You are on page 1of 31

Subject: Urdu

Module: 30
Paper: GAZAL
Topic: Raghupati Shaye Firaaq Ghurakh puri
Content writer: Prof.Khwaja Md Ekramuddin
Jawaharlal Nehru University, New Delhi
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi

‫فراق گورکھپوری‬
‫)‪(1896-1982‬‬
‫‪01‬۔تعارف‪/‬تمہید )‪(Introduction‬‬

‫فراق گورکھپوری کا پورا نام رگھوپتی سہائے تھا‪ ،‬فراق تخلص۔ ‪ 28‬اگست ‪ 1896‬کو گورکھپور میں‬
‫پیدا ہوئے۔ فراق کے والد منشی گورکھ پرشاد عبرت شاعری کا عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ پیشے سے‬
‫وکیل تھے لیکن علم و ادب کا شستہ مذاق رکھتے تھے۔ انھوں نے غزلیں بھی کہیں اور مثنویاں بھی۔‬
‫چھاوں’ نام کی آپ بیتی میں‬
‫‘حسن فطرت’ نام کی مثنوی کا ذکر فراق نے ‘میری زندگی کی دھوپ ٔ‬
‫کیا ہے۔ فراق کائستھ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور کائستھ گھرانوں میں اردو‪ ،‬فارسی اور‬
‫عربی کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ لیکن ہندو اساطیر‪ ،‬کالسیکی ہندوستانی فنون‪،‬‬
‫ہندوستان کے قدیم ادبی اور مذہبی اثاثے سے بھی انھیں شروع ہی سے دلچسپی تھی۔ گھر میں اکثر‬
‫شعری نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ مسلمانوں سے گہرا ربط ضبط تھا۔ فراق کا گھر کیا تھا مشترکہ تہذیب‬
‫کا گہوارہ تھا۔‬
‫فراق نے ابتدائی تعلیم گورکھپور کے ایک انگریزی اسکول میں پائی۔ میٹرک کرنے کے بعد میور‬
‫سنٹرل کالج الہ آباد میں ایف۔ اے میں داخلہ لیا۔ ابھی بی۔اے کا نتیجہ بھی نہیں نکال تھا کہ والد اس‬
‫جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ سارے گھر کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر آگئی۔ فراق کا ڈپٹی کلکٹر‬ ‫ِ‬
‫کے عہدے پر تقرر ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ آئی۔ سی۔ ایس کے لیے بھی منتخب ہوئے تھے جو‬
‫تحقیق طلب ہے۔‬
‫فراق کی شاعری میں جو ہندوستانی کلچر کی روح سرایت پذیر ہے۔ اس کے سرے ان کی بچپن‬
‫کی زندگی میں ملتے ہیں۔ ایک طرف انگریزی کے وہ ایک کامیاب طالب علم تھے‪ ،‬دوسری‬
‫طرف اردو شاعری کی کالسیکی روایت کے علم نے ان کے شعور کی تربیت کی تھی۔ تیسرے‬
‫طرز احساس کے تعین میں‬ ‫ِ‬ ‫سنسکرت کالسیکی ادب اور تلسی کی رام چرت مانس نے ان کے‬
‫کھجراو کی بت تراشی اور جنسیت و رومانیت کے امتزاج‪ ،‬اجنتا و‬‫ٔ‬ ‫خاص کردار ادا کیا۔ فراق‬
‫امرو‪ ،‬بھرتری ہری کی دانش‬ ‫ٗ‬ ‫ایلورہ کی نقّاشی و سنگ تراشی کے مسحور کن نمونوں‪ ،‬کالیداس‪،‬‬
‫و بینش‪ ،‬سورداس‪ ،‬میرا بائی اوار تلسی داس کی خودسپردگی‪ ،‬تقدس اور روحانی علوئیت سے بے‬
‫احساس جمال کی تشکیل و تربیت میں ان کالسیکی آثار کا خاص دخل‬ ‫ِ‬ ‫حد متاثر تھے۔ فراق کے‬
‫ہے۔ گھریلو زندگی کی تلخی کو انھوں نے ذہن کا مستقل آزار نہیں بننے دیا۔ ان کی شادی فرسودہ‬
‫رسوم و روایات کے مطابق طے ہوئی تھی۔ فراق کی سب سے بڑی ٹریجڈی یہ تھی کہ ان کے‬
‫ذہن میں حسن کا جو مثالی تصور تھا‪ ،‬ان کی بیوی اس کی عین ضد تھی۔ اس لیے فراق کی‬
‫شاعری میں کہیں کہیں سوز آگینی کی جو کیفیت ملتی ہے اس کے پیچھے ان کی ذاتی ناآسودگیاں‬
‫خر عمر تک اپنی زندگی کی اس سب سے بڑی ٹریجڈی کو بھول نہیں پائے۔‬ ‫کارفرما ہیں۔ وہ آ ِ‬
‫فراق الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات میں ایم۔ اے کرنے کے بعد وہیں لیکچرر بھی ہوگئے۔‬
‫فراق کی شاعری میں قدیم ہندوستانی تہذیبی و ثقافتی روح ہی نہیں انگریزی ادب کے اثرات بھی‬
‫کارفرما ہیں۔ خصوصا ً انگریزی کے رومانوی شعرا مثالً شیلی‪ ،‬کیٹس اور بائرن وغیرہ سے وہ بہت‬
‫متاثر تھے۔ اردو کی شعری روایت سنسکرت کی شعری روایت اور انگریزی کی رومانوی تحریک‬
‫نے ان کی شعری آگہی کو ثروت مند بھی کیا اور ان کی انفرادیت کی تشکیل میں مدد بھی کی۔‬
‫‪ 1982‬کو ان کا انتقال ہوا۔‬
‫‪02‬۔ سبق کا مقصد)‪(Learning Outcome‬‬
‫رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری اردو غزل کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ ہمارے طلبا‬
