You are on page 1of 8

‫عصمت چغتائی‬

‫عصمت چغتائی ہندوستان کی ایک مشہور اردو مصنفہ‪ ،‬جنہوں نے افسانہ نگاری‪ ،‬خاکہ نگاری اور ناول نگاری میں نام‬
‫پیدا کیا۔ اتر پردیش میں پیدا ہوئیں۔ جبکہ جودھ پور میں پلی بڑھیں‪ ،‬جہاں ان کے والد‪،‬مرزا قسیم بیگ چغتائی‪ ،‬ایک‬
‫سول مالزم تھے۔ راشدہ جہاں‪ ،‬واجدہ تبسم اور قراۃالعین حیدر کی طرح عصمت چغتائی نے بھی اردو ادب میں انقالب‬
‫پیدا کر دیا۔ عصمت چغتائی لکھنؤ میں پروگریسیو رائٹرز موومنٹ سے بھی منسلک رہیں۔‬
‫عصمت چغتائی

‫[‪]1‬‬

‬ ‫‪ 21‬اگست ‪1915‬ء‬ ‫پیدائش‬
‫بدایوں‪ ،‬برٹش انڈیا‪ ،‬اتر پردیش‬

‫ممبئی‪ ،‬بھار

‫ت‬ ‫وفات‬
‫‪ 24‬اکتوبر ‪( 1991‬عمر ‪ 76 ‬سال)‬

‫مصنف‬ ‫پیشہ‬

‫اردو‬ ‫زبان‬

‫بھارتی‬ ‫قومیت‬

‫افسانے‬ ‫اصناف‬

‫ترقی پسند تحریک‬ ‫ادبی تحریک‬

‫غالب ایوارڈ (‪
)1984‬‬ ‫اہم اعزازات‬
‫فلم فیئر بہترین کہانی ایوارڈ ( فلم‪ ،‬گرم ہوا ‪)1975 -‬‬

‫دستخط‬

‫تعارف‬

‫عصمت چغتائی کی پیدائش ‪ 21‬اگست‪1915 ،‬ء میں ہندوستان کے شہر بدایوں میں ہوئی۔ اور ‪ 77‬سال کی عمر میں‬
‫گیا۔[‪]2‬‬ ‫‪1991‬ء میں ان کا انتقال ہو‬

‫عصمت چغتائی کا ادبی خاندان‬

‫فلمی سفر‬

‫عصمت چغتائی کی افسانہ نگاری‬


‫عصمت چغتائی نے خواتین اور ان سے جڑے مسائل پر لکھا ہے۔ ان کے افسانے اور ناول متوسط طبقہ کی خواتین کی‬
‫نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کا پہال افسانہ ”گیندا“ ہے۔ اس افسانے میں انھوں نے کئی اہم موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔ اس‬
‫افسانہ کا مرکزی کردار گیندا ہے۔ یہ ایک نہایت غریب لڑکی ہے۔ اس کی سہیلی ایک اوسط درجہ کے گھرانے سے تعلق‬
‫رکھتی ہے۔ کہانی اسی لڑکی کی زبانی سنائی گئی ہے۔ دونوں بچپن سے ساتھ کھیلتے ہیں۔ گیندا کی بچپن میں ہی شادی‬
‫ہوجاتی ہے اور وہ بیوہ بھی ہو جاتی ہے۔ کھیل کے دوران میں جب گیندا کو سیندور دیا جاتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ‬
‫”بدھوا کاہے کو سنگھار کرے“۔ گیندا کی سہیلی کا بھائی گیندا کو ماں بنادیتا ہے۔ کسی طرح لڑکے کو دہلی بھیج دیا جاتا‬
‫ہے۔ سال دیڑھ سال بعد گیندا کی سہیلی واپس آتی ہے تو گیندا کی گود میں بچہ ہوتا ہے۔‬

‫عصمت چغتائی ترقی پسند ادب سے وابستہ تھیں۔ ترقی پسند ادب کے بارے میں ان انھوں نے کہا‪:‬‬

