Professional Documents
Culture Documents
Module: 11
Paper: Marsia Nigari
Topic: Masnavi Ka Fan
Content writer: Professor Kauser Mazhari
Jamia Millia Islamia, New Delhi
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi
مثنوی کا فن
(Introduction)تمہید/تعارف
اردو شاعری کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو مثنوی ایک قدیم صنف رہی ہے۔ دکن میں خصوصی
طور پر ،اس کی روایت بہت مستحکم رہی ہے۔ اس صنف کی یہ خوبی ہے کہ اس میں طویل
صے تاریخی نوعیت کی کہانیاں ،محبت کی طبع زاد رودادیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ مثنوی ایک ق ّ
ایسی صنف ہے جس میں وسعت ہوتی ہے۔ اس صنف میں اتنی گنجائش ضرور ہوتی ہے کہ
صے کو آگے بڑھا سکے۔ مثنوی نگار نئے نئے اور چھوٹے بڑے کرداروں کی مدد سے ق ّ
خارجی عوامل اور مناظر قدرت کے ساتھ ساتھ داخلی کیفیات اور انسانی جذبات کی پیش کش
میں مثن وی نگار اپنی قادرالکالمی سے کام لیتا ہے۔ لہٰ ذا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ فن کے
لحاظ سے اس صنف شاعری کی بڑی قدر و منزلت ہے اور یہ ایک بیانیہ صنف شاعری ہے۔
سبق کا مقصد ()Learning Outcome
اس سبق میں یہ کوشش ہوگی کہ اردو شاعری میں صنف مثنوی کو فن یعنی آرٹ کے طور پر
سمجھا اور دیکھا جائے۔ یہاں مثنوی نگاری کی سابقہ روایتوں اور اس کی تاریخ کے بجائے اس
کی فنی باریکیوں اور اس کے برتے جانے کے فنی تقاضوں پر روشنی ڈالی جائے گی۔ آپ کے لیے
یہ جاننا ضروری ہے کہ اگر یہ ایک بیانیہ صنف ہےتو دوسری بیانیہ اصناف شاعری سے یہ کیوں
کر مختلف ہے؟ اگر دیکھا جائے تو اردو میں قصیدہ ،شہر آشوب اور مرثیہ وغیرہ بھی بیانیہ
اصناف کے ذیل میں آتے ہیں ،اس لیے یہاں مثنوی نگاری کے فنّی نکات اور عناصر ترکیبی
وغیرہ سے بحث کی جائے گی تاکہ دوسری اصناف شاعری اور اس کے درمیان کسی طرح کا
التباس نہ رہ جائے۔
ذیلی عنوان) (1فن سے کیامراد ہے؟
فن کو انگریزی میں آرٹ ) (Artسے موسوم کیا جاتا ہے۔ مثنوی ایسی شاعری ہے جس
میں ایک شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف
مثنی یعنی دو کیا گیا ،کے ہیں۔ ہر
ٰ بھی ہوسکتے ہیں۔ فرہنگ آصفیہ میں اس کے معنی منسوب بہ
ایک شعر الگ الگ قوافی میں برتے جاتے ہیں ،اس لیے اس میں ایک طرح کی آزادی بھی ہوتی
ہے۔ ‘فیروز اللغات’ میں مثنوی کے معنی دو دو واال درج ہیں اور یہ بھی ہے کہ’’نظم کی ایک
قسم جس میں کوئی مسلسل بات بیان کی جاتی ہے اس میں ہر شعر کا قافیہ جدا لیکن ہر شعر
کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور اشعار کی تعداد مقرر نہیں ہوتی۔‘‘
