You are on page 1of 5

‫مشرق میں تعیین متن کی اہمیت‬

‫متن دراصل ایسی لکھاوٹ کو کہتے ہیں جس کی تشریح و تفہیم ممکن ہو ‪ ،‬جو قریب الفہم ہویا بعید الفہم مگر سمجھ میں‬
‫ب نوراللغات نے اس لفظ کے معنوں میں ایک معنی ایسی عبارت کے دیے ہیں جس کی تشریح کی‬ ‫ضرور آئے ۔صاح ِ‬
‫جائے (‪)1‬متن صرف ایسے چند الفاظ سے بننے والی عبارت کو نہیں کہا جاسکتا ہے جس کا ہر لفظ با معنی ہو اور وہ‬
‫بحیثیت مجموعی مہمل یا مبہم ہو۔اس میں قواعد کے حساب سے ہونے والی غلطی کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے ۔مثال کے‬
‫طور پر مندرجہ ذیل جملے پر غور کیجیے‬
‫کام نہیں تو ہوتا‬
‫بظاہر اس جملے کے تمام الفاظ بامعنی ہیں‪ ،‬مگر اس کی تفہیم مشکل نظر آتی ہے‪ ،‬وجہ ہے جملے کی بے ترتیبی‪ ،‬اب‬
‫اس میں سے تو نکال باہر کیجیے تو جملہ بچتا ہے کام نہیں ہوتا‪ ،‬چلیے یہ سمجھ میں آگیا کہ کام نہیں ہوتا مگر یہ تو‬
‫جملے کا مطلب سمجھ میں آیا ہے‪ ،‬مگر جب تک یہ نہ سمجھ میں آجائے کہ کون سا کام نہیں ہوتا‪ ،‬یہ جملہ شکایتا ً کہا گیا‬
‫ہے یا خبریہ ہے یا استفہامیہ ‪ ،‬تب تک اس کی تفہیم ادھوری ہے ‪ ،‬لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ مسئلہ بھی حل ہوجائے‬
‫یعنی مثال کے طور پر ہم اس جملے پر کوئی عالمت لگا دیتے ہیں جیسے ختمہ‪ ،‬فجائیہ یا استفہامیہ ‪ ،‬تب بھی مسئلہ‬
‫بدستور اپنی جگہ رہے گا کہ کون سا کام نہیں ہوتا‪ ،‬کیوں نہیں ہوتا‪ ،‬کس سے نہیں ہوتا اور کب نہیں ہوتا۔ظاہر ہے ان تمام‬
‫سوالوں کے جواب ہمیں تب ہی حاصل ہوسکتے ہیں جب ہم کسی جملے کو اس کے سیاق میں پڑھیں۔ یعنی جب تک ہم کو‬
‫سمجھ میں نہیں آجاتا ہے کہ یہ جملہ کن حاالت اور کس تسلسل میں کہا گیا ہے اس کی تفہیم کا عمل ممکن نہیں ہوسکتا‬
‫ہے ۔اسی لیے معنی اور تفہیم میں بہت فرق ہے اور اس افتراق کی نشاندہی دراصل متن کی دریافت اور غیر دریافت کو‬
‫واضح کرتی ہے۔معنی تک رسائی آسان ہے مگر تفہیم تک رسائی مختلف حاالت میں مشکل ہوجاتی ہے اور بعض اوقات‬
‫سیاق کو نظر انداز کرنے سے تفہیم کا عمل نا ممکن ہوجاتا ہے۔اور اگر نا ممکن نہ بھی ہو تب بھی اس کے ایسے معنی‬
‫قاری تک پہنچ سکتے ہیں جس کا اطالق متن پر ہرگز نہیں ہوتا اور نہ کسی صورت ہوسکتا ہے۔مشرق میں تعیین متن کو‬
‫لے کر صرف یہ ہی بات اہم نہیں ہے ک ہ کسی خاص کتاب (خواہ وہ الہامی ہو یا غیر الہامی) کو پڑھ کر ہی ہمارے یہاں‬
‫معنی کا تعین کیا جاتا ہے یا اسے اپنے عقیدے‪ ،‬مسلک اور نظریے کے حساب سے سمجھا یا سمجھایا جاتا ہے بلکہ ہم‬
‫میں سے بیشتر افراد کو یہ بیماری بھی الحق ہے کہ ہم کسی خاص نظریے کا چشمہ لگا کر ہی متن کو پڑھتے ہیں اور‬
