Professional Documents
Culture Documents
1970ء میں ملک جس سیاسی ابتری اور جوشیلی سیاس ت ک ا ش کار تھ ا۔
اس کوایک حساس فنکار نے کس طرح محسوس کیا ہے اور برت نے کے
لیے طنز و مزاح کا سانچہ اختیار کی اہے وہ قاب ل رش ک ہے ہم دیکھ تے
ہیں کہ کسی کسی موقع پر ابن انش اءبھی اس ہنگ امی ص ورت ح ال س ے
اضطراری کیفیت س ے گ ذر رہے ہیں۔ لیکن یہ ت اثر زی ادہ نہیں۔ اردو کی
آخری کتاب کا تاریخ کا حصہ اس ب ات کی غم ازی کرت ا ہے۔ اردو کی
آخری کتاب ک ا اس لوب رواں دواں اور س لیس ہے ابن انش اءنے آزاد کے
انداز کو اپنانے کی کوشش کی ہے اور بنیادی طور پر ابن انشاءش اعرانہ
مزاج کے حامل ہیں۔ اس لیے اُن کی ن ثر میں ق افیہ پیم ائی ،لفظی تک رار
اور موسیقیت کااحساس گہرا ہے۔ پطرس نے مزاح کی ابتداءدیباچے سے
کی تھی جبکہ ابن انش اءنے یہ انتظ ار بھی نہیں کی ا۔ اور کت اب کے
سرورق پر (نامنظور کردہ ٹیکسٹ بک بورڈ) کا عنوان دے کر ہنس ی ک و
تحری ک دی ہے۔ پ وری کت اب نجمی کے 101ک ارٹونوں کے س اتھ ن ئی
بہ ار دکھ اتی ہے۔ ان ک ارٹونوں کی وجہ س ے کت اب کی دلچس پی اور
دلکشی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے خالد احمد یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ،
” اردو کی آخری کت اب کے مص نف دو ہیں ای ک ابن انش اءاور دوس رے
نجمی۔ “مشتا ق احمد یوسفی جو خ ود بھی م زاح کے شہس وار ہیں ان ک ا
تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں ” ،بے ش مار خوبص ورت لیکن م تروک
اور بھولے بسرے الف اظ ک وان کی رواں دواں ن ثر نے ای ک ن ئی زن دگی
اور توانائی بخشی ہے اردو مزاح میں اُن کا اسلوب اور آہنگ نی ا ہی نہیں
ناقاب ل تقلی د بھی ہے۔ “کت اب کی پیش کش ک ا ان داز بہت ہی بہ ترین ہے
کتاب کا ابھی ایک صفحہ بھی نہیں الٹا گیا اور مسکراہٹ قاری کے لب وں
پر کھیلنے لگتی ہے۔ یہاں چند مثالیں دے کر اس کتاب کا حق ادا نہیں کیا
جا سکتا کیونکہ یہ کتاب بے شمار مختلف اور دلکش ،طنزیہ اور مزاحیہ
فقروں سے بھ ر ی پ ڑی ہے۔ چن انچہ کت اب کے ابت دائی اب واب میں درج
س واالت ،س بق آم وز کہانی اں ،ریاض ی کے قاع دے ،ج انوروں ک ا بی ان،
پرندوں کا احوال ،رامائن اور مہا بھارت کے زمانے سے لے کر مہاراجا
رنجیت سنگھ کے دور تک کی تاریخ ،جغرافیے کے اسباق ،مناظر قدرت
کے تذکرے ،ابتدائی سائنس اور گرائمر ک و نظ ر ان داز نہیں کی ا گی ا ہے۔
اور تو اور موالنا شیخ سعدی کی حکایات کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔
طنزیہ اسلوب
کتاب کی سب سے اہم خصوصیت اس کا طنزیہ انداز بیان ہے ان کا ط نز
تلخ حقائق پر مبنی ہے لیکن اس میں تلخی نہیں۔ زبان کی شیرینی نے اس
کی تلخی کو چھپا لیا ہے۔ لہٰ ذا اس کے طنز کو آسانی س ے گ وارا کی ا ج ا
سکتا ہے۔ خالئی دور پر ط نز ،ص نعتی دور پ ر ط نز ،پتھ ر کے دور پ ر
طنز ،اخبار پر طنز ،کراچی کارپوریشن پر ط نز ،ابن انش اءکی ط نز کے
چن د جھ روکے ہیں۔ اس کے عالوہ مص نف نے کت اب کے ش روع میں
خبردار کیا ہے کہ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے یہ ملحوظ رکھاج ائے کہ یہ
کتاب صرف بالغوں کے لیے ہے۔ یعنی ذہ نی ب الغوں کے ل یے اور یہ کہ
اسے چھوٹی عمر کے طالب علموں س ے دور رکھ ا ج ائے۔ ورنہ مول ف