مثنوی کے فن کو سمجھنے کے لیے یہاں ‘بحرالفصاحت’ کے مصنف حکیم نجم الغنی خاں کا
یہ اقتباس بھی مالحظہ کرلیجیے:
مثنی میم مفتوح و سکون ثائے
ٰ مثنی کی طرف اور
ٰ ’’لغت میں مثنوی منسوب ہے
مثلثہ و الف مقصورہ سے ،دو کے معنی میں ہے۔ جب یائے نسبت اس کے آخر
میں لگائی گئی تو الف مقصورہ واو سے بدل گیا اور اصطالح میں ان اشعار کو
مثنوی کہتے ہیں جن میں دو دو مصرعے باہم مقفّٰی ہوں۔‘‘ (بحوالہ:
بحرالفصاحت از حکیم نجم الغنی ،مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،
نئی دہلی ،ص )2006 ،127
یہ بات صاف ہوگئی کہ اس فن مثنوی میں کوئی مسلسل بات یا کہانی بیان کی جاتی ہے۔ ہر
شعر کا قافیہ الگ ہوتا ہے ساتھ ہی ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ یہ بھی معلوم
ہوا کہ اس میں اشعار کی تعداد کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ اگر اسے محض ہیئت کے طور پر دیکھیں
تو اسی ہیئت میں آزاد ،حالی ،اور شبلی نے نظمیں بھی کہی ہیں۔ آزاد نے خود بھی اپنی نظم کے
حوالے سے ‘انجمن پنجاب’ کے ایک جلسے میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں
نے آجکل مثنوی کی ہیئت میں چند نظمیں کہی ہیں۔ لہٰ ذا س صنف اور ہیئت کے حوالے سے بحث
کے دروازے بند نہیں۔
ذیلی عنوان) (2مثنوی نگاری کے فنّی نکات اور عناصر
ادب کی کوئی بھی صنف ہو ،اس کی فنّی شناخت ضروری ہوتی ہے۔ کیوں کہ اگر فن کی بنیاد
پر شناخت کے عوامل اور عناصر قائم نہیں کیے جائیں۔ شعری ہیئتیں فن کی شناخت میں اہم رول
ادا کرتی ہیں۔ یہاں ،کسی بھی صنف کی فنّی شناخت میں عروض کا بھی کردار ہوتا ہے ،لیکن کہیں
کہیں اس کی اہمیت کم بھی ہوجاتی ہے۔ جہاں تک اس کی ہیئت کا سوال ہے ،اس ضمن میں یہ
عرض ہے کہ صرف ہیئت سے مثنوی کی پہچان نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اس ہیئت میں نظمیں بھی
کہی جاتی رہی ہیں۔ البتہ موضوع اور ایک طویل بیانیہ اسلوب کے سبب اس ہیئت میں کہی گئی نظم
مثنوی کے ذیل میں آتی ہے۔ لہٰ ذا یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ فن مثنوی میں موضوع اور ہیئت
دونوں میں ایک طرح کی ہم آہنگی ضروری ہے۔ شمیم احمد نے اپنی کتاب میں لکھا ہے:
نقطہ نظر اختیار کرنا الزمی ہے۔
ٔ ’’ اس کے موضوع اور ہیئت میں ایک متوازن
مثنوی کی صنف سخن کی حیثیت سے شناخت میں موضوع اور ہیئت کو مساوی
درجہ نہ دینے اور صرف ہیئت پر اصرار کرنے سے جو الجھنیں اب تک پیدا
ہوئی ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں جہاں نظم اور مثنوی میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا
ہے۔‘‘
(اصناف سخن اور شعری ہیئتیں ،ص )28
ِ
