You are on page 1of 17

Subject: Urdu

Module: 33
Paper: GAZAL
Topic: Asrarul Haq Khan Majroh Sultanpuri
Content writer: Prof.Khwaja Md Ekramuddin
Jawaharlal Nehru University, New Delhi
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi

‫اسرار الحق خاں مجروح سلطان پوری‬


(INTRODUCTION) ‫تمہید‬/‫۔تعارف‬01
‫مجروح سلطان پوری ایک ترقی پسند شاعر ہیں۔ وہ اپنے دوسرے معاصر ترقی پسند شعراکے‬
‫مقابلے میں ایک الگ حیثیت اور ایک الگ درجہ رکھتے ہیں کہ وہ واحد شاعر ہیں جنھوں نے‬
‫نظم کے بجائے غزل کو قبولیت بخشی۔ فیض بھی ایک اہم ترقی پسند غزل گو ہیں اور غزل میں ان‬
‫کی اپنی ایک شناخت بھی ہے‪ ،‬لیکن فیض کو عموما ایک نظم گو کی حیثیت ہی سے بیش تر‬
‫نقادوں نے الئق اعتنا سمجھا۔ ضمنی طور پر ہی فیض کی غزل کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جبکہ مجروح‬
‫صرف اور صرف غزل گو شاعر ہیں اور ان کی ادبی شخصیت غزل ہی سے وابستہ ہے۔‬
‫مجروح نے جب اپنا ادبی سفر شروع کیا تب محض سیاسی سطح پر ہی تمام دنیا بڑی بڑی‬
‫آزمائشوں سے نہیں گزر رہی تھی بلکہ ہندوستان بھی سامراج کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔‬
‫فاشزم کا طوفان جو جرمنی سے اٹھا تھا وہ ایک خوفناک اژدہے کی طرح دوسری مملکتوں کو‬
‫بھی ہڑپ کرنے پر تال ہوا تھا۔ دونوں عظیم جنگوں نے امن عالم کو تہس نہس کردیا تھا۔ ایٹمی‬
‫تباہ کاریوں کے نتیجے کے طور پر سائنس و تکنالوجی سے عالم انسانیت کو خوف آنے لگا تھا۔‬
‫یہ سارا بے یقینی کا دور دنیا کے تمام دانش وروں اور ادیبوں کے لیے زبردست لمحہ فکریہ تھا۔‬
‫جس نے انھیں ایک پلیٹ فارم پر مل ُجل کر کھڑا کردینے پر مجبور کردیا۔ عالمی سطح پر بھی اس‬
‫غیر بشری صورت حال کے خالف ادیبوں کی کئی کانفرنسیں ہوئیں اور انجمنیں قائم ہوئیں۔‬
‫ہندوستان میں سجاد ظہیر اور ملک راج آنند وغیرہ کی کوششوں سے ترقی پسند تحریک کاا ٓٓغاز‬
‫ہوا۔ یہ ادیبوں کی ایک ایسی جماعت تھی جو ہندوستان کی تمام زبانوں کے ادب کی نمائندہ بن کر‬
‫اولین اور بنیادی مقصد ہی انسانیت کو محکومی اور استحصال سے نجات‬ ‫ابھری تھی اور جس کا ّ‬
‫دالنا تھا۔ مجروح کو بھی ترقی پسند تحریک کے تحفظ تہذیب و انسانیت کے تصور میں ایک‬
‫تابناک مستقبل کی جھلک دکھائی دی ا ور جو اس دور کا تقاضہ بھی تھا۔ مجروح نے بھی اپنی‬
‫شاعری کا ُرخ ترقی پسندیت کی طرف موڑ دیا اور غزل کے سب سے بڑے ترقی پسند شاعر‬
‫کہالئے۔‬
‫سبق کا مقصد‬
‫مجروح بنیادی طور پر غزل گو شاعرہیں۔ ترقی پسند تحریک سے ان کی ذہنی و جذباتی وابستگی‬
‫ہے۔ ترقی پسند شعرا میں عام طور پر نظم ہی مقبول تھی کیونکہ نظم میں کسی بھی فکر و‬
‫موضوع کو تسلسل کے ساتھ پیش کیا جاسکتا ہے۔ لیکن مجروح نے نظم کے مقابلے میں غزل کو‬
‫قبولیت بخشی اور اپنی انفرادیت منوائی۔ اس انفرادیت کے بنیادی عناصر کیا ہیں‪ ،‬طلبہ کے‬
‫سامنے یہ ایک بڑا سوال ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے ہم نے درج ذیل عنوانات قائم کے ہیں‬

