You are on page 1of 21

Subject: Urdu

Module: 11
Paper: Marsia Nigari
Topic: Masnavi Ka Fan
Content writer: Professor Kauser Mazhari
Jamia Millia Islamia, New Delhi
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi

‫مثنوی کا فن‬

(Introduction)‫تمہید‬/‫تعارف‬
‫اردو شاعری کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو مثنوی ایک قدیم صنف رہی ہے۔ دکن میں خصوصی‬
‫طور پر‪ ،‬اس کی روایت بہت مستحکم رہی ہے۔ اس صنف کی یہ خوبی ہے کہ اس میں طویل‬
‫صے تاریخی نوعیت کی کہانیاں‪ ،‬محبت کی طبع زاد رودادیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ مثنوی ایک‬ ‫ق ّ‬
‫ایسی صنف ہے جس میں وسعت ہوتی ہے۔ اس صنف میں اتنی گنجائش ضرور ہوتی ہے کہ‬
‫صے کو آگے بڑھا سکے۔‬ ‫مثنوی نگار نئے نئے اور چھوٹے بڑے کرداروں کی مدد سے ق ّ‬
‫خارجی عوامل اور مناظر قدرت کے ساتھ ساتھ داخلی کیفیات اور انسانی جذبات کی پیش کش‬
‫میں مثن وی نگار اپنی قادرالکالمی سے کام لیتا ہے۔ لہٰ ذا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ فن کے‬
‫لحاظ سے اس صنف شاعری کی بڑی قدر و منزلت ہے اور یہ ایک بیانیہ صنف شاعری ہے۔‬
‫سبق کا مقصد (‪)Learning Outcome‬‬
‫اس سبق میں یہ کوشش ہوگی کہ اردو شاعری میں صنف مثنوی کو فن یعنی آرٹ کے طور پر‬
‫سمجھا اور دیکھا جائے۔ یہاں مثنوی نگاری کی سابقہ روایتوں اور اس کی تاریخ کے بجائے اس‬
‫کی فنی باریکیوں اور اس کے برتے جانے کے فنی تقاضوں پر روشنی ڈالی جائے گی۔ آپ کے لیے‬
‫یہ جاننا ضروری ہے کہ اگر یہ ایک بیانیہ صنف ہےتو دوسری بیانیہ اصناف شاعری سے یہ کیوں‬
‫کر مختلف ہے؟ اگر دیکھا جائے تو اردو میں قصیدہ‪ ،‬شہر آشوب اور مرثیہ وغیرہ بھی بیانیہ‬
‫اصناف کے ذیل میں آتے ہیں‪ ،‬اس لیے یہاں مثنوی نگاری کے فنّی نکات اور عناصر ترکیبی‬
‫وغیرہ سے بحث کی جائے گی تاکہ دوسری اصناف شاعری اور اس کے درمیان کسی طرح کا‬
‫التباس نہ رہ جائے۔‬
‫ذیلی عنوان)‪ (1‬فن سے کیامراد ہے؟‬
‫فن کو انگریزی میں آرٹ )‪ (Art‬سے موسوم کیا جاتا ہے۔ مثنوی ایسی شاعری ہے جس‬
‫میں ایک شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف‬
‫مثنی یعنی دو کیا گیا‪ ،‬کے ہیں۔ ہر‬
‫ٰ‬ ‫بھی ہوسکتے ہیں۔ فرہنگ آصفیہ میں اس کے معنی منسوب بہ‬
‫ایک شعر الگ الگ قوافی میں برتے جاتے ہیں‪ ،‬اس لیے اس میں ایک طرح کی آزادی بھی ہوتی‬
‫ہے۔ ‘فیروز اللغات’ میں مثنوی کے معنی دو دو واال درج ہیں اور یہ بھی ہے کہ’’نظم کی ایک‬
‫قسم جس میں کوئی مسلسل بات بیان کی جاتی ہے اس میں ہر شعر کا قافیہ جدا لیکن ہر شعر‬
‫کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور اشعار کی تعداد مقرر نہیں ہوتی۔‘‘‬
‫مثنوی کے فن کو سمجھنے کے لیے یہاں ‘بحرالفصاحت’ کے مصنف حکیم نجم الغنی خاں کا‬
