You are on page 1of 15

‫فردوس بریں کا مطالعہ‬

‫فردوس بریں کا خالصہ‬

‫فردوس بریں‬

‫موالنا عبد الحلیم شرر [[‪Tel:18601926%7( ]1‬‬


‫)‪ )] C(1860-1926‬اردو کے مایہ ناز ادیب ‪ ،‬صف اول‬
‫کے انشاپرداز ‪ ،‬عظیم ناول نگار اور تاریخی ناول کے‬
‫بنیاد گزار ہیں ‪ ،‬موالنا نے اپنی پینسٹھ سالہ زندگی‬
‫میں چھوٹی بڑی ایک سو دو کتابیں لکھیں ‪ ،‬لیکن جو‬
‫شہرت و مقبولیت "فردوس بریں " کو ملی وہ کسی‬
‫کتاب کو نصیب نہ ہوسکی ۔‬
‫"فردوس بریں "ایک تاریخی ناول ہے ‪ ،‬اس میں فرقۂ‬
‫باطنیہ کی تاریخ زوال بیان کی گئی ہے ‪ ،‬فرقۂ باطنیہ‬
‫اسالمی عقائد ونظریات کا سخت دشمن ہے ‪ ،‬اس کی‬
‫داغ بیل مامون الرشید کے زمانے میں میمون بن‬
‫القداح ‪ ،‬حمدان بن قرمط اور عبداللہ بن میمون کے‬
‫ہاتھوں پڑی ‪ ،‬پانچویں صدی ہجری میں حسن بن‬
‫صباح باطنیہ کا پرجوش داعی وعلم بردار تھا ‪،‬‬
‫فردوس بریں کا تاریخی زمانہ ساتویں صدی ہجری کا‬
‫نصف ثانی ہے ۔‬

‫فرقۂ باطنیہ کے لوگ مختلف تدبیروں سے سیدھے‬


‫سادھے مسلمانوں کا اغوا کرتے اور برین واش کرکے‬
‫باطنی عقائد ونظریات کے معتقد بناتے ‪ ،‬ان کے ترکش‬
‫کا سب سے کارگر تیر "فردوس بریں "تھا ‪ ،‬اس ناول‬
‫میں اسی "فردوس بریں "کے راز سربستہ سے پردہ‬
‫اٹھایا گیا ہے ۔‬
‫ناول کی ابتدا حسین اور زمرد سے ہوتی ہے ‪ ،‬جو‬
‫شہر آمل کے رہنے والے ہیں ‪ ،‬اور حج کے ارادے سے‬
‫گھر سے نکلے ہیں ‪ ،‬آٹھ دن کی مسافت طے کرنے کے‬
‫بعد شام کے وقت نہر ورنجان پر پہنچتے ہیں‪ ،‬یہاں‬
‫پہنچ کر زمرد قزوین کی راہ چھوڑ کر نہر کی اس‬
‫طرف کا رخ کرتی ہے جدھر پریوں کا نشیمن ہے ‪،‬‬
‫حسین بار بار زمرد کو اس ارادہ سے روکتا ہے لیکن وہ‬
‫نہیں مانتی اور اصرار کرتی ہےکہ وہ اپنے بھائی‬
‫موسی کی قبر پر فاتحہ خوانی کیے بغیر حج کو نہیں‬
‫جا سکتی ‪ ،‬آخر کار حسین اپنی مہ جبیں ودلربا‬
‫محبوبہ زمرد کے اصرار پر سپر ڈال دیتا ہے ‪،‬‬

