You are on page 1of 6

‫بسم ہللا الرحمٰ ن الرحیم‬

‫آپ کا صفحہ ‘‘‪ ،‬جنگ سن ڈے میگزین‪ ،‬اشاعت‪ 19‬جنوری تا ‪ 25‬جنوری ‪2020‬ء ‪’’ ،‬‬
‫کراچی اِڈیشن‬

‫محترمہ نرجس ملک ‪ ،‬ایڈیٹر ‪ :‬جنگ سن ڈے میگزین‪ ،‬کراچی‬

‫َوعلیکم السالم!‬

‫ہر ہفتے نت نئے خیاالت و افکار کو پیش کرنا اور اپنی رائے کو منوانا‪،‬اپنی کہی گئی بات‬
‫کو جمانا‪ ،‬اور بات قارئین کے جی کو لگانا بھی کسی ’’کمال‘‘ سے کم نہیں اور سن ڈے‬
‫میگزین کی اَن دیکھی ُمدیرہ یہ کمال اکثر کرتی ہی رہتی ہیں ‪ ،‬اُنیس جنوری کا تازہ شمارہ‪،‬‬
‫’’پھول خود اپنے میں ُگم میں ‘‘ کے نرگسیت پرست ٹیگ کے ساتھ مال‪ ،‬ہم نے یہ غور کیا‬
‫‪ ،‬کہ‪ ،‬اگر مناسب موقع پر وہی بات جو الکھ جھنڈے پر چڑھ چکی ہو‪ ،‬مناسب سلیقے اور‬
‫دفاع کے ساتھ کی جائے تو اُس بات کا ُحسن دو آتشہ سے سہہ آتشہ ہوجاتا ہے‪ ،‬یہی مدیرہ‬
‫کے قلم کا کمال ہے کہ اِس قلم نے کبھی بھی ہار نہیں مانی‪ ،‬اپنی غلطیاں بھی تسلیم کیں‬
‫قارئین میگزین کو‬
‫ِ‬ ‫‪،‬لیکن’سیکھنے ‘‘ کا عمل بھی جاری رکھا‪ ،‬اِن تمام مشقوں سے گزر کر‬
‫ِسکھانے کی مساعی بھی جاری و ساری رکھیں ‪ ،‬سوشل میڈیا کے اِس سیالبی ریلے میں‬
‫کسی صاحب الرائے کو کچھ ِسکھادینا یا اپنی بات کو سلیقے سے پیش کرکے منوالینا‪،‬‬
‫مدیرہَ سن ڈے میگزین اورمیگزین کے لکھاریوں کا کمال ہے ‪ ،‬جو کسی عبادت سے کم‬
‫نھیں ‪ ،‬کیونکہ ہم وہ بد نصیب قوم نُما افراد ہیں جو‪،‬لفظ ’’ عبادت ‘‘تک کا مفہوم سمجھنے‬
‫ت ازل‘‘‬ ‫سے قاصر ہیں ۔ مجھے معلوم ہے میری یہ سطور ایڈٹ ہوجائیں گی یا ’’ طوال ِ‬
‫کے شور میں دَب جائیں گی‪ ،‬لیکن بات وہی ہے جو چلی بھی جائے اور چندرا کر کہہ بھی‬
‫دی جائے‪ ،‬تم ایک کامیاب ترین مدیرہ ہو‪ ،‬اِس میں کوئی دوسری بات نہیں ‪ ،‬لیکن ہم بار بار‬
‫ایک ہی کرب کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ دُنیا اور خاص کر تمہاری میڈیائی دنیا بڑی ہی‬
‫ظالم ہے‪ ،‬اِس نے خواتین صحافیوں کی ایک وقیع کھیپ کی قدر نہیں کی‪،‬گزشتہ نصف‬
‫زریں ‪،‬‬
‫مجتبی مینا‪ ،‬شمع زیدی‪،‬زیبابر نی‪ ،‬مہناز رحمٰ ن‪ ،‬شائستہ ّ‬
‫ٰ‬ ‫صدی سے‪ ،‬نشاط آپا‪،‬بنت‬
‫سیدہ نقوی‪ ،‬تابندہ الری‪ ،‬صفیہ ملک‪ ،‬حمیرا اطہر‪ ،‬رعنا فاروقی‪ ،‬سعیدہ افضل‪ ،‬صوفیہ‬
