You are on page 1of 22

‫نام‬ ‫خرم شہزاد‬

‫رولنمبر‬ ‫‪By549505‬‬
‫خزاں‬ ‫‪2021‬‬
‫سوال نمبر‪-1‬نقیضہ اور ہجو گوئی میں فرق ‪،‬اوراس کی اردوکے شعراء سے مماثلت بیان کریں۔‬
‫جواب‬
‫نقیضہ گوئی‬
‫میبینم؟‬‫این چه شوریست ڪه بر دوور قمر‬
‫همه را منزوی و گیج و پڪر میبینم‬
‫چه بالیی به سر نسل جوان آوردیم ؟‬
‫ڪه شبانه همه را زیر گذر میبینم‬
‫مادران را همه سر خورده و سر در گوشی‬
‫پدران را سر ڪاناپه دمر میبینم‬
‫دختران را همه سرگرم خودآرائی خویش‬
‫پای قلیون همه جا جمع پسر میبینم‬
‫آنقدر سیخ شده موی سر نسل جوان‬
‫در خیابان همه را شانه بسر میبینم‬
‫شعر میگویم و از گفته ی خود مٵیوسم‬
‫بسڪه هی دور و برم توپ و تشر میبینم‬
‫واقعا نیست نه در ببر و نه در گرگ نه مار‬
‫آنچه امروزه در این نوع بشر میبینم‬
‫ڪفش نو میخرم و موقع مسجد رفتن‬
‫جایشان گیوه ی ڪهنه پَ ِس در میبینم‬
‫دوستان را همه از زهر و هالهل بدتر‬
‫دشمنان را همه از قند و شڪر میبینم‬
‫رفته در فقر و بدهڪاری و بداخالقی‬
‫مردمانی همه تا حد ڪمر میبینم‬
‫توی آمار جهانی همه جا در جدول‬
‫خویش را پشت سر هند و قطر میبینم‬
‫جز همین ساحل خشڪیده ی بی ماهی نیست‬
‫آنچه از وسعت دریای خزر میبینم‬
‫جای تولید و ترقی فقط از دولتها‬
‫هی سفر پشت سفر پشت سفر میبینم‬
‫دژڪـــــــــامـ‪#‬‬
‫ہجو گوئی‬
‫اردو میں باقاعده طور پر ہجو گوئی کا آغاز سودا سے ہوتا ہے۔ سودا نے اپنی ہجووں کے لئے قصیده ‪ ،‬مثنوی ‪،‬‬
‫قطعہ‪ ،‬غزل ‪ ،‬رباعی ‪ ،‬ترکیب بند‪ ،‬ترجیع بند‪ ،‬غرض سبهی اصناف سخن استعمال کئے ہیں۔سودا نے فارسی ہجویات‬
‫کی روایت کے مطابق ہر قسم کی لعن طعن ‪ ،‬طنز و تشنیع ‪ ،‬سب و شتم اور فحاشی سے کام لیا ہے اور خودہی‬
‫دعوی کیاہے کہ اس فن میں خاقانی اور عبید زاکانی بهی ان سے مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ کسی کے ہجو لکهنے پر‬ ‫ٰ‬
‫اتر آتے تو اسے بے عزت ہی کرکے چهوڑتے ۔ آزاد ”آب حیات“ میں لکهتے ہیں کہ ”غنچہ“ نام ان کا ایک غالم‬
‫تها۔ ہر وقت خدمت میں رہتا تها۔ اور ساته قلم دان لئے پهرتا تها۔ جب کسی سے بگڑتے تو فورا ً پکارتے ارے‬
‫غنچے ال تو قلم دان‪ ،‬ذرا میں اس کی خبر تو لوں ‪ ،‬یہ مجهے سمجها کیا ہے۔ پهر شرم کی آنکهیں بند اور بے حیائی‬
‫کا منہ کهول کر وه بے نقط سناتے کہ شیطان بهی امان مانگے۔‬
‫بعض لوگ ہجو کو ایک مستقل صنف سخن سمجهتے ہیں حاالنکہ یہ قصیدے ہی کی ایک قسم ہے۔ جو نظم کسی کی‬
‫مذمت برائی یا عیوب کے بیان میں لکهی جائے وه ہجو یا ہجویہ قصیده کہالتی ہے۔ نفرت ‪ ،‬اور غصہ کا بے محابا‬
‫اظہار ہجو کی اساس ہے۔ جیسے تحسین و پسندیدگی ‪ ،‬قصیده نگاری سے مخصوص ہیں ۔ لیکن جہاں قصیده ایک‬
‫مخصوص ہیئت کا پابند ہے‪ ،‬ہجو کے لئے کوئی ہیئت متعین نہیں۔ چنانچہ ہجو کی شناخت کا واحد وسیلہ موضوع‬
‫کی تئیں شاعر کا رویہ ہے۔ اگر شاعر کسی فرد‪ ،‬واقعے یا شے کی تذلیل کرتا ہے تو ہجو ہوگی۔ خواه اس منفی‬
‫ردعمل کے اظہار کے لئے شعری ہیئتوں میں سے کسی کا بهی انتخاب کیا گیاہو۔ہجو نگار اپنے مخالف کو تباه و‬
‫برباد کردینا چاہتا ہے ۔ ہجو ایسی ہو جو اسے صفحہ ہستی سے مٹا دے اور اگر یہ ممکن نہیں تو کم از کم اس کی‬
‫اتنی تذلیل کر دے کہ کسی کو منہ دکهانے کے الئق نہ رہے۔ ہجو نگاراپنی نفرت اور غصہ پر قابو رکهنے کا اہل‬
‫نہیں ہوتا ۔‬
‫اردو میں شمالی ہند کی اردو شاعری کے آغاز ہی سے ہجو گوئی کی ابتداءہوئی ہے۔ اس سلسلے میں میر جعفر‬
‫زٹلی غالبا ً پہلے ہجو گو شاعر ہیں۔ لیکن ہجو یہ گوئی کو باقاعده فن کی صورت سودا ہی نے دی۔‬
‫ہجویات سودا‪:‬۔‬
‫بقول رشید احمد صدیقی‬
‫سودا کو ہجو ہجا میں نہ صرف فضل و تقدیم حاصل ہے بلکہ ان کے کالم سے طنزیات کی بہترین استعداد بهی ”‬
‫“نمایاں ہے۔‬

‫موضوعات ‪:‬۔‬
‫خلیق انجم نے سودا کی ہجویات کو پانچ مختلف عنوانات کے تحت تقسیم کیاہے۔‬
‫‪ )١‬وه ہجویں جن کی بنیاد محض ذاتی بغض و عنا د پر ہے۔ یا جن کا مقصد کسی سے چهیڑ چهاڑ کرنا ہے۔‬
‫‪ )٢‬اخالق کی اصالح کے لئے لکهی جانے والی ہجویں‬
‫‪ )٤‬وه ہجویں جو ادبی اختالف یا معاصرانہ چشمکوں کی وجہ سے لکهی گئیں ہیں‬
‫‪ )٥‬وه ہجویں جن میں اپنے دور کی سیاسی ابتری اور مالی بدحالی کامضحکہ اُڑیا گیا ہے۔‬
‫انہی موضوعات کی روشنی میں ہم سودا کی ہجویات کا جائزه لیتے ہیں‪،‬‬
‫میر کی ہجو‪:‬۔‬
‫سودا نے میر تقی میر کی ہجو میں جو قطع کہا ہے وه کامیاب اور فنکارانہ طنز کی بہترین مثال ہے نو اشعار کی‬
‫اس ہجو میں جو واقعہ ہوا ہے اس کا انحصار قطع کے آخری شعر پر ہے۔‬
‫ہر ورق پر ہے میر کی اصالح‬
‫لو گ کہتے ہیں سہو کاتب ہے‬
‫اس قطع میں فنی تعمیر اتنی منظم اور اشعار ایک دوسرے سے اس قدر مربوط ہیں کہ اس آخری شعر کا وار یقینی‬
‫ہو جاتا ہے۔ بغیر سخت الفاظ استعما ل کئے ایسی ہجو خود سودا نے دوسری نہیں کہی۔‬
‫اس کے عالوه تمام افراد کی ہجوئوں میں سودا کا لہجہ اتنا تیز اتنا تند اور اتنا سفاک ہے کہ سودا کے غصہ کی‬
‫پوری کیفیت نمایاں ہو جاتی ہے۔ ان ہجوئوں میں جہاں کہیں مخالف کانام آتا ہے وہاں ضرور ایسی کوئی صفت‬
‫استعمال ہوتی ہے جس سے اس کی تذلیل کا پہلونکلتا ہے اور جب غصہ اپنی انتہا پر ہو تو سودا گالیوں کا استعمال‬
‫بهی کرتے ہیں۔‬
‫ہجو شیدی فوالد خان کوتوال‪:‬۔‬
‫تہذیبی و معاشرتی انتشار پر سودا کی ہجو”ہجو شیدی فوالد خان کوتوال“ ال جواب ہے۔ فوالد خان کوتوال کی ہجو‬
‫میں سودا نے اپنے زمانے کے انتشار اور طوائف الملوکی کا نقشہ بہت عمد ه کهینچا ہے۔ بدقماش چور اچکے یہاں‬
‫تک نڈر اور آزاد ہوگئے ہیں کہ کوتوال ان کی خوشامد کرتا ہے۔ اور وه خود کوتوال کی پگڑی کی قیمت لگاتے ہیں‬
‫۔ فوالد خان شہر کی چوریوں میں چوروں کے ساته شریک رہتا ہے۔چنانچہ بادشاه کو جب اس کی خبر ملی تو فوالد‬
‫خان اور اس کا بیٹا عتیق ہللا خان گرفتار ہوئے ۔ جب شہر کی صورت حال یہ ہوکہ محافظ خود ڈاکے ڈالتا ہو تو مال‬
‫و اسباب سے لے کر عزت و آبرو تک کچه محفوظ نہیں تو ایسے میں سودا نے اس صورت حال پر یہ ہجو لکهی۔‬
‫ان سے رشو ت لئے یہ بیٹها ہے‬
‫اس کے دل میں یہ چور بیٹها ہے‬
‫بازو کا مفسروں کے زور ہے یہ‬
‫چو ر کا بهائی گهٹی چور ہے یہ‬
‫فوالد خان چوروں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔‬
‫سن لو چورو یہ مختصر قصہ ِ‬
‫صبح کو بهیج دیجیوحصہ‬
‫مثنوی کی ہیئت میں ہجو‪:‬۔‬
‫سودا کی ایک ہجو مثنوی کی ہیئت میں ہے اور ایک قصہ کے ذریعے بخل کی قبح ترین صورت کے بیان پر‬
‫مشتمل ہے۔ اس میں سودا نے تضحیک و تحقیر کے لئے بخل کے عجیب وغریب واقعات کا بیان ہے۔ ایک بخیل‬
‫شخص کے فیاض بیٹے نے اپنے دوستوں کی دعوت کی ۔ بخیل اس فیاضی سے اس قدر چراغ پا ہو ا کہ بیوی کو‬
‫طالق دینے اور بیٹے کو عاق کرنے کی ٹهان لی ایسی اوالد جو اپنے اجداد کی کمائی اس طرح خرچ کرے ۔ کسی‬
‫طرح گهر میں رہنے کے الئق نہیں ۔‬
‫یارو مجهے سے تو ال ولد بہتر‬
‫میر ا بیٹا اور اس قدر ابتر‬
‫اس کا دادا بهی گرچہ تها عیاش‬
‫اس سلیقے سے پر کرے تها معاش‬
‫جو کوئی اس کے گهر میں نوکر تها‬
‫رات کو اس پہ یہ مقرر تها‬
‫پهرتا وه ٹکڑے مانگتا گهر گهر‬
‫التا آقا کے جو آگے جهولی بهر‬
‫اچهے چن چن کے آپ کهاتے تهے‬
‫برے تنخواه میں لگاتے تهے‬
‫سودا نے راجہ نرپت سنگه کے ہاتهی کی ہجو کہی ہے ۔ ہاتهی کا نقشہ یہ ہے کہ ہاتهی کمزور اور الغر ہے۔ سودا‬
‫اس ہاتهی کا نقشہ کچه یوں بیان کرتے ہیں‪،‬‬
‫سمجهنا فیل اسے دیوانہ پن ہے‬
‫کسی مدت کا یہ بام کہن ہے‬
‫نمودار ا س پر استخواں ہے‬
‫گویا ہر پسلی اس کی نردباں ہے‬
‫میر ضاحک کی ہجو‪:‬۔‬
‫ہجو کی ایک قسم مبالغہ آرائی ہے۔ بعض واقعات ‪ ،‬مناظر یا تصویریں ہماری توجہ مبذول نہیں کر سکتی ۔ ہجو‬
‫نگار ان واقعات وغیر ه کو پیش کرنے میں مبالغہ سے کام لیتا ہے۔ تاکہ وه اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکے۔‬
‫تصویر کے بعض حصوں کو نمایاں کرنے کے لئے مصور کو تیز اور شوخ رنگ استعمال کرنے پڑتے ہیں ۔ ہجو‬
‫نگار کے شوخ رنگ مبالغہ آمی ز لفظ ہیں ۔ لیکن یہاں بهی اعتدال شرط ہے۔ سودا یہاں بهی اعتدال کی حدود سے‬
‫باہر نکل جاتے ہیں ۔ اور یہاں تک کہ تخیل کی پرواز میں ان کا مبالغہ غلو کی حد تک چا پہنچتا ہے۔مثالً میر‬
‫ضاحک کی ہجو لکهتے ہوئے اس کے زیاده کهانے کاذکر یوں کرتے ہیں‬
‫گهر میں اب جس کے دیگچہ کهڑکے‬
‫در پہ اس کے یہ بیٹهے یوں اُڑ کے‬
‫میرضاحک ایک دعوت پر مدعو ہیں ۔ انہوں نے اپنے میزبان دوست سے پوچها ۔ کہو کیا پکوایا ہے دوست نے‬
‫جواب دیا ۔قیمہ ‪ ،‬پالئو ‪ ،‬بریانی یہ سنتے ہی میر ضاحک کو اپنے آپ پر قابو نہ رہا ۔ دوڑا باورچی خانے کی‬
‫طرف ۔ سودا نے اس منظر کی خوب مبالغہ آمیز تصویر کاری کی ہے۔‬
‫یہ سخن سن کے وه مثل شہاب‬
‫دوڑا مطبخ کی سمت ہو بے تاب‬
‫گوشت ‪ ،‬چاول مصالحہ ترکاری‬
‫سب سمیٹے اس نے ایک ہی باری‬
‫ہجویہ قصیده ”تضحیک روزگار“‪:‬۔‬
‫شخصی ہجوئوں سے قطع نظر”تضحیک روزگار“ سودا کا مشہور ہجویہ قصیده ہے۔ جس میں بظاہر ایک گهوڑے‬
‫کی ہجوکی گئی ہے۔ لیکن اس کا مقصد مغل سلطنت اور بالخصوص اس کے عسکری نظام کی کمزوریوں پر طنز‬
‫ہے۔ سودا نے یہ قصیده اپنی شاعری کے ابتدائی زمانے ( ‪1750‬ءسے قبل) میں کہا۔ جس کی شہادت یہ ہے کہ‬
‫نکات الشعراءمیں اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس وقت تک انہوں نے وه تمام مشہور قصیدے اور ہجویات نہیں لکهی تهیں‬
‫جن کی بناءپر سودا کو بعد کے زمانے میں شہرت ملی۔ لیکن اس پہلے دور کے ہجویہ قصیدے میں ‪ ،‬سودا نے‬
‫جس فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے خود سودا کی دوسری ہجوئوں میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔‬
‫گهوڑا اور تلوار ‪ ،‬مغل عسکری نظام کے دو بنیادی حوالے ہیں ۔ خصوصا ً گهوڑاجس کی قوت پر پہلے مغل بادشاه‬
‫ظہیر الدین بابر نے مقامی فوجوں کی شکست دی تهی اور جو اس کے بعد بهی طویل عرصہ تک فوجی خدمات‬
‫میں مرکزی اہمیت کا حامل رہا۔ مغل سلطنت کے سےاسی و تہذیبی زوال کے نتیجہ میں ان کا عسکری نظام کمزور‬
‫ہو کر منتشر ہو نا شروع ہوا‪ ،‬افواج بکهر گئیں ‪ ،‬درباروں سے منسلک افواج کو تنخواه دینے کے لئے شاہی خزانے‬
‫میں روپیہ نہیں رہا۔ سپاہیوں نے تنگ آکر تلواریں کهول ڈالیں اور رزق کی تالش میں دوسرے کاموں میں لگ گئے‬
‫۔ جہاں نواب کے پاس خود رزق کا کوئی معقول ذریعہ نہ بچا ہو وہاں وه گهوڑ ے کو کیا کهال سکتا تها ۔نتیجتا ً‬
‫طاقت و شوکت کے ضامن گهوڑے کی حالت بهوک سے الغری کے سبب خستہ ہو گئی ۔ سودا نے قوت و جالل‬
‫کے اسی بهوک سے نڈهال الغر اور خستہ حال نشان کو اپنی ہجو کا موضوع بنایا ہے۔‬
‫اس ہجو کا گهوڑا دراصل آخری دور کا استعاره ہے۔ جو اس دور کی سیاسی اور معاشی بدحالی کا ترجمان ہے۔‬
‫قصیدے کے آغاز میں سودا بتاتے ہیں کہ اب سے کچه عرصہ پہلے جن امراءکے پاس عراقی اور عربی نسل کے‬
‫گهوڑے تهے۔ اب ان کا یہ حال ہے کہ بچاروں کے پاس جوتیاں مرمت کرنے کے لئے بهی پیسے نہیں ہیں ۔ موچی‬
‫سے ادهار مرمت کراتے ہیں ۔ اس سے مغل امراءکی تباه حالی معلوم ہوتی ہے کہ عوام ہی نہیں خواص بهی سیاسی‬
‫و معاشی انتشار کا شکار ہو چکے تهے۔‬
‫اب دیکهتا ہوں میں کہ زمانے کے ہاته سے‬
‫کفش پا کو گهٹاتے ہیں وه ادہار‬
‫موچی سے ِ‬
‫اس کے بعد وه ذکر کرتے ہیں کہ ہمارے ایک مہربان دوست بهی ہیں جو سرکار سے سو روپیہ پاتے ہیں ۔ ان کے‬
‫پاس ایک گهوڑا ہے۔ مگر اس کی حالت ناگفتہ ہے۔ گهوڑے کے کهانے کے لئے دانہ اور گهاس نہیں ہے اور‬
‫رکهوالی کے لئے سائیس موجود نہیں ۔ خوراک نہ ملنے سے وه زمین پر بیٹهنے اور اُٹهنے کے قابل نہیں۔ اس کے‬
‫فاقوں کا حساب لگانا مشکل ہے۔ اگر گهوڑا لے کر بازار سے گزریں تو قصائی پوچهتا ہے کہ ہمیں کب یا د کرو‬
‫گے۔ فاقوں کی کثرت ہی سے گهوڑا اتناناتواں ہو چکا ہے۔ کہ اس میں ہنہنانے کی طاقت بهی نہیں ہے۔ اس ناتوانی‬
‫کے باعث اب ہوا بهی اسے اڑا کے لے جا سکتی ہے۔ اس کے جسم پر زخم ہیں ۔ جن پر جابجا مکهیاں بیٹهتی ہیں۔‬
‫خلق خدا گهوڑے کی اس حالت پر دعا کرتی ہے کہ یہ گهوڑا گم ہو جائے یا مرجائے یا اسے چور لے جائیں۔‬
‫ناطاقتی کا اس کے کہاں تک کروں بیاں‬
‫فاقوں کا اس کے اب میں کہاں تک کروں شمار‬
‫فاقوں سے ہنہنانے کی طاقت نہیں رہی‬
‫گهوڑی کو دیکهتا ہے تو پاد ے ہے بار بار‬
‫قصاب پوچهتا ہے مجهے کب کروگے یاد‬
‫امید وار ہم بهی ہیں کہتے ہیں یوں چمار‬
‫اس کے بعد سودا بتاتے ہیں کہ ایک روز مجهے کہیں جانے کے لئے گهوڑے کی ضرورت پڑی ۔ میں اسی‬
‫مہربان کے پاس پہنچا انہوں نے عزت سے فرمایا کہ یہ گهوڑا اب سواری کے قابل نہیں رہا۔ یہ تو گدهے سے بدتر‬
‫ہے۔ زمین پر میخ کی طرح قائم ہے۔ یعنی ہلنے کی طاقت نہیں رہی ہے۔ اسکے تمام دانت اڑ گئے ہیں ۔ یہ گهوڑا‬
‫بہت بوڑها ہے۔ شیطان جنت سے اسی پر سوار ہو کر نکال تها۔ اب اس کی حالت کمزوری کی وجہ سے اسپ خانہ‬
‫شطرنج کی ہو چکی ہے کہ کسی مدد کے بغیر نہیں چل سکتا۔‬
‫اب گهوڑا میدان جنگ کے لئے نکلتا ہے۔ وه امیر بتاتا ہے کہ جس دن مرہٹوں نے دہلی پر حملہ کیا ۔ تو مجهے‬
‫نقیب نے اطالع دی کہ گهر میں کوڑیاں بہت کهیل چکے ہو۔ اب وقت ِ کارزار ہے۔ باہر میدان میں پہنچو۔ اس بیان‬
‫سے یہ بهی پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں امراءجنگی مشقوں کے بجائے گهروں میں بیٹه کر تفریح کے لئے‬
‫کوڑیاں کهیال کرتے تهے ۔ گهوڑے نے امیر کی بہت سبکی کرائی ۔ گهوڑا ایک دم آگے نہ بڑهتا گیا۔ لوگ اکهٹے‬
‫ہوگئے۔ او رآواز یں کسنے لگے کہ اسے پہیے لگا لو۔ پهر چل پڑے گا۔ غرض لوگ طرح طرح کی باتیں بنانے‬
‫لگے ۔‬
‫دلی تک آن پہنچا تها جس دن کہ مرہٹا‬
‫مجه سے کہا نقیب نے آکر ہے وقت کار‬
‫جس شکل سے سوار تها اس دن میں کیا کہوں‬
‫دشمن کو بهی خدا نہ کرے یوں ذلیل و خوار‬
‫اس مضحکے کو دیکه ہوئے جمع خاص و عام‬
‫اکثر مدبروں میں سے کہتے تهے یوں پکار‬
‫پہیے اس لگائو کہ تا ہوئوئے یہ رواں‬
‫یا بادبان بانده پون کے دو اختیار‬
‫میدان جنگ میں اٹهائی جانے والی خفت کا ذکر کرتے ہیں کہ گهوڑے کے ہاتهوں ذلت اُٹها کر‬‫ِ‬ ‫اس کے بعد سودا‬
‫بهاگنے کی ضرورت پیش آئی ‪،‬‬
‫دست دعا اُٹها کے میں پهر وقت جنگ میں‬
‫کہنے لگا جناب ٰالہی میں یوں پکار‬
‫پہال ہی گوال چهوٹتے اس گهوڑے کے لگے‬
‫ایسا لگے یہ تیر کہ ہووے جگر کے پار‬
‫گهوڑا کہ بس کے الغر و پست و ضعیف و خشک‬
‫ت کارزار‬‫کرتا یوں خفیف مجهے وق ِ‬
‫جب دیکها میں کہ جنگ اب یاں بندهی ہے مشکل‬
‫لے جوتیوں کو ہاته میں گهوڑا بغل میں مار‬
‫دهر دهمکا واں سے لڑتا ہوا شہر کی طرف‬
‫القصہ گهر میں آن کے میں نے کیا قرار‬
‫ڈاکٹر شمس الدین صدیقی اس ہجو کے بارے میں فرماتے ہیں۔‬
‫سودا کی غیر شخصی ہجوئوں میں سب سے کامیاب اور پر لطف قصده ”تضحیک روزگار ‘ ‘ ہے ۔ جو اگرچہ ”‬
‫ایک بخیل امیر کے فاقہ زده گهوڑے کی ہجو ہے۔ لیکن اس دور کے فوجی نظام کی خرابی کی طرف بهی اشاره‬
‫کرتا ہے۔ مبالغہ ظرافت نے اس ہجو کو دلچسپ بنا دیا ہے‬
‫دور آخر کے‬
‫یہ اور اس قسم کی دوسری نظمیں یوں پہلی نظر میں تفریحی معلوم ہوتی ہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ِ‬
‫زوال و انحطاط کی دکه بری داستانیں ہیں ۔ جن سے ایک زوال پذیر اور سیاسی انتظامی اعتبار سے تباه شده اور‬
‫ناکاره قوم کی تباہی اور بد نظمی کا منظر بڑے دلچسپ مگر خوفناک انداز میں پیش کرتی رہیں گی۔‬
‫مجموعی جائزه‪:‬۔‬
‫اس میں شک نہیں کہ سودا نے اپنی ہجوئوں میں مخالف کے انتہائی روشن پہلوئوں پر بهی سیاہی پهیر دی ہے۔‬
‫جیسے کہ قصائد میں اپنے بعض انتہائی کمزور ممدو حین کو سکندر و دارا کا ہم پلہ ثابت کر دکهایا ہے۔ لیکن‬
‫مقاصد کے اختالف کے سبب سودا کے قصید ے فنی کمال کی جس سطح مرتفع تک بلند ہو گئے ہیں ۔ ہجوئوں میں‬
‫ماسوائے تضحیک روزگار اور ہجو میر تقی میر وه فنی ارتکاز نہیں ملتا ۔ اس کے باوجود یہ نظمیں اپنے مقصد‬
‫میں اس اعتبار سے بہت کامیاب ہیں کہ سودا نے جس کی ہجو کہہ دی اسے دنیا میں منہ دکهانے کے قابل نہیں‬
‫چهوڑا۔‬