اوپر کے اقتباس کی روشنی میں اگر ہم غور کریں تو محمد حسین ا ٓزاد ،الطاف حسین
حالی ،شبلی اور عالمہ اقبال کی کئی نظمیں مثنوی کی ہیئت میں ہیں۔ یہاں بھی ہر شعر کے
دونوں مصرعے ہم قافیہ یا ہم قافیہ اور ہم ردیف ہیں ،لیکن یہ مثنوی کے ذیل میں نہیں
ا ٓئیں گی ؛کیوں کہ یہ سب موضوعاتی نظمیں ہیں۔ حاالں کہ کئی نقادوں نے ان نظموں کو
مثنوی کے زمرے میں بھی رکھا ہے۔ گیان چند جین نے انجمن پنجاب کے تحت کہی گئی
ا ٓزاد اور حالی کی بیشتر نظموں کو مثنوی کے زمرے میں شامل کیا ہے۔ ا ٓزاد کی نظمیں شب
قدر ،صبح امید ،حب وطن ،خواب امن ،داد انصاف ،ابر کرم اور حالی کی برکھا ُر ت ،نشاط
ب وطن ،مناظرۂ رحم و انصاف ،مناجات بیوہ وغیرہ اسی مثنوی کے طور پر یاد کی امیدُ ،ح ّ
جاتی ہیں۔ لیکن اردو ادب کے طالب علموں کو معلوم ہے کہ ‘ انجمن پنجاب ’ کے تحت ج دید
نظم نگاری کی بنیاد پڑی تھی۔ ہیئت کےاعتبار سے بالشبہ یہ نظمیں مثنویاں کہی جاسکتی
ہیں ،لیکن جب ‘ مثنوی ’ کی صنفی شناخت کے لیے اس کا موضوع اور اس کی طوالت
دونوں مساوی طور پر ناگزیر ہوگئے تو ان نظمو ں کو نظمیں ہی تصور کرنا چاہیے۔ حاالں
کہ محمد حسین ا ٓزاد نے اپنے 8مئی 1874کو ’ انجمن پنجاب ‘ کے ایک جلسے میں ایک اہم
تاریخی لکچر پیش کیا تھا جس میں انھوں نے ان نظموں کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا تھا
کہ ’’ میں نے ا ٓجکل چند نظمیں مثنوی کے طور پر مختلف مضامین میں لکھی ہیں جنھیں
نظم کہتے ہوئے شرمندہ ہوتا ہوں۔ ‘‘
اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طو رپر شبلی کو بھی یاد کیا جاتا ہے جن کی ایک طویل
مثنوی ‘صبح امید’ کے نام سے ہے جو 355اشعار پر مشتمل ہے اور جس کا موضوع تقریبا ً وہی
ہے جو مسدس حالی کا ہے۔ کلیم الدین احمد نے اس مثنوی کو بہت پسند کیا ہے بلکہ موضوع کے
برتے جانے اور شعری حسن کی اساس پر اسے مسدس حالی پر فوقیت دی ہے۔ خیر یہ باتیں
حوالے کے طور پر آگئی ہیں ،اصل میں یہاں مثنوی بحیثیت فن کے ،زیر بحث ہے۔
اب عروض کے لحاظ سے مثنوی کی فنی شناخت پر غور کرتے ہیں۔ یہاں یہ دیکھا جائے گا
کہ مثنوی کے لیے جو اوزان شعر استعمال ہوتے رہے ہیں ،ان کی اہمیت کیا ہے۔ فارسی اور اردو
میں مثنوی کے لیے عام طور پر سات بحریں استعمال ہوتی رہی ہیں۔ حاالں کہ ان سات بحروں کے
عالوہ بھی کچھ بحریں رائج رہی ہیں ،البتہ مذکورہ سات بحریں زیادہ مروج رہی ہیں۔ اس ضمن
میں جناب شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
’’ عام خیال یہ ہے کہ مثنوی چھوٹی بحر میں لکھی جاتی ہے اور اس کی بحریں
مخصوص ہیں (جس طرح رباعی کی بحر مخصوص ہے) یہ دونوں باتیں غلط
