You are on page 1of 2

‫خواتین و حضرات!

تنقید یوٹیوب چینل میں ایک مرتبہ پھر آپ سب کو خوش آمدید‬

‫آج ہم یو ای ٹی لٹریری سوسائٹی کی ادبی مافیا کے سردار جناب ادریس بابر کے عشروں کے حوالے سے گفتگو کریں گے۔‬
‫صنف سخن ہے جو کمزور سے کمزور شاعر کو‬ ‫ِ‬ ‫ادریس بابر جن کی وجہ ء شہرت اردو غزل ہے اور غزل ایسی غریب پرور‬
‫بھی ایک آدھ مصرعہ یا شعر دے دیتی ہے۔ جبکہ ادریس بابر جن کی وجہ ء شہرت ہی غزل ہے اُنہوں نے آج غزل دشمنی‬
‫میں ا ُن تمام لوگوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جنہوں نے ماضی میں ہر طرح کی کوششیں کیں اور وہ ناکام ہوئے۔ ادریس بابر‬
‫بنیادی طور پر شہرت اور ہوس کے طلبار ہیں اور اس کی صرف اور صرف بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی جانب‬
‫متوجہ رکھنا چاہتے ہیں۔ بالخصوص نوجوان لڑکوں کو۔ ا ُن کے نوجوان لڑکوں سے متعلق کئی سکینڈل سامنے آ چکے ہیں۔ گزشتہ‬
‫غزل مقابلہ جیتنے کی غرض سے‬ ‫ویڈیو میں ہم کشمیر کے ایک عینکو اینکر شاعر پر تفصیلی بات کر چکے ہیں جو‬
‫ادریس بابر کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔اب جب غزل میں ادریس بابر کے تخلیقی جوہر کھل کر سامنے نہیں آ رہے تو انہوں نے‬
‫صنف سخن ہے جسے ادریس بابر نے اپنے تئیں‬ ‫ِ‬ ‫ایک بھونڈا مذاق عشرے کے نام پر شروع کیا ۔ عشرہ ایک ایسی بھونڈی‬
‫صنف سخن بتاتے پھرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ عشرہ دس‬ ‫ِ‬ ‫ایجاد کیا ہے۔ وہ اسے نظم اور نثر سے الگ تھلک ایک تیسری‬
‫مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ خواتین و حضرات! اس سے پہلے کہ ہم ادریس بابر کے عشروں کا تنقیدی جائزہ لیں‪ ،‬آئیے‬
‫ردگ صاحب کی جانب سے پیش کیے گئے تجزیے کے چند نکات پر بات‬ ‫سب سے پہلے معروف شاعر اور دانشور اسحاق َو َ‬
‫کر لیتے ہیں۔‬

‫اسحاق وردگ صاحب کی پوسٹ آپ کے سامنے ہے جو انہوں نے نومبر ‪ 2018‬میں کی تھی۔ ااس پوسٹ میں اسحاق وردگ‬
‫‪:‬صاحب بیان کرتے ہیں کہ‬