‫ان کے نام اور ان کے کاموں سے بھی واقف ہیں۔ اپنے تعلیمی سفر میں فراق کی غزلوں سے بھی‬
‫انھیں سابقہ پڑا ہے۔ لیکن انھوں نے فراق کی غزل کا باقاعدہ تنقیدی مطالعہ نہیں کیا ہے۔ درج ذیل‬
‫معلومات کے بعد وہ فراق کی غزلوں کی خصوصیات سے واقف ہوسکیں گے اور انھیں یہ بھی علم‬
‫ہوگا کہ فراق کی غزل کی انفرادیت کیا ہے؟ اور اردو غزل کی تاریخ میں انھیں کیوں ایک بلند‬
‫درجہ دیا گیا ہے۔‬
‫(‪ )i‬فراق اور اردو غزل کی روایت‬
‫(‪ )ii‬فراق کی پیکر سازی‬
‫(‪ )iii‬فراق‪ ،‬کیفیات کے شاعر‬
‫(‪ )iv‬فراق کی غزل کا امتیاز‬
‫‪03‬۔ فراق اور اردو غزل کی روایت‬
‫فراق کے معاصرین میں فانی‪ ،‬حسرت‪ ،‬یگانہ اور اصغر گونڈوی کے نا م آتے ہیں۔ فانی بدایونی‬
‫‪ 1879‬میں حسرت موہانی ‪ 1881‬اصغر گونڈوی اور یگانہ چنگیزی ‪ 1884‬میں پیدا ہوئے اور فراق‬
‫گورکھپوری کی والدت ‪ 1896‬میں ہوئی۔ گویا فانی ان سے ‪ 17‬برس‪ ،‬حسرت ‪ 15‬برس اور اصغر و‬
‫یگانہ ‪ 14‬برس بڑے تھے۔ فانی کی غزل شاعر کی جذباتی ناآسودگی کی مظہر تھی‪ ،‬حسرت موہانی‬
‫کے یہاں مومن و مصحفی کی جمال پرستی اور عشقیہ رنگ و آہنگ کے عالوہ جذبو نکی پاکیزگی‬
‫نے غزل کو ایک خوبصورت مرقع میں بدل دیا۔ اصغر گونڈوی نے تصوف میں پناہ لی اور یگانہ‬
‫چنگیزی کی غزل اپنے اعتماد آگیں لہجے سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ تمام شعرا اس لیے بھی اہمیت‬
‫رکھتے ہیں کہ غزل مخالف دور میں انھوں نے اسے اردو شاعری کی آبرو کے طور پر اخذ کیا۔‬
‫اردو غزل کی روایت کے بہترین عناصر کا ان کے یہاں احیا ملتا ہے۔ انھوں نے روایت کو قبول‬
‫کیالیکن اپنی طرف سے اس میں کوئی بڑا اضافہ نہیں کرسکے۔‬
‫فراق کی غزل جہاں روایت کے بہترین عناصر سے ایک مستحکم رشتہ قائم رکھتی ہے وہیں اپنی‬
‫طرف سے بھی اس میں بہت کچھ نیا شامل کرتی ہے۔ فراق کی غزل کے کئی رنگ ہیں وہ انتخاب‬
‫کے شاعر ہیں‪ ،‬جس طرح میر و سودا انتخاب کے شاعر ہیں۔ غالب بہت ذہین تھے انھوں نے خود اپنا‬
‫انتخاب کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہی۔ فراق کے یہاں کالسیکی‬‫انتخاب کرلیا تھا۔ اس کے بعد مزید ْ‬
‫اور جدید رنگ مل کر ان کی شاعری کا البم بناتے ہیں۔ فراق میر کی شاعری کے پرستار تھے۔ انھوں‬
‫نے میر کی زمینوں اور بحروں میں غزلیں کہیں اور میر کے درد و سوز سے بھرے ہوئے لہجے کی‬
‫بھی نمائندگی کی۔ مصحفی‪ ،‬مومن اور حسرت کی عشقیہ شاعری سے بھی متاثر ہوئے۔ وہ احساساست‬
‫کے شاعر ہیں اور احساسات کا رنگ جن شعرا کے یہاں گہرا ملتا ہے وہ اس سے اثر بھی قبول‬
‫کرتے ہیں اور اپنی تنقید میں انھیں ایک بلند درجہ پر بھی رکھتے ہیں۔‬
‫فراق کے لیے غزل کا کوئی مضمون فرسودہ نہیں ہے۔ کسی بھی مضمون کو کسب کرتے وقت وہ‬
‫اسے ایک نیا تخلیقی آب و رنگ عطا کرتے ہیں۔ تخلیقی تفاعل ‪ Creative Function‬میں اسے‬
‫‪ Transposition‬کا عمل کہتے ہیں۔ یعنی کسی برتے ہوئے روایتی خیال کو ایک نئی زندگی بخشتا۔‬
‫وفا‪ ،‬جفا‪ ،‬ستم‪ ،‬کرم‪ ،‬رنجش‪ ،‬ہجر‪ ،‬وصال‪ ،‬بہار‪ ،‬خزاں‪ ،‬حسن‪ ،‬عشق‪ ،‬ناز و انداز‪ ،‬موت‪ ،‬زندگی‪ ،‬غم‪،‬‬
‫نشاط وغیرہ مضامین کو اردو کالسیکی شعرا نے مختلف پیرایوں میں ادا کیا ہے۔ یہ سلسلہ جدید عہد‬
‫تک چال آرہا ہے۔ فراق نے بھی ان مضامین کو اپنے خاص اسلوب میں ادا کرنے کی کوشش کی‬
‫ہے۔ فراق کے عاشق میں ایک اعتماد پایاجاتا ہے۔ عاشق محبوب سے اس کے رحم و کرم کا طالب‬
‫نہیں ہے بلکہ اس محبت کی توقع رکھتا ہے جس میں اخالص اور مکمل سپردگی ہو۔ فراق یک طرفہ‬
‫عشق کے قائل ہی نہیں۔‬
‫رنجش بے‬
‫ِ‬ ‫آہ اب مجھ سے تجھے‬ ‫مہربانی کو محبت نہیں کہتے‬
‫جا بھی نہیں‬ ‫دوست‬ ‫اے‬
‫میں کچھ تجھے بھول سا گیا ہوں‬ ‫اوروں کی بھی یاد آرہی ہے‬
‫کہ جب ملتے ہیں دل کہتا ہے‬ ‫کہاں وہ خلوتیں دن رات کی اور‬
‫ہو‬ ‫بھی‬ ‫تیسرا‬ ‫کوئی‬ ‫ہے‬ ‫عالم‬ ‫یہ‬ ‫اب‬
‫حتی کہ بہت زیادہ میل جول سے بھی انھیں خوف آتا ہے۔ تعلقات میں ایک مساوی سطح کے وہ قابل‬
‫ٰ‬
‫ہیں۔ دونوں طرف آگ برابر بھڑکی ہوئی ہو۔ رنجش‪ ،‬خفگی‪ ،‬برہمی‪ ،‬شکوہ‪ ،‬شکایت سے محبت میں‬
‫ب عہد محبت میں بھی‬