‫پھر اپنے من پسند معنی اس سے اخذ کرتے ہیں یا یہ کہنا بہتر ہوگا کہ متن پر ایسی معنویت کا الزام بھی عائد کرتے ہیں‬
‫جس کے بارے میں مصنف نے کبھی سوچا بھی نہ ہو۔ یہ عمل اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کہ کسی معاشرے میں ملزم کو‬
‫زبردستی مجرم ثابت کردینے کی معاندانہ کوشش کا رویہ ہوسکتا ہے۔مشرقی مذاہب اور ادب کی کتب کا مطالعہ ہمارے‬
‫سامنے متن کی ایک مخصوص صورت ضرور رکھتا ہے جس میں ایک خاص قسم کے معنی کا تعین کیا جانا ضروری‬
‫ہے۔ مشرقی دانشور اور مفسرین کسی بھی حاالت میں ان متون کوسرتاسر قاری کی فہم و فراست کے حوالے نہیں‬
‫کرسکتے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ قاری اس کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنی ذہنی کم مائیگی کے سبب متن‬
‫سے جو معنی اخذ کرے گا ‪ ،‬وہ ناقص بھی ہوسکتے ہیں اور منشائے مصنف کے خالف بھی۔مشہورمشرقی دانشور اور‬
‫فلسفی خلیل جبران آفاقی متن میں بھی مصنف کی اہمیت پر ہی زور دیتا ہے‪ ،‬وہ نہ صرف اس معاملے میں داخلی سطح‬
‫ب متن کی ذہنی بلندی اور فکری ارتقا کی ستائش کرتا ہے بلکہ خارجی سطح پر بھی وہ شعری لغات کے باب‬ ‫پر صاح ِ‬
‫میں مصنف کی طرفداری کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔اس کا ماننا ہے کہ زبان کی تولید شاعر (مصنف )کے بغیر ممکن نہیں‬
‫ہے اس لیے اس کی عظمت اور وجود سے انکار غیرشعوری امر ہے۔ظاہر ہے شاعر متن کو جس زبان کا جامہ پہنانا‬
‫چاہے گا ‪ ،‬اس کے لیے اسے خوبصورت‪ ،‬شاندار اور باقار الفاظ کی ضرورت محسوس ہوگی اور اس پرشکوہ لفظیات‬
‫کی ترتیب ہی شاعری کی زبان کو دوامی اہمیت کا حامل بنائے گی۔ لہٰ ذا وہ کہتا ہے کہ‬
‫’’ شاعر ہی زبان کا باپ اور اس کی ماں ہے۔ جہاں شاعر جاتا ہے وہیں زبان جاتی ہے۔جہاں شاعر ٹھہرتا ہے اسی جگہ‬
‫زبان بھی ڈیرے ڈال دیتی ہے اور جب وہ شاعر دنیا کو چھوڑ جاتا ہے تو زبان اس کی قبر پر بیٹھ کر روتی ہے اور اس‬
‫وقت تک آہ و بکا کرتی رہتی ہے جب تک کہ کوئی اور شاعر آکر اس کا ہاتھ تھام نہ لے۔جس طرح شاعر زبان کا ماں‬
‫باپ ہے اسی طرح اندھی تقلید کرنے واال اس کا کفن دوز اور گورکن ہے۔(‪)2‬‬
‫خلیل جبران کی کہی ہوئی بات کے تناظر میں یہ کہنا قطعا ً نامناسب معلوم ہوتا ہے کہ چاہیں متن کی تخلیق میں مصنف‬
‫نے کیسے ہی جتن کیوں نہ کیے ہوں‪ ،‬کتنے ہی فکری و علمی ذرائع سے کام کیوں نہ لیا ہو مگر اس کی تفہیم کے لیے‬
‫قاری کو اس میدان میں کھلے بندوں چھوڑ دیا جائے ‪ ،‬چاہیں اسے معنی کی جہات سے آشنائی ہی نہ ہو یا پھر وہ اپنی‬