نتائج کا ذمہ دار نہ ہوگا۔
ابن انشاءکو مت پڑھ
ورنہ تیرا بیڑا پار نہ ہوگا
اور ہم سے کوئی نتائج
کا ذمہ دار نہ ہوگا
ان کی اس تنبیہ کا اندازہ جلد ہونے لگتا ہے جب اس باق کے آخ ر میں اس
قسم کے سواالت پوچھتے نظرآتے ہیں کہ
”علم بڑی دولت ہے لیکن جس کے پاس علم ہوت ا ہے اس کے پ اس دولت
کیوں نہیں ہوتی اور جس کے پاس دولت ہوتی ہے اس کے پاس علم کیوں
نہیں ہوتا؟“
کتاب کاآغاز ایک دعا سے ہوتا ہے اور دعا کایہ جملہ کہ ،
”انس ان وہی چ یز مانگت ا ہے ج و اس کے پ اس نہیں ہ وتی۔ “ س ادگی و
پرکاری کے ساتھ یہ بات ایک گہ ری مع نی بھی رکھ تی ہے اور یہ ج ان
کر دکھ ہوتا ہے کہ ہم لوگ م ادی اش یاءکے عالوہ روح انی پ اکیزگی اور
بالیدگی سے محروم ہو گئے ہیں۔ ملک میں بڑھتے ہوئے صوبائی تعصب
کی طر ف واضح اشارہ ملتا ہے۔ یعنی دنیا کے مختلف ملک و ں میں ای ک
قوم آبادہے اور ہمارے ہاں کوئی ،پنجابی ہے کوئی پٹھ ان ،ک وئی س ندھی
ک وئی بل وچی۔ اس س بق ک ا آخ ری فق رہ اتن ا تیکھ ا ہے کہ اس کی مث ا ل
طنزیہ ادب میں نہیں ملتی ۔
” پھر الگ ملک کیوں بنایا تھ ا غلطی ہ وئی مع اف کیج یے گ ا آئن دہ نہیں
بنائیں گے۔ “
کتاب کو پ ڑھ ک ر انکش اف ہوت ا ہے کہ ابن انشاءکاسیاس ی اور معاش رتی
شعور کتنا پختہ اور متوازن ہے وہ کس ی مخص وص نظ ریے کی عین ک
نہیں لگاتے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ منظر ک و اُس رخ س ے دیکھ تے ہیں
جس رخ میں ہمیں دیکھ نے کی آرزو ہ وتی ہے۔ اس ل یے ق اری اُن کے
زاویہ نظر سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔ اور اُن طنز کو گوارا کر لیتاہے۔
اس کتاب کا ان داز کہیں تم ثیلی اور کہیں رم زیہ ہے اُن ک ا ہ ر ح ربہ اور
تجربہ حد درجہ کامیاب ہے۔ جس میں ہماری قومی کوتاہیوں ک ا ذک ر بھی
ہے اور انفرادی خود غرضیوں کا تذکرہ بھی وقتی فائدے کے لیے ناجائز
ذرائع پر ایمان کی داس تان ک ا بی ان بھی ہے اور اس دور کے حکمران وں
کی نااہلیاں اور حماقتیں بھی شامل ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ ایس ے لطی ف او
ر شگفتہ انداز میں ہے کہ قاری دیر ت ک اس س ے لط ف ان داز ہوت ا رہت ا
ہے۔ حکمران وں کے اردگ رد خوش امدیوں کی کمی نہیں۔ ”دین ٰالہی“ کے
عنوان سے ایسے لوگ وں ک و موض وع بنای ا گی ا ہے ج و حکمران وں کے
اردگرد خوشامد ک رتے ہیں اوریہ ایس ا موض وع ہے ج و ہ ر زم انے میں
رائج رہا ہے اور آئندہ بھی ہمیشہ تازہ رہے گا۔
”چڑھتے سورج کی پوجا کرنا اس مذہب کا بنیادی اصول تھا۔ مری د اک بر
کے گرد جم ع ہ وتے تھے اور کہ تے تھے کہ اے ظ ل ٰالہی ت و ایس ا دان ا
فرزانہ ہے کہ تجھ کو تا حیات س ربراہ مملکت یع نی بادش اہ وغ یر ہ رہن ا
چاہیے۔ اور تو ایسا بہادر ہے کہ تجھے ہالل جرات ملنا چاہیے۔ بلکہ خود
لے لینا چاہیے۔ پرستش کی ایسی قسمیں آج بھی رائج ہیں لیکن اُن ک و دین
ٰالہی نہیں کہتے۔ “
”ہم ار اتمہ ار خدابادش اہ“ اور ”برک ات حک ومت انگلیش یہ “ میں ابن
انشاءنے آزادی کے بعد بھی رہ جانے والی ناہمواروں کا بیان کیا ہے۔
ریاضی کا حصہ
کت اب میں ریاض ی ک ا حص ہ بھی بہت دلچس پ ہے یہ اں ابن انش اءکی
طبیعت کی روانی قابل دید ہے جس سے مزاح کے شرارے پھوٹ تے ہیں۔
لیکن م زاح پی دا ک رنے کی کوش ش ش عوری نظ ر نہیں آتی۔ بلکہ ای ک
