You are on page 1of 21

‫اسایمننٹ نمبر‪2:‬‬

‫نام‪ :‬ارسلہ خالد‬


‫کوڈ‪9001 :‬‬
‫رول نمبر ‪0000397829‬‬
‫سمسڑ پہال‬
‫خزان ‪2022‬‬
‫عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی‬
‫سوال نمبر‪ 1:‬ابن انشا کی مزاح نگاری کی روشنی میں "اردو کی آخ‪/‬ری‬
‫کتاب "کا فنی جایزہ لیں؟‬
‫ابن انشا کا تعارف‬
‫اصلی نام شیر محمد خ ان تھ ا اور تخلص انش ا‪ .‬آپ ‪ 15‬ج ون ‪1927‬ء ک و‬
‫جالندھر کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے‬
‫‪1946‬ء میں ج امعہ پنج اب س ے بی اے اور ‪1953‬ء میں ک راچی‬
‫یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔‬
‫”اردو کی آخری کت اب“محم د حس ین آزاد کی” اردو کی پہلی کت اب “کی‬
‫دلچسپ پیروڈی ہے۔ پیروڈی یونانی لفظ پیروڈی ا س ے نکال ہے۔ جس کے‬
‫مع نی ہے ”ج وابی نغمہ“ کے ہیں۔ اردو ادب میں ط نز و م زاح کے اس‬
‫حربے ک و ب راہ راس ت انگری زی ادب س ے الی ا گی ا ہے۔ جس میں لفظی‬
‫نقالی یا الفاظ کے ردو ب دل س ے کس ی کالم ی ا تص نیف کی تض حیک کی‬
‫جاتی ہے۔ یہ کتاب اردو ادب میں ایک کامیاب پیروڈی سمجھی جاتی ہے۔‬
‫کیونکہ ابن انشاءنے پیروڈی کے فن ک و س مجھ ک ر برت ا ہے۔آزاد کی اس‬
‫کتاب پر ”پطرس بخاری“ ابن انشاءسے پہلے ہاتھ صاف ک ر چکے تھے۔‬
‫لیکن اُن کا نشانہ چند ابتدائی اسباق تھے اور دوسرا دونوں مزاح نگ اروں‬
‫کے نقطہ نظر میں واضح فرق ہے۔ پطرس ک ا نقطہ نظ ر محض تف ریحی‬
‫ہے جبکہ ابن انشاءمعاشرتی ناہمواریوں اور ناانصافیوں ک و نش انہ بن اتے‬
‫ہیں اور اُ ن ک ا مقص د اص ال ح ہے۔اردو کی آخ ری کت اب“ ‪1980‬ءکے‬
‫ہنگامی حاالت کے پس منظ ر میں لکھے گ ئے روزن امچوں ک ا مجم وعہ‬
‫ہے اگرچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اخبار کی زن دگی ای ک روزہ ہ وتی ہے اور‬
‫صحافتی ن ثر ادبی ن ثر س ے مختل ف ہ وتی ہے۔ لیکن ابن انش اءکا مع املہ‬
‫برعکس ہے نہ تو سطحی کالم نویس تھے کہ ان کے کالم وقتی لحاظ سے‬
‫تو جوش پیدا کرتے لیکن زمانے کی گ رد انہیں ختم ک ر ڈال تی ہے اور نہ‬
‫انھوں نے صحافتی زبان کو ادبی زب ان میں ض م ہ ونے دی ا۔ بلکہ اعت دال‬
‫کے ساتھ عام قاری اور ادب کے طالب علم دونوں کو متاثر کیا۔‬

