Professional Documents
Culture Documents
مشرق میں تعیین متن کی اہمیت
مشرق میں تعیین متن کی اہمیت
متن دراصل ایسی لکھاوٹ کو کہتے ہیں جس کی تشریح و تفہیم ممکن ہو ،جو قریب الفہم ہویا بعید الفہم مگر سمجھ میں
ب نوراللغات نے اس لفظ کے معنوں میں ایک معنی ایسی عبارت کے دیے ہیں جس کی تشریح کی ضرور آئے ۔صاح ِ
جائے ()1متن صرف ایسے چند الفاظ سے بننے والی عبارت کو نہیں کہا جاسکتا ہے جس کا ہر لفظ با معنی ہو اور وہ
بحیثیت مجموعی مہمل یا مبہم ہو۔اس میں قواعد کے حساب سے ہونے والی غلطی کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے ۔مثال کے
طور پر مندرجہ ذیل جملے پر غور کیجیے
کام نہیں تو ہوتا
بظاہر اس جملے کے تمام الفاظ بامعنی ہیں ،مگر اس کی تفہیم مشکل نظر آتی ہے ،وجہ ہے جملے کی بے ترتیبی ،اب
اس میں سے تو نکال باہر کیجیے تو جملہ بچتا ہے کام نہیں ہوتا ،چلیے یہ سمجھ میں آگیا کہ کام نہیں ہوتا مگر یہ تو
جملے کا مطلب سمجھ میں آیا ہے ،مگر جب تک یہ نہ سمجھ میں آجائے کہ کون سا کام نہیں ہوتا ،یہ جملہ شکایتا ً کہا گیا
ہے یا خبریہ ہے یا استفہامیہ ،تب تک اس کی تفہیم ادھوری ہے ،لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ مسئلہ بھی حل ہوجائے
یعنی مثال کے طور پر ہم اس جملے پر کوئی عالمت لگا دیتے ہیں جیسے ختمہ ،فجائیہ یا استفہامیہ ،تب بھی مسئلہ
بدستور اپنی جگہ رہے گا کہ کون سا کام نہیں ہوتا ،کیوں نہیں ہوتا ،کس سے نہیں ہوتا اور کب نہیں ہوتا۔ظاہر ہے ان تمام
سوالوں کے جواب ہمیں تب ہی حاصل ہوسکتے ہیں جب ہم کسی جملے کو اس کے سیاق میں پڑھیں۔ یعنی جب تک ہم کو
سمجھ میں نہیں آجاتا ہے کہ یہ جملہ کن حاالت اور کس تسلسل میں کہا گیا ہے اس کی تفہیم کا عمل ممکن نہیں ہوسکتا
ہے ۔اسی لیے معنی اور تفہیم میں بہت فرق ہے اور اس افتراق کی نشاندہی دراصل متن کی دریافت اور غیر دریافت کو
واضح کرتی ہے۔معنی تک رسائی آسان ہے مگر تفہیم تک رسائی مختلف حاالت میں مشکل ہوجاتی ہے اور بعض اوقات
سیاق کو نظر انداز کرنے سے تفہیم کا عمل نا ممکن ہوجاتا ہے۔اور اگر نا ممکن نہ بھی ہو تب بھی اس کے ایسے معنی
قاری تک پہنچ سکتے ہیں جس کا اطالق متن پر ہرگز نہیں ہوتا اور نہ کسی صورت ہوسکتا ہے۔مشرق میں تعیین متن کو
لے کر صرف یہ ہی بات اہم نہیں ہے ک ہ کسی خاص کتاب (خواہ وہ الہامی ہو یا غیر الہامی) کو پڑھ کر ہی ہمارے یہاں
معنی کا تعین کیا جاتا ہے یا اسے اپنے عقیدے ،مسلک اور نظریے کے حساب سے سمجھا یا سمجھایا جاتا ہے بلکہ ہم
میں سے بیشتر افراد کو یہ بیماری بھی الحق ہے کہ ہم کسی خاص نظریے کا چشمہ لگا کر ہی متن کو پڑھتے ہیں اور
پھر اپنے من پسند معنی اس سے اخذ کرتے ہیں یا یہ کہنا بہتر ہوگا کہ متن پر ایسی معنویت کا الزام بھی عائد کرتے ہیں
جس کے بارے میں مصنف نے کبھی سوچا بھی نہ ہو۔ یہ عمل اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کہ کسی معاشرے میں ملزم کو
زبردستی مجرم ثابت کردینے کی معاندانہ کوشش کا رویہ ہوسکتا ہے۔مشرقی مذاہب اور ادب کی کتب کا مطالعہ ہمارے
سامنے متن کی ایک مخصوص صورت ضرور رکھتا ہے جس میں ایک خاص قسم کے معنی کا تعین کیا جانا ضروری
ہے۔ مشرقی دانشور اور مفسرین کسی بھی حاالت میں ان متون کوسرتاسر قاری کی فہم و فراست کے حوالے نہیں
کرسکتے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ قاری اس کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنی ذہنی کم مائیگی کے سبب متن