‫غزل اور مجروح‬

‫مجروح کی پیدائش ‪ 1919‬کی ہے۔ فیض و مجاز ‪ 1911‬جذبی‪ 1912 ،‬میں اور مخدوم جو عمر میں‬
‫اپنے دیگر ساتھیوں سے بڑےتھے ‪ 1908‬میں پیدا ہوئے تھے۔ سب سے کم عمر مجاز نےپائی۔‬
‫‪ 44‬برس کی عمر ہی میں رخصت ہوگئے۔ مجروح نے ‪ 79‬برس کی بھرپور عمر پائی اور شعری‬
‫حجم کے اعتبار سے مجاز سے بھی قلیل سرمایہ چھوڑا۔ مخدوم ان شعرا میں معمر تھے اور ترقی‬
‫پسندوں میں سب سے پہلے وہ سنجیدگی کے ساتھ غزل کی طرف متوجہ ہوئے۔ غزلیں کم کہیں‬
‫لیکن اپنی فضا اور امیجری کے لحاظ سے فیض اور مجروح سے قبل انھوں نے غزل میں رومان‬
‫و حقیقت کے تخلیقی امتزاج کا نمونہ پیش کیا۔‬
‫اپنی نوعیت کے لحاظ سے مخدوم کی غزل کا رنگ و آہنگ نیا تھا اور اس کا اثر دوسرے ترقی‬
‫پسند شعرا پر بھی پڑا جن میں مجروح و فیض بھی شامل ہیں۔ مجروح کے دوران حیات میں فراق‬
‫سب سے بڑے غزل گو تھے جن کی غزل کے اثر نے پوری ایک نسل کو اپنے احاطے میں لے لیا‬
‫تھا۔ فانی اور حسرت کے اثرات فراق کے مقابلے میں زیادہ شدت اختیار نہیں کرسکے۔ مجاز‪،‬‬
‫جذبی اور مجروح کی غزل میں فانی اور حسرت دونوں کے اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں‬
‫جبکہ مجروح نے غالب کے عالوہ ان کے بزرگ معاصر یگانہ چنگیزی کے آہنگ کا بھی اثر قبول‬
‫کیا۔‬