ہیں۔ مثنوی کے لیے نہ یہ ضروری ہے کہ وہ چھوٹی بحر میں ہو اور نہ یہ
ضروری ہے کہ اسے چند خاص بحروں ہی میں نظم کیا جائے۔ یہ ضرور ہوا ہے
کہ مثنویوں کی کثیر تعداد چند بحروں میں لکھی گئی ہے ،اس طرح بعض لوگوں
نے یہ فرض کرلیا کہ یہی بحریں مثنوی کے لیے مخصوص ہیں۔‘‘
(بحوالہ :درس بالغت ،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،نئی دہلی)
اوپر کے اقتباس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ مثنوی کے لیے کوئی خاص بحر مخصوص
نہیں ،لیکن یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اردو کی زیادہ تر مثنویاں انہی مخصوص بحروں میں ملتی
ہیں ،یعنی مخصوص بحریں ہی رائج رہی ہیں۔ اب ذرا ان مخصوص بحروں کی طرف توجہ کی
جائے۔ ایک بحر ہے :فعولن فعولن فعولن فعل یا فعول۔ عام تصور یہی رہا ہے کہ اس بحر کا
استعمال زیادہ تر رزمیہ یعنی جنگ و جدال یا پھر بادشاہوں کی شان و شوکت کے بیان میں ہوتا رہا
ہے۔ لیکن ہمارے سامنے میر حسن کی مشہور مثنوی ’سحرالبیان‘اسی بحر میں ملتی ہے۔ مرزا
شوق کی مثنوی ‘لذت عشق’ بھی اسی بحر میں ہے۔ میر حسن کی ‘سحرالبیان’ سے دو شعر
دیکھییے:
بہانے سے جا جا خفا زندگانی سے
کے سونے لگی لگی ہونے
نہ کھانا نہ پینا نہ لب نہ اگال سا ہنسنا نہ
کھولنا بولنا وہ
ایک شعر کی تقطیع یوں ہوسکتی ہے:
فعولن فعولن فعولن فعل فعولن؍ فعولن؍
فعل فعولن؍
ک
بہانے؍ س جا جا؍ ِ خفازن؍ دگانی؍ س رہ
ِ
لگی سونے؍ لگی نے؍
اس میں آخر کا فعل کبھی کبھی ’ فعول‘میں بدل جاتا ہے جیسے یہ شعر:
فعول فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن فعول
لگی دے؍کھ نے وح؍ ش تا لو؍ ٹھہرنے ؍ لگا جا؍ َن مے
دَخاب راب اِض؍ط
لگی دیکھنے وحشت آلودہ (ٹھہرنے لگا جان میں
خواب) اضطراب
مثنوی کی ایک بحر رمل مسدّس مقصور یا محذوف ہوتی ہے جس کے ارکان یوں ہیں:
فاعالتن فاعالتن فاعلن یا فاعالت
میر حسن کی مثنوی’رموزالعارفین ‘کا ایک شعر اور اس کی تقطیع مالحظہ کیجیے:
فاعالتن؍ فاعالتن؍ فاعلن فاعالتن؍ فاعالتن؍ فاعلن
شعر کہنے؍ سے بھرا ہے؍ اپنی اس بے؍ہودگی پر؍
دل میرا خجل ہوں
شعر کہنے سے بھرا ہے (اپنی اس بیہودگی پر ہوں
دل) میرا خجل
مثنوی کے لیے ایک بحر ہزج مسدس مقصور یامحذوف بھی ہے جس بحر میں محمد افضل
کی بکٹ کہانی ملتی ہے۔ رکن اور تقطیع اسی’بکٹ کہانی‘ سے مالحظہ کیجیے:
مفاعیلن؍ مفاعیلن؍ مفاعیل مفاعیلن؍ مفاعیلن؍ مفاعیل
فعولن یا فعولن یا
گہے افضل؍ گہے گوپا؍ ل بیاد دل؍ ربا خوش حا؍ ل می
باش م باش
گہے افضل گہے گوپال (بیاد دلربا خوش حال می
باش) می باش
آخر میں مفاعیل کے بجائے فعولن کے وزن میں اسی مثنوی کا یہ شعر:
مفاعیلن؍ مفاعیلن؍ فعولن مفاعیلن؍ مفاعیلن؍