‫قابلیت کا اعتراف کرانے کے چکر میں متن کا ایسا حال کرے کہ اس کا مفہوم بھونڈی شکل اختیار کرلے۔قاری کو متن‬
‫کے حوالے کرنے کی ایک خرابی کی طرف میں اشارہ کرنا چاہوں گا۔ایہام گوئی اور رعایت پر تبصرہ کرتے ہوئے‬
‫شمس الرحمن فاروقی اردو کے تین اشعار کے بارے میں کیا لکھتے ہیں۔پہلے اشعار مالحظہ کریں‪:‬‬
‫تم دیکھو یا نہ دیکھو ہم کو سالم کرنا‬
‫یہ تو قدیم ہی سے سر پر ہمارے کر ہے‬

‫یکرنگ ہوں آتی نہیں خوش مجھ کو دو رنگی‬


‫منکر سخن و شعر میں ایہام کا ہوں میں‬

‫کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل‬


‫انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں‬

‫پہلے شعر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ‪:‬‬


‫’’اس (شعر) پر محمد حسین آزاد کا حاشیہ ہے ۔’کر ہندی میں محصول کو اور سنسکرت میں ہاتھ کو کہتے ہیں۔سر کے‬
‫بالوں کی جڑوں میں جو خشکی ہوجاتی ہے اسے بھی کرکہتے ہیں۔‘ اس سے ایک اصولی بات یہ معلوم ہوئی کہ ایہام کی‬
‫غرض سے کسی لفظ کے نامانوس معنی بھی حساب میں لیے جاسکتے ہیں۔چنانچہ یہاں محمد حسین آزاد کو‬
‫سنکسرت’کر‘ بمعنی ہاتھ قبول کرنے میں کوئی قباحت نہیں معلوم ہوئی۔لیکن ’کر‘ کے حسب ذیل معنی اور بھی ہیں جو‬
‫اردو میں مستعمل ہیں۔(‪)1‬کمر (‪)2‬شرط‪ ،‬پابندی‪ ،‬بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ یہاں ’کر‘ بہ معنی ’شرط‪ ،‬پابندی‘ ہی اوائلی‬
‫معنی معلوم ہوتے ہیں۔ اور اگر ’کر‘ بہ معنی ’ہاتھ ‘ ایہام کے لیے مناسب ہے تو ’کر ‘ بہ معنی ’کمر ‘ بھی ٹھیک ہے کہ‬
‫دونوں کو سر سے مناسبت ہے۔(‪)3‬‬
‫دوسرے شعر کے بارے میں کہتے ہیں کہ‪:‬‬
‫’’ سودا کے شعر پر پہلی بات تو یہ کہنے کی ہے کہ خود اس شعر ہی میں ایہام موجود ہے۔ایہام صوت‪’،‬ایہام کا ہوں میں‬
‫’میں ‘ کو دباکے پڑھنا پڑتا ہے۔ یعنی ایہام کہوں میں ۔تو جس شعر میں بظاہر ایہام کا استرداد ہے خود اس میں ایہام کا‬
‫موجود ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ شاعر؍متکلم بہ ظاہر انکار اور بہ باطن اقرار کرکے دلچسپ تناؤ پیدا کررہا ہے۔فی‬
‫الحقیقت انکار نہیں کررہا ہے۔(‪)4‬‬
‫تیسرے شعر کے بارے میں فاروقی صاحب کا ارشاد ہے کہ‪:‬‬
‫’’ مدام کے ایک معنی شراب کے بھی ہیں۔طباطبائی ناک بھوں چڑھا کر لکھتے ہیں کہ کوئی بھی شاعر ہو اگر شراب کا‬
‫مضمون باندھتا ہے تو ’مدام‘ضرور لکھتا ہے۔دیکھتے دیکھتے طبیعت اکتا گئی۔اس طرح کی تعریفوں کا یہ اثر ہوا کہ ہم‬
‫جیسے لوگوں کو بھی جو رعایت کی خوبی کے قائل ہیں۔ اب شعر کہتے وقت رعایت مشکل ہی سے سوجھتی ہے اور‬
‫اکثر لوگوں کو یہ معلوم بھی نہیں کہ ’مدام‘کے ایک معنی ’شراب ‘ہیں۔(‪)5‬‬
