You are on page 1of 35

‫‪Name : Amara Azhar‬‬

‫‪Rollno :CE523465‬‬

‫سوال نمبر ‪ 1:‬اردو ادبکے حوالے سے عادل شاہی دور کو خاص مقام حاص ل ہ ونے کی کی ا‬
‫وجوہات ہیں؟ تفصیل سے لکھیں۔‬
‫جواب‪ :‬عادل شاہی دور‪ :‬دسویں صدی ہجری میں اردو شاعری کی روایت حسن شوقی‪:‬والدت ‪۹۴۸‬ھ وفات‬
‫‪۱۰۴۲‬ھ اور ‪۱۰۵۰‬ھ کے درمیان متعین کی جاسکتی ہے۔جوالئی ‪۱۹۲۹‬ء میں مولوی عبدالحق مرحوم نے رسالہ‬
‫''اردو'' میں پہلی بار ایک قدیم شاعر کا تعارف شائع کیا اور اس کے ادبی کارناموں پر روشنی ڈال کر اس کی‬
‫دو مثنویوں اور تین غزلوں سے اردو دان طبقے کو روشناس کرایا۔ شاعر کا نام حسن شوق تھا‪ ،‬اس کے بعد آج‬
‫تک ہر تاریخ و تذکرہ میں اس شاعر کا ذکر کیا جاتارہا ہے۔ شہنشاہ اکبر کی فتح گجرات کے بعد وہاں کے اہل‬
‫علم و ادب بھی انھیں دو سلطنتوں میں تقسیم ہو گئے۔ زوال کے بعد حسن شوقی بھی نظام شاہی سے عادل شاہی‬
‫سلطنت میں چال آیا۔ شوقی کا ذکر نہ کسی قدیم تذکرہ میں آتا ہے اور نہ کسی تاریخ میں۔ ہمارے پاس جو کچھ‬
‫سرمایہ ہے وہ اس کی دو مثنویاں اور تیس غزلیں ہیں۔ شوقی نے اپنی غزل کے ایک مقطع میں اپنے نام کا‬
‫اظہار قافیہ کی ضرورت سے اس طرح کیا ہے‪:‬‬
‫جن یو غزل سنایا جلتیاں کو پھر جالیا‬
‫وہ رند ال اُبالی شوقی حسن کہاں ہے‬
‫ابن نشاطی نے ''پھول بن''(‪۱۰۶۶‬ھ) میں شوقی کا ذکر کیا ہے‪:‬‬
‫حسن شوقی اگر ہوتے تو فی الحال‬
‫ہزاراں بھیجتے رحمت ُمجہ اُپرال‬
‫سید اعظم بیجا پوری نے ''فتح جنگ'' میں اس کی سالست بیانی کی تعریف کی اور نصرتی نے ''علی نامہ'' کے‬
‫ایک قصیدہ میں اپنی شاعری کے قد کو حسن شوقی کی شاعری کے قد سے ناپ کر اپنی عظمت کا اظہار کیا‪:‬‬
‫دس پانچ بیت اس دھات میں کے ہیں تو شوقی کیا ہوامعلوم ہوتا شعر گر کہتے تو اس بستار کا ان شواہد کی‬
‫روشنی میں شیخ حسن اور شوقی تخلص ٹھہرتا ہے۔ ان حوالوں سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ وہ اپنے‬
‫زمانے میں مسلم الثبوت استاد کی حیثیت رکھتا تھا اور اس کے مرنے کے بعد دکن کی ادبی فضائوں میں اس کا‬
‫نام گونجتا رہا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ محمد قلی قطب شاہ اور جگت گرو و جانم سے پہلے نظام شاہی‬
‫سلطنت میں اردو کتنی ترقی کر چکی تھی۔ موجود مواد کی روشنی میں حسن شوقی ایک مثنوی نگار اور غزل‬
‫گو کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ حسن شوقی کی غزلیں اس روایت کا ایک حصہ ہیں جس کے مزار پر‬
‫ولی دکنی کی غزل کھڑی ہے۔ ان غزلوں کو جدید معیار سے نہیں دیکھا جا سکتا لیکن یہ غزلیں اپنے مزاج کے‬
‫اعتبار سے جدید غزل کی ابتدائی روایت اور رنگ روپ کا ایک حصہ ہیں۔ حسن شوقی کے ذہن میں غزل کا‬
‫واضح تصور تھا۔ وہ غزلوں کو عورتوں سے باتیں کرنے اور عورتوں کی باتیں کرنے کا ذریعہ اظہار سمجھتا‬
‫تھا۔ سب غزلوں میں بنیادی تصور یہی ہے۔ محبوب کے حسن و جمال کی تعریف کرتاہے اور عشقیہ جذبات کے‬
‫مختلف رنگوں اور کیفیات کو غزل کے مزا ج میں گھالتا مالتا نظر آتا ہے۔ اس کے ہاں غزل کے خیال‪ ،‬اسلوب‪،‬‬
‫طرز ادا پر فارسی غزل کا اثر نمایاں ہے۔شوقی نہ صرف اس اثر کا اعتراف کرتا ہے بلکہ ان‬
‫ِ‬ ‫لہجہ اور‬
‫شاعروں کا ذکر بھی کرتا ہے جن سے وہ متاثرہوا ہے یہاں خسرو و ہاللی بھی ملتے ہیں اور انوری و عنصری‬
‫بھی‪:‬‬
‫حسن شوقی نے بھی فارسی غزل کے اتباع میں سوز و ساز کو اردو غزل کے مزاج میں داخل کیا اور آج سے‬
‫تقریبا ً چار سو سال پہلے ایک ایسا روپ دیا کہ نہ صرف اس کے ہم عصر اس کی غزل سے متاثر ہوئے بلکہ‬
‫آنے والے زمانے کے شعراء بھی اسی روایت پر چلتے رہے۔ ولی کی غزل روایت کے اسی ارتقائی عمل کا‬
‫نتیجہ ہے۔ اپنی غزلوں میں مٹھاس اور گھالوٹ پیدا کرنے کے لیے شوقی عام طور پر رواں بحروں کا انتخاب‬
‫کرتا ہے۔ شوقی کی غزل میں تصور عشق مجازی ہے۔ حسن شوقی کی غزل میں ''جسم'' کا احساس شدت سے‬
‫ہوتا ہے‪ ،‬وصال کی خوشبو اڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ محبوب اور اس کی ادائیں حسن و جمال کی دل‬
‫ربائیاں‪ ،‬آنکھوں کا تیکھا پن‪ ،‬خدوخال کا بانکپن ہوتا ہے‪ ،‬دانت‪ ،‬کلیوں جیسے ہونٹ‪ ،‬ہیرے کی طرح تل‪ ،‬سر و‬
‫قدی‪ ،‬مکھ نور کا دریا‪ ،‬دل عاشق کو پھونک دینے واال سراپا اس کی غزل کے مخصوص موضوعات ہیں۔ حسن‬
‫شوقی کو احساس ہے کہ وہ غزل کی روایت کو نیا رنگ دے کر آگے بڑھا رہاہے۔ ان کے اشعار کے مطالعے‬
‫سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ اردو غزل کی روایت کے وہ ابتدائی نقوش ہیں جہاں غزل کی روایت جم کر ‪ ،‬کھل‬

‫‪2‬‬
‫کر پہلی بار اس انداز میں اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ دسویں صدی کے تین اور شاعروں کے نام ہم تک پہنچتے‬
‫ہیں جن کی استادی کا اعتراف ان کے بعد کی نسل نے کیا ہے۔ میری مراد محمود‪ ،‬فیروز اور مالخیالی سے ہے‬
‫جن کا ذکر محمدقلی قطب شاہ نے اپنی غزلوں میں کیا ہے۔ فیروز‪ ،‬محمود اور مالخیالی گولکنڈہ کے شاعر‬
‫تھے۔ حسن شوقی کی زندگی ہی میں یہ تینوں شعراء وفات پا چکے تھے۔ حسن شوقی نے ان کی روایت کو آگے‬
‫بڑھایا۔ یہ باقاعدہ روایت بن کر شاہی‪ ،‬نصرتی‪ ،‬ہاشمی اور دوسرے شعرا سے ہوتی ہوئی ولی دکنی تک پہنچتی‬
‫ہے۔ یہیں سے غزل کی ایک مخصوص روایت بنی ہے۔ حسن شوقی کا یہ شعر پڑھیے‪:‬‬
‫تجہ نین کے انجن کوں ہو زاہداں دوا نے‬
‫کوئی گوڑ ‪ ،‬کوئی بنگالہ کوئی سامری کتے ہیں‬
‫حسن شوقی کی زبان اس زمانے کی دکن کی عام بول چال کی زبان ہے۔ اس میں ان تمام بولیوں اور زبانوں کے‬
‫اثرات کی ایک کھچڑی سی پکتی دکھائی دیتی ہے جو آئندہ زمانے ایک جان ہو کر اردو کی معیاری شکلیں‬
‫متعین کرتے ہیں۔ یہ ہے قدیم اردو غزل کی روایت کا وہ دھارا جس کے درمیان شوقی کھڑا ہے۔ وہ اپنے اسالف‬
‫سے یہ اثر قبول کرتا ہے اور اسے ایک نیا اسلوب دے کر آنے والے شعرا تک پہنچا دیتاہے۔ یہی وہ اثر ہے جو‬
‫حسن شوقی کو قدیم ادب میں ایک خاص اہمیت کا مالک بنا دیتا ہے۔ شوقی کی غزل میں مشتاق‪ ،‬لطفی‪ ،‬محمود‪،‬‬
‫فیروز اور خیال کے اثرات ایک نئے روپ میں ڈھلتے ہیں اور پھر یہ نیا روپ شاہی‪ ،‬نصرتی ‪ ،‬ہاشمی‪ ،‬اشرف‪،‬‬
‫سالک‪ ،‬یوسف‪ ،‬تائب‪ ،‬قریشی اور ایسے بہت سے دوسرے نامعلوم وگمنام شعراء کے ہاں ہوتا ولی کی غزل‬
‫میںرنگ جماتا ہے۔ اسی رنگ کو دیکھ کر میں اردو کو پاک وہند کی ساری زبانوں کا ''عاد اعظم مشترک'' کہتا‬
‫ہوں۔ (ادبی تحقیق از ڈاکٹر جمیل جالبی) قطب شاہی دور‪ :‬قلی قطب شاہ (‪۱۴‬؍اپریل ‪۱۵۶۵‬ء ۔ ‪ ۱۰‬دسمبر‬
‫‪ ۱۶۱۱‬ئ) آزاد نے ''آب حیات'' میں کیونکہ ولی کو اردو شاعری کا باوا آدم قرار دیا ہے۔ اس لیے مدتوں تک‬
‫غزل کی روایت ‪/‬تاریخ اس سے شروع ہوتی رہی لیکن بعد کی تحقیقات نے اس کو غلط ثابت کیا‪ ،‬چنانچہ اب‬
‫گولکنڈہ کے قطب شاہی خاندان کے حکمران ابوالمظفر محمد علی قطب شاہ کوپہال صاحب کلیات (‪۱۰۲۵‬ھ)‬
‫شاعر سمجھا جاتا ہے۔ یہ گولکنڈہ کے قطب شاہی خاندان کا پانچواں فرمانروا تھا۔ اس کا عہد حکومت ‪ ۵‬جون‬
‫‪۱۵۸۰‬ء سے ‪ ۱۰‬دسمبر ‪۱۶۱۱‬ء تک رہا۔ اس نے دکھنی کے عالوہ فارسی اور تیلگو میں مال کر کل نصف الکھ‬
‫اشعار کہے۔ ڈاکٹر سیدہ جعفری نے لکھا ہے محمد قلی کا کالم اردو ادب میں جنسی شاعری کا پہال نمونہ ہے۔‬
‫محمد قلی نے اپنے اشعار میں اپنی محبوبائوں اور پیاریوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی خصوصیات کو ظاہر‬
‫کرنے اور ان کی شخصیت کے خدوخال کو واضح کرنے کے لیے جنسیات کی بعض اصطالحوں سے مدد لی‬
‫ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کی شاعری پر جس طرح غزل غالب ہے اسی طرح اس کی غزل پر عورت غالب ہے۔‬
‫اس کی شاعری ہندوانہ رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ عورت کے حسن اور جسم سے وہ کرشن کی طرح کھیلتا‬
‫ہے۔ اُس کی غزلیں یا غزل نما نظمیں اپنے مجموعی تاثر کے لحاظ سے ہمارے خیال کو تھوڑی دیر کے لیے‬

‫‪3‬‬
‫عرب شاعری کے تصور محبوب کی جانب لے جاتی ہیں۔ جس میں جسم وجنس کے عنصر کے غلبے کے ساتھ‬
‫ساتھ کھل کر نام لینے کی روایت بھی ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کا تینتیس سالہ دور اپنی ادبی سرگرمیوں‪ ،‬علمی‬
‫کاوشوں اور فنی و تخلیقی کاموں کی وجہ سے ہمیشہ یاد گار رہے گا۔ قطب شاہی کا یہ زریں دور ہے۔ جس پر‬
‫ب دیوان‬
‫اردو و تلنگی شاعری کی تاریخ ہمیشہ فخر کرتی ہے۔ محمد قلی ایک پُرگو اور اردو زبان کا پہال صاح ِ‬
‫شاعر ہے۔ تاریخی و تہذیبی اہمیت سے ہٹ کر محمد قلی کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں اس کی‬
‫دلچسپی کے د و مرکز نظر آتے ہیں۔ ایک مرکز ''مذہب'' ہے اور دوسرا ''عشق'' ہے۔ مذہب اس لیے عزیز ہے‬
‫کہ اس کی مدد سے زندگی‪ ،‬حکومت‪ ،‬دولت ‪ ،‬عروج اور دنیوی اعزاز حاصل ہوا ہے اور عشق اس لیے عزیز‬
‫ہے کہ اس سے زندگی میں رنگینی اور لذت حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے عشق و مذہب دونوں ساتھ ساتھ چلتے‬
‫نبی کے قطب شاہ جم جم کرو مولود تم حیدر کی برکت تھی سدا جگ اُپر فرمان کرو در نظر‬
‫ہیں۔ صدقے ؐ‬
‫سامنے نہیں ہے یار نین پانی تیرتا دلدار شاعری کی حیثیت سے وہ حسن کا پرستار ہے‪ ،‬قدرتی مناظر کا حسن‪،‬‬
‫عورتوں کا حسن و جمال اور مختلف رسومات کے حسین پہلو اس کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ اردو کی پہلی‬
‫ب دیوان شاعرہ دکن ہی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ بھی اسی‬
‫صاح ِ‬
‫عالقے کی تھی۔ اس ضمن میں نصیرالدین ہاشمی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫''اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ'' ماہ لقاچندا (‪۱۱۸۱‬ئ۔ ‪۱۲۴۰‬ئ) سمجھی جاتی تھی۔ اس کا دیوان پہلی‬
‫مرتبہ (‪۱۲۱۳‬ھ۔ ‪۱۷۹۸‬ئ) میں مرتب ہوا ہے جو انڈیا آفس لندن کے کتب خانہ میں محفوظ• ہے۔ شفقت رضوی‬
‫نے ''دیوان ماہ لقاچندا بائی'' مرتب کر کے شائع کر دیا ہے۔ (الہور‪۱۹۹۰ :‬ئ) چندا اپنے وقت کی امیر ترین‬
‫خواتین میں شمار ہوتی تھی۔ فن موسیقی‪ ،‬رقص اور محفل آرائی کے فن میں طاق تھی‪ ،‬عمر بھر شادی نہ کی‪،‬‬
‫شاعری ‪ ،‬تاریخ‪ ،‬شہ سواری‪ ،‬تعمیرات سے خصوصی شغف تھا۔ نواب میر نظام علی خان آصف جاہ ثانی کی‬
‫منظور نظر تھی۔ اس لیے چھوٹے موٹے کو منہ نہ لگاتی۔ الغرض تمام دکن میں اس کی شہرت تھی۔ حیدرآباد‬
‫میں اپنا مقبرہ خود تعمیر کروایا۔ چنانچہ انتقال کے بعد اس میں دفن ہوئی۔ چندا کا دیوان ‪ ۱۲۵‬غزلوں پر مشتمل‬
‫ہے اور ہر غزل میں پانچ پانچ اشعار ہیں اور یہ مختصر دیوان اس کی تخلیقی شخصیت کا عکاس ہے۔ غزل‬
‫حسب رواج مردانہ انداز و اسلوب میں کہتی تھی لیکن کبھی کبھی اشعار میں نسوانیت بھی آ جاتی ہے مگر‬
‫ریختی والی کجرو نسوانیت نہیں۔ ثابت قدم ہے جو کوئی چندا کے عشق میں صفت میں وہ عشق بازوں کے‬
‫ساالر ہی رہا ان کو آنکھیں دکھا دے ٹک ساقی چاہتے ہیں جو بار بار شراب مالیا کر تو اس کی انکھڑیوں سے‬
‫آنکھ کم نرگس نہ کر یوں دیدہ و دانستہ اپنے پرستم نرگس اب جدید انکشاف سے پہلی صاحب دیوان شاعرہ لطف‬
‫النساء امتیاز قرار دی جانی چاہیے کیونکہ اس کا دیوان ‪ ۱۲۱۲‬ھ میں یعنی چندا کے دیوان سے ایک سال پہلے‬
‫مرتب ہوا ہے۔ لطیفہ یہ کہ تخلص کی بنا پر پہلے اسے مرد سمجھا جاتا رہا لیکن بعد میں اس کی مثنوی ''گلشن‬
‫شعرائ'' کی دستیابی سے علم ہوا کہ امتیاز عورت ہے۔ نصیرالدین ہاشمی کے بقول امتیاز کے شوہر کانام اسد‬

‫‪4‬‬
‫علی تمنا تھا۔ یہ وہی شاعر ہے جس نے ''گل عجائب '' کے نام سے ''تذکرہ شعرائ'' ‪۱۱۹۴‬ھ میں مرتب کیا۔‬
‫دیوان کے بارے میں نصیرالدین ہاشمی نے یہ معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ ‪ ۱۵۶‬صفحات پر مشتمل دیوان میں ‪۹۵‬‬
‫صفحات پر غزلیں ہیں۔ غزل کی زبان صاف اور مضامین روایتی ہیں جبکہ بات مردانہ لب و لہجہ میں کی جاتی‬
‫ہے شاید اسی لیے پہلے اسے مرد جاناگیا۔ نمونہ کالم مالحظہ ہو!‬
‫شور صحرا میں مرے آنے کی کچھ دھوم سی ہے‬
‫عمل قیس کے اُٹھ جانے کی کچھ دھوم سی ہے‬
‫منہ پہ جب زلف کج خمدار جھکا صبح روشن پہ گویا ابر گہر بار جھکا‬