‫درج ذیل اشعار میں فانی‪ ،‬جگر‪ ،‬فراق اور حسرت کے ملے جلے اثر کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ان‬
‫مثالوں میں روایت کا رنگ بھی گہرا ہے۔ ان میں ‘نیا’ کچھ نہیں ہے۔ ایک امتزاجی رنگ ہے‪ ،‬جو‬
‫اور دوسرے شعرا کے یہاں بھی ملتا ہے۔ تغزل کی کیفیت نے مجروح کے شروع کے دور کی‬
‫غزلوں کو جو چمک عطا کی ہے وہ بعد کی غزلوں میں تھوڑے سے بلند آہنگ کے ساتھ برقرار‬
‫ہے۔ تغزل کی یہ کیفیت فیض کی غزلوں کو بھی تب و تاب بخشتی ہے۔‬
‫مجروح کے امتزاجی رنگ کی نوعیت کیا ہے۔ درج ذیل اشعار سے یہ بات اور واضح ہوجائے گی۔‬
‫ان اشعار میں بھی الفاظ کو برتنے کا ایک خاص سلیقہ ہے۔ لہجے میں ایک خاص قسم کی مٹھاس‬
‫اور نرمی ہے‪ ،‬تخیل کی نزاکت اور بیان میں لطافت ہے۔ احساس و جذبے کی ادائگی میں خود‬
‫ضبطی کا جوہر بھی پایا جاتا ہے۔ یہ غزلیں مجروح کے مستقبل کی شاعری کے امکانات کی طرف‬
‫بھی اشارہ کرتی ہیں‪:‬‬
‫اکثر تو رہ گیا ہوں جھکا کر نظر‬ ‫کس کس کو ہائے تیرے تغافل کا دوں‬
‫میں‬ ‫کو‬ ‫جواب‬
‫واں شمع جالئی جائے گی‪،‬‬ ‫جس شوخ نظر کی محفل میں‪ ،‬آنسو‬
‫پروانے کا ماتم کیا ہوگا‬ ‫جائے‬ ‫بن‬ ‫تبسم‬ ‫بھی‬
‫یونہی کب تلک خدایا غم زندگی بنا‬ ‫یہ ُرکے ُرکے سے آنسو یہ گھٹی‬
‫ہیں‬ ‫آہیں‬ ‫سی‬ ‫گھٹی‬
‫ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو‬ ‫بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے‬
‫دیتے‬ ‫لیے‬
‫تری آرزو نے ہنس کر وہیں ڈال‬ ‫کبھی جادہ طلب سے جو پھرا ہوں‬
‫بانہیں‬ ‫ہیں‬ ‫دی‬ ‫شکستہ‬ ‫دل‬
‫جی کھول کے خود پر ہنس نہ‬ ‫مجروح مرے ارمانوں کا انجام‬
‫سکوں اتنا بھی مجھے غم کیا‬ ‫سہی‬ ‫ہی‬ ‫دل‬ ‫شکست‬
‫ہوگا‬
‫ہر قدم ہے نقش دل ہر نگہ رگ‬ ‫دور دور مجھ سے وہ اس طرح‬
‫ہے‬ ‫جاں‬ ‫ہے‬ ‫خراماں‬
‫سوچتی رہی دنیا کفر ہے کہ ایماں‬ ‫ہم تو پائے جاناں پر کر بھی آئے اک‬
‫ہے‬ ‫سجدہ‬

‫محمدعلی صدیقی نے بھی مجروح کی غزلوں میں تغزل کے عنصر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے‬
‫کہ ‘‘مجروح نے تغزل کی قیمت پر سیاسی آدرشوں اور سیاسی آدرشوں کی قیمت پر تغزل کو‬
‫خیرباد کہنے کا جو عزم صحیح کررکھا ہے اس کی وجہ سے وہ ایک نوع کے ہیئت پرست شاعر‬
‫معلوم ہوتے ہیں۔ مجروح کی غزل کا محبوب کالسیکی شعرا کی غزل کے محبوب سے چنداں‬
‫مختلف نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجروح تغزل سے بھرپور کام لیتے ہیں‬