فعولن
بھئی ہوں ِعش؍ ق کے غم سنو سکھیو؍ بکٹ
دوانی سوں؍ کہانی میری؍
بھئی ہوں عشق کے غم (سنو سکھیو! بکٹ
دوانی سوں کہانی میری
دیاشنکر نسیم کی مشہور زمانہ مثنوی ’ گلزار نسیم‘کی بحر ہزج مسدس اخرب مقبوض (پہال
رکن) ہے جس میں آخر کارکن محذوف یا مقصور ہوتا ہے۔ ایک شعر بطور مثال کے تقطیع کے
ساتھ:
مفاعلن؍ مفعول؍ مفاعلن؍ مفعول؍
فعولن فعولن
دکھ بوجھ؍ نہیں کہ غم راہ؍ نہیں کہ
لیجے ٹ با؍ سا؍تھ دی جے
دکھ بوجھ نہیں کہ (غم راہ نہیں کہ
لیجے) بانٹ دیجے ساتھ
اس میں کہیں کہیں شروع میں مفعول کے بجائے مفعولن بھی آجاتا ہے۔ اس کی مثال یہاں
چھوڑی جاتی ہے۔ اس کے عالوہ خفیف مسدس ،سریع مسدس جیسی بحریں بھی ہیں۔ میر کی دو
مثنویاں ‘زہرعشق’ اور ‘دریائے عشق’ خفیف مسدس مطوی مخبون مقصور یا محذوف میں ہیں۔
اس میں کبھی درمیان میں تو کبھی آخر میں حرکت یا حرکت کی تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ فارسی اور
اردو میں مستعمل سات بحروں کے عالوہ بھی متدارک مثمن مخبون مقطوع یعنی فعلن فعلن فعلن
فعلن ،متقارب مثمن اثرم مقبوض یعنی فعل فعولن فعل فعولن اور اسی طرح متقارب مثمن اثلم یعنی
فعلن ،فعولن فعلن فعولن جیسی بحروں کا استعمال بھی ہوا ہے۔ لیکن یہ بات سب نے تسلیم کی ہے
کہ بیشتر اردو مثنویاں انہی سات مروجہ اوزان میں کہی گئی ہیں۔ گیان چند جین نے اس کے ثبوت
میں تعداد بھی پیش کی ہے اور لکھا ہے کہ:
’’تقریبا ً ایک ہزار اردو مثنویوں میں محض تیس کے قریب غیرمروجہ اوزان میں
حقہ تسلیم کرلیے
ہیں۔ یہ ثبوت اس امر کا ہے کہ مثنوی کے لیے سات اوزان کما ٗ
گئے تھے۔ کسی نے اس ترجیح کی وجہ ظاہر نہیں کی۔‘‘ (اردو مثنوی شمالی ہند
میں ،ص )66
مثنوی کی فنّی خصوصیات اور اس کے لوازم شعری کے لیے عروضی نکات سے بحث کی
گئی۔ جیسا کہ پہلے سے یہ معلوم ہے کہ ‘انجمن پنجاب’ کے تحت جو نظمیں کہی گئیں ان میں سے
بیشتر مثنوی کے ذیل میں آتی ہیں ،اور ایسا اس لیے ہے کہ یہ نظمیں مثنوی کی ہیئت میں لکھی
گئی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر مثنوی کی صنفی شناخت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس
حوالے سے بھی گفتگو ہوتی رہی ہے۔ اس کی صنفی پہچان میں اوزان اور بحور سے زیادہ قوافی
کے انتخاب اور قوافی کی تبدیلی کا کردار بھی رہا ہے۔’ردیف ‘کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ ساتھ ہی
چوں کہ یہ ایک بیانیہ صنف ہے ،لہٰ ذا فنّی اعتبار سے یہ بھی خیال رکھنا ضروری ہوجاتا ہے کہ
صے کا آغاز ،ارتقا اور پھر اختتام کس نوع کا ہے۔ یعنی اس میں تسلسل بیان کا ہونا
مثنوی میں ق ّ