‫کچھ دور چلنے کے بعد وہ دونوں اس وادی میں‬


‫پہنچ جاتے ہیں جہاں موسی کی قبر ہے ‪ ،،‬موسی کے‬
‫لیے دعاۓ مغفرت کرتے ہیں ‪ ،‬پھر سستانے کے لیے‬
‫بیٹھتے ہیں ‪ ،‬اتنے میں ہی پریوں کا غول آتا ہے اور ان‬
‫دونوں پر حملہ کردیتا ہے ‪ ،‬اس حملہ کی تاب نہ کر بے‬
‫ہوش ہو جاتے ہیں ‪ ،‬صبح جب حسین کو ہوش آتا ہے ‪،‬‬
‫وہ موسی کی قبر کے بغل زمرد کا نام بھی کندہ پاتا‬
‫ہے ‪ ،‬مارے غم کے حسین پھر بے ہوش ہوجاتا ہے ‪،‬‬
‫ہوش آنے کے بعد وہ دل میں ٹھان لیتا ہے کہ وہ بھی‬
‫اسی وادی میں زمرد کی قبر کے پاس تڑپ تڑپ جان‬
‫دے دے گا لیکن یہاں ٹلے گا نہیں ‪ ،‬وہ زمرد کی قبر‬
‫کا مجاور ہوکر وہیں بیٹھ رہتا ہے ‪ ،‬چھ ماہ بعد "مأل‬
‫اعلی "سے زمرد کا خط آتا ہے ‪ ،‬خط میں زمرد حسین‬
‫کو وطن لوٹ جانے کو کہتی ہے ‪ ،‬لیکن حسین وفور‬
‫جذبات میں اس خط کی پرواہ نہیں کرتا ‪ ،‬کچھ دنوں‬
‫کے بعد دوسرا خط آتا ہے ‪ ،‬جس میں زمرد حسین کو‬
‫اپنے تک رسائی کی ترکیب بتاتی ہے ۔‬

‫حسین زمرد کی ہدایات کے مطابق اس وادی سے‬


‫نکل کر کوہ جودی کی مغربی گھاٹی میں چلہ‬
‫کھینچتا ہے ‪ ،‬یہاں چلہ کشی کے بعد دمشق کی راہ‬
‫لیتا ہے ‪ ،‬وہاں حضرت یعقوب وحضرت یوسف‬
‫علیہما السالم کے مزار (حضرت یعقوب اور حضرت‬
‫یوسف علیہما السالم کے مزار کا دمشق میں ہونا‬
‫تاریخی اعتبار سے ثابت نہیں ) کے تہ خانہ میں نفس‬
‫کی اصالح میں مشغول ہوتا ہے ‪ ،‬تہ خانہ سے باہر‬
‫نکلتے حسین مجاوروں کے ہاتھوں گرفتار ہوجاتا ہے ‪،‬‬
‫ان دنوں حاکم شہر کے قتل اور باطنی فدائیوں کے‬
‫حملوں سے شہر میں بھگڈر مچ جاتی ہے ‪ ،‬اس کا‬
‫فائدہ اٹھا کر حسین شہر حلب بھاگ نکلتا ہے ۔‬

‫حلب پہنچ کر زمرد کی ہدایت کے مطابق شیخ‬


‫علی وجودی سے مالقات کرتاہے ‪ ،‬شیخ وجودی حسین‬
‫کو اپنے حلقۂ ارادت میں داخل کرلیتا ہے ‪ ،‬اور سال‬
‫بھر اپنی خانقاہ میں رکھتا ہے‪ ،‬اس مدت میں شیخ‬
‫وجودی حسین کی اچھی طرح برین واش کرکے‬
‫باطنی افکار وخیاالت اس کے دماغ میں بھر دیتا ہے‬
‫‪ ،‬جب شیخ کو کامل یقین ہوجاتا ہے کہ حسین فدائی‬
‫بن چکا ہے ‪ ،‬تب اسے فدائی خنجر دے کر امام نجم‬
‫الدین نیشاپوری کے قتل پر مامور کرتا ہے ۔‬

