Professional Documents
Culture Documents
عصمت چغتائی ہندوستان کی ایک مشہور اردو مصنفہ ،جنہوں نے افسانہ نگاری ،خاکہ نگاری اور ناول نگاری میں نام
پیدا کیا۔ اتر پردیش میں پیدا ہوئیں۔ جبکہ جودھ پور میں پلی بڑھیں ،جہاں ان کے والد،مرزا قسیم بیگ چغتائی ،ایک
سول مالزم تھے۔ راشدہ جہاں ،واجدہ تبسم اور قراۃالعین حیدر کی طرح عصمت چغتائی نے بھی اردو ادب میں انقالب
پیدا کر دیا۔ عصمت چغتائی لکھنؤ میں پروگریسیو رائٹرز موومنٹ سے بھی منسلک رہیں۔
عصمت چغتائی
[]1
21اگست 1915ء پیدائش
بدایوں ،برٹش انڈیا ،اتر پردیش
ممبئی ،بھار
ت وفات
24اکتوبر ( 1991عمر 76 سال)
مصنف پیشہ
اردو زبان
بھارتی قومیت
افسانے اصناف
غالب ایوارڈ (
)1984 اہم اعزازات
فلم فیئر بہترین کہانی ایوارڈ ( فلم ،گرم ہوا )1975 -
دستخط
تعارف
عصمت چغتائی کی پیدائش 21اگست1915 ،ء میں ہندوستان کے شہر بدایوں میں ہوئی۔ اور 77سال کی عمر میں
گیا۔[]2 1991ء میں ان کا انتقال ہو
فلمی سفر
عصمت چغتائی ترقی پسند ادب سے وابستہ تھیں۔ ترقی پسند ادب کے بارے میں ان انھوں نے کہا:
ایسا ادب جو انسان کی ترقی چاہے۔ انسان کی بھالئی چاہے۔وہ ادب وہ آرٹ جو انسان کو پیچھے نہ
دھکیلے۔ انسان کو دنیا کی اچھی سمت پر چالئے۔ وہ ادب جو انسان کو صحت ،علم اور کلچر حاصل
کرنے میں مدد دے اور جو ہر انسان کو برابر کا حق دینے پر یقین رکھتا ہو۔ انسان کی زندگی کے عروج
”
کا قائل ہو۔ انسان کوگندگی سے نکال کر صاف و شفاف علم کی طرف پہنچادے۔ مکمل طور پر انسان
کی بھالسئی چاہے۔ اس کے سوچنے کے انداز پر ایسا اثر ڈالے کہ بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھے۔
اندھیرے میں جانے کی بجائے اجالے کی طرف آئے۔وہ ادب ترقی پسند ہے۔ جب ہم ترقی پسند ادب کہتے
“ ہیں تو اس کی وسعت المحدود ہے۔ قصہ ،کہانی ،نظم ،غزل غرض کہ ہر فکر و عمل کے کارہائے نمایاں
جن سے انسان کی فالح وبہبود مقصود ہو وہی دراصل ترقی پسند ادب ہے۔
لحاف
1934ءمیں انہوں نے لحاف کے نام سے کہانی لکھی۔ لحاف کے بارے میں عصمت چغتائی اپنی آپ بیتی میں لکھتی ہیں
کہ
لحاف سے پہلے اور لحاف کے بعد میں نے جو کچھ لکھا اس پر کسی نے غور نہیں کیا۔لحاف کا لیبل اب
“ بھی میری ہستی سے چپکا ہوا ہے۔ لحاف میری چڑ بن گیا۔ میں کچھ بھی لکھوں لحاف کی تہوں میں
دب جاتا۔ لحاف نے مجھے بڑے جوتے کھلوائے۔
”
[]4
چوتھی کا جوڑا
”چوتھی کا جوڑا“عصمت چغتائی کا نمائندہ افسانہ ہے۔ یہ ایک غریب بیوہ بی اماں کے خاندان کی کہانی ہے۔ دو بیٹیوں
