You are on page 1of 21

‫تف ت تف‬ ‫ن‬

‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬


‫ٹ خ‬
‫‪2020‬ء‬ ‫زاں‪ ،‬ن‬ ‫س‬
‫مس تر‪ :‬ن ش‬
‫ا حا ی ق م ر ‪1‬‬
‫ن لکھ ئ‬ ‫نم م ت ش ب ئ ن ض ق‬ ‫یک ئ‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫ے۔‬ ‫ے یزمو وع رآنپر وٹ ی‬ ‫ک‬
‫ی‬
‫ے اور کورسمی ں مذکور اسکےپ ا چ اسماء کی یر ح ج‬‫سوال مب ر ‪1‬۔ رآن جم ی د کی عریف ج‬
‫قرآن مجید کا تعارف ہللا تعالی نے بھی کرایا اور رسول اکرمﷺنے بھی۔ نیزسلف نے بھی اصطالحی تعریف پیش کی۔‬
‫ہللا تعالی کے نزدیک‪:‬‬
‫سورۃ الشعراء میں قرآن کریم کا تفصیلی تعارف ہے کہ یہ کس کی طرف سے ہے؟ کس کے ذریعے آیا ہے؟ کس پر‬
‫نازل ہوا ہے ؟ مقصد نزول کیا ہے؟ عربی میں کیوں نازل ہوا؟‬
‫َنزي ُل َر‌بِّ ْال َعالَ ِمينَ ﴿‪ ﴾١٩٢‬نَ َز َل بِ ِه الرُّ‌و ُح اَأْل ِمينُ ﴿‪َ ﴾١٩٣‬علَ ٰى قَ ْلبِكَ لِتَ ُكونَ ِمنَ ْال ُمن ِذ ِر‌ينَ ﴿‪ ﴾١٩٤‬بِلِ َس ٍ‬
‫ان َع َ‌ربِ ٍّي ُّمبِي ٍن ﴿‬ ‫{ َوِإنَّهُ لَت ِ‬
‫‪َ ﴾١٩٥‬وِإنَّهُ لَفِي ُزب ِ‌ُر اَأْل َّولِينَ ﴿‪ (}﴾١٩٦‬الشعراء‪۱۹۲:‬۔‪ )۱۹۶‬۔‬
‫بالشبہ یہ قرآن مجید رب العالمین کا نازل کردہ ہے جسے روح االمین لے کر نازل ہوئے‪ ،‬آپ ﷺ کے قلب اطہر پرانہوں‬
‫نے نازل کیا تاکہ آپ ﷺ متنبہ کرنے والے ہوں۔صاف عربی زبان میں ہے۔ اور بالشبہ( اس کا ذکر) پچھلی کتب میں‬
‫بھی ہے۔‬
‫سورہ القمر میں اسے آسان کتاب فرمایا‪:‬‬
‫{ َولَقَ ْد یَسَّرْ نَا ْالقُرْ ٰانَ لِل ِّذ ْک ِر فَہَلْ ِم ْن ُّم َّد ِک ٍر }‪( ‬القمر‪)۱۷ :‬‬
‫بالشبہ ہم نے قرآن کریم کو آسان بنادیا ہے تو کیا کوئی ہے جو اس سے نصیحت حاصل کرنے واال ہو؟‬
‫رسول اکرم ﷺکے نزدیک‪:‬‬
‫امام ترمذی رحمہ ہللا نے اپنی سنن کے باب فضائل القرآن (‪ )۲۹۰۶‬میں درج ذیل حدیث بیان کی ہے جس میں آپ ﷺ‬
‫نے قرآن کا تعارف پیش کیا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫خبردار رہنا! عنقریب فتنے اٹھیں گے۔ میں نے عرض کی یا رسول ہللا! ان سے بچا کیسے جاسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے‬
‫فرمایا‪ :‬ہللا کی کتاب سے۔ جس میں تم سے پہلے جو کچھ ہوا اس کی خبریں ہیں اور جو بعد میں ہوگا اس کی بھی‬
‫اطالعات ہیں‪ ،‬جو تمہارے مابین اختالف ہوگا اس کا فیصلہ بھی ہے۔یہ فیصل کتاب ہے مذاق وٹھٹھہ نہیں ہے۔ جو مغرور‬
‫اسے چھوڑے گا ہللا تعالی اسے توڑ کر رکھ دے گا۔ جس نے اس کے عالوہ کہیں اور سے راہنمائی لی اسے ہللا بھٹکا‬
‫دے گا۔یہ قرآن ہللا کی بڑی مضبوط رسی ہے اور بڑا حکیمانہ ذکر ہے۔ یہی صراط مستقیم ہے۔ یہی قرآن ہے جس سے‬
‫خواہشات کبھی نہیں بہکتیں نہ ہی زبانیں لڑکھڑاتی ہیں ‪ ،‬علماء اس سے کبھی سیراب نہیں ہوتے اور نہ ہی یہ بار ہا‬
‫پڑھنے سے پرانا لگتا ہے۔اس کے عجائب نہ ختم ہونے والے ہیں۔ یہ وہی قرآن ہے جسے سن کرجن نہ رک سکے اور‬
‫پکار اٹھے‪ :‬بالشبہ ہم نے بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو راستی کی طرف راہنمائی کرتا ہے ہم اس پر ایمان الئے( سورہ‬
‫الجن) جس نے اس قرآن کے مطابق بات کہی اس نے سچ کہا اور جس نے اس کے کہے پر عمل کیا اس نے اجر پایا‬
‫اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ دیا اس نے انصاف کیا اور جس نے اس کی طرف بالیا اسے صراط مستقیم کی راہ‬
‫دکھا دی گئی۔(عن علی بن ابی طالب)‬
‫قرآن کریم کی خصوصیات‪:‬‬
‫مندرجہ باال تعریف میں قرٓان مجید اور اس کی خصوصیات کا اجمالی (‪ )summery‬تذکرہ آگیا ہے۔ جن کی تفصیل‬

‫‪1‬‬
‫تف ت تف‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫حسب ذیل ہے‪:‬‬
‫کالم ہللا‪:‬‬
‫قرٓان میں صرف ہللا تعالی کا کالم ہے۔ کسی انسان‪ ،‬جن یافرشتے کا کالم اس میں شامل نہیں۔ اسے ہللا تعالی نے خود ہی‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫کالم ہللا یا ٓایات ہللا فرمایا ہے۔ ارشاد باری‬
‫{۔۔‪َ  ‬ح ٰتّی یَ ْس َم َع کَاَل َم ہّٰللا ِ} (التوبۃ‪)۶:‬‬
‫‪....‬تاکہ وہ کالم ہللا کو سن لے۔‬
‫ت ہّٰللا ِ}( آل عمران‪)۱۱۳ :‬‬
‫{۔۔۔یَ ْتلُوْ نَ ٓایَا ِ‬
‫وہ ہللا کی ٓایات کی تالوت کرتے ہیں۔‬
‫غیر مخلوق‪:‬‬
‫قرآن ہللا تعالی کا کالم ہے اور کالم کرنا ہللا تعالی کی صفت ہے اس لئے یہ بھی ہللا تعالی کی ذات کی طرح غیر مخلوق‬
‫ہے۔گوہم اس صفت کی حقیقت نہیں جانتے اور نہ ہی اسے مخلوق کی طرح سمجھتے ہیں۔ بس اتنا جانتے ہیں کہ {لیس‬
‫کمثلہ شئ}۔ اس جیسا کوئی ہے ہی نہیں۔ دو فرقے اس بارے میں گمراہ ہوگئے۔ ایک قدریہ معتزلہ ہے جو ہللا تعالی کی‬
‫صفات کے ظاہری معنی کو چھوڑ کر تاویلیں کرتا ہے۔ تاویل سے صفات کی تخفیف وانکار الزم آتا ہے جو انتہائی کفر‬
‫ہے۔ دوسرا فرقہ مشبہہ مجسمہ ہے وہ اس صفت کو مخلوق کے مشابہ بتاتا ہے یہ بھی پہلے سے کم گمراہ نہیں۔ مناسب‬
‫یہی ہے کہ جو ہللا تعالی کی صفات قرآن کریم اور حدیث رسول میں آئی ہیں ان کے لفظی معنی معلوم ہونے کے بعد پھر‬
‫کیفیت کی کھدیڑ نہ کی جائے۔جب اصل حقیقت کا علم نہیں تو اسے مخلوق کے مشابہ قرار دینا کون سی دانش مندی ہے۔‬
‫یہ ازلی صفات کا اقرار ہے اور تاویل کا انکار۔‬
‫یعنی قرآن مجید کا کوئی لفظ زائد نہیں بلکہ اس کے فوائد ہیں۔ یہ مختصر‪ ،‬جامع‪ ،‬تعمیری‪ ،‬اور واقعیت پسندی کے ساتھ‬
‫اپنے معانی و اہداف کو بیان کرتے ہیں ۔ مثالً طہ‪ ،‬ألم ‪ ،‬عسق وغیرہ۔ انہیں ہم زائد نہیں کہتے مگر اس کے فوائدعرب‬
‫بہتر جانتے ہیں کیونکہ ان کے خطباء کے ہاں ان کی زبردست اہمیت ہے۔ ان کی مراد ہللا تعالی ہی بہترجانتے ہیں۔امام‬
‫حسن بصری رحمہ ہللا کے حلقہ میں کچھ لوگ کہا کرتے کہ یہ الفاظ زائد اور بے فائدہ ہیں۔جس پر انہوں نے فرمایا‪:‬‬
‫ُخ ُذوْ ا ہُٰؤاَل ِئ ‪َ ،‬و َجنِّبُوْ ہُم فِ ْی َح َشا ْال َح ْلقَ ِۃ۔‬
‫انہیں پکڑو اور انہیں ہمارے حلقے سے الگ کرکے اس کے حاشئے میں بٹھادو۔ اس لئے انہیں حشویہ کہا گیا۔‬
‫ظاہری معنی ہی مراد ہوگا‪:‬‬
‫اس کے باطنی معنی لینے کی کوئی دلیل ہے اور نہ ہی ہم اس کے مکلف ہیں۔ایسے دعوے دراصل قرآن کریم کو اپنے‬
‫من پسند عقائد ونظریات میں ڈھالنے کی دعوت ہے۔مگر جو معنی ومفہوم ہللا تعالی نے اپنے رسول کو بتائے‪ ،‬صحابہ‬
‫کرام نے جن پر عمل کیا انہیں قابل اعتناء نہ سمجھا جائے یہ کون سی قرآن دانی ہے؟۔‬
‫باطنیہ کہا کرتے‪:‬‬
‫قرآن کے الفاظ کا ظاہری مفہوم مراد نہیں لیا جاسکتا اور اس کے باطن کا مفہوم ہر کوئی نہیں جانتا۔اسے صرف ہمارے‬
‫باطنی ائمہ ہی جانتے ہیں۔ باطنی معنی میں اشاری معنی بھی آجاتا ہے ۔ مثالً کوئی یہ کہے کہ اس لفظ کے معنی ومفہوم‬