‫یہ اقتباس بھی مالحظہ کرلیجیے‪:‬‬
‫مثنی میم مفتوح و سکون ثائے‬
‫ٰ‬ ‫مثنی کی طرف اور‬
‫ٰ‬ ‫’’لغت میں مثنوی منسوب ہے‬
‫مثلثہ و الف مقصورہ سے‪ ،‬دو کے معنی میں ہے۔ جب یائے نسبت اس کے آخر‬
‫میں لگائی گئی تو الف مقصورہ واو سے بدل گیا اور اصطالح میں ان اشعار کو‬
‫مثنوی کہتے ہیں جن میں دو دو مصرعے باہم مقفّٰی ہوں۔‘‘ (بحوالہ‪:‬‬
‫بحرالفصاحت از حکیم نجم الغنی‪ ،‬مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان‪،‬‬
‫نئی دہلی‪ ،‬ص ‪)2006 ،127‬‬
‫یہ بات صاف ہوگئی کہ اس فن مثنوی میں کوئی مسلسل بات یا کہانی بیان کی جاتی ہے۔ ہر‬
‫شعر کا قافیہ الگ ہوتا ہے ساتھ ہی ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ یہ بھی معلوم‬
‫ہوا کہ اس میں اشعار کی تعداد کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ اگر اسے محض ہیئت کے طور پر دیکھیں‬
‫تو اسی ہیئت میں آزاد‪ ،‬حالی‪ ،‬اور شبلی نے نظمیں بھی کہی ہیں۔ آزاد نے خود بھی اپنی نظم کے‬
‫حوالے سے ‘انجمن پنجاب’ کے ایک جلسے میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں‬
‫نے آجکل مثنوی کی ہیئت میں چند نظمیں کہی ہیں۔ لہٰ ذا س صنف اور ہیئت کے حوالے سے بحث‬
‫کے دروازے بند نہیں۔‬
‫ذیلی عنوان)‪ (2‬مثنوی نگاری کے فنّی نکات اور عناصر‬
‫ادب کی کوئی بھی صنف ہو‪ ،‬اس کی فنّی شناخت ضروری ہوتی ہے۔ کیوں کہ اگر فن کی بنیاد‬
‫پر شناخت کے عوامل اور عناصر قائم نہیں کیے جائیں۔ شعری ہیئتیں فن کی شناخت میں اہم رول‬
‫ادا کرتی ہیں۔ یہاں‪ ،‬کسی بھی صنف کی فنّی شناخت میں عروض کا بھی کردار ہوتا ہے‪ ،‬لیکن کہیں‬
‫کہیں اس کی اہمیت کم بھی ہوجاتی ہے۔ جہاں تک اس کی ہیئت کا سوال ہے‪ ،‬اس ضمن میں یہ‬
‫عرض ہے کہ صرف ہیئت سے مثنوی کی پہچان نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اس ہیئت میں نظمیں بھی‬
‫کہی جاتی رہی ہیں۔ البتہ موضوع اور ایک طویل بیانیہ اسلوب کے سبب اس ہیئت میں کہی گئی نظم‬
‫مثنوی کے ذیل میں آتی ہے۔ لہٰ ذا یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ فن مثنوی میں موضوع اور ہیئت‬
‫دونوں میں ایک طرح کی ہم آہنگی ضروری ہے۔ شمیم احمد نے اپنی کتاب میں لکھا ہے‪:‬‬
‫نقطہ نظر اختیار کرنا الزمی ہے۔‬
‫ٔ‬ ‫’’ اس کے موضوع اور ہیئت میں ایک متوازن‬
‫مثنوی کی صنف سخن کی حیثیت سے شناخت میں موضوع اور ہیئت کو مساوی‬
‫درجہ نہ دینے اور صرف ہیئت پر اصرار کرنے سے جو الجھنیں اب تک پیدا‬
‫ہوئی ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں جہاں نظم اور مثنوی میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا‬
‫ہے۔‘‘‬
‫(اصناف سخن اور شعری ہیئتیں‪ ،‬ص ‪)28‬‬
‫ِ‬
‫اوپر کے اقتباس کی روشنی میں اگر ہم غور کریں تو محمد حسین ا ٓزاد‪ ،‬الطاف حسین‬
