You are on page 1of 6

‫آپ کا صفحہ“‪،‬اشاعتِ‪ /۲ :‬جون ‪۹۱۰۲‬ء ”‬ ‫بسم ہللا‬

‫ٰن الرحیم‬
‫الرحم‬ ‫‪1‬‬

‫“عید نمبر”‬
‫‪۲/‬‬ ‫ُون ‪۹۱‬ء‪ ،‬مطابق‪ /۷۲ :‬رمضان المبارک ‪۰۴۴۱‬ھ‬ ‫ج‬
‫”سن ڈے میگزین“ کا ‪ /۴۲‬صفحات پر مشتمل ”عید‬
‫نمبر“پڑھا۔ مہینوں پہلے بھیجی اپنی مختصر عید‬
‫تحریر نہ پاکر بھی شمارہ پڑھ کر ہی دم لیا۔سرورق‬
‫کے بارے میں ایک بات(جو ہللا معاف کرے‪ ،‬غرو و تکبر سے‬
‫کوسوں دور ہے)محسوس کی عام خدوخال رکھنے والے لڑکے‬
‫اور لڑکیاں بھی ”فوٹو گریفی ٹکنالوجی“کی بدولت‬
‫ِسکی“ تجربہ بھی‬ ‫”ماڈل“ بنائے جاتے ہیں اور ایسا ”ر‬
‫مشّاق ٹیم“ نے کامیابی سے کر‬
‫”سنڈے کی َ‬
‫ڈاال۔خوبصورت‪،‬شوخ‪،‬روپہلے رنگوں اور نویلے‪،‬‬
‫ِ مطالعہ‬‫بھڑکیلے‪،‬روشن بارڈرز واال سرورق‪،‬تحریکِ ذوق‬
‫کا باعث بنا۔اس ہفتہ ماشاء ہللا منور راجپوت کی تو دو‬
‫عیدیں ہوگئیں‪،‬گویا چپڑی اور دو دو کے مصداق شمارے‬
‫میں ان کی دو عدد تازہ تحریریں شامل ہیں‪ ،‬دونوں ہی‬
‫تحریرات اپنے موضوع سے انصاف کرتے ہوئے بہترین لے‬
‫آؤٹ کے ساتھ پیش کی گئی ہیں۔ فاروق اقدس بڑے اہم‬
‫سیاسی پیش منظر کو الئے ہیں‪ ،‬بڑے بڑے ماہرینِ سیاستِ‬
‫ُتھی کو سُلجھانے کی کوشش کررہے ہیں‬ ‫ملکِ خدادا‪ ،‬ا‬
‫ِسیگ‬
‫کہ زرداری ہاؤس‪،‬اسالم آباد میں منعقد کی جانے والی‬
‫”سیاسی افطار پارٹی“ (جہاں کی‪،‬محترمہ بے نظیر بھٹو‬
‫کی کئی دعوتیں بھی مشہور ہیں)ملکی سیاسی منظر نامہ‬
‫میں اب کون سا نیا رنگ بھرے گی‪ ،‬ایک مزے دار واقعہ‬
‫اسی افطاری سے متعلق دل کو لگا کہ جب حمزہ صاحب‬
‫پکوڑوں کی طشت اپنی جانب گھسیٹنے لگے تو پیپلز‬
‫پارٹی کے منصرم جناب آصف علی زرداری (جواپنی بذلہ‬
‫سنجی میں مشہور ہیں)نے فقرہ چست کیا کہ‪”:‬بیٹا‪ ،‬ذرا‬
‫احتیاط سے گھسیٹو‪،‬کیونکہ آپ کے والد محترم بھی‬