کی ماں گھر میں زری کا کام کرکے اپنی اور بیٹیوں کی کفالت کرتی ہے۔ کبرٰی بڑی لڑکی ہے جس کی عمر کافی بڑھ چکی
ہے اور اس کی شادی کی فکر میں وہ گھلی جا رہی ہے۔ جب کہ چھوٹی بیٹیا وحیدہ ہے۔ زری اور کترن کے کام میں بی
اماں بہت زیادہ ماہر تھی اور محلہ کی عورتیں جن کپڑوں میں مکمل سالئی نہ ہوتی وہ الکر بی اماں کے حوالے کردیتے
اور وہ اس طرح سے کترن کرتی کہ کپڑا برابر ہوجاتا۔ یہ مہارت وہ استقالل کے ساتھ کرتی اور محلہ کی عورتیں حیرت
سے اس کا منہ تکتی۔ بی اماں کی مہارت کے بعد عصمت چغتائی نے اس بیوہ کی دلی خواہش کی طرف توجہ دالئی ہے۔
اپنی بیٹی کی شادی کی خواہش دل میں لیے وہ بار بار چوتھی کا جوڑا بناتی اور پرانا ہونے پر اسے ادھیڑ کر پھر سے نیا
کردیتی۔ بی اماں کی کیفیت کو وہ اس طرح بیان کرتی ہیں:
دوپہر کا کھانا کھانے کے بی اماں ایک بڑا صندوق کھول کر بیٹھ جاتی جس میں رنگ برنگے ڈوپٹے ،
شادی اور چوتھی کے جوڑے وغیرہ ہوتے ۔ اسے دیکھ کر وہ کبرٰی کی شادی کے بارے میں سوچتی۔
محلہ کی کتنی دلہنوں کے لےے جوڑا تیار کرنے والی بی اماں اپنی بڑی بیٹی کبرٰی کے لےے جوڑا تیار
”
کرتی اور جب وہ پرانا ہوجاتا تو اسے ادھیڑ دیتی اور پھر سے نیا جوڑا بناتی۔جب محلہ چار عورتیں
“ جمع ہوں تو مختلف مسائل پر گفتگو بھی ہوتی ہی ہے ،ساتھ ہی کبھی کبھی بیہودہ مذاق بھی ہوتے
تھے۔
ان مذاقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لطیف انداز میں عصمت چغتائی لکھتی ہیں۔
جب محلہ کی عورتیں جمع ہوجاتی اور مذاق کرنے لگتی تو کم عمر اور کنواری لڑکیوں کو دور بیٹھادیاجاتا۔ جب زور دار
قہقہہ بلند ہوتا تو وہ لڑکیاں سوچنے لگتی کہ ہم کب اس طرح کا قہقہہ لگاسکیں گے۔ اس چہل پہل سے دور کبرٰی
مچھروں والی کوٹھڑی میں سرجھکائے بیٹی رہتی۔ کبرٰی کی عمر بڑھ رہی ہے اور مچھروں والی کوٹھڑی میں پڑی رہتی
ہے۔ اس کی چھوٹی بہن حمیدہ اس کہانی کا اہم کردار ہے اکثر جملے عصمت چغتائی نے اسی کے ذریعہ سے کہلوائے ہیں۔
حمیدہ کے ابو کی کی تفصیالت بھی حمیدہ کے ذریعہ سے ہی بتالئی گئی ہیں:
حمیدہ چھوٹی بیٹی ہے اور اسے اپنے ابو کی یاد آتی ہے۔ اب کتنے دبلے پتلے تھے جیسے محرم کا علم ،
ایک بار جھک گئے تو سیدھے کھڑا ہونا دشوار تھا۔ صبح ہی صبح نیم کی مسواک توڑ لیتے اور پھر ”
“ حمیدہ کو گھٹنے بٹھا کر نہ جانے کیا سوچتے ہوئے مسواک کرتے ،مسواک کا کوئی پھونسڑا حلق میں
چلے جاتا تو کھانستے ہی چلے جاتے۔ حمیدہ بگڑ کر ان کی گود سے اتر آتی۔
بی اماں کے شوہر کی بیماری کا تذکرہ عصمت چغتائی نے مکالمہ کے ذریعہ لکھا ہے:
