Professional Documents
Culture Documents
Module: 33
Paper: GAZAL
Topic: Asrarul Haq Khan Majroh Sultanpuri
Content writer: Prof.Khwaja Md Ekramuddin
Jawaharlal Nehru University, New Delhi
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi
مجروح کی پیدائش 1919کی ہے۔ فیض و مجاز 1911جذبی 1912 ،میں اور مخدوم جو عمر میں
اپنے دیگر ساتھیوں سے بڑےتھے 1908میں پیدا ہوئے تھے۔ سب سے کم عمر مجاز نےپائی۔
44برس کی عمر ہی میں رخصت ہوگئے۔ مجروح نے 79برس کی بھرپور عمر پائی اور شعری
حجم کے اعتبار سے مجاز سے بھی قلیل سرمایہ چھوڑا۔ مخدوم ان شعرا میں معمر تھے اور ترقی
پسندوں میں سب سے پہلے وہ سنجیدگی کے ساتھ غزل کی طرف متوجہ ہوئے۔ غزلیں کم کہیں
لیکن اپنی فضا اور امیجری کے لحاظ سے فیض اور مجروح سے قبل انھوں نے غزل میں رومان
و حقیقت کے تخلیقی امتزاج کا نمونہ پیش کیا۔
اپنی نوعیت کے لحاظ سے مخدوم کی غزل کا رنگ و آہنگ نیا تھا اور اس کا اثر دوسرے ترقی
پسند شعرا پر بھی پڑا جن میں مجروح و فیض بھی شامل ہیں۔ مجروح کے دوران حیات میں فراق
سب سے بڑے غزل گو تھے جن کی غزل کے اثر نے پوری ایک نسل کو اپنے احاطے میں لے لیا
تھا۔ فانی اور حسرت کے اثرات فراق کے مقابلے میں زیادہ شدت اختیار نہیں کرسکے۔ مجاز،
جذبی اور مجروح کی غزل میں فانی اور حسرت دونوں کے اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں
جبکہ مجروح نے غالب کے عالوہ ان کے بزرگ معاصر یگانہ چنگیزی کے آہنگ کا بھی اثر قبول
کیا۔
درج ذیل اشعار میں فانی ،جگر ،فراق اور حسرت کے ملے جلے اثر کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ان
مثالوں میں روایت کا رنگ بھی گہرا ہے۔ ان میں ‘نیا’ کچھ نہیں ہے۔ ایک امتزاجی رنگ ہے ،جو
اور دوسرے شعرا کے یہاں بھی ملتا ہے۔ تغزل کی کیفیت نے مجروح کے شروع کے دور کی
غزلوں کو جو چمک عطا کی ہے وہ بعد کی غزلوں میں تھوڑے سے بلند آہنگ کے ساتھ برقرار
ہے۔ تغزل کی یہ کیفیت فیض کی غزلوں کو بھی تب و تاب بخشتی ہے۔
مجروح کے امتزاجی رنگ کی نوعیت کیا ہے۔ درج ذیل اشعار سے یہ بات اور واضح ہوجائے گی۔
ان اشعار میں بھی الفاظ کو برتنے کا ایک خاص سلیقہ ہے۔ لہجے میں ایک خاص قسم کی مٹھاس
اور نرمی ہے ،تخیل کی نزاکت اور بیان میں لطافت ہے۔ احساس و جذبے کی ادائگی میں خود
ضبطی کا جوہر بھی پایا جاتا ہے۔ یہ غزلیں مجروح کے مستقبل کی شاعری کے امکانات کی طرف
بھی اشارہ کرتی ہیں:
اکثر تو رہ گیا ہوں جھکا کر نظر کس کس کو ہائے تیرے تغافل کا دوں
میں کو جواب
واں شمع جالئی جائے گی، جس شوخ نظر کی محفل میں ،آنسو
پروانے کا ماتم کیا ہوگا جائے بن تبسم بھی
