Professional Documents
Culture Documents
آپ کا صفحہ ‘‘ ،جنگ سن ڈے میگزین ،اشاعت 19جنوری تا 25جنوری 2020ء ’’ ،
کراچی اِڈیشن
َوعلیکم السالم!
ہر ہفتے نت نئے خیاالت و افکار کو پیش کرنا اور اپنی رائے کو منوانا،اپنی کہی گئی بات
کو جمانا ،اور بات قارئین کے جی کو لگانا بھی کسی ’’کمال‘‘ سے کم نہیں اور سن ڈے
میگزین کی اَن دیکھی ُمدیرہ یہ کمال اکثر کرتی ہی رہتی ہیں ،اُنیس جنوری کا تازہ شمارہ،
’’پھول خود اپنے میں ُگم میں ‘‘ کے نرگسیت پرست ٹیگ کے ساتھ مال ،ہم نے یہ غور کیا
،کہ ،اگر مناسب موقع پر وہی بات جو الکھ جھنڈے پر چڑھ چکی ہو ،مناسب سلیقے اور
دفاع کے ساتھ کی جائے تو اُس بات کا ُحسن دو آتشہ سے سہہ آتشہ ہوجاتا ہے ،یہی مدیرہ
کے قلم کا کمال ہے کہ اِس قلم نے کبھی بھی ہار نہیں مانی ،اپنی غلطیاں بھی تسلیم کیں
قارئین میگزین کو
ِ ،لیکن’سیکھنے ‘‘ کا عمل بھی جاری رکھا ،اِن تمام مشقوں سے گزر کر
ِسکھانے کی مساعی بھی جاری و ساری رکھیں ،سوشل میڈیا کے اِس سیالبی ریلے میں
کسی صاحب الرائے کو کچھ ِسکھادینا یا اپنی بات کو سلیقے سے پیش کرکے منوالینا،
مدیرہَ سن ڈے میگزین اورمیگزین کے لکھاریوں کا کمال ہے ،جو کسی عبادت سے کم
نھیں ،کیونکہ ہم وہ بد نصیب قوم نُما افراد ہیں جو،لفظ ’’ عبادت ‘‘تک کا مفہوم سمجھنے
ت ازل‘‘ سے قاصر ہیں ۔ مجھے معلوم ہے میری یہ سطور ایڈٹ ہوجائیں گی یا ’’ طوال ِ
کے شور میں دَب جائیں گی ،لیکن بات وہی ہے جو چلی بھی جائے اور چندرا کر کہہ بھی
دی جائے ،تم ایک کامیاب ترین مدیرہ ہو ،اِس میں کوئی دوسری بات نہیں ،لیکن ہم بار بار
ایک ہی کرب کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ دُنیا اور خاص کر تمہاری میڈیائی دنیا بڑی ہی
ظالم ہے ،اِس نے خواتین صحافیوں کی ایک وقیع کھیپ کی قدر نہیں کی،گزشتہ نصف
زریں ،
مجتبی مینا ،شمع زیدی،زیبابر نی ،مہناز رحمٰ ن ،شائستہ ّ
ٰ صدی سے ،نشاط آپا،بنت
سیدہ نقوی ،تابندہ الری ،صفیہ ملک ،حمیرا اطہر ،رعنا فاروقی ،سعیدہ افضل ،صوفیہ
یزدانی،د ُِر شہوار قادری وغیرہ وغیرہ ( بے شمار نام ہیں )کسی کی قدر نہ کی ،اِن خواتین
’’مکتبہ فکر ‘‘ تھا ،جس میں وہ حتی المقدور اِسی ’’بات‘‘ کی اہمیت اوراس کو
َ کا اپنا اپنا
سمجھنے ،کہنے ،اور لکھنے پر زور دیا کرتیں ،اِن ناموں میں کئی نام میرے استاد بھی
رہے ،جن کی فکر سے ،جن کی گفتگو سے ہم جیسے اناڑیوں نے دوچار الفاظ سیکھے،
نرجس ! ایک خاص بات اُن سب خواتین مدیران میں محسوس یہ کی کہ سب کی سب