‫پہلے شعرمیں شمس الرحمن فاروقی کا کر کو کمر کے معنی میں بھی جائز قرار دینا اور اس کا جواز یہ فراہم کرنا کہ‬
‫جس طرح شرط ‪ ،‬پابندی کی سر کے ساتھ مناسبت ہے یعنی پابندی سر پر عائد کی جاتی ہے اسی طرح کمر کو بھی سر‬
‫کے ساتھ مناسبت دی جاسکتی ہے نا مناسب ہے‪ ،‬انہوں نے اس بات کو اجماالً بھی بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ کمر کو‬
‫سر سے کیا مناسبت ہو سکتی ہے اور اگر ہو بھی تو اس شعر میں اگر کر کے معنی کمر کے بھی لیے جائیں تو شعر کا‬
‫مفہوم کس طرح طے ہوگا ؟ اسی طرح دوسرے شعر میں زبردستی ایہام صوت کا اطالق لفظ ’منکر ‘ کی موجودگی کو‬
‫یکسر نظر انداز ک ردیتا ہے۔شمس الرحمن فاروقی یہ بات کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ اگر شعر کی تشریح ان کے‬
‫مطابق تسلیم کرنے کی کوشش کی بھی جائے تب بھی کسی بھی لفظ کے انقطاع یا اخراج کا حق قاری یا شارح کو حاصل‬
‫نہیں ہے اور جب تک مصرعۂ ثانی میں لفظ منکر موجود ہے کسی بھی صورت میں شعر کے وہ معنی متعین نہیں کیے‬
‫بعینہ قبول کرتا‬
‫ٖ‬ ‫جاسکتے جو انہوں نے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔اور اگر کوئی شخص فاروقی صاحب کی تشریح کو‬
‫ہے تو مجھے مندرجہ ذیل متن میں منکر کا لفظ کہیں شامل کرکے دکھائے۔‬
‫‘میں یکرنگ ہوں ‪(،‬اس لیے)مجھے دورنگی خوش نہیں آتی ‪ ،‬میں سخن و شعر میں ایہام کہوں(کہتا ہوں)‬
‫تیسرے شعر میں مدام کا مطلب خود شاعر کے متعینہ متن کے مطابق مسلسل کا ہے۔اگر کسی رعایت کو ملحوظ رکھتے‬
‫ہوئے شراب کے معنی فرض بھی کیے جائیں تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ شراب کی گردش سے انسان کے دل کے‬
‫گھبرانے کا تعلق کیونکر ہوسکتا ہے جبکہ شعر چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ جس طرح پیالہ و ساغر مسلسل ایک ہاتھ‬
‫سے دوسرے اور دوسرے سے پھر پہلے کے ہاتھ جاتے ہوئے اس مسلسل گردش کے عمل سے نہیں گھبراتے ‪ ،‬اس‬
‫گردش روزگار سے نہ گھبراؤں یہ ممکن نہیں ہے۔ایسا نہیں ہے کہ اس شعر میں ایہام نہیں ہے‪ ،‬اور اس‬ ‫ِ‬ ‫طرح میں بھی‬
‫شعر کا ایہام دراصل لفظ مدام سے نہیں ہے بلکہ گردش سے ہے۔ کیونکہ گردش کے قریبی معنی ہیں چکر‪ ،‬پھیر اور‬
‫دورے کے اور بعیدی معنی ہیں انقالب‪ ،‬تغیر‪ ،‬ہجرت کے ‪ ،‬اور یہاں شاعر نے یہی دور کے معنی مراد لیے ہیں ۔ یہ سارا‬
‫جھگڑا دراصل اسی وجہ سے وجود میں آیا ہے کیونکہ ناقد نے اپنے طے شدہ اصولوں سے متن کا جائزہ لیا ہے اور‬
‫اپنی بات کہنے کے لیے زبردستی معنی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہے۔ضروری نہیں ہے کہ متن میں موجود ہر لفظ کے‬