‫عجلت میں گھسیٹنے کی سزا ہی بھگت رہے ہیں!“میرے‬
‫خیال میں زرداری کے اس جواب کی روشنی میں فاروق‬
‫اقدس صاحب کے بہترین منظر نامہ کا ہر رنگ واضح‬
‫ہوجانا چاہئے۔بہر حال اپوزیشن پارٹیوں کا‪،‬موجودہ‬
‫ملکی حاالت میں یہ ایک کامیاب اتحاد کہا جاسکتا ہے‬
‫(یہ میری ذاتی رائے ہے‪،‬ادارے کا متفق ہونا ضروری‬
‫نھیں)۔ویسے بھی اگست اور ستمبر ہی تو ہیں۔‬
‫عید اسپیشل“ کے سلسلے کی ایک اور تحریر ”‬
‫طلعت کامران کا اپنے میدانِ زیست میں مشہور شخصیات‬
‫کا عیدسروے ہے‪ ،‬لیکن ہر مرتبہ ان ہی چند شخصیات کے‬
‫خیاالت سے آگاہی ہوپاتی ہے‪ ،‬کیا تعلیم‪ ،‬صحت‪ ،‬خدمتِ‬
‫خلق و دیگر شعبوں میں پاکستانی شخصیات کا ”کال“‬
‫ٰن آپا سے عرصہ بعد مالقات‬
‫ہے؟بہر حال مہناز رحم‬
‫ُردو ادب کے لئے چینی زبان‬ ‫ہوئی‪ ،‬کہاں تو بچوں کے ا‬
‫ُردو کے قالب میں ڈھالنے‬‫کی تحریروں کو بہترین ا‬
‫ٰن اور کہاں اس قدر ثقیل اور‬ ‫والی مہناز احفاظ الرحم‬
‫پر فکر پیغام‪”،‬جنگ“ اپنے کسی بھی محسن کو بھولتا‬‫ُ‬
‫نھیں کبھی‪ ،‬سوائے ایک پروفیسر نما کے جسے اس ہفتہ‬
‫ٰے قریشی ٹائپ‬ ‫”آپ کا صفحہ“ کے ہائڈ پارک میں ”مصطف‬
‫ولن“ کا غیر سرکاری خطاب دے دیا گیا ہے‪ ،‬ہاہاہا۔۔۔‬
‫ِ عید بھی ایمان‬ ‫ہیروئن(بیگم ناہید صاحبہ) کا پیغام‬
‫سے نیم چڑھے کریلوں کے جوس کو قلم میں بھر کر لکھا‬
‫گیا ہے‪،‬عید اسپیشل ہی میں حامد فیاض (جو طالب علم‬
‫ُن کا دلچسپ مضمون شائع کیا گیا ہے جو عید پر‬ ‫ہیں) ا‬
‫غذائی بد پرہیزی اور طبی احتیاطی اصولوں پر مبنی‬
‫ہلکا پھلکا دلچسپ مضمون ہے۔منور راج کی دوسری‬
‫تحریر مزاح کے ”مسکے“لئے بڑے مزے دار ”کیری کیچرز“‬
‫پر مبنی تھی‪ ،‬یہ بات میں نے امریکی اخبارات میں‬
‫دیکھی تھی کہ وہ لوگ اپنے تہواروں کے مواقع پر‬
‫اپنی مقبول سیاسی‪ ،‬ادبی‪ ،‬سماجی شخصیات کے دلچسپ‬