‫س وال نم بر ‪ : 2‬اردو ادب کی ت اریخ میں ولی دک نی کے کلی ات ک و کی ا اہمیت حاص ل ہ یے؟‬
‫وضاحت کریں۔‬
‫جواب‪ :‬اردوئے قدیم کے کئی شعرا کی طرح ولی کی زندگی کے تفص••یلی ح••االت اب ت••ک معل••وم نہیں ہوس••کے‬
‫ہیں۔ اس کے باوجود مطالعہ ولی کے در کھلے ہوئے ہیں ‪ ،‬کیوں کہ کسی بھی فنکار کی شناخت اس کے فن سے‬
‫ہوتی ہے۔ نہ کہ ان کے خاندانی حاالت اور نجی زندگی کے واقعات سے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک زمانے ت••ک ولی‬
‫کو اردو شاعری کا باوا آدم کہا جاتا رہا ہے۔ مگر‪  ‬تحقیق و تنقید نے علم و ادب کی کئی الجھی ہ••وئی گتھی••وں ک••و‬
‫سلجھا دیا اور کئی پس پشت پڑے شعرا و ادبا کو سامنے ال کر بٹھا دیا۔ اور واضح کر دیا کہ ولی اردو کے پہلے‬
‫شاعر نہیں ہیں۔ مگر یہ خیال آج بھی اتن••ا ہی درس••ت ہے کہ ولی نہ ص••رف دکن کے بلکہ اردو کے پہلے اہم اور‬
‫بڑے شاعر ہیں کیوں کہ ان کے یہاں زبان و بیان کی نفاست سے لے کر شعری لطافت تک کی تمام خوبیاں پ••ائی‬
‫جاتی ہیں۔ اور یہ بھی درست ہے کہ انہیں کے چراغ فن سے شمالی ہند میں اردو ش••اعری ک••ا چ••راغ روش••ن ہ••وا۔‬
‫ولی کے بارے میں دکنی اور گجراتی ہ•ونے ک•ا جھگ••ڑا آج ت•ک ج•اری ہے کی••وں کہ ان کی ابت•دائی زن•دگی کے‬
‫ؔ‬
‫بارے میں جس قدر معلومات حاصل ہوسکی ہیں ان پر علماء ادب پوری طرح متفق نہیں ہیں۔ س••چ ت••و یہ بھی ہے‬
‫کہ چند دہائی پہلے تک تو لوگ ولی کے بارے میں بعض بنیادی باتیں بھی نہ جانتے تھے ح••تی کہ ان کی تعلیم و‬
‫تربیت‪ ،‬گھر خاندان‪ ،‬اور والدین کے بارے میں بھی ک••وئی ٹھ••وس معلوم••ات نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پروفیس••ر‬
‫سید احتشام حسین نے اپنی کتاب ’’اردو ادب کی تنقیدی تاریخ‘‘ میں اس طرح کی کسی چیز کا ذکر نہیں کیا ہے۔‬
‫وہ لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫’’ابھی کچھ دن پہلے تک ولی کے بارے میں بھی بہت تھوڑی سی معلومات ملتی تھیں مگ••ر اب ج••و تحقیقی ک••ام‬
‫ہوئے ہیں ان کی وجہ سے ان کے نام جائے پیدائش وفات وغیرہ کی نسبت کچھ باتیں معلوم ہو گ••ئی ہیں۔ ح••االنکہ‬
‫ان کے دکنی یا گجراتی ہونے کی بحث اب بھی ختم نہیں ہوئی۔ احتشام ص••احب کے اس اقتب••اس س••ے واض••ح ہے‬

‫‪5‬‬
‫کہ وہ جن چیزوں کے معلوم ہو جانے کا ذکر کر رہے ہیں ان پر خود ان کو اعتب••ار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ‬
‫ولی دکنی کا ن••ام اور اس کے ج••ائے پی•دائش کے ب••ارے میں کچھ نہیں لکھ••تے ہیں۔ اور یہ بھی کہہ دی••تے ہیں کہ‬
‫دکنی اور گجراتی کا معاملہ اب بھی زیر بحث ہے۔ بہرحال بعد میں چند لوگوں نے ولی پر بہت گرانق••در ک••ام کی••ا‬
‫اور بہت سی معلومات فراہم کیں۔ اور تسلیم کر لیا گیا کہ ولی کا نام ولی محمد تھا اور ان کے وال••د ک••ا ن••ام موالن••ا‬
‫شریف محمد تھا جو گجرات کے مشہور بزرگ شاہ وجیہ الدین کے بھ•ائی ش•اہ نص•رہللا کی اوالد میں س•ے تھے۔‬
‫ولی ‪۱۶۴۹‬ء سے قبل اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ یہ ب••ات ح••یرت انگ••یز کہی ج••ائے گی کہ ان کی ج••ائے پی••دائش‬
‫کے بارے میں قیاس آرائی کے باوجود یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کی ابتدائی تعلیم کہاں ہوئی۔ البتہ یہ ب••ات متفقہ‬
‫طور پر مان لی گئی ہے کہ ولی کو حصول علم کا بہت شوق تھا اسی شوق کی تکمیل کے ل••یے انہ••وں نے احم••د‬
‫آباد سے نکل کر سورت دلی اور گجرات وغیرہ کا سفر کیا اور عالموں ‪ ،‬ص••وفیوں اور دیگ••ر اہ••ل علم حض••رات‬
‫سے مل کر اپنی علمی پیاس بجھائی۔ ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫’’ولی نے احمد آباد میں شاہ وجیہ الدین کی خانقاہ• کے مدرس•ے میں تعلیم پ•ائی اور وہیں ش•اہ ن•ور ال•دین ص•دیقی‬
‫سہروردی کے مرید ہو گئے۔‘‘‬
‫(نورالحسن ہاشمی۔ مقدمہ کلیات ولی۔ ص‪)۱۱‬‬
‫نورالحسن صاحب کی فراہم کردہ معلوم••ات کی تائی••د کالم ولی س••ے بھی ہ••وتی ہے اور دوس••رے دانش••وروں کے‬
‫اقوال سے بھی ظہیر الدین مدنی لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫’’اس کی شخصیت جامع کماالت تھی وہ اپنے ادبی کارناموں میں کسی جگہ عالم و فاضل مصلح و مشیر صوفی‬
‫و صافی کی حیثیت سے رونما ہوتا ہے اور کہیں ادیب و انشا پ••رداز اور مجتہ••د العص••ر دکھ••ائی دیت••ا ہے۔ ‘‘ ولی‬
‫کی شاعری میں جا بجا قرآن و اح••ادیث س••ے متعل••ق واقع••ات ک••ا عکس بکھ••را پ••ڑا ہے۔ وہ اپ••نے وقت کے بیش••تر‬
‫م••روج عل••وم س••ے واق••ف تھے۔ اور تص••وف میں بھی دلچس••پی لی••تے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ش••اعری کے‬
‫متنوع رنگوں میں تصوف کا رنگ بھی شامل ہے۔ اور غالبا ً تصوف نے ہی انہیں حسن شناس و حسن پرست بنایا‬
‫تھا اور سیر و سیاحت جس کا ولی کو بہت شوق تھا نے مسائل حی••ات س•ے واق••ف کرای••ا اور زن•دگی کے مختل•ف‬
‫رنگوں کا شعور و ادراک بخشا۔ ولی نے حج بیت ہللا کا شرف بھی حاصل کیا تھا بعض لوگوں ک••ا کہن••ا ہے کہ وہ‬
‫اسی سلسلے میں سورت گئے تھے۔ کیوں کہ اس زمانے میں حج کو جانے کے لیے سورت ای••ک اہم راس••تہ تھ••ا۔‬
‫لیکن ان کی سیر وسیاحت اور اسفار میں دلّی کے سفر کو خصوصی اہمیت حاص••ل ہے۔ کی••وں کہ اس••ی س••فر نے‬
‫انہیں اردو شاعری کے باوا آدم کے طور پر لوگوں سے متعارف کرایا اور شمالی ہند میں اردو شاعری اور ادبی‬
‫تاریخ کا نیا باب کھال۔ دہلی کا یہ سفر انہوں نے ‪۱۷۰۰‬ء میں اپنے دوس••ت س••ید ابوالمع••الی کے س••اتھ کی••ا۔ جب وہ‬
‫دلّ ی پہونچے تو وہاں کے مشہور صوفی شاعر سعدہللا گلشن سے بھی ملے جو پہلے ہی سے ان کے ل••یے مرش••د‬
‫کی سی حیثیت رکھتے تھے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ولی نے سعدہللا گلشن ہی کے کہنے پر فارس••ی افک••ار و‬

‫‪6‬‬
‫خیاالت کو اردو شاعری کے قالب میں ڈھالنے کا کام کیا اس سلسلے میں میر تقی میر کا نام لی••ا جات••ا ہے جنہ••وں‬
‫نے نکات الشعرا میں لکھا ہے کہ‪:‬‬
‫’’ایں ہمہ مضامین فارسی کہ بیکار افتادہ اند در ریختہ خود بکار۔‘‘‬
‫ولی کی عظمت ک••ا راز محض اس ب••ات میں مض••مر ہے کہ انہ••وں نے فارس••ی میں‬
‫اب سوال یہ اٹھت••ا ہے کہ کی••ا ؔ‬
‫بیکار پڑے افکار و خیاالت کو اردو الفاظ کا جامہ پہنا دیا۔ جب کہ دوس••را س••وال اس س••ے بھی مش••کل ہے۔ یع••نی‬
‫کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص دوس••رے کے افک••ار و خی••االت ک••و اپ••نے الف••اظ میں پیش ک••ر کے ب••ڑا ش••اعر بن‬
‫جائے۔ وہ بھی اتنا بڑا کہ صدیوں تک لوگوں کو متاثر کرتا رہے؟ جواب یقینا ً نفی میں ہو گا مگ••ر ان س••والوں پ••ر‬
‫رک کر یہاں تفصیلی گفتگو ممکن نہیں ہے۔ آئیے پہلے ہم یہ دیکھ لیں کہ ولی کے بارے میں تذکرہ نگ••اروں ‪ ،‬ہم‬
‫ولی اپنے آپ کو کیا س••مجھتے ہیں۔ ہم‬
‫عصر شعرا ‪ ،‬اور بعد کے ناقد کیا رائے رکھتے ہیں ‪ ،‬اور یہ بھی کہ خود ؔ‬
‫ولی کی عظمت کا اعتراف صرف ان کے ہمعصروں نے ہی نہیں کیا ہے۔ بلکہ ہ•ر عہ•د کے ب•ڑے‬
‫جانتے ہیں کہ ؔ‬
‫سے بڑے ناقد نے ان کی عظمت کا اقرار کیا ہے۔ مصحفی اپنے تذکرہ ہندی میں لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫ولی کا دیوان جلوس محم••د ش••اہی کے دوس••رے س••ال میں دلّی پہونچ••ا اور وہ••اں کے ش••عرا نے اس میں وہ‬
‫’’جب ؔ‬
‫رنگ و نور دیکھا جس کے دیکھنے کو ان کی آنکھیں ترستی تھیں تو انہوں نے بھی فارسی کو چھ••وڑ ک••ر اس••ی‬
‫رنگ سخن کی پیروی شروع کر دی۔ ‘‘‬
‫میر حسن نے ’’تذکرہ شعرائے ہندی‘‘ میں ریختہ کی اولیت کا سہرا ولی کے س••رباندھا ہے اور انہیں ک••و اس فن‬
‫کا استاد کامل اور استاد اول قرار دیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫’’ابتدائے ریختہ از اوست اول استادی ایں فن بنام اوست‘‘‬
‫محمد حسین آزاد جن کی کتاب ’’آب حیات‘‘ تذکرہ نگاری اور تنقی••دی ت••اریخ کی درمی••انی ک••ڑی کی س••ی حی••ثیت‬
‫رکھتی ہے اور اپنی گوناگوں خوبی••وں کی وجہ س••ے تحقی••ق و تنقی••د کے اتن••ا آگے نک••ل ج••انے کے ب••اوجود قاب••ل‬
‫استفادہ سمجھی جاتی ہے ‪ ،‬اس میں لکھتے ہیں کہ‪’’ :‬جب ان کا دیوان دلّی پہونچا تو اشتیاق نے ادب کے ہ••اتھوں‬
‫پر لیا قدر دانی نے غور کی آنکھوں سے دیکھا لذت نے زبان سے پڑھا گیت موقوف ہ••و گ••ئے ق••وال مع••رفت کی‬
‫محفل میں انہیں کی غزلیں گانے اور بجانے لگے ارباب نشاط یاروں کو سنانے لگے جو طبیعت موزوں رکھتے‬
‫تھے انہیں دیوان بنانے کا شوق ہوا۔‘‘‬
‫ولی کی شاعری نے تمام لوگوں کو مسحور ک••ر دی••ا اور دلّی‬
‫محمد حسین آزاد کے اس اقتباس سے واضح ہے کہ ؔ‬
‫فتح کر لی۔ یہی وجہ تھی کہ ق••وال بھی ان کی غ••زلیں گ•انے پ•ر مجب•ور ہ•و گ•ئے۔ ح••د یہ کہ ولی کی غزل•وں نے‬
‫گیتوں کی مقبولیت کو بھی مات دے دیا۔ گویا ولی کی شاعری میں ع•وامی حس••یت ک••و انگیخت ک••رنے کے عالوہ‬
‫ثقافت کی روح کو معطر کرنے کی خوبی بھی پائی جاتی ہے۔ اسی لیے دکن سے شمال تک ولی ک••ا ڈنک••ا بج••نے‬
‫لگا۔ اور بات بھی کچھ یوں ہے کہ اردو شاعری اپنی جن خوبیوں اور ف••نی ل••وازم کے ل••یے ج••انی ج••اتی ہے۔ اور‬

‫‪7‬‬
‫جس طرح کے تالزموں اور ص••نعتوں کے ل••یے ممت••از س••مجھی ج••اتی ہے وہ تم••ام چ••یزیں ولی کی ش••اعری میں‬
‫بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اردو کا عبقری فنکار قرار دیا جاتا ہے۔ نورالحس••ن ہاش••می جنہیں‬
‫ماہر ولی کے طور پر بھی یاد کی••ا جات••ا ہے اپ••نی کت••اب ’’ہندوس••تانی ادب کے معم••ار۔ ولی‘‘ کے پہلے ب••اب کے‬
‫آغاز میں لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫ولی نے اردو ش•اعری ک•و ف•روغ دی•نے میں اس•ی ط•رح‬
‫’’ولی کا موازنہ اکثر چاسر سے کی•ا جات•ا ہے کی•وں کہ ؔ‬
‫ؔ‬
‫کامیابی حاصل کی جس طرح چاسر نے انگریزی کے فروغ دینے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ یع••نی انہ••وں نے‬
‫ایسا طریقہ بیان ایسے لسانی ان•داز کے س••اتھ وض•ع کی•ا ج••و نہ ص•رف دکن بلکہ ش•مالی ہن•د میں بھی قاب•ل قب••ول‬
‫سمجھا گیا۔‘‘‬
‫ولی کو چاسر کا ہم پلّہ قرار دینا محض خ•وش عقی•دگی کی ب•ات نہیں ہے بلکہ ای•ک حقیقی ص•ورتحال کی تق•ابلی‬
‫ؔ‬
‫وضاحت کی اچھی کوشش ہے۔ کی••وں کہ یہ حقیقت ہے کہ ولی کی ش••اعری س••ے پہلے ل••وگ اردو زب••ان ک••و اس‬
‫قابل نہیں سمجھتے تھے کہ اس میں باضابطہ طور پر شاعری کریں۔ فارسی ک••ا ب••ڑا غلبہ تھ••ا۔ اور اش••رافیہ طبقہ‬
‫کے لوگ فارسی ہی کو علمی زبان سمجھتے تھے۔ فارسی زبان و ادب کا زبردست دبدبہ تھا۔ جو لوگوں ک••و اردو‬
‫ولی کا اردو زبان میں شاعری کرنا وہ بھی نہ••ایت خ••ود‬
‫کو ہیچ سمجھنے پر مجبور کر رہا تھا۔ ایسے ماحول میں ؔ‬
‫اعتمادی اور خالقی کے بہترین جوہر کے ساتھ اپنے آپ میں ایک نادر مثال تھا۔ انہوں نے ہندوی یا دکنی ہن••دوی‬
‫اور فارسی کے آمیزے سے ایک ایسی زبان کی تشکیل کی جو اردو کے ن•ام س•ے ج••انی گ•ئی اور اپ•نی ش•یرینی‬
‫ولی کے فک••ر و‬
‫اور تازگی و توانائی کی وجہ سے بہت جلد دلوں پر راج کرنے لگی۔ پروفیسر وہاب اش••رفی نے ؔ‬
‫فن اور ثقافتی ورثے سے گہری وابستگی کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ‪:‬‬
‫’’ولی جب دہلی آئے ت••و اپ••نے س••اتھ اپ••نی ثق••افت ک••ا س••رمایہ بھی س••اتھ الئے اس س••رمائے میں ای••رانی س • ّکے (‬
‫ؔ‬
‫‪) IDIOMS‬کم سے کم تھے ایسا نہیں ہے کہ ولی سے پہلے دکنی عالقے میں فارسی اور فارس••ی ش••اعری س••ے‬
‫لوگ واقف نہیں تھے لیکن یہاں کے شعرا کی جڑیں اپنے لس••انی نظ••ام میں تھیں ج••و دوس••رے لس••انی نظ••ام س••ے‬
‫متصادم نہیں ہوئی تھیں۔ ادھر شمال میں بیرونی تسلّط کے سبب اشرافیہ ریختہ سے زیادہ فارسی پر زور دے رہا‬
‫تھا‪ ،‬ولی کے پاس مقامی وراثت تو تھی ہی جب انہیں ریختہ کہنے کی ہدایت کی گئی تو ان کے مقامی• رن••گ ک••و‬
‫ایک اور سمت مل گئی‪ ،‬فارسی نے ان کی مدد کی اور شمال کے ڈکشن نے ان کے رنگ کو مزید چوکھا کر دیا‪،‬‬
‫گویا اسلوب اور ڈکشن ک•ا یہ منظ•ر ن•امہ ج•و ولی کے یہ•اں ہے اس ثق•افتی وس•عت ک•ا ن•تیجہ ہے جس کی ج•ڑیں‬
‫ہندوستان کے ایک وسیع عالقے سے لے کر ایران تک پھیلی ہوئی ہیں۔ (معنی کی جبلت۔ ص ‪)۱۱۱‬‬
‫ولی کے یہاں جس ہند ایرانی ثقافت کی بات کہی ہے اس کی خوشبو ولی کی شاعری میں پوری‬
‫وہاب اشرفی نے ؔ‬
‫طرح رچی بسی ہوئی ہے جس کا اندازہ ان کی شاعری کے مط••العے س••ے بخ••وبی لگای••ا جاس••کتا ہے۔ فی ال••وقت‬
‫مثال کے لیے ایک شعر دیکھیے۔‬