‫سوال نمبر‪2‬۔ واصل بن عطاءکون تھا۔اس کے خطبہ کی عربی ادب میں اہمیت پر نوٹ لکھیں۔؟‬
‫جواب واصل بن عطا حضرت امام حسن بصری کا شاگرد تها کبیره گناه کرنے سے انسان کافر ہوتاہے یا نہیں؟اس‬
‫نے امام حسن بصری کے برعکس موقف اپنایا اور کہا کہ کبیره سے انسان کافر ہوجاتاہے اور اپنے استاد کے‬
‫بالمقابل مجلس لگا کر اپنی تبلیغ شروع کردی استاد کی زبان سے نکال ”قد اعتزل عنا“ اس نے ہم سے اعتزال کیا‬
‫ہے یعنی رستہ بدل لیا ہے اس دن سے ایک الگ فرقہ بنام معتزلہ معرض وجود میں آگیا شروع میں واصل اکیال تها‬
‫بعد میں اسے ایک محنتی ومخلص ٹیم مل گئی‪،‬ابوالہذیل عالف‪،‬قاضی احمد بن ابوداود االیادی اورقاضی‬
‫عبدالجبارجیسے ماہر مناظر ‪ ،‬ادباء میں جاحظ جیسا محیر العقول ادیب ‪ ،‬فن تفسیر میں عالمہ زمخشری جیسا بلیغ‬
‫مفسر ‪،‬فلسفیوں میں بشربن معتمر اورنظام ابراہیم جیسے فالسفہ مل گئے ان کو عروج تب مال جب حکومت کی‬
‫پشت پناہی حاصل ہوئی یزید بن ولید اموی خلیفہ نے ان سے تعاون کیا ‪،‬عباسی خلیفہ منصور نے اسے بڑهایا اور‬
‫مامون الرشید نے اسے بام عروج تک پہنچادیا معتصم باہلل اور واثق باہلل نے تو ظلم وتشدد کی انتہاکردی اور متوکل‬
‫کے دور میں جا کے کم ہوا ہزارہا علماء شہید ہوئے خلق قرآن کے عنوان سے ایسا فتنہ کهڑا ہوا کہ امام مالک سے‬
‫لیکر امام احمد بن حنبل تک سب صعوبتوں اور شدید تکالیف کو برداشت کرتے رہے شروع میں مسئلہ صرف کبیره‬
‫گناه کی شرعی حیثیت تهی بعد میں خمسہ مسائل کے عنوان سے الگ موضوعات پہ مناظرے مجادلے کتب رسائل‬
‫اور کئی صدیوں تک جنگ وجدل چلتا رہا آخر کار ہالکو خان نے بغداد واسالمی دنیا کو ذلت ورسوائی سے دوچار‬
‫کیا ۔ایک شخص کے گستاخانہ اختالف نے کتنے افراد کو تباه وبرباد کیا؟ کتنے عقل مند لوگ راه راست سے‬
‫بهٹکے؟ اسالم کو کتنا نقصان ہوا؟آپ سب کے سامنے ہے ۔اختالف تو جمیع آئمہ کے مابین بهی رہا کئی ہزار مسائل‬
‫حسن اختالف ہر دور‬ ‫ِ‬ ‫میں صاحبین اپنے امام سے اختالف کرتے رہے لیکن وه قد اعتزل عنا نہیں تها علمی و ادبی‬
‫میں ہوا ہماری فقہ کی جمیع منتهی کتب میں تقریبا ہر مسئلہ کے بعد” وفیہ نظر“ اور” وفیہ قول ورای“ وغیره کے‬
‫الفاظ ملتے ہیں یعنی گستاخانہ اختالف انتشار بن جاتا ہے ۔آج یہی صورتحال ہے قد اعتزل عنا کا اختتام کتنا‬
‫خطرناک ہوتا ہے یہ کوئی بالغ نظر ہی سمجه سکتا ہے دوسری طرف وه صاحب بهی سوچیں جن کے ایک جملہ‬
‫واقرار خطا تها لیکن افسوس صد‬
‫ِ‬ ‫سے یہ سب فتنہ پیدا ہوا اس کا حل بهی ایک ہی جملہ تهااور وه جملہ ِ رجوع‬
‫افسوس ۔انا و بعض پشت پناہیاں و ناخلف خلیفے ہمیشہ مسائل ختم کرنے کی بجائے بڑهاتے چلے گئے دونوں‬
‫طرف ایسے ہی آگ لگانے والے شعلہ بیان و تیر سنان موجود ہیں ۔تصفیہ مابین شیعہ وسنی کرواتے کرواتے تبره‬
‫بین اہل سنت پہ آچکے ہیں ۔ظاہر ہے سیاسی قوتوں کے لیے تو یہ صورتحال نہایت سود مند ثابت ہوتی ہے مگر‬
‫مذہبی اکابرین کے لیے سوچنے کا مقام ہے مدارس پہلے نشانے پہ ہیں مساجد پہ دشمن نگاہیں گاڑے بیٹها‬
‫ہے۔سوچنے کی بات ہے اعراس کی اجازت نہیں لیکن ایک دوسرے سے لڑنے کے لیے کانفرنس کی اجازت ہے ۔‬
‫علماءکومیڈیا پہ بیان کی اجازت نہیں لیکن آپس میں فتنہ وفساد کو ہوا دینے کے لیے فیض آباد دهرنے پہ دو لیڈروں‬
‫کو موقع دیا گیاتها تاکہ بهرپور لڑیں ۔اے کاش!!ہم نئے ہالکو خان کے آنے سے پہلے پہلے اپنے معامالت گهر بیٹه‬
‫کر درست کرلیں ۔الفتنہ اشد من القتل ہم فتنوں کو ختم کرنے والےبن جائیں اپنی داڑهی دوسروں کے ہاته پکڑانے‬
‫سے پہلے خود تصفیہ کے قابل ہوجائیں‬

‫خطبہ کی عربی ادب‬

‫خطبات ادب کا ایک فن ہے جو قدیم زمانے سے مشہور ہے او ر اس سلسلے میں اس کی بہت سی تعریفیں‬
‫ہیں لیکن ان میں سے ایک قدیم ترین اور سب سے پہلی ارسطو کی تعریف تهی۔ جس نے خطابت کو ایسی طاقت‬
‫سے تعبیر کیا جس میں ہر طرح کے معامالت میں لوگوں کو زیاده سے زیاده راضی کرنا شامل ہے۔ خطابت کی‬
‫ایک انتہائی جامع اور مکمل تعریف یہ ہے کہ عوام کو متأثر کرنے کے لیے خطاب کرنے کا فن ہے جس میں بنیادی‬
‫طور پر سننے والوں کے ساته جو کچه کہا جاتا ہے اسے قائل کرنے اور ان کو منانے کے لئے زبانی طور پر بولنے‬
‫پر مشتمل ہوتا ہے ۔ ‪( ؎١‬تاریخ ادب عربی‪ ،‬استاد احمد حسن زیات ‪ ،‬ص ‪ ٢١‬اور عربی ادب کی تاریخ‪ ،‬ج ‪ ،٢‬عبد‬
‫الحلیم الندوی ص ‪ ۶۶‬اور تاریخ ادب عربی‪ ،‬ڈاکٹر شمس کمال انجم ص ‪) ۸۳‬‬

‫خطابت فن کارانہ نثر کی ایک قسم ہے جو عربی ادب میں عام طور پر اور خاص طور پر اسالم سے‬
‫پہلے (‪،؎٢ )۶٢٢-٢۳‬کے ادب میں مشہور ہوئی۔ کیوں کہ خطبات اسالم سے پہلے عہد میں کئی معامالت کو نبهاتی‬
‫تهی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسالم سے پہلے کے دور میں بہت ساری غیر اخالقی حرکتیں پائی جاتی تهیں۔ جیسے‬
‫لوٹ مار‪ ،‬ڈکیتی‪ ،‬ظلم وستم‪ ،‬قتل و غارت گری اور قبائلی جنونیت کے ذریعہ پیدا ہونے والی دیگر حرکتیں ۔ ‪؎۳‬‬

‫خطابت کے پهلنے پهولنے میں قبائلی اضطرابوں نے ایک اہم کردار ادا کیاہے۔ قبل از اسالمی عہد میں‬
‫عربوں کے ہر قبیلہ کے پاس ایک زبان موجود تهی جو ان کا دفاع کرتی تهی۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ زبان‬
‫کے اثرات تلوار کے اثر سے زیاده شدید ہیں۔ اس لیے بہت ساری خوبی کے ایسے شعبے تهے جن کے ذریعہ‬
‫اسالم سے پہلے خطابت کا فن فروغ پایا۔ صحرا اور گهڑ سواری کی زندگی عربوں کے لیے ہمیشہ خطرے کا باعث‬
‫تهی تو قبائلی اضطراب نے بهی خطابت کو پهلنے پهولنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ اسالم سے پہلے کے عہد کے‬
‫عرب ایک ان پڑه قوم تهی جو نہ تو پڑه سکتی تهی اور نہ ہی لکه سکتی تهی۔ لیکن ان کی فصاحت سلیقہ سے حاصل‬
‫کی گئی تهی جو حسی محرکات کے ذریعہ لبوں سے بیان کی روانی‪ ،‬الفاظ کی مٹهاس کے ساته اظہار کے معیار‬
‫کے لیے دباؤ ڈالتا تها۔ دوسری طرف عہد اسالم سے پہلے سوق عکاظ کا مشہور بازار تها جس نے خطابت کی ترقی‬
‫پر بہت اثر ڈاال جہاں دور دور سے شاعر‪ ،‬نعت گو ‪ ،‬مصنف اور خطبا آتے تهے اور زیارت کے وقت اس میں‬
‫لوگوں کا سب سے زیاده مجمع ہوتا تها جو اچهے مصنفین‪ ،‬شاعر اور خطبا کو ان کی حیثیت کی وجہ سے فوقیت‬
‫دیتے تهے۔ ‪؎۴‬‬