ش رارت بھ را تبس م ہے ج و مص نف کے ہونٹ وں پ ر مس کراتا ہے۔ وہ
معمولی چیزوں کے غ یر معم ولی پہلوئ و ں ک و س امنے النے پ ر ق درت
رکھتے ہیں۔ مثالً حسابی قاعدوں میں جم ع تفری ق اور تقس یم کے قاع دے
میں طنز کا تیز نشتر لیے ہوئے ہے
جمع
جمع کا قاعدہ مختلف لوگ وں کے ل یے مختل ف ہے ع ام لوگ وں کے ل یے
ایک جمع ای ک برابرڈی ڑھ ہے کی ونکہ آدھ ا انکم ٹیکس والے لے ج اتے
ہیں تجارت کے قاعدے سے ایک جمع ای ک ک ا مطلب گی ارہ ہے رش وت
کے قاعدے سے حاصل جمع اور بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ “
تقسیم
اگر آپ کو مکمل پہاڑہ مع گر یاد ہو تو کسی کو تقسیم کی کانوں کان خبر
نہیں ہ و س کتی آخ ر ٢١ک روڑکی دولت ک و 22خان دانوں نے آپس میں
تقسیم کیا ہی ہے کسی کو پتہ چال؟۔“
الجبرا
حساب اعداد کا کھیل ہے الجبرا حرفوں کا ان میں سب سے مشہور حرف
ال ہے جسے لہ کہتے ہیں بعض رشتوں میں الجبراء یع نی ج بر ک ا ش ائبہ
ہوتا ہے۔ جسے مدر ان ال۔ فادر ان ال وغیرہ۔ مارشل ال کو بھی الجبرے کا
ایک قاعدہ سمجھنا چاہیے۔ “
یہاں ابن انشاءکے ہاتھوں سے مزاح کا دامن چھوٹ گیا ہے اور و ہ اپ نے
طنز سے معاشرتی ناہمواریوں کی نشان دہی ک ر رہے ہیں۔ لیکن اس کے
ب اوجود اُن کے لب و لہجے کی ش گفتگی اور معص ومیت نے ق اری کی
دلچسپی کو برقرار رکھا ہے۔ اور اس طنز کو گوارا بنا دیا ہے۔
گرائمر
کتاب میں گرامر کا سبق ایک کامیاب پیروڈی ہے انداز بیان میں تلخی ک ا
نام و نشان نہیں اور مزاح نگاروں کے حربوں میں سے زب ان و بی ان کی
بازیگری سے کام لی ا گی ا ہے۔ لیکن مح اوروں ک ا اس تعمال گھس ے پ ٹے
انداز میں کیا گیا ہے اور اس میں بذلہ سنجی کا انوکھا روپ ملتا ہے۔
” فعل الزم وہ ہے جو کرنا الزم ہو مثالً افسر کی خوشامد ،حکومت س ے
ڈرنا ،بیوی سے جھوٹ بولنا وغیرہ۔ “
”فعل متعدی عموم ا ً متع دی ام راض کی ط رح پھی ل جات ا ہے۔ مثالً ای ک
شخص کنبہ پروری کرتا ہے دوس رے بھی ک رتے ہیں۔ ای ک رش وت لیت ا
ہے دوسرے اس سے بڑھ کر لیتے ہیں۔ “
سوال نمبر 2:بیگم اخ//تر ری//اض ال//دین ک//ا تع//ارف پیش ک//ریں اور ان کے
سفر نامے سات سمندر پر تفصیلی جائزہ لیں؟
تعارف:
بیگم اختر ریاض الدین [پیدائش 1928ء _ وفات 11جنوری 2023ء)
ان کا اصل شعبہ درس و تدریس تھا ،اس کے س اتھ س اتھ اردو میں لکھن ا
جاری رکھا۔ درس و تدریس کے ساتھ س اتھ انگری زی اور اردو مض امین
لکھ نے ک ا ش وق بھی انہ وں نے براب ر ج اری رکھ ا ان کے انگری زی
مضامین
پاکستان ٹائمز میں ش ائع ہ وتے رہے ،ن یز س فرنامے مل ک کے بلن د پ ایہ
جرائد میں چھپتے رہے ،
پیدائش
وہ 15اگست 1928کو کلکتہ میں پیدا ہوئیں۔
تعلیم
1949میں کنیرڈ کالج الہور سے گریجوایشن ک رنے کے بع د 1951میں
انہوں نے گورنمنٹ کالج الہور سے انگریزی میں ایم اےکیا،
تدریس
جس کے بعد انہوں نے اسالمیہ کالج برائے خ واتین الہ ور میں انگری زی
پڑھانا شروع کیا اور 1952سے 1965تک اس شعبے سے وابستہ رہیں
ادبی زندگی
ان کے خاوند کو سرکاری ف رائض کے سلس لے میں مختل ف ممال ک کے
سفر پرجانا پڑا۔ اختر نے بھی اپنے ش وہر کے س اتھ ان عالق وں کی س یر
کی اور ادبی ش وق کی وجہ س ے ان ممال ک کے س فرنامے بھی تخلی ق
کیے اور ان میں یورپ،ایشیا اور امریکہ کے ممالک کے متعلق اپ نے دو