‫‪2‬‬
‫تف ت تف‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫کا مجھے اشارہ ہوا ہے۔ یہ اشارے اگر ہللا کے رسول کے کہے یا مراد کے مطابق ہوں تو درست ورنہ یہ شیطانی‬
‫اشارے بھی ہو سکتے ہیں۔یہ دونوں انداز فکر رسول ہللا ﷺ سے اور امت کے اجماع سے جان چھڑانے اور اپنی الگ‬
‫شریعت سازی کے مترادف ہیں۔‬
‫عاجز کردینے واال ‪:‬‬
‫ال ُم ْع ِجز‪ ‬کا مطلب ہے عاجز کر دینے واال۔ قرٓان مجید نے ثابت کر دیا کہ عرب فصحاء ہی نہیں بلکہ دنیا کے سارے‬
‫انسان اس جیسی کتاب پیش کرنے سے عاجز و قاصر ہیں۔ اس میں غیب کی خبریں اور امم سابقہ کے حاالت ہیں۔ زمان‬
‫ومکان کی مناسبت سے معاشی اور معاشرتی ضرورت کو دیکھ کر اس میں محکم قانون سازی کی گئی ہے۔ عقل انسانی‬
‫دنگ اور بے بس ہے کہ اس جیسی کوئی چیز مقابلہ کے طور پرالسکے۔ خود قرٓان نے بنی نوع انسان کو متعدد بار یہ‬
‫چیلنج دیا کہ وہ اس جیسی کوئی چیز لے ٓائیں۔ باوجود اس بات کے کہ یہ چیلنج ہمتوں کو ابھارنے واال اور مقابلہ کے‬
‫لیے ٓامادہ کرنے واال تھا۔ محرک بھی موجود تھا مگر پھر بھی وہ اس کے مقابلہ سے عاجز رہے۔مثال ارشاد باری تعالی‬
‫ہے‪:‬‬
‫ْض ظَ ِہ ْیرًا} (اإلسراء ‪)۸۸ :‬‬ ‫ت ااْل ِ ْنسُ َو ْال ِج ُّن ع َٰلٓی اَ ْن یَّاْتُوْ ا بِ ِم ْث ِل ٰہ َذا ْالقُرْ ٰا ِن الَ یَاْتُوْ نَ بِ ِم ْثلِ ٖہ َولَوْ َکانَ بَ ْع ُ‬
‫ضہُ ْم لِبَع ٍ‬ ‫{‪ ‬قُلْ لَِّئ ِن اجْ تَ َم َع ِ‬
‫کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جن سب جمع ہو کر اس قرٓان کی مانند ایک کتاب النا چاہیں تو نہ ال سکیں گے۔خواہ وہ‬
‫سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔‬
‫اسی چیلنج کو ایک اور جگہ ذرا کمی کرکے ان الفاظ میں دہرایا گیا‪:‬‬
‫ت َّوا ْد ُعوْ ا َم ِن ا ْستَطَ ْعتُ ْم ِّم ْن ُدوْ ِن ہّٰللا ِ اِ ْن ُک ْنتُ ْم ٰ‬
‫ص ِدقِ ْینَ }‬ ‫{اَ ْم یَقُوْ لُوْ نَ ا ْفت َٰرہٗ ط قُلْ ْفاْتُوْ ا بِ َع ْش ِر ُس َو ٍر ِّم ْثلِ ٖہ ُم ْفتَ َر ٰی ٍ‬
‫کیا یہ کہتے ہیں کہ اسے رسول نے گھڑا ہے۔ کہہ دیجئے کہ اس جیسی دس گھڑی ہوئی سورتیں لے ٓأو اور ہللا کے سوا‬
‫جس کو بالنا چاہوبال لو اگر تم سچے ہو۔‬
‫جب اس سے بھی عاجز رہے تو ایک آدھ چھوٹی سورت کا کہہ دیا۔‬
‫صا ِدقِينَ‬ ‫ب ِّم َّما نَ َّز ْلنَا َعلَ ٰى َع ْب ِدنَا فَْأتُوا بِس َ‬
‫ُور ٍة ِّمن ِّم ْثلِ ِه َوا ْدعُوا ُشهَدَا َء ُكم ِّمن دُو ِن اللَّـ ِه ِإن ُكنتُ ْم َ‬ ‫َوِإن ُكنتُ ْم فِي َر ْي ٍ‬
‫اگر اس چیز کے بارے میں تمہیں کوئی شک ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا‬
‫الٔو ہللا کے سوا اپنے تمام مددگا بال لو اگر تم سچے ہو۔‬
‫اس چیلنج کا اولین مقصد یہی تھا کہ نبی اُمی جناب محمد بن عبد ہللا ﷺ کی رسالت ونبوت ثابت کی جاسکے۔ رسول‬
‫اکرم ﷺ کا اُمی ہونا آپ ﷺ کے حق میں معجزہ ہے مگر امت کا اُمی ہونا امت کے حق میں معجزہ نہیں۔ قرآن مجید کو‬
‫نازل ہوئے آج پندرہ سو سال گزرگئے ہیں یہ بھی اس کا معجزہ ہے جس نے افراد امت کا تعلق نہ صرف ہللا سے جوڑا‬
‫بلکہ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ سے بھی منسلک کردیا۔اس کے عالوہ بے شمار پہلو ایسے ہیں جو معجزہیں جن کا ذکر ہم‬
‫آگے کریں گے۔‬
‫ال ُمنَ َّز ُل‪ ‬کا مطلب ہے بتدریج نازل کردہ۔یعنی صرف وہ کالم ‪ ،‬قرٓان یا کالم ہللا ہے جو آپﷺپر بذریعہ وحی اترا۔ صحف‬
‫ابراہیم وموسی‪ ،‬تورات‪ ،‬زبور ‪ ،‬انجیل وغیرہ کالم ٰالہی ہونے کے باوجود قرٓان میں شامل نہیں کیونکہ وہ دوسرے انبیاء‬
‫پر نازل ہوئیں۔‪ُ  ‬منَ َّزل‪ ‬کہنے سے یہ نکات بھی معلوم ہوئے کہ غیر ہللا یعنی کسی انسان‪ ،‬نبی‪ ،‬فرشتہ کا کالم اس میں‬

‫‪3‬‬
‫تف ت تف‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫شامل نہیں۔ خواہ وہ حدیث قدسی ہی کیوں نہ ہو۔ نیز قرٓان مجید عربی میں ہے اورلفظ و معنی دونوں کا نام ہے ۔ اس بناء‬
‫تعالی کی طرف سے نہیں اگرچہ ان کے مضامین و مطالب ہللا‬
‫ٰ‬ ‫پر احادیث قرٓان میں شامل نہیں کیونکہ ان کے الفاظ ہللا‬
‫وحی خفی ٓاپﷺ پر نازل ہوئے ہیں۔ اسی طرح تفسیرقرٓان بھی اس میں داخل نہیں خواہ وہ‬
‫ِ‬ ‫تعالی کی طرف سے بذریعہ‬
‫ٰ‬
‫عربی میں ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے ہی عربی سے دوسری زبانوں میں قرٓان مجید کا ترجمہ بھی قرٓان نہیں اور نہ یہ ترجمہ‬
‫قرٓان میں شامل ہے۔‬
‫بذریعہ جبرائیل‪:‬‬
‫قرٓان مجید‪ ،‬سیدنا جبرئیل علیہ السالم کے واسطے سے آپ ﷺ کے قلب اطہر پر نازل ہواہے کیونکہ وہی حفظ ویادداشت‬
‫کا مرکز ہے۔ قرٓان مجید میں ہے‪:‬‬
‫{ َواِنَّ ٗہ لَتَ ْن ِز ْی ُل َربِّ ْال ٰعلَ ِم ْینَ ‪ ¢‬نَ َز َل بِ ِہ الرُّ وْ ُح ااْل َ ِمیْن‪ ¢‬ع َٰلی قَ ْلبِ َ‬
‫ک لِتَ ُکوْ نَ ِمنَ ْال ُم ْن ِذ ِر ْینَ ‪ ¢‬بِلِ َسا ٍن ع ََربِ ٍّی ُّمبِ ْی ٍن ‪(} ¢‬الشعراء ‪۱۹۲ :‬۔‬
‫‪)۱۹۵‬‬
‫اور بال شبہ یہ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے جسے روح االمین لے کر اترے ہیں اسے آپﷺ کے‬
‫قلب اطہر پر اتارا ہے تاکہ آپ انذار کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔ صاف ‪ ،‬واضح عربی زبان میں ہے ۔‬
‫اس طرح قرآن کی عظمت‪ ،‬مالئکہ اور اہل ایمان دونوں پر واضح کردی گئی اور آپ ﷺ کو بھی یقین ہوگیا کہ یہ‬
‫شیطانی کالم نہیں بلکہ جبریل امین ہی اسے میرے پاس الئے ہیں جو فرشتوں کے مطاع ہیں۔ باقی قائمۃ الکروبین‪ ،‬اہل‬
‫المراتب والتمکین جیسے فرشتے یا نون فرشتہ اور قلم فرشتہ سب اختراعات ہیں جو عوام کو قرآنی عقیدہ سے ہٹانے‬
‫والی باتیں ہیں۔‬
‫لسان عربی ‪:‬‬
‫ابن فارس نے لکھا ہے‪ {:‬خلق اإلنسان علمہ البیان}‪ ‬ہللا تعالی نے بیان کو دیگر مخلوقات مثالً‪ :‬شمس وقمر‪ ،‬نجوم وشجر‬
‫کے ذکر سے قبل بیان کی۔جس کاسکھا دینا بہت بڑی عنایت ربانی ہے دوسرے اس سے محروم ہیں۔پھر یہ بیان عربی‬
‫زبان میں ہے کیونکہ دیگر زبانوں میں یہ وسعت نہیں اسی بناء پر عربی زبان کا انتخاب ہللا تعالی نے فرمایا۔باقی وحی‬
‫کا کسی زبان میں اترنا بڑا مسئلہ نہیں ۔اگروحی عبرانی یا سریانی زبان میں اترسکتی ہے تو خالص عربی میں کیوں‬
‫نہیں؟ لسان عربی سے مراد یہ نہیں کہ قرآن مجید سابقہ الہامی کتب کے مثل ایک کتاب ہے بلکہ بنیادی طور پر دوسری‬
‫کتب کے مقابلے میں قرآن مجید کو اپنا منفرد مقام حاصل ہے۔‬

‫کتابی شکل‪:‬‬
‫المکتوب کا مطلب ہے لکھا ہوا ۔اور المصاحف جمع ہے مصحف کی‪ ،‬یعنی یہ لوح محفوظ میں لکھا ہواہے نیز آیات کے‬
‫نزول کے بعد آپ ﷺ بھی اسے لکھوالیتے۔مگرکتابت سے پہلے بھی یہ قرآن‪ ،‬قرآن کہالتا تھا ۔ معلوم ہوا کہ قرٓان محض‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫زبانی الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ کتابی شکل میں بھی ہے ارشاد باری‬
‫ب َم ْسطُوْ ِر‪ ¢‬فِي َر ِّ‬
‫ق َّم ْن ُشوْ ِر‪}¢‬‬ ‫{ َو ُّ‬
‫الطوْ ِر‪َ ¢‬و ِکتَا ِ‬
‫قسم ہے طور کی ‪ ،‬اور لکھی ہوئی کتاب کی‪ ،‬پھیلے ہوئے صفحات میں۔‬

‫‪4‬‬
‫تف ت تف‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫اس کی قراء ت عبادت ہے ‪:‬‬
‫ٰ‬
‫صلوۃ اور‬ ‫یعنی اس کتاب کی تالوت کو عبادت کا درجہ حاصل ہے تاکہ مومن رب کی قربت حاصل کرے۔ اسے اقامت‬
‫انفاق فی سبیل ہللا کے ساتھ رکھا گیا ہے اور اس پر نہ ضائع ہونے والی تجارت کی بشارت دی گئی ہے۔‬
‫َاب ہّٰللا ِ َوَأ قَا ُموْ ا ال َّ‬
‫صاَل ۃَ َؤَأ ْنفَقُوْ ا ِم َّما َر َز ْقنَاہُ ْم ِس ًّرا َو َعاَل نِیَۃً یَّرْ جُوْ نَ تِ َجا َرۃً لَ ْن تَبُوْ َر}‪( ‬فاطر ‪)۲۹:‬‬ ‫{ِإ َّن الَّ ِذ ْینَ یَ ْتلُوْ نَ ِکت َ‬
‫بے شک وہ لوگ جو ہللا کی کتاب پڑھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے انہیں رزق دیا اس میں سے پوشیدہ اور‬
‫عالنیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کی امید رکھتے ہیں جو ہرگز ضائع نہیں ہوگی۔‬
‫آپ ﷺ نے تالوت قرٓان پر ثواب کی بشارت یوں ارشاد فرمائی‪:‬‬
‫جو شخص قرٓان مجید کے ایک حرف کی تالوت کرے گا۔ اسے دس نیکیوں کا ثواب ملے گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الم‬