‫درج باال اشعار میں جو لہجہ ہے اس میں مالئمیت کے ساتھ نسائیت بھی ہے اور رقّت بھی۔ جب کہ‬
‫مجروح کی غزل کا حاوی رجحان ان کی اس کھنک دار آواز میں پنہاں ہے جس میں سینہ سپہری‬
‫اور ستیزہ کاری کا عنصر ہے ایک سپاہی کی طرح ان میں استقالل و اعتماد پایا جاتا ہے اور وہ‬
‫حاالت کی سنگینی کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر یقین نہیں کرتے۔ ان کے شعروں میں جو والہانہ پن‬
‫کی صورت نظر آتی ہے وہ ایک دم پیدا نہیں ہوئی۔ آہستہ آہستہ وہ ان کا ایک خاص انداز بن گیا۔‬
‫مثال ‪:‬‬
‫رقص کرنا ہے تو پھر پاوں کی زنجیر‬ ‫دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن‬
‫دیکھ‬ ‫نہ‬ ‫بہار‬ ‫جوش‬
‫سوچتی رہی دنیا کفر ہے کہ ایماں ہے‬ ‫ہم تو پائے جاناں پر کر بھی آئے اک‬
‫سجدہ‬
‫جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ‬ ‫جال کے مشعل جاں ہم جنوں صفات‬
‫چلے‬ ‫چلے‬
‫جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے‬ ‫ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے‬
‫داغ‬
‫سب ہمیں باہوش سمجھیں چاہے دیوانہ‬ ‫دار پر چڑھ کر لگائیں نعرہ زلف صنم‬
‫کہیں‬
‫لوگ ساتھ آتے گئے کارواں بنتا گیا‬ ‫میں اکیال ہی چال تھا جانب منزل مگر‬
‫مجروح کے یہ اشعار ان کے معاصرین سے مختلف بھی ہیں اور مجروح کا اصل لہجہ اور ان کی‬
‫اصل انفرادیت کا راز بھی ان میں مضمر ہے۔‬
‫مجروح کی غزل کا استعاراتی نظام‬
‫ہماری تنقید میں بحث کا ایک خاص موضوع فیض و مجروح کی غزل کا تقابل ہے۔ اس کی ایک‬
‫بڑی وجہ تو یہ ہے کہ دونوں ترقی پسند ہیں اور معاصر بھی۔ عالوہ اس کے دونوں کی غزل‪،‬‬
‫ترقی پسند غزل کی آبرو ہے۔ تیسری بات یہ کہ دونوں کی غزل کے اسلوب میں کسی حد تک‬
‫مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ بحث بھی کی جاتی رہی ہے کہ مجروح کی غزل فیض سے مقدم‬
‫ہے یا فیض کی غزل مجروح سے مقدم ہے۔ اس سلسلے میں خود مجروح نے بھی اپنے کئی‬
‫اولیت دی ہے۔‬
‫انٹرویوز میں خود کو ّ‬

‫مجروح کی غزل کی انفرادیت‬


‫مجروح ایک منفرد غزل گو شاعر ہیں۔ مجروح کا دور ترقی پسند تحریک کے عروج کا دور تھا‬
‫اور مجروح کی ذہنی تربیت کالسیکی غزل کے ماحول میں ہوئی تھی۔ غزل کی روایت سے بچ کر یا‬
‫غزل کی روایت کو رد کرکے غزل کہنا تقریبا ناممکن ہے۔ کیونکہ اس کے پیچھے صدیوں کی‬
‫روایت کارفرما ہے۔ اس روایت کے سلسلے فارسی غزل سے جاکر ملتے ہیں۔ ایک تو غزل کی‬
‫ساخت‪ ،‬غزل کی ایک الزمی قدر ہے جس میں بے حد معمولی تبدیلی بھی بڑی معلوم ہوتی ہے۔‬
‫اس لیے غزل کی ساخت ہی نہیں اس کا ایک استعاراتی نظام بھی ہے۔ اس میں جو بات کہی جاتی‬
‫ہے اشارتی زبان میں ادا کی جاتی ہے کیونکہ اس کے اجمال کا یہی تقاضہ ہے۔ دوسری بات یہ اور‬
‫یہ بھی بے حد اہم ہے کہ غزل کی مضامین کی ایک روایت رہی ہے۔‬
‫کم ازکم غالب تک ان مضامین کی قدر کا لحاظ رکھا جاتا تھا۔ غالب ہی نے تھوڑا بہت انحراف کیا‬
‫جیسے یہ کہہ کر کہ عشق نے غالب نکما کردیا یا یہ کہ کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ‬
‫کا۔غزل میں عاشق‪ ،‬معشوق‪ ،‬رقیب‪ ،‬ناصح اور زاہد کے کردار بھی متعیّن کردار تھے۔ اقبال‪ ،‬فراق‬
‫اور ان کے بعد کی غزل میں وفا و جفا اور ستم و کرم سے متعلق متعین مضامین سے انحراف بھی‬
‫کیا گیا ہے اور نئے مضامین کا باب بھی وا ہوا ہے۔‬
‫ترقی پسندوں نے غزل کی اس بساط کو محدود بتا کر اسے الئق التفات نہیں سمجھا۔ پھر بھی ترقی‬
‫پسند شعرا غزل کی طرف مائل رہے۔ پرویز شاہدی‪ ،‬وامق جونپوری‪ ،‬جذبی‪ ،‬احمد ندیم قاسمی‪،‬‬
‫سردار جعفری‪ ،‬مخدوم کے عالوہ مجروح‪ ،‬فیض اور غالم ربانی تاباں نے سب سے زیادہ غزلیں‬
‫کہیں۔‬
‫فیض اور مجروح کی غزل ہی کو ہم ایک اعلی درجے کی ترقی پسند غزل کا نام دے سکتے ہیں‪،‬‬
‫دونوں ہی شعرا منفرد ہیں اور دوسرے شعرا کے مقابلے میں مسلسل غزل بھی کہتے رہے۔‬
‫مجروح نے اپنے تخلیقی سفر کو صرف غزل سے وابستہ رکھا۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ‬
‫فیض اور مجروح میں بہت سی مماثلتیں ہیں جو معاصر ہونے کی وجہ سے فطری ہیں۔ پھر بھی‬
‫اظہار کے رویّے میں دونوں میں واضح فرق بھی ہے۔‬

