی۔ جنوبی نصف کرے میں یہ دن ‪ 30‬مارچ کو منایا جاتا ہے۔‬

‫انعامات‬
‫ٹائم میگزین نے ‪1930‬ء میں گاندھی کو سال کا بہترین مرد قرار دیا تھا۔ ‪1999‬ء میں صدی کے‬
‫بہترین انسان کے لیے گاندھی کو آئن سٹائن کے بعد دوسرا نمبر دیا گیا۔ انڈیا کی حکومت ہر سال‬
‫گاندھی کا امن انعام بہترین سماجی کارکنوں‪ ،‬دنیا بھر کے رہنماؤں اور شہریوں وک دیتی ہے۔‬
‫نیلسن منڈیال یہ انعام پانے والے غیر ہندوستانیوں میں نمایاں نام ہیں۔ ‪ 2011‬میں ٹائم میگزین نے‬
‫گاندھی کو دنیا بھر کے ‪ 25‬بہترین سیاسی رہنماؤں میں شمار کیا ہے۔‬
‫‪1937‬ء سے ‪1948‬ء کے دوران میں گاندھی کو امن کے نوبل انعام کے لیے پانچ بار نامزد کیا گیا‬
‫تھا لیکن انہیں یہ ایوارڈ نہ مل سکا۔ نوبل کمیٹی نے بعد میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ‬
‫‪119 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫انہوں نے گاندھی کو یہ انعام نہیں دیا۔ ‪ 1948‬میں فیصلے سے قبل گاندھی کو قتل کر دیا گیا تھا۔‬
‫اس سال کمیٹی نے اعالن کیا کہ اس سال یہ انعام نہیں دیا جائے گا کہ کوئی بھی مناسب امیدوار‬
‫زندہ نہیں۔ جب ‪1989‬ء میں ‪14‬ویں دالئی المہ کو امن کا نوبل انعام دیا گیا تو کمیٹی کے سربراہ کا‬
‫کہنا تھا کہ ‘یہ مہاتما گاندھی کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے‘۔‬

‫بابائے قوم‬
‫انڈین لوگوں کی اکثریت گاندھی کو ‘بابائے قوم‘ مانتی ہے۔ تاہم یہ خطاب سرکاری نہیں اور انڈین‬
‫حکومت اسے نہیں مانتی اور نہ ہی یہ خطاب حکومت کی طرف سے کبھی عطا کیا گیا۔ تاہم اس‬
‫خطاب کی ابتداء شاید ‪1944‬ء میں سبھاش چندر بھوس سے ہوئی جنہوں نے اپنے ریڈیو خطاب میں‬
‫گاندھی کو ‘بابائے قوم‘ کہا۔ ‪ 28‬اپریل ‪1947‬ء میں سروجنی نائیڈو نے ایک کانفرنس کے دوران‬
‫میں گاندھی کو ‘بابائے قوم‘ کہا۔ بعد میں یہ درخواست بھی دی گئی کہ گاندھی کو ‘بابائے قوم‘ کا‬
‫خطاب دیا جائے لیکن انڈین آئین میں تعلیمی اور فوجی اعزازات کے عالوہ اور کوئی اعزاز نہیں‬
‫دیا جا سکتا۔‬

‫فلم اور ادب‬


‫‪ 5‬گھنٹے اور ‪ 9‬منٹ طویل ڈاکومنٹری فلم کا نام ‪Mahatma: Life of Gandhi, 1869–1948‬‬
‫کو ‪ 1968‬میں بنایا گیا جس میں گاندھی کے اقتباسات اور بلیک اینڈ وائٹ فٹیج‪ ،‬تصاویر اور‬
‫تاریخی حوالہ جات شامل کیے گئے۔ ‪1982‬ء میں رچرڈ اٹنبرو کیف لم میں بین کنگسلے نے گاندھی‬
‫کا کردار ادا کیا اور اس فلم کو بہترین فلم کا اکیڈمی ایوارڈ مال۔ ‪1996‬ء میں ‪The Making of‬‬
‫‪ the Mahatma‬میں گاندھی کی زندگی کے جنوبی افریقہ میں گذارے گئے وقت کو دکھایا گیا ہے‬
‫کہ کیسے ایک غیر معروف بیرسٹر ایک مشہور سیاسی رہنما بنا۔ ‘لگے رہو منا بھائی‘ جو بالی وڈ‬
‫میں ‪2006‬ء میں بنائی گئی‪ ،‬میں گاندھی کو مرکزی کردار کے طور پر دکھایا گیا۔ جانو بروا کی‬
‫فلم ‘میں نے گاندھی کو نہیں مارا‘ میں بھی گاندھی کو دکھایا گیا ہے۔‬
‫گاندھی کی مخالفت میں بھی فلمیں اور ڈرامے بنے ہیں۔ ‪1995‬ء میں مراٹھی ڈراما گاندھی ورودھ‬
‫گاندھی بنایا گیا جس میں گاندھی اور ان کے بیٹے ہری لعل کے تعلقات پر روشنی ڈالی گئی۔ ‪2007‬‬
‫میں ‪ Gandhi, My Father‬بھی اسی موضوع پر بنائی گئی تھی۔ ‪1989‬ء میں مراٹھی ڈراما ‘مے‬
‫نتھو رام گوڈسے بولتے‘ اور ‪1997‬ء میں ہندی ڈراما ‘گاندھی امبیدکر‘ میں بھی گاندھی اور ان‬
‫کے اصولوں پر تنقید کی گئی ہے۔‬
‫گاندھی کی زندگی پر بہت ساری سوانح عمریاں لکھی گئی ہیں۔ ان میں ڈی جی ٹنڈولکر کی ‪8‬‬
‫جلدوں پر مشتمل کتاب ‪ Mahatma. Life of Mohandas Karamchand Gandhi‬اور پیارے‬
‫لعل اور سوشیال نیئر کی کتاب‘مہاتما گاندھی‘ ‪ 10‬جلدوں میں ہے۔‪ 2010‬میں جوزف لیلی ویلڈ نے‬
‫‪ Great Soul: Mahatma Gandhi and His Struggle With India‬میں گاندھی کی جنسی‬
‫زندگی کے بارے متنازع متن شامل کیا ہے۔ ‪ 2014‬میں بنائی گئی فلم ‪Welcome Back Gandhi‬‬
‫میں دکھایا گیا ہے کہ اگر گاندھی آج واپس آ جاتے تو جدید انڈیا کو دیکھ کر انہیں کیسا محسوس‬
‫ہوتا۔‬

‫بھارت کے اندر موجودہ‪ /‬اثرات‬


‫تیز معاشی ترقی اور اربنائزیشن کی وجہ سے موجودہ انڈیا نے گاندھی کے معاشی نظریے کو رد‬
‫کر دیا ہے لیکن ان کے سیاسی نظریات سے ہم آہنگ رہا ہے۔‬
‫یوم پیدائش ‪ 2‬اکتوبر ہے اور اس روز انڈیا میں قومی تعطیل ہوتی ہے جو ‘گاندھی‬
‫گاندھی کا ِ‬
‫جینتی‘ کہالتی ہے۔ گاندھی کی شبیہہ انڈین ریزرو بینک کے چھاپے گئے تمام کرنسی نوٹوں‬

‫‪120 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫ماسوائے ایک روپے کے‪ ،‬پر ثبت ہوتی ہے۔ گاندھی کو ‪ 30‬جنوری کو قتل کیا گیا اور اس دن کو‬
‫“یوم شہدا‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔‬
‫ِ‬ ‫انڈیا میں‬
‫انڈیا میں دو مندر گاندھی سے منسوب ہیں۔ ایک مندر اوڑیسہ میں سنبل پور کے مقام پر اور دوسرا‬
‫ت‬
‫کرناٹکا میں چک مگلور کے مقام پر ہے۔‬

‫ج یو ی راؤ پھل‬
‫ے‬
‫پیدائش‬ ‫‪ 11‬اپریل ‪ 1827‬ء‬
‫‪ ،Katgun‬ستارا (شہر)‪ ،‬برطانوی ہند (حال‬
‫مہاراشٹر‪ ،‬بھارت)‬
‫وفات‬ ‫‪ 28‬نومبر ‪( 1890‬عمر‪ 63 ‬سال)‬
‫پونہ‪ ،‬برطانوی ہند (حال مہاراشٹر‪ ،‬بھارت)‬
‫دیگر‪ ‬نام‬ ‫‪Mahatma Phule. Jyotiba Phule /‬‬
‫‪Jyotirao Phule‬‬
‫مذہب‬ ‫‪Satyashodhak Samaj, Deist‬‬
‫شریک‬ ‫‪Savitribai Phule‬‬
‫حیات‬
‫عہد‬ ‫انیسویں صدی‬
‫شعبہ‬ ‫اخالقیات‪ ،‬مذہب‪ ،‬انسانیت نوازی‬
‫عمل‬
‫مؤثر شخصیات‬
‫شیواجی ‪Tukaram  · Thomas Paine · ‬‬ ‫‪‬‬

‫جیوتی راؤ گو ِوند راؤ پھلے (ہندی‪ 11( )जोतिराव गोविंदराव फुले :‬اپریل ‪1827‬ء – ‪ 28‬نومبر‬
‫‪1890‬ء) جو جیوتی با پھلے کے نام سے مشہور ہیں‪ ،‬ایک بھارتی فعالیت پسند‪ ،‬مفکر‪ ،‬معاشرتی‬
‫مصلح‪ ،‬مصنف اور ماہر الہیات تھے۔ جیوتی با پھلے اور ان کی بیوی ساوتری بائی پھلے بھارت‬
‫میں تعلیم نسواں کے سرخیل رہنما اور داعیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ بعد ازاں ان کی سرگرمیوں کا‬
‫دائرہ کاشتکاری‪ ،‬ذات پات کا نظام‪ ،‬خواتین اور خصوصا ً بیواؤں کی بہبود و ترقی اور اچھوت کا‬
‫خاتمہ جیسے اہم میدانوں تک وسیع ہو گیا۔ تاہم بنیادی طور پر جیوتی راؤ تعلیم نسواں اور نچلی‬
‫ذاتوں کے حق میں اپنی بے پناہ کوششوں کے لیے سب سے زیادہ معروف ہیں۔ اپنی بیوی ساوتری‬
‫بائی کو تعلیم دالنے کے بعد اگست ‪1848‬ء کو بھارت کا سب پہال نسواں اسکول قائم کیا۔‬
‫ستمبر ‪1873‬ء میں اپنے پیروکاروں کے ساتھ مل کر ستیہ شودھک سماج (جویائے حق سماج) قائم‬
‫کیا‪ ،‬بنیادی طور پر اس سوسائٹی کا مقصد کسانوں اور نچلی ذات کے لوگوں کے لیے مساوی‬
‫حقوق کا حصول تھا۔ نیز جیوتی با پھلے مہاراشٹر کی تحریک سماجی اصالح کے اہم رکن بھی‬
‫سمجھے جاتے ہیں۔‬
‫ئ‬
‫راج ا رام موہ ن راے‬
‫پیدائش‪1774 :‬ء‬
‫‪121 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫انتقال‪1833 :‬ء‬
‫بانی برہمو سماج ۔ بنگال میں پیدا ہوئے ۔ بنگالی اور سنسکرت کے عالوہ عربی ‪ ،‬فارسی اور‬
‫انگریزی کے بھی بڑے فاضل تھے۔ اسالم اور عیسائی مذہب کی تعلیمات نے ان پر بڑا اثر کیا اور‬
‫انہوں نے ہندو سماج کے سدھار کا کام شروع کیا۔ ‪1830‬ء میں برہمو سماج کی بنا ڈالی ۔ مورتی‬
‫پوجا کی مخالفت کی اور خدا کی وحدانیت کی تعلیم دی ۔ ستی کی خوفناک رسم ختم کرنے میں بھی‬
‫بڑا کام کیا۔ اس کے عالوہ عورتوں کے حقوق اور اپنی قوم کی تعلیم و تربیت پر زور دیا۔ ‪1831‬ء‬
‫میں انگلستان گئے اور وہاں برسٹل کے مقام پر وفات پائی۔‬
‫ت‬ ‫ن‬
‫ب ال گ گا دھر لک‬
‫پیدائش‪1856 :‬ء‬
‫وفات‪1920 :‬ء‬
‫ہندوستانی قوم پرست لیڈر۔ اگرچہ پیدائشی برہمن تھا۔ مگر اس کی پرورش مہاراشٹر کے عامی‬
‫ماحول میں ہوئی۔ اس کا باپ ایک مدرس تھا۔ جس نے اس کو مغربی تصورات سے آگاہ کیا۔ ‪10‬‬
‫سال کی عمر میں وہ پونا چال گیا جو مرہٹہ قومیت کا مرکز تھا۔ تلک نے یہاں درس و تدریس کے‬
‫ساتھ صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ اور اخبارات میں قومیت پر مضمون لکھنے شروع کیے۔ ہندوستان‬
‫میں محمد علی جناح اور اینی بیسنٹ کے ساتھ انڈین ہوم رول لیگ قائم کی۔ تلک نے مکمل آزادی’’‬
‫سوراج‘‘ کا مطالبہ کیا۔ جب ‪1885‬ء میں آل انڈیا کانگریس وجود میں آئی تو اس میں انتہا پسند‬
‫گروہ کا لیڈر بن گیا۔ اس نے کانگرس میں اعتدال پسند گروہ کے لیڈر مسٹر گوکھلے کی زبردست‬
‫مخالفت کی اور کہا کہ انگریزوں کو بزور ملک سے نکال دنیا چاہیے۔ ‪1897‬ء میں تلک کو گرفتار‬
‫کرکے ڈیڑھ سال کی سزا دی گئی۔ ‪1907‬ء میں دونوں گروہوں میں زبردست چپقلش شروع ہوئی۔‬
‫انگریزوں نے تلک کو ‪ 6‬سال کی سزا دی۔‬

‫اب و الکالم آزاد‬


‫ابوالکالم آزاد‬
‫وزیر تعلیمات‪ ،‬بھارت‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 15‬اگست‪1947 ،‬ء‪ 22 – ‬فروری‪1958 ،‬ء‬
‫وزیر‬ ‫جواہر لعل نہرو‬
‫اعظم‬
‫ذاتی تفصیالت‬
‫پیدائش‬ ‫‪ 11‬نومبر ‪ 1888‬ء‬
‫مکہ‪ ,‬حجاز والیت‪ ,‬سلطنت عثمانیہ‬
‫(اب سعودی عرب)‬

‫وفات‬ ‫‪ 22‬فروری ‪( 1958‬عمر‪ 69 ‬سال)‬


‫دہلی‪ ،‬بھارت‬
‫قومیت‬ ‫بھارتی‬

‫‪122 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫سیاسی‬ ‫انڈین نیشنل کانگریس‬
‫جماعت‬
‫شریک‬ ‫زلیخہ بیگم‬
‫حیات‬
‫مذہب‬ ‫اسالم‬
‫دستخط‬

‫ابوالکالم محی الدین احمد آزاد‪( : ‬پیدائش ‪ 11‬نومبر‪1888 ،‬ء ‪ -‬وفات ‪ 22‬فروری‪1958،‬ء) (بنگالی‪:‬‬
‫‪ )আবুল কালাম মুহিয়ুদ্দিন আহমেদ আজাদ‬موالنا ابوالکالم آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا‬
‫ان کے والد بزرگوار محمد خیر الدین انہیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ موالنا‬
‫‪1888‬ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین‬
‫سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میںہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔‬
‫‪1857‬ء کی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنی پڑی کئی سال عرب میں‬
‫رہے۔ موالنا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ‬
‫ازہر(مصر) چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔ موالنا‬
‫کی ذہنی صالحتیوں کا اندازا اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ‬
‫لسان الصدق جاری کیا۔ جس کی موالنا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی۔ ‪1914‬ء میں‬
‫الہالل نکاال۔ یہ اپنی طرز کا پہال پرچہ تھا۔ ترقی پسند سیاسی تخیالت اور عقل پر پوری اترنے‬
‫والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔‬
‫موالنا بیک وقت عمدہ انشا پرداز‪ ،‬جادو بیان خطیب‪ ،‬بے مثال صحافی اور ایک بہترین مفسر تھے۔‬
‫اگرچہ موالنا سیاسی مسلک میں آل انڈیا کانگریس کے ہمنوا تھے لیکن ان کے دل میں مسلمانوں کا‬
‫درد ضرور تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تقسیم کے بعد جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وقار کو صدمہ‬
‫پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو موالنا آگے بڑھے اور اس کے وقار کو ٹھیس پہنچانے سے بچا لیا۔‬

‫یوم تعلیم‬
‫ِ‬
‫تفصیلی مضمون کے لیے مالحظہ کریں‪ :‬قومی یوم تعلیم (بھارت)‬

‫موالنا ابوالکالم آزاد‪ ،‬آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔ان کے یوم پیدائش ‪ 11‬نومبر‪،‬‬
‫یوم تعلیم منایا جاتا ہے۔‬
‫‪1888‬ء کو ہندوستان میں قومی ِ‬

‫منسوب کئے گئے ادارے‬


‫ب ذیل تعلیمی اور سرکاری ادارے منسوب کئے‬
‫موالنا ابوالکالم آزاد کے نام سے ہندوستان میں حس ِ‬
‫گئے۔‬
‫موالنا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی‪ )MANNU(،‬حیدرآباد (ہند)‬ ‫‪.1‬‬
‫موالنا آزاد نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‪ )MANIT( ،‬بھوپال‬ ‫‪.2‬‬
‫موالنا آزاد میڈیکل کالج نئی دہلی‬ ‫‪.3‬‬
‫موالنا آزاد انسٹی ٹیوٹ آف ڈینٹل سائنسز ‪ ،‬نئی دہلی‬ ‫‪.4‬‬
‫موالنا آزاد اڈوکیشن فونڈیشن‪ ،‬نئی دہلی‬ ‫‪.5‬‬

‫‪123 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫کانگریس لیڈر‬
‫شملہ کانفرینس میں راجیندر پرساد‪ ،‬محمد علی جناح اور سی۔راجا گوپاالچاری کے ساتھ۔ (‪)1946‬۔‬

‫بھارت کی سیاست میں مشہور‪ ،‬معروف اور مقبول ناموں میں سے موالنا آزاد کا نام تھا۔ بھارت‬
‫کے عظیم لیڈروں میں موالنا کا شمار ہوتا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس ورکنگ کمیٹی کے لیڈر کے‬
‫عہدہ کے ساتھ ساتھ پارٹی کے قومی صدر بھی کئی مرتبہ منتخب ہوئے۔‬

‫انقالبی اور صحافی‬


‫ادبی کام‬
‫موالنا آزاد کو بیسویں صدی کے بہترین اردو مصنفین میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ موالنا آزاد‬
‫نے کئی کتابیں لکھیں جن میں غبار خاطر‪ ،‬انڈیا ونس فریڈم (انگریزی)‪ ،‬تزکیہ‪ ،‬ترجمان القرآن سر‬
‫فہرست ہیں۔ اس کے عالوہ الہالل نامی اردو کا ہفت روزہ اخبار جوالئی ‪1912‬ء میں کلکتے سے‬
‫جاری کیا۔‬

‫غبار خاطر‬
‫تفصیلی مضمون کے لیے مالحظہ کریں‪ :‬غبار خاطر‬

‫”غبار خاطر“ موالنا آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ یہ تمام خطوط نواب صدر یار جنگ موالنا‬
‫حبیب الرحمن خاں شروانی رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے نام لکھے گئے۔یہ خطوط قلعہ‬
‫احمد نگر میں ‪1942‬ء تا ‪1945‬ء کے درمیان زمانہ اسیری میں لکھے گئے ۔ موالنا کی زندگی کا‬
‫ایک بڑا حصہ قید و بند میں گزرا مگر اس بار قلعہ احمد نگر کی اسیری ہر بار سے سخت تھی‬
‫کیونکہ اس بار نہ کسی سے مالقات کی اجازت تھی اور نہ کسی سے خط و کتابت کرنے کی۔ اس‬
‫لیے موالنا نے دل کا غبار نکالنے کا ایک راستہ ڈھونڈنکاال۔اور خطوط لکھ کر اپنے پاس محفوظ‬
‫کرنا شروع کر دیے۔ موالنا نے خود اسی مناسبت سے ان خطوط کو غبار خاطر کا نام دیا ہے اور‬
‫”خط غبار من است این غبار خاطر“ سے اسے تعبیر کیا ہے۔ایک خط میں شروانی صاحب کو‬
‫مخاطب کرکے فرماتے ہیں‪ ” :‬جانتا ہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ تاہم طبع ِ‬
‫نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد و شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی ۔ آ پ سن رہے ہوں یا نہ رہے ہوں‬
‫میری ذوق مخاطبت کے لئے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے۔“‬

‫الہالل‬
‫تفصیلی مضمون کے لیے مالحظہ کریں‪ :‬الہالل‬

‫اردو کا ہفت روزہ اخبار جسے موالنا ابوالکالم آزاد نے جوالئی ‪1912‬ء میں کلکتے سے جاری‬
‫کیا۔ ٹائپ میں چھپتا تھا اور تصاویر سے مزین ہوتا تھا۔ مصری اورعربی اخبارات سے بھی خبریں‬
‫ترجمہ کرکے شائع کی جاتی تھیں۔ مذہب ‪ ،‬سیاسیات ‪ ،‬معاشیات ‪ ،‬نفسیات ‪ ،‬جغرافیہ ‪ ،‬تاریخ ‪ ،‬ادب‬
‫اور حاالت حاظرہ پر معیاری مضامین اور فیچر چھپتے تھے۔ تحریک خالفت اور سول نافرمانی کا‬
‫زبردست مبلغ و موید تھا۔ الہالل پریس سے دو ہزار روپے کی ضمانت طلب کر لی۔ اس کے بعد‬
‫‪ 18‬نومبر ‪1914‬ء کو مزید دس ہزار روپے کی ضمانت طلب کر لی گئی جو جمع نہ کرائی جاسکی‬
‫اور اخبار بند ہوگیا ۔ ‪1927‬ء میں الہالل پھر نکال مگر صرف چھ ماہ کے لیے۔ پہلی جنگ عظیم‬
‫کے دوران میں ان کی اشاعت ‪ 25‬ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ اردو زبان کا یہ پہال باتصویر سیاسی‬
‫اعلی تزئین و ترتیب ٹھوس مقالوں اور تصاویر کے لحاظ سے صحافتی تکنیک‬ ‫ٰ‬ ‫پرچہ تھا جو اپنی‬
‫میں انقالب آفریں تبدیلیاں الیا۔‬

‫‪124 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫وفات اور مزار‬

‫ابو الکالم آزاد کا مزار‬

‫آپ ‪ 69‬سال کی عمر میں ‪ 22‬فروری‪1958 ،‬ء کو وفات پائی۔‬


‫ت‬
‫ب ال گن گا دھر لک‬
‫پیدائش‪1856 :‬ء‬
‫وفات‪1920 :‬ء‬
‫ہندوستانی قوم پرست لیڈر۔ اگرچہ پیدائشی برہمن تھا۔ مگر اس کی پرورش مہاراشٹر کے عامی‬
‫ماحول میں ہوئی۔ اس کا باپ ایک مدرس تھا۔ جس نے اس کو مغربی تصورات سے آگاہ کیا۔ ‪10‬‬
‫سال کی عمر میں وہ پونا چال گیا جو مرہٹہ قومیت کا مرکز تھا۔ تلک نے یہاں درس و تدریس کے‬
‫ساتھ صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ اور اخبارات میں قومیت پر مضمون لکھنے شروع کیے۔ ہندوستان‬
‫میں محمد علی جناح اور اینی بیسنٹ کے ساتھ انڈین ہوم رول لیگ قائم کی۔ تلک نے مکمل آزادی’’‬
‫سوراج‘‘ کا مطالبہ کیا۔ جب ‪1885‬ء میں آل انڈیا کانگریس وجود میں آئی تو اس میں انتہا پسند‬
‫گروہ کا لیڈر بن گیا۔ اس نے کانگرس میں اعتدال پسند گروہ کے لیڈر مسٹر گوکھلے کی زبردست‬
‫مخالفت کی اور کہا کہ انگریزوں کو بزور ملک سے نکال دنیا چاہیے۔ ‪1897‬ء میں تلک کو گرفتار‬
‫کرکے ڈیڑھ سال کی سزا دی گئی۔ ‪1907‬ء میں دونوں گروہوں میں زبردست چپقلش شروع ہوئی۔‬
‫انگریزوں نے تلک کو ‪ 6‬سال کی سزا دی۔‬
‫ین ب ن‬
‫ا ی یس ٹ‬
‫اینی بیسنٹ‬
‫پیدائش‬ ‫‪ 1‬اکتوبر ‪1847‬‬
‫کلیپہیم‪ ،‬لندن‪ ،‬برطانیہ‬
‫وفات‬ ‫‪ 20‬ستمبر ‪( 1933‬عمر‪ 85 ‬سال)‬
‫اڈیار‪ ،‬مدراس‪ ،‬ہندوستان‬
‫وجۂ‪ ‬شہر‬ ‫تھیاسوفسٹ‪ ،‬خواتین کے حقوق کی حامی‪ ،‬مصنفہ‪،‬‬
‫ت‬ ‫ب وطن بھارتی خاتون‬
‫اسپیکر اور مح ِ‬
‫مذہب‬ ‫ہندو‬
‫شریک‬ ‫فرینک بیسنٹ‬
‫حیات‬ ‫(شادی ‪1867‬ء‪ ،‬علیحدگی ‪1873‬ء)‬
‫بچے‬ ‫آرتھر بیسنٹ‪ ،‬میبل بیسنٹ‬

‫ڈاکٹر اینی بیسنٹ‪( /‬پیدائش‪ 1 :‬اکتوبر ‪1847‬ء ‪ -‬انتقال‪ 20 :‬ستمبر ‪1933‬ء) معروف انگریز‬
‫ب وطن بھارتی خاتون تھیں جنھوں‬
‫تھیاسوفسٹ‪ ،‬حقوق نسواں کی حامی‪ ،‬مصنفہ‪ ،‬اسپیکر اور مح ِ‬
‫نے ہندوستان میں قائد اعظم محمد علی جناح اور بال گنگا دھر تلک کے ساتھ انڈین ہوم رول کی‬
‫تحریک چالئی۔ ‪1847‬ء میں لندن میں پیدا ہوئیں۔ وہ چارلس بریڈال سے بہت متاثر تھیں۔ ‪1882‬ء‬
‫‪125 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫میں مادام بالوسکی کے رابطہ میں آئیں اور ‪1889‬ء میں‌ مادام بالوسکی کی تعلیمات سے متاثر ہو‬
‫کر تھیوسوفسٹ ہوگئیں۔ ‪1889‬ء میں لیبر کانگریس پیرس میں شامل ہوئیں‪ ،‬اور ‪1898‬ء میں‌ بنارس‬
‫میں ویدھیک قائم کیا جو بعد میں سینٹرل ہندو کالج بن گیا۔ ‪1907‬ء میں تھیو سافیکل سوسائٹی کی‬
‫صدر منتخب ہوئیں۔ ‪1917‬ء میں برطانوی حکومت نے انہیں گرفتار کر لیا۔ ‪1917‬ء ہی میں وہ آل‬
‫انڈیا کانگریس کی صدر بھی بنیں۔ انہوں نے موٹیگیو چیمسفورڈ اصالحات کی حمایت اور گاندھی‬
‫جی کی عدم تعاون تحریک کی مخالفت کی۔ مدراس ‪1927‬ء میں سوراج تجویز کی حمایت کی۔‬
‫انہیں ہندوستان سے دلی انس تھا۔ اور جدوجہد آزادی میں انھوں نے نہایت اہم کردار انجام دیا۔ بیس‬
‫سال کی عمر میں ان کی شادی فرینک سے ہوئی مگر نظریاتی اختالف کے باعث ‪1873‬ء میں‬
‫دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ ہندوستان کی مستقل شہری رہیں۔ ‪ 20‬ستمبر ‪1933‬ء میں ‪ 85‬سال کی‬
‫[‪]1‬‬
‫عمر میں اڈیار (مدراس) کے مقام پر فوت ہوئیں۔‬

