You are on page 1of 6

‫‪SYNOPSIS‬‬

‫کرپال سنگھ بیدارکی شاعری کا‬


‫اہم معاصرین کے ساتھ تقابلی مطالعہ‬
‫‪KIRPAL SINGH BEDAR KI SHAERI KA‬‬
‫‪AHEM MUASREEN KE SATH TAQABULI MUTALIA‬‬

‫فیکلٹی آف لینگویجز پنجابی یونیورسٹی‪،‬‬


‫پنجاب ہندوستان کی وہ ریاست ہے جو ابتداء ہی سے شعر وادب کا گہوارہ‬
‫رہی ہے اسے گیان اوردھیان کی دھرتی کہاجاتا ہے جہاں تک اردو زبان‬
‫وادب کا تعلق ہے اس سلسلے میں بھی زر خیزی دکھائی ہے اوراس دھرتی‬
‫نے بے شمار شاعر وادیب پیدا کئے ہیں‪ ،‬جنہوں نے اردو زبا ن وادب‬
‫کے فروغ میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں‪ ،‬مسلم ادیب اورشاعروں‬
‫کے عالوہ اس دھرتی نے ہندو اور سکھ شعراء کو بھی جنم دیا ہے ۔اردو‬
‫ادب کی تاریخ کاجب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو سکھ شعراء اور ادباء کی ایک‬
‫طویل فہرست بھی ہمارے سامنے آجاتی ہے اوران سکھ شعراء اورادباء‬
‫نے اردو زبان وادب میں بے شمار خدمات انجام دے کر نام کمایاہے اور اردو‬
‫زبان وادب میں قابل قدر اضافے کئے ہیں۔‬
‫پنجاب نے جہاں ایک طرف بے شمار نثر نگار پیدا کئے ہیں وہیں دوسری‬
‫جانب ان گنت شاعروں کو بھی اس دھرتی نے اپنی کوکھ سے جنم دیا اردو‬
‫شاعری کی مختلف اصناف ‪ ،‬غزل ‪ ،‬نظم مثنوی وغیرہ کے ان شاعروں نے کافی‬
‫ترقی دی۔ اقبال ؔ ‪ ،‬حفیظ جالندھریؔ ‪،‬حالیؔ ۔ چکبستؔ ‪ ،‬ساحر ؔ لدھیانوی‬
‫وغیرہ کا تعلق بھی اسی خطے سے ہے ‪ ،‬جنہوں نے اردو شاعری کو‬
‫معراج پر پہنچایا ‪ ،‬اس کے عالوہ سکھ شعراء ‪ ،‬بابا گرونانک صاحب ‪ ،‬گرو‬
‫گوبند سنگھ ‪ ،‬گنڈا سنگھ مشرقی ‪ ،‬گیانی نہال سنگھ‪ ،‬ڈاکٹر موہن سنگھ‬
‫دیوانہ ‪ ،‬پورن سنگھ ہنرؔ ‪،‬کنورسنگھ بیدیؔ ‪ ،‬کرپال سنگھ بیدارؔ‬
‫‪،‬ڈاکٹر ست نام سنگھ خمارؔ ‪،‬پرت پال سنگھ بیتابؔ اورسردار پنچھیؔ‬
‫وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔ ان کے عالوہ اور بھی ان گنت شعراء ہیں‬
‫جن کا ذکر کرنا یہاں محال ہے کیونکہ وہ ایک طویل فہرست بن جاتی ہے۔‬
‫پنجاب کے نامور سکھ شعراء میں کرپال سنگھ بیدارؔ کا نا م کافی اہمیت کا‬
‫حامل ہے کرپال سنگھ بیدارؔ ننکانہ صاحب تحصیل کے ایک گاؤں میں‬
‫‪ 1916‬؁ء کو پیدا ہوئے ان کا گھرانہ تعلیم یافتہ گھرانہ نہیں تھا‬
‫اورنہ ہی کوئی ادبی ماحول تھا ‪ ،‬بیدارؔ بچپن سے ہی حددرجہ کے ذہین‬
‫تھے اور شروع سے ہی ہر امتحان میں اچھے نمبرات لیکر پاس ہوتے‬
‫رہے جب انہوں نے منشی فاضل کا امتحان دیا تو پورے پنجاب میں سب سے‬
‫زیادہ نمبرات لیکر درجہ اول حاصل کیا ‪ ،‬بیدارؔ نے فارسی ادب میں ایم ۔ اے‬
‫کی ڈگری حاصل کی ۔ اُردو میں انہوں نے متعدد اسناد حاصل کیے۔ اور‬