الزمی ہے۔ مثنوی نگار اگر اس بات کا خیال نہیں رکھتا تو گویا وہ مثنوی کے فن کو مجروح کرتا
ہے۔ حالی کی بات یہاں مالحظہ کیجیے:
’’ الغرض جتنی صنفیں فارسی اور اردو شاعری میں متداول ہیں ،ان میں کوئی
صنف مسلسل مضامین کے بیان کرنے کے قابل مثنوی سے بہتر نہیں ہے۔‘‘
(مقدمہ شعر و شاعری ،ص )193
اسی کی صراحت کے بعد آگے حالی یہ بھی لکھتے ہیں:
’’مثنوی لکھنے والے کا سب سے مقدم فرض یہ ہے کہ بیتوں اور مصرعوں کی
ترتیب ایسی سنجیدہ ہو کہ ہر مصرع دوسرے مصرع سے اور ہر بیت دوسری
بیت سے چسپاں ہوتی چلی جائے۔‘‘ (ایضاً ،ص )195
مثنوی کے فن میں قصیدے کی طرح یا مرثیہ کی طرح کچھ اہم اجزا کی پاسداری کی جاتی
ہے۔ حاالنکہ اس کی پابندی شروع کی بہت سی مثنویوں میں نہیں ملتی۔ سودا اور میر کی مثنویوں
میں اس کی پاسداری نہیں کی گئی ہے۔ یہ اجزا اس طرح سے ہیں :حمد ،نعت ،منقبت ،تعریف
بادشاہ ،تعریف سخن ،قصہ یا واقعہ ،خاتمہ۔ لیکن ان اجزا کی پابندی ذاتی پسند اور ناپسند پر ہے۔
یہاں سید محمد عقیل رضوی کا ایک اقتباس مالحظہ کیجیے:
’’ حقیقت تو یہ ہے کہ مثنوی نگار شعرا نے صرف بیان ،واقعات ،قصہ اور اس
منتہی اور اختتام کو ملحوظ رکھا ہے۔ اب اسی کو چاہے ارکان
ٰ قصہ میں ابتدا،
مثنوی سمجھا جائے یا مثنوی کے لوازم ،چاہے انہی کو اجزائے مثنوی سے
تعبیر کیا جائے‘‘
(اردو مثنوی کا ارتقا شمالی ہند میں ،ص )30
مثنوی جو فنی جواز رکھتی ہے اس کا رشتہ ہیئت اور موضوع دونوں سےقائم ہوتا ہے۔
کچھ نے صرف ہیئتی طور پر اسے مثنوی قرار دیا ہے تو کچھ نے (شمیم احمد) اسے
موضوعی ہیئتی اصناف کے ذیل میں رکھا ہے۔ حاالں کہ موضوعی Topicalیا Thematic
کے لیے استعمال ہوا ہے جبکہ جدیدیت کے عہد میں موضوعی انگریزی کے Subjective
کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ خیر ،یہاں اس کی تفصیل میں جانا ضروری نہیں ہے۔ ابھی
اوپر سید عقیل رضوی کے اقتباس میں جن اجزائے مثنوی کا ذکر ہوا ،کچھ اسی کے ا ٓس پاس
گیان چند جین کا یہ اقتباس بھی پہنچتا ہے:
’’قدیم رنگ کی مثنوی میں کئی جزو ہوتے ہیں۔ لیکن اس کی سختی کے ساتھ
پابندی نہیں کی جاتی ،بلکہ شاعر حسب مرضی ان میں ترمیم کرلیتا ہے۔ نظم کی
ت حضرت علی اور مدح ائمہ ابتدا حمد و نعت سے ہوتی ہے۔ شیعہ حضرات منقب ِ
بھی لکھتے ہیں۔ مذہبی بزرگوں کی مدح و توصیف کے بعد شاعر کے مربی کی
مبالغہ آمیز تعریف ہوتی ہے۔ یہ عربی بادشاہ ،نواب،وزیر سے لے کر کوئی
معمولی رئیس تک ہوسکتا ہے ...مدحت طرازی کے بعد سبب تالیف یا وجہ
تصنیف کا جزو ہوتاہے اس سے مصنف اور مثنوی کے ما ٓخذ کے متعلق بیش بہا
معلومات حاصل ہوتی ہیں( ‘‘ ...اردو مثنوی شمالی ہند میں)