‫ت زندگی‬
‫حاال ِ‬
‫ڈاکٹر اینی و ُوڈ بیسنٹ (‪ )Dr. Annie Wood Besant‬کی پیدائش لندن شہر میں ‪1847‬ء میں‬
‫ہوئی ۔ اینی کے والد پیشے سے ڈاکٹر تھے۔ والد کی ڈاکٹری پیشے کے بجائے اینی کو ریاضی اور‬
‫فلسفہ میں گہری دلچسپی تھی۔ اینی ماں ایک مثالی آئرش خاتون تھیں۔ ڈاکٹر بیسنٹ کے اوپر ان کے‬
‫والدین کے مذہبی خیاالت کا گہرا اثر تھا‪ ،‬اپنے والد کی موت کے وقت ڈاکٹر بیسنٹ صرف پانچ‬
‫سال کی تھی۔ والد کی موت کے بعد غربت کی وجہ ان کی ماں انہیں ہیرو لے گئی۔ جہاں دیکھیں‬
‫مس میريٹ کی زیر نگرانی انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ مس میريٹ انہیں فرانس اور جرمنی لے‬
‫گئی اور ان ممالک کی زبانیں بھی سكھائی۔ ‪ 17‬سال کی عمر میں اینی اپنی ماں کے پاس واپس آ‬
‫گئیں۔ جوانی میں ان کا تعارف ایک نوجوان پادری سے ہوا اور‪1867‬ء میں اسی ریورینڈ فرینک‬
‫سے اینی و ُوڈ کی شادی بھی ہو گئی۔ شوہر کے خیاالت سے عدم مساوات کی وجہ ازدواجی زندگی‬
‫خوشحال نہیں رہی۔ تنگ نظر اور کٹر خیاالت واال شوہر‪ ،‬اس غیر معمولی ذہین شخصیت اور‬
‫روشن خیال خاتون کو اہنے ساتھ نہیں رکھ سکا ‪1870،‬ء تک وہ دو بچوں کی ماں بن چکی تھیں‪.‬‬
‫خدا‪ ،‬بائبل اور عیسائی مذہب پر سے ان کی یقین ڈگمگا گیا‪ ،‬پادری شوہر اور اینی میں باہمی قیام‬
‫مشکل ہوگیا اور انیوں نے ‪1874‬ء میں علیحدگی اختیار کرلی۔ طالق کے بعد اینی بیسنٹ کو‬
‫اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں مضامین لکھ کر اپنی معاشی ضروریات پوری کتنی‬
‫پڑی۔‬
‫ک فلسفہ ‪ Scepsis‬کے بجائے‬‫اس وقت ڈاکٹر بیسنٹ کی مالقات چارلس ویڈال سے ہوئی ۔ اب وہ ش ِ‬
‫توحید پرست ‪Theistic‬ہو گئیں ۔ لیکن قانون کی مدد سے ان کے شوہر دونوں بچوں کو حاصل‬
‫کرنے میں کامیاب ہو گئے‪ .‬اس واقعہ سے انہیں دلی تکلیف ہوئی۔ ڈاکٹر بیسنٹ نے برطانیہ کے‬
‫قانون کی مذمت کرتے ہوئے کہا‪’’ ،‬یہ انتہائی غیر انسانی قانون ہے جو بچوں کو ان کی ماں سے‬
‫الگ کروا دیا ہے۔ اب میں اپنے دکھوں کا سدباب دوسروں کے دکھوں کو دور کرکے کروں گی‬
‫اور سب یتیم اور بے بس بچوں کی ماں بنوں گی۔‘‘ ڈاکٹر بیسنٹ نے اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے‬
‫اپنی زیادہ تر زندگی غریبوں اور یتیموں کی خدمت میں ہی بسر کی۔‬
‫عظیم شہرت حاصل صحافی ویلین سٹيڈ سے مالقات کے بعد اینی بیسنٹ تحریری اور اشاعتی‬
‫کاموں میں زیادہ دلچسپی لینے لگیں‪ ،‬اپنا زیادہ تر وقت مزدوروں‪ ،‬قحط زدہ متاثرین اور جھگی‬
‫جھونپڑیوں میں رہنے والوں کو سہولت دالنے میں بسر کرتیں۔ وہ کئی سال تک انگلینڈ کی سب‬
‫سے زیادہ طاقتور عورت ٹریڈ یونین کی سیکریٹری رہیں‪ ،‬وہ اپنے علم اور طاقت کو سروس کے‬
‫ذریعے ارد گرد پھیالنا ضروری سمجھتی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ بغیر آزاد روشن خیاالت کے حق‬
‫کی تالش ممکن نہیں ہے۔‬
‫‪1878‬ء میں ہی انہوں نے پہلی بار ہندوستان کے بارے میں اپنے خیاالت ظاہر کیا ۔ ان مضامین‬
‫اور خیاالت نے ہندوستانیوں کے دل میں ان کے لیے محبت پیدا کر دی۔ اب وہ ہندوستانیوں کے‬
‫‪126 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫درمیان کام کرنے کے بارے میں دن رات سوچنے لگیں۔ ‪1883‬ء میں وہ سماج وادی نظریہ کی‬
‫طرف متوجہ ہوئیں۔ وہ 'سوشلسٹ ڈیفنس تنظیم' نام کے ادارے سے جڑگئیں۔ اس ادارے میں ان کی‬
‫خدمات نے انہیں کافی احترام دیا۔ اس ادارے نے ان مزدوروں کو سزا ملنے سے تحفظ فراہم کیا‬
‫جو لندن کی سڑکوں پر نکلنے والے جلوس میں حصہ لیتے تھے۔ ‪1889‬ء میں اینی بیسنٹ‬
‫تھياسوفی نظریات سے متاثر ہوئیں‪ ،‬ان کے اندر ایک طاقتور منفرد اور واحد تقریر کا فن موجود‬
‫تھا۔ اس لئے بہت جلد انہوں نے اپنے لئے تھياسوفیكل سوسائٹی کی ایک اہم اسپیکر کے طور پر اہم‬
‫مقام بنا لیا۔ انہوں نے تمام دنیا کو تھياسوفی کے اصولوں کے ذریعے اتحاد کے فارمولے میں‬
‫باندھنے کی عمر بھر کوشش کی۔ بڑے ہی خوش قسمتی کی بات یہ ہوئی کہ انہوں نے ہندوستان کو‬
‫تھياسوفی کی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ چنانچہ ان کی ہندوستان آمد ‪1893‬ء میں ہوئی ۔ سن ‪1906‬ء‬
‫تک ان کا زیادہ تر وقت بنارس میں گزرا‪1907 ،‬ء میں وہ تھياسوفیکل سوسائٹی کی صدر منتخب‬
‫ہوئیں۔‬
‫‪1917‬ء میں برطانوی حکومت نے انہیں گرفتار کر لیا۔ ‪1917‬ء ہی میں وہ انڈین نیشنل کانگریس‬
‫کی صدر بھی بنیں۔‬
‫انہوں نے مغربی مادی تہذیب کی سخت تنقید کرتے ہوئے قدیم ہندو تہذیب کو بہترین ثابت کیا۔‬
‫مذہبی‪ ،‬تعلیمی‪ ،‬سماجی اور سیاسی میدان میں انہوں نے قومی نشاۃ ثانیہ کا کام شروع کیا۔ بھارت‬
‫کے لئے سیاسی آزادی ضروری ہے اس مقصد کی وصولی کے لئے انہوں نے 'ہوم رول تحریک'‬
‫منظم کرکے اس کی قیادت کی۔ انہوں نے موٹیگیو چیمفورڈ کے اصالح کی حمایت کی اور گاندھی‬
‫جی کے غیر تعاون تحریک کی مخالفت۔ مدراس ‪1927‬ء میں سوراج تجویز کی حمایت۔ انہیں‬
‫ہندوستان سے دلی انس تھا۔ اور جدوجہد آزادی میں انھوں نے نہایت اہم کردار سرانجام دیا۔‬

‫نظریات‬
‫ڈاکٹر بیسنٹ کی زندگی کا ایک ہی عقیدہ تھا ’’اعمال‘‘۔ وہ جس اصول پر یقین کرتیں اسے اپنی‬
‫زندگی میں اتار کر تبلیغ دیتیں۔ وہ بھارت کو اپنے وطن سمجھتی تھیں۔ وہ پیدائش سے آئرش تھیں ‪،‬‬
‫شادی انگریز سے کی اور بھارت کو اپنا لینے کی وجہ سے بھارتی طگی تھیں۔ بال گنگا دھر تلک‪،‬‬
‫محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی تک نے ان کی شخصیت کی تعریف کی ہے ۔ وہ ہندوستان کی‬
‫آزادی کے نام پر قربان ہونے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی تھیں۔ وہ بھارتی حروف نظام کی پرستار‬
‫تھیں۔ لیکن ان کے سامنے مسئلہ تھا کہ اسے عملی کس طرح بنایا جائے تاکہ سماجی کشیدگی کم‬
‫ہو۔ ان کی منظوری تھی کہ تعلیم کا مناسب مینیجنگ ہونا چاہئے۔ تعلیم میں مذہبی تعلیم کی شمولیت‬
‫ہو۔ ایسی تعلیم دینے کے لئے انہوں نے ‪1898‬ء میں بنارس میں سینٹرل ہندو اسکول قائم کیا‪،‬‬
‫سماجی برائیوں جیسے بچوں کی شادی‪ ،‬ذات پات کے نظام‪ ،‬بیوہ کی شادی ‪ ،‬بیرون ملک سفر‬
‫وغیرہ کو دور کرنے کے لئے انہوں نے 'برادران آف سروس' نامی ادارے کی تنظیم کی‪ ،‬اس‬
‫ادارے کی رکنیت کے لئے ضروری تھا کہ اسے نیچے لکھے عہد نامہ پر دستخط کرنا پڑتا تھا ‪-‬‬
‫میں ذات پات پر مبنی چھوت چھات نہیں کروں گا۔‬ ‫‪.1‬‬
‫میں نے اپنے بیٹوں کی شادی ‪ 18‬سال سے پہلے نہیں کروں گا۔‬ ‫‪.2‬‬
‫میں اپنی بیٹیوں کی شادی ‪ 16‬سال سے پہلے نہیں کروں گا۔‬ ‫‪.3‬‬
‫میں بیوی‪ ،‬بیٹیوں اور رشتہ دار کی دیگر عورتوں کو تعلیم دالؤں گا اور عورتوں کہ تعلیم کی‬ ‫‪.4‬‬
‫تشہیر کروں گا۔ عورتوں کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کروں گا۔‬
‫میں ہر خاص و عام میں تعلیم کی تشہیر کروں گا۔‬ ‫‪.5‬‬
‫میں سماجی اور سیاسی زندگی میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق کو مٹانے کی کوشش کروں گا۔‬ ‫‪.6‬‬
‫میں فعال طور پر ان سماجی بندشوں کی مخالفت کروں گا جو بیوہ‪ ،‬خواتین کے سامنے آتے ہیں تو‬ ‫‪.7‬‬
‫وہ دوبارہ شادی کرتی ہیں۔‬
‫میں کارکنوں میں روحانی تعلیم اور سماجی اور سیاسی ترقی کے شعبے میں اتحاد النے کی‬ ‫‪.8‬‬
‫کوشش بھارتی قومی کانگریس کی قیادت اور ہدایت میں کروں گا۔‬

‫‪127 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫ڈاکٹر اینی بیسنٹ کی منظوری تھی کہ بغیر سیاسی آزادی کے ان تمام مشکالت کا حل ممکن نہیں‬
‫ہے۔‬
‫ڈاکٹر اینی بیسنٹ مذہبی رجحان کی خاتون تھیں‪ .‬ان کے سیاسی خیاالت کی بنیاد تھی ان کے‬
‫روحانی اور اخالقی اقدار۔ ان کا خیال تھا کہ نیکی کے راستے کا تعین کیے بغیر روحانیت کے‬
‫ممکن نہیں۔ فالحی زندگی حاصل کرنے کے لئے انسان کی خواہشات کو الہی خواہش کے تحت ہونا‬
‫چاہیے۔‬

‫تصانیف‪/‬‬
‫مصنفہ اور آزاد مفکر ہونے کے ناطے محترمہ اینی بیسنٹ نے قریبا ً ‪ 220‬کتابوں اور مضامین‬
‫تحریر اور اجیكس کے قلمی نام سے بھی کتابیں لکھیں ۔‬
‫تھیاسوفیكل کتابوں اور مضامین کی تعداد تقریبا ‪ 105‬ہے۔ ‪1893‬ء میں انہوں نے اپنی سوانح عمری‬
‫شائع کی تھی۔ مزید سوانح عمریوں پر تصانیف کی تعداد ‪ 6‬ہے۔ انہوں نے صرف ایک سال کے‬
‫اندر ‪1895‬ء میں سولہ کتابیں اور کئی پمفلیٹ شائع کئے جو‪ 900‬سے بھی زیادہ صفحات بنتے ہیں۔‬
‫اینی بیسنٹ نے بھگودگيتا کا انگریزی ترجمہ کیا اور دیگر تخلیقات کے لئے پرستاوناے بھی‬
‫لکھے‪ .‬ان کے دیئے گئے لیکچر کی تعداد ‪ 20‬ہوگی۔ بھارتی ثقافت‪ ،‬تعلیم اور سماجی اصالحات پر‬
‫‪ 48‬نصوص اور پمفلیٹ تخلیق کیے۔ ‪ .‬بھارتی سیاست پر تقریبا ‪ 77‬اور بنیادی حقوق سے منتخب‬
‫تقریبا ‪ 28‬نصوص لکھے ۔ وقت وقت پر 'لوسیفر'‪' ،‬دی كامنويل' اور 'نیو انڈیا' کی ترمیم بھی اینی‬
‫بیسنٹ نے کی‬
‫سم‬ ‫ب‬
‫رام پرساد ل‬
‫رام پرساد بسمل‬
‫پیدائش‬ ‫‪ 11‬جون‬
‫‪1897‬ء‬
‫شاہجہاں پور‬
‫وفات‬ ‫‪ 19‬دسمبر‬
‫‪1927‬ء‬
‫گورکھپور‬
‫دیگر‪ ‬نام‬ ‫بسمل‬
‫شاہجہاں‬
‫پوری‬
‫وجۂ‪ ‬شہ‬ ‫مجاہد آزادی‬
‫رت‬
‫رام پرساد بسمل تلفظ معاونت·معلومات( پیدائش‪ 11 : ‬جون‪1897 ]1[ ،‬ء ‪ 19 : -‬دسمبر‪1927 ،‬ء [‪) ]2‬‬
‫ہندوستان کے ایک انقالبی اور معروف مجاہد آزادی تھے نیز وہ معروف شاعر‪ ،‬مترجم‪ ،‬ماہر‬
‫السنہ‪ ،‬مورخ اور ادیب بھی تھے۔ہندوستان کی آزادی کے لیے ان کی کوششوں کو دیکھ کر‬
‫[‪]3‬‬
‫انگریزوں نے انہیں خطرہ جانتے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی تھی۔‬
‫وہ کانگریس کے رکن تھے اور ان کی رکنیت کے حوالے سے کانگریسی رہنما اکثر بحث کرتے‬
‫تھے‪ ،‬جس کی وجہ بسمل کا آزادی کے حوالے سے انقالبی رویہ تھا‪ ،‬بسمل کاکوری ٹرین ڈکیتی‬
‫‪128 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫میں شامل رہے تھے‪ ،‬جس میں ایک مسافر ہالک ہو گيا تھا۔[‪ 11 ]4‬جون ‪1897‬ء (ہندو جنتری کے‬
‫مطابق بروز جمعہ نرجال ایکادشی بكرمی سن ‪ )1954‬کو اتر پردیش کے شاہجہاں پور میں پیدا‬
‫ہوئے۔ رام پرساد کو ‪ 30‬سال کی عمر میں ‪ 19‬دسمبر ‪1927‬ء (پیر پوش کرشن نرجال ایکادشی‬
‫(جسے سپھل ایکادشی بھی کہا جاتا ہے) بكرمی سن ‪ )1984‬کو برطانوی حکومت نے گورکھپور‬
‫جیل میں پھانسی دے دی۔‬
‫بسمل ان کا اردو تخلص تھا جس کا مطلب مجروح (روحانی طور پر ) ہے۔ بسمل کے عالوہ وہ رام‬
‫اور نا معلوم کے نام سے بھی مضمون لکھتے تھے اور شاعری کرتے تھے۔ انہوں نے سن‬
‫‪1916‬ء میں ‪ 19‬سال کی عمر میں انقالبی راستے میں قدم رکھا اور ‪ 30‬سال کی عمر میں پھانسی‬
‫چڑھ گئے۔‬
‫‪ 11‬سال کی انقالبی زندگی میں انہوں نے کئی کتابیں لکھیں اور خود ہی انہیں شائع کیا۔ ان کتابوں‬
‫کو فروخت کرکے جو پیسہ مال اس سے وہ ہتھیار خریدا کرتے اور یہ ہتھیار وہ انگریزوں کے‬
‫خالف استعمال کیا کرتے۔ انہوں نے کئی کتابی لکھی جن میں ‪ 11‬کتابیں ہی ان زندگی کے دور میں‬
‫[‪]5‬‬
‫شائع ہوئیں۔ برطانوی حکومت نے ان تمام کتابوں کو ضبط کر لیا۔‬
‫بنكم چندر چٹوپادھیائے نوشتہ وندے ماترم کے بعد رام پرساد بسمل کی تخلیق سرفروشی کی تمنا‬
‫ک آزادی میں بہت مقبولیت پائی۔‬
‫کارکنان تحری ِ‬
‫ِ‬ ‫نے‬

‫دادا اور والد‬


‫بسمل کے دادا نارائن الل کا آبائی گاؤں بربائی تھا جو اس وقت ریاست گوالیر میں دریائے چمبل‬
‫کے بیهڑو کے درمیان واقع تومرگھار عالقے کے مورینا ضلع ( موجودہ مدھیہ پردیش ) میں آج‬
‫بھی ہے۔ بربائی کے دیہاتی بڑے ہی غیرملنسار فطرت کے تھے۔ وہ آئے دن انگریزوں اور ان کے‬
‫قبضہ والے دیہاتیوں کو تنگ کرتے تھے۔ خاندانی اختالف کی وجہ سے نارائن الل نے اپنی بیوی‬
‫وچترا دیوی اور دونوں بیٹوں مرلیدھر اور كلیان مل سمیت اپنا آبائی گاؤں چھوڑ دیا۔[‪ ]6‬ان کے گاؤں‬
‫چھوڑنے کے بعد بربائی میں صرف ان کے دو بھائی ‪ -‬امن سنگھ اور سمان سنگھ ہی رہ گئے جن‬
‫کے خاندان آج بھی اسی گاؤں میں رہتے ہیں۔ آج بربائی گاؤں کے ایک پارک میں مدھیہ پردیش‬
‫حکومت کی طرف سے رام پرساد بسمل کا ایک مجسمہ نصب کر دیا گیا ہے۔ اس کے عالوہ‬
‫مورینا میں بسمل کا ایک مندر بھی بنا دیا گیا ہے۔[‪ ]7‬وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خاندان‬
‫اترپردیش کے تاریخی شہر شاہجہاں پور آ گیا۔ شاہجہاں پور میں منوگنج کے دروازے کے قریب‬
‫واقع ایک عطار کی دکان پر صرف تین روپے ماہانہ پر نارائن الل نے نوکری کر لی۔ اتنے کم‬
‫پیسے میں ان کے خاندان کا گزارا نہ ہوتا تھا۔ دونوں بچوں کو روٹی بنا کر دی جاتی لیکن شوہر‬
‫اور بیوی نصف بھوکے پیٹ ہی پر گزارا کرتے۔ ساتھ ہی کپڑوں اور کرایہ کا مسئلہ بھی تھا۔ بسمل‬
‫کی دادی وچترا دیوی نے اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کے لیے مزدوری کرنے پر غور کیاتھا‪ ،‬لیکن‬
‫نامعلوم خاتون کو کوئی بھی آسانی سے اپنے گھر میں کام پر نہ رکھتا تھا۔ آخر انہوں نے اناج‬
‫پیسنے کا کام شروع کر دیا۔ اس کام میں ان کو تین چار گھنٹے اناج پیسنے کے بعد ایک یا ڈیڑھ‬
‫[‪]6‬‬
‫پیسہ مل جاتا تھا۔ یہ سلسلہ تقریبا دو تین سال تک چلتا رہا۔‬
‫نارائن الل تھے تو تومر ذات کے چھتریہ لیکن ان کے افکارواعمال‪ ،‬سنجیدگی اور مذہبی رجحان‬
‫کی وجہ سے مقامی لوگ اکثر انہیں " پنڈت جی " ہی کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ اس سے انہیں‬
‫ایک فائدہ یہ بھی ہوتا تھا کہ ہر تہوار پر دان دکشنا اور کھانے وغیرہ گھر میں آ جایا کرتے تھے۔‬
‫اسی درمیان نارائن الل کو مقامی باشندوں کی مدد سے ایک اسکول میں سات روپیے ماہانہ پر‬
‫نوکری مل گئی۔ کچھ وقت بعد انہوں نے یہ کام بھی چھوڑ دیا اور ریزگاری ( ایک آنہ ‪ -‬دو آنہ ‪-‬‬
‫چونی کے سکے ) فروخت کرنے کا کاروبار شروع کر دیا۔ اس سے انہیں روزانہ پانچ ‪ -‬سات آنے‬
‫کی آمدنی ہونے لگی۔ اس سے ان کی معاشی حالت سدھرنے لگی۔ نارائن الل نے رہنے کے لیے‬
‫ایک مکان بھی شہر کے كھرنی باغ محلے میں خرید لیا اور بڑے بیٹے مرلی دھر کی شادی اپنے‬
‫‪129 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫سسرال والوں کے خاندان کی ہی ایک نیک طینت مول متی سے کر کے اسے اس نئے گھر میں‬
‫لے آئے۔ گھر میں بہو کے قدم پڑتے ہی بیٹے کی بھی قسمت بدلی اور مرلی دھر کو شاہجہاں پور‬
‫کی بلدیہ میں ‪ 15‬روپیے ماہانہ تنخواہ پر نوکری مل گئی۔ لیکن انہیں یہ کام پسند نہیں آیا۔ کچھ دن‬
‫بعد انہوں نے مالزمت ترک کرکے کچہری میں سٹامپ پیپر فروخت کرنے کا کام شروع کر دیا۔‬
‫اس کاروبار میں انہوں نے اچھا خاصا پیسہ کمایا۔ تین بیل گاڑیاں کرایہ پر چلنے لگیں اور سود پر‬
‫[‪]6‬‬
‫روپیہ بھی دینے لگے۔‬

‫پیدائش‪ ،‬ابتدائی‪ /‬زندگی اور تعلیم‬


‫جون ‪1897‬ء کو اتر پردیش کے شاہجہاں پور شہر کے كھیرنی باغ محلے میں پنڈت مرلیدھر کی‬
‫بیوی مولمتی کے بطن سے پیدا ہوئے بسمل اپنے ماں باپ کی دوسری اوالد تھے۔ ان سے پہلے‬
‫ایک بیٹے پیدا ہوتے ہی مر گیا تھا۔ بچے کا زائچہ اور دونوں ہاتھ کی دسوں انگلیوں کی گوالئی‬
‫دیکھ کر ایک نجومی نے پیش گوئی کی تھی۔ " اگر اس بچے کی زندگی کسی طرح کی نظریاتی‬
‫بندش سے بچی رہے‪ ،‬جس کا امکان بہت کم ہے‪ ،‬تو اسے عنان حکومت سنبھالنے سے دنیا کی‬
‫کوئی بھی طاقت روک نہیں پائے گی۔[‪ ]8‬ماں باپ دونوں ہی زائچہ کے ستارے "اسد" کے حامل‬
‫تھے اور بچہ بھی یہی صفت رکھتاتھا۔ لہذا نجومی نے بہت سوچ بچار کرکے زائچہ کے اعتبار‬
‫سے میزان کے حرف نام "ر" ہی پر نام رکھنے کا مشورہ دیا۔ ماں باپ دونوں ہی رام کے پرستار‬
‫تھے‪ ،‬لہذا بچے کا نام رام پرساد رکھا گیا۔ ماں مول متی تو ہمیشہ یہی کہتی تھیں کہ انہیں رام جیسا‬
‫بیٹا چاہیے تھا سو رام نے ان کی عبادت سے خوش ہو کر پرساد کے طور پر یہ بیٹا دیا‪ ،‬ایسا یہ‬
‫لوگ مانتے تھے۔ بچے کو گھر میں تمام لوگ محبت سے رام کہ کر ہی پکارتے تھے۔ رام پرساد‬
‫کی پیدائش سے قبل ان کی ماں ایک بیٹے کو کھو چکی تھیں لہذا جادو ٹونے کا سہارا بھی لیا گیا۔‬
‫ایک خرگوش الیا گیا اور نوزائیدہ بچے کے اوپر سے اتار کر آنگن میں چھوڑ دیا گیا۔ خرگوش نے‬
‫آنگن کے دو چار چکر لگائے اور فو ًرا مر گیا۔ یہ واقعہ عجیب ضرور لگتا ہے لیکن حقیقی واقعہ‬
‫ہے اور تحقیق کا موضوع ہے۔ اس کا ذکر رام پرساد بسمل نے خود اپنی آپ بیتی میں کیا ہے۔‬
‫مرلیدھر کے کل ‪ 9‬اوالدیں ہوئیں جن میں پانچ بیٹیاں اور چار بیٹے تھے۔ رام پرساد ان کی دوسری‬
‫[‪]6‬‬
‫اوالد تھے۔ آگے چل کر دو بیٹیوں اور دو بیٹوں کا بھی انتقال ہو گیا۔‬
‫عالم طفلی ہی سے رام پرساد کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جانے لگی۔ جہاں کہیں وہ غلط‬
‫حروف لکھتا‪ ،‬اس کی خوب پٹائی کی جاتی لیکن اس میں شوخی اور شرارت بھی کم نہ تھی۔ موقع‬
‫پاتے ہی پاس کے باغ میں گھس کر پھل وغیرہ توڑ التا تھا۔ شکایت آنے پر اس کی پٹائی بھی ہوا‬
‫کرتی لیکن وہ شیطانی سے باز نہیں آتا تھا۔ اس کا دل کھیلنے میں زیادہ لیکن پڑھنے میں کم لگتا‬
‫تھا۔ اس کی وجہ سے اس کے والد تو اس کی خوب پٹائی لگاتے لیکن ماں ہمیشہ اسے پیار سے‬
‫یہی سمجھاتی کہ بیٹا رام‪ ! ‬یہ بہت بری بات ہے مت کرو۔ اس محبت بھری سیکھ کا اس کے دل پر‬
‫کہیں نہ کہیں اثر ضرور پڑا۔ اس کے والد نے پہلے ہندی حروف شناسی کرائی لیکن ہندی حرف ‪उ‬‬
‫(اُ) سے الو نہ تو اس نے پڑھنا سیکھا اور نہ ہی لکھ کر دکھایا۔ ان دنوں ہندی کے حروف تہجی‬
‫میں " ‪( उ‬اُ) سے الو " ہی پڑھایا جاتا تھا۔ اس بات کی وہ مخالفت کرتا تھا اور بدلے میں والد کی‬
‫مار بھی کھاتا تھا‪ ،‬ہار کر اسے اردو کے اسکول میں داخل کرا دیا گیا۔ شاید یہی فطرتی‬
‫خصوصیات رام پرساد کو ایک انقالبی بنا پائیں۔ یعنی وہ اپنے خیاالت میں پیدائش سے ہی بڑا پکا‬
‫تھا۔‬
‫تقریبًا ‪ 14‬سال کی عمر میں رام پرساد کو اپنے والد کے صندوقچے سے رقم چرانے کی لت پڑ‬
‫گئی۔ چرائے گئے روپے سے اس نے ناول وغیرہ خرید کر پڑھنا شروع کر دیا اور سگریٹ پینے‬
‫اور بھانگ چڑھانے کی عادت بھی پڑ گئی تھی۔ مجموعی طور پر روپیے چوری کا سلسلہ چلتا رہا‬
‫اور رام پرساد اب اردو کے عشق یہ ناولوں اور غزلوں کی کتابیں پڑھنے کا عادی ہو گیا تھا۔ اتفاق‬
‫سے ایک دن بھانگ کے نشے میں ہونے کی وجہ سے رام پرساد کو چوری کرتے ہوئے پکڑ لیا‬

‫‪130 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫گیا۔ خوب پٹائی ہوئی‪ ،‬ناول اور دیگر کتابیں پھاڑ ڈالی گئی لیکن روپیے چرانے کی عادت نہیں‬
‫[‪]6‬‬
‫چھوٹی۔ آگے چل کر جب ان کو تھوڑی سمجھ آئی تبھی وہ اس لت سے آزاد ہو سکے۔‬
‫رام پرساد نے اردو ِم ِڈل کے امتحان میں پاس نہ ہونے پر انگریزی پڑھنا شروع کیا۔ ساتھ ہی‬
‫پڑوس کے ایک پجاری نے رام پرساد کو پوجا کا طریقہ کار کا علم کروا دیا۔ پجاری ایک سلجھی‬
‫ہوئی علمی شخصیت کے حامل تھے۔ ان کی شخصیت کا اثر رام پرساد کی زندگی پر بھی پڑا۔‬
‫پجاری کی تعلیمات کی وجہ سے رام پرساد پوجا کے ساتھ تجرد پر عمل کرنے لگا۔ پجاری کی‬
‫دیکھا دیکھی رام پرساد نے ورزش کرنا بھی شروع کر دیا۔ سن بلوغ کی جتنی بھی بری عادات ذہن‬
‫میں تھیں وہ بھی چھوٹ گئی۔ صرف سگریٹ پینے کی لت نہیں چھوٹی۔ لیکن وہ بھی کچھ دنوں بعد‬
‫اسکول کے ایک ہم درس سشیل چندر سین کی مصاحبت سے چھوٹ گئی۔ سگریٹ چھوٹنے کے‬
‫[‬
‫بعد رام پرساد کا من پڑھائی میں لگنے لگا۔ بہت جلد ہی وہ انگریزی کے پانچویں درجے میں آ گیا۔‬
‫‪]6‬‬

‫رام پرساد میں غیر متوقع تبدیلی ہو چکی تھی۔ جسم خوبصورت اور طاقتور ہو گیا تھا۔ وہ باقاعدہ‬
‫پوجا میں وقت گزارنے لگا تھا۔ اسی دوران مندر میں آنے والے نمائندے اندرجیت سے اس کا‬
‫رابطہ ہوا۔ منشی اندرجیت نے رام پرساد کو آریہ سماج کے بارے میں بتایا اور سوامی دیانند‬
‫سرسوتی کی لکھی کتاب ستیارتھ پرکاش پڑھنے کو دی۔ ستیارتھ پرکاش کے سنجیدہ مطالعے سے‬
‫[‪]6‬‬
‫رام پرساد کی زندگی پر حیرت انگیز اثر پڑا۔‬

‫سوامی سوم دیو سے مالقات‬


‫جب رام پرساد گورنمنٹ اسکول شاہجہاں پور میں نویں جماعت کے طالب علم تھے‪ ،‬تبھی اتفاق‬
‫سے سوامی سوم دیو کی آریہ سماج بھون میں آمد ہوئی۔ منشی اندرجیت نے رام پرساد کو سوامی‬
‫جی کی خدمت میں مقرر کر دیا۔ یہیں سے ان کی زندگی کےحال اور سمت دونوں میں تبدیلی‬
‫شروع ہوئی۔ ایک طرف ستیارتھ پرکاش کا سنجیدہ مطالعہ اور دوسری طرف سوامی سوم دیو کے‬
‫ساتھ سیاسی موضوعات پر کھلی بحث سے ان کے ذہن میں حب الوطنی کا جذبہ بیدار ہوا۔ ‪1916‬ء‬
‫کے آل انڈیا کانگریس اجالس میں صدراستقبالیہ پنڈت جگت نارائن ' مال ' کے حکم کی دھجیاں‬
‫بكھیرتے ہوئے رام پرساد نے جب برسرعام بال گنگادھر تلک کا‪ ،‬پورے لکھنؤ شہر میں‬
‫پروقارجلوس نکاال تو سبھی نوجوانوں کی توجہ ان کے عزم وحوصلہ پر مرکوز ہوئی۔ اجالس کے‬
‫دوران ان کا تعارف کیشو چکرورتی‪ ،‬سوم دیو شرما اور مكندی الل وغیرہ سے ہوا۔ بعد میں ان ہی‬
‫سوم دیو شرما نے کسی سدھ گوپال شکل کے ساتھ مل کر شہری ادبی مطبع‪ ،‬کانپور سے ایک‬
‫کتاب بھی شائع کی جس کا عنوان رکھا گیا تھا امریکہ کی آزادی کی تاریخ۔ یہ کتاب بابو گنیش‬
‫پرساد کے زیراہتمام کرمی پریس‪ ،‬لکھنؤ میں ‪1916‬ء میں شائع ہوئی تھی۔ رام پرساد نے یہ کتاب‬
‫اپنی ماتاجی سے دو الگ وقتوں میں دو دو سو روپے لے کر شائع کی تھی۔ اس کا ذکر انہوں نے‬
‫اپنی سوانح عمری میں کیا ہے۔ یہ کتاب شائع ہوتے ہی ضبط کر لی گئی تھی بعد میں جب كاكوری‬
‫سازش کا مقدمہ چال تو ثبوت کے طور پر یہی کتاب پیش کی گئی تھی۔ اب یہ کتاب تبدیلی کرکے‬
‫سرفروشی کی تمنا نامی مجموعہ کتب کے حصہ سوم میں مرتب کی جا چکی ہے اور تین مورتی‬
‫بھون کتب خانہ‪ ،‬نئی دہلی سمیت کئی دیگر کتب خانوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔‬

‫مین پوری سازش‬


‫‪1915‬ء میں بھائی پرمانند کی پھانسی کی خبر سن کر رام پرساد برطانوی سلطنت کو ہندوستان باہر‬
‫کرنے کا عہد کر چکے تھے۔ ‪1916‬ء میں ایک کتاب شائع ہو كر آ چکی تھی‪ ،‬کچھ نوجوان ان سے‬
‫جڑ چکے تھے۔ سوامی سوم دیو کا آشیرباد بھی انہیں حاصل ہو چکا تھا۔ اب تالش تھی تو ایک‬
‫تنظیم کی جو انہوں نے پنڈت گینداالل دیکشت کی رہنمائی میں ماتروویدی کے نام سے خود ہی بنا‬
‫لی تھی۔ اس تنظیم کی طرف سے ایک اشتہار اور ایک عہد بھی شائع کیا گیا۔ تنظیم کے لیے فنڈز‬
‫جمع کرنے کے مقصد سے رام پرساد نے‪ ،‬جو اب تک بسمل کے نام سے مشہور ہو چکے تھے‪،‬‬
‫‪131 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫جون ‪1918‬ء میں دو اور ستمبر ‪1918‬ء میں ایک ‪ -‬مجموعی طور پر تین ڈکیتیاں بھی کر ڈالی‪،‬‬
‫جس سے پولیس ہوشیار ہو کر ان نوجوانوں کی تالش میں جگہ جگہ چھاپے ڈال رہی تھی۔ ‪ 26‬سے‬
‫‪ 31‬دسمبر ‪1918‬ء تک دہلی میں الل قلعہ کے سامنے ہوئے کانگریس اجالس میں اس تنظیم کے‬
‫نوجوانوں نے چال چال کر جیسے ہی کتابیں فروخت کرنا شروع کیا کہ پولیس نے چھاپہ مار ڈاال‬
‫تھا‪ ،‬لیکن بسمل کی سوجھ بوجھ سے تمام کتابیں بچ گئیں۔‬
‫پنڈت گینداالل دیکشت کی پیدائش جمنا کنارے واقع مئی گاؤں میں ہوئی تھی۔ اٹاوہ ضلع کے ایک‬
‫مشہور قصبے اوریا کے ڈی اے وی اسکول میں استاد تھے۔ حب الوطنی کا جذبہ سوار ہوا تو‬
‫شیواجی کمیٹی کے نام سے ایک تنظیم بنا لی اور ہتھیار جمع کرنے شروع کر دیے۔ آگرہ میں‬
‫ہتھیار التے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ قلعہ میں قید تھے وہاں سے پولیس کو چکما دے کر رفوچكر‬
‫ہو گئے۔ بسمل کی ماتروویدی ادارے کا الحاق شیواجی کمیٹی میں کرنے کے بعد دونوں نے مل کر‬
‫کئی کام انجام دیے۔ پنڈت صاحب ایک بار دوبارہ بھی پکڑے گئے تھے۔ فرار ہوئے تو پولیس‬
‫پیچھے پڑی تھی‪ ،‬بھاگ کر دہلی چلے گئے وہیں آپ اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ بسمل نے‬
‫اپنی آپ بیتی میں پنڈت گیندا الل کا بڑے ہی دل کو چھولینے والے انداز میں بیان کیا ہے۔‬
‫مین پوری سازش میں شاہجہاں پور سے ‪ 6‬نوجوان شامل ہوئے تھے جن کے لیڈر رام پرساد بسمل‬
‫تھے لیکن وہ پولیس کے ہاتھ نہیں آئے‪ ،‬فوری طور پر فرار ہو گئے۔ ‪ 1‬نومبر ‪1919‬ء کو‬
‫مجسٹریٹ بی ایس کرس نے مین پوری سازش کا فیصلہ سنا دیا۔ جن جن کو سزائیں ہوئیں ان میں‬
‫مكندیالل کے عالوہ تمام کو فروری ‪1920‬ء میں عام معافی کے اعالن پر چھوڑ دیا گیا۔ بسمل‬
‫پورے ‪ 2‬سال روپوش رہے۔ ان کی پارٹی کے ہی کچھ ساتھیوں نے شاہجہاں پور میں جا کر یہ‬
‫افواہ پھیال دی کہ بھائی رام پرساد تو پولیس کی گولی سے ہالک ہوئے۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ‬
‫پولیس تصادم کے دوران جمنا میں چھالنگ لگا کر پانی کے اندر ہی یوگا کی طاقت سے تیرتے‬
‫ہوئے کافی دور آگے جا کر دریا سے باہر نکلے اور جہاں آج کل گریٹر نوئیڈا آباد ہو چکا ہے وہاں‬
‫کے غیر آباد عالقوں میں چلے گئے۔ وہاں ان دنوں صرف ببول کے ہی پیڑ ہوا کرتے تھے۔ چونکہ‬
‫یہ ایک بنجر زمین تھی‪ ،‬اس لیے آدمی تو کہیں دور دور تک نظر ہی نہ آتا تھا۔‬

‫روپوشی اور ادبی تخلیق‬


‫رام پرساد بسمل نے یہاں کے ایک چھوٹے سے گاؤں رام پور جاگیر ( رامپور جہانگیر ) میں پناہ‬
‫لی اور کئی ماہ یہاں کے اجاڑ جنگلوں میں گھومتے ہوئے گاؤں کے گوجروں کی گائے بھینس‬
‫چرائی۔ اس کا بڑا دلچسپ بیان انہوں نے اپنی آپ بیتی کے دوسرے باب میں کیا ہے۔ یہیں رہ کر‬
‫انہوں نے اپنا انقالبی ناول بولشیویكوں کے کرتوت لکھا۔ عملی طور پر یہ ناول اصل میں بنگالی‬
‫زبان میں چھپی کتاب نهلسٹ رہسیہ کا ہندی ترجمہ ہے جس کی زبان اور انداز دونوں ہی بڑے‬
‫دلچسپ ہیں۔ اروند گھوش کی ایک انتہائی بہترین بنگالی کتاب یوگیک سادھن کا ہندی ترجمہ بھی‬
‫انہوں نے زیر زمین رہتے ہوئے ہی کیا تھا۔ جمنا کنارے کی كھادر زمین ان دنوں پولیس سے‬
‫بچنے کے لئے محفوظ سمجھی جاتی تھی اس لئے بسمل نے اس غیرمخاطرہ مقام کا بھرپور‬
‫استعمال کیا۔ موجودہ وقت میں یہ گاؤں چونکہ گریٹر نوئیڈا کے بیٹا ون سیکٹر کے تحت آتا ہے اس‬
‫لیے ریاستی حکومت نے رام پور جاگیر گاؤں کے عالقے میں آنے والی محکمہ جنگالت کی‬
‫محفوظ زمین پر ان کی یاد میں امر شہید پنڈت رام پرساد بسمل باغ تیار کر دیا ہے جس کی نگرانی‬
‫[‪]9‬‬
‫گریٹر نوئیڈا انتظامیہ کا ریاستی محکمہ جنگالت کرتا ہے۔‬
‫بسمل کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ کسی بھی مقام پر زیادہ دنوں تک ٹھہرتے نہ تھے۔‬
‫کچھ دن رام پور جاگیر میں رہ کر اپنی سگی بہن شاستری دیوی کے گاؤں كوسما ضلع مین پوری‬
‫میں بھی رہے۔ ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان کی اپنی بہن تک ان کو پہچان نہ پائی۔ كوسما سے‬
‫چل کر باه پہنچے۔ کچھ دن باه رہے پھر وہاں سے پنهٹ‪ ،‬آگرہ ہوتے ہوئے گوالیار ریاست میں واقع‬
‫اپنے دادا کے گاؤں بربائی ( ضلع مورینا‪ ،‬مدھیہ پردیش ) چلے گئے۔ انہوں نے وہاں کسان کے‬
‫بھیس میں رہ کر کچھ دنوں ہل بھی چالیا۔ جیساکہ اوپر مذکور ہے کہ ان کی بہن تک پہچان نہ‬
‫‪132 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫پائی‪ ،‬اس طرح پولیس تو بالکل بھی نہیں پہچان پائی۔ نقل مقام کے دوران‪ ،‬انہوں نے ‪1918‬ء میں‬
‫شائع انگریزی کتاب دی گرینڈمدر آف رشین روولیوشن کا ہندی ترجمہ کیا۔ ان کے تمام ساتھیوں کو‬
‫یہ کتاب بہت پسند آئی۔ اس کتاب کا نام انہوں نے كیتھےران رکھا تھا۔ اتنا ہی نہیں‪ ،‬بسمل نے سشیل‬
‫ماال سیریز سے کچھ کتابیں بھی شائع کیں تھیں جن میں دماغ کی لہر نامی نظموں کا مجموعہ‪،‬‬
‫کیتھے رائن یا آزادی کی دیوی‪ ،‬برشكووسكی کی مختصر سوانح عمری اور دیسی رنگ اور ان‬
‫کے عالوہ بولشیویكیوں کے کرتوت نامی ناول شامل تھے۔ دیسی رنگ کے عالوہ دیگر تینوں‬
‫کتابیں عام قارئین کے لئے آج دور میں بھی کتب خانوں میں دستیاب ہیں۔‬

‫چوری چورا واقعہ‬


‫تحریک خالفت کے عروج میں چوری چورا‪ ،‬اترپردیش میں گورکھپور کے قریب ایک قصبہ ہے‬
‫جہاں ‪ 4‬فروری‪1922 ،‬ء کو ہندوستانیوں نے برطانوی حکومت کی ایک پولیس چوکی کو آگ لگا‬
‫دی تھی جس سے اس میں چھپے ہوئے ‪ 22‬پولیس مالزم زندہ جل کے مر گئے تھے۔ اس واقعہ کو‬
‫'چوری چورا سانحہ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔‬
‫اس واقعہ کے فوراً بعد گاندھی نے عدم تعاون تحریک کو ختم کرنے کا اعالن کردیا۔ بہت سے‬
‫لوگوں کو گاندھی کا یہ فیصلہ مناسب نہیں لگا۔ بالخصوص انقالبیوں نے اس کی براہ راست یا‬
‫بالواسطہ مخالفت کی۔ گایا کانگریس میں رام پرساد بسمل اور ان نوجوان ساتھیوں نے گاندھی کی‬
‫مخالفت کی۔ کانگریس میں كھنہ اور ان کے ساتھیوں نے رام پرساد بسمل کے ساتھ کندھے سے‬
‫کندھا مالكر گاندھی مخالف ایسا احتجاج کیا کہ کانگریس میں دو گروپ بن گئے ‪ -‬ایک اعتدال پسند‬
‫یا لبرل اور دوسرا باغی یا انقالبی۔ گاندھی باغی نظریے کے حامیوں کو کانگریس کے عام جلسوں‬
‫میں احتجاج کرنے کی وجہ سے ہمیشہ ہلڑباز کہا کرتے تھے۔ گاندھی نے عوامی سول نافرمانی‬
‫کی مہم کے خاتمے کا اعالن کیا۔ گاندھی کے اس کام سے تحریک خالفت کو نقصان پہنچا اور اتنی‬
‫بڑی تحریک دم توڑ گئی ہندو مسلم اتحاد و اعتماد پارہ پارہ ہو گیا۔‬

‫ایچ آر اے کی تشکیل‬
‫جنوری ‪1923‬ء میں موتی الل نہرو اور دیش بندھو چترجن داس جیسے دولت مند لوگوں نے مل‬
‫کر سوراج پارٹی بنا لی۔ نوجوانوں نے ایڈہاک پارٹی کے طور پر ریولیوشنری پارٹی کا اعالن کر‬
‫دیا۔ ستمبر ‪1923‬ء میں ہوئے دہلی کے خصوصی کانگریس اجالس میں اسنتشٹ نوجوانوں نے یہ‬
‫فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنی پارٹی کا نام و آئین وغیرہ کا یقین کرکے سیاست میں دخل ہونا شروع‬
‫کریں گے۔ دوسری جانب میں ملک میں جمہوریت کے نام پر غاصبیت حاوی ہو نے کا اندیشہ تھا۔‬
‫دیکھا جائے تو اس وقت ان کی یہ بڑی بصیرت افروز سوچ تھی۔ مشہور انقالبی اللہ ہردیال‪ ،‬جو‬
‫ان دنوں بیرون ملک رہ کر ہندوستان کو آزاد کرانے کی حکمت عملی بنانے میں لگے ہوئے تھے‪،‬‬
‫رام پرساد بسمل کے رابطہ میں سوامی سوم دیو کے وقت سے ہی تھے۔ اللہ جی نے ہی خط لکھ‬
‫کر رام پرساد بسمل کو شچیدرناتھ سانیال اور ید گوپال مکھرجی سے مل کر نئی پارٹی کا آئین تیار‬
‫کرنے کی صالح دی تھی۔ اللہ جی کا مشورہ مان کر رام پرساد الہ آباد گئے اور شچیدرناتھ سانیال‬
‫[‪]10‬‬
‫کے گھر پر پارٹی کا آئین تیار کیا۔‬
‫نوتشکیل شدہ پارٹی کا نام مختصر میں ایچ آر اے رکھا گیا اور اس کا آئین پیلے رنگ کے پرچے‬
‫پر ٹائپ کرکے ارکان کو بھیجا گیا۔ ‪ 3‬اکتوبر ‪1924‬ء کو اس پارٹی (ہندوستان ریپبلکن ایسوسی‬
‫ایشن) کی ایک مجلس عاملہ کا اجالس کانپور میں ہوا جس میں شچیندرناتھ سانیال‪ ،‬یوگیش چندر‬
‫چٹرجی اور رام پرساد بسمل وغیرہ کئی اہم رکن شامل ہوئے۔ اس اجالس میں پارٹی کی قیادت‬
‫بسمل کو سونپ كر سانیال اور چٹرجی بنگال چلے گئے۔ پارٹی کے لئے چندہ جمع کرنے میں‬
‫مشکل کو دیکھتے ہوئے آئرلینڈ کے انقالبیوں کا طریقہ اپنایا گیا تھا اور پارٹی کی طرف سے پہلی‬
‫ڈکیتی ‪ 25‬دسمبر ‪1924‬ء (کرسمس کی رات ) کو بمرولی میں ڈالی گئی جس کی قیادت بسمل نے‬
‫[‪]11‬‬
‫کی تھی۔ اس کا ذکر چیف کورٹ آف اودھ کے فیصلے میں ملتا ہے۔‬
‫‪133 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫" دی ریوولیوشنری " ( اعالمیہ‪ ) /‬کی اشاعت‬
‫انقالبی پارٹی کی طرف سے ‪ 1‬جنوری‪1925 ،‬ء کو کسی گمنام جگہ سے شائع اور ‪ 28‬سے ‪31‬‬
‫جنوری‪1925 ،‬ء کے درمیان پورے ہندوستان کے تمام اہم مقامات پر تقسیم ‪ 4‬صفحہ کے پمفلٹ "‬
‫دی ریوولیوشنری " میں رام پرساد بسمل نے وجے کمار کے تخلص سے اپنے دل کی خیاالت کا‬
‫تحریری طور پر اظہار کرتے ہوئے صاف الفاظ میں اعالن کر دیا تھا کہ انقالبی اس ملک کے‬
‫نظام حکومت میں کس طرح کی تبدیلی کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ کیا کیا کر سکتے ہیں ؟‬
‫صرف اتنا ہی نہیں‪ ،‬انہوں نے موہن داس گاندھی کی پالیسیوں کا مذاق بناتے ہوئے یہ سوال بھی کیا‬
‫تھا کہ جو شخص خود کو روحانی کہتا ہے وہ انگریزوں سے کھل کر بات کرنے میں ڈرتا کیوں‬
‫ہے؟ انہوں نے ہندوستان کے تمام نوجوانوں کو ایسے فرضی مہاتما کے بہکاوے میں نہ آنے کا‬
‫مشورہ دیتے ہوئے ان کی انقالبی پارٹی میں شامل ہو کر انگریزوں سے ٹکر لینے کا کھال مطالبہ‬
‫کیا تھا۔ دی ریوولیوشنری کے نام سے انگریزی میں شائع اس انقالبی ( منشور ) میں انقالبیوں کے‬
‫نظریاتی تفکر [‪ ]12‬کو بہ حسن طرز سمجھا جا سکتا ہے۔ اس خط کا عکس ہندی كاویانواد میں [‪ ]13‬اب‬
‫دستیاب ہے۔‬

‫كاكوری سانحہ‬
‫دی روولیوشنری نام سے شائع اس ‪ 4‬صفحاتی منشور کو دیکھتے ہی برطانوی حکومت اس کے‬
‫مصنف کو بنگال میں تالش کرنے لگی۔ اتفاق سے شچیندر ناتھ سانیال باكرا میں اس وقت گرفتار‬
‫کر لئے گئے جب وہ یہ پمفلٹ اپنے کسی ساتھی کو پوسٹ کرنے جا رہے تھے۔ اسی طرح یوگیش‬
‫چندر چٹرجی کانپور سے پارٹی کی میٹنگ کرکے جیسے ہی ہاوڑہ اسٹیشن پر ٹرین سے اترے کہ‬
‫ایچ آر اے کے آئین کی ڈھیر ساری نقول کے ساتھ پکڑ لیے گئے۔ انہیں ہزاری باغ جیل میں بند کر‬
‫دیا گیا۔ دونوں رہنماؤں کے گرفتار ہو جانے سے رام پرساد بسمل کے کندھوں پر اتر پردیش کے‬
‫ساتھ ساتھ بنگال کے انقالبی ارکان کی ذمہ داری بھی آ گئی۔ بسمل کا مزاج تھا کہ وہ یا تو کسی کام‬
‫کو ہاتھ میں لیتے نہ تھے اور اگر ایک بار کام ہاتھ میں لے لیا تو اسے مکمل کئے بغیر چھوڑتے‬
‫نہ تھے۔ پارٹی کے کام کے لئے رقم کی ضرورت پہلے بھی تھی لیکن اب تو اور بھی زیادہ اضافہ‬
‫ہو گیا ہے۔ کہیں سے بھی پیسہ حاصل ہوتا نہ دیکھ انہوں نے ‪ 7‬مارچ ‪1925‬ء کو بچپری اور ‪24‬‬
‫مئی ‪1925‬ء کو دواركاپور میں دو سیاسی ڈكیتیاں کیں۔ لیکن ان میں کچھ خاص دولت کو حاصل نہ‬
‫ہو سکی۔‬
‫ان دونوں ڈکیتیوں میں ایک ایک شخص موقع پر ہی ہالک ہو گیا۔ اس سے بسمل کو بے انتہا تکلیف‬
‫ہوئی۔ آخر کار انہوں نے یہ پکا فیصلہ کر لیا کہ وہ اب صرف سرکاری خزانہ ہی لوٹیں گے‪،‬‬
‫ہندوستان کے کسی بھی رئیس کے گھر چوری بالکل نہ ڈالیں گے۔‬
‫شاہجہاں پور میں ان کے گھر پر ہوئی ایک ایمرجینسی میٹنگ میں فیصلہ لے کر منصوبہ بنا اور ‪9‬‬
‫اگست ‪1925‬ء کو شاہجہاں پور ریلوے اسٹیشن سے بسمل کی قیادت میں کل ‪ 10‬لوگ‪ ،‬جن میں‬
‫اشفاق ہللا خان‪ ،‬راجندر الهڑی‪ ،‬چندر شیکھر آزاد‪ ،‬شچیندرناتھ بخشی‪ ،‬منمتھ ناتھ گپت‪ ،‬مكندی الل‪،‬‬
‫ٰ‬
‫(فرضی نام یا تخلص)‪ ،‬مراری شرما ( اصلی نام مراری گپت ) اور بنواری الل‬ ‫کیشو چکرورتی‬
‫شامل تھے‪ 8 ،‬ڈاؤن سہارنپور ‪ -‬لکھنؤ پسینجر ٹرین میں سوار ہوئے۔ ان سب کے پاس عام پستولوں‬
‫کے عالوہ جرمنی کے بنے چار موزر پستول بھی تھے جن کے بٹ میں كندا لگا لینے سے وہ‬
‫چھوٹی آٹومیٹك رائفل کی طرح لگتا تھا اور سامنے والے کے دل میں مزید خوف پیدا کر دیتا تھا۔‬
‫ان کے ٹریگروں کی صالحیت [‪ ]14‬بھی عام پستولوں سے زیادہ ہوتی تھی۔ ان دنوں یہ ٹریگر آج کی‬
‫اے کے ‪ 47 -‬رائفل کی طرح مشہور تھے۔ لکھنؤ سے پہلے كاكوری ریلوے اسٹیشن پر رک کر‬
‫جیسے ہی گاڑی آگے بڑھی‪ ،‬انقالبیوں نے چین کھینچ کر اسے روک لیا اور گارڈ کے ڈبے سے‬
‫سرکاری خزانے کا بکس نیچے گرا دیا۔ اسے کھولنے کی کوشش کی گئی لیکن جب وہ نہیں کھال‬
‫تو اشفاق ہللا خاں نے اپنا پستول منمتھ ناتھ کو پکڑا دیا اور ہتھوڑا لے کر تاال توڑنے میں مصروف‬
‫ہو گئے۔ منمتھ ناتھ گپت نے غلطی سے ٹریگر دبا دیا جس سے گولی چلی اور احمد علی نام کے‬
‫‪134 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫مسافر کو لگ گئی اور وہ موقع پر ہی انتقال کر گیا۔ چاندی کے سکوں اور نوٹوں سے بھرے‬
‫چمڑے کے تھیلے شیٹ میں باندھ کر وہاں سے فرار یہ لوگوں کی جلدی میں ان کی ایک چادر‬
‫وہیں چھوٹ گئی۔ اگلے دن اخبارات کے ذریعے اس ڈکیتی کی خبر پوری دنیا میں پھیل گئی۔‬
‫برطانوی حکومت نے اس ٹرین ڈکیتی کو سنجیدگی سے لیا اور ڈی آئی جی۔ کے اسسٹنٹ ( سی آئی‬
‫ڈی انسپکٹر ) آر اے ہارٹن [‪ ]15‬کی قیادت میں سب سے تیز طرار پولیس اہلکاروں کو اس کی جانچ‬
‫کا کام سونپ دیا۔‬

‫گرفتاری اور مقدمہ‬


‫سی آئی ڈی نے بہ تعمق چھان بین کرکے حکومت کو اس بات کی تصدیق کی کہ كاكوری ٹرین‬
‫ڈکیتی انقالبیوں کی ایک منصوبہ بند سازش ہے۔ پولیس نے كاكوری سانحہ کے بارے میں‬
‫معلومات دینے اور سازش میں شامل کسی بھی شخص کو گرفتار کروانے کے لئے انعام کا اعالن‬
‫کرکے اشتہار تمام اہم مقامات پر لگا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پولیس کو جائے واردات پر ملی‬
‫چادر میں لگے دھوبی کے نشان سے اس بات کا پتہ چل گیا کہ چادر شاہجہاں پور کے ہی کسی‬
‫شخص کی ہے۔ شاہجہاں پور کے دھوبیوں سے تفتیش پر معلوم ہوا کہ چادر بنارسی الل کی ہے۔‬
‫بنارسی الل سے مل کر پولیس نے سارا ماجرا حاصل کر لیا۔ یہ بھی پتہ چل گیا کہ ‪ 9‬اگست‬
‫‪1925‬ء کو شاہجہاں پور سے اس کی پارٹی کے کون کون لوگ شہر سے باہر گئے تھے اور وہ‬
‫کب کب واپس آئے؟ جب خفیہ طور سے اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ رام پرساد بسمل‪ ،‬جو ایچ آر‬
‫اے کا لیڈر تھا‪ ،‬اس دن شہر میں نہیں تھا تو ‪ 26‬ستمبر ‪1925‬ء کی رات میں بسمل کے ساتھ پورے‬
‫ہندوستان سے ‪ 40‬سے بھی زیادہ [‪ ]16‬لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔‬
‫كاكوری سانحہ میں صرف ‪ 10‬ہی لوگ حقیقی طور پر شامل تھے اس لئے ان تمام کو نامزد کیا گیا۔‬
‫ان میں سے پانچ‪ ،‬چندر شیکھر آزاد‪ ،‬مراری شرما [‪( ]17‬فرضی نام )‪ ،‬کیشو چکرورتی ( فرضی‬
‫نام )‪ ،‬اشفاق ہللا خان اور شچیندر ناتھ بخشی کو چھوڑ کر‪ ،‬جو پولیس کے ہاتھ نہیں آئے‪ ،‬باقی تمام‬
‫افراد پر مقدمہ چال اور انہیں ‪ 5‬سال کی قید سے لے کر پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ فرار ملزمین‬
‫کے عالوہ جن جن انقالبیوں کو ایچ آر اے کا سرگرم کارکن ہونے کے شبہ میں گرفتار کیا گیا تھا‬
‫ان میں سے ‪ 16‬کو ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے رہا کر دیا گیا۔ اسپیشل مجسٹریٹ عین الدین نے ہر‬
‫انقالبی کی کافی پوچھ تاچھ کی۔ صرف اتنا ہی نہیں‪ ،‬کیس کو سیشن کورٹ میں بھیجنے سے پہلے‬
‫ہی اس بات کے تمام گواہ اور ثبوت جمع کر لئے تھے کہ اگر اپیل بھی کی جائے تو ایک بھی ملزم‬
‫بغیر سزا کے چھوٹنے نہ پائے۔‬
‫بنارسی الل کو حواالت میں ہی پولیس نے سخت سزا کا خوف دکھا کر اپنا ہمنوا بنالیا۔ شاہجہاں پور‬
‫ضلع کانگریس کمیٹی میں پارٹی فنڈ کو لے کر اسی بنارسی کا بسمل سے جھگڑا ہو چکا تھا۔ بسمل‬
‫نے‪ ،‬جو اس وقت ضلع کانگریس کمیٹی کے آڈیٹر تھے‪ ،‬بنارسی پر پارٹی فنڈ میں خردبرد کا الزام‬
‫ثابت کرتے ہوئے اسے کانگریس پارٹی کی ابتدائی رکنیت سے معطل کر دیا تھا۔ بعد میں جب موہن‬
‫داس گاندھی ‪ 16‬اکتوبر ‪1920‬ء ( ہفتہ ) کو شاہجہاں پور آئے تو بنارسی نے ان سے مل کر اپنا‬
‫موقف ركھا۔ گاندھی جی نے اس وقت یہ کہ کر کہ چھوٹی موٹی ہیرا پھیری کو اتنا طول نہیں دینا‬
‫چاہیے‪ ،‬ان دونوں میں صلح کرا دی۔ لیکن بنارسی بڑا ہی کدورت واال آدمی تھا۔ اس نے پہلے تو‬
‫بسمل سے معافی مانگ لی پھر گاندھی جی کو الگ لے جا کر ان کے کان بھر دیئے کہ رام پرساد‬
‫بڑا ہی مجرم قسم کا شخص ہے۔ وہ اس کی کسی بات کا نہ تو خود یقین کریں نہ ہی کسی اور کو‬
‫کرنے دیں۔‬
‫آگے چل کر اسی بنارسی الل نے بسمل سے دوستی کر لی اور میٹھی میٹھی باتوں سے پہلے ان کا‬
‫اعتماد حاصل کیا اور اس کے بعد ان کے ساتھ کپڑے کے کاروبار میں حصہ دار بن گیا۔ جب بسمل‬
‫نے موہن داس گاندھی کی تنقید کرتے ہوئے اپنی الگ پارٹی بنا لی تو بنارسی الل انتہائی خوش‬
‫ہوا‪ ،‬اور موقع کی تالش میں چپ سادھے بیٹھا رہا۔ پولیس نے مقامی لوگوں سے بسمل اور بنارسی‬
‫کے گزشتہ جھگڑے کا قضیہ جان کر ہی بنارسی الل کو اپروور ( سرکاری گواہ ) بنایا اور بسمل‬
‫‪135 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫کے خالف پورے مقدمہ میں ایک معصوم اوزار کی طرح استعمال کیا۔ بنارسی الل کاروبار میں‬
‫حصہ دار ہونے کی وجہ سے پارٹی سے متعلق ایسی ایسی خفیہ باتیں جانتا تھا‪ ،‬جنہیں بسمل کے‬
‫عالوہ اور کوئی نہ جان سکتا تھا۔ اس کا ذکر رام پرساد بسمل نے اپنی آپ بیتی میں کیا ہے۔‬
‫لکھنؤ جیل [‪ ]18‬میں تمام انقالبیوں کو ایک ساتھ ركھا گیا اور ہجرت گنج چوراہے کے پاس رنگ‬
‫تھیٹر نام کی ایک عالی شان عمارت میں عارضی عدالت کا انعقاد کیا گیا۔ رنگ تھیٹر نام کی یہ‬
‫بلڈنگ کوٹھی حیات بخش اور ملکہ عہد سلطنت کے درمیان ہوا کرتی تھی جس میں برطانوی افسر‬
‫آ کر فلم اور ڈراما وغیرہ دیکھ کر تفریح کیا کرتے تھے۔ اسی رنگ تھیٹر میں مسلسل ‪ 18‬ماہ تک‬
‫کنگ امپرر ورسیس رام پرساد بسمل اینڈ ادرس ( ‪)King Emperor v. Ram Prasad Bismil‬‬
‫کے نام سے چالئے گئے تاریخی مقدمے کا ڈراما کرنے میں برطانوی حکومت نے ‪ 10‬الکھ روپے‬
‫[‪ ]16‬اس وقت خرچ کئے تھے جب سونے کی قیمت ‪ 20‬روپیے تولہ ( ‪ 12‬گرام ) ہوا کرتا تھا۔ اس‬
‫سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ برطانوی حکمرانوں کے حکم سے یہ عمارت بھی بعد میں منہدم‬
‫[‪]19‬‬
‫کر دی گئی اور اس کی جگہ سن ‪1929‬ء‪1932-‬ء میں جی پی او (جنرل پوسٹ آفس ) لکھنؤ‬
‫کے نام سے ایک دوسری شاندار عمارت برطانوی حکومت کی جانب سے کھڑی کر دی گئی۔ مگر‬
‫جب ‪1947‬ء میں جب بھارت آزاد ہو گیا تو یہاں گاندھی کی شاندار مورتی نصب کی گئی۔ جب‬
‫مرکز میں غیر كانگریسی جنتا پارٹی حکومت پہلی بار تشکیل ہوئی تو اس وقت کے زندہ انقالبیوں‬
‫کی اجتماعی کوششوں سے ‪1977‬ء میں منعقد كاكوری شہید نصف صدی تقریب کے وقت یہاں پر‬
‫كاكوری کالمز کا سورج اتر پردیش کے گورنر گنپتی راؤ دیوراؤ تپاسے نے نصب کیا تاکہ اس‬
‫مقام کی یاد قائم رہے۔‬
‫اس تاریخی مقدمے میں سرکاری خرچ سے ہركرن ناتھ مشرا کو انقالبیوں کا وکیل مقرر کیا گیا‬
‫جبکہ جواہر الل نہرو کے رشتے میں سالے لگنے والے مشہور وکیل کے جگت نارائن ' مال ' کو‬
‫ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت سرکاری وکیل بنایا گیا۔ جگت نارائن نے اپنی طرف‬
‫سے تمام انقالبیوں کو سخت سے سخت سزا دلوانے میں کوئی کسر باقی نہ ركھی۔ یہ وہی جگت‬
‫نارائن تھے جن کی مرضی کے خالف ‪1916‬ء میں بسمل نے مقبول عام رہنما بال گنگادھر تلک کا‬
‫شاندار اور پر وقار جلوس پورے لکھنؤ شہر میں نکاال تھا۔ اسی بات سے چڑ کر مین پوری سازش‬
‫میں بھی انہی مالجی نے سرکاری وکیل کی حیثیت سے زور تو کافی لگایا لیکن وہ رام پرساد‬
‫بسمل کا ایک بھی بال بانكا نہ کر پائے تھے‪ ،‬کیونکہ مین پوری سازش میں بسمل فرار ہو گئے‬
‫تھے اور دو سال تک پولیس کے ہاتھ ہی نہ آئے۔‬

‫مقدمے کی کارروائی کا ایک غیرارادی پہلو‬


‫غیرمنقسم ہندوستان میں کچھ دائیں بازو کی تنظیمیں کانگریس کی پالیسیوں کی مخالف تھیں کہ‬
‫تحریک خالفت اور بعض معاملوں میں وہ مسلمانوں کے مفادات کو ہندوؤں کے مقابلے ترجیح دے‬
‫رہی ہے۔ ایسے میں یہ ٰ‬
‫دعوی بھی کیا گیا کہ رام پرساد بسمل مقدمے کی تیاری میں مسلمان پولیس‬
‫افسروں کا نمایاں رول رہا جنہوں نے مقدمے کی تیاری اور پھانسی یا سخت ترین سزا کی بھرپور‬
‫کوشش کی۔[‪ ]20‬تاہم پروپگنڈا پھیالنے والے یہ لوگ اس بات کو فراموش کر بیٹھے کہ بسمل کے‬
‫ایک قریب ترین ساتھی جنہوں نے بھی تختہ دار سے جان گنوائی تھی ایک مسلمان تھے اور ان کا‬
‫[‪]21‬‬
‫نام اشفاق ہللا خان تھا۔‬