‫تف‬ ‫ایک حرف ہے۔ بلکہ الف ایک حرف ہے الم ایک حرف ہے۔ اور میم ایک حرف ہے۔‬
‫ن‬
‫ے۔‬
‫یک ئ‬
‫ان‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫سوال م ر‪2‬۔ ق رآن جم د کے علوم پ ن گان ہ م ں سے علم اال کام ور علم الت ذک ر الموت و ما ب عد الموت کے م عل ات کو ال ص‬
‫ق‬ ‫ت‬
‫ی ج‬ ‫ب‬ ‫یب‬ ‫ح‬ ‫ج ی‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫فہم قرآن میں سب سے بڑی دشواری یہ پیش آتی ہے کہ بظاہر آیات قرآنی اور ان کے مضامین میں ربط نظر نہیں آتا‬
‫اور ایک مبتدی کو بہت سے مسائل سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ حضرت شاہ ولی ہللا ؒ محدث دہلوی نے الفوز‬
‫الکبیر میں اس مشکل کو حل کر دیا ہے۔ انھوں نے قرآن مجید کے تمام مطالب کو پانچ حصوں یا علوم پنجگانہ میں‬
‫منقسم کیا ہے۔ قرآن مجید میں جو مضامین اور مفہوم بیان کئے گئے ہیں وہ ان پانچ علوم سے باہر نہیں۔ شاہ صاحب‬
‫’’الفوز الکبیر ‘‘ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ ’’امید ہے کہ طالب علموں کے سامنے صرف ان قواعد کے سمجھ لینے‬
‫ہی سے کتاب ہللا کو سمجھنے کی ایک وسیع شاہراہ کھل جائے گی ‪، ،‬۔‬
‫ذیل میں ’’الفوز الکبیر ‘‘ کے پہلے باب کا خالصہ پیش ہے۔‬
‫(‪ )۱‬علم احکام‪: ‬‬
‫قرآن مجید کے تمام احکام۔ واجب ‪ ،‬مستحب ‪ ،‬حرام ‪ ،‬مکروہ اور مباح۔ خواہ عبادات سے متعلق ہوں یا معامالت سے‬
‫تدبیر منزل سے ہوں یا سیاست مدن سے یہ تمام علم اس میں آ جاتے ہیں۔ ان احکام کو متن نویسوں کی طرح پیش نہیں‬
‫تعالی نے جس حکم کو بندوں کے لئے ضروری سمجھا اور جس انداز میں ضروری سمجھا بیان کر دیا‬
‫ٰ‬ ‫کیا گیا بلکہ خدا‬
‫خواہ کوئی حکم مقدم ہو جائے یا موخر۔ علم احکام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ۔ ۔ ۔ ‪ ‬چونکہ رسول ہللاﷺ ملت ابراہیمی پر‬
‫تعالی نے عرب کو حضورﷺ‬
‫ٰ‬ ‫مبعوث ہوئے اس لئے اس ملت کے طریقوں کا باقی رکھنا ضروری ہے اور چونکہ ہللا‬
‫کے ہاتھ اور پھر باقی تمام عالم کو عربوں کے ہاتھ سے پاک کرنے کا ارادہ فرمایا ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ‬
‫شریعت محمدیہ کا مواد عربوں ہی کی رسوم و عادات سے لیا جائے۔‬
‫ملت ابراہیم کی تمام عبادات میں فتور عظیم پیدا ہو گیا تھا۔ اس کے احکام میں تساہل برتا جاتا۔ اہل جاہلیت نے اس میں‬
‫تحریف کر دی تھی۔ قرآن مجید نے اس بدنظمی کو دور کر کے اصالح و درستی کر دی۔ اسی طرح معامالت خانگی‬
‫میں بُری رسوم اور ظلم نے دخل پا لیا تھا اور احکام سیاست مدن بھی بالکل قطع ہو چکے تھے۔ اس لئے قرآن نے ان‬
‫کے اصول بھی منضبط کر کے ان کی پوری حدبندی فرما دی۔‬
‫(‪ )۲‬علم مناظرہ۔‬

‫‪5‬‬
‫تف ت تف‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫ٰ‬
‫نصاری ‪ ،‬مشرکین اور منافقین سے مباحث ہوئے یہ مباحثے دو طرح پر کئے‬ ‫قرآن مجید میں چار گمراہ فرقوں ‪ ،‬یہود ‪،‬‬
‫گئے ہیں۔‬
‫اول یہ کہ فقط باطل عقیدہ کو بیان کر کے اس کی قباحت بیان کر دی گئی اور اس طرح اس عقیدہ سے نفرت دالئی گئی۔‬
‫دوم یہ کہ گمراہوں کے شبہات کو بیان کر کے ان کو حل کیا گیا۔‬
‫(الف) مشرکین سے مباحثہ ‪ :‬مشرکین مکہ اپنے کو ملت ابراہیمی کا پابند کہتے لیکن انھوں نے ملت ابراہیمی کی‬
‫تعالی کے وجود کا عقیدہ۔ اس کا خالق کائنات ہونے اور رسولوں کو بھیجنے پر قادر‬
‫ٰ‬ ‫عالمات کو ترک کر دیا تھا۔ خدا‬
‫ہونے وغیرہ کے وہ قائل تھے لیکن انھوں نے ان عقائد میں شبہات پیدا کر دئے تھے۔‬
‫اس طرح وہ شرک‪ ،  ‬تشبیہ اور تجسّم کے قائل تھے۔ معاد کے منکر تھے۔ نبی کریمﷺ کی رسالت کو بعید از قیاس‬
‫سمجھتے تھے۔ برے اعمال عالنیہ کرتے۔ نئے نئے رسوم و عبادات ایجاد کرتے تھے۔ قرآن کریم نے ان کے ایک ایک‬
‫فساد عقیدہ اور عمل کی گمراہی کو علم مباحثہ کے ذریعہ دور کیا۔‬
‫شرک کا جواب یہ دیا گیا کہ ان سے شرک کی دلیل طلب کی گئی۔ تقلید آباء کا استدالل کیا گیا۔ ان کو بتایا گیا کہ وہ‬
‫بندگان خدا جن کو وہ خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں خدا کے برابر نہیں ہو سکتے اور تمام انبیاء نے شرک کی اجتماعی‬
‫طور پر مخالفت کی ہے۔‬
‫‪ ‬تشبیہ کا یہ جواب دیا گیا کہ تمہاری تحریف کردہ باتیں ملت ابراہیمی سے ثابت نہیں ہیں اور ایسے لوگوں کی اختراعات‬
‫ہیں جو معصوم نہ تھے۔‬
‫انکار معاد اور حشرو نشر کے انکار کا جواب یہ دیا گیا کہ اس کو زمین کی حیات پر قیاس کر لیا جائے۔ نیز ان امور‬
‫کی خبر پر تمام اہل کتاب کا اتفاق ہے۔‬
‫(ب) یہود ‪ :‬یہود کی گمراہی یہ تھی کہ وہ توریت میں لفظی اور معنوی تحریف کرتے تھے۔ بعض آیات کو چھپاتے اور‬
‫جو احکام اس میں نہ ہوتے وہ مال دیتے۔ احکام کی پابندی میں تساہل برتتے۔ تعصب مذہبی میں شدت ‪ ،‬رسول ہللاﷺ کی‬
‫رسالت میں تامل ‪،‬بے ادبی ‪ ،‬طعنہ زنی ‪ ،‬بخل اور حرص میں مبتال تھے۔ قرآن مجید تمام کتب سابقہ کا محافظ ‪ ،‬ان کے‬
‫اشکاالت کو کھولنے واال ہے۔ اس لئے ان کی تحریف آیات کو چھپانا اور افترا پردازی کو پوری طرح کھول کر رکھ دیا‬
‫ہے۔ رسالت نبی کریمﷺ کو تسلیم کرنے میں ان کے تامل کی نشاندہی کر کے اس کے اسباب بیان کر دیئے گئے ہیں۔‬
‫تعالی کو تین ایسے حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا جو بعض‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫نصاری کی گمراہی یہ تھی کہ انھوں نے خدا‬ ‫ٰ‬
‫نصاری ‪:‬‬ ‫(ج)‬
‫وجوہ سے الگ الگ اور بعض وجوہ سے متحد تھے۔ اس کو وہ اقانیم ثالثہ کہتے ہیں۔ ایک اقنوم باپ ‪ ،‬دوسرا ابن اور‬
‫مسیح کی روح کا لباس اختیار کر لیا تھا ‪ ،‬اس لئے حضرت‬
‫ؑ‬ ‫تیسرا روح القدس ‪ ،‬ان کا عقیدہ تھا کہ اقنوم ابن نے حضرت‬
‫ٰؑ‬
‫عیسی خدا بھی ہیں ‪ ،‬ابن ہللا اور بشر بھی ہیں وغیرہ وغیرہ۔‬
‫ٰؑ‬
‫عیسی نے بعض دفعہ ہللا‬ ‫اس کا جواب یہ دیا گیا کہ قدیم زمانہ میں لفظ ابن ‪ ،‬مقرب اور محبوب کے ہم معنی تھا۔ حضرت‬
‫کے افعال کو اپنی جانب منسوب کیا ہے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ یہ نسبت بطریق نقل و حکایت ہے جیسے کسی بادشاہ‬
‫ٰؑ‬
‫عیسی خدا کے بندے‬ ‫کا ایلچی یہ کہے کہ ہم نے فالں ملک فتح کر لیا۔ خدا نے ان عقائد کو رد کر کے کہا کہ حضرت‬
‫ٰؑ‬
‫عیسی کو مقتول سمجھتے تھے۔ اس شبہ کا قرآن سے ازالہ کیا گیا۔‬ ‫ٰ‬
‫نصاری کی گمراہی یہ تھی کہ وہ حضرت‬ ‫تھے۔ نیز‬

‫‪6‬‬
‫تف ت تف‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫ٰؑ‬
‫عیسی لیتے جو قتل کے بعد حواریوں کے پاس گئے‬ ‫ان کی ایک گمراہی یہ تھی کہ وہ فارقلیط موعود سے مراد حضرت‬
‫تھے۔ قرآن نے بتایا کہ یہ بشارت ہمارے نبی کریمﷺ کے لئے تھی۔‬
‫(د) منافقین ‪ :‬منافقین دو طرح کے تھے۔ اول وہ جو زبان سے کلمہ ایمان کہتے مگر ان کا قلب کفر اور سرکشی پر پختہ‬
‫تھا۔ ان لوگوں کے متعلق فرمایا گیا کہ ’’فی الدرک االسفل من النار‪‘‘ ‬‬
‫دوسرے وہ جنھوں نے اسالم قبول کر لیا مگر ایمان ضعیف تھا۔ دنیاوی لذتوں کی پیروی کرتے تھے۔ اس لئے خدا اور‬
‫رسول کی محبت باقی نہ رہی تھی۔ حرص مال اور حسد و کینہ دلوں پر مسلط تھا۔ امور دنیا میں منہمک ہو گئے تھے‬
‫اس لئے آخرت کی فکر نہ رہی تھی۔ ‪ ‬رسول ہللا ﷺ کی رسالت کی نسبت بیہودہ خیاالت و شبہات رکھتے تھے مگر اتنی‬
‫جرات نہ تھی کہ اسالم کے دائرہ سے نکل جاتے۔‬
‫قرآن میں ان تمام گروہوں سے مباحثہ دیکھ کر یہ گمان نہ کرنا چاہئے کہ یہ مباحث ایک خاص قوم سے تھے جو گزر‬
‫گئی اور اب اس کی ضرورت نہیں رہی بلکہ ان کا نمونہ آج بھی موجود ہے۔ ان کا مقصود اصلی ان مقاصد کے لئے‬
‫کلیات کا بیان ہے نہ کہ ان حکایات کی خصوصیات۔‬
‫(‪ )۳‬تذکیر باآلء ہللا‪: ‬‬
‫تعالی نے تذکیر باآل ء ہللا کے سلسلہ میں‬
‫ٰ‬ ‫قرآن کریم کا نزول تمام نسل انسانی کی تہذیب کے لئے ہوا ہے اس لئے خدا‬
‫تمام افراد بنی آدم کی اکثریت کی معلومات سے زیادہ بیان نہیں کیا اور نہ ہی زیادہ بحث سے کام لیا ہے۔ اسماء اور‬
‫اعلی کو ایسے آسان طریقہ سے بیان کیا ہے کہ‪  ‬تمام نسل انسانی حکمت ٰالہی اور علم کالم میں مہارت کے بغیر‬
‫ٰ‬ ‫صفات‬
‫ہی اپنی فطرت کے ذریعہ ان کو سمجھ سکے۔ چنانچہ ذات ٰالہی کا ذکر اجمالی فرمایا کیونکہ اس کا علم تمام افراد کی‬
‫فطرت میں موجود ہے اور چونکہ صفات ٰالہی کا فہم گہری نظر سے حاصل کرنا محال تھا اس لئے ان‪  ‬کو ان بشری‬
‫صفات کاملہ سے سمجھایا گیا جس کو ہم جانتے ہیں اور جو ہمارے نزدیک قابل تعریف سمجھے جاتے ہیں۔ اس طرح‬
‫جن نعمتوں کا ذکر مناسب تھا کیا گیا۔ یہ نعمتیں عام ہیں مثالً زمین و آسمان کی پیدائش‪ ،‬بادلوں سے پانی برسانا ‪ ،‬زمین‬
‫سے پانی کے چشمے جاری‪  ‬کرنا۔ اس سے طرح طرح کے پھل پھول غلہ لگانا ضروری صفتوں کا الہام اور ان کے‬
‫جاری کرنے کی قدرت بخشنا۔ مصیبتوں کے ہجوم اور ان کے دور ہونے کے وقت لوگوں کا رویہ بدل جانے پر تنبیہ‬
‫بھی کی گئی ہے۔‬
‫(‪ )۴‬تذکیر بایام ہللا‪:‬‬
‫اس میں وہ واقعات بیان کئے گئے ہیں جو ہدایت و ضاللت اور حق و باطل کی کشمکش کے مختلف پہلوؤں پر روشنی‬
‫ڈالتے ہیں اور ترغیب یا ترہیب کا کام انجام دیتے ہیں مثالً فرمانرواؤں کے لئے انعام اور نا فرمانوں کے لئے عذاب۔ اس‬
‫کے لئے ایسی جزئیات کو بیان کیا گیا ہے جو اس سے پہلے وہ سن چکے تھے مثالً عاد ثمود کے قصے۔ حضرت‬
‫ابراہیم اور انبیائے بنی اسرائیل کی داستانیں وغیرہ۔ غیر مانوس قصے بیان نہیں کئے گئے۔ مشہور قصوں میں سے بھی‬
‫ؑ‬
‫ان کو لیا گیا ہے جو تذکیر میں کارآمد ہوں اور تمام قصوں کو ان کی تمام خصوصیات کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا۔ اس‬
‫میں مصلحت یہ ہے کہ عوام جب کوئی عجیب و ‪ ‬غریب داستان سنتے ہیں یا داستان اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ ان‬

