You are on page 1of 8

‫مہا بلی اکرب ‪’ ،‬انارکلی‘ کی عدالت میں‪ ،‬ایک متنی جائزہ‬

‫مہا بلی اکرب ‪’ ،‬انارکلی‘ کی عدالت میں‪ ،‬ایک متنی جائزہ‬

‫تبرصِۂ کتاب‪ :‬نعیم بیگ‬

‫’اکرب اعظم کے نام جنھوں نے شہزادہ لوہ کے ہاتھوں قلعہ الہور میں جالیا گیا چراغ بجھنے نہ دیا اور ایک ننھا سا ِد یا‬
‫پھونک مار کر بجھا دیا۔‘‘‬
‫یہ انتساب ہے اس شاہکار دستاویزی ناول کا‪ ،‬جسے میرزا حامد بیگ نے اندازا اکتیس برس کی محنت شاقہ کی نذر کیا۔‬
‫زمانہ تحریر جب اس قدر طوالت اختیار کر جائے‪ ،‬تو تاریخ کی وہ گھتیاں جسے کسی عبارت کا جزِوالینفک بننا ہے‪،‬‬
‫کُھلنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ لگ بھگ ایک ہزار سے زاید صفحات پر لکھی گئی خونچکاں داستان جب خود احتسابی‬
‫کی نذر ہوئی‘ تو رصف ڈھائی سو صفحات پر مواد کا نچوڑ رہ گیا‪ ،‬جس میں زوائد کا ڈھونڈنا کاِر دارد ہے۔‬

‫فکشن انسانی نفسیات میں ایسے جوہر کی مانند ہمیشہ اپنے انگ انگ میں کوندتی ہوئی بجلیاں چھپائے رکھتی ہے‪،‬‬
‫جسے کوئی بھی ذہین ادیب اپنی انگلیوں کی پوروں سے چھیڑ کر ایسے سچ کو برآمد کر لیتا ہے‪ ،‬جو بعد ازاں عاملی سچ‬
‫کا روپ دھار لیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی میرزا حامد بیگ کے ناول ’’ انار کلی ‘‘ میں ہوا ہے۔ تاریخ کے جن پہلوؤں پر‬
‫صدیوں کی تاریکی نے گھنے سائے کر رکھے تھے‪ ،‬دربار اکرب کا وقائع نویس ابوالفضل ہو یا بعد ازاں درباری مورخین‪ ،‬ان‬
‫کے قلم مصلحت کی نیو پر خاموش رہے ‪،‬تب وقت کی خاک نے بھی ایک دبیز چادر تن دی‪ ،‬لیکن حامد بیگ کے قلم‬
‫کی نوک نے صدیوں بعد فکشن کے کارن ایسی راگنی چھیڑی ہے‪ ،‬جس سے سچائی کے مسحور کن رس اہل علم و فن ‪،‬‬
‫فکر و دانش اور مورخین کو ایک بار پھر نئے آہنگ سے آ شنا کر رہے ہیں۔‬

‫سچائی کیا ہے؟ وہ جو مہابلی کے دربار میں عدل کے نام سے گونجتی تھی‪ ،‬یا وہ جو انار کلی کی مہک کو دربار میں‬
‫پھیلنے سے نہ روک سکی ‪ ،‬اور جس کا شکار شیخو اور خود انارکلی ہوئی۔‬

‫سچائی کیا ہے؟ وہ تاریخ جو ابولفضل نے’ آئین اکربی‘ اور ’ اکرب نامہ‘ میں سپرِد ابیض کی یا برطانوی تاجر ولیم فنچ یا‬
‫طامس ہربرٹ نے رقم کی۔ یہ تو آپ ناول پڑھ کر ہی جان پائیں گے‪ ،‬لیکن اس سے پہلے کہ میں ناول کے مندرجات کو‬
‫منت کی روشنی میں تجزیاتی طور پر سامنے الؤں‪ ،‬مجھے دو اہم پہلوؤں پر گفتگو کرنی ہے۔ پہال نکتہ وہ مثبت عمومی‬
‫تاثر کا ہے جو اس دور کے وقائع نویسوں اور مورخین نے رقم کیا‪ ،‬اور مغلیہ دور کے بیشرت شہنشاہوں کے ان رویوں پر‬
‫جو انسانی حقوق پر دال کرنے کا دعوٰی کرتے ہیں ‪ ،‬کو معروف معنوں میں انسان دوست قرار دیا۔ اور دورسی سطح وہ‬
‫ہے جو شاہی ثقافتی رویوں کی ہے‪ ،‬جس میں سلطنت مغلیہ کے وسطی ادوار بشمول اکرب اور جہانگیر بھی شامل ہیں۔‬