‫حالی‪ ،‬شبلی اور عالمہ اقبال کی کئی نظمیں مثنوی کی ہیئت میں ہیں۔ یہاں بھی ہر شعر کے‬
‫دونوں مصرعے ہم قافیہ یا ہم قافیہ اور ہم ردیف ہیں‪ ،‬لیکن یہ مثنوی کے ذیل میں نہیں‬
‫ا ٓئیں گی ؛کیوں کہ یہ سب موضوعاتی نظمیں ہیں۔ حاالں کہ کئی نقادوں نے ان نظموں کو‬
‫مثنوی کے زمرے میں بھی رکھا ہے۔ گیان چند جین نے انجمن پنجاب کے تحت کہی گئی‬
‫ا ٓزاد اور حالی کی بیشتر نظموں کو مثنوی کے زمرے میں شامل کیا ہے۔ ا ٓزاد کی نظمیں شب‬
‫قدر‪ ،‬صبح امید‪ ،‬حب وطن‪ ،‬خواب امن‪ ،‬داد انصاف‪ ،‬ابر کرم اور حالی کی برکھا ُر ت‪ ،‬نشاط‬
‫ب وطن‪ ،‬مناظرۂ رحم و انصاف‪ ،‬مناجات بیوہ وغیرہ اسی مثنوی کے طور پر یاد کی‬ ‫امید‪ُ ،‬ح ّ‬
‫جاتی ہیں۔ لیکن اردو ادب کے طالب علموں کو معلوم ہے کہ ‘ انجمن پنجاب ’ کے تحت ج دید‬
‫نظم نگاری کی بنیاد پڑی تھی۔ ہیئت کےاعتبار سے بالشبہ یہ نظمیں مثنویاں کہی جاسکتی‬
‫ہیں‪ ،‬لیکن جب ‘ مثنوی ’ کی صنفی شناخت کے لیے اس کا موضوع اور اس کی طوالت‬
‫دونوں مساوی طور پر ناگزیر ہوگئے تو ان نظمو ں کو نظمیں ہی تصور کرنا چاہیے۔ حاالں‬
‫کہ محمد حسین ا ٓزاد نے اپنے ‪ 8‬مئی ‪ 1874‬کو ’ انجمن پنجاب ‘ کے ایک جلسے میں ایک اہم‬
‫تاریخی لکچر پیش کیا تھا جس میں انھوں نے ان نظموں کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا تھا‬
‫کہ ’’ میں نے ا ٓجکل چند نظمیں مثنوی کے طور پر مختلف مضامین میں لکھی ہیں جنھیں‬
‫نظم کہتے ہوئے شرمندہ ہوتا ہوں۔ ‘‘‬
‫اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طو رپر شبلی کو بھی یاد کیا جاتا ہے جن کی ایک طویل‬
‫مثنوی ‘صبح امید’ کے نام سے ہے جو ‪ 355‬اشعار پر مشتمل ہے اور جس کا موضوع تقریبا ً وہی‬
‫ہے جو مسدس حالی کا ہے۔ کلیم الدین احمد نے اس مثنوی کو بہت پسند کیا ہے بلکہ موضوع کے‬
‫برتے جانے اور شعری حسن کی اساس پر اسے مسدس حالی پر فوقیت دی ہے۔ خیر یہ باتیں‬
‫حوالے کے طور پر آگئی ہیں‪ ،‬اصل میں یہاں مثنوی بحیثیت فن کے‪ ،‬زیر بحث ہے۔‬
‫اب عروض کے لحاظ سے مثنوی کی فنی شناخت پر غور کرتے ہیں۔ یہاں یہ دیکھا جائے گا‬
‫کہ مثنوی کے لیے جو اوزان شعر استعمال ہوتے رہے ہیں‪ ،‬ان کی اہمیت کیا ہے۔ فارسی اور اردو‬
‫میں مثنوی کے لیے عام طور پر سات بحریں استعمال ہوتی رہی ہیں۔ حاالں کہ ان سات بحروں کے‬
‫عالوہ بھی کچھ بحریں رائج رہی ہیں‪ ،‬البتہ مذکورہ سات بحریں زیادہ مروج رہی ہیں۔ اس ضمن‬
‫میں جناب شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’ عام خیال یہ ہے کہ مثنوی چھوٹی بحر میں لکھی جاتی ہے اور اس کی بحریں‬
‫مخصوص ہیں (جس طرح رباعی کی بحر مخصوص ہے) یہ دونوں باتیں غلط‬
‫ہیں۔ مثنوی کے لیے نہ یہ ضروری ہے کہ وہ چھوٹی بحر میں ہو اور نہ یہ‬
‫ضروری ہے کہ اسے چند خاص بحروں ہی میں نظم کیا جائے۔ یہ ضرور ہوا ہے‬