“ ”
بڑے شفاخانے ڈاکٹر کہتا ہے سوئیاں لگواﺅ۔ روز تین پاﺅ دودھ اور آدھی چھٹاک مکھن کھاﺅ۔
“ ”
”اے خاک پڑے ان ڈاکٹروں کی صورت پر بھال ایک تو کھانسی اوپر سے چکنائی ،بلغم نہ پیدا کردے
“ گی۔ حکیم کو دکھاﺅ کسی کو۔”دکھاﺅں گا“ یہ کہہ کر وہ حقہ گڑگڑاتے۔ گھر کے اہم فرد کے انتقال کے
بعد گھر کے حاالت بالکل بدل جاتے ہیں۔
”
عصمت چغتائی نے ان تبدیلیوں کو اپنے مخصوص انداز میں اس طرح بیان کیا ہے:
ابا ایک دن چوکھٹ پر گرگئے اور انھیں اٹھانے کے لےے کسی حکیم یا ڈاکٹر کا نسخہ نہ آسکا۔ اور
حمیدہ نے میٹھی روٹی کی ضد کرنی چھوڑدی۔ اور کبرٰی کے پیغام نہ جانے کدھر راستہ بھول گئے۔
جانو کسی کو معلوم ہی نہیں کہ اس ٹاٹ کے پردے کے پیچھے کسی کی جوانی آخری سسکیاں لے رہی
”
“ ہے اور ایک نئی جوانی سانپ کے پھن کی طرح اٹھ رہی ہے مگر بی اماں کا دستور نہ ٹوٹا وہ اسی طرح
روز دوپہر کو سہ دری میں رنگ برنگ کپڑے پھیالکر گڑیوں کا کھیل کھیال کرتی ہیں۔
کہانی میں ایک اہم موڑ اس وقت آتاہے جب حمیدہ کے منجھلے ماموں کا بیٹاراحت اس بیوہ کے گھر میں ایک امید کی
کرن بن کر آتا ہے۔ بیوہ بی اماں یہ سمجھتے ہے کہ اس کے بھائی کا بیٹا یہاں آیا ہے تو ہو سکتا ہے اس کا داماد بن جائے۔
اپنے گہنے اور زیورات بیچ کر یہ بیوہ راحت کے لے ے راحت کا سامان مہیا کرتی ہے تاکہ وہ مہمان نوازی سے خوش ہو
اور کبرٰی سے شادی کرلے۔ عصمت چغتائی حمیدہ کی زبانی راحت کے آنے کی تفصیالت اس طرح فراہم کرتی ہیں:
ایک دن منجھلے ماموں کا تار آیا کہ ان کا بڑا لڑکا راحت پولیس کی ٹریننگ کے سلسلہ میں آرہا ہے۔ بی
اماں کو تو بس ایک دم جیسے گھبراٹ کا دورہ پڑ گیا جانو راحت نہیں ،چوکھٹ پر بارات آئی کھڑی ہو ”
“ اور انھوں نے ابھی دلہن کی مانگ کی افشاں بھی نہیں کتری ہول سے ان کے تو چھکے چھوٹ گئے۔
جھٹ اپنی منہ بولی بہن بندو کی ماں کو بال بھیجا۔
راحت کے آنے کے بعد کبرٰی کی شادی کے لے ے آس لگاکر گھر کو صاف کرتی ہے۔ مختلف قسم کے پکوان کی تیاری کرتی
ہے۔ اس کی تفصیالت دیکھیے:
تھوڑا سا چونہ منگاکر کبرٰی نے اپنے ہاتھوں سے کمرہ پوت ڈاال۔ کمرہ تو چٹاہو گیا مگر اس کی ہتھیلیوں
کی کھال اڑ گئی اور جب وہ شام کو مساال پیسنے بیٹھی تو چکر کھاکر دوہری ہوگئی۔ ساری رات
کروٹیں بدلتے گزری ایک توہتھیلیوں کی وجہ سے دوسرے صبح کی گاڑی سے راحت آرہے تھے۔ راحت
”
کے آنے اطالع پاکر حمیدہ بھی خوش ہوتی ہے۔ اور خوشی میںوہ فجر کی نماز پڑھ کر دعا مانگی ”اللہ