‫دو یا دو سے زائد معنی ہی متعین کیے جائیں‪ ،‬ایسا کرنے سے متن کا چہرہ مسخ ہوسکتا ہے اور یہ طریقۂ تفہیم عبارت‬
‫کو گنجلک‪ ،‬مہمل یا مبہم بھی بنا سکتا ہے۔جس طرح ضمائر کے استعمال سے ہم متکلم ‪ ،‬مخاطب یا غائب تک پہنچ جاتے‬
‫کی ضرورت ہے اور جو معنی‪،‬‬ ‫ہیں اسی طرح افعال‪ ،‬اسما اور صفات کے استعمال میں بھی ہمیں ذہن کو بیدار رکھنے ِ‬
‫تفہیم کے عمل میں ذرا بھی رکاوٹ پیدا کرے اسے خارج کردینا چاہیے۔ جس طرح متن کی تفہیم محض الفاظ کے معنی‬
‫برآمد کرلینے سے ممکن نہیں ہے اسی طرح الفاظ کی موجودگی کے بغیر متن کا تصور ناممکن ہے اسی لیے مشرق میں‬
‫الفاظ کی صحت‪ ،‬فصاحت اور ترتیب پر مستقل زوردیا گیا ہے۔متن میں الفاظ کی صورت بدلتی رہتی ہے ‪ ،‬وہ کنایوں‪،‬‬
‫استعاروں‪ ،‬اشاروں‪ ،‬تشبیہوں اور تمثیلوں کا پیرہن اوڑھ کر بار بار آتے ہیں۔متن الفاظ سے ہی بنتا ہے اور اگر ان کی‬
‫ابن خلدون کی اس مثال‬‫ترتیب خوشنما اور مناسب نہ ہو تو معنی پر بھی اس کا برا اثر پڑتا ہے۔ حالی نے اس سلسلے میں ِ‬
‫کی تردید کی ہے کہ لفظ کو پیالہ اور معنی کو پانی سمجھنا چاہیے۔(‪)6‬لیکن خود اس باب میں حالی کی کہی ہوئی بات‬
‫کہ‬ ‫ہیں‬ ‫کہتے‬ ‫ہے۔وہ‬ ‫کمزور‬ ‫خاصی‬
‫’’اگر پانی کھاری یا گدال یا بوجھل یا اَدھَن ہوگا‪ ،‬یا ایسی حالت میں پالیا جائے گا جب کہ اس کی پیاس مطلق نہ ہو‪ ،‬تو‬
‫خواہ سونے یا چاندی کے پیالے میں پالئیے خواہ بلور اور پھٹک کے پیالے میں وہ ہرگز خوش گوار نہیں ہوسکتا اور‬
‫ہرگز اس کی قدر نہیں بڑھ سکتی۔(‪)7‬‬
‫گدلے پانی والی بات کے تعلق سے کہا جاسکتا ہے کہ جس شخص کو متن کی اہمیت سے ہی انکار ہو‪ ،‬جو الفاظ اور‬
‫ت معنی تک رسائی نہ رکھتا ہو اور جسے اتنی خبر بھی نہ ہو کہ کسی لفظ کا مخصوص معنی کیا ہے یا اسے اگر یہ‬ ‫جہا ِ‬
‫معلوم بھی ہو اور مح ِل استعمال کا علم نہ ہو تو پھر وہ متن کی تعمیر و تخلیق کا کام کیسے انجام دے سکتا ہے۔ اور جہاں‬
‫تک تعلق ہے پیاس کے نہ ہونے کا ‪ ،‬تو کسی ایسے شخص کوجو متن و معنی کی دنیا میں قدم ہی نہ رکھنا چاہتا ہو‪ ،‬جس‬
‫طرز فکر ان تمام اسرار کی گرہ کشائی کو تضیعِ اوقات اور بے معنی ٹھہراتی ہو اس کے لیے تو یہ بات سوچنی ہی‬ ‫ِ‬ ‫کی‬
‫ماورائے عقل ہے کہ اسے الفاظ یا معنی کی کسی طور قدر ہوگی۔ایسا نہیں ہے کہ حالی خود متن میں الفاظ کی صحت یا‬
‫اہمیت کو تسلیم نہ کرتے ہوں انہوں نے مقدمے میں کئی بار شاعر کی لغات اور لفظیات کی بحث چھیڑی ہے‪ ،‬وہ اسی‬
‫ابن خلدون کی بات کو تسلیم کرتے ہیں اور اس سے پہلے بھی وہ شاعری کی تین اہم‬ ‫سلسلے میں آگے چل کر خود ِ‬
