You are on page 1of 4

‫الر ِحی ِْم‬ ‫الر ْحمٰ ِن َّ‬ ‫ّللاِ َّ‬ ‫ِبس ِْم ہ‬

‫اء اوه اُو الس َِّمی ُع ْالعا ِل ْی ُم"‬ ‫ض او اَل فِي ال َّ‬
‫س ام ِ‬ ‫اي ٌء فِي ْاْل ا ْر ِ‬‫ض ُّر ام اع اس ِْم ِه ش ْ‬ ‫ّللاِ الَّذِي اَل يا ُ‬ ‫بِس ِْم َّ‬
‫ض ُّر ام اع اس ِْم ِه ۔۔۔۔۔ " کے معجزات‬ ‫ّللاِ الَّذِي اَل اي ُ‬ ‫" ِبس ِْم َّ‬
‫اء اوه اُو الس َِّمی ُع ْال اع ِل ْی ُم‬ ‫ض او اَل فِي ال َّ‬
‫س ام ِ‬ ‫اي ٌء فِي ْاْل ا ْر ِ‬ ‫ش ْ‬
‫ايک حديث میں آيا ہے کہ‪ :‬جو شخص صبح کے وقت وہ خاص دعا پڑه لے تو شام تک‬
‫اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا‪ ،‬اور جو شخص شام کو پڑه لے تو صبح تک اسے کوئی‬
‫ش ْي ٌء فِي‬ ‫ض ُّر ام اع اس ِْم ِه ا‬ ‫ّللا الَّذِي اَل يا ُ‬‫نقصان نہیں پہنچے گا‪ :‬دعا کے الفاظ يہ ہیں‪" :‬بِس ِْم َّ ِ‬
‫اء اوه اُو الس َِّمی ُع ْال اع ِل ْی ُم"کچھ کتابوں میں يہ بھی منقول ہے کہ ابو درداء‬ ‫س ام ِ‬ ‫ض او اَل ِفي ال َّ‬ ‫ْاْل ا ْر ِ‬
‫رضی ہللا عنہ يہ دعا پابندی سے پڑها کرتے تھے‪ ،‬اور جس عالقے میں ابو درداء رضی‬
‫ہللا عنہ رہائش پذير تھے وہاں پر آگ بھڑک اٹھی تو آپ کے گھر کے اردگرد سب مکان‬
‫خاکستر ہو گئے‪ ،‬لیکن آپ کا گھر بالکل سالمت رہا۔‬
‫ابان بن عثمان بیان کرتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی ہللا عنہ کہتے ہیں‪ :‬میں نے رسول‬
‫ّللاِ الَّذِي اَل‬
‫ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا‪( :‬جو شخص تین بار يہ کہے‪ِ " :‬بس ِْم َّ‬
‫اء اوه اُو الس َِّمی ُع ْال اع ِل ْی ُم "[ہللا کے نام سے(میں‬ ‫س ام ِ‬‫ض او اَل فِي ال َّ‬ ‫اي ٌء فِي ْاْل ا ْر ِ‬ ‫ض ُّر ام اع اس ِْم ِه ش ْ‬ ‫يا ُ‬
‫صبح يا شام اسی کی پناہ میں آتا ہوں)‪ ،‬اس کے نام سے زمین و آسمان میں کوئی چیز بھی‬
‫نقصان نہیں ديتی‪ ،‬اور وہ خوب سننے واَل اور جاننے واَل ہے]تو اسے صبح تک کوئی‬
‫اچانک پہنچنے والی تکلیف نہیں پہنچے گی اور جو يہ کلمات صبح کے وقت کہے تو شام‬
‫تک اسے اچانک پہنچنے والی تکلیف نہیں پہنچے گی)‬
‫راوی کہتے ہیں کہ‪ :‬ابان بن عثمان پر فالج کا حملہ ہو گیا اور ايک آدمی جس نے ابان سے‬
‫يہ حديث سنی تھی ابان کی طرف ٹکٹکی بانده کر ديکھے جا رہا تھا تو ابان نے پوچھا ‪ :‬تم‬
‫میری طرف کیسے ديکھ رہے ہو!؟ ہللا کی قسم! میں نے عثمان پر جھوٹ نہیں بوَل اور نہ‬
‫ہی عثمان رضی ہللا عنہ نے نبی صلی ہللا علیہ وسلم پر جھوٹ بوَل تھا‪ ،‬اصل بات يہ ہے کہ‬