‫‪8‬‬
‫ترا مکھ مشرقی ‪ ،‬حسن انوری ‪ ،‬جلوہ جمالی‬
‫نین جامی• ‪ ،‬جبیں فردوسی ‪ ،‬و ابرو ہاللی‬
‫ظاہر ہے کہ جو ش••اعر اپ••نے محب••وب کی خوبص••ورتی کی تعری••ف فارس••ی کے اہم ش••عرا فردوس••ی‪ ،‬ج••امی‪ ،‬اور‬
‫انوری وغیرہ کے تخلص کو تشبیہ میں بدل کر کرتا ہو‪ ،‬اسے ہند ایرانی تہ••ذیب اور فارس••ی زب••ان و ادب ک••ا کتن••ا‬
‫گہرا شعور ہو گا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ غالبا ً ولی کی انہیں حیرت انگیز خوبیوں کی وجہ سے نی••ا پران••ا‬
‫غرض ہر عہد کا بڑے سے بڑا اور اہم ناقد اس کی تعریف کرنے پر مجبور ہے۔ ڈاک••ٹر جمی••ل ج••البی ت••اریخ ادب‬
‫اردو میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫’’یہ بات یاد رہے کہ آگے چل کر جتنے رجحانات• نمایاں ہوئے وہ خ••واہ عش••قیہ ش••اعری ک••ا رجح••ان ہ•و ی••ا ابہ••ام‬
‫پسندی کا لکھنوی شاعری کی خارجیت اور مسی چوٹی والی شاعری ہو مسائل تصوف کے بیان والی شاعری ہو‬
‫یا ایسی شاعری ہو جس میں داخلیت اور رنگارنگ تجربات کا بیان ہو یا اصالح زبان و بیان کی تحریک ہو س••ب‬
‫ولی ہے۔‘‘‬
‫کا مبدا ؔ‬
‫شمس الرحمن فاروقی کا ایک اقتباس پروفیسر خالد محمود نے نقل کیا ہے کہ‪:‬‬
‫ولی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قطعی طور پر اور ہمیشہ کے لیے ثابت ک••ر دی••ا کہ گج••ری اور‬
‫ؔ‬
‫دکنی کی طرح ہندی‪ /‬ریختہ میں بھی بڑی ش••اعری کی ص••الحیت ہے۔ ولی نے یہ بھی دکھ••ا دی••ا کہ ریختہ ‪/‬ہن••دی‬
‫میں یہ بھی قوت ہے کہ وہ سبک ہندی کی فارسی شاعری پر فوقیت لے جاسکتی ہے یا کم سے کم اس کے ش••انہ‬
‫بشانہ تو چل ہی سکتی ہے۔ تشبیہ اور پیکر کی نفاست ہ•و ی•ا اس•تعارے کی وس•عت تجری•د اور پیچی•دگی مض•مون‬
‫آفرینی ہو یا معنی آفرینی ریختہ‪ /‬ہندی فارسی سے ہرگز کم نہیں۔ ان کا دوس••را ب••ڑا کارن••امہ یہ تھ••ا کہ انہ••وں نے‬
‫اردو کے شعرا کو ایک نئی شعریات کے احساس اور وج••ود س•ے آش•نا کی•ا۔ اس ش•عریات میں سنس••کرت‪ ،‬س•بک‬
‫ہندی اور دکنی تینوں کے دھارے آ کر ملتے ہیں۔‘‘‬
‫ڈاکٹر شارب ردولوی نے ’’مطالعہ• ولی تنقید و انتخاب‘‘ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ‪:‬‬
‫’’سادگی روانی رنگینی سرخوش••ی نش••اطیہ کیفیت تش•بیہات واس•تعارات کی ج••دت مع•نی آفری•نی ت••اثرات حس•یت‪،‬‬
‫متنوع رمزیت اور ہندوستانی عنصر و فارسی ک••ا خوبص••ورت ام••تزاج ولی ک••ا فن ہے۔ جس س•ے ان کے کالم ک••ا‬
‫بیشتر حصہ روشن ہے۔ ‘‘‬
‫ڈاکٹر سید عبدہللا کہتے ہیں کہ‪:‬‬
‫حق یہ ہے کہ حکیمانہ گہرائی دردمندی اور سوزوگداز کی کمی کے باوجود ان کا کالم بڑا خوش رنگ و خ••وش‬
‫گوار ہے۔ بہار آفریں الفاظ خوب صورت تراکیب گ••ل و گلگش•ت کی تک••رار حس••ن کے ت••رانے اور نغمے مناس••ب‬
‫بحروں کا انتخاب اور اسالیب فارسی سے گہری واقفیت اور ان سے استفادہ ان سب ب••اتوں نے ولی ک••و ای••ک ب••ڑا‬
‫رنگین شاعر بنا دیا ہے۔ عابد علی عابد تو پوری اردو شاعری کے تناظر میں ص••رف ولی ہی ک••و کالس••ک ق••رار‬

‫‪9‬‬
‫دیتے ہیں۔ بہرحال ان اقوال و اقتباسات سے اتنا تو واضح ہوہی جاتا ہے کہ اردو کے تقریبا ً تمام اہ••ل فک••ر و نظ••ر‬
‫ولی کی عبقریت کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کی شاعرانہ انفرادیت کے قائل ہیں۔ اس کے باوجود کہنا پڑتا ہے۔ کہ‬
‫ولی پر جتنا اور جس نوعیت کا کام ہونا چاہیے نہیں ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پ••ر ولی پ••ر ایس••ا بھرپ••ور‬
‫ؔ‬
‫مقالہ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے جس کے پڑھنے کے بع••د تش••نگی ک••ا احس••اس نہ ہوت••ا ہ••و۔ ح••االنکہ کہ ولی کی‬
‫عظمت اور استادی کو تذکرہ نگاروں ‪ ،‬محققوں ‪ ،‬اور ناقدوں کے عالوہ شعرا نے بھی سالم کی••ا ہے اور ک••ئی اہم‬
‫شعرا نے ان سے فیضیاب ہونے کا بھی اعتراف کیا ہے اس کے باوجود مط••العہ ولی کے ب••اب میں کہیں نہ کہیں‬
‫ایک آنچ کی کمی محسوس ہ•وتی ہے۔ لیکن ان ب••اتوں س•ے پہلے آئ•یے یہ دیکھ•تے چلیں کہ ش•عرا نے کس ط••رح‬
‫ولی کی استادی کا اعتراف کیا ہے اور اس کی تقلید کو کیوں کر باعث افتخار سمجھا ہے۔ داؤد اورنگ آبادی ولی‬
‫سے اتنے متاثر تھے کہ وہ خود کو ولی ثانی کہا کرتے تھے۔ ایک شعر دیکھئے۔‬
‫حق نے بعد از ولی مجھے داؤد‬
‫صوبہ شاعری بحال کیا‬
‫حاتم نے ’’دیوان زادہ‘‘ کے دیباچے میں ولی کے مقابلے اپنی کمتری کا برمال اظہار کی••ا ہے۔ چن••انچہ وہ کہ••تے‬
‫ہیں کہ‪:‬‬
‫حاتم بھی اپنے دل کی تسلی کوں کم نہیں‬
‫لیکن ولی ولی ہے جہاں میں سخن کے بیچ‬
‫حاتم کا یہ شعر پہلے مصرعہ کی تبدیلی کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے۔ شعر دیکھئے۔‬
‫حاتم یہ فن شعر میں کچھ تو بھی کم نہیں‬
‫لیکن ولی ولی ہے جہاں میں سخن کے بیچ‬
‫شاہ مبارک آبرو جو اپنے وقت کے اہم شعرا میں شمار ہوتے ہیں انہوں نے بھی ولی ک••و خ••راج عقی••دت پیش کی••ا‬
‫ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ‪:‬‬
‫آبرو شعر ہے ترا اعجاز‬
‫جوں ولی کا سخن کرامت ہے‬
‫سراج اپنی عشقیہ شاعری کے لیے بہت ہی ممتاز سمجھے جاتے ہیں اور وارفتگی و سرشاری کے مع••املے میں‬
‫ولی سے بھی افضل قرار دیئے جاتے ہیں وہ بھی ولی کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں ‪:‬‬
‫تجھ مثال اے سراج بعد ولی‬
‫کوئی صاحب سخن نہیں دیکھا‬
‫خدائے سخن میر تقی میر جن کی عظمت کا ہر کوئی قائل ہے اور جو اپنے مقام و مرتبہ سے پوری طرح واق••ف‬
‫ہیں اور کہتے ہیں کہ‬

‫‪10‬‬
‫سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا‬
‫مستند ہے میرا فرمایا ہوا‬
‫وہ بھی ولی کی استادی کا اقرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ‬
‫خوگر نہیں کچھ یونہی ہم ریختہ گوئی کے‬
‫معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا‬
‫غالبا ً انہیں وجوہات کے پیش نظر جمیل جالبی نے تاریخ ادب اردو جلد اول صفحہ ‪ ۵۸۹‬میں لکھا ہے کہ‪:‬‬
‫’’ولی نے قدیم ادب کی روایت کے زندہ عناصر کو اپنے تصرف میں ال کر فکر و اظہار کی س••طح پ••ر ای••ک نی••ا‬
‫معیار قائم کیا جو ریختہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ وہ نئی س•طح تھی جہ••اں ش•مال‪ ،‬جن•وب‪ ،‬اور س••ارے‬
‫ب ّر اعظم کے تخلیقی ذہنوں کی آرزوئیں تکمیل پا رہی تھیں ‪ ،‬ولی کا یہ معیار ریختہ اتنا مقبول ہوا کہ س••ورت کے‬
‫عبدالولی‪ ،‬عزلت‪ ،‬دکن کے داؤد‪ ،‬سراج گجرات کے یوسف زلیخا والے امین‪ ،‬پنجاب کے ناصر علی سرہندی اور‬
‫شاہ مراد‪ ،‬سندھ کے میر محمود ص••ابر‪ ،‬س••رحد کے عب•دالرحمان• باب•ا‪ ،‬بہ•ار کے عب••دالقادر بی•دل‪ ،‬دہلی کے ف•ائز‪،‬‬
‫جعفر زٹلی‪ ،‬آبرو‪ ،‬شاہ ح••اتم‪ ،‬کرناٹ••ک کے ش•اہ ت•راب‪ ،‬م•دراس کے محم••د ب•اقر آگ••اہ‪ ،‬اور ب• ّر عظیم کے ط•ول و‬
‫عرض میں چھوٹے بڑے سب شاعروں نے اس نئے معیار کو واحد ادبی معیار کے طور پر تسلیم کر لیا۔ مگر یہ‬
‫ولی اردو کے پہلے ش••اعر نہیں ہیں ‪ ،‬ت••و پھ••ر یہ کیس••ے‬
‫تصویر کا ای••ک رخ ہے‪ ،‬یہ ب••ات ث••ابت ہ••و چکی ہے کہ ؔ‬
‫ولی اردو کی شعری روایت سے متاثر نہ ہوئے ہوں۔ اور اپ••نے پیش روؤں اور ہمعص••روں ک••ا اث••ر‬
‫ممکن ہے کہ ؔ‬
‫قبول نہ کیا ہو‪ ،‬مگر ہندوستان کا شروع سے یہ مزاج رہا ہے کہ اس نے ایک بار کسی کو ب••ڑا ی••ا عظیم م••ان لیت••ا‬
‫ہے تو پھر اس کی شخصیت کے ان تمام پہلوؤں کو نظر انداز کر دیتا ہے جو بربنائے انسان دوسروں سے متاثر‬
‫ولی کے‬
‫ہوتا ہے۔ اور دوسروں کا اثر قبول کرتا اور اپنی شخصیت کی تکمیل کی کوشش کرتا ہے۔ کچھ ایس••ا ہی ؔ‬
‫ولی س•ے فیض‬
‫ساتھ بھی ہوا۔ جمیل جالبی صاحب نے یہ تو لکھ دی••ا کہ دنی••ائے اردو ادب کے س••بھی ن••ابغوں نے ؔ‬
‫پایا اور اس کے لسانی تفاعل اور تخلیقی تناؤ اور جدت و ندرت سے تحری••ک حاص••ل کی اور اپ••نے اپ••نے فن ک••ا‬
‫چراغ جالیا۔ اور موقع مال تو ان ہی کی زمین میں طبع آزمائی بھی کی۔ اور اکثر و بیشتر ان کے خیاالت ک••و بھی‬
‫برتنے کی کوشش کی جس کی مثال کے لیے پوری اردو شاعری کی تاریخ سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مث••الیں پیش کی‬
‫گئیں اور آج بھی کی جا رہی ہیں۔ اس مضمون میں بھی اس ط••رح کی درجن••وں مث••الیں پیش کی ج••ائیں گی۔ مگ••ر‬
‫ولی نے بھی اپ••نے پیش روؤں اور ہمعص••روں ک••ا‬
‫اس سے پہلے یہ بتا دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ خ••ود ؔ‬
‫اثر قبول کیا اور حتی المقدور ان سے فائدہ بھی اٹھایا۔ چند اشعار دیکھئے۔‬
‫خبر لیا یا ہے ہدہد میرے تئیں اس پار جانی کا‬
‫راز نہانی کا‬
‫خوشی کا وقت ہے ظاہر کروں ِ‬
‫‪(                                                            ‬محمد قلی قطب شاہ)‬

‫‪11‬‬
‫ٰالہی رکھ مجھے تو خاک پا اہل معانی کا‬
‫کہ کھلتا ہے اسی صحبت سوں نسخہ نکتہ دانی کا‬
‫‪(                                                            ‬ولی)‬
‫تجھ خال ہے رخسار میں یا ہے بھنور گلزار میں‬
‫یا مصر کے بازار میں زنگی کھڑا زنگ بار کا‬
‫‪(                                                            ‬حسن شوقی)‬
‫جگ منیں دوجا نئیں ہے خوب رو تجھ سار کا‬
‫چاند کوں ہے آسماں پر رشک تجھ رخسار کا‬
‫‪(                                                            ‬ولی)‬
‫سنگاتی سات نئیں میرا موا سنگار کیا کرنا‬
‫مسی ہور پان خوشبوئی پھلوں کا ہار کیا کرنا‬
‫‪(                                                            ‬نصرتی)‬
‫ترے بن مجکوں اے ساجن یو گھر اور بار کرناں کیا‬
‫اگر تو نا اچھے مجھ کن تو یو سنسار کرنا کیا‬
‫‪(                                                            ‬ولی)‬
‫نین تجھ مدبھرے دیکھت نظر میانے اثر آوے‬
‫ادھر کے یاد کرنے میں زباں اوپر شکر آوے‬
‫‪(                                                            ‬مشتاق)‬
‫اس وقت مرے جیو کا مقصود بر آوے‬
‫جس وقت مرے برمنیں دو سیم بر آوے‬
‫‪(                                                            ‬ولی)‬
‫اچپل چتر سکی کوں ہمارا سالم ہے‬
‫جس ادھر میں شہر تے میٹھا کالم ہے‬
‫‪(                                                            ‬ملک خوشنود)‬
‫اس شاہ نو خطاں کوں ہمارا سالم ہے‬
‫نگین لب کا دو عالم میں نام ہے‬
‫ِ‬ ‫جس کے‬
‫‪(                                                            ‬ولی)‬
‫اے سروگل بدن تو ذرا ٹک چمن میں آ‬

‫‪12‬‬
‫جیوں گل شگفتہ ہو کو مری انجمن میں آ‬
‫‪(                                                            ‬تاناشاہ)‬
‫اے گلعذار غنچہ دہن ٹک چمن میں آ‬
‫گل سر پہ رکھ کے شمع نمن انجمن میں آ‬
‫‪(                                                            ‬ولی)‬
‫عاشق ہے جن تج لعل کا اس مال و دھن سوں کیا غرض‬
‫ہے کام جس کو روح سوں اس کو بدن سوں کیا غرض‬
‫‪(                                                            ‬غواصی)‬
‫تجھ زلف کے بیتاب کوں مشک ختن سوں کیا غرض‬
‫تجھ لعل کے مشتاق کوں کان یمن سوں کیا غرض‬
‫‪(                                                            ‬ولی)‬
‫ساری رین تیرا بدن مج طبع میں بھرپور ہے‬
‫تج صبح مکہہ کے سامنے دیپک سدا مخمور ہے‬
‫‪(                                                            ‬شاہی)‬
‫تشنہ لب کو تشنگی مے کی نہیں ناسور ہے‬
‫پنبۂ مینا اسے جیوں مرحم کافور ہے‬
‫‪(                                                            ‬ولی)‬
‫نظر کی گود میں دیدا اودیدے میں نظر دستا‬
‫سو اس دیدے کے ہولے ہے سو جل باہر بھتر دستا‬
‫‪(                                                            ‬شغلی)‬
‫یو تل تجھ مکھ کے کعبہ میں مجھے اسود حجر دستا‬
‫زنخداں میں ترے مجھ چاہ زمزم کا اثر دستا‬
‫‪(                                                            ‬ولی)‬
‫تج ادھر مئے شوق سوں چاکیا سو متواال ہوا‬
‫آزاد مستاں ہوئے کر چھُٹ سب سوں نرواال ہوا‬
‫‪(                                                            ‬شاہ سلطان)‬
‫تجھ مکھ پہ یو تل دیکھ کر اللے کا دل کاال ہوا‬
‫دور خط سوں طوق جیوں مہتاب کا باال ہوا‬