‫یزدانی‪،‬د ُِر شہوار قادری وغیرہ وغیرہ ( بے شمار نام ہیں )کسی کی قدر نہ کی‪ ،‬اِن خواتین‬
‫’’مکتبہ فکر ‘‘ تھا‪ ،‬جس میں وہ حتی المقدور اِسی ’’بات‘‘ کی اہمیت اوراس کو‬
‫َ‬ ‫کا اپنا اپنا‬
‫سمجھنے‪ ،‬کہنے‪ ،‬اور لکھنے پر زور دیا کرتیں ‪ ،‬اِن ناموں میں کئی نام میرے استاد بھی‬
‫رہے ‪ ،‬جن کی فکر سے‪ ،‬جن کی گفتگو سے ہم جیسے اناڑیوں نے دوچار الفاظ سیکھے‪،‬‬
‫نرجس ! ایک خاص بات اُن سب خواتین مدیران میں محسوس یہ کی کہ سب کی سب‬
‫انتہائی شائستہ اور مہذب‪ ،‬نرمی گفتار اور باکردار‪ ،‬بات کو سمجھنے‪ ،‬سمجھانے والی‪،‬‬
‫ایک ہماری ہللا سالمت رکھے رضیہ فرید بہن کو‪ ،‬ہمیشہ جاہ و جالل کی حالت میں رہیں ‪،‬‬
‫شعبہ میگزین جانا‬
‫َ‬ ‫جب کبھی ہمارا‪ ،‬جنگ میگزین کا دفتراندر سے دیکھنے کی للک میں‬
‫ہوا‪ ،‬اپنے شیشے کے کیبنی دفتر میں رضیہ فرید صاحبہ کو مصروف پایا‪ ،‬دو ٹوک بات‬
‫سنا ‪ ،‬ایک بار میں نے اِن کے تلخ رویے سے تنگ آکر نیچے اُتر کر چیخ کر کہا‬ ‫کرتے ُ‬
‫تھا‪ ،‬ارے رضیہ بی بی خدا کو مانو! لوگ تو نواز شریف کے د ُشمن ہورہے ہیں اور آپ ’’‬
‫مزاج شریف ‘‘ کی‪ ،‬جنگ استقبالئے پر بیٹھی لڑکی مسکرانے لگی تو میں نے کہا‪ ،‬ارے‬
‫لڑکی ! نوکری سے جائے گی اگر اُنہوں نے دیکھ لیا تو‪ ،‬خاتون کومجھ سے خدا واسطے‬
‫کی ناراضگی ہے ‪ ،‬آج تک مجھے نہیں یاد پڑتا کہ اُنہوں نے میرا کوئی مضمون بھو ل کر‬
‫بھی شایع کیا ہو اور ایک ہماری اُس وقت کی شمع زیدہ باجی تھیں ( ہللا اُنھیں تا قیامت‬
‫سودہ حال رکھے‪،‬آمین‪ ،‬ہللا جانے کہاں ہیں اِن دنوں ‪ ،‬میرا تو جی ہوال جاتا ہے‬ ‫سالمت اور آ ُ‬
‫کہ شمع باجی تو بالکل ہی غائب ہوگئی ہیں ‪ ،‬جس سے پوچھو ‪ ،‬وہ غافل‪ ،‬اپنی دنیا میں‬
‫مگن) میری ہر تحریر شمع زیدی باجی منٹوں میں پڑھ لیتیں ‪ ،‬ساتھ رکھی پینسل یا پین سے‬
‫سرخ قلم سے لکھتیں اور‬ ‫کچھ ترامیم کرتیں ‪ ،‬ایف چھ‪ ،‬ایف بارا‪ ،‬ایف اٹھارہ نجانے کیا کیا ُ‬
‫اگلے ہفتے کہانی ‪ ،‬مضمون شایع‪ ،‬میرا دل چاہتا کہ اپنی شمع باجی کو سونے چاندی میں‬
‫تول دوں ‪ ،‬لیکن اُس وقت پیسہ نہ تھا‪ ،‬میں ایک اسکول میں پڑھاتا تھا واٹر پمپ کے‪ ،‬آہستہ‬
‫آہستہ عسکری کالجوں سے پڑھاتا اوپر آیا تو شمع زیدی باجی غائب ہوگئیں ۔ اُن کی عمر‬