‫جس دن مجھ پر فالج کا حملہ ہوا ہے میں غصے میں تھا اور يہ دعا پڑهنا بھول گیا۔‬
‫ابو داود (‪ )5088‬اور ترمذی نے اس روايت کو حديث نمبر‪ )3388( :‬میں ان الفاظ کے ساتھ‬
‫ذکر کیا ہے‪:‬‬
‫ش ْي ٌء فِي‬ ‫ض ُّر ام اع اس ِْم ِه ا‬ ‫َّ‬
‫ّللا الذِي اَل اي ُ‬ ‫(جو شخص روزانہ تین صبح اور شام کہے‪ِ " :‬بس ِْم َّ ِ‬
‫اء اوه اُو الس َِّمی ُع ْالعا ِل ْی ُم "[ہللا کے نام سے(میں صبح يا شام اسی کی پناہ‬ ‫س ام ِ‬ ‫ض او اَل فِي ال َّ‬ ‫ْاْل ا ْر ِ‬
‫میں آتا ہوں)‪ ،‬اس کے نام سے زمین و آسمان میں کوئی چیز بھی نقصان نہیں ديتی‪ ،‬اور وہ‬
‫خوب سننے واَل اور جاننے واَل ہے]تو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا)‬
‫روايت ذکر کرنے کے بعد امام ترمذی رحمہ ہللا کہتے ہیں‪ :‬يہ حديث "حسن اور غريب‬
‫ہے" اس حديث کو ابن قیم رحمہ ہللا نے " زاد المعاد " (‪ )338/2‬میں اور البانی رحمہ ہللا‬
‫نے "صحیح ابو داود " میں صحیح قرار ديا ہے۔‬
‫ڈاکٹر عبد الرزاق البدر حفظہ ہللا(دمشق) کہتے ہیں‪:‬‬
‫"يہ دعا ان عظیم اذکار میں سے ہے جن کی ہر مسلمان کو صبح اور شام کے وقت پابندی‬
‫کرنی چاہیے‪ ،‬تا کہ ہللا تعالی کے حکم سے اچانک پہنچی والی بالؤں مصیبتوں اور‬
‫نقصانات وغیرہ سے محفوظ رہے۔‬
‫قرطبی رحمہ ہللا اس حديث کے بارے میں کہتے ہیں‪ :‬يہ حديث صحیح ہے‪ ،‬يہ حديث‬
‫صادق و امین صلی ہللا علیہ وسلم کی ہے اس پر ہمیں دلیل اور تجربے ہر دو طرح سے‬
‫اطمینان ہے؛ کیونکہ میں نے جب سے يہ روايت سنی تھی میں پابندی سے يہ دعا پڑها‬
‫کرتا تھا ‪ ،‬پھر جب مجھ سے چھوٹ گئی تو مجھے مدينہ میں رات کے وقت ايک بچھو نے‬
‫کاٹ لیا‪ ،‬تو میں نے خوب سوچ و بچار کی تو مجھے ياد آيا کہ میں نے ان کلمات کے‬
‫ذريعے ہللا تعالی کی پناہ حاصل نہیں کی تھی" انتہی‬
‫ديکھیں‪ " :‬الفتوحات الربانیة " از‪ :‬ابن عالن (‪)100/3‬‬
‫يہ دعا پڑهنے کیلیے سنت يہی ہے کہ صبح و شام تین ‪ ،‬تین بار اسے پڑها جائے‪ ،‬نبی‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم نے اسے پڑهنے کیلیے يہی عدد بتاليا ہے۔‬
‫اء"‬
‫س ام ِ‬ ‫ش ْي ٌء ِفي ْاْل ا ْر ِ‬
‫ض او اَل ِفي ال َّ‬ ‫ض ُّر ام اع اس ِْم ِه ا‬ ‫نبی صلی ہللا علیہ وسلم کا فرمان‪ " :‬الَّذِي اَل اي ُ‬
‫اس کا مطلب يہ ہے کہ‪ :‬جو شخص بھی ہللا تعالی کا نام لے کر اس کی پناہ میں آتا ہے تو‬
‫اسے آسمان يا زمین کسی بھی جانب سے کوئی مصیبت نہیں پہنچتی۔‬
