Professional Documents
Culture Documents
’اکرب اعظم کے نام جنھوں نے شہزادہ لوہ کے ہاتھوں قلعہ الہور میں جالیا گیا چراغ بجھنے نہ دیا اور ایک ننھا سا ِد یا
پھونک مار کر بجھا دیا۔‘‘
یہ انتساب ہے اس شاہکار دستاویزی ناول کا ،جسے میرزا حامد بیگ نے اندازا اکتیس برس کی محنت شاقہ کی نذر کیا۔
زمانہ تحریر جب اس قدر طوالت اختیار کر جائے ،تو تاریخ کی وہ گھتیاں جسے کسی عبارت کا جزِوالینفک بننا ہے،
کُھلنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ لگ بھگ ایک ہزار سے زاید صفحات پر لکھی گئی خونچکاں داستان جب خود احتسابی
کی نذر ہوئی‘ تو رصف ڈھائی سو صفحات پر مواد کا نچوڑ رہ گیا ،جس میں زوائد کا ڈھونڈنا کاِر دارد ہے۔
فکشن انسانی نفسیات میں ایسے جوہر کی مانند ہمیشہ اپنے انگ انگ میں کوندتی ہوئی بجلیاں چھپائے رکھتی ہے،
جسے کوئی بھی ذہین ادیب اپنی انگلیوں کی پوروں سے چھیڑ کر ایسے سچ کو برآمد کر لیتا ہے ،جو بعد ازاں عاملی سچ
کا روپ دھار لیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی میرزا حامد بیگ کے ناول ’’ انار کلی ‘‘ میں ہوا ہے۔ تاریخ کے جن پہلوؤں پر
صدیوں کی تاریکی نے گھنے سائے کر رکھے تھے ،دربار اکرب کا وقائع نویس ابوالفضل ہو یا بعد ازاں درباری مورخین ،ان
کے قلم مصلحت کی نیو پر خاموش رہے ،تب وقت کی خاک نے بھی ایک دبیز چادر تن دی ،لیکن حامد بیگ کے قلم
کی نوک نے صدیوں بعد فکشن کے کارن ایسی راگنی چھیڑی ہے ،جس سے سچائی کے مسحور کن رس اہل علم و فن ،
فکر و دانش اور مورخین کو ایک بار پھر نئے آہنگ سے آ شنا کر رہے ہیں۔
سچائی کیا ہے؟ وہ جو مہابلی کے دربار میں عدل کے نام سے گونجتی تھی ،یا وہ جو انار کلی کی مہک کو دربار میں
پھیلنے سے نہ روک سکی ،اور جس کا شکار شیخو اور خود انارکلی ہوئی۔
سچائی کیا ہے؟ وہ تاریخ جو ابولفضل نے’ آئین اکربی‘ اور ’ اکرب نامہ‘ میں سپرِد ابیض کی یا برطانوی تاجر ولیم فنچ یا
طامس ہربرٹ نے رقم کی۔ یہ تو آپ ناول پڑھ کر ہی جان پائیں گے ،لیکن اس سے پہلے کہ میں ناول کے مندرجات کو
منت کی روشنی میں تجزیاتی طور پر سامنے الؤں ،مجھے دو اہم پہلوؤں پر گفتگو کرنی ہے۔ پہال نکتہ وہ مثبت عمومی
تاثر کا ہے جو اس دور کے وقائع نویسوں اور مورخین نے رقم کیا ،اور مغلیہ دور کے بیشرت شہنشاہوں کے ان رویوں پر
جو انسانی حقوق پر دال کرنے کا دعوٰی کرتے ہیں ،کو معروف معنوں میں انسان دوست قرار دیا۔ اور دورسی سطح وہ
ہے جو شاہی ثقافتی رویوں کی ہے ،جس میں سلطنت مغلیہ کے وسطی ادوار بشمول اکرب اور جہانگیر بھی شامل ہیں۔
۱۵۸۴ء سے لے کر .۱۵۹۹ء تک کا عہد اکربی الہور میں مدفون ہے۔ اس پر مصنف کی محققانہ طرز نگارش نے تفصیًال