‫‪7‬‬
‫تف ت تف‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫کے سامنے بیان کی جاتی ہے تو ان کی طبیعت محض اس داستان کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ اور تذکیر کا مقصد فوت‬
‫ہو جاتا ہے۔‬
‫ان قصص کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ان واقعات سے آگاہی ہو جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ سننے والے کا ذہن شرک اور‬
‫گناہ کی برائی سے نفرت کرے اور وہ کفار پر عذاب اور مخلصین پر خدا کی عنایت پر مطمئن ہو جائے۔‬
‫(‪ )۵‬تذکیر بالموت و بما بعد الموت‬
‫اس سلسلہ میں یہ امور بیان ہوئے ہیں۔ انسانی موت کی کیفیت۔ بے چارگی کا عالم۔ موت کے بعد جنت اور دوزخ کا‬
‫عیسی کا نزول۔ دجال اور یا جوج ماجوج کا ظہور۔ صور‬‫ٰؑ‬ ‫سامنے آنا‪ ،‬عذاب کے فرشتوں کا آنا۔ عالمات قیامت۔ حضرت‬
‫فنا۔ صور حشر و نشر۔ سوال جواب۔ میزان اور نامہ اعمال۔ مومنین کا دیدار ٰالہی۔ عذاب کی نوعیتیں۔ نغمہ ہائے جنت کی‬
‫تفصیالت وغیرہ۔ ان سب کے بیان کرنے کا مقصد بھی تذکیر ہے اور ان کو مختلف صورتوں میں ان کے حسب حال‬
‫اجماالً یا تفصیالً فبیان کیا گیا ہے۔‪ ‬‬
‫یک ئ‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫غ‬ ‫ش‬ ‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫ے اور‬ ‫ان‬ ‫کو‬ ‫ت‬ ‫عر‬ ‫عدم‬ ‫کی‬ ‫زول‬ ‫اب‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫سوخ‬ ‫م‬ ‫و‬ ‫اسخ‬ ‫‪،‬‬ ‫اظ‬ ‫ب‬ ‫ر‬ ‫سے‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫الت‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫حا‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ت‬‫راس‬ ‫کے‬ ‫می‬‫ہ‬ ‫رآن‬ ‫۔‬‫‪3‬‬ ‫ر‬
‫ی ج‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫س‬ ‫ال‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫سوال ب‬
‫م‬
‫مش ک ح ب ت یک ئ‬
‫ے۔‬‫ہ ر ای ک ل کا ل ھی ج ویز ج‬
‫تعالی نے قرآن مجید عالم انسانیت کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے نازل فرماکر انسانیت کو ہدایت اور صراط مستقیم‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫کا راستہ دکھا کر اپنی حجت تمام کر لی ہے ۔ قرآن مجید ایک واضح کتاب اور دلیل قاطع ہے جو انسانوں کو اندھیروں‬
‫سے نکال کر روشنی کی راہ دکھاتی ہے ۔ جس کے ذریعے انسان حق اور باطل ‪ ،‬صحیح اور غلط ‪ ،‬سچ اور جھوٹ‪،‬‬
‫تعالی نے ایک ہی بار نازل نہیں فرمایا بلکہ تدریجا آہستہ آہستہ‬
‫ٰ‬ ‫شرک اور توحید میں تمیز کر سکتا ہے۔ اس قرآن کو ہللا‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫تئیس سال کی مدت میں قرآن کا نزول مکمل ہوا۔ جس میں تیرہ سال مکی دور کے اوردس سال مدنی دور کے ‪ ،‬ہللا‬
‫‪ :‬کا ارشاد ہے کہ‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫َنزيالً۬ (‪)۱‬‬
‫ث َونَ َّزلۡنَهُ ت ِ‬ ‫َوقُرۡ َءانً۬ا فَ َرقۡنَهُ لِتَقۡ َرَأهُ ۥ َعلَى ٱلنَّ ِ‬
‫اس َعلَ ٰى ُمكۡ ٍ۬‬
‫ترجمہ‪ :‬اور قرآن کو ہم نے جدا جدا کر کے اتا را تاکہ آپ اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں اور ہم نے اسے تدریجا‬
‫اتارا۔‬
‫تعالی نے اس آیت میں واضح کر دیا اور تدریجا نازل کر نے کا سبب بھی واضح الفاظ میں بیان کر دیا کہ آپ اس‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫قرآن کو لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ جو بات ٹھہر ٹھہر کر اور وقفے وقفے سے پڑھی جاتی ہے وہ دلنشین ہوجاتی‬
‫ہے اور آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے ۔‬
‫‪ :‬اسلوب ِقرآن‬
‫قرآن مجید جس زبان اور جس خطے میں نازل ہوا اس خطے کی زبان اور انہیں لوگوں کے اسلوب میں نازل ہوا۔ اس‬
‫لیے عرب کے کسی شخص نے قرآن کے اسلوب پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ قرآن مجید جس طرح ایک فصیح اللسان‬
‫شاعر کو سمجھ میں آیا تھا اسی طرح ایک عام ‪ ،‬ان پڑھ شخص کو بھی سمجھ میں آیا ۔‬
‫امین احمد اسلوب قرآن کے متعلق لکھتے ہیں "قرآن مجید عرب کی زبان میں اور انہی کے اسلوب میں نازل ہوا ‪ ،‬قرآن‬
‫کے تمام الفاظ عربی ہیں سوا چند الفاظ کے جو دوسری زبانوں سے لیے گئے ہیں لیکن ان الفاط پر عربیت کا اثر غالب‬

‫‪8‬‬
‫تف ت تف‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫آگیا۔‬
‫قرآن کا اسلوب عرب کا اسلوب ہے اس میں حقیقت ‪،‬مجاز اور کنایۃ عرب کالم کے مطابق ہے کیونکہ قرآن کے پہلے‬
‫تعالی کا ارشاد ہے‬
‫ٰ‬ ‫مخاطب عرب ہی تھے تو اس لیے ان کو اس زبان میں مخاطب کیا گیا جو وہ سمجھتے تھے "(‪ )۲‬ہللا‬
‫‪ :‬کہ‬
‫َو َمٓا َأرۡ َسلۡنَا ِمن َّرسُو ٍل ِإاَّل بِلِ َسا ِن قَوۡ ِم ِهۦ لِيُبَيِّنَ لَهُم‌ۡ (‪)۳‬‬
‫ترجمہ‪ :‬اور ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس قوم کی زبان میں تاکہ وہ ان کے لیے پیغام اچھی طرح واضح کر‬
‫سکے۔‬
‫اس آیت میں ہللا تعالی نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا کہ رسول ہللا ﷺ انہی میں سے ہیں اور انہی کی زبان میں ان‬
‫سے بات کرتے ہیں اور ہللا کی کتاب بھی اسی قوم کی زبان میں نازل کی جاتی ہے ۔ اس کے باوجود قرآن کو تمام‬
‫صحابہ برابر سمجھنے سے قاصر تھے ۔ جس طرح عربی میں لکھی ہوئی کتاب کو تمام اہل زبان نہیں سمجھ سکتے‬
‫اسی طرح انگریزی اور اردو زبان میں لکھی ہوئی کتاب کو اہل زبان مکمل نہیں سمجھ سکتے کیونکہ عقل ‪ ،‬فہم و‬
‫فراست میں طبقات اور درجات ہوتے ہیں اسی طرح ہر شخص اپنی مادری زبان کا احاطہ نہیں کر سکتا عربی زبان کا‬
‫معاملہ بھی ٹھیک اسی طرح کا ہے‪ ،‬یہاں پر حضرت عمر رضی ہللا عنہ کا واقعہ ذکر کرنا موزوں ہوگا۔ انس بن مالک‬
‫تعالی ‪َ :‬وفَ ٰـ ِكهَةً۬ َوَأبًّ۬ا۔‬
‫ٰ‬ ‫رضی ہللا عنہ روایت کرتے ہیں کہ ‪ :‬ان رجال سئال عمر بن الخطاب عن قولہ‬
‫یعنی ایک شخص نے حضرت عمر رضی ہللا عنہ سے سورۃ عبس کی آیت َوفَ ٰـ ِكهَةً۬ َوَأبًّ۬ا ‪ ،‬میں ا َبًّ۬ا لفظ کے معنی دریافت‬
‫کی تو حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے اس سے کہا کہ ہمیں تکلفات میں پڑنے سے منع کیا گیا ہے (‪ )۴‬یہ تھے حضرت‬
‫عمر رضی ہللا عنہ جن کی فہم و فراست اور دینی علم کی گہرائی کو ہم جانتے ہیں۔ ان کے ساتھ عام صحابہ کا بھی یہی‬
‫حال ہوگا ۔‬
‫‪:‬قرآن کی نزول کے اعتبار سے تقسیم‬
‫نزول قرآن کے اعتبار سے قرآن مجید کے دو حصے ہیں۔‬
‫قرآن مجید کا وہ حصہ جو بغیر کسی سوال یا حادثہ کے نازل ہوا ایسی آیات اکثر و بیشتر مندرجہ ذیل مضامین سے )‪(۱‬‬
‫تعلق رکھتی‬
‫ہیں۔‬
‫وہ آیات جن میں انبیاء سابقین اور امم سابقہ کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ •‬
‫زمانہ ماضی کے واقعات ۔ •‬
‫وہ آیات جن میں مستقبل میں پیش آنے والے غیبی واقعات کا ذکر ہے۔ •‬
‫قیامت کے متعلق آیات •‬
‫عذاب اور ثواب کے متعلق آیات وغیرہ ۔ •‬
‫قرآن کے اس حصے کا نزول بغیر کسی سوال یا سبب کے ہوا ہے ۔ قرآن میں ایسی آیات اچھی خاصی تعداد میں موجود‬
‫ہیں ‪ ،‬ان کے نازل کرنے کی غرض یہ ہے کہ مخلوق خدا کو سیدھی راہ دکھائی جائے ۔ یہ آیات سیاق و سباق کے ساتھ‬