‫زیادہ نہیں تھی لیکن ہم ہندُستانی تعظیم ہی بھائی‪ ،‬باجی‪ ،‬بھائی جان‪ ،‬باجی جان‪ ،‬آپی جسے‬
‫خطابات سے کرتے ہیں ‪ ،‬اب تم چیخو گی کہ پھر شروع ہوگیا ’’ میں نامہ‘‘‪ ،‬ارے لڑکی !‬
‫میں نے وہ زندگی گزاری ہے جو آج کل کی بوگس نسل تصور بھی نہیں کرسکتی‪ ،‬ہم لُٹے‬
‫پُٹے مہاجروں کی ا ولین اوالدوں میں شامل لوگ‪ ،‬اپنا آپ اپنے میرٹ کے زور پر منوا کر‬
‫آگے آئے‪ ،‬ورنہ ہ میں کون پوچھتا اس ظالم سفاک دُنیا میں ۔‬

‫تمہاراسن ڈے میگزین ملتے ہی ہمارے دل کی کلی کھل جاتی ہے‪ ،‬ہفتہ کی شب سے خواب‬
‫میں سنڈے میگزین پڑھتا اور اپنا خط تالشتا رہتا ہوں اور پڑھنے کے بعد چیخ مار کر کہتا‬
‫ہوں ‪’’:‬ارے خدا کا شکر ہے کہ یہ مدیرہ سرجن یا کسان نہیں ہوئی‪ ،‬ورنہ مخلوط انسانوں‬
‫اور فصلوں کا ڈھیر لگا دیتی کہ ہر ہفتہ ‪ ،‬اس قدر محنت اور اذیت سے لکھے اور پوسٹ‬
‫‘‘!کردہ میرے دو تین خطوط کو ُچوں ُچوں کا مربّا بنا کر شایع کردیا‪ ،‬ظلم کی انتہا ہے‬

‫منور راجپوت نے اوسٹریلیا کے جنگالت کے سوختہ حیوانات کی بے بس اموات پر کئی‬


‫بار کا پڑھا اور سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا موضوع از سر نو تازہ کرکے اچھا لکھا ۔ کئی‬
‫نئے انکشافات کئے‪ ،‬ظاہر ہے صحافی کی نظر سے کیا پوشیدہ ;‪;238‬صحافت سب سے‬
‫مشکل شعبہ ہے اور سوشل میڈیا کے طوفان میں تو یہ محنتی صحافی اپنے فن کو منوانے‬
‫کے لئے بے پناہ محنت کرتے ہیں لیکن زمانہ اِن کی بھی ناقدری کا ہے‪،‬خادم ملک کے‬
‫خطوط پڑھ کر لوگ ہنستے ہیں لیکن ہم روتے ہیں کہ الفاظ کو سوچ کر لکھ دینے اور اپنی‬
‫بات کو پیش کرکے منوالینے واال یہ اَن مول ہیرا بھی اِس پتھریلے دور میں بے روزگار‬
‫ہے‪ ،‬کیسا پُر فتن دور ہے کہ آٹا پچہتر ُرپے کلو ہے‪ ،‬لعنت ہے اس نئے پن اور تبدیلی پر‪،‬‬
‫تعالی!!‬
‫ٰ‬ ‫صدہا کروڑ لعنت ہے ‪ ،‬استغفر ہللا‬
‫محمود میاں نجمی نے غزو َہ احد کا دوسرا ٹکڑا پیش کیا‪ ،‬بہترین منظر نگاری ہے‪ ،‬یُوں‬
‫لگتا ہے کہ نجمی کسی بائی اسکوپ سے ہ میں عہ ِد نبوی ﷺ کو دِکھائے اور بتائے جارہے‬
‫ہیں ‪ ،‬کمال کا لکھ لیتے ہیں ماشاء ہللا ! اور گزرتے دِنوں کے ساتھ اُن کی مشق بہتر ہوتی‬
‫جارہی ہے‪ ،‬الفاظ کے استعمال اور تحریر کے منظر نامے پر گرفت رکھنا بھی بہتر ہوتا‬