‫اسالم سے پہلے عربوں کے لیے خطبہ ایک معاشرتی ضرورت تهی جو باقی ادوار سے متعدد خصوصیات‬
‫سے ممتاز تهیں۔ لیکن عرب حاضر دور کے اعتبار سے ادب کی اہمیت کو نہیں جانتے تهے لیکن اس زمانے میں‬
‫اس کی حیثت اور اقسام تهیں۔ اور اس قسم کے مواقع اور مقاصد کی کثیر تعداد سے ضرب تهی جس کے لیے خطبہ‬
‫دیا گیاتها‪؎۵‬۔ اور خطبہ کی سب سے اہم اقسام تهیں۔‬

‫واعظ ‪ :‬اس خطبے میں بہت سی نصیحتیں اور فیصلے دئیے جاتے تهے جو نیک اخالق‪ ،‬عمده خوبیوں کے ساته‬
‫عزم کی تاکید کرتے تهے جس کے ساته معاشره عروج پر تها۔ فخریہ خطبے میں مبلغ اپنے قبیلے کی خوبیوں‬
‫اورکارناموں کو دہرایا کرتے تهے۔ جو ان کے ساته پوری تاریخ میں رونما ہوتی تهی اور ان کی زندگی میں ایک‬
‫مثال قائم کرتے تهے۔ نکاح کا خطبہ معاشرتی پہلو میں عرب قوم کی پیش رفت کی سر براہی کرتا تها ۔ کیوں کہ یہ‬
‫انسانی مواصالت کی ایک خاص اور اہم قسم کی نمائندگی کرتا تها۔ تعزیتی خطبہ میں قبیلے کے کسی فرد کی‬
‫وفات پر مبلغ مرحوم کے اہل خانہ سے دلی تعزیت پیش کرتا تها اور ان سے صبر کی تلقین کرتا تها۔ ‪؎۶‬‬

‫قبل از اسالم کے خطبات اس زمانے میں تمام مختلف حاالت پر قابو پانے کی کوشش کرتے تهے اور‬
‫قبیلے کے اندر موجود تمام لوگوں تک پہنچائے جانے والے ایک واضح اور اثر انگیز بیان اور خطبے میں ان کا‬
‫ترجمہ کرنے کی کوشش کی جاتی تهی۔‬

‫خطبہ اسالم سے قبل کے عہد میں ایک انوکهی خصوصیات کی حامل تهی۔ جس نے خطیب کو ممتاز‬
‫کیا ‪ ،‬کیوں کہ خطیب اپنے خطبے کے ذریعہ لوگوں اور قبائل کو متأثر کرتا تها اور انهیں دنیا میں مشہور بنا دیتا‬
‫تها۔اس لیے خطابت کو مؤثر اور دلکش بنانے کے لیے اور لوگوں کی توجہ مرکوز رکهنے کی کوشش کرنے کے‬
‫لیے خطبات میں مشہور محاورے استعمال کرنے کی کوشش کرتے تهےجو حکمت یا کہاوتیں تبلیغ کے ذریعہ خطبے‬
‫میں دیے جاتے تهے۔ ‪؎ ۷‬‬

‫قبل از اسالم مبلغین کا ایک بہت بڑا گروه تها جو تقریر کرنے اور لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے‬
‫اپنی اعلی صالحیتوں کے لیے مشہور تهے۔ ان میں سے ایک تهے قیس بن ساعده اإلیادی ‪ ،‬جنہوں نے سب سے‬
‫پہلے’’اما بعد‘‘ ‪ ،‬البینۃ علی من ادعی ‪ ،‬والیمین علی من انکر‘‘ ‪ ،‬من فالن إلی فالن‘‘ اپنے خطبے میں استعمال کیا۔ ان‬
‫کے متعلق مشہور ہے کہ اونچی جگہ کهڑے ہو کر خطبہ دینے اور تلوار کا سہارا لینے کی ابتدا انهیں سے ہوئی۔’’سوق‬
‫عکاظ‘‘ میں جب ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم نے ان کی تقریر سنی تو پسند فرمائی۔ روایت کے مطابق آپ‬
‫ﷺ نے فرمایا ’’خدا قیس پر رحم فرمائے ‪ ،‬مجهے امید ہے کہ قیامت کے دن وه تنہا ایک قوم کی جگہ اٹهایا جائے‬
‫گا‘‘۔‪۸‬‬

‫لیکن جب ‪ ۴۰‬هجری (مطابق ‪ ٢۳-۶٢٢‬ء سے ‪۶٢-۶۶١‬ء تک )‪ ، ؎١۴‬میں اسالمی دور آیا تو یہ عہد تجدید عہد‬
‫کا دور تها۔ جس نے زندگی کے تمام پہلوؤں اور تمام فنون کو بهی متأثر کیا ۔ اسالم کے ابتدائی زمانے میں خطابت‬
‫کو تقویت حاصل ہوئی۔ اور ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم نے خطابت کا ایک مکتب تشکیل کیا جس نے دنیا کو‬
‫اسالم کا پیغام پہنچایا اور اس دور میں خطابت اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ اور اسالمی خطبات کی ترقی میں بہت سے‬
‫عوامل کا تعاون تها۔ سب سے پہلے لوگوں کو خطبات کے ذریعہ اسالم کی دعوت دی گئی اور پهر لوگوں کو دین‬
‫اسالم میں داخل ہونے کے بعد اس کے احکام کو واضح کرنا اور اس کے مکمل معنی اور تفصیل کو قرآن اور حدیث‬
‫کی روشنی می ں بیان کرنا ضروری تها۔ اسالم نے ایسے نئے تصورات پیدا کیے جن سے انسان کو پہلے سے کوئی‬
‫تعارف نہیں تها۔ لہذا اس نے زبان کی تجدید اسالمی انداز میں کیا جو مذہبی خطبات میں ظاہر ہوتا ہے۔ جہاں اسالم‬
‫نے زبان کی تربیت کر کے ایک ایسے نئے انداز میں سامنے الیا کہ لوگ پہلے کی نسبت زیاده اس کی طرف راغب‬
‫ہوئے۔ اور اسالم نے خطابت کے مقاصد کو متحد کیا اور ایک ایسے موضوع کے ارد گردگهومتا ہے جس پر تبادلہ‬
‫خیال کیا جا سکے اور پهر قرآن کے انکشاف نے اس کی معجزاتی کی وجہ سے بیانات کی فصاحت‪ ،‬وسیع معانی‬
‫اور اس کی وضاحت سے مستفید ہوت ے تو اس نے زبان کو اور اس کے طریقوں کو بہتر بنایا اور تأثرات کو آسان‬
‫بنایا اور الفاظ کے لیے نئے دروازے کهول دیئے اور پهر حدیث نے قرآن کی تفصیل سے اور مکمل وضاحت کی۔‬
‫‪؎١۵‬‬

‫سوال نمبر‪3‬۔ عر بی زبان کے لئے قوائد کا کس حد تک ضروری ہے نوٹ لکھیں۔‬

‫جواب‬

‫عربی زبان کا علم قرآن کو سمجھنے کی حد تک…‬


‫عربی زبان کو قرآن کو سمجهنے کی حد تک سیکهنے کے لئے بہتر ہے کہ کتابوں کے اسباق اور موضوعات‬
‫پڑهنے اور سمجهنے سے پہلے بنیادی اصطالحات اور الفاظ کے معنی یاد کر لئے جائیں یا یاد کروا دیے جائیں…‬
‫اور قرآنی ذخیره الفاظ کو بهی یاد کر لیں معنی کے ساته… کیونکہ اسباق کے ساته ساته پڑهنا‪ ،‬سمجهنا اور یاد‬
‫کرنا مشکل ہوتا ہے…‬
‫‪.‬‬
‫اگر عربی زبان کے قواعد کو ایک منظم طریقے پر ترتیب دے لیا جاۓ یا انکی اصطالحات کا ایک چارٹ بنا لیا‬
‫جاۓ اور اس کی بنیاد پر عربی زبان کو سیکهنے کی کوشش کی جاۓ توزیاده مشکل پیش نہ آۓ… پهر چاہے‬
‫کتاب کوئی بهی ہو… ابهی تک تو یہ ہو رہا ہے کہ عربی زبان سکهانے کے لئے بہت سی کتابیں چهاپی گئیں‬
‫ہیں… کسی میں ایک اصطالح اور اسکے قواعد اور کسی میں دو تین ساته مال کر پیش کر دی گئیں ہیں…‬
‫‪.‬‬
‫عربی زبان سیکهنے کے طریقے عربیوں اور عجمیوں کے لئے مختلف ہوسکتے ہیں… عربی اہل زبان ہونے کی‬
‫وجہ سے الفاظ‪ ،‬جملوں‪ ،‬محاوروں اورضرب االمثال کا استعمال جانتے ہیں… اور انہیں اپنے مطلب اور مقصد‬
‫کے حساب سے استعمال کرتے ہیں… جبکہ عجمیوں کو الفاظ‪ ،‬جملوں کی بناوٹ ‪ ،‬اصطالحات‪ ،‬سب کچه سیکهنا‬
‫ہوتا ہے… پاکستانیو ں کے لئے عربی زبان کو سیکهنا کوئی خاص مشکل نہیں کیونکہ اردو میں پچهتر فیصد الفاظ‬
‫عربی زبان کے ہی ہیں اور تقریبا انہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں… عربی حروف تہجی تمام کے تمام اردو‬
‫صہ ہیں اور انکے مخارج بهی ایک جیسے ہیں…‬ ‫حروف تہجی کا ح ّ‬
‫‪.‬‬
‫عربی زبان میں حرکات‪ ،‬اعراب اور حروف علت کی بہت اہمیت ہوتی ہے…‬
‫کیونکہ انکی تبدیلی‪ ،‬اضافے یا کمی کی وجہ سے اسماء اور افعال کے جنس‪ ،‬عدد‪ ،‬حالت‪ ،‬زمانے اور جملوں کے‬
‫معنی تبدیل ہو جاتے ہیں… اس لئے انکا صحیح استعمال ضروری ہے… خاص طور پر قرآن کو پڑهنے اور‬
‫سمجهنے کے لئے…‬
‫‪.‬‬
‫ایک اہم بات یاد رکهنے کی یہ ہے کہ قرآن کے متن میں الفاظ پر حرکات کا استعمال کیا گیا ہے… اور اسکی وجہ‬
‫یہی ہے کہ عجمی یعنی غیر عربیوں کے لئے قرآن پڑهتے وقت غلطی کی گنجائش نہ ہو… جبکہ عربی زبان میں‬
‫باقی تحریروں میں حرکت نہیں لگی ہوتیں… یہ اہل زبان کو پتہ ہوتا ہے کہ کیا لکها ہے… بالکل ایسے ہی جیسے‬
‫کہ اردو کی تحریروں میں بهی حرکات کا استعمال نہیں ہوتا…‬
‫‪.‬‬
‫قرآن کو سمجهنا زیاده مشکل نہیں‪ -‬قرآن میں تقریبا سات ہزار آٹه سو الفاظ استعمال ہوۓ ہیں‪ -‬ان میں سے کئی الفاظ‬
‫اور کچه جملے متعدد مرتبہ آیات میں آۓ ہیں‪ -‬تقریبا تمام الفاظ اور جملے مقرره قواعد کے تحت ہی بنے ہوۓ‬
‫ہیں… اس لئے قرآنی الفاظ کے ظاہری مطلب کو سمجهنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی…‬
‫‪.‬‬
‫عربی زبان میں قواعد کی اصطالحات انگریزی اور اردو کی ہی طرح ہیں… انگریزی میں بات یا تقریر کو آٹهہ‬
‫صوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی اسم ‪ ،noun‬فعل ‪ ،verb‬صفت ‪ ،adjective‬فعل متعلق ‪ ،adverb‬ضمیر‬ ‫ح ّ‬
‫‪ ،pronoun‬عطف ‪ ،conjunction‬جر ‪ preposition‬اور تعجب ‪ ..… interjection‬اردو اور عربی میں بهی‬
‫یہی اصطالحات موجود ہیں… لیکن اردو میں انکی کوئی ترتیب نہیں ہے… ایسا لگتا ہے جیسے کہ انگریزی‬
‫قواعد کے طریقے پر الفاظ کو تقسیم کر کے قواعد بنا دی گئی ہے…‬
‫‪.‬‬
‫ظم ہے… جس کی وجہ سے عربی کا سیکهنا اور سمجهنا‬ ‫عربی قواعد انگریزی اور اردو کے مقابلے پر بہت من ّ‬
‫کافی آسان ہے… عربی کے اس نظم و ضبط کی وجہ سے اکثر لوگ اسے سیکهنا نہایت مشکل سمجهتے‬
‫ہیں… حاالنکہ عربی کو اس وجہ سے ہی سیکهنا آسان ہوا ہے…‬
‫اسے انگلش کی طرح سیکهیں تو یہ پریشانی کا باعث بنتی ہے… پاکستان میں عربی پر التعداد مختلف غیر منظمّ‬
‫کتابوں کے چهپنے کی وجہ یہی ہے کہ انهیں انگش قواعد کی طرز پر سمجهنے سمجهانے کی کوشش کی جاتی‬
‫ہے… جس کے جیسے سمجه آئی اس نے ویسے ہی کتاب چهاپ دی… جس کی وجہ سے وقت کا زیاں بهی ہوتا‬
‫ہے اور طلبہ کے لئے ذہنی مشکالت بهی…‬
‫‪.‬‬
‫عربی زبان اور باقی زبانوں میں فرق‬
‫عربی زبان اور باقی دونوں زبانوں میں پہال فرق یہ کہ عربی میں تمام با معنی الفاظ یعنی کلمات کو تین بنیادی‬
‫صوں میں تقسیم کردیا گیا ہے یعنی اسم‪ ،‬فعل اور حرف… بولے جانے والے الفاظ کا تعلق ان تین میں سے کسی‬ ‫ح ّ‬
‫ایک سے ضرور ہوگا… باقی تمام اصطالحات ان تین کے تابع ہونگی اور اسکی وجہ بهی موجود ہوگی…‬
‫‪.‬‬
‫دوسرا فرق یہ ہے کہ عربی میں حروف علّت کا کام آواز کے اتار چڑهاؤ کے لئے بنائی گئی تین صوتی حرکات‪،‬‬
‫زبر‪ ،‬زیر اور پیش سے بهی لیا جاتا ہے… یہ حرکات الفاظ کی جنس‪ ،‬عدد‪ ،‬حالت اور زمانے کا تعین بهی کرتے‬
‫ہیں… اسی لئے قرآن پڑهنے سے پہلے حرکات اور حروف علّت سمجهنا بہت ضروری ہے ورنہ قرآنی الفاظ کے‬
‫معنی بدل جانے کا خدشہ ہوتا ہے…‬
‫‪.‬‬
‫تیسرا فرق یہ ہے کہ عربی میں گردان یعنی اسم اور فعل کی بناوٹ میں تبدیلی کے لئے ایک چارٹ ترتیب دیا گیا‬
‫ہے… یہ گردانیں جنس ‪ gender‬اور عدد ‪ number‬کی بنیاد پر ترتیب دی گئی ہیں… انہیں یاد کرنا ایک ٹیکنیک‬
‫ہی نہیں بلکہ ایک دلچسپ لسانی مشغلہ بهی ہے…‬
‫‪.‬‬
‫چوتها فرق یہ ہے کہ قرآنی آیات کو بغیر ترجمے کے سمجهنے کے لئے عربی کا ماہر ہونا ضروری نہیں… یہ‬
‫عمل آہستہ آہستہ خود ہی مک ّمل ہو جاتا ہے اگر بنیادی قواعد پر صحیح توجہ دی گئی ہو…‬
‫‪.‬‬

