Professional Documents
Culture Documents
معلومات شخصیت
پاکستان شہریت
برطانوی ہند
عملی زندگی
شاعر پیشہ
درستی (https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%8
=6_%D9%85_%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D8%AF&action
- )edit§ion=0ترمیم (https://ur.wikipedia.org/w/index.
php?title=%D9%86_%D9%85_%D8%B1%D8%A7%D8%B
)4%D8%AF&veaction=edit
فن
ن م راشد اورمیرا جی سے پہلے اردو نظم سیدھی
لکیر پرچلتی تھی۔ پہلے موضوع کا تعارف ،پھر
تفصیل اور آخر میں نظم اپنے منطقی انجام تک پہنچ
کر ختم ہو جاتی تھی۔ نظم کے موضوعات زیادہ تر
خارجی مظاہر سے عبارت ہوا کرتے تھے ،جنھیں ایک
لحاظ سے صحافتی نظمیں کہا جا سکتا ہے :واقعات
کے بارے میں نظمیں ،موسم کے بارے میں نظمیں،
میلوں ٹھیلوں کا احوال یا حِب وطن۔ یا اسی قسم کے
دوسرے موضوعات کا احاطہ نظم کے پیرائے میں کیا
جاتا تھا۔
فکر
ن م راشد کی زیادہ تر نظمیں ازل گیر و ابدتاب
موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں ،جو ان پرحتمی رائے
قائم نہیں کرتیں بلکہ انسان کو ان مسائل کے بارے
میں غور کرنے پر مائل کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس
قسم کی شاعری کے لیے زبردست مطالعہ اور اعلٰی
تخلیقی صالحیتیں اورتیکھی ذہنی اپج درکار ہے جو
ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ راشد کے پسندیدہ
موضوعات میں سے ایک اظہار کی نارسائی ہے۔ اپنی
غالبًا اعلٰی ترین نظم حسن کوزہ گر‘میں وہ ایک
تخلیقی فن کار کا المیہ بیان کرتے ہیں جو کوزہ گری
کی صالحیت سے عاری ہو گیا ہے اور اپنے محبوب سے
ایک نگاِہ التفات کا متمنی ہے جس سے اس کے
خاکستر میں نئی چنگاریاں پھوٹ پڑیں۔ لیکن راشد
کی بیشتر نظموں کی طرح حسن کوزہ گر بھی کئی
سطحوں پر بیک وقت خطاب کرتی ہے اور اس کی
تفہیم کے بارے میں ناقدین میں ابھی تک بحث و
تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔
جدید انسان
راشد کے بڑے موضوعات میں سے ایک خالئی دور کے
انسان کی زندگی میں مذہب کی اہمیت اور ضرورت
ہے۔ یہ ایک ایسا زمانہ ہے جہاں روایتی تصورات
جدید سائنسی اور فکری نظریات کی زد میں آ کر
شکست و ریخت کا شکار ہو رہے ہیں اور بیسویں
صدی کا انسان ان دونوں پاٹوں کے درمیان پس رہا ہے۔
راشد کئی مقامات پر روایتی مذہبی خیاالت کو ہدِف
تنقید بناتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بعض نظموں
پر مذہبی حلقوں کی طرف سے خاصی لے دے ہوئی
تھی۔
مجموعے
راشد کے تین مجموعے ان کی زندگی میں شائع ہوئے
تھے،
.1ماورا،
.2ایران میں اجنبی
.3ال =انسان،
جب کہ
گمان کا ممکن
انتقال
راشد کا انتقال 9اکتوبر 1975ء کو لندن میں ہوا تھا۔
ان کی آخری رسوم کے وقت صرف دو افراد موجود
تھے ،راشد کی انگریز بیگم شیال اور ساقی فاروقی
جب کچھ لوگ عبداللہ حسین کا ذکر بھی کرتے ہیں۔۔
ساقی لکھتے ہیں کہ شیال نے جلد بازی سے کام لیتے
ہوئے راشد کے جسم کو نذِر آتش کروا دیا اور اس
سلسلے میں ان کے بیٹے شہریار سے بھی مشورہ لینے
کی ضرورت محسوس نہیں کی ،جو ٹریفک میں
پھنس جانے کی وجہ سے بروقت آتش کدے تک پہنچ
نہیں پائے۔ ان کی آخری رسوم کے متعلق یہ بھی بتایا
جاتا ہے کہ راشد چونکہ آخری عمر میں صومعہ و
مسجد کی قیود سے دور نکل چکے تھے ،اس باعث
انہوں نے عرب سے درآمد شدہ رسوم کی بجائے اپنے
لواحقین کو اپنی آبائی ریت پر ،چتا جالنے کی وصیت
خود کی تھی۔
ان کے فرزند شہریار راشد بھی شاعر
تھے،
حوالہ جات
اخذ کردہ از «?https://ur.wikipedia.org/w/index.php
&oldid=5245982ن_م_راشد=»title