‫‪9‬‬
‫تف ت تف‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫مربوط و متصل ہیں مگر کسی سوال کے جواب میں نازل نہیں ہوئی اور ان میں کسی چیز کا حکم بھی مذکور نہیں ہے ۔‬
‫قرآن مجید کا وہ حصہ جس کے نزول کا سبب سوال یا کوئی حادثہ ہے یعنی سوال کے جواب میں آیات نازل ہوئیں )‪(۲‬‬
‫یا کسی حادثہ کے متعلق آیات نازل ہوئیں۔‬
‫قرآن مجید کی تفسیر سبب نزول کی معرفت کے بغیر مناسب نہیں ہو سکتی کیونکہ جس دور میں اور جن حاالت میں‬
‫قرآن مجید نازل ہوا ان حاالت کو جاننا بے حد ضروری ہے کہ یہ آیت کسی حادثہ یا کسی سوال کے جواب میں نازل‬
‫ہوئی ہے ۔‬
‫امام واحدی رحمۃ ہللا علیہ سبب نزول کے متعلق لکھتے ہیں کہ ‪ :‬آیت کا تفسیر اور اس کے غرض و غایت کا علم اس‬
‫کے سبب نزول کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔ اور اس کے سبب نزول میں کوئی بات کرنا جائز نہیں سوائے صحیح روایت کے‬
‫جنہوں نے قرآن کے نزول کا زمانہ پایا(‪)۵‬۔‬
‫سبب نزول آیت کے مقصد اور تفسیر میں مدد گار ثابت ہوتا ہے‪ ،‬امام ابن تیمیۃ رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں‪ :‬ومعرفۃ سبب‬
‫النزول یعین علی فھم اآلیۃ ‪ ،‬فان العلم بالسبب یورث العلم بالمسبب۔(‪ )۶‬یعنی سبب نزول کی پہچان کسی آیت کے فہم و‬
‫ادراک میں مدد دیتی ہے اس لیے کہ سبب کے علم سے مسبب کا معلوم ہونا ایک فطری بات ہے ۔‬
‫جالل الدین سیوطی رحمۃ ہللا علیہ امام ابن دقیق العید رحمۃ ہللا علیہ کا قول ذکر کرتے ہیں کہ سبب نزول کا علم قرآن‬
‫کے معانی اور فہم کا قوی ذریعہ ہے (‪)۷‬ان حوالوں کے سبب نزول کی اہمیت اور ضرورت واضح ہو گی۔‬
‫‪:‬اسباب نزول سے نا آشناہونے کا نتیجہ‬
‫اسباب نزول کا علم آیت کے مقصد کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو تاہے اور اسباب نزول کی ال علمی غلطی اور خطا‬
‫‪ ،‬کا سبب بنتا ہے‬
‫شیخ احمد امین حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے دور میں خالفت کا ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی‬
‫ہللا عنہ نے حضرت قدامۃ بن مظعون کو بحرین کا گورنر مقرر کیا تھا‪ ،‬حضرت جارود نے حضرت عمر رضی ہللا عنہ‬
‫سے آکر شکایت کی کہ قدامۃ بن مظعون شراب پی کر مدہوش ہو گیا تھا۔ حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے جارود سے‬
‫کہا تمہاری اس بات کی کون گواہی دیگا؟ جارود نے کہا حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ میری بات کی گواہی دیں گے ۔‬
‫تو حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے قدامۃ بن مظعون سے کہا تم پر شراب نوشی کی حد جاری کرونگا ۔ اس پر قدامۃ نے‬
‫کہا اگر ایسا ہے جیسے آپ کہتے ہیں تو آپ مجھ پر حد جاری نہیں کر سکتے اس پر حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے‬
‫تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے کہ‬
‫ٰ‬ ‫‪ :‬قدامۃ سے پوچھا وہ کیسے ؟ قدامۃ نے کہا ہللا‬
‫وا ثُ َّم ٱتَّقَ ْ‬
‫وا‬ ‫وا َّو َءا َمنُ ْ‬
‫ت ثُ َّم ٱتَّقَ ْ‬ ‫وا َو َع ِملُ ْ‬
‫وا ٱل َّ‬
‫صـٰلِ َحـٰ ِ‬ ‫وا َّو َءا َمنُ ْ‬
‫ت ُجنَا ٌح۬ فِي َما طَ ِع ُم ٓو ْا ِإ َذا مَا ٱتَّقَ ْ‬ ‫وا َو َع ِملُ ْ‬
‫وا ٱل َّ‬
‫صـٰلِ َحـٰ ِ‬ ‫س َعلَى ٱلَّ ِذينَ َءا َمنُ ْ‬ ‫لَيۡ َ‬
‫َّوَأحۡ َسنُ ْ‌‬
‫واۗ َوٱهَّلل ُ يُ ِحبُّ ٱۡل ُمحۡ ِسنِينَ ۔(المائدہ ‪)۹۳‬‬
‫یعنی ان لوگوں پر جو ایمان الئے اور نیک عمل کرتے رہے کوئی گناہ نہیں جو وہ کھا پی چکے ہیں جب وہ ڈرجائیں‬
‫ٰ‬
‫تقوی اختیار کریں اور نیکی‬ ‫ٰ‬
‫تقوی اختیار کریں اور ایمان لے آئیں پھر وہ‬ ‫اور ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں پھر وہ‬
‫کا کام کریں۔‬
‫اس آیت کو دلیل کے طور پر پیش کر تے ہوئے قدامۃ نے کہا میں ان لوگوں میں سے ہوں جو ایمان الئے اور نیک عمل‬

‫‪10‬‬
‫تف ت تف‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫تقوی اختیار کر کے اچھے کام کیے اور میں رسول ہللاﷺ‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫تقوی اختیار کیا اور ایمان الئے اور‬ ‫کیے پھر انہوں نے‬
‫کےساتھ بدر‪ ،‬احد ‪ ،‬خندق اور دوسرے معرکوں میں شریک رہا ہوں۔ قدامۃ کی یہ دلیل سن کر حضرت عمر رضی ہللا‬
‫عنہ نے کہا اس کو کوئی جواب نہیں دیتا؟ تو حضرت عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہ نے کہا یہ آیت شراب کی حرمت‬
‫تعالی نے فرمایا ہےکہ‬
‫ٰ‬ ‫‪ :‬نازل ہونے سے پہلے مسلمانوں کے لیے عذر ہے اور باقی لوگوں پر حجت ہے ‪ ،‬کیونکہ ہللا‬
‫صابُ َوٱۡلَأزۡلَ ٰـ ُم ِرجۡسٌ ۬ ِّمنۡ َع َم ِل ٱل َّشيۡطَـ ِٰن فَٱ ۡ‬
‫جتَنِبُوهُ لَ َعلَّ ُكمۡ تُفۡلِحُونَ ۔سورۃ المائدہ (‪)۹۰‬‬ ‫يَـَٰٓأيُّہَا ٱلَّ ِذينَ َءا َمنُ ٓو ْا ِإنَّ َما ٱۡلخَمۡ ُر َوٱۡل َميۡ ِس ُر َوٱۡلَأن َ‬
‫ترجمہ‪:‬اے ایمان والوں بیشک اور جوا اور نصب کیے گئے بُت اور فال نکالنے کے تیر یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں‬
‫سو تم ان سے‬
‫پرہیز کرو تاکہ تم فالح پاؤ۔‬
‫حضرت عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہ کی یہ دلیل سن کر حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے کہا تم نے سچ کہا ۔(‪)۸‬‬
‫اس واقعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسباب نزول کا علم انسان کو غلطی سے بچاتا ہے ۔ اگر اس آیت کے سبب‬
‫‪:‬نزول کا علم کسی کو نہ ہو تو ہر شخص اس آیت کو اپنے لیے دلیل بناتا اور کہتا کہ‬
‫ت ُجنَا ٌح۬ فِي َما طَ ِع ُم ٓو ْا‬ ‫وا َو َع ِملُ ْ‬
‫وا ٱل َّ‬
‫صـٰلِ َحـٰ ِ‬ ‫س َعلَى ٱلَّ ِذينَ َءا َمنُ ْ‬
‫لَيۡ َ‬
‫کوئی گناہ نہیں ان لوگوں پر جو ایمان لے اور اور نیک عمل کر تے رہے جو کچھ کھاتے ‪ ،‬پیتے رہے ۔ یہ سبب نزول‬
‫کا علم ہی ہے جو ہمیں اس طرح کی غلطیوں سے بچاتا ہے ۔(‪)۸‬‬
‫‪ :‬اسی طرح مروان بن حکم کو اس آیت کے سمجھنے میں ابہام اور اشکال پیدا ہوا‬
‫بۖ َولَهُمۡ َع َذابٌ َألِي ٌم۬ـآلعمران‬ ‫ُوا بِ َما لَمۡ يَفۡ َعلُ ْ‬
‫وا فَاَل تَحۡ َسبَنَّہُم بِ َمفَا َز ٍة۬ ِّمنَ ٱۡل َع َذا ِ‌‬ ‫َوا َّوي ُِحبُّونَ َأن يُحۡ َمد ْ‬
‫اَل تَحۡ َسبَ َّن ٱلَّ ِذينَ يَفۡ َرحُونَ بِ َمٓا َأت ْ‬
‫‪۳/۱۸۸‬‬
‫یعنی آپ ایسے لوگوں کو ہر گز خیال نہ کریں جو اپنی کارستانیوں پر خوش ہو رہے ہیں اور نہ کردہ اعمال پر بھی اپنی‬
‫تعریف کے خواہشمند ہیں آپ انہیں ہر گز عذاب سے نجات پانے واال نہ سمجھیں اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔‬
‫اس پر مروان بن حکم نے کہا یہ آیت مسلمانوں کے لیے وعید ہے ‪،‬جو شخص اپنے عمل پر خوش ہوتا ہے اور وہ چاہتا‬
‫ہے کہ جو عمل اس نے نہیں کیا اس پر اس کی تعریف کی جائے ۔‬
‫حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہ نے کہا کہ یہ آیت اہل کتاب کے متعلق نازل ہوئی جب رسو ل ہللا ﷺ نے ان سے کسی‬
‫چیزکے متعلق پوچھا تھا تو انہوں نے صحیح بات چھپا کر کچھ اور بتایا اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ جو رسول ہللا ﷺ‬
‫نے ان سے پوچھا اسی کے بارے میں ہی انہوں نے بتایا ہے اور وہ چاہتے تھے کہ اس پر ان کی تعریف کی جائے(‪)۹‬۔‬
‫جو شخص قرآن مجید کو سمجھنا چاہتا ہے یا قرآن کی تفسیر کرنا چاہتا ہے تو اس شخص کے لیے الزمی ہے کہ وہ‬
‫اسباب نزول کا بھی علم حاصل کرے ‪ ،‬اس سے وہ خود کو شبہات سے محفوظ کر لے گا‪ ،‬اور قرآن کا صحیح فہم و‬
‫ادراک حاصل کر پائے گا ۔ ورنہ وہ قرآن سے ہدایت پانے کے بجائے گمراہی کی طرف چال جائے گا ۔‬
‫ابو عبید ابراہیم التیمی کا قول ذکر کرتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی ہللا عنہ حسرت کے انداز میں یہ کہ رہے‬
‫تھے کہ یہ امت آپس میں کیسے اختالف کر سکتی ہے‪ ،‬جب کہ اس امت کا رسول بھی ایک ہے اور قبلہ بھی ایک ‪ ،‬اس‬
‫پر حضرت عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہ نے کہا ‪ :‬اے امیر المٔومنین بیشک ہماری موجودگی میں قرآن مجید نازل ہوا‬