سفرنامے س ات س مندر پ ار اور دھن ک پ ر ق دم لکھے ،ج و بہت مش ہور
ہوئے۔ ان کو پڑھنے سے ایسا معل وم ہوت ا ہے کہ گھ ر بیٹھے ان ممال ک
کی سیر کر رہے ہیں۔ اختر ریاض الدین نے مصنفہ کی حیثیت سے اپ نے
سفر کا آغاز 1963ء اپنا پہال سفر نامہ "سات سمندر پ//ار" لکھ ک ر کی ا ،
جو چھپ تے ہی بہت مقب ول ہ و گی ا۔ 1969ء میں ان ک ا دوس را س فر ن امہ
"دھنک پر ق دم ش ائع ہ وا ،جس پ ر انہیں 1970ء میں آدم جی ای وارڈ اور
پاکستان رائٹرز ِگل ڈ ای وارڈ دی ا گی ا۔ اُن کی تیس ری کت اب اے ہس ٹری آف
کرافٹ اِن انڈیا لندن میں 1975ء میں اور پاکس تان میں 1990ء میں ش ائع
ہوئی۔ وہ کئی اور کتابیں بھ یی تص نیف کرن ا چ اہتی تھیں جن پ ر مختل ف
وجوہ کی بنیاد پر کام نہیں ہو سکا۔
کی ایک ہلکی سی جھلک جو اس سفر نامے میں شامل ہے اور ٹوکیو ک ا
حصہ ہے قاری ک و افس ردہ ک ر دی تی ہے۔ بیگم ص احبہ اپن ا مش اہدہ بی ان
کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ،
” جاپان کی سڑکوں پر ایسے مزدوروں کی کمی نہیں جو صبح سویر ے
سرمایہ داروں کے پاس اپنی کوئی چیز گ روی رکھ ک ر رقم ادھ ار لی تے
ہیں۔ بعض مزدور ایسے بھی ہیں جن کے پاس اپ نے اُبلے ہ وئے چ اولوں
کے عالوہ گروی رکھنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا۔“
عام زندگی کی یہ مختصر س ی جھل ک بیگم ص احبہ کے درد من د ش عور
کی عکاس ہے۔
الفاظ پر گرفت:۔
بیگم صاحبہ کو اسلوب اور الف اظ پ ر گ رفت حاص ل ہے۔ وہ لفظ وں س ے
کھیلنا جانتی ہے اس طرح الشعور ی طور پ ر خوبص ورت ،م وزوں اور
بر محل تشبیہات خود بخود ان کی تحریر کا حصہ بن تے چلے ج اتے ہیں
جس کی وجہ س ے ش عوری کوش ش کااحس اس نہیں ہوت ا۔ س فر ن امے ک ا
ابتدائی حصہ جو جاپان کی سیاحت پ ر مب نی ہے۔ اس حص ے میں ان کی
یہ صالحیت اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ چند مثالیں باآسانی پیش کی
جا سکتی ہیں۔
”لمبی تان کر اُٹھی تو سورج دیوتا کمرے میں اور میرا دیوتا کم رے کے
باہر۔“وہ بولتی کے ا ہے کہ منہ س ے رس ٹپکت ا ہے اور ہم ارے م ردوں
کے منہ سے پانی۔“
”جب کسی عورت کی ہم بد صورت کہن ا نہیں چ اہتے ت و یہی کہہ دی تے
ہیں کہ اس کی شکل ہللا میاں نے بنائی ہ وئی ہے ٹوکی و کی ش کل بھی ہللا
میاں کی بنائی ہوئی ہے۔
دلچسپ جملے:۔
دلچسپ جملے چست کرنا ان کامحبوب مشغلہ ہے لیکن ایس ا ک رتے وقت
ان کے لہجے میں طنز یا تضحیک کا شائبہ بھی نہیں ملتا۔ روس کے سفر
کے دوران مختلف مشروبات کا ذکر کرتے ہ وئے ش کر ادا ک رتی ہے کہ
روس میں ”کوک“ نہیں پیا جاتا ان کا خیال ہے مشرق و مغرب میں کوک
ایسی متعدی بیماری کی طرح پھیل گئی ہے کہ س ارے مل ک اس رش تے
میں بن دھے ہ وئے نظ رآتے ہیں اس ض من میں ان ک ا ای ک جملہ نہ ایت
رواں بھی ہے اور مزاح کے پردے میں شائستہ طنز کو بھی محسوس کیا
جاسکتا ہے۔ وہ لکھتی ہیں،
”یو۔ این۔ او سے زیادہ اس نے دنیا کو متحد کیا ہے
_____________________________________
س///وال نم///بر 3:نظیراک///بر آب///ادی کے فن کی روش///نی میں ان کی نظم
"روٹیاں"٫کا فنی جائزہ لیں؟
تعارف
نظیر اکبر آبادی کا نام شیخ ولی محمد تھا۔ نظ یر تخلص رکھ ک ر ش اعری
کی۔( 1740-1735کے عرص ہ کے دوران پی دا ہ وئے (ڈاک ٹر رام ب ابو