‫عربی زبان کو سیکهنے کے لئے عربی کو دو قسم کے علوم میں تقسیم کیا گیا ہے…‬
‫ص ْرف یا ع ِْل ُم الت َّ ْ‬
‫ص ِریف‬ ‫‪)١‬ع ِْل ُم النَّحْو اور ‪ )٢‬ع ِْل ُم ال َّ‬
‫‪.‬‬
‫‪ )١‬علم النحو کلمات یعنی اسم‪ ،‬فعل اور حرف کو جوڑ کر جملہ بنانے کی ترکیب کو کہتے ہیں… اس طرح کہ ہر‬
‫کلمہ کے آخری حرف کی حرکت معلوم ہو…‬
‫سةِ‪ ،‬خَا ِلدٌ‪ ,‬چار کلمے ہیں… اب انکو جوڑ کر جملہ بنانا اور اسے صحیح طرح‬ ‫در َ‬ ‫َب‪ ,‬ال َم َ‬ ‫مثال کے طور پر‪ ،‬اِلَى‪ ،‬ذَه َ‬
‫سةِ” یعنی خالد اسکول گیا…‬ ‫در‬
‫َ َ َ‬‫م‬ ‫ال‬ ‫ى‬ ‫َ‬ ‫ل‬‫ِ‬ ‫ا‬ ‫ٌ‬
‫د‬ ‫ل‬
‫ِ‬ ‫َا‬
‫خ‬ ‫ادا کرنا علم النحو ہے… “ذَه َ‬
‫َب‬
‫‪.‬‬
‫‪ )٢‬علم الصرف‪ ،‬عربی کلمات کو زمانے اور حالتوں کی وجہ سے جملوں میں استعمال کرنے کے لئے مختلف‬
‫شکلوں یا صیغوں میں تبدیل کرنا پڑتا ہے… اس تبدیلی یا تغیرات کے قواعد کے علم کو علم الصرف کہتے ہیں…‬
‫علم النحو ‪ +‬علم الصرف = اللغة العربیة‬
‫‪.‬‬
‫پچاس فیصد عربی…‬
‫عربی زبان میں مہارت حاصل کے بغیر پچاس فیصد عربی سیکهی جاسکتی ہے… کیسے؟‬
‫آپ نے ایک حدیث تو سنی ہوگی کہ “سوره االخالص ایک تہائی قرآن ہے”… اور اس کی وضاحت یوں کی جاتی‬
‫صوں پر مشتمل ہے یعنی ایمان باہللا‪ ،‬ایمان بالرسالہ ‪ ،‬ایمان بااآلخره… اور سوره‬ ‫ہے کہ قرآن کا پیغام تین بنیادی ح ّ‬
‫االخالص میں چونکہ ہللا کی توحید کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں اس لئے یہ قرآن کا ایک تہائی پیغام کا برابر‬
‫ہے… عام لوگوں میں یہ سمجها گیا کہ تین مرتبہ سوره االخالص پڑهنے سے پورے قرآن پڑهنے کا ثواب مل جاتا‬
‫ہے…‬
‫‪.‬‬
‫قرآن کی طرح عربی زبان بهی ایک معجزاتی زبان ہے…‪.‬‬
‫عموما ہرزبان میں تین چار سو سالوں میں کافی تبدیلیاں آ جاتی ہیں… جیسے اردومیں آ رہی ہے… پڑهے لکهے‬
‫لوگ بهی جاہلوں کی طرح فخریہ طور پر اردو بگاڑ کربولنے لگے ہیں اور اس پر شرمنده بهی نہیں… مثال خیال‬
‫صہ‪ ،‬خود کو کهد‪ ،‬خوش کو کهش‪ ،‬خوشی کو کهشی‪ ،‬خارش کو کهارش‪ ،‬قدر‬ ‫صہ کو گ ّ‬ ‫کو کهیال‪ ،‬غور کو گور‪ ،‬غ ّ‬
‫کو کدر وغیره… اردو کے معاملے میں بڑے بڑے پڑهے لکهے‪ ،‬لوگوں کے چہیتے‪ ،‬ماں باپ بهی غفلت اور‬
‫جہالت کا ثبوت دیتے ہیں اس لئے اردو زبان بدل رہی ہے بلکہ کہنا چاہیے بگڑ رہی ہے اور اس بگاڑ کے مجرم‬
‫پڑهے لکهے لوگ ہیں… شکر ہے میری امی نے ان معامالت میں ہماری بہت اچهی تربیت کی‪ ،‬ہم سے زیاده‬
‫اعلی قدروں کا خیال رکها… اور جس کو ارود کی فکر ہے اسے چاہیے کہ پاکستانی چینلز دیکهنا چهوڑدے تاکہ‬
‫اپنی قومی زبان جو کہ ہماری شناخت ہے‪ ،‬کی حفاظت کرسکے…‬
‫‪.‬‬
‫عربی زبان کا معجزه یہ ہے کہ چوده سو سال بعد بهی عام لوگوں میں اس کے الفاظ اور محاوروں کا استعمال‬
‫صدیوں پہلے جیسا ہی ہے… اور اسکے بولنے والے اس سے ایسے محبت کرتے ہیں جیسے اپنی اوالد سے…‬
‫عربی زبان عربیوں کا فخر ہے… جبکہ پڑهے لکهے پاکستانیوں کے لئے اردو ایک کنیز کہ جیسے چاہو سلوک‬
‫کرو لیکن اس سے تعلق شرمندگی کا باعث ہوتی ہے…‬
‫عربیوں نے اپنی زبان کو دنیا میں عام کرنے کے لئے بہت محنت کی ہے… امت مسلمہ کے ابتدائی دورکی‬
‫کامیابیوں کا تعلق تو تها ہی عربیوں کی علمی کاوشوں سے… انکی مشہور شخصیات نے کسی نہ کسی طور عربی‬
‫صہ ڈاال… افریقہ کے بہت سے ممالک تو اہل زبان ہی کی طرح عربی بولتے‬ ‫زبان کو رائج کرنے میں اپنا اپنا ح ّ‬
‫ہیں…‬
‫‪.‬‬
‫ظم اور جامع ہیں… الفاظ کا تعلق ایکدوسرے سے سمندر‬ ‫عربی قواعد شاید دنیا کی تمام زبانوں میں سب سے من ّ‬
‫اور دریا جیسا ہے کہ اسی میں سے نکلے اور اسی میں جا گرے… عربی زبان کے اس نظم و ضبط کے بنیادی‬
‫اصول سمجه آجائیں تو سمجه لیں آدهی عربی زبان سمجه آگئی… اس میں دوسری زبانوں کی طرح ہزاروں چیزیں‬
‫الگ الگ سمجهنے اور یاد کرنے کی ضرورت نہیں…‬
‫‪.‬‬
‫‪ )١‬عربی زبان میں حروف تہجی ‪ ٢٩‬ہیں اور ان سے یا تو مہمل (بے معنی) الفاظ بنتے ہیں یا موضوع (با‬
‫معنی)…‬
‫‪.‬‬
‫‪ )٢‬مہمل الفاظ کی کوئی قسم نہیں… لہٰ ذا بحث ہی فضول ہے…‬
‫‪.‬‬
‫‪ )۳‬موضوع الفاظ کو کلمات کہتے ہیں‪ ،‬جسکا مطلب ہے ایسا لفظ جسکے کوئی معنی ہوں اور وه گفتگو میں‬
‫استعمال ہوتا ہے…‬
‫‪.‬‬
‫‪ )٤‬موضوع الفاظ یا تو واحد (ایک لفظ) ہونگے یا مرکب (دو یا دو سے زیاده الفاظ کا مجموعہ)…‬
‫‪.‬‬
‫‪ )٥‬تمام کے تمام کلمات یا تو اسم ہوتے ہیں یا حرف… اور تقسیم انکی خصوصیات کی وجہ سے ہے… اس لئے‬
‫تمام الفاظ جو بهی ہیں الزما ان دو میں سے ایک کے اندر آئیں گے… لہذا ذہن بنا لیں کہ جو بات بهی میں کر رہی‬
‫ہوں یا کر رہا ہوں یا تو اسم ہے یا پهر حرف…‬
‫‪.‬‬
‫‪ )٦‬حرف میں تمام جر ‪ ،preposition‬عطف ‪ ،conjunction‬تعجب ‪ ،interjection‬استفہامیہ ‪،interrogative‬‬
‫شکیہ ‪ ،doubtful‬تاکید ‪ ,must/must not‬حروف کے عالوه بهی اور حروف شامل ہوتے ہیں… حروف کا کوئی‬
‫مادّه یا وزن نہیں ہوتا‪ ،‬ان کی کوئی عالمات نہیں ہوتیں اور یہ ہمیشہ جیسے ہیں ویسے ہی رہتے ہیں…‬
‫‪.‬‬
‫‪ )۷‬اسم میں تمام انسانوں‪ ،‬اشیا‪ ،‬جانوروں‪ ،‬جگہوں کے نام شامل ہیں جنهیں اسم جامد یا اسم ذات کہتے ہیں کیونکہ یہ‬
‫مادّے یا ایک خاص جسم کی صورت میں موجود ہوتے ہیں اور ان سے کسی کام کے معنی نہیں نکلتے… گهر‪،‬‬
‫پهول‪ ،‬زمین‪ ،‬آسمان‪ ،‬درخت‪ ،‬عورت‪ ،‬مرد‪ ،‬بچے‪ ،‬پانی‪ ،‬ہوا‪ ،‬کپڑا‪ ،‬کتب‪ ،‬قلم‪ ،‬کرسی…‬
‫کچه اسم معنی بهی ہوتے ہیں یعنی وه جسم کی صورت میں موجود نہیں ہوتے… جیسے جہاں‪ ،‬عقل‪،‬‬
‫وسوسہ‪ ،‬خیاالت‪ ،‬بات‪ ،‬کامیابی‪ ،‬ناکامی‪ ،‬عدل‪ ،‬ظلم‪ ،‬محنت‪ ،‬محبت‪ ،‬نیکی…‬
‫‪.‬‬
‫اس کے ساتهہ ساته ضمیر‪ ،‬اشارے‪ ،‬آوازیں‪ ،‬عادات‪ ،‬صفت‪ ،‬وقت‪ ،‬زمانہ رنگ اور اعداد بهی شامل ہیں کیونکہ انکا‬
‫تعلق اسم سے ہی ہوتا ہے…‬
‫اسم اشاره – یہ‪ ،‬وه‬
‫اسم صوت – اف ‪ ،‬کائیں کائیں‪ ،‬آں چهو‬
‫اسم الصفہ – خوبصورت‪ ،‬اونچا‪ ،‬خشک‪ ،‬نیال‪ ،‬سرخ‪ ،‬چار‪ ،‬گیاره‪ ،‬بهوکا‪ ،‬خوش مزاج‬
‫‪.‬‬
‫حتی کہ کاموں کے نام بهی تمام کے تمام اسم ہی کہالتے ہیں اور انهیں اسم مصدر کہتے ہیں… مصدر کے معنی‬
‫ہیں پانی کا چشمہ… جیسے پانی چاہے نمکین ہو یا میٹها‪ ،‬اسکے تمام قطروں کا مادّه آکسیجن اور ہا ئیڈ روجن ہی‬
‫ہوتے ہیں اور انکا وزن بهی ایک ہی جیسا ہوتا ہے یعنی دو ایٹم ہا ئیڈ روجن کے اور ایک آکسیجن کا…‬
‫‪.‬‬
‫اسی طرح اسم مصدر سے تمام افعال اوران سے مزید اسماء مصدر ہی مادّے اور خاص اوزان پر پهوٹتے ہیں…‬
‫کیونکہ کہ ان ناموں سے کام کی نوعیت‪ ،‬حالت اور کام کرنے والے کی حالت کا پتہ چلتا ہے… اورفلسفہ یہ ہے کہ‬
‫اسم ہوگا تو کام بهی ہوگا یعنی کام کا تصوراسم کے وجود سے ہے… یعنی زمین ہے تو گهوم رہی ہے نا تو گهومنا‬
‫اسم ہوگیا‪ ،‬سورج ہے تو چمکتا ہے تو چمکنا اسم ہو گیا‪ ،‬درخت ہیں تو اگتے ہیں تو اگنا اسم ہو گیا‪ ،‬پهول ہیں‬
‫توکهلتے ہیں توکهلنا اسم ہو گیا…‪ .‬اسی طرح رونا‪ ،‬سونا‪ ،‬جاگنا‪ ،‬سوچنا‪ ،‬دیکهنا‪ ،‬بڑهنا‪ ،‬کهانا‪ ،‬پینا‪ ،‬سوچنا‪ ،‬بہنا‪ ،‬قتل‬
‫کرنا‪ ،‬پونچهنا‪ ،‬جهاڑنا‪ ،‬بهاگنا‪ ،‬ملنا‪ ،‬بولنا‪ ،‬وغیره…‬
‫‪.‬‬
‫ان تمام اسماء کے وجود کے لئے کوئی عملی وجہ ہونا ضروری ہے… مثال کے طور پر آسانی پیدا کرو‪ ،‬لڑکے‬
‫کی پیدائش ہوئی‪ ،‬وه قتل ہو گیا‪ ،‬اس کو کهانسی ہو رہی ہے‪ ،‬اسکی موت واقع ہو گئی‪ ،‬اس نے گهومنا بند کردیا‪،‬‬
‫تجسس نہ کرو…‬
‫اگر کسی بچے کو کہیں کہ طوطا پنجرے میں بند کردو… اور بهاگنا بند کردو… تو بچے کو پتہ ہوگا کہ بهاگنا اس‬
‫کا عمل ہے جسے روکنا ہے…‬
‫‪.‬‬
‫‪ )۸‬فعل اسم مصدر کے مادّے سے بنتا ہے لیکن اسے اسم کے تحت رکهنے کے بجاۓ ایک الگ کلمہ بنایا گیا ہے‬
‫کیونکہ اس کی عالمات اسم سے مختلف ہیں… فعل کام کو کہتے ہیں… کام یا تو ماضی میں ہو چکا ہوتا ہے‪ ،‬یا‬
‫حال میں ہو رہا ہوتا ہے یا مستقبل میں ہونے واال ہوتا ہے…‬
‫تمام افعال مثبت یا منفی ہوتے ہیں یعنی کام کے ہونے یا نہ ہونے کا پتا دیتا ہیں…‬
‫تمام افعال معروف یا مجہول ہوتے ہیں یعنی فاعل کی طرف اشاره کرتے ہیں یا مفعول کی طرف…‬
‫‪.‬‬
‫عربی میں فعل ماضی ہوتا ہے یا پهر مضارع… مضارع میں حال اور مستقبل دونوں ہوتے ہیں…‬
‫‪.‬‬
‫‪ )٩‬کلمات میں اسم اور فعل معرب بهی ہو سکتے ہیں اور مبنی بهی…‬
‫معرب‬
‫اسم میں وه اسماء جن کے آخری حروف پر تینوں حرکات اور تنوین آتی ہو… اور اسی وجہ سے ایسے اسماء کو‬
‫منصرف کہتے ہیں…‬
‫اسم میں کچه اسماء ایسے بهی ہیں جن پر کسره (زیر) یا تنوین نہیں آتی… یعنی صرف فتحہ (زبر) یا (پیش) آتا‬
‫ہے… انہیں غیر منصرف کہتے ہیں…‬
‫ع َم َر‬ ‫یم – ا َ ْح َم ُد ا َ ْح َم َد – ُ‬
‫ع َم ُر ُ‬ ‫اہ‬ ‫ْر‬
‫ب‬ ‫ِ‬
‫َ ِ ُ َ ِ َ‬‫ا‬ ‫م‬ ‫ی‬‫اہ‬ ‫ْر‬
‫ب‬ ‫ِ‬ ‫ا‬ ‫–‬ ‫َب‬
‫َ‬ ‫ن‬‫ی‬‫ْ‬ ‫زَ‬ ‫َبُ‬ ‫ن‬‫ی‬‫ْ‬ ‫زَ‬ ‫–‬ ‫َ‬ ‫ة‬ ‫ح‬
‫َ‬ ‫ْ‬
‫ل‬ ‫َ‬
‫ط‬ ‫ُ‬ ‫ة‬ ‫طْ َ‬
‫ح‬ ‫ل‬ ‫عثْ َمانَ – ِع ْم َرا ُن ِع ْم َرانَ – َ‬ ‫عثْ َما ُن ُ‬ ‫ُ‬
‫ک–‬ ‫َّ‬
‫ک بَعَلبَ َ‬ ‫َّ‬
‫ث تین تین – بَعَلبَ َ‬ ‫ُ‬
‫ث ث َال َ‬ ‫ُ‬
‫س ْک َرانَ – ث َال ُ‬ ‫س ْک َرا ُن َ‬ ‫َ‬
‫‪.‬‬
‫مبنی‬
‫کلمہ میں وه کلمات جن کے آخری حرف کی حرکت کبهی تبدیل نہیں ہوتی انهیں مبنی کہتے ہیں…‬
‫‪.‬‬
‫حرف تمام کے تمام مبنی ہوتے ہیں سواۓ اسماۓ ظروف (ظرف زمان اور ظرف مکان) اور اسم کنایہ کے…‬
‫‪.‬‬
‫مونث اور نون تاکید مبنی ہوتے ہیں…‬ ‫َ‬ ‫جمع‬ ‫نون‬ ‫میں‬ ‫مضارع‬ ‫فعل‬ ‫معروف‪،‬‬ ‫حاضر‬ ‫امر‬ ‫فعل‬ ‫ماضی‪،‬‬ ‫فعل‬ ‫میں‬ ‫فعل‬
‫‪.‬‬
‫اسم می ں اسم غیر متمکن مبنی ہوتے ہیں… اسم غیر متمکن میں اسم ضمیر‪ ،‬اسم موصول‪ ،‬اسم اشاره اور اسم صوت‬
‫مبنی ہوتے ہیں… اسماۓ افعال بهی مبنی ہوتے ہیں…مرکب میں مرکب بنائی مبنی ہوتے ہیں…‬
‫ُمك ََّر ْر – ‪ – twice‬کسی لفظ میں کوئی حرف دو بار استعمال ہونا مکرر کہالتا ہے…‬
‫‪.‬‬
‫مونث غائب کو ظاہر کرنے کے لئے فعل کے آخر‬ ‫ِف ِاالثنَیْن – تثنیہ کا الف کہالتا ہے اور ماضی میں دو مذکریا َ‬ ‫ْ‬ ‫اَل ُ‬
‫میں لگایا جاتا ہے…‬
‫‪.‬‬
‫مونث غائب کے لئے لگایا جاتا ہے…‬ ‫َ‬ ‫جمع‬ ‫میں‬ ‫آخر‬ ‫کے‬ ‫ماضی‬ ‫فعل‬ ‫(ن)‬ ‫یہ‬ ‫–‬ ‫ة‬
‫ِ‬ ‫سو‬
‫َ‬ ‫ّ‬ ‫ن‬
‫ِ‬ ‫ال‬ ‫ن‬‫ُ‬ ‫و‬ ‫نُ‬
‫‪.‬‬
‫ع ِة – یہ واؤ فعل ماضی کے آخر میں جمع مذکر غائب کے لئے لگایا جاتا ہے…‬ ‫َواؤُال َج َما َ‬
‫‪.‬‬
‫الفاظ‬
‫‪.‬‬
‫سا ٌن ‪ tongue‬کہتے‬ ‫لغة – ‪ language‬لغت عربی میں زبان کو کہتے ہیں… وه نہیں جو منہ میں ہوتی ہے‪ ،‬اسے ِل َ‬
‫ہیں… لغت مطلب کہ بولی جانے والی زبان…‬
‫‪.‬‬
‫لفظ – ‪ – word‬جمع ہے الفاظ … مختلف حروف جوڑنے سے مختلف الفاظ بنتے ہیں…‬
‫لفظ نام ‪ name‬بهی ہو سکتے ہیں… محمد‪ ،‬ابراہیم‪ ،‬کعبہ‪ ،‬ارض‪ ،‬کتاب‪ ،‬قلم‪ ،‬قاضی‪ ،‬عراق‪ ،‬فلسطین‪ ،‬نمل‪ ،‬نحل‪،‬‬
‫رمان…‬
‫لفظ کام ‪ action/work‬بهی ہو سکتے ہیں… پڑهنا‪ ،‬لکهنا‪ ،‬دیکهنا‪ ،‬بتانا‪ ،‬بهاگنا‪ ،‬جاگنا‪ ،‬لینا‪ ،‬دینا‬
‫لفظ حرف ‪ particle‬بهی ہو سکتے ہیں… میں‪ ،‬پر‪ ،‬تب‪ ،‬جب‪ ،‬شاید‪ ،‬نہیں‪ ،‬بلکہ‪ ،‬لیکن‪ ،‬اور‪ ،‬یا‪ ،‬تو‬
‫‪.‬‬
‫مہمل – ‪ – meaningless‬کسی بهی بے معنی لفظ کو مہمل کہتے ہیں… جیسے اردو میں سودا سلف‪ ،‬سچ مچ‪،‬‬
‫ٹهیک ٹهاک‪ ،‬جهوٹ موٹ‪ ،‬کوڑا کرکٹ وغیره… ان میں خط کشیده الفاظ مہمل ہیں…‬
‫‪.‬‬
‫موضوع – ‪ – meaningful‬کوئی بهی با معنی لفظ موضوع کہالتا ہے… سودا‪ ،‬سچ‪ ،‬جهوٹ‪ ،‬کوڑا‪ ،‬گهر‪ ،‬چلو‪،‬‬
‫کہاں‬
‫‪.‬‬
‫کلمہ – ‪ – meaningful word‬جمع ہے کلمات … کسی بهی با معنی لفظ کو کلمہ کہتے ہیں… کلمہ کو انکی‬
‫عالمات اور معنی کی وجہ سے تین بنیادی اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے… یعنی اسم‪ ،‬فعل‪ ،‬حرف…‬
‫‪.‬‬
‫مفرد – ‪ – single‬ایک اکیال لفظ جو کہ با معنی بهی ہو مفرد یا کلمہ کہالتا ہے… جیسے اسم‪ ،‬فعل اور حرف…‬
‫‪.‬‬
‫مرکب – ‪ – compound‬دو یا دو سے زیاده با معنی الفاظ کو جوڑیں تو مرکب بنتا ہے… ذہین بچہ‪ ،‬باره بجے‪،‬‬
‫محرم کے ساته‪ ،‬با پرده خاتون‪ ،‬وه آیا‪ ،‬میں نے آم کهایا …‬
‫‪.‬‬
‫ناقص – ‪ – incomplete‬الفاظ کا وه مرکب جو مکمل خبر یا خیال نہ دے وه ناقص کہالتا ہے… ذہین بچہ‪ ،‬باره‬
‫بجے‪ ،‬محرم کے ساته‪ ،‬با پرده خاتون…‬
‫‪.‬‬
‫جملہ – ‪ – sentence‬دو یا دو سے زیاده الفاظ کا ایسا مجموعہ جس سے کوئی با معنی خبر ملے یا طلب معلوم ہو‬
‫َب اَح َمداِلَى ال َمس ِْجدِ‪ ،‬احمد‬
‫یا مثبت یا منفی اظہار خیال ہو… اسے مرکب مفید یا جملہ کہتے ہیں… جیسے کہ ذَه َ‬
‫الصلَ َواتِ؟‪ ،‬کیا تم پابندی سے نمازیں پڑهتے ہو؟…‬
‫مسجد گیا… هَل تُقِی ُم ِ ّ‬