‫کہ مثنویوں کی کثیر تعداد چند بحروں میں لکھی گئی ہے‪ ،‬اس طرح بعض لوگوں‬
‫نے یہ فرض کرلیا کہ یہی بحریں مثنوی کے لیے مخصوص ہیں۔‘‘‬
‫(بحوالہ‪ :‬درس بالغت‪ ،‬قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان‪ ،‬نئی دہلی)‬
‫اوپر کے اقتباس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ مثنوی کے لیے کوئی خاص بحر مخصوص‬
‫نہیں ‪ ،‬لیکن یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اردو کی زیادہ تر مثنویاں انہی مخصوص بحروں میں ملتی‬
‫ہیں‪ ،‬یعنی مخصوص بحریں ہی رائج رہی ہیں۔ اب ذرا ان مخصوص بحروں کی طرف توجہ کی‬
‫جائے۔ ایک بحر ہے‪ :‬فعولن فعولن فعولن فعل یا فعول۔ عام تصور یہی رہا ہے کہ اس بحر کا‬
‫استعمال زیادہ تر رزمیہ یعنی جنگ و جدال یا پھر بادشاہوں کی شان و شوکت کے بیان میں ہوتا رہا‬
‫ہے۔ لیکن ہمارے سامنے میر حسن کی مشہور مثنوی ’سحرالبیان‘اسی بحر میں ملتی ہے۔ مرزا‬
‫شوق کی مثنوی ‘لذت عشق’ بھی اسی بحر میں ہے۔ میر حسن کی ‘سحرالبیان’ سے دو شعر‬
‫دیکھییے‪:‬‬
‫بہانے سے جا جا‬ ‫خفا زندگانی سے‬
‫کے سونے لگی‬ ‫لگی‬ ‫ہونے‬
‫نہ کھانا نہ پینا نہ لب‬ ‫نہ اگال سا ہنسنا نہ‬
‫کھولنا‬ ‫بولنا‬ ‫وہ‬
‫ایک شعر کی تقطیع یوں ہوسکتی ہے‪:‬‬
‫فعولن فعولن فعولن فعل‬ ‫فعولن؍‬ ‫فعولن؍‬
‫فعل‬ ‫فعولن؍‬
‫ک‬
‫بہانے؍ س جا جا؍ ِ‬ ‫خفازن؍ دگانی؍ س رہ‬
‫ِ‬
‫لگی‬ ‫سونے؍‬ ‫لگی‬ ‫نے؍‬

‫اس میں آخر کا فعل کبھی کبھی ’ فعول‘میں بدل جاتا ہے جیسے یہ شعر‪:‬‬
‫فعول‬ ‫فعولن‬ ‫فعولن‬ ‫فعولن فعولن فعولن فعول‬
‫لگی دے؍کھ نے وح؍ ش تا لو؍‬ ‫ٹھہرنے ؍ لگا جا؍ َن مے‬
‫دَخاب‬ ‫راب‬ ‫اِض؍ط‬
‫لگی دیکھنے وحشت آلودہ‬ ‫(ٹھہرنے لگا جان میں‬
‫خواب)‬ ‫اضطراب‬
‫مثنوی کی ایک بحر رمل مسدّس مقصور یا محذوف ہوتی ہے جس کے ارکان یوں ہیں‪:‬‬
‫فاعالتن فاعالتن فاعلن یا فاعالت‬
‫میر حسن کی مثنوی’رموزالعارفین ‘کا ایک شعر اور اس کی تقطیع مالحظہ کیجیے‪:‬‬
‫فاعالتن؍ فاعالتن؍ فاعلن‬ ‫فاعالتن؍ فاعالتن؍ فاعلن‬
‫شعر کہنے؍ سے بھرا ہے؍‬ ‫اپنی اس بے؍ہودگی پر؍‬
‫دل‬ ‫میرا‬ ‫خجل‬ ‫ہوں‬
‫شعر کہنے سے بھرا ہے‬ ‫(اپنی اس بیہودگی پر ہوں‬
‫دل)‬ ‫میرا‬ ‫خجل‬
‫مثنوی کے لیے ایک بحر ہزج مسدس مقصور یامحذوف بھی ہے جس بحر میں محمد افضل‬
‫کی بکٹ کہانی ملتی ہے۔ رکن اور تقطیع اسی’بکٹ کہانی‘ سے مالحظہ کیجیے‪:‬‬
‫مفاعیلن؍ مفاعیلن؍ مفاعیل‬ ‫مفاعیلن؍ مفاعیلن؍ مفاعیل‬
‫فعولن‬ ‫یا‬ ‫فعولن‬ ‫یا‬
‫گہے افضل؍ گہے گوپا؍ ل‬ ‫بیاد دل؍ ربا خوش حا؍ ل می‬
‫باش‬ ‫م‬ ‫باش‬
‫گہے افضل گہے گوپال‬ ‫(بیاد دلربا خوش حال می‬
‫باش)‬ ‫می‬ ‫باش‬
‫آخر میں مفاعیل کے بجائے فعولن کے وزن میں اسی مثنوی کا یہ شعر‪:‬‬
‫مفاعیلن؍ مفاعیلن؍ فعولن‬ ‫مفاعیلن؍ مفاعیلن؍‬
‫فعولن‬
‫بھئی ہوں ِعش؍ ق کے غم‬ ‫سنو سکھیو؍ بکٹ‬