گیان چند جین کی تفصیلی تحریر کی روشنی میں مثنوی کے جو اجزا قرار پائیں گے وہ اس
طرح ہوں گے:
حمد ،نعت ،منقبت حضرت علی اور مدح ائمہ (شیعہ شاعروں کے لیے) ،مربی کی
تعریف ،شاعری کی تعریف یا قلم کی تعریف ،تصنیف کا سبب ،ساقی نامہ ،اصل
صہ اور پھر خاتمہ۔
ق ّ
یہاں مثنوی کی صنفی و فنی شناخت کے لیے جن نکات یا اجزا کا ذکر ہوا ،ان کی پابندی قدیم
مثنویوں میں زیادہ نظر آتی ہے۔ بعد کے مثنوی نگاروں نے ان اجزا کی پابندی سے انحراف بھی
کیا ہے۔
خالصہ:
فن کو انگریزی میں آرٹ ) (Artسے موسوم کیا جاتا ہے۔ مثنوی ایسی شاعری ہے جس
میں ایک شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف
مثنی یعنی دو کیا گیا ،کے ہیں۔ ہر
ٰ بھی ہوسکتے ہیں۔ فرہنگ آصفیہ میں اس کے معنی منسوب بہ
ایک شعر الگ الگ قوافی میں برتے جاتے ہیں ،اس لیے اس میں ایک طرح کی آزادی بھی ہوتی
ہے۔ ‘فیروز اللغات’ میں مثنوی کے معنی دو دو واال درج ہیں اور یہ بھی ہے کہ’’نظم کی ایک
قسم جس میں کوئی مسلسل بات بیان کی جاتی ہے اس میں ہر شعر کا قافیہ جدا لیکن ہر شعر
کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور اشعار کی تعداد مقرر نہیں ہوتی۔‘‘
مثنوی کے فن کو سمجھنے کے لیے یہاں ‘بحرالفصاحت’ کے مصنف حکیم نجم الغنی خاں کا
یہ اقتباس بھی مالحظہ کرلیجیے:
مثنی میم مفتوح و سکون ثائے
ٰ مثنی کی طرف اور
ٰ ’’لغت میں مثنوی منسوب ہے
مثلثہ و الف مقصورہ سے ،دو کے معنی میں ہے۔ جب یائے نسبت اس کے آخر
میں لگائی گئی تو الف مقصورہ واو سے بدل گیا اور اصطالح میں ان اشعار کو
مثنوی کہتے ہیں جن میں دو دو مصرعے باہم مقفّٰی ہوں۔‘‘ (بحوالہ:
بحرالفصاحت از حکیم نجم الغنی ،مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،
نئی دہلی ،ص )2006 ،127
یہ بات صاف ہوگئی کہ اس فن مثنوی میں کوئی مسلسل بات یا کہانی بیان کی جاتی ہے۔ ہر
شعر کا قافیہ الگ ہوتا ہے ساتھ ہی ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ یہ بھی
معلوم ہوا کہ اس میں اشعار کی تعداد کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ ا گر اسے محض ہیئت کے طور
پر دیکھیں تو اسی ہیئت میں ا ٓزاد ،حالی ،اور شبلی نے نظمیں بھی کہی ہیں۔ ا ٓزاد نے خود بھی
اپنی نظم کے حوالے سے ‘ انجمن پنجاب’ کے ایک جلسے میں اس بات کا اعتراف کرتے
ہوئے کہا تھا کہ میں نے ا ٓجکل مثنوی کی ہیئت میں چند نظمیں کہی ہیں۔ لہٰ ذا س صنف اور
ہیئت کے حوالے سے بحث کے دروازے بند نہیں۔
جہاں تک اس کی ہیئت کا سوال ہے ،اس ضمن میں یہ عرض ہے کہ صرف ہیئت سے مثنوی
کی پہچان نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اس ہیئت میں نظمیں بھی کہی جاتی رہی ہیں۔ البتہ موضوع اور