‫جارہا ہے ‪،‬‬
‫تاریک انصاف تک کی کتھا بڑی مہارت اور‬ ‫ِ‬ ‫تحریک انصاف سے‬
‫ِ‬ ‫طلعت عمران نے‬
‫سہولت سے پیش کرکے داد حاصل کرلی ہے‪،‬اعداد و شمار اور تصاویر کے ساتھ بہت‬
‫اچھا لکھا ہے ‪ ،‬ویل ڈَن طلعت!‬
‫منور مرزا کے حصے میں حساس ترین اور مشکل بیان موضوعات آتے ہیں ‪،‬اِس ہفتہ’’‬
‫جنرل قاسم سلیمانی کے بعد‘‘ کے دقیق موضوع پر لکھا‪ ،‬یہ امریکا اور ایران کی اپنی‬
‫اَنائی جنگ ہے‪ ،‬امریکا اِس جنگ میں پاکستان کواسالمی غیرت اور حمیت کی بنا َ پر اپنا‬
‫دین حنیف کے نام پر پاکستانی مسلمانوں کو بلیک میل کررہا ہے کہ‬ ‫ُمہرہ بنانا چاہتا ہے اور ِ‬
‫‪،‬اول تو ایران ‪ ،‬پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے‪ ،‬دوم ایران کی اپنی ایک قدیم ترین تاریخ ہے‬ ‫ّ‬
‫ت‬
‫نظریہ مل ِ‬
‫َ‬ ‫جس میں مومنین کو تفوق حاصل ہے‪،‬اسالمی جمہوریہ ایران کی یہ تاریخ‬
‫پاکستان سے نتھی ہے‪،‬مکار جھوٹا امریکا محض اپنی چالبازیوں اور مکاریوں کے جال‬
‫میں غریب پاکستان کو پھنسا کر ‪،‬ایران تک پہنچنے کا راستہ چاہ رہا ہے ‪،‬اور اِس مقصد‬
‫کے حصول کے بعد‪ ،‬پاکستان دودھ سے نکلی مکھی کی حیثیت دوبارہ حاصل کرلے گا‬
‫اور امریکا ‪ ،‬بھارت اور چین کا ہوجائے گا‪ ،‬ہللا اِ س مکاریہودی کا ُروئے زمین سے خاتمہ‬
‫کردے مالک‪،‬آج تک اس ِسفلے(کمینے) نے پاکستان کو سکون کا سانس نہیں لینے دیا‪،‬‬
‫ت مسلمہ پر‬ ‫منور مرزا نے بہت برجستہ لکھ کر بتادیا ہے کہ اِن واقعات کا پاکستان کی اُم ِ‬
‫کیا اثر پڑ سکتا ہے‪ ،‬ظاہر ہے منجھے ہوئے تجزیہ کار ہیں ‪ ،‬ہماری بڑی خواہش ہے کہ ہم‬
‫مدیرہ َ سنڈے میگزین سے‪ ،‬منور راجپوت‪ ،‬منور مرزا اور ایک دو اور صحافی خواتین و‬
‫حضرات سے مالقات کرکے دل بھر کر اُنہیں دیکھیں کہ یہ عام انسان نظر آنے والے لوگ‬
‫کس قدر زرخیز ذہن اور بالیدہ فکر کے مالکان ہیں ‪ ،‬لیکن اگر تو نرجس کو وقت پر دائمی‬
‫جالل آگیا تو وہی چیخ و پُکار اور آہ و فریاد‪ ،‬مجھے تو نرجس سے خوف آنے لگا ہے کہ‬
‫ہللا جانے بھرے مجمع میں مجھے کیا لکھ دے‪ ،‬کہہ دے‪ ،‬اسی لئے اس قدر محتاط لکھتے‬
‫سم رہتے ہیں ‪ ،‬خاموش‬ ‫!! ہیں بابو ! ُگم ُ‬
‫مرکزی صفحات کے ذریعہ عالیہ کو نفاست کے ساتھ دروغ گوئی فرمانے کا فن آگیا ہے‪،‬‬