‫سوال نمبر‪4‬۔عربی امثال اور اس زبان پر اثرات کے متعلق لکھیں۔؟‬


‫صور محدود تها۔اسالم کی آمد سے ایک نئے َدور کا‬
‫ظہور اسالم سے پہلے زندگی کا ت ّ‬
‫ِ‬ ‫جواب‪:‬عربی زبان و ادب‬
‫صور نے زندگی کے افق کووسیع کردیا۔ اس انقالب سے‬ ‫آغاز ہوا۔ خیاالت و افکار میں انقالب آیا۔قرآن کے آفاقی ت ّ‬
‫ہر شعبہ حیات متاثر ہوا۔ قرآن کے زیر اثر علم و فن کے بہت سےنئے زاویے بنے۔شعر و ادب اور زبان پر بهی‬
‫قرآن کے خوشگوار اثرات پڑے۔ قرآن مجید نے ادب میں حریت فکر‪ ،‬وسعت نظر‪ ،‬پاکیزگی تخیل او ربلندئ معنی‬
‫کے اوصاف پید کیے۔ ادب عربی قرآن مجید سے قبل لفظی حسن و شوکت کا مرقع تها اور اس کا مقصد محض‬
‫جذبات سافلہ کی ترجمانی تهی۔ قرآن مجید نے آکر ادب عربی کو صوری و معنوی حسن کے ساته جذبات عالیہ کی‬
‫ترجمانی کے آداب سکهائے۔ یہ قرآن مجید کی تعلیم ہی کا فیضان ہے کہ آج عربی زبان تمام دنیا کے علوم و افکار‬
‫سے معمور ہے۔ عربی زبان و ادب کا محور قرآن مجید ہے۔‬
‫ادب ِ جاہلی کا جو سرمایہ آج محفوظ شکل میں مل رہا ہے وه سب قرآن مجید کی زبان کو محفوظ کرنے او راسے‬
‫سمجهنے کے لیے جمع کیا گیا تها۔ مثالً لسانی خامیوں کے س ِد باب کے لیے علم صرف و نحو و اشتعاق ‪ ،‬قرآن‬
‫اعجاز کو ثابت کرنے کے لیے معانی او ربیان و بدیع۔ غریب الفاظ کی شرح و توضیح کے لیے لغت و ادب‪ ،‬احکام‬
‫شرعیہ کے استنباط کے لیے حدیث ۔ تفسیر‪ ،‬اصول اور فقہ وغیره علوم معرض وجود میں آئے۔ پهر قرآن مجید نے‬
‫ان تمام علوم کو باقی رکها او راکناف عالم تک پہنچایا۔‬
‫تاریخ ادب عربی کا مطالعہ کرنے واال دیکهے گا کہ یہ زبان جن نازک مرحلوں سے معجزانہ طور پر جان بچا‬
‫کرنکل آئی یہ محض قرآن مجید کی قوت کانتیجہ تها۔ ورنہ دنیا کی بے شمار زبانیں اس سے بهی کمتر صدمات کی‬
‫تاب نہ الکر زندگی کهو بیٹهیں اور صفحہ کائنات سے مٹ گئیں۔‬
‫قرآن مجید نے الفاظ و معانی کے ضمن میں عربی زبان کی امکانی وسعتوں کو آشکارا کیا۔ اثر آفرینی کے سلسلہ‬
‫میں حقائق سندی‪ ،‬نفع بخشی اور افادی ہمہ گیری کو ملحوظ رکهنے کا درس دیا۔ حقیقت پسند ادب کا عقلی نمونہ‬
‫پیش کرتے ہوئے اس قدیم مقولہ کی تردید کردی کہ ”إن أعذب شعرا کذبه” (شعر جس قدر کذب پر مبنی ہو اتنا ہی‬
‫شیریں ہوتا ہے) قرآن مجید نے ادب کا ُرخ عدل و انصاف ‪ ،‬خدمت انسان‪ ،‬تائید حق و صداقت ‪ ،‬نفاست پسندی‪ ،‬عفت‬
‫و حیا اور خدا پرستی کی طرف پهیر دیا۔ اس نےہر موضوع کو بیان کرنے کے لیے مناسب و پروقار اسالیب‬
‫بخشے‪ ،‬غوروفکر اوردالئل و براہین سے کام لینے کی دعوت دی۔‬
‫قرآن مجید نے بتایا کہ ادب کا فریضہ یہ ہے کہ وه طیبات کو معاشره میں مقبول بناوے اور خبائث کےلیے معاشره‬
‫کی فضا ناسازگار بنا دے۔ قرآن مجید نے ادب کو یاس و قنوط کے مہلک جراثیم سے نجات دال کر اسے جہاد‬
‫مسلسل اور حیات آفرین رجائیت کا داعی بنایا۔ تنقید کے لیے بلند اصول دیئے اور ”احسن” کواختیار کرنے میں کسی‬
‫قسم کا تعصب نہ کرنے کی تلقین کی۔ اس نے مدح و ہجو کےلیے نئے پیمانے مقرر کیے۔ اور ”ان اکرمکم عندہللا‬
‫اتقاکم” کا بلند ترین معیار عطا فرمایا۔‬
‫قرآن مجید نے عربی ادب میں حقائق کا اس طرح خمیراٹهایا کہ اس کے بعد جس زبان میں بهی کسی شکل سے‬
‫عربی ادب پہنچا۔ اس خمیر کی تائید نے اس زبان کو بهی فکری و معنوی بلندیوں سے ہمکنار کردیا۔ آج دنیا کے‬
‫ادب میں وحدت عالم‪ ،‬وحدت انسانیت‪ ،‬حریت فکر او راخالق کی جو حوصلہ افزائی ہورہی ہے وه اسی قرآنی ادب‬
‫کی تاثیر کا نتیجہ ہے۔ اگر آج انسانیت اپنی انکهوں سے تعصبات کی عینک اتارنے کی کوشش کررہی ہے تو یہ‬
‫قرآنی ادب کے فیض کا ثمره ہے۔ عربی زبان پر قرآن کریم کا اثریہ ہوا کہ اس نے عربوں کے سخت او ربے رحم‬
‫دلوں میں جاگزیں ہو کر انہیں نرم کردیا او ران کی سطحی عقلوں میں داخل ہوکر انہیں وزنی اور ٹهوس بنا دیا۔‬
‫چنانچہ قرآن مجید کے اس اصول نے ان کی زبان میں حسین الفاظ‪ ،‬خوبی تراکیب‪ ،‬نزاکت اسلوب‪ ،‬قوت گویائی‪،‬زور‬
‫بیان‪ ،‬نیرنگی معانی‪ ،‬کثرت مضامین و مطالب کی صفات کو جنم دیا۔ زبان کے دائره کو نئے دینی الفاظ تک وسعت‬
‫دی۔‬
‫قرآن مجید سے عربی نثر جس درجہ فیض یاب ہوئی شاعری اس حد تک متاثر نہ ہوسکی۔ خلفائے راشدین کے عہد‬
‫میں جب فتوحات بڑهیں‪ ،‬اسالمی مملکت کی حدود میں وست آئی اور سیاسی و عمرانی مسائل میں اضافہ ہوا تو نثر‬
‫کو زیاده فروغ حاصل ہوا۔ قرآن کے فیض و اثر نے اس دور کے طرز نثر نگاری کو پرکیف سادگی عطا کی۔‬
‫خلفائے اسالم کے یہاں خط و کتابت کے جونمونے ملتے ہیں ان میں سہل تمنع کی سی کیفیت پائی جاتی ہے ۔ جو‬
‫قرآن کے زیر اثر ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کریم کی بدولت عربی نثر کا پایہ عربی شاعری کی بہ نسبت‬
‫بہت بلند ہوگیا۔‬
‫تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شعر و شاعری بهی قرآن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہی۔ اسالم کی مد سے‬
‫شعراء کے فکر وفن کا مقصد بدل گیا اور ان کی شاعری اسالم کی ہمہ گیر تحریک سے وابستہ ہوگئی۔ دور اسالم‬
‫میں قرآن کریم کے زیراثر جو شاعری پروان چڑهی کالم جاہلیت کے مقابلہ میں اس کا انداز نرم او رلطیف ہے۔‬
‫زبان شستہ‪ ،‬پاکیزه اور نکهری ہوئی ہے۔ طرز اداستهری اور دلنشین ہے۔ سوقیّت و ابتذال کم یاب ہے۔ بقول ابن‬
‫خلدون ‪،‬مسلم فن کاروں کا فن نظم و نثر کالم جاہلیت سے کہیں زیاده بلند ہے۔‬
‫قرآن مجید کو عربوں کی زندگی میں مختلف پہلوؤں سے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اسالم کے بعد محض تشریعی‬
‫حیثیت ہی سے نہیں بلکہ ان کی زبان ‪ ،‬ادب اور ذہنی رجحانات کا بهی محور بن گیا۔ عربی زبان و لغت کی تدوین‪،‬‬
‫اشعار کی تالش و تحقیق‪ ،‬اسالیب بیان کے ارتقاء اور مختلف فنون ادب کے پروان چڑهنے میں قرآن مجید ہی سب‬
‫سے بڑا محرک تها۔ عربوں نے قرآن کا مطالعہ مختلف طریقوں سے کیاہے۔ یہاں اس مطالعہ کا صرف ایک پہلو‬
‫یعنی جو کچه قرآن مجید کی زبان او راسلوب بیان پر لکها گیا ہے۔ اسے پیش کرنا چاہتا ہوں۔‬
‫قرآن مجید کے محاسن زبان پر بے شمار کتابیں لکهی گئی تهیں اور علماء نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ‬
‫قرآن مجید کے اعجاز کا اصل مظہر اس کی زبان او ربالغت ہے۔ اس سے عربی تنقید کو بہت فائده پہنچا۔ علماء‬
‫نے نہ صرف قرآن مجید ہی کی زبان سے وقیع اور فنی بحثیں کی ہیں بلکہ وه عربوں کی عام زبان اسالیب بیان‪،‬‬
‫جاہلی و اسالمی شعراء کے اشعار عربوں کی روایات نحو علم بدیع‪ ،‬علم بیان‪ ،‬علم معانی او رلغت وغیر ه کے وقیق‬
‫مسائل کو بهی زیر بحث الئے ہیں۔‬
‫یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قرآن فہمی کے لیے عربی علوم و فنون کا عمیق مطالعہ درکار ہے۔ موالنا حمید الدین‬
‫فراہی کا خیال ہے کہ جب تک عرب قبل اسالم کی شاعری کا تحقیقی مطالعہ نہ ہو اور عربی بالغت پر نظر نہ ہو‬
‫اس وقت تک کماحقہ قرآن مجید پر نظر نہیں ہوسکتی۔ابن قتیبہ مشکل القرآن میں کہتے ہیں کہ قرآن کی عظمت کا‬
‫عرفان اسی کو ہوسکتا ہے جس کی نظر میں وسعت ہو۔جس کا علم عمیق ہو اور وه عربوں کے مختلف اسالیب بیان‬
‫و مکتب ہائے فکر سے واقف ہو۔‬
‫تمام ناقدین عرب نے بال کسی استثناء کے قرآن مجید سے مثالیں پیش کی ہیں۔ چوتهی ہی صدی ہجری کے ایک‬
‫دوسرے ناقد ابوالحسن اسحاق بن وہب الکاتب نے اپنی مشہو رکتاب ”البرہان في وجوه البیان” میں بے شمار قرآن‬
‫آیات سے استشہاد کیا ہے اورعجیب بات یہ ہے کہ اس نے نظریات تو اخذ کیے ارسطو سےمگر مثالیں دیں قرآن‬
‫سے۔ارسطو کی کتاب الجدل او رکتاب الخطابۃ کے اثرات مذکوره باال کتاب پر بالکل واضح ہیں۔ یہ عجیب طرز تها‬
‫کہ عرب ناقد ارسطو اور دوسرے یونانی مفکرین سے نظریات و اصطالحات اخذ کرکے ان کے لیے مثالیں قرآن‬
‫مجید او راحادیث سے تالش کرتے تهے۔چنانچہ ابن معتز نے تیسری صدی ہجری میں‪ ،‬ابن وہب الکاتب نے‪،‬‬
‫چوتهی صدی ہجری میں عبدالقاہر الجرجانی نے‪ ،‬پانچویں صدی ہجری میں بالکل یکساں طریقہ اختیار کیا۔‬
‫چوتهی صدی ہجری کے اواخر سے پانچویں صدی او راس کے بعد کے اکثر ناقدوں نےاپنی کتاب کے دو مقاصد‬
‫قرا ردیئے۔ ایک دینی مقصد اور دوسرا ادبی۔ انہوں نے قرآن مجید میں تنقید کی بنیادیں تالش کیں۔ بالکل اسی طرح‬
‫جس طرح انہوں نے جاہلی شاعری وغیره کو مرکز توجہ بنایا۔چنانچہ ابوالہالل عسکری نے اپنی کتاب ”الصناعتیں”‬
‫کے مقدمہ میں صاف الفاظ میں لکها ہے کہ میری کتاب کے دو اہم مقاصد ہیں۔ ایک ادبی خدمت اور دوسری دینی‬
‫خدمت‪ ،‬بالکل یہی انداز ابن سنان خفاجی نے سرالفصاحۃ میں اختیار کیاہے۔ عبدالقاہر جرجانی نے تو مستقل دو‬
‫کتابیں ہی ان دونوں مقاصد پر لکهیں۔ بالغت پر ان کی کتاب ”اسرار البالغۃ” بہت مقبول و مشہور ہے۔ اسی طرح‬
‫قرآن مجید کی زبان اور اس کے محاسن پر ان کی دوسری کتاب ”دالئل االعجاز” غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔‬
‫ان دونوں کتابوں میں انہوں نے جہاں مثالیں اشعار ادب سے دی ہیں وہاں قرآن مجید سے بهی پیش کی ہیں۔‬
‫اس سلسلہ میں انہوں نے ایک نیا نظریہ پیش کیا ہے۔ جاحظ نے تیسری صدی ہجری میں ایک بحث یہ اٹهائی کہ‬
‫کالم میں تین کا مرجع الفاظ ہیں یا معانی؟ انہوں نے الفاظ کو معانی پر ترجیح دی تهی اور بتایا تها کہ معانی تو‬
‫دیہاتی‪ ،‬شہری او رجاہلی سب ہی جانتے ہیں اصل حسن تو الفاظ کے قالب میں ہے۔ عبدالقاہر جرجانی نے اس‬
‫نظریہ کی تردید کی او رکہا کہ ُحسن الفاظ میں نہیں معانی میں پوشیده ہے۔ ”دالئل االعجاز” میں انہوں نے اس‬
‫نظریہ کو اس طرح پیش کیا کہ قرآن میں بهی حسن کالم کامرجع الفاظ میں نہیں معانی میں ہے او رمعانی میں بهی‬
‫براه راست نہیں بلکہ نظم معانی میں کیفیت حسن پوشیده ہے۔ ابوتمام کی شاعری عربوں کے مالوف طرز شاعری‬
‫سے مختلف تهی۔ اس میں استعارے‪ ،‬تشبیہات نئے مضامین او رنئی تراکیب کثرت سے استعمال کی گئیں تهیں اور‬
‫ساته ہی فلسفیانہ خیاالت بهی کسی حد تک پیش کیے گئے تهے۔ یہ ایسی چیزیں تهیں جن سے عربوں نے اجنبیت‬
‫محسوس کی اور عرب ناقد دو طبقوں میں منقسم ہوگئے۔ بالکل یہی صورت حال متنبی کے ساته بهی پیش آئی اس‬
‫لیے کہ اس نے بهی ابوتمام کا طرز اختیار کیا او راس سے بہت آگے بڑه گیا اور اس کے بارے میں نقاد عرب دو‬
‫گروہوں میں بٹ گئے۔صاحب بن عباد او رحاتمی وغیره نے بہت کچه اس کے خالف لکها ۔ مگر قاضی جرجانی‬
‫اور ثعالبی وغیره نے اس کی موافقت میں بہت اچهے انداز سے تنقیدی خیاالت کا اظہار کیا۔‬
‫ابوتمام کی شاعری کے اختالف سے دراصل ”علم بدیع” کا آغاز ہوا۔ اس لیے کہ اس کی بے شمار اقسام کا استعمال‬
‫اس کی شاعری میں ہواتها۔ اس وقت یہ عام خیال تها کہ یہ بالکل ایک نیا علم ہے جو عربوں میں یونانیوں سے آیا‬
‫ہے۔ ابن معتز (متوفی ‪296‬ه) نے کتاب البدیع تصنیف کی او راس میں یہ نظریہ پیش کیا کہ ”علم بدیع” عربوں کے‬
‫یہاں ایام جاہلیت سے موجود ہے اور تمام عرب جدید و قدیم شعراء کے یہاں پایا جاتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث‬
‫میں بهی موجود ہے۔ابن معتز نے کثرت سے قرآنی آیات سے استشہاد کیا ہے۔‬
‫”مذہب بدیع” کے حاملین نے قرآن مجید سے خاص طور پر کیوں مثالیں پیش کیں؟ اس کاجواب زغلول سالم نے یہ‬
‫دیا ہے کہ اس طرح انہوں نے یہ کوشش کی کہ جوکچه ابوتمام او ران کے مقلد شعراء نے کیا تها اس کو صحیح‬
‫ثابت کریں۔‬
‫علم بدیع کے عالوه علم بیان اور معانی پربهی قرآن مجید کے اثرات پوری طرح نمایاں ہیں اور بے شمار ایات‬
‫ناقدین عرب نے قرآن مجید سے پیش کی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلوب کا اصل معیار ہمیشہ قرآن مجید رہا‬
‫ہے او رناقدوں نے اس کا خاص خیال رکها ہے کہ قرآن مجید نے کس انداز سے او رکن الفاظ و تشبیہات کے‬
‫ذریعہ مفہوم کو ادا کیا ہے او راس کو معیار حسن و بالغت سمجها ہے۔‬
‫”اعجاز القرآن” پر ُر ّمانی (متوفی ‪384‬ه )اور خطابی (متوفی ‪388‬ه) کی کتابیں بہت اہمیت رکهتی ہیں۔ رمانی کی‬
‫دس اقسام بدیع مشہور ہیں۔ ان کو ابوبکر باقالنی نے بهی اپنی کتاب ”اعجاز القرآن” میں نقل کیا ہے۔ یہ اقسام‬
‫دراصل چوتهی صدی میں معروف ہوچکی تهیں۔ ہاں بعض اختالفات البتہ قابل ذکر ہیں‪:‬‬
‫‪1‬۔ رمانی نے اطناب اور تطویل کا فرق اعجاز القرآن میں واضح کیاہے۔‬
‫‪2‬۔ تالؤم او راس کی مختلف قسموں اور تنافر کے درمیان فرق کو بهی انہوں نے بیان کیا ہے۔‬
‫‪3‬۔ تو اصل کی تشریح کرکے اس کا اور ”اسجاع” کا فرق بهی نمایاں کیا ہے۔‬
‫‪4‬۔ ”مناسبت” کا بهی بیان اعجاز القرآن میں موجود ہے۔‬
‫‪5‬۔ تصریف کی تشریح بهی رمانی نے کی ہے۔‬
‫اعجاز القرآن پر سب سے بہتر کتاب ابوبکر باقالنی کی ہے۔ انہوں نے اس بحث میں بے شمار مسائل تنقید کو اپنا‬
‫مرجع قرار دیا ہے‪ ،‬ان کا طرز استدالل یہ ہے کہ پہلے کسی مسئلہ کو لے کر اس کی دقتوں کو بیان کرتے ہیں پهر‬
‫شعراء عرب کو دکهاتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے اس بارے میں ٹهوکر کهائی ہے۔ اس کے بعد وه بتاتے ہیں کہ‬
‫قرآن مجید نے اس سلسلہ میں وه نمونہ پیش کیا ہے جس سے تمام شعراء و اہل زبان عاجز ہیں۔‬
‫باقالنی کہتے ہیں کہ کالم مختلف حیثیت کا ہوتا ہے کچه بلند اور کچه پست۔ایک معنی سے دوسرے معنی کی طرف‬
‫انتقال فنکار کی عظمت کا ثبوت فراہم کرتا ہے اور اکثر لوگ اس مشکل میں کامیاب نہیں ہوپاتے۔مگر قرآن مجید‬
‫کی عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ اس مین ایک معنی سے دوسرے معنی کی طرف اس طرح انتقال ہوجاتا ہے‬
‫کہ کوئی ب ّهدا پن اور غیر مناسب عبارت ظاہر نہیں ہوتی اور ایک عجیب حسن و کشش اس حیثیت سے قرآن مجید‬
‫میں نظر آتی ہے۔ وه کہتے ہیں کہ اکثر شعراء عرب نے اس میدان میں ٹهوکر کهائی ہے۔ چنانچہ بحتری جیسا عظیم‬
‫شاعر جب ”نسیب” سے مدح کی طرف منتقل ہوتا ہے تو اکثر بہت ب ّهدا انداز اختیار کر لیتا ہے او ربہت پیچهے ره‬
‫جاتی ہے۔ فنی نقطہ نظر سے ۔(اعجاز القرآن ابوبکر باقالنی ص‪56‬۔‪)57‬‬
‫باقالنی کا خیال ہےکہ ایک شاعری ایک صنف میں تو غیر معمولی اہمیت اور عطمت کا حامل ہوتا ہے مگر جب‬
‫وہی کسی دوسری صنف سخن پرطبع آزمائی کرتا ہے تو بہت ہی گر جاتا ہے او رکم ایسا ہوتا ہے کہ شاعر تمام‬
‫اصناف میں یکساں حیثیت رکهتا ہےہو۔ اس طرح بعض فن کار نثر میں بلند مرتبہ رکهتے ہیں مگر جب وه شاعری‬
‫میں قدم رکهتے ہیں تو بہت نیچے گر جاتے ہیں او رکبهی اس کے برعکس ہوتا ہے۔اپنے اس نظریہ کے پیش نظر‬
‫وه شعراء کی مندرجہ ذیل اقسام بیان کرتے ہیں۔‬
‫‪1‬۔ کچه شاعر ایسے ہیں جو ”مدح” کے بادشاه ہیں مگر ہجو میں بالکل صفر ہیں۔‬
‫‪2‬۔ کچه ایسے ہیں جو ہجو بہترین کرتے ہیں مگر مدح میں ان کاکوئی مقام نہیں۔‬
‫یدطولی حاصل ہوتا ہے مگر وه تابین (مرثیہ) میں پیچهے ره جاتے ہیں۔‬‫ٰ‬ ‫‪3‬۔ بعض شعراء کو تقریظ ۔(مدح) میں‬
‫‪4‬۔ کچه شعراء تابین (مرثیہ) میں سبقت رکهتے ہیں مگر تقریظ (مدح) نہیں کرپاتے۔‬
‫‪5‬۔ اس طرح بعض شعراء وصف میں بہت ممتاز ہوتے ہیں‪،‬اونٹ‪،‬گهوڑے‪،‬رات کے چلنے‪ ،‬شراب پینے‪ ،‬جنگ کی‬
‫تصویر کشی اور غزل کے رقیق موضوعات کے بیان کرنے میں بہت ممتاز ہوتے ہیں۔ اس موقع پرباقالنی تنقید کی‬
‫مشہور مثل کو پیش کرتے ہیں او رکہتے ہیں کہ عربوں نے یہ تبصره اس صالحیت کی بنیاد پر کیاتهاکہ‬
‫”امرؤالقیس” سب سےبڑا شاعر ہے جبکہ وه اونٹ پر سوار ہو۔ نابغہ زبیانی سب سےبڑا شاعر ہے جب کہ وه خوف‬
‫کرے۔اعشی اس وقت‬
‫ٰ‬ ‫زده ہوجائے اور زہیر اس موقع پر سب سے بڑا شاعر ہے جب کہ وه اللچ او رطمع محسوس‬
‫سب سے بڑا شاعر ہے جب کہ اس نے پی لی ہو اور خوش ہو۔ (اعجاز القرآن باقالنی ص‪)54‬‬
‫باقالنی ایک دوسری جگہ لکهتے ہیں کہ بالغت کا انحصار بدیع کی عمده شکلوں کے استعمال ‪ ،‬لطیف معانی‪ ،‬عمده‬
‫حکمتوں او رمناسبت او ریکسانیت کالم پر ہے جو قرآن مجید میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ آگے چل کر وه مزید کہتے‬
‫ہیں کہ بہترین کالم وه ہے جس کو کان اپنا سرمایہ سمجهیں او رنفس انسانی اس کی جانب پوری طرح متوجہ‬
‫ہوجائے اور جس کی رونق دُور سے اس طرح نظر آجائے جیسے موتیوں کے ہار کی چمک ۔ ُحسن کالم کی یہ‬
‫صفت پہلے ہی جملہ سے ظاہر ہوجاتی ہے۔باقالنی نے آسان اور سلیب کالم ہی کو معیار قرار دیا۔ غریب‪ ،‬وحشی‬
‫اور مستکره کالم کوناپسند کرکے اچهے کالم کی تعریف اس طرح کہ کہ ”جب تم اس کوسنو تو وه تمہارے دل میں‬
‫بیٹه جائے او رتم کوایسی حالوت و خوشگواری محسوس ہو جیسی کہ تم آب زالل پیتے وقت محسوس کرتے ہو‬
‫لیکن اس کے باوجود وه کالم تمہارے اختیار سےاتنا ہی دور ہو جیسے ستاره کو ڈهونڈهنے والے سے ستاره دور‬
‫ہوجاتا ہے۔‬
‫ایسا کالم نفس سےقریب تر اور ذہن سے مانوس ہوتاہے مگر اس کا کہنا آسان نہیں ہوتا۔پهر باقالنی پر تبصره‬
‫مبر ا ہے۔‬
‫کرتے ہیں کہ تمام ادباء و شعراء نے غلطیوں کاارتکاب کیا ہے۔ صرف قرآن مجید کی زبان غلطیوں سے ّ‬
‫تعجب تو یہ ہے کہ باقالنی نے نہ صرف یہ کہ زبان‪ ،‬شاعری‪ ،‬خطبات اور نثر وغیره کے تنقیدی مسائل سے بحث‬
‫کی ہے بلکہ ناقد کے فرائض اور فن تنقید کے بارے میں بهی بہت سی قیمتی آراء کااظہار کیا ہے۔ وه کہتے ہیں کہ‬
‫صراف کی نظر جس طرح سونے پر ہوتی ہے اور بزاز کی نگاه جس طرح کپڑے کو پہچانتی ہے بالکل اسی طرح‬
‫ناقد کی نظر کالم پر بہت گہری ہوتی ہے۔ اسی انداز سے باقالنی ناقدوں کے اختالف کا ذکر کرتے ہیں اور مختلف‬
‫مسائل پر بحث التے ہیں۔ یہ ایک مفصل نمونہ تها ان کتابوں میں سے ایک اہم کتاب کا جو اعجاز القرآن پر لکهی‬
‫گئیں۔اس سے بخوبی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ اس قسم کے دقیق تنقیدی مباحث کا اثر عربی تنقید پر پڑنا ایک‬
‫ناگزیر حقیقت ہے۔‬

‫سوال نمبر ‪5‬۔ عربی زبان میں مترادفات اور اضداد پر مکمل نوٹ لکھیں؟‬

‫جوابعربی زبان میں مترادفاترعیبیکوخویبںںیمےساکیوخیبےہ۔اعموطررپرعیبےکوطلیاافلظاسترحوفےسزایدہرپ‬