‫امام نجم الدین نیشاپوری کے قتل کے بعد حسین‬


‫کا قد باطنیوں میں بڑھ جاتا ہے ‪ ،‬اب اس " کار عظیم "‬
‫کے بدلہ حسین کو "فردوس بریں " کی سیر کرائی‬
‫جاتی ہے ‪ ،‬فردوس بریں میں وہ اپنی مینو نشیں‪ ،‬مہ‬
‫جبیں ‪ ،‬نازنیں اور وفاکیش محبوبہ کی دید و مالقات‬
‫سے محظوظ ہوتا ہے ‪ ،‬یہاں رومان پرور ماحول میں‬
‫خوب عشق ومحبت کی باتیں ہوتی ہیں ‪ ،‬طرب انگیز‬
‫مناظر سے لطف اندوزی ہوتی ہے ‪ ،‬لیکن یہ مدت بہت‬
‫مختصر ہوتی ہے ‪ ،‬کچھ ہی دنوں حسین کو پھر سے‬
‫عالم عناصر میں لوٹا دیا جاتاہے ۔‬
‫عالم عناصر میں آنے کے بعد حسین کو زمرد کا‬
‫فراق برداشت نہیں ہوتا ‪ ،‬وہ اپنے شیخ وجودی سے‬
‫زمرد سے دوبارہ ملنے کی درخواست کرتا ہے ‪ ،‬شیخ‬
‫اپنا سفارشی خط دے کر حسین کو قلعہ التمونت کے‬
‫امام قائم قیامت کے پاس بھیج دیتا ہے ‪ ،‬حسین قلعہ‬
‫پہنچ کر شیخ وجودی کا خط دکھا کر امام قائم‬
‫قیامت رکن الدین خورشاہ کے دربار میں باریاب ہوتا‬
‫ہے ‪ ،‬خورشاہ سے اپنا مدعا عرض کرتا ہے ‪ ،‬خورشاہ‬
‫کہتا ہے کہ دوبارہ مالقات کے لیے اور ریاضت درکار‬
‫ہے ‪ ،‬حسین کہتا ہے اس نے امام نجم جیسی شخصیت‬
‫کو قتل کیا ‪ ،‬اس لیے دوبارہ مالقات کی اجازت دی‬
‫جائے ‪ ،‬اس رد و کد میں امام قائم قیامت کو غصہ‬
‫آجاتا ہے اور حسین کو قلعہ سے باہر نکلوا دیتا ہے ۔‬

‫راندۂ درگاہ ہونے کے بعد حسین سخت مایوس‬


‫ہوا اور اسی مایوسی کے عالم میں زمرد کی قبر کا‬
‫رخ کیا ہے اور اسی وادی میں پہنچ گیا جہاں سے چال‬
‫تھا ‪ ،‬پھر یہاں حسین کو زمرد کے دو خط ملے ‪ ،‬ایک‬
‫اس کے نام کا ‪ ،‬دوسرے بلقان خاتون کے نام کا ‪ ،‬وہ‬
‫خط لے کر بلقان کے پاس گیا اور تنہائی میں زمرد کا‬
‫خط اس کے حوالے کیا ‪ ،‬خط میں بلقان کے باپ کے‬
‫قاتل "دیدار " تک پہنچنے کے تدبیر درج تھی ‪ ،‬اگلے ہی‬
‫دن بلقان اپنے چچا زاد بھائی سے اجازت لے کر ایک‬
‫بڑی فوج کے ساتھ زمرد کے بتائے ہوئے راستے پر چل‬
‫پڑی ‪ ،‬تین دن کی مسافت کے بعد ایک ایسی جگہ پر‬
‫پہنچی ‪ ،‬جہاں جنگل تھا ‪ ،‬زمرد کی ہدایت کے مطابق‬
‫بلقان اپنے ساتھ حسین اور پانچ تاتاری جانباز کو‬
‫ساتھ لیا اور باقی فوج کو یہیں رکنے کا حکم دیا ‪،‬‬
‫بلقان اور اس کے ساتھی جنگل میں داخل ہوئے اور‬
‫جھاڑیوں میں الجھتے ہوۓ "فردوس بریں " کے‬
‫دروازے پر پہنچ گیے ‪ ،‬بلقان تین جانبازوں کو‬
‫دروازے پر چھوڑ اور حسین اور ایک جانباز کو ساتھ‬
‫لیے "فردوس بریں "میں داخل ہوئی ‪ ،‬زمرد نے ان کا‬
‫استقبال کیا ‪ ،‬اور فردوس بریں کے سارے رازوں سے‬
‫پردہ اٹھا دیا ‪ ،‬اگلی صبح ہالکو خان بھی اپنی پوری‬
‫فوج کے ساتھ بلقان کی مددکو آگیا ‪ ،‬پالن کے مطابق‬
‫تاتاری فوج پہلے سے ہی قلعہ التمونت کا محاصرہ‬
‫کیے ہوئی تھی ‪ ،‬زمرد ‪ ،‬بلقان ‪ ،‬حسین اور ہالکو خان‬
‫سنہرے پل کے راستے سے خاموشی سے قلعہ‬
‫التمونت میں داخل ہوئے ‪ ،‬ان کے داخل ہوتے ہی حملہ‬
‫کا بگل بجادیا گیا ‪ ،‬اب کیا تھا ہر طرف انسانی‬
‫الشیں تڑپ رہی تھیں ‪ ،‬چن چن کر باطنی مارے گیے ‪،‬‬
‫طور معنی اور شیخ علی وجودی کو حسین نے اسی‬
‫فدائی خنجر سے مارا جو شیخ وجودی نے اسے دیا‬
‫تھا ‪ ،‬اس طرح باطنیوں کا قصہ تمام ہوا ۔‬