‫ہاہاہا‪ ،‬دُکھیا ‪ ،‬نت نئے ماڈل کے پیراہنوں اور میک اپ کے وہ اوصاف بھی بیان کردیتی‬
‫ہے جو ماڈل ‪ ،‬کمپنی اور میک اپ آرٹسٹ کے وہم و ُگمان میں بھی نہیں ہوتے ہوں گے ۔‬
‫ایک آدھ شعر بھی نرجس ملک کی پیروی میں ضرور ٹانکا جاتا ہے‪ ،‬بھئی حد ہے‪ ،‬عالیہ‬
‫بیٹی! تم نے ناہید نرگس آنٹی کے پکوان ٹُھکرا کر اچھا نہیں کیا‪،‬بڑی بی تمہارے نام کو‬
‫دیکھتے ہی جلدی سے نرجس ملک کا صفحہ پکڑ لیتی ہیں اور بڑبڑاتی رہتی ہیں ‪ ’’:‬اِس‬
‫ہفتے پیارا گھر کے کھانے پڑھے اِس لڑکی نے ذرا مجھے کوئی ’’ٹوئنکل اسٹار ‘‘ پکا کر‬
‫دکھا دے یا ’’چاکلیٹ فج کیک ‘‘ کو جما کر دکھا دے تو جانوں ‪ ،‬میں نے تو پھر بھی‬
‫انسانی کھانے لکھے تھے‪ ،‬چاہے ہزار بار چھپے ہوں ‪ ،‬لیکن میری تراکیب نئی تھیں ‪ ،‬یہ‬
‫لڑکیاں سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی پکاکر یا مکئی کی روٹی بیل کر دکھادیں تو‬
‫ہوم اکنامکس کے پریکٹیکل کراناچھوڑ دوں گی ڈگری کالسز کو ۔ ‘‘ عالیہ کو اندازہ نھیں‬
‫کہ ایک بے بس بابا پروفیسر ‪ ،‬اِن ہی ہللا مارے ہوم اکنامکس کے اعمال کا صال‪ ،‬پچھلی‬
‫ربع صدی سے بھگت رہا ہے‪،‬ماشاء ہللا ہوم اکنامیکل تجربات جاری و ساری ہیں ‪ ،‬آخر‬
‫میں کوئی بہو ہی چیختی ہے‪ ،‬اِرے اماں ‪ ،‬اب تو چولہا بند کروادیں ‪ ،‬جامع مسجد کے اِمام‬
‫صاحب کی اہلیہ کادومرتبہ فون آچکا ہے کہ ‪،‬ارے بیٹی! اپنی ساس سے کہو کہ اپنے گھر‬
‫میں ہی ہانڈی جاللیا کریں ‪ ،‬میں چار بار باورچی خانے میں جھانک چکی ہوں کہ کہیں‬
‫موالنا صاحب نے حلوا تو نہیں جالدیا‪ ،‬ہاہاہاہا‪ ،‬یہ سچ ہے‪ ،‬تم جھوٹ سمجھ رہی ہو‪ ،‬ہانڈی‬
‫رکھ کے بھول جاتی ہیں اور اپنے گرلز کالج کی شاگردنیوں کے رجسٹر چیک کرتی رہتی‬
‫ہیں ‪ ،‬نتیجتا ً ’’ ہوم اکنامکس ‘‘ کے پریکٹیکل کو آگ لگ جاتی ہے ۔ وہی آگ انگارے ہم‬
‫سر ُجھکا کر کھالیتے ہیں ‪ ،‬کیا کریں ‪ ،‬ہمیشہ پالءو رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر فرماتی‬
‫ہیں ‪’’:‬ارے دم تو لگنے دیتے‪ ،‬ک ّچے چاولوں میں میرا کیا قصور ;‪ ‘‘ ;238‬واقعی کھانے‬
‫والے کا دَم نکل جائے تو کوئی قصور نہیں ‪ ،‬لیکن پالءو کے چاولوں کا دم ہللا جانے کس‬
‫صدی میں نکلنے کو تھا کہ کھالئے‪،‬‬