‫اسی طرح نبی صلی ہللا علیہ وسلم کا فرمان‪ " :‬اوه اُو الس َِّمی ُع ْال اع ِل ْی ُم " اس کا مطلب يہ ہے کہ ‪:‬‬
‫ہللا تعالی اپنے بندوں کی باتوں کو سننے واَل ہے‪ ،‬بندوں کے افعال جاننے واَل ہے‪ ،‬ہللا‬
‫تعالی کے سامنے کسی کا کوئی عمل چاہے وہ زمین میں ہو يا آسمان میں ہللا تعالی سے‬
‫اوجھل نہیں ہو سکتا۔‬
‫نیز صحیح مسلم میں ابو ہريرہ رضی ہللا عنہ سے ثابت ہے کہ وہ کہتے ہیں‪" :‬ايک آدمی‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس آيا اور کہا‪ :‬يا رسول ہللا! مجھے کل رات ايک بچھو‬
‫نے ڈنگ مار ديا ہے‪ ،‬تو اس پر آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمايا‪( :‬اگر تم شام کے وقت‬
‫ت ِم ْن ش ِ ہار اما اخلاقا"[میں تمام مخلوقات کے شر سے ہللا‬ ‫ہللا التَّا َّما ِ‬
‫ت ِ‬ ‫کہہ ديتے‪ " :‬أا ُ‬
‫عوذُ ِب اك ِل اما ِ‬
‫تعالی کے کامل کلمات کے ذريعے اسی کی پناہ چاہتا ہوں ] تو تمہیں بچھو ڈنگ نہ مارتا)"‬
‫مسلم‪)2709( :‬‬
‫اور اسی طرح ترمذی کی روايت میں ہے کہ‪:‬‬
‫ت ِم ْن ش ِ ہار اما اخلاقا " [میں‬ ‫عوذ ُ بِ اك ِل اما ِ‬
‫ت ہللاِ التَّا َّما ِ‬ ‫(جو شخص شام کے وقت تین بار کہے‪ " :‬أا ُ‬
‫تمام مخلوقات کے شر سے ہللا تعالی کے کامل کلمات کے ذريعے اسی کی پناہ چاہتا ہوں‬
‫]تو اس رات کوئی بھی زہريلی چیز اسے نقصان نہ دے) ترمذی‪)3604( :‬‬
‫حديث کے عربی متن میں " اا ْل ُح امةُ "کا لفظ ہے جس کا معنی ہے‪ :‬کوئی بھی زہريلی چیز‬
‫مثالً‪ :‬بچھو وغیرہ ۔‬
‫امام ترمذی رحمہ ہللا نے سہیل بن ابو صالح –مذکورہ حديث کے راوی‪-‬کی يہ روايت ذکر‬
‫کر کے ذکر کیا کہ ‪ :‬سہیل بن ابو صالح کہتے ہیں‪ :‬ہمارے تمام بچوں اور گھر والوں نے يہ‬
‫دعا سیکھی ہوئی تھی ‪ ،‬چنانچہ سب گھر والے روزانہ ہر رات کو يہ دعا پڑها کرتے تھے‪،‬‬
‫ايک رات ايک بچی کو بچھو نے ڈنگ مارا تو بچی کو کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔‬
‫يہ حديث اس دعا کی فضیلت کیلیے دلیل ہے‪ ،‬چنانچہ جو شخص شام کے وقت يہ دعا‬
‫پڑهے تو وہ ہللا تعالی کے حکم سے سانپ کے ڈسنے يا بچھو وغیرہ کے ڈنگ مارنے سے‬
‫محفوظ رہے گا" انتہی مختصرا ً‬
‫" فقه اْلدعیة واْلذكار " (‪)12-14/3‬‬
‫ہللا تعالی کے حکم سے نقصانات اور مصیبتوں سے بچاؤ کا ذريعہ بننے والے اذکار میں‬
‫عبد ہللا بن خبیب رضی ہللا عنہ کی روايت بھی شامل ہے‪ ،‬آپ کہتے ہیں‪" :‬ہم ايک اندهیری‬
‫اور سخت بارش والی رات میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو تالش کرنے کیلیے نکلے‬