‫‪1970‬ء میں ملک جس سیاسی ابتری اور جوشیلی سیاس ت ک ا ش کار تھ ا۔‬
‫اس کوایک حساس فنکار نے کس طرح محسوس کیا ہے اور برت نے کے‬
‫لیے طنز و مزاح کا سانچہ اختیار کی اہے وہ قاب ل رش ک ہے ہم دیکھ تے‬
‫ہیں کہ کسی کسی موقع پر ابن انش اءبھی اس ہنگ امی ص ورت ح ال س ے‬
‫اضطراری کیفیت س ے گ ذر رہے ہیں۔ لیکن یہ ت اثر زی ادہ نہیں۔ اردو کی‬
‫آخری کتاب کا تاریخ کا حصہ اس ب ات کی غم ازی کرت ا ہے۔ اردو کی‬
‫آخری کتاب ک ا اس لوب رواں دواں اور س لیس ہے ابن انش اءنے آزاد کے‬
‫انداز کو اپنانے کی کوشش کی ہے اور بنیادی طور پر ابن انشاءش اعرانہ‬
‫مزاج کے حامل ہیں۔ اس لیے اُن کی ن ثر میں ق افیہ پیم ائی‪ ،‬لفظی تک رار‬
‫اور موسیقیت کااحساس گہرا ہے۔ پطرس نے مزاح کی ابتداءدیباچے سے‬
‫کی تھی جبکہ ابن انش اءنے یہ انتظ ار بھی نہیں کی ا۔ اور کت اب کے‬
‫سرورق پر (نامنظور کردہ ٹیکسٹ بک بورڈ) کا عنوان دے کر ہنس ی ک و‬
‫تحری ک دی ہے۔ پ وری کت اب نجمی کے ‪ 101‬ک ارٹونوں کے س اتھ ن ئی‬
‫بہ ار دکھ اتی ہے۔ ان ک ارٹونوں کی وجہ س ے کت اب کی دلچس پی اور‬
‫دلکشی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے خالد احمد یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ‪،‬‬
‫” اردو کی آخری کت اب کے مص نف دو ہیں ای ک ابن انش اءاور دوس رے‬
‫نجمی۔ “مشتا ق احمد یوسفی جو خ ود بھی م زاح کے شہس وار ہیں ان ک ا‬
‫تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں‪ ” ،‬بے ش مار خوبص ورت لیکن م تروک‬
‫اور بھولے بسرے الف اظ ک وان کی رواں دواں ن ثر نے ای ک ن ئی زن دگی‬
‫اور توانائی بخشی ہے اردو مزاح میں اُن کا اسلوب اور آہنگ نی ا ہی نہیں‬
‫ناقاب ل تقلی د بھی ہے۔ “کت اب کی پیش کش ک ا ان داز بہت ہی بہ ترین ہے‬
‫کتاب کا ابھی ایک صفحہ بھی نہیں الٹا گیا اور مسکراہٹ قاری کے لب وں‬
‫پر کھیلنے لگتی ہے۔ یہاں چند مثالیں دے کر اس کتاب کا حق ادا نہیں کیا‬
‫جا سکتا کیونکہ یہ کتاب بے شمار مختلف اور دلکش‪ ،‬طنزیہ اور مزاحیہ‬
‫فقروں سے بھ ر ی پ ڑی ہے۔ چن انچہ کت اب کے ابت دائی اب واب میں درج‬
‫س واالت‪ ،‬س بق آم وز کہانی اں‪ ،‬ریاض ی کے قاع دے‪ ،‬ج انوروں ک ا بی ان‪،‬‬
‫پرندوں کا احوال‪ ،‬رامائن اور مہا بھارت کے زمانے سے لے کر مہاراجا‬
‫رنجیت سنگھ کے دور تک کی تاریخ‪ ،‬جغرافیے کے اسباق‪ ،‬مناظر قدرت‬
‫کے تذکرے‪ ،‬ابتدائی سائنس اور گرائمر ک و نظ ر ان داز نہیں کی ا گی ا ہے۔‬
‫اور تو اور موالنا شیخ سعدی کی حکایات کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔‬
‫طنزیہ اسلوب‬
‫کتاب کی سب سے اہم خصوصیت اس کا طنزیہ انداز بیان ہے ان کا ط نز‬
‫تلخ حقائق پر مبنی ہے لیکن اس میں تلخی نہیں۔ زبان کی شیرینی نے اس‬
‫کی تلخی کو چھپا لیا ہے۔ لہٰ ذا اس کے طنز کو آسانی س ے گ وارا کی ا ج ا‬
‫سکتا ہے۔ خالئی دور پر ط نز‪ ،‬ص نعتی دور پ ر ط نز‪ ،‬پتھ ر کے دور پ ر‬
‫طنز‪ ،‬اخبار پر طنز‪ ،‬کراچی کارپوریشن پر ط نز‪ ،‬ابن انش اءکی ط نز کے‬
‫چن د جھ روکے ہیں۔ اس کے عالوہ مص نف نے کت اب کے ش روع میں‬
‫خبردار کیا ہے کہ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے یہ ملحوظ رکھاج ائے کہ یہ‬
‫کتاب صرف بالغوں کے لیے ہے۔ یعنی ذہ نی ب الغوں کے ل یے اور یہ کہ‬
‫اسے چھوٹی عمر کے طالب علموں س ے دور رکھ ا ج ائے۔ ورنہ مول ف‬
‫نتائج کا ذمہ دار نہ ہوگا۔‬
‫ابن انشاءکو مت پڑھ‬
‫ورنہ تیرا بیڑا پار نہ ہوگا‬
‫اور ہم سے کوئی نتائج‬
‫کا ذمہ دار نہ ہوگا‬
‫ان کی اس تنبیہ کا اندازہ جلد ہونے لگتا ہے جب اس باق کے آخ ر میں اس‬
‫قسم کے سواالت پوچھتے نظرآتے ہیں کہ‬
‫”علم بڑی دولت ہے لیکن جس کے پاس علم ہوت ا ہے اس کے پ اس دولت‬
‫کیوں نہیں ہوتی اور جس کے پاس دولت ہوتی ہے اس کے پاس علم کیوں‬
‫نہیں ہوتا؟“‬
‫کتاب کاآغاز ایک دعا سے ہوتا ہے اور دعا کایہ جملہ کہ ‪،‬‬
‫”انس ان وہی چ یز مانگت ا ہے ج و اس کے پ اس نہیں ہ وتی۔ “ س ادگی و‬
‫پرکاری کے ساتھ یہ بات ایک گہ ری مع نی بھی رکھ تی ہے اور یہ ج ان‬
‫کر دکھ ہوتا ہے کہ ہم لوگ م ادی اش یاءکے عالوہ روح انی پ اکیزگی اور‬
‫بالیدگی سے محروم ہو گئے ہیں۔ ملک میں بڑھتے ہوئے صوبائی تعصب‬
‫کی طر ف واضح اشارہ ملتا ہے۔ یعنی دنیا کے مختلف ملک و ں میں ای ک‬
‫قوم آبادہے اور ہمارے ہاں کوئی‪ ،‬پنجابی ہے کوئی پٹھ ان‪ ،‬ک وئی س ندھی‬
‫ک وئی بل وچی۔ اس س بق ک ا آخ ری فق رہ اتن ا تیکھ ا ہے کہ اس کی مث ا ل‬
‫طنزیہ ادب میں نہیں ملتی ۔‬
‫” پھر الگ ملک کیوں بنایا تھ ا غلطی ہ وئی مع اف کیج یے گ ا آئن دہ نہیں‬
‫بنائیں گے۔ “‬
‫کتاب کو پ ڑھ ک ر انکش اف ہوت ا ہے کہ ابن انشاءکاسیاس ی اور معاش رتی‬
‫شعور کتنا پختہ اور متوازن ہے وہ کس ی مخص وص نظ ریے کی عین ک‬
‫نہیں لگاتے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ منظر ک و اُس رخ س ے دیکھ تے ہیں‬
‫جس رخ میں ہمیں دیکھ نے کی آرزو ہ وتی ہے۔ اس ل یے ق اری اُن کے‬
‫زاویہ نظر سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔ اور اُن طنز کو گوارا کر لیتاہے۔‬