‫‪۱۵۸۴‬ء سے لے کر ‪.۱۵۹۹‬ء تک کا عہد اکربی الہور میں مدفون ہے۔ اس پر مصنف کی محققانہ طرز نگارش نے تفصیًال‬
‫روشنی ڈالی ہے۔ اس سے ُبعد نہیں کہ ان پندرہ سولہ برسوں میں قلعہ الہور کا آسامن کئی ایک منفی اور مثبت روایات‬
‫کا چشم دید گواہ ہے۔ جس نے دین الہی کی ایک روحانی انجمن کو بنتے دیکھا ‪ ،‬مغلوں کا مذہبی جربیت سے انکار‪،‬‬
‫مذہبی کٹر پن کو گھٹا کر اسالم اور ہندو مت میں براِہ راست تصادم نہ ہونے دینا ‪ ،‬ہندوؤں کے اکرث فرقوں کا اسالمی‬
‫رسم و رواج کو اپنانا‪ ،‬دورسی طرف ہندوؤں کی بعض رسموں کو مسلامنوں کا اپنانا ‪ ،‬جیسے بسنت ‪ ،‬مائیوں اور مہندی‬
‫کی رسومات اور پیلے پہناوے۔ جہانگیری دور میں گرجاؤں اور گورستان بنانے اور عیسائی مشرنیوں کو آزادانہ تبلیغ کی‬
‫اجازت جیسے بیسیوں اقدامات ہیں‪ ،‬جنہیں دربار اکربی اور جہانگیری کی تائید اورحامیت حاصل رہی۔‬

‫تاہم ناول ’ انار کلی‘ میں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں دیدہ دانستہ فراموش کردہ حقائق کے کھوجنے کو مصنف‬
‫نے اہم سمجھا‪ ،‬وہیں انسانی حقوق کی پامالی کو بھی زیر بحث الیا گیا۔ انار کلی کے واقعہ پر بحیثیت حقیقت نگار‬
‫مصنف نے یہ بات شکوہ گزاری کے طور پر بیان کی ہے کہ ’’ تین سو اکانوے برس گذر گئے‪ ،‬نہ مدعیہ کو انصاف فراہم‬
‫کیا جا سکتا ہے اور نہ مدعا علیہ کو عدالت کے کٹہرے میں پیش کیا جا سکتا ہے‪ ،‬ہاں اگرہم اپنے موضوع سے انصا ف‬
‫کر پائے تو یوں سمجھیے فرِد جرم عائد ہو گئی‪( ‘‘ ،‬صفحہ ‪)۵۳‬‬

‫آگے چل کر مصنف لکھتے ہیں ’’ افسوس کہ عہد اکربی کے وقائع نویس ِاس ضمن میں خاموش ہیں اور عہد موجود کے‬
‫تاریخ دانوں اور تجزیہ کاروں نے مقربِہ انار کلی اور انار کلی بازار جیسے واضح نشانیوں کو جھٹالتے ہوئے انتہائی غیر‬
‫ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے‪ ،‬آج ‪ ۸‬اکتوبر ‪.۱۹۹۰‬ء کو ہم لگ بھگ چار سوسال پرانی ایک مبہم سی تصویر پر پڑی ہوئی گرد‬
‫جھاڑنے کی خاطر جمع ہوئے ہیں۔ ایک دھندلی سی تصویر‪ ،‬جسے ہامرے اجتامعی حافظے اور شہر الہور کی سینہ در‬
‫سینہ روایات نے ہم تک پہنچایا۔‘‘ (صفحہ ‪)۵۳‬‬