‫تا کہ آپ نماز پڑها ديں‪ ،‬تو ہم نے آپ کو تالش کر لیا‪ ،‬آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے ہم سے‬
‫پوچھا‪( :‬کیا تم نے نماز پڑه لی ہے؟) تو اس پر میں نے کچھ نہیں کہا‪ ،‬پھر آپ صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم نے فرمايا‪( :‬کہو) میں نے کچھ نہیں کہا ‪ ،‬دوسری بار پھر آپ صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم نے فرمايا‪( :‬کہو) میں نے کچھ نہیں کہا ‪ ،‬تیسری بار پھر آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫فرمايا‪( :‬کہو) تو میں نے کہا ہللا کے رسول کیا کہوں؟ اس پر آپ ﷺ نے فرمايا‪( :‬تم سورہ‬
‫اخالص ‪ ،‬سورہ الفلق اور سورہ الناس صبح اور شام تین ‪ ،‬تین بار پڑهو‪ ،‬يہ تمہیں ہر چیز‬
‫سے کافی ہو جائیں گیں)"‬
‫ابو داود ‪ )5082( :‬اور ترمذی‪ )3575( :‬نے اسے روايت کیا ہے اور ترمذی رحمہ ہللا نے‬
‫اس حديث کو "حسن صحیح اور غريب" قرار ديا‪ ،‬جبکہ نووی رحمہ ہللا نے اسے‬
‫"اْلذكار" (ص‪ )107/‬میں صحیح اَلسناد کہا ہے۔‬
‫خالصہ يہ ہے کہ‪ :‬مذکورہ باَل دعائیں اور اذکار ہللا تعالی کے حکم سے مسلمان کو ہمہ‬
‫قسم کے نقصان اور تکلیف سے تحفظ فراہم کرتی ہیں‪ ،‬تاہم يہ تحفظ ہللا تعالی کی مشیئت‬
‫کے ساتھ منسلک ہے‪ ،‬چنانچہ اگر کسی شخص کو ان اذکار کے پڑهنے کے باوجود کوئی‬
‫تکلیف پہنچ جائے تو يہ ہللا تعالی کی مشیئت اور فیصلے کے تحت ہوتا ہے‪ ،‬يہ ہللا تعالی‬
‫کی کمال حکمت اور اس کی بنائی ہوئی تقدير کے مطابق ہوتا ہے‪ ،‬ہللا تعالی کا فرمان ہے‪:‬‬
‫ظوناهُ ِم ْن أ ا ْم ِر َّ ِ‬
‫ّللا )‬ ‫( لاهُ ُم اع ِہق اباتٌ ِم ْن ابی ِْن ايدا ْي ِه او ِم ْن خ ْال ِف ِه اي ْحفا ُ‬
‫ترجمہ‪ :‬اس کے پہرے دار انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں‪ ،‬جو ہللا کے حکم سے اس کی‬
‫نگہبانی کرتے ہیں ۔[الرعد‪]11:‬‬
‫اس آيت کی تفسیر میں عکرمہ رحمہ ہللا ابن عباس رضی ہللا عنہما سے کہتے ہیں کہ‪" :‬‬
‫ّللا" سے مراد وہ فرشتے ہیں جو انسان کو آگے پیچھے سے تحفظ فراہم‬ ‫ظوناهُ ِم ْن أا ْم ِر َّ ِ‬ ‫يا ْحفا ُ‬
‫کرتے ہیں لیکن جب ہللا تعالی کی طرف سے تقديری فیصلہ آ جائے تو کنارہ کشی اختیار‬
‫کر لیتے ہیں۔‬
‫اور اسی طرح مجاہد رحمہ ہللا کہتے ہیں ‪ :‬ہر انسان پر ايک موکل فرشتہ ضرور ہوتا ہے‪،‬‬
‫يہ فرشتہ اس انسان کو سوتے اور جاگتے جناتی يا انسانی شیطانوں سے تحفظ ديتے ہیں‪،‬‬