‫تمثیلی انداز رمزیہ انداز‬

‫اس کتاب کا ان داز کہیں تم ثیلی اور کہیں رم زیہ ہے اُن ک ا ہ ر ح ربہ اور‬
‫تجربہ حد درجہ کامیاب ہے۔ جس میں ہماری قومی کوتاہیوں ک ا ذک ر بھی‬
‫ہے اور انفرادی خود غرضیوں کا تذکرہ بھی وقتی فائدے کے لیے ناجائز‬
‫ذرائع پر ایمان کی داس تان ک ا بی ان بھی ہے اور اس دور کے حکمران وں‬
‫کی نااہلیاں اور حماقتیں بھی شامل ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ ایس ے لطی ف او‬
‫ر شگفتہ انداز میں ہے کہ قاری دیر ت ک اس س ے لط ف ان داز ہوت ا رہت ا‬
‫ہے۔ حکمران وں کے اردگ رد خوش امدیوں کی کمی نہیں۔ ”دین ٰالہی“ کے‬
‫عنوان سے ایسے لوگ وں ک و موض وع بنای ا گی ا ہے ج و حکمران وں کے‬
‫اردگرد خوشامد ک رتے ہیں اوریہ ایس ا موض وع ہے ج و ہ ر زم انے میں‬
‫رائج رہا ہے اور آئندہ بھی ہمیشہ تازہ رہے گا۔‬
‫”چڑھتے سورج کی پوجا کرنا اس مذہب کا بنیادی اصول تھا۔ مری د اک بر‬
‫کے گرد جم ع ہ وتے تھے اور کہ تے تھے کہ اے ظ ل ٰالہی ت و ایس ا دان ا‬
‫فرزانہ ہے کہ تجھ کو تا حیات س ربراہ مملکت یع نی بادش اہ وغ یر ہ رہن ا‬
‫چاہیے۔ اور تو ایسا بہادر ہے کہ تجھے ہالل جرات ملنا چاہیے۔ بلکہ خود‬
‫لے لینا چاہیے۔ پرستش کی ایسی قسمیں آج بھی رائج ہیں لیکن اُن ک و دین‬
‫ٰالہی نہیں کہتے۔ “‬
‫”ہم ار اتمہ ار خدابادش اہ“ اور ”برک ات حک ومت انگلیش یہ “ میں ابن‬
‫انشاءنے آزادی کے بعد بھی رہ جانے والی ناہمواروں کا بیان کیا ہے۔‬

‫جانوروں اور پرندوں کا بیان‬


‫مختل ف ج انوروں اور پرن دوں ک ا ذک ر ک رکے انس انوں کی خ امیوں ک و‬
‫سامنے النے کی کوش ش کی گ ئی ہے۔ انس ان ج و اش رف المخلوق ات ہے‬
‫جانور بن جانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ مثالً کتے کا ذکر ک رتے ہ وئے‬
‫لکھتے ہیں کہ‬
‫لیلی تک پہنچنے کے لیے اس پیار ک رتے‬
‫لیلی کا بھی تھا لوگ ٰ‬
‫”ایک کتا ٰ‬
‫تھے اس کی خوش امد ک رتے تھے جس ط رح ص احب س یکرٹری ی ا‬
‫چپڑاسی کی کرنی پڑتی ہے۔ “‬