‫‪13‬‬
‫‪(                                                            ‬ولی)‬
‫ولی‬
‫اس طرح کی اور بھی مثالیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پیش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ ؔ‬
‫اہم یا عبقری شاعر نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ بزرگ آرٹ محرک ہوتا ہے‪ ،‬اور اس چراغ س••ے کت••نے ہی چ••راغ‬
‫روشن ہوتے ہیں جو تخلیق فن کی راہوں کو اجالنے کا فریض••ہ انج••ام دی••تے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ب••زرگ فن کے‬
‫ولی کی ت••و ان‬
‫اثرات سے آلودہ اور آسودہ کوئی بھی فن پارہ اور فن کار کم سواد نہیں سمجھا جاتا ہے۔ رہی ب••ات ؔ‬
‫ولی کو بھی اپنی ش••عری انف••رادیت اور تخلیقی ث••روت من••دی‪ ،‬اور‬
‫کی عظمت کا ایک زمانہ قائل ہے جب کہ خود ؔ‬
‫فنکارانہ ہنر مندی کا خوب خوب احساس تھا‪ ،‬وہ اپنی لسانی ندرت کاری اور سخن ط••رازی کی ت••ازگی س••ے بھی‬
‫آگاہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ خدائے سخن میر تقی م•یر کی ط•رح ان کے یہ•اں بھی بک•ثرت تعلّی کے اش•عار پ•ائے‬
‫جاتے ہیں۔ چند اشعار دیکھئے۔‬
‫اے ولی لگتا ہے ہر دل کو عزیز‬
‫شعر تیرا بسکہ شوق انگیز ہے‬
‫میرے سخن میں فکر سوں کر اے ولی نگاہ‬
‫ہر بیت مجھ غزل میں ہے انتخاب کا‬
‫اے ولی مجھ سخن کو وو بوجھے‬
‫جس کو حق نے دیا ہے فکر رسا‬
‫جیوں گل شگفتہ رو ہیں سخن کے چمن میں ہم‬
‫جیوں شمع سربلند ہیں ہر انجمن میں ہم‬
‫ایسا شاعر جس کی استادی کے سامنے بڑے سے بڑے شعرا و ادبا کی نظریں جھک جاتی ہ••وں ‪ ،‬ان کی ش••عری‬
‫کائنات میں داخل ہونا اور ان کی تخلیقی جہتوں کی دریافت اور بازیافت میں اپنے فہم و ادراک کا ثبوت پیش کرنا‬
‫اور اردو شاعری میں ان کی اولیات کی نشاندہی کرنا آسان نہیں ہے۔ کیوں کہ اس بے حد توانا‪ ،‬منفرد اور متن••وع‬
‫شاعر کے کالم کے کتنے ہی رنگ ایسے ہیں جنہیں آس••انی س••ے گ••رفت میں نہیں لی••ا جاس••کتا ہے۔ اور نہ ان کی‬
‫شاعری کی تمام جہات کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔ ہاں ان کے کالم کو والہ••انہ ذوق و ش••وق س••ے پڑھ••نے‪ ،‬س••مجھنے‬
‫اور ان سے حظ اٹھانے کی ایک طالب علمانہ کوشش ضرور کی جاسکتی ہے اور اسی کوش••ش ک••ا ن••تیجہ ہے یہ‬
‫مضمون۔ پروفیسر خالد محمود نے اپنے اہم مضمون ’’ولی کی عظمت‘‘ نئی کتاب۔ اپریل جون ‪۲۰۱۰‬ء میں لکھا‬
‫ہے کہ‪:‬‬
‫’’ولی پر تا حال جو تحقیقی اور تنقیدی کام ہوا ہے اس میں ولی کا نام‪ ،‬مقام پیدائش‪ ،‬وفات‪ ،‬اسفار‪ ،‬خصوصا ً س••فر‬
‫ؔ‬
‫دلی دوران سفر دلّی شاہ سعدہللا گلشن سے ولی کی مالقات اور شاہ صاحب کا ؔ‬
‫ولی کو فارسی آمیز شعر کہنے ک••ا‬

‫‪14‬‬
‫ولی کی دلّی آمد کے تعل•ق س•ے بحث زی•ادہ مل••تی ہے اور ان کی ش••اعرانہ خصوص••یات ک•ا ذک•ر‬
‫مشورہ یا دیوان ؔ‬
‫استحقاق• سے بہت کم ہے۔‘‘‬
‫اور یہ ب••ات کچھ بہت غل••ط بھی نہیں ہے کی••وں کہ ہم دیکھ••تے ہیں کہ بیش••تر ل••وگ انہیں متن••ازع موض••وعات پ••ر‬
‫ولی‬
‫لکھتے ہیں اور کسی خاص نتیجہ پر پہونچے بغیر بات ختم ک••ر دی••تے ہیں۔ لیکن ایس••ا بھی نہیں ہے کہ ل••وگ ؔ‬
‫کی شاعری کی خوبیوں پر لکھتے ہی نہیں ہیں۔ یا یہ کہ لکھا ہی نہیں ہے۔ لکھا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ ولی کا جو‬
‫مرتبہ ہے۔ اس حساب سے کم لکھا ہے۔ اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ولی کے فن کی خوبی••وں ‪ ،‬لط••افت‪ ،‬اور‬
‫ان کے لہجے کی رنگینی اور شیفتگی اور داخلی و خارجی خصوصیات کی عملی ش••ناخت پ••ر ت••وجہ کی ج••ائے۔‬
‫ولی بنایا ہے۔‬
‫ولی کو ؔ‬
‫کیوں کہ یہی وہ چیزیں ہیں جس نے ؔ‬
‫سوال نمبر ‪ : 3‬ایہام گو شعرا کے کالم کی نمایاں خصوصیات بیان کریں۔ ن یز اس کے خالف‬
‫ردعمل کی وجوہات بیان کریں۔‬
‫جواب‪ :‬اٹھارہویں صدی اردوشاعری کاانتہائی زرخیز دور رہاہے۔ اس دورمیں مختلف لس••انی اورتہ••ذیبی عوام••ل‬
‫کے تحت شمالی ہندمیں اردوشاعری کارواج عام ہوا۔ ریختہ گوئی کی شروعات ہ••وئی اور اردوش••اعری کی ای••ک‬
‫بڑی اہم تحریک ایہام گوئی کاجنم اسی عہ•دمیں ہ•وا جس نے اردوش••اعری ک•وبے ح•دمتاثرکیا۔ اور اردوزب•ان نے‬
‫ش••اعری کی ح••دتک فارس••ی زب••ان کی جگہ لے لی اورای••ک توانازب••ان کی حی••ثیت س••ے مع••روف ومقب••ول ہ••وئی۔‬
‫صدیوں سے ہندوستان کی علمی اورادبی زبان فارسی تھی اورہندوستان کے ش••عرا اوراُدب••انے فارس••ی زب••ان میں‬
‫بے پناہ قدرت حاصل کرلی تھی لیکن اہل زبان ایران یہ••اں کے ش••عراکو قاب••ل اعتن••ا نہیں س••مجھتے تھے جس کی‬
‫وجہ س•••ے ک•••ئی تنازع•••ات بھی س•••امنے ٓائے‪ ،‬ع•••رفی اور فیض•••ی کاتن•••ازعہ اس•••ی دورکی پی•••داوارہے۔ ای•••رانی‬
‫اورہندوستانی فارسی دانوں کی اس محاذ ٓارائی نے اس احساس کواور بھی ہوادی کہ ہندوستانی فارسی زب••ان میں‬
‫کتنی ہی مہارت حاصل کرلیں انھیں وہ پذیرائی اوراہمیت حاص••ل نہیں ہوس••کتی جواہ••ل ای••ران کوحاص••ل ہے۔ اس‬
‫رویے نے ہندوستان کے فارسی گوشعراکو اپنی تخلیقی صالحیتوں کے استعمال اورفکروخیال کے جوہردکھانے‬
‫کے لیے ایک نئے میدان کی طرف متوجہ کیا۔ چنانچہ سراج الدین علی خ••اں ٓارزونے یہ••اں کے ش••عرا ک••و ریختہ‬
‫میں شعرگوئی کی ترغیب دی اورہرماہ کی پندرہویں ت••اریخ ک••وان کے گھرپ••ر ’’مراخ••تے‘‘ کی مجلس••یں ٓاراس••تہ‬
‫ہونے لگیں۔ مش•اعرہ کے ان•داز پ•ر’’م•راختہ‘‘ کی اص•طالح وض•ع کی گ•ئی۔ اب ن•ئی نس•ل کے بیش•تر ش•عرانے‬
‫فارسی میں شعرگوئی ترک کردی اوران کی پوری توجہ ریختہ گوئی میں صرف ہونے لگی یہ چیزیں ات••نی ع••ام‬
‫ہوئیں کہ فارسی گوشعرابھی رواج زمانہ کے مطابق منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ریختہ میں شاعری کرنے لگے۔‬
‫اٹھارویں صدی کے دوسرے دہے میں جب ولی کادیوان دہلی پہنچا تو اس نے شمالی ہند کے ریختہ گو شعرا میں‬
‫ایک نئی روح پھون•ک دی۔ ولی ک•ایہ دی•وان ریختہ میں تھااورفارس•ی روایت کے عین مط•ابق ح•روف تہجی کے‬

‫‪15‬‬
‫اعتبارسے ترتیب دیاگیاتھا جس کااثریہ ہوا کہ شعرائے دہلی میں بھی دیوان سازی کاعم••ل زور پک••ڑنے لگ••ا۔ اس‬
‫طرح اردوشاعری ایک نئے دورمیں داخل ہوگئی۔ شمالی ہندمیں جب اردوشاعری کاپہالدورشروع ہوات••و اس دور‬
‫کے اردوشاعر فارسی کی تہذیبی اورشعری روایت کے زیرسایہ پرورش پارہے تھے لہٰ• ذا اردوش••عرانے فارس••ی‬
‫شعراکے مقبول رجحانات کوہی اپنامشعل راہ بنایا اورفارس••ی ش••اعری کی جس روایت ک••وپہلی باراختیارکیاگی••اوہ‬
‫’’ایہام گوئی‘‘ کی روایت تھی۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی‪:‬‬
‫’’دی وان ولی نے ش مالی ہن دکی ش اعری پ ر گہرااث رڈاال اوردکن کی طوی ل ادبی روایت ش مال کی ادبی روایت‬
‫کاحصہ بن گئی۔ اٹھارہویں صدی شمال وجنوب کے ادبی وتہذیبی اثرات کے ساتھ جذب ہوکر ایک نئی ع الم گ یر‬
‫روایت کی تشکیل وتدوین کی صدی ہے۔ اردوشاعری کی پہلی ادبی تحریک یعنی ایہام گوئی بھی دیوان ولی کے‬
‫زیر اثر پروان چڑھی‘‘ـ‪۱‬ـ‬
‫ایہام گوئی شمالی ہندمیں اردوشاعری کی ایک بڑی تحریک تھی۔ یہ تحریک محمدشاہی عہدمیں شروع ہ••وئی اور‬
‫ولی کے دیوان کی دلی ٓامد کے بعداس ص••نعت ک••و ع••وامی مقب••ولیت ملی۔ ش••مالی ہن••دمیں اردوش••اعری کی ت••رقی‬
‫کآاغاز اسی تحریک سے ہوتاہے۔‬
‫ایہام عربی زبان کالفظ• ہے جس کے لغوی معنی ہیں ’وہم میں ڈالنا‘اور ’وہم میں پڑنا یاوہم میں ڈالنا۔ ‘چ••ونکہ اس‬
‫صنعت کے استعمال سے پڑھنے واالوہم میں پڑجاتاہے‪ ،‬اس لیے اس کانام ایہام رکھاگیا۔ ایہام کااصطالحی مفہوم‬
‫یہ ہے کہ یہ وہ صنعت ہے جس سے شعرکے بنیادی لفظ یالفظوں سے قریب اوربعی••د دون••وں مع••نی نکل••تے ہ••وں‬
‫میرکے الفاظ• یہ ہیں ‪:‬‬
‫اور شاعرکی مراد معنی بعیدسے ہو۔ نکات الشعر امیں ؔ‬
‫’’معنی ایہام اینست کہ لفظے کہ بروبن••اے بیت ب••وٓاں دومع••نی داش••تہ باش••دیکے ق••ریب ویکے بعی••د وبعی••د منظ••ور‬
‫شاعرباشدوقریب متروک او‘‘‬
‫ڈاکٹر جمیل جالبی ایہام کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫’’ایہام کے معنی یہ ہیں کہ وہ لفظ ذو معنی ہوجس پر شعر کی بنیاد رکھی گئی ہے اور ان دونوں معنی میں س••ے‬
‫ایک قریب ہوں دوسرے بعید۔ اپنے شعر میں شاعر کی مراد معنی بعید سے ہوقریب سے نہیں۔ ‘‘‬
‫ایہام کئی طرح کے ہوتے ہیں اوراس کی کئی قسمیں ہیں۔ اردوکے مشہور نقادشمس ال••رحمن ف••اروقی نے اس کی‬
‫تین قسمیں بیان کی ہیں ‪:‬‬
‫‪1‬۔‪   ‬ایہام خالص‪ :‬‬
‫•نی مرادل••یے‬
‫یعنی جہاں ایک لفظ کے دومعنی ہوں ای••ک ق••ریب کے اورای••ک دورکے اور ش••اعر نے دورکے مع• ٰ‬
‫ہوں۔‬
‫‪2‬۔‪   ‬ایہام پیچیدہ ‪ :‬‬

‫‪16‬‬
‫جہاں ایک لفظ کے دومعنی یادوسے زیادہ معنی ہ••وں اورتم••ام مع••نی کم وبیش مفی••د مطلب ہ••وں ع••ام اس س••ے کہ‬
‫شاعرنے کون سے معنی مراد لیے ہوں۔‬
‫‪3‬۔‪    ‬ایہام مساوات ‪   :‬‬
‫‪     ‬جہاں ایک لفظ کے دومعنی ہوں دونوں برابر کے کم وبیش یابالکل قوی ہوں اور یہ فیصلہ کرن••ا مش••کل ہ••وکہ‬
‫شاعرنے کون سے معنی مرادلیے تھے۔ ‘‘‬
‫‪ ‬ایہام گ••وئی کی یہ ص••نعت ع••ربی‪ ،‬فارس••ی‪ ،‬سنس••کرت‪ ،‬ہن••دی اور اردو س••ب ہی زب••انوں میں پ••ائی ج••اتی ہے۔ یہ‬
‫توواضح ہے کہ ہندی میں یہ صنعت سنس••کرت س••ے ٓائی اورسنس••کرت میں اس ص••نعت ک••و’ ش••لیش ‘کہاجات••اہے‬
‫اوریہی نام ہندی میں بھی ہے۔ ہندی شاعروں نے اسے کثرت سے استعمال کیا ہے۔ مول••وی عب••دالحق لکھ••تے ہیں‬
‫کہ ‪:‬‬
‫’’شلیش سنسکرت کالفظ• ہے اورسنسکرت میں اس ص••نعت کی ک••ئی قس••میں ہیں۔ مگ••ران میں س••ے خ••اص دو ہیں‬
‫سبہنگ اورانہنگ۔ سبہنگ میں لفظ سالم رہتاہے اور ابہنگ میں لفظ کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے یہ صنعت پی••دا کی‬
‫جاتی ہے۔ ہندی میں یہ سنسکرت سے ٓائی ہے۔ ہندی شاعروں نے اسے کثرت سے استعمال کیاہے۔ ‘‘‬
‫‪ ‬اردومیں ایہام کی صنعت کہاں سے ٓائی ٓای••ایہ فارس••ی س••ے ٓائی یاہن••دی س••ے۔ بیش••تر ناق••دین اردومیں ایہ••ام گ••وئی‬
‫کاسراہندی دوہروں سے ہی جوڑتے ہیں۔ مولوی عبدالحق کا بھی یہی مانناہے کہ اردوشاعری میں ایہام گوئی کی‬
‫روایت ہندی شاعری کی رہین منت ہے۔ وہ لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫’’یہ خیال قرین صحت معلوم ہوتاہے کہ اردوایہام گوئی پرزی••ادہ ترہن••دی ش••اعری ک••ااثر ہوااورہن••دی میں یہ چ••یز‬
‫سنسکرت سے پہنچی۔ ‘‘‬
‫ڈاکٹرنورالحس••ن ہاش••می ک••انقطٔہ نظ••راس س••ے کچھ مختل••ف ہے۔ وہ اٹھ••ارہویں ص••دی میں فارس••ی گوش••عراکی‬
‫دربارمیں رسائی اوراس کے اثرات کوبنیاد بناکریہ کہتے ہیں کہ اردوشاعری میں ایہام کی ص••نعت فارس••ی س••ے‬
‫ٓائی ہے۔ نورالحس••ن ہاش••می کی اس رائے س••ے قاض••ی عب••دالودود کے عالوہ بہت س••ے لوگ••وں نے اختال ف کی••ا۔‬
‫ڈاکٹر محمدحسن نے بیچ کی راہ نکالتے ہوئے ایہام گوشعراپرفارسی ہندی دونوں کے اث••رات کی وک••الت کی ہے۔‬
‫وہ لکھتے ہیں ‪’’:‬غرض شمالی ہندمیں اردوادب کی ابتدا ف••ار س••ی اورہن••دی کی دوہ••ری ادبی روای••ات کے س••ائے‬
‫میں ہوئی ۔ فارسی نے اردوادب سے بہت کچھ اخذواختیارکیا۔ اس کی حسن کاری لفظ•وں کے دروبس•ت‪ ،‬اض•افت‬
‫وتراکیب‪ ،‬شاعرانہ لب ولہجہ اورایک مخصوص افتاد طبع اورشائستگی کا ایک خ••اص تص••ورلیا۔ ہن••دی ش••اعری‬
‫سے بالواسطہ کئی اثرات پڑے۔ ‘‘لیکن ڈاکٹر منظ••راعظمی• مختل••ف ایہ••ام گ••و ش••عرا کے کالم میں مس••تعمل ہن••دی‬
‫الفاظ کی نشاندہی ک•رتے ہ•وئے لکھ•تے ہیں ‪’’ :‬اگرایہ•ام گواردوش•عراکے اش•عارپر نظ•رکی ج•ائے توفارس•ی لب‬
‫ولہجہ اور اث••رات کم اورہن••دی یابھاش••ائی لب ولہجہ اوراث••رات نس••بتا ً زی••ادہ مل••تے ہیں۔ فارس••ی اث••رات کے تحت‬
‫بیشترشعر رعایت لفظی کی نوعیت کے ہیں جب کہ ہندی اثرات کے تحت شعربیشترایہامی ہیں ‘‘۔‬