‫یہ بھی کہا گیا کہ اکرب اعظم کے معارص تاریخ نگاروں نے جان بوجھ کر اس لرزا دینے والے واقعہ کو قلمبند کرنے سے‬
‫گریز کیا‪ ،‬کیونکہ انار کلی کو ‪.۱۵۹۹‬ء میں زندہ دفن کر دینے کے بعد ‪.۱۶۰۵‬ء سے ‪.۱۶۱۵‬ء کے درمیانی عرصہ میں‬
‫جہانگیر کے حکم سے انار کلی کا مقربہ تعمیر ہوا‪ ،‬جو اس دور کی الہور کی شاہی عامرات میں ایک شاندار اضافہ تھا۔‬

‫عاملی ادب میں ایک قدیم اور گہری روایت ہے‪ ،‬جسے فرانسیسی میں ’ مائز این ابیمی ‘ کہا جاتا ہے جس میں کہانی کے‬
‫اندر ایک اور کہانی ُبنی جاتی ہے جو بڑی کہانی کے تناظر میں اس چھوٹی کہانی کے مراحل طے کرتی ہے ۔جیسے‬
‫قدیم یونانی شاعر ہومر اپنی نظم ’اوڈیسی ‘ میں اس تکنیک کو پہلی بار استعامل میں الیا۔ درحقیقت کہانی اندر کہانی‬
‫کی بنت کے ذریعے اس سچ کو اگلوانا از حد رضوری ہو جاتا ہے جو مصنف اپنے تئیں پورے ناول میں مرکزی خیال کے‬
‫تحت التا ہے۔ ناول ’ انار کلی ‘ میں یہی تکنیک استعامل کی گئی ہے ‪ ،‬جسے مصنف بڑی ہرن مندی سے عکسی حقیقت‬
‫کے پیرائے میں ’ انارکلی‘ جیسے تاریخی موضوع کی سچائی کو سامنے التا ہے۔‬
‫ناول ’ انارکلی‘ میں مصنف کا مقصد اوال یہی ہے‪ ،‬کہ وہ یہ ثابت کرے ‪،‬کہ انار کلی کا کردار کوئی امجیری ‪ ،‬کوئی الوژن‬
‫‪ ،‬کوئی واہمہ نہیں بلکہ انارکلی ایک حقیقت تھی اور ہے ‪،‬جو مہابلی کے قہر کا نشانہ بنی۔ عین اسی تیکنیک کے‬
‫تحت شکسپئیر اپنے ڈرامے ’ ہیلمٹ ‘ میں سچ اگلوانے کے لیے کردار اوفیلیا کو استعامل کیا۔ ناول ’ انار کلی ‘ میں اردو‬
‫ادب کے مخصوص لسانی و تہذیبی پس منظر میں یہ تکنیک استعامل کی گئی ہے ‪ ،‬جسے مصنف بڑی ہرن مندی سے ’‬
‫انارکلی‘ جیسے تاریخی موضوع کی عکسی سچائی کو سامنے النے کے لیے بروئے کار التا ہے۔‬

‫یہاں کہانی کی ابتدا ہی میں ایک وسط ایشیائی تیموری خون رگوں میں دوڑاتا شہر یار مرزا مرکزی متثیلی کردار کے‬
‫روپ میں سامنے آتا ہے۔ یہ مغلئی آنکھوں واال‪ ،‬دراز قد نوجوان طالب علم جو پی ایچ ڈی کے مقالے کی ریرسچ کرتے‬
‫ہوئے کہانی کے اندر ُاس وقت داخل ہوتا ہے‪ ،‬جب مری سے ذرا آگے خانسپور کے مقام پر سپانرسڈ فلمی یونٹ مبع اپنے‬
‫متام رضوری فلمی یونٹ کے ہمراہ ’ انار کلی‘ فلم بنانے کے ابتدائی مراحل سے گذر رہا ہوتا ہے ۔ فلمی یونٹ کے سیٹ‬
‫ڈیزائرن مسعود احمد ( نک نیم ہد ہد ) شہر یار مرزا کے دیرینہ دوست ہیں اور یوں مغلئی آنکھوں واال کردار وہیں فلمی‬
‫یونٹ کی انچارچ پروڈیورس میڈم ڈاکٹر رسجیت کور کی بیٹی شازیہ سے ملتا ہے ‪ ،‬جسے وہ اپنے تخیل میں انار کی کلی‬
‫پکار اٹھتا ہے۔‬

