Professional Documents
Culture Documents
فراق کی غزل
فراق کی غزل
Module: 30
Paper: GAZAL
Topic: Raghupati Shaye Firaaq Ghurakh puri
Content writer: Prof.Khwaja Md Ekramuddin
Jawaharlal Nehru University, New Delhi
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi
فراق گورکھپوری
)(1896-1982
01۔تعارف/تمہید )(Introduction
فراق گورکھپوری کا پورا نام رگھوپتی سہائے تھا ،فراق تخلص۔ 28اگست 1896کو گورکھپور میں
پیدا ہوئے۔ فراق کے والد منشی گورکھ پرشاد عبرت شاعری کا عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ پیشے سے
وکیل تھے لیکن علم و ادب کا شستہ مذاق رکھتے تھے۔ انھوں نے غزلیں بھی کہیں اور مثنویاں بھی۔
چھاوں’ نام کی آپ بیتی میں
‘حسن فطرت’ نام کی مثنوی کا ذکر فراق نے ‘میری زندگی کی دھوپ ٔ
کیا ہے۔ فراق کائستھ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور کائستھ گھرانوں میں اردو ،فارسی اور
عربی کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ لیکن ہندو اساطیر ،کالسیکی ہندوستانی فنون،
ہندوستان کے قدیم ادبی اور مذہبی اثاثے سے بھی انھیں شروع ہی سے دلچسپی تھی۔ گھر میں اکثر
شعری نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ مسلمانوں سے گہرا ربط ضبط تھا۔ فراق کا گھر کیا تھا مشترکہ تہذیب
کا گہوارہ تھا۔
فراق نے ابتدائی تعلیم گورکھپور کے ایک انگریزی اسکول میں پائی۔ میٹرک کرنے کے بعد میور
سنٹرل کالج الہ آباد میں ایف۔ اے میں داخلہ لیا۔ ابھی بی۔اے کا نتیجہ بھی نہیں نکال تھا کہ والد اس
جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ سارے گھر کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر آگئی۔ فراق کا ڈپٹی کلکٹر ِ
کے عہدے پر تقرر ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ آئی۔ سی۔ ایس کے لیے بھی منتخب ہوئے تھے جو
تحقیق طلب ہے۔
فراق کی شاعری میں جو ہندوستانی کلچر کی روح سرایت پذیر ہے۔ اس کے سرے ان کی بچپن
کی زندگی میں ملتے ہیں۔ ایک طرف انگریزی کے وہ ایک کامیاب طالب علم تھے ،دوسری
طرف اردو شاعری کی کالسیکی روایت کے علم نے ان کے شعور کی تربیت کی تھی۔ تیسرے
طرز احساس کے تعین میں ِ سنسکرت کالسیکی ادب اور تلسی کی رام چرت مانس نے ان کے
کھجراو کی بت تراشی اور جنسیت و رومانیت کے امتزاج ،اجنتا ؤ خاص کردار ادا کیا۔ فراق
امرو ،بھرتری ہری کی دانش ٗ ایلورہ کی نقّاشی و سنگ تراشی کے مسحور کن نمونوں ،کالیداس،
و بینش ،سورداس ،میرا بائی اوار تلسی داس کی خودسپردگی ،تقدس اور روحانی علوئیت سے بے
احساس جمال کی تشکیل و تربیت میں ان کالسیکی آثار کا خاص دخل ِ حد متاثر تھے۔ فراق کے
ہے۔ گھریلو زندگی کی تلخی کو انھوں نے ذہن کا مستقل آزار نہیں بننے دیا۔ ان کی شادی فرسودہ
رسوم و روایات کے مطابق طے ہوئی تھی۔ فراق کی سب سے بڑی ٹریجڈی یہ تھی کہ ان کے
ذہن میں حسن کا جو مثالی تصور تھا ،ان کی بیوی اس کی عین ضد تھی۔ اس لیے فراق کی
شاعری میں کہیں کہیں سوز آگینی کی جو کیفیت ملتی ہے اس کے پیچھے ان کی ذاتی ناآسودگیاں