‫تفحص الفاظ کو بھی بیان کرنا نہیں بھولتے۔ مگر حالی‬
‫ِ‬ ‫شرطیں بتاتے ہوئے تخیل اور کائنات کے مطالعے کے ساتھ ساتھ‬
‫کا رویہ مشرق کے اس رویے کی تائید کرتا دکھائی نہیں دیتا ہے جس میں الفاظ کی فصاحت اور ترتیب کو شاعر یا انشا‬
‫ابن خلدون کے بیان سے اس بات کو تقویت ملتی ہے‬ ‫پرداز کے لیے پہلی شرط قرار دیا جاتا رہا ہے۔اس ضمن میں خود ِ‬
‫کہ معنی ‪ ،‬لفظ سے پیدا ہوتا ہے اور لفظ کے انتخاب میں اور ترتیب میں مصنف بالکل آزاد ہے۔ اس لیے وہ اپنی فکر کی‬
‫ترسیل کے لیے جن الفاظ کو چنے گا اور ترتیب دے گا‪ ،‬انہی سے معنی کے تعین کا پہال مرحلہ طے ہوگا اور یہی مرحلہ‬
‫منشائے مصنف کا مرحلہ ہے۔ہم اکثر ادبی اور مذہبی متن میں منشائے مصنف کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے اسی‬
‫نکتے کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ مصنف کا منشا ہر متن کے بارے میں صرف محدود معنی متعین کرنے کا ہی نہیں‬
‫ہوسکتا۔کیونکہ ادبی متن کا خالق تو یہی چاہے گا کہ اس کی تحریر میں ایسے الفاظ استعمال ہوں جو آفاقیت کی ترجمانی‬
‫میں معاون ہوں یا وہ ایسے متن کی تخلیق بھی چاہ سکتا ہے جس تک پہنچنے کے لیے قاری کو محنت کرنا پڑے یا اگر‬
‫وہ اتنا ہی عالم و باصر ہو تو نثر و نظم کے ایہام کا لطف حاصل کرے۔ اس سلسلے میں جو نام مشرق میں سب سے زیادہ‬
‫اہم یا اسی طرز کا موجد کہا جاسکتا ہے وہ نام حضرت امیر خسروعلیہ الرحمۃ کا ہے۔خسرو کی اس طرز نگارش پر‬
‫روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر نذیر احمد لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫’’ امیر خسرو اس بات کے احساس سے قاصر رہے کہ نثر کا حسن سادگی‪ ،‬صفائی اور پرتاثیر ہونے میں مضمر ہے۔وہ‬
‫ہر موقعہ پر اپنی فنکارانہ چابک دستی سے قاری کو مبہوت کرتے ہیں۔وہ ایسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جن کے‬
‫معانی کا تعین آسان نہیں ہوتا اور ایسی تشبیہات اور استعارات سے کالم کو آراستہ کرتے ہیں جن سے حیرت و بیزاری‬
‫کے ملے جلے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔خالصہ یہ کہ وہ قاری کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ ان کی قوت بیان و عقل کس‬
‫درجہ کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں وہ اپنے تمام معاصرین سے منفرد ہیں۔(‪)8‬‬
‫اس لیے اس بات کو نظر انداز کرنا عقلمندی کی دلیل نہیں ہے کہ مصنف خود بھی متن کو مختلف المعانی بنانے کا‬
‫خواہش مند ہوسکتا ہے۔ اس کے بطن میں صرف اصل مقصد ہو یہ ہی ضروری نہیں یا پھر وہ یہ بھی یہ چاہتا ہو کہ‬