‫کہانی کی ابتدا میں دو حریف کردارمغلئی آنکھوں واال شہر یار مرزا اور ٹیلی ویژن اداکار سنی جو ہمہ وقت اپنے آپ‬
‫کو ہیرو ہی سمجھتا ہے کو ِاس عمدگی سے آمنے سامنے الیا گیا ہے کہ وہ ناول کی سطروں سے ہی مالحظہ ہو سکتی‬
‫ہیں ۔ بیڈ منٹن کے کورٹ میں جب سنی دھان پان سی لڑکیوں انار کی کلی (شازی) اور صفیہ کو ہرا دینے کے بعد‬
‫تفاخرانہ انداز سے آس پاس دیکھتا ہے‪ ،‬اور کُھال چیلنج دیتا ہے تو شہر یار مرزا آگے بڑھتا ہے اور یوں ایک نیا کھیل‬
‫رشوع ہوتا ہے۔‬

‫’’جب شہر یار میرزا نے میچ پوائنٹ لو کہتے ہوئے ریکٹ کو جھٹکا دیکر شٹل کاک دھیرے سے نیٹ کے ساتھ پش کی‬
‫تو سنی بجائے آگے آنے کے ہانپ کر پیچھے ہٹا اور شٹل‪ ،‬اس کے عین سامنے جا گری۔ سنی بغیر کوئی پوائنٹ بنائے‬
‫ایک سیٹ ہار چکا تھا۔ یہ دیکھ کر کورٹ کے اطراف میں ہاہاکار مچ گئی اور جب شہریار مرزا نے سنی سے پوچھا کہ‬
‫’بیسٹ آف تھری‘ کھیلو گے تو وہ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ ریکٹ پھینک کر کورٹ سے باہر چال گیا۔ ایسے میں راجہ‬
‫رسالو کے اشارے پر کچھ منچلے اسے دوبارہ کورٹ میں لے آئے۔ وہ شہر یار مرزا کے ہاتھوں مزید خوار کرنے کی‬
‫کوشش میں تھے کہ ڈاکٹر نذیر برالس کی بروقت مداخلت نے سَنی کو بچا لیا۔ وہ یہ میچ کیا ہارا‪ ،‬ہیرو سے زیرو ہو‬
‫گیا۔‘‘ (صفحہ ‪)۶۶‬‬

‫درحقیقت دو کرداروں کے درمیان یہ معمولی سا کھیل اور چیلنج پوری کہانی کے اس بڑے سچ کو تقویت دیتا ہے‬
‫جہاں مہا بلی اور شیخو انار کلی کے معاملے میں ایک دورسے کے مِد مقابل آ جاتے ہیں ۔‬
‫ناول کا ایک باب یہ واقع یوں پیش کرتا ہے‪ ،‬کہ ایک روز شام کے وقت پہرے داروں کی غفلت کی وجہ سے ایک شخص‬
‫پاگل کا سوانگ رچائے حرم رسا کے اس حصے سے پکڑ لیا گیا ‪ ،‬جو رصف شہنشاہ کے لیے مختص تھا‪ ،‬شور مچنے پر ظل‬
‫الہی باہر نکل آئے‪ ،‬گو شہزادہ دانیال نے اس پاگل کو پکڑ رکھا تھا لیکن اسے پاگل سمجھ کر چھوڑ دیا گیا۔‬
‫’’سال ‪.۱۵۹۴‬ء نومرب کا مہینہ‪ ،‬موسم رسما۔ شام کو اندھیرا جلد چھا جاتا ہے۔ وہ پاگل شخص کون تھا؟ کوئی اور نہیں‬
‫یقینًا شہزادہ سلیم جو انار کلی سے ملنے ایک پاگل کا بہروپ بھر کر آیا تھا اور حرِم شاہی کی نگران پہرہ دار خواتین نے‬
‫چشم پوشی اختیار کر رکھی تھی‪ ،‬لیکن دیواِن عام کے قریب کھڑے شہزادہ دانیال کی اس پر نظر پڑ گئی۔ ‘‘ ( صفحہ‬
‫منرب ‪)۱۰۹‬‬