‫لمتشمںیہنوہےت‪،‬اتمہاس کلیےےکربالخفرعیبزابنےکاکیرکوڑےسزایدہذریخہاافلظںیمطقفاکیظفلااسیےہوجاینپوطاتلںیم‪15‬رحوف‬
‫رپلمتشمےہ۔ایسےیلاسوکرعیبزابناکوطلیرتنیظفلاہکاجاتےہ۔رقآنیکوسرہارجحلیکآتی‪22‬ںیمواردوہےنواالہیظفل'أافستسقتنااومكها'‬
‫ےہ۔سجاکاردورتہمج'اوراُساپینےسںیہمتریسابرکےتںیہ'ایکایگےہ۔واہعقہیےہہکرعیبزابنےکاحمنسیسکوطریھباکیومضمنںیمںیہن‬
‫دلوخناہتسوموقفرکےتاوررعیبزابنےکاعمرصزابونںرپارثات‬
‫امسےتکس‪،‬وقبلاغبل'ہنیفساچےیہاسرحبےبرکاںےکےیل'‪،‬اسےیلےلسلسوکہب ِ‬
‫اکذرکرکےتںیہ۔اتمہاسےسلبقرعیبیکاسریحتازیگنوتعسےسقلعتمرعموفارگنزیؤمرخاور'اترخیرعب'یسیجےباثملاتکبےک‬
‫ؤمفل'پلفےکیتح'اکایبنالمہظحرکںیسجاکانہکےہہک’رقآناپکیکرعیباینتہمہریگاورلمکمےہہکفلتخمرعیببلوےجہلےکابووجدرعیب‬
‫زابنےکڑکٹےںیہنوہےئ‪،‬احالہکنوخدرویمزابنیھبدعبںیمیئکوصحںںیممیسقتوہیئگیھت۔‘’ےبکشاکیرعایقاکیینمیاکرعیبہجہلےنھجمس‬
‫ںیملکشموسحمسرکےاگ‪،‬نکیلوہاسیکیھکلرعیبوکآباسینھجمسےلاگ۔‘رعیبےکویریپزابونںرپارثاترفاسنےکرونشایخلیفسلف'واریٹل'ےن‬
‫اہکاھت‪’،‬االسمےسےلہپاسریداینویانینیھتاوراالسمےکدعباسریداینرعیبوہیئگ۔‘واریٹلاکہیایبنرعوبںیکیملعربرتیاکارتعافےہ‪،‬سجےنرہ‬
‫ہبعشزدنیگوکاتمرثایک۔اخصوطررپاپسہہینںیمرعوبںےکرعوجےنویرپیکدیباریںیمدیلکیرکداراداایک۔الینیطزابنےسےنلکنوایلاپسہونی‪،‬‬
‫ااطولی‪،‬رپزیگتیاوررفایسیسنزابںینرباہراتسرعیبزابنےساتمرثوہںیئاورانزابونںیکراہےسہیارثاتویرپیکدورسیزابونںکتےچنہپںیہ۔‬
‫یکالصرعیباک'ارمل'ےہ‪،‬بجہکوخد'ارمل'درتقیقح'اریمارللح'ینعیاسالراکرواںاکففخم )‪ (Admiral‬اڈیرمل‪ :‬ارگنزییاڈیرمل‪ً:‬الثم‬
‫ےتہکںیہ‪،‬اسظفلیکالصرعیباک'دارالصیعااء'ےہ‪،‬وجاپسہونیاور )‪ (Arsenal‬ےہ۔آرلنس‪ :‬ارگنزییںیمرحبیاہجزےکاکراخےنوکآرلنس‬
‫وہا‪،‬اورارگنزییکتےتچنہپےتچنہپ'آرلنس'وہایگ۔اگب‪ :‬دقمیرفایسیسنںیمےلہپکمنےکوصحملوکاوررھپ )‪ (D'arsena‬ااطولیزابونںںیمدارانیس‬
‫اہکاجاتاھت‪،‬رفایسیسنےکاساگبیکالصرعیباک'اہلبقل'ےہ‪،‬سجیکالص'وبقل'ےہ۔ینعیوہزیچوجااسنن )‪ (Gabelle‬اعموطررپوصحملوکاگب‬
‫ےہ۔ریٹف‪ :‬رہفتسسجںیمفلتخموصحمالتیک )‪ (Algabala‬اوررپزیگتیںیمالگنااہل )‪ (Alcabala‬وبقلرکےل۔اپسہونیںیمہیظفلاابکلہل‬
‫الہکیتےہ‪،‬اسریٹفیکالصیھبرعیبزابناکظفل'رعتفی'ےہ‪،‬سجےکینعمیسکزیچوک‪(Tarif‬رشحدرجوہیتےہ‪،‬وہارگنزییزابنںیمریٹف‬
‫ولعممرکاناوراسےکرنخایتمیقاتبےنےکںیہ۔وچںہکہییھباکیلیصفتبلطوموضعےہ‪،‬اسےیلاسوکںیہیامتمرکےتاوررعیبےکاردو‬
‫زابنرپارثاتاکاجزئہےتیلںیہ۔ رعموفققحماورؤمرخدیسامیلسندنویےنرعیبزابنےکارثاتےکوحاےلےساکیوخبوصرتابتیہک‬
‫ےہ‪،‬اناکانہکےہہک’رعبسجکلمںیمیھبےئگواہںیکزابندبلیئگ۔اوردبلہنیئگوتاُنیکزابنےکاافلظےندیسیوکلمںےکاافلظےسلملج‬
‫رکاکییئنزابناکویہٰیلایتررکدای‪،‬یئنافریس‪،‬یئنرتیک‪،‬یئنالمیئ‪،‬یئنربربیاوریئندنہواتسینےنایسرطحمنجایل۔‘وچںہکرعیباکاالسماوراالسیم‬
‫امیلعتتےسرہگاقلعتےہ‪،‬وساستبسنےسداینےکیسکیھبےطخںیمرےنہاوروکیئیھبزابنوبےنلواالاملسمنرعیبزابنےکدویسںاافلظاور‬
‫االطصاحتابآاسینھجمساتیلےہ۔اسیجہکاذان‪،‬السم‪،‬ووض‪،‬وسرہ‪،‬ریبکت‪،‬رفض‪،‬تنس‪،‬لفن‪،‬ادمحلہلل‪،‬ارفغتساہلل‪،‬اماشءاہلل‪،‬داع‪،‬اامین‪،‬اکنح‪،‬‬
‫الطق‪،‬دعت‪،‬ریماثوریغہ۔رگماردوےنرعیبزابناکسجدقرارثوبقلایکےہ‪،‬اسںیماشدیافریسزابنیہاُسےکمہہلپوہوتوہ‪،‬وکیئاورزابناس‬
‫اکاقمہلبںیہنرکیتکس۔اردوےکذریخہاافلظںیم‪40‬دصیفہصحرعیبزابناکےہ۔اردوروزرمہںیمضعبوصروتںںیملمکمہلمجرعیبزابناکاداایکاجات‬
‫ےہاورےننسواالابتیکہہتوکاپالاتیلےہ‪،‬ااسییہاکیہلمج'یفاامناہلل'ےہ۔‬