‫پھانسی کی سزا اور اپیل‬


‫‪ 6‬اپریل ‪1927‬ء کو خصوصی سیشن جج اے ہیملٹن نے ‪ 115‬صفحات کے فیصلے میں ہراس‬
‫انقالبی پر لگائے گئے الزامات پر غور کرتے ہوئے لکھا کہ یہ کوئی عام ٹرین ڈکیتی نہیں‪ ،‬بلکہ‬
‫برطانوی سلطنت کو اکھاڑ پھینکنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ حاالنکہ ان میں سے کوئی‬
‫بھی ملزم اپنے ذاتی مفاد کے لیے اس منصوبے میں شامل نہیں ہوا لیکن چونکہ کسی نے بھی نہ تو‬
‫اپنے کئے پر کوئی توبہ کیا ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس طرح کی سرگرمیوں سے خود کو الگ‬
‫‪136 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫رکھنے کا وعدہ دیا ہے‪ ،‬لہذا جو بھی سزا دی گئی ہے سوچ سمجھ کر دی گئی ہے اور اس حالت‬
‫میں اس میں کسی بھی قسم کی کوئی چھوٹ نہیں دی جا سکتی۔ پھر بھی‪ ،‬ان میں سے کوئی بھی‬
‫ملزم اگر تحریری میں توبہ ظاہر کرتا ہے اور مستقبل میں ایسا نہ کرنے کا وعدہ دیتا ہے تو ان کی‬
‫اپیل پر ایڈیشنل کورٹ غور کر سکتی ہے۔‬
‫فرار انقالبیوں میں اشفاق ہللا خان اور شچیندر ناتھ بخشی کو بہت بعد میں پولیس گرفتار کر پائی۔‬
‫اسپیشل جج جے آر ڈبلیو بینٹ کی عدالت میں كاكوری سازش کا سپلیمنٹری کیس دائر کیا گیا اور‬
‫‪ 13‬جوالئی ‪1927‬ء کو یہی بات دہراتے ہوئے اشفاق ہللا خان کو پھانسی اور شچیندرناتھ بخشی کو‬
‫عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ سیشن جج کے فیصلے کے خالف ‪ 18‬جوالئی ‪1927‬ء کو اودھ چیف‬
‫کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ چیف کورٹ کے چیف جسٹس سر لوئیس شرٹس اور خصوصی جج‬
‫محمد رضا کے سامنے دونوں معاملے پیش ہوئے۔ جگت نارائن ' مال ' کو سرکاری موقف رکھنے‬
‫کا کام سونپا گیا جبکہ سزا یافتہ انقالبیوں کی طرف سے کے سی دت‪ ،‬جےكرن ناتھ مشرا اور كرپا‬
‫شنكر ہجیال نے بالترتیب راجندر ناتھ الہڑی‪ ،‬ٹھاکر روشن سنگھ اور اشفاق ہللا خان کی پیروی کی۔‬
‫رام پرساد بسمل نے اپنی پیروی خود کی کیونکہ سرکاری خرچ پر انہیں لكشمی شنكر مشرا نام کا‬
‫ایک بڑا عام سا وکیل دیا گیا تھا جس کو لینے سے انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ بسمل نے چیف‬
‫کورٹ کے سامنے جب رواں انگریزی میں فیصلے کے خالف بحث کی تو سرکاری وکیل جگت‬
‫ناراین ' مال ' چونک گئے تھے۔ بسمل کی اس دلیلی صالحیت پر چیف جسٹس لوئیس شرٹس کو ان‬
‫سے یہ پوچھنا پڑا ‪ -‬مسٹر رام پرساد‪ !  ‬فرام ویچ یونیورسٹی ڈیڈ یو ٹیک دی ڈگری آف ال ؟ ( رام‬
‫پرساد‪ !  ‬تم نے کس یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی ؟ ) اس پر انہوں نے ہنس کر کہا تھا ‪-‬‬
‫ایكسكیوز می سر! اے كنگ میكر ڈزنٹ ریكوائر اے ڈگری۔ ( معذرت چاہیے‪ ! ‬بادشاہ بنانے والے‬
‫کو کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی۔) عدالت نے اس کے جواب میں سختی سے بسمل کی‬
‫طرف سے ‪ 18‬جوالئی‪1927 ،‬ء کو دی گئی خود وکالت کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔ اس‬
‫کے بعد انہوں نے ‪ 76‬صفحہ کی تحریری بحث پیش کی۔ اسے پڑھ کر ججوں نے یہ خیال ظاہر کیا‬
‫کہ یہ بحث بسمل نے خود نہ لکھ کر کسی پیشہ ور سے لكھوائی ہے۔ آخر کار عدالت کی طرف‬
‫سے انہیں لكشمی شنكر مشرا کو بحث کرنے کی اجازت دی گئی جنہیں لینے سے بسمل نے منع‬
‫کر دیا تھا۔‬
‫كاكوری سانحہ کا مقدمہ لکھنؤ میں چل رہا تھا۔ پنڈت جگت نارائن مال سرکاری وکیل کے ساتھ‬
‫اردو کے شاعر بھی تھے۔ انہوں نے ملزمان کے لئے " مالزم " لفظ بول دیا۔ پھر کیا تھا‪ ،‬پنڈت رام‬
‫پرساد بسمل نے جھٹ سے ان پر یہ چٹیلی پھبتی کسی‪:‬‬
‫مالزم ہم کو مت کہئے‪ ،‬بڑا افسوس ہوتا ہے‬
‫عدالت کے ادب سے ہم یہاں تشریف الئے ہیں‬
‫پلٹ دیتے ہیں ہم موج حوادث اپنی جرات سے‬
‫کہ ہم نے آندھیوں میں بھی چراغ اکثر جالئے ہیں۔‬
‫ان کے کہنے کا مطلب تھا کہ مالزم وہ ( بسمل ) نہیں‪ ،‬بلکہ مال ہیں جو حکومت سے تنخواہ پاتے‬
‫ہیں۔ وہ ( بسمل وغیرہ ) تو سیاسی قیدی ہیں اس لئے ان کے ساتھ تمیز سے پیش آئیں۔ اس کے ساتھ‬
‫ہی یہ انتباہ بھی دے ڈالی کہ وہ سمندر کی لہروں تک کو اپنے حوصلہ سے پلٹنے کا دم رکھتے ہیں‬
‫؛ مقدمے کی بازی پلٹنا کون سی بڑی بات ہے ؟ مال نے اس دن کوئی جرح نہیں کی کیونکہ وہ اس‬
‫حاضرجوابی کے لیے تیار نہیں تھے۔‬
‫چیف کورٹ میں شچیندر ناتھ سانیال‪ ،‬بھوپندر ناتھ سانیال اور بنواری الل کو چھوڑ کر باقی تمام‬
‫انقالبیوں نے اپیل کی تھی۔ ‪ 22‬اگست‪1927 ،‬ء کو جو فیصلہ سنایا گیا اس کے مطابق رام پرساد‬
‫بسمل‪ ،‬راجندر ناتھ الہڑی اور اشفاق ہللا خان کو آئی پی سی کی دفعہ ‪ ( 121‬اے ) اور ‪ ( 120‬بی )‬
‫کے تحت عمر قید اور ‪ 302‬اور ‪ 396‬کے مطابق پھانسی اور ٹھاکر روشن سنگھ کو پہلی دو دفعہ‬
‫میں ‪ = 5+ 5‬کل ‪ 10‬سال کی سخت قید اور اگلی دو دفعہ کے مطابق پھانسی کا حکم ہوا۔ شچیندر‬
‫‪137 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫ناتھ سانیال‪ ،‬جب جیل میں تھے تبھی تحریری طور پر اپنے کئے پر توبہ کا اظہار کرتے ہوئے‬
‫مستقبل میں کسی بھی انقالبی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا وعدہ دے چکے تھے۔اس کی بنیاد پر‬
‫ان کی عمر قید برقرار رہی۔ شچیندر کے چھوٹے بھائی بھوپندر ناتھ سانیال اور بنواری الل نے اپنا‬
‫اپنا جرم قبول کرتے ہوئے عدالت کی کوئی بھی سزا بھگتنے کی رضامندی پہلے ہی دے رکھی‬
‫تھی اس لئے انہوں نے اپیل نہیں کی اور دونوں کو ‪ 5-5‬سال کی سزا کے حکم جوں کی توں رہی۔‬
‫چیف کورٹ میں اپیل کرنے کے باوجود یوگیش چندر چٹرجی‪ ،‬مكندی الل اور گووندچرن کار کی‬
‫سزائیں ‪ 10-10‬سال سے بڑھا کر عمر قید میں تبدیل کر دی گئی۔ شچندر بھٹاچاریہ اور وشنوشرن‬
‫دبلش کی سزائیں بھی جوں کی توں ( ‪ 7 – 7‬سال) قائم رہیں۔ اپنی انفرادی خوشخطی کا مظاہرہ‬
‫کرتے ہوئے اپیل دینے کی وجہ صرف پرویش چٹرجی کی سزا کو ‪ 5‬سال سے کم کرکے ‪ 4‬سال‬
‫کر دیا گیا۔ اس سانحہ میں سب سے کم سزا ( ‪ 3‬سال) رام ناتھ پانڈے [‪ ]22‬کو ہوئی۔ منمتھ ناتھ گپت‪،‬‬
‫[‪]23‬‬
‫جن کی گولی سے ایک مسافر ہالک ہوا تھا‪ ،‬کی سزا ‪ 10‬سے بڑھا کر ‪ 14‬سال کر دی گئی۔‬
‫كاكوری سانحہ میں استعمال ماجر پستول کے کارتوس چونکہ پریم كرش کھنہ کے ہتھیار ‪ -‬الئسنس‬
‫پر خریدے گئے تھے جس کے کافی ثبوت مل جانے کی وجہ سے پریم كرش کھنہ کو ‪ 5‬سال کے‬
‫سخت قید کی سزا بھگتنا پڑی۔‬
‫چیف کورٹ کا فیصلہ آتے ہی پورے ملک میں سنسنی پھیل گئی۔ ٹھاکر منجیت سنگھ راٹھور‬
‫نےمرکزی لیجسلیٹیوکاؤنسل میں كاكوری سانحہ کے تمام پھانسی ( سزائے موت) حاصل قیدیوں‬
‫کی سزائیں کم کرکے عمر قید میں تبدیل کرنے کی تجویز پیش کرنے کی اطالع دی۔ كونسل کے‬
‫کئی ارکان نے سر ولیم مورس کو‪ ،‬جو اس وقت متحدہ عالقہ کے گورنر تھے‪ ،‬اس ارادے کی ایک‬
‫عرضداشت بھی دی لیکن انہوں نے اسے مسترد کر دیا۔ نئےمرکزی كونسل کے ‪ 78‬ارکان نے اس‬
‫وقت کے وائسرائے اور گورنر جنرل ایڈورڈ فریڈرک لڈلے ووڈ کو شملہ میں دستخط پر مشتمل‬
‫میمورنڈم بھیجا جس پر خاص طور پر پنڈت مدن موہن مالویہ‪ ،‬محمد علی جناح‪ ،‬این سی كےلكر‪،‬‬
‫اللہ الجپت رائے‪ ،‬گووند ولبھ پنت‪ ،‬وغیرہ نے دستخط کیے تھے لیکن وائسرائے پر اس کا بھی‬
‫کوئی اثر نہ ہوا۔ آخر میں مدن موہن مالویہ کی قیادت میں پانچ افراد کا ایک نمائندہ منڈل شملہ جا‬
‫کر وائسرائے سے مال اور ان سے یہ درخواست کی کہ چونکہ ان چاروں ملزمان نے تحریری‬
‫طور پر حکومت کو یہ وعدہ دیا ہے کہ وہ مستقبل میں اس قسم کی کسی بھی سرگرمی میں حصہ‬
‫نہ لیں گے اور انہوں نے اپنے کئے پر توبہ کا اظہار کیا ہے لہذا ججمینٹ پر نظر ثانی کی جا‬
‫سکتی ہے۔ چیف کورٹ نے اپنے فیصلے میں بھی یہ بات لکھی تھی۔ اس کے باوجود وائسرائے‬
‫نے انہیں صاف انکار کر دیا۔‬
‫آخر کار بیرسٹر موہن الل سکسینہ نے شاہی كونسل میں درخواست معافی کے دستاویز تیار کر کے‬
‫انگلینڈ کے مشہور وکیل ایس ایل پولک کے پاس بھجوائے لیکن لندن کے ججوں اور بادشاہ کے‬
‫قانونی صالح کاروں نے اس پر بڑی سخت دلیل دی کہ اس سازش کا محرک رام پرساد بسمل بڑا‬
‫ہی خطرناک اور پیشہ ورانہ مجرم ہے۔ اگر اسے معاف کر دیا گیا تو وہ مستقبل میں اس سے بھی‬
‫بڑا اور شدید سانحہ کر سکتا ہے۔ اس صورتحال میں حکومت کو ہندوستان میں حکومت کرنا‬
‫ناممکن ہو جائے گا۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ شاہی كونسل میں بھیجی گئی درخواست معافی کی‬
‫اپیل بھی مسترد ہو گئی۔‬

‫پھانسی کی سزا کے لیے بسمل اور اس کی ماں کی آمادگی‬


‫بسمل کی سزائے موت کی تعمیل سے ایک رات قبل ان کی ماں ان سے ملنے آئیں۔ بسمل آبدیدہ‬
‫ہوئے جبکہ ان کی ماں اس پر سوال پوچھنے لگی‪" :‬ہوگیا انقالب‪ ،‬ہو گئی کرانتی؟ کیوں کایروں‬
‫(بُزدلوں ) کی طرح آنسو بہا رہے ہو؟" اس پر بسمل گویا ہوئے‪" :‬تمہارا بیٹا کایر نہیں ہے۔ آنسو اس‬
‫لیے ہے کہ نہ تمہاری جیسی ماں اور نہ تمہاری جیسی گود پھر ملے گی"۔ حاالنکہ بسمل کی ماں‬
‫کبھی بھی عملی سیاست کا حصہ نہیں رہی‪ ،‬تاہم بسمل کی سزائے موت کے بعد ایک تقریر میں اس‬
‫نے اپنے دوسرے بیٹے کا ہاتھ اٹھاکر کہا کہ ملک کے لیے دینے کے لیے اس کے پاس ایک اور‬

‫‪138 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫بیٹا بھی موجود ہے۔ اس کے عالوہ اس نے وضاحت کی کہ اس قربانی کے بدلے وہ کچھ نہیں‬
‫[‪]24‬‬
‫چاہتی۔‬

‫جیل میں سوانح نگاری اور اس کی روانگی‬


‫سیشن کورٹ نے اپنے فیصلے میں پھانسی کی تاریخ ‪ 16‬ستمبر‪1927 ،‬ء متعین کی تھی جسے‬
‫چیف کورٹ کے فیصلےپر آگے بڑھا کر ‪ 11‬اکتوبر ‪1927‬ء کر دیا گیا۔ كاكوری سانحہ کے‬
‫انقالبیوں کی مدد کے لئے گنیش شنكر ودیارتھی نے ایک ڈیفینس کمیٹی بنائی تھی جس میں شیو‬
‫پرساد گپت‪ ،‬گووند ولبھ پنت اور شری پرکاش وغیرہ شامل تھے۔ اس کمیٹی نے کلکتہ کے مشہور‬
‫وکیل بی کے چودھری اور ایک اور ایڈووکیٹ موہن الل سکسینہ کو شاہی كونسل میں عرضی دائر‬
‫کرنے کی ذمہ داری تفویض کی۔ گورکھپور کی جیل میں جب موہن الل سکسینہ بسمل سے ملنے‬
‫گئے تو اپنے ساتھ بہت سے سادہ کاغذ‪ ،‬پینسل‪ ،‬ربڑ اور نیچے رکھنے کے لئے ایک فل اسکیاپ‬
‫سائز کا کتابی رجسٹر بھی لے گئے تھے اور جیلر کی اجازت سے اس شرط کے ساتھ کہ ملزم ان‬
‫سب کا استعمال اپنی اپیل لکھنے کے لئے ہی کرے گا‪ ،‬بسمل کو دے آئے تھے۔‬
‫بسمل نے اپیل تیار کرنے میں بہت کم کاغذ خرچ کیے اور باقی بچی اسٹیشنری کا استعمال اپنی‬
‫سوانح عمری لکھنے میں کر ڈاال۔ یہ تھی ان کی سوجھ بوجھ اور محدود وسائل سے اپنا کام چال‬
‫لینے کی غیر معمولی قابلیت‪ ! ‬شاہی كونسل سے اپیل منسوخ ہونے کے بعد پھانسی کی نئی تاریخ‬
‫‪ 19‬دسمبر‪1927 ،‬ء کی نوٹس گورکھپور جیل میں بسمل کو دے دی گئی تھی لیکن وہ اس سے ذرا‬
‫بھی متزلزل نہیں ہوئے اور بڑے بے فکر انداز سے اپنی آپ بیتی‪ ،‬جسے انہوں نے "نجی زندگی‬
‫کا ایک چھٹا" نام دیا تھا‪ ،‬پوری کرنے میں دن رات ڈٹے رہے‪ ،‬ایک لمحے کو بھی نہ سستائے اور‬
‫نہ سوئے۔ انہیں یہ یقین ہو گیا تھا کہ برطانوی حکومت انہیں مکمل طور پر ختم کر کے ہی دم لے‬
‫گی تبھی تو انہوں نے سوانح عمری میں ایک جگہ اردو کا یہ شعر لکھا تھا‪:‬‬

‫دم نہ لے تلوار جب تک جان‬ ‫کیا ہی لذت ہے کہ رگ رگ سے‬


‫بسمل میں رہے‬ ‫یہ آتی ہے صدا‬

‫جب بسمل کو شاہی كونسل سے اپیل مسترد ہو جانے کی اطالع ملی تو انہوں نے اپنی ایک غزل‬
‫لکھ کر گورکھپور جیل سے باہر بھجوائی جس کا مطلع ( مکھڑا ) یہ تھا۔‬

‫دل کی بربادی کے بعد ان‬ ‫مٹ گیا جب مٹنے واال پھر‬


‫کا پیام آیا تو کیا‬ ‫سالم آیا تو کیا‬

‫جیسا انہوں نے اپنی آپ بیتی میں لکھا بھی‪ ،‬اور ان کی یہ تڑپ بھی تھی کہ کہیں سے کوئی انہیں‬
‫ایک ریوالور جیل میں بھیج دیتا تو پھر ساری دنیا یہ دیکھتی کہ وہ کیا کیا کرتے ؟ ان کی ساری‬
‫حسرتیں ان کے ساتھ ہی مٹ گئیں۔ مرنے سے پہلے آپ بیتی کے طور پر وہ ایک ایسی وراثت‬
‫ہمیں ضرور سونپ گئے جسے اپنا کرکے ہندوستان ہی نہیں‪ ،‬ساری دنیا میں جمہوریت کی جڑیں‬
‫مضبوط کی جا سکتی ہیں۔ اگرچہ ان کی یہ حیرت انگیز سوانح آج انٹرنیٹ پر بنیادی طور پر ہندی‬
‫زبان میں بھی دستیاب ہے تاہم یہاں پر یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ یہ سب کس طرح ممکن ہو‬
‫سکا۔‬
‫بسمل کو جیل کے تمام مالزمین بڑی عزت کرتے تھے۔ ایسی صورت میں اگر وہ اپنے مضامین‬
‫اور شعری کالم جیل سے باہر بھیجتے بھی رہے ہوں تو انہیں اس کی سہولت ضرور ہی جیل کے‬
‫ان مالزمین نے دستیاب کرائی ہوگی۔ بہرحال اتنا سچ ہے کہ یہ سوانح عمری اس وقت کے‬
‫برطانوی دور اقتدار میں جتنی بار شائع ہوئی‪ ،‬اتنی بار ضبط ہوئی۔‬
‫پرتاپ پریس کانپور سے كاكوری کے شہید نامی کتاب کے اندر جو سوانح عمری شائع ہوئی تھی‬
‫اسے برطانوی حکومت نے نہ صرف ضبط کیا بلکہ انگریزی زبان میں ترجمہ کراکر پورے‬
‫‪139 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫ہندوستان کی خفیہ پولیس اور ضلع كلیكٹرس کو سرکاری تبصرے کے ساتھ بھیجا تھا۔[‪ ]25‬سرکاری‬
‫تبصرے میں صاف لکھا تھا کہ اپنی آپ بیتی میں جو کچھ رام پرساد بسمل نے لکھا ہے وہ ایک دم‬
‫سچ نہیں ہے۔ اس نے حکومت پر جو الزام لگائے گئے ہیں وہ بے بنیاد ہیں۔ کوئی بھی ہندوستانی‪،‬‬
‫جو سرکاری خدمت میں ہے‪ ،‬اسے سچ نہ مانے۔ اس سرکاری بیان سے اس بات کا انکشاف اپنے‬
‫آپ ہو جاتا ہے کہ برطانوی حکومت نے بسمل کو اتنا خطرناک سازشی سمجھ لیا تھا کہ ان کی‬
‫سوانح عمری پڑھنے تک سے اسے سرکاری معامالت میں بغاوت پھیل جانے کا خوف ہو گیا تھا۔‬
‫موجودہ دور کے یو پی کے سی آئی ڈی ہیڈ کوارٹر‪ ،‬لکھنؤ کے خفیہ محکمہ میں اصل سوانح‬
‫عمری کا انگریزی ترجمہ آج بھی محفوظ رکھا ہوا ہے۔ بسمل کی جو سوانح كاكوری سازش کے‬
‫نام سے موجودہ پاکستان کے سندھ صوبے میں اس وقت کتاب پبلیشر بھجن الل بكسیلر نے آرٹ‬
‫پریس‪ ،‬سندھ ( موجودہ پاکستان ) سے پہلی بار ‪1927‬ء میں بسمل کو پھانسی دیے جانے کے کچھ‬
‫دنوں بعد ہی شائع کر دی تھی وہ بھی سرفروشی کی تمنا گرنتھاولی (مجموعہ کالم) کے تین‬
‫حصوں میں مدون ہو کر ‪1927‬ء میں آ چکی ہے۔‬

‫گورکھپور جیل میں پھانسی‬


‫‪ 16‬دسمبر ‪1927‬ء کو بسمل نے اپنی آپ بیتی کا آخری باب ( آخری بار وقت کی باتیں ) مکمل‬
‫کرکے جیل سے باہر بھجوا دیا۔ ‪ 18‬دسمبر ‪ 1927‬کو ماں باپ سے آخری بار مالقات کی اور پیر‬
‫‪ 19‬دسمبر ‪ 1927‬کو صبح کے ‪ 6‬بج کر ‪ 30‬منٹ پر گورکھپور کی ضلع جیل میں انہیں پھانسی دے‬
‫دی گئی۔ بسمل کے قربانی کی خبر سن کر بہت بڑی تعداد میں عوام جیل کے دروازے پر جمع ہو‬
‫گئے۔ جیل کا اہم دروازہ بند ہی ركھا گیا اور پھانسی گھر کے سامنے والی دیوار کو توڑ کر بسمل‬
‫کی الش ان کے اہل خانہ کے حوالے کر دیا گیا۔ الش کو ڈیڑھ الکھ لوگوں نے جلوس نکال کر‬
‫پورے شہر میں گھماتے ہوئے راپتی دریا کے کنارے راج گھاٹ پر آخری رسومات کے ساتھ سپرد‬
‫[‪]26‬‬
‫آتش کر دیا۔‬

‫پھانسی کے بعد انقالبی تحریک کی مشتعل شکل‬


‫‪1927‬ء میں بسمل کے ساتھ ‪ 3‬دیگر انقالبیوں کی قربانی نے پورے ہندوستان کے دل کو ہال کر‬
‫رکھ دیا۔ چونکہ یہ چاروں انقالبی سماج کے عام طبقے کی نمائندگی کرتے تھے اور انہوں نے‬
‫کوئی ذاتی جائداد یا جاگیر حاصل کرنے کے مقصد سے وادئ غربت یاپھر کانٹوں بھری راہ میں‬
‫قدم نہیں ركھا تھا لہذا اس کا پورے ملک کے عوام کی نفسیات پر اثر ہونا فطری تھا اور وہ اثر ہوا‬
‫بھی۔ ‪ 9‬اگست ‪1925‬ء کے كاكوری سانحہ کے فیصلے سے پیدا صورت حال نے ہندوستانی آزادی‬
‫کی جدوجہد کی ہیئت اور سمت دونوں ہی تبدیل کر دی۔ پورے ملک میں جگہ جگہ پر چنگاریوں‬
‫کے طور پر نئی ‪ -‬نئی کمیٹیاں قائم ہو گئیں۔ بیتیا ( بہار) میں پھیندرناتھ کا ہندوستانی سیوا ٹیم‪،‬‬
‫پنجاب میں سردار بھگت سنگھ کی نوجوان سبھا اور الہور (پاکستان ) میں سكھدیو کی گپت سمیتی‬
‫کے نام سے کئی انقالبی ادارے جنم لے چکے تھے۔ ہندوستان کے کونے کونے میں انقالب کی آگ‬
‫سیالب کی طرح پھیل چکی تھی۔ کانپور سے گنیش شنكر ودیارتھی کا پرتاپ اور گورکھپور سے‬
‫دشرتھ پرساد دویدی کا سودیس جیسے اخبار اس آگ کو ہوا دے رہے تھے۔‬
‫كاكوری سانحہ کے ایک اہم انقالبی چندر شیکھر آزاد‪ ،‬جنہیں رام پرساد بسمل ان کے پارے (‬
‫‪ ) mercury‬جیسے چنچل مزاج کی وجہ سے "کویک سلور" (‪ )Quick Silver‬کہا کرتے تھے‪،‬‬
‫پورے ہندوستان میں بھیس بدل کر گھومتے رہے۔ انہوں نے مختلف کمیٹیوں کے سربراہوں سے‬
‫رابطہ کرکے ساری انقالبی سرگرمیوں کو ایک تسبیح میں پرونے کا کام کیا۔ ‪ 8‬اور ‪ 9‬ستمبر‪،‬‬
‫‪1928‬ء میں فیروز شاہ کوٹلہ دہلی میں ایچ آر اے‪ ،‬نوجوان سبھا‪ ،‬ہندوستانی سیوا دل اور گپت‬
‫سمیتی کا الحاق کرکے ایچ ایس آر اے نام سے ایک نئی انقالبی پارٹی کی تشکیل ہوئی۔ اس پارٹی‬
‫کو بسمل کے بتائے راستے پر چل کر ہی ملک کو آزاد کرانا تھا لیکن برطانیہ کے ظالمانہ‬
‫شکنجوں نے ایسا بھی نہیں ہونے دیا۔‬