‫’’ ابو الفضل کے مطابق تو اکرب نے اس پاگل شخص کو معافی مانگنے پر جانے دیا‪ ،‬لیکن رس ٹامس ہر برٹ نے اپنے سفر‬
‫نامہ میں لکھا ہے ‪ ،‬کہ جہانگیر کے معافی مانگنے پر معاف کر دینے کا وعدہ کر کے بادشاہ اسے حرم رسا میں لے آیا۔‬
‫حرم رسا میں آتے ہی پھر طیش میں آ گیا کہ بیٹے کو ایسے مکے مارے کہ وہ گر پڑا۔ ’ اکرب چنگھاڑا‪ :‬ابے او احمق اور‬
‫گدھے تو نے کس طرح میرے وعدے پر یقین کر لیا؟ ‘‘ (صفحہ منرب‪)۱۰۹‬‬

‫یہ بات پہلے بھی منظر پر آ چکی تھی کہ اکرب کو زہر دینے کی کوشش کی گئی تھی ‪ ،‬لیکن شاہی اطباء کے بروقت عالج‬
‫کی وجہ سے جانرب ہو گیا تھا۔‬

‫’’لگتا ہے کہ اکرب کو پھر ایک بار شہزادہ سلیم کے اشارے پر اناد کلی کے ہاتھوں زہر دئیے جانے کا خطرہ محسوس ہوا۔‬
‫اس بد گامنی کی فضا میں چند ماہ بعد ‪.۱۵۹۸‬ء میں اکرب نے شہزادہ سلیم کو حکم دیا کہ وہ ماورا النہر کی طرف ایک‬
‫فوجی مہم کی قیادت کرے‪ ،‬لیکن سلیم نے کسی خدشے کے پیش نظر اس درو دراز مہم پر جانے سے انکار کر دیا۔ اس‬
‫سے باپ بیٹے کے درمیان تلخی بڑھی۔ تب یقینًا شاہی حرم رسا میں انار کلی کی حرکات و سکنات پر بہت سی نظریں‬
‫گڑی ہو ں گی۔ ‘‘ ( صفحہ منرب ‪)۱۱۱‬‬

‫یہ ناول کے حوادث کی تنظیمی خوبی ہے‪ ،‬کہ یہ تاریخی املیہ کسی فرد سے کہیں زیادہ اس سے وارد ہونے والے اعامل‬
‫اور زندگی کا عکس پیش کرتا ہے۔ جوں جوں مہابلی ‪ ،‬شیخو اور انارکلی کے تاریخی متثیلی واقعات آگے بڑھتے ہیں‪،‬‬
‫اسی طرح ناول کی کہانی میں شہر یار مرزا ‪ ،‬انار کی کلی ( شازی) اور سنی کے واقعات وقت کی ڈور پر اسی طرح‬
‫سیریز آف ایونٹس کی مامثلت میں آگے بڑھتے ہیں۔‬

‫’’سنی کو میں نے دل سے چاہا تھا‪ ،‬پر وہ دھوکے باز نکال‪ ،‬اب تم درمیان میں آن کھڑے ہوئے۔ میں بٹ گئی۔ تم ہی‬
‫بتاؤ میں کیا کروں؟‘‘ ’’ میں ہٹ جاتا ہوں درمیان سے‪ ،‬یوں بھی کل خانسپورمیں ہامرا آخری دن ہے‪ ،‬شام کو چل پڑیں‬
‫گے‪ ،‬یہاں سے مری کی طرف۔ مجھے وہاں اتار کر متہاری بس آگے نکل جائے گی۔ پیچھے رہ جاؤں گا میں اور ہوٹل‬
‫برائیٹ کے برآمدے میں دھری بید کی خالی کرسیاں۔‘‘‬
‫’’ کون کہہ رہا ہے متہیں پیچھے ہٹ جانے کے لیے۔۔۔ الہور سے کوہ مری تک کے سفر میں مجھ سے مدیحہ نے سَنی‬
‫کو چھینا‪ ،‬تم نے سَنی سے مجھے چھین لیا۔ اگر دل لگی کرنی ہے تو بے شک پیچھے ہٹ جاؤ۔ میں راجپوت ہوں مدیحہ‬
‫سے کبھی ہار نہیں ماننے کی۔۔۔۔ ’’ کیا تم رات ایک بجے گرجا گھر کے ساتھ والی راہداری پر مجھ سے ملنے آ سکتے‬
‫ہو۔ میں ماما کو ان کے کمرے تک پہنچا کر نکل آؤں گی۔۔۔ ‘‘ (صفحہ منرب ‪)۱۷۴‬‬

