Professional Documents
Culture Documents
آج ہم یو ای ٹی لٹریری سوسائٹی کی ادبی مافیا کے سردار جناب ادریس بابر کے عشروں کے حوالے سے گفتگو کریں گے۔
صنف سخن ہے جو کمزور سے کمزور شاعر کو ِ ادریس بابر جن کی وجہ ء شہرت اردو غزل ہے اور غزل ایسی غریب پرور
بھی ایک آدھ مصرعہ یا شعر دے دیتی ہے۔ جبکہ ادریس بابر جن کی وجہ ء شہرت ہی غزل ہے اُنہوں نے آج غزل دشمنی
میں ا ُن تمام لوگوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جنہوں نے ماضی میں ہر طرح کی کوششیں کیں اور وہ ناکام ہوئے۔ ادریس بابر
بنیادی طور پر شہرت اور ہوس کے طلبار ہیں اور اس کی صرف اور صرف بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی جانب
متوجہ رکھنا چاہتے ہیں۔ بالخصوص نوجوان لڑکوں کو۔ ا ُن کے نوجوان لڑکوں سے متعلق کئی سکینڈل سامنے آ چکے ہیں۔ گزشتہ
غزل مقابلہ جیتنے کی غرض سے ویڈیو میں ہم کشمیر کے ایک عینکو اینکر شاعر پر تفصیلی بات کر چکے ہیں جو
ادریس بابر کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔اب جب غزل میں ادریس بابر کے تخلیقی جوہر کھل کر سامنے نہیں آ رہے تو انہوں نے
صنف سخن ہے جسے ادریس بابر نے اپنے تئیں ِ ایک بھونڈا مذاق عشرے کے نام پر شروع کیا ۔ عشرہ ایک ایسی بھونڈی
صنف سخن بتاتے پھرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ عشرہ دس ِ ایجاد کیا ہے۔ وہ اسے نظم اور نثر سے الگ تھلک ایک تیسری
مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ خواتین و حضرات! اس سے پہلے کہ ہم ادریس بابر کے عشروں کا تنقیدی جائزہ لیں ،آئیے
ردگ صاحب کی جانب سے پیش کیے گئے تجزیے کے چند نکات پر بات سب سے پہلے معروف شاعر اور دانشور اسحاق َو َ
کر لیتے ہیں۔
اسحاق وردگ صاحب کی پوسٹ آپ کے سامنے ہے جو انہوں نے نومبر 2018میں کی تھی۔ ااس پوسٹ میں اسحاق وردگ
:صاحب بیان کرتے ہیں کہ
شاعری میں تجربے ضرورت اور سہولت کے تحت وجود میں آتے ہیں۔۔یہ شعری روایت وسعت کی کاوش کا نام ہے ہر تجربہ
جو شعری روایت کو جمود کے سپرد کرے روایت کا حصہ نہیں بن سکتا۔گویا تجربہ جدت پسندی کا نام ہے۔۔اور جدت پسندی
کا مقصد مستقبل کی روایت کا حصہ بننا ہے۔۔
عشرہ اس لیے بھی ناکام تجربہ ہے کہ اس میں شاعر آغاز سے ہی طے کر لیتا ہے کہ میں نے دس مصرعے پورے کرنے
ہیں۔چاہے نظم میں آگے بڑھنے کے ہزار امکانات ہی کیوں نہ ہوں۔
گویا نظم کو مجبوری اور ایک عجلت کے عالم میں بند گلی میں ہانکنا ہوتا ہے
یہی وجہ ہے کہ عشرہ کا ناکام تجربہ ایک البی کے طور پر تو کبھی کبھار نظر آ جاتا ہے۔۔ لیکن رجحان کے طور پر ابھی
مین سٹریم میں نہیں آیا۔۔۔
جدید نظم کی واحد خوبی ہی اس کے مزاج کی آزاد لہر ہے۔۔۔اور عشرہ نظم سے یہ آزادی چھیننے کی الشعوری کاوش یے۔
مثال کے طور پر نثری نظم جس کی کامیابی کا راز ہی وزن کی زنجیر توڑنا ہے۔۔ اس لیے عشرہ نویس شاعر اپنی شاعری نما
تحریروں میں چونکانے کا عمل تو دکھا سکتے ہیں۔۔۔تروتازگی کا وہ حسن نہیں جو شاعری کا جمال اور شعریت کی روح ہے۔۔
ایک دوسری غلط فہمی مالحظہ ہو۔کہ عشرہ کو عالحدہ صنف کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔۔صنف تو ایک ہی ہے نظم۔۔