‫چھوٹے چھوٹے ”مزاحیہ خاکے“ شایع کیا کرتے‪ ،‬سنڈے‬
‫میگزین میں یہ تجربہ بھی کامیاب رہا۔جؤ سنڈے سدا‬
‫!جؤ‬
‫سینٹر صفحات“ تو‪،‬کبھی کبھار ہی نرجس ملک ”‬
‫ِ ذہن کا شاہکار ہواکرتے‬‫ِ قلم اور فکر‬
‫کے زور‬
‫ہیں‪،‬زیادہ تر عالیہ کاشف اس ”نیکی جاریہ“کو انجام‬
‫دیا کرتی ہیں‪،‬سو‪ ،‬اس بار مدیرہ صاحبہ نے بڑے پیارے‬
‫انداز میں آخری سطور میں قارئین کو عید کی دعا بھی‬
‫دی‪،‬ایک نیا لفظ ”آسے پاسے“بھی لکھا‪،‬سبحان ہللا‪،‬جزاک‬
‫ہللا!اکثر تم وہ سنہرے‪،‬بھولے بسرے الفاظ استعمال‬
‫پری قدیم تہذیبوں کی روزمرہ‬ ‫کرجاتی ہو جو بھری ُ‬
‫گفتگو کے دمکتے یادگار الفاظ ہوا کرتے تھے‪ ،‬ہللا جانے‬
‫ّا کیا ہے؟ کہاں سُنے‪ ،‬کس نے کہے؟ لکھے؟‬
‫یہ معم‬
‫پڑھائے؟؟؟‬
‫کہی ان کہی“ میں شفق نے نیلم یوسف سے بڑی ”‬
‫دلچسپ مالقات کروائی‪ ،‬واقعی نیلم کی چڑی‪ ،‬مینا‪،‬‬
‫بلبل والی باتوں میں انٹرویو کی طوالت کا احساس تک‬
‫نھیں ہوا اور قاری تحریر کے ساتھ ساتھ اپنے ذہن‬
‫میں گویا مناظر بھی تخلیق کرتا رہا۔‬
‫منور مرزا ”حاالت و واقعات“ میں پیش کئے‬
‫جانے والے ماہرانہ تجزئے کو پہلے بھی ایک دو بار‬
‫اپنی تحریروں میں سرسری بیان کرچکے تھے‪ ،‬لیکن اس‬
‫مرتبہ‪،‬انھوں نے بڑی معنی خیز‪ُ،‬‬
‫پر فکر تصویر کے ساتھ‬
‫بہترین حقیقت آشکار کردی کہ ”جمہوریت کیا ہوا کرتی‬
‫ہے اور الیکشن اور سلیکشن میں کس ”دباؤ“ کا فرق‬
‫!!ہے!“ویل ڈن مرزاصاحب‬
‫پیارا گھر“ میں مسلسل چوتھے ہفتہ ڈاکٹر ”‬
‫صاحب کی تحریر دیکھ کر اور اپنی ننھی‪ ،‬معصو م‪،‬‬
‫تاریخی‪ ،‬ادبی اور اسالمی تحریر نہ پا کر منھ تو‬
‫لٹکا ہی (مزید)لیکن نادیہ ناز غوری صاحبہ کو بڑے‬
‫طویل عرصے بعد اپنے گھر میں پاکر چہرے پر مسکراہٹ‬
‫ٰ مقصود! بٹیا‪ ،‬کچھ ایک آدھ نمکین‬‫پھیل گئی‪ ،‬عظمی‬
‫پکوان بھی لکھ دیتیں‪ ،‬سارے ہی میٹھے ہیں‪،‬‬

