Professional Documents
Culture Documents
بیدارؔ فطری شاعر ہیں لیکن شاعری انہیں وراثت میں نہیں ملی ان کا
خاندان بلکہ عالقہ بھی شاعری کے نام سے ناواقف تھا ۔ساتویں جماعت
سے شعر کہنے کا شوق پیدا ہوگیا تھا۔ بیدارؔ ایک صاحب علم و فضل شاعر
ہیں اردو اور فارسی ادب پر انکی نظر بہت گہری ہے بلکہ وہ کتابوں کو
نہیں پڑھتے اور اخبار اور رسالوں کو بھی کم پڑھتے ہیں۔بیدارؔ پر
گو نہیں بلکہ کم گو شاعر تھے۔ان کا یہ ماننا تھا کہ قارئین کسی شاعر
کے سب شعربار بار نہیں پڑھتے بلکہ صرف اچھے شعروں پر نشان لگا
شاعر اعظم
ِ دیتے ہیں۔مارچ1965ء میں پنجاب گورنمنٹ نے بیدارؔ کو
کے خطاب سے نوازا۔
بیدارؔ نے نظمیں،غزلیں ،رباعیات اور طنزیات سبھی کچھ کہا ہے۔وہ ہر
ایک صنف سخن کے ماہر تھے بیدؔ ارنے غزل میں وسعت پیدا کی۔انہوں
نے روایتی غزل سے انحراف کرکے نئی نئی پرتیں کھولیں ہیں۔بیدارؔ
کی نظمیں معنی نزاکتوں شعری لطافتوں اور فنی رعنایوں سے معمور
اندازبیان اور وحدت تاثران کی نظموں کی
ِ ہیں۔تازہ بہ تازہ استعارات،لطیف
نمایاں خصوصیات ہیں۔بیدارؔ نے اردو کے عالوہ فارسی میں بھی
شعرکہے ہیں۔جو ملک کی تقسیم سے پہلے رسائل میں شائع ہوتے
رہے۔مشرفی پنجاب میں آنے کے بعد انہوں نے فارسی گوئی کم کر دی انکا
تمام فارسی اردو کالم’’صفیر خیال‘‘کے نام سے ۱۹۷۷ء میں شائع ہوا۔ پنڈت
:میال رام وفا ؔ،بیدارؔ کی شاعری کے بارے میں یوں لکھتے ہیں
میں نے بیدارؔ کو اس وقت بھی دیکھا جب وہ الہور میں کالج کا طالب ’’
علم تھا اور آج ۱۹۷۶ء میں میں دیکھ رہا ہوں جب وہ پنجابی یونیورسٹی
پٹیالہ میں فارسی کے اُستاد ہیں ۔ میری یہ ایماندارانہ رائے ہے کہ
۱۹۷۶ء کا بیدار دُنیا کے زندہ جاوید شاعروں میں سے ہے۔ ان کی شاعری
میں ایک ُحسن آفرینی اور نادرہ کاری ہے۔ جس کو پیغمبرانہ اعجاز کہنا بے
جا نہ ہوگا۔وہ شاعرانہ عظمت کے لحاظ سے اسی صف کا شاعر ہے ۔جس
میں گوئٹے ،حافظ ،ٹیگور اور اقبال جیسے شاعر کھڑے ہیں ۔‘‘ ۵
حیرت کی بات یہ ہے کہ کرپال سنگھ بیدارؔ جس کو شاعر اعظم کا خطاب
مال۔اس کو ناقدین ادب نے وہ مقام نہیں دیا۔جس کے وہ مستحق تھا۔تاہنوز
کرپال سنگھ بیدارؔ پر تحقیقی و تنقیدی کام نہیں کیا گیا۔ایک ایسا شاعر جس کو
شاعر اعظم کا خطاب مال ہو اس پر کوئی تحقیقی و تنقیدی کام نہ کیا جانا باعث
ندامت ہے۔بیدارؔ کی شخصیت و شاعری پر تحقیقی کام کیا جانا وقت کی اہم
ضرورت ہے۔اسی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے۔راقم اپنا تحقیقی
موضوع کر پال سنگھ بیدار کی شاعری کااہم معاصرین کے ساتھ تقابلی
مطالعہ کا انتخاب کیا ہے مجھے یقین کامل ہے کہ میرا یہ تحقیقی کام اردو ادب
میں ایک نئے باب کا اضافہ کرے گا اور تحقیق کے نئے دروازے
کھولنے میں معاون و مدد گار ثابت ہوگا۔ کرپال سنگھ بیدارؔ کی اردو ادب
کے ساتھ دل جوئی اور ادبی خدمات کا حق بھی ادا ہو جائے گا۔جس کے
وہ مستحق ہیں۔کرپال سنگھ بیدارؔ کی خدمات کے اعتراف میں شعبہ
فارسی اردو و عربی پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کی جانب سے ہر سال ایک
مشاعرہ منعقد کیا جاتا ہے۔
میں نے اپنا تحقیقی موضوع’’ کر پال سنگھ بیدارؔ کی شاعری کا اہم معاصرین
کے ساتھ تقابلی مطالعہ ‘‘کو مندرجہ ذیل پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔
ذات اورحیات :باب اول
ادبی ماحول اور دائرہ صفات :باب دوم
با ب سوم :کرپال سنگھ بیدار ؔ کی اردو شا عری کے
کرپال سنگھ بیدارؔ کا اہم معاصرین کے ساتھ تقابلی مطالعہ :باب چہارم
کرپال سنگھ بیدارؔ کی شاعری تفہیم و تجزیہ :باب پنجم
حاصل مطالعہ
میں نے اپنے تحقیقی مقالے کے لئے مواد کی فراہمی مختلف کتب
خانوں،الئبر یریوں،انٹرنیٹ وغیرہ سے حاصل کیا ہے اور دوران تحقیق
بھی تمام و سائل سے مواد کی فراہمی کے لئے استفادہ کرتا رہوں
دوران تحقیق براہ ِِ
ِ گا۔مقالے کے آخر میں کتابیات دی جائے گی وہ کتب جو
زیر مطالعہ رہیں گی۔ ان راست یا بالواسطہ تحقیق کے دوران ِ
زیر بحث اور ِ
کی طویل فہرست منسلک کردی جائے گی۔
:حواشی
صفیرخیال ،صفحہ نمبر۱۵۔۱۶ ِ ۱پروفیسر راجندر سوز،
صفیرخیال ،صفحہ نمبر۲۰۶
ِ ۲کرپال سنگھ بیدار ؔ ،
صفیرخیال ،صفحہ نمبر۳۲۱ِ ۳کرپال سنگھ بیدارؔ ،
صفیرخیال ،صفحہ نمبر۳۱۹ ِ ۴کرپال سنگھ بیدارؔ ،
صفیر خیال ،صفحہ نمبر۱۱
ِ ۵میال رام وفاؔ ،