ویسے یہ نیا تجربہ اس لیے بھی نہیں کہ قبل ازیں مخمس،مسدس،ثالثی کے تجربے موجود ہیں۔۔جن میں مصرعوں کی تعداد
طے شدہ ہے۔۔
پھر یہ بھی دیکھیں کہ آپ کو پابند نظم،آزاد نظم،معری نظم اور نثری نظم کے اندر یہ سہولت ۔وجود ہے کہ شاعر چاہے تو
دس مصرعوں کی نظم کہیں یا گیارہ مصرعوں کی یا پانچ نو مصرعوں کی نظم شاعر کو اپنی طبع رواں اور تخلیقی بہاوء پر
منحصر ہے کہ وہ جہاں مناسب سمجھے نظم کو ختم کرے۔۔۔تاکہ متن کی قراءت میں کوئی تشنگی نا ہو۔۔اس کے برعکس
عشرہ میں شاعر کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ اس نے اپنے مزاج پر جبر کرکے ہر حال میں دس مصرعوں پر نظم ختم کر دینی
ہے۔۔اب ظاہر ہے اس جبر کے ہاتھوں اس نے اپنے تخلیقی بہاوء اور طبع رواں کو ایک محدود دائرے میں قید رکھنا ہوتا ہے۔۔
چاہے نظم کے کتنے اندر آگے بڑھنے کے ہزار امکانات ہو پابندی اور جبر کی وجہ سے وہ ان امکانات کو دریافت نہیں کر پائے
گا۔۔یوں ناصرف موضوع سے انصاف نہیں ہوسکا بلکہ نظم کا جمال بھی مجروح ہوگا۔۔اور وہ کیفیت بھی نہیں بن سکے گی جو
شاعری کا مقصود ہے۔۔
یہاں پر تجربے کا جواز ہی ختم کو جاتا ہے کہ تجربہ امکانات کی دریافت کا نام ہے۔۔یہ کسی بھی جبر کے خالف تخلیق کار
کا مزاحمتی رویہ ہے۔۔عشرہ تو ایک نئی پابندی اور جبر کے نفاذ کی شعوری کوشش ہے۔۔جو نظم کے مزاج ہی کے خالف ہے۔
اور یہ نظم کی روایت کا تسلسل بھی نہیں
آئیں دیکھیں نظم کی روایت کیا ہے۔۔اس روایت کی وسعت کا مزاج کیا ہے۔۔
پابند نظم نے آزادی پائی تو معری نظم کی ساخت وجود میں آئی۔۔جب معری نظم میں شاعر نے پابندی اور اظہار میں جبر
محسوس کیا تو آزاد نظم وجود میں آئی۔۔آزاد نظم میں جب وزن کی پابندی نے تخلیقی بہاوء کا راستہ روکا تو نثری نظم کی
صورت میں نظم بے ایک اور اجتہادی کروٹ لی۔۔مذکورہ تمام تجربات نظم کی روایت کی وسعت کے سانچے ہیں۔۔اب عشرہ
کو دیکھا جائے تو دس مصرعوں پر زبردستی اصرار کا نظم کی روایت سے کیا رشتہ بنے گا۔۔
۔نظم میں تجربہ وقت اور روایت کا اختیار ہے۔۔جس کی تیاری عشروں میں ہوتی ہے۔۔لمحوں میں نہیں۔۔۔عشرہ کی سہولت
معری نظم،آزاد نظم اور نثری نظم کے اسلوب میں پہلے سے موجود ہے۔۔پھر عشرہ کو نیا تجربہ کیوں کہا جائے کیا آزاد نظم
میں دس مصرعوں کی نظم کہنے پر کوئی قدغن ہے۔۔کیا دس مصرعوں کی نثری نظم کہنے پر پابندی ہے۔۔اگر یہ امکانات پہلے
سے موجود ہیں۔۔تو پھر عشرہ کوئی عالحدہ شعری وجود کا نام نہیں۔۔آپ جسے عشرہ کہہ رہے ہیں اس میں معری،آزاد اور
نثری نظم کے خدوخال بھی ہیں۔۔بس تخلیقی بصیرت سے اسے دیکھنا چاہیے۔۔ناکہ انفرادیت کے زعم میں آکر نظم کی روایت
کو بندگلی میں دھکیلنے کی ناکام کوشش سے نظم کی روایت سے عدم واقفیت کا الشعوری اظہار۔۔
خواتین و حضرات! آپ نے ادریس بابر کے جعلی عشروں کے معتلق اسحاق وردگ صاحب کا تجزیہ مالحظہ کیا۔ اب ہم فیصلہ
:آپ پر چھوڑتے ہیں۔ آئیے بڑھتے ہیں ادریس بابر کے ایک عشرے کی طرف
خواتین و حضرات! ادریس بابر کے یہ دس مصرعے آپ نے مالحظہ کیے۔ ادریس بابر یہاں یہی کہتے پائے جا رہے ہیں کہ