‫دیکھنا چاہیے کہ لوگ اس عبارت‪ ،‬شعر‪ ،‬جملے وغیرہ کے کیا کیا معنی نکالتے ہیں اور جب ان کی طبیعتیں لوگوں کو‬
‫تفہیم سے قاصر‪ ،‬تھکی ماندی اور بوجھل نظر آتی ہیں تو فخر سے کہتی ہیں کہ‪:‬‬
‫دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے‬
‫آگہی ِ‬
‫عالم تحریر کا‬
‫مدعا عنقا ہے اپنے ِ‬
‫اب اس اعتراف کے بعد یہ بات بھی بحث طلب ہوجاتی ہے کہ آیامنشائے مصنف قاری کو الجھانا بھی ہوسکتا ہے یا پھر‬
‫قاری کی الجھن سے حظ اٹھانا بھی ہوسکتا ہے؟ جواب تو اثبات میں ہی نظر آتا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہاں یہ قضیہ‬
‫تمام ہوجاتا ہے کہ متن کو منشائے مصنف سمجھ لینے سے اس کے معنی محدود ہوجاتے ہیں۔اس اہم نکتے کی موجودگی‬
‫میں بھی ہم تمام متون کو ایک ہی لکڑی سے نہیں ہانک سکتے ‪ ،‬میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو متون کی مختلف‬
‫شکلوں اور ان کی اقسام کو زیر بحث النا ہوگا۔ خاص طور پر مشرق کے مذہبی‪ ،‬ادبی‪ ،‬سوانحی‪ ،‬مکتوبی اور معروضی‬
‫متون تک میں سیدھے طور پر معنی اخذ کرلینے یا سیاق وتناظر کی محتاجی کی بحث ہرحال میں قائم رہتی ہے۔ جہاں‬
‫تک میں سمجھتا ہوں مشرق کی اہم کتابیں متن کی اسی صورت کو ہمارے سامنے بار بار التی ہے جس میں مصنف کے‬
‫عندیے اور نظریے کو معنی کا پہال اور متن کا آخری رکن سمجھا جاتا ہے۔مشرق کی الہامی کتابیں بھی بیشتر اس بات پر‬
‫توجہ دیتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں کہ متن کی تحقیق سرے سے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔یعنی اگر منشائے مصنف متن سے‬
‫ظاہر ہورہا ہے اور قاری بین السطور تک پہنچتا ہے تو اس جھگڑے میں پڑنے کی مطلق ضرورت نہیں ہے کہ مصنف‬
‫نے متخیلہ یا تاریخی واقعے کو کس طرح بیان کیا ہے ۔اس سے ایک دوسری بات جو میرے ذہن میں پیدا ہوئی ہے وہ یہ‬
‫بھی ہے کہ یہ کتابیں تخلیق کے تعلق سے اس نظریے پر زور دیتی ہیں کہ متن ایک طرح کی قوت تخیل کا نام ہے‪ ،‬جس‬
‫میں کسی چیز کا مشاہدہ کرکے اپنی غور وفکر کے حساب سے اس کا جائزہ لیتے ہیں اور جیسا ہماری فکر اسے ثابت‬
‫کردیتی ہے ویسا ہم اسے لکھ دیتے ہیں چونکہ انسانی سوچیں مختلف ہیں اس لیے استعارے کی ماہیت بھی اپنے اندر‬
‫اختالف کے پہلو رکھتی ہے۔مثال کے طور پر پھول کو ایک مصنف ایک وقت میں نازکی کا استعارہ بناتا ہے‪ ،‬دوسرے‬
‫وقت میں خوبصورتی کا‪ ،‬تیسرے وقت میں محبت کا تو چوتھے وقت میں عبرت کا۔اس لیے معلوم ہوا کہ استعارے کا‬
‫معنی متن کی ضرورت پر منحصر ہے اور مصنف کسی بھی لفظ کو ایک خاص سیاق میں برتنے پر قادر ہے۔یہ کتابیں‬
‫ایک اور خاص بات پر قاری کی توجہ مبذول کراتی ہیں کہ کسی بھی متن کو اس کے سیاق و سباق کے بغیر پڑھا نہیں‬