‫ایسا ادب جو انسان کی ترقی چاہے۔ انسان کی بھالئی چاہے۔وہ ادب وہ آرٹ جو انسان کو پیچھے نہ‬
‫دھکیلے۔ انسان کو دنیا کی اچھی سمت پر چالئے۔ وہ ادب جو انسان کو صحت‪ ،‬علم اور کلچر حاصل‬
‫کرنے میں مدد دے اور جو ہر انسان کو برابر کا حق دینے پر یقین رکھتا ہو۔ انسان کی زندگی کے عروج‬
‫”‬
‫کا قائل ہو۔ انسان کوگندگی سے نکال کر صاف و شفاف علم کی طرف پہنچادے۔ مکمل طور پر انسان‬
‫کی بھالسئی چاہے۔ اس کے سوچنے کے انداز پر ایسا اثر ڈالے کہ بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھے۔‬
‫اندھیرے میں جانے کی بجائے اجالے کی طرف آئے۔وہ ادب ترقی پسند ہے۔ جب ہم ترقی پسند ادب کہتے‬

‫“‬ ‫ہیں تو اس کی وسعت المحدود ہے۔ قصہ‪ ،‬کہانی‪ ،‬نظم‪ ،‬غزل غرض کہ ہر فکر و عمل کے کارہائے نمایاں‬
‫جن سے انسان کی فالح وبہبود مقصود ہو وہی دراصل ترقی پسند ادب ہے۔‬

‫لحاف‬

‫‪1934‬ءمیں انہوں نے لحاف کے نام سے کہانی لکھی۔ لحاف کے بارے میں عصمت چغتائی اپنی آپ بیتی میں لکھتی ہیں‬
‫کہ‬

‫لحاف سے پہلے اور لحاف کے بعد میں نے جو کچھ لکھا اس پر کسی نے غور نہیں کیا۔لحاف کا لیبل اب‬

‫“‬ ‫بھی میری ہستی سے چپکا ہوا ہے۔ لحاف میری چڑ بن گیا۔ میں کچھ بھی لکھوں لحاف کی تہوں میں‬
‫دب جاتا۔ لحاف نے مجھے بڑے جوتے کھلوائے۔‬
‫”‬
‫[‪]4‬‬

‫چوتھی کا جوڑا‬

‫”چوتھی کا جوڑا“عصمت چغتائی کا نمائندہ افسانہ ہے۔ یہ ایک غریب بیوہ بی اماں کے خاندان کی کہانی ہے۔ دو بیٹیوں‬
‫کی ماں گھر میں زری کا کام کرکے اپنی اور بیٹیوں کی کفالت کرتی ہے۔ کبرٰی بڑی لڑکی ہے جس کی عمر کافی بڑھ چکی‬
‫ہے اور اس کی شادی کی فکر میں وہ گھلی جا رہی ہے۔ جب کہ چھوٹی بیٹیا وحیدہ ہے۔ زری اور کترن کے کام میں بی‬
‫اماں بہت زیادہ ماہر تھی اور محلہ کی عورتیں جن کپڑوں میں مکمل سالئی نہ ہوتی وہ الکر بی اماں کے حوالے کردیتے‬
‫اور وہ اس طرح سے کترن کرتی کہ کپڑا برابر ہوجاتا۔ یہ مہارت وہ استقالل کے ساتھ کرتی اور محلہ کی عورتیں حیرت‬
‫سے اس کا منہ تکتی۔ بی اماں کی مہارت کے بعد عصمت چغتائی نے اس بیوہ کی دلی خواہش کی طرف توجہ دالئی ہے۔‬
‫اپنی بیٹی کی شادی کی خواہش دل میں لیے وہ بار بار چوتھی کا جوڑا بناتی اور پرانا ہونے پر اسے ادھیڑ کر پھر سے نیا‬
‫کردیتی۔ بی اماں کی کیفیت کو وہ اس طرح بیان کرتی ہیں‪:‬‬

‫دوپہر کا کھانا کھانے کے بی اماں ایک بڑا صندوق کھول کر بیٹھ جاتی جس میں رنگ برنگے ڈوپٹے ‪،‬‬
‫شادی اور چوتھی کے جوڑے وغیرہ ہوتے ۔ اسے دیکھ کر وہ کبرٰی کی شادی کے بارے میں سوچتی۔‬
‫محلہ کی کتنی دلہنوں کے لےے جوڑا تیار کرنے والی بی اماں اپنی بڑی بیٹی کبرٰی کے لےے جوڑا تیار‬
‫”‬
‫کرتی اور جب وہ پرانا ہوجاتا تو اسے ادھیڑ دیتی اور پھر سے نیا جوڑا بناتی۔جب محلہ چار عورتیں‬

‫“‬ ‫جمع ہوں تو مختلف مسائل پر گفتگو بھی ہوتی ہی ہے‪ ،‬ساتھ ہی کبھی کبھی بیہودہ مذاق بھی ہوتے‬
‫تھے۔‬

‫ان مذاقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لطیف انداز میں عصمت چغتائی لکھتی ہیں۔‬

‫جب محلہ کی عورتیں جمع ہوجاتی اور مذاق کرنے لگتی تو کم عمر اور کنواری لڑکیوں کو دور بیٹھادیاجاتا۔ جب زور دار‬
‫قہقہہ بلند ہوتا تو وہ لڑکیاں سوچنے لگتی کہ ہم کب اس طرح کا قہقہہ لگاسکیں گے۔ اس چہل پہل سے دور کبرٰی‬
‫مچھروں والی کوٹھڑی میں سرجھکائے بیٹی رہتی۔ کبرٰی کی عمر بڑھ رہی ہے اور مچھروں والی کوٹھڑی میں پڑی رہتی‬
‫ہے۔ اس کی چھوٹی بہن حمیدہ اس کہانی کا اہم کردار ہے اکثر جملے عصمت چغتائی نے اسی کے ذریعہ سے کہلوائے ہیں۔‬
‫حمیدہ کے ابو کی کی تفصیالت بھی حمیدہ کے ذریعہ سے ہی بتالئی گئی ہیں‪:‬‬

‫حمیدہ چھوٹی بیٹی ہے اور اسے اپنے ابو کی یاد آتی ہے۔ اب کتنے دبلے پتلے تھے جیسے محرم کا علم ‪،‬‬
‫ایک بار جھک گئے تو سیدھے کھڑا ہونا دشوار تھا۔ صبح ہی صبح نیم کی مسواک توڑ لیتے اور پھر‬ ‫”‬
‫“‬ ‫حمیدہ کو گھٹنے بٹھا کر نہ جانے کیا سوچتے ہوئے مسواک کرتے ‪ ،‬مسواک کا کوئی پھونسڑا حلق میں‬
‫چلے جاتا تو کھانستے ہی چلے جاتے۔ حمیدہ بگڑ کر ان کی گود سے اتر آتی۔‬

‫بی اماں کے شوہر کی بیماری کا تذکرہ عصمت چغتائی نے مکالمہ کے ذریعہ لکھا ہے‪: ‬‬

‫کچھ دوادارو کیوں نہیں کرتے ‪ ،‬کتنی بار کہا تم سے۔‬

‫“‬ ‫”‬
‫بڑے شفاخانے ڈاکٹر کہتا ہے سوئیاں لگواﺅ۔ روز تین پاﺅ دودھ اور آدھی چھٹاک مکھن کھاﺅ۔‬

‫“‬ ‫”‬
‫”اے خاک پڑے ان ڈاکٹروں کی صورت پر بھال ایک تو کھانسی اوپر سے چکنائی‪ ،‬بلغم نہ پیدا کردے‬

‫“‬ ‫گی۔ حکیم کو دکھاﺅ کسی کو۔”دکھاﺅں گا“ یہ کہہ کر وہ حقہ گڑگڑاتے۔ گھر کے اہم فرد کے انتقال کے‬
‫بعد گھر کے حاالت بالکل بدل جاتے ہیں۔‬
‫”‬
‫عصمت چغتائی نے ان تبدیلیوں کو اپنے مخصوص انداز میں اس طرح بیان کیا ہے‪: ‬‬

‫ابا ایک دن چوکھٹ پر گرگئے اور انھیں اٹھانے کے لےے کسی حکیم یا ڈاکٹر کا نسخہ نہ آسکا۔ اور‬
‫حمیدہ نے میٹھی روٹی کی ضد کرنی چھوڑدی۔ اور کبرٰی کے پیغام نہ جانے کدھر راستہ بھول گئے۔‬
‫جانو کسی کو معلوم ہی نہیں کہ اس ٹاٹ کے پردے کے پیچھے کسی کی جوانی آخری سسکیاں لے رہی‬
‫”‬
‫“‬ ‫ہے اور ایک نئی جوانی سانپ کے پھن کی طرح اٹھ رہی ہے مگر بی اماں کا دستور نہ ٹوٹا وہ اسی طرح‬
‫روز دوپہر کو سہ دری میں رنگ برنگ کپڑے پھیالکر گڑیوں کا کھیل کھیال کرتی ہیں۔‬

‫کہانی میں ایک اہم موڑ اس وقت آتاہے جب حمیدہ کے منجھلے ماموں کا بیٹاراحت اس بیوہ کے گھر میں ایک امید کی‬
‫کرن بن کر آتا ہے۔ بیوہ بی اماں یہ سمجھتے ہے کہ اس کے بھائی کا بیٹا یہاں آیا ہے تو ہو سکتا ہے اس کا داماد بن جائے۔‬
‫اپنے گہنے اور زیورات بیچ کر یہ بیوہ راحت کے لے ے راحت کا سامان مہیا کرتی ہے تاکہ وہ مہمان نوازی سے خوش ہو‬
‫اور کبرٰی سے شادی کرلے۔ عصمت چغتائی حمیدہ کی زبانی راحت کے آنے کی تفصیالت اس طرح فراہم کرتی ہیں‪:‬‬

‫ایک دن منجھلے ماموں کا تار آیا کہ ان کا بڑا لڑکا راحت پولیس کی ٹریننگ کے سلسلہ میں آرہا ہے۔ بی‬
‫اماں کو تو بس ایک دم جیسے گھبراٹ کا دورہ پڑ گیا جانو راحت نہیں‪ ،‬چوکھٹ پر بارات آئی کھڑی ہو‬ ‫”‬
‫“‬ ‫اور انھوں نے ابھی دلہن کی مانگ کی افشاں بھی نہیں کتری ہول سے ان کے تو چھکے چھوٹ گئے۔‬
‫جھٹ اپنی منہ بولی بہن بندو کی ماں کو بال بھیجا۔‬

‫راحت کے آنے کے بعد کبرٰی کی شادی کے لے ے آس لگاکر گھر کو صاف کرتی ہے۔ مختلف قسم کے پکوان کی تیاری کرتی‬
‫ہے۔ اس کی تفصیالت دیکھیے‪:‬‬

‫تھوڑا سا چونہ منگاکر کبرٰی نے اپنے ہاتھوں سے کمرہ پوت ڈاال۔ کمرہ تو چٹاہو گیا مگر اس کی ہتھیلیوں‬
‫کی کھال اڑ گئی اور جب وہ شام کو مساال پیسنے بیٹھی تو چکر کھاکر دوہری ہوگئی۔ ساری رات‬
‫کروٹیں بدلتے گزری ایک توہتھیلیوں کی وجہ سے دوسرے صبح کی گاڑی سے راحت آرہے تھے۔ راحت‬
‫”‬
‫کے آنے اطالع پاکر حمیدہ بھی خوش ہوتی ہے۔ اور خوشی میںوہ فجر کی نماز پڑھ کر دعا مانگی ”اللہ‬
‫میرے اللہ میاں‪ ،‬اب کے تو میری آپا کا نصیبا کھل جائے‪ ،‬میرے اللہ میں سو رکعت نفل تیری درگاہ میں‬
‫پڑھوں گی ۔کبرٰی وہی کوٹھری میں چھپی رہتی ہے جب راحت صبح سوئیوں اور پراٹھوں کا ناشتا‬

‫“‬ ‫کرکے بیٹھ میں چلے جاتے تو کبرٰی نئی دلہن کی طرح پیررکھتی کوٹھڑی سے نکلتی اور جھوٹے برتن‬
‫اٹھالیتی۔‬

‫کبرٰی اور حمیدہ میں مذاق بھی ہوتا ہے۔‬

‫الؤ! میں دھوؤں بی آپا‪ ،‬حمیدہ نے شرارت سے کہا ”نہیں وہ شرم سے جھک گئی “‬
‫حمیدہ چھیڑتی رہی‪ ،‬بی اماں مسکراتی رہیں اور کریپ کے دوپٹے پر پلوٹانکتی رہیں۔‬

‫بیوہ کے گھر میں روز دعوتیں ہو تو پھر گھر کے سامان کہاں گھر میں رہتے ہیں۔ پھول پتا اور چاندی کی پازیب فروخت‬
‫کرکے وہ راحت کے لے ے پراٹھے‪ ،‬کوفتے‪ ،‬پالﺅ وغیرہ کا انتظام کرتی اور خود پانی سے روکھا نوالہ نگلتی۔ داماد کے لے ے‬
‫گوشت اور مچھلے کھالتیں۔‬

‫عصمت چغتائی حمیدہ کے ذریعہ ہونے والے داماد کے لے ے جو گہما گہمی ہے اس کی نشان دہی اس طرح کرتی ہیں‪:‬‬

‫ہم بھوکے رہ کر داماد کو کھالرہے ہیں‪ ،‬بی آپا صبح سویرے اٹھ کر جادو کی مشین کی طرح کام پر جٹ‬
‫جاتی ہے۔ نہار منہ پانی کا گھونٹ پی کر راحت کے لےے پراٹے تلتی ہےں۔ دودھ اونٹاتی ہیں تاکہ موٹی‬
‫سی مالئی پڑے اس کا بس نہیں تھا کہ وہ اپنی چربی نکال کر ان پراٹھوں میں بھردے اور کیوں نہ‬
‫”‬
‫“‬ ‫بھردے آخر کو ایک دن وہ اس کا اپنا ہو جائے گا جو کچھ کمائےگا‪ ،‬اس کی ہتھیلی پر رکھے گا۔ پھل‬
‫دینے والے پودے کو کون نہیں سینچتا۔‪.‬۔‪.‬؟‬

‫اتنا ہی نہیں وہ راحت کے کپڑے دھوتی‪ ،‬بدبودار موزے دھوتی‪ ،‬ناک صاف کیے ہوئے رومال بھی دھوتی گھر کو جھاڑو‬
‫لگاتی۔ راحت کے بارے میں دیکھیے‬

‫راحت صبح سویرے انڈے پراٹھے ڈٹ کر کھاتا اور شام کو آکر کوفتے کھاکر سوجاتا اور بی اماں کی‬

‫“‬ ‫منہ بولی بہن کھسر پھسر کرتیں۔‬


‫”‬
‫راحت کچھ بات نہیں کرتا تو بی اماں ان کی سہیلی وحیدہ کو کہتی ہے کہ وہ راحت سے بات کرے۔ وحیدہ راحت سے‬
‫مذاق کرنے لگتی ہے۔ ساتھ ہی ڈرتی بھی ہے تو بی اماں کہتی ہے ”وہ تجھے کھاتھوڑے ہی جائے گا“۔ وہ نہیں چاہتی کہ‬
‫راحت سے مذاق کرے لیکن اپنی بہن کی خوشی کے لیے وہ مذاق کرتی۔ بی اماں کی سہیلی کا نسخہ کام کرتا ہے اور‬
‫راحت دن کا زیادہ تر وقت اب گھر پر ہی رہنے لگا۔ حد تو یہ ہوئی کہ وہ کوفتوں کو کھلی اور بھوسا کہتا۔ وحیدہ‬
‫سوچنے لگتی کہ ہم اسے گرماگرم کوفتے کھال رہے ہیں اور خود روکھا ساکھا کر رہے ہیں اور یہ اس طرح کی باتیں کرتا‬
‫ہے۔ پھر وہ اپنی بہن کے لے ے یہ بھی برداشت کرتی ہے۔ دل میں سوچتی ہے‬

‫” بی آپا تو چولہے میں جھنکی رہتیں۔ بی اماں چوتھی کے جوڑے سیا کرتیں اور راحت کی غلیظ آنکھیں تیر بن کر میرے‬
‫دل میں چبھا کرتیں۔ بات بے بات چھیڑنا کھانا کھاتے وقت کبھی پانی تو کبھی نمک کے بہانے سے اور ساتھ ساتھ جملہ‬
‫بازی میں کھسیا کر بی آپا کے پاس جابیٹھتی جی چاہتا‪ ،‬صاف کہہ دوں کسی کی بکری اور کون ڈالے دانہ گھاس‪ ،‬اے بی‬
‫مجھ سے تمہارا بیل نہ ناتھا جائے گا مگر بی آپا کے الجھے ہوئے بالوں پر چولہے کی اڑتی ہوئی راکھ ۔‪.‬۔‪ .‬نہیں!۔‪.‬۔‪ .‬میرا‬
‫کلیجا دھک سے رہ گیا میں نے ان کے سفید بال لٹ کے نیچے دبادیئے۔ ناس جائے اس کمبخت تڑے کا بے چاری کے بال‬
‫پکنے شروع ہو گئے“۔‬

‫بی آپا اور بی اماں وحیدہ کو بال کراس کی تفصیل پوچھتے کہ بتا تو سہی کہ راحت کیا کہہ رہے تھے۔ ”اور کیا کہہ رہے‬
‫تھے“ اور وحیدہ جھوٹ موٹ کی باتیں بناکر انھیں خوش کرتی کہ وہ پکوان کی تعریف کر رہے تھے۔
بی آپا اپنا سوئٹر‬
‫راحت کی نذر کردیتی ہے۔ جب وحیدہ کہتی ہے کہ وہ سوئٹر پہن لے تو کبرٰی کہتی ہے کہ ویسے بھی چولہے کے پاس‬
‫جھلسن رہتی ہے۔‬

‫راحت کی حرکتیں بڑھنے لگتی ہے اور وہ وحیدہ کا ہاتھ پکڑتا ہے جس سے چوڑیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔ جب وہ اپنی بی اماں‬
‫سے شکایت کرتی ہے تو وہ کہتی ہے کہ کیاہوا موم کی بنی ہوئی ہو ذرا ہاتھ لگایا اور پگھل گئیں۔ خیر تو بھی چوتھی‬
‫میں بدلہ لیجیو کسر نکالیو کہ یاد کریں میاں جی۔‬

‫منہ بولی بہن آکر اسے بہنوئیوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے ہتھکنڈے بتانے لگتی۔ چھ مہینے تک کھانے کھالنے کے بعد بھی‬
‫جب راحت شادی کی بات نہیں کرتا تو بی آپا حمیدہ کو مولوی صاحب کا دم کیا ہوا ملیدہ دیتی ہے تاکہ وہ راحت کو‬
‫کھالئے۔‬

‫وحیدہ ملیدہ لے کر راحت کے پاس جاتی ہے۔ راحت سے کہتی ہے کہ یہ ملیدہ ہے۔ راحت منہ کھول دیتا ہے۔ وہ منہ میں‬
‫نیاز کا ملیدہ ڈالنے کے لے ے آگے بڑھتی ہے۔ راحت اسے دبوچ لیتا ہے اور وحیدہ کی عزت کو تار تار کردیتا ہے۔
راحت کی‬
‫واپسی کے بعدگھر کا نقشہ عصمت چغتائی نے وحیدہ کی زبانی اس طرح کھینچا ہے‪:‬‬

‫صبح کی گاڑی سے راحت مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرتا ہوا روانہ ہو گیا۔ اس کی شادی کی تاریخ طے‬
‫ہوچکی تھی اور اسے جلدی تھی اس کے بعد اس گھر میں انڈے نہ تلے گئے‪ ،‬پراٹھے نہ پکے اور سوئٹر نہ‬ ‫”‬
‫“‬ ‫بنے گئے۔ دق جو ایک عرصہ سے بی آپا کی تاک میں بھاگی بھاگی پیچھے آرہی تھی ایک ہی جست میں‬
‫انھیں دبوچ بیتھی اور انھوں نے جھکا کر اپنا نامراد وجود اس کی آغوش میں سونپ دیا۔‬

‫بی اماں جو اپنی بیٹی کبرٰی کی شادی کا ارمان دل میں لیے چوتھی کا جوڑا تیار کرتی ہے وہ اسی لڑکی کے لے ے کفن‬
‫تیار کرتی ہے۔ افسانے کے آخر میں عصمت چغتائی نے اس مسئلہ کی انسانوں ضمیروں کو جھنجھوڑتے ہوئے لکھا ہے‪:‬‬

‫کفن کے لٹھے کی کان نکال کر انھوں نے چوہراتہہ کیا اور ان کے دل میں ان گنت قینچیاں چل گئیں۔ آن‬

‫“‬ ‫ان کے چہرے پر بھیانک سکون اور موت بھرا اطمینان تھا۔ جیسے انھیں پکا یقین ہو کہ اور جوڑوں کی‬
‫گا[‪]5‬‬ ‫طرح یہ چوتھی کا جوڑا سینتا نہ جائے‬
‫”‬
‫عصمت چغتائی نے اپنے افسانوں میں بہت سارے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ جذبات نگاری‪ ،‬مکالمہ نگاری‪ ،‬منظر نگاری کے‬
‫بہترین نمونے ان کے افسانوں میں نظر آتے ہیں۔‬

‫عصمت کی ناول نگاری‬

‫وفات‬

‫حوالہ جات‬
https://ur.wikipedia.org/w/index.php?« ‫اخذ کردہ از‬
»title=‫&عصمت_چغتائی‬oldid=5185844


JarBot ‫ دن قبل بدست‬9 ‫آخری ترمیم‬

You might also like