‫چنانچہ کوئی بھی چیز انسان کو نقصان پہنچانے کیلیے آتی ہے تو يہ موکل فرشتہ اسے‬
‫کہتا ہے‪" :‬الٹے قدموں واپس ہو جاؤ" لیکن جو چیز ہللا تعالی کے حکم سے آئے تو وہ اس‬
‫انسان کو پہنچ کر رہتی ہے۔‬
‫"تفسیر ابن کثیر" (‪)438/4‬‬
‫طلق بن حبیب کہتے ہیں کہ ‪:‬‬
‫ايک شخص ابو درداء رضی ہللا عنہ کے پاس آيا اور کہا‪ :‬ابو درداء تمہارا گھر خاکستر ہو‬
‫گیا ہے!‬

‫تو ابودرداء رضی ہللا عنہ نے جواب ديا‪" :‬میرا گھر نہیں جال‪ ،‬ہللا تعالی میرے گھر کو نہیں‬
‫جالئے گا؛ کیونکہ میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے ايک دعا سنی ہے‪ ،‬جو‬
‫شخص اس دعا کو دن کی ابتدا میں پڑے تو اسے شام تک کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی‪،‬‬
‫اور جو اسے شام کو پڑهے تو اسے صبح تک کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی‪" :‬اللھم أنت‬
‫ربي ‪َ ،‬ل إله إَل أنت ‪ ،‬علیك توكلت ‪ ،‬وأنت رب العرش العظیم‪ ،‬ما شاء ہللا كان ‪ ،‬وما لم يشأ لم‬
‫يكن ‪َ ،‬ل حول وَل قوة إَل باهلل العلي العظیم ‪ ،‬أعلم أن ہللا على كل شيء قدير ‪ ،‬وأن ہللا قد أحاط‬
‫بكل شيء علما ‪ ،‬اللھم إني أعوذ بك من شر نفسي ‪ ،‬ومن شر كل دابة أنت آخذ بناصیتھا ‪ ،‬إن‬
‫ربي على صراط مستقیم""‬
‫اسے ابن السنی نے " عمل الیوم واللیلة " ‪ )57(:‬میں‪ ،‬طبرانی نے " الدعاء " ‪ )343( :‬میں‬
‫اور بیہقی نے ‪ ":‬دَلئل النبوة " (‪ )121/7‬میں اغلب بن تمیم ‪ ،‬حجاج بن فرافصۃ‪ ،‬طلق بن‬
‫حبیب کی سند سے بیان کیا ہے۔‬
‫ابن جوزی رحمہ ہللا کہتے ہیں‪:‬‬
‫"يہ حديث ثابت نہیں ہے؛ اس کی سند میں "اغلب "نامی راوی ہے ‪ ،‬جس کے بارے میں ‪:‬‬
‫يحیی بن معین رحمہ ہللا کہتے ہیں‪" :‬لیس بشيء "[اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے]‬
‫امام بخاری رحمہ ہللا کہتے ہیں‪ " :‬منكر الحديث "[وہ منکر الحديث ہے‪ ،‬يعنی سخت ضعیف‬
‫ہے]" انتہی‬
‫" العلل المتناهیة " (‪)352/2‬‬
‫حافظ ابن حجر رحمہ ہللا نے اسے " نتائج اْلفكار " (‪ )401/2‬میں ضعیف قرار ديا ہے۔‬
‫شیخ البانی رحمہ ہللا کہتے ہیں‪:‬‬
‫"اس کی سند سخت ضعیف ہے‪ ،‬اس کی سند میں راوی "اغلب" کے بارے میں امام بخاری‬
‫وغیرہ کہتے ہیں‪ " :‬منكر الحديث "[وہ منکر الحديث ہے] جبکہ حجاج بن فرافصہ بھی‬
‫کمزور راوی ہے " انتہی‬
‫" السلسلة الضعیفة " (‪)6420‬‬
‫وہللا اعلم‪.‬‬
‫تحقیق و تحرير‪:‬‬
‫پروفیسرڈاکٹرسیہدمجیب ظفرانوارحمیدی‬

You might also like