انتہائی شائستہ اور مہذب ،نرمی گفتار اور باکردار ،بات کو سمجھنے ،سمجھانے والی،
ایک ہماری ہللا سالمت رکھے رضیہ فرید بہن کو ،ہمیشہ جاہ و جالل کی حالت میں رہیں ،
شعبہ میگزین جانا
َ جب کبھی ہمارا ،جنگ میگزین کا دفتراندر سے دیکھنے کی للک میں
ہوا ،اپنے شیشے کے کیبنی دفتر میں رضیہ فرید صاحبہ کو مصروف پایا ،دو ٹوک بات
سنا ،ایک بار میں نے اِن کے تلخ رویے سے تنگ آکر نیچے اُتر کر چیخ کر کہا کرتے ُ
تھا ،ارے رضیہ بی بی خدا کو مانو! لوگ تو نواز شریف کے د ُشمن ہورہے ہیں اور آپ ’’
مزاج شریف ‘‘ کی ،جنگ استقبالئے پر بیٹھی لڑکی مسکرانے لگی تو میں نے کہا ،ارے
لڑکی ! نوکری سے جائے گی اگر اُنہوں نے دیکھ لیا تو ،خاتون کومجھ سے خدا واسطے
کی ناراضگی ہے ،آج تک مجھے نہیں یاد پڑتا کہ اُنہوں نے میرا کوئی مضمون بھو ل کر
بھی شایع کیا ہو اور ایک ہماری اُس وقت کی شمع زیدہ باجی تھیں ( ہللا اُنھیں تا قیامت
سودہ حال رکھے،آمین ،ہللا جانے کہاں ہیں اِن دنوں ،میرا تو جی ہوال جاتا ہے سالمت اور آ ُ
کہ شمع باجی تو بالکل ہی غائب ہوگئی ہیں ،جس سے پوچھو ،وہ غافل ،اپنی دنیا میں
مگن) میری ہر تحریر شمع زیدی باجی منٹوں میں پڑھ لیتیں ،ساتھ رکھی پینسل یا پین سے
سرخ قلم سے لکھتیں اور کچھ ترامیم کرتیں ،ایف چھ ،ایف بارا ،ایف اٹھارہ نجانے کیا کیا ُ
اگلے ہفتے کہانی ،مضمون شایع ،میرا دل چاہتا کہ اپنی شمع باجی کو سونے چاندی میں
تول دوں ،لیکن اُس وقت پیسہ نہ تھا ،میں ایک اسکول میں پڑھاتا تھا واٹر پمپ کے ،آہستہ
آہستہ عسکری کالجوں سے پڑھاتا اوپر آیا تو شمع زیدی باجی غائب ہوگئیں ۔ اُن کی عمر
زیادہ نہیں تھی لیکن ہم ہندُستانی تعظیم ہی بھائی ،باجی ،بھائی جان ،باجی جان ،آپی جسے
خطابات سے کرتے ہیں ،اب تم چیخو گی کہ پھر شروع ہوگیا ’’ میں نامہ‘‘ ،ارے لڑکی !
میں نے وہ زندگی گزاری ہے جو آج کل کی بوگس نسل تصور بھی نہیں کرسکتی ،ہم لُٹے
پُٹے مہاجروں کی ا ولین اوالدوں میں شامل لوگ ،اپنا آپ اپنے میرٹ کے زور پر منوا کر
آگے آئے ،ورنہ ہ میں کون پوچھتا اس ظالم سفاک دُنیا میں ۔
تمہاراسن ڈے میگزین ملتے ہی ہمارے دل کی کلی کھل جاتی ہے ،ہفتہ کی شب سے خواب
میں سنڈے میگزین پڑھتا اور اپنا خط تالشتا رہتا ہوں اور پڑھنے کے بعد چیخ مار کر کہتا
ہوں ’’:ارے خدا کا شکر ہے کہ یہ مدیرہ سرجن یا کسان نہیں ہوئی ،ورنہ مخلوط انسانوں
اور فصلوں کا ڈھیر لگا دیتی کہ ہر ہفتہ ،اس قدر محنت اور اذیت سے لکھے اور پوسٹ
‘‘!کردہ میرے دو تین خطوط کو ُچوں ُچوں کا مربّا بنا کر شایع کردیا ،ظلم کی انتہا ہے