‫ریاضی کا حصہ‬
‫کت اب میں ریاض ی ک ا حص ہ بھی بہت دلچس پ ہے یہ اں ابن انش اءکی‬
‫طبیعت کی روانی قابل دید ہے جس سے مزاح کے شرارے پھوٹ تے ہیں۔‬
‫لیکن م زاح پی دا ک رنے کی کوش ش ش عوری نظ ر نہیں آتی۔ بلکہ ای ک‬
‫ش رارت بھ را تبس م ہے ج و مص نف کے ہونٹ وں پ ر مس کراتا ہے۔ وہ‬
‫معمولی چیزوں کے غ یر معم ولی پہلوئ و ں ک و س امنے النے پ ر ق درت‬
‫رکھتے ہیں۔ مثالً حسابی قاعدوں میں جم ع تفری ق اور تقس یم کے قاع دے‬
‫میں طنز کا تیز نشتر لیے ہوئے ہے‬
‫جمع‬
‫جمع کا قاعدہ مختلف لوگ وں کے ل یے مختل ف ہے ع ام لوگ وں کے ل یے‬
‫ایک جمع ای ک برابرڈی ڑھ ہے کی ونکہ آدھ ا انکم ٹیکس والے لے ج اتے‬
‫ہیں تجارت کے قاعدے سے ایک جمع ای ک ک ا مطلب گی ارہ ہے رش وت‬
‫کے قاعدے سے حاصل جمع اور بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ “‬
‫تقسیم‬
‫اگر آپ کو مکمل پہاڑہ مع گر یاد ہو تو کسی کو تقسیم کی کانوں کان خبر‬
‫نہیں ہ و س کتی آخ ر ‪ ٢١‬ک روڑکی دولت ک و ‪ 22‬خان دانوں نے آپس میں‬
‫تقسیم کیا ہی ہے کسی کو پتہ چال؟۔“‬
‫الجبرا‬
‫حساب اعداد کا کھیل ہے الجبرا حرفوں کا ان میں سب سے مشہور حرف‬
‫ال ہے جسے لہ کہتے ہیں بعض رشتوں میں الجبراء یع نی ج بر ک ا ش ائبہ‬
‫ہوتا ہے۔ جسے مدر ان ال۔ فادر ان ال وغیرہ۔ مارشل ال کو بھی الجبرے کا‬
‫ایک قاعدہ سمجھنا چاہیے۔ “‬
‫یہاں ابن انشاءکے ہاتھوں سے مزاح کا دامن چھوٹ گیا ہے اور و ہ اپ نے‬
‫طنز سے معاشرتی ناہمواریوں کی نشان دہی ک ر رہے ہیں۔ لیکن اس کے‬
‫ب اوجود اُن کے لب و لہجے کی ش گفتگی اور معص ومیت نے ق اری کی‬
‫دلچسپی کو برقرار رکھا ہے۔ اور اس طنز کو گوارا بنا دیا ہے۔‬
‫گرائمر‬
‫کتاب میں گرامر کا سبق ایک کامیاب پیروڈی ہے انداز بیان میں تلخی ک ا‬
‫نام و نشان نہیں اور مزاح نگاروں کے حربوں میں سے زب ان و بی ان کی‬
‫بازیگری سے کام لی ا گی ا ہے۔ لیکن مح اوروں ک ا اس تعمال گھس ے پ ٹے‬
‫انداز میں کیا گیا ہے اور اس میں بذلہ سنجی کا انوکھا روپ ملتا ہے۔‬
‫” فعل الزم وہ ہے جو کرنا الزم ہو مثالً افسر کی خوشامد‪ ،‬حکومت س ے‬
‫ڈرنا‪ ،‬بیوی سے جھوٹ بولنا وغیرہ۔ “‬
‫”فعل متعدی عموم ا ً متع دی ام راض کی ط رح پھی ل جات ا ہے۔ مثالً ای ک‬
‫شخص کنبہ پروری کرتا ہے دوس رے بھی ک رتے ہیں۔ ای ک رش وت لیت ا‬
‫ہے دوسرے اس سے بڑھ کر لیتے ہیں۔ “‬
‫سوال نمبر‪ 2:‬بیگم اخ‪//‬تر ری‪//‬اض ال‪//‬دین ک‪//‬ا تع‪//‬ارف پیش ک‪//‬ریں اور ان کے‬
‫سفر نامے سات سمندر پر تفصیلی جائزہ لیں؟‬
‫تعارف‪:‬‬
‫بیگم اختر ریاض الدین [پیدائش ‪1928‬ء _ وفات ‪ 11‬جنوری ‪2023‬ء)‬
‫ان کا اصل شعبہ درس و تدریس تھا‪ ،‬اس کے س اتھ س اتھ اردو میں لکھن ا‬
‫جاری رکھا۔ درس و تدریس کے ساتھ س اتھ انگری زی اور اردو مض امین‬
‫لکھ نے ک ا ش وق بھی انہ وں نے براب ر ج اری رکھ ا ان کے انگری زی‬
‫مضامین‬
‫پاکستان ٹائمز میں ش ائع ہ وتے رہے‪ ،‬ن یز س فرنامے مل ک کے بلن د پ ایہ‬
‫جرائد میں چھپتے رہے ‪،‬‬
‫پیدائش‬
‫وہ ‪ 15‬اگست ‪ 1928‬کو کلکتہ میں پیدا ہوئیں۔‬
‫تعلیم‬
‫‪ 1949‬میں کنیرڈ کالج الہور سے گریجوایشن ک رنے کے بع د ‪ 1951‬میں‬
‫انہوں نے گورنمنٹ کالج الہور سے انگریزی میں ایم اےکیا‪،‬‬
‫تدریس‬
‫جس کے بعد انہوں نے اسالمیہ کالج برائے خ واتین الہ ور میں انگری زی‬
‫پڑھانا شروع کیا اور ‪ 1952‬سے ‪ 1965‬تک اس شعبے سے وابستہ رہیں‬
‫ادبی زندگی‬
‫ان کے خاوند کو سرکاری ف رائض کے سلس لے میں مختل ف ممال ک کے‬
‫سفر پرجانا پڑا۔ اختر نے بھی اپنے ش وہر کے س اتھ ان عالق وں کی س یر‬
‫کی اور ادبی ش وق کی وجہ س ے ان ممال ک کے س فرنامے بھی تخلی ق‬
‫کیے اور ان میں یورپ‪،‬ایشیا اور امریکہ کے ممالک کے متعلق اپ نے دو‬
‫سفرنامے س ات س مندر پ ار اور دھن ک پ ر ق دم لکھے‪ ،‬ج و بہت مش ہور‬
‫ہوئے۔ ان کو پڑھنے سے ایسا معل وم ہوت ا ہے کہ گھ ر بیٹھے ان ممال ک‬
‫کی سیر کر رہے ہیں۔ اختر ریاض الدین نے مصنفہ کی حیثیت سے اپ نے‬
‫سفر کا آغاز ‪1963‬ء اپنا پہال سفر نامہ "سات سمندر پ‪//‬ار" لکھ ک ر کی ا ‪،‬‬
‫جو چھپ تے ہی بہت مقب ول ہ و گی ا۔ ‪1969‬ء میں ان ک ا دوس را س فر ن امہ‬
‫"دھنک پر ق دم ش ائع ہ وا‪ ،‬جس پ ر انہیں ‪1970‬ء میں آدم جی ای وارڈ اور‬
‫پاکستان رائٹرز ِگل ڈ ای وارڈ دی ا گی ا۔ اُن کی تیس ری کت اب اے ہس ٹری آف‬
‫کرافٹ اِن انڈیا لندن میں ‪1975‬ء میں اور پاکس تان میں ‪1990‬ء میں ش ائع‬
‫ہوئی۔ وہ کئی اور کتابیں بھ یی تص نیف کرن ا چ اہتی تھیں جن پ ر مختل ف‬
‫وجوہ کی بنیاد پر کام نہیں ہو سکا۔‬
‫کی ایک ہلکی سی جھلک جو اس سفر نامے میں شامل ہے اور ٹوکیو ک ا‬
‫حصہ ہے قاری ک و افس ردہ ک ر دی تی ہے۔ بیگم ص احبہ اپن ا مش اہدہ بی ان‬
‫کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ‪،‬‬
‫” جاپان کی سڑکوں پر ایسے مزدوروں کی کمی نہیں جو صبح سویر ے‬
‫سرمایہ داروں کے پاس اپنی کوئی چیز گ روی رکھ ک ر رقم ادھ ار لی تے‬
‫ہیں۔ بعض مزدور ایسے بھی ہیں جن کے پاس اپ نے اُبلے ہ وئے چ اولوں‬
‫کے عالوہ گروی رکھنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا۔“‬
‫عام زندگی کی یہ مختصر س ی جھل ک بیگم ص احبہ کے درد من د ش عور‬
‫کی عکاس ہے۔‬
‫الفاظ پر گرفت‪:‬۔‬
‫بیگم صاحبہ کو اسلوب اور الف اظ پ ر گ رفت حاص ل ہے۔ وہ لفظ وں س ے‬
‫کھیلنا جانتی ہے اس طرح الشعور ی طور پ ر خوبص ورت‪ ،‬م وزوں اور‬
‫بر محل تشبیہات خود بخود ان کی تحریر کا حصہ بن تے چلے ج اتے ہیں‬
‫جس کی وجہ س ے ش عوری کوش ش کااحس اس نہیں ہوت ا۔ س فر ن امے ک ا‬
‫ابتدائی حصہ جو جاپان کی سیاحت پ ر مب نی ہے۔ اس حص ے میں ان کی‬
‫یہ صالحیت اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ چند مثالیں باآسانی پیش کی‬
‫جا سکتی ہیں۔‬
‫”لمبی تان کر اُٹھی تو سورج دیوتا کمرے میں اور میرا دیوتا کم رے کے‬
‫باہر۔“وہ بولتی کے ا ہے کہ منہ س ے رس ٹپکت ا ہے اور ہم ارے م ردوں‬
‫کے منہ سے پانی۔“‬
‫”جب کسی عورت کی ہم بد صورت کہن ا نہیں چ اہتے ت و یہی کہہ دی تے‬
‫ہیں کہ اس کی شکل ہللا میاں نے بنائی ہ وئی ہے ٹوکی و کی ش کل بھی ہللا‬
‫میاں کی بنائی ہوئی ہے۔‬
‫دلچسپ جملے‪:‬۔‬
‫دلچسپ جملے چست کرنا ان کامحبوب مشغلہ ہے لیکن ایس ا ک رتے وقت‬
‫ان کے لہجے میں طنز یا تضحیک کا شائبہ بھی نہیں ملتا۔ روس کے سفر‬
‫کے دوران مختلف مشروبات کا ذکر کرتے ہ وئے ش کر ادا ک رتی ہے کہ‬
‫روس میں ”کوک“ نہیں پیا جاتا ان کا خیال ہے مشرق و مغرب میں کوک‬
‫ایسی متعدی بیماری کی طرح پھیل گئی ہے کہ س ارے مل ک اس رش تے‬
‫میں بن دھے ہ وئے نظ رآتے ہیں اس ض من میں ان ک ا ای ک جملہ نہ ایت‬
‫رواں بھی ہے اور مزاح کے پردے میں شائستہ طنز کو بھی محسوس کیا‬
‫جاسکتا ہے۔ وہ لکھتی ہیں‪،‬‬
‫”یو۔ این۔ او سے زیادہ اس نے دنیا کو متحد کیا ہے‬
‫_____________________________________‬
‫س‪///‬وال نم‪///‬بر‪ 3:‬نظیراک‪///‬بر آب‪///‬ادی کے فن کی روش‪///‬نی میں ان کی نظم‬
‫"روٹیاں‪"٫‬کا فنی جائزہ لیں؟‬
‫تعارف‬