‫انار کی کلی (شازی) اور شہر یار مرزا کی خانسپور میں ہونے والی یہ گفتگو کہانی کو ایک نیا موڑ دیتی ہے۔ جب رات‬
‫ڈھلتے ہوئے گرجے کے بائیں جانب راہداری پر سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا شہر یار مرزا انتظار کی گھڑیاں گزار رہا تھاکہ‬
‫دو سایوں نے اسے چونکا دیا‪ ،‬ریسٹ ہاؤس سے کوئی نکل کر گرجے کی جانب مڑ گیا۔ مرزا یہی سوچ رہا تھا کہ سایہ‬
‫اس کی طرف آنے کی بجائے دورسی طرف کیوں مڑ گیا ہے تب ایک بوجھل سایہ ریسٹ ہاؤس کی طرف قدم بڑھا رہا‬
‫تھا‪ ،‬جسے چھٹکی ہوئی چاندنی میں پہچان لینا مشکل نہ تھا۔ یہ انار کی کلی تھی‪ ،‬اس کے ہاتھ میں چاندی کا کڑا‬
‫چمک رہا تھا۔۔۔۔ تو پہال سایہ کون تھا ؟ سَنی تھا یقینًا۔ انار کی کلی نے ایسا کیوں کیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سب‬
‫کچھ میں دیکھ لوں گا۔ اگر وہ مجھے یہاں نہ بالتی تو کیا میں یہ منظر دیکھ سکتا۔ شہریار چکرا کر رہ گیا ‪ ،‬کیونکہ‬
‫اس کا احساس فتح مندی ہزیمت میں ڈھل چکا تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچا تو جب صبح کے آثار جاگ رہے تھے‪،‬‬
‫اس کی ٹانگیں شل تھیں‪ ،‬شہریار چپ چاپ کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ ہے۔‬

‫’’تب شازیہ اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ ’’ بولو۔۔۔ کیا میں متہارے لیے اب بھی ۔۔۔ ؟‘‘ مغلئی آنکھوں واال چپ‬
‫کھڑا اسے تکتا رہا۔ پھر یکلخت تیزی سے پلٹا اور بوال ’’ بہت دیر ہوگئی۔‘‘‬
‫یہ کہہ کر وہ ملبے ملبے ڈگ بھرتا ریسٹ ہاوس سے نکل گیا۔‘‘ ( صفحہ ‪)۱۹۶‬‬

‫ناول میں دستاویزی واقعات کی روشنی میں مصنف اپنے دعوٰی میں کوئی معانی پیدا کر سکا ہے یا نہیں؟ یہ ناول کا‬
‫قاری یا کوئی تاریخ دان ہی طے کرے گا کہ اس دستاویزی سچائی میں حقیقت کا عکس کس قدر منایاں رہا ہے۔ راقم کا‬
‫منصب نہیں کہ وہ اس پر حدود جاری کرے۔ تاہم یہ کہنا کافی ہوگا کہ ناول کا منت حقیقتًا اپنے جوہر میں واقعات کی‬
‫ُاس متثیلی عکس کو بیان کرتا ہے‪ ،‬جسے افالطون نے عکسی حقیقت قرار دیا ہے۔ گو وہ اپنے فلسفیانہ نظریات کے‬
‫جوہر کو حامِل وجود اور برصی الفاظ کو ثانوی حقیقت کہتا ہے‪ ،‬لیکن یہاں مصنف نے اسی فلسفے اور ادب کے استاد‬
‫اول ارسطو کے تخلیقی رحجانات کی بنیاد پر اس پورے تاریخی واقعہ کی مربوط اور حوالہ جاتی عکسی حقیقت کو‬
‫بیان کر دیا ہے۔ مصنف نے اس املیہ کو بیان کرتے ہوئے اس واقعہ کی غنائیت‪ ،‬تاثر آفرینی‪ ،‬طریق کار اور حدود کا‬
‫مکمل ادراک کیا ہے۔ جس عمل کا عکس پیش کیا گیا وہ سنجیدہ‪ ،‬مکمل اور خاص حجم کا حامل ہے۔ اس کی کرافٹ‬
‫میں فکشن اور حقیقت کا الزوال امتزاج رقم کرنے کی شاندار مثال قائم کی گئی ہے۔ راقم کی نظر میں اس ناول کی‬
‫تاریخی حیثیت کے عالوہ بھی اور کئی سامان موجود ہیں جس سے ناول کی زبان‪ ،‬ہیئت‪ ،‬تلفیظ (ڈکشن)‪ ،‬املیہ کے عمل‬
‫اور تاریخی میالن‪ ،‬جذباتی توازن و اعتدال‪ ،‬تکمیل اور قطعیت شامل ہیں۔‬