‫موسم سرما کی مناسبت سے ہائی بلڈ پریشر اور اس کے نتیجے میں‬ ‫ِ‬ ‫ڈاکٹر عبد المالک نے‬
‫ہونے والے فالج اور معذوری کے سبب ہونے والی اموات پر جامع لکھا‪،‬‬
‫پیارا گھر میں شریف الحسن عثمانی اور ڈاءجسٹ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کی تحریر‬
‫کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی‪ ،‬بہترین الفاظ اور اُن کی بہترین بنت ‪ ،‬زندہ جاوید تحریریں‬
‫ہیں ۔ عبد ہللا کو ستائیس ہفتے بِیت گئے‪ ،‬ڈاکٹر معین الدین عقیل کی تحریر ’’قائد اعظم کا‬
‫طرہَ امتیاز ‘‘‪ ،‬مرزا محمد رمضان کی ’’جنگلی حیات‘‘ ماروی باری کی ’’ سندھ کی ہنر‬
‫مند خواتین ‘‘ اور سیدہ تبسم کی ’’یہ شور و ہنگامہ ‘‘ پُر فکر تحریریں ہیں اور وقت اِن‬
‫تحریروں میں دئے ہوئے اسباق کو اپنانے اور ان پر عمل کرنے‬
‫کا ہے‪ ،‬صد افسوس ‪،‬کہ‪ ،‬قوم تہتر برسوں سے ’’کام کم اور باتیں زیادہ ‘‘ کے فارمولے پر‬
‫اٹل ہے‪،‬‬
‫نئی کتابوں پر ڈاکٹر قمر عباس نے تعارف لکھا‪ ،‬وحید الدین سلیم پانی پتی اور پروفیسر بدر‬
‫الدجی خان کے ری پرنٹس کا پڑھ کر خوشی ہوئی کہ نصف صدی سے زائد عرصے بعد‬ ‫ٰ‬
‫بھی اِن کتابوں کی ضرورت محسوس کہ گئی ‪ ،‬پروفیسر بدرا لدجٰ ی خان اور ان کے بھائی‬
‫بزم سائنسی‬‫الہدی خان صاحب برسوں پروفیسر عظمت علی خان کی ’’ ِ‬ ‫ٰ‬ ‫پروفیسر نجم‬
‫ادب‘‘ میں تشریف التے رہے‪ ،‬ہم نے اِن عظیم الشان شخصیات کو قریب سے دیکھا‪ ،‬اُن‬
‫سے مصافحہ کیا‪ ،‬اُن سے کچھ سیکھنے کی سعی کی‪ ،‬اُن کو دیکھا‪ ،‬اُن کو پرکھا‪،‬اُن کو‬
‫پڑھا‪ ،‬ہر معاملہ میں ٹاکم ٹوک پورے‪ ،‬فزکس اُن کا اوڑھنا بچھونا‪ ،‬دونوں ہی مرحوم ہوئے‬
‫لیکن ان کا علم زندہ رہ گیا‪ ،‬بس یہی تو بات ہے کہ نام زندہ رہ گیا‪ ،‬انسان کو دو چیزیں زندہ‬
‫رکھتی ہیں ‪ ،‬اُس کی اوالد یا اُس کی کتاب‪(،‬پروفیسر صاحب کی یادگار تصویر ای میل کے‬
‫ساتھ ہے)‬
‫بارے خدا خدا کرکے چھٹانک بھر وسعت کا حامل ’’ آپ کا صفحہ ‘‘ آیا‪ ،‬کاش کوئی شمارہ‬
‫مکمل ’’آپ کا صفحہ‘‘ (شایع) ہو‪ ،‬جس میں دوسرے سلسلوں کی اینچ پینچ نہ ہو‪ ،‬پہال‬
‫مراسلہ بھی پروفیسر کا‪ ،‬آخری خط بھی پروفیسر کا‪ ،‬پوری قوم بے بس ‪ ،‬بے کس دو‬
‫پروفیسروں میں گ ِھری ہوئی‪ ،‬ہر خط الجواب ہے اور ہر جواب بہترین ‪ ،‬یہ صفحہ پورا ہفتہ‬