‫الہور کے سکھ نیشنل کالج میں استاد مقرر ہوئے پروفیسر راجندر سوزؔ ‪،‬‬
‫‪:‬بیدارؔ کے بارے میں یوں لکھتے ہیں کہ‬
‫بیدارؔ صاحب گل ذات کے ایک اونچے جاٹ خاندان سے تعلق رکھتے ’’‬
‫ہیں لیکن ان کی سات پشتوں میں کوئی خواندہ نہیں ملتا۔ ان کے والد سردار‬
‫خوشحال سنگھ ایک نیک دل سخاوت کیش اورمقبول رئیس تھے ۔ معلوم نہیں‬
‫انہوں نے کس خیال اور جذبے کے تحت اپنی خاندانی روایات کے خالف‬
‫بیدا رؔ کو اسکول بھیج دیا ۔ طالب علمی کی حیثیت سے بیدار ؔ صاحب نہایت‬
‫نمایاں رہتے یونیورسٹی وظائف حاصل کئے ۔ فارسی میں فرسٹ کالس‬
‫ایم‪ .‬اے کیا۔ سات برس تک سکھ نیشنل کالج الہور میں فارسی کے استاد‬
‫رہے۔ ‘‘ ‪ ۱‬؂‬
‫زمانہ طالب علمی سے ہی شعر کہنے لگے تھے ۔ابتداء میں انہوں نے‬
‫اخگر ؔ فیروز پوری اور میالرام وفاؔ سے مشورہ سخن کیا اور بعد میں انہوں‬
‫نے باقاعدہ طورپر عالمہ تاجورؔ نجیب آبادی کے شاگردبنے۔ بیدارؔ کی‬
‫شاعری بڑے ہی پرخلوص اورادبی ماحول میں پروان چڑھی ‪ ،‬ان کے معاصر‬
‫شعراء میں ‪ ،‬میالرام وفاؔ ‪ ،‬سیمابؔ اکبر آبادی ‪ ،‬اصغرؔ گونڈوی ‪ ،‬جگرؔ مراد‬
‫آبادی‪ ،‬موہن سنگھ دیوانہ ‪ ،‬پورن سنگھ ہنر ‪ ،‬کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ‬
‫وغیرہ ہیں۔ ‪1947‬ء کے قیامت انگیز واقعات کے بعد بیدارؔ مشرقی پنجاب‬
‫چلے آئے۔ کچھ عرصہ تنگدستی میں گذارا گھومتے گھومتے حب‬
‫پیسو کے دارالخالفہ پنجاب کے ) ‪(PEPSU‬پٹیالہ پہنچے توسابق ریاست‬
‫چیف منسٹر تھے انہوں نے بیدارؔ صاحب )‪( PEPSU‬سردار گیان سنگھ‬
‫کا )‪( PEPSU‬کے چند شعر سن کر ان کی عظمت کا اندازہ لگا لیااور انہیں‬
‫ڈپٹی کسٹوڈین مقرر کردیا ‪1950‬ء میں بیدارؔ بیمار پڑ گئے اور مالزمت‬
‫سے کنارہ کشی اختیار کرلی اورایک طویل عرصے تک بیمار رہے آخر کار‬
‫اگست‪1967‬ء اور میں طبیعت سنبھلی تو پنجابی یونیورسٹی کے شعبہ‬
‫فارسی میں لکچرر مقرر ہوئے اورآخری دم تک بطور صدرشعبہ کے فرائض‬
‫انجام دیتے رہے ۔‬
‫کرپال سنگھ بیدارؔ کی شاعری بیداری کا ایک پیغام ہے باوجود اس کے ان‬
‫کے زمانے میں جدید شاعری زور پکڑ چکی تھی جس سے وہ خود متاثر‬
‫نظر آتے تھے لیکن انھوں نے جدید شاعری کو قبول نہیں کیا ۔ بیدارؔ کی‬
‫شاعری کے پیش نظر یہ کہا جائے گا کہ وہ ایک روشن ضمیر ‪ ،‬پختہ‬
‫فکر اور شگفتہ ذہن کے شاعر تھے ‪ ،‬نمونے کے طورپر چند اشعار پیش‬
‫ہیں۔‬
‫جس طرح صبح کو مندر کے سہانے جلولے‬
‫نور خورشید سے کچھ اور نکھر جاتے ہیں‬
‫جس طرح شیشۂ لبریز کے ایک پرتو سے‬
‫دیدۂ دل میں کئی چاند اُتر جاتے ہیں‬
‫جس طرح جشن چراغاں کاخیال آتے ہی‬
‫ذہن میں سینکڑوں انوار بکھر جاتے ہیں‬
‫یوں تیری یاد سے روشن ہے فضا آج کی رات‬
‫؂‪۲‬‬

‫ہم عشق کے دیوانے بُت کو بھی خدا سمجھے‬


‫جس راز کو ہم سمجھے کوئی اسے کیا سمجھے‬
‫اس ڈر سے کہ ایماں میں رہ جائے نہ کچھ خامی‬
‫ہم اِن کی خطا کو بھی اپنی ہی خطا سمجھے‬
‫؂‪۳‬‬

‫دنیا کے ہر خیال سے بیگانہ کردیا‬


‫مجھ کو تمہاری یاد نے دیوانہ کردیا‬
‫گلشن کے پھول تھے کہ بیابان کے خار تھے‬
‫حسن کی نظر نے سب کو پری خانہ کردیا‬
‫؂‪۴‬‬

‫بیدارؔ فطری شاعر ہیں لیکن شاعری انہیں وراثت میں نہیں ملی ان کا‬
‫خاندان بلکہ عالقہ بھی شاعری کے نام سے ناواقف تھا ۔ساتویں جماعت‬
‫سے شعر کہنے کا شوق پیدا ہوگیا تھا۔ بیدارؔ ایک صاحب علم و فضل شاعر‬
‫ہیں اردو اور فارسی ادب پر انکی نظر بہت گہری ہے بلکہ وہ کتابوں کو‬
‫نہیں پڑھتے اور اخبار اور رسالوں کو بھی کم پڑھتے ہیں۔بیدارؔ پر‬
‫گو نہیں بلکہ کم گو شاعر تھے۔ان کا یہ ماننا تھا کہ قارئین کسی شاعر‬
‫کے سب شعربار بار نہیں پڑھتے بلکہ صرف اچھے شعروں پر نشان لگا‬
‫شاعر اعظم‬
‫ِ‬ ‫دیتے ہیں۔مارچ‪1965‬ء میں پنجاب گورنمنٹ نے بیدارؔ کو‬
‫کے خطاب سے نوازا۔‬
‫بیدارؔ نے نظمیں‪،‬غزلیں ‪،‬رباعیات اور طنزیات سبھی کچھ کہا ہے۔وہ ہر‬
‫ایک صنف سخن کے ماہر تھے بیدؔ ارنے غزل میں وسعت پیدا کی۔انہوں‬
‫نے روایتی غزل سے انحراف کرکے نئی نئی پرتیں کھولیں ہیں۔بیدارؔ‬
‫کی نظمیں معنی نزاکتوں شعری لطافتوں اور فنی رعنایوں سے معمور‬
‫اندازبیان اور وحدت تاثران کی نظموں کی‬
‫ِ‬ ‫ہیں۔تازہ بہ تازہ استعارات‪،‬لطیف‬
‫نمایاں خصوصیات ہیں۔بیدارؔ نے اردو کے عالوہ فارسی میں بھی‬
‫شعرکہے ہیں۔جو ملک کی تقسیم سے پہلے رسائل میں شائع ہوتے‬
‫رہے۔مشرفی پنجاب میں آنے کے بعد انہوں نے فارسی گوئی کم کر دی انکا‬
‫تمام فارسی اردو کالم’’صفیر خیال‘‘کے نام سے ‪ ۱۹۷۷‬ء میں شائع ہوا۔ پنڈت‬
‫‪ :‬میال رام وفا ‪ ؔ،‬بیدارؔ کی شاعری کے بارے میں یوں لکھتے ہیں‬
‫میں نے بیدارؔ کو اس وقت بھی دیکھا جب وہ الہور میں کالج کا طالب ’’‬
‫علم تھا اور آج ‪۱۹۷۶‬ء میں میں دیکھ رہا ہوں جب وہ پنجابی یونیورسٹی‬
‫پٹیالہ میں فارسی کے اُستاد ہیں ۔ میری یہ ایماندارانہ رائے ہے کہ‬
‫‪۱۹۷۶‬ء کا بیدار دُنیا کے زندہ جاوید شاعروں میں سے ہے۔ ان کی شاعری‬
‫میں ایک ُحسن آفرینی اور نادرہ کاری ہے۔ جس کو پیغمبرانہ اعجاز کہنا بے‬
‫جا نہ ہوگا۔وہ شاعرانہ عظمت کے لحاظ سے اسی صف کا شاعر ہے ۔جس‬
‫میں گوئٹے ‪،‬حافظ ‪،‬ٹیگور اور اقبال جیسے شاعر کھڑے ہیں ۔‘‘ ؂‪۵‬‬
‫حیرت کی بات یہ ہے کہ کرپال سنگھ بیدارؔ جس کو شاعر اعظم کا خطاب‬