‫‪140 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫‪ 30‬اکتوبر ‪1928‬ء کو سائمن کمیشن کی مخالفت کرتے ہوئے اللہ الجپت رائے‪ ،‬ڈپٹی سپرٹینڈینٹ‬
‫جے پی سانڈرس کے وحشیانہ الٹھی چارج سے بری طرح زخمی ہوئے اور ‪ 17‬نومبر ‪1928‬ء کو‬
‫ان کی موت ہو گئی۔ اس واقعہ سے ناراض ایچ ایس آر اے کے چار نوجوان ‪ 17‬دسمبر ‪1928‬ء کو‬
‫الہور جا کر دن دہاڑے سانڈرس کا قتل کرکے فرار ہو گئے‪ ،‬ساڈرس سانحہ قتل کے اہم ملزم‬
‫سردار بھگت سنگھ کو پولیس پنجاب میں تالش کررہی تھی جبکہ وہ یورپی بھیس میں کلکتہ جاکر‬
‫بنگال کے انقالبیوں سے بم بنانے کی ٹیکنالوجی اور مواد حاصل کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ دہلی‬
‫سے ‪ 20‬میل دور گریٹر نوئیڈا ایکسپریس وے کے قریب واقع نلگڑھا گاؤں میں رہ کر بھگت سنگھ‬
‫نے دو بم تیار کئے اور بٹُو كیشور دت کے ساتھ جا کر ‪ 8‬اپریل ‪1929‬ءکو دہلی کی نئی مرکزی‬
‫اسمبلی میں اس وقت دھماکا کر دیا جب حکومت عوام مخالف قانون منظور کرنے جا رہی تھی۔ اس‬
‫دھماکے نے سرکار پر بھلے ہی اثر نہ کیا ہو لیکن پورے ملک میں حیرت انگیز بے داری کا کام‬
‫ضرور کیا۔‬
‫بم دھماکے کے بعد دونوں نے " انقالب‪ ! ‬زندہ باد‪ " ! ‬اور " سامراج‪ ! ‬مردہ باد‪ " ! ! ‬کے زبردست‬
‫نعرے لگائے اور ایچ ایس آر اے کے پمفلٹ ہوا میں اچھال دیے۔ اسمبلی میں موجود سکیورٹی‬
‫سارجنٹ ٹیری اور انسپکٹر جانسن نے انہیں وہیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔ یہ سنسنی خیز خبر‬
‫اگلے ہی دن پورے ملک میں پھیل گئی۔ ‪ 4‬مئی ‪1929‬ء کے "ابھیُدئے" میں الہ آباد سے یہ خبریں‬
‫شائع ‪ -‬اسمبلی کا بم کیس‪ : ‬كاكوری کیس سے اس کا تعلق ہے۔ آئی پی سی کی دفعہ ‪ 307‬اور‬
‫ایکسپلوسیو ایکٹ کی دفعہ ‪ 3‬کے تحت ان دونوں کو عمرقید کی سزا دے کر الگ ‪ -‬الگ جیلوں میں‬
‫ركھا گیا۔ جیل میں سیاسی قیدیوں جیسی خصوصیات کی مانگ کرتے ہوئے جب دونوں نے بھوک‬
‫ہڑتال شروع کی تو ان دونوں کا تعلق سانڈرس قتل سے جوڑتے ہوئے ایک اور کیس قائم کیا گیا‬
‫جسے الہور سازش کیس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کیس میں کل ‪ 24‬لوگ نامزد ہوئے‪ ،‬ان میں‬
‫سے ‪ 5‬فرار ہو گئے‪ 1 ،‬کو پہلے ہی سزا ہو چکی تھی‪ ،‬باقی ‪ 18‬پر کیس چال۔ ان میں سے ایک ‪-‬‬
‫یتیندرناتھ داس کی بورسٹل جیل الہور میں مسلسل بھوک ہڑتال کرنے سے موت ہو گئی‪ ،‬باقی بچے‬
‫‪ 17‬میں سے ‪ 3‬کو پھانسی‪ 7 ،‬کو عمرقید‪ ،‬ایک کو ‪ 7‬سال اور ایک کو ‪ 5‬سال کی سزا کا حکم ہوا۔‬
‫تین کو ٹربیونل نے رہا کر دیا۔ باقی بچے تین ملزمان کو عدالت نے ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے‬
‫چھوڑ دیا۔‬
‫پھانسی کی سزا پائے تینوں ملزمان ‪ -‬بھگت سنگھ‪ ،‬راج گرو اور سكھ دیو نے اپیل کرنے سے‬
‫صاف انکار کر دیا۔ دیگر سزا یافتہ ملزمان میں سے صرف ‪ 3‬نے ہی شاہی كونسل میں اپیل کی۔‬
‫‪ 11‬فروری ‪1931‬ء کو لندن کی شاہی كونسل میں اپیل کی سماعت ہوئی۔ ملزمان کی طرف سے‬
‫ایڈوکیٹ پرنٹ نے بحث کی اجازت مانگی تھی لیکن انہیں اجازت نہیں ملی اور بحث سنے بغیر ہی‬
‫اپیل مسترد کر دی گئی۔ چندر شیکھر آزاد نے ان کی سزا کم کرانے کا کافی کوشش کی۔ وہ سیتاپور‬
‫جیل میں جا کر گنیش شنكر ودیارتھی سے ملے۔ ودیارتھی سے مشورہ کرکے وہ الہ آباد گئے اور‬
‫جواہر الل نہرو سے ان کی رہائش گاہ بمقام آنند بھون میں مالقات کی اور ان سے یہ درخواست کی‬
‫کہ وہ گاندھی پر الرڈ ارون سے ان تینوں کی پھانسی کو عمرقید میں بدلوانے کے لئے زور ڈالیں۔‬
‫نہرو نے جب آزاد کی بات نہیں مانی تو آزاد نے ان سے کافی دیر تک بحث کی۔ اس پر نہرو نے‬
‫غصے میں آکر آزاد کو فوری طور پر وہاں سے چلے جانے کو کہا۔ آزاد اپنے تكیہ كالم " ساال "‬
‫کے ساتھ بھنبھناتے ہوئے نہرو کے ڈرائنگ روم سے باہر نکلے اور اپنی سائیکل پر بیٹھ کر الفریڈ‬
‫پارک کی طرف چلے گئے۔ الفریڈ پارک میں اپنے ایک دوست سكھ دیو راج سے محو گفتگو ہی‬
‫تھے تبھی سی آئی ڈی کا ایس ایس پی بابر جیپ پر وہاں آ پہنچا۔اس کے پیچھے پیچھے بھاری‬
‫تعداد میں كرنل گنج تھانے سے پولیس بھی آ گئی۔ دونوں طرف سے ہوئی شدید فائرنگ میں آزاد‬
‫کی موت واقع ہوئی۔ یہ ‪ 27‬فروری ‪1931‬ء کا واقعہ ہے۔ ‪ 23‬مارچ ‪1931‬ء کو مقررہ وقت سے ‪13‬‬
‫گھنٹے پہلے بھگت سنگھ‪ ،‬سكھ دیو اور راج گر کو الہور کی مرکزی جیل میں شام کو ‪ 7‬بجے‬
‫پھانسی دے دی گئی۔ یہ جیل قوانین کی کھلی خالف ورزی تھی۔ ان تینوں کی پھانسی کی خبر ملتے‬
‫ہی پورے ملک میں ماركاٹ مچ گئی۔ کانپور میں ہندو ‪ -‬مسلم فسادات بھڑک اٹھے جسے خاموش‬
‫کروانے کی کوشش میں انقالبیوں کے خیرخواہ گنیش شنكر ودیارتھی بھی مارے گئے۔ اس طرح‬
‫‪141 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫دسمبر ‪1927‬ء سے مارچ ‪1931‬ء تک ایک ایک کرکے ملک کے ‪ 11‬مجاہدین آزادی جان گنوا‬
‫بیٹھے تھے۔‬
‫شمالی بھارت کی انقالبی سرگرمیوں کے عالوہ بنگال کے واقعات کا حساب اور ان کا ریکارڈ بھی‬
‫تاریخ میں درج ہے۔ ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن میں بنگال کے بھی کئی انقالبی شامل تھے جن‬
‫میں سے ایک راجیندرناتھ الهڑی کو مقرر تاریخ سے ‪ 2‬دن پہلے ‪ 17‬دسمبر ‪1927‬ء کو پھانسی‬
‫دیئے جانے کی وجہ صرف یہ تھی کہ بنگال کے انقالبیوں نے پھانسی کی مقررہ تاریخ سے ایک‬
‫دن قبل یعنی ‪ 18‬دسمبر ‪1927‬ء کو ہی انہیں گوڈا جیل سے چھڑا لینے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ اس کی‬
‫اطالع سی آئی ڈی نے برطانوی حکومت کو دے دی تھی۔ ‪ 13‬جنوری ‪1928‬ء کو میندرناتھ بنرجی‬
‫نے چندر شیکھر آزاد کے اکسانے پر اپنے سگے چچا کو‪ ،‬جنہیں كاكوری سانحہ میں اہم کردار ادا‬
‫کرنے کے انعام کے طور پر ڈی ایس پی کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا‪ ،‬ان کی سروس ریوالور‬
‫سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ دسمبر ‪1929‬ء میں مچھا مارکیٹ گلی واقع نرنجن سےنگپتا کے گھر‬
‫چھاپا پڑا‪ ،‬جس میں ‪ 27‬انقالبیوں کو گرفتار کرکے کیس قائم ہوا اور ‪ 5‬کو كالےپانی کی سزا دی‬
‫گئی۔ ‪ 18‬اپریل‪1930 ،‬ء کو ماسٹر سورج سین کی قیادت میں چاٹگام میں ہتھیاروں کو لوٹنے کی‬
‫کوشش ہوئی جس میں سورج سین اور تارکیشور دستیگار کو پھانسی اور ‪ 12‬دیگر کو عمر قید کی‬
‫سزا ہوئی۔ ‪ 8‬اگست‪1930 ،‬ء کو کے۔ کے۔ شکال نے جھانسی کے کمشنر اسمتھ پر گولی چال دی‪،‬‬
‫اسے موت کی سزا ملی۔ ‪ 27‬اکتوبر‪1930 ،‬ء کو یگانتر پارٹی کے ارکان نے سریش چندر داس کی‬
‫قیادت میں کلکتہ میں تال تحصیل کی ٹریژری لوٹنے کی کوشش کی‪ ،‬تمام پکڑے گئے اور‬
‫كالےپانی کی سزا ہوئی۔ اپریل ‪1931‬ء میں میمنسه ڈکیتی ڈالی گئی جس میں گوپال آچاریہ‪ ،‬ستیش‬
‫چندر ہومی اور هیمیندر چکرورتی کو عمر قید کی سزا ملی۔ ان واقعات کی بہت لمبی فہرست ہے‬
‫جو سرفروشی کی تمنا گرنتھاولی کے حصہ ایک میں صفحات ‪ 155‬سے لے کر ‪ 161‬تک تفصیل‬
‫سے دی گئی ہے۔‬
‫ان سب واقعات کا کانگریس پارٹی پر بھی وسیع اثر پڑا۔ سبھاش چندر بوس جیسے نوجوان گاندھی‬
‫جی کی پالیسیوں کی سخت مخالفت کرنے لگے تھے۔ جو گاندھی سن ‪1922‬ء سے ‪1927‬ء تک‬
‫سیاسی منظر سے بالکل پوشیدہ ہو چکے تھے اب وہی گاندھی جی رام پرساد بسمل اور ان کے‬
‫ساتھیوں کی قربانی کے بعد پھر سے تیور بدلتے ہوئے کانگریس میں اپنی من مرضی کا صدر‬
‫چنوانے اور حسب منشا پالیسیوں کو نافذ کروانے لگے تھے۔ ان سے تنگ آکر سبھاش چندر بوس‬
‫نے مسلسل دو بار ‪1938 -‬ء کے میں تری پورہ اور ‪1939‬ء کے ہری پورہ انتخابات میں کانگریس‬
‫صدر کا عہدہ جیتا تھا۔ لیکن گاندھی نے کانگریس ورکنگ کمیٹی میں البیئنگ کرکے سبھاش کو‬
‫تنگ کرنا شروع کر دیا جس سے دکھی ہو کر انہوں نے آل انڈیا کانگریس چھوڑ دی اور فارورڈ‬
‫بالک کے نام سے اپنی الگ پارٹی بنا لی۔ اس کے بعد جب انہیں لگا کہ گاندھی حکومت سے مل‬
‫کر ان کے کام میں رکاوٹ اٹکاتے ہی رہیں گے تو انہوں نے ایک دن ہندوستان چھوڑ دیا اور‬
‫جاپان پہنچ کر آئی این اے یعنی آزاد ہند فوج کی کمان سنبھال لی۔‬
‫دوسری جنگ عظیم میں انگلینڈ کو بری طرح الجھتا دیکھ کرجیسے ہی نیتا جی نے آزاد ہند فوج کو‬
‫" دلی چلو " کا نعرہ دیا‪ ،‬گاندھی نے موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ‪ 8‬اگست‪1942 ،‬ء کی رات‬
‫میں ہی بمبئی سے انگریزوں کو " بھارت چھوڑو " اور بھارت کو " کرو یا مرو " کا حکم جاری‬
‫کیا اور سرکاری سیکیورٹی میں یرودا ( پونے ) واقع آغا خان محل میں چلے گئے۔ ‪ 9‬اگست‪،‬‬
‫‪1942‬ء کے دن اس تحریک کو الل بہادر شاستری جیسے ایک چھوٹے سے شخص نے ہنگامی‬
‫شکل دے دیا۔ ‪ 19‬اگست‪1942 ،‬ء کو شاستری جی گرفتار ہو گئے۔ ‪ 9‬اگست‪1942 ،‬ء کو برطانوی‬
‫حکومت کا تختہ الٹنے کے مقصد سے بسمل کی قیادت میں ہندوستان پرجاتنتر یونین کے دس‬
‫محنتی کارکنوں نے كاكوری سانحہ کیا تھا جس کی یادگار تازہ رکھنے کے لئے پورے ملک میں‬
‫ہر سال ‪ 9‬اگست کو " كاكوری سانحہ کا یادگار دن" منانے کی روایت بھگت سنگھ نے شروع کر‬
‫دی تھی اور اس دن بہت بڑی تعداد میں نوجوان جمع ہوتے تھے۔ گاندھی نے اسی ‪ 9‬اگست‪،‬‬
‫‪1942‬ءکے دن کا انتخاب کیا تھا۔‬

‫‪142 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫‪ 9‬اگست‪1942 ،‬ء کو دن نکلنے سے پہلے ہی کانگریس ورکنگ کمیٹی کے تمام رکن گرفتار ہو‬
‫چکے تھے اور کانگریس کو غیر قانونی تنظیم قرار دیا گیا۔ گاندھی کے ساتھ سروجنی نائیڈو کو‬
‫یرودا ( پونے ) کے آغا خان محل میں ساری مراعات کے ساتھ‪ ،‬ڈاکٹر راجندر پرساد کو پٹنہ جیل‬
‫میں اور دیگر تمام ارکان کو احمدنگر کے قلعہ میں نظربند رکھنے کا ڈراما برطانوی سلطنت نے‬
‫کیا تھا تاکہ عوامی تحریک کو دبانے میں زور استعمال کرنے سے ان میں سے کسی کو کوئی‬
‫نقصان نہ ہو۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس عوامی تحریک میں ‪ 940‬افراد ہالک اور‬
‫‪ 1630‬زخمی ہوئے‪ 18000 ،‬نظربند ہوئے اور ‪ 60229‬گرفتار ہوئے۔ تحریک کو کچلنے کے یہ‬
‫اعداد و شمار دہلی کی مرکزی اسمبلی میں آنریبل ہوم ممبر نے پیش کئے تھے۔‬
‫سن ‪1943‬ء سے ‪1945‬ء تک سبھاش چندر بوس نے آزاد ہند فوج کی قیادت کی۔ ان کے فوجی "‬
‫سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ؛ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے ؟ " جیسا‬
‫معنی خیز گیت اور " قدم قدم بڈھائے جا‪ ،‬خوشی کے گیت گائے جا ؛ یہ زندگی ہے قوم کی‪ ،‬تو قوم‬
‫پہ لٹائے جا‪ " ! ‬جیسے قومی ترانے فوجی بینڈ کی دھن کے ساتھ گاتے ہوئے سنگاپور کے راستے‬
‫كوہیما ( ناگالینڈ ) تک آ پہنچے۔ تبھی جاپان پر امریکی ایٹمی حملے کی وجہ سے بوس کو اپنی‬
‫حکمت عملی تبدیل کرنی پڑی۔ وہ طیارے سے روس جانے کی تیاری میں جیسے ہی فارموسا کے‬
‫تایهوكو ائیر بیس سے اڑے کہ ‪ 18‬اگست ‪1945‬ء کو ان کے ‪ 2-97‬ماڈل ہیوی بمبار جہاز میں آگ‬
‫لگ گئی۔ انہیں زخمی حالت میں تایهوكو آرمی اسپتال لے جایا گیا جہاں رات ‪ 9‬بجے ان کی موت‬
‫[‪]27‬‬
‫ہو گئی۔‬
‫بوس کی موت اور آزاد ہند فوج کے افسران پر مقدمے کی خبر نے پورے ہندوستان میں طوفان‬
‫مچا دیا۔ اس کے نتیجے میں دوسری عالمی جنگ کے بعد بمبئی بندرگاہ پر اترے بحری دستے نے‬
‫بغاوت کر دی۔ ‪ 18‬فروری ‪1946‬ء کو بمبئی سے شروع ہوئی یہ فوجی بغاوت ملک کے تمام‬
‫بندرگاہوں اور بڑے شہروں میں پھیل گئی۔ ‪ 21‬فروری ‪1946‬ء کو برطانوی آرمی نے بمبئی پہنچ‬
‫کر ہندوستانی بحری دستے پر گولیاں چالئیں۔ نتیجے میں صرف ‪ 22‬فروری ‪1946‬ء کو ہی ‪228‬‬
‫افراد ہالک اور ‪ 1046‬زخمی ہوئے۔‬

‫بسمل کا انقالبی فلسفہ‬


‫ہندوستان کو برطانوی سلطنت سے آزاد کرانے میں یوں تو ہزارہا بہادروں نے اپنی انمول قربانی‬
‫دی لیکن رام پرساد بسمل ایک ایسے حیرت انگیز انقالبی تھے جنہوں نے انتہائی غریب خاندان‬
‫میں پیدائش لے کر عام تعلیم کے باوجود غیر معمولی حوصلہ اور غیر متزلزل عزم کے زور پر‬
‫ہندوستان پرجاتنتر یونین کے نام سے ملک گیر تنظیم قائم کی جس میں ایک سے بڑھ کر ایک‬
‫شاندار اور عظیم الفطرت نوجوان شامل تھے بسمل کی پہلی کتاب سن ‪1916‬ء میں شائع ہوئی تھی‬
‫جس کا نام تھا "امریکہ کی آزادی کی تاریخ" تھا۔ بسمل کے پیدائش کے سو سال کے موقع پر‬
‫‪1996‬ء‪1997-‬ء میں یہ کتاب آزاد بھارت میں پھر سے شائع ہوئی جس کی رسم رونمائی بھارت‬
‫کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے کی۔ اس پروگرام میں آر ایس ایس کے اس وقت کے‬
‫سرسنگھچالك پروفیسر راجندر سنگھ (رجو بھیا ) بھی موجود تھے۔ اس مکمل گرنتھاولی (مجموعہ‬
‫کالم) میں بسمل کی تقریبًا دو سو سے زائد نظموں کے عالوہ پانچ کتابیں بھی شامل کی گئی تھیں۔‬
‫لیکن آج تک کسی بھی حکومت نے بسمل کے انقالبی فلسفہ کو سمجھنے اور اس پر تحقیق‬
‫کروانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ جبکہ گاندھی کی طرف سے ‪1909‬ء میں والیت سے ہندوستان‬
‫لوٹتے وقت پانی کے جہاز پر لکھی گئی کتاب ہند سوراج کئی مذاکرے ہوئے۔‬

‫بھارت اور عالمی ادب میں بسمل‬


‫سال ‪1985‬ء میں وگیان بھون‪ ،‬نئی دہلی میں منعقد "بھارت اور وشو ساہتیہ پر انتراشٹریہ‬
‫سنگوشٹھی" (بھارت اور عالمی ادب پر بین االقوامی مذاکرہ) میں ایک بھارتی نمائندے[‪ ]28‬نے اپنے‬

‫‪143 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫مضمون کے ساتھ پنڈت رام پرساد بسمل کے کچھ مقبول عام کالم کی دو لسانی شعری صورتگری‬
‫(ہندی‪ /‬اردو اور انگریزی میں) پیش کی تھی۔ اس کا کچھ اقتباس آگے کے قطعوں میں دیا گیا ہے۔‬

‫سرفروشی کی تمنا‬
‫تفصیلی مضمون کے لیے مالحظہ کریں‪ :‬سرفروشی کی تمنا‬
‫(بسمل کی مشہور تخلیق)‬

‫دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل‬ ‫سرفروشی کی تمنا اب ہمارے‬


‫میں ہے‬ ‫دل میں ہے‬
‫ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے‬ ‫وقت آنے دے بتا دیں گے‬
‫دل میں ہے؟‬ ‫تجھے اے آسماں‬
‫ّلذت صحرانووردی دوری منزل‬ ‫رہروئے راہ محبت! رہ نہ جانا‬
‫میں ہے‬ ‫راہ میں‬
‫عاشقوں کا آج جمگھٹ کوچہ قاتل‬ ‫کھینچ کر الئی ہے سب کو قتل‬
‫میں ہے‬ ‫ہونے کی امید‬
‫ایک مٹ جانے کی حسرت اب دل‬ ‫اب نہ اگلے ولولے ہیں اور نہ‬
‫'بسمل' میں ہے‬ ‫ارمانوں کی بھیڑ‬

‫اس غزل کی شہرت رام پرساد بسمل کی وجہ سے ہی ہے‪ ،‬تاہم محققین نے اس حقیقت کو آشکارا‬
‫کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کے مطلع کے خالق رام پرساد بسمل نہیں بلکہ اس کے خالق‬
‫شاعر بسمل عظیم آبادی تھے اور ان کے مجموعہ کالم حکایت ہستی میں بقیہ کچھ مختلف ابیات‬
‫کے ساتھ موجود ہے۔ مگر رام پرساد بسمل نے بھی اسی مطلع کو لے کر اسی زمین پر غزل کہی‬
‫تھی۔ اور آخری ایام میں آخری دم تک ان کا ورد زباں رہی۔‬
‫اس طرح بسمل کی درج باال پسندیدہ غزل انقالبی گاکر قیدی جیل سے پولیس کی الری میں عدالت‬
‫میں جاتے ہوئے‪ ،‬عدالت میں مجسٹریٹ کو چڑھاتے ہوئے اور عدالت سے لوٹ کر واپس جیل آتے‬
‫ہوئے کورس کے روپ میں گایا کرتے تھے۔ بسمل کے انتقال کے بعد تو یہ انتخاب سبھی انقالبیوں‬
‫میں زبان زد عام ہو گیا تھا۔[‪]29‬۔ جتنی تحریر یہاں دی جا رہی ہے وہ لوگ اتنی ہی گاتے تھے۔ لیکن‬
‫بعد میں یہ نظم سب سے پہلے ‪1965‬ء میں منوج کمار کی فلم ’’ شہید آن دا الئف ‘‘ بھگت سنگھ‬
‫میں شامل کی گئی تھی۔ دوبارہ اس صدی کے شروع کے دور میں اسے کچھ مبدل سطور کے ساتھ‬
‫‪2002‬ء میں ہندی فلم ’’ لیجنڈ بھگت سنگھ ‘‘ میں شامل کیا گیا تھا‪ ،‬اس کے بعد ‪2006‬ء میں اس‬
‫کی سطور ’’ رنگ دے بسنتی ‘‘ میں استعمال کی گئیں‪،‬اور یہی نظم ایک بار پھر ‪2009‬ء میں‬
‫اورنگ کاشیپ کی فلم ’’ گالل‘‘ میں بھی شامل کی گئی تھی۔‬

‫سب ھاش چ ن در ب وس‬


‫آزادی ہند کے قائدوں میں سے تھے۔‬
‫ٔ‬ ‫سبھاش چندر بوس تحریک‬

‫سبھاش چندر بوس‬


‫پیدائش‬ ‫‪ 23‬جنوری ‪1897‬‬
‫کٹک ‪ ،‬اڑیسہ (صوبہ بنگال)‬
‫برطانوی ہند (موجودہ بھارت)‬
‫وفات‬ ‫‪ 18‬اگست ‪1945‬‬

‫‪144 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫تائیہوکو ‪ ،‬تائیوان (غیر توثیقی)‬
‫قومیت‬ ‫بھارتی‬
‫مادر‪ ‬علم‬ ‫جامعہ کلکتہ‬
‫ی‬
‫وجۂ‪ ‬شہر‬ ‫‪ Prominent Figure of‬تحریک آزادی ہند ‪activism and reorganizing and‬‬
‫ت‬ ‫‪ leading the‬آزاد ہند فوج ‪in World War II‬‬
‫عنوان‬ ‫آزاد ہند کا سربراہ‬
‫آزاد ہند فوج کا سربرا ِہ جشن‬
‫سیاسی‬ ‫انڈین نیشنل کانگریس ‪ ،‬فوروارڈ بالک کا قیام ‪ 3‬مئی ‪1939‬ء‬
‫جماعت‬
‫مذہب‬ ‫ہندو‬
‫شریک‬ ‫ایمیلی شینکل‬
‫حیات‬
‫بچے‬ ‫انیتا بوس‬
‫والدین‬ ‫جانکی ناتھ بوس (باپ)‬ ‫‪‬‬
‫پربھاوتی دیوی (ماں)‬ ‫‪‬‬

‫سراج الدولہ‬
‫سراج الدولہ‬
‫نواب بنگال‬
‫صوبے دار بہار و اوڑیشہ‬
‫دور‬ ‫‪ 9‬اپریل ‪1756‬ء – ‪ 2‬جون‬
‫‪1757‬ء‬
‫پیشرو‬ ‫علی وردی خان‬
‫جانشین‬ ‫میر جعفر‬
‫رفیق حیات‬
‫ِ‬ ‫لطف النساء‬
‫پورا نام‬
‫مرزا محمد سراج الدولہ‬
‫والد‬ ‫زین الدین احمد خان‬
‫والدہ‬ ‫امینہ بیگم‬
‫پیدائش‬ ‫‪1733‬ء‬
‫‪145 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫مرشد آباد‪ ،‬بنگال صوبہ‬
‫وفات‬ ‫‪ 12‬جوالئی ‪ 1757‬ء‬
‫مرشید آباد‪ ،‬کمپنی راج‬
‫دفن‬ ‫خوش باغ‪ ،‬مرشید آباد‬
‫مذہب‬ ‫اسالم‬
‫فوجی زندگی‬
‫وابستگی‬ ‫[‪]1‬‬
‫مغلیہ سلطنت‬
‫نوکری‪/‬شاخ‬ ‫نواب بنگال‬
‫عہدہ‬ ‫نوابزادہ‪ ،‬نواب‬
‫جنگیں‪/‬‬ ‫جنگ پالسی‬
‫محارب‬

‫مرزا محمد سراج الدولہ المعروف نواب سراج الدولہ (‪1733‬ء تا ‪ 2‬جوالئی ‪1757‬ء) بنگال‪ ،‬بہار‬
‫اور اڑیسہ کے آخری صحیح المعنی آزاد حکمران تھے۔ ‪1757‬ء میں ان کی شکست سے بنگال میں‬
‫ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا۔‬

‫ابتدائی حاالت زندگی‬


‫نواب سراج الدولہ کے والد زین الدین بہار کے حکمران تھے۔ جبکہ والدہ امینہ بیگم بنگال کے‬
‫نواب علی وردی خان کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ چونکہ نواب علی وردی خان کی کوئی نیرینہ‬
‫اوالد نہیں تھی اس لیے شروع ہی سے خیال کیا جاتا تھا کہ مرشد آباد یعنی بنگال کے تخت کے‬
‫وارث بھی نواب سراج الدولہ ہی ہوں گے۔ ان کی پرورش نواب علی وردی خان کے محالت میں‬
‫ہوئی اور انہوں نے اوائ ِل جوانی سے ہی جنگوں میں نواب علی وردی خان کے ہمراہ شرکت کی‬
‫ت فاش دی۔ ‪1752‬ء میں نواب علی وردی خان نے‬ ‫مثالً ‪1746‬ء میں مہاراشٹر میں ہندؤوں کو شکس ِ‬
‫سرکاری طور پر سراج الدولہ کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ نواب ایک مذہبی آدمی تھا اور علی‬
‫وردی خان کی طرح اس کا تعلق شیعہ مسلک سے تھا۔‬

‫حکمرانی‬
‫دور حکمرانی مختصر تھا۔ ‪1756‬ء میں علی وردی خان کے انتقال پر ‪ 23‬سال کی عمر میں‬ ‫ان کا ِ‬
‫بنگال کے حکمران بنے۔ شروع سے ہی بنگال میں عیار برطانوی لوگوں سے ہشیار تھے جو بنگال‬
‫میں تجارت کی آڑ میں اپنا اثر بڑھا رہے تھے۔ خصوصا ً ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان کے خالف‬
‫سازشیں تیار کی جو نواب کو معلوم ہو گئیں۔ اوالً انگریزوں نے نواب کی اجازت کے بغیر کلکتہ‬
‫کے فورٹ ولیم (قلعہ ولیم) کی دیواریں پختہ اور مزید اونچی کیں جو معاہدوں کی صریح خالف‬
‫ورزی تھی۔ دوم انگریزوں نے بنگال کے کچھ ایسے افسران کو پناہ دی جو ریاست کے خزانے‬
‫میں خرد برد کے مجرم تھے۔ سوم انگریز خود بنگال کی کسٹم ڈیوٹی میں چوری کے مرتکب‬
‫تھے۔ ان وجوہات کی بنا پر نواب اور انگریزوں میں مخالفت کی شدید فضا پیدا ہو گئی۔ جب رنگے‬
‫ہاتھوں ٹیکس اور کسٹم کی چوری پکڑی گئی اور انگریزوں معاہدوں کے خالف کلکتہ میں اپنی‬
‫فوجی قوت بڑھانا شروع کی تو نواب سراج الدولہ نے جون ‪1756‬ء میں کلکتہ میں انگریزوں کے‬
‫خالف کارروائی کرتے ہوئے متعدد انگریزوں کو قانون کی خالف ورزی کی وجہ سے قید کر لیا۔‬
‫‪146 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫نواب سراج الدولہ کے مخالفین سے انگریزوں نے رابطہ کیا۔ ان مخالفین میں گھسیٹی بیگم (سراج‬
‫غدار بنگال اور شوکت جنگ (سراج الدولہ کا رشتہ دار) شامل‬ ‫ِ‬ ‫الدولہ کی خالہ)‪ ،‬میر جعفر المشہور‬
‫تھے۔ میر جعفر نواب سراج الدولہ کی فوج میں ایک سردار تھا۔ نہائت بد فطرت آدمی تھا۔ نواب‬
‫سراج الدولہ سے غداری کر کے ان کی شکست اور انگریزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا جس‬
‫کے بعد بنگال پر انگریزوں کا عمالً قبضہ ہو گیا۔ پاکستان کےپہلے صدر اسکندر مرزا اس کی نسل‬
‫سے تھے۔ سازش سے واقف ہونے کے بعد نواب سراج الدولہ نے گھسیٹی بیگم کی جائداد ضبط کی‬
‫اور میر جعفر کو اس کے حکومتی عہدہ سے تبدیل کر دیا۔ میر جعفر اگرچہ ریاستی معامالت سے‬
‫متعلق رہا مگر اس نے انگریزوں سے ساز باز کر لی اور جنگ پالسی میں نواب سے غداری‬
‫کرتے ہوئے نواب کی شکست کا باعث بنا۔ انگریزوں نے میر جعفر کو اقتدار کا اللچ دیا تھا۔‬

‫جنگ پالسی‪/‬‬
‫اس جنگ کی تفصیل کے لیے دیکھیں جنگ پالسی‬
‫نواب اور الرڈ کالئیو کے درمیان پالسی کے مقام پر جو کلکتہ سے ‪ 70‬میل کے فاصلے پر ہے‪،‬‬
‫‪ 23‬جون ‪1757‬ء کو جنگ ہوئی۔ جنگ کے میدان میں میر جعفر نواب کی فوج کے ایک بڑے‬
‫حصے کا ساالر تھا۔ اس کے ساتھیوں نے نواب کے وفادار ساالروں کو قتل کر دیا جس کی کوئی‬
‫توقع بھی نہیں کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی میر جعفر اپنے فوج کے حصے کو لے کر الگ ہو گیا‬
‫اور جنگ کا فیصلہ انگریزوں کے حق میں ہو گیا۔ نواب کے توپ خانہ کو پہلے ہی خریدا جا چکا‬
‫تھا جس کی رشوت کے لیے انگریزوں نے بہت روپیہ خرچ کیا تھا۔حاالنکہ تاریخی روایات کے‬
‫مطابق میر جعفر نے قرآن پر ہاتھ ركھ کر نواب سے وفاداری کا حلف دیا تھا۔توپ خانے کیوں‬
‫استعمال نہیں ہوا؟ اس کے بارے یہ کہاگیا کہ بارش کی وجہ سے گولہ وبارود گیال اور ناقابل‬
‫استعمال ہوچکاتھا۔‬

‫نواب کی شہادت‬
‫نواب جنگ میں شکست کے بعد مرشد آباد اور بعد میں پٹنہ چلے گئے انہوں نے اپنی بیوی لطف‬
‫النساء بیگم اور بیٹی کے ہمراہ بھیس بدل کر ایک خانقاہ“میر بعنہ شاہ“ میں روپوش تھے جہاں میر‬
‫جعفر کے سپاہیوں نے انہیں گرفتار کر لیا۔ میر جعفر کے بیٹے میرمیران کے حکم پر محمد علی‬
‫بیگ نے نواب کو نماز فجر کے بعد شہید کر دیا۔بعض روایات میں نواب کو نماز اور سجدہ کی‬
‫حالت میں سرقلم کرکے سزائے موت دی گئی نواب کا مزار مرشد آباد کے ایک باغ “خوش باغ“‬
‫میں واقع ہے اگرچہ یہ مزار کی عمارت سادہ ہے مگر عوام کے آداب کامرکزہے ۔اس طرح ایک‬
‫مسلمان نے مسلمان کے ساتھ غداری اور قتل کرکے غیر مسلموں یعنی انگریزوں کی حکومت کے‬
‫قیام میں مدد کی۔‬

‫نمک حرام ڈیوڑھی‬


‫جس مقام پر نواب سراج الدولہ کو شہید کیاگیا یہ میر جعفر کی رہائش گاہ تھی جسے بعد میں عوام‬
‫نے “نمک حرام ڈیوڑھی “ کانام دیا ۔غداروں نے نواب کی میت کو ہاتھی پر رکھ کر مرشدآباد کی‬
‫گلیوں میں گھمایا تاکہ عوام کو یقین ہوجائے کہ نواب قتل ہوچکاہے اور نیانواب میر جعفر تخت‬
‫نشین ہوگا ۔‬

‫جنگ کے بعد‬
‫انگریزوں نے نواب کا خزانہ لوٹ لیا۔ انگریزوں نے مال تقسیم کیا۔ صرف کالئیو کے ہاتھ ‪ 53‬الکھ‬
‫سے زیادہ رقم ہاتھ آئی۔ جوہرات کا تو کوئی حساب نہ تھا۔ میر جعفر کو ایک کٹھ پتلی حکمران کے‬
‫طور پر رکھا گیا مگر عمالً انگریزوں کی حکمرانی تھی۔ تاریخ نے خود کو دہرایا اور بیسویں‬
‫صدی میں اسکندر مرزا پاکستان کے صدر کی حیثیت سے امریکیوں کے مفادات کی ترجمانی کرتا‬
‫‪147 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫رہا۔ انگریزوں نے ایسے حاالت پیدا کیے جس سے میر جعفر کو بے دست و پا کر دیا اور بعد میں‬
‫میر قاسم کو حکمران بنا دیا گیا جس کے بھی انگریزوں سے اختالفات ہو گئے۔ چنانچہ ان کے‬
‫درمیان جنگ کے بعد پورے بنگال پر انگریز قابض ہو گئے اور یہ سلسلہ پورے ہندوستان پر‬
‫غاصبانہ قبضہ کی صورت میں نکال۔‬
‫خ‬ ‫شف‬
‫ا اق ہللا ان‬
‫اشفاق ہللا خان‬
‫فائل‪Ashfaq Ulla Khan (2).JPG:‬‬
‫پیدائش‬ ‫‪ 22‬اکتوبر ‪1900‬‬
‫شاہجہاں پور‪British India ,‬‬
‫وفات‬ ‫‪ 19‬دسمبر ‪( 1927‬عمر‪ 27 ‬سال)‬
‫فیض آباد ‪Jail British India‬‬
‫قومیت‬ ‫‪Indian‬‬
‫تنظیم‬ ‫‪Hindustan Republican‬‬
‫‪Association‬‬
‫وجۂ‪ ‬شہ‬ ‫‪Indian freedom fighter‬‬
‫رت‬

‫اشفاق ہللا خان برصغیر کے معروف انقالبی‪ ،‬مجاہد آزادی اور شاعر تھے جنہوں نے برصغیر کی‬
‫[‪]1‬‬
‫آزادی کے لیے اپنی جان دے دی۔‬

‫پیدائش‬
‫اشفاق ہللا خان کی پیدائش ‪22‬اکتوبر ‪ 1900‬کوشاہجہاں پوراتر پردیش کے معزز گھرانے میں ہوئی۔‬
‫ان کے والد کا نام شفیق ہللا خان اور والدہ کا نام مظہرالنساء بیگم تھا۔‬