‫‪17‬‬
‫اردوشاعری میں ایہام گوئی کی شروعات امیرخسروسے ہوتی ہے وہ سب سے پہلے ش••اعرہیں جنھ••وں نے ایہ••ام‬
‫کو بطورصنعت اپنی فارسی شاعری میں استعمال کی••ا۔ پھرفارس••ی اوراردوکافائ••دہ اٹھ••اتے ہ••وئے اردومیں ایس••ے‬
‫اشعارکہے جن میں یہ صنعت استعمال ہوتی تھی۔ ان کی کہہ مکرنی••وں اورپہیلی••وں میں ایہ••ام ک••ا اس••تعمال ک••ثرت‬
‫ولیکانام کافی اہمیت کاحامل• ہے۔ اس صنعت کانمایاں‬
‫سے ملتا ہے۔ ایہام گوئی کی ا س روایت کوفروغ دینے میں ؔ‬
‫ولیکو ہی ایہام کی تحریک ک••انقطٔہ ٓاغ••از ماناجات••اہے۔ من••درجہ‬
‫اظہار ہمیں ولی کی شاعری میں ملتاہے۔ اسی لیے ؔ‬
‫ذیل اشعار میں ایہام کی عکاسی بھرپورملتی ہے‪:‬‬
‫لیاہے گھیرزلفوں نے یہ تیرے کان کاموتی‬
‫مگریہ ہندکا لشکرلگاہے ٓاستارے کو‬
‫ہرشب تری زلف سے ’’مطول‘‘ کی بحث تھی‬
‫تیرے دہن کودیکھ سخن’’مختصر‘‘ کیا‬
‫موسی جوٓاکے دیکھے تجھ نورکاتماشا‬
‫ٰ‬
‫اس کوں پہاڑہوئے پھر طورکاتماشا‬
‫ٓارزو اوران کے ش••اگردوں نے اس‬
‫ؔ‬ ‫ٓارزو ہیں۔ خ••ان‬
‫ؔ‬ ‫‪ ‬ایہ••ام گ••وئی کی ص••نعت ک••وجس نے ع••روج عطاکی••اوہ خ••ان‬
‫صنعت کا فراوانی سے استعمال کیا۔ انھیں یقین تھاکہ مستقبل میں فارسی کے بجائے ریختہ ہی اس ملک کی زبان‬
‫بننے والی ہے۔ ویسے اس صنعت میں طبع ٓازمائی کرنے والوں کی فہرست طویل ہے البتہ اہم ایہام گوش••عرا میں‬
‫شاکرناجی‪،‬مصطفی خاں ی••ک رن••گ اورش••اہ ظہورال••دین ح••اتم وغ••یرہ کان••ام‬
‫ؔ‬ ‫ٓابرو‪،‬‬
‫یقین‪ ،‬شاہ مبارک ؔ‬
‫انعام ہللا خاں ؔ‬
‫کافی اہمیت کاحامل ہے۔ طوالت سے بچتے ہوئے نمونے کے طور پر کچھ اشعار دئے جاتے ہیں ‪:‬‬
‫ہوئے ہیں اہل زر خوابان دولت خواب غفلت میں‬
‫جسے سوناہے یاروں فرش پہ مخمل کے کہہ سوجا‬
‫…‬
‫نیل پڑجاتا ہے ہربوئی کا اے نازک بدن‬
‫تن اوپر تیرے چکن کرناہے گویا کا ِر چوب‬
‫(ٓابرو)‬
‫ؔ‬
‫نظرٓاتانہیں وہ ماہ رو کیوں‬
‫گزرتاہے مجھے یہ چاند خالی‬
‫…‬
‫نہ دیتا غیر کو نزدیک ٓانے‬
‫اگر ہوتا وہ لڑکا دور اندیش‬

‫‪18‬‬
‫(یقین)‬
‫ؔ‬
‫ہوں تصدق اپنے طالع کا وہ کیسا بے حجاب‬
‫مل گیا ہم سے کہ تھا مدت سے گویآاشنا‬
‫(حاتم)‬
‫ؔ‬
‫قوس قزح سے چرچہ کرانا تھا تجھ بھواں کا‬
‫‪   ‬شاید کہ سربھراہے اب پھر کر ٓاسماں کا‬
‫(شاکرناجی)‬
‫ؔ‬ ‫‪ ‬‬
‫اردوش••اعری میں ایہ••ام گ••وئی ک••ایہ دورتقریب••ا ‪۲۵‬۔ ‪۳۰‬برس••وں کومحی••ط ہے۔ اس ص••نعت نے بہت س••ے ش••عراکو‬
‫متاثرکیااو راس سے اردوکے ذخیرئہ الفاظ میں بیش بہااضافہ ہوا جس کافائدہ یہ ہوا کہ اس••ے باقاع••دہ ای••ک زب••ان‬
‫بننے اور اس سے پیکرتراشی میں نمایاں مددملی۔ لفظوں کی صوری اورمعنوی دونوں صورتوں میں کتن••ا تن••وع‬
‫ہوسکتاہے اوراس کے مضامین کی کتنی جہتیں ہوسکتی ہیں یہ ساری چیزیں اسی صنعت ایہام کی دین ہیں۔ ایہ••ام‬
‫گو شعرا کے کالم کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اشعار محض س••طحی ی••ا الف••اظ• ک••اگورکھ دھن••دہ‬
‫نہیں تھے بلکہ ان اشعار میں درس و عبرت کے پہلو کے ساتھ ساتھ کئی ت••اریخی‪،‬معاش••رتی اورشخص••ی ح••والے‬
‫بھی ملتے ہیں۔ ویسے تو یہ حوالے بعد کے شعرا کے کالم میں بھی ک••ثرت س•ے مل•تے ہیں لیکن ایہ••ام گ••وئی کی‬
‫بدولت دوسرے متعلقات اور مناسبات کی شمولیت نے ان حوالوں کو اور بھی واضح کر دی••ا ہے۔ ایہ••ام گ••و ش••عرا‬
‫نے اردو شاعری کی بہت بڑی خدمات انجام دی ہیں۔ ایک عام بول چال کی زبان جو ریختہ کہالتی تھی اس••ے ب••ا‬
‫قاعدہ ایک زبان کی حیثیت عطا کرنے میں ایہام گو شعرا کی کاوشیں اردو شاعری کی تاریخ کا ایک روشن باب‬
‫ہے۔ اسی ط••رح اردوش••اعری میں بعض اص••ناف کی ایج••اد کاس••ہرابھی ایہ••ام گوش••عراکے س••رجاتاہے۔ س••ب س••ے‬
‫پہالواس••وخت ش••اہ ح••اتم نے کہ••ا۔ اولین شہرٓاش••وب بھی ان کے ہی کے قلم کی رہین منت ہے۔ رباعی••ات ک••و رواج‬
‫دینے میں ان کاکردار سب سے اہم ہے۔ اس کے عالوہ مخمس‪ ،‬مسدس‪ ،‬ترکیب بند‪ ،‬مراثی‪ ،‬قصائد اورساقی نامے‬
‫بھی ایہام گوشعرا کی دین ہے۔ ‪ ‬ان خصوصیات کے باوجود ایہ•ام گ•وئی کی ص•نعت س•ے اردوش•اعری ک•و ک•افی‬
‫نقصان بھی پہنچا۔ اس صنعت کے استعمال سے شاعری تصنع کاش••کارہوگئی اورش••اعر ج••ذبے اور احس••اس کے‬
‫بجائے الفاظ کے دروبست میں الجھ کر رہ گ••ئے اوراس ط••رح ش••عری بے س••اختگی اورج••ذباتی عظمت مج••روح‬
‫ہوتی گئی۔‬
‫سوال نم بر ‪ : 4‬م یر تقی م یر‪ ،‬م یرزارفیع س ودا اور خ واجہ م یر درد کے ش عری اس لوب ک ا‬
‫موازنہ کریں۔‬

‫‪19‬‬
‫جواب‪ :‬سودا تخلص مرزا محمد رفیع نام‪ ،‬شہر دہلی کو ان کے کمال سے فخر ہے۔ باپ مرزا محم••د ش••فیع م••یرزا‬
‫یان کابل سے تھے۔ بزرگوں کا پیشہ سپاہ گری تھا۔ مرزا شفیع بطریق تجارت وارد ہندوستان ہوئے۔ ہن•د کی خ•اک‬
‫دامنگیر نے ایسے قدم پکڑے کہ یہیں رہے بعض کا ق••ول ہے کہ ب•اپ کی س•وداگری س•ودا کے ل•یے وجہ تخلص‬
‫ہوئی۔ لیکن بات یہ ہے کہ ایشیا کے شاعر ہر ملک میں عشق کا دم بھرتے ہیں اور سودا اور دی••وانگی عش••ق کے‬
‫ہمزاد ہیں۔ اس ل••یے وہ بھی ان بزرگ••وں کے ل••یے ب••اعث فخ••ر ہے۔ چن••انچہ اس لح••اظ• س••ے س••ودا تخلص کی••ا اور‬
‫سوداگری کی بدولت ایہام کی صنعت روکن میں ٓائی۔ سودا‪1125‬ھ میں پی••دا ہ••وئے۔ دہلی میں پ••رورش اور ت••ربیت‬
‫پائی۔ کابلی دروازہ کے عالقہ میں ان کا گھر تھا۔ ایک بڑے پھاٹک میں نشست رہتی تھی۔ ش••یخ اب••راہیم ذوق علیہ‬
‫الرحمتہ اکثر ادھر ٹہلتے ہوئے جا نکلتے تھے۔ میں ہمرکاب ہوتا تھا۔ مرزا کے وقت کے حاالت اور مقامات کے‬
‫ذکر کر کے قدرت خدا کو یاد کیا کرتے تھے۔ سودا بموجب رس••م زم••انہ کے اول س••لیمان قلی خ••اں دداد کے پھ••ر‬
‫شاہ حاتم کے شاگرد ہوئے شاہ موصوف نے بھی اپنے دی•وان کے دیب••اچے میں ج•و ش••اگردوں کی فہرس•ت لکھی‬
‫ہے‪ ،‬اس میں مرزا کا نام اس طرح لکھا ہے‪ ،‬جس سے فخر کی خوشبو ٓاتی ہے۔ خوشا نصیب اس استاد کے جس‬
‫کی گود میں ایسا شاگرد پل کر بڑا ہو۔ خان ٓارزو کے شاگرد نہ تھے۔ مگر ان کی صحبت سے بہت فائدے حاصل‬
‫کیے۔ چنانچہ پہلے فارسی شعر کہا کرتے تھے۔ خان ٓارزو نے کہا کہ مرزا فارسی اب تمہاری زبان مادری نہیں۔‬
‫اس میں ایسے نہیں ہو سکتے کہ تمہارا کالم اہل زبان کے مقابل میں قابل تعریف ہو۔ طبع موزوں ہے۔ شعر س••ے‬
‫نہایت مناسبت رکھتی ہے۔ تم اردو کہا کرو تو یکتائے زمانہ ہو گے۔ مرزا بھی سمجھ گئے اور دیرینہ س••ال اس••تاد‬
‫کی نصیحت پر عمل کیا۔ غرض طبیعت کی مناسبت اور مشق کی کثرت سے دلی جیسے شہر میں ان کی استادی‬
‫نے خاص و عام سے اقرار لیا کہ ان کے سامنے ہی ان کی غزلیں گھر گھر اور کوچہ و بازار میں خاص و ع••ام‬
‫کی زبانوں پر جاری تھیں۔ جب کالم کا شہرہ عالمگیر ہوا تو شاہ عالم بادشاہ اپنا کالم اصالح کے لیے دینے لگے‬
‫اور فرمائشیں کرنے لگے۔ ایک دن کسی غزل کے لیے تقاضا کیا۔ انہوں نے عذر بی••ان کی••ا۔ حض••ور نے فرمای••ا۔‬
‫بھئی مرزا کے غزلیں روز کہہ لیتے ہو؟ مرزا نے کہا پیر و مرشد جب طبیعت لگ جاتی ہے۔ دو چ••ار ش••عر کہہ‬
‫لیتا ہوں۔ حضور نے فرمایا بھئی ہم تو پاخانے میں بیٹھے بیٹھے چار• غزلیں کہہ لیتے ہیں۔ ہاتھ بان••دھ ک••ر ع••رض‬
‫کی‪ ،‬حضور! ویسی بو بھی ٓاتی ہے یہ کہہ کر چلے ٓائے۔ بادشاہ نے پھ••ر ک••ئی دفعہ بال بھیج••ا اور کہ••ا کہ ہم••اری‬
‫غزلیں بنأو۔ ہم تمہیں ملک الشعراء کر دیں گے۔ یہ نہ گئے اور کہا کہ حضور کی مل••ک الش••عرائی س••ے کی••ا ہوت••ا‬
‫ہے۔ کرے گا تو میرا کالم ملک الشعرا کرے گا اور ایک بڑا مخمص شہر ٓاشوب لکھا‬
‫کہا میں ٓاج یہ سودا سے کیوں ہے ڈانواں ڈول‬
‫بے درد ظاہر بین کہتے ہیں کہ بادشاہ اور دربار بادشاہ کی ہجو کی ہے۔ غور سے دیکھو ت••و مل••ک کی دلس••وزی‬
‫میں اپنے وطن کا مرثیہ کہا ہے۔ مرزا دل شکستہ ہو کر گھ••ر میں بیٹھ رہے۔ ق••در دان موج••ود تھے۔ کچھ پ••روا نہ‬
‫ہوئی ان میں اکثر روسا امرا خصوصا ً مہرباں خاں اور بسنت خاں ہیں۔ جن کی تعریف میں قصیدہ کہا ہے۔‬

‫‪20‬‬
‫کل حرص نام شخصے سودا پہ مہربان ہو‬
‫بوال نصیب تیرے سب دولت جہاں ہو‬
‫حرص کی زبانی دنیا کی دولت اور نعمتوں کا ذکر کر کے خود کہتے ہیں کہ اے حرص!‬
‫جو کچھ کہا ہے تو نے یہ تجھ کو سب مبارک‬
‫میں اور میرے سر پر میرا بسنت خاں ہو‬
‫ان بزرگوں کی بدولت ایسی فارغ البالی سے گ••زرتی تھی کہ ان کے کالم ک••ا ش••ہرہ جب ن••واب ش••جاع ال••دولہ نے‬
‫لکھنو میں سنا تو کمال اشتیاق سے برادر من مشفق مہرباں من لکھ ک••ر خ••ط م•ع س•فر خ••رچ بھیج•ا اور طلب کی•ا۔‬
‫انہیں دلی کا چھوڑنا گوارا نہ ہوا۔ جواب میں فقط رباعی پر حسن معذرت کو ختم کیا۔‬
‫سودا پے دنیا تو بہر سو کب تک‬
‫ٓاوارہ ازیں کوچہ بہ ٓاں کوکب تک‬
‫‪ ‬‬
‫حاصل یہی اس سے نہ کہ دنیا ہووے‬
‫بالفرض ہوا یوں بھی تو پھر تو کب تک‬
‫کئی برس کے بعد وہ قدر دان مر گئے۔ زمانے بدل گئے۔ سودا بہت گھبرائے اس عہد میں ایسے تباہی زدوں کے‬
‫لیے دو ٹھکانے تھے۔ لکھنو حیدر ٓاباد‪ ،‬لکھنو پ••اس تھ••ا اور فیض و س••خاوت کی گنگ••ا بہ رہی تھی۔ اس ل••یے ج••و‬
‫دلی سے نکلتا تھا ادھر ہی رخ کرتا تھا اور اتنا کچھ پاتا تھ••ا کہ پھ••ر دوس••ری ط••رف خی••ال نہ جات••ا تھ••ا۔ اس وقت‬
‫حاکم بلکہ وہاں کے محکوم بھی جویائے کمال تھے۔ نکتے کو کتاب کے مولوں خریدتے تھے۔‬
‫غرض‪60‬یا‪66‬برس کی عمر میں دلی سے نکل کر چن••د روز ف••رخ ٓاب••اد میں ن••واب بنگش کے پ••اس رہے۔ اس کی‬
‫تعریف میں بھی کئی قصیدے موجود ہیں۔ وہاں سے ‪1185‬ھ میں لکھنو پہنچے۔ ن••واب ش••جاع ال••دولہ کی مالزمت‬
‫حاصل کی۔ وہ بہت اعزاز سے ملے اور ان کے ٓانے پر کمال خرسندی ظ••اہر کی۔ لیکن ی••ا ت••و بے تکلفی س••ے ی••ا‬
‫طنز سے اتنا کہا کہ مرزا وہ رباعی تمہاری اب تک میرے دل پر نقش ہے اور اسی کو مک••رر پڑھ••ا۔ انہیں اپ••نے‬
‫حال پر بڑا رنج ہوا اور بپاس وضعداری پھر دربار نہ گئے۔ یہاں تک کہ شجاع الدولہ مر گئے اور ٓاص••ف ال••دولہ‬
‫مسند نشیں ہوئے۔ لکھنو میں مرزا فاخر• مکیں زبان فارسی کے مشہور شاعر تھے۔ ان سے اور مرزا رفی••ع س••ے‬
‫بگڑی اور جھگڑے نے ایسا طول کھینچا کہ نواب ٓاصف ال••دولہ کے درب••ار ت••ک ن••وبت پہنچی (عنق••ریب) اس ک••ا‬
‫حال بہ تفصیل بیان کیا جائے گا) انجام یہ ہوا کہ عالوہ انعام و اکرام کے چھ ہزار روپیہ ساالنہ وظیفہ ہو گی••ا اور‬
‫نواب نہایت شفقت کی نظر فرمانے لگے۔ اکثر حرم سرا میں خاص••ہ پ••ر بیٹھے ہ•وتے اور م•رزا کی اطالع ہ•وتی‬
‫فوراً باہر نکل ٓاتے تھے۔ شعر سن کر خوش ہوتے اور انہیں انعام سے خوش کرتے تھے۔‬