‫باطنیوں کے خاتمے کے بعد بلقان خاتون نے‬


‫حسین اور زمرد کی شادی کرا دی ‪ ،‬شادی کے بعد وہ‬
‫دونوں حج کے مقدس سفر پر نکل گیے جس کے لیے‬
‫وہ اپنے شہر آمل سے چلے تھے ۔‬

‫ناول کے مرکزی کردار حسین ‪ ،‬زمرد ‪ ،‬بلقان خاتون‬


‫اور شیخ علی وجودی ہیں ۔‬

‫حسین ‪:‬‬

‫حسین گرچہ ناول کا ہیرو ہے‪ ،‬لیکن نہایت درجہ‬


‫بزل دل ‪ ،‬ڈر پوک ‪ ،‬کم ہمت اور سادہ لوح ہے ‪ ،‬اس کے‬
‫پاس بے پناہ محبت کرنے واال دل ہے ‪ ،‬لیکن پاسبان‬
‫عقل نہیں ‪ ،‬زمرد کی محبت میں اس قدر اندھا ہوجاتا‬
‫ہے کہ اچھے برے کی اسے کوئی تمیز نہیں رہتی ‪ ،‬وہ‬
‫شیخ وجودی کے ہر حکم کی اطاعت بال چوں چرا‬
‫روبوٹ کی طرح کرتا ہے ‪ ،‬شیخ وجودی امام نجم‬
‫الدین نیشاپوری کے قتل کا حکم دیتا ہے وہ اس حکم‬
‫کو بجاالتا ہے ‪ ،‬پورے ناول میں حسین کا کردار بودا‬
‫اور عقل وشعور سے عاری ہے ۔‬

‫زمرد ‪:‬‬

‫حسین کے برخالف زمرد کا کردار نہایت طاقتور ہے‬


‫‪ ،‬وہ ایک باہمت اور نے ڈر خاتون ہے ‪ ،‬عزم و حوصلہ کا‬
‫پہاڑ ہے ‪ ،‬وہ ہر موقع پر دانشمندی وعقلمندی کا ثبوت‬
‫پیش کرتی ہے ‪ ،‬اسی کی کوشش وتدبیر سے "فردوس‬
‫بریں" کے راز پردہ اٹھا ‪ ،‬وہ حسین سے بہت محبت‬
‫کرتی ہے لیکن حسین کی طرح از خود رفتہ نہیں‬
‫ہوتی ۔‬