یونہی کب تلک خدایا غم زندگی بنا یہ ُرکے ُرکے سے آنسو یہ گھٹی
ہیں آہیں سی گھٹی
ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے
دیتے لیے
تری آرزو نے ہنس کر وہیں ڈال کبھی جادہ طلب سے جو پھرا ہوں
بانہیں ہیں دی شکستہ دل
جی کھول کے خود پر ہنس نہ مجروح مرے ارمانوں کا انجام
سکوں اتنا بھی مجھے غم کیا سہی ہی دل شکست
ہوگا
ہر قدم ہے نقش دل ہر نگہ رگ دور دور مجھ سے وہ اس طرح
ہے جاں ہے خراماں
سوچتی رہی دنیا کفر ہے کہ ایماں ہم تو پائے جاناں پر کر بھی آئے اک
ہے سجدہ
محمدعلی صدیقی نے بھی مجروح کی غزلوں میں تغزل کے عنصر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے
کہ ‘‘مجروح نے تغزل کی قیمت پر سیاسی آدرشوں اور سیاسی آدرشوں کی قیمت پر تغزل کو
خیرباد کہنے کا جو عزم صحیح کررکھا ہے اس کی وجہ سے وہ ایک نوع کے ہیئت پرست شاعر
معلوم ہوتے ہیں۔ مجروح کی غزل کا محبوب کالسیکی شعرا کی غزل کے محبوب سے چنداں
مختلف نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجروح تغزل سے بھرپور کام لیتے ہیں
درج باال اشعار میں جو لہجہ ہے اس میں مالئمیت کے ساتھ نسائیت بھی ہے اور رقّت بھی۔ جب کہ
مجروح کی غزل کا حاوی رجحان ان کی اس کھنک دار آواز میں پنہاں ہے جس میں سینہ سپہری
اور ستیزہ کاری کا عنصر ہے ایک سپاہی کی طرح ان میں استقالل و اعتماد پایا جاتا ہے اور وہ
حاالت کی سنگینی کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر یقین نہیں کرتے۔ ان کے شعروں میں جو والہانہ پن
کی صورت نظر آتی ہے وہ ایک دم پیدا نہیں ہوئی۔ آہستہ آہستہ وہ ان کا ایک خاص انداز بن گیا۔
مثال :
رقص کرنا ہے تو پھر پاوں کی زنجیر دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن
دیکھ نہ بہار جوش
سوچتی رہی دنیا کفر ہے کہ ایماں ہے ہم تو پائے جاناں پر کر بھی آئے اک
سجدہ
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ جال کے مشعل جاں ہم جنوں صفات
چلے چلے
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے
داغ
سب ہمیں باہوش سمجھیں چاہے دیوانہ دار پر چڑھ کر لگائیں نعرہ زلف صنم
کہیں
لوگ ساتھ آتے گئے کارواں بنتا گیا میں اکیال ہی چال تھا جانب منزل مگر
مجروح کے یہ اشعار ان کے معاصرین سے مختلف بھی ہیں اور مجروح کا اصل لہجہ اور ان کی
اصل انفرادیت کا راز بھی ان میں مضمر ہے۔
مجروح کی غزل کا استعاراتی نظام
ہماری تنقید میں بحث کا ایک خاص موضوع فیض و مجروح کی غزل کا تقابل ہے۔ اس کی ایک
بڑی وجہ تو یہ ہے کہ دونوں ترقی پسند ہیں اور معاصر بھی۔ عالوہ اس کے دونوں کی غزل،
ترقی پسند غزل کی آبرو ہے۔ تیسری بات یہ کہ دونوں کی غزل کے اسلوب میں کسی حد تک
مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ بحث بھی کی جاتی رہی ہے کہ مجروح کی غزل فیض سے مقدم
ہے یا فیض کی غزل مجروح سے مقدم ہے۔ اس سلسلے میں خود مجروح نے بھی اپنے کئی
اولیت دی ہے۔
انٹرویوز میں خود کو ّ
مجروح کی غزل جمال کے ساتھ جالل کی بھی نمائندگی کرتی ہے۔ فیض کے یہاں درد مند لہجہ ہے
جس کے باعث ان کا آہنگ کم ہی جالل انگیز ہوتا ہے۔ مجروح کے یہاں فیض سے زیادہ لفظی در و
بست کا شعور ہے۔ محمد علی صدیقی کا بھی یہ کہنا ہے کہ مجروح اور فیض میں واضح طور پر
لہجے کا فرق ہے اور یہ کہ لہجے کا فرق صاف بتا رہا ہے کہ مجروح ’ ایقان‘کی بے پناہ جرات
اور اعتماد کی وجہ سے فیض احمد فیض کے مقابلے میں زیادہ قطعیت پسند CATEGORICAL
ہیں۔’’
اس طرح کی کم زور و پست مثالیں کم زور لمحوں کی تخلیق ہوتی ہیں جس سے بڑے سے بڑے
شاعر کا دامن خالی نہیں ہے۔ ہمارے سب سے اہم اور بڑے شاعر میر تقی میر کے کالم کا دامن تو
کم زور لمحوں کی شاعری سےبھرا پڑا ہے۔ رشید احمد صدیقی بھی مجروح کی شاعری کے
قدردان ہیں لیکن وہ بھی مجروح کے اس رویّے سے شاکی تھے اور انھوں نے یہ کہا تھا
مجموعی طور پر مجروح کی انفرادیت مسلّم ہے۔ وہ ترقی پسند شاعر تھے لیکن آئندہ زمانہ
محض ایک غیرنظریاتی طور پر بھی ان کا مطالعہ کرے گا تو اردو غزل کی تاریخ میں ایک بلند
مقام ضرور دے گا۔ جیسا کہ آج بھی ہمارے کئی نقادوں کی نظر میں وہ ایک بلند مقام رکھتے ہیں۔
چودھری محمد نعیم کا یہ کہنا درست ہے کہ:
مجروح کی غزل اس صدی کی اردو غزل کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس میں ہمیں
اپنے بہت سے عصری تقاضو نکا جواب اور بہت سی لمحاتی صداقتوں کا اظہار
مل جاتا ہے۔ یہ اظہار ایک ایسی زبان میں ہوا ہے جو غنائیت سے بھرپور ہے
اور ایک ایسے اسلوب میں کیا گیا ہے جو ہماری روایت سے وابستہ عمدہ غزل
کا طرہ امتیاز رہاہے اور جس کو آتش نے مرصع سازی کہا تھا۔ اگر اب بھی آپ
کو اعتبار نہ آیا ہو تو یہ آخری شعر ضرور آپ کو قائل کردے گا:
بس پھیر کے منہ خار قدم کھینچ رہے تھے
ہے سفراں ہم قافلہ نہاں تو دیکھا
(مجروح سلطان پوری :مقام اور کالم ،ص )164
07۔خالصہ)(SUMMARY
مجروح ایک ترقی پسند شاعر ہیں ،انھوں نے ایک ایسے دور میں غزل سے گہرا رشتہ قائم رکھا
اور اعلی درجہ کی غزلوں سے اردو شاعری کو ماالمال کیا جب ترقی پسند اور کئی غیرترقی پسند
حضرات غزل کو بے وقت کی راگنی کے نام سے موسوم کررہے تھے۔ مجروح اور فیض نے غزل
کو اپنی ترقی پسند فکر کی آب دے کر اسے ایک نئے رنگ میں پیش کیا ،جس میں کالسیکی غزل
کے بہترین عناصر کی پاس داری بھی ہے۔ تغزل کا لحاظ بھی ہے اور کھردری حقیقتوں کا بیان