‫استحکام پیدا ہوتا ہے۔ وہ عشق ہی کیا جس میں کوئی کشمکش ہی نہ ہو۔ فری ِ‬
‫ایک سادگی ہوتی ہے‪:‬‬
‫کہ تجھ سے چھٹ کے کہیں جی‬ ‫نہ میل جول بڑھا‪ ،‬اس قدر‬
‫گھبرائے‬ ‫نہ‬ ‫بہت‬ ‫ہوں‬ ‫ڈرتا‬ ‫میں‬
‫وہ جھوٹ بول کہ سچ کو بھی پیار‬ ‫ب عہ ِد محبت کی سادگی‬
‫فری ِ‬
‫آجائے‬ ‫قسم‬ ‫کی‬
‫جھوٹی شکایت بھی جو کروں ہوں‪ ،‬پلک دیپ جل جائیں ہیں‬
‫تم کو چھیڑے بھی کیا تم تو ہنسی ہنسی میں رو دو ہو‬
‫فراق نے عاشق کی شخصیت کو معشوق سے کم تر نہیں بنایا۔ جیسا کہ اردو شاعری کی روایت میں‬
‫معشوق کا درجہ ہمیشہ عاشق سے برتر ہوتا ہے۔ معشوق کی ستم پیشگی کو عاشق ایک انعام‬
‫سمجھتا ہے وہ ستم سہتا ہے‪ ،‬معشوق کی عہد شکنی کو بسر و چشم قبول کرتا ہے کہ تہذیب عشق کا‬
‫یہی تقاضہ ہے۔ فراق ایک حد تک ہی معشوق کی بے پروائی‪ ،‬اس کا تغافل اُس کی جفاکاری کا پاس‬
‫رکھتے ہیں۔ ورنہ وہ اسے ب ُھال بھی سکتے ہیں۔ عاشق میں پہلے یہ جرأت کہاں تھی‪:‬‬
‫اب تو وہ دھیان سے اُتر بھی گئے‬ ‫کس لیے کم نہیں ہے در ِد‬
‫فراق‬
‫اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا‬ ‫ایک مدت سے تری یاد بھی‬
‫نہیں‬ ‫بھی‬ ‫ہمیں‬ ‫نہ‬ ‫آئی‬
‫یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب‬ ‫کسی کا یوں تو ہوا کون‬
‫بھی‬ ‫پھر‬ ‫مگر‬ ‫عمر بھر پھر بھی‬
‫ارے وہ در ِد محبت سہی تو کیا‬ ‫کچھ آدمی کو ہیں مجبوریاں‬
‫مرجائیں‬ ‫میں‬ ‫دنیا‬ ‫بھی‬

‫‪04‬۔ فراق کی پیکرسازی‬


‫ایسا نہیں ہے کہ فراق سے قبل اردو شاعری میں پیکر سازی کا عمل نہیں ملتا۔ وہ فنی تدابیر‬
‫‪ Artistic devices‬جو استعارہ‪ ،‬کنائے اور مجاز مرسل سے تعلق رکھتی ہیں ان کا ذکر تو اردو ہی‬
‫نظام بالغت میں بھی دستیاب ہے۔ لیکن عالمت‪ ،‬پیکر یا شخص‬ ‫ِ‬ ‫نہیں دنیا کی دوسری زبانوں کے‬
‫کاری ‪ Personification‬یا ‪ Allusions‬کا شمار نئی فنی تدابیر میں ہوتا ہے۔ کہنےکا مقصود یہ کہ‬
‫ان نئی فنی تدابیر کو محض نیا نام دے دیا گیا ہے۔ ورنہ اردو ہی نہیں دنیا بھر کی کالسیکی شاعری‬
‫کا دامن بھی ان سے خالی نہیں ہے۔ فراق کے ‪ Allusions‬میں فارسی اور عربی سے ماخوذ‬
‫ایلیوژن کے ساتھ سنسکرت اور عالقائی بولیوں سے اخذ کردہ ایلیوژن بھی شامل ہیں‪:‬‬
‫اس سلسلے میں مجیب رضوی نے فراق اور ہندی روایت کے ذیل میں لکھا ہے‪:‬‬
‫فراق صاحب کا ایک شعر ہے‪:‬‬
‫کرم یوگ کی مہاشکتی کو ہم نے اپنے ساتھ لیا ہے‬
‫اِس جیون کے شیش ناگ کو ان ہاتھوں نے ناتھ لیا ہے‬
‫شیش ناگ جیون داتا ہے۔ اِس میں زہر اُگلنے واال کالیا ناگ ہے جسے ناتھ کہہ کر‬
‫کرشن نے برج والو ں کو نجات دالئی تھی۔ فراق کسی ترنگ میں کالیا ناگ کے‬
‫بجائے شیش ناگ کو ناتھ کہہ بیٹھے ہیں ‪ .....‬ارجن اپنی تیراندازی کے لیے‬
‫مشہور ہیں۔ لیکن بھیشم پتا ماناوک انداز بالکل نہیں ہے۔ مرتے وقت ضرور اُن کی‬
‫خواہش کے مطابق ارجن نے تیروں سے ایک مچان بنایا تھا جس پر لیٹے لیٹے‬
‫انھوں نے کلجگ کی کتھا سنائی تھی۔ لیکن فراق صاحب نے ارجن کے ساتھ ساتھ‬
‫اس کے پیکان کی بھی تعریف کرڈالی ہے‪:‬‬
‫مہابھارت‬ ‫ہی‬ ‫کتنے‬ ‫دل‬ ‫اے‬ ‫ہوئے‬ ‫میں‬ ‫دنیا‬
‫اَر ُجن کی کماں تھا تُو‪ ،‬تو بھشیم کا تھا پیکان’’‬
‫یہ میگھ دوت جو منڈال رہے‬ ‫کسی کی چشم سیہ کے پیام الئے‬
‫وار‬ ‫سلسلہ‬ ‫ہیں‬ ‫ہیں‬
‫اخالص دمن‬
‫ِ‬ ‫نل کا ایثار تو‬ ‫ت عاشق و معشوق کی‬‫وحد ِ‬
‫دیا‬ ‫کو‬ ‫مجھ‬ ‫میں‬ ‫ہوں‬ ‫تصویر‬
‫ساز جاں‬
‫موجہ گنگ و جمن ِ‬
‫ٔ‬ ‫سوز‬
‫ِ‬ ‫سوز دل‪،‬‬
‫ِ‬ ‫روپ کی چاندنی‬
‫جاں‬ ‫ساز‬
‫ِ‬ ‫دل‬
‫ایک دریائے غم بے کراں‬ ‫آج سنگم سراسر جوئے عشق ہے‬
‫کراں‬ ‫بے‬
‫نگاہ میں کئی افسانے نل‬ ‫ادا میں کھینچی تھی تصویر‬
‫ملے‬ ‫کے‬ ‫دمن‬ ‫کی‬ ‫رادھا‬ ‫و‬ ‫کرشن‬
‫شکر صد شکر غم گنگ و‬ ‫مژدہ کوثر و تسنیم دیا اوروں کو‬
‫ٔ‬
‫دیا‬ ‫کو‬ ‫مجھ‬ ‫جمن‬
‫سانس وشنو کی چھیر ساگر‬ ‫سر بہ سر اس کے جسم کا انداز‬
‫میں‬
‫فراق نے غزل میں باصرہ اور المسہ کی ِحسوں کو برانگیخت کرنے والے پیکروں کو اس طور پر‬
‫خلق کیا ہے کہ وہ فورا ً پڑھنے والے کا احتساسی تجربہ بن جاتے ہیں۔ مصوری کو گونگی شاعری‬