سکسینہ کے مط ابق ن ادر ش اہ کے دہلی حملہ کے وقت پی دا ہ وئے تھے)
دلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام محمد ف اروق تھ اجو اپ نے وال دکی
بارہ اوالدوں میں سے صرف ای ک ہی بچے تھے۔ ابھی چھ وٹے ہی تھے
کہ والدہ کے ساتھ آگرہ منتقل ہو گ ئے اور محلّہ ت اج گنج میں مقیم ہ وئے۔
ای ک مکتب س ے ع ربی اور فارس ی کی تعلیم حاص ل کی۔ ط بیعت میں
موزونیت فطرت سے ملی تھی اس ل یے ش اعری ش روع کی۔ نظ یر ای ک
س ادہ اور ص وفی منش آدمی تھے ،ان کی س اری عم ر معلمی میں بس ر
ہوئی۔ وہ قناعت پسند تھے ،بھرت پ ور کے حکمران وں نے دع وت ن امے
بھیجے پ ر انہ وں نے قب ول نہ ک یے۔ وہ کس ی درب ار س ے وابس تہ نہیں
ہوئے ،آخری عم ر میں ف الج کی ح الت میں مبتال ہ وئے اور 1830ء میں
انتق ال کرگ ئے۔ آپک ا م زار دہلی میں ہے۔ اردو کی نئ کت اب ہ ائ
اسکول(اترپردیش)نص اب میں ش امل کت اب میں نظ یر ص احب کی ت اریخ
پیدائش کے بارے ميں اختالف کے ساتھ 1732/1735لکھا گیا ہے۔
روٹیاں نظم کی تشریح
اس نظم میں روٹی ص رف ای ک مع نی کے ل ئے اس تعمال نہیں ہ وا بلکہ
روٹی کے معنی دھن ،طاقت شوکت بھی روٹی کے ظاہری معنی میں آ ت ا
ہے
شاعر نے یہ بتانے کی کوش ش کی ہے کہ روٹی ہی انس ان کہ س ب س ے
بڑا مسلم ہے ۔ انسان اپنی بھوک مٹانے کے لیے سب لوازمات کرتا ہے
روٹی کے بغیر انسان زندہ نہیں رہے سکتا ۔ یہ حقیقت ہے اور اس جٹھیال
نہیں جاتا۔
جب روٹی انسان کے پیٹ میں جاتی ہے تو اس کی بھوک مٹ جاتی ہے ۔
تو اس کا بدن سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ روٹی انسان کو پ ری زخ وں بن ا
دی تی ہے ۔ مطلب زن دگی کی جم الی آ س ودگی ک و حاص ل کرن ا ۔ جس
شخص کیک پیٹ ناک ت ک ابھ را ہ وا ت و مطلب اس آدمی ک ا پیٹ روٹی
سے بھر چکا ہے۔ اور وہ زندگی کی مجبوریوں س ے آ زاد ہ و جات ا ہے۔
جس کی وجہ س ے وہ دورت ا ہے ۔ بھاگت ا ہے۔ اچھلت ا ہے کودت ا ہے۔
دوس توں میں بٹھت ا ہے ورنہ یہ روٹی مجب وری بن ج اتی۔ ہے۔ نظیراک بر
آب ادی ص احب نے روٹی کی اہمیت کی خ دا کی ط رف ج وڑ دی ہے ۔ وہ
کہتے ہیں
جس گھر میں ہانڈی چھوال ہے وییں خدایے کائنات نظر آتا ہے ۔
شاعر چولہے میں روشنی دینا بھ ر کی مانن د ق رار دی تے ہیں۔ای ک آ دمی
نے کام ل فیق ر س ے پوچھ ا کہ کہ ہّٰللا تع ٰالی نے س ورج اور چان د کی وں
بنائے ہیں ہمیں تو یہ روٹیاں دیکھی دی تی ہیں ۔ کی ونکہ ان کی بھی ش کل
گول ہوتی ہے ۔ شاعر نے سورج اور چاند کے ساتھ تش بیہ دی ہے۔ ای ک
مفلس انسان کو سورج اور چاند روٹی کی مانند دیکھی دی تے ہیں۔ روٹی
انسان کا پہال مسلہ ہے۔ روٹی انسان کےلئے انسان ت گ ودو میں لگ ا ہ وا
ہے۔ اگر کسی نے الل کپڑے پہ نے ہ وئے ہیں ت و وہ روٹی کمان ا چ اہتے
ہیں اگر کسی کے سر پر س رخ روم ال ہے ت و وہ بھی روٹی کمان ا چاہت ا
ہے۔
سچائی یہ ہے کہ انسان کے جتنے بھی روپ ہیں سب روٹی کے لیے ہیں
____________________________________________
سوال۔نمبر۔ 4:نظم "اندھا کباڑی"کا مرکزی خیال کیا ہے۔ ن//یز۔ راش//د کی
نظم۔ نگاری پر نوٹ لکھیں؟
ن م راشد کی نظم نگاری:
ن م راشد یکم اگست 1910ء کو گوجران والہ کے قص بے علی پ ور چٹھ ا
میں پیدا ہ وئے۔ ان ک ا اص ل ن ام راج ا نزرمحم د تھ ا۔ اردو ادب کی جدی د