‫س منظر‬
‫خاندانی پ ِ‬
‫اعلی عہدوں پر فائز تھے۔ اشفاق ہللا خان اپنے‬
‫ٰ‬ ‫آپ کے خاندان کے اکثر لوگ برطانوی راج میں‬
‫چاروں بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے بڑے بھائی ریاست ہللا خانرام پرساد بسمل کے‬
‫ہم جماعت تھے‪ ،‬وہ اشفاق ہللا خان کو اکثربسمل کی شاعری اور انقالبی کاروائیوں کے قصے سنایا‬
‫کرتے تھے‪ ،‬جس سے اشفاق ہللا خان کے دل میں انقالبی فکرو کردارجاگزیں ہوگیا۔‬

‫عملی زندگی‬
‫شاعری‬
‫’’وارثی‘‘ اور ’’ حسرت‘‘ کا تخلص استعمال‬
‫ؔ‬ ‫آپادبوشاعریکا شغف رکھتے تھے‪ ،‬کالم میں وہ‬
‫کرتے تھے۔‬

‫انقالبی زندگی‬
‫‪148 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫اشفاق ہللا خان بچپن ہی سے مجاہدی ِن آزادی سے کافی متاثر تھے۔ عمر کے ‪20‬ویں سال میں قدم‬
‫رکھتے رکھتے آپ اپنے شہر اور اس دور کے ایک بڑے انقالبی رام پرساد بسمل سے رابطہ‬
‫کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ بسمل سے رابطہ میں آتے ہی آپ عملی جدوجہ ِد آزادی میں سرگرم‬
‫ہوگئے۔ جن دنوںموالنا محمد علی جوہرتحریک خالفت چال رہے تھے تب بسمل اور دیگر انقالبیوں‬
‫کے ساتھ مل کر آپ اس تحریک کے بارے میں عوام کو واقف کرانے اور آزادی کی جدوجہدکے‬
‫لیے انہیں بیدار کرنے میں مصروف ہوگئے۔اس دور میں آزادی کی جدوجہد تو درکنا ر آزادی کا‬
‫خواب دیکھنا بھیبرطانوی راج کے ظلم کو دعوت دینا تھا۔ اشفاق ہللا خان بھی حکومت کی نظروں‬
‫میں آنے سے نہیں بچ سکے اورحکومت کے باغیوں میں شامل ہوگئے۔‬
‫‪1922‬ء میں تحریک خالفت کے دورانچوری چوراکا پر تشدد واقعہ پیش آیا‪ ،‬جس کے‬ ‫‪‬‬
‫بعدگاندھیجی نےخالفت تحریککے خاتمے کا اعالن کردیا۔ تحریک عدم تعاون کی منسوخی سے‬
‫پر جوش انقالبیوں میں ایک بے چینی پید ا ہوگئی اور کئی انقالبیوں نے اعتدال کی راہ چھوڑ کر‬
‫مسلح جدوجہد کو اپنا لیا۔ اشفاق ہللا خان بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان سے جا ملے اور حصول‬
‫آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کو اپنا مقصد بنالیا۔‬

‫کاکوری واقعہ‪ : ‬مسلح جنگِ آزادی کے لیے سب سے اہم مسئلہ اسلحہ جات کی فراہمی اور اس کے‬
‫لیے کثیر رقم کی حصولی کا تھا۔ انقالبیوں نے طے کیا کہ برطانوی حکومت پچھلی تین صدیوں‬
‫سے ہندوستان کو لوٹ رہی ہے‪ ،‬چنانچہ یہ رقم برطانوی حکومت کو لوٹ کر حاصل کی جائے گی۔‬
‫اس مقصد کے تحت انقالبیوں نے ‪ 8‬اگست ‪ 1925‬کو ایک خفیہ نشست کی اور‪ 9‬اگست‪1925‬ء‬
‫کوکاکوری کے مقام پر سرکاری خزانہ لے جارہی ‪ 8‬ڈاؤن سہارنپور‪-‬لکھنؤ پیسنجر ٹرین روک کر‬
‫خزانہ لوٹ لیا ۔ اس ساری کارروائی میں اشفاق ہللا خان نے اکیلے ہی چھینی اور ہتھوڑے کی مدد‬
‫سے آہنی تجوری کو تو ڑا۔ اس مہم کی سربراہی انقالبیوں کے سردار رام پرساد بسمل نے کی ۔‬
‫اس مہم میں بسمل اور اشفاق ہللا خان کے عالوہ دیگر‪ 8‬انقالبی بھی شامل تھے۔ کاکوری واقعہ‬
‫تاریخ آزادی ہند میں ایک سنگ میل کی حیثیت سے درج ہوا۔ یہ واقعہ انگریزوں کی طاقت‪ ،‬ان کے‬
‫غرور و گھمنڈ پر ایک کاری ضرب تھا‪ ،‬جس سے برطانوی حکومت بوکھال اُٹھی۔ ہندوستان میں‬
‫موجود برطانوی وائسرائےالرڈ ریڈنگ نے فوراً اسکاٹ لینڈ یارڈ پولس محکمے کو تفتیش کے لیے‬
‫نامزد کیا ۔ خفیہ پولس نے مہینے بھر ہی میں اس واقعہ میں ملوث انقالبیوں کو شاہجہاں‬
‫پورشاہجہاں پور سے گرفتا ر کرلیا۔ اشفاق ہللا خان گرفتاری سے بچ کر کسی طرح روپوش ہونے‬
‫میں کامیاب ہوگئے۔ بنارسپہنچ کر وہ ایک انجینئرنگ کمپنی میں مالزمت کرنے لگے۔ وہ رات دن‬
‫اس فکر میں تھے کہ کسی طرح ملک سے باہر جاکراللہ ہردیال سے ملیں۔ اللہ ہردیا ل ان‬
‫دنوںامریکہمیں مقیم تھے اور اپنے ذاتی افکار کی تحریر و تقاریر کی مدد سے عوام میں تبلیغ‬
‫کررہے تھے۔ شروعاتی دور میں اللہ ہردیالکمیونزم سے خاصے متاثر رہے۔اشفاق ہللا خان اللہ‬
‫ہردیال سے مل کر انھیں آزادی وطن کی سرگرمیوں میںشامل کرنا چاہتے تھے۔ انہی سے ملنے کی‬
‫خاطر اشفاق ہللا خان بنارس سے دلی آئے تاکہ جلد ملک سے باہر جاسکیں‪ ،‬لیکن ان کے ایک پٹھان‬
‫دوست نے سیاہ بختی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کو گرفتار کروادیا۔ اشفاق ہللا خان فیض آباد جیل‬
‫روانہ کردیے گئے جہاں پر ان کے خالف قتل‪ ،‬ڈکیتی اور حکومت کے خالف سازش کا مقدمہ‬
‫چالیاگیا۔ اشفاق ہللا خان کے بھائی ریاست ہللا خان نے کرپا شنکر ہجیلہ کو ان کے مقدمے کی‬
‫پیروی سونپی۔ کرپاشنکر صاحب نے مقدمے میں کوئی کسر نہ چھوڑی‪ ،‬لیکن برطانوی ظالم‬
‫حکومت نے عدالتی کارروائی محض خانہ پوری کے لیے کی تھی‪ ،‬چنانچہ انہیں سزائے موت‬
‫سنائی گئی۔ کاکوری سازش کے تحت برطانوی حکومت نےاشفاق ہللا خان‪،‬رام پرساد بسمل‪ ،‬راجندر‬
‫لہری اور ٹھاکر روشن سنگھ کو سزائے موت اور دیگر ‪ 16‬انقالبیوں میں سے چار کو سزائے‬
‫عمر قید و باقی کو چار سال کے لیے قید بامشقت کی سزا تفویض کی۔ مقدمے کے دوران‬
‫انگریزوں نے اشفاق ہللا خان کو سرکاری گواہ بنانے اوررام پرساد بسمل کے خالف گواہی دینے‬
‫کے لیے رضامند کرنے کی خاطر پولس انسپکٹر تصدق حسین کو نامزد کیا‪ ،‬جس نے اشفاق ہللا‬
‫خان کو مذہب کا واسطہ دے کر کہا کہ تم کیسے مسلمان ہو جو ایک ہندو کا ساتھ دے رہے ہو‪ ،‬جو‬
‫اس ملک کو ہندو راشٹربنانا چاہتے ہیں۔ اس کے جواب میں اشفاق ہللا خان نے کہا کہ رام پرساد کا‬
‫ہندو راشٹر آپ کے برطانوی حکومت سے بہتر ہوگا۔ جن لوگوں نے اشفاق ہللا خان کو اسیری کے‬
‫‪149 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫زمانے میں دیکھا ان کا بیان ہے کہ جیل میں بھی اشفاق ہللا خان پابندی سے پانچوں وقت کی نماز‬
‫ادا کرتے اور روزانہ تالوت قرآن بھی کرتے۔یہ قرآن ہی کا اعزاز ہے کہ وہ انگریزوں کی چالوں‬
‫میں نہیں آئے اور انہوں نے سرکاری گواہ بننے کی انگریزوں کی درخواست کو پائے حقارت سے‬
‫ٹھکرادیا۔بھال ایک شاہین صفت کرگس کے پھندوں میں کب آنے واال تھا۔ ایک دفعہ جب اشفاق ہللا‬
‫خان نماز پڑھ رہے تھے‪ ،‬تب کچھ انگریز افسر وہاں آئے۔ ان میں سے ایک نے اشفاق ہللا خان پر‬
‫فقرہ کسا کہ ’ دیکھتے ہیں جب ہم اس چوہے کو پھانسی پر لٹکائیں گے اس کا مذہب اور اس کی یہ‬
‫عبادت اس کو کیسے بچائے گی‪ ‘،‬اس پر اشفاق ہللا خان نے بالکل دھیان نہ دیا اور اپنی نماز میں‬
‫مشغول رہے‪ ،‬گویا انھوں نے کچھ سنا ہی نہیں۔ اس پر وہ انگریز افسر بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے‬
‫چالگیا۔‬

‫سزائے موت‬
‫‪ 19‬دسمبر‪1927‬ء کو اشفاق ہللا خان تختہ دار کی طرف اس شان سے کوچ کرنے لگے کہ ان کا ہر‬
‫قدم دگنا فاصلہ طے کرتا‪ ،‬اس درمیان وہ کہہ رہے تھے کہ‬

‫“‬ ‫”‬
‫مجھ پر جو قتل کا مقدمہ چالیا گیا وہ جعلی ہے۔میرا یقین ہللا‬
‫پر ہے‪ ،‬وہ ہی مجھے انصاف دے گا‬

‫پھانسی کی جگہ پر پہنچتے ہی پھندے کو بے ساختہ چوم لیا۔ کچھ دیر تک ہللا رب العزت سے‬
‫دعائیں کرتے رہے پھر کلمہ طیبہ کا مسلسل ورد کرنے لگے۔ یہاں تک کہ پھندا کسا گیا اور آپ‬
‫شہید ہوگئے۔‬

‫اشفاق ہللا خان کے اقوال‬


‫حسرت کے تخلص سے‬ ‫ؔ‬ ‫اشفاق ہللا خان مجاہد آزادی کے عالوہ شاعر بھی تھے۔ اپنا کالم وارثی ؔاور‬
‫لکھتے تھے۔ زمانہ اسیری میں انہوں نے فیض آباد جیل میں ایک ڈائری بھی قلم بند کی اور کچھ‬
‫نصیحتیں اپنے دوست واحباب اور رشتہ داروں کے نام لکھے گئے خطوط میں کیں۔ ذیل میں اشفاق‬
‫ہللا خان کے انہی اقوال کوقارئین کے لیے مختصر اً پیش ہے۔‬
‫حب الوطنی اپنے ساتھ بے شمار تکالیف و مصیبتیں لے کر آتی ہے مگر جس شخص نے اسے‬ ‫‪‬‬
‫اپنے لیے چن لیااس کے لیے یہ ساری مصیتیں و تکالیف راحت و سکون بن جاتی ہیں۔‬
‫وطن عزیز کی محبت میں برداشت کرلیا۔‬
‫ِ‬ ‫میں نے سب کچھ‬ ‫‪‬‬
‫میری کوئی خواہش نہیں میرا کوئی خواب نہیں ‪ ،‬اگر وہ ہے تو صرف اتنا کہ اپنی اوالد کو بھی‬ ‫‪‬‬
‫اسی جذبے کے تحت لڑتے دیکھوں جس کے لیے میں قربان ہو رہا ہوں۔‬
‫وطن عزیر کے لیے رو رہا ہوں۔‬ ‫ِ‬ ‫میرے احباب و اقربا میرے لیے رو رہے ہیں اور میں‬ ‫‪‬‬
‫اے میرے بچوں مت رونا‪ ،‬اے میرے بزرگان مت رونا ‪ ،‬میں زندہ ہوں‪ ،‬میں زندہ ہوں۔‬ ‫‪‬‬

‫نمونہ اشعار‬
‫زندگی بعد فنا تجھ کو ملے گی حسرت‬
‫تیرا جینا ‪ ،‬تیرے مرنے کی بدولت ہوگا‬
‫کچھ آرزو نہیں ہے آرزو تو یہ ہے‬
‫رکھ دے کوئی ذرا سی خاک ِ وطن کفن میں‬

‫‪150 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫آخری خط‬
‫درج ذیل تحریر اشفاق ہللا خان نے اپنے رشتہ داروں کو لکھے اپنے آخری خط میں لکھی‪:‬‬
‫کیے تھے کام ہم نے بھی جو کچھ بھی ہم سے بن پائے‬
‫یہ باتیں تب کی ہیں آزاد تھے اور تھا شباب اپنا‬
‫مگر اب جوکچھ بھی امیدیں ہیں وہ تم سے ہیں‬
‫جواں تم ہو لب بام آچکا ہے آفتاب اپنا‬
‫خ‬ ‫بخ‬
‫ت ان‬
‫اریخ‬ ‫‪ 10‬مئی ‪1857‬ء–‪1859‬ء‬
‫مقام‬ ‫[‪]1‬‬
‫ہندوستان (‪)cf. 1857‬‬
‫نتیجہ‬ ‫ہندوستانی افواج کو کچال گیا‪،‬‬

‫ایسٹ انڈیا کمپنی کے سارے طاقتیں براہ راست برطانوی تاج کے سپرد کیا گیا‬
‫(برطانوی سلطنت میں شامل کیا گیا)‪،‬مغل سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔‬
‫برطانوی راج نے کچھ عالقوں کو ان کے اپنے باشندوں کو سونپا جبکہ زیادہ تر عالقوں عالقائ‬
‫ی‬ ‫کو برطانوی تاج میں شامل کردیا۔‬
‫تبدیلیا‬
‫ں‬

‫بخت خان روہیلہ ‪1857‬ء کی جنگ آزادی کے ایک اہم کردار ہیں۔ مغلیہ خاندان کے شہنشاہ بہادر‬
‫شاہ ظفر کے زمانے میں انگریزی فوج میں‌ صوبہ دار تھے۔ انگریزوں کے خالف جنگ آزادی‬
‫میں اپنے فوجی دستے سمیت شرکت کی اور کارہائے نمایاں انجام دیے۔ جنگ آزادی کی ناکامی‬
‫کے بعد روپوش ہوگئے۔‬

‫جنگ آزادی اور بخت خان‬


‫انگریز مخالف باغی فوج کے سپہ ساالر (‪1858‬ء تا ‪1859‬ء)۔‪1856‬ء میں برطانوی حکومت نے‬
‫فوج سے معزول کر دیا گیا تھا۔ بخت خان نے برطانوی وسطی بھارت کمپنی کی فوج میں ایک‬
‫پیادہ دستے کمانڈر کے طور پر خدمات انجام دیں‪ .‬بخت خان نے بہادر شاہ ظفر کو فرنگیوں کے‬
‫خالف باغی فوج بنانے اور اسے منظم کرنے کا مشورہ دیا جس کو بہادر شاہ ظفر نے مسترد‬
‫کردیا۔ مگر انگریزوں کے خالف بخت خان نے علم بغاوت بلند کیا۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ ستمبر‬
‫‪1859‬ء میں برطانوی فوج نے بخت خان کو دہلی سے باہر رکنے پر مجبور کر دیا تھا کچھ لوگوں‬
‫کا کہنا تھا کہ وہ کچھ دن نیپال کی پہاڑیوں میں روپوش ہوگئے تھے۔‬

‫آخری عمر کے حاالت‬


‫‪ 13‬مئی‪1859 ،‬ء میں زخمی ہوکر ترائی کے جنگالت میں شہید ہوئے۔ جسم سر کے قبرستان میں‬
‫دفن کیا گیا ۔ جو اب پاکستان میں ہے جس کو اب جوزینہ کہا جاتا ہے۔‬

‫‪151 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫غف‬
‫خ ان ع ب دال ار ان‬
‫خ‬

‫فخ ِر افغان (فخر افغان) یا غفار خان باباباچا خان‬


‫پیدائش‬ ‫‪ 6‬فروری ‪ 1890‬ء‬
‫اتمانزئی‪ ،‬ہشنگر‪ ،‬سرحدی قبائلی عالقہصوبہ پنجاب (برطانوی ہند)‪ ،‬برطانوی ہند‬
‫(موجودہ ضلع چارسدہ‪ ،‬خیبر پختونخوا‪ ،‬پاکستان)‬
‫وفات‬ ‫‪ 20‬جنوری ‪)aged 97( 1988‬‬
‫پشاور‪،‬پختونخواہ‪،‬پاکستان‬
‫آخری آرام‬ ‫جالل آباد‪ ،‬صوبہ ننگرہار‪ ،‬افغانستان‬
‫گاہ‬
‫قومیت‬ ‫برطانوی ہند کے صوبے اور عالقے)‪n – (1890–1947‬‬
‫تنظیم‬ ‫خدائی خدمتگار‬
‫انڈین نیشنل کانگریس‬
‫پاکستان سوشلسٹ پارٹی‬
‫عوامی نیشنل پارٹی‬
‫تحریک‬ ‫خدائی خدمتگار‪ ،‬تحریک آزادی ہند‬
‫شریک‬ ‫مہر قندہ کنعانخیل (ش‪–1912 .‬سانچہ‪)Padight: 18:‬‬
‫حیات‬ ‫نامباتا کنعا نخیل (ش‪–1920 .‬سانچہ‪)Padight: 26:‬‬
‫بچے‬ ‫خان عبدالغنی خان‬
‫خان عبد الولی خان‬
‫سردارو‬
‫مہر تاج‬
‫خان عبدالعلی خان‬
‫والدین‬ ‫بہرام خان‬
‫اعزازات‬ ‫تنظیم برائے بین االقوامی عفو عام ‪Prisoner of Conscience of the Year‬‬
‫)‪(1962‬‬
‫)‪Jawaharlal Nehru Award for International Understanding (1967‬‬
‫بھارت رتن (‪)1987‬‬

‫خان عبدالغفار خان پختونوں کے سیاسی راہنما کے طور پر مشہور شخصیت ہیں‪ ،‬جنھوں نے‬
‫برطانوی دور میں عدم تشدد کے فلسفے کا پرچار کیا۔ خان عبدالغفار خان زندگی بھر عدم تشدد کے‬
‫حامی رہے اور مہاتما گاندھی کے بڑے مداحوں میں سے ایک تھے۔ آپ کے مداحوں میں آپ کو‬
‫باچا خان اور سرحدی گاندھی کے طور پر پکارا جاتا ہے۔‬

‫خان عبدالغفار خان مہاتما گاندھی کے ساتھ‬


‫‪152 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫آپ پہلے اپنے خاندان کے افراد کے دباؤ پر برطانوی فوج میں شامل ہوئے‪ ،‬لیکن ایک برطانوی‬
‫افسر کے ناروا رویے اور نسل پرستی کی وجہ سے فوج کی نوکری چھوڑ دی۔ بعد میں انگلستان‬
‫میں تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ اپنی والدہ کے کہنے پر موخر کیا۔ برطانوی راج کے خالف کئی‬
‫بار جب تحاریک کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو خان عبدالغفار خان نے عمرانی تحریک چالنے‬
‫اور پختون قبائل میں اصالحات کو اپنا مقصد حیات بنا لیا۔ اس سوچ نے انھیں جنوبی ایشیاء کی‬
‫ایک نہایت قابل ذکر تحریک خدائی خدمتگار تحریک شروع کرنے پر مجبور کیا۔ اس تحریک کی‬
‫کامیابی نے انھیں اور ان کے ساتھیوں کو کئی بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پابند سالسل کیا گیا۔‬
‫‪1920‬ء کے اواخر میں بدترین ہوتے حاالت میں انھوں نے مہاتما گاندھی اور انڈین نیشنل کانگریس‬
‫کے ساتھ الحاق کر دیا‪ ،‬جو اس وقت عدم تشدد کی سب سے بڑی حامی جماعت تصور کی جاتی‬
‫تھی۔ یہ الحاق ‪1947‬ء میں آزادی تک قائم رہا۔ جنوبی ایشیاء کی آزادی کے بعد خان عبدالغفار خان‬
‫کو امن کے نوبل انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔ ‪1960‬ء اور ‪1970‬ء کا درمیانی عرصہ خان‬
‫عبدالغفار خان نے جیلوں اور جالوطنی میں گزارا۔ ‪1987‬ء میں آپ پہلے شخص تھے جن کو‬
‫بھارتی شہری نہ ہونے کے باوجود “بھارت رتنا ایوارڈ“ سے نوازا گیا جو سب سے عظیم بھارتی‬
‫سول ایوارڈ ہے۔ ‪1988‬ء میں آپ کا انتقال ہوا‪ ،‬اور آپ کو وصیت کے مطابق جالل آباد افغانستان‬
‫میں دفن کیا گیا۔ افغانستان میں اس وقت گھمسان کی جنگ جاری تھی لیکن آپ کی تدفین کے موقع‬
‫پر دونوں اطراف سے جنگ بندی کا فیصلہ آپ کی شخصیت کے عالقائی اثر رسوخ کو ظاہر‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫کرتی ہے۔‬

‫ج ھا سی کی را ی‬
‫جھانسی کی رانی جن کا نام لکشمی بائی تھا ۔ جھانسی ریاست کی رانی تھی جو ‪ ۱۹‬نومبر ‪1828‬ء‬
‫کو پیدا ہوئی اور ‪ ۱۸‬جون ‪ ۱۸۵۸‬کو وفات پاگئی۔ یہ ‪۱۸۵۷‬ء کی جنگ آزادی میں بھرپور کردار‬
‫نبھانے والے لیڈروں میں سے تھی جنہوں نے ہندوستان کو انگریزوں سے آزادی کرانے میں‬
‫زبردست کردار آدا کیا۔‬

‫پیدائش‬
‫جھانسی کی رانی غالبا ً ‪ 19‬نومبر ‪ 1828‬کو وارانسی میں پیدا ہوئی ایک ہندو براہمن کے گھر۔ ان‬
‫کے والد کا نام موروپنت اور والدہ کا بھاگیرتی تھا۔ان کے والد ابتدائی طور پر بٹھور ریاست کے‬
‫راجا کے لئے کام کرتا تھا‪،‬لیکن بٹھور کے راجا نے لکشمی بائی کا پرورش اس طرح کیا کہ اپنے‬
‫سگی بیٹھی سے بھی زیادہ۔‬

‫شادی اور گھررہستی‪/‬‬


‫ان کی شادی ‪1842‬ء میں جھانسی کے راجا گنگا دراؤ نوالکر سے ہوئی۔رانی کی عمر اس وقت کم‬
‫تھی یعنی صرف ‪ 13‬سال کی تھی۔تب تک ان کو منیکنیکہ اور منو کہا جاتا تھا لیکن شادی کے بعد‬
‫لکشمی بائی کے نام سے یاد کی جاتی تھی۔ان کا ایک بیٹھا پیدا ہوا جس کا نام دامودر رکھا لیکن‬
‫انگریزوں کے چال سے اسے سانپ نے کاٹ لیا اور مرگیا اس کے بعد انہوں نے اپنے بھانجےجس‬
‫کا نام انند راؤ تھا اس کو دائت کیا اور ان کی بہن نے انند کو اپنے مرگ سے پہلے رانی لکشمی کو‬
‫سونپہ۔اس کے بعد رانی کو چونکہ ہر وقت اپنے بیٹے کے یاد میں ہوا کرتی اس لئے انند کا نام انند‬
‫سے دامودر رکھ لیا اور اسے اپنا سگہ بیٹا قرار دیا۔ مہراج گنگا کا قتل ان کے بھتیجے جیسے‬
‫شخص علی بہادر نے کیا جوکہ جھانسی کے تخت پر بیٹھنا چاہتا تھا ۔ لیکن اس کے بعد رانی نے‬
‫تخت پر ایک زبردست قبضہ کیا اور جھانسی کی تخت کو نہ ہی علی بہادر اور دیگر دعویداروں‬
‫کو دیا اور نہ ہی انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کو دیا بلکہ خود رائج ہوئی۔‬

‫جنگِ آزادی ‪1857‬ء‬


‫‪153 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫ابتداء‬
‫جیسے کہ جنگ آزادی میں بہت سے ریاستوں نے حصہ لیا جن میں دو بخوبی معلوم ہے ایک مغل‬
‫سلطنت کے طرف سے بہادر شاہ ظفر اور دوسری جھانسی کی رانی لکشمی بائی۔ جھانسی کی‬
‫رانی ابتدائی سے ہی ایک باہمت خاتون تھی اور انگریزوں کے سامنے انہیں چھٹما دے جاتی تھی۔‬
‫وہ کسی ہندوستانی پر ظلم نہیں سہ سکتی تھی اور اگر انگریز ہندوستانی پر ظلم کرتا تو اسے منہ‬
‫توڑ جواب دیتی تھی۔‬
‫تحریک آزادی ابتدائی میں مئی اور جوالئی ‪ 1857‬میں میرٹھ سے شروع ہوئی۔اصل میں اس‬
‫تحریک کو اس وقت اصل عرف مال جب انگریزوں کے فوج میں بے شمار ہندوستانی موجود تھے‬
‫اور انہوں نے گائے اور خنزیر کے چربی والے کاتوس استعمال کرنے سے انکار کیا۔جن میں اس‬
‫وقت انگریزوں کے فوج میں چونکہ ہندوستانی ہندوں اور مسلمان شامل تھے۔تو مسلمان نے اسلئے‬
‫انکار کیا کیونکہ وہ خنزیر کو ملعون سمجھتے ہیں اور ہندؤں نے اس لئے کہ وہ گائے کو بابرکت‬
‫سمجھتے ہیں۔ اس لئے دونوں کے لئے یہ جائز نہ تھا کہ وہ کارتوس استعمال کریں۔‬

‫رانی کا ر ِدعمل‬

‫وہ اونچا مقام جہاں سے جھانسی کی رانی اپنے بیٹے انند کو کمر سے باندھے گھوڑے پر جھانسی کے‬
‫محل سے نیچے چالنگ لگائی۔‬

‫رانی لکشمی بائی کی جھانسی پر جب فرنگیوں نے حملہ کیا تو اس میں بہت ہی مشہور واقعات‬
‫پیش آئے ۔ رانی لکشمی نے اس وقت انگریزوں کا مقابلہ کیا۔کچھ دن یہ حملہ جاری رہا۔اس کے باد‬
‫راؤ دلہاجو نام کا وزیر تھا رانی لکشمی کا‪ ،‬اس کو رانی نے ایک دوار (قلعے کا بڑا گیٹ) پر کھڑا‬
‫کیا اور اسے یہ ذمہ داری دی گئی کہ اس دوار کا حفاظت کرے‪،‬مگر وہ نمک حرامی کر بیٹھا اور‬
‫انگریزوں کا ساتھ دیا۔اس دوار کے آس پاس کے تمام فوجیوں کو قلعے کے دوسرے طرف بھیجا‬
‫اور دوار انگریزوں کے لئے کھولنے لگا اس وقت رانی کی ایک وفادا اور بچپن کی باندھی کاشی‬
‫نے اسے دوار کھولنے سے روکا تو اسے بھی قتل کردیا۔جھانسی کی رانی کو پتہ چال تو وہ فوراً‬
‫اس دوار کے طرف بھاگ پڑی انگریزوں کو روکنے مگر تب تک انگریز داخل ہوچکے تھے‪،‬‬
‫رانی کے افواج نے انگریزوں کا مقابلہ کیا مگر انگریزی فوج ‪،‬رانی کے فوج سے بیس گنا سے‬
‫بھی ذیادہ تھی‪،‬اس لئے اس میں رانی کے پاس بھاگ نکلنے کے عالوہ اور کوئی راہ نہ بچ سکا‬
‫اور مجبوراً رانی محل سے جانے لگی ۔اس وقت انگریزوں نے انہیں پوری طور پر گھیرلیا‬
‫تھا‪،‬لیکن رانی ایک جانباز تھی وہ محل کے انتہائی بلند ترین مقام سے گھوڑے پر سوار چالنگ لگا‬
‫ئی اور بھاگ نکلی۔ (اس مقام کا تصویر بائیں طرف موجود ہے)۔‬
‫اس کے بعد کچھ دنوں میں رانی نے انگریزوں پر ایک زبردست حملہ کیا اور جھانسی واپس چھین‬
‫لی۔پھر رانی دربدر جا جا کہ لوگوں میں انگیزوں کے خالف آگ پھیالنی لگی۔اور اسی طر آخر کار‬
‫جنگ آزاد ہند ‪1857‬ء درپیش ہوا۔جس میں رانی اور ان کے افواج اور کہیں ریاستوں نے حصہ لیا۔‬

‫وفات‬
‫جنگ جب جنگ آزادی کی تحریک جاری ہوئی۔ تو رانی نے بھی انگریزوں کا سامنا کیا‪،‬جنگ کے‬
‫دوران بے شمار انگریزوں کو موت کی گھاٹ اتارا۔اس کے بعد اچھانک کسی فوجی نے میدان‬
‫جنگ میں رانی پر تلوار سے وار کیا جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوئی اور وہ میدان سے ایک‬
‫بیابان جگہ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں رانی نے ایک بزرگ کو دیکھا اور ان سے کہا کہ وہ لکشمی‬
‫بائی کو اس طرح جالئے کہ ان کا جسم موت کے بعد بھیانگریزوں کے ہاتھ نہ آئے جیسا زندگی‬
‫میں کبھی انگریزوں کے ہاتھ نہ آئی۔اس فقیر نے رانی کو جالیا اور کسی کو خبر بھی نہ ہوئی کے‬
‫رانی کا جسم کہا گیا۔‬
‫‪154 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫وہ اس کام سے انگریزوں کو یہ پیغام دینا چاہتی تھی کہ انگریز نہ تو رانی کو زندگی میں پکڑ‬
‫سکے اور نہ موت کے بعد۔‬
‫اسی طرح رانی کے بدولت ہندوستان میں آزادی کا جزبہ برپا ہوگیا‪،‬جس کے نتیجے میں ‪ 90‬سال‬
‫بعد آزاد پاکستان اور بھارت وجود میں آیا۔ آج بھی رانی کو بھارت میں ایک ملّی خاتون کا درجہ‬
‫حاصل ہے۔‬

‫مسلمانوں کے ساتھ سلوک‬


‫رانی کا مسلمانوں کے ساتھ اچھے سلو کے ساتھ ساتھ بہت محبت بھی تھا۔رانی مسلمان اور ہندوں‬
‫کو برابر سمجھتی تھی اور ان کو یکستاں حقوق دیتی تھی‪،‬یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کے دلوں میں‬
‫بھی رانی نے ایک مقام پیدا کیا تھا۔ وہ مسلمانوں کو مساجد وغیرہ کے لئے زمینے بھی دیتی تھی۔‬
‫ح‬ ‫م‬ ‫ب ض‬
‫ی گم ح رت ل‬
‫شریک‬ ‫واجد علی شاہ‬
‫حیات‬
‫پیدائش‬ ‫ْ‬
‫انداز ‪1820‬فیض آباد‪ ,‬اودھ‪,‬‬
‫بھارت‬
‫وفات‬ ‫اپریل ‪1879‬کھٹمنڈو‪ ,‬نیپال‬
‫مذہب‬ ‫اہل تشیع‬