میرے اللہ میاں ،اب کے تو میری آپا کا نصیبا کھل جائے ،میرے اللہ میں سو رکعت نفل تیری درگاہ میں
پڑھوں گی ۔کبرٰی وہی کوٹھری میں چھپی رہتی ہے جب راحت صبح سوئیوں اور پراٹھوں کا ناشتا
“ کرکے بیٹھ میں چلے جاتے تو کبرٰی نئی دلہن کی طرح پیررکھتی کوٹھڑی سے نکلتی اور جھوٹے برتن
اٹھالیتی۔
الؤ! میں دھوؤں بی آپا ،حمیدہ نے شرارت سے کہا ”نہیں وہ شرم سے جھک گئی “
حمیدہ چھیڑتی رہی ،بی اماں مسکراتی رہیں اور کریپ کے دوپٹے پر پلوٹانکتی رہیں۔
بیوہ کے گھر میں روز دعوتیں ہو تو پھر گھر کے سامان کہاں گھر میں رہتے ہیں۔ پھول پتا اور چاندی کی پازیب فروخت
کرکے وہ راحت کے لے ے پراٹھے ،کوفتے ،پالﺅ وغیرہ کا انتظام کرتی اور خود پانی سے روکھا نوالہ نگلتی۔ داماد کے لے ے
گوشت اور مچھلے کھالتیں۔
عصمت چغتائی حمیدہ کے ذریعہ ہونے والے داماد کے لے ے جو گہما گہمی ہے اس کی نشان دہی اس طرح کرتی ہیں:
ہم بھوکے رہ کر داماد کو کھالرہے ہیں ،بی آپا صبح سویرے اٹھ کر جادو کی مشین کی طرح کام پر جٹ
جاتی ہے۔ نہار منہ پانی کا گھونٹ پی کر راحت کے لےے پراٹے تلتی ہےں۔ دودھ اونٹاتی ہیں تاکہ موٹی
سی مالئی پڑے اس کا بس نہیں تھا کہ وہ اپنی چربی نکال کر ان پراٹھوں میں بھردے اور کیوں نہ
”
“ بھردے آخر کو ایک دن وہ اس کا اپنا ہو جائے گا جو کچھ کمائےگا ،اس کی ہتھیلی پر رکھے گا۔ پھل
دینے والے پودے کو کون نہیں سینچتا۔.۔.؟
اتنا ہی نہیں وہ راحت کے کپڑے دھوتی ،بدبودار موزے دھوتی ،ناک صاف کیے ہوئے رومال بھی دھوتی گھر کو جھاڑو
لگاتی۔ راحت کے بارے میں دیکھیے
راحت صبح سویرے انڈے پراٹھے ڈٹ کر کھاتا اور شام کو آکر کوفتے کھاکر سوجاتا اور بی اماں کی
” بی آپا تو چولہے میں جھنکی رہتیں۔ بی اماں چوتھی کے جوڑے سیا کرتیں اور راحت کی غلیظ آنکھیں تیر بن کر میرے
دل میں چبھا کرتیں۔ بات بے بات چھیڑنا کھانا کھاتے وقت کبھی پانی تو کبھی نمک کے بہانے سے اور ساتھ ساتھ جملہ
بازی میں کھسیا کر بی آپا کے پاس جابیٹھتی جی چاہتا ،صاف کہہ دوں کسی کی بکری اور کون ڈالے دانہ گھاس ،اے بی
مجھ سے تمہارا بیل نہ ناتھا جائے گا مگر بی آپا کے الجھے ہوئے بالوں پر چولہے کی اڑتی ہوئی راکھ ۔.۔ .نہیں!۔.۔ .میرا
کلیجا دھک سے رہ گیا میں نے ان کے سفید بال لٹ کے نیچے دبادیئے۔ ناس جائے اس کمبخت تڑے کا بے چاری کے بال
پکنے شروع ہو گئے“۔
بی آپا اور بی اماں وحیدہ کو بال کراس کی تفصیل پوچھتے کہ بتا تو سہی کہ راحت کیا کہہ رہے تھے۔ ”اور کیا کہہ رہے
تھے“ اور وحیدہ جھوٹ موٹ کی باتیں بناکر انھیں خوش کرتی کہ وہ پکوان کی تعریف کر رہے تھے۔