‫اردوامہریوقیمزابنےہ۔ہیراےطبیکزابنیھبےہاورامہرےآنیئےکاطمقبایسوکآدنئہامہریرساکریدرتفیزابنیھبوہانےہ۔آجےنتجکلم‬
‫رتیقیکراہرپاگزمنںیہ‪،‬انیکرتیقانیکوقیمزابنیہیکرموہنتنمےہویکںہکوقیمزابنیہیسککلمیکیتہجکی‪،‬السیتماورایسیسواعمیشااکحتسم‬
‫یکاضنموہیتےہ۔اقدئامظعدمحمیلعؒانجحاینپریصبتاوررفاتسیکانبرپاسابتوکایھچرطحےتھجمسےھت۔ایسےیلاوھنںےندووٹکاافلظںیم‬
‫اردوےکقحںیماانپہلصیفاصدررفامدایاھت۔اقدئتلمایلتقیلعاخںےنیھبواحضاافلظںیماہکاھت‪’’:‬اصفاوردیسیھابتہیےہہکاردووبںیلےگاور‬
‫اردوںیھکلےگ۔اردوںیماےنپوچبںوکمیلعتدںیےگاوراینپزابنوکوساےئاردوےکاورھچکںیہنںیہکےگ۔‘‘ضعبولوگںاکایخلےہہکاردوزابناک‬
‫دانماانتوعیسںیہنہکاٰیلعمیلعتابوصخلصاسیسنئوینفمیلعتاسزابنںیمدیاجےکسنکیلہیضحماکیذعرگنلےہ۔اپاتسکنےننبےستہبےلہپاجہعم‬
‫امثعہیندیحرآابددنکںیمامتمولعمیکمیلعتاردوںیمدیاجیتیھت۔بجاسوتقااسینکمماھتوتآجویکںںیہن۔وہولگوجاردویکگنتداامینیکابت‬
‫رکےتںیہ‪،‬درتقیقحاسحسرتمکیاوروخدرفیبیںیمالتبمںیہ۔‬
‫‪ :‬العہماابقلہہکےکچںیہہک‬
‫دنخہزنےہۂچنغدللگِریشازرپ‬
‫اوراغبلےنوتاسےسیھبتہبےلہپاہکاھت۔؂‬
‫وجہیےہکہکرہتخیویکہکنوہرکشافریس‬
‫گفن اۂاغبلاکیابرڑپھےکاےسانسہکویں‬
‫اغبلےکدنمرہجابالرعشںیمابمہغلےہہنتعلیہکلبہیاکیتقیقحےہےسجاتمرخنیےنمیلستایکےہ۔اسےلسلسںیمالعہماابقلےکاکیرعشاکوحاہل‬
‫اورپدایایگاوروخاہجااطلفنیسحاحیلاسیجمیظعاقنداغبلوکرکشرعیفورخفاطبلاتہکےہ۔احیلزمدیایکےتہکںیہذراالمہظحرفامےیئ۔‬
‫دقیسواصبئواریسویلک‬
‫ولگوجاچںیہانوکرہھٹاںیئ‬
‫مہےنبساکالکمداھکیےہ‬
‫ےہادبرشطہنمہنولھکاںیئ‬
‫اغبلہتکنداںےسایکتبسن‬
‫اخکوکآامسںےسایکتبسن‬
‫اغبلےکالکمیکوخویبںوکدھکیرکیہالعہماابقلوکانہکڑپا‪:‬؂‬
‫قطنوکوسانزںیہریتےبلااجعزرپ‬
‫وحمریحتےہرثایرتعفرپوازرپ‬
‫افریسےکاسھتاردوےکومازےنیکابتضحمرسراہیھتورہنافریسےساردواکومازہنرکانامہراوصقمدںیہن۔ںیمہوترعیباوراخصرکارگنزییزابن‬
‫ےسومازہنرکانےہویکہکناعموطررپولگانزابونںیکوتعسےکرتعمفںیہ۔وکیئاتہکےہہکرعیبںیماوٹنےکےیلاےنتوساافلظںیہای‬
‫ارگنزییںیمےتکےکےیلاےنتوساافلظںیہ۔ہیہہکرکوہاردویکےباضبیتعاظرہرکاناچےتہںیہ۔اولوتانرضحاتیکاسابتںیموجابمہغلےہوہ‬
‫لش‬
‫ارہظنما مسےہ۔دومہیہکارگوااتعقانزابونںںیماجونروںےکےیلاےنتاافلظںیہوتہیوکنیسایسیابتےہسجرپرخفایکاجےکس۔دانھکیہیےہ‬
‫ہکااسنونںےکابرےںیمانزابونںاکدانماردوےکاقمےلبںیمانتکوعیسےہ۔مہذلیںیماسیکدنچاثمںیلشیپرکےتںیہ۔‬
‫ااسنینرےتش‪:‬رعیبزابنںیمدادااورانانےکےیلدحیلعہدحیلعہاافلظںیہن۔دوونںوک’’دج‘‘ےتہکںیہ۔رھپدادایکواضتحرکےنےکےیلاسےکآےگ’’‬
‫نملبقاہیب‘‘اورانانےکےیل’’نملبقاہم‘‘ہہکرکاانپبلطمواحضرکےتںیہ۔ایسرطحدادیاورانیندوونںوکرعیبزابنںیم’’دجہ‘‘ےتہکںیہ۔اخول‬
‫‪،‬وھپاھپ‪،‬یچچاوراممینےکےیلرعیبزابنںیموکیئظفلںیہن۔ایسرطحاسےل‪،‬ونہبیئ‪،‬دنن‪،‬اھبوج‪،‬ھٹیج‪،‬دویر‪،‬اھٹجین‪،‬دویراین‪،‬دننویئوریغہےکےیل‬
‫وکیئظفلںیہن‪،‬اھبےجن‪،‬ےجیتھبےکےیلوکیئظفلںیہن۔اسڑوھ(مہزفل)ےکےیلوکیئظفلںیہن۔دمسیھاوردمسنھےکےیلوکیئظفلںیہن۔‬
‫ےتہکںیہ۔دادیاورانینےکےیلدحیلعہ ‪ Grand Father‬ابارگنزییزابنوکےیجیل۔اسںیمیھبدادااورانانےکےیلدحیلعہاافلظںیہن‪،‬دوونںوک‬
‫ےتہکںیہ۔اچچ‪،‬امومں‪ Aunt ،‬ےتہکںیہ۔اخہل‪،‬وھپیھپ‪،‬یچچاوراممینےکےیلدحیلعہاافلظںیہن‪،‬بسوک ‪ Grand Mother‬اافلظںیہن‪،‬دوونںوک‬
‫ےتہکںیہ۔العیت‪،‬اایخیفاورراضیعاھبیئونہبںےکےیلوکیئظفلںیہن۔ایسرطحدرگیروتشں‪،‬وجاورپایبنوہےئ‪،‬ےک ‪ Uncle‬اخولاوروھپاھپبسوک‬
‫ےیلیھبارگنزییزابنںیمدحیلعہدحیلعہاافلظںیہن۔بجہکاردوںیمانامتمروتشںےکےیلدحیلعہدحیلعہاافلظںیہ۔رھپسکزابناکدانمزایدہوعیس‬
‫وہا۔‬
‫‪ :‬العہمیلبشامعنینےتھکلںیہ‬
‫رعیبزابناہنتیوعیسےہ۔ابووجداسےکنجزیچوںوکدمتناوراابسباعمرشتےسقلعتےہ‪،‬انےکےیلاخصرعیبزابنںیماافلظںیہن ’’‬
‫ےتلمہکلباریانایرومےساعتسمرآےئںیہ۔ہکسےکےیلاکیظفلیھبوموجدںیہن۔درمہاوردانیردوونںریغزابنےکاافلظںیہ۔درمہ‪،‬ویانینظفل‬
‫درمخےہاورارگنزییںیمڈراموہایگےہ۔رچاغومعمیلزیچےہاتمہاسےکےیلرعیبںیموکیئظفلہناھت۔رچاغوکےلرکرساجرکایل۔رھپاکی‬
‫ونصمیعظفلانبایابصمح‪،‬ینعیاکیآہلسجےسحبصانبیلاجیتےہ۔وکزہےکےیلوکیئظفلںیہن۔وکزہوکوکزرکایلےہ۔ولےٹوکاربقیےتہکںیہوجآبرزی‬
‫اکرعمبےہ۔تشتافریسظفلاھتاسوکرعیبںیمتشطرکایلےہ۔ایپہلوکاکسےتہکںیہ۔ہیویہاکہسافریسظفلےہ۔رکہتوکرعیبںیمرققطےتہکںیہ‪،‬‬
‫ہییھبافریسےہ۔اپاجئہموکرسوالےتہکںیہوجولشاریکڑگبیوہیئوصرتےہ۔بجایسیوھچیٹوھچیٹزیچوںےکےیلظفلہنےھتوتدمتنےکڑبے‬
‫ڑبےاسامنےکےیلاہکںےسظفلآےت۔‘‘(ریستایبنلؐ۔دلجاول۔ہحفص‪)۱۱۲‬‬
‫رحوفیجہتیکرثکتدعتادںیمیھبہنرعیبزابناردواکاقمہلبرکیتےہاورہنارگنزییزابن۔رعیبزابنںیمپ‪،‬ٹ‪،‬چ‪،‬ڈ‪،‬ڑ‪،‬ژاورغیکآوازںیادا‬
‫رکےنےکےیلوکیئرحفںیہن۔ایسرطحھب‪،‬ھت‪،‬ھپ‪،‬ھٹ‪،‬ھج‪،‬ھچ‪،‬دھ‪،‬ھک‪،‬ھگےکےیلیھبرعیبزابنںیموکیئرحفںیہنےہ۔ارگنزییزابنںیم‬
‫(یٹ)ےہ۔خ‪،‬غاورقیکآوازوںےکےیلارگنزیی ‪T‬تیکآوازےکےیلوکیئرحفںیہن۔تاورٹدوونںیکآوازےکےیلرصفاکیرحف‬
‫‪، TH‬دےکےیل ‪ CH‬ںیموکیئرحفےہیہںیہن۔چ‪،‬داورشےکےیلوکیئرحفںیہنہکلبدورحوفںوکالمرکاناکظفلتاداایکاجاتےہ۔چےکےیل‬
‫۔‬
‫اسزابنےکالعوہاردوزابنںیمااسیوتےہہکاکییسیجآوازوںےکےیلدعتمدرحوفںیہ‪ً،‬الثمذ‪،‬ز‪،‬ض‪،‬ظاورث‪،‬ساورص۔نکیلااسیںیہنےہ‬
‫ہکاکییہرحفیکآوازفلتخماافلظںیمفلتخموہاہتبلارگنزییںیمااسیےہ؛ًالثم‬
‫ںیم’’ش‘‘یک ‪ Chaufeur‬اور ‪ Chef ،Chute‬ںیمکیکےہاور ‪ Chorus‬ںیم’’چ‘‘یکےہ۔ ‪ Choose‬اور ‪ Charm‬یکآواز ‪(۱) Ch‬‬
‫ےہ۔‬
‫ںیم’’ج‘‘یکےہ۔ ‪ graduate‬اور ‪ education‬ںیم’’ڈ‘‘یکےہبجہک ‪ dear‬یکآواز ‪(۲) D‬‬
‫وریغہںیم’’ج‘‘یکےہ۔ ‪ gem‬ںیم’’گ‘‘یکےہبجہک ‪ geyser‬اور ‪ get ،gear‬یکآواز ‪(۳) G‬‬
‫ںیمچیکےہ۔ ‪ nature‬ںیمٹیکےہاور ‪ tea‬یکآواز ‪(۴) T‬‬
‫ںیم’’ھت‘‘یکےہ۔ ‪ thank‬ںیم’’دھ‘‘یکےہاور ‪ then‬یکآواز ‪(۵) Th‬‬
‫روزرمہ‪:‬ابذراروزرمہیکابتتیچوکےیجیل۔یسکوکاخمبطرکےنےکےیلاردوںیمفلتخمدروجںےکےیلفلتخماافلظںیہ۔ًالثموت‪،‬متاورآپ۔اس‬
‫بجہکرعیبںیمرصفاکییہظفل’اتن‘ےہ۔ایسرطحیسکوکالبےنےکےیلاردو ‪ you‬اور ‪ thou‬ےکاقمےلبںیمارگنزییںیمرصفدوظفلںیہ‬
‫ےہ ‪ come‬ںیمفلتخماافلظںیہ؛ےسیجآ‪،‬آؤ‪،‬آےیئ‪،‬رشتفیالےیئ‪،‬بجہکرعیبزابنںیمرصفاکیظفلےہ’اعتل‘اورارگنزییںیمیھباکیظفل‬
‫دوعیسکربےترپ؟‬
‫۔رھپاردوےکاقمےلبںیمرعیباورارگنزیییکوتعساک ٰ‬
‫ایھبھچکدنےلہپںیماکیومضمناکاردوےسارگنزییںیمرتہمجرکراہاھتوتھجمرپہیریحتازیگنااشکنفوہاہکارگنزییزابنںیموکیئااسیظفلںیہنوج‬
‫’’رشموایح‘‘اکوہفممیلکوطررپادارکےکس۔ایسرطح’’اھجمسےن‘‘ےکےیلارگنزییاکوکیئظفلریمےملعںیمںیہن۔‬
‫‪ :‬العہمدیساوبانسحلدنویےتھکلںیہ‬
‫دوعیایک۔اسرپاملسمنےناہکارگنزییزابن ’’‬
‫اکیرگوجیٹیاملسمنیکیسکارگنزیےسثحبوہیئگ۔ارگنزیےناینپزابنیکوتعساورہمہریگیاک ٰ‬
‫ےسہیوہفمماداوہاتےہ۔املسمنےناہکرہزگںیہن۔ہیظفل )‪ (holy‬ںیمظفلاپکےکےیلوکیئظفلںیہنےہ۔ارگنزیےنہکاگلویکںںیہن۔ظفلوہیل‬
‫شیپایک۔املسمنےناہکہییھبحیحصںیہن۔نیلک )‪ (Clean‬دقمسیکرتامجینرکاتےہ۔ظفلاطرہےکینعمںیہنداتی۔رھپارگنزیےناسیکہگجنیلک‬
‫اصفےکینعمںیمآاتےہاطرہےکینعمںیمںیہن۔وہاتکسےہاکیزیچاصفوہرگماطرہہنوہےسیجاناپکاپینےسدوھایوہاڑپکا‪،‬اورنکممےہوکیئزیچ‬
‫اصفہنوہرگماپکوہےسیجرگدآولدالیمڑپکا۔وتنجوقومںےکاہیںہیظفلیہںیہنوہاپکاوراسےکاباقملبسجناکوصتریھبںیہنرکےتکس۔‘‘(‬
