Professional Documents
Culture Documents
آئی ڈی
M.Aاردو پروگرام
اعلی عہد شاہجہانی کے اواخر میں ہرات سے آ کر ٰ میر حسن کے جد
دہلی میں بس گئے تھے۔ یہیں 1727ء میں میر حسن پیدا ہوئے۔ ان کے
والد میر ضاحک شاعر تھے جن کی طبیعت ہزل اور ہجو کی طرف
مائل تھی۔ سودا سے ان کی خوب نوک جھونک چلتی تھی۔ میر حسن نے
ابتدائی تعلیم گھرپر ہی والد سے حاصل کی۔ شعر و شاعری کا شوق
لڑکپن سے تھا وہ خواجہ میر درد کی صحبت میں رہنے لگے اور وہی
شاعری میں ان کے پہلے استاد تھے۔ جس زمانہ میں میر حسن نے
جوانی میں قدم رکھا وہ دہلی اور دہلی والوں کے لئے سخت ابتلء کا
زمانہ تھا۔ معاشی حالت ابتر تھے اور ہر طرف لوٹ مار مچی ہوئی
تھی۔ اکثر شرفاء جان و مال کی حفاظت کے لئے دہلی چھوڑنے پر
مجبور ہوگئے تھے۔ سودا ،میر تقی میر ،جرأت ،سوز سب دہلی چھوڑ
کر اودھ کا رخ کر چکے تھے۔ میر ضاحک نے بھی اہل و عیال کے ساتھ
دہلی کو خیرباد کہا۔ میر حسن کو دہلی چھوڑنے کا بہت غم ہوا۔
انہیں دہلی سے تو محبت تھی ہی ساتھ ہی کسی دہلی والی کو
دل بھی دے بیٹھے تھے۔ "ہوا آوارہ ہندستان جب سے*قضا پورب میں
لئی مجھ کو تب سے/لگا تھا ایک بت سے واں مرا دل*ہوئی اس سے
جدائی سخت مشکل/مری آنکھوں میں وہ صورت کھڑی تھی*پیالی
میں وہ چنی سی جڑی تھی"۔ میر حسن خاصے رنگین مزاج اور حسن
پرست تھے۔ بہر حال سفر میں میواتی حسیناؤں کے حسن اور ناز و ادا
اور مکن پور میں شاہ مدار کی چھڑیوں کے میلے کی رنگینیوں نے کسی
حد تک ان کا غم غلط کیا۔ ان کی مثنوی گلزار ارم اسی سفر کی
داستان ہے۔ فیض آباد جاتے ہوئے وہ لکھنؤ میں ٹھہرے اس وقت لکھنؤ
ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جو ان کو بالکل پسند نہیں آیا اور اس کی
ہجو کہہ ڈالی۔ "جب آیا میں دیار لکھنؤ میں*نہ دیکھا کچھ بہار
لکھنؤ میں/ہر ایک کوچہ یہاں تک تنگ تر ہے *ہوا کا بھی وہاں
تود خاک اور پانی*یہاں دیکھی ہر اک شئےہ مشکل گزر ہے/سوائے
کی گرانی/زبس کوفہ سے یہ شہر ہم عدد ہے*اگر شیعہ کہیں نیک
اس کوبد ہے"۔ لکھنؤ کی یہ ہجو ان کو بہت مہنگی پڑی۔ یہ آصف
الدولہ کے خوابوں کا لکھنؤ تھا جسے وہ رشک شاہجہاں آباد بنانے پر
تُلے تھے۔ اس لکھنؤ کو کوفہ کہا جانا (کوفہ اور لکھنؤ کے عدد بحساب
ابجد 111برابر ہیں) اور ساتھ ہی یہ کہنا کہ کسی شیعہ کو زیب
نہیں دیتا کہ وہ اس شہر کو اچھا کہے آصف الدولہ کے دل میں چبھ
گیا۔ بہرحال میر حسن دہلی سے فیض آباد پہنچے اور پہلے آصف
الدولہ کے ماموں سالر جنگ اور پھران کے بیٹے سردار جنگ مرزا
نوازش علی خان کے ملزم ہو گئے۔ 1770ء میں جب آصف الدولہ نے
پای تخت بنا لیا تو سالر جنگ بھی اپنے متعلقین کے ساتھ
لکھنؤ کو ہ
لکھنؤ منتقل ہو گئے جن کے ساتھ میر حسن کو بھی جانا پڑا۔ فیض آباد
اس زمانہ میں حسینان پری پیکر کی آماجگاہ تھا اور یہاں میر حسن
کی جمالیاتی حس کی تسکین کے بہت سامان موجود تھے بلکہ وہ
کسی سے دل بھی لگا بیٹھے تھے۔ وہاں بھی میں نے اک محبوب
پایا*نہایت دل کو وہ مرغوب پایا/کہوں کیا اس کے اوصاف
حمیدہ*نہایت دلفریب اور شوخ دیدہ"۔ دوسری طرف لکھنو میں
ہ حیات تنگ تھا۔ آصف الدولہ کی ناراضگی کی وجہ سے ان پر عرص
انہوں نے مثنوی سحرالبیان نواب کو راضی کرنے کے لئے ہی لکھی تھی۔
جس کے ساتھ ایک قصیدہ بھی تھا اور نواب سے حضرت علی اور آل
رسول کا واسطہ دے کر معافی طلب کی گئی تھی۔ "سو میں ایک
کہانی بنا کر نئی*دُر فکر سے گوندھ لڑیاں کئی/لے آیا ہوں خدمت
میں بہرنیاز*یہ امید ہے پھر کہ ہوں سرفراز/مرا عذر تقصیر ہووے