‫یعنی ‪ Dumb poetry‬اور شاعری کو بولنے والی مصوری ‪ Speaking painting‬کہا جاتا ہے۔‬
‫فراق کی شاعری درحقیقت بولنے والی مصوری ہے۔ وہ مصور بھی ہیں بت تراش بھی۔ فراق جب‬
‫عورت کے جسم کو موضوع بناتے ہیں تو ان کے ذہن میں عورت کا یک انتہائی مقدّس اور ارفع‬
‫تصور ہوتا ہے۔ جس سے جسمانی رشتہ و ربط قائم کرنے کے معنی روحانی ترفع ‪Sublimation‬‬
‫کے بھی ہیں۔ جنسیت سے عاری عشق تصوف کا وظیفہ ہے جب کہ عشق کا وہ تصور ان کے یہاں‬
‫جنسیت کے ساتھ مل کر انسانی عنصر کا حامل بن جاتا ہے جو جتنا جسمانی ہے اتنا ہی روحانی بھی‬
‫ہے۔ فراق کے لمسی پیکروں میں باصراتی پیکروں سے زیادہ شدت پائی جاتی ہے۔ پیکر وہیں‬
‫کامیاب بھی کہالتا ہے جب وہ پڑھنے والے کے ذہن میں بھی اُسی شدت کے ساتھ نمو پاتا ہے‪:‬‬
‫ِز فرق تا بقدم اِک دبی سی‬ ‫قبائے تنگ نے بیسیوں جگہ سے‬
‫تو‬ ‫ہے‬ ‫آگ‬ ‫دی‬ ‫دے‬ ‫لَو‬
‫کہ سیّال کوندوں کی ہے‬ ‫وہ انگ نگ میں زیر و بم ہے لہو‬
‫تلمالہٹ‬ ‫کا‬
‫رنگینی تن کھیل‬
‫ٔ‬ ‫ملبوس سے‬ ‫لَو دیتا ہے کیا کیا یہ چراغِ تہہ‬
‫ہے‬ ‫رہی‬ ‫داماں‬
‫سائے میں ُخنک زلفو ں کے سکوں پاجاتی ہے میری طبعِ رواں‬
‫یوں جیسے نیم شبی میں گنگا کر روٹ لے کر سوجاتی ہے‬
‫اک سر ِو چراغاں نظر آتا ہے‬ ‫دم‬
‫ہر عض ِو بدن جام بکف ہے ِ‬
‫خراماں‬ ‫رفتار‬
‫وہ زیر و بم کا ہے عالم کہ‬ ‫گردش خوں ہے کہ‬
‫ِ‬ ‫رگوں میں‬
‫ہے‬ ‫گاتا‬ ‫جسم‬ ‫کی‬ ‫نغمے‬ ‫ہے‬ ‫َمے‬
‫پاوں یہ کس نے آکے‬
‫دبے ٔ‬ ‫ستارے جاگتے ہیں رات لٹ‬
‫بدال‬ ‫زندگی‬ ‫خواب‬ ‫ہے‬ ‫سوتی‬ ‫چھٹکائے‬
‫طرز احساس کی انفرادیت پر گفتگو کرتے ہوئے محمد حسن نے یہ واضح کیا ہے کہ‪:‬‬
‫ِ‬ ‫فراق کے‬
‫طرز احساس مادّہ اور خارجی سطح سے شروع ہوتا ہے اور لمسیات‬ ‫ِ‬ ‫’’ فراق کا‬
‫کی منزل سے گزرتا ہوا تخیّل کی مدد سے اس سطح تک پہنچتا ہے جہاں مادّے‬
‫اور روحانی کیفیت یا مشاہدے اور تاثیر‪ ،‬مجاز اور حقیقت ایک سنگم ہوجاتا ہے۔‬
‫اسی پُراسرار تخیّل کی مدد سے گویا مادّے کی الوہیت اور جسمانیت کی روحانیت‬
‫تک ان کی رسائی ہوتی ہے۔ اِس اعتبار سے فراق اردو شاعری کے آسکر وائلڈ‬
‫ہیں۔ وہی جمالیات پرستی‪ ،‬وہی جسمانیات میں روحانیت کی تالش کرنے کی‬
‫کوشش‪ ،‬وہی حسن کو مذہب بنا لینے کی سعی اور وہی متصوفیانہ ماورائیت جو‬
‫آسکر وائلڈ کی امتیازی خصوصیات ہیں‪ ،‬فراق کے ہاں ملتی ہیں۔ فرق صرف یہ‬
‫ہے اور سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ فراق ہندوستانی ہیں۔ اور اردو شاعری کی‬
‫رچاو ایک طرف ہندو آرٹ‬
‫ٔ‬ ‫روایت کے باشعور۔ اس لیے فراق کے کالم میں یہ‬
‫سے آیا۔ جس میں پیکر تراشی‪ ،‬مادّی کثافت کی مدد سے ُروحانی لطافت پیدا‬
‫کرنے کی کوشش روایت کا جزو بن چکی ہے اور دوسری طرف اردو کے شعری‬
‫درجہ امتیاز حاصل‬
‫ٔ‬ ‫ورثے سے جس میں داخلیت‪ ،‬سپردگی اور لہجے کی نرمی کو‬
‫ہے۔‘‘ (شناسا چہرے‪ ،‬ص ‪)93-94‬‬
‫‪ 05‬۔فراق ‪ ،‬کیفیات کے شاعر‬
‫فراق کی شاعری کے بارے میں یہ ایک عام تصور ہے کہ ان کے یہاں معنی آفرینی کم اور مضمون‬
‫آفرینی زیادہ پائی جاتی ہے۔ گویا انھوں نے فلسفیانہ خیاالت کو اپنی شاعر کی بنیاد نہیں بتایا۔ یہ تو‬
‫نہیں کہا جاسکتا کہ فراق کی پوری کی پوری شاعری محض احساسات و جذبات کی نمائندگی کرتی‬
‫ہے اور اس معنی میں وہ ایک رومانوی شاعر ہیں۔ فراق ایک سے زیادہ زبانوں اور ان کے ادب‬
‫سے واقف تھے۔ زندگی کے سرد و گرم تجربات سے بھی وہ گزرے تھے۔ ان کی ذاتی زندگی میں‬
‫کچھ ایسی مایوسیاں بھی تھیں جن کی بھرپائی تاعمر نہیں ہوسکی۔ ان کی بھی ایک خیالی دنیا تھی‬
‫جیسا کہ ہر تخلیق کار کی ایک اپنی خلق کردہ دنیا ہوتی ہے۔ جو ان کے وژن کی مظہر ہوتی ہے۔‬
‫اسی طرح کے اشعار میں فکرانگیزی کا پہلو بھی زیادہ نمایاں ہوا ہے۔ چند اشعار مالحظہ فرمائیں‪:‬‬
‫بیمار کی رات ہوگئی ہے‬ ‫زندگی اس دور میں بشر کی‬
‫دونوں عالم ترے دیدار میں‬ ‫ایک آئے گی نظر اصلی ِ‬
‫ت‬
‫گے‬ ‫ہوں‬ ‫یکساں‬ ‫شہود‬ ‫و‬ ‫غیب‬
‫ترے خیال سے ٹکرا کے رہ‬ ‫کیا ہے سیر گہ ِہ زندگی میں‬
‫میں‬ ‫ں‬ ‫ہو‬ ‫گیا‬ ‫سمت‬ ‫جس‬ ‫رخ‬
‫زنداں میں رات ہوگئی ہے‬ ‫اِ ّکا دُ ّکا صدائے زنجیر‬