تیرہ سو پانچ ہجری سے سن دو ہزار بیس تک جتنے شعراء ہوئے سب پرانے ہیں ان کی نظر میں کوئی جدید شاعر نہیں ہے
اور یوں وہ صر ف خود کو جدید بلکہ یزید شاعر سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتالء ہیں۔ اس میں ادریس بابر غزل سے
نفرت کو جو بیان کر رہے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ خود کیوں غزل لکھتے ہیں؟ اگر وہ اتنے ہی بڑے شاعر
ہیں اور خود کو اتنا ہی اہم دماغ سمجھتے ہیں تو اردو شاعری میں کیوں جھک مار رہے ہیں؟ وہ ڈینمارک یا ناروے میں جا
کر ڈینش یا نارویجن زبان میں شاعری کر کے دنیا کے بڑے ادیب کیوں نہیں بنتے؟ اگر اُنہیں غزل کی صنف سے ،جس نے
انہیں اتنی شہرت دی ہے ،اتنی ہی نفرت ہے اور اتنی ہی ِچ ڑ ہے تو اینٹی غزل رویہ اور صرف اور صرف چند نوجوان جو
اِ س وجہ سے ان کے حلقہ ء اثر میں آ چکے ہیں کہ ادریس بابر نے انہیں اپنے فلیٹ میں رکھا ہوا ہے اور انہیں کھانے
کھالتے شرابیں پالتے ہیں۔ صرف خوشنودی ظاہر کرنے کے لیے۔۔۔ اور یہ نوجوان بھی وہی ہیں جنہیں ادبی دنیا میں کوئی بھی
نہیں جانتا ۔۔۔ صرف ادریس بابر کے چمچے اور ڈونگے ہونے کی وجہ سے کہیں نہ کہیں اُن کی رسائی ہے۔ یا پھر یو ای ٹی
لٹریری سوسائٹی کے اوپر انہوں نے قبضہ کیا ہوا ہے اورلوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف
انجنیئرنگ کو بھی چاہئے کہ ایسے لوگوں کا ناطقہ بند کرے تاکہ اردو ادب کی خرا بی کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کی بدنامی
بھی جو ہورہی ہے وہ بھی رک جائے اور ملک و قوم پر احسان ہو سکے۔
پہال سوال :عشرہ صنف جو نظم کی ایک فارم ہے ،اسے علیحدہ صنف کیوں کہا جائے؟
اظہار رائے پر قدغن نہیں؟
ِ دوسرا سوال :کیا دس مصرعوں کی پابندی
تیسرا سوال :کیا عشرے کا بنیادی مقصد اپنی ادریس بابر کی اپنی نرگسیت کا اظہار نہیں؟
چوتھا سوال :کیا شاعر پہلے سے یہ طے کر کے نظم لکھتا ہے کہ اس نے ہر حال میں دس مصرعوں ہی میں بات ختم کرنی
ہے؟
پانچواں سوال :ادریس بابر نے باقاعدہ گروہ بندی کر کے ادبی سیاست کر کے عشرے کو مقبولیت دینے کی جو کوشش کی،
اس میں ناکام نہ ہوئے؟ کیا عشرہ ناکام نہیں ہوا؟
چھٹا سوال :سنجیدہ اور معتبر نقاد اب تک عشرے کی حمایت میں کیوں نہ بولے؟
ساتواں سوال :جب اسحاق وردگ نے ادریس کے عشروں کو علمی بنیادوں پر رد کیا تو ادریس بابر نے اسحق وردگ کے خالف
مہم چالئی ،تب کوئی کیوں نہ بوال؟
نواں سوال :جب آزاد نظم ،معری نظم اور نثری نظم میں دس مصرعوں کی گنجائش موجود ہے تو پھر عشرے کا کیا جواز بنتا
ہے؟
دسواں سوال :اگر دس مصرعوں کی نظم کو علیحدہ صنف مان لیا جائے تو پھر نو مصرعوں اور گیارا مصرعوں کی نظم کو کیا
کہیں گے۔
خواتین و حضرات! سو لفظوں کی کہانی کے بعد دس مصرعوں کی نظم کا انجام بھی سامنے آ چکا ہے۔ یہاں تنقیدی سیشن
کا اختتام ہوتا ہے۔ اگلے تنقیدی سیشن میں ہم زبیر قیصر کی غزل کا تنقیدی جائزہ لیں گے اور ان کی ادبی خدمات پر بھی
بات چیت کی جائے گی۔ تب تک ہمارے ساتھ رہیے اور تنقید یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریکں۔ بہت شکریہ