قبول*بحق علی و بہ آل رسول"۔ 1784میں یہ مثنوی مکمل ہوئی
تو نواب قاسم علی خاں بہادر نے کہا کہ مجھے یہ مثنوی دو کہ میں
اسے تمہاری طرف سے نواب کے حضور میں لے جاؤں لیکن میر حسن
نے ان کا اعتبار نہ کیا اور ان کو بھی ناراض کر بیٹھے پھر جب کسی
تقریب سے ان کی رسائی دربار میں ہوئی تو نواب قاسم نے انتقاما ً
میر حسن کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ میر حسن نے مثنوی کے ساتھ
ایک قصیدہ بھی پیش کیا تھا جس میں نواب کی سخاوت کے ضمن
ادنی سی اک اس کی ہے* دوشالے ٰ میں اک شعر یہ تھا۔ "سخاوت یہ
دئے ایک دن سات سے"قاسم خان بول پڑے " حضور تو ہزارہا دوشالے
آن واحد میں بخش دیتے ہیں۔ شاعری میں مبالغہ ہوتا ہے یہاں تو
بیان واقعی میں بھی کمی ہے" اس کے بعد نواب کا دل مثنوی سننے
سے اچاٹ ہو گیا اور میر حسن کو اپنا استعمال شدہ ایک دوشالہ
انعام میں دے کر رخصت کر دیا۔ اس واقع ہے کے دیڑھ دو سال بعد
1785ء میں میر حسن کا انتقال ہو گیا۔
میر حسن نے سحرالبیان ،گلزار ارم اور رموز العارفین کے علوہ کئی
دوسری مثنویاں بھی لکھیں۔ ان کی اک مثنوی خوان نعمت آصف
الدولہ کے دسترخوان پر چنے جانے والے کھانوں کے بارے میں ہے۔ رموز
العارفین اپنے وقت میں خاصی مقبول تھی جس میں عارفانہ اور
مصلحانہ مضامین نظم ہوئے ہیں۔ لیکن جو مقبولیت ان کی آخری
مثنوی سحرالبیان کو ملی ویسی کسی مثنوی کو نہیں ملی۔ اس میں
شک نہیں سحرالبیان میں میر حسن نے محاکات اور جزئیات نگاری
کو درجہ کمال تک پہنچا دیا ہے۔ یہی بات ان کے پوتے میر انیس کو
ورثہ میں ملی جنہوں نے مرثیہ کے میدان میں اس سے کام لیا۔ میر
حسن کے چار بیٹے تھے اور سبھی شاعر تھے جن میں انیس کے والد میر
مستحسن خلیق نے بہت اچھے مرثئے لکھے لیکن بیٹے کی شہرت اور
مقبولیت نے انھیں پس پشت ڈال دیا۔
3۔ گلزار ابراہیم
تبصرہ کتاب بارہ
گلزار ابراہیم
اس کتاب کی دو اشاعت مجھے ملی ہیں
اول 1903عیسوی بمطابق 1320ہجری
ابو الحسنات قطب الدین احمد دیدیہ احمدی لکھنو
کامل منشی بھگوان دیال صاحب صاقل
دوم 1909عیسوی بمطابق 1327ہجری
ان دونوں کتابوں میں ایک جیسی نظم لکھی ہے کوئی معتبر حوالہ
شامل نہیں کیا گیا اور اس کو واضع الفاظ میں قصہ لکھا گیا ہے۔
کہیں بھی اس کے ترجمہ ہونے کا ذکر نہیں یعنی یہ اردو میں ہی
لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں ادھم قلندر کا قصہ درج ہے جو بلکل
ہیر رانجھا اور لیلی مجنوں جیسی کہانی لگ رہی ہے نا کہ کسی
معتبر کتاب جیسا مسودہ۔
اس کتاب میں ہی پہلے تو ادھم قلندر نے نسب چھوپا لیا لیکن اصرار
پر انہوں نے خود کو فاروقی بتایا لیکن کیونکہ یہ کتاب انیسویں صدی
میں چھپی ہے اس لیے اس سے تقریبا چار سو سال پہلے سے ابراہیم
بن ادھم کا غلط شجرہ نسب مشہور ہو چکا تھا۔
لیکن اس کتاب کو سید ابراہیم بن ادھم کی فاروقیت میں بطور دلیل
پیش کرنا ان کی بزرگی اور زہد کے مقابلے بہتر نہیں ہے۔
4۔ مجموعہ نغز
مجموعہ نغز" حکیم قدرت اللہ قاسم کا ایک ضخیم تذکرہ ہے۔ جس
میں پانچ سو چونسٹھ شعرا کے حالت اصل تذکرہ میں ہیں۔ جبکہ
ایک سو بائیس شعرا کے حالت تکملہ میں ہیں۔ قاسم نے شعرا کے
تعارف میں ضروری معلومات تو فراہم کی ہیں لیکن سنین کو نظر
انداز کردیا ہے ،اس کے باوجود اس تذکرہ میں صحت بیان کا خاص
اہتمام نظر آتا ہے۔ اس تذکرہ سے بہتری نئی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
اور چونکہ یہ تذکرہ محمد حسین آزاد کے زیر مطالعہ تھا اس لئے