‫’ انار کلی‘ جیسے تاریخی املیہ کی داستان کو بیان کرتے ہوئے ناول کے انت میں مصنف نے کامل مہارت سے ایک ایسی‬
‫سچائی کو حقیقت کے آہنگ میں فکشنالئز کیا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے ۔‬

‫’’ساری تفصیل سن لی نا آپ نے۔۔۔ وہ کوئی اور نہیں۔۔۔ میں ہوں نادرہ۔ شہنشاہ جالل الدین محمد اکرب کی ایک‬
‫لونڈی‪ ،‬جو انار کلی کہالئی۔ یہ نام سن رکھا ہے نا آپ سب نے۔۔۔ کتنے سال ہوگئے ہیں کہ میں چیخ چیخ کر بتا رہی‬
‫ہوں کہ ‪ ،I am the sufferer of male chauvinism‬ایک سو چھبیس سال ہوگئے ہیں‪ ،‬مجھے میری قرب سے بے دخل کر‬
‫دیا گیا ہے‪ ،‬اللہ کا گھر آباد کرنے ے نام پر‪ ،‬گوری چمڑی والوں نے پورے چالیس سال میرے مقربے کو کھیتڈرل چرچ‬
‫بنائے رکھا۔ اب تو گوری چمڑی والے حاکم نہیں رہے۔۔۔ چار سو اٹھارہ سال پرانے میرے بوسیدہ ڈھانچے کو نکالو اور‬
‫میڈیکو لیگل کروا لو۔ کر لو تسلی‪ ،‬ثابت ہو جائے گا کہ میری ناک اور کان کاٹے گئے۔۔۔ میری موت دم گھٹنے سے‬
‫ہوئی۔۔۔‘‘‬

‫’’چلو‪ ،‬بی بی چلیں ‪ ،‬پولیس وین سے نیچے اترتی ہوئی لیڈی پولیس آفیرس کی آواز سنائی دی۔ عین اسی ملحے زرد رنگ‬
‫کا ایک بڑا چھکڑا آن پہنچا‪ ،‬جس سے اتر کر ٹی ایم او آفس کی زرد وردی والے چاک و چوبند اہلکاروں نے آنًا فانًا وہ‬
‫چھوٹا سا سائبان کھول دیا اور اس کے سایہ میں سجایا گیا مخترص سا سٹیج ڈھا کر سارا سامان چھکڑے میں بھرا اور یہ‬
‫جا‪ ،‬وہ جا۔‬
‫’’ متہاری عربی لغت میں امراۃ کے یہی معنٰی درج ہیں نا ۔۔۔ نامکمل‪ ،‬داغ‪ ،‬دھبا ۔۔‬
‫شازی چیخی۔‬

‫’’چلو بی بی چلیں۔ ‘‘‬


‫دیکھتے ہی دیکھتے پولیس آفیرس نے شازی کو اپنے حصار میں لیا اور ایک لیڈی کانسٹیبل کی مدد سے اپنے بازؤں میں‬
‫بھر کر پولیس وین میں بٹھا لیا۔ شازی نے بیٹھے بیٹھے اپنا دائیں ہاتھ باہر نکال دو انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنایا‪ ،‬تو‬
‫اس کی کالئی میں پہنا چاندی کا کڑا تیز دھوپ میں ڈلک رہا تھا۔‬

‫وین چل پڑی تو مجمع چھٹتا گیا‪ ،‬ٹریفک رواں ہو گئی لوگوں نے ایک ایک کر کے اپنی راہ لی اور شہر یار مرزا بہت دیر‬
‫ہکے بکے وہیں کھڑے رہے۔ وہ کچھ بھی تو نہ کر سکے۔‘‘ (صفحہ ‪)۲۴۴‬‬

You might also like