‫نظیر اکبر آبادی کا نام شیخ ولی محمد تھا۔ نظ یر تخلص رکھ ک ر ش اعری‬
‫کی۔(‪ 1740-1735‬کے عرص ہ کے دوران پی دا ہ وئے (ڈاک ٹر رام ب ابو‬
‫سکسینہ کے مط ابق ن ادر ش اہ کے دہلی حملہ کے وقت پی دا ہ وئے تھے)‬
‫دلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام محمد ف اروق تھ اجو اپ نے وال دکی‬
‫بارہ اوالدوں میں سے صرف ای ک ہی بچے تھے۔ ابھی چھ وٹے ہی تھے‬
‫کہ والدہ کے ساتھ آگرہ منتقل ہو گ ئے اور محلّہ ت اج گنج میں مقیم ہ وئے۔‬
‫ای ک مکتب س ے ع ربی اور فارس ی کی تعلیم حاص ل کی۔ ط بیعت میں‬
‫موزونیت فطرت سے ملی تھی اس ل یے ش اعری ش روع کی۔ نظ یر ای ک‬
‫س ادہ اور ص وفی منش آدمی تھے‪ ،‬ان کی س اری عم ر معلمی میں بس ر‬
‫ہوئی۔ وہ قناعت پسند تھے‪ ،‬بھرت پ ور کے حکمران وں نے دع وت ن امے‬
‫بھیجے پ ر انہ وں نے قب ول نہ ک یے۔ وہ کس ی درب ار س ے وابس تہ نہیں‬
‫ہوئے‪ ،‬آخری عم ر میں ف الج کی ح الت میں مبتال ہ وئے اور ‪1830‬ء میں‬
‫انتق ال کرگ ئے۔ آپک ا م زار دہلی میں ہے۔ اردو کی نئ کت اب ہ ائ‬
‫اسکول(اترپردیش)نص اب میں ش امل کت اب میں نظ یر ص احب کی ت اریخ‬
‫پیدائش کے بارے ميں اختالف کے ساتھ ‪ 1732/1735‬لکھا گیا ہے۔‬
‫روٹیاں نظم کی تشریح‬
‫اس نظم میں روٹی ص رف ای ک مع نی کے ل ئے اس تعمال نہیں ہ وا بلکہ‬
‫روٹی کے معنی دھن‪ ،‬طاقت شوکت بھی روٹی کے ظاہری معنی میں آ ت ا‬
‫ہے‬
‫شاعر نے یہ بتانے کی کوش ش کی ہے کہ روٹی ہی انس ان کہ س ب س ے‬
‫بڑا مسلم ہے ۔ انسان اپنی بھوک مٹانے کے لیے سب لوازمات کرتا ہے‬
‫روٹی کے بغیر انسان زندہ نہیں رہے سکتا ۔ یہ حقیقت ہے اور اس جٹھیال‬
‫نہیں جاتا۔‬
‫جب روٹی انسان کے پیٹ میں جاتی ہے تو اس کی بھوک مٹ جاتی ہے ۔‬
‫تو اس کا بدن سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ روٹی انسان کو پ ری زخ وں بن ا‬
‫دی تی ہے ۔ مطلب زن دگی کی جم الی آ س ودگی ک و حاص ل کرن ا ۔ جس‬
‫شخص کیک پیٹ ناک ت ک ابھ را ہ وا ت و مطلب اس آدمی ک ا پیٹ روٹی‬
‫سے بھر چکا ہے۔ اور وہ زندگی کی مجبوریوں س ے آ زاد ہ و جات ا ہے۔‬
‫جس کی وجہ س ے وہ دورت ا ہے ۔ بھاگت ا ہے۔ اچھلت ا ہے کودت ا ہے۔‬
‫دوس توں میں بٹھت ا ہے ورنہ یہ روٹی مجب وری بن ج اتی۔ ہے۔ نظیراک بر‬
‫آب ادی ص احب نے روٹی کی اہمیت کی خ دا کی ط رف ج وڑ دی ہے ۔ وہ‬
‫کہتے ہیں‬
‫جس گھر میں ہانڈی چھوال ہے وییں خدایے کائنات نظر آتا ہے ۔‬
‫شاعر چولہے میں روشنی دینا بھ ر کی مانن د ق رار دی تے ہیں۔ای ک آ دمی‬
‫نے کام ل فیق ر س ے پوچھ ا کہ کہ ہّٰللا تع ٰالی نے س ورج اور چان د کی وں‬
‫بنائے ہیں ہمیں تو یہ روٹیاں دیکھی دی تی ہیں ۔ کی ونکہ ان کی بھی ش کل‬
‫گول ہوتی ہے ۔ شاعر نے سورج اور چاند کے ساتھ تش بیہ دی ہے۔ ای ک‬
‫مفلس انسان کو سورج اور چاند روٹی کی مانند دیکھی دی تے ہیں۔ روٹی‬
‫انسان کا پہال مسلہ ہے۔ روٹی انسان کےلئے انسان ت گ ودو میں لگ ا ہ وا‬
‫ہے۔ اگر کسی نے الل کپڑے پہ نے ہ وئے ہیں ت و وہ روٹی کمان ا چ اہتے‬
‫ہیں اگر کسی کے سر پر س رخ روم ال ہے ت و وہ بھی روٹی کمان ا چاہت ا‬
‫ہے۔‬
‫سچائی یہ ہے کہ انسان کے جتنے بھی روپ ہیں سب روٹی کے لیے ہیں‬
‫____________________________________________‬
‫سوال۔نمبر۔‪ 4:‬نظم "اندھا کباڑی"کا مرکزی خیال کیا ہے۔ ن‪//‬یز۔ راش‪//‬د کی‬
‫نظم۔ نگاری پر نوٹ لکھیں؟‬
‫ن م راشد کی نظم نگاری‪:‬‬
‫ن م راشد یکم اگست ‪1910‬ء کو گوجران والہ کے قص بے علی پ ور چٹھ ا‬
‫میں پیدا ہ وئے۔ ان ک ا اص ل ن ام راج ا نزرمحم د تھ ا۔ اردو ادب کی جدی د‬
‫تاریخ ن م راشد کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ وہ جدید ش اعری میں آزاد‬
‫نظم کے بانی اور عالمت نگاری کی تحریک کے اولیں مشعل بردار ہیں۔‬
‫ابتداء میں انہوں نے اپن ا تخلص گالب رکھ ا اور ای ک نظم لکھی۔ ان کے‬