‫شاعری میں تجربے ضرورت اور سہولت کے تحت وجود میں آتے ہیں۔۔یہ شعری روایت وسعت کی کاوش کا نام ہے ہر تجربہ‬
‫جو شعری روایت کو جمود کے سپرد کرے روایت کا حصہ نہیں بن سکتا۔گویا تجربہ جدت پسندی کا نام ہے۔۔اور جدت پسندی‬
‫کا مقصد مستقبل کی روایت کا حصہ بننا ہے۔۔‬
‫عشرہ اس لیے بھی ناکام تجربہ ہے کہ اس میں شاعر آغاز سے ہی طے کر لیتا ہے کہ میں نے دس مصرعے پورے کرنے‬
‫ہیں۔چاہے نظم میں آگے بڑھنے کے ہزار امکانات ہی کیوں نہ ہوں۔‬
‫گویا نظم کو مجبوری اور ایک عجلت کے عالم میں بند گلی میں ہانکنا ہوتا ہے‬
‫یہی وجہ ہے کہ عشرہ کا ناکام تجربہ ایک البی کے طور پر تو کبھی کبھار نظر آ جاتا ہے۔۔ لیکن رجحان کے طور پر ابھی‬
‫مین سٹریم میں نہیں آیا۔۔۔‬
‫جدید نظم کی واحد خوبی ہی اس کے مزاج کی آزاد لہر ہے۔۔۔اور عشرہ نظم سے یہ آزادی چھیننے کی الشعوری کاوش یے۔‬
‫مثال کے طور پر نثری نظم جس کی کامیابی کا راز ہی وزن کی زنجیر توڑنا ہے۔۔ اس لیے عشرہ نویس شاعر اپنی شاعری نما‬
‫تحریروں میں چونکانے کا عمل تو دکھا سکتے ہیں۔۔۔تروتازگی کا وہ حسن نہیں جو شاعری کا جمال اور شعریت کی روح ہے۔۔‬
‫ایک دوسری غلط فہمی مالحظہ ہو۔کہ عشرہ کو عالحدہ صنف کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔۔صنف تو ایک ہی ہے نظم۔۔‬
‫ویسے یہ نیا تجربہ اس لیے بھی نہیں کہ قبل ازیں مخمس‪،‬مسدس‪،‬ثالثی کے تجربے موجود ہیں۔۔جن میں مصرعوں کی تعداد‬
‫طے شدہ ہے۔۔‬
‫پھر یہ بھی دیکھیں کہ آپ کو پابند نظم‪،‬آزاد نظم‪،‬معری نظم اور نثری نظم کے اندر یہ سہولت ۔وجود ہے کہ شاعر چاہے تو‬
‫دس مصرعوں کی نظم کہیں یا گیارہ مصرعوں کی یا پانچ نو مصرعوں کی نظم شاعر کو اپنی طبع رواں اور تخلیقی بہاوء پر‬
‫منحصر ہے کہ وہ جہاں مناسب سمجھے نظم کو ختم کرے۔۔۔تاکہ متن کی قراءت میں کوئی تشنگی نا ہو۔۔اس کے برعکس‬
‫عشرہ میں شاعر کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ اس نے اپنے مزاج پر جبر کرکے ہر حال میں دس مصرعوں پر نظم ختم کر دینی‬
‫ہے۔۔اب ظاہر ہے اس جبر کے ہاتھوں اس نے اپنے تخلیقی بہاوء اور طبع رواں کو ایک محدود دائرے میں قید رکھنا ہوتا ہے۔۔‬
‫چاہے نظم کے کتنے اندر آگے بڑھنے کے ہزار امکانات ہو پابندی اور جبر کی وجہ سے وہ ان امکانات کو دریافت نہیں کر پائے‬
‫گا۔۔یوں ناصرف موضوع سے انصاف نہیں ہوسکا بلکہ نظم کا جمال بھی مجروح ہوگا۔۔اور وہ کیفیت بھی نہیں بن سکے گی جو‬
‫شاعری کا مقصود ہے۔۔‬
‫یہاں پر تجربے کا جواز ہی ختم کو جاتا ہے کہ تجربہ امکانات کی دریافت کا نام ہے۔۔یہ کسی بھی جبر کے خالف تخلیق کار‬
‫کا مزاحمتی رویہ ہے۔۔عشرہ تو ایک نئی پابندی اور جبر کے نفاذ کی شعوری کوشش ہے۔۔جو نظم کے مزاج ہی کے خالف ہے۔‬
‫اور یہ نظم کی روایت کا تسلسل بھی نہیں‬
‫آئیں دیکھیں نظم کی روایت کیا ہے۔۔اس روایت کی وسعت کا مزاج کیا ہے۔۔‬
‫پابند نظم نے آزادی پائی تو معری نظم کی ساخت وجود میں آئی۔۔جب معری نظم میں شاعر نے پابندی اور اظہار میں جبر‬
‫محسوس کیا تو آزاد نظم وجود میں آئی۔۔آزاد نظم میں جب وزن کی پابندی نے تخلیقی بہاوء کا راستہ روکا تو نثری نظم کی‬
‫صورت میں نظم بے ایک اور اجتہادی کروٹ لی۔۔مذکورہ تمام تجربات نظم کی روایت کی وسعت کے سانچے ہیں۔۔اب عشرہ‬
‫کو دیکھا جائے تو دس مصرعوں پر زبردستی اصرار کا نظم کی روایت سے کیا رشتہ بنے گا۔۔‬
‫۔نظم میں تجربہ وقت اور روایت کا اختیار ہے۔۔جس کی تیاری عشروں میں ہوتی ہے۔۔لمحوں میں نہیں۔۔۔عشرہ کی سہولت‬
‫معری نظم‪،‬آزاد نظم اور نثری نظم کے اسلوب میں پہلے سے موجود ہے۔۔پھر عشرہ کو نیا تجربہ کیوں کہا جائے کیا آزاد نظم‬
‫میں دس مصرعوں کی نظم کہنے پر کوئی قدغن ہے۔۔کیا دس مصرعوں کی نثری نظم کہنے پر پابندی ہے۔۔اگر یہ امکانات پہلے‬
‫سے موجود ہیں۔۔تو پھر عشرہ کوئی عالحدہ شعری وجود کا نام نہیں۔۔آپ جسے عشرہ کہہ رہے ہیں اس میں معری‪،‬آزاد اور‬
‫نثری نظم کے خدوخال بھی ہیں۔۔بس تخلیقی بصیرت سے اسے دیکھنا چاہیے۔۔ناکہ انفرادیت کے زعم میں آکر نظم کی روایت‬
‫کو بندگلی میں دھکیلنے کی ناکام کوشش سے نظم کی روایت سے عدم واقفیت کا الشعوری اظہار۔۔‬