‫چلتی نہیں ہے سانس حیات‬ ‫اس بزم بے خودی میں‬
‫کی‬ ‫ممات‬ ‫و‬ ‫وجود و عدم کہاں‬
‫سوچ لیں اور اداس ہوجائیں‬ ‫زندگی کیا ہے آج اسے اے‬
‫دوست‬
‫امیدواروں میں کل موت‬ ‫بزم طرب میں‬
‫ِ‬ ‫کسی کی‬
‫آئی‬ ‫نظر‬ ‫بھی‬ ‫تھی‬ ‫بٹتی‬ ‫حیات‬
‫کتنی آہستہ اور کتنی تیز‬ ‫رفتار انقالب فراق‬
‫ِ‬ ‫دیکھ‬
‫فراق کا یہ رنگ زندگی کے تئیں ان کے تصور ور ان کی فکر کا مظہر ہے۔ فراق نے اکثر عدم و‬
‫وجود‪ ،‬حیات و ممات‪ ،‬طرب و غم‪ ،‬ذات و صفات کے مضامین کو نئے معنی پہنائے ہیں۔ انھیں‬
‫زندگی کے تضادات کی گہری فہم تھی‪ ،‬زندگی ایک سیدھی سپاٹ لکیر پر رواں دواں ہونے کا نام‬
‫نہیں ہے۔ ہر قدم ایک آزمائش ہے اور آدمی زندگی بھر بلکہ آخری لمحے تک سیکھتا رہتا ہے۔ ایک‬
‫جگہ کہتے ہیں‪:‬‬
‫میں‬ ‫حقیقت‬ ‫ہر‬ ‫میں‬ ‫نظارے‬ ‫ہر‬
‫مجھے‬ ‫تضاد‬ ‫کچھ‬ ‫ہے‬ ‫آتا‬ ‫نظر‬
‫دراصل اسی تضاد کا نام زندگی ہے جس کے ہزار ُرخ اور ہر پہلو ہیں اور ہر پہلو بقول میر توجہ‬
‫طلب اور دیدنی ہے۔‬
‫فراق کی غزل کا دوسرا رخ‪ ،‬ان کی کیفیات والی شاعری کی نمائندگی کرتا ہے۔ فراق اردو غزل کی‬
‫سر دھیما‪ ،‬لہجہ نرم‪ ،‬آہنگ کیفیت آفریں ہے۔‬
‫تاریخ میں وہ پہلے شاعر ہیں جن کی شاعری کا ُ‬
‫تفکراتی شاعری کا آہنگ بلند ہوتا ہے جیسے غالب اور قبال کے شعری آہنگ میں بلند کوشی ہے۔‬
‫اقبال کے اپنے فلسفیانہ تصورات تھے۔ جنھیں وہ استقالل و اعتماد کے ساتھ اپنی نظموں اور غزلوں‬
‫سر اسی لیے اونچا اور محیط ہے۔ فراق نے غزل کو داخلی‬ ‫میں پیش کرتے رہے۔ ان کی آواز کا ُ‬
‫آہنگ کے ساتھ مربوط کیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ شاعری محض تکرار زدہ مضامین کی شاعری‬
‫نہیں ہے بلکہ حقیقی معنوں میں تجربے کی شاعری ہے۔ جس کا تعلق سیدھے انسانی محسوسات‬
‫سے ہے۔ فراق کی یہ محسوسات کی دنیاان کی اپنی دنیا ہے۔ جس میں دھند ہے‪ ،‬نور و ظلمت کا‬
‫امتزاج ہے‪ ،‬لمحوں کی سرسراہٹ ہے‪ ،‬سکون آمیز تھرتھراہٹیں ہیں۔ مدھر بھرے سینوں میں درد کا‬
‫اٹھنا‪ ،‬عشق کی پروائیوں کا دھیرے دھیرے چلنا‪ ،‬کسی کے بدن کا گہری سوچ میں ڈوبا ہوا ہونا‪،‬‬
‫سگندھ کا مسکرانا‪،‬شام کا دھواں دھواں ہونا‪ ،‬دل کی رگوں کا ٹوٹنا‪ ،‬قفس کی تیلیوں سے نور کا‬
‫چھننا‪ ،‬نرم سیج پر السائی زلفوں کا بکھرنا‪ ،‬جسموں کا گانا‪ ،‬انگ انگ کا لہریں لینا‪ ،‬سانس لیتے‬
‫ہوئے گالب سے چہرے‪ ،‬وغیرہ وغیرہ یہ ساری نامانوس سی دنیا شاعر کے اس تجربے کی دین‬
‫ہے جسے اس نے محسوسات سے سینچا ہے۔ فراق کی شعری انفرادیت کے تعین میں ان کی کیفیات‬
‫و حسیات کا خاص کردار ہے۔ مثالً‪:‬‬
‫وہ لب کہ طمانیت کی ابھا جن پر‬ ‫وہ چہرہ کہ جیسے سانس لیتا ہو‬
‫گالب‬
‫مست لَے میں چھیڑ دے جس طرح‬ ‫چھاگلیں بجتی ہیں یوں لیتا ہے‬
‫ترنگ‬ ‫جل‬ ‫کوئی‬ ‫انگ‬ ‫انگ‬ ‫لہریں‬
‫سم سووو ہو‬
‫ہونٹوں پر اک موج تب ّ‬ ‫پلکیں بند‪ ،‬السائی زلفیں نرم سیج‬
‫ہو‬ ‫جاگو‬ ‫کہ‬ ‫ہوئی‬ ‫بکھری‬ ‫پر‬
‫دھیرے دھیرے چل رہی ہیں عشق‬ ‫چپکے چپکے اٹھ رہا ہے مدھ‬
‫پروائیاں‬ ‫کی‬ ‫درد‬ ‫میں‬ ‫سینوں‬ ‫بھرے‬
‫ت پرواز کی‬
‫کچھ فضا کچھ حسر ِ‬ ‫کچھ قفس کی تیلیوں سے چھن رہا‬
‫کرو‬ ‫باتیں‬ ‫سا‬ ‫نور‬ ‫ہے‬
‫جیسے سگندھ مسکرائے‪ ،‬حسن کی‬ ‫جیسے سکون تھرتھرائے‪ ،‬جیسے‬
‫دیکھ‬ ‫تو‬ ‫طرفگی‬ ‫سنائے‬ ‫کچھ‬ ‫سکوت‬
‫دل کو کئی کہانیاں‪ ،‬یاد سی آکے رہ‬ ‫شام بھی تھی دھواں دھواں حسن‬
‫گئیں‬ ‫اداس‬ ‫اداس‬ ‫تھا‬ ‫بھی‬
‫ت ساز کی‬
‫خامشی میں کچھ شکس ِ‬ ‫ت ناز یہ دل کی رگوں کا‬
‫یہ سکو ِ‬
‫کرو‬ ‫باتیں‬ ‫ٹوٹنا‬
‫کہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا ہے‬ ‫یہ سر سے تا بہ قدم محویت کا‬
‫بدن‬ ‫جیسے‬ ‫ہے‬ ‫عالم‬
‫گوپی چند نارنگ کی نظر میں فراق ایک لبرل اور آزاد خیال شاعر ہیں جن کے یہاں انسان‬
‫دوستی کا گہرا احساس ملتا ہے۔ فراق کے قول کے مطابق میری کوشش رہی ہے کہ ایک بلند‬
‫ترین پاکیزہ ترین اور خیر و برکت سے معمور کائنات کی تخلیق کروں اور اپنی شاعری کے‬
‫بناو ں۔’’ ان کا دل ایک چوٹ کھائے ہوئے انسان کا دل تھا۔‬
‫ذریعے انسانیت کو گہرا اور بلند ٔ‬