‫‪2‬‬

‫ڈائجسٹ“ کی معصومانہ‪ ،‬گھریلو اور مسکراتی ”‬


‫تحریروں کا جواب نھیں‪ ،‬کنول بہزاد‪،‬محمد عادل‪،‬وارث‬
‫علی نثر و نظم اور بہت سے دوست لطیفے بھی سجا الئے‪،‬‬
‫پر لطف ہیں‪ ،‬کنول کی تحریر‬ ‫واہ وا! نظمیں بہت ہی ُ‬
‫شروع میں ذرا عید کے مزاج کے خالف لیکن آخر میں‬
‫دور کرگئی۔‬‫ِلے ُ‬
‫”کھلکھال“گئی۔گلے مل کر گ‬
‫متفرق“ میں ڈاکٹر معین الدین عقیل اور ”‬
‫ڈاکٹر ناظر نے پروفیسر ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کے‬
‫ُن کی علمی‪ ،‬اجتہادی اور تحقیقی شخصیت کے‬
‫فن اور ا‬
‫کئی گوشوں پر روشنی ڈالی‪ ،‬شکریہ ڈاکٹر‬
‫صاحبان!مختصر لیکن ُ‬
‫پر اثرمضامین کی تصاویر بھی‬
‫عمدہ ہیں‪،‬‬
‫ِ فراموش“ کا ہفتہ بھر انتظار رہتا ”‬
‫ناقابل‬
‫ہے‪ ،‬یہ صفحہ زندگی کو زندگی سے جوڑدینے والی‬
‫کہانیوں سے سجا ہوتا ہے اور اس ہفتہ کسی ای میل کے‬
‫جواب میں انکشاف کیا گیاہے کہ محترمہ رعنا فاروقی‬
‫پورا واقعہ‪ُ ،‬‬
‫پوری کہانی خود ہی لکھ‬ ‫ِ ادارت میں ُ‬
‫زور‬
‫دیتی ہیں‪ ،‬بھئی تو اس بار ہم بھی اپنی بیوی کے نام‬
‫سے‪،‬تحریک پاکستان اور آزادیئ پاکستان کے موضوع پر‬
‫ایک تحریر کا ”عنوان“لکھ کر بھیج رہے ہیں‪،‬دیکھئے‬
‫رعنا بہن‪،‬بھاوج کی مروت میں کیسی کہانی ”کاڑھتی“‬
‫ہیں؟ معصومہ اور ظہیر انجم کی کہانیاں نہایت دلچسپ‬
‫ً یہ رعنا صاحبہ کی‬
‫اور ایک روانی میں ہیں‪ ،‬غالبا‬
‫محنت ”منصور کے پردے میں“ بول رہی ہے!واہ وا‪”،‬ایک‬
‫ِ عید‪،‬اپنے پیاروں کے نام“اپنے تمام رنگوں کے‬
‫پیغام‬
‫ساتھ سجا ہوا تھا‪،‬شاید ہی کوئی ”رشتہ ناتا“ بچا ہو‬
‫ِ عید شامل نہ کیا گیا ہو۔‬
‫جس کے نام پیغام‬
‫پرانے ناموں کے ”نامہ ہا“سے سجا”آپ کا‬‫نئے‪ُ ،‬‬
‫ِیکا‪ ،‬جھومر‬ ‫صفحہ“ تو سن ڈے میگزین کے ماتھے کا ٹ‬
‫ُھومراگر ”نامے“ہیں تو‪،‬‬‫ہئی ہے‪ ،‬ج‬
‫ٹیکے‪،‬تاویتریاں‪،‬گولڑیاں ”ای۔نامے“ اور مدیرہ کے‬
‫جوابات‪،‬سُنار کی وہ ”زری تلے دانی“ہے‪ ،‬جس میں‬
‫خاندانی زیور‪،‬نسل در نسل‪،‬دلہن در دلہن‪ ،‬بہو در بہو‬
‫سینتے اور نوازے جاتے تھے۔سارے ہی نامے محبت‪،‬‬
‫مروت‪ ،‬اخالص اور محنت کا منھ بولتا ثبوت ہیں‪ ،‬سلیم‬
‫راجا تو تختِ صدارت کا ”مخملی گاؤ تکیہ“ چھوڑے نھیں‬
‫چھوڑ رہے کہ کوئی ”بوڑھاولن“ بھی پیٹھ ٹیک لے‪،‬‬
‫ُمیدیں پڑھ کر ہللا جانے‬
‫خادم ملک کی حکومتِ بے وقت سے ا‬
‫کیوں آنکھیں ُ‬
‫دھندال گئیں؟ بس کہیں آنسو‪ ،‬کہیں‬
‫مسکراہٹیں‪ ،‬کہیں قہقہے‪ ،‬یہی ہے ہم ”بنجاروں کی‬
‫اپنی محفل“ جسے دنیائے ادب ”آپ کا صفحہ“ کہا کرتی‬
‫ہے۔‬
‫ِ فخربیٹی!! صحافت کے‬‫اے مدیرہ لڑکی!میری قابل‬
‫پر آشوب دور میں ایسا مکمل‪ ،‬مربوط‪ ،‬گھریلو‪،‬‬‫ایسے ُ‬
‫بہترین ”سن ڈے عید میگزین“سجا النا کہ جس میں محض‬
‫گنتی کے چند اشتہاری صفحات کا اضافہ ہوا‪ ،‬اور جو‬
‫واقعی گھر کے ہر فرد کے لئے عید کا ایک یادگار‬
‫تحفہ تھا‪،‬صحافتی ادب کی نادر و یادگار مثال‬
‫ِ گر رنج فزاء“ کی دعا ہے کہ ہللا آپ سب‬
‫ہے‪،‬مجھ‪”،‬بیداد‬
‫کا ہر دن عید اور ہر شب‪ ،‬شب برأت کردے‪ ،‬خوشیوں اور‬
‫وافر ترین رزق حالل کے بحر بیکراں کے کنارے آپ کے‬
‫ٰ‬
‫یں‪،‬الہی آمین‪،‬‬ ‫کنارہئ ہستیِ سے پیوستہ و متعلقہ رہ‬
‫بہت بہت عید مبارک!! (مجیب ظفرانوارحمیدی‪ ،‬کراچی)‬

You might also like