انہوں نے آب حیات میں جو قصے آب و رنگ دیکر بیان کئے ہیں ،ان کا
ماخذ یہی تذکرہ ہے۔ یہ تذکرہ ۱۸۰۶کے قریب لکھا گیا۔ یہ تذکرہ
۱۹۳۳میں پروفیسر محمود شیرانی کی تصحیح و تدوین کے بعد پنجاب
یونیورسٹی لہور سے شائع ہوا۔ یہ تذکرہ دو جلدوں میں ہے جو ایک
ساتھ بھی شائع ہوئیں اور الگ الگ بھی۔ حافظ محمود شیرانی کی
تحقیق و تدوین اس تذکرہ میں مثالی اور محققین کے لئے قابل تقلید
ہے۔
5۔ ریاض الفصحا
یہ ہیں غلم ہمدانی مصحفی جن کے شاعرانہ تعارف کے لئے یہ
اشعار کافی ہیں۔ "شب ہجر صحرائے ظلمات نکلی*میں جب آنکھ
کھولی بڑی رات نکلی" " /آستیں اس نے جو کہنی تک اٹھائی وقت
صبح*آرہی سارے بدن کی بے حجابی ہاتھ میں"" /شب اک جھلک دکھا
کر وہ مہ چل گیا تھا*اب تک وہی سماں ہے غرفہ کی جالیوں پر"
اور " مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم*تیرے دل
میں تو بہت کام رفو کا نکل"۔
غلم ہمدانی نام ،مصحفی تخلص تھا۔ اکثر تذکرہ نویسوں نے ان کی
جائے پیدائش امرو ہہے لکھی ہے لیکن مہذب لکھنوی میر حسن کے
حوالہ سے کہتے ہیں کہ وہ دہلی کے قریب اکبر پور میں پیدا ہوئے۔ ان
کا بچپن بہرحال امروہہ میں گزرا۔ مصحفی کے آباو اجداد خوشحال
اعلی منصبوں پر فائز تھے لیکن زوال سلطنت کے ٰ) تھے اور حکومت کے
ساتھ ان کی خوشحالی بھی رخصت ہو گئی اور فلکت نے آ گھیرا۔
مصحفی کی ساری زندگی معاشی تنگی میں گزری اور روزگار کی
فکر ان کو کئی جگہ بھٹکاتی رہی ۔ے وہ دہلی آئے جہاں انھوں نے تلش
معاش کے ساتھ ساتھ اہل علم کی صحبت سے فائدہ اٹھایا۔ تلش
معاش میں وہ آنولہ گئے پھر کچھ عرصہ ٹانڈے اور ایک سال لکھنؤ
میں رہے۔ وہیں ان کی ملقات سودا ؔسے ہوئی جو فرخ آباد سے لکھنؤ
منتقل ہو چکے تھے۔ سودا ؔسے وہ بہت متاثر ہوئے۔ اس کے بعد وہ دہلی
واپس آ گئے۔ مصحفی میں علمی قابلیت زیادہ نہیں تھی لیکن طبیعت)
موزوں پائی تھی۔ اور شاعری کے ذریعہ اپنا کوئی مقام بنانا چاہتے تھے۔
وہ باقاعدگی سے مشاعروں میں شرکت کرتے اور اپنے گھر پر بھی
مشاعرے منعقد کرتے۔ دہلی میں انھوں نے دو دیوان مرتب کر لئے تھے
جن میں سے اک چوری ہو گیا۔
"اے مصحفی شاعر نہیں پورب میں ہوا میں*دلی میں بھی چوری
مرا دیوان گیا ہے"
بارہ سال دہلی میں رہ کر جب وہ دوبارہ لکھنؤ پہنچے تو شہر کا
نقشہ ہی کچھ اور تھا
آصف الدولہ کا دور دورہ تھا جن کی سخاوت کے ڈنکے بج رہے تھے۔ ہر
فن کے با کمال لکھنؤ میں جمع تھے۔ سود ؔا مر چکے تھے ،میر تقی می ؔر
لکھنؤ آ چکے تھے۔ میر حسن مقیم لکھنؤ تھے می ؔر سوز ؔاور جرأ ؔتکے سکے
ی کو دربار سے کوئی فیض جمے ہوئے تھے۔ ان لوگوں کے ہوتے مصحف ؔ
نہیں پہنچا وہ دہلی کے شہزاد ےے سلیمان شکوہ کی سرکار سے
وابستہ ہو گئے۔ سلیمان شکوہ نے لکھنؤ میں ہی سکونت اختیار کر
ی کو استاد بنا لیا اور 25روپےلی تھی۔ شاعری میں انہوں نے مصحف ؔ
ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا۔ لیکن اسی زمانہ میں سید انشاء لکھنؤ آ
گئے اور سلیمان شکوہ کو شیشہ میں اتار لیا۔ اور وہ انشاء سے ہی
اصلح لینے لگے۔
ی کے مد مقابل اور حریف تھے۔ ان کی نوک انشا ؔء لکھنؤ میں مصحف ؔ
ی نے
جھونک مشاعروں سے نکل کر سڑکوں تک آ گئی تھی مصحف ؔ
لکھنؤ میں شاگردوں کی بڑی تعداد جمع کر لی تھی۔ دوسری طرف
انشا ؔء کی طبیعت برجستگی ،حاضر جوابی ،شوخی اور ظرافت) کا
ی ان کی چٹکیوں کا ،جو مخالف کو رل دیں، مجسمہ تھی۔ مصحف ؔ
مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ سالہا سال دونوں میں نوک جھونک جاری