‫دادا اردو فارسی کے شاعر تھے۔ نظم سننے کے بعد اس نے نصیحت کی‬
‫کہ ش اعر بن نے کی کوش ش نہ کرن ا۔ کس ی ک ام کے نہ رہ و گے۔ اس‬
‫نصیحت کے باوجود ن م راشد نے شعر گوئی ت رک نہ کی۔ پہلی نظم کے‬
‫بعد انہوں نے حم د‪ ،‬نعت اور غ زلیں کہیں۔ وہ یہ ش اعری اپ نے قلمی ن ام‬
‫نذر محمد خضر عمر سے ک رتے تھے۔ کچھ عرص ہ ت ک راش د وحی دی‬
‫کے نام سے بھی مضامین اور نظمیں لکھیں۔‬
‫ابتدا میں وہ عالمہ مشرقی کی خاکسار تحریک سے بہت مت اثر رہے اور‬
‫وردی پہن کر اور بیلچہ ہاتھ میں ل ئے م ارچ کی ا ک رتے تھے۔ اس دوران‬
‫جدید دور کے ہولناک حاالت اور نئے مغربی عل وم راش د کے ادراک ک ا‬
‫حصہ بن رہے تھے۔ چن انچہ ان کی ش اعری میں ن ئے مض امین اور ن ئی‬
‫ہیئت کا در آنا ای ک فط ری عم ل تھ ا اور وقت کی ض رورت بھی جس ے‬
‫راشد نے قبول کر لیا۔‬
‫‪1939‬ء میں راشد آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ تقس یم کے بع د انہیں‬
‫پاکستان کی طرف سے انہیں اق وام متح دہ کے ص در دف تر نیوی ارک میں‬
‫خدمات انجام دینے کا موقع مال۔ ریٹامنٹ کے بعد انہوں نے انگلس تان میں‬
‫مستقل سکونت اختیار کرلی۔‬
‫ن م راش د نے غ زل کے روای تی ان داز اور ص نف ک و چھ وڑ ک ر غ یر‬
‫روایتی مضامین کو غیر روایتی ہیئت میں ڈھالنے کے شعری تجربے کی‬
‫ابت دا کی۔ ان کے کالم کے چ ار مجم وعے م اورا (‪ ،)1942‬ای ران میں‬
‫اجن بی (‪ ،)1955‬ال=انس ان (‪ )1959‬اور گم ان ک ا ممکن (‪ )1977‬ش ائع‬
‫ہوئے۔ ان کی شاعرکو سمجھنے کے لئے تخلی ق ک ار م زاج س ے آش نائی‬
‫ضروری ہے۔ کیونکہ موضوعات‪ ،‬ہ یئت اور اس لوب‪ ،‬اس اطیر کی ت اریخ‬
‫کاری کے انتخابات میں شاعر کا بنیادی مزاج کارفرما ہوت ا ہے۔راش د کی‬
‫ش اعری کی تفہیم کے ل یے بھی ان کی شخص یت اور عہ د س ے متش کل‬
‫ہونے والے ان کے فطین اور خلقی ذہن کی تفہیم اور آگہی ضروری ہے۔‬
‫راشد بالشبہ اپنے عہد کے بڑے اور منفرد شائیں اور وہ اردو کی روایتی‬
‫شاعری اور بنے بنائے فرسودی سانچوں اور لسانی وفکری س اخت س ے‬
‫مطمئن نہیں ہل‬
‫وفات‪:‬‬
‫زندگی کے آخ ری ای ام میں وہ لن دن میں مقیم تھے۔ جہ اں ‪1975‬ء میں ان‬
‫ذر‬
‫کا انتقال ہوا۔ وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کی الش کو ن ِ‬
‫آتش ک ر دی ا گی ا۔ وہ زن دگی بھ ر دوس روں ک و چونک اتے رہے تھے اور‬
‫موت کے بعد بھی اپنی یہ عادت ترک نہ کر سکے۔‬
‫اندھا کباڑی‪:‬‬
‫اندھا کباڑی شب و روز شہر میں بکھرے خواب وں ک و اکٹھ ا کرت ا ہے یہ‬
‫وہ خواب ہیں جن سے شہر کے لوگ نا آشنا ہیں وہ ان خواب وں ک و اپ نے‬
‫دل کی بھٹی میں تپانا چاہتا ہے تاکہ اس پر جمے گرد صاف ہو جائیں اور‬
‫وہ انہیں دولہوں کی طرح سنوارنا چاہت ا ہے ت اکہ وہ ج اذب نظ ر اور پ ر‬
‫کشش ہ و س کیں اور لوگ وں ک ا دھی ان اپ نی ط رف مت وجہ ک ر س کیں۔ان‬
‫بکھرے ہوئے اور بھٹکتے خوابوں کو پھر ان کا صحیح سمت م ل س کے‬
‫ان کا نامکمل وجود مکمل ہوجائے۔‬
‫معمول کے مطابق وہ ان خوابوں کو لے ج اکر ب زار میں بیچت ا ہے مگ ر‬
‫ل وگ ان خواب وں کی ج راحی ش روع ک ر دی تے ہیں اور ان خواب وں کی‬
‫جانچ پڑتال کرتے ہیں۔انہیں اصلی اور نقلی کی بڑی تمیز ہوتی ہے شاعر‬
‫ک ا لہجہ یہ اں ط نزیہ ہے س چ ہے کہ ع ام ل وگ خ واب ک و نہیں س مجھ‬
‫پاتیں‪،‬شاعر اس زم رے میں خ ود ک و بھی رکھت ا ہے اور کہت ا ہے کہ وہ‬
‫بھی ان خواب وں س ے بہ خ وبی واق ف نہیں ہے‪،‬وہ خ واب گ ر نہیں مگ ر‬
‫صورت گر ثانی ضرور ہے ۔ان خوابوں کے س ہارے ہی اس کے زیس ت‬
‫کی گاڑی رواں دواں ہے۔اصلی خواب نقلی خ واب کی بحث س ے حاص ل‬
‫کچھ نہیں ہوتا مگر شام ہو جاتی ہے اور ش ام ہ وتے ہی کب اڑی ک ا تی ور‬
‫بدل جاتا ہے وہ جمع شدہ پا شکس تہ س ر بری دہ خواب وں جس ے وہ س ونے‬
‫کے خواب سے تعبیر دیتا ہے‪ ،‬مفت میں دینے کی صدا لگاتا ہے پر ہائے‬