روشنی ڈالی ہے۔ اس سے ُبعد نہیں کہ ان پندرہ سولہ برسوں میں قلعہ الہور کا آسامن کئی ایک منفی اور مثبت روایات
کا چشم دید گواہ ہے۔ جس نے دین الہی کی ایک روحانی انجمن کو بنتے دیکھا ،مغلوں کا مذہبی جربیت سے انکار،
مذہبی کٹر پن کو گھٹا کر اسالم اور ہندو مت میں براِہ راست تصادم نہ ہونے دینا ،ہندوؤں کے اکرث فرقوں کا اسالمی
رسم و رواج کو اپنانا ،دورسی طرف ہندوؤں کی بعض رسموں کو مسلامنوں کا اپنانا ،جیسے بسنت ،مائیوں اور مہندی
کی رسومات اور پیلے پہناوے۔ جہانگیری دور میں گرجاؤں اور گورستان بنانے اور عیسائی مشرنیوں کو آزادانہ تبلیغ کی
اجازت جیسے بیسیوں اقدامات ہیں ،جنہیں دربار اکربی اور جہانگیری کی تائید اورحامیت حاصل رہی۔
تاہم ناول ’ انار کلی‘ میں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں دیدہ دانستہ فراموش کردہ حقائق کے کھوجنے کو مصنف
نے اہم سمجھا ،وہیں انسانی حقوق کی پامالی کو بھی زیر بحث الیا گیا۔ انار کلی کے واقعہ پر بحیثیت حقیقت نگار
مصنف نے یہ بات شکوہ گزاری کے طور پر بیان کی ہے کہ ’’ تین سو اکانوے برس گذر گئے ،نہ مدعیہ کو انصاف فراہم
کیا جا سکتا ہے اور نہ مدعا علیہ کو عدالت کے کٹہرے میں پیش کیا جا سکتا ہے ،ہاں اگرہم اپنے موضوع سے انصا ف
کر پائے تو یوں سمجھیے فرِد جرم عائد ہو گئی( ‘‘ ،صفحہ )۵۳
آگے چل کر مصنف لکھتے ہیں ’’ افسوس کہ عہد اکربی کے وقائع نویس ِاس ضمن میں خاموش ہیں اور عہد موجود کے
تاریخ دانوں اور تجزیہ کاروں نے مقربِہ انار کلی اور انار کلی بازار جیسے واضح نشانیوں کو جھٹالتے ہوئے انتہائی غیر
ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے ،آج ۸اکتوبر .۱۹۹۰ء کو ہم لگ بھگ چار سوسال پرانی ایک مبہم سی تصویر پر پڑی ہوئی گرد
جھاڑنے کی خاطر جمع ہوئے ہیں۔ ایک دھندلی سی تصویر ،جسے ہامرے اجتامعی حافظے اور شہر الہور کی سینہ در
سینہ روایات نے ہم تک پہنچایا۔‘‘ (صفحہ )۵۳
یہ بھی کہا گیا کہ اکرب اعظم کے معارص تاریخ نگاروں نے جان بوجھ کر اس لرزا دینے والے واقعہ کو قلمبند کرنے سے
گریز کیا ،کیونکہ انار کلی کو .۱۵۹۹ء میں زندہ دفن کر دینے کے بعد .۱۶۰۵ء سے .۱۶۱۵ء کے درمیانی عرصہ میں
جہانگیر کے حکم سے انار کلی کا مقربہ تعمیر ہوا ،جو اس دور کی الہور کی شاہی عامرات میں ایک شاندار اضافہ تھا۔
عاملی ادب میں ایک قدیم اور گہری روایت ہے ،جسے فرانسیسی میں ’ مائز این ابیمی ‘ کہا جاتا ہے جس میں کہانی کے
اندر ایک اور کہانی ُبنی جاتی ہے جو بڑی کہانی کے تناظر میں اس چھوٹی کہانی کے مراحل طے کرتی ہے ۔جیسے
قدیم یونانی شاعر ہومر اپنی نظم ’اوڈیسی ‘ میں اس تکنیک کو پہلی بار استعامل میں الیا۔ درحقیقت کہانی اندر کہانی
کی بنت کے ذریعے اس سچ کو اگلوانا از حد رضوری ہو جاتا ہے جو مصنف اپنے تئیں پورے ناول میں مرکزی خیال کے