‫بیگم حضرت محل کا نام زبان پرا ٓتے ہی جنگ آزادی کا تصور ذہن میں ابھر آتا ہے ۔ حضرت محل‬
‫کا نام ہندوستان کی جنگ آزادی میں پہلی سرگرم عمل خاتون رہنما کے نام سے مشہور ہے ۔‬
‫‪ 1858-1857‬کی جنگ آزادی میں صوبہ اودھ سے حضرت محل کی نہ قابل فراموش جدو جہد‬
‫تاریخ کے صفحات میں سنہرے الفاظ میں درج ہے حضرت محل نے صنف نازک ہوتے ہوئے بھی‬
‫بر طانوی سامراج و ایسٹ انڈیا کمپنی سے لوہا لیا ۔ برطانوی حکومت کی” تقسیم کرو اور حکومت‬
‫کرو“کی پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے ہندوﺅں اور مسلمانوں میں اتحاد پیدا کر کے‬
‫تحریک جنگ آزادی ہند ‪1857‬ء کو ایک نیا ر خ دیا ۔ بیگم حضرت محل پہلی ایسی قائد تھیں‪،‬‬
‫جنہوں نے برطانوی حکومت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے اور ‪20‬برس جال وطنی اور اپنی موت‬
‫‪ 1879‬تک لگاتار برطانوی حکومت کی مخالفت کی ۔ حاالنکہ حضرت محل کے متعلق مورخین کو‬
‫بھی زیادہ پختہ جانکاری نہیں ہے شاید وہ فیض آباد کے ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھیں‬
‫کچھ انگریزی مصنفین کے مطابق ان کا نام افتخار النساء تھا ۔ نام سے لگتا ہے کہ ان کے آباو‬
‫اجداد ایران سے یہاں آکر اودھ میں بس گئے تھے ۔ ان کی تعلیم ایک رقاصہ کی شکل میں ہوئی‬
‫جس کا مقصد واجد علی شاہ کو متاثر کرنا تھا ۔ نواب صاحب نے ان کو اپنے حرم میں جگہ دی ۔‬
‫پی‪-‬جے‪-‬او‪-‬ٹیلر کے مطابق جب افتخار النساء کے یہاں ایک بیٹے کی والدت ہوئی تو ان کا رتبہ‬
‫بڑھا اور انہیں نواب صاحب نے اپنی ازواج میں شامل کرکے حضرت محل کا لقب دیا اور انہیں‬
‫شاہی خاندان میں ملکہ کا درجہ دیا ۔ اپنے بیٹے برجیس قدر کی پیدائش کے بعد حضرت محل کی‬
‫شخصیت میں بہت بدالﺅ آیا اور ان کی تنظیمیں صالحیتوں کو جال ملی ۔ ‪1856‬ءمیں برطانوی‬
‫حکومت نے نواب واجد علی شاہ کو جال وطن کر کے کلکتہ بھیج دیا ۔ تب حضرت محل نے اودھ‬
‫کی باگ ڈور سنبھال لی اور بیگم حضرت محل ایک نئے وجود میں سب کے سامنے آتی ہیں۔ ان کا‬
‫یہ رخ اپنے وطن کے لئے تھا ۔ جس کا مقصد تھا اپنے ملک سے انگریزوں کو باہر پھینکنا یہ‬
‫مشعل لو ‪ ،‬سبھی کے دل میں جل رہی تھی ۔ لیکن اسے بھڑکانے اور جنون میں بدلنے میں بیگم‬
‫حضرت محل نے ایک خاص کردارادا کیا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ عورت صرف گھر کی چہار‬
‫‪155 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫دیواری کا نظام ہی خوبی سے نہیں سنبھالتی بلکہ وقت پڑنے پر وہ اپنے جوہر دکھا کر دشمنوں کو‬
‫کھدیڑنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے ۔ ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کے دوران انہوں نے اپنے‬
‫حامیوں جن کے دلوں میں اپنے ملک سے انگریزوں کے ناپاک قدموں کو دور کرنے کا جذبہ تھا ۔‬
‫انگریزی حکومت کے خالف منظم کیا اور جب ان سے اودھ کا نظام چھین لیا گیا تو انہوں نے‬
‫اپنے بیٹے برجیس قدر کو ولی عہد بنا دیا ۔ جنگ آزادی میں وہ دوسرے مجاہدین آزادی کے ساتھ‬
‫مل کر چلنے کی حامی تھیں جس میں نانا صاحب بھی شامل تھے۔ جب برطانوی فوج نے لکھنو پر‬
‫دوبارہ قبضہ کر لیا اور ان کے سارے حقوق چھین لئے تو انہوں نے برٹش حکومت کی طرف سے‬
‫دی گئی کسی بھی طرح کی عنایت کو ٹھکرادیا ۔ اس سے بیگم حضرت محل کی خود داری کا پتہ‬
‫چلتا ہے۔ وہ صرف ایک بہترین پالیسی ساز ہی نہیں تھیں۔ بلکہ جنگ کے میدان میں بھی انہوں نے‬
‫جوہر دکھائے۔ جب ان کی فوج ہار گئی تو انہوں نے دوسرے مقامات پر فوج کو منظم کیا۔ بیگم‬
‫حضرت محل کا اپنے ملک کے لئے خدمت کرنا بے شک کوئی نیا کارنامہ نہیں تھا ۔ لیکن ایک‬
‫عورت ہو کر انہوں نے جس خوبی سے انگریزوں سے ٹکرلی وہ معنی رکھتا ہے ۔ ‪ 1857‬کی‬
‫بغاوت کی چنگاریاں تو ملک کے کونے کونے میں پھوٹ رہی تھیں۔ ملک کے ہر کونے میں اس‬
‫کی تپش محسوس کی جارہی تھی اسی چنگاری کو آگ میں تبدیل کرنے کا سہرا بیگم حضرت محل‬
‫کے سر جاتا ہے ۔ اترپردیش کے اودھ عالقہ میں بھی آزادی کی للک تھی ۔ جگہ جگہ بغاوتیں‬
‫شروع ہو گئی تھیں۔ بیگم حضرت محل نے لکھنؤ کے مختلف عالقوں میں گھوم گھوم کر لگاتار‬
‫انقالبیوں اور اپنی فوج کی حوصلہ افزائی کرنے میں دن رات ایک کر دیا ۔ ایک عورت کا یہ‬
‫حوصلہ اور ہمت دیکھ کر فوج اور باغیوں کا حوصلہ جوش سے دگنا ہو جاتا ۔ انہوں نے آس پاس‬
‫کے جاگیر داروں کو بھی ساتھ مال کر انگریزوں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ بیگم حضرت محل کا‬
‫کردار جنگ آزادی کی اس پہلی جنگ میں نا قابل فرامو ش ہے ۔ آج جب بھی ‪ 1857‬کی بغاوت کا‬
‫ذکر آتا ہے تو بیگم حضرت محل کا نام خود بخود زباں پر آجاتا ہے ۔ انگریزوں کی مکاری اور‬
‫چاالکی کو حضرت محل بہت اچھی طرح سمجھ چکی تھیں۔ وہ ایک دور اندیش خاتون تھیں ۔‬
‫انگریزوں سے لوہا لینے کیلئے انہوں نے اپنی صالحیتوں کا بھر پور استعمال کیا ۔ انتظامی‬
‫حکومتی فیصلوں میں بیگم حضرت محل کی صالحیت خوب کام آئی۔ بیگم حضرت محل کے‬
‫فیصلوں کو قبول کیا گیا ۔ بڑے بڑے عہدوں پر قابل عہد یدار مقرر کئے گئے ۔ محدود وسائل اور‬
‫مشکل حاالت کے باوجود بیگم حضرت محل لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتی رہیں۔ بیگم حضرت‬
‫محل نے خواتین کی ایک فوج تیار کی اور کچھ ماہرخواتین کو جاسوسی کے کام پر بھی لگایا ۔‬
‫فوجی خواتین نے محل کی حفاظت کے لئے اپنی جان کی بھی پروا نہیں کی ۔ انگریزی فوج لگاتار‬
‫ریزی ڈینسی سے اپنے ساتھیوں کو آزاد کرانے کیلئے کوشش کرر ہی تھی ۔ لیکن بھاری مخالفت‬
‫کی وجہ سے انگریزوں کو لکھنؤ فوج بھیجنا مشکل ہو گیا تھا ۔ ادھر ریزی ڈینسی پر ناموں کے‬
‫ذریعہ لگاتار حملے کئے جارہے تھے ۔ بیگم حضرت محل لکھنؤ کے مختلف عالقوں میں تنہا‬
‫فوجیوں کا حوصلہ بڑھا رہی تھیں۔ لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا تھا ۔ دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو‬
‫چکا تھا ۔مغل شاہ بہادر شاہ ظفرکے نظر بند ہوتے ہی انقالبیوں کے حوصلے کمزور پڑنے لگے ۔‬
‫لکھنؤ بھی دھیرے دھیرے انگریزوں کے قبضہ میں آنے لگا تھا ۔ ہینری ہیوالک اور جیمز آوٹ‬
‫رام کی فوجیں لکھنؤ پہنچ گئیں۔ بیگم حضرت محل نے قیصر باغ کے دروازے پر تالے لٹکوا‬
‫دیے ۔ انگریزی فوج بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی ۔ بیگم نے اپنے فوجیوں میں جوش بھرتے‬
‫ہوئے کہا ‪،‬‬
‫” اب سب کچھ قربان کرنے کا وقت آگیا ہے“‪-‬‬
‫انگریزی فوج کا افسر ہینری ہیوالک عالم باغ تک پہنچ چکا تھا ۔ کیمپ ویل بھی کچھ اور فوج لے‬
‫کر اس کے ساتھ جا مال ۔ عالم باغ میں بہت ہجوم اکٹھا ہو گیا تھا ۔ عوام کے ساتھ محل کے سپاہی‬
‫شہر کی حفاظت کیلئے امنڈ پڑے ۔ موسال دھار بارش ہو رہی تھی ۔ دونوں طرف تیروں کی بوچھار‬
‫ہو رہی تھیں۔ بیگم حضرت محل کو قرار نہیں تھا ۔ وہ چاروں طرف گھوم گھوم کر سرداروں میں‬
‫جوش بھر رہی تھیں۔ ان کی حوصلہ افزائی سے انقالبیوں کا جوش ہزار گنا بڑھ جاتا ۔ وہ بھوکے‬
‫پیاسے سب کچھ بھول کر اپنے وطن کی ایک ایک انچ زمین کیلئے مرمٹنے کو تیار تھے ۔ آخر وہ‬
‫‪156 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫لمحہ بھی آگیا جب انگریزیوں نے اپنے ساتھیوں کو ریزیڈنسی سے آزاد کرا ہی لیا ۔ اور لکھنؤ پر‬
‫انگریزوں کا قبضہ ہو گیا ۔‬
‫بیگم حضرت محل کی شخصیت ہندوستانی نسوانی سماج کی پیروی کرتا ہے وہ بے حد‬
‫خوبصورت رحم دل اور نڈر خاتون تھیں۔ اودھ کی پوری قوم ‪ ،‬عوام عہدیدار ‪ ،‬فوج ان کی عزت‬
‫کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ ان کے ایک اشارے پر اپنی جان تک قربان کرنے کا جذبہ ان کی عوام‬
‫میں تھا ۔ انہیں کبھی اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ وہ عورت کی سر براہی میں کام کررہے ہیں‬
‫انہیں اپنی ا س لیڈر پر اپنے سے زیادہ بھروسا تھا ۔ اور یہ بھروسا بیگم حضرت محل نے ٹوٹنے‬
‫نہیں دیا ۔‬
‫جب باغیوں کے سردار دلپت سنگھ محل میں پہنچے اور بیگم حضرت محل سے کہا‪،‬بیگم حضور‬
‫آپ سے ایک التجا کرنے آیا ہوں۔ بیگم نے پوچھا وہ کیا ؟ اس نے کہا ۔ آپ اپنے فرنگی قیدیوں کو‬
‫مجھے سونپ دیجیئے ۔ میں اس میں سے ایک ایک کا ہاتھ پیر کاٹ کر انگریزوں کی چھاﺅنی میں‬
‫بھیجوں گا ۔ نہیں ہرگز نہیں ۔ بیگم کے لہجہ میں سختی آگئی ۔ ہم قیدیوں کے ساتھ ایسا سلوک نہ تو‬
‫خود کر سکتے ہیں اور نہ کسی کو اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔قیدیوں پر ظلم کرنے کی روایت‬
‫ہم میں نہیں ہے ۔ ہمارے جتنے بھی فرنگی قیدی اور ان کی عورتوں پر کبھی ظلم نہیں ہوگا ۔‬
‫اندازا ہوتا ہے بیگم حضرت محل انصاف پسند اور حسن سلوک کی مالک تھیں ۔ بیگم نے جن‬
‫حاالت اور مشکل وقت میں ہمت و حوصلے کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیے وہ ہمارے لئے مثال‬
‫ہے وہ بھلے ہی آج ہمارے بیچ نہ ہوں پر ان کا یہ قول عام ہندوستانیوں کیلئے ایک درس ہے ۔ یہ‬
‫ہند کی پاک و صاف سر زمین ہے ۔ یہاں جب بھی کوئی جنگ بھڑکی ہے ہمیشہ ظلم کرنے والے‬
‫ظالم کی شکست ہوئی ہے ۔ یہ میرا پختہ یقین ہے ۔ بے کسوں ‪ ،‬مظلوموں کا خون بہانے واال یہاں‬
‫کبھی اپنے گندے خوابوں کے محل نہیں کھڑا کر سکے گا ۔ آنے واال وقت میرے اس یقین کی تائید‬
‫کرے گا ۔‬
‫جنگ کے بعد آخر کار بیگم حضرت محل نے نیپال میں پناہ لی ۔ ابتدا میں نیپال کے رانا جنگ‬
‫بہادر نے انکار کر دیا ۔ لیکن بعد میں اجازت دے دی ۔ وہیں پر ‪ 1879‬میں ان کی وفات ہوئی۔ کاٹھ‬
‫منڈو کی جامع مسجد کے قبرستان میں گمنام طور پر ان کو دفنا دیا گیا ۔‪ 15‬اگست‪ 1962 ،‬میں ان‬
‫کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے صوبائی حکومت نے وکٹوریہ پارک میں ان کی یادمیں سنگ مر‬
‫مر کا مقبرہ تعمیر کرا کر اسے بیگم حضرت محل پارک نام دیا ۔ حضرت محل کا یہ کارنامہ اس‬
‫بات کا ثبوت ہے کہ عورت ناچار اور مظلوم نہیں ۔ وہ وقت پڑنے پر مردوں کے ساتھ قدم مال کر‬
‫چل بھی سکتی ہے اور آگے بڑھ کر کوئی بھی ذمہ داری بہ خوبی نبھا بھی سکتی ہے ۔ ضرورت‬
‫ہے اپنی صالحیتوں کو پہچان کر انہیں استعمال کرنے کی اپنے وجود کو پہچان دینے کی‪-‬‬
‫ئ‬ ‫جن ن‬
‫سرو ی ا ی ڈو‬
‫سروجنی نائیڈو بیک وقت انگریزی کی ایک عظیم شاعرہ‪ ،‬مجاہدہ آزادی‪ ،‬دانشور و مدبّر خاتون کے ساتھ‬
‫ساتھ قائدانہ صالحیت کی حامل‪ ،‬آتش بیاں مقرر‪ ،‬محب وطن اور ہندو مسلم اتحاد و یگانگت کی حامی‬
‫تھیں۔ سروجنی نائیڈو ‪13‬فروری ‪1879‬کو حیدرآباد کے ایک بنگالی برہمن خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے‬
‫والداگھورے ناتھ چٹوپادھیائے ایک سائنسدان اور ماہر تعلیم تھے اور نظام کالج‪ ،‬حیدرآباد‪ ،‬دکن‪ ،‬کے‬
‫پرنسپل بھی رہے۔‬
‫نگ ن‬
‫م ل پ ا ڈے‬

‫پیدائش‬ ‫‪ 19‬جوالئی ‪1827‬‬

‫‪157 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫‪ ،Nagwa‬بلیا ضلع‪ ،‬اتر پردیش‪ ،‬بھارت‬
‫وفات‬ ‫‪ 8‬اپریل ‪( 1857‬عمر‪ 29 ‬سال)‬
‫‪ ،Barrackpore‬کولکاتہ‪ ،‬مغربی بنگال‪ ،‬بھارت‬
‫پیشہ‬ ‫سپاہی (سپاہی) ‪34‬ویں )‪ Bengal Native Infantry (BNI‬رجمنٹ‬
‫برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی‬
‫وجۂ‪ ‬شہ‬ ‫‪ / Mutineer‬بھارتی آزادی کا ہیرو‬
‫رت‬
‫مذہب‬ ‫ہندومت‬

‫ہندوستان کی تحریک آزادی کی عملی طور پرابتدا کرنےاور برطانوی نو آبادیات کو للکارنے والے‬
‫پہلے شخص منگل پانڈے تھے۔ جنھوں نے آزادی ہند کے لیے پہلی گولی چالئی۔ منگل پانڈے ‪19‬‬
‫جوالئی‪1827 ،‬ء میں مشرقی اترپردیش کے ضلع بلیا کے گاؤں "نگوا" میں پیدا ہوئے۔ جہاں ان کی‬
‫اوالد اور رشتے دار اب بھی رہائش پزیر ہیں۔ منگل پانڈے کا مقام پیدائش متنازع ہے۔ کہیں لکھا‬
‫ہے کہ وہ یوپی کے ضلع فیض آباد کے شہر اکبر آباد میں پیداہوئے۔‬
‫‪1849‬ء میں ‪ 22‬سال کی عمر میں منگل پانڈے نے وسطی بھارت کی فوجی کمپنی " بنگال‬
‫انفنٹری" کی چونتیسویں (‪ )34‬رجیمنٹ میں بحثیت سپاہی بھرتی ہوئے ۔ ‪1853‬ء میں فوجی‬
‫مالزمت کے دوران انگریزوں سے نفرت اور جذبہ آزادی کی تمنا جاگی اور انھوں نے آزادی کے‬
‫لیے پہلی گولی چالئی۔ منگل پانڈے نےانگریز فوجیوں پر حملے کئے۔ انھوں نے ‪ 29‬مارچ‪،‬‬
‫‪1857‬ء کو ایک انگریز سارجنٹ اور اجونٹنٹ کو زخمی کردیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کی فوج‬
‫میں استعمال ہونے والی پی۔‪ 53‬رائفل میں جو کارتوس استعمال کئےجاتے تھے ۔ اسےاستعمال سے‬
‫پہلےان کارتوس کےفیتوں کو دانتوں سے کھینچا جاتا تھا۔ اس میں گائے اور سور کی چربی لگی‬
‫ہوتی تھی۔ جو مذہبی طور پر مسلمانوں اور ہندؤں کے لیے کسی طور پر قابل قبول نہیں تھی۔ یہی‬
‫بات منگل پانڈے کے غصے کا سبب بنی۔ منگل پانڈے کا تعلق برہمن گھرانے سے تھا۔ جبل پور‬
‫کے عجائب خانے کے ریکارڈ کے مطابق منگل پانڈے کو ‪ 18‬اپریل‪1857 ،‬ء میں کولکتہ کے‬
‫قریب بارک پور چھاونی میں پھانسی دی گئی۔ یہ وہی فوجی چھاونی ہے جہاں کچھ مہینے قبل‬
‫ہندوستانی فوجیوں نے" انگریزی ٹوپ" پہنے سے انکار کردیا تھا۔‬
‫ن‬ ‫پ‬ ‫ن‬
‫گوو د ولب ھ ت‬
‫پنڈت گووند ولبھ پنت یا جي وی پنت (پیدائش‪ 10 :‬ستمبر ‪1887‬ء ‪ 7 -‬مارچ ‪1961‬ء) ایک مشہور‬
‫مجاہد آزادی اور سینئر بھارتی سیاستدان تھے‪ ]1[.‬وہ اتر پردیش ریاست کے پہلے وزیر ٰ‬
‫اعلی اور‬
‫بھارت کے چوتھے وزیر داخلہ تھے‪ .‬سن ‪1955‬ء میں انہیں بھارت رتن سے نوازا گیا‪ .‬وزیر داخلہ‬
‫کے طور پر ان کا بنیادی کردار ادا بھارت کو زبان کے مطابق ریاستوں میں تقسیم کرنا اور ہندی‬
‫ئ ٹ‬
‫زبان کو بھارت کی دفتری طور پر نافذ کرنا تھا‪.‬‬
‫[‪]2‬‬

‫ولب ھ ب ھا ی پ ی ل‬
‫ولبھ بھائی پٹیل (‪ 31‬اکتوبر ‪1875‬ء – ‪ 15‬دسمبر ‪1950‬ء) بھارت کے ایک سیاسی و سماجی رہنما‬
‫تھے‪ ،‬جنہوں نے تحریک آزادئ ہند اور بعد از تقسیم ہند بھارت کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا۔‬
‫بھارت اور دنیا بھر میں انہیں 'سردار' کے نام سے جانا جاتا تھا اس لیے آپ سردار ولبھ بھائی پٹیل‬
‫بھی کہالتے ہیں۔‬

‫‪158 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫سردار کا تعلق بھارت کی ریاست گجرات سے تھا اور آپ کے کامیاب وکیل تھے۔ آپ نے سول‬
‫نافرمانی کی تحریک میں گجرات کے عوام کو متحد کیا جو برطانوی راج کی ظالمانہ راج نیتی‬
‫کے خالف ایک زبردست احتجاج تھا۔ اس کردار کے باعث آپ گجرات کے موثر ترین رہنماؤں‬
‫اعلی ترین عہدوں تک پہنچے اور‬
‫ٰ‬ ‫میں سے ایک ہو گئے۔ بعد ازاں آپ انڈین نیشنل کانگریس کے‬
‫اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ آپ نے ‪1934‬ء اور ‪1937‬ء کے انتخابات میں کانگریس کو اور بعد ازاں‬
‫ہندوستان چھوڑ دو تحریک کو منظم کیا۔‬
‫تقسیم ہند بھارت کے وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعظم کی حیثیت سے موجودہ متحدہ‬ ‫ِ‬ ‫آپ نے بعد از‬
‫بھارت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں آپ نے بھرپور عسکری قوت کا مظاہرہ‬
‫وفاق بھارت میں شامل کیا۔ اس کارروائی کے باعث انہیں 'بھارت کا مرد‬ ‫ِ‬ ‫کیا اور کئی ریاستوں کو‬
‫آہن' (‪ )Iron man of India‬کہا گیا۔ دراصل ‪ 3‬جون کے منصوبے کے تحت ہندوستان بھر کی‬
‫تقریبا ً ‪ 600‬امارتوں میں مقامی نوابوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ بوقت تقسیم بھارت یا پاکستان‬
‫جس میں شامل ہونا چاہیں اپنی مرضی کے مطابق شامل ہو سکتے ہیں۔ ‪ 15‬اگست ‪1947‬ء کی‬
‫حتمی تاریخ تک سوائے تین ریاستوں کے تقریبا ً تمام ریاستیں بھارتی دباؤ کو برداشت نہ کر سکیں‬
‫اور بھارت میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا۔ یہ تین ریاستیں جموں و کشمیر‪ ،‬جوناگڑھ اور حیدرآباد‬
‫ت‬
‫تھیں۔ ان تینوں ریاستوں کو عسکری قوت کے ذریعے بھارت میں شامل کیا گیا۔‬

‫چ کرور ی راج گوپ ال آچ اری ہ‬


‫چکرورتی راجگوپال آچاریہ‬
‫گورنر جنرل ہند‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 21‬جون ‪ 26 – 1948‬جنوری ‪1950‬‬
‫شاہی‬ ‫جارج ششم‬
‫حکمران‬
‫وزیر‬ ‫جواہر لعل نہرو‬
‫اعظم‬
‫پیشرو‬ ‫لوئس ماؤنٹ بیٹن‬
‫جانشین‬ ‫منصب ختم‬
‫وزیر اعلی مدراس‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 10‬اپریل ‪ 13 – 1952‬اپریل ‪1954‬‬
‫گورنر‬ ‫‪Sri Prakasa‬‬
‫پیشرو‬ ‫‪P. S. Kumaraswamy Raja‬‬
‫جانشین‬ ‫‪K. Kamaraj‬‬
‫وزیر داخلہ‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪159 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫‪ 26‬دسمبر ‪ 25 – 1950‬اکتوبر ‪1951‬‬
‫وزیر‬ ‫جواہر لعل نہرو‬
‫اعظم‬
‫پیشرو‬ ‫ولبھ بھائی پٹیل‬
‫جانشین‬ ‫‪Kailash Nath Katju‬‬
‫گورنر مغربی بنگال‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 15‬اگست ‪ 21 – 1947‬جون ‪1948‬‬
‫پریمیئر‬ ‫‪Prafulla Chandra Ghosh‬‬
‫بدھان چندرا رائے‬
‫پیشرو‬ ‫‪Frederick Burrows‬‬
‫جانشین‬ ‫‪Kailash Nath Katju‬‬
‫وزیر اعلی مدراس‬
‫عہدہ سنبھاال‬
‫‪ 14‬جوالئی ‪ 9 – 1937‬اکتوبر ‪1939‬‬
‫گورنر‬ ‫‪The Lord Erskine‬‬
‫پیشرو‬ ‫‪Kurma Venkata Reddy‬‬
‫‪Naidu‬‬
‫جانشین‬ ‫‪Tanguturi Prakasam‬‬
‫ذاتی تفصیالت‬
‫پیدائش‬ ‫‪ 10‬دسمبر ‪1878‬‬
‫تھوراپالی‪ ،‬مدراس پریذیڈنسی‪،‬‬
‫برطانوی ہند (اب تامل ناڈو)‬

‫وفات‬ ‫‪ 25‬دسمبر ‪( 1972‬عمر‪ 94 ‬سال)‬


‫مدراس‪ ،‬بھارت‬
‫سیاسی‬ ‫)‪Swatantra Party (1959–1972‬‬
‫جماعت‬
‫دیگر‬ ‫انڈین نیشنل کانگریس (قبل ‪)1957‬‬
‫انڈین نیشنل ڈیموکریٹک کانگریس ( سیاسی‬
‫وابستگیا‬ ‫‪)1959–1957‬‬
‫ں‬
‫شریک‬ ‫‪Alamelu Mangalamma‬‬
‫‪160 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫حیات‬ ‫)‪(1897–1916‬‬

‫مادر‬ ‫سنٹرل کالج‬


‫علمی‬ ‫پریسیڈینسی کالج‪ ،‬مدراس‬
‫پیشہ‬ ‫وکیل‬
‫مصنف‬
‫سیاست کار‬
‫مذہب‬ ‫ہندومت‬
‫دستخط‬ ‫چکرورتی راجگوپال آچاریہ کے‬
‫دستخط‬

‫چکرورتی راجگوپال آچاریہ (‪ )Chakravarti Rajagopalachari‬جنہیں عام طور پر راجاجی اور‬


‫سی آر بھی کہا جاتا ہے ایک ہندوستانی وکیل‪ ،‬آزادی کے سرگرم کارکن‪ ،‬سیاست دان‪ ،‬مصنف اور‬
‫سیاست کار تھے۔ راجگوپال آخری گورنر جنرل ہند بھی تھے۔‬
‫ن ئ‬
‫ب دھان چ درا راے‬
‫بدھان چندرا راۓ‬
‫حیات‬ ‫‪1962 - 1882‬‬
‫پیدائ‬ ‫پٹنہ بہار‬
‫ش‬
‫شہر‬ ‫مغربی بنگال کے دوسرے وزیر‬
‫ت‬ ‫ٰ‬
‫اعلی‪ ،‬طبیب حاذق‪ ،‬بھارت رتن‬

‫بِدھان چندرا رائے بھارت کی ریاست مغربی بنگال کے دوسرے وزیر ٰ‬


‫اعلی تھے۔ وہ ایک طبیب حاذق‬
‫تھے اور بھارت رتن سے نوازے گئے تھے۔بھگت سنگھ‬
‫سن‬
‫ب ھگت گھ‬
‫پیدائ‬ ‫‪ 28‬ستمبر ‪ 1907‬ء‬
‫ش‬ ‫جڑانوالہ تحصیل‪ ,‬پنجاب‪,‬‬
‫برطانوی ہند‬
‫وفات‬ ‫‪ 23‬مارچ ‪( 1931‬عمر‪23 ‬‬
‫سال)‬
‫الہور‪ ,‬پنجاب‪ ,‬برطانوی ہند‬
‫تنظیم‬ ‫نوجوان بھارت سبھا‪,‬‬
‫کیرتی کسان پارٹی‪,‬‬
‫ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن‬

‫‪161 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫ایسوسی ایشن‬
‫تحری‬ ‫تحریک آزادی ہند‬
‫ک‬
‫مذہب‬ ‫دہریت‬

‫(‪1907‬ء تا ‪ 23‬مارچ‪1931 ،‬ء) برصغیر کی جدوجہد آزادی کا ہیرو۔ بھگت سنگھ سوشلسٹ انقالب‬
‫کا حامی تھا۔ طبقات سے پاک برابری کی سطح پر قائم ہندوستانی معاشرہ چاہتا تھا۔ ضلع الئل پور‬
‫کے موضع بنگہ میں پیدا ہوئے۔ کاما گاٹا جہاز والے اجیت سنگھ ان کے چچا تھے۔ جلیانوالہ باغ‬
‫قتل عام اور عدم تعاون کی تحریک کے خونیں واقعات سے اثر قبول کیا۔ ‪1921‬ء میں اسکول‬
‫چھوڑ دی اور نیشنل کالج میں تعلیم شروع کی۔ ‪1927‬ء میں الہور میں دسہرہ بم کیس کے سلسلے‬
‫میں گرفتار ہوے اور شاہی قلعہ الہور میں رکھےگیے۔ ضمانت پر رہائی کے بعد نوجوان بھارت‬
‫سبھا بنائی اور پھر انقالب پسندوں میں شامل ہوگیے۔ دہلی میں عین اس وقت‪ ،‬جب مرکزی اسمبلی‬
‫کا اجالس ہو رہا تھا انھوں نے اور بے کے دت نے اسمبلی ہال میں دھماکا پیدا کرنے واال بم‬
‫پھینکا۔ دونوں گرفتار کرلیے گئے۔ عدالت نے عمر قید کی سزا دی۔‬
‫‪1928‬ء میں سائمن کمیشن کی آمد پر الہور ریلوے اسٹیشن پر زبردست احتجاجی مظاہرہ ہوا۔‬
‫پولیس نے الٹھی چارج کیا جس میں اللہ الجپت رائے زخمی ہوگئے۔ اس وقت الہور کے سینئر‬
‫سپرٹینڈنٹ پولیس مسٹر سکاٹ تھے۔ انقالب پسندوں نے ان کو ہالک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن‬
‫ایک دن پچھلے پہر جب مسٹر سانڈرس اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ پولیس الہور اپنے دفتر سے موٹر‬
‫سائیکل پر دفتر سے نکلے تو راج گرو اور بھگت سنگھ وغیرہ نے ان کو گولی مارکر ہالک کر‬
‫دیا۔ حوالدار جین نے سنگھ کا تعاقب کیا۔ انہوں نے اس کو بھی گولی مار دی اور ڈی اے وی کالج‬
‫ہاسٹل میں کپڑے بدل کر منتشر ہوگئے۔ آخر خان بہادر شیخ عبدالعزیز نے کشمیر بلڈنگ الہور سے‬
‫ایک رات تمام انقالب پسندوں کو گرفتار کر لیا۔ الہور کے سینٹرل جیل کے کمرۂ عدالت میں ان پر‬
‫مقدمہ چالیا گیا۔ بھگت سنگھ اور دت اس سے قبل اسمبلی بم کیس میں سزا پا چکے تھے۔ مقدمہ تین‬
‫سال تک چلتا رہا۔ حکومت کی طرف سے خان صاحب قلندر علی خان اور ملزمان کی طرف سے‬
‫اللہ امرد اس سینئر وکیل تھے۔ بھگت سنگھ اور سکھ دیو کو سزائے موت کا حکم دیا گیا اور ‪23‬‬
‫مارچ‪1931 ،‬ء کو ان کو پھانسی دے دی گئی۔ فیروز پور کے قریب دریائے ستلج کے کنارے‪ ،‬ان‬
‫کی الشوں کو جال دیا گیا۔ بعد میں یہاں ان کی یادگار قائم کی گئی۔‬
‫تن ت‬
‫ا ت ی ا وپی‬
‫مرہٹہ پیشوا۔ فوجی جرنیل تھا۔ ‪1857‬ء کی جنگ آزادی میں اس نے کارہائے نمایاں سرانجام دیے‬
‫اور اپنے فوجی دستوں سمیت کانپور کالپی وغیرہ تک جا پہنچا۔ انگریزی افواج سے ڈٹ کر مقابلہ‬
‫کیا۔ باالخر محصور اور قید ہوا اور اسے گولی کا نشانہ بنا دیا گیا۔جھانسی کی رانی انہیں اپنا گورو‬
‫مانتی تھی اور اپنی ساری سیکھتا انکے طرف منسوب کیا کرتی تھی۔‬