‫حظ اُٹھانے واال ہوتا ہے‪ ،‬ہم اسے آئندہ ہفتہ تک گاہے گاہے پڑھتے اور مزے لُوٹتے رہتے‬ ‫ّ‬
‫ہیں ‪ ،‬اس ہفتہ مانی بھائی کا ادبی بھائی پڑھ کر ہنسی نہ ُرکی کہ معاملہ ہوا کیاتھا‪ ،‬سمجھ‬
‫نہیں آیا‪ ،‬اِسی طرح سمیع عاد لوف‪ ،‬صبیحہ عماد ‪ ،‬شہزادہ بشیر فاطمہ شاہ‪ ،‬عاصم محمود‬
‫کے جوابات دیر تک ہنساتے رہے‪ ،‬ارے لڑکی ! ہ میں تو ہنسنے کا بہانہ چاہئیے‪ ،‬ہللا مارا‬
‫کون سا مرض ہے نجانے‪ ،‬صحی ساز و سامان میں ’’وقت بے وقت ‘‘ ہنسنا‪ ،‬ہفتوں ‪،‬‬
‫مہینوں اُداس‪ ،‬خاموش رہنا اور ہنسنا تو پاگلوں ‪ ،‬احمقوں کی طرح گھنٹوں ہنسے جانا‪،‬‬
‫کوئی بہت بڑی اور بُری بیماری ہوتی ہوگی‪ ،‬اِس کا عالج ’’خاموشی‘‘ کے عالوہ کچھ‬
‫بھی کوئی سچ مچ کا ڈاکٹر لکھ دے تو بھال ہوگا‪ ،‬محمود شام‪ ،‬طارق عزیز‪ ،‬مجیب ظفر‪،‬‬
‫خادم ملک‪ ،‬نرجس ملک‪،‬ڈاکٹر روف پاریکھ‪ ،‬پروفیسر سحر انصاری کے انٹرویوز کا‬
‫انتظار رہے گا‪،‬کیونکہ یہ سارے نام ابھی آپ کے دائرہَ اختیار میں ہیں اور زندہ بھی ہیں ‪،‬‬
‫اِن سے فائدہ اُٹھانا آپ کا کام ہے‪ ،‬ہمارا نہیں ! ہم تو اپنے میدانوں کی خاک چھان چکے اور‬
‫اب اپنے اپنے ٹھیلوں ‪ ،‬ٹھیّوں پر کپڑا چڑھا کر ایک طرف کھڑے تماشائے اہ ِل کرم دیکھ‬
‫رہے ہیں ‪ ،‬غالب کس قدر عظیم شاعر تھا؟ ہائیں ؟؟کس قدر زندہ و تابندہ لکھ گیا‪ ،‬سب کچھ‬
‫کہہ گیا‪ ،‬سب کچھ بتا گیا‪ ،‬کہاں تک ان شاعروں کی نظر جاتی ہے‪ ،‬جگر مراد آبادی نے‬
‫فکر انسانی نہیں جاتی‪ ،‬مگر اپنی حقیقت آپ پہچانی نہیں‬
‫لکھا تھا‪ ’’ :‬نہیں جاتی کہاں تک ِ‬
‫جاتی !‘‘ لیکن سن ڈے میگزین کی حقیقت تو ایک دنیا جانتی اور مانتی ہے‪ ،‬کیسے کرلیتی‬
‫ہیں بھئی ایک ہفتے میں میگزین تیار‪،‬کمال ہے ! خوش‪،‬سالمت رہئے‪ ،‬آمین ! السالم علیکم‬
‫ب دُعا‪ ( :‬پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی‪ ،‬گلبرگ ٹاءون‪ ،‬کراچی‬ ‫‪ ، )،‬طال ِ‬
‫فون نمبر ‪:‬‬
‫ــــــــــــــــــــــ‬
‫بخدمت‪:‬‬
‫محترمہ نرجس ملک صاحبہ‪ ،‬ایڈیٹر‪ :‬جنگ سن ڈے میگزین‪ ،‬اشاعت‪19 :‬جنوری ‪2020‬ء‬
‫شعبہ میگزین‪ ،‬اخبار منزل‪ ،‬پہلی منزل‪،‬‬
‫َ‬
‫روزنامہ جنگ‪ ،‬آئی آئی چندری گر روڈ‪ ،‬کراچی ‪ ،‬پوسٹ کوڈ ‪74200 :‬‬

You might also like