سے جو معنی اخذ کرے گا ،وہ ناقص بھی ہوسکتے ہیں اور منشائے مصنف کے خالف بھی۔مشہورمشرقی دانشور اور
فلسفی خلیل جبران آفاقی متن میں بھی مصنف کی اہمیت پر ہی زور دیتا ہے ،وہ نہ صرف اس معاملے میں داخلی سطح
ب متن کی ذہنی بلندی اور فکری ارتقا کی ستائش کرتا ہے بلکہ خارجی سطح پر بھی وہ شعری لغات کے باب پر صاح ِ
میں مصنف کی طرفداری کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔اس کا ماننا ہے کہ زبان کی تولید شاعر (مصنف )کے بغیر ممکن نہیں
ہے اس لیے اس کی عظمت اور وجود سے انکار غیرشعوری امر ہے۔ظاہر ہے شاعر متن کو جس زبان کا جامہ پہنانا
چاہے گا ،اس کے لیے اسے خوبصورت ،شاندار اور باقار الفاظ کی ضرورت محسوس ہوگی اور اس پرشکوہ لفظیات
کی ترتیب ہی شاعری کی زبان کو دوامی اہمیت کا حامل بنائے گی۔ لہٰ ذا وہ کہتا ہے کہ
’’ شاعر ہی زبان کا باپ اور اس کی ماں ہے۔ جہاں شاعر جاتا ہے وہیں زبان جاتی ہے۔جہاں شاعر ٹھہرتا ہے اسی جگہ
زبان بھی ڈیرے ڈال دیتی ہے اور جب وہ شاعر دنیا کو چھوڑ جاتا ہے تو زبان اس کی قبر پر بیٹھ کر روتی ہے اور اس
وقت تک آہ و بکا کرتی رہتی ہے جب تک کہ کوئی اور شاعر آکر اس کا ہاتھ تھام نہ لے۔جس طرح شاعر زبان کا ماں
باپ ہے اسی طرح اندھی تقلید کرنے واال اس کا کفن دوز اور گورکن ہے۔()2
خلیل جبران کی کہی ہوئی بات کے تناظر میں یہ کہنا قطعا ً نامناسب معلوم ہوتا ہے کہ چاہیں متن کی تخلیق میں مصنف
نے کیسے ہی جتن کیوں نہ کیے ہوں ،کتنے ہی فکری و علمی ذرائع سے کام کیوں نہ لیا ہو مگر اس کی تفہیم کے لیے
قاری کو اس میدان میں کھلے بندوں چھوڑ دیا جائے ،چاہیں اسے معنی کی جہات سے آشنائی ہی نہ ہو یا پھر وہ اپنی
قابلیت کا اعتراف کرانے کے چکر میں متن کا ایسا حال کرے کہ اس کا مفہوم بھونڈی شکل اختیار کرلے۔قاری کو متن
کے حوالے کرنے کی ایک خرابی کی طرف میں اشارہ کرنا چاہوں گا۔ایہام گوئی اور رعایت پر تبصرہ کرتے ہوئے
شمس الرحمن فاروقی اردو کے تین اشعار کے بارے میں کیا لکھتے ہیں۔پہلے اشعار مالحظہ کریں:
تم دیکھو یا نہ دیکھو ہم کو سالم کرنا
یہ تو قدیم ہی سے سر پر ہمارے کر ہے
ابن خلدون کا یہ اقتباس نقل کیا ہے 6۔حالی نے مقدمۂ شعر و شاعری میں انشا پردازی کے حوالے سے ِ
’’انشا پرد ازی کا ہنر نظم میں ہو یا نثر میں ،محض الفاظ میں ہے ،معانی میں ہرگز نہیں۔معانی صرف الفاظ کے تابع ہیں
اور اصل الفاظ ہیں۔معانی ہر شخص کے ذہن میں موجود ہیں ،پس ان کے لیے کسی ہنر کے اکتساب کرنے کی ضرورت
نہیں ہے۔اگر ضرورت ہے تو صرف اس بات کی ہے کہ ان معانی کو کس طرح الفاظ میں ادا کیا جائے۔(الخ) الفاظ کو
ایسے سمجھو جیسے جیسے پیالہ اور معانی کو ایسا سمجھو جیسے پانی۔پانی کو چاہو سونے کے پیالے میں بھر لو ،اور
چاہوچاندی کے پیالے میں ،چاہو کانچ یا بلور یا سیپ کے پیالے میں ،اور چاہو مٹی کے پیالے میں ،پانی کی ذات میں کچھ
فرق نہیں آتا۔مگر سونے اور چاندی وغیرہ کے پیالے میں اس کی قدر بڑھ جاتی ہے اور مٹی کے پیالے میں کم ہوجاتی
ہے۔اسی طرح معانی کی قدر ایک فصیح اور ماہر کے بیان میں زیادہ ہوجاتی ہے اور غیر فصیح کے بیان میں گھٹ جاتی
ہے۔‘‘
حالی ،مطبوعہ مکتبہ جامعہ لمیٹڈ ،نئی دہلی۔ ؔ 7۔ص 62مقدمہ شعر و شاعری ،موالنا الطاف حسین
جہان خسرو ،مرتبہ فاروق
ِ 8۔ص 167امیر خسرو کے ادبی و شعری کماالت پر ایک نظر ،ڈاکٹر نذیر احمد ،مشمولہ
ارگلی ،مطبوعہ فرید بکڈپو ،نئی دہلی۔