‫مجروح کی غزل جمال کے ساتھ جالل کی بھی نمائندگی کرتی ہے۔ فیض کے یہاں درد مند لہجہ ہے‬
‫جس کے باعث ان کا آہنگ کم ہی جالل انگیز ہوتا ہے۔ مجروح کے یہاں فیض سے زیادہ لفظی در و‬
‫بست کا شعور ہے۔ محمد علی صدیقی کا بھی یہ کہنا ہے کہ مجروح اور فیض میں واضح طور پر‬
‫لہجے کا فرق ہے اور یہ کہ لہجے کا فرق صاف بتا رہا ہے کہ مجروح ’ ایقان‘کی بے پناہ جرات‬
‫اور اعتماد کی وجہ سے فیض احمد فیض کے مقابلے میں زیادہ قطعیت پسند ‪CATEGORICAL‬‬
‫ہیں۔’’‬

‫غیرمفرس‪ ،‬نئی اور سلیس‬


‫ّ‬ ‫مجروح کا یہ کہنا ہے کہ اردو غزل اپنے الفاظ و عالمات میں جتنی‬
‫ہوگی اتنا ہی آج کی زندگی کے ساتھ چلنا اس کے لیے آسان ہوگا‪ ،‬لیکن اس خیال کے برخالف‬
‫مجروح کے یہاں فارسی تراکیب و الفاظ کی فراوانی ہے بلکہ ان کی انفرادیت کاایک پہلوان کا اسی‬
‫طرز سے وابستہ ہے۔‬
‫چند تراکیب دیکھیں‪ :‬غوغائے ُرستاخیز‪ ،‬نواسنجی ہزاراں‪ ،‬خال رخ بہاراں‪ ،‬داغ پیرہنی‪ ،‬رقص‬
‫ناتمام‪ ،‬ادائے بے باکی‪ ،‬فروغ بام‪ ،‬آبلہ پایان شوق‪ ،‬آوارہ گیسوئے بہار‪ ،‬عقل حریفان بہار‪ ،‬صفت‬
‫پائے خزاں‪ ،‬روشنی کوچہ دلدار‪ ،‬رفتہ تغافل و ناز‪ ،‬طلوع صبح نشاط‪ ،‬شعلہ حنا‪ ،‬کف دست نگاراں‪،‬‬
‫بے چارگی سینہ فگاراں‪ ،‬منزلت سلسلہ داراں‪ ،‬بزم گہہ اللہ عذاراں‪ ،‬اس طرح کی تراکیب کا ایک‬
‫سلسلہ سا قائم ہے۔ یہ تراکیب اپنے خوش نما صوتی آہنگ کی وہ سے رواں اور مترنم ہیں۔‬
‫مجروح کے بعض اشعار جو انھوں نے اپنی ایک سالہ قید کے زمانے میں کہے تھے ان میں وہ‬
‫بہت ‪ LOUD‬بھی ہوگئے تھے۔ بعض غزلوں میں انھوں نے نعرہ زنی بھی کی ہے۔ ان کے قلیل‬
‫ترین شعری سرمائے میں یہ پیوند کی طرح نظر آتے ہیں۔ پھر بھی مجروح کی نظر میں خود بھی‬
‫ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ اس طرح کے اکثر اشعار انھوں نے خارج بھی کردیے تھے‬
‫لیکن ہمارے بعض نقاد اکثر ان مثالوں کو پیش کرکے ان کے قامت کو پست کرنے کے درپے‬
‫رہتے ہیں۔ منفیانہ تنقید کی اسے ہم ایک بدترین مثال سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ بعض اشعار کی‬
‫مثالیں ہم بھی پیش کرتے ہیں صرف اس لیے کہ یہ مجروح ایسے شاعر کی زبان سے ادا ہوئے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫کرلے گی تجھ کو دفن ترے مکر و فن کے‬ ‫اے دُزد مال خام! کُدالوں کی سرزمیں‬
‫ساتھ‬
‫اٹھے گا بے کفن کب یہ جنازہ ہم بھی دیکھیں‬ ‫جبیں پر تاج زر‪ ،‬پہلو میں زنداں‪ ،‬بینک‬
‫گے‬ ‫پر‬ ‫چھاتی‬
‫وادیوں میں ناچیں گے ہر طرف ترانے سے‬ ‫اب زمین گائے گی ہل کے ساز پر نغمے‬
‫منتظر تھیں یہ آنکھیں جس کی اک زمانے سے‬ ‫آیا‬ ‫آفتاب‬ ‫دور‬ ‫آیا‪،‬‬ ‫انقالب‬ ‫سرخ‬
‫یہ بھی کوئی ہٹلر کا ہے چیال مار لے ساتھی‬ ‫امن کا جھنڈا اس دھرتی پر کس نے کہا‬
‫پائے‬ ‫نہ‬ ‫جانے‬ ‫پائے‬ ‫نہ‬ ‫لہرانے‬