‫پ ہلی ج ن گ عظ ی م‬
‫پہلی جنگ عظیم کے مختلف‪ /‬مناظر‬

‫تاری ‪ 28‬جوالئی ‪1914‬ء تا ‪ 11‬نومبر‬


‫خ ‪1918‬ء‬
‫مقام یورپ‪ ،‬افریقا اور مشرق وسطی‬
‫نتیج اتحادیوں کی فتح۔ جرمنی‪ ،‬روسی‬
‫ہ سلطنت‪ ،‬سلطنت عثمانیہ اور‬
‫‪162 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫آسٹرو‪-‬ہنگیرین سلطنت کا خاتمہ۔‬
‫مشرق اور وسطی یورپ میں کئی‬
‫نئے ملکوں کا قیام‬
‫متحارب‬
‫‪ ‬روس‬ ‫آسٹریا‪-‬ہنگری‬
‫‪ ‬فرانس‬ ‫جرمن سلطنت‬
‫‪ ‬برطانیہ‬ ‫سلطنت عثمانیہ‬
‫اٹلی‬ ‫بلغاریہ‬
‫امریکہ‬
‫قائدین‬
‫نکولس ثانی‬ ‫فرانز جوزف اول‬
‫الیکسی بروسیلوف‬ ‫کونراڈ وون‬
‫جورجس کلیمنکیو‬ ‫ہوزینڈورف‬
‫جوزف جوفری‬ ‫ولہیم ثانی‬
‫فرڈیننڈ فوش‬ ‫ایرچ وون فالکنہین‬
‫رابرٹ نیویل‬ ‫پال وون ہنڈنبرگ‬
‫ہربرٹ ہنری‬ ‫رینہارڈ شیر‬
‫ایسکوئتھ‬ ‫ایرچ لوڈنڈورف‬
‫سر ڈوگلس ہیگ‬ ‫محمد خامس‬
‫سر جون جیلیکو‬ ‫اسماعیل انور‬
‫وکٹر ایمانوئیل ثالث‬ ‫مصطفی کمال‬
‫لوگی کاڈورنا‬ ‫اتاترک‬
‫ارمانڈو ڈیاز‬ ‫فرڈیننڈ اول‬
‫ووڈرو ولسن‬
‫جون پیرشنگ‬
‫قوت‬
‫‪515817847447h‬‬
‫‪ola‬‬
‫نقصانات‬
‫فوجی‪ /‬ہالکتیں‪:‬‬ ‫فوجی ہالکتیں‪:‬‬
‫‪5،520،000‬‬ ‫‪4،386،000‬‬
‫فوجی زخمی‪:‬‬ ‫فوجی زخمی‪:‬‬
‫‪12،831،000‬‬ ‫‪8،388،000‬‬
‫فوجی‪ /‬گمشدہ‪:‬‬ ‫فوجی گمشدہ‪:‬‬
‫‪4،121،000‬‬ ‫‪3،629،000‬‬

‫آغاز‬

‫‪163 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫دو جنگ عظیم‬
‫پہلی جنگ عظیم – دوسری جنگ عظیم‬

‫پہلی جنگ عظیم (‪ )World War I‬کا آغاز ‪ 28‬جون ‪1914‬ء کے اس واقعہ سے ہوا کہ کسی سالو‬
‫دہشت پسند نے آسٹریاـہنگری کے ولی عہدشہزادہ فرانسس فرڈی ننڈ (منڈ) کو ‪ 28‬جون کو گولی‬
‫مار کر ہالک کر دیا۔ ‪ 28‬جوالئی کو آسٹریا نے سربیا کے خالف اعالن جنگ کر دیا۔اور ‪ 3‬اگست‬
‫کو جرمنی نے بیلجیم اور لکسمبرگ پر حملہ کردیا۔‬

‫واقعات‬
‫اگست‪ 15‬کو آسٹریا کے رفیق جرمنی کی فوجیں ہالینڈ ‪ ،‬بیلجیم کے ممالک کو روندتی ہوئی فرانس‬
‫کی سرزمین تک پہنچنے کی کوشش کر رہی تھیں۔جرمنوں نے فرانس پر حملہ آور ہونے کے لیے‬
‫جو منصوبہ تیار کیا تھا۔ اس میں یہ قرار پایا تھا کہ فرانس کے شمالی ساحل کے ساتھ ساتھ ہو کر‬
‫فرانس کے دارلخالفہ پیرس پر اس طرح حملہ کیا جائے جیسے پھیلے ہوئے بازو کی درانتی وار‬
‫کرتی ہے۔ فرانسیسی فوج کا اعلی کمان اس منصوبے کو بھانپ نہ سکا اور اس نے اپنی مشرقی‬
‫سرحد پر سے جرمنوں پر ‪ 14‬اگست کو حملہ کر دیا۔ یہ حملہ تدبیر و منصوبہ کے تحت نہیں ہوا‬
‫تھا‪ -‬ل ٰہذا جرمنوں نے جو پہلے ہی گھات لگائے بیٹھے تھے‪ ،‬ایک بھرپور وار کیا اور فرانسیسی‬
‫واپس ہٹنے پر مجبور ہوگئے۔‬

‫اس کے بعد جرمنوں نے اپنے حملے کی سکیم کو ‪ ،‬جسے شلفن منصوبہ کہتے ہیں اور جو‬
‫‪1905‬ء سے تیار پڑا تھا ۔ عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا۔ جلد ہی فرانس کے دارالحکومت کو‬
‫خطرہ الحق ہوگیا۔ فرانس کی بدقسمتی سے اس وقت اس کی بے نظیر افواج کی قیادت جافرے کے‬
‫ہاتھوں میں تھی۔ جو مدبر سپہ ساالر ثابت نہ ہوا۔ انگریزوں کا جرنیل ہیگ بھی جرمنوں کے‬
‫جرنیلوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ لہذا ایسا معلوم ہونے لگا کہ پیرس چند دنوں میں ہی ہار جائے‬
‫گا۔ مگر عین اس وقت ایک ہوشمند فرانسیسی جرنیل گلینی نمودار ہوا۔ جس نے جرمنوں پر وہ‬
‫کاری وار کیا کہ انھیں پریشانی کے عالم میں پیچھے ہٹتے ہی بنی۔ اس کے بعد جرمنوں کی پیش‬
‫قدمی رک گئی اور آئندہ چار برسوں تک بھی تھوڑا جرمن بڑھ آتے تو کبھی فرانسیسی ۔ مگر‬
‫انگریزوں نے کوئی خاص کارنمایاں انجام نہ دیا۔ نہ انھوں نے س وقت تک فاش جیسا جرنیل پیدا‬
‫کیا تھا جس کے زیر قیادت اتحادیوں کو باآلخر فتح نصیب ہوئی ۔ نہ ان کے سپاہیوں نے وردن‬
‫جیسی خونریز لڑائی لڑی جس میں فرانس کے ‪ 315000‬آدمی بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے‬
‫مارے گئے۔ جرمن جرنیلوں میں سب سے زیادہ نام جن اشخاص نے پایا وہ لوڈنڈارف اور ہنڈنبرگ‬
‫تھے۔ فرانسیسی جرنیلوں میں فاش اور پتیان قابل ذکر ہیں۔ انگرزیوں میں الرڈ ایلن بائی ہے۔‬
‫پہلی عالمی جنگ بیسویں صدی کا پہال بڑا عالمی تنازعہ تھا۔ اس تنازعے کی ابتدا ھبزبرگ‬
‫آرکڈیوک ٖفرانز فرڈنینڈ کے قتل سے ہوئی جو اگست ‪ 1914‬میں شروع ہوا اور اگلی چار دہائیوں‬
‫تک مختلف محاذوں پر جاری رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحادی قوتوں۔۔برطانیہ‪ ،‬فرانس‪،‬‬
‫سربیا اور روسی بادشاہت (بعد میں اٹلی‪ ،‬یونان‪ ،‬پرتگال‪ ،‬رومانیہ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ بھی‬
‫شامل ہو گئے)۔۔جرمنی اور آسٹریہ۔ہنگری پر مشتمل مرکزی قوتوں کے خالف لڑیں جن کے ساتھ‬
‫بعد میں سلطنت عثمانیہ کا مرکز ترکی اور بلغاریہ بھی شامل ہو گئے۔ جنگ کا ابتدائی جوش و‬
‫جزبہ اس وقت ماند پڑ گیا جب لڑائی ایک انتہائی مہنگی اور خندقوں کی جنگ جیسی شکل اختیار‬
‫کر گئی۔ مغربی محاذ پر خندقوں اور قلعہ بندیوں کا سلسلہ ‪ 475‬میل تک پھیل گیا۔ مشرقی محاذ پر‬
‫وسیع تر عالقے کی وجہ سے بڑے پیمانے کی خندقوں کی لڑائی ممکن نہ رہی لیکن تنازعے کی‬
‫سطح مغربی محاذ کے برابر ہی تھی۔ شمالی اٹلی‪ ،‬بالکن عالقے اور سلطنت عثمانیہ کے ترکی میں‬
‫بھی شدید لڑائی ہوئی۔ لڑائی سمندر کے عالوہ پہلی مرتبہ ہوا میں بھی لڑی گئی۔‬

‫‪164 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫پہلی عالمی جنگ جدید تاریخ کی سب سے زیادہ تباہ کن لڑائی تھی۔ اس جنگ میں تقریبا ً ایک کروڑ‬
‫فوجی ہالک ہو گئے۔ یہ تعداد اس سے پہلے کے ایک سو برس میں ہونے والی لڑائیوں کی‬
‫مجموعی ہالکتوں سے بھی زیادہ ہے۔ اس جنگ میں دو کروڑ دس الکھ کے لگھ بھگ افراد زخمی‬
‫بھی ہوئے۔ ہالکتوں کی اتنی بڑی تعداد کی وجہ مشین گن جیسے نئے ہتھیاروں کو متعارف کرانا‬
‫اور گیس کے ذریعے کی گئی ہالکتیں تھی۔ جنگ کے دوران یکم جوالئی ‪ 1916‬کو ایک دن کے‬
‫اندر سب سے زیادہ ہالکتیں ہوئیں جب سومے میں موجود برطانوی فوج کے ‪ 57‬ہزار فوجی مارے‬
‫گئے۔ سب سے زیادہ جانی نقصان جرمنی اور روس کو اُٹھانا پڑا جب جرمنی کے ‪ 17‬الکھ ‪73‬‬
‫ہزار ‪ 7‬سو اور روس کے ‪ 17‬الکھ فوجیوں کی ہالکتیں ہوئیں۔ فرانس کو اپنی متحرک فوج کے ‪16‬‬
‫فیصد سے محروم ہونا پڑا۔ محققین کے اندازے کے مطابق اس جنگ میں براہ راست یا بالواسطہ‬
‫طور ہالک ہونے والے غیر فوجی افراد کی تعداد ایک کروڑ تیس الکھ ہے۔ اتنی بڑی ہالکتوں کی‬
‫وجہ سے "اسپینش فلو" پھیل گیا جو تاریخ کی سب سے موذی انفلوئنزا کی وباء ہے۔ الکھوں‬
‫کروڑوں افراد بے گھر ہو گئے یا اپنے گھروں سے بے دخل ہو گئے۔ جائداد اور صنعتوں کا‬
‫نقصان بہت خطیر تھا‪ ،‬خاص طور پر فرانس اور بیلجیم میں‪ ،‬جہاں لڑائی خاص طور پر شدید تھی۔‬
‫نومبر ‪ 1918 ,11‬کو صبح کے ‪ 11‬بجے مغربی محاذ پر جنگ بند ہو گئی۔ اُس زمانے کے لوگ‬
‫اس جنگ کو "جنگ عظیم" کے نام سے منصوب کرتے تھے۔ یہ بند ہو گئی لیکن اس کے اثرات‬
‫بین االقوامی‪ ،‬سیاسی‪ ،‬اقتصادی اور سماجی حلقوں میں آنے والی کئی دہائیوں تک جاری رہے۔‬

‫نتائج‬
‫اس جنگ میں ایک طرف جرمنی ‪ ،‬آسٹریا ‪ ،‬خنگری سلطنت ‪ ،‬ترکی اور بلغاریہ ‪ ،‬اور دوسری‬
‫طرف برطانیہ ‪ ،‬فرانس ‪ ،‬روس ‪ ،‬اٹلی ‪ ،‬رومانیہ ‪ ،‬پرتگال ‪ ،‬جاپان اور امریکاتھے۔ ‪ 11‬نومبر‬
‫‪1918‬ء کو جرمنی نے جنگ بند کردی ۔ اور صلح کی درخواست کی ۔‪ 28‬جون ‪ 1919‬کو فریقین‬
‫کے مابین معاہدہ ورسائی ہوا۔ مسلمان دنیا پر اس کا بہت برا اثر پڑا۔چونکہ ترکی جرمنی کا اتحادی‬
‫رہا اس لیے اسے اس جنگ کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ انگریزوں نے عربوں کو ترکوں‬
‫کے خالف جنگ پر اکسایا اس طرح مسلمانوں میں قومیت کی بنیاد پر جنگ لڑی گئی۔ اور ترکی‬
‫کے بہت سے عرب مقبوضات ترکی سلطان کے ہاتھ سے چلے گئے۔ بعد میں انگریزوں نے ترکی‬
‫پر بھی قبضہ کر لیا اور ترقی کی تقسیم کا فیصلہ کیا۔ لیکن کمال اتاترک جیسی عظیم شخصیت نے‬
‫برطانیہ اور یونان کو ایسا کرنے سے باز رکھا۔ اسی جنگ کے نتیجے میں مسلمانوں کی عظیم‬
‫خالفت کا خاتمہ ہوگیا۔ جنگ عظیم میں دونوں فریقوں کے تقریبا ً ایک کروڑ آدمی کام آئے اور دو‬
‫کروڑ کے لگ بھگ ناکارہ ہوگئے۔‬
‫پہلی جنگ ‪ 95‬برس پہلے نومبر کے مہینے میں ختم ھوئی تھی۔ مگر یہ جنگ آج بھی ظلم و‬
‫برداشت کے داستانوں اور برداشت و رواداری کے جزبوں کو مزید کم سے کم تر کرتی چلی گئی۔‬
‫دنیا کے بیشتر اقوام اس جنگ میں آہستہ آہستہ حصہ بنتے گئے۔ اور یوں پوری دنیا اس جنگ کی‬
‫آگ جھلستی چلی گئی۔ دنیا میں پہلی بار جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔ پہلی بار دنیا نے کیمیائی‬
‫اور زہریلی گیس کا استعمال دیکھا۔ یہ انسانی تاریخ کی تباہ کن جنگ تھی۔ جس میں تقریبا ً ‪ 90‬الکھ‬
‫مرد میدان جنگ میں ہالک ھوئے۔ اور اتنے ہی افراد غربت ‪ ،‬بھوک اور بیماری کی نزر ھوگئے۔‬
‫تاریخ کے مطابق ‪ 19‬ویں صدی کے آواخر میں یورپ میں اتحاد بننے لگے تھے۔ ‪ 1904‬میں‬
‫فرانس اور برطانیہ نے ایک معاہدہ کیا جو باقاعدہ اتحاد تو نہیں تھا۔ تاہم قریبی تعلقات کے لیے بے‬
‫حد اہمیت کا حامل تھا۔ اسی طرح ایک معاہدہ برطانیہ اور روس کے مابین ‪ 1907‬میں (‪TRIPLE‬‬
‫‪ )ENTENTE‬کے نام سے ایک معاہدہ ہوا تھا۔ جس میں روس ‪ ،‬فرانس اور برطانیہ شامل تھے۔‬
‫اب یورپ تقسیم ھوگیا۔ ایک طرف جرمنی ‪ ،‬آسٹریا ‪ ،‬ھنگری ‪ ،‬سربیا اور اٹلی جبکہ دوسری طرف‬
‫روس ‪ ،‬فرانس اور برطانیہ تھے۔ جاپان بھی ‪ 1902‬میں برطانیہ سے معاہدہ کر چکا تھا۔ اس لیے‬
‫اس نے برطانیہ کی طرفداری کرتے ھوئے اعالن جنگ کیا۔ اسی خوف اور طاقت کے نشے میں‬
‫دنیا کے بیشتر ممالک اس جنگ کا حصہ بنتے چلے گئے۔ پہلی عالمی جنگ بیسویں صدی کا پہال‬
‫بڑا تنازعہ تھا۔ اس تنازعے کی بظاہر ابتدا ایک قتل سے ھوئی۔ لیکن جنگ کے سائے کافی‬
‫‪165 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫عرصے سے ان عالقوں پر منڈال رھے تھے۔ لیکن اس کا باقاعدہ آغاز ‪ 1914‬میں قتل کے بعد ہوا۔‬
‫پہلی جنگ عظیم جدید تاریخ کی سب سے زیادہ تباہ کن لڑائی تھی۔ اس جنگ میں عام شہریوں کے‬
‫ساتھ ساتھ ایک کروڑ فوجی بھی ہالک ھوئے۔ ہالکتوں کی اتنی تعداد اس وجہ سے تھی کیونکہ‬
‫بری ‪ ،‬بحری اور فضائی لحاظ سے جدید سے جدید تر ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال ہوا۔ اس جنگ‬
‫میں ایک طرف برطانیہ اوور اس کے حواری تھے۔ جبکہ دوسری طرف جرمنی اور ترکی کے‬
‫آخری سلطان کی فوجیں صف آرا تھیں۔ اس جنگ میں جانی اور مالی لحاظ سے اتنا نقصان ہوا۔ کہ‬
‫دنیا کی تاریخ میں اسکی مثال مشکل سے ملے گی۔ بلکہ اگر یہ کھا جائے تو غلط نہ ھوگا۔ کہ دنیا‬
‫میں اس جنگ سے پہلے کی جتنی اموات ھوئی تھیں ‪ ،‬کو اگر ایک طرف رکھاجائے اور اس جنگ‬
‫میں جتنی اموات ھوئیں۔ یہ اموات اُن تمام جنگوں سے زیادہ تھیں۔ پہلی عالمی جنگ میں دو کروڑ‬
‫سے زیادہ افراد ہالک ‪ ،‬الکھوں غربت ‪ ،‬بھوک ‪ ،‬بیماریوں کی نزر ھوگئےتھے۔ ان تمام میں ہالک‬
‫فوجیوں کی تعداد الگ تھی۔ جوکہ ایک کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ پہلی عالمگیر جنگ اس بات کی‬
‫غمازھے۔ کہ دنیا چاہے جتنی بھی ترقی کرے۔ اور انسان جتنا بھی اپنے آپ کو مہذب کہالئے‪ ،‬وہ‬
‫نظریئے اور زہنیت سے اب بھی ایک وحشی درندے سے کم نہیں۔ اور اُس نے اکثر مواقع پر یہ‬
‫بات ثابت کی ہے۔ پچھلی صدی کی یہ جنگ عالمی امن و برداشت کے لیے کام کرنے والے لوگوں‬
‫اور اس نظریئے کے لیے ایک زہر قاتل کی حثیت رکھتی ہے۔ انسان اب بھی اگر عالمی امن‬
‫وبرداشت کے حوالے سے کوئی قدم اٹھاتا ہے۔ تو اُسے اپنے اسالف اور آباواجداد کے ہاتھوں لڑی‬
‫گئی اس جنگ کی طرف بھی ایک بار دیکھنا پڑتاھے۔ کیونکہ مہذب دنیا کے منہ پریہ جنگ ایک‬
‫زوردار طمانچہ ہے۔‬

‫دوسری ج ن گ عظ ی م‬
‫دوسری جنگ عظیم (انگریزی‪ World War II :‬یا ‪ )Second World War‬ایک عالمی جنگ‬
‫تھی جو ‪1939‬ء سے شروع ہوئی اور ‪1945‬ء میں ختم ہوئی۔‬
‫جنگ عظیم کے مختلف‪ /‬مناظر‬

‫تاری یکم ستمبر ‪1939‬ء تا ‪ 2‬ستمبر‬


‫خ ‪1945‬ء‬
‫یورپ بحرالکاہل جنوب مشرقی‬
‫مقام ایشیا مشرق وسطی بحیرہ روم‬
‫افریقا‬
‫اتحادیوں کی فتح۔ اقوام متحدہ کا‬
‫قیام۔ امریکہ اور سوویت یونین کا‬
‫نتیج‬
‫سپر پاور کی حیثیت سے ابھرنا۔‬
‫ہ‬
‫سرد جنگ۔ اتحادیوں کے زیر‬
‫قبضہ ممالک کی آزادی‬
‫متحارب‬
‫‪ ‬برطانیہ‬ ‫جرمنی‬
‫سوویت یونین‬ ‫‪ ‬جاپان‬
‫ریاست ہائے‬ ‫اٹلی و دیگر‬
‫متحدہ امریکہ‬
‫‪ ‬تائیوان‬
‫و دیگر‬
‫قائدین‬

‫‪166 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫ونسٹن چرچل‬ ‫ایڈولف ہٹلر‬
‫جوزف اسٹالن‬ ‫ہیروہیتو‬
‫فرینکلن‬ ‫بینیٹو مسولینی‬
‫روزویلٹ‬
‫چیانگ کائی‪-‬‬
‫شیک‬
‫نقصانات‬
‫فوجی‪ /‬ہالکتیں‪:‬‬ ‫فوجی ہالکتیں‪:‬‬
‫‪17،000،000‬‬ ‫‪8،000،000‬‬
‫شہری ہالکتیں‪:‬‬ ‫شہری ہالکتیں‪:‬‬
‫‪33،000،000‬‬ ‫‪4،000،000‬‬
‫کل ہالکتیں‪:‬‬ ‫کل ہالکتیں‪:‬‬
‫‪50،000،000‬‬ ‫‪12،000،000‬‬

‫آغاز‬
‫دو جنگ عظیم‬
‫پہلی جنگ عظیم – دوسری جنگ عظیم‬

‫جنگ عظیم کا بیج اسی وقت بو دیاگیا تھا جب معاہدہ ورسائی پر دستخط ہوئے تھے۔ لیکن اس کا‬
‫باقاعدہ آغاز ‪ 3‬ستمبر ‪1939‬ء کو ہوا جب پولینڈ پر جرمنی حملہ آور ہوا اور برطانیہ نے جرمنی‬
‫کے خالف اعالن جنگ کردیا۔ ‪1918‬ء سے ‪1939‬ء تک کی یورپین تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو‬
‫معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ اس کا خواہاں تھا کہ ہٹلر زیادہ سے زیادہ طاقت پکڑ جائے۔ اسی غرض‬
‫سے اس نے چیکو سلواکیہ کے حصے بخرے کیے ‪ ،‬اور پھر پورے چیکوسلواکیہ پر جرمنوں کا‬
‫قبضہ ہونے پر بھی برطانیہ خاموش رہا کہ ہٹلر کی حکومت مضبوط ہو جائے تاکہ وہ روس پر‬
‫حملہ کرے۔ مگر جب ہٹلر نے روس پر حملہ کرنے کے بجائے پولینڈ پر حملہ کر دیا تو انگریز‬
‫گھبرا اٹھے اور انھوں نے پولینڈ کی حمایت میں نازی جرمنی کے خالف ہتھیار اٹھاے۔‬

‫واقعات‬
‫‪1939‬ء‬

‫ہٹلر اور مسولینی‬


‫یکم ستمبر ‪1939‬ء کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا۔ ‪ 3‬ستمبر برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے‬
‫خالف اعالن جنگ کیا۔ ‪ 28‬ستمبر جرمنی اور روس میں پولینڈ کی تقسیم کے بارے میں معاہدہ ہوا۔‬
‫‪ 30‬نومبر کو روس نے فن لینڈ پر حملہ کردیا۔ فن لینڈ پر حملے کے بعد جرمنی نے روس کو بھی‬
‫اپنا دشمن بنا لیا‬

‫‪1940‬ء‬
‫‪ 9‬اپریل ‪1940‬ء کو جرمنی نے ڈنمارک پر قبضہ کر لیا۔ اور ناروے پر حملہ کیا۔ ‪ 10‬مئی کو‬
‫جرمنی نے بلیجیم ‪ ،‬ہالینڈ ‪ ،‬اور لکسمبرگ پر حملہ کیا۔انہی دنوں چرچل وزیر اعظم بنا۔‪ 10‬جون کو‬

‫‪167 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬


‫اطالیہ نے فرانس کے خالف اعالن جنگ کیا۔ ‪ 13‬جون جرمنی نے پیرس پر قبضہ کر لیا۔ ‪ 22‬جون‬
‫فرانس نے ہتھیار ڈال دیے۔ ‪ 27‬ستمبر کوجرمنی ‪ ،‬اطالیہ ‪ ،‬جاپان کا سہ طاقتی معاہدہ ہوا۔‬

‫‪1941‬ء‬
‫‪ 14‬اپریل ‪1941‬ء روس اور جاپان نے معاہدہ غیر جانبداری سامنے آیا۔ ‪ 22‬جون کو روس پر‬
‫جرمنی نے حملہ کر دیا۔ ‪ 25‬تا ‪ 29‬اگست برطانیہ اور روس کا ایران پر حملہ اور قبضہ ہوا۔‬
‫‪7‬دسمبر کو جنگ میں اعالن کے بغیر جاپان نے شمولیت اختیار کی۔ ‪ 8‬دسمبر کو جاپان نے امریکا‬
‫کے خالف اعالن جنگ کر دیا۔ ‪ 11‬دسمبر کو جرمنی اور اطالیہ کی طرف سے امریکا کے خالف‬
‫اعالن جنگ کا ہوا۔‬

‫‪1943‬ء‬
‫‪ 26‬جوالئی ‪1943‬ء میں مسولینی کی حکومت کا تختہ الٹ دیاگیا۔ اور وہ گرفتار ہوا۔ ‪ 9‬ستمبر‬
‫‪1943‬ء اطالیہ نے اتحادیوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔مسولینی کو خود عوام نے چوک پر پھانسی‬
‫دینے کے بعد الش کو آگ لگادی۔‬

‫‪1944‬ء‬
‫جون ‪1944‬ء اتحادی فوجیں سرزمین فرانس پر اتریں‪ .‬فرانسیسی فوج نےجرمن فوج سے بری‬
‫طرح شکست کھائی اور ہتھیار ڈال دیے‪ .‬بعد میں سب موت کے گھاٹ اتار دیے گئے‪.‬جرمنی کا‬
‫زوال سٹالن گراڈ کی بھیانک جنگ سے شروع ہوا۔ جرمن فوج بالشبہ کامیاب تھی لیکن سردی اور‬
‫برف باری نے ان کی شکست یقینی بنادی‪ .‬ہزاروں فوجی سردی کی وجہ سے ہالک ہوۓ‪.‬سٹالن‬
‫گرڈ کا قومی ہیرو ‪ Vasili Zaistov‬کو مانا جاتا ہے جوکہ بہترین نشانہ باز تھے‪.‬‬

‫‪1945‬ء‬
‫‪ 28‬اپریل کو مسولینی کو اطالوی عوام نے پھانسی دے دی۔ ‪ 30‬اپریل کو ہٹلر نے خود کشی کر لی۔‬
‫‪ 7‬مئی کو جرمنی نے ہتھیار ڈال دیے۔ ‪ 6‬اگست کو جاپان کے شہر ہیروشیما پر امریکا نے ایٹم بم‬
‫گرایا۔ ‪ 9‬اگست کو جاپان کا دوسرا شہر ناگا ساکی ایٹم بم کا نشانہ بنا۔ ‪ 14‬اگست کو جاپان نے ہتھیار‬
‫ڈال دیے۔‬

‫نتائج‬
‫اس جنگ میں ‪ 61‬ملکوں نے حصہ لیا۔ ان کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا ‪ 80‬فیصد تھی۔ اور‬
‫فوجوں کی تعداد ایک ارب سے زائد۔ تقریبا ً ‪ 40‬ملکوں کی سرزمین جنگ سے متاثر ہوئی۔ اور ‪5‬‬
‫کروڑ کے لگ بھگ لوگ ہالک ہوئے۔ سب سے زیادہ نقصان روس کا ہوا۔ تقریبا ً ‪ 2‬کروڑ روسی‬
‫مارے گئے۔ اور اس سے اور کہیں زیادہ زخمی ہوئے۔ روس کے ‪ 1710‬شہر اور قصبے ۔ ‪70000‬‬
‫گاؤں اور ‪ 32000‬کارخانے تباہ ہوئے۔ پولینڈ کے ‪ ، 600،000‬یوگوسالویہ کے ‪ 1700000‬فرانس‬
‫کے ‪ 600000‬برطانیہ کے ‪ ، 375000‬اور امریکا کے ‪ 405000‬افراد کام آئے۔ تقریبا ً ‪6500000‬‬
‫جرمن موت کے گھات اترے اور ‪ 1600000‬کے قریب اٹلی اور جرمنی کے دوسرے حلیف ملکوں‬
‫کے افراد مرے۔ جاپان کے ‪ 1900000‬آدمی مارے گئے۔ جنگ کا سب سے ظالمانہ پہلو ہیروشیما‬
‫اور ناگاساکی پر امریکا کا ایٹمی حملہ تھا۔ جاپان تقریبا ً جنگ ہار چکا تھا لیکن دنیا میں انسانی‬
‫حقوق کے نام نہاد ٹھیکے دار امریکہ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے الکھوں لوگوں کو‬
‫موت کے گھاٹ اتار دیا۔‬

‫دوسری جنگ عظیم اور برصغیر‬


‫‪168 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬
‫اس جنگ کی وجہ سے جہاں کروڑوں انسانوں کو نقصان ہوا وہی ہندوستان کے لوگوں کو فائدہ ہوا‬
‫آزادی بھی ملی کیونکہ برطانیہ کی معیشت اس جنگ کی وجہ سے کافی کمزور ہو گئی تھی اور وہ‬
‫جنوبی ایشیاء کے کروڑوں لوگوں جو پہلے ہی بپھری ہوئی تھی کو سنبھال نہیں سکتا تھااور اس‬
‫جنگ کی وجہ سے بھارت اور اور پاکستان کی آزادی کی راہ ہموار ہوئی ۔جنگ کے عالمی منظر‬
‫نامے پر دوررس اثرات مرتب ہوئے۔ تاج برطانیہ کا سورج غروب ہوا اور جنگ کے بعد اسے‬
‫اپنے کئی نوآبادیات میں سے نکلنا پڑا جس میں ہندوستان بھی شامل تھا۔‬
‫دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی منظر نامے پر دو بڑی طاقتیں نمودار ہوئیں۔ روس اور امریکا ۔‬
‫ان دو بڑی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ جس کی وجہ سے کئی چھوٹی جنگیں لڑی‬
‫گئیں۔ جدید جمہوری ریاستیں اور کمیونسٹ ریاستیں اس جنگ کے بعد ایک دوسرے کےخالف‬
‫برسرپیکار ہوگئیں۔‬

‫‪169 | P a g e‬‬ ‫)‪Indo Pak HistoryFor PPSC,FPSC(FARAZ KARIM‬‬

You might also like