‫خواتین و حضرات! آپ نے ادریس بابر کے جعلی عشروں کے معتلق اسحاق وردگ صاحب کا تجزیہ مالحظہ کیا۔ اب ہم فیصلہ‬
‫‪:‬آپ پر چھوڑتے ہیں۔ آئیے بڑھتے ہیں ادریس بابر کے ایک عشرے کی طرف‬

‫پہیہ وہی تو پہیے کی ایجاد بهی وہی‬

‫دو پٹریوں کو پیٹتی روداد بهی وہی‬

‫معیار بهی کلیشوں کا تعداد بهی وہی‬

‫مضمون آفرینی کی میعاد بهی وہی‬

‫حتی کہ داد بهی وہی فریاد بهی وہی‬

‫یہ حال ہے کہیں سے اٹها لو کوئی غزل‬

‫موزوں کالم محض کہ اچهی بهلی غزل‬

‫تیرہ سو پانچ ہجری میں لکهی گئی غزل‬

‫یا دو ہزار بیس کی گویا نئی غزل‬

‫خواتین و حضرات! ادریس بابر کے یہ دس مصرعے آپ نے مالحظہ کیے۔ ادریس بابر یہاں یہی کہتے پائے جا رہے ہیں کہ‬
‫تیرہ سو پانچ ہجری سے سن دو ہزار بیس تک جتنے شعراء ہوئے سب پرانے ہیں ان کی نظر میں کوئی جدید شاعر نہیں ہے‬
‫اور یوں وہ صر ف خود کو جدید بلکہ یزید شاعر سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتالء ہیں۔ اس میں ادریس بابر غزل سے‬
‫نفرت کو جو بیان کر رہے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ خود کیوں غزل لکھتے ہیں؟ اگر وہ اتنے ہی بڑے شاعر‬
‫ہیں اور خود کو اتنا ہی اہم دماغ سمجھتے ہیں تو اردو شاعری میں کیوں جھک مار رہے ہیں؟ وہ ڈینمارک یا ناروے میں جا‬
‫کر ڈینش یا نارویجن زبان میں شاعری کر کے دنیا کے بڑے ادیب کیوں نہیں بنتے؟ اگر اُنہیں غزل کی صنف سے‪ ،‬جس نے‬
‫انہیں اتنی شہرت دی ہے‪ ،‬اتنی ہی نفرت ہے اور اتنی ہی ِچ ڑ ہے تو اینٹی غزل رویہ اور صرف اور صرف چند نوجوان جو‬
‫اِ س وجہ سے ان کے حلقہ ء اثر میں آ چکے ہیں کہ ادریس بابر نے انہیں اپنے فلیٹ میں رکھا ہوا ہے اور انہیں کھانے‬
‫کھالتے شرابیں پالتے ہیں۔ صرف خوشنودی ظاہر کرنے کے لیے۔۔۔ اور یہ نوجوان بھی وہی ہیں جنہیں ادبی دنیا میں کوئی بھی‬
‫نہیں جانتا ۔۔۔ صرف ادریس بابر کے چمچے اور ڈونگے ہونے کی وجہ سے کہیں نہ کہیں اُن کی رسائی ہے۔ یا پھر یو ای ٹی‬
‫لٹریری سوسائٹی کے اوپر انہوں نے قبضہ کیا ہوا ہے اورلوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف‬
‫انجنیئرنگ کو بھی چاہئے کہ ایسے لوگوں کا ناطقہ بند کرے تاکہ اردو ادب کی خرا بی کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کی بدنامی‬
‫بھی جو ہورہی ہے وہ بھی رک جائے اور ملک و قوم پر احسان ہو سکے۔‬