‫اس طرح کی کم زور و پست مثالیں کم زور لمحوں کی تخلیق ہوتی ہیں جس سے بڑے سے بڑے‬
‫شاعر کا دامن خالی نہیں ہے۔ ہمارے سب سے اہم اور بڑے شاعر میر تقی میر کے کالم کا دامن تو‬
‫کم زور لمحوں کی شاعری سےبھرا پڑا ہے۔ رشید احمد صدیقی بھی مجروح کی شاعری کے‬
‫قدردان ہیں لیکن وہ بھی مجروح کے اس رویّے سے شاکی تھے اور انھوں نے یہ کہا تھا‬
‫مجموعی طور پر مجروح کی انفرادیت مسلّم ہے۔ وہ ترقی پسند شاعر تھے لیکن آئندہ زمانہ‬
‫محض ایک غیرنظریاتی طور پر بھی ان کا مطالعہ کرے گا تو اردو غزل کی تاریخ میں ایک بلند‬
‫مقام ضرور دے گا۔ جیسا کہ آج بھی ہمارے کئی نقادوں کی نظر میں وہ ایک بلند مقام رکھتے ہیں۔‬
‫چودھری محمد نعیم کا یہ کہنا درست ہے کہ‪:‬‬
‫مجروح کی غزل اس صدی کی اردو غزل کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس میں ہمیں‬
‫اپنے بہت سے عصری تقاضو نکا جواب اور بہت سی لمحاتی صداقتوں کا اظہار‬
‫مل جاتا ہے۔ یہ اظہار ایک ایسی زبان میں ہوا ہے جو غنائیت سے بھرپور ہے‬
‫اور ایک ایسے اسلوب میں کیا گیا ہے جو ہماری روایت سے وابستہ عمدہ غزل‬
‫کا طرہ امتیاز رہاہے اور جس کو آتش نے مرصع سازی کہا تھا۔ اگر اب بھی آپ‬
‫کو اعتبار نہ آیا ہو تو یہ آخری شعر ضرور آپ کو قائل کردے گا‪:‬‬
‫بس پھیر کے منہ خار قدم کھینچ رہے تھے‬
‫ہے‬ ‫سفراں‬ ‫ہم‬ ‫قافلہ‬ ‫نہاں‬ ‫تو‬ ‫دیکھا‬
‫(مجروح سلطان پوری‪ :‬مقام اور کالم‪ ،‬ص ‪)164‬‬
‫‪07‬۔خالصہ)‪(SUMMARY‬‬
‫مجروح ایک ترقی پسند شاعر ہیں‪ ،‬انھوں نے ایک ایسے دور میں غزل سے گہرا رشتہ قائم رکھا‬
‫اور اعلی درجہ کی غزلوں سے اردو شاعری کو ماالمال کیا جب ترقی پسند اور کئی غیرترقی پسند‬
‫حضرات غزل کو بے وقت کی راگنی کے نام سے موسوم کررہے تھے۔ مجروح اور فیض نے غزل‬
‫کو اپنی ترقی پسند فکر کی آب دے کر اسے ایک نئے رنگ میں پیش کیا‪ ،‬جس میں کالسیکی غزل‬
‫کے بہترین عناصر کی پاس داری بھی ہے۔ تغزل کا لحاظ بھی ہے اور کھردری حقیقتوں کا بیان‬
‫بھی۔ اردو غزل کی تاریخ میں تغزل کے اعتبار سے یہ ایک نیا تجربہ تھا جس نے یہ بھی ثابت کیا‬
‫کہ غزل کی داخلی ساخت میں بے حد لچک ہے۔ اس میں کسی بھی ذہنی اور خارجی تجربے کو‬
‫ڈھاال جاسکتا ہے۔ مجروح نے خارجی موثرات کو جو زبان دی ہے وہ جالل و جمال کا مرکّب ہے۔‬
‫اس میں پختہ کاری ہے‪ ،‬لفظوں کو ایک خاص طریقے سے ادا کرنے کا ہنر ہے۔ مجروح کے یہاں‬