ایک طویل بیانیہ اسلوب کے سبب اس ہیئت میں کہی گئی نظم مثنوی کے ذیل میں آتی ہے۔ لہٰ ذا یہ
بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ فن مثنوی میں موضوع اور ہیئت دونوں میں ایک طرح کی ہم آہنگی
ضروری ہے۔ شمیم احمد نے اپنی کتاب میں لکھا ہے:
نقطہ نظر اختیار کرنا الزمی ہے۔
ٔ ’’ اس کے موضوع اور ہیئت میں ایک متوازن
مثنوی کی صنف سخن کی حیثیت سے شناخت میں موضوع اور ہیئت کو مساوی
درجہ نہ دینے اور صرف ہیئت پر اصرار کرنے سے جو الجھنیں اب تک پیدا
ہوئی ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں جہاں نظم اور مثنوی میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا
ہے۔‘‘
(اصناف سخن اور شعری ہیئت ،ص )28
ِ
اوپر کے اقتباس کی روشنی میں اگر ہم غور کریں تو محمد حسین آزاد ،الطاف حسین حالی،
شبلی اور عالمہ اقبال کی کئی نظمیں مثنوی کی ہیئت میں ہیں۔ یہاں بھی ہر شعر کے دونوں
مصرعے ہم قافیہ یا ہم قافیہ اور ہم ردیف ہیں ،لیکن یہ مثنوی کے ذیل میں نہیں آئیں گی ؛کیوں
کہ یہ سب موضوعاتی نظمیں ہیں۔ حاال ں کہ کئی نقادوں نے ان نظموں کو مثنوی کے زمرے میں
بھی رکھا ہے۔
مثنوی کے فن میں قصیدے کی طرح یا مرثیہ کی طرح کچھ اہم اجزا کی پاسداری کی جاتی
ہے۔ حاالنکہ اس کی پابندی شروع کی بہت سی مثنویوں میں نہیں ملتی۔ سودا اور میر کی مثنویوں
میں اس کی پاسداری نہیں کی گئی ہے۔ یہ اجزا اس طرح سے ہیں :حمد ،نعت ،منقبت ،تعریف
بادشاہ ،تعریف سخن ،قصہ یا واقعہ ،خاتمہ۔ لیکن ان اجزا کی پابندی ذاتی پسند اور ناپسند پر ہے۔
یہاں سید محمد عقیل رضوی کا ایک اقتباس مالحظہ کیجیے:
’’حقیقت تو یہ ہے کہ مثنوی نگار شعرا نے صرف بیان ،واقعات ،قصہ اور اس
منتہی اور اختتام کو ملحوظ رکھا ہے۔ اب اسی کو چاہے ارکان
ٰ قصہ میں ابتدا،
مثنوی سمجھا جائے یا مثنوی کے لوازم ،چاہے انہی کو اجزائے مثنوی سے
تعبیر کیا جائے۔‘‘
(اردو مثنوی کا ارتقا شمالی ہند میں ،ص )30
مثنوی جو فنی جواز رکھتی ہے اس کا رشتہ ہیئت اور موضوع دونوں سےقائم ہوتا ہے۔ کچھ
نے صرف ہیئتی طور پر اسے مثنوی قرار دیا ہے تو کچھ نے (شمیم احمد) اسے موضوعی ہیئتی
اصناف کے ذیل میں رکھا ہے۔
مثنوی کے فن پر اوپر جو کچھ لکھا گیا ،اس میں یہ بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ عروضی
اعتبار سے جن سات مروجہ ارکان (بحر ،وزن) کے حوالے آئے ہیں ،ان کی قدر و قیمت کیا ہے،
اس لیے کہ گیان چند جین نے تحقیق کی بنیاد پر لکھاہے کہ تقریبا ً ایک ہزار مثنویوں میں سے
غیرمروجہ بحروں میں ہیں۔ مثنوی کے فن میں آخر ان
ّ صرف تیس ) (30کے آس پاس مثنویاں
بحروں کا کردار کچھ تو ہوگا؟