بی آپا اپنا سوئٹر
راحت کی نذر کردیتی ہے۔ جب وحیدہ کہتی ہے کہ وہ سوئٹر پہن لے تو کبرٰی کہتی ہے کہ ویسے بھی چولہے کے پاس
جھلسن رہتی ہے۔
راحت کی حرکتیں بڑھنے لگتی ہے اور وہ وحیدہ کا ہاتھ پکڑتا ہے جس سے چوڑیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔ جب وہ اپنی بی اماں
سے شکایت کرتی ہے تو وہ کہتی ہے کہ کیاہوا موم کی بنی ہوئی ہو ذرا ہاتھ لگایا اور پگھل گئیں۔ خیر تو بھی چوتھی
میں بدلہ لیجیو کسر نکالیو کہ یاد کریں میاں جی۔
منہ بولی بہن آکر اسے بہنوئیوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے ہتھکنڈے بتانے لگتی۔ چھ مہینے تک کھانے کھالنے کے بعد بھی
جب راحت شادی کی بات نہیں کرتا تو بی آپا حمیدہ کو مولوی صاحب کا دم کیا ہوا ملیدہ دیتی ہے تاکہ وہ راحت کو
کھالئے۔
وحیدہ ملیدہ لے کر راحت کے پاس جاتی ہے۔ راحت سے کہتی ہے کہ یہ ملیدہ ہے۔ راحت منہ کھول دیتا ہے۔ وہ منہ میں
نیاز کا ملیدہ ڈالنے کے لے ے آگے بڑھتی ہے۔ راحت اسے دبوچ لیتا ہے اور وحیدہ کی عزت کو تار تار کردیتا ہے۔
راحت کی
واپسی کے بعدگھر کا نقشہ عصمت چغتائی نے وحیدہ کی زبانی اس طرح کھینچا ہے:
صبح کی گاڑی سے راحت مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرتا ہوا روانہ ہو گیا۔ اس کی شادی کی تاریخ طے
ہوچکی تھی اور اسے جلدی تھی اس کے بعد اس گھر میں انڈے نہ تلے گئے ،پراٹھے نہ پکے اور سوئٹر نہ ”
“ بنے گئے۔ دق جو ایک عرصہ سے بی آپا کی تاک میں بھاگی بھاگی پیچھے آرہی تھی ایک ہی جست میں
انھیں دبوچ بیتھی اور انھوں نے جھکا کر اپنا نامراد وجود اس کی آغوش میں سونپ دیا۔
بی اماں جو اپنی بیٹی کبرٰی کی شادی کا ارمان دل میں لیے چوتھی کا جوڑا تیار کرتی ہے وہ اسی لڑکی کے لے ے کفن
تیار کرتی ہے۔ افسانے کے آخر میں عصمت چغتائی نے اس مسئلہ کی انسانوں ضمیروں کو جھنجھوڑتے ہوئے لکھا ہے:
کفن کے لٹھے کی کان نکال کر انھوں نے چوہراتہہ کیا اور ان کے دل میں ان گنت قینچیاں چل گئیں۔ آن
“ ان کے چہرے پر بھیانک سکون اور موت بھرا اطمینان تھا۔ جیسے انھیں پکا یقین ہو کہ اور جوڑوں کی
گا[]5 طرح یہ چوتھی کا جوڑا سینتا نہ جائے
”
عصمت چغتائی نے اپنے افسانوں میں بہت سارے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ جذبات نگاری ،مکالمہ نگاری ،منظر نگاری کے
بہترین نمونے ان کے افسانوں میں نظر آتے ہیں۔
وفات
حوالہ جات
https://ur.wikipedia.org/w/index.php?« اخذ کردہ از
»title=&عصمت_چغتائیoldid=5185844
JarBot دن قبل بدست9 آخری ترمیم