You are on page 1of 10

‫ن م راشد‬ ‫اردو زبان کے شاعر‬

‫اردو کے عظیم شاعر۔ اصل نام نذر محمد راشد‬


‫‪1910‬ء میں ضلع گوجرانواال کے قصبے علی پور‬
‫چٹھہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج الہور‬
‫سے تعلیم حاصل کی۔ ابتدا میں وہ عالمہ مشرقی کی‬
‫خاکسار تحریک سے بہت متاثر رہے اور باقاعدہ وردی‬
‫پہن کر اور بیلچہ ہاتھ میں لیے مارچ کیا کرتے‬
‫ن م راشد‬

‫معلومات شخصیت‬

‫‪ 1‬اگست ‪ 1910‬‬ ‫پیدائش‬


‫پنجاب‪ ‬‬

‫‪ 9‬اکتوبر ‪ 65( 1975‬سال)‪ ‬‬ ‫وفات‬


‫لندن‪ ‬‬

‫پاکستان‬ ‫شہریت‬
‫برطانوی ہند‪ ‬‬

‫عملی زندگی‬

‫گورنمنٹ کالج یونیورسٹی‬ ‫مادر علمی‬


‫الہور‪ ‬‬

‫شاعر‪ ‬‬ ‫پیشہ‬

‫درستی (‪https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%8‬‬
‫=‪6_%D9%85_%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D8%AF&action‬‬
‫‪ - )edit&section=0‬ترمیم (‪https://ur.wikipedia.org/w/index.‬‬
‫‪php?title=%D9%86_%D9%85_%D8%B1%D8%A7%D8%B‬‬
‫‪)4%D8%AF&veaction=edit‬‬

‫پہال مجموعہ کالم‬


‫اردو شاعری کو روایتی تنگنا سے نکال کر بین‬
‫االقوامی دھارے میں شامل کرنے کا سہرا ن م راشد‬
‫اور میرا جی کے سر جاتا ہے۔ ‪1942‬ء میں ن م راشد‬
‫کا پہال مجموعہ ’ماورا‘ شائع ہوا جو نہ صرف اردو‬
‫آزاد نظم کا پہال مجموعہ ہے بلکہ یہ جدید شاعری کی‬
‫پہلی کتاب بھی ہے۔ ماورا سے اردو شاعری میں‬
‫انقالب بپا ہو گیا‪،‬اور یہ انقالب صرف صنِف سخن‬
‫یعنی آزاد نظم کی حد تک نہیں تھا‪ ،‬کیوں کہ تصدق‬
‫حسین خالد پہلے ہی آزاد نظمیں لکھ چکے تھے‪ ،‬لیکن‬
‫راشد نے اسلوب‪ ،‬موضوعات اور پیش کش کی سطح‬
‫پر بھی اجتہاد کیا۔‬
‫فیض اور راشد‬
‫ن م راشد کا تقابل اکثر فیض احمد فیض کے ساتھ‬
‫کیا جاتا ہے‪ ،‬لیکن صاف ظاہر ہے کہ نہ صرف فیض کے‬
‫موضوعات محدود ہیں بلکہ ان کی فکر کا دائرہ بھی‬
‫راشد کے مقابلے پر تنگ ہے۔ ساقی فاروقی بیان کرتے‬
‫ہیں کہ فیض نے خود اعتراف کیا تھا کہ وہ راشد کی‬
‫طرح نظمیں نہیں لکھ سکتے کیوں کہ راشد کا ذہن ان‬
‫سے کہیں بڑا ہے۔‬

‫فن‬
‫ن م راشد اورمیرا جی سے پہلے اردو نظم سیدھی‬
‫لکیر پرچلتی تھی۔ پہلے موضوع کا تعارف‪ ،‬پھر‬
‫تفصیل اور آخر میں نظم اپنے منطقی انجام تک پہنچ‬
‫کر ختم ہو جاتی تھی۔ نظم کے موضوعات زیادہ تر‬
‫خارجی مظاہر سے عبارت ہوا کرتے تھے‪ ،‬جنھیں ایک‬
‫لحاظ سے صحافتی نظمیں کہا جا سکتا ہے‪ :‬واقعات‬
‫کے بارے میں نظمیں‪ ،‬موسم کے بارے میں نظمیں‪،‬‬
‫میلوں ٹھیلوں کا احوال یا حِب وطن۔ یا اسی قسم کے‬
‫دوسرے موضوعات کا احاطہ نظم کے پیرائے میں کیا‬
‫جاتا تھا۔‬

‫راشد اور میرا جی نے جو نظمیں لکھیں وہ ایک طرف‬


‫تو ردیف و قافیہ کی جکڑبندیوں سے ماورا ہیں‪ ،‬تو‬
‫دوسری جانب ان کے موضوعات بھی زیادہ تر داخلی‪،‬‬
‫عالمتی اور تجریدی نوعیت کے ہیں اور ان کی نظمیں‬
‫قارئین سے کئی سطحوں پر مخاطب ہوتی ہیں۔‬