‫جمالیاتی کیفیتوں کے ساتھ دکھ کی ایک دھیمی سی لہر ان کی پوری شاعری میں رواں دواں‬
‫ہے جو آج کی زندگی کی پیچیدگی اور آج کے انسان کے درد و کرب سے ہم آہنگ ہے۔ یہ ٹیس‬
‫ان کے ہاں دب دب کر ابھرتی ہے۔‬
‫‪06‬۔ فراق کی غزل کا ا متیاز‬
‫اردو غزل پر دو اسالیب باری باری سے اثرانداز ہوتے رہے ہیں۔ ایک غالب کا اسلوب شعر‪ ،‬دوسرا‬
‫میر کا اسلوب شعر۔ میر کو خدائے سخن کہا جاتا ہے اور ان کےمعتقدین کا ایک طویل سلسلہ ہے‬
‫جو مصحفی‪ ،‬قائم اور ناسخ سے ہوتا ہوا ناصر کاظمی اور ابن انشا تک پہنچتا ہے۔ خود غالب کا کہنا‬
‫تھا‪:‬‬
‫گلشن‬
‫ِ‬ ‫جس کا دیوان کم از‬ ‫میر کے شعر کا احوال‬
‫نہیں‬ ‫کشمیر‬ ‫غالب‬ ‫کیا‬ ‫کہوں‬
‫آپ بے بہرہ ہے جو معتق ِد‬ ‫غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقو ِل‬
‫نہیں‬ ‫میر‬ ‫ناسخ‬
‫لیکن آپ ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ غالب کی بیشتر شاعری کا رنگ و آہنگ میر سے مختلف ہے۔‬
‫طرز بیدل کا نمونہ ہے۔ غالب‬
‫ِ‬ ‫نسخہ حمیدیہ’ میں محفوظ ہے۔‬
‫ان کے ابتدائی دور کی شاعری جو ‘ ٔ‬
‫کی بعد کی شاعری جو دربار سے وابستگی کے زمانے کی ہے یا طرحی مشاعروں کے لیے لکھی‬
‫ہوئی غزلیں ہیں۔ اُن میں غالب نے اپنے بلند کوش لہجے سے بچنے کی کوشش کی ہے لیکن اس‬
‫میں جو اعتماد آگیں لَے ہے وہ ان کی آواز کے استحکام کی دلیل ہے۔ میر اپنی تمام تر سادگی و‬
‫پُرکاری کے باوجود اپنے لہجےمیں ا عتماد نہیں پیدا کرسکے۔ وہ بہت آہستگی‪ ،‬نرمی‪ ،‬اخالص اور‬
‫سپردگی کے ساتھ شعر ادا کردیتے ہیں۔ فراق کے کالم کی بھی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی‬
‫سر کو دھیما رکھتے ہیں۔ غالب ہر طرح کے لفظ کو اپنے شعری اسلوب میں جگہ نہیں‬ ‫آواز کے ُ‬
‫دیتے جب کہ میر بال خوف ہوکر جہاں سے جو لفظ ملتا ہے یا جوان کے جذبات و محسوسات کو ادا‬
‫خو ٗبو رکھتا ہے وہ اسے اخذ کرلیتے ہیں۔ غالب تکمیل پسند ‪ Perfectionist‬اور تطہیر‬‫کرنے کی ٗ‬
‫پسند یعنی ایک اعتبار سے ‪ Puritan‬ہیں۔ فراق کی شاعری میں جو بے تکلفی‪ ،‬بے ساختگی اور‬
‫لفظوں کے استعمال میں بال تحفظی ملتی ہے اسے انھوں نے میر ہی سےلیا ہے۔ میر کی چھوٹی‬
‫بڑی بحریں انھیں پسند آتی ہیں۔ میر کا لہجہ انھیں بار بار اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ فراق کی‬
‫سوگواری‪ ،‬دلسوزی‪ ،‬غم انگیزی اور حرماں نصیبی کے تجربے میر کے تجربوں کی یاد دالتے ہیں۔‬
‫ایک بے چین روح ہے جو ان کے شعروں میں اپنا آکار پالتی ہے۔ ایک طور سے یہ حسیاتی شاعری‬
‫کا وہ رنگ رس ہے جو کہیں کہیں مصحفی اور کہیں کہیں حسرت کے یہاں بھی اپنی جھلک دکھا‬
‫جاتا ہے۔ فراق اور میر کی شاعری پوری کی پوری حسیاتی شاعری ہے۔ میر بھی ایک عشقیہ شاعر‬
‫ہیں‪ ،‬عشق ان کا بنیادی کلمہ ہے اور فراق بھی عشقیہ شاعر ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ بقول اسلوب احمد‬
‫انصاری وہ عشقیہ کیفیات کا عرفان بخشنے کے ساتھ ہی نئی زندگی‪ ،‬نئی قدروں اور نئے شعور کی‬
‫پرچھائیاں بھی دکھا دیتے ہیں۔ کائنات ان کے لیے ایک سوالیہ نشان بھی ہے اور وہ اس کے لذت و‬
‫الم‪ ،‬اس کے آدرش‪ ،‬اس کی تاریخ اور اس کے امکانات سے بھی آگاہی رکھتے ہیں۔ پڑھنے والے‬
‫میں وہ حیرت و استعجاب‪ ،‬وہ جستجو‪ ،‬وہ سرخوشی اور وہ بصیرت پیدا کرنا چاہتے ہیں جس میں‬
‫ساس شعور کی وجہ سے خود حصہ دار ہیں۔‪ .....‬اس شاعری میں کوئی پیغام نہیں ہے‪ ،‬پھر‬ ‫اپنے ح ّ‬
‫بھی یہ شاعری ذہنی کشادگی کا سبب ضرور بنتی ہے اور جذبے کی داخلی دنیا سے ایک اچانک‬
‫پن کے ساتھ نکل کر دوسری وسعتوں میں کھوجانا چاہتی ہے۔ ظاہر ہے فرق ماضی اور حال کے‬
‫زمانوں کا فر ق ہے۔ میر ایک ایسے زمانے کی پیداوار تھے جس کا ایک روایتی نظام اقدار و‬
‫خالق تھا۔علم و آگہی کی وہ سہولتیں جو آج میسر ہیں وہ زمانے ان سے محروم تھے۔ عشق کے اُس‬
‫مقدس و مط ّہر تصور سے شاعری کی دنیا معمور تھی جو انسانی عنصر سے عاری تھی اور جسے‬
‫اعلی ترین جذباتی اور جسمانی کیفتوں اور‬‫ٰ‬ ‫تصوف کی روایت نے پروان چڑھایا تھا۔ فراق کی غزل‬
‫لطافتوں سے ایک ایسی کائنات کی تخلیق کرتی ہے جس میں ارضیت کا سارا حسن سمٹ آیا ہے۔‬