‫‪21‬‬
‫جب تک مرزا زندہ رہے‪ ،‬نواب مغفرت مٓاب اور اہل لکھنو کی قدر دانی سے ہ••ر ط••رح ف••ارغ الب••ال رہے۔ تقریب•ا ً‬
‫‪ 70‬برس کی عمر میں‪1195‬ھ میں وہیں دنیا سے انتقال کیا۔ شاہ حاتم زن••دہ تھے۔ س••ن ک••ر بہت روئے اور کہ••ا کہ‬
‫افسوس ہم••ارا پہل••وان س••خن م••ر گی••ا۔ حکیم ق••درت ہللا خ••اں قاس••م فرم••اتے ہیں کہ اواخ••ر عم••ر میں م••رزا نے دلی‬
‫چھوڑی۔ تذکرہ دلکشا میں ہے کہ ‪66‬برس کی عمر میں گئے تعجب ہے کہ مجم••وعہ س••خن ج••و لکھن••و میں لکھ••ا‬
‫گیا۔ اس میں ہے کہ مرزا عالم شباب میں وارد لکھنو ہوئے۔ غرض چونکہ شجاع الدولہ ‪1188‬ھ میں ف••وت ہ••وئے‬
‫تو مرزا نے کم و بیش‪70‬برس کی عمر پائی۔ ان کے بع•د کم•ال بھی خان•دان س•ے نیس•ت و ن••ابود ہ•و گی••ا۔ راقم ٓاثم‬
‫‪ 1858‬ء میں لکھنو گیا۔ بڑی تالش کے بعد ایک شخص ملے کہ ان کے نواسے کہالتے تھے۔ بے چ••ارے پ••ڑھے‬
‫لکھے بھی نہ تھے اور نہایت ٓاشفتہ حال تھے۔ سچ ہے۔‬
‫میراث پدر خواہی علم پدر ٓاموز‬
‫بندہ عشق شدی ترک نسب کن جامی•‬
‫کاندریں راہ فالں ابن فالں چیزے نیست‬
‫ان کا کلیات ہر جگہ مل سکتا ہے اور قدر و منزلت کی ٓانکھ••وں س•ے دیکھ••ا جات••ا ہے حکیم س•ید اص••لح خ••ان نے‬
‫ترتیب دیا تھا اور اس پر دیباچہ بھی لکھا تھ•ا۔ تھ•وڑی دی•ر کے ل•یے پ•رانے مح•اوروں س•ے قط•ع نظ•ر ک•ر کے‬
‫دیکھیں تو سر تاپا نظم اور انشاء اردو کا دس••تور العم••ل ہے۔ اول قص••ائد اردو بزرگ••ان دین کی م••دح میں اور اہ••ل‬
‫ودل کی تعریف میں۔ اسی طرح چند قصائد فارسی‪ 24‬مثنویاں ہیں بہت سی حکایتیں اور منظوم ہیں۔ ایک مختصر‬
‫دیوان فارسی کا تمام و کمال دیوان ریختہ جس میں بہت سی الجواب غزلیں اور مطلع رباعیاں‪ ،‬مستزاد‪ ،‬قطع••ات‪،‬‬
‫تاریخیں‪،‬پہیلیاں‪ ،‬داسوخت‪ ،‬ترجیع بند‪ ،‬مخمس سب کچھ کہا ہے اور ہر قس••م کی نظم میں ہج••ویں ہیں‪ ،‬ج••و ان کے‬
‫مخالفوں کے دل و جگر کو کبھی خون اور کبھی کباب کرتی ہیں۔ اب ت••ذکرہ ش••عرائے اردو ک••ا ہے اور وہ نای••اب‬
‫ہے۔ غزلیں اردو میں پہلے سے بھی لوگ کہہ رہے تھے۔ مگر دوسرے طبقے تک اگر ش••عرا فے کچھ م••دح میں‬
‫اعلی درجہ‬
‫ٰ‬ ‫کہا تو ایسا ہے کہ اس•ے قص•یدہ نہیں کہہ س•کتے۔ پس اول قص•ائد ک•ا کہن•ا اور پھ•ر دھ•وم دھ•ام س•ے‬
‫فصاحت و بالحت پر پہنچانا ان کا فخر ہے۔ وہ اس می••دان میں فارس••ی کے ن••امی شہس••واروں کے س••اتھ عن••اں در‬
‫عناں ہی نہیں گئے۔ بلکہ اکثر میدانوں میں ٓاگے نکل گئے۔ ان کے کالم کا زور شور انوری اور خاق••انی ک••و دبات••ا‬
‫ہے اور نزاکت مضمون میں عرفی و ظہوری کو شرماتا ہے۔‬
‫مثنویاں ‪ 24‬ہیں اور حکایتیں اور لطائف وغیرہ ہیں وہ سب نظم اور فصاحت کالم کے اعتب••ار س••ے ان ک••ا ج••وہر‬
‫طبعی ظاہر کرتی ہیں۔ مگر عاشقانہ مثنویاں ان کے مرتبے کے کالم کے اعتب••ار س••ے ان کے مرت••بے کے الئ••ق‬
‫نہیں۔ میر حسن مرحوم تو کیا میر صاحب کے ش••علہ عش••ق اور دری••ائے عش••ق ک••و بھی نہیں پہنچیں۔ فارس••ی کے‬
‫مختصر دیوان میں سب ردیفیں پوری ہیں ۔ زور طبع اور اصول شاعرانہ سب قائم ہیں۔ صائب ک••ا ان••داز ہے مگ••ر‬
‫اعلی درجہ کم•ال پ•ر پہنچ•نے میں‬
‫ٰ‬ ‫تجربہ کار جانتے ہیں کہ ایک زبان کی مشق اور م•زاولت دوس•ری زب•ان کے‬

‫‪22‬‬
‫سنگ راہ ہوتی ہے۔ چنانچہ شیخ مصحفی نے اپنے تذکرہ میں لکھا ہے ٓاخر ٓاخر خیال ش••عر فارس••ی ہم پی••دا ک••رو۔‬
‫مگر از فہم و عقلش ایں امر بعید بود کہ ک••رد۔ غ••رض غزلہ••ائے فارس••ی خ••ود ن••یز کہ در لکھن••و گفتہ بقی••د ردی••ف‬
‫ترتیب دادہ داخل دیوان ریختہ نمودہ د ایں ایجاد ادست دی••وان ریختہ (وقت کی زب••ان س••ے قط••ع نظ••ر ک••ر کے) ب••ا‬
‫اعتبار جوہر کالم کے سرتاپا مرصع ہے۔ بہت سی غزلیں دلچسپ اور دل پسند بح••روں میں ہیں کہ اس وقت ت••ک‬
‫اردو میں نہیں ٓائی تھیں۔ زمینیں سنگالخ ہیں اور ردیف قافیے بہت مشکل۔ مگر جس پہلو س••ے انہیں جم••ا دی••ا ہے‬
‫ایسے جمے ہیں کہ دوسرے پہلو سے کوئی بٹھائے تو تمہیں معلوم ہو۔ گ••رمی کالم کے س••اتھ ظ••رافت ج••و ان کی‬
‫زبان سے ٹپکتی ہے‪ ،‬اس سے صاف ظاہر ہے کہ بڑھاپے ت••ک ش••وخی طفالنہ ان کے م••زاج میں امن••گ دکھ••اتی‬
‫تھی۔ مگر ہجووں کا مجموعہ جو کلیات میں ہے اس کا ورق ورق ہنسنے والوں کے لیے زعفران زار کشمیر کی‬
‫کیاریاں ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طبیعت کی شگفتگی اور زندہ دلی کسی طرح کے فکر و تردد کو پ••اس نہ‬
‫ٓانے دیتی تھی۔ گرمی اور م•زاج کی ت•یزی بجلی ک•ا حکم رکھ•تی تھی اور اس ش•دت کے س•اتھ کہ نہ ک•وئی انع•ام‬
‫اسے بجھا سکتا تھا نہ کوئی خطرہ• اسے دبا سکتا تھا۔ نتیجہ اس کا یہ تھا کہ ذرا سی ناراضی میں بے اختی••ار ہ••و‬
‫جاتے تھے کچھ اور بس نہ چلتا تھا۔ جھٹ ایک ہجو کا طومار تیار کر دیتے تھے۔ غنچہ نام ان کا ای••ک غالم تھ••ا۔‬
‫ہر وقت خدمت میں حاضر• رہتا تھا اور ساتھ قلم دان لیے پھرتا تھا۔ جب کسی سے بگڑتے تو فوراً پکارتے‪ ،‬ارے‬
‫غنچہ ال تو قلمدان‪ ،‬ذرا میں اس کی خبر تو لوں۔ یہ مجھے سمجھا کیا ہے۔ پھر شرم کی ٓانکھیں بند اور بے حیائی‬
‫کا منہ کھول کر وہ بے نقط سناتے تھے کہ شیطان بھی امان مانگے۔ ع••ربی اور فارس••ی دو ذخ••یرہ دار اردو کے‬
‫ہیں۔ ان کے خ••زانے میں ہج••ووں کے تھیلے بھ••رے ہیں۔ مگ••ر اس وقت ت••ک اردو کے ش••اعر ص••رف ای••ک دو‬
‫شعروں میں دل کا غبار نکال لیتے تھے۔ یہ طرز خاص کہ جس سے ہجو ایک موٹا ٹہن••ا اس ب••اغ ش••اعری ک••ا ہ••و‬
‫گئی۔ انہی کی خوبیاں ہیں۔ عالم‪ ،‬جاہل‪ ،‬فقیر‪ ،‬امیر‪ ،‬نیک‪ ،‬بد کسی کی ڈاڑھی ان کے ہاتھ سے نہیں بچی۔ اس طرح‬
‫پیچھے پڑتے تھے کہ انسان جان سے بیزار ہو جاتا تھا۔ مگر میرضاحک‪ ،‬فدوی‪ ،‬مکین‪ ،‬بقا وغیرہ اہل کم••ال نے‬
‫بھی چھوڑا نہیں ان کا کہن••ا انہیں کے دامن میں ڈاال ہے۔ البتہ حس••ن قب••ول اور ش••ہرت ع••ام ای••ک نعمت ہے کہ وہ‬
‫کسی کے اختیار میں نہیں۔ انہیں خدا نے دی۔ وہ محروم رہے۔ مرزا نے جو کچھ کہا بچے بچے کی زبان پر ہے۔‬
‫انہوں نے جو کہا وہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ انہیں میں سے ای••ک ش••عر ہے کہ ف••دوی کی طب••ع م••وزون س••ے‬
‫مرزا صاحب کی شان میں واقع ہوا ہے۔‬
‫کچھ کٹ گئی ہے پیٹی کچھ کٹ گیا ہے ڈورا‬
‫دم داب سامنے سے وہ اڑ چال لٹورا‬
‫بھڑوا ہے مسخرا ہے سودا اسے ہوا ہے‬
‫مرزا نے جو راجہ نرپت سنگھ کے ہاتھی کے ہجو میں مثنوی کہی ہے۔ اس کے جواب میں بھی کسی نے مثنوی‬
‫لکھی ہے اور خوب لکھی ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں۔‬

‫‪23‬‬
‫تم اپنے فیل معنی کو نکالو‬
‫مرے ہاتھی سے دو ٹکر لڑا لو‬
‫سید انشا نے لکھا ہے کہ دو ٹکریں چاہئے۔ یہ سید صاحب کی سینہ زوری ہے۔ ہجؤوں میں ایک س••اقی ن••امہ ہے۔‬
‫جس میں فوقی شاعر کی ہجو ہے۔ اصل میں قیام الدین قائم کی ہجو میں تھا۔ وہ بزرگ باوجود شاگردی کے م••رزا‬
‫سے منحرف ہو گئے تھے۔ جب یہ ساقی نامہ لکھا گیا تو گھبرائے اور ٓا کر خطا معاف کروائی۔ م••رزا نے ان ک••ا‬
‫نام نکال دیا اور فوقی ایک فرضی شخص ک••ا ن••ام ڈال دی••ا۔ مرث••یے اور س••الم بھی بہت کہے ہیں۔ اس زم••انے میں‬
‫مسدس کی رسم کم تھی۔ اکثر مرثیے چو مرصع ہیں مگر مرثیہ گوئی کی ترقی دیکھ کر ان کا ذکر ک••رتے ہ••وئے‬
‫شرم ٓاتی ہے۔ شاید انہی مرثیوں کو دیکھ کر اگلے وقتوں میں مثل مشہور ہوئی تھی۔ کہ بگڑا شاعر مرثیہ گو اور‬
‫بگڑا گویا مرثیہ خواں۔ حق یہ ہے کہ مرثیہ کا شاعر گویا ایک مصیبت زدہ ہوتا ہے کہ اپنا دکھ••ڑا روت••ا ہے۔ جب‬
‫کسی کا کوئی مر جاتا ہے تو غم و اندوہ کے عالم میں جو بے چارے کی زبان سے نکلتا ہے سو کہتا ہے اس پ••ر‬
‫کون بے درد ہے جو اعتراض کرے۔ وہاں صحت و غلطی اور صنائع و بدائع کو کیا ڈھونڈنا یہ لوگ فق••ط اعتق••اد‬
‫مذہبی کو مدنظر رکھ کر مرثیے سالم کہتے تھے۔ اس ل••یے قواع••د کی احتی••اط کم ک••رتے تھے اور ک••وئی اس پ••ر‬
‫گرفت بھی نہ کرتا۔ پھر بھی مرزا کی تیغ زبان جب اپنی اصالت دکھاتی ہے تو دل•وں میں چھری••اں ہی م••ار ج••اتی‬
‫ہے۔ ایک مطلع ہے۔‬
‫نہیں ہالل فلک پر مہ محرم کا‬
‫چڑھا ہے چرخ پہ تیغا مصیبت و غم کا‬
‫ایک اور مرثیے کا مطلع ہے۔‬
‫یارو سنو تو خالق اکبر کے واسطے‬
‫انصاف سے جواب دو حیدر کے واسطے‬
‫‪ ‬‬
‫‪ ‬وہ بوسہ گہ بنی تھی پیمبر کے واسطے‬
‫یا ظالموں کی برش خنجر کے واسطے‬
‫باوجود عیوب مذکورہ باال کے جہاں کوئی حالت اور روئداد دکھاتے ہیں‪ ،‬پتھر کا دل ہو ت••و پ••انی ہوت••ا ہے اور وہ‬
‫ضرور ٓاج کل کے مرثیہ گویوں کو دیکھنی چاہئے۔ کیوں کہ یہ لوگ اپنے زور کمال میں ٓا ک••ر اس ک••وچے س••ے‬
‫نکل گئے ہیں۔ واسوخت مخمس‪ ،‬ترجیع بند‪ ،‬مستزاد‪ ،‬قطعہ‪ ،‬رباعیاں‪ ،‬پہیلیاں وغیرہ اپنی اپ••نی ط••رز میں الج••واب‬
‫ہیں۔ خصوصا ً تاریخیں بے کم و کاست ایسی برمحل و برجس••تہ واق••ع ہ••وئی ہیں کہ ان کے ع••دم ش••ہرت ک••ا تعجب‬
‫اعلی درجہ کمال پر پہنچایا ہے۔ م•رزا کی زب•ان ک•ا ح•ال نظم میں ت•و س•ب ک•و‬
‫ٰ‬ ‫ہے۔ غرض جو کچھ کہا ہے اسے‬
‫معلوم ہے کہ کبھی دودھ ہے کبھی شربت مگر نثر میں بڑی مشکل ہوتی ہے۔ فقط مصری کی ڈلیاں چب••انی پ••ڑتی‬

‫‪24‬‬
‫ہیں اور صاف معلوم ہوت••ا ہے کہ ن•ثر اردو ابھی بچہ ہے۔ زب•ان نہیں کھلی چن•انچہ ش•علہ عش•ق کی عب••ارت س•ے‬
‫واضح ہے کہ اردو ہے مگر مرزا بے دل کی نثر فارس••ی معل••وم ہ••وتی ہے۔ کت••اب م••ذکور اس وقت موج••ود نہیں۔‬
‫لیکن ایک دیباچے میں انہوں نے تھوڑی سی نثر بھی لکھی ہے۔ اس سے افسانہ مذکور کا ان••داز معل••وم ہ••و س••کتا‬
‫ہے۔ کل اہل سخن کا اتفاق ہے کہ مرزا اس فن میں استاد مسلم الثبوت تھے۔ وہ ایسی طبیعت لے کر ٓائے تھے۔ جو‬
‫شعر اور فن انشاہی کے واسطے پیدا ہوئی تھی۔ میر صاحب نے بھی انہیں پورا ش••اعر مان••ا ہے۔ ان ک••ا کالم کہت••ا‬
‫ہے کہ دل کا کنول ہر وقت کھال رہتا تھا۔ اس پ••ر س••ب رنگ••وں میں ہمرن••گ اور ہ••ر رن••گ میں اپ••نی ترن••گ۔ جب‬
‫دیکھو طبیعت شورش سے بھری اور جوش و خروش سے لبریز۔ نظم کی ہر ف••رع میں طب••ع ٓازم••ائی کی ہے اور‬
‫رکے نہیں چند صفتیں خاص ہیں۔ جن سے کالم ان کا جملہ شعرا سے ممتاز معل••وم ہوت••ا ہے۔ اول یہ کہ زب••ان پ••ر‬
‫حاکمانہ قدرت رکھتے ہیں۔ کالم کا زور مضمون کی نزاکت سے ایسا دست و گریباں ہے جیس••ے ٓاگ کے ش••علے‬
‫میں گرمی اور روشنی‪ ،‬بندش کی چشتی اور ترکیب کی درستی سے لفظوں کو اس در و بس••ت کے س••اتھ پہل••و بہ‬
‫پہلو جڑتے ہیں۔ گویا والیتی طپنچے کی چانپیں چڑھی ہوئی ہیں اور یہ خ••اص ان ک••ا حص••ہ ہے۔ چن••انچہ جب ان‬
‫کے شعر میں سے کچھ بھول جائیں تو جب تک وہی لفظ وہاں نہ رکھے ج••ائیں‪ ،‬ش••عر م••زا ہی نہیں دیت••ا۔ خی••االت‬
‫نازک اور مضامین تازہ باندھتے ہیں۔ مگر اس باریک نقاشی پر ان کی فصاحت ٓائینے کا کام دیتی ہے۔ تشبیہ اور‬
‫استعارے ان کے ہاں ہیں۔ مگر اس•ی ق•در کہ جتن•ا کھ•انے میں نم•ک ی•ا گالب کے پھ•ول پ•ر رن•گ‪ ،‬رنگی•نی کے‬
‫پردے میں مطلب اصلی گم نہیں ہونے دیتے۔ ان کی ط••بیعت‪ ،‬ای••ک ڈھن••گ کی پابن••د نہ تھی ن••ئے ن••ئے خی••ال اور‬
‫چٹختے قافیے جس پہلو سے جمتے دیکھتے تھے‪ ،‬جماد یتے تھے اور وہی ان ک••ا پہل••و ہوت••ا تھ••ا کہ خ••واہ مخ••واہ‬
‫سننے والوں کو بھلے معلوم ہوتے تھے یا زبان کی خوبی تھی کہ جو ب••ات اس س••ے نکل••تی تھی اس ک••ا ان••داز نی••ا‬
‫اور اچھا معلوم ہوتا تھا۔ ان کے ہمعصر استاد خود قرار ک••رتے تھے کہ ج••و ب••اتیں ہم ک••اوش اور تالش س••ے پی••دا‬
‫کرتے ہیں وہ اس شخص کے پیش پا افتادہ ہیں۔ جن اشخاص نے زبان اردو کو پ•اک ص•اف کی•ا ہے‪ ،‬م•رزا ک•ا ان‬
‫میں پہال نمبر ہے انہوں نے فارسی محاوروں کو بھاشا میں کھپا کر ایسا اپک کیا ہے۔ جیس••ے علم کیمی••ا ک••ا م••اہر‬
‫ایک مادے کو دوسرے مادے میں مہذب کر دیتا ہے اور تیسرا مادہ پیدا کر دیتا ہے کہ کس••ی ت••یزاب س••ے اس ک••ا‬
‫جوڑ کھل نہیں سکتا۔ انہوں نے ہندی زبان کو فارسی محاوروں اور استعاروں سے نہایت زور بخشا۔ اکثر ان میں‬
‫سے رواج پا گئے۔ اکثر ٓاگے نہ چلے۔‬
‫انہی کا زور طبع تھا۔ جس کی نزاکت سے دو زبانیں ترتیب پا کر تیسری زبان پیدا ہو گئی اور اسے ایسی قبولیت‬
‫عام حاصل ہوئی کہ ٓائندہ کے لیے وہی ہندوستان کی زب••ان ٹھہ••ری‪ ،‬جس نے حک••ام کے درب••اروں اور عل••وم کے‬
‫خزانوں پر قبضہ کیا۔ اسی کی بدولت ہماری زبان فصاحت اور انشا پردازی کا تمغ••ا لے ک••ر شائس••تہ زب••انوں کے‬
‫دربار میں عزت کی کرسی پائے گی۔ اہل ہند کو ہمیشہ ان کی عظمت کے سامنے ادب اور ممنونی کا سر جھکانا‬
‫چاہیے۔ ایسی طبیعتیں کہاں پیدا ہوتی ہیں کہ پسند عام کی نبض شناس ہوں اور وہی باتیں نکالیں جن پر قبول ع••ام‬