‫دوانی‬ ‫سوں؍‬ ‫کہانی‬ ‫میری؍‬
‫بھئی ہوں عشق کے غم‬ ‫(سنو سکھیو! بکٹ‬
‫دوانی‬ ‫سوں‬ ‫کہانی‬ ‫میری‬
‫دیاشنکر نسیم کی مشہور زمانہ مثنوی ’ گلزار نسیم‘کی بحر ہزج مسدس اخرب مقبوض (پہال‬
‫رکن) ہے جس میں آخر کارکن محذوف یا مقصور ہوتا ہے۔ ایک شعر بطور مثال کے تقطیع کے‬
‫ساتھ‪:‬‬
‫مفاعلن؍‬ ‫مفعول؍‬ ‫مفاعلن؍‬ ‫مفعول؍‬
‫فعولن‬ ‫فعولن‬
‫دکھ بوجھ؍ نہیں کہ‬ ‫غم راہ؍ نہیں کہ‬
‫لیجے‬ ‫ٹ‬ ‫با؍‬ ‫سا؍تھ دی جے‬
‫دکھ بوجھ نہیں کہ‬ ‫(غم راہ نہیں کہ‬
‫لیجے)‬ ‫بانٹ‬ ‫دیجے‬ ‫ساتھ‬
‫اس میں کہیں کہیں شروع میں مفعول کے بجائے مفعولن بھی آجاتا ہے۔ اس کی مثال یہاں‬
‫چھوڑی جاتی ہے۔ اس کے عالوہ خفیف مسدس‪ ،‬سریع مسدس جیسی بحریں بھی ہیں۔ میر کی دو‬
‫مثنویاں ‘زہرعشق’ اور ‘دریائے عشق’ خفیف مسدس مطوی مخبون مقصور یا محذوف میں ہیں۔‬
‫اس میں کبھی درمیان میں تو کبھی آخر میں حرکت یا حرکت کی تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ فارسی اور‬
‫اردو میں مستعمل سات بحروں کے عالوہ بھی متدارک مثمن مخبون مقطوع یعنی فعلن فعلن فعلن‬
‫فعلن‪ ،‬متقارب مثمن اثرم مقبوض یعنی فعل فعولن فعل فعولن اور اسی طرح متقارب مثمن اثلم یعنی‬
‫فعلن‪ ،‬فعولن فعلن فعولن جیسی بحروں کا استعمال بھی ہوا ہے۔ لیکن یہ بات سب نے تسلیم کی ہے‬
‫کہ بیشتر اردو مثنویاں انہی سات مروجہ اوزان میں کہی گئی ہیں۔ گیان چند جین نے اس کے ثبوت‬
‫میں تعداد بھی پیش کی ہے اور لکھا ہے کہ‪:‬‬
‫’’تقریبا ً ایک ہزار اردو مثنویوں میں محض تیس کے قریب غیرمروجہ اوزان میں‬
‫حقہ تسلیم کرلیے‬
‫ہیں۔ یہ ثبوت اس امر کا ہے کہ مثنوی کے لیے سات اوزان کما ٗ‬
‫گئے تھے۔ کسی نے اس ترجیح کی وجہ ظاہر نہیں کی۔‘‘ (اردو مثنوی شمالی ہند‬
‫میں‪ ،‬ص ‪)66‬‬
‫مثنوی کی فنّی خصوصیات اور اس کے لوازم شعری کے لیے عروضی نکات سے بحث کی‬
‫گئی۔ جیسا کہ پہلے سے یہ معلوم ہے کہ ‘انجمن پنجاب’ کے تحت جو نظمیں کہی گئیں ان میں سے‬
‫بیشتر مثنوی کے ذیل میں آتی ہیں‪ ،‬اور ایسا اس لیے ہے کہ یہ نظمیں مثنوی کی ہیئت میں لکھی‬
‫گئی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر مثنوی کی صنفی شناخت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس‬
‫حوالے سے بھی گفتگو ہوتی رہی ہے۔ اس کی صنفی پہچان میں اوزان اور بحور سے زیادہ قوافی‬
‫کے انتخاب اور قوافی کی تبدیلی کا کردار بھی رہا ہے۔’ردیف ‘کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ ساتھ ہی‬
‫چوں کہ یہ ایک بیانیہ صنف ہے‪ ،‬لہٰ ذا فنّی اعتبار سے یہ بھی خیال رکھنا ضروری ہوجاتا ہے کہ‬
‫صے کا آغاز‪ ،‬ارتقا اور پھر اختتام کس نوع کا ہے۔ یعنی اس میں تسلسل بیان کا ہونا‬
‫مثنوی میں ق ّ‬
‫الزمی ہے۔ مثنوی نگار اگر اس بات کا خیال نہیں رکھتا تو گویا وہ مثنوی کے فن کو مجروح کرتا‬