رہی اور جب بات زیادہ بڑھی تو سلیمان شکوہ کھل کر انشا ؔء کے
ی کے شاگردوں نے اک سوانگ (تضحیکی طرفدار) بن گئے۔ جب مصحف ؔ
جلوس) انشا ؔء کے خلف نکالنے کا منصوبہ بنایا تو انھوں نے کوتوال سے
ی کا وظیفہ بھی گھٹا کہہ کر اسے رکوا دیا اور ناراض ہو کر مصحف ؔ
ی کے لئے بڑی ذلت کی بات تھی کر پانچ روپے ماہانہ کر دیا۔ یہ مصحف ؔ
جس کا شکوہ انہوں نے اپنے ان اشعار میں کیا ہے " ،اے وائے کہ پچیس
سے اب پانچ ہوئے ہیں*ہم بھی تھے کنھوں وقتوں میں پچیس کے لئق،
استاد کا کرتے ہیں امیر اب کے مقرر*ہوتا ہے جو در ماہہ کہ سائیس
ی نے لکھنؤ چھوڑ دینے کے لئق"۔ یہاں تک کہ دل برداشتہ ہو کر مصحف ؔ
کا ارادہ کیا اور کہا" ،جاتا ہوں ترے در سے کہ توقیر نہیں یاں*کچھ
اس کے سو اب کوئی تدبیر نہیں یاں۔ اے مصحفی بے لطف ہے اس
شہر میں رہنا *سچ ہے کہ کچھ انسان کی توقیر نہیں یاں" لیکن
ی نے اپنےلکھنؤ سے نکلنا تقدیر میں نہیں تھا وہیں انتقال کیا۔ مصحف ؔ
پیچھے آٹھ دیوان اردو) کے ،ایک دیوان فارسی کا ،ایک تذکرہ فارسی
ی کا بہت شاعروں کا اور دو تذکرے اردو شاعروں کے چھوڑے۔ مصحف ؔ
سا کلم ہم تک نہیں پہنچا کیونکہ ایک وقت ان پر ایسا بھی آیا کہ
وہ مالی تنگی سے پریشان ہو کر شعر فروخت کرنے لگے تھے۔ ہر
مشاعرے کے لئے بہت سی غزلیں کہتے اور لوگ آٹھ آنے ایک روپیہ یا
اس سے زیادہ دے کر اچھے اچھے شعر چھانٹ لے جاتے ،جو بچتا خود اپنے
لئے رکھ لیتے۔ محمد حسین آزاد) کے مطابق جب ایک مشاعرہ میں بالکل
داد نہ ملی تو انہوں نے تنگ آ کر غزل زمین پر دے ماری اور کہا کہ
"واے فلکت سیاہ جسکی بدولت کلم کی یہ نوبت پہنچی کہ اب
کوئی سنتا نہیں" شہر میں اس بات کا چرچا ہوا تو کھل کہ ان کی
غزلیں بکتی ہیں۔ شاگردوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ان کو
شاسی ؔر ،می ؔر خلی ؔقوغیرہ ؔ
آت، استادوں کا استاد کہا جائے تو غلط نہیں۔
سب ان ہی کے شاگرد تھے۔
مصحفی ؔمی ؔر اور سود ؔا کے بعد خود کو سب سے بڑا شاعر سمجھتے تھے
اور اپنی استادی کا سکہ جمانا ان کی عادت تھی۔ خواجہ حیدر علی
آتش ان کے شاگرد تھے۔ ایک دن آتش نے اک مشاعرہ میں غزل پڑھی
جس کی طرح "دہن بگڑا" ،کفن بگڑا" تھی۔ اور استاد کے سامنے جب
یہ شعر پڑھا "لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب*زباں بگڑی
تو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا" ،تو یہ بھی کہہ بیٹھےکہ ایسا شعر
ی نے ہنس کر کہا، کوئی دوسرا) نکالے تو کلیجہ منہ کو آ جائے۔ مصحف ؔ
"میاں سچ کہتے ہو" اور اس کے بعد اک نو مشق شاگرد کی غزل میں
یہ شعر بڑھا دیا "نہ ہو محسوس جو شے کس طرح نقشے میں ٹھیک
اترے*شبیہ یار کھنچوائی ،کمر بگڑی دہن بگڑا"جب لڑکے نے مشاعرہ
ی کے قریب آ کر غزل پھینک دی اور شے مصحف ؔمیں شعر پڑھا تو آت ؔ ن
کہا" ،آپ کلیجہ پر چھریاں مارتے ہیں! اس لڑکے کی کیا حیثیت کہ
ی کی قادرالکلمی ظاہر ہوتی ایسا شعر کہے" اس واقع ہے سے مصحف ؔ
ہے۔
ی کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ان کا اپنا کوئی مصحف ؔ
مخصوص رنگ نہیں۔ کبھی وہ می ؔر کی طرح ،کبھی سود ؔا کی طرح اور
کبھی جرأ ؔتکی طرح شعر کہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اپنے
شعروں میں وہ ان سب سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اپنا
رنگ تلش کرنے کے لئے جس فراغت اور یکسوئی کی ضرورت ہے وہ
ان کو کبھی نصیب ہی نہیں ہوئی۔ بسیار گوئی نے ان کے قیمتی
نگینوں کو ڈھک لیا پھر بھی جن لوگوں نے ان کے کلم کو توجہ سے پڑھا