‫مختلف حواس کے تفاعل پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ فراق اپنے تخیل کی دنیا میں جو آکار بناتے ہیں ان‬
‫تصور‬
‫ِ‬ ‫سے وہ مستی و کیف‪ ،‬سرخوشی و سربلندی کے حساسات سے دوچار ہوتے ہیں۔ میر کے‬
‫عشق میں اس قسم کی وسعت تو نہیں پائی جاتی لیکن اس کی اپنی تہذیب ہے۔ اس کے اپنے آداب ہیں‬
‫جو میر کی کشادہ نفسی کے مظہر ہیں۔ حسن عسکری نے فراق کے محبوب کے بارے میں لکھا‬
‫ہے کہ’’فراق نے محبوب کو ایسی معروضی حیثیت دے دی ہے جو اردو شاعری میں اسے حاصل‬
‫نہیں تھی۔ انھوں نے محبوب کو عشق کی ہستی سے الگ کرکے بھی دیکھا ہے۔ ان کا محبوب ایک‬
‫کردار ہے اور اس کردار کی نفسیات بھی سیدھی سادی نہیں ہے۔ ایسی ہی پیچ در پیچ ہے جیسے‬
‫عشق کی نفسیات ‘‘ظاہر ہے میر کبھی اس طرح کے شعر نہیں کہہ سکتے تھے‪:‬‬
‫اب تو وہ دھیان سے اتر بھی‬ ‫کس لیے کم نہیں ہے در ِد فراق‬
‫گئے‬
‫ارے وہ در ِد محبت سہی تو کیا‬ ‫کچھ آدمی کو ہیں مجبوریاں بھی‬
‫مرجائیں‬ ‫میں‬ ‫دنیا‬
‫یہ کیا ضرور ہے اس کی نظر‬ ‫ب نگاہ کیا کم‬
‫ارے خود اپنا فری ِ‬
‫کھاو‬
‫ٔ‬ ‫دھوکے‬ ‫کے‬ ‫ہے‬
‫آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے‬ ‫قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی‬
‫تھا‬ ‫جو‬ ‫کہ‬ ‫لیکن‬ ‫زیادہ‬
‫کہ جب ملتے ہیں دل کہتا ہے‬ ‫کہاں وہ خلوتیں دن رات کی اور‬
‫ہو‬ ‫بھی‬ ‫تیسرا‬ ‫کوئی‬ ‫ہے‬ ‫عالم‬ ‫یہ‬ ‫اب‬
‫جب ان سے پیار کیا جن سے‬ ‫ترا فراق تو اس دن ترا فراق ہوا‬
‫تھا‬ ‫نہ‬ ‫پیار‬ ‫کوئی‬
‫یہ تو وہ مضامین ہیں جو قطعا ً نئے ہیں اور نئے عہد کے شعور کے ساتھ مربوط کرکے غزل کی‬
‫روایت کو وسعت بخشتے ہیں۔ درج ذیل چند اشعار میر کے لہجے کی یاد دالتے ہیں۔ فراق نے ان‬
‫میں اپنی سوگواری کا گہرا رنگ بھر دیا ہے‪:‬‬
‫ترا خیال کوئی ڈوبتا ستارہ ہے‬ ‫ت شب ہوں‬ ‫میں آ ِ‬
‫سمان محبت پہ رخص ِ‬
‫خاک کا اتنا چمک جانا بڑا دشوار‬ ‫دل دکھے روئے ہیں شاید اس جگہ اے‬
‫تھا‬ ‫دوست‬ ‫کوئے‬
‫کف پا سے جل‬
‫ِ‬ ‫نقش‬
‫اسی کے ِ‬ ‫جو چھپ کے تاروں کی آنکھوں سے‬
‫داغ‬ ‫ہیں‬ ‫اٹھے‬ ‫ہے‬ ‫دھرتا‬ ‫پاوں‬
‫ٔ‬
‫خیر تم نے تو بے وفائی کی‬ ‫ہم سے کیا ہوسکا محبت میں‬
‫چمن چمن تھا حسن بھی لیکن دریا‬ ‫اس کے آنسو کس نے دیکھے‪ ،‬اس کی‬
‫تھا‬ ‫روتا‬ ‫دریا‬ ‫سنیں‬ ‫نے‬ ‫کس‬ ‫آہیں‬
‫نام ترا لے کر کوئی درد کا مارا‬ ‫رات آدھی سے زیادہ گئی تھی سارا‬
‫تھا‬ ‫روتا‬ ‫تھا‬ ‫سوتا‬ ‫عالم‬
‫وہ بھی کوئی ہمیں جیسا ہے کیا تم‬ ‫ہم سے فراق اکثر چھپ چھپ کر پہروں‬
‫ہو‬ ‫دیکھو‬ ‫میں‬ ‫اس‬ ‫ہو‬ ‫رووو‬
‫ٔ‬ ‫پہروں‬
‫ان کو مٹے کو مدّت گزری‪ ،‬نام و‬ ‫جن کو اتنا یاد کرو ہو‪ ،‬چلتے پھرتے‬
‫ہو‬ ‫پوچھو‬ ‫کیا‬ ‫نشاں‬ ‫تھے‬ ‫سائے‬
‫ایسی بھی کیا چپ لگ جانا‪ ،‬کچھ تو‬ ‫جانے بھی دو نام کسی کا آگیا باتوں‬
‫ہو‬ ‫سوچو‬ ‫کیا‬ ‫کہو‪،‬‬ ‫میں‬ ‫باتوں‬
‫اسلوب احمد انصاری نے فراق کو ہندوستان کی نشاۃ الثانیہ کا ایک ممتاز نمائندہ قرار دیتے ہوئے ان‬
‫خالقی کی دلیل سے موسوم کیا ہے نیز ان کے تخیل میں جو نزاکت‬ ‫کی پُرگوئی اور ان کے وفور کو ّ‬
‫اور شادابی‪ ،‬ان کی فکر میں جو گہرائی اور ہمہ گیری‪ ،‬ان کی جذباتی کائنات میں جو پختگی اور‬
‫فراوانی ہے وہ ان کے معاصرین میں نظر نہیں آتی۔ اس طرح نہ تو فانی اور نہ حسرت واصغر ان‬
‫کے برابر ٹھہرتے ہیں۔‬
‫‪07‬۔خالصہ)‪(Summary‬‬
‫اردو غزل کی روایت کا وہ سلسلہ جو ولی و میر سے ہوتا ہوا عہ ِد جدید تک پہنچتا ہے۔ اس کی ایک‬
‫رنگارنگ تاریخ ہے۔ اردو غزل ایک ایسی صنف ہے جس میں تبدیلیوں کی گنجائش کم سے کم ہے۔‬
‫ہیئتی سطح پر اس کا ایک مخصوص نظام ہے جو بحر و وزن اور قافیہ و ردیف سے پہچانا جاتا‬
‫ہے۔ کالسیکی غزل گو عموما ً مضامین کی روایت کے پابند رہاکرتے تھے۔ بعض شعرا نے نئے‬
‫مضامین بھی خلق کیے لیکن انحراف کی نوعیت اتنی خفیف اور مبہم تھی کہ وہ روایت کا حصہ‬
‫نہیں بن سکے۔ وہ فراق ہی ہیں جن کے یہاں کالسیکی روایت کا پاس ہے اور عہ ِد جدید کا اضطراب‬
‫ساس طبع اور مضطرب روح‬ ‫اور داخلی کشمکش بھی ان کے یہاں موضوع بنتی ہے۔ وہ ایک ح ّ‬