‫جا سکتا اور اگر ایسا کیا گیا تو معنی کی ترسیل اور تفہیم میں رکاوٹ پیش آئے گی۔مطالعے کا یہ طریقہ کار سیاق کی‬
‫اہمیت پر ہی زور نہیں دیتا بلکہ متن میں بھی سالست ‪ ،‬ترتیب اور تمثیل جیسے تین عناصرکو ہرگز فراموش نہیں‬
‫کرتا۔پایان کار یہ کتابیں معنی کے تعین پر زور دیتی ہیں مگر اس تعیین کی تشکیل میں مصنف کی منشا اور اس کے طے‬
‫ِ‬
‫کردہ مفہوم کی شکل حتمی صورت اختیار کرتی ہے ‪ ،‬جسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ دوسری صورت‬
‫میں متن کے مفہوم کو قاری کے حوالے کردینے سے جہاں ایک طرف فلسفے کے ہزاروں در کھلنے کی توقع ہے وہیں‬
‫ال یعنی تفہم اور غلط‪ ،‬بیہودہ اور سازشی تفاسیر کے اندیشے بھی موجود ہیں۔‬
‫***‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫حواشی‬
‫‪1‬۔مالحظہ ہو نوراللغات جلد چہارم‪ ،‬ص ‪478‬مطبوعہ حلقۂ اشاعت‪ ،‬لکھنؤ ‪ 1917‬؁ء‬
‫‪2‬۔ص ‪ ،69-68‬چند سواالت‪ ،‬اپنا اپنا دیس ‪ ،‬خلیل جبران مطبوعہ ادارۂ فروغ اردو الہور ‪ 1946‬؁ء‬
‫‪3‬۔ص ‪ ،29-28‬ایہام ‪،‬رعایت اور مناسبت‪ ،‬مطبوعہ کتابی سلسلہ سوغات ‪ ،‬بنگلور‪،‬ستمبر‪ 1996‬؁ء‬
‫‪4‬۔ص ‪37‬ایضا ً‬
‫‪5‬۔ص ‪50‬ایضا ً‬

‫ابن خلدون کا یہ اقتباس نقل کیا ہے‬ ‫‪6‬۔حالی نے مقدمۂ شعر و شاعری میں انشا پردازی کے حوالے سے ِ‬
‫’’انشا پرد ازی کا ہنر نظم میں ہو یا نثر میں ‪ ،‬محض الفاظ میں ہے‪ ،‬معانی میں ہرگز نہیں۔معانی صرف الفاظ کے تابع ہیں‬
‫اور اصل الفاظ ہیں۔معانی ہر شخص کے ذہن میں موجود ہیں‪ ،‬پس ان کے لیے کسی ہنر کے اکتساب کرنے کی ضرورت‬
‫نہیں ہے۔اگر ضرورت ہے تو صرف اس بات کی ہے کہ ان معانی کو کس طرح الفاظ میں ادا کیا جائے۔(الخ) الفاظ کو‬
‫ایسے سمجھو جیسے جیسے پیالہ اور معانی کو ایسا سمجھو جیسے پانی۔پانی کو چاہو سونے کے پیالے میں بھر لو‪ ،‬اور‬
‫چاہوچاندی کے پیالے میں‪ ،‬چاہو کانچ یا بلور یا سیپ کے پیالے میں‪ ،‬اور چاہو مٹی کے پیالے میں‪ ،‬پانی کی ذات میں کچھ‬
‫فرق نہیں آتا۔مگر سونے اور چاندی وغیرہ کے پیالے میں اس کی قدر بڑھ جاتی ہے اور مٹی کے پیالے میں کم ہوجاتی‬
‫ہے۔اسی طرح معانی کی قدر ایک فصیح اور ماہر کے بیان میں زیادہ ہوجاتی ہے اور غیر فصیح کے بیان میں گھٹ جاتی‬
‫ہے۔‘‘‬
‫حالی ‪ ،‬مطبوعہ مکتبہ جامعہ لمیٹڈ ‪ ،‬نئی دہلی۔‬ ‫ؔ‬ ‫‪7‬۔ص ‪62‬مقدمہ شعر و شاعری‪ ،‬موالنا الطاف حسین‬
‫جہان خسرو‪ ،‬مرتبہ فاروق‬
‫ِ‬ ‫‪8‬۔ص ‪167‬امیر خسرو کے ادبی و شعری کماالت پر ایک نظر ‪ ،‬ڈاکٹر نذیر احمد‪ ،‬مشمولہ‬
‫ارگلی‪ ،‬مطبوعہ فرید بکڈپو‪ ،‬نئی دہلی۔‬

You might also like