ہے وہ ان سے متاثر ہوے بغیر نہیں رہے۔
حسرت موہانی نے کہا" ،میر تقی کے رنگ میں مصحفی میر حسن کے
ہم پل ّہ ہیں ،سودا ؔکے انداز میں انشاء کے ہم پل ّہ اور جعفر علی
حسرت کی طرز میں جرأت کے ہمنوا ہیں لیکن بہ حیثیت مجموعی
ان سب ہمعصروں سے بہ اعتبار کمال سخندانی و مشّ اقی برتر ہیں۔
می ؔر و میرز ؔا کے بعد کوئی استاد ان کے مقابلہ میں نہیں جچتا۔"
گل رعنا کے مولف حکیم عبد الحق کے مطابق "ان کی ہمہ گیر
شخصیت نے کسی خاص رنگ پر قناعت نہیں کی۔ ان کے کلم میں
کہیں می ؔر کا درد ہے ،کہیں سود ؔا کا انداز ،کہیں سوز ؔکی سادگی اور
جہاں کہیں ان کی کہنہ مشقی اور استادی اپنے پیشرووں کی
خوبیوں کو یکجا کر دیتی ہے وہاں وہ اردو) شاعری کا بہترین نمونہ
قرار دیے جا سکتے ہیں۔"
ی کے بارے میں اس عام خیال سے نثار احمد فاروقی) بہرحال مصحف ؔ
کہ ان کا اپنا کوئی رنگ ،کوئی انفرادی اسلوب نہیں ،اختلف کرتے
ہوئے کہتے ہیں" ،اگر ہم اس مرکزی اور مستقل خصوصیت کو بیان
کرنا چاہیں جو می ؔر و سود ؔا کے مختلف اندازوں کو اڑاتے ہوئے بھی،
ی کے وجدان و کلم میں جاری وساری ہے ،تو اسے ہم اک رچا مصحف ؔ
ہوا اعتدال) کہہ سکتے ہیں ،اک تحت غنائی کیفیت! اگر میر کے یہاں
آفتاب نصف النہار کی پگھل دینے والی آنچ ہے تو سود ؔا کے یہاں اس
کی عالمگیر روشنی ہے۔ لیکن آفتاب ڈھل جانے کے بعد سہ پہر کو
گرمی اور روشنی کے اک نئے امتزاج سے جو معتدل کیفیت پیدا ہوتی
ی کے یہاں شبنم ی کے کلم کی خصوصیت ہے۔ مصحف ؔ ہے وہ مصحف ؔ
شعل گل کی گرمی کا ایسا امتزاج ہے جو اس کی کی نرمی اور ہ
خاص اپنی چیز ہے۔ اس کے نغموں کی شبنم سے دھلی ہوئی پنکھڑیاں
ان گلہائے رنگارنگ کا نظارہ کراتی ہیں جن کی رگیں دُکھی ہوئی
ہیں اور جن کی چٹیل مسکراہٹ سے بھینی بھینی بوئے درد آتی ہے۔"
ی ایسے شاعر ہیں جن کو زندگی نے نہ کھل مجموعی طور پر مصحف ؔ
کر ہنسنے کا موقع دیا نہ کھل کر رونے کا ،پھر بھی وہ اپنے پیچھے
شاعری کا وہ سرمایہ چھوڑ گئے ،جو ان کی ابدی زندگی کا ضامن ہے۔
شعر میں سادگی سے مراد الجھاؤ نہیں ہے شعر میں بلندی سے مراد
عجیب و غریب معاملہ نہیں ہے شعر میں باریکی شاعر کے مطالعہ
کائنات سے آتی ہے شعر میں تڑپ جذبات سے آتی ہے شعری اسلوب
کے مطابق مسعود حسن رضوی ادیب کہتے ہیں کہ مصنف کا کام
معنی خیزی پیدا کرنا ہے شعر میں تازگی اور جدت کے عناصر بھی
ہونے چاہئیں اور ہماری شاعری ان خوبیوں سے بال تر ہے کلم میں
سادگی اختصار ،زور الفاظ کے انتخاب ،شاعر کے اپنے بس میں ہوتا ہے
کہ وہ کلم میں کیا کرتا ہے اس حوالے سے اسماعیل میرٹھی مسعود
حسن رضوی ادیب کے بارے میں لکھتے ہیں :
” طرز بیان شماره اند در بیان میں بار مطالب میں تازگی اور ہو تے
ہے۔ کیا یہ ہے کہ خوابید
حالی کے مقدمے کے بعد اس موضوع پر جس قدر کتا بیں شائع ہوئیں
ہماری شاعری ان سب سے زیادہ
کامیاب تصنیف ہے اور ہر حیثیت سے مقدمہ شعر و شاعری کے ہم
پلہ ہے۔ اگر خواجہ حالی زندہ ہوتے تو
جاری شاعری کی دل کھول کر داد دیتے۔“
” حوالہ نمبر “ ٤
مسعود حسن رضوی ادیب اس کتاب میں لفظ اور معنی کی بحث
بھی کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ شعر میں فصاحت اور معنی پیدا
کرنے کے لیے شعر کو تنافر حروف سے دور رکھنا چاہیے شاعری میں
جدت اسی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے جب الفاظ کو خیالت کے
مطابق ترتیب دیا جائے کلم میں کوئی ایسی بات کہنا جو معنی ہی
نہ رکھتی ہو اس سے گریز کرنا چاہیے چونکہ ہماری شاعری میں