تحت التا ہے۔ ناول ’ انار کلی ‘ میں یہی تکنیک استعامل کی گئی ہے ،جسے مصنف بڑی ہرن مندی سے عکسی حقیقت
کے پیرائے میں ’ انارکلی‘ جیسے تاریخی موضوع کی سچائی کو سامنے التا ہے۔
ناول ’ انارکلی‘ میں مصنف کا مقصد اوال یہی ہے ،کہ وہ یہ ثابت کرے ،کہ انار کلی کا کردار کوئی امجیری ،کوئی الوژن
،کوئی واہمہ نہیں بلکہ انارکلی ایک حقیقت تھی اور ہے ،جو مہابلی کے قہر کا نشانہ بنی۔ عین اسی تیکنیک کے
تحت شکسپئیر اپنے ڈرامے ’ ہیلمٹ ‘ میں سچ اگلوانے کے لیے کردار اوفیلیا کو استعامل کیا۔ ناول ’ انار کلی ‘ میں اردو
ادب کے مخصوص لسانی و تہذیبی پس منظر میں یہ تکنیک استعامل کی گئی ہے ،جسے مصنف بڑی ہرن مندی سے ’
انارکلی‘ جیسے تاریخی موضوع کی عکسی سچائی کو سامنے النے کے لیے بروئے کار التا ہے۔
یہاں کہانی کی ابتدا ہی میں ایک وسط ایشیائی تیموری خون رگوں میں دوڑاتا شہر یار مرزا مرکزی متثیلی کردار کے
روپ میں سامنے آتا ہے۔ یہ مغلئی آنکھوں واال ،دراز قد نوجوان طالب علم جو پی ایچ ڈی کے مقالے کی ریرسچ کرتے
ہوئے کہانی کے اندر ُاس وقت داخل ہوتا ہے ،جب مری سے ذرا آگے خانسپور کے مقام پر سپانرسڈ فلمی یونٹ مبع اپنے
متام رضوری فلمی یونٹ کے ہمراہ ’ انار کلی‘ فلم بنانے کے ابتدائی مراحل سے گذر رہا ہوتا ہے ۔ فلمی یونٹ کے سیٹ
ڈیزائرن مسعود احمد ( نک نیم ہد ہد ) شہر یار مرزا کے دیرینہ دوست ہیں اور یوں مغلئی آنکھوں واال کردار وہیں فلمی
یونٹ کی انچارچ پروڈیورس میڈم ڈاکٹر رسجیت کور کی بیٹی شازیہ سے ملتا ہے ،جسے وہ اپنے تخیل میں انار کی کلی
پکار اٹھتا ہے۔
کہانی کی ابتدا میں دو حریف کردارمغلئی آنکھوں واال شہر یار مرزا اور ٹیلی ویژن اداکار سنی جو ہمہ وقت اپنے آپ
کو ہیرو ہی سمجھتا ہے کو ِاس عمدگی سے آمنے سامنے الیا گیا ہے کہ وہ ناول کی سطروں سے ہی مالحظہ ہو سکتی
ہیں ۔ بیڈ منٹن کے کورٹ میں جب سنی دھان پان سی لڑکیوں انار کی کلی (شازی) اور صفیہ کو ہرا دینے کے بعد
تفاخرانہ انداز سے آس پاس دیکھتا ہے ،اور کُھال چیلنج دیتا ہے تو شہر یار مرزا آگے بڑھتا ہے اور یوں ایک نیا کھیل
رشوع ہوتا ہے۔
’’جب شہر یار میرزا نے میچ پوائنٹ لو کہتے ہوئے ریکٹ کو جھٹکا دیکر شٹل کاک دھیرے سے نیٹ کے ساتھ پش کی
تو سنی بجائے آگے آنے کے ہانپ کر پیچھے ہٹا اور شٹل ،اس کے عین سامنے جا گری۔ سنی بغیر کوئی پوائنٹ بنائے
ایک سیٹ ہار چکا تھا۔ یہ دیکھ کر کورٹ کے اطراف میں ہاہاکار مچ گئی اور جب شہریار مرزا نے سنی سے پوچھا کہ
’بیسٹ آف تھری‘ کھیلو گے تو وہ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ ریکٹ پھینک کر کورٹ سے باہر چال گیا۔ ایسے میں راجہ
رسالو کے اشارے پر کچھ منچلے اسے دوبارہ کورٹ میں لے آئے۔ وہ شہر یار مرزا کے ہاتھوں مزید خوار کرنے کی