‫رے قسمت ! اس بار لوگ اور ذیادہ محت اط نظ ر آتے ہیں انہیں محس وس‬
‫ہوت ا ہے کہ اس مف اد پرس ت دنی ا میں ک وئی مفت میں درد کے س وا کچھ‬
‫نہیں دے سکتا ہے تو یہ ش خص مفت میں ان خواب وں ک و کی وں دے رہ ا‬
‫ہے؟انہیں اس ب ات ک ا بھی خ وف س تاتا ہے کہ کہیں ک وئی دھ وکہ نہ ہ و‬
‫کہیں یہ خواب گھر ج اکر ٹ وٹ نہ ج ائیں‪،‬کہیں ب رف کی مانن د یہ خ واب‬
‫پگھل نہ جائے کہیں وہ اس کباڑی کی سحر کا شکار نہ ہو ج ائیں لہ ذا وہ‬
‫اس نابینا (جس کی آنکھیں وہ دیکھ پ اتی ہیں ج و آنکھ وال وں ک و دکھ ائی‬
‫نہیں دیتی) کے خواب کو بے کار چیز سمجھ کر اسے لینے سے کتراتے‬
‫ہیں اور وہاں سے چلے جاتے ہیں۔کباڑی اپنے بکھرے خوابوں کی دک ان‬
‫سمیٹتا ہے اور گھر مایوسی ہاتھ لئے آتا ہے پر اس کے خواب بیچ نے ک ا‬
‫جنون اب بھی متحرک ہے وہ خواب کو اب بھی بیچنے پ ر آم ادہ دکھ ائی‬
‫دیتا ہے اس بار وہ ان خوابوں کی قیمت بھی دی نے ک و تی ار ہے اور رات‬
‫کو یہی ب ڑ اڑات ا رہت ا ہے ۔”خ واب لے ل و‪ ،‬خ واب‪/‬م یرے خ واب‪/‬خ واب‬
‫میرے خواب‪/‬خواب‪/‬ان کے دام بھی۔‬
‫کباڑی نابینا ہوتے ہوئے وہ ان خوابوں کو دیکھتا ہے اس کے پاس گہ ری‬
‫بصیرت ہے مگر آنکھ والے نہ معلوم کس فلسفے کی پ ٹی اپ نے آنکھ وں‬
‫پر چڑھائے ہوئے ہیں۔‬
‫____________________________________________‬
‫س‪/‬وال نم‪/‬بر‪ :5‬حفی‪//‬ظ جالن‪//‬دھری کی گیت نگ‪//‬اری اور ان ک‪//‬ا گیت ابھی ت‪/‬و‬
‫میں جوان ہوں پر نوٹ لکھیں؟‬
‫تعارف‬
‫اب و االث ر حفی ظ جالن دھری پاکس تان س ے تعل ق رکھ نے والے اردو کے‬
‫نامور مقبول رومانی شاعر اور افسانہ نگار تھے جنھوں نے پاکستان کے‬
‫ت دوام پائی۔ ملکہ پکھ راج نے‬
‫قومی ترانہ کے خالق کی حیثیت سے شہر ِ‬
‫ان کی نظم ابھی تو میں جوان ہوں کو گا کر شہرت پائی‬
‫گیت نگاری‪:‬‬
‫اردو میں گیت نگاری کی روایت کے آثار دک نی دور ہی س ے م ل ج اتے‬
‫ہیں۔ کی ونکہ دوس ری منظوم ات میں بھی ہن دی زب ان کے الف اظ اس تعمال‬
‫ہوتے ہیں۔ اس کے عالوہ دکنی شاعری ہندی گیتوں کے مزاج سے قریب‬
‫تھی۔ جب اردو کا مرکز دکن سے شمالی ہند میں منقل ہوا تو اردو گیت کا‬
‫ارتقا کے قریب قریب رک گیا کی ونکہ دہلی اور لکھن ؤ کے دبس تانوں پ ر‬
‫فارسی شاعری کے گہرے اثرات تھے اور گیت کی ش اعری وہ پ ودا ہے‬
‫ج ا مق امی زمین اور مق امی آب و ہ وا میں پ روان چڑھت ا ہے۔ پھ ر جب‬
‫واجد علی شاہ کے دور میں اردو ڈرامے کی بنیاد رکھی تو اردو گیت ک و‬
‫ایک نئی زندگی مل گئی۔خاص طور پر ام انت لکھن وی کے ڈرامے ان در‬
‫سبھا سے اردو کا ایک نی ا دور ش روع ہ وا۔کی ونکہ ان در ص بھا میں س ب‬
‫سے زیادہ اہمیت گیتوں کو ہی حاص ل ہے۔ پھ ر ام انت لکھن وی س ے لے‬
‫کر حاشر کے دور تک گیت ہر ڈرامے کے جزو الزم کے طور پر شامل‬
‫رہے۔گوکہ ان گیتوں کا ادبی معیار کوئی بہت زیادہ بلن د نہیں تھ ا لیکن ان‬
‫ڈراموں کا یہ کارنامہ کچھ کم نہیں کہ ان کی وساطت سے گیتوں کو اردو‬
‫میں ایک باقاعدہ صنف سخن کا درجہ حاصل ہو گیا۔حفیظ جالن دھری کے‬
‫گیتوں کی سب سے قابل ذکر خوبی ان کی رنگارنگی اور موضوعات ک ا‬
‫تنوع ہے۔ان میں مناظر فطرت کی تصویر کش ی بھی ہے‪ ،‬اور ج ذبات ک ا‬
‫والہانہ اظہار بھی‪ ،‬شباب کی سرمستیاں بھی ہیں اور ش عور کی گہرائی اں‬
‫بھی لیکن ہر جگہ انہوں نے بی ان کی س ادگی ن رمی اور لط افت ک و ق ائم‬
‫رکھا ہے۔ ان کے ابتدائی گیتوں میں انسانی حس ن کی مص وری مل تی ہے‬
‫لیکن ان کی بنائی ہوئی تصویروں میں ح رکت بھی ہے اور آہ از بھی۔اس‬
‫کے ساتھ س اتھ انہ وں نے ان تص ویروں کے س ینے میں دل بھی رکھ دی ا‬
‫ہے۔اس طرح ان کے گیتوں کی مخلوق جذبات سے عاری نہیں ہوتی بلکہ‬
‫الفاظ کی جادوگری سے وہ ان میں جان ڈال دیتے ہی‬
‫ہے موت اس قدر قریں‬
‫مجھے نہ آئے گا یقیں‬