تاریخ ن م راشد کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ وہ جدید ش اعری میں آزاد
نظم کے بانی اور عالمت نگاری کی تحریک کے اولیں مشعل بردار ہیں۔
ابتداء میں انہوں نے اپن ا تخلص گالب رکھ ا اور ای ک نظم لکھی۔ ان کے
دادا اردو فارسی کے شاعر تھے۔ نظم سننے کے بعد اس نے نصیحت کی
کہ ش اعر بن نے کی کوش ش نہ کرن ا۔ کس ی ک ام کے نہ رہ و گے۔ اس
نصیحت کے باوجود ن م راشد نے شعر گوئی ت رک نہ کی۔ پہلی نظم کے
بعد انہوں نے حم د ،نعت اور غ زلیں کہیں۔ وہ یہ ش اعری اپ نے قلمی ن ام
نذر محمد خضر عمر سے ک رتے تھے۔ کچھ عرص ہ ت ک راش د وحی دی
کے نام سے بھی مضامین اور نظمیں لکھیں۔
ابتدا میں وہ عالمہ مشرقی کی خاکسار تحریک سے بہت مت اثر رہے اور
وردی پہن کر اور بیلچہ ہاتھ میں ل ئے م ارچ کی ا ک رتے تھے۔ اس دوران
جدید دور کے ہولناک حاالت اور نئے مغربی عل وم راش د کے ادراک ک ا
حصہ بن رہے تھے۔ چن انچہ ان کی ش اعری میں ن ئے مض امین اور ن ئی
ہیئت کا در آنا ای ک فط ری عم ل تھ ا اور وقت کی ض رورت بھی جس ے
راشد نے قبول کر لیا۔
1939ء میں راشد آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ تقس یم کے بع د انہیں
پاکستان کی طرف سے انہیں اق وام متح دہ کے ص در دف تر نیوی ارک میں
خدمات انجام دینے کا موقع مال۔ ریٹامنٹ کے بعد انہوں نے انگلس تان میں
مستقل سکونت اختیار کرلی۔
ن م راش د نے غ زل کے روای تی ان داز اور ص نف ک و چھ وڑ ک ر غ یر
روایتی مضامین کو غیر روایتی ہیئت میں ڈھالنے کے شعری تجربے کی
ابت دا کی۔ ان کے کالم کے چ ار مجم وعے م اورا ( ،)1942ای ران میں
اجن بی ( ،)1955ال=انس ان ( )1959اور گم ان ک ا ممکن ( )1977ش ائع
ہوئے۔ ان کی شاعرکو سمجھنے کے لئے تخلی ق ک ار م زاج س ے آش نائی
ضروری ہے۔ کیونکہ موضوعات ،ہ یئت اور اس لوب ،اس اطیر کی ت اریخ
کاری کے انتخابات میں شاعر کا بنیادی مزاج کارفرما ہوت ا ہے۔راش د کی
ش اعری کی تفہیم کے ل یے بھی ان کی شخص یت اور عہ د س ے متش کل
ہونے والے ان کے فطین اور خلقی ذہن کی تفہیم اور آگہی ضروری ہے۔
راشد بالشبہ اپنے عہد کے بڑے اور منفرد شائیں اور وہ اردو کی روایتی
شاعری اور بنے بنائے فرسودی سانچوں اور لسانی وفکری س اخت س ے
مطمئن نہیں ہل
وفات:
زندگی کے آخ ری ای ام میں وہ لن دن میں مقیم تھے۔ جہ اں 1975ء میں ان
ذر
کا انتقال ہوا۔ وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کی الش کو ن ِ
آتش ک ر دی ا گی ا۔ وہ زن دگی بھ ر دوس روں ک و چونک اتے رہے تھے اور
موت کے بعد بھی اپنی یہ عادت ترک نہ کر سکے۔
اندھا کباڑی:
اندھا کباڑی شب و روز شہر میں بکھرے خواب وں ک و اکٹھ ا کرت ا ہے یہ
وہ خواب ہیں جن سے شہر کے لوگ نا آشنا ہیں وہ ان خواب وں ک و اپ نے
دل کی بھٹی میں تپانا چاہتا ہے تاکہ اس پر جمے گرد صاف ہو جائیں اور
وہ انہیں دولہوں کی طرح سنوارنا چاہت ا ہے ت اکہ وہ ج اذب نظ ر اور پ ر
کشش ہ و س کیں اور لوگ وں ک ا دھی ان اپ نی ط رف مت وجہ ک ر س کیں۔ان
بکھرے ہوئے اور بھٹکتے خوابوں کو پھر ان کا صحیح سمت م ل س کے
ان کا نامکمل وجود مکمل ہوجائے۔
معمول کے مطابق وہ ان خوابوں کو لے ج اکر ب زار میں بیچت ا ہے مگ ر
ل وگ ان خواب وں کی ج راحی ش روع ک ر دی تے ہیں اور ان خواب وں کی
جانچ پڑتال کرتے ہیں۔انہیں اصلی اور نقلی کی بڑی تمیز ہوتی ہے شاعر