‫‪11‬‬
‫تف ت تف‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫ہم نے اس قرآن کو پڑھا‪ ،‬اور یہ بھی جانا کہ یہ آیت کس کے متعلق نازل ہوئی ہے اور عنقریب ہمارے بعد ایسے لوگ‬
‫آئینگے جو قرآن کی تالوت تو کر رہے ہونگے مگر ان کو یہ معلوم نہیں ہوگا یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی‬
‫ہے ۔ پھر وہ لوگ اپنے خیاالت اور رائے کا اظہار کرینگے ۔ جس سے ان کا آپس میں اختالف ہو جائےگا جب ان میں‬
‫اختالف ہوگا تو آپس میں لڑ پڑینگے اور ایک دوسرے کو قتل کریں گے ۔‬
‫اس پر حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے حضرت عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہ کو ڈانٹا اور ابن عباس وہاں سے اٹھ کر‬
‫چلے گئے۔ حضرت عمر رضی ہللا عنہ حضرت عبدہللا بن عباس کی بات پر غور فکر کیا تو حقیقت جان گئے تو‬
‫حضرت عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہ کی طرف بال وا بھیجا اور ان سے کہا کہ جو بات آپ نے کی وہ دہرائیں تو‬
‫انہوں نے حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے سامنے وہ بات دہرائی تو حضرت عمر رضی ہللا عنہ کو اس بات پر تعجب‬
‫ہوا ۔ حضرت عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہ کا قول تجربے سے صحیح ثابت ہوا ۔‬
‫ابن وھب سے روایت ہے کہ بکیرنے نافع سے پوچھا حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہ فرقۃ حروریۃ کے متعلق کیا‬
‫رائے رکھتے تھے؟ نافع نے کہا حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہ حروریۃ والوں کو بد ترین مخلوق سمجھتے‬
‫تھے‪ ،‬جو آیات کفار کے لیے نازل ہوئیں تھیں۔ ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر تے تھے۔ حضرت عبدہللا بن عباس رضی‬
‫ہللا عنہ نے اس رائے سے خبردار کیا تھا ۔(‪)۱۰‬‬
‫‪:‬الفاظ کا اعتبار عام ہوگا اور سبب خاص‬
‫شیخ االسالم ابن تیمیۃ رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں کہ ! اگر چہ لوگوں نے اس امر میں اختالف کیا ہے کہ جو عام الفاظ‬
‫کسی خاص سبب کی بنا پر وارد ہوئے ہوں آیا اپنے سبب کے ساتھ مختص ہوں گے؟ کسی شخص نے بھی یہ بات نہیں‬
‫کہی کہ کتاب و سنت کے عموم کسی خاص شخص کے ساتھ مخصوص ہوں گے‪ ،‬زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاتا ہے کہ وہ‬
‫الفاظ اس شخص کی نوع کے ساتھ مختص ہوں گے اور اس کے ساتھ ملتےجلتے اشخاص بھی شامل ہونگے۔ ان میں جو‬
‫عموم ہوگا وہ الفاظ اس شخص کی نوع کے ساتھ مختص ہوگا۔ جس آیت کا کوئی خاص سبب ہو اگر وہ امر یا نہیں ہو تو‬
‫وہ اس شخص کو بھی شامل ہوگی جس کے حق میں اتری اور دوسروں کو بھی جواس جیسے ہوں گے۔(‪)۱۱‬‬
‫ٰ‬
‫للیسری(‪ )۷‬یعنی پس جس نے‬ ‫ٰ‬
‫بالحسنی(‪)۶‬فسنیسرہ‬ ‫واتقی(‪)۵‬وصدق‬
‫ٰ‬ ‫اس کی مثال یہ ہے کہ سورۃ اللیل میں۔ فٔامامن ٰ‬
‫اعطی‬
‫اپنا مال ہللا کی راہ میں دیا اور پرہیز گاری اختیار کی اور اس نے اچھائی کی تصدیق کی‪ ،‬تو عنقریب اس کی آسانی کے‬
‫لیے سہولت فراہم کردیں گے ۔ (‪)۱۲‬‬
‫یہ آیات سبب نزول کے اعتبار سے حضرت ابو بکر صدیق رضی ہللا عنہ کے لیے نازل ہوئی ہیں مگر ان آیات کا اعتبار‬
‫عام ہے ہر اس شخص کے لیے جس کے اندر یہ مذکورہ صفات پائی جائیں گی‪ ،‬اور اسی طرح وہ آیات جو کسی منافق‬
‫کے لیے نازل ہوئی ہیں ان کا سبب تو خاص ہے مگر کسی شخص میں وہی صفات ہیں تو وہ شخص بھی ان آیات کے‬
‫حکم میں شامل ہوگا۔‬
‫‪:‬امام زرکشی کی سبب نزول کے متعلق رائے‬
‫قال الزرکشی فی البرھان‪ :‬قد عرف من عادۃ الصحابۃ والتابعین ان احدھم اذاقال‪ :‬نزلت ھذۃ االیۃ فی کذا فانہ یرید بذالک‬
‫انھا تتضمن ھذا الحکم ال ان ھذا کان السبب فی نزولھا فھو من جنس االستدالل علی الحکم باال یۃ ال من جنس النقل لما وقع ۔‬

‫‪12‬‬
‫تف ت تف‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫زرکشی نے برہان میں لکھا کے کہ صحابہ و تا بعین رضی ہللا عنہم کی یہ عام عادت تھی کہ جب وہ کہتے ہیں کہ فالں"‬
‫آیت فالں بارے میں نازل ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہوا کرتا ہے کہ وہ آیت اس حکم پر مشتمل ہے ۔ یہ مطلب نہیں ہوتا کہ‬
‫بعینہ وہ بات اس آیت کے نزول کا سبب ہے۔ یہ گویا اس حکم پر اس آیت سے ایک قسم کا استدالل ہوتا ہے ۔ اس سے‬
‫مقصود نقل واقعہ نہیں ہوتا۔ (‪")۱۳‬۔‬
‫‪:‬موالنا حمید الدین فراہی رحمۃ ہللا علیہ کی رائے‬
‫شان نزول کا مطلب ‪ ،‬جیسا کہ بعض لوگوں نے غلطی سے سمجھا ہے ‪ ،‬یہ نہیں ہے کہ وہ کسی آیت یا سورہ کے نزول‬
‫کا سبب ہوتا ہے ‪ ،‬بلکہ اس سے مراد لوگوں کی وہ حالت و کیفیت ہوتی ہے جس پر وہ کالم بر سر موقع حاوی ہوتا ہے ۔‬
‫کوئی سورہ ایسی نہیں ہے جس میں کسی خاص امر یا چند خاص امور کو مد نظر رکھے بغیر کالم کیا گیا ہو‪ ،‬اور وہ‬
‫امر یا امور جن کو کسی سورہ میں مد نظر رکھا جاتا ہے ‪ ،‬اس سورہ کے مر کزی مضمون کے تحت ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر‬
‫تم کو شان نزول معلوم کرنی ہو تو اس کو خود سورۃ سے معلوم کرو کیونکہ کالم کا اپنے موقع و محل کے مناسب ہونا‬
‫ضروری ہے ۔ جس طرح ایک ماہر طبیب دوا کے نسخہ سے اس شخص کی بیماری معلوم کر سکتا ہے جس کے لیے‬
‫نسخہ لکھا گیا ہے اسی طرح تم ہر سورہ سے اس سورہ کے شان نزول معلوم کر سکتے ہو۔ اگر کالم میں کوئی خاص‬
‫موضوع پیش نظر ہے تو اس کالم اور اس موضوع میں وہی مناسبت ہو گی جو مناسبت لباس اور جسم میں بلکہ جلد اور‬
‫بدن میں ہوتی ہے ۔ اور یہ قطعی ہے کہ کالم کے تمام اجزاء باہم د گر مربوط و متصل ہوں گے۔ اور یہ جو روایتوں میں‬
‫آتا ہے کہ فالں فالں آیتیں فالں فالں معامالت کے بارے میں نازل ہوئیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ سورہ کے‬
‫نزول کے وقت یہ احوال و مسائل درپیش تھے تاکہ معلوم ہو سکے کہ سورہ کے نزول کے لیے کیا محرکات اور اسباب‬
‫موجود تھے۔(‪)۱۴‬‬
‫‪ :‬شاہ ولی ہللا رحمۃ ہللا علیہ کی رائے‬
‫حضرات صحابہ و تابعین کے کالم پر غور و فکر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ فرمانا کہ یہ آیت فالں بارے میں‬
‫نازل ہوئی کسی ایسے واقعہ کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہوتا جو عہد نبوی میں واقع ہو کر نزول وحی کا سبب بنا بلکہ‬
‫ان کا معمول یہ ہے کہ وہ ایسے واقعات کا جو آیت کے مطالب سے مطابقت رکھتے ہوں‪ ،‬قطع نظر اس سے کہ وہ عہد‬
‫نبوی میں وقوع پذیر ہوئی ہوں یا اس کے بعد ‪ ،‬ذکر کر کے کہہ دیتے ہیں کہ یہ فالں بارے میں نازل ہوئی‪ ،‬ایسی شکلوں‬
‫میں اس آیت کا بعینہ منطبق ہونا چنداں ضروری نہیں ہے ‪ ،‬صرف اصل حکم میں انطباق کافی ہے اور بسا اوقات ایسا‬
‫بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں کوئی سوال پیش کیا‪ ،‬یا آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں‬
‫کوئی واقعہ رونما ہوا اور آپ نے اس کا حکم کسی آیت سے مستنبط فرمایا اور اس کو اس موقع پر تالوت فرمایا تو‬
‫ایسی صورتوں میں وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ آیت اس بارے میں اتری ۔ ایسی ہی شکلوں میں کبھی وہ یہ بھی کہہ دیتے‬
‫تعالی نے یہ حکم نازل فرمایا یا یہ وحی اتری ۔ اس سے ان کا اشارہ اس بات کی طرف ہوتا ہے کہ نبی‬
‫ٰ‬ ‫ہیں کہ اس پر ہللا‬
‫ﷺ اس آیت سے استنباط فرمایا اور اس وقت چونکہ آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اس آیت کا القاء بھی وحی اور الہام‬
‫خداوندی کی نوعیت کا ہوتا ہے اس لیے ایسے مواقع پر فانزلت ‪ ،‬کا استعمال درست ہے اور اگر کوئی شخص اس کو‬
‫تکرار نزول سے تعبیر کرنا چاہے تو بھی ٹھیک ہے ۔ محدثین حضرات قرآن کی آیات کے تحت بہت سی باتیں بیان کر‬

‫‪13‬‬
‫تف ت تف‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫جاتے ہیں جو اصال اسباب نزول میں داخل نہیں ہوتیں ۔ اس کی مثالیں ہیں ‪ :‬صحابہ کرام کا اپنے باہمی مذاکروں میں‬
‫کسی آیت سےاستنباط و استدالل نبی ﷺ کا کسی آیت کو اپنے استنباط کے لیے تالوت فرمانا ‪ ،‬کسی ایسی حدیث کا بیان‬
‫جس کو آیت کے ساتھ اس کے مقصود یا موقع نزول یا بعض اسماء کے ابہام کی توضیح یا کسی قرآنی کلمہ کے صحیح‬
‫تلفظ کی ادائگی کےلیے مفید خیال کیا گیا ہو‪ ،‬سورتوں اور آیات کے فضائل کا بیان اور قرآن کے احکام کی بجا آوری‬
‫میں پیغمبر ﷺ کے عمل کی صحیح تصویر حقیقت میں یہ سب چیزیں اسباب نزول میں شامل نہیں ہیں اور ایک مفسر‬
‫کے لیے ان کا احاطہ ضروری نہیں ہے۔ (‪)۱۵‬‬
‫‪ :‬موالنا امین احسن اصالحی کی رائے‬
‫تعالی قولہ یا فنزلت وانزلت‪ ،‬وغیرہ کی اصطالحات صحابہ و تابعین رضی ہللا عنہم کے‬
‫ٰ‬ ‫نزلت فی کذا اور فانزل ہللا‬
‫نزدیک کیا مفہوم رکھتی تھیں اور شان نزول سے متعلق جو روایات تفسیر کی کتابوں میں مذکور ہیں ان کی نوعیت کیا‬
‫ہے ۔ ان کی حیثیت استنباط و استدالل اور تطبیق کی ہے یا نقص و بیان کی ؟ سارا اشکال یہیں سے پیدا ہوا تھا کہ لوگوں‬
‫نے سمجھا کہ سلف جس آیت کی نسبت کہتے ہیں کہ "نزلت فی کذا" تو اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ بعینہ وہی‬
‫واقعہ اس آیت کے نزول کا سبب ہے ‪ ،‬لیکن اوپر عالمہ زرکشی ؒ اور حضرت شاہ ولی ہللا دہلوی ؒ کے جو اقوال نقل‬
‫تعالی قولہ" وغیرہ اصطالحات کا وہ منشا نہیں ہے جو‬
‫ٰ‬ ‫ہوئے ہیں ان سے صاف ہو گیا کہ " نزلت فی کذا یا فانزل ہللا‬
‫لوگ سمجھتے ہیں ‪ ،‬بلکہ یہ استنباط و استدالل کے قسم کی ایک چیز ہے۔ یعنی اس کا منشا یہ ہوتا ہے کہ اس آیت سے‬
‫فالں بات نکلتی ہے ۔(‪)۱۶‬‬
‫سبب نزول کے متعلق امام زرکشی رحمۃ ہللا علیہ ‪ ،‬موالنا حمید الدین فراہی رحمۃ ہللا علیہ ‪ ،‬شاہ ولی ہللا رحمۃ ہللا علیہ‬
‫کی رائے ایک ہی نظر آتی ہے ‪ ،‬صرف الفاظ کا فرق ہے‪ ،‬وہ فرق یہ ہے کہ ان حضرات کے نزدیک سبب نزول یہ ہے‬
‫کہ اس آیت میں اس بات کا حکم ہے اور وہ حالت و کیفیت ہوتی ہے جس پر وہ کالم بر سر موقع حاوی ہوتا ہے ‪ ،‬اور‬
‫دوسری رائے یہ ہے کہ یہ واقعہ یا سوال اس آیت کے نزول کا سبب بنا ان دونوں رائے میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے‬
‫صرف الفاظ کے استعمال کا فرق ہے ۔ میں اس رائے کا قائل ہوں کہ اس آیت کا سبب نزول یہ ہے یا یہ حادثہ اور سوال‬
‫اس آیت کے نزول کا سبب بنا یعنی واقعہ اور سوال وقوع پذیر ہونے کے بعد آیت نازل ہوتی ہے ۔‬
‫‪:‬سبب نزول میں صحابی کے قول کی اہمیت‬
‫امام ابن تیمیۃ رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں کہ ‪ :‬علماء محدثین کا اختالف ہے کہ جب صحابی کہے کہ آیت فالں بارے میں‬
‫نازل ہوئی ہے تو اس کا یہ قول حدیث مسند قرار دیا جائے یا محض صحابی کی تفسیر جو حدیث مسند نہیں سمجھی‬
‫جاتی ؟ امام بخاری رحمۃ ہللا علیہ نے ایسے قول کو حدیث مسند مانا ہے مگر دوسرے محدثین ایسا نہیں کرتے اکثر کتب‬
‫مسانید مثال مسند احمد وغیرہ اسی اصطالح کے مطابق ہیں‪ ،‬لیکن جب صحابی سبب بیان کر کے کہتا ہے کہ آیت اس‬
‫وجہ سے نازل ہوئی ہے تو ایسے قول کو تمام محدث حدیث مسند ہی مانتے ہیں۔ (‪)۱۷‬‬
‫سیوطی رحمۃ ہللا علیہ امام حاکم رحمۃ ہللا علیہ کا قول ذکر کرتے ہیں‪ٕ :‬اذا ٔاخبر الصحابی الذی شھد الوحی والتنزیل عن‬
‫آیۃ من القرآن ‪ٔ ،‬انھا نزلت فی کذا فانہ حدیث مسند ۔ یعنی جس صحابی نے نزول قرآن کا زمانہ یا اور کسی آیت کے متعلق‬
‫کہا کہ یہ آیت فالں کے لیے نازل ہوئی ہے تو صحابی کے اس قول کو حدیث مسند مانا جائے گا۔ (‪)۱۸‬‬