‫رکھتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں جو رچ بس گئی ہے۔ فراق کی غزل پر غور کرتے ہوئے درج ذیل‬
‫امور کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے‪:‬‬
‫‪ .1‬فراق کے تخلیقی ذہن کی تعمیر میں سنسکرت شعریات و جمالیات کے عالوہ فارسی اور اردو‬
‫کی کالسیی شعری روایت نے خاص کردار ادا کیا ہے۔‬
‫تصور عشق رکھتے ہیں۔ جس میں جسمانی لطافتوں اور لمسی تجربوں کا‬
‫ِ‬ ‫‪ .2‬فراق ایک صحت مند‬
‫بھی ایک مقام ہے۔ ہندوستانی تہذیبی روح کے ساتھ مربوط کرکے ہی ہمیں اسے دیکھنا چاہیے۔‬
‫‪ .3‬فراق جذبات و احساسات کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری حسیاتی شاعری ہے۔ ماضی میں‬
‫مصحفی اور حسرت کے یہاں جو شادابی فکر اور لمسیت کا گہرا رنگ پایا جاتا ہے۔ فراق نہ‬
‫صرف اس کی توسیع کرتے ہیں بلکہ اسے ترفع اور تقدس بھی بخشتے ہیں۔‬
‫‪ .4‬فراق کی پیکر آفرینی ایک ایسے شاعر سے ہمارا تعارف کراتی ہے جو رنگوں میں سوچتا ہے‬
‫وہ لفظوں سے برش کا کام لیتا ہے۔ ہم فراق کی شاعری کو گونگی مصوری ‪Dumb Painting‬‬
‫سے موسوم کرسکتے ہیں۔‬
‫طرز احساس نیا ہے‪ ،‬حیات و کائنات کو انھوں نے ایک فلسفی کے بجائے ایک شاعر‬ ‫ِ‬ ‫‪ .5‬فراق کا‬
‫ب شعر میں لہجہ نرم ہے‪ ،‬آہنگ دھیما‬‫کی حیثیت سے دیکھا اور سمجھا ہے۔ اسی لیے ان کے اسلو ِ‬
‫ہے‪ ،‬گہری اور گمبھیر فکر کو بھی وہ بڑی آہستگی‪ ،‬نیم لبی اور ٔ‬
‫رچاو کے ساتھ پیش کردیتے ہیں۔‬
‫یہی ان کے شعری اسلوب کا کمال ہے۔ یہی ان کی انفرادیت ہے۔‬
‫‪08‬۔ (الف) موضوعی )‪(Subjective‬سواالت‬
‫(‪ )i‬فراق کی پیکر سازی کی خصوصیات کیا ہیں؟‬
‫(‪ )ii‬فراق کو کیفیات کا شاعر کیوں کہا جاتا ہے؟‬
‫(‪ )iii‬فراق کی غزل کا امتیاز کیا ہے؟‬
‫اظہار خیال کیجیے۔‬
‫ِ‬ ‫(‪ )iv‬فراق اور اردو غزل کی روایت کے موضوع پر‬
‫(ب) معروضی )‪ (Objective‬سواالت‪( :‬صحیح کی نشاندہی کیجیے)‪:‬‬
‫(‪ )i‬فراق کی شاعری کیا ہے؟‬
‫(الف) بولنے والی مصوری (ب) گونگی شاعری‬
‫(د) بولنے والی شاعری‬ ‫(ج) گونگی مصوری‬
‫(‪ )ii‬فراق کے کالم میں کس شاعر کے لمسیاتی تجربے کا اثر پایا جاتا ہے۔‬
‫(ب) حسرت موہانی‬ ‫(الف) میر تقی میر‬
‫(د) جرأت‬ ‫(ج) غالب‬
‫(‪ )iii‬فراق کے کالم میں کیا زیادہ پائی جاتی ہے؟‬
‫(ب) معنی آفرینی‬ ‫(الف) فلسفیانہ گہرائی‬
‫سریت‬
‫(د) متصوفانہ ّ‬ ‫(ج) مضمون آفرینی‬
‫(‪ )iv‬فراق کے تصور عشق میں کیا ہے؟‬
‫(ب) سوقیت‬ ‫(الف) ابتذال‬
‫(د) روحانی تقدس‬ ‫(ج) روایتی پن‬
‫(ج) صحیح ‪/‬غلط )‪ (True/False‬کی نشاندہی کیجیے‬
‫(صحیح‪/‬غلط)‬ ‫(‪ )i‬فراق ایک روایتی شاعر ہیں۔‬
‫(صحیح‪/‬غلط)‬ ‫(‪ )ii‬فراق کی غزل کے کئی رنگ ہیں۔‬
‫(صحیح‪/‬غلط)‬ ‫(‪ )iii‬حسرت فراق کے معاصر ہیں۔‬
‫(‪ )iv‬فراق کی شاعری گونگی شاعری ہے۔ (صحیح‪/‬غلط)‬
‫(د) خالی جگہو ں کو پر کیجیے)‪(Fill in the blanks‬‬
‫(‪ )i‬فراق کی شاعری دراصل ‪ .............‬مصوری ہے۔‬
‫(‪ )ii‬تفکراتی شاعری کا آہنگ‪ .............‬ہوتا ہے۔‬
‫(‪ )iii‬اقبال کے شعری آہنگ میں‪ .............‬ہے۔‬
‫(‪ )iv‬فراق ایک حساس طبع اور مضطرب‪ .............‬رکھتے ہیں۔‬
‫‪09‬۔ (الف) اہم بنیادی الفاظ کے معانی )‪(Glossary‬‬
‫تجدید‪ ،‬دوہرانا‬ ‫احیا‬
‫عمل‬ ‫تفاعل‬
‫مساوی سطح برابر کی سطح‬
‫وعدہ خالفی‬ ‫عہد شکنی‬
‫‪( ‬ب) موضوع سے متعلق نیٹ پر مواد دستیاب نہیں ہے۔‬
‫‪( 10‬ج) موضوع سے متعلق ضروری؍حوالہ جاتی کتابوں کی فہرست‬
‫فراق گورکھپوری‬ ‫اردو کی عشقیہ شاعری‬ ‫‪‬‬
‫اسلوب احمد انصاری‬ ‫ادب و تنقید‬ ‫‪‬‬
‫مرتبہ‪ :‬گوپی چند نارنگ‬ ‫فراق گورکھپوری‪ ،‬شاعر‪ ،‬نقاد‪ ،‬دانش ور‬ ‫‪‬‬
‫محمد حسن‬ ‫شناسا چہرے‬ ‫‪‬‬
‫شمیم حنفی‬ ‫فراق‪ ،‬شخص اور شاعر‬ ‫‪‬‬
‫‪ 11‬۔ معروضی سواالت کے جوابوں کی نشاندہی‬
‫د‬ ‫)‪(iv‬‬ ‫)‪ (iii‬ج‬ ‫(‪)i‬الف )‪ (ii‬ب‬
‫‪ 12‬۔ صحیح؍غلط کی نشاندہی‬
‫صحیح )‪ (iv‬غلط‬ ‫)‪(iii‬‬ ‫)‪ (ii‬صحیح‬ ‫(‪ )i‬غلط‬
‫‪ 13‬۔ خالی جگہوں میں پُر کیے جانے والے الفاظ کی نشاندہی‬
‫بلند کوشی )‪ (iv‬روح‬ ‫بلند )‪(iii‬‬ ‫(‪ )i‬بولنے والی )‪(ii‬‬
‫’’‪‬‬

You might also like