ک ا لہجہ یہ اں ط نزیہ ہے س چ ہے کہ ع ام ل وگ خ واب ک و نہیں س مجھ
پاتیں،شاعر اس زم رے میں خ ود ک و بھی رکھت ا ہے اور کہت ا ہے کہ وہ
بھی ان خواب وں س ے بہ خ وبی واق ف نہیں ہے،وہ خ واب گ ر نہیں مگ ر
صورت گر ثانی ضرور ہے ۔ان خوابوں کے س ہارے ہی اس کے زیس ت
کی گاڑی رواں دواں ہے۔اصلی خواب نقلی خ واب کی بحث س ے حاص ل
کچھ نہیں ہوتا مگر شام ہو جاتی ہے اور ش ام ہ وتے ہی کب اڑی ک ا تی ور
بدل جاتا ہے وہ جمع شدہ پا شکس تہ س ر بری دہ خواب وں جس ے وہ س ونے
کے خواب سے تعبیر دیتا ہے ،مفت میں دینے کی صدا لگاتا ہے پر ہائے
رے قسمت ! اس بار لوگ اور ذیادہ محت اط نظ ر آتے ہیں انہیں محس وس
ہوت ا ہے کہ اس مف اد پرس ت دنی ا میں ک وئی مفت میں درد کے س وا کچھ
نہیں دے سکتا ہے تو یہ ش خص مفت میں ان خواب وں ک و کی وں دے رہ ا
ہے؟انہیں اس ب ات ک ا بھی خ وف س تاتا ہے کہ کہیں ک وئی دھ وکہ نہ ہ و
کہیں یہ خواب گھر ج اکر ٹ وٹ نہ ج ائیں،کہیں ب رف کی مانن د یہ خ واب
پگھل نہ جائے کہیں وہ اس کباڑی کی سحر کا شکار نہ ہو ج ائیں لہ ذا وہ
اس نابینا (جس کی آنکھیں وہ دیکھ پ اتی ہیں ج و آنکھ وال وں ک و دکھ ائی
نہیں دیتی) کے خواب کو بے کار چیز سمجھ کر اسے لینے سے کتراتے
ہیں اور وہاں سے چلے جاتے ہیں۔کباڑی اپنے بکھرے خوابوں کی دک ان
سمیٹتا ہے اور گھر مایوسی ہاتھ لئے آتا ہے پر اس کے خواب بیچ نے ک ا
جنون اب بھی متحرک ہے وہ خواب کو اب بھی بیچنے پ ر آم ادہ دکھ ائی
دیتا ہے اس بار وہ ان خوابوں کی قیمت بھی دی نے ک و تی ار ہے اور رات
کو یہی ب ڑ اڑات ا رہت ا ہے ۔”خ واب لے ل و ،خ واب/م یرے خ واب/خ واب
میرے خواب/خواب/ان کے دام بھی۔
کباڑی نابینا ہوتے ہوئے وہ ان خوابوں کو دیکھتا ہے اس کے پاس گہ ری
بصیرت ہے مگر آنکھ والے نہ معلوم کس فلسفے کی پ ٹی اپ نے آنکھ وں
پر چڑھائے ہوئے ہیں۔
____________________________________________
س/وال نم/بر :5حفی//ظ جالن//دھری کی گیت نگ//اری اور ان ک//ا گیت ابھی ت/و
میں جوان ہوں پر نوٹ لکھیں؟
تعارف
اب و االث ر حفی ظ جالن دھری پاکس تان س ے تعل ق رکھ نے والے اردو کے
نامور مقبول رومانی شاعر اور افسانہ نگار تھے جنھوں نے پاکستان کے
ت دوام پائی۔ ملکہ پکھ راج نے
قومی ترانہ کے خالق کی حیثیت سے شہر ِ
ان کی نظم ابھی تو میں جوان ہوں کو گا کر شہرت پائی
گیت نگاری:
اردو میں گیت نگاری کی روایت کے آثار دک نی دور ہی س ے م ل ج اتے
ہیں۔ کی ونکہ دوس ری منظوم ات میں بھی ہن دی زب ان کے الف اظ اس تعمال
ہوتے ہیں۔ اس کے عالوہ دکنی شاعری ہندی گیتوں کے مزاج سے قریب
تھی۔ جب اردو کا مرکز دکن سے شمالی ہند میں منقل ہوا تو اردو گیت کا
ارتقا کے قریب قریب رک گیا کی ونکہ دہلی اور لکھن ؤ کے دبس تانوں پ ر
فارسی شاعری کے گہرے اثرات تھے اور گیت کی ش اعری وہ پ ودا ہے
ج ا مق امی زمین اور مق امی آب و ہ وا میں پ روان چڑھت ا ہے۔ پھ ر جب
واجد علی شاہ کے دور میں اردو ڈرامے کی بنیاد رکھی تو اردو گیت ک و
ایک نئی زندگی مل گئی۔خاص طور پر ام انت لکھن وی کے ڈرامے ان در
سبھا سے اردو کا ایک نی ا دور ش روع ہ وا۔کی ونکہ ان در ص بھا میں س ب
سے زیادہ اہمیت گیتوں کو ہی حاص ل ہے۔ پھ ر ام انت لکھن وی س ے لے
کر حاشر کے دور تک گیت ہر ڈرامے کے جزو الزم کے طور پر شامل