‫ایک والہانہ پن‪ ،‬سرمستی کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے اور اعتماد و استقالل بھی ان کے لہجے کو‬
‫ایک خاص وقار عطا کرتا ہے۔ مجروح نے غزل کو غزل کے تقاضوں کے ساتھ قائم کرنے کی جو‬
‫روش اختیار کی‪ ،‬اس کی ایک اہمیت تو عصری ہے دوسرے انھوں نے فکر وفن کے امتزاج کی‬
‫ایک ایسی مثال بھی قائم کی جو بعد کی نسلوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوسکتی ہے۔‬
‫‪08‬۔ (الف) موضوعی )‪(SUBJECTIVE‬سواالت‬
‫(‪ )I‬مجروح کی سوانح اور شخصیت کا جائزہ لیجیے۔‬
‫(‪ )II‬مجروح کی غزل کی انفرادیت کیا ہے؟‬
‫(‪ )III‬معاصر غزل گو شعرامیں مجروح کا کیا مقام ہے؟‬
‫(‪ )IV‬مجروح کی غزل میں کس قسم کا استعاراتی نظام ملتا ہے؟‬
‫(ب) معروضی )‪ (OBJECTIVE‬سواالت‪( :‬صحیح کی نشاندہی کیجیے)‪:‬‬
‫(‪ )I‬یہ کس نے کہا ہے کہ جہاں کہیں وہ غزل کے آداب سے انحراف کرتے ہیں مضحکہ خیز حد‬
‫سرے ہوجاتے ہیں‪:‬‬‫تک بے ُ‬
‫(ب) محمد علی صدیقی‬ ‫(الف) رشید احمد صدیقی‬
‫(ج) چودھری محمد نعیم (د) قاضی عبدالغفار‬
‫(‪ )II‬یہ کس کا قول ہے کہ انھوں نے غزل کے نئے شیشے میں ایک نئی شراب بھر دی ہے؟‬
‫(الف) خلیل الرحمن اعظمی (ب) قاضی عبدالغفار‬
‫(د) عبدالمغنی‬ ‫(ج) عتیق ہللا‬
‫مجروح کے مجموعہ کالم کا نام کیا ہے؟‬ ‫(‪)III‬‬
‫(ب) مختصر مختصر‬ ‫(الف) محراب‬
‫(د) نقش دوام‬ ‫(ج) مشعل جاں‬
‫مجروح کو فیض سے بڑا کس نے مانا ہے؟‬ ‫(‪)IV‬‬
‫(ب) احتشام حسین‬ ‫(الف) آل احمد سرور‬
‫(د) مجروح سلطان پوری‬ ‫(ج) سردار جعفری‬
‫(ج) صحیح ‪/‬غلط )‪ (TRUE/FALSE‬کی نشاندہی کیجیے‬
‫(‪ )I‬مجروح نظم کے بھی ایک بڑے شاعر ہیں۔ (صحیح‪/‬غلط)‬
‫(‪ )II‬مجروح نے کبھی مزاحیہ شاعری نہیں کی۔ (صحیح‪/‬غلط)‬
‫(‪ )III‬مجروح کے مجموعہ کالم کا نام ‘غزل’ ہے۔ (صحیح‪/‬غلط)‬
‫(‪ )IV‬مجروح کے یہاں جالل و جمال کا امتزاج ملتا ہے۔ (صحیح‪/‬غلط)‬
‫(د) خالی جگہو ں کو پر کیجیے)‪(FILL IN THE BLANKS‬‬
‫(‪ )I‬مجروح سلطانپوری ایک ‪ .............‬شاعر ہیں۔‬
‫(‪ )II‬ہندوستان میں سجاد ظہیر اور ملک راج آنند کی کوششوں سے‪ .............‬کا آغاز ہوا۔‬
‫(‪ )III‬مجروح کے پہلے مجموعہ کالم کا نام ‪ .............‬ہے۔‬
‫(‪ )IV‬مجروح‪ ،‬فیض کو اپنا پیش رو اور اپنے سے بڑا‪ .............‬نہیں کرتے۔‬
‫‪09‬۔ (الف) اہم بنیادی الفاظ کے معانی )‪(GLOSSARY‬‬
‫مرکب‪ ،‬مال جال‬ ‫امتزاج‬