‫ہے۔ حالی کی بات یہاں مالحظہ کیجیے‪:‬‬
‫’’ الغرض جتنی صنفیں فارسی اور اردو شاعری میں متداول ہیں‪ ،‬ان میں کوئی‬
‫صنف مسلسل مضامین کے بیان کرنے کے قابل مثنوی سے بہتر نہیں ہے۔‘‘‬
‫(مقدمہ شعر و شاعری‪ ،‬ص ‪)193‬‬
‫اسی کی صراحت کے بعد آگے حالی یہ بھی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’مثنوی لکھنے والے کا سب سے مقدم فرض یہ ہے کہ بیتوں اور مصرعوں کی‬
‫ترتیب ایسی سنجیدہ ہو کہ ہر مصرع دوسرے مصرع سے اور ہر بیت دوسری‬
‫بیت سے چسپاں ہوتی چلی جائے۔‘‘ (ایضاً‪ ،‬ص ‪)195‬‬
‫مثنوی کے فن میں قصیدے کی طرح یا مرثیہ کی طرح کچھ اہم اجزا کی پاسداری کی جاتی‬
‫ہے۔ حاالنکہ اس کی پابندی شروع کی بہت سی مثنویوں میں نہیں ملتی۔ سودا اور میر کی مثنویوں‬
‫میں اس کی پاسداری نہیں کی گئی ہے۔ یہ اجزا اس طرح سے ہیں‪ :‬حمد‪ ،‬نعت‪ ،‬منقبت‪ ،‬تعریف‬
‫بادشاہ‪ ،‬تعریف سخن‪ ،‬قصہ یا واقعہ‪ ،‬خاتمہ۔ لیکن ان اجزا کی پابندی ذاتی پسند اور ناپسند پر ہے۔‬
‫یہاں سید محمد عقیل رضوی کا ایک اقتباس مالحظہ کیجیے‪:‬‬
‫’’ حقیقت تو یہ ہے کہ مثنوی نگار شعرا نے صرف بیان‪ ،‬واقعات‪ ،‬قصہ اور اس‬
‫منتہی اور اختتام کو ملحوظ رکھا ہے۔ اب اسی کو چاہے ارکان‬
‫ٰ‬ ‫قصہ میں ابتدا‪،‬‬
‫مثنوی سمجھا جائے یا مثنوی کے لوازم‪ ،‬چاہے انہی کو اجزائے مثنوی سے‬
‫تعبیر کیا جائے‘‘‬
‫(اردو مثنوی کا ارتقا شمالی ہند میں‪ ،‬ص ‪)30‬‬
‫مثنوی جو فنی جواز رکھتی ہے اس کا رشتہ ہیئت اور موضوع دونوں سےقائم ہوتا ہے۔‬
‫کچھ نے صرف ہیئتی طور پر اسے مثنوی قرار دیا ہے تو کچھ نے (شمیم احمد) اسے‬
‫موضوعی ہیئتی اصناف کے ذیل میں رکھا ہے۔ حاالں کہ موضوعی ‪ Topical‬یا ‪Thematic‬‬
‫کے لیے استعمال ہوا ہے جبکہ جدیدیت کے عہد میں موضوعی انگریزی کے ‪Subjective‬‬
‫کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ خیر‪ ،‬یہاں اس کی تفصیل میں جانا ضروری نہیں ہے۔ ابھی‬
‫اوپر سید عقیل رضوی کے اقتباس میں جن اجزائے مثنوی کا ذکر ہوا‪ ،‬کچھ اسی کے ا ٓس پاس‬
‫گیان چند جین کا یہ اقتباس بھی پہنچتا ہے‪:‬‬
‫’’قدیم رنگ کی مثنوی میں کئی جزو ہوتے ہیں۔ لیکن اس کی سختی کے ساتھ‬
‫پابندی نہیں کی جاتی‪ ،‬بلکہ شاعر حسب مرضی ان میں ترمیم کرلیتا ہے۔ نظم کی‬
‫ت حضرت علی اور مدح ائمہ‬ ‫ابتدا حمد و نعت سے ہوتی ہے۔ شیعہ حضرات منقب ِ‬
‫بھی لکھتے ہیں۔ مذہبی بزرگوں کی مدح و توصیف کے بعد شاعر کے مربی کی‬
‫مبالغہ آمیز تعریف ہوتی ہے۔ یہ عربی بادشاہ ‪ ،‬نواب‪،‬وزیر سے لے کر کوئی‬
‫معمولی رئیس تک ہوسکتا ہے‪ ...‬مدحت طرازی کے بعد سبب تالیف یا وجہ‬
‫تصنیف کا جزو ہوتاہے اس سے مصنف اور مثنوی کے ما ٓخذ کے متعلق بیش بہا‬
‫معلومات حاصل ہوتی ہیں‪( ‘‘ ...‬اردو مثنوی شمالی ہند میں)‬
‫گیان چند جین کی تفصیلی تحریر کی روشنی میں مثنوی کے جو اجزا قرار پائیں گے وہ اس‬