کوشش میں تھے کہ ڈاکٹر نذیر برالس کی بروقت مداخلت نے سَنی کو بچا لیا۔ وہ یہ میچ کیا ہارا ،ہیرو سے زیرو ہو
گیا۔‘‘ (صفحہ )۶۶
درحقیقت دو کرداروں کے درمیان یہ معمولی سا کھیل اور چیلنج پوری کہانی کے اس بڑے سچ کو تقویت دیتا ہے
جہاں مہا بلی اور شیخو انار کلی کے معاملے میں ایک دورسے کے مِد مقابل آ جاتے ہیں ۔
ناول کا ایک باب یہ واقع یوں پیش کرتا ہے ،کہ ایک روز شام کے وقت پہرے داروں کی غفلت کی وجہ سے ایک شخص
پاگل کا سوانگ رچائے حرم رسا کے اس حصے سے پکڑ لیا گیا ،جو رصف شہنشاہ کے لیے مختص تھا ،شور مچنے پر ظل
الہی باہر نکل آئے ،گو شہزادہ دانیال نے اس پاگل کو پکڑ رکھا تھا لیکن اسے پاگل سمجھ کر چھوڑ دیا گیا۔
’’سال .۱۵۹۴ء نومرب کا مہینہ ،موسم رسما۔ شام کو اندھیرا جلد چھا جاتا ہے۔ وہ پاگل شخص کون تھا؟ کوئی اور نہیں
یقینًا شہزادہ سلیم جو انار کلی سے ملنے ایک پاگل کا بہروپ بھر کر آیا تھا اور حرِم شاہی کی نگران پہرہ دار خواتین نے
چشم پوشی اختیار کر رکھی تھی ،لیکن دیواِن عام کے قریب کھڑے شہزادہ دانیال کی اس پر نظر پڑ گئی۔ ‘‘ ( صفحہ
منرب )۱۰۹
’’ ابو الفضل کے مطابق تو اکرب نے اس پاگل شخص کو معافی مانگنے پر جانے دیا ،لیکن رس ٹامس ہر برٹ نے اپنے سفر
نامہ میں لکھا ہے ،کہ جہانگیر کے معافی مانگنے پر معاف کر دینے کا وعدہ کر کے بادشاہ اسے حرم رسا میں لے آیا۔
حرم رسا میں آتے ہی پھر طیش میں آ گیا کہ بیٹے کو ایسے مکے مارے کہ وہ گر پڑا۔ ’ اکرب چنگھاڑا :ابے او احمق اور
گدھے تو نے کس طرح میرے وعدے پر یقین کر لیا؟ ‘‘ (صفحہ منرب)۱۰۹
یہ بات پہلے بھی منظر پر آ چکی تھی کہ اکرب کو زہر دینے کی کوشش کی گئی تھی ،لیکن شاہی اطباء کے بروقت عالج
کی وجہ سے جانرب ہو گیا تھا۔
’’لگتا ہے کہ اکرب کو پھر ایک بار شہزادہ سلیم کے اشارے پر اناد کلی کے ہاتھوں زہر دئیے جانے کا خطرہ محسوس ہوا۔
اس بد گامنی کی فضا میں چند ماہ بعد .۱۵۹۸ء میں اکرب نے شہزادہ سلیم کو حکم دیا کہ وہ ماورا النہر کی طرف ایک
فوجی مہم کی قیادت کرے ،لیکن سلیم نے کسی خدشے کے پیش نظر اس درو دراز مہم پر جانے سے انکار کر دیا۔ اس
سے باپ بیٹے کے درمیان تلخی بڑھی۔ تب یقینًا شاہی حرم رسا میں انار کلی کی حرکات و سکنات پر بہت سی نظریں
گڑی ہو ں گی۔ ‘‘ ( صفحہ منرب )۱۱۱
یہ ناول کے حوادث کی تنظیمی خوبی ہے ،کہ یہ تاریخی املیہ کسی فرد سے کہیں زیادہ اس سے وارد ہونے والے اعامل
اور زندگی کا عکس پیش کرتا ہے۔ جوں جوں مہابلی ،شیخو اور انارکلی کے تاریخی متثیلی واقعات آگے بڑھتے ہیں،
اسی طرح ناول کی کہانی میں شہر یار مرزا ،انار کی کلی ( شازی) اور سنی کے واقعات وقت کی ڈور پر اسی طرح
سیریز آف ایونٹس کی مامثلت میں آگے بڑھتے ہیں۔