‫فکر‬
‫ن م راشد کی زیادہ تر نظمیں ازل گیر و ابدتاب‬
‫موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں‪ ،‬جو ان پرحتمی رائے‬
‫قائم نہیں کرتیں بلکہ انسان کو ان مسائل کے بارے‬
‫میں غور کرنے پر مائل کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس‬
‫قسم کی شاعری کے لیے زبردست مطالعہ اور اعلٰی‬
‫تخلیقی صالحیتیں اورتیکھی ذہنی اپج درکار ہے جو‬
‫ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ راشد کے پسندیدہ‬
‫موضوعات میں سے ایک اظہار کی نارسائی ہے۔ اپنی‬
‫غالبًا اعلٰی ترین نظم حسن کوزہ گر‘میں وہ ایک‬
‫تخلیقی فن کار کا المیہ بیان کرتے ہیں جو کوزہ گری‬
‫کی صالحیت سے عاری ہو گیا ہے اور اپنے محبوب سے‬
‫ایک نگاِہ التفات کا متمنی ہے جس سے اس کے‬
‫خاکستر میں نئی چنگاریاں پھوٹ پڑیں۔ لیکن راشد‬
‫کی بیشتر نظموں کی طرح حسن کوزہ گر بھی کئی‬
‫سطحوں پر بیک وقت خطاب کرتی ہے اور اس کی‬
‫تفہیم کے بارے میں ناقدین میں ابھی تک بحث و‬
‫تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔‬
‫جدید انسان‬
‫راشد کے بڑے موضوعات میں سے ایک خالئی دور کے‬
‫انسان کی زندگی میں مذہب کی اہمیت اور ضرورت‬
‫ہے۔ یہ ایک ایسا زمانہ ہے جہاں روایتی تصورات‬
‫جدید سائنسی اور فکری نظریات کی زد میں آ کر‬
‫شکست و ریخت کا شکار ہو رہے ہیں اور بیسویں‬
‫صدی کا انسان ان دونوں پاٹوں کے درمیان پس رہا ہے۔‬
‫راشد کئی مقامات پر روایتی مذہبی خیاالت کو ہدِف‬
‫تنقید بناتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بعض نظموں‬
‫پر مذہبی حلقوں کی طرف سے خاصی لے دے ہوئی‬
‫تھی۔‬

‫مجموعے‬
‫راشد کے تین مجموعے ان کی زندگی میں شائع ہوئے‬
‫تھے‪،‬‬

‫‪ .1‬ماورا‪،‬‬
‫‪ .2‬ایران میں اجنبی‬
‫‪ .3‬ال =انسان‪،‬‬

‫جب کہ‬

‫گمان کا ممکن‬

‫ان کی موت کے بعد شائع ہوا تھا۔‬

‫انتقال‬
‫راشد کا انتقال ‪ 9‬اکتوبر ‪1975‬ء کو لندن میں ہوا تھا۔‬
‫ان کی آخری رسوم کے وقت صرف دو افراد موجود‬
‫تھے‪ ،‬راشد کی انگریز بیگم شیال اور ساقی فاروقی‬
‫جب کچھ لوگ عبداللہ حسین کا ذکر بھی کرتے ہیں۔۔‬
‫ساقی لکھتے ہیں کہ شیال نے جلد بازی سے کام لیتے‬
‫ہوئے راشد کے جسم کو نذِر آتش کروا دیا اور اس‬
‫سلسلے میں ان کے بیٹے شہریار سے بھی مشورہ لینے‬
‫کی ضرورت محسوس نہیں کی‪ ،‬جو ٹریفک میں‬
‫پھنس جانے کی وجہ سے بروقت آتش کدے تک پہنچ‬
‫نہیں پائے۔ ان کی آخری رسوم کے متعلق یہ بھی بتایا‬
‫جاتا ہے کہ راشد چونکہ آخری عمر میں صومعہ و‬
‫مسجد کی قیود سے دور نکل چکے تھے‪ ،‬اس باعث‬
‫انہوں نے عرب سے درآمد شدہ رسوم کی بجائے اپنے‬
‫لواحقین کو اپنی آبائی ریت پر‪ ،‬چتا جالنے کی وصیت‬
‫خود کی تھی۔
ان کے فرزند شہریار راشد بھی شاعر‬
‫تھے‪،‬‬

‫حوالہ جات‬
‫اخذ کردہ از «?‪https://ur.wikipedia.org/w/index.php‬‬
‫‪&oldid=5245982‬ن_م_راشد=‪»title‬‬

‫اس صفحہ میں آخری بار مورخہ ‪ 7‬دسمبر ‪2022‬ء کو ‪05:34‬‬


‫بجے ترمیم کی گئی۔ •‬
‫تمام مواد ‪ CC BY-SA 3.0‬کے تحت میسر ہے‪ ،‬جب تک اس کی‬
‫مخالفت مذکور نہ ہو۔‬

You might also like