‫طرح ہوں گے‪:‬‬
‫حمد‪ ،‬نعت‪ ،‬منقبت حضرت علی اور مدح ائمہ (شیعہ شاعروں کے لیے)‪ ،‬مربی کی‬
‫تعریف‪ ،‬شاعری کی تعریف یا قلم کی تعریف‪ ،‬تصنیف کا سبب‪ ،‬ساقی نامہ‪ ،‬اصل‬
‫صہ اور پھر خاتمہ۔‬
‫ق ّ‬
‫یہاں مثنوی کی صنفی و فنی شناخت کے لیے جن نکات یا اجزا کا ذکر ہوا‪ ،‬ان کی پابندی قدیم‬
‫مثنویوں میں زیادہ نظر آتی ہے۔ بعد کے مثنوی نگاروں نے ان اجزا کی پابندی سے انحراف بھی‬
‫کیا ہے۔‬
‫خالصہ‪:‬‬
‫فن کو انگریزی میں آرٹ )‪ (Art‬سے موسوم کیا جاتا ہے۔ مثنوی ایسی شاعری ہے جس‬
‫میں ایک شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف‬
‫مثنی یعنی دو کیا گیا‪ ،‬کے ہیں۔ ہر‬
‫ٰ‬ ‫بھی ہوسکتے ہیں۔ فرہنگ آصفیہ میں اس کے معنی منسوب بہ‬
‫ایک شعر الگ الگ قوافی میں برتے جاتے ہیں‪ ،‬اس لیے اس میں ایک طرح کی آزادی بھی ہوتی‬
‫ہے۔ ‘فیروز اللغات’ میں مثنوی کے معنی دو دو واال درج ہیں اور یہ بھی ہے کہ’’نظم کی ایک‬
‫قسم جس میں کوئی مسلسل بات بیان کی جاتی ہے اس میں ہر شعر کا قافیہ جدا لیکن ہر شعر‬
‫کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور اشعار کی تعداد مقرر نہیں ہوتی۔‘‘‬
‫مثنوی کے فن کو سمجھنے کے لیے یہاں ‘بحرالفصاحت’ کے مصنف حکیم نجم الغنی خاں کا‬
‫یہ اقتباس بھی مالحظہ کرلیجیے‪:‬‬
‫مثنی میم مفتوح و سکون ثائے‬
‫ٰ‬ ‫مثنی کی طرف اور‬
‫ٰ‬ ‫’’لغت میں مثنوی منسوب ہے‬
‫مثلثہ و الف مقصورہ سے‪ ،‬دو کے معنی میں ہے۔ جب یائے نسبت اس کے آخر‬
‫میں لگائی گئی تو الف مقصورہ واو سے بدل گیا اور اصطالح میں ان اشعار کو‬
‫مثنوی کہتے ہیں جن میں دو دو مصرعے باہم مقفّٰی ہوں۔‘‘ (بحوالہ‪:‬‬
‫بحرالفصاحت از حکیم نجم الغنی‪ ،‬مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان‪،‬‬
‫نئی دہلی‪ ،‬ص ‪)2006 ،127‬‬
‫یہ بات صاف ہوگئی کہ اس فن مثنوی میں کوئی مسلسل بات یا کہانی بیان کی جاتی ہے۔ ہر‬
‫شعر کا قافیہ الگ ہوتا ہے ساتھ ہی ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ یہ بھی‬
‫معلوم ہوا کہ اس میں اشعار کی تعداد کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ ا گر اسے محض ہیئت کے طور‬
‫پر دیکھیں تو اسی ہیئت میں ا ٓزاد‪ ،‬حالی‪ ،‬اور شبلی نے نظمیں بھی کہی ہیں۔ ا ٓزاد نے خود بھی‬
‫اپنی نظم کے حوالے سے ‘ انجمن پنجاب’ کے ایک جلسے میں اس بات کا اعتراف کرتے‬
‫ہوئے کہا تھا کہ میں نے ا ٓجکل مثنوی کی ہیئت میں چند نظمیں کہی ہیں۔ لہٰ ذا س صنف اور‬
‫ہیئت کے حوالے سے بحث کے دروازے بند نہیں۔‬
‫جہاں تک اس کی ہیئت کا سوال ہے‪ ،‬اس ضمن میں یہ عرض ہے کہ صرف ہیئت سے مثنوی‬
‫کی پہچان نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اس ہیئت میں نظمیں بھی کہی جاتی رہی ہیں۔ البتہ موضوع اور‬