خر عمر تک اپنی زندگی کی اس سب سے بڑی ٹریجڈی کو بھول نہیں پائے۔ کارفرما ہیں۔ وہ آ ِ
فراق الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات میں ایم۔ اے کرنے کے بعد وہیں لیکچرر بھی ہوگئے۔
فراق کی شاعری میں قدیم ہندوستانی تہذیبی و ثقافتی روح ہی نہیں انگریزی ادب کے اثرات بھی
کارفرما ہیں۔ خصوصا ً انگریزی کے رومانوی شعرا مثالً شیلی ،کیٹس اور بائرن وغیرہ سے وہ بہت
متاثر تھے۔ اردو کی شعری روایت سنسکرت کی شعری روایت اور انگریزی کی رومانوی تحریک
نے ان کی شعری آگہی کو ثروت مند بھی کیا اور ان کی انفرادیت کی تشکیل میں مدد بھی کی۔
1982کو ان کا انتقال ہوا۔
02۔ سبق کا مقصد)(Learning Outcome
رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری اردو غزل کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ ہمارے طلبا
ان کے نام اور ان کے کاموں سے بھی واقف ہیں۔ اپنے تعلیمی سفر میں فراق کی غزلوں سے بھی
انھیں سابقہ پڑا ہے۔ لیکن انھوں نے فراق کی غزل کا باقاعدہ تنقیدی مطالعہ نہیں کیا ہے۔ درج ذیل
معلومات کے بعد وہ فراق کی غزلوں کی خصوصیات سے واقف ہوسکیں گے اور انھیں یہ بھی علم
ہوگا کہ فراق کی غزل کی انفرادیت کیا ہے؟ اور اردو غزل کی تاریخ میں انھیں کیوں ایک بلند
درجہ دیا گیا ہے۔
( )iفراق اور اردو غزل کی روایت
( )iiفراق کی پیکر سازی
( )iiiفراق ،کیفیات کے شاعر
( )ivفراق کی غزل کا امتیاز
03۔ فراق اور اردو غزل کی روایت
فراق کے معاصرین میں فانی ،حسرت ،یگانہ اور اصغر گونڈوی کے نا م آتے ہیں۔ فانی بدایونی
1879میں حسرت موہانی 1881اصغر گونڈوی اور یگانہ چنگیزی 1884میں پیدا ہوئے اور فراق
گورکھپوری کی والدت 1896میں ہوئی۔ گویا فانی ان سے 17برس ،حسرت 15برس اور اصغر و
یگانہ 14برس بڑے تھے۔ فانی کی غزل شاعر کی جذباتی ناآسودگی کی مظہر تھی ،حسرت موہانی
کے یہاں مومن و مصحفی کی جمال پرستی اور عشقیہ رنگ و آہنگ کے عالوہ جذبو نکی پاکیزگی
نے غزل کو ایک خوبصورت مرقع میں بدل دیا۔ اصغر گونڈوی نے تصوف میں پناہ لی اور یگانہ
چنگیزی کی غزل اپنے اعتماد آگیں لہجے سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ تمام شعرا اس لیے بھی اہمیت
رکھتے ہیں کہ غزل مخالف دور میں انھوں نے اسے اردو شاعری کی آبرو کے طور پر اخذ کیا۔
اردو غزل کی روایت کے بہترین عناصر کا ان کے یہاں احیا ملتا ہے۔ انھوں نے روایت کو قبول
کیالیکن اپنی طرف سے اس میں کوئی بڑا اضافہ نہیں کرسکے۔
فراق کی غزل جہاں روایت کے بہترین عناصر سے ایک مستحکم رشتہ قائم رکھتی ہے وہیں اپنی
طرف سے بھی اس میں بہت کچھ نیا شامل کرتی ہے۔ فراق کی غزل کے کئی رنگ ہیں وہ انتخاب
کے شاعر ہیں ،جس طرح میر و سودا انتخاب کے شاعر ہیں۔ غالب بہت ذہین تھے انھوں نے خود اپنا
انتخاب کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہی۔ فراق کے یہاں کالسیکیانتخاب کرلیا تھا۔ اس کے بعد مزید ْ
اور جدید رنگ مل کر ان کی شاعری کا البم بناتے ہیں۔ فراق میر کی شاعری کے پرستار تھے۔ انھوں