‫‪25‬‬
‫رجوع کر کے سالہا سال کے لیے رواج کا قبالہ لکھ دے۔ ہر زبان کے اہل کمال کی عادت ہے کہ غیر زب••ان کے‬
‫بعض الفاظ میں اپنے محاورے کا کچھ نہ کچھ تصرف کر لیتے ہیں۔ اس میں کسی موقع پر قادر الکالمی ک••ا زور‬
‫دکھانا ہوتا ہے۔ کسی موقع پر محاورہ• عام کی پابندی ہوتی ہے۔ بے خبر کہہ دیتا ہے کہ غلطی کی۔ مرزا نے بھی‬
‫کہیں کہیں ایسے تصرف کیے ہیں۔ چنانچہ ایک جگہ کہتے ہیں۔ جیسے کہتا ہے کوئی ہو ترا صفا صفا ایک غزل‬
‫میں کہتے ہیں۔‬
‫لب و لہجہ ترا سا ہیگا کب خوبان عالم میں‬
‫غلط الزام ہے جگ میں کہ سب مصری کی ڈلیاں ہیں‬
‫‪ ‬‬
‫‪ ‬کل تو مست اس کیفیت سے تھا کہ ٓاتے دیر سے‬
‫بھر نظر جو مدرسہ دیکھا سو وہ مے خانہ تھا‬
‫‪ ‬‬
‫‪ ‬ساق سیمیں کو ترے دیکھ کے گوری گوری‬
‫شمع مجلس میں ہوئی جاتی ہے تھوری تھوری‬
‫‪ ‬‬
‫‪ ‬اپنے کعبے کی بزرگی شیخ جو چاہے سو کر‬
‫از روئے تاریخ تو بیش از صنم خانہ نہیں‬
‫فارسی محاورے کو بھی دیکھنا چاہئے کہ کس خوبصورتی سے بول گئے ہیں۔‬
‫ہے مجھے فیض سخن اس کی ہی مداحی کا‬
‫ذات پر جس کی مبرہن گنہ عزوجل‬
‫‪ ‬‬
‫بہت ہر ایک سے ٹکرا کے چلے تھے کاال‬
‫ہو گیا دیکھ کے وہ زلف سیہ فام سفید‬
‫‪ ‬‬
‫خیال ان انکھڑیوں کا چھوڑ مت مرنے کے بعد از بھی‬
‫دال ٓایا جو تو اس مے کدے میں جام لیتا جا‬
‫‪ ‬‬
‫سودا تجھے کہتا ہے نہ خوباں سے مل اتنا‬
‫تو اپنا غریب عاجز دل بیچنے واال‬

‫‪26‬‬
‫‪ ‬‬
‫عاشق بھی نامراد ہیں پر اس قدر کے ہم‬
‫دل کو گنوا کے بیٹھ رہے صبر کر کے ہم‬
‫یہاں ردیف میں تصرف کیا ہے کہ ’’ ے‘‘ ح••دف ہ••و گ••ئی ہے اس••ی ط••رح ع••اجز میں ’’ ع‘‘ حکیم کی ہج••و میں‬
‫کہتے ہیں۔‬
‫لکھ دیا مجنون کو شیر شتر‬
‫کہہ دیا مستسقی سے جا فصد کر‬
‫ایک کہانی میں لکھتے ہیں۔‬
‫قضا کار وہ والی نامدار‬
‫ہوا درد قولنج سے بے قرار‬
‫مرزا اکثر ہندی کے مضمون اور الفاظ نہایت خفیف ط••ور پ••ر تض••مین ک••ر کے زب••ان ہن••د کی اص••لیت ک••ا ح••ق ادا‬
‫کرتے تھے۔ اس لطف میں یہ اور سید انشاء شامل ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔‬
‫ترکش الینڈ سینہ عالم کا چھان مارا‬
‫مژگاں نے تیرے پیارے ارجن کا بان مارا‬
‫‪ ‬‬
‫محبت کے کروں بھج بل کی میں تعریف کیا یارو‬
‫ستم پر بت ہو تو اس کو اٹھا لیتا ہے جوں رائی‬
‫نہیں ہے گھر کوئی ایسا جہاں اس کو نہ دیکھا ہو‬
‫کنہیا سے نہیں کچھ کم صنم میرا وہ ہرجائی‬
‫‪ ‬‬
‫ساون کے بادلوں کی طرح سے بھرے ہوئے‬
‫یہ نین وہ ہیں جن سے کہ جنگل ہرے ہوئے‬
‫‪ ‬‬
‫بوندی کے جمدھروں سے وہ بھڑتے ہیں ہمدگر‬
‫لڑکے مجھ ٓانسؤوں کے غضب منکرے ہوئے‬
‫‪ ‬‬
‫اے دل یہ کس سے بگڑی کہ ٓاتی ہے فوج اشک‬
‫لخت جگر کی الش کو ٓاگے دھرے ہوئے‬

‫‪27‬‬
‫مرزا خود الفاظ تراشتے تھے اور اس خوبصورتی سے تراشتے تھے کہ مقبول خاص و ع••ام ہ••وتے تھے۔ ٓاص••ف‬
‫الدولہ مرحوم کی تعریف میں ایک قصیدہ کہا ہے‪ ،‬چند شعر اس کے لکھتا ہوں۔ مضامین ہندی کے ساتھ الفاظ• کی‬
‫خوبصورت تراش کا لطف دیکھو۔‬
‫تیرے سائے تلے تو ہے وہ مہنت‬
‫پشہ کر جائے دیو و دد سے لڑنت‬
‫‪ ‬‬
‫نام سن پیل کوہ پیکر کے‬
‫بہ چلیں جوئے شیر ہو کر دنت‬
‫‪ ‬‬

‫سحر صولت کے سامنے تیرے‬


‫سامری بھول جائے اپنی پڑھنت‬
‫‪  ‬‬
‫تیری ہیبت سے نہ فلک کے تلے‬
‫کانپتی ہے زمین کے بیچ گڑنت‬
‫‪ ‬‬
‫تکلے کی طرح بل نکل جاوے‬
‫تیرے ٓاگے جو دو کرے اکڑنت‬
‫‪ ‬‬
‫دیکھ میدان میں اس کو روز نبرد‬
‫منہ پہ رادن کے پھول جائے بسنت‬
‫‪ ‬‬
‫تکگ پا اگر سنے تیرے‬
‫داب کر دم کھسک چلے ہنونت‬
‫‪ ‬‬
‫ٓاوے بالفرض سامنے تیرے‬
‫روز ہیجا کے سور یا ساونت‬
‫‪ ‬‬

‫‪28‬‬
‫تن کا ان کے زرہ میں ہوں یوں حال‬
‫مرغ کی دام میں ہو جوں پھڑکنت‬
‫اسی ط••رح ب••اقی اش••عار ہیں م•رغ کی پھ••ڑکنت ج••ل کربھس••منت‪ ،‬ت•یر کی کم••ان س•ے س•رکنت زمین میں کھ•دنت‪،‬‬
‫گھوڑے کی کڑکنت اور ڈپننت‪ ،‬جودنت (مقابل) دبکنت (ڈر کر دبکنا) روباہ ش••یر ک••و س••مجھتی ہے۔ کی••ا پش••منت‪،‬‬
‫پخنت (بے فک•ر) روپی•وں کی بکھ•رنت ت•اروں کی چھٹکنت‪ ،‬لپٹنت (لپٹن•ا) پ•ڑھنت (پڑھن•ا)‪ ،‬کھٹنت (کھٹن•ا)‪ ،‬ع•ام‬
‫شعرائے ہندو ایران کی طرح سب تصنیفات ایک کلیات میں ہیں۔ اس ل••یے نہیں کہہ س••کتے کہ ک••ون س••ا کالم کس‬
‫وقت کا ہے اور طبیعت نے وقت بوقت کس طرف میل کیا ہے۔ خصوصا ً یہ کہ زبان میں کب کب کیا کی••ا اص••الح‬
‫کی ہے۔ یہ اتفاقی موقع م••یر ص••احب ک••و ہ••اتھ ٓای••ا کہ چھ دی••وان ال••گ ال••گ لکھ گ••ئے۔ متق••دمین اور مت••اخرین کے‬
‫کالموں کے مقابلہ ک•رنے والے کہ•تے ہیں کہ ان کے دف•تر تص•نیفات میں ردی بھی ہے اور وہ بہت ہے۔ چن•انچہ‬
‫جس طرح میر صاحب کے کالم میں بہتر‪ 72‬نشتر بت••اتے ہیں۔ ان کے زبردس••ت کالم میں س••ے بہ••تر خنج••ر تی••ار‬
‫کرتے ہیں اس رائے میں مجھے بھی شامل ہونا پڑت••ا ہے کہ بے ش••ک ج••و کالم ٓاج کی ط••رز کے مواف••ق ہے۔ وہ‬
‫ایسے مرتبہ عالی پر ہے جہاں ہماری تعری••ف کی پ••رواز نہیں پہنچ س••کتی اور دل کی پوچھ••و ت••و جن اش••عار ک••و‬
‫پرانے محاوروں کے جرم میں ردی کرتے ہیں۔ ٓاج کے ہزار محاورے ان پر قربان ہیں‪ ،‬سن لیجئے۔‬
‫گر کیجئے انصاف تو کی روز وفایں‬
‫خط ٓاتے ہی سب ٹل گئے اب ٓاپ ہیں نا میں‬
‫‪ ‬‬
‫تم جن کی ثنا کرتے ہو کیا بات ہے ان کی‬
‫لیکن ٹک ادھر دیکھیو اے یار بھالیں‬
‫‪ ‬‬
‫کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا‬
‫ساغر کو مرے ہاتھ سے لیجو کہ چال میں‬
‫استاد مرحوم کہا کرتے تھے کہ جب سودا کے سامنے کوئی یہ شعر پڑھ دیتا تھا یا اپنی ہی زبان پر ٓا جاتا تھا ت••و‬
‫وجد کیا کرتے تھے اور مزے لیتے تھے۔ اسی انداز کا ایک شعر نظیری کا یاد ٓا گیا۔ اگرچہ فارسی ہے مگر جی‬
‫نہیں چاہتا کہ دوستوں کو لطف سے محروم رکھوں۔‬
‫بوئے یار من ازیں سست وفا می ٓاید‬
‫گلم از دست بگیرید کہ از کار شدم‬
‫بہار سخن کے گلچینو! وہ ایک زمانہ تھا کہ ہندی بھاشا کی زمین جہاں دوہروں کا سبزہ خود روا گا ہوا تھا‪ ،‬وہاں‬
‫نظم فارسی کی تخم ریزی ہوئی تھی۔ اس وقت فارسی کی بحروں میں شعر کہتا اور ادھر کے محاورات• کو ادھر‬

‫‪29‬‬
‫لینا اور فارسی مضامین کو ہندی لباس پہنانا ہی بڑا کمال تھا۔ اس صاحب ایجاد نے اپنے زور طبع اور قوت زبان‬
‫سے صنعتوں اور فارسی کی ترکیبوں اور اچھوتے مضمونوں ک••و اس میں ت••رتیب دی••ا اور وہ خ••وبی پی••دا کی کہ‬
‫ایہام اور تجنیس و غیر صنائع لفظی جو ہندی دہ••روں کی بنی••اد تھے۔ انہیں ل••وگ بھ••ول گ••ئے۔ ایس••ے زم••انے کے‬
‫کالم میں رطب دیا بس ہو تو تعجب کیا ہم اس الزام کا برا نہیں مانتے۔ اس وقت زمین س••خن میں ای••ک ہی ٓافت ت••و‬
‫نہ تھی۔ ادھر تو مشکالت مذکورہ ادھر پرانے لفظوں کا ایک جنگل جس کا کاٹنا کٹھن۔ پس کچھ اش••خاص ٓائے کہ‬
‫چند کیاریاں تراش کر تخم ریزی کر گئے۔ ان کے بعد والوں نے جنگل کو کاٹا۔ درختوں کو چھانٹا۔ چمن بندی ک••و‬
‫پھیالیا۔ جوان کے پیچھے ٓائے۔ انہوں نے روش‪ ،‬خیاباں‪ ،‬دار بست‪ ،‬گلکاری نہ••ال‪ ،‬گلبن س••ے ب••اغ س••جایا۔ غ••رض‬
‫عہد بعہد اصالحیں ہوتی رہیں اور ٓائندہ ہوتی رہیں گی۔ جس زبان کو ٓاج ہم تکمیل جادوانی ک••ا ہ••ار پہن••ائے خ••وش‬
‫بیٹھے ہیں۔ کیا یہ ہمیشہ ایسی ہی رہے گی؟ کبھی نہیں ہم کس منہ سے اپنی زبان کا فخر کر سکتے ہیں۔ کی••ا دور‬
‫گزشتہ کا سما بھول گئے؟ ذرا پھر کر دیکھو تو ان بزرگان متقدمین کا مجمع نظر ٓائے گ••ا کہ محم••د ش••اہی درب••ار‬
‫کی کھڑکی دار پگڑیاں باندھے ہیں پچاس پچاس گز گھیر کے جامے پہنے بیٹھے ہیں۔ وہاں اپنے کالم لے کر ٓأو۔‬
‫جس زبان کو تم نئی تراش اور ایجاد اور اختراع کا خلعت پہناتے ہ••و کی••ا وہ اس••ے تس••لیم ک••ریں گے۔ نہیں‪ ،‬ہرگ••ز‬
‫نہیں۔ ہماری وضع کو سفلہ اور گفتگو کو چھیچھورا سمجھ کر منہ پھ••یر لیں گے۔ پھ••ر ذرا س••امنے دوربین لگ••أو۔‬
‫دیکھو ان تعلیم یافتہ لوگوں کا لین دین ڈوری ٓاچکا ہے جو ٓائے گا اور ہم پر ہنستا چال جائے گا۔‬
‫یہ چمن یوں ہی رہے گا اور ہزاروں‬
‫اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں‬
‫مرزا قتیل چار شربت میں فرماتے ہیں۔ مرزا محمد رفی•ع س•ودا اور ریختہ پ•ایہ مال ظہ•وری رار و د غ•یر ازینکہ‬
‫زبان ہر دو باہم تخالف وارد فرقے نتواں کرد مرزا قتیل مرحوم صاحب کمال ش•خص تھے۔ مجھ بے کم•ال نے ان‬
‫کی تصنیفات سے بہت فائدے حاصل کیے۔ مگر ظہوری کی کیا غزلیں کیا قصائد دونوں اس••تعاروں اور تش••بیہوں‬
‫کے پھندوں سے الجھا ہوا ریشم ہیں۔ سودا کی مشابہت ہے تو انوری سے ہے کہ محاورے اور زبان کا حاکم اور‬
‫قصیدہ اور ہجو کا بادشاہ ہے۔‬
‫یہ بات بھی لکھنے کے قابل ہے کہ تصوف جو ایش•یا کی ش•اعری کی مرغ•وب نعمت ہے۔ اس میں م•رزا پھیکے‬
‫ہیں‪ ،‬وہ حصہ خواجہ میر درد کا ہے۔‬
‫کہتے ہیں کہ مرزا قصیدے کے بادش••اہ ہیں۔ مگ••ر غ••زل میں م••یر تقی کے براب••ر س••وز و گ••داز نہیں یہ ب••ات کچھ‬
‫اصلیت رکھتی ہے۔ بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے بھی اس بات کے چرچے تھے۔ چنانچہ خود کہتے ہیں۔‬
‫لوگ کہتے ہیں کہ سودا کا قصیدہ ہے خوب‬
‫ان کی خدمت میں لیے میں یہ غزل جأوں گا‬
‫یعنی دیکھو تو سہی غزل کچھ کم ہے۔‬