رہے۔گوکہ ان گیتوں کا ادبی معیار کوئی بہت زیادہ بلن د نہیں تھ ا لیکن ان
ڈراموں کا یہ کارنامہ کچھ کم نہیں کہ ان کی وساطت سے گیتوں کو اردو
میں ایک باقاعدہ صنف سخن کا درجہ حاصل ہو گیا۔حفیظ جالن دھری کے
گیتوں کی سب سے قابل ذکر خوبی ان کی رنگارنگی اور موضوعات ک ا
تنوع ہے۔ان میں مناظر فطرت کی تصویر کش ی بھی ہے ،اور ج ذبات ک ا
والہانہ اظہار بھی ،شباب کی سرمستیاں بھی ہیں اور ش عور کی گہرائی اں
بھی لیکن ہر جگہ انہوں نے بی ان کی س ادگی ن رمی اور لط افت ک و ق ائم
رکھا ہے۔ ان کے ابتدائی گیتوں میں انسانی حس ن کی مص وری مل تی ہے
لیکن ان کی بنائی ہوئی تصویروں میں ح رکت بھی ہے اور آہ از بھی۔اس
کے ساتھ س اتھ انہ وں نے ان تص ویروں کے س ینے میں دل بھی رکھ دی ا
ہے۔اس طرح ان کے گیتوں کی مخلوق جذبات سے عاری نہیں ہوتی بلکہ
الفاظ کی جادوگری سے وہ ان میں جان ڈال دیتے ہی
ہے موت اس قدر قریں
مجھے نہ آئے گا یقیں
" بنو قصاب " تھا آج لوگ اسے قریشی اور فصیح اردو میں " کریس ی "
کہتے ہیں ...
اجی چھوڑیے اس نسلی احساس کمتری ک ا ت ذکرہ کہ اں س ے آ گی ا ہم ت و
گفتگو فرما رہے تھے زندگانی کی گھڑیوں کی چوری کی ...
کہتے ہیں عورت سے اسکی عمر اور مرد سے اسکی تنخ واہ پوچھن ا ب د
اخالقی ہے اور ہم اکثر اس بد اخالقی سے بچتے ہیں کیونکہ اس کے بعد
اگلے کے اخالق خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں ...
دھچکا آپ کو اس وقت لگتا ہے کہ جب بچپن کے س اتھ کھیلے ہ وئے آپ
کا تعارف کسی دوسرے سے یہ کہ کر کروائیں ...
اجی ہم تو انکی گودوں میں کھیلے ہوئے ہیں ...
جھوٹ بولنے والے پر خدا کی لعنت ...
ایک روز ای ک م دقوق س فید ریش ب ابے نے انتہ ائی تیقن کے س اتھ ہمیں
انک ل کہ ک ر پک ارا ت و ہم گھ ر آک ر دی ر ت ک آئی نے میں اپ نی ص ورت
دیکھتے رہے اور سوچتے رہے کہ
" آئینہ جھوٹ بولتا ہے یا پھر ہماری آنکھیں اندھی ہو چکی ہیں "
گزشتہ شب جب ہمارے ایک دوست شاہد میاں فرمانے لگے کہ می اں میں
تو تمہیں بچپن سے دیکھ رہا ہوں تو ہم نے آگے سے پ وچھ لی ا " ہم ارے
بچپن سے یا تمھارے بچپن سے " تو وہ ہتھے س ے اکھ ڑ گ ئے اور بچپن
کے تعلقات کے حوالے سے کچھ ایسے انکش افات فرم انے لگے کہ ہمیں
اپنی دوستی اور انکی اخالقیات دونوں ہی مشکوک دکھائی دینے لگیں ...
وہ تو میں سگریٹ کا عادی ہو گیا ہوں وگرنہ میری عمر ہی کیا ہے ...
اجی مجھے تو فکروں نے بوڑھا کر دیا ...
میں بچپن ہی سے بھری دوپہر میں آوارہ پھرنے کا عادی تھا ....
میرے بال تو نزلے کی وجہ سے سفید ہوئے ہیں ....
کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں کہ اپنا شناختی کارڈ اپ نے بچ وں کی بل وغت
کے وقت بنواتے ہیں اور پھر اپنی کم عمری پر اتراتے ہیں ...
عجیب ب ات ہے کہ ہم اپ نے بہت س ے دوس توں اور خان دانی ہم عص روں
سے عمر میں بہت آگے نکل گئے جبکہ بڑے بتالتے ہیں تم تو س اتھ کے
ہو ...
ہاں شاید ہم کس ی اور عص ر میں زن دہ ہیں اور وہ کس ی اور زم انے میں
جی رہے ہیں ..
یہ معاملہ تو ایسا معاملہ ہے کہ اب و االث ر حفی ظ جالن دھری بھی اس س ے
متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور
" ابھی تو میں جوان ہوں "
کہ ڈالی
____________________________________________