‫اابخراردو۔اتسگ‪۲۰۰۷‬ء)‬
‫اردوزابنےکدانمیکیگنتاکوکشہاسےیلیھبدرتسںیہنہکاردوزابنںیمدورسیزابونںےکاافلظوکاےنپادنرومسےنیلیکےبانپہالصتیحوموجد‬
‫ےہ۔رعیب‪،‬افریس‪،‬دنہی‪،‬رتیک‪،‬ارگنزیی‪،‬رکسنستوریغہےکےبامشراافلظوکاردوےناسوخیبےساانپایےہہکوہابلکلایبنجںیہنےتگل۔وہزابنوج‬
‫‪ :‬دورسیزابونںےکاافلظاےنپادنرومسےنیکاسدقرالصتیحریتھکوہاساکدانمگنتےسیکوہاتکسےہ؟اشناقحلیقحےتھکلںیہ‬
‫اردوزابناکیعمجمالبحورےہسجےکاافلظوااسبیلیکرفاواینےسمکیہزابںیناقمہلبرکیتکسںیہ۔دورسیوگانوگںوہسوتلںےکاسھتاسںیم ’’‬
‫رعیب‪،‬افریس‪،‬ارگنزییرہزابنےس )‪ (phonetic range‬نیتڑبیوصخایصتںیہنجاکذرکاہیںےبلحمہنوہاگ۔اولہیہکاسیکوصایتت‬
‫ڑبھرکاورزایدہاجعمںیہ۔انچہچنہیارثکدورسیزابونںےکاافلظوکوجںاکوتںاانپیتکسےہ۔رعتبی‪،‬رفتسییکرطحاتردیدنچاںرضوریںیہن‬
‫وہیت۔۔۔دورسےاسںیمےئندصمرڈاھےنلیکڑبیالصتیحوموجدےہوجرعیب‪،‬افریساورارگنزییںیمںیہن۔انزابونںےکامدےاوراصمدر‬
‫ےگلدنبےھںیہاورانےکینعمرہباحلدحمود۔۔۔۔رسیتےہیہکاسںیماسوقبںالوقحںیکدعتاداغًابلرہزابنےسڑبھرکےہویکہکناسےنیئک‬
‫اشہتسئزابونںےکااسبیلوکاانپایلےہ۔ارگنزییںیمےنگےنچاسےقباورالےقحلمعتسمںیہوجاسےنویانیناورالینیطےسےیلںیہ۔ربالخفاسےک‬
‫اردوںیمانیکیتنگآاسنںیہنےہ۔ہیوموضعاکیدحیلعہاتفیلاکاتحمجےہ۔۔۔اسیکوچیھتوصختیصاسیکرتبیکوحنیےہوجاکیآغش‬
‫اشکدہیکتیثیحریتھکےہاوررہریبوینظفلوکآاسینےسامسیتیلےہ۔۔۔‘‘(دقنواگنرشًاصخلماحفصت‪۱۳۷‬۔‪)۱۳۸‬۔‬
‫دورسیزابونںےکاافلظوکاےنپادنرومسانیلاکیتہبڑبیوخیبےہاورزدنہزابنیکاچہپنےہ۔وخدارگنزییزابنںیمویانیناورالینیطزابونںےکےب‬
‫امشراافلظوموجدںیہ۔یبطاوراسیسنئاالطصاحتزایدہرتایہنزابونںےکاافلظےسانبیئیئگںیہ۔وخداردوزابنےکےبامشراافلظارگنزییںیملمعتسم‬
‫یکڈرنشکیزہارےحفصیکاتکبےہاوراسںیموہاافلظدرجںیہوجارگنزییزابنںیمدوسری )‪(Hobson & Jobson‬ںیہ۔وہبووجب‬
‫زابونںےسےیلیگںیہ۔‬
‫ارثکرساکریویجناقمامترپاکیومعیمہلمجاھکلوہاتےہ'ریغبااجزتداہلخعنمےہ'۔اپچناافلظرپلمتشماسےلمجںیمطقف'ےہ'اردواکظفلےہاورابیق‬
‫امتماافلظرعیبااللصںیہ۔رگماناافلظےکےنھکل‪،‬ڑپےنھ‪،‬وبےنلاورےنھجمسںیمیھبکانھجلںیہنوہیت۔‬
‫اردوںیمرموجرعیباافلظیکونتیعاچررطحیکےہ۔اولہیہکرعیباافلظاےنپالصظفلتاورینعمےکاسھتربےتاجےتںیہ‪،‬اسیجہکالسم‪،‬اذان‪،‬‬
‫لفحم‪،‬آداب‪،‬ایسرہ‪،‬رکیساورکلفوریغہ۔‬
‫دورسیمسقرعیبےکاناافلظیکےہ‪،‬وجاےنپالصظفلتےسھچکفلتخمرگمدرتسینعمںیماامعتسلوہےتںیہ۔اردوںیماناافلظیکدعتادبسےس‬
‫زایدہےہ۔اناافلظاکاےنپظفلتےکاطمقباداہنوہانکساکیرطفیارمےہ۔وہہیےہہکابدنشاگناپکودنہےکےیلاخصلرعیبآوازوںاسیجہک‬
‫'ث‪،‬ح‪،‬ص‪،‬ض‪،‬ط‪،‬ظ‪،‬عاورق'اکادارکاناعموطررپلکشموہاتےہ‪،‬ویںہیآوازںیاےنپرقبیارخملجآوازوںےسدبلاجیتںیہ۔‬
‫یہیوہجےہہکاردوںیم'ثاورص'اکظفلت'س'‪'،‬ح'اکظفلت'ہ‪/‬ھ'‪'،‬ذ‪،‬ضاورظ'اکظفلت'ز'‪'،‬ع'اکظفلت'افل'اور'ق'اکظفلت'ک'ایکاجاتےہ۔ویںےنھکل‬
‫واال'االطق'اتھکلاور'االتک'ڑپاتھےہ۔‬
‫ربلیبسذترکہرعضےہہکرعیبرحف'ض'اکظفلترعیبزابناکلکشمرتنیظفلتےہ۔ریغرعباساکظفلتلکشمیہےسادارکےتںیہ‪،‬اوراساکی‬
‫رحف'ض'یکاینبدرپرعیبزابنوک’ۃغلالھااضلد'ینعیاضدواولںیکزابناہکاجاتےہ۔رسیتیمسقاناافلظیکےہوجاردوںیماےنپالصینعمےسرسکی‬
‫اضتمدینعمںیمراجئںیہ‪ً،‬الثمرعیبںیم'رایش'روشتدےنیواےلوکےتہکںیہاوراردوںیم'رایش'روشتوخروکاہکاجاتےہ۔اےسییہظفل'مُغوی'ےہوج‬
‫اردوںیماغاوہےنواےلےکےیلاامعتسلوہاتےہ‪،‬بجہکرعیبںیم'مُغوی'راےتسےساکہبےناوراکٹھبےنواےلوکےتہکںیہ‪،‬بجہکاغاوہےن‬
‫واےلوکمیمےکزربےکاسھت'مَغوی'اہکاجاتےہ۔واحضرےہہکاردوںیماےنپاضتمدینعمےکاسھتربےتاجےنواےلرعیباافلظیکدعتادتہبرصتخم‬
‫ےہ۔‬
‫اردوںیمراجئرعیباافلظیکوچیھتمسقاناافلظرپلمتشمےہ‪،‬وجوصرًاترعیبںیہرگمانےکینعماینپالصےسفلتخمںیہ‪،‬ایرعیبینعمےسانیکمہ‬
‫آیگنہوایبجیسےہ۔ذلیںیماےسیدنچاافلظوطبرومنہندرجںیہ‪:‬‬
‫اردوینعم‬ ‫رعیبینعم‬ ‫ظفل‬
‫ااچکن‪/‬ریغارادیوطررپ‬ ‫اعمدہہ‬ ‫اافتہیق‬
‫اذن‪/‬راض‬ ‫یٹھچ‪/‬لیطعت‬ ‫ااجزت‬
‫اامتجع‪/‬نٹیم‬ ‫اھٹبان‬ ‫االجس‬
‫دمریاکاخصومضمن‬ ‫ااظتنیم‬ ‫ادارہی‬
‫اصمرف‪/‬الگ‬ ‫ارخااجت زنیمیکدیپاوار‪/‬ہلغ‬
‫ررفیڈنم‪/‬وشمرہانیل‬ ‫اوصتسابیسکابتوکدرتسانھجمس‬
‫رعض‪/‬زگارش‬ ‫اہسراانیل‪/‬انپہانیل‬ ‫ااجتل‬
‫ردرکان‪/‬الطبن‬ ‫ولاٹان‬ ‫رتددی‬
‫اامتجع‬ ‫زندکیرکان‬ ‫رقتبی‬
‫اھکاناھکان‬ ‫یسکزیچاکانیل‬ ‫انتول‬
‫لیصفتویسفت‬ ‫ریچاھپڑ‬ ‫رشتحی‬
‫رپھک‪/‬ااحتمن‬ ‫ااعنم‬ ‫اجزئہ‬
‫ڑبییتشک‪/‬وہایئاہجز‬ ‫نیشم‪/‬آہل‬ ‫اہجز‬
‫رواج‪/‬وطررطقی‬ ‫اشنن‪/‬شقن‬ ‫رمس‬
‫اہیمل‪/‬احدث‬ ‫ومعق‬ ‫اسہحن‬
‫اعموہےنواال‪/‬ےنلیھپواال اھچانپ‪/‬ااہتشردانی‬ ‫اشعئ‬
‫رشموب‬ ‫انیپ‪/‬اکیرمہبتیپانیل‬ ‫رشتب‬
‫رویٹرفوتخرکےنواال شیعدنسپ‪/‬دبنلچ‬ ‫ایعش‬
‫سلفم‪/‬اندار‬ ‫اوناھک‪/‬ایبنج‬ ‫رغبی‬
‫اناثمولںےسواحضوہاجاتےہہکرکسنستےکاسےچنںیمڈیلھاردوزابنےکریمخںیمرعیبزابنوموجدےہ‪،‬زابنوایبنرپرعیبےکارثےنضعب‬
‫ولوگںوکاساغمےطلںیمڈالدایہکاردواالسماوراملسمونںیکزابنےہ‪،‬رگموجتقیقحےہاےسڈارٹکوگیپدنچانرگنےناناافلظںیمایبنرکدای‬
‫ےہ‪’:‬زابناکذمبہںیہنوہات‪،‬اہتبلزابناکامسجوہاتےہ‪،‬اوردنہواتسینامسجاردواکامسجےہ۔‘‬
‫رعیباکاکیااجعزہییھبےہہکاسںیماکیظفلیئکینعمںیماامعتسلوہاتےہاورینعمیکہیوتعسدویسںافممیہاکااحہطرکیتےہ‪،‬وجرعیباکذوق‬
‫رےتھکںیہوہایسقابسقوکدےتھکییہظفلںیموپدیشہینعموکاپےتلںیہ۔ًالثمظفل'نیع'وکدںیھکی‪،‬ہیدودرنجےسزایدہینعمںیماامعتسلوہاتےہ۔ہیینعم‬
‫درجذلیںیہ‪:‬‬
‫وسان‪،‬دقن‪،‬ابرش‪،‬آھکن‪،‬ونکںیاکداہہن‪،‬زینہ‪،‬وفارہ‪،‬ہلبقاکداانہولہپ‪،‬رتازوےکولپںاکرباربہنوہان‪،‬سفنےش‪،‬انٹھُگ‪،‬اجوسس‪،‬ارب‪،‬رظنانگل‪،‬مشچآب‪،‬زیکشمہاک‬
‫داہہن‪،‬داد(دلجیامیبری)‪،‬بختنمزیچ‪،‬اصبحاخہن‪،‬شیپرظنامل‪،‬اکیرپدنہاکانم‪،‬وکاہن‪،‬امومں‪،‬وریاہن‪،‬لت‪،‬رغور‪،‬اکیمسقیکیبملاچدر‪،‬ڈنیمک‪،‬‬
‫یخس‪،‬اہپڑی‪،‬اہنت‪،‬زاوناکاکیہصح‪،‬صخشاوروکڑےیکنکش۔‬
‫رعببجاےنپاقمبریغرعبوک'ایمجع'ینعیوگاگنےتہکںیہ‪،‬وتاساکبلطمہیںیہنوہاتہکوہوبلںیہناتکسایہیہکریغرعبانھکلڑپانھںیہناجےتن‪،‬‬
‫ہکلبہی'وگاگن'انہکریغرعیبزابونںیکگنتداینمیکرطفااشرہےہ۔‬
‫ًالثماحتلوخفےکااہظرےکےیلریغرعیبزابونںںیمرتمادافتیکدعتاددواچراافلظےسزایدہںیہنےہ‪،‬بجہکرعیبںیم'ڈر'ےکےیلاچرزہار‬
‫اافلظوموجدںیہ۔ینعیظفلاکاامعتسلاتبداتیےہہکوبےنلواےلوکسکابتاکدڑھاکےہ‪،‬ایاُےسسکزیچاکوخفالقحےہ۔‬
‫کاتاورااقلابترپلمتشمںیہ۔ریشوں‬
‫ایسرطحرعیبزابنںیمریشےکےیلاپچنوساافلظآےئںیہ۔امسذاتےکالعوہہیانمریشوںیکافصت‪ّ ،‬‬
‫ےکانانومںںیمادس‪،‬اُدیس‪،‬دیحر‪،‬ابعس‪،‬مغیضورضاغموتوہانمںیہوجاردوںیمراہاپےئگںیہ‪،‬ذلیںیممہریشےکڑکنیسوںانومںںیمےسطقفدنچانم‬
‫وطبرومنہنشیپرکےتںیہ‪:‬‬
‫م‬
‫هِس‪َ ،‬ه ْی َصاار‪َ ،‬أوُبَرِفاس‪،‬أَتْغَث‪َ ،‬أسْحَرر‪ُ َ ،‬‬ ‫م ِْب م‬ ‫ُ ْس َنلْح‬
‫عس‪،‬رُعْ َوة‪،‬عُف ْ ُرروس‪ُُ ،‬ح ِاب‪َ ،‬خ ِاب‪،‬‬ ‫سر ِّي‪ َ ُ ،‬ا‬
‫شع‪َّ َ َ ،‬ر‬ ‫َس‪ َ ْ َ ،‬د‬ ‫ِم‪،‬مُ ْص َطااد‪َ ،‬هس‪ْ ُ ،‬هررِع‪ َ ،‬ر‬
‫هْثَمَة‪ ْ ِ ،‬د‬
‫لَه‬ ‫خ َْیع‬
‫خّان‪َ ،‬د ْمَس‪،‬ر ْ َِئال‪َّ ،‬رزام۔‬ ‫ْزَخرج‪،‬رِس َْخان‪َّ َ ،‬شامَة‪،‬رَش ِْب‪َ ،‬م‪َ َ ،‬‬ ‫َ‬
‫ربلیبسذترکہرعضےہہکریشےکانومںیکاہبرہیاتبےنےکےیلاکیفےہہکیھبکزجریۃارعلبںیمریشواکشریکرثکتیھت‪،‬ںیہنجدنبوقیکااجید‬
‫ےندعمویمےسدواچررکدای۔‬

You might also like