‫آخر میں ادبی دنیا کے لیے ہم دس سوال چھوڑے جا رہے ہیں‬

‫پہال سوال‪ :‬عشرہ صنف جو نظم کی ایک فارم ہے‪ ،‬اسے علیحدہ صنف کیوں کہا جائے؟‬
‫اظہار رائے پر قدغن نہیں؟‬
‫ِ‬ ‫دوسرا سوال‪ :‬کیا دس مصرعوں کی پابندی‬
‫تیسرا سوال‪ :‬کیا عشرے کا بنیادی مقصد اپنی ادریس بابر کی اپنی نرگسیت کا اظہار نہیں؟‬
‫چوتھا سوال‪ :‬کیا شاعر پہلے سے یہ طے کر کے نظم لکھتا ہے کہ اس نے ہر حال میں دس مصرعوں ہی میں بات ختم کرنی‬
‫ہے؟‬
‫پانچواں سوال‪ :‬ادریس بابر نے باقاعدہ گروہ بندی کر کے ادبی سیاست کر کے عشرے کو مقبولیت دینے کی جو کوشش کی‪،‬‬
‫اس میں ناکام نہ ہوئے؟ کیا عشرہ ناکام نہیں ہوا؟‬
‫چھٹا سوال‪ :‬سنجیدہ اور معتبر نقاد اب تک عشرے کی حمایت میں کیوں نہ بولے؟‬
‫ساتواں سوال‪ :‬جب اسحاق وردگ نے ادریس کے عشروں کو علمی بنیادوں پر رد کیا تو ادریس بابر نے اسحق وردگ کے خالف‬
‫مہم چالئی‪ ،‬تب کوئی کیوں نہ بوال؟‬
‫نواں سوال‪ :‬جب آزاد نظم‪ ،‬معری نظم اور نثری نظم میں دس مصرعوں کی گنجائش موجود ہے تو پھر عشرے کا کیا جواز بنتا‬
‫ہے؟‬
‫دسواں سوال‪ :‬اگر دس مصرعوں کی نظم کو علیحدہ صنف مان لیا جائے تو پھر نو مصرعوں اور گیارا مصرعوں کی نظم کو کیا‬
‫کہیں گے۔‬

‫خواتین و حضرات! سو لفظوں کی کہانی کے بعد دس مصرعوں کی نظم کا انجام بھی سامنے آ چکا ہے۔ یہاں تنقیدی سیشن‬
‫کا اختتام ہوتا ہے۔ اگلے تنقیدی سیشن میں ہم زبیر قیصر کی غزل کا تنقیدی جائزہ لیں گے اور ان کی ادبی خدمات پر بھی‬
‫بات چیت کی جائے گی۔ تب تک ہمارے ساتھ رہیے اور تنقید یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریکں۔ بہت شکریہ‬

You might also like