‫نہیں نہیں ابھی نہیں‬


‫ابھی تو میں جوان ہوںہے موت اس قدر قریں‬
‫مجھے نہ آئے گا یقیںنہیں نہیں ابھی ننہیں‬
‫ابھی تو میں جوان ہوں‬
‫ابھی تو میں جوان ہوں ‪! ...‬‬
‫ابھی تو میں جوان ہوں کا مرکزی خیال‬
‫اجی کون تسلیم کرتا ہے کہ اسکی زندگانی کی گھڑی اں کم س ے کم ہ وتی‬
‫چلی جا رہی ہیں اور وقت آخر قریب آتا چال جا رہا ہے مع املہ ت و یہ ہے‬
‫کہ چاہے وہ بوڑھا ہو کہ جوان مرد ہو کہ عورت ہر دل کی ایک ہی صدا‬
‫ہوتی ہے ‪...‬‬
‫بھال میں چھوڑ دوں یہیں‬
‫ہے موت اس قدر قریں‬
‫مجھے نہ آئے گا یقیں‬
‫نہیں نہیں ابھی نہیں‬
‫ابھی تو میں جوان ہوں‬

‫بر صغیر پاک و ہند کی دو بڑی بیماریوں میں سے ایک بیماری عم ر ک ا‬


‫غم اور دوسری بیماری نس ل ک ا غم ہے ای ک وہ زم انہ تھ ا کہ جب ہم یہ‬
‫سمجھنے لگے تھے کہ شاید پچھلی صدیوں میں تمام س ادات ص وبہ بہ ار‬
‫میں نقل مکانی کر گئے تھے اور اسی دور میں ہم پر یہ انکشاف بھی ہ وا‬
‫کہ قریش کے بارہ قبیلے نہیں تھے بلکہ ایک قبیلہ اور بھی تھا کہ جو بلد‬
‫عرب سے گمشدہ ہوکر سرزمین ہند میں آباد ہو گیا اس قبیلے کا اصل نام‬

‫" بنو قصاب " تھا آج لوگ اسے قریشی اور فصیح اردو میں " کریس ی "‬
‫کہتے ہیں ‪...‬‬
‫اجی چھوڑیے اس نسلی احساس کمتری ک ا ت ذکرہ کہ اں س ے آ گی ا ہم ت و‬
‫گفتگو فرما رہے تھے زندگانی کی گھڑیوں کی چوری کی ‪...‬‬
‫کہتے ہیں عورت سے اسکی عمر اور مرد سے اسکی تنخ واہ پوچھن ا ب د‬
‫اخالقی ہے اور ہم اکثر اس بد اخالقی سے بچتے ہیں کیونکہ اس کے بعد‬
‫اگلے کے اخالق خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں ‪...‬‬
‫دھچکا آپ کو اس وقت لگتا ہے کہ جب بچپن کے س اتھ کھیلے ہ وئے آپ‬
‫کا تعارف کسی دوسرے سے یہ کہ کر کروائیں ‪...‬‬
‫اجی ہم تو انکی گودوں میں کھیلے ہوئے ہیں ‪...‬‬
‫جھوٹ بولنے والے پر خدا کی لعنت ‪...‬‬
‫ایک روز ای ک م دقوق س فید ریش ب ابے نے انتہ ائی تیقن کے س اتھ ہمیں‬
‫انک ل کہ ک ر پک ارا ت و ہم گھ ر آک ر دی ر ت ک آئی نے میں اپ نی ص ورت‬
‫دیکھتے رہے اور سوچتے رہے کہ‬
‫" آئینہ جھوٹ بولتا ہے یا پھر ہماری آنکھیں اندھی ہو چکی ہیں "‬
‫گزشتہ شب جب ہمارے ایک دوست شاہد میاں فرمانے لگے کہ می اں میں‬
‫تو تمہیں بچپن سے دیکھ رہا ہوں تو ہم نے آگے سے پ وچھ لی ا " ہم ارے‬
‫بچپن سے یا تمھارے بچپن سے " تو وہ ہتھے س ے اکھ ڑ گ ئے اور بچپن‬
‫کے تعلقات کے حوالے سے کچھ ایسے انکش افات فرم انے لگے کہ ہمیں‬
‫اپنی دوستی اور انکی اخالقیات دونوں ہی مشکوک دکھائی دینے لگیں ‪...‬‬
‫وہ تو میں سگریٹ کا عادی ہو گیا ہوں وگرنہ میری عمر ہی کیا ہے ‪...‬‬
‫اجی مجھے تو فکروں نے بوڑھا کر دیا ‪...‬‬
‫میں بچپن ہی سے بھری دوپہر میں آوارہ پھرنے کا عادی تھا ‪....‬‬
‫میرے بال تو نزلے کی وجہ سے سفید ہوئے ہیں ‪....‬‬
‫کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں کہ اپنا شناختی کارڈ اپ نے بچ وں کی بل وغت‬
‫کے وقت بنواتے ہیں اور پھر اپنی کم عمری پر اتراتے ہیں ‪...‬‬
‫عجیب ب ات ہے کہ ہم اپ نے بہت س ے دوس توں اور خان دانی ہم عص روں‬
‫سے عمر میں بہت آگے نکل گئے جبکہ بڑے بتالتے ہیں تم تو س اتھ کے‬
‫ہو ‪...‬‬
‫ہاں شاید ہم کس ی اور عص ر میں زن دہ ہیں اور وہ کس ی اور زم انے میں‬
‫جی رہے ہیں ‪..‬‬
‫یہ معاملہ تو ایسا معاملہ ہے کہ اب و االث ر حفی ظ جالن دھری بھی اس س ے‬
‫متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور‬
‫" ابھی تو میں جوان ہوں "‬
‫کہ ڈالی‬
‫____________________________________________‬

You might also like