‫ایک طویل بیانیہ اسلوب کے سبب اس ہیئت میں کہی گئی نظم مثنوی کے ذیل میں آتی ہے۔ لہٰ ذا یہ‬
‫بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ فن مثنوی میں موضوع اور ہیئت دونوں میں ایک طرح کی ہم آہنگی‬
‫ضروری ہے۔ شمیم احمد نے اپنی کتاب میں لکھا ہے‪:‬‬
‫نقطہ نظر اختیار کرنا الزمی ہے۔‬
‫ٔ‬ ‫’’ اس کے موضوع اور ہیئت میں ایک متوازن‬
‫مثنوی کی صنف سخن کی حیثیت سے شناخت میں موضوع اور ہیئت کو مساوی‬
‫درجہ نہ دینے اور صرف ہیئت پر اصرار کرنے سے جو الجھنیں اب تک پیدا‬
‫ہوئی ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں جہاں نظم اور مثنوی میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا‬
‫ہے۔‘‘‬
‫(اصناف سخن اور شعری ہیئت‪ ،‬ص ‪)28‬‬
‫ِ‬
‫اوپر کے اقتباس کی روشنی میں اگر ہم غور کریں تو محمد حسین آزاد‪ ،‬الطاف حسین حالی‪،‬‬
‫شبلی اور عالمہ اقبال کی کئی نظمیں مثنوی کی ہیئت میں ہیں۔ یہاں بھی ہر شعر کے دونوں‬
‫مصرعے ہم قافیہ یا ہم قافیہ اور ہم ردیف ہیں‪ ،‬لیکن یہ مثنوی کے ذیل میں نہیں آئیں گی ؛کیوں‬
‫کہ یہ سب موضوعاتی نظمیں ہیں۔ حاال ں کہ کئی نقادوں نے ان نظموں کو مثنوی کے زمرے میں‬
‫بھی رکھا ہے۔‬
‫مثنوی کے فن میں قصیدے کی طرح یا مرثیہ کی طرح کچھ اہم اجزا کی پاسداری کی جاتی‬
‫ہے۔ حاالنکہ اس کی پابندی شروع کی بہت سی مثنویوں میں نہیں ملتی۔ سودا اور میر کی مثنویوں‬
‫میں اس کی پاسداری نہیں کی گئی ہے۔ یہ اجزا اس طرح سے ہیں‪ :‬حمد‪ ،‬نعت‪ ،‬منقبت‪ ،‬تعریف‬
‫بادشاہ‪ ،‬تعریف سخن‪ ،‬قصہ یا واقعہ‪ ،‬خاتمہ۔ لیکن ان اجزا کی پابندی ذاتی پسند اور ناپسند پر ہے۔‬
‫یہاں سید محمد عقیل رضوی کا ایک اقتباس مالحظہ کیجیے‪:‬‬
‫’’حقیقت تو یہ ہے کہ مثنوی نگار شعرا نے صرف بیان‪ ،‬واقعات‪ ،‬قصہ اور اس‬
‫منتہی اور اختتام کو ملحوظ رکھا ہے۔ اب اسی کو چاہے ارکان‬
‫ٰ‬ ‫قصہ میں ابتدا‪،‬‬
‫مثنوی سمجھا جائے یا مثنوی کے لوازم‪ ،‬چاہے انہی کو اجزائے مثنوی سے‬
‫تعبیر کیا جائے۔‘‘‬
‫(اردو مثنوی کا ارتقا شمالی ہند میں‪ ،‬ص ‪)30‬‬
‫مثنوی جو فنی جواز رکھتی ہے اس کا رشتہ ہیئت اور موضوع دونوں سےقائم ہوتا ہے۔ کچھ‬
‫نے صرف ہیئتی طور پر اسے مثنوی قرار دیا ہے تو کچھ نے (شمیم احمد) اسے موضوعی ہیئتی‬
‫اصناف کے ذیل میں رکھا ہے۔‬
‫مثنوی کے فن پر اوپر جو کچھ لکھا گیا‪ ،‬اس میں یہ بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ عروضی‬
‫اعتبار سے جن سات مروجہ ارکان (بحر‪ ،‬وزن) کے حوالے آئے ہیں‪ ،‬ان کی قدر و قیمت کیا ہے‪،‬‬
‫اس لیے کہ گیان چند جین نے تحقیق کی بنیاد پر لکھاہے کہ تقریبا ً ایک ہزار مثنویوں میں سے‬
‫غیرمروجہ بحروں میں ہیں۔ مثنوی کے فن میں آخر ان‬
‫ّ‬ ‫صرف تیس )‪ (30‬کے آس پاس مثنویاں‬
‫بحروں کا کردار کچھ تو ہوگا؟‬

You might also like