‫‪30‬‬
‫قدرت ہللا خاں قاسم بھی اپنے تذکرہ میں فرماتے ہیں۔ زعم بعضے ٓانکہ سرٓامد شعرائے فصاحت ٓاق••ا م••رزا محم••د‬
‫رفیع سودا اور غزل گوئی بوئے نہ رسیدہ اما حق ٓانست کہ‬
‫ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است‬
‫مرزا دریائیست بے کراں و میر نہر یست عظیم الشان‬
‫در معلومات قواعد میر رابر مرزا برتری ست دور قوت شاعری مرزا رابر میر سروری۔ اص••ل حقیقت یہ ہے کہ‬
‫قصیدہ غزل مثنوی وغیرہ اقسام شعر میں کوچے کی راہ جدا جدا ہے۔ جس طرح قص••یدے کے ل••یے ش••کوہ الف••اظ‬
‫اور بلندی مضامین چستی ت•رکیب وغ•یرہ لوازم••ات ہیں۔ اس••ی ط•رح غ•زل کے ل•یے عاش•ق معش•وق کے خی••االت‬
‫عشقیہ ذکر وصل شکایت فراق‪ ،‬درد انگیزی اور الم ناک حالت‪ ،‬گفتگو ایسی بے تکلف و ص••اف ص••اف ن••رم ن••رم‬
‫گویا وہی دونوں بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ اس کے ادائے مضامین کے الفاظ بھی اور ہیں اور اس کی بحریں بھی‬
‫خاص ہیں۔ میر صاحب کی طبیعت قدرتی درد خیز اور دل حسرت انگ•یز تھ•ا کہ غ•زل کی ج•ان ہے۔ اس ل••یے ان‬
‫کی غزلیں ہی ہیں اور خاص خاص بحور و قوافی میں ہیں۔ م••رزا کی ط••بیعت ہمہ رن••گ اور ہمہ گ••یر‪ ،‬ذہن ب••راق‬
‫اور زبان مشاق رکھتے تھے۔ تو سن فکر ان کا منہ زور گھوڑے کی طرح جس طرف جاتا تھا رک نہ سکتا تھ••ا۔‬
‫کوئی بحر اور کوئی قافیہ ان کے ہاتھ ٓائے تغزل کی خصوصیت نہیں رہتی تھی۔ جس برجستہ مض••مون میں بن••دھ‬
‫جائے بندھ لی••تے تھے۔ بے ش••ک ان کی غزل••وں کے بھی اک••ثر ش••عر چس••تی اور درس••تی میں قص••یدے ک••ا رن••گ‬
‫دکھاتے ہیں۔ ایک دن لکھنو میں م••یر اور م••رزا کے کالم پ••ر دو شخص••وں نے تک••رار میں ط••ول کھینچ••ا۔ دون••وں‬
‫خواجہ باسط کے مرید تھے۔ انہیں کے پاس گئے اور عرض کی کہ ٓاپ فرمائیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں صاحب‬
‫کم•ال ہیں۔ مگ•ر ف•رق اتن•ا ہے کہ م•یر ص•احب ک•ا کالم ٓاہ ہے اور م•رزا ص•احب ک•ا کالم واہ ہے۔ مث•ال میں م•یر‬
‫صاحب کا شعر پڑھا۔‬
‫سرہانے میر کے ٓاہستہ بولو‬
‫ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے‬
‫پھر مرزا کا شعر پڑھا۔‬
‫سودا کی جو بالیں پہ ہوا شور قیامت‬
‫خدام ادب بولے ابھی ٓانکھ لگی ہے‬
‫لطیفہ در لطیفہ‪:‬‬
‫ان میں سے ایک شخص جو مرزا کے ط••رف دار تھے۔ وہ م••رزا کے پ••اس بھی ٓائے اور س••ارا م••اجرا• بی••ان کی••ا۔‬
‫مرزا بھی میر صاحب کے شعر کو سن کر مسکرائے اور کہا شعر تو میر کا ہے مگر داد خواہی نے فارسی کے‬
‫تذکروں اور استادوں کے دیوانوں میں سے ‪ 15‬برس کی محنت میں ایک انتخاب مرتب کیا اور تصحیح کے ل••یے‬
‫مرزا فاخر• مکیں کے پاس لے گئے کہ ان دنوں فارسی کے شاعروں میں ن••امور وہی تھے انہ••وں نے کچھ انک••ار‬

‫‪31‬‬
‫کچھ اقرار بہت سی تکرار کے بعد انتخاب مذکور کو رکھا اور دیکھنا شروع کیا مگر جا بجا استادوں کے اش••عار‬
‫کو کہیں بے معنی سمجھ کر کاٹ ڈاال کہیں تیغ اصالح سے زخمی• کر دی••ا۔ اش••رف علی خ••اں ص••احب ک••و جب یہ‬
‫حال معلوم ہوا تو گئے اور بہت سے قیل و قال کے بعد انتخاب مذکور لے ٓائے۔ کتاب اص••الحوں س••ے چھل••نی ہ••و‬
‫گئی تھی۔ اس لیے بہت رنج ہوا۔ اسی عالم میں مرزا صاحب کے پاس ال کر سارا حال بیان کی••ا اور انص••اف طلب‬
‫ہوئے۔ ساتھ اس کے یہ بھی کہا کہ ٓاپ اسے درست کر دیجئے۔ انہ••وں نے کہ••ا کہ مجھے فارس••ی زب••ان کی مش••ق‬
‫نہیں۔ اردو میں جو چند لفظ جوڑ لیتا ہوں‪ ،‬خدا جانے دلوں میں کی••ونکر قب••ولیت ک••ا خلعت پ••ا لی••ا ہے۔ م••رزا ف••اخر•‬
‫مکین فارسی دان اور فاری کے صاحب کمال ہیں۔ انہ••وں نے ج••و کچھ کی••ا ہ•و گ••ا۔ س•مجھ ک•ر کی••ا ہ•و گ•ا۔ ٓاپ ک•و‬
‫اصالح منظور ہے۔ تو شیخ علی حزیں مرحوم کے شاگرد شیخ ٓایت ہللا ثنا‪ ،‬میر شمس الدین فقیر کے شاگرد م•رزا‬
‫بھچوذرہ تخلص موجود ہیں۔ حکیم بو علی خاں ہاتف بنگالہ میں نظام الدین صانع بلگرامی فرخ ٓاباد میں۔ ش••اہ ن••ور‬
‫العین واقف شاہجہان ٓاباد میں ہیں‪ ،‬یہ ان لوگوں کے کام ہیں۔ جب مرزا صاحب نے ان نامور فارسی دانوں کے نام‬
‫لیے تو اشرف علی خاں نے کہا کہ ان لوگ••وں ک••و ت••و م••رزا ف••اخر خ••اطر میں بھی نہیں التے۔ غ••رض کہ ان کے‬
‫اصرار سے مرزا نے انتخاب مذکور کو رکھ لیا۔د یکھا تو معلوم ہوا کہ جو ج••و باکم••ال س••لف س••ے ٓاج ت••ک مس••لم‬
‫الثب•وت چلے ٓاتے ہیں۔ ان کے اش••عار تم•ام زخمی تڑپ•تے ہیں۔ یہ ح••ال دیکھ ک•ر م••رزا ک••و بھی رنج ہ•وا۔ بم•وجب‬
‫صورت حال کے رسالہ عبرت الغافلین لکھا اورمرزا فاخر• کی غلط فہمیوں کو اصول انشاء پردازی کے بم••وجب‬
‫کماحقہ ظاہر کیا۔ ساتھ ان کے دیوان پر نظ••ر ڈال ک••ر اس کی غلطی••اں بھی بی••ان کیں اور جہ••اں ہ••و س••کا۔ اص••الح‬
‫مناسب دی۔ مرزا فاخر• کو بھی خبر ہوئی۔ بہت گھبرائے اور چاہا کہ زب••انی پی••اموں س••ے ان داغ••وں ک••و دھ••وئیں۔‬
‫چنانچہ بقا ہللا خاں کو گفتگو کے لیے بھیجا وہ مرزا فاخر کے شاگرد تھے‪ ،‬بڑے مش••تاق اور ب••اخبر ش••اعر تھے۔‬
‫مرزا اور ان سے خ••وب خ•وب گفتگ•وئیں رہیں اور م•رزا ف•اخر• کے بعض اش••عار‪ ،‬جن کے اعتراض•وں کی خ•بر‬
‫اڑتے اڑتے ان تک بھی پہنچ گئی تھی۔ ان پر رد و قدح بھی ہوئی چنانچہ ایک شعر ان کا تھا۔‬
‫گرفتہ بود دریں بزم چوں قدح دل من‬
‫شگفتہ رویے صہبا شگفتہ کرد مرا‬
‫مرزا کو اعتراض تھا کہ قدح کو گرفتہ دل کہنا بے جا ہے۔ اہل انشا نے ہمیشہ قدح کو کھلے پھول سے تشبیہ دی‬
‫ہے۔ یا ہنسی سے کہ اسے بھی شگفتگی الزم ہے۔ بقا نے ج••واب میں ش••اگردی ک••ا پس••ینہ بہت بہای••ا اور اخ••یر ک••و‬
‫باذل کا ایک شعر بھی سند میں الئے۔‬
‫چہ نشاط بادہ بخشد بمن خراب بے تو‬
‫بہ دل گرفتہ ماند قدح شراب بے تو‬

‫‪32‬‬
‫مرزا رفیع سن کر بہت ہنسے اور کہا اپنے استاد سے کہنا کہ استادوں کے شعروں کو دیکھا کرو تو س••مجھا بھی‬
‫کرو۔ یہ شعر تو میرے اعتراض کی تائید کرتا ہے۔ یعنی باوجودیکہ پیالہ ہنسی اور شگفتگی میں ضرب المثل ہے‬
‫اور پیالہ شراب سامان نشاط ہے۔ مگر وہ بھی دل افسردہ کا حکم رکھتا ہے۔‬
‫غرض جب یہ تدبیر پیش نہ کی گئی تو مرزا ف••اخر• نے اور راہ لی۔ ش••اگرد لکھن••و میں بہت تھے۔ خصوص•ا ً ش••یخ‬
‫زادے کہ ایک زمانے میں وہی ملک اودھ کے حاکم بنے ہوئے تھے اور س••ینہ زوری اور سرش••وری کے بخ••ارا‬
‫بھی تک دماغوں سے گئے نہ تھے۔ ایک دن سودا تو بے خبر گھ••ر میں بیٹھے تھے‪ ،‬وہ بل•وا ک•ر کے چ•ڑھ ٓائے۔‬
‫مرزا کے پیٹ پر چھری رکھ دی اور کہا کہ جو کچھ تم نے کہا ہے وہ سب لو اور ہمارے استاد کے سامنے چ••ل‬
‫کر فیصلہ کرو۔ مرزا کو مض••امین کے گ••ل پھ••ول اور ب••اتوں کے ط••وطے مین••ا ت•و بہت بن••اتے ٓاتے تھے مگ••ر یہ‬
‫مضمون ہی نیا تھا سب باتیں بھول گئے۔ گرد وہ لشکر ش••یطان تھ••ا۔ یہ بیچ میں تھے چ••وک میں پہنچے ت••و انہ••وں‬
‫نے چاہا کہ یہاں انہیں بے عزت کیجئے۔ کچھ تکرار کر کے پھ••ر جھگ••ڑنے لگے۔ مگ••ر جس••ے خ••دا ع••زت دے‪،‬‬
‫اسے کون بے عزت کر سکتا ہے؟ اتفاقا ً سعادت علی خاں کی سواری ٓا نکلی۔ مجمع دیکھ کر ٹھہر گئے اور ح••ال‬
‫دریافت کر کے سودا کو اپنے ساتھ ہاتھی پر بٹھا کر لے گئے۔ ٓاصف الدولہ سرا میں دستر خوان پر تھے۔ سعادت‬
‫علی خاں اندر گئے اور کہا بھائی صاحب بڑا غضب ہے ٓاپ کی حکومت اور ش••ہر میں یہ قی••امت! ٓاص••ف ال••دولہ‬
‫نے کہا کیوں بھئی خیر باشد انہوں نے کہا مرزا رفیع جس کو باوا جان نے برادر من مشفق مہرب••ان کہہ ک••ر خ••ط‬
‫لکھا۔ ٓارزوئیں کر کے بالیا اور وہ نہ ٓای••ا ٓاج وہ یہ••اں موج••ود ہے اور اس ح••الت میں ہے کہ اگ••ر اس وقت میں نہ‬
‫پہنچتا تو شہر کے بدمعاشوں نے اس بے چارے کو بے حرمت کر ڈاال تھا۔ پھر سارا ماجرا• بیان کیا۔ ٓاصف الدولہ‬
‫فرشتہ خصال گھبرا کر بولے کہ بھئی مرزا فاخر نے ایسا کیا تو مرزا کو کیا گویا ہم کو بے عزت کیا۔ ب••اوا ج••ان‬
‫نے انہیں بھائی لکھا تو وہ ہمارے چچا• ہوئے۔ سعادت علی خاں نے کہ•ا کہ اس میں کی•ا ش•بہ ہے۔ اس••ی وقت ب•اہر‬
‫نکل ٓائے ۔ سارا حال سنایا بہت غصے ہوئے اور حکم دیا کہ شیخ زادوں کا محلے کا محلہ کھ••ڑوا ک••ر پھین••ک دو‬
‫اور شہر سے نکلوا دو۔ مرزا فاخر کو جس حال میں ہو اسی حال سے حاضر کرو۔ س••ودا کی نی••ک نی••تی دیکھ••نی‬
‫چاہیے۔ ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ جناب عالی! ہم لوگوں کی ل•ڑائی ک•ا غلہ قلم کے می•دان میں ٓاپ ہی فیص•ل ہ•و‬
‫جاتی ہے۔ حضور اس میں مداخلت نہ فرمائیں۔ غالم کی بدنامی ہے‪ ،‬جتنی مدد حضور کے اقب••ال س••ے پہنچی ہے‬
‫وہی کافی ہے۔ غرض مرزا رفیع با عزاز و اکرام وہاں سے رخص••ت ہ••وئے۔ ن••واب نے احتیاط•ا ً س••پاہی س••اتھ ک••ر‬
‫دئیے۔ حریفوں کو جب یہ راز کھال تو امرائے دربار کے پاس دوڑے۔ صالح ٹھہری کہ معاملہ روپیہ یا جاگیر کا‬
‫نہیں۔ تم سب مرزا فاخر کو ساتھ لے کر مرزا رفی••ع کے پ••اس چلے ج••أو اور خط••ا مع••اف ک••روا ل••و۔ دوس••رے دن‬
‫ٓاصف الدولہ نے سردربار مرزا فاخر کو بھی بالیا اور کہا تمہاری طرف سے بہت نازیبا حرکت ہ•وئی اگ•ر ش•عر‬
‫کے مرد میدان ہو تو اب روبرو سودا کے ہجو کہو۔ مرزا فاخر نے کہا ایں از مانمے ٓای••د۔ ٓاص••ف ال••دولہ نے بگ••ڑ‬
‫کر کہا۔ درست ایں از شمانمے ٓاید‪ ،‬ایں مے ٓاید کہ شیاطین خودرا ابر س••ر م••یرزائے بے چ••ارہ فرس••تادید از خ••انہ‬

‫‪33‬‬
‫ببازارش کشید ندومے خواستند ٓابرویش بخاک ریزند پھر سودا کی طرف اشارہ کیا یہ••اں کی••ا دی••ر تھی۔ فی الب••دیہہ‬
‫رباعی پڑھی‬
‫تو فخر خراسانی وفا ساقط ازد‬
‫گوہر بدہاں داری رہا ساقط ازد‬
‫‪ ‬‬
‫تعالی خواہم‬
‫ٰ‬ ‫روزاں و شباں ز حق‬
‫مرکب و ہدت خدا دبا ساقط ازد‬
‫یہ جھگڑا تو رفع ہوا مگر دور دور سے ہجؤوں میں چوٹیں چلتی رہیں۔لطف یہ ہے کہ مرزا ف••اخر کی کہی ہ••وئی‬
‫ہجویں کوئی جانت•ا بھی نہیں‪ ،‬س•ودا نے ج•و کچھ ان کے ح•ق میں کہ•ا وہ ہ•زاروں کی زب•ان پ•ر ہے۔ م•رزا ف•اخر•‬
‫مکین‪ :‬اصل میں کشمیری تھے۔ اول قنوت حسین خاں کشمیری سے اصالح لیتے تھے۔ پھ••ر عظیم••ائے کش••میری‬
‫کے شاگرد ہوئے۔ ان کے کمال میں کالم کی جگہ نہیں۔ صحت الفاظ• اور تحقیق لغت میں بڑی کوش••ش کی۔ دی••وان‬
‫نے رواج نہیں پایا۔ مگر اشعار متفرق بیاضوں میں ہیں یا وہ مش•ہور ہیں کہ انہ•وں نے س•ودا کے ح•ق میں کہے‪،‬‬
‫سودا نے تضمین کر کے انہیں پ•ر الٹ دئ•یے۔ کچھ اش•عار س•ودا نے ع•برۃ الغ•افلین میں اعتراض•وں کی ذی•ل میں‬
‫لکھے۔ بہرحال معلوم ہوتا ہے کہ کیفیت سے خالی نہ تھے۔ زمانے نے بھی پورا حق ان کی ق••در دانی ک••ا ادا کی••ا۔‬
‫سینکڑوں شاگرد غریب اور توانگر لکھنو اور اطراف میں ہو گئے۔ پیشہ ت••و ک••ل تھ••ا اور بے دم••اغی س••ے اس••ے‬
‫رونق دیتے تھے۔‬
‫نقل‪:‬ـ مولوی غالم ضامن صاحب رتبے کے فاصل تھے۔ ایک دن غزل لے کر گئے کہ مجھے شاگرد کیجئے اور‬
‫اصالح فرمائیے۔ مرزا فاخر نے ٹال دیا۔ مولوی صاحب نے پھر کہا انہوں نے پھر انکار کیا اور کج خلقی• کرنے‬
‫لگے۔ جو عجز و انکسار کے حق تھے‪ ،‬سب مولوی صاحب نے ادا کیے۔ ایک نہ قب••ول ہ••وا۔ ناچ••ار یہ ش••عر پ••ڑھ‬
‫کر اٹھ کھڑے ہوئے۔‬
‫مرزا مکین مانشود چوں بکین ما‬
‫کین است جزو اعظم مرزا مکین ما‬
‫یہ بھی معلوم ہوا کہ ابتدا سودا کی طرف سے کم ہوتی تھی ۔ ہاں کوئی چھیڑ دیتا تھا تو پھر یہ بھی حد سے پ•رے‬
‫پہنچا دیتے تھے۔ چنانچہ میرضا حک مرحوم کے حال سے معلوم ہو گا ٓاصف الدولہ ای••ک دفعہ ش••کار ک••و گ••ئے۔‬
‫خبر ٓائی کہ نواب نے بھیلوں کے جنگل میں شیر مارا۔ وبا وجودیکہ ہمیشہ انع•ام و اک••رام کے انب••اروں س•ے زی•ر‬
‫بار تھے۔ مگر فوراً کہا‬
‫یارو یہ ابن ملجم پیدا ہوا دوبارہ‬
‫شیر خدا کو جس نے بھلیوں کے بن میں مارا‬

‫‪34‬‬
‫نواب کو بھی خبر ہوئی۔ جب پھر کر ٓائے تو خود شکایت دوستانہ کے طور پر کہا کہ مرزا تم نے ہمیں ک••و ش••یر‬
‫خدا کا قاتل بنایا؟ ہنس کر کہا جناب عالی! شیر تو ہللا ہی کا تھا نہ حضور ک••ا‪ ،‬نہ ف••دی ک••ا ان کی دوا معل••وم ہ••وتی‬
‫ہے۔ رسالہ عبرۃ الغافلین طبع شاعر کے لیے سیڑھی کا کام دیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ م••رزا فق••ط طبعی‬
‫شاعر نہ تھے بلکہ اس فن کے اصول و فروع میں ماہر تھے۔ اس کی فارسی عب••ارت بھی زبان••دانی کے س••اتھ ان‬
‫کی شگفتگی اور شوخی طبع کا نمونہ ہے۔ اس کی ت••الیف ای••ک افس••انہ ہے اور قاب••ل س••ننے کے ہے۔ اس زم••انے‬
‫میں اشرف علی نام ایک شریف خاندانی شخص تھے۔‬

‫‪35‬‬

You might also like