’’سنی کو میں نے دل سے چاہا تھا ،پر وہ دھوکے باز نکال ،اب تم درمیان میں آن کھڑے ہوئے۔ میں بٹ گئی۔ تم ہی
بتاؤ میں کیا کروں؟‘‘ ’’ میں ہٹ جاتا ہوں درمیان سے ،یوں بھی کل خانسپورمیں ہامرا آخری دن ہے ،شام کو چل پڑیں
گے ،یہاں سے مری کی طرف۔ مجھے وہاں اتار کر متہاری بس آگے نکل جائے گی۔ پیچھے رہ جاؤں گا میں اور ہوٹل
برائیٹ کے برآمدے میں دھری بید کی خالی کرسیاں۔‘‘
’’ کون کہہ رہا ہے متہیں پیچھے ہٹ جانے کے لیے۔۔۔ الہور سے کوہ مری تک کے سفر میں مجھ سے مدیحہ نے سَنی
کو چھینا ،تم نے سَنی سے مجھے چھین لیا۔ اگر دل لگی کرنی ہے تو بے شک پیچھے ہٹ جاؤ۔ میں راجپوت ہوں مدیحہ
سے کبھی ہار نہیں ماننے کی۔۔۔۔ ’’ کیا تم رات ایک بجے گرجا گھر کے ساتھ والی راہداری پر مجھ سے ملنے آ سکتے
ہو۔ میں ماما کو ان کے کمرے تک پہنچا کر نکل آؤں گی۔۔۔ ‘‘ (صفحہ منرب )۱۷۴
انار کی کلی (شازی) اور شہر یار مرزا کی خانسپور میں ہونے والی یہ گفتگو کہانی کو ایک نیا موڑ دیتی ہے۔ جب رات
ڈھلتے ہوئے گرجے کے بائیں جانب راہداری پر سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا شہر یار مرزا انتظار کی گھڑیاں گزار رہا تھاکہ
دو سایوں نے اسے چونکا دیا ،ریسٹ ہاؤس سے کوئی نکل کر گرجے کی جانب مڑ گیا۔ مرزا یہی سوچ رہا تھا کہ سایہ
اس کی طرف آنے کی بجائے دورسی طرف کیوں مڑ گیا ہے تب ایک بوجھل سایہ ریسٹ ہاؤس کی طرف قدم بڑھا رہا
تھا ،جسے چھٹکی ہوئی چاندنی میں پہچان لینا مشکل نہ تھا۔ یہ انار کی کلی تھی ،اس کے ہاتھ میں چاندی کا کڑا
چمک رہا تھا۔۔۔۔ تو پہال سایہ کون تھا ؟ سَنی تھا یقینًا۔ انار کی کلی نے ایسا کیوں کیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سب
کچھ میں دیکھ لوں گا۔ اگر وہ مجھے یہاں نہ بالتی تو کیا میں یہ منظر دیکھ سکتا۔ شہریار چکرا کر رہ گیا ،کیونکہ
اس کا احساس فتح مندی ہزیمت میں ڈھل چکا تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچا تو جب صبح کے آثار جاگ رہے تھے،
اس کی ٹانگیں شل تھیں ،شہریار چپ چاپ کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ ہے۔
’’تب شازیہ اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ ’’ بولو۔۔۔ کیا میں متہارے لیے اب بھی ۔۔۔ ؟‘‘ مغلئی آنکھوں واال چپ
کھڑا اسے تکتا رہا۔ پھر یکلخت تیزی سے پلٹا اور بوال ’’ بہت دیر ہوگئی۔‘‘
یہ کہہ کر وہ ملبے ملبے ڈگ بھرتا ریسٹ ہاوس سے نکل گیا۔‘‘ ( صفحہ )۱۹۶
ناول میں دستاویزی واقعات کی روشنی میں مصنف اپنے دعوٰی میں کوئی معانی پیدا کر سکا ہے یا نہیں؟ یہ ناول کا
قاری یا کوئی تاریخ دان ہی طے کرے گا کہ اس دستاویزی سچائی میں حقیقت کا عکس کس قدر منایاں رہا ہے۔ راقم کا