‫‪14‬‬
‫تف ت تف‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫سلف صالحین صحیح روایت اور بغیر علم کے قرآن کی تفسیر اور سبب نزول کے متعلق کچھ کہنے سے ڈرتے اور‬
‫بچتے تھے کیونکہ ان کو آپ ﷺ کا یہ فرمان ہر وقت ذہن نشین رہتا تھا کہ من کذب علی متعمدا فلیتبؤا مقعدہ من النار(‬
‫‪ )۱۹‬یعنی جس شخص نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بوال اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانا جھنم میں بنا لے ۔‬
‫ق‬ ‫ن‬
‫یک ئ‬
‫ے۔‬ ‫ان‬ ‫ب‬ ‫کو‬ ‫لی‬ ‫سوال م ر‪4‬۔محکم ‪ ،‬مت ش ا ہ‪ ،‬ک ن ا ہ‪،‬ت عری ض اور از ع‬
‫ی ج‬ ‫مج‬ ‫ب ی‬ ‫ب‬
‫ت محکمات اور متشابہات پر مشتمل ہے۔ محکم سے مراد وہ کالم ہے جس کی‪ ‬داللت‪ ‬واضح اور ص ریح ہ و‬ ‫‌قرآن کریم‪ ‬آیا ِ‬
‫اساس قرآن کو تشکیل دی تے‬
‫ِ‬ ‫اور اس کے ظاہر سے متکلم کی مراد و مقصود کا‪ ‬علم‪ ‬حاصل ہو جاتا ہے۔ محکمات اصل و‬
‫ہیں۔ اس کے مق ابلے میں متش ابہ آت ا ہے‪ ،‬متش ابہ وہ کالم ہے ج و مختل ف مع انی ک ا حام ل ہوت ا ہے اور اس س ے ‪ ‬م را ِد‬
‫ت نظر کی جائے اور اس کو محکمات کی ط رف‬
‫متکلم‪ ‬واضح و روشن نہیں ہوتی‪ ،‬مگر یہ کہ متشابہ کالم پر تحقیق و دق ِ‬
‫پلٹایا جائے۔‬
‫ب الہی کو محکمات و متشابہات میں تقسیم کیا گیا ہے‪ ،‬سورہ آل عمران میں ارشاد‬ ‫قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ کتا ِ‬
‫ب َوُأخَ ُر ُمتَ َشابِهَ ٌ‬
‫ات فََأ َّما الَّ ِذینَ فِی قُلُوبِ ِه ْم َز ْی ٌغ‬ ‫ات ه َُّن ُأ ُّم ْال ِکتَا ِ‬ ‫ک ْال ِکت َ‬
‫َاب ِم ْنهُ آیَ ٌ‬
‫ات ُمحْ َک َم ٌ‬ ‫باری تعالی ہوتا ہے‪:‬هُ َو الَّ ِذی َأ ْنزَ َل َعلَ ْی َ‬
‫فَیَتَّبِعُونَ َما تَ َشابَهَ ِم ْنهُ ا ْبتِغَا َء ْالفِ ْتنَ ِة َوا ْبتِغَا َء تَْأ ِویلِ ِه َو َما یَ ْعلَ ُم تَْأ ِویلَهُ ِإال هَّللا ُ َوالرَّا ِس ُخونَ فِی ْال ِع ْل ِم یَقُولُونَ آ َمنَّا بِ ِه ُکلٌّ ِم ْن ِع ْن ِد َربِّنَا‬
‫ب؛ وہ وہ ذات ہے جس نے آپ پر کتاب کو نازل کیا‪ ،‬جس میں سے بعض آیات محکمات ہیں‬ ‫األلبَا ِ‬‫َو َما یَ َّذ َّک ُر ِإال ُأولُو ْ‬
‫جوکہ‪ ‬ام الکتاب‪ ‬ہیں اور دیگر متشابہات ہیں‪ ،‬وہ لوگ جن کے دلوں میں کج روی و ٹیڑھا پن ہے وہ اس میں سے متشابہ‬
‫کی‪ ‬اتباع‪ ‬کرتے ہیں تاکہ فتنہ کو برپا کریں اور اس کی‪ ‬تأویل‪ ‬کرنے کی کوشش کریں‪ ،‬اور اس کی تاویل فقط ہللا اور‬
‫راسخون فی العلم جانتے ہیں جو کہتے ہیں‪ :‬ہم اس پر ایمان الئے‪ ،‬ان میں سے ہر ایک ہمارے‪ ‬رب‪ ‬کی طرف سے ہے‬
‫اور تذکر تو صرف عقل والے کرتے ہیں۔‬
‫ب الہی محکمات اور متشابہات سے تشکیل پائی ہے‬
‫‪ ‬اس آیت کریمہ میں ہللا تعالی نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ کتا ِ‬
‫ت متشابہات ہیں۔ وہ لوگ جن کے دل ٹیڑھے اور قلب کج روی کا شکار ہیں وہ‬
‫ت محکمات کے کنارے پر ہی آیا ِ‬
‫اور آیا ِ‬
‫فتنوں کو برپا کرنے کے لیے متشابہات کا سہارا لیتے ہیں اور ان کی من گھڑت تاویلیں کرتے ہیں تاکہ ان آیات سے‬
‫سوء استفادہ کریں۔ حقیقت میں متشابہات کی حقیقی تأویل ہللا تعالی اور علم میں راسخ ہستیاں جانتی ہیں۔ نیز اس آیت سے‬
‫یہ بھی معلوم ہوا کہ محکمات اور متشابہات ہر دو کا منبع اور سرچشمہ ایک ہے جہاں سے یہ پھوٹی ہیں اور ان کو اس‬
‫طرح سے قرار دینے میں ہللا تعالی کی حکمت ہے۔ البتہ اس واقعیت اور حقیقت سے اہل عقل و خرد‪ ‬تذکر‪ ‬حاصل کریں‬
‫ت متشابہات‬
‫گے اور جو اہل عقل نہیں ہیں وہ اس سے تذکر حاصل نہیں کر سکتے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر آیا ِ‬
‫کیوں قرار دی گئی ہیں اور کون کون سی آیات یہ خصوصیت رکھتی ہیں؟ ان سواالت کا جواب حاصل کرنے کے لیے‬
‫ہمیں درج ذیل مطالب پر غور کرنا ہو گا۔‬
‫سب سے پہلے ہمیں اِحکام اور تشابہ کے معنی کی تحقیق کرنا ہو گی تاکہ جان سکیں کہ محکم اور متشابہ کے معنی کیا‬
‫‪:‬ہیں‬
‫اِحکام قرآنی آیات کے ذیل میں‪← ‬‬

‫‪15‬‬
‫تف ت تف‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫‪:‬قرآن کریم میں‪ ‬احکام‪ ‬تین معانی میں استعمال ہوا ہے‬
‫پہال معنی‪←← ‬‬
‫کردار یا گفتار کا صحیح اور درست ہونا جس میں کسی قسم کا خلل اور شبہ نہ پایا جائے۔ اس کے مقابلے میں متشابہ کا‬
‫معنی بد کردار ہونا اور شکوک و شبہات میں گرفتار ہونا ہے۔‬
‫دوسرا معنی‪←← ‬‬
‫ثابت اور پائیدار ہونا‪ ،‬شریعت‪ ‬میں ایسے اَحکام ہیں جو پائیدار اور ثابت شدہ ہوں‪ ،‬انہیں محکم کہا جاتا ہے۔ اس کے‬
‫مقابلے میں ناپائیدار اور متزلزل احکام آتے ہیں۔‪ ‬ناسخ اور منسوخ‪ ‬کے باب میں اِحکام کی اصطالح استعمال کی جاتی‬
‫ت محکم کہا جاتا ہے۔‬
‫ہے اور غیر منسوخ آیات کو آیا ِ‬
‫]‪[۲‬‬

‫اسی طرح قول یا عمل میں استحکام و دقت کا مظاہرہ کرنے کو محکم یا مستحکم کہتے ہیں۔ سورہ‪ ‬ہود‪ ‬میں ہللا تعالی کا‪ ‬‬
‫کمال دقت کے ساتھ محکم‬ ‫ِ‬ ‫یر؛ (یہ قرآن وہ) کتاب جس کی آیات‬ ‫فرمان ہے‪ِ  :‬کتَابٌ ُأحْ ِک َم ْ‬
‫ت آیَاتُهُ ثُ َّم فُصِّ لَ ْ‬
‫ت ِم ْن لَد ُْن َح ِک ٍیم َخبِ ٍ‬
‫و مستحکم قرار دی گئی ہیں‪ ،‬پھر حکیم خبیر ذات کی طرف سے مفصال بیان کی گئی ہیں۔‬
‫]‪[۳‬‬

‫تیسرا معنی‪←← ‬‬
‫ت متشابہ کے‬
‫اِحکام یعنی قرآن کریم کی تمام آیات کا احاطہ کرنا اور اس کو شامل ہونا۔ پس پہلے معنی کے مطابق آیا ِ‬
‫ت غیر منسوخ کو محکم کہا جاتا ہے۔ جبکہ تیسرے‬
‫مقابلے میں محکم استعمال ہوتا ہے‪ ،‬دوسرے معنی کے مطابق آیا ِ‬
‫ت کریمہ کا احاطہ کرنا محکم کہالتا ہے۔‬
‫معنی کے مطابق آیا ِ‬
‫محکم کے لغوی معانی‪← ‬‬
‫متشابہ کے مقابلے میں محکم آتا ہے جس کا معنی مستحکم و استوار اور خلل نا پذیر کے ہیں۔ یہ‪َ  ‬ح َک َم حُکۡ ًماسے مشتق‬
‫ہے اور اس کے لغوی معنی منع کرنے‪ ،‬باز رکھنے اور خلل و رکاوٹ کے ایجاد کرنے سے روکنے کے ہیں۔ اسی لیے‬
‫گھوڑے کے منہ پر‪ ‬لگام‪ ‬کو عربی لغت میں‪َ  ‬ح َک َمۃُ ۡالفَ َرسکہتے ہیں کیونکہ اس کی لگام اس کو سرکشی اور غیر‬
‫ضروری حرکات سکنات سے روکے رکھتی ہے۔ حاکم کو اسی لیے حاکم کہتے ہیں کیونکہ وہ‪ ‬ظالم‪ ‬کو اس کے ظلم‬
‫سے روکتا ہے اور‪ ‬قاضی‪ ‬کی قضاوت کو بھی اسی لیے حکم کہتے ہیں کیونکہ وہ ناانصافی اور ظلم کی راہ کو روک‬
‫دیتا ہے اور ظلم و زیادتی سے منع کیے رکھتا ہے۔ نیز حکمت کو اس لیے حکمت کہتے ہیں کیونکہ یہ دانائی کی باتیں‬
‫انسان کو احمق پن‪ ،‬نادانی‪ ،‬جہالت اور غیر صحیح اقدامات سے منع کرنے کا باعث بنتی ہیں۔‬
‫]‪[۴‬‬