نے میر کی زمینوں اور بحروں میں غزلیں کہیں اور میر کے درد و سوز سے بھرے ہوئے لہجے کی
بھی نمائندگی کی۔ مصحفی ،مومن اور حسرت کی عشقیہ شاعری سے بھی متاثر ہوئے۔ وہ احساساست
کے شاعر ہیں اور احساسات کا رنگ جن شعرا کے یہاں گہرا ملتا ہے وہ اس سے اثر بھی قبول
کرتے ہیں اور اپنی تنقید میں انھیں ایک بلند درجہ پر بھی رکھتے ہیں۔
فراق کے لیے غزل کا کوئی مضمون فرسودہ نہیں ہے۔ کسی بھی مضمون کو کسب کرتے وقت وہ
اسے ایک نیا تخلیقی آب و رنگ عطا کرتے ہیں۔ تخلیقی تفاعل Creative Functionمیں اسے
Transpositionکا عمل کہتے ہیں۔ یعنی کسی برتے ہوئے روایتی خیال کو ایک نئی زندگی بخشتا۔
وفا ،جفا ،ستم ،کرم ،رنجش ،ہجر ،وصال ،بہار ،خزاں ،حسن ،عشق ،ناز و انداز ،موت ،زندگی ،غم،
نشاط وغیرہ مضامین کو اردو کالسیکی شعرا نے مختلف پیرایوں میں ادا کیا ہے۔ یہ سلسلہ جدید عہد
تک چال آرہا ہے۔ فراق نے بھی ان مضامین کو اپنے خاص اسلوب میں ادا کرنے کی کوشش کی
ہے۔ فراق کے عاشق میں ایک اعتماد پایاجاتا ہے۔ عاشق محبوب سے اس کے رحم و کرم کا طالب
نہیں ہے بلکہ اس محبت کی توقع رکھتا ہے جس میں اخالص اور مکمل سپردگی ہو۔ فراق یک طرفہ
عشق کے قائل ہی نہیں۔
رنجش بے
ِ آہ اب مجھ سے تجھے مہربانی کو محبت نہیں کہتے
جا بھی نہیں دوست اے
میں کچھ تجھے بھول سا گیا ہوں اوروں کی بھی یاد آرہی ہے
کہ جب ملتے ہیں دل کہتا ہے کہاں وہ خلوتیں دن رات کی اور
ہو بھی تیسرا کوئی ہے عالم یہ اب
حتی کہ بہت زیادہ میل جول سے بھی انھیں خوف آتا ہے۔ تعلقات میں ایک مساوی سطح کے وہ قابل
ٰ
ہیں۔ دونوں طرف آگ برابر بھڑکی ہوئی ہو۔ رنجش ،خفگی ،برہمی ،شکوہ ،شکایت سے محبت میں
ب عہد محبت میں بھی
استحکام پیدا ہوتا ہے۔ وہ عشق ہی کیا جس میں کوئی کشمکش ہی نہ ہو۔ فری ِ
ایک سادگی ہوتی ہے:
کہ تجھ سے چھٹ کے کہیں جی نہ میل جول بڑھا ،اس قدر
گھبرائے نہ بہت ہوں ڈرتا میں
وہ جھوٹ بول کہ سچ کو بھی پیار ب عہ ِد محبت کی سادگی
فری ِ
آجائے قسم کی
جھوٹی شکایت بھی جو کروں ہوں ،پلک دیپ جل جائیں ہیں
تم کو چھیڑے بھی کیا تم تو ہنسی ہنسی میں رو دو ہو
فراق نے عاشق کی شخصیت کو معشوق سے کم تر نہیں بنایا۔ جیسا کہ اردو شاعری کی روایت میں
معشوق کا درجہ ہمیشہ عاشق سے برتر ہوتا ہے۔ معشوق کی ستم پیشگی کو عاشق ایک انعام
سمجھتا ہے وہ ستم سہتا ہے ،معشوق کی عہد شکنی کو بسر و چشم قبول کرتا ہے کہ تہذیب عشق کا
یہی تقاضہ ہے۔ فراق ایک حد تک ہی معشوق کی بے پروائی ،اس کا تغافل اُس کی جفاکاری کا پاس
رکھتے ہیں۔ ورنہ وہ اسے ب ُھال بھی سکتے ہیں۔ عاشق میں پہلے یہ جرأت کہاں تھی:
اب تو وہ دھیان سے اُتر بھی گئے کس لیے کم نہیں ہے در ِد
فراق
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا ایک مدت سے تری یاد بھی
نہیں بھی ہمیں نہ آئی
یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب کسی کا یوں تو ہوا کون
بھی پھر مگر عمر بھر پھر بھی
ارے وہ در ِد محبت سہی تو کیا کچھ آدمی کو ہیں مجبوریاں
مرجائیں میں دنیا بھی