صنعتیں رواج پا گئی ہیں اس لیے الفاظ کی قدر و قیمت نہیں رہی
کلم اسی صورت میں جدت پائے گا اسی صورت میں الفاظ کا صحیح
استعمال معنی کے لحاظ سے استعمال کیا جائے گا شعر میں موسیقیت
بھی الفاظ کی بنا پر ہوتی ہے اگر الفاظ کا بہترین استعمال ہی
نہیں ہوگا تو شعر میں موسیقیت ہی نہیں ہوگی الفاظ کے ردو بدل
سے شعر میں صوتی آہنگ اور موسیقیت کی کمی ہوگی لوگ اچھے
خیال کو برتنے میں الفاظ سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں :
اری اور کی جنگ ہو نے کی حلقہ صورہ میں ہو سکتی ہیں کر کام
کی اہلی کو دو سروں سے روانی اور پا رہا ہوں پر اثر انداز سے اور
کمرے ،منتشر خیالت کو کسی خاص ترتیب سے پیش کرے ،دوسروں
کے مبہم اور دھندلے خیالت کو واضح اور روشن کر دے ،کوئی بات اس
طرح بیان کرے کہ اس کا اثر دوسروں کے بیان سے مختلف ہو جائے،
پرانے خیالت کو اس طرح ادا کرے کہ وہ نئے معلوم ہونے لگے،
فرسودہ مضامین کو یوں باند ھے کہ ان میں تازگی کی کیفیت پید
اہو جائے تو ان سب صورتوں میں اس کے کلم کو جدت کی صفت سے
متصف کھنا چاہیے۔”
” حوالہ نمبر “ ٥
میٹرک کے بعد انٹر کی تعلیم کے لیے کنگ کالج لکھنؤ کا انتخاب کیا .انٹر
میں آپ کے حالت تو ناساز تھے ہی لیکن آپ نے اپنی تعلیم کو جاری
رکھا آپ کا شوق انگریزی اور فارسی میں تھا جس کی وجہ سے آپ
نے انگریزی ادب کو پڑھنا شروع کر دیا آپ نے ادبی زندگی کا آغاز
بطور مبصر کیا اور کیٹلگ ڈیپارٹمنٹ الہ آباد میں تین سال اسی
حیثیت سے کام کیا اور آپ نے دس ہزار کتابوں کا مطالعہ کر لیا تھا یہ
زمانہ ١٩١٨ء کا تھا آپ کی پہلی کتاب بطور مترجم ١٩٢١ء میں شائع
ہوئی اور اس کتاب کا نام امتحان وفا تھا اور یہ انگریزی لکھاری
ٹینی سن کی نظم اینکاآرڈبن کا ترجمہ تھا آپ کو فارسی سے بھی
لگاؤ تھا اس لیے آپ ١٩٢٣ء میں شعبہ فارسی میں لیکچرار مقرر
ہوئے اور اسی دوران آپ نے ایم اے فارسی کا امتحان پاس کیا ١٩٢٧ء
میں آپ لکھنؤ میں سینئر) لیکچرار) کے طور پر منتخب ہوئے اور فارسی
کی تڑپ کو کم کرنے کے لیے آپ نے ١٩٣٣ء ایران اعراق کا سفر کیا اس
حوالے سے آپ خود لکھتے ہیں :
”
مجھے اردو) اور فارسی کیا ہیں جمع کرنے کا نوال ہی نہیں ات ہے۔
اس دھن میں لکھنو کی گئی
گلی کی خاک چھانی ،کونے کونے کی تلشی لی اور جو پہلے پرانے ورقی)
کسی پرانی کتاب کے ہاتھ
آئے انہیں عراق کے ہاتھوں سے سمیٹ لیا۔“
” حوالہ نمبر “ ٢
شعر میں سادگی سے مراد الجھاؤ نہیں ہے شعر میں بلندی سے مراد
عجیب و غریب معاملہ نہیں ہے شعر میں باریکی شاعر کے مطالعہ
کائنات سے آتی ہے شعر میں تڑپ جذبات سے آتی ہے شعری اسلوب
کے مطابق مسعود حسن رضوی ادیب کہتے ہیں کہ مصنف کا کام
معنی خیزی پیدا کرنا ہے شعر میں تازگی اور جدت کے عناصر بھی
ہونے چاہئیں اور ہماری شاعری ان خوبیوں سے بال تر ہے کلم میں
سادگی اختصار ،زور الفاظ کے انتخاب ،شاعر کے اپنے بس میں ہوتا ہے
کہ وہ کلم میں کیا کرتا ہے اس حوالے سے اسماعیل میرٹھی مسعود
حسن رضوی ادیب کے بارے میں لکھتے ہیں :
” طرز بیان شماره اند در بیان میں بار مطالب میں تازگی اور ہو تے
ہے۔ کیا یہ ہے کہ خوابید
حالی کے مقدمے کے بعد اس موضوع پر جس قدر کتا بیں شائع ہوئیں
ہماری شاعری ان سب سے زیادہ
کامیاب تصنیف ہے اور ہر حیثیت سے مقدمہ شعر و شاعری کے ہم
پلہ ہے۔ اگر خواجہ حالی زندہ ہوتے تو
جاری شاعری کی دل کھول کر داد دیتے۔“
” حوالہ نمبر “ ٤
مسعود حسن رضوی ادیب اس کتاب میں لفظ اور معنی کی بحث