‫مال۔اس کو ناقدین ادب نے وہ مقام نہیں دیا۔جس کے وہ مستحق تھا۔تاہنوز‬
‫کرپال سنگھ بیدارؔ پر تحقیقی و تنقیدی کام نہیں کیا گیا۔ایک ایسا شاعر جس کو‬
‫شاعر اعظم کا خطاب مال ہو اس پر کوئی تحقیقی و تنقیدی کام نہ کیا جانا باعث‬
‫ندامت ہے۔بیدارؔ کی شخصیت و شاعری پر تحقیقی کام کیا جانا وقت کی اہم‬
‫ضرورت ہے۔اسی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے۔راقم اپنا تحقیقی‬
‫موضوع کر پال سنگھ بیدار کی شاعری کااہم معاصرین کے ساتھ تقابلی‬
‫مطالعہ کا انتخاب کیا ہے مجھے یقین کامل ہے کہ میرا یہ تحقیقی کام اردو ادب‬
‫میں ایک نئے باب کا اضافہ کرے گا اور تحقیق کے نئے دروازے‬
‫کھولنے میں معاون و مدد گار ثابت ہوگا۔ کرپال سنگھ بیدارؔ کی اردو ادب‬
‫کے ساتھ دل جوئی اور ادبی خدمات کا حق بھی ادا ہو جائے گا۔جس کے‬
‫وہ مستحق ہیں۔کرپال سنگھ بیدارؔ کی خدمات کے اعتراف میں شعبہ‬
‫فارسی اردو و عربی پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کی جانب سے ہر سال ایک‬
‫مشاعرہ منعقد کیا جاتا ہے۔‬
‫میں نے اپنا تحقیقی موضوع’’ کر پال سنگھ بیدارؔ کی شاعری کا اہم معاصرین‬
‫کے ساتھ تقابلی مطالعہ ‘‘کو مندرجہ ذیل پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔‬
‫ذات اورحیات ‪:‬باب اول‬
‫ادبی ماحول اور دائرہ صفات ‪:‬باب دوم‬
‫با ب سوم ‪ :‬کرپال سنگھ بیدار ؔ کی اردو شا عری کے‬
‫کرپال سنگھ بیدارؔ کا اہم معاصرین کے ساتھ تقابلی مطالعہ ‪:‬باب چہارم‬
‫کرپال سنگھ بیدارؔ کی شاعری تفہیم و تجزیہ ‪:‬باب پنجم‬
‫حاصل مطالعہ‬
‫میں نے اپنے تحقیقی مقالے کے لئے مواد کی فراہمی مختلف کتب‬
‫خانوں‪،‬الئبر یریوں‪،‬انٹرنیٹ وغیرہ سے حاصل کیا ہے اور دوران تحقیق‬
‫بھی تمام و سائل سے مواد کی فراہمی کے لئے استفادہ کرتا رہوں‬
‫دوران تحقیق براہ ِِ‬
‫ِ‬ ‫گا۔مقالے کے آخر میں کتابیات دی جائے گی وہ کتب جو‬
‫زیر مطالعہ رہیں گی۔ ان‬ ‫راست یا بالواسطہ تحقیق کے دوران ِ‬
‫زیر بحث اور ِ‬
‫کی طویل فہرست منسلک کردی جائے گی۔‬

‫‪:‬حواشی‬
‫صفیرخیال‪ ،‬صفحہ نمبر‪۱۵‬۔‪۱۶‬‬ ‫ِ‬ ‫؂‪ ۱‬پروفیسر راجندر سوز‪،‬‬
‫صفیرخیال‪ ،‬صفحہ نمبر‪۲۰۶‬‬
‫ِ‬ ‫؂‪ ۲‬کرپال سنگھ بیدار ؔ ‪،‬‬
‫صفیرخیال‪ ،‬صفحہ نمبر‪۳۲۱‬‬‫ِ‬ ‫؂‪ ۳‬کرپال سنگھ بیدارؔ ‪،‬‬
‫صفیرخیال‪ ،‬صفحہ نمبر‪۳۱۹‬‬ ‫ِ‬ ‫؂‪ ۴‬کرپال سنگھ بیدارؔ ‪،‬‬
‫صفیر خیال‪ ،‬صفحہ نمبر‪۱۱‬‬
‫ِ‬ ‫؂‪ ۵‬میال رام وفاؔ ‪،‬‬

You might also like