‫]‪[۵‬‬

‫راغب اصفہانی کی نگاہ میں‪←← ‬‬


‫راغب اصفہانی‪ ‬نے اپنی مفردات میں حکم کا معنی اس طرح تحریر کیا ہے‪ :‬حكم أصله منع منعا الصالح ومنه سميت‬
‫‪ ‬اللجام حكمة الدابة؛ حکم‪ :‬اس کا اصلی معنی اصالح کی خاطر منع کرنا ہے‪ ،‬اسی سے لگام کو حکمت کہا جاتا ہے۔‬

‫‪16‬‬
‫تف ت تف‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫]‪[۶‬‬

‫البتہ یہ منع کرنا اور روکنا اصالح کی خاطر ہو نہ کہ فساد برپا کرنے کی جہت سے۔ چنانچہ ہر وہ قول یا عمل یا گفتگو‪ ‬‬
‫جس کے ذریعے سے شبہات کو روکا جاتا ہے اور کج روی و ٹیڑھے پن کو درست کیا جاتا ہے اس ذریعے کو محکم‬
‫یعنی مستحکم و استوار کہتے ہیں۔‬
‫تشابہ قرآنی آیات کے ذیل میں‪← ‬‬
‫‪:‬قرآن کریم میں‪ ‬تشابہ‪ ‬بنیادی طور پر دو معنی میں آیا ہے‬
‫پہال معنی‪←← ‬‬
‫‪ ‬متشابہ یعنی یکساں اور ایک جیسا ہونا۔‬
‫]‪[۷‬‬

‫سورہ زمر‪ ‬میں تشابہ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جیساکہ ارشا ِد باری تعالی ہوتا ہے‪ :‬هَّللا ُ نَ َّز َل َأحْ َسنَ ْال َح ِدی ِ‬
‫ث ِکتَابًا‪ ‬‬
‫ُمتَ َشابِهًا َمثَانِ َی تَ ْق َش ِعرُّ ِم ْنهُ ُجلُو ُد الَّ ِذینَ یَ ْخ َشوْ نَ َربَّهُ ْم؛ ہللا نے بہترین‪ ‬کالم‪ ‬ایسی کتاب کی صورت میں نازل کیا ہے جس کی‬
‫بعض آیات دیگر بعض جیسی ہیں (جو تکراراً‪ ‬تالوت‪ ‬کی جاتی ہیں)‪ ،‬اس سے ان لوگوں کا وجود لرز اٹھتا ہے جو‬
‫اپنے‪ ‬رب‪ ‬سے ڈرتے ہیں۔‬
‫]‪[۸‬‬

‫یہ آیت بہترین دلیل ہے کہ قرآن کریم کسی‪ ‬بشر‪ ‬کا کالم نہیں ہے بلکہ ہللا تعالی کی جانب سے نازل کیا گیا کیونکہ اگر یہ‪ ‬‬
‫بلندی معنی‬
‫ِ‬ ‫بندوں میں سے کسی بندے کا کالم ہوتا یا ہللا تعالی اور بشر ہر دو کا مخلوط کالم ہوتا تو آیات اپنے استحکام‪،‬‬
‫اور اثر و تاثیر کے اعتبار سے یکساں نہ ہوتیں کیونکہ بندوں کا کالم بندوں سے مشابہ ہوتا ہے اور ایک کالم دوسرے‬
‫کالم کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ چنانچہ‪ ‬ہللا سبحانہ‪ ‬کے کالم میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور اس میں کسی قسم کا‪ ‬اختالف‪ ‬کا نہ‬
‫ہونا بہترین دلیل ہے کہ یہ بندوں کی جانب سے نہیں ہے‪ ،‬قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے‪َ :‬ولَوْ َکانَ ِم ْن ِع ْن ِد َغی ِْر هَّللا ِ لَ َو َجدُوا‬
‫اختِالفًا َکثِیرًا؛ اگر یہ ہللا کے عالوہ کسی اور کی جانب سے ہوتا تو وہ اس میں کثرت سے اختالف پاتے۔‬
‫فِی ِه ْ‬
‫]‪[۹‬‬

‫پس اختالف کا نہ پایا جانا دلیل ہے کہ یہ ہللا تعالی کے غیر کی جانب سے نہیں ہے۔‪ ‬‬
‫دوسرا معنی‪←← ‬‬
‫اصل مقصود‬
‫ِ‬ ‫شبہ انگیز ہونا‪ ،‬ایسی گفتگو یا ایسا کردار جو شبہ انگیز یا شبہات و احتماالت کا حامل ہو جس کی وجہ سے‬
‫پنہاں اور پوشیدہ ہو کر رہ جائے‪ ،‬اس کو متشابہ سے تعبیر کیا جاتا ہے‪ ،‬جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے‪ِ:‬إ َّن ْالبَقَ َر‬
‫تَ َشابَهَ َعلَ ْینَا؛ گائے ہمارے لیے مشتبہ ہو گئی ہے۔‬
‫]‪[۱۰‬‬

‫اس آیت کریمہ میں تشابہ بمعنی اصل مقصود کا روشن اور واضح نہ ہونا ہے۔‪ ‬سورہ آل عمران‪ ‬آیت ‪ ۷‬میں متشابہات‪ ‬‬
‫اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ بعض آیات ایسی ہیں جن میں مختلف جہات اور مختلف معانی کا احتمال موجود ہے۔‬
‫مختلف معانی اور وجوہ کا ہونا شبہ کے ایجاد ہونے کا باعث بنتا ہے اور ٹیڑھے دل اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود‬

‫‪17‬‬
‫تف ت تف‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫ساختہ تأویلیں کر کے فتنوں کو جنم دیتے ہیں۔ سادہ لوح عوام الناس ان شبہات اور فتنوں کا شکار ہو جاتی ہے اور‬
‫حقیقت تک رسائی سے قاصر رہتی ہے۔ پس ایک لفظ کے متعدد معانی کا ہونا انہیں شبہ میں ڈال دیتا ہے۔ یہاں یہی‬
‫دوسرا معنی ہمارے مور ِد بحث ہے۔‬
‫تشابہ کے لغوی معنی‪← ‬‬
‫اسم مصدر‪ ‬ہے جس کا معنی‪ ‬مثل‪ ‬اور مانند کے ہیں۔ اگر ہم شبہ کو‪ ‬مصدر‪ ‬قرار دیں تو‬
‫تشابہ لف ِظ شبہ سے مشتق ہے۔ شبہ‪ِ  ‬‬
‫اس کا معنی مثل ہونا اور مانند ہونا قرار پائے گا۔ مثل اور مانند ہونے کی وجہ سے شبہ ایجاد ہو جاتا ہے کیونکہ جب‬
‫حقیقت پنہاں ہو جائے اور‪ ‬حق‪ ‬و‪ ‬باطل‪ ‬میں باہمی آمیزش ہو جائے تو حق کا باطل کا ساتھ اشتباہ ہونے لگتا ہے جس کی‬
‫وجہ سے حق بات باطل کی صورت میں آشکار ہوتی ہے اور یہی مورد عوام الناس کو اشتباہ اور شش و پنج میں مبتال‬
‫کر دیتا ہے۔‬
‫اصطالحی معنی‪← ‬‬
‫معنی ظاہری‬
‫ِ‬ ‫ئ‌ ظَا ِه ُرهُ عَنۡ ُم َرا ِد ِه‌؛ وہ کالم جس کا‬
‫فقہاء نے متشابہ کی اصطالحی تعریف اس طرح سے کی ہے‪َ  :‬ما اَل يُنۡبِ ُ‬
‫معنی مراد کی خبر نہ دے۔‬
‫ِ‬ ‫‪ ‬اس کے‬
‫]‪[۱۱‬‬

‫متشابہ میں لفظ یا عمل سبب بنتا ہے کہ حقیقت و واقعیت آشکار نہیں ہوتی۔ اس تعریف کے مطابق کالم کا ظاہری معنی‪ ‬‬
‫معنی مقصود و مراد الگ الگ ہوتا ہے جس کی وجہ سے حقیقی مراد تک رسائی نہیں ہو پاتی۔ البتہ راغب‬
‫ِ‬ ‫متکلم کا‬
‫ِ‬ ‫اور‬
‫اصفہانی نے فقہاء کی طرف جس تعریف کو منسوب کیا ہے وہ تعریف خود بھی قابل اعتراض ہے کیونکہ یہ تعریف‬
‫کالم مجمل‪ ‬کو بھی شامل ہے جوکہ صحیح نہیں۔ کیونکہ مبہمات میں تفسیر کی ضرورت پیش آتی ہے جبکہ‬
‫مبہمات و‪ِ  ‬‬
‫متشابہات میں تأویل کی۔ چنانچہ متشابہ کو ابہام و اجمال سے جدا کرنا چاہیے۔ راغب اصفہانی اس سے بہتر تعریف‬
‫کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں‪َ  :‬والۡ ُمتَ َشابَه ِمنَ ۡالقُرۡآ ِن َما أشکل تفسیرُهُ لِ ُم َشابَهَتِ ِه بِغَیۡ ِره؛ قرآن میں متشابہ کے ہونے سے‬
‫‪ ‬مقصود وہ مورد ہے جس کی شباہت اس کے غیر سے ہونے کی وجہ سے اس کی تفسیر میں مشکل پیش آتی ہے۔‬
‫]‪[۱۲‬‬

‫وہ معنی اپنے غیر سے شباہت رکھتا ہے ایک ایسے معنی کے ظاہر ہونے کا سبب بنا ہوتا ہے جو متکلم کا مقصود نہیں‪ ‬‬
‫ہے۔ لہذا قرآن کریم میں ایک لفظ کا اپنے غیر سے مشابہ ہونے کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ قرآن‬
‫فرمان الہی ہے‪ :‬فَ َما َذا بَ ْع َد ْال َح ِّ‬
‫ق ِإال الضَّال ُل؛‪ ‬حق‪ ‬کے بعد فقط اور فقط‬ ‫ِ‬ ‫کریم کا غیر فقط‪ ‬ضاللت‪ ‬اور گمراہی ہے جیساکہ‬
‫‪ ‬گمراہی ہے۔‬
‫]‪[۱۳‬‬

‫‪ ‬پس جہاں‪ ‬ہللا تعالی‪ ‬کا کالم ہے اور قرآن کریم کی صورت میں وہ نمایاں ہوتا ہے وہاں حق کے مقابلے میں فقط باطل رہ‬
‫جاتا ہے۔ اگر حق اپنے غیر سے مشابہ ہو تو اس کا معنی یہ نکلے گا کہ اس مورد میں حق کی شباہت باطل سے ہے‬
‫کیونکہ حق کا غیر ہمیشہ باطل ہوتا ہے۔‬
‫=====تفسیر اور تأویل میں عام خاص مطلق کی نسبت=====‬

‫‪18‬‬
‫تف ت تف‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫ت متشابہات میں تشابہ سے مراد‪ ‬حق و باطل‪ ‬کا مشابہ ہونا ہے‪ ،‬اس طرح سے کہ‪ ‬ہللا تعالی‪ ‬نے‬
‫اس تعریف کے مطابق آیا ِ‬
‫حق بات بیان کی ہے جو باطل سے شباہت رکھتی ہے جس کے نتیجے میں حق بات باطل بات کی صورت میں سامنے آ‬
‫رہی ہے۔ اس اعتبار سے یہ شباہت لفظ یا عمل کے مبہم ہونے کا باعث بنتی ہے جس سے لفظ کے چہرے پر ابہام کا‬
‫پردہ ڈل جاتا ہے جوکہ شبہ کا باعث بنتا ہے۔ اگر یہ تشریح قبول کر لی جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ متشابہات‬
‫بھی تفسیر کی احتیاج رکھتی ہیں اور ان کے چہرے سے ابہام کا پردہ ہٹانے کی ضرورت ہے۔ پس متشابہات کو تفسیر‬
‫کی بھی ضرورت ہے اور‪ ‬تأویل‪ ‬کی بھی۔ تفