Professional Documents
Culture Documents
تعالی نے قرآن مجید کو تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے۔ رسول
ٰ ہللا تبارک و
ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے قرآن سیکھنے اور سکھانے والے کو بہترین انسان کہا۔ حضرت
ؓ
عثمان بن عفان رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ تم میں وہ شخص سب
سے بہتر ہے جو قرآن کو سیکھے اور سکھائے (بخاری)۔ایک اور حدیث میں رسول ہللا صلی
رسول ہللا نے
ؐ ہللا علیہ وسلم نے اہ ِل قرآن کو اہ ُل ہللا کہا ہے۔ حضرت ؓ
انس سے روایت ہے کہ
پوچھا:یارسول ہللا!وہ کون
ؐ فرمایا :انسانوں میں ہللا کے کچھ خاص لوگ ہیں( ،صحابہ نے)
لوگ ہیں؟ فرمایا :قرآن والے (سیکھنے اور عمل کرنے والے)۔ وہی اہل ہللا ہیں اور وہی اس
عائشہ رسو ِؐل اقدس کا یہ ارشاد نقل کرتی ہیں کہ ہرچیز
ؓ کے خواص ہیں(ابن ماجہ)۔ حضرت
کے لیے کوئی شرافت اور افتخار ہوا کرتا ہے جس سے وہ تفاخر کیا کرتا ہے۔ میری اُمت کی
رونق اور افتخار قرآن ہے۔( فی الحلیہ)
ت قرآن پر رد عمل
تالو ِ
قرآن پڑھ کر ایک مسلمان کا کیا ردِعمل ہونا چاہیے؟ قرآن اس کی تفصیل یوں بیان کرتا ہے:
ع ٰلی َربِ ِِّہ ْم
علَی ِْہ ْم ٰا ٰیت ُ ٗہ زَ ادَتْ ُہ ْم اِ ْی َمانا َّو َ ت قُلُ ْوبُ ُہ ْم َواِذَا ت ُ ِلیَ ْ
ت َ اِنَّ َما ْال ُمؤْ ِمنُ ْونَ الَّ ِذیْنَ اِذَا ذُ ِک َر ہ
ّٰللاُ َو ِجلَ ْ
سن کر لرز جاتے َیت ََو َّکلُ ْونَ (انفال)۸:۲سچے اہ ِل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل ہللا کا ذکر ُ
ہیں اور جب ہللا کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ
اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔
ص ٰلوۃِ َو ِم َّما َرزَ ْق ٰن ُہ ْم یُ ْن ِفقُ ْونَ ع ٰلی َمآ ا َ َ
صابَ ُہ ْم َو ْال ُم ِقی ِْمی ال َّ ت قُلُ ْوبُ ُہ ْم َوال ہ
ص ِب ِریْنَ َ الَّ ِذیْنَ اِذَا ذُ ِک َر ہ
ّٰللاُ َو ِجلَ ْ
(الحج)۲۲:۳۵وہ لوگ جن کا حال یہ ہے کہ ہللا کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے
ہیں ،جو مصیبت بھی اُن پر آتی ہے اُس پر صبر کرتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں ،اور جو
کچھ رزق ہم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔
ُ ُ َّم ت َ ِل ْی ُن ُجلُ ْودُہ ُ ْم ش ِع ُّر ِم ْن ُہ ُجلُ ْودُ الَّ ِذیْنَ َی ْخش َْونَ َربَّ ُہ ْم سنَ ْال َح ِد ْی ِ
ث ِک ٰتبا ُّمتَشَا ِبہا َّمثَانِ َ
ی ت َ ْق َ َہ
ّٰللاُ ن ََّز َل اَحْ َ
ّٰللاُ فَ َما لَہ ِم ْن ہَا ٍد ِی ِب ٖہ َم ْن یَّشَا ُء ط َو َم ْن یُّ ْ
ض ِل ِل ہ ّٰللاِ َی ْہد ْ
ک ہُدَی ہ َوقُلُ ْوبُ ُہ ْم ا ِٰلی ِذ ْک ِر ہ
ّٰللاِ ط ٰذ ِل َ
(الزمر )۳۹:۲۳ہللا نے بہترین کالم اُتارا ہے ،ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزا ہم رنگ ہیں
سن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے
اور جس میں بار بار مضامین دُہرائے گئے ہیں ۔ ا ُسے ُ
ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں ،اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو
کر ہللا کے ذِکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں ۔ یہ ہللا کی ہدایت ہے جس سے وہ را ِہ راست
پر لے آتا ہے جسے چاہتا ہے ۔ اور جسے ہللا ہی ہدایت نہ دے اس کے لیے پھر کوئی ہادی
نہیں ہے۔
آئیے ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا قرآن سن یا پڑھ کر ہماری حالت ایسی ہوجاتی ہے؟ کیا ہمارے
جسم لرز اٹھتے ہیں یا رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں؟ کیا ہماری آنکھوں سے آنسو جاری
تعالی تو سورۂ حشر میں فرماتا ٰ ہوتے ہیں؟ اکثر نہیں تو کیا کبھی کبھی ہی ایسا ہوتا ہے؟ہللا
ع ٰلی َجبَ ٍل لَّ َرا َ ْیت َٗہ خَا ِشعا ُّمت َ َ
ص ِدِّعا ِ ِّم ْن َخ ْشیَ ِۃ ہ
ّٰللاِ (’’ )۵۹:۲۱اگر ہم ہے کہ :لَ ْو ا َ ْنزَ ْلنَا ٰہذَا ْالقُ ْر ٰانَ َ
نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ ہللا کے خوف سے دبا جارہا
مقام حسرت اور افسوس ہے کہ آدمی کے دل پر قرآن کا اُر نہ ہو۔
ہے اور پھٹا پڑتا ہے‘‘۔ ِ
حاالنکہ قرآن کی تاُیر اس قدر زبردست ہے کہ اگر وہ پہاڑ جیسی سخت چیز پر اتا را جاتا
اور اس میں سمجھ کا مادہ موجود ہوتا تو وہ بھی متکلِّم کی عظمت کے سامنے دب جاتا اور
مارے خوف کے پارہ پارہ ہوجاتا۔ (تفسیر عثمانی)
تفسیر روح البیان میں ہے کہ اگر ان کے دل قرآن جیسی عظیم کتاب کو سن کر بھی پگھلتے
نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں میں ہللا نے ایسی قساوت پیدا کر دی ہے جس پر
تعالی اپنی سنت کے
ٰ کوئی بڑی سے بڑی حقیقت بھی اُرانداز نہیں ہوتی۔ اندیشہ ہے کہ ہللا
مطابق ایسے دلوں پر مہر ُبت نہ کر دے جس طرح اس نے یہود کے دلوں پر کی
ہے۔(جلد ،۱۱ص )۵۶۶
نعوذ باہلل ُ ِّم نعوذ باہلل کیا ہماری حالت یہ تو نہیں ہو گئی جیسا کہ سورۃ البقرہ کی آیت میں ہللا
شدُّ قَس َْوۃ پھر اس کے بعد ی ک َْال ِح َج َ
ارۃِ ا َ ْو ا َ َ ت قُلُ ْوبُ ُک ْم ِ ِّم ْنم بَ ْع ِد ٰذ ِل َ
ک فَ ِہ َ نے کہا ہے کہَّ ُ ُ :م قَ َ
س ْ
تمھارے دل سخت ہوگئے گویا وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت۔
ت حال کا عال
موجودہ صور ِ
موجودہ حاالت کا واحد عال یہی ہے کہ ہم کتاب ہللا کی طرف پلٹ آئیں اور اس کو سمجھ کر
رسول ہللا کے اس فرمان کی زد میں
ؐ پڑھنا اپنے اُوپر الزم کر لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم
رسول ہللا نے بعد میں آنے والے لوگوں کے حاالت بیان کرتے ہوئے فرمایا
ؐ آجائیں جس میں
کہ :آخری زمانے میں یا اس امت میں ایسی قوم نکلے گی کہ وہ قرآن پڑھے گی لیکن قرآن
اس کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا (سنن ِ
ابن ماجہ)۔ اور آپ نے ان لوگوں کو شرارالخلق
قرار دیا۔
اسیر مالٹا موالنا محمود حسن ؒ نے فرمایامسلمانوں کی موجودہ پستی کے دو ہی سبب ہیں:
ِ
ترک قرآن اور باہمی اختالف۔ اور اس کا عال صرف یہی ہے کہ قرآنی تعلیمات پر لوگوں کو
ِ
جمع کیا جائے اور اس کی تعلیم عام کی جائے۔ گویا امت کے اختالف کو ختم کرنے کا نسخہ
بھی صرف قرآن ہی ہے۔
اعور کی در ذیل حدیث کی بنیاد پہ کہی ہو جو انھوں
ؓ یہ بات شاید انھوں نے حارث بن عبدہللا
علی کے حوالے سے بیان کی ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے جناب
امیرالمومنین حضرت ؓ
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے پاس جبریل ؑ آئے اور
آپ کے بعد اختالفات میں پڑ جائے گی۔ میں نے پوچھا
!آپ کی امت ؐ
محمد ؐ
ؐ کہنے لگے کہ اے
کہ جبریل ؑ ! اس سے بچاؤ کا راستہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا :قرآن کریم۔ اسی کے ذریعے ہللا
ہرظالم کو تہس نہس کرے گا ،جو اس سے مضبوطی کے ساتھ چمٹ جائے گا وہ نجات پا
جائے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ ہالک ہوجائے گا۔ یہ بات انھوں نے دو مرتبہ کہی۔ پھر
فرمایا کہ یہ قرآن ایک فیصلہ کن کالم ہے یہ کوئی ہنسی مذاق کی چیز نہیں ہے ،زبانوں پر یہ
پرانا نہیں ہوتا ،اس کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے ،اس میں پہلوں کی خبریں ہیں ،درمیان
کے فیصلے ہیں اور بعد میں پیش آنے والے حاالت ہیں ۔(متفق علیہ )
سورۂ مائدہ کی آیت ۶۸کی تشریح کرتے ہوئے ڈاکٹر اسرار احمدؒ لکھتے ہیں :اسی طرح ہللا
تعالی ہم سے فرماتے ہیں کہ کس منہ سے تم نماز پڑھ رہے ہو جب کہ تم نے ہللا کی کتاب کو
ٰ
قائم نہیں کیا۔ یعنی اے قرآن والو! تمھاری کوئی حیثیت نہیں ہے جب تک تم قرآن کو اور جو
کرتے۔(قرآن حکیم اور ہم،ص )۲۹
ِ کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اسے قائم نہیں
آ ہم قرآن سنتے اور پڑھتے ہیں لیکن یہ ہماری زندگی میں تبدیلی کا باعث نہیں بن رہا۔
رسول ہللا کے زمانے میں عرب کے ان پڑھ بدِّو بھی جب قرآن سنتے تو ان کے جسم کانپنے
ؐ
لگتے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے تھے۔ وہ اسے اپنی زندگی سے متعلق پاتے تھے
اور اس پر عمل کرکے ایک نئی زندگی کا آغاز کرتے تھے۔ اسی قرآن کی برکت سے بکریاں
اور اونٹ چرانے والے یہ لوگ انسانیت کے رہنما بن گئے۔ آ وہی قرآن لفظ بہ لفظ ہمارے
درمیان موجود ہے۔ ہر زبان میں بے شمار تفاسیر بھی لکھی گئیں ہیں لیکن اس سب کے
باوجود ہم پر اس کا کوئی اُر نہیں ہو رہا۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ ان بدِّووں کے نزدیک قرآن
ایک زندہ حقیقت تھی جس کو سن کر وہ فورا اس پر عمل کرتے تھے۔لیکن آ ہم نے اس کو
ُواب کی ایک کتاب سمجھ کر اپنی زندگی اور روح سے غیر متعلق کردیا ہے۔
کیا قرآن آ بھی ہمارے لیے ویسے ہی نفع بخش اور زندگی کو تبدیل کرنے والی کتاب بن
سکتا ہے؟ اس کا جواب یقیناہاں ہی میں ہے ۔ بس ضرورت صرف یہ ہے کہ ہم قرآن کو اسی
دور ِّاول میں اہ ِل عرب اور صحابہ
طرح پڑھیں ،سمجھیں اور اس پر عمل کریں جس طرح ِ
کرام نے کیا۔
ؓ
اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ابھی یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم نے قرآن کوسمجھ کر پڑھنا
ہے۔مزید وقت ضائع کیے بغیر یہ کام آ ہی شروع کر دیں۔ کل کا انتظار نہ کریں اس لیے کہ
کل کا انتظار کرنا بھی شیطان کا ایک حربہ ہو سکتا ہے۔ یاد رکھیں کل کبھی نہیں آتی۔