منصب نہیں کہ وہ اس پر حدود جاری کرے۔ تاہم یہ کہنا کافی ہوگا کہ ناول کا منت حقیقتًا اپنے جوہر میں واقعات کی
ُاس متثیلی عکس کو بیان کرتا ہے ،جسے افالطون نے عکسی حقیقت قرار دیا ہے۔ گو وہ اپنے فلسفیانہ نظریات کے
جوہر کو حامِل وجود اور برصی الفاظ کو ثانوی حقیقت کہتا ہے ،لیکن یہاں مصنف نے اسی فلسفے اور ادب کے استاد
اول ارسطو کے تخلیقی رحجانات کی بنیاد پر اس پورے تاریخی واقعہ کی مربوط اور حوالہ جاتی عکسی حقیقت کو
بیان کر دیا ہے۔ مصنف نے اس املیہ کو بیان کرتے ہوئے اس واقعہ کی غنائیت ،تاثر آفرینی ،طریق کار اور حدود کا
مکمل ادراک کیا ہے۔ جس عمل کا عکس پیش کیا گیا وہ سنجیدہ ،مکمل اور خاص حجم کا حامل ہے۔ اس کی کرافٹ
میں فکشن اور حقیقت کا الزوال امتزاج رقم کرنے کی شاندار مثال قائم کی گئی ہے۔ راقم کی نظر میں اس ناول کی
تاریخی حیثیت کے عالوہ بھی اور کئی سامان موجود ہیں جس سے ناول کی زبان ،ہیئت ،تلفیظ (ڈکشن) ،املیہ کے عمل
اور تاریخی میالن ،جذباتی توازن و اعتدال ،تکمیل اور قطعیت شامل ہیں۔
’ انار کلی‘ جیسے تاریخی املیہ کی داستان کو بیان کرتے ہوئے ناول کے انت میں مصنف نے کامل مہارت سے ایک ایسی
سچائی کو حقیقت کے آہنگ میں فکشنالئز کیا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے ۔
’’ساری تفصیل سن لی نا آپ نے۔۔۔ وہ کوئی اور نہیں۔۔۔ میں ہوں نادرہ۔ شہنشاہ جالل الدین محمد اکرب کی ایک
لونڈی ،جو انار کلی کہالئی۔ یہ نام سن رکھا ہے نا آپ سب نے۔۔۔ کتنے سال ہوگئے ہیں کہ میں چیخ چیخ کر بتا رہی
ہوں کہ ،I am the sufferer of male chauvinismایک سو چھبیس سال ہوگئے ہیں ،مجھے میری قرب سے بے دخل کر
دیا گیا ہے ،اللہ کا گھر آباد کرنے ے نام پر ،گوری چمڑی والوں نے پورے چالیس سال میرے مقربے کو کھیتڈرل چرچ
بنائے رکھا۔ اب تو گوری چمڑی والے حاکم نہیں رہے۔۔۔ چار سو اٹھارہ سال پرانے میرے بوسیدہ ڈھانچے کو نکالو اور
میڈیکو لیگل کروا لو۔ کر لو تسلی ،ثابت ہو جائے گا کہ میری ناک اور کان کاٹے گئے۔۔۔ میری موت دم گھٹنے سے
ہوئی۔۔۔‘‘
’’چلو ،بی بی چلیں ،پولیس وین سے نیچے اترتی ہوئی لیڈی پولیس آفیرس کی آواز سنائی دی۔ عین اسی ملحے زرد رنگ
کا ایک بڑا چھکڑا آن پہنچا ،جس سے اتر کر ٹی ایم او آفس کی زرد وردی والے چاک و چوبند اہلکاروں نے آنًا فانًا وہ
چھوٹا سا سائبان کھول دیا اور اس کے سایہ میں سجایا گیا مخترص سا سٹیج ڈھا کر سارا سامان چھکڑے میں بھرا اور یہ
جا ،وہ جا۔
’’ متہاری عربی لغت میں امراۃ کے یہی معنٰی درج ہیں نا ۔۔۔ نامکمل ،داغ ،دھبا ۔۔
شازی چیخی۔
وین چل پڑی تو مجمع چھٹتا گیا ،ٹریفک رواں ہو گئی لوگوں نے ایک ایک کر کے اپنی راہ لی اور شہر یار مرزا بہت دیر
ہکے بکے وہیں کھڑے رہے۔ وہ کچھ بھی تو نہ کر سکے۔‘‘ (صفحہ )۲۴۴