بھی کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ شعر میں فصاحت اور معنی پیدا
کرنے کے لیے شعر کو تنافر حروف سے دور رکھنا چاہیے شاعری میں
جدت اسی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے جب الفاظ کو خیالت کے
مطابق ترتیب دیا جائے کلم میں کوئی ایسی بات کہنا جو معنی ہی
نہ رکھتی ہو اس سے گریز کرنا چاہیے چونکہ ہماری شاعری میں
صنعتیں رواج پا گئی ہیں اس لیے الفاظ کی قدر و قیمت نہیں رہی
کلم اسی صورت میں جدت پائے گا اسی صورت میں الفاظ کا صحیح
استعمال معنی کے لحاظ سے استعمال کیا جائے گا شعر میں موسیقیت
بھی الفاظ کی بنا پر ہوتی ہے اگر الفاظ کا بہترین استعمال ہی
نہیں ہوگا تو شعر میں موسیقیت ہی نہیں ہوگی الفاظ کے ردو بدل
سے شعر میں صوتی آہنگ اور موسیقیت کی کمی ہوگی لوگ اچھے
خیال کو برتنے میں الفاظ سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں :
اری اور کی جنگ ہو نے کی حلقہ صورہ میں ہو سکتی ہیں کر کام
کی اہلی کو دو سروں سے روانی اور پا رہا ہوں پر اثر انداز سے اور
کمرے ،منتشر خیالت کو کسی خاص ترتیب سے پیش کرے ،دوسروں
کے مبہم اور دھندلے خیالت کو واضح اور روشن کر دے ،کوئی بات اس
طرح بیان کرے کہ اس کا اثر دوسروں کے بیان سے مختلف ہو جائے،
پرانے خیالت کو اس طرح ادا کرے کہ وہ نئے معلوم ہونے لگے،
فرسودہ مضامین کو یوں باند ھے کہ ان میں تازگی کی کیفیت پید
اہو جائے تو ان سب صورتوں میں اس کے کلم کو جدت کی صفت سے
متصف کھنا چاہیے۔”
” حوالہ نمبر “ ٥
پ)ر)ی)م) چ)ن)د)ک)ا) ا)پ)ن) ےے آ)خ)ر)ی) ز)م)ا)ن) ےے م)ی)ں) ت)ر)ق)ی) پ)س)ن)د)ت)ح)ر)ی)ک) ک)ی) ط)ر)ف) م)ا)ئ)ل)
ہےو)ن)ا)ن) ہے ص)ر)ف) ت)ر)ق)ی) پ)س)ن)د)ا)ف)س)ا)ن) ہے ن)گ)ا)ر)و)ں) ک) ےے ل)ی) ےے خ)و)ش) ق)س)م)ت)ی) ک)ی)
ب)ا)ت) ت)ھ)ی) ب)ل)ک) ہے آ)ج) ک) ےے ن)و)ج)و)ا)ن) ا)و)ر)م)ش) ہےو)ر)ا)ف)س)ا)ن) ہے ن)گ)ا)ر)و)ں) ک) ےے ل)ی) ےے
م)ش)ع)ل) ر)ا) ہے ت)ھ)ی) ۔ےپ)ر)ی)م) چ)ن)د)ک) ےے ت)ر)ق)ی) پ)س)ن)د)ا)ف)س)ا)ن)و)ں) ن) ےے ا)ف)س)ا)ن) ےے ک)و)و) ہے
ہےم)ت) ع)ط)ا)ک)ی) ج)س) ن) ےے ت)ر)ق)ی) پ)س)ن)د)ا)د)ب) ک)و) س)ب) س) ےے ک)ا)م)ی)ا)ب) ا)د)ب)
ی) ک) ےے خ)ط)و)ط)”)ک)و)پ) ہےل)ت)ر)ق)ی) ب)ن)ا)ی)ا) ۔ےع)ز)ی)ز)ا)ح)م)د)ن) ےے ق)ا)ض)ی) ع)ب)د)ا)ل)غ)ف)ا)ر) ک)ا) ”)ل)ی)ل) ٰ
پ)س)ن)د)ن)ا)و)ل) ک) ہےا) ہےےے ا)و)ر)ا)ح)م)د)ع)ل)ی) ک) ےے”)ا)ن)گ)ا)ر) ےے ”)م)ی)ں) ش)ا)ئ)ع) ہےو)ن) ےے و)ا)ل) ےے
ا)ف)س)ا)ن)و)ں) ک) ےے ب)ا)ر) ےے م)ی)ں) ک) ہےا) ہےےے ک) ہے و) ہے ت)ر)ق)ی) پ)س)ن)د)ت)ح)ر)ی)ک) ا)و)ر)ت)ر)ق)ی)
پ)س)ن)د)ک)ی) ت)ع)م)ی)ر)ک) ےے ا)ب)ت)د)ا)ئ)ی) د)و)ر)ک) ےے ا)ف)س)ا)ن) ےے ہےی)ں) ا)س) ل)ی) ےے ا)گ)ر)ت)ر)ت)ی)ب)
ی)ا)ت)ک)ن)ی)ک) م)ی)ں) ک)چ)ھ) خ)ا)م)ی)ا)ں) ہےی)ں) ی)ا)ف)ن)ی) ت)و)ا)ز)ن) پ)ر)ا)ث)ر)پ)ڑ)ت)ا) ہےےے ۔ےت)و)ی) ہے س)ب)
ق)ا)ب)ل) م)ع)ا)ف)ی) ہےی)ں) ۔ے
ً
یقینا بہت وسیع میدان ہے۔ اس کے جملہ پہلوؤں کا َا َدب اور تنقید
ِ
علم تنقید اور اس کے شعبوں کا پورا علم ہونا احاطہ کرنے کے لئے
زامی ہے۔ عام طور پر ہمارے خوش ذوق قارئین بھی اور ہمارے
ِ
علم تنقید پر عبور نہیں رکھتے۔ شعر کہنا، ادباء و شعراء بھی
ادبی نثر لکھنا ،شعر و ادب سے حظ اٹھانا ،اس کے بارے میں کوئی
رائے قائم کرنا اور اس کا اظہار کرنا ،وغیرہ؛ ان امور میں قاری یا
ً
یقینا مفید ہے تاہم لکھاری کا ایک ماہر و مشاق تنقید نگار ہونا
ایسا بھی نہیں کہ اگر ہم یہ مہارت نہیں رکھتے تو شعر نہ کہہ
سکیں نہ نثر لکھ سکیں یا کسی فن پارے سے لطف اندوا نہ ہو