‫بلقان خاتون ‪:‬‬

‫ایک تاتاری شہزادی ہے ‪ ،‬بے باک اور باہمت خاتون‬


‫ہے ‪ ،‬اس کے باپ چغتائی خان کو باطنی فدائی "دیدار‬
‫" نے رکن الدین خورشاہ کے حکم پر قتل کیا تھا ‪ ،‬باپ‬
‫کے خون کا انتقام لینے کے لیے اس نے زمرد کے ساتھ‬
‫مل کر قلعہ التمونت کو تاراج کیا ۔‬

‫شیخ علی وجودی ‪:‬‬

‫شیخ علی وجودی بھی ایک طاقتور کردار ہے ‪ ،‬ناول‬


‫کی پوری فضا پر حاوی ہے ‪ ،‬مصنوعی تقدس اور‬
‫بزرگی کی آڑ میں چھپا وہ ماسٹر مائنڈ ویلن ہے جو‬
‫باطنیوں کے تمام تخریبی امور کو بڑی چاالکی اور‬
‫کمال عیاری سے نگرانی کرتاہے ‪ ،‬اغوا اور ورغال کر الۓ‬
‫گیے نوجوانوں کے برین واش کرکے فدائی بناتا ہے ‪ ،‬اور‬
‫ان کو عالم اسالم کے ممتاز علما وصلحا کے قتل پر‬
‫مامور کرتا ہے ۔‬

‫فکری اعتبار سے شیخ وجودی کا کردار سب سے‬


‫اہم ہے ‪ ،‬موالنا عبد الحلیم شرر نے شیخ وجودی کی‬
‫زبانی فرقۂ باطنیہ کے اہم عقائد کو نہایت خوبی سے‬
‫بیان کیا ہے ‪ ،‬یہ اس بات کی دلیل ہے کہ موالنا نے‬
‫فرقۂ باطنیہ کے لٹریچر کا بہت گہرائی سے مطالعہ‬
‫کیا ہوا تھا ۔‬

‫ذیلی کرداروں میں رکن الدین خورشاہ ‪ ،‬طور معنی ‪،‬‬


‫وادی ایمن اور موسی بڑے دلچسپ ہیں ۔‬

‫ناول کا پالٹ نہایت مربوط و منظم ہے ‪ ،‬اور‬


‫منطقی انداز سے ناول آگے بڑھتا ہے ‪ ،‬کہیں انقطاع‬
‫اور جھول کا احساس نہیں ہوتا ‪ ،‬رومانس ‪ ،‬تجسس‪،‬‬
‫تحیر اور سسپینشن عروج پر ہیں ‪ ،‬لیکن موالنا نے‬
‫حسین وزمرد مابین گفتگو کو جس شوخ انداز میں‬
‫برتا ہے وہ مشرقی تہذیب کے خالف ہے ۔‬

‫ناول کے زبان وبیان پر لکھنا آفتاب کو چراغ‬


‫دکھانا ہے ‪ ،‬موالنا لکھنوی ہیں ‪ ،‬لکھنوی زبان کی ٹھاٹ‬
‫باٹ ‪ ،‬شان وشوکت اور آن بان ناول میں پوری قوت‬
‫سے جلوہ گر ہیں ۔‬

‫میرے پیش نظر "فردوس بریں " کا وہ برقی‬


‫نسخہ ہے ‪ ،‬جسے مجلس ادب عالیہ نے شائع کیا ہے ‪،‬‬
‫مجلس ادب عالیہ کو اس گراں مایہ کتاب کے برقیانے‬
‫پر سو دل مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔‬
‫اخذ کردہ از «?‪https://ur.wikipedia.org/w/index.php‬‬
‫‪&oldid=4842553‬فردوس_بریں_کا_مطالعہ=‪»title‬‬

‫اس صفحہ میں آخری بار مورخہ ‪ 25‬جنوری ‪2022‬ء کو ‪22:06‬‬


‫بجے ترمیم کی گئی۔ •‬
‫تمام مواد ‪ CC BY-SA 4.0‬کے تحت میسر ہے‪ ،‬جب تک اس کی‬
‫مخالفت مذکور نہ ہو۔‬

You might also like