‫‪( ‬ب) موضوع سے متعلق نیٹ پر مواد دستیاب نہیں ہے۔‬


‫‪10‬۔ (ج) موضوع سے متعلق ضروری؍حوالہ جاتی کتابوں کی فہرست‬
‫مجروح سلطان پوری‪ ،‬مقام اور کالم فیروز احمد‬ ‫‪‬‬
‫عتیق ہللا‬ ‫ترجیحات‬ ‫‪‬‬
‫مرتبہ‬ ‫فکر و نظر‪ ،‬علی گڑھ‬ ‫‪‬‬
‫محمد علی صدیقی‬ ‫مضامین‬ ‫‪‬‬
‫‪ 11‬۔ معروضی سواالت کے جوابوں کی نشاندہی‬
‫د‬ ‫)‪(IV‬‬ ‫)‪ (III‬ج‬ ‫(‪)I‬الف )‪ (II‬ب‬
‫‪ 12‬۔ صحیح؍غلط کی نشاندہی‬
‫صحیح )‪ (IV‬صحیح‬ ‫)‪(III‬‬ ‫(‪ )I‬غلط )‪(II‬غلط‬
‫‪ 13‬۔ خالی جگہوں میں پُر کیے جانے والے الفاظ کی نشاندہی‬
‫ترقی پسند تحریک )‪ (III‬غزل )‪ (IV‬تسلیم‬ ‫(‪ )I‬ترقی پسند )‪(II‬‬
‫‪‬‬

You might also like