سکیں۔ اس کے لئے آپ کے اندر تخلیقی صححیتوں کا ہونا ضروری ہے۔
اچھا ادبی ذوق تو ظاہر ہے آپ کی تخلیقی صححیت کا جزو قرار
پاتا ہے؛مطالعہ آپ کا بہترین معاون ہوتا ہے ،اس کی اہمیت کو
نظر انداا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات دہرانے کی قطعی ضرورت
نہیں کہ آپ تخلیق کار بن ہی نہیں سکتے جب تک آپ عمدہ ادبی
ذوق نہ رکھتے ہوں یا ابان و بیان کے معامحت اور تقاضوں سے
مانوس نہ ہوں۔ آپ کی تحریر ،وہ نظم ہو ،نثر ہو ،کچھ بھی ہو؛
اس کے اولین ناقد آپ خود ہیں۔ اس کا اپنی استعداد کے مطابق
تنقیدی جائزہ لینا اور اس میں پائے جانے والے اسقام کو دور کرنا آپ
کی ذمہ داری ہے۔ ابحا یعنی لکھاری اور قاری کی فکری اور
معنوی سانجھ میں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے آپ بطور تخلیق کار
بھی شامل ہیں اور بطور قاری بھی ،بطور ناقد بھی۔ فکر و
عقیدہ کو منہا نہیں کیا جا سکتا ،یہ پہلو جہاں ایک تخلیق کار
کی شخصیت اور ذات کا حصہ ہے ،وہاں ایک قاری کی شخصیت اور
ذات کا حصہ بھی ہے۔ موافقت اور عدم موافقت کی اہمیت بھی
مسلمہ ہے۔
ایک بہت عام سا سوال ہے کہ تاثراتی تنقید میں حصہ لینے واز
ایک قاری (ناقد) کیا کہے گا ،کس بنیاد پر کہے گا ،اور کس انداا
میں کہے گا۔ اس کا جواب چنداں مشکل نہیں ہے۔ آپ ادب کا ذوق
رکھتے ہیں ،آپ کا مطالعہ بھی ہے جو ظاہر ہے کہ ای ِر نظر فن
پارے تک محدود نہیں ،ابان و بیان سے بھی آپ کو شغف ہے ،صنائع
بدائع اور اسلوبیات پر بھی آپ کی کوئی نہ کوئی پسند نا پسند
موجود ہے اور یہ سارا کچھ آپ کی ذات کا حصہ ہے۔ آپ کچھ بھی
مثح:
ً پڑھتے ہیں تو آپ کے اندر کا یہ قاری آپ سے کچھ کہتا ہے۔
اس فن پارے میں فحں بات اچھی لگ رہی ہے (کیوں؟) ،فحں بات
اچھی نہیں لگ رہی (کیوں؟) ،ابان کی یا امحء کی غلطی ہے
(کیا؟ اور درست کیا ہے) ،عحمات کا نظام درست نہیں ہے (کیسا
ِ
نفس مضمون سے انصاف نہیں ہو سکا (کیسے؟)، ہونا چاہئے؟)،
فحں بات بہت اچھوتی ہے (بیان بھی ہو جائے) ،فحں جگہ بہتری
مثح؟) ،فحں
ً کی گنجائش ہے (کمی کیا ہے؟) ،فحں جگہ ابہام ہے (
خوبی بہت نمایاں ہے (بیان بھی ہو جائے) ،فحں مصرع یا شعر وان
سے خارج ہے (تقطیع؟)؛ وغیرہ ،وغیرہ۔ یہ سارے تاثرات آپ کے ہیں
اور ان کے محرکات (قوسین میں مندرج) بھی آپ کے علم میں ہیں۔
ان کو بیان کر دیجئے ،آپ نے اپنے حصے کا اچھا خاصا کام کر لیا۔
یہ جو اکثر سننے میں آتا ہے کہے)" :شاعر یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
اور آپ ایک برے شاعر کو تو اچھا شاعر بنا سکتے ہیں ،ایک غیر شاعر
کو شاعر نہیں بنا سکتے"؛ یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ بلکہ
اس کا اطحق ادب کی دیگر اصناف کے حوالے سے بھی ہوتا ہے۔ یہ
تخلیقی صححیتیں بہت حد تک وہبی ہوتی ہیں ،ان کو نکھارنا
سنوارنا البتہ انسان کی اپنی محنت اور لگن پر منحصر ہے۔ میرے
مشاہدے میں کچھ ایسے دوست بھی آئے جن میں شعر و ادب کی
طرف میحن اور تخلیقی صححیتیں بہت تھیں مگر وہ یا تو حازت
کی چکی میں پس گئے یا انہیں موافق ماحول نہ مح اور ان کی
صححیتیں انگ آلود ہو گئیں۔ میرے لڑکپن کے ایک ساتھی علم دین
عرف ھھوزاس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ ان کا مفصل ذکر
کسی اور وقت پر اٹھا رکھتا ہوں۔ ایسے دوست بھی ہیں جو
ً
طبعا شاعر نہیں تھے ،انہوں نے ابان و بیان اور علم کے اور پر اشعار
اور مصرعے مواوں کرنا تو سیکھ لیا ،مگر اپنی ان کوششوں کو
ادب نہیں بنا سکے ،وقت نے ان کو بھح دیا۔