بھی۔ اردو غزل کی تاریخ میں تغزل کے اعتبار سے یہ ایک نیا تجربہ تھا جس نے یہ بھی ثابت کیا
کہ غزل کی داخلی ساخت میں بے حد لچک ہے۔ اس میں کسی بھی ذہنی اور خارجی تجربے کو
ڈھاال جاسکتا ہے۔ مجروح نے خارجی موثرات کو جو زبان دی ہے وہ جالل و جمال کا مرکّب ہے۔
اس میں پختہ کاری ہے ،لفظوں کو ایک خاص طریقے سے ادا کرنے کا ہنر ہے۔ مجروح کے یہاں
ایک والہانہ پن ،سرمستی کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے اور اعتماد و استقالل بھی ان کے لہجے کو
ایک خاص وقار عطا کرتا ہے۔ مجروح نے غزل کو غزل کے تقاضوں کے ساتھ قائم کرنے کی جو
روش اختیار کی ،اس کی ایک اہمیت تو عصری ہے دوسرے انھوں نے فکر وفن کے امتزاج کی
ایک ایسی مثال بھی قائم کی جو بعد کی نسلوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوسکتی ہے۔
08۔ (الف) موضوعی )(SUBJECTIVEسواالت
( )Iمجروح کی سوانح اور شخصیت کا جائزہ لیجیے۔
( )IIمجروح کی غزل کی انفرادیت کیا ہے؟
( )IIIمعاصر غزل گو شعرامیں مجروح کا کیا مقام ہے؟
( )IVمجروح کی غزل میں کس قسم کا استعاراتی نظام ملتا ہے؟
(ب) معروضی ) (OBJECTIVEسواالت( :صحیح کی نشاندہی کیجیے):
( )Iیہ کس نے کہا ہے کہ جہاں کہیں وہ غزل کے آداب سے انحراف کرتے ہیں مضحکہ خیز حد
سرے ہوجاتے ہیں:تک بے ُ
(ب) محمد علی صدیقی (الف) رشید احمد صدیقی
(ج) چودھری محمد نعیم (د) قاضی عبدالغفار
( )IIیہ کس کا قول ہے کہ انھوں نے غزل کے نئے شیشے میں ایک نئی شراب بھر دی ہے؟
(الف) خلیل الرحمن اعظمی (ب) قاضی عبدالغفار
(د) عبدالمغنی (ج) عتیق ہللا
مجروح کے مجموعہ کالم کا نام کیا ہے؟ ()III
(ب) مختصر مختصر (الف) محراب
(د) نقش دوام (ج) مشعل جاں
مجروح کو فیض سے بڑا کس نے مانا ہے؟ ()IV
(ب) احتشام حسین (الف) آل احمد سرور
(د) مجروح سلطان پوری (ج) سردار جعفری
(ج) صحیح /غلط ) (TRUE/FALSEکی نشاندہی کیجیے
( )Iمجروح نظم کے بھی ایک بڑے شاعر ہیں۔ (صحیح/غلط)
( )IIمجروح نے کبھی مزاحیہ شاعری نہیں کی۔ (صحیح/غلط)
( )IIIمجروح کے مجموعہ کالم کا نام ‘غزل’ ہے۔ (صحیح/غلط)
( )IVمجروح کے یہاں جالل و جمال کا امتزاج ملتا ہے۔ (صحیح/غلط)
(د) خالی جگہو ں کو پر کیجیے)(FILL IN THE BLANKS
( )Iمجروح سلطانپوری ایک .............شاعر ہیں۔
( )IIہندوستان میں سجاد ظہیر اور ملک راج آنند کی کوششوں سے .............کا آغاز ہوا۔
( )IIIمجروح کے پہلے مجموعہ کالم کا نام .............ہے۔
( )IVمجروح ،فیض کو اپنا پیش رو اور اپنے سے بڑا .............نہیں کرتے۔
09۔ (الف) اہم بنیادی الفاظ کے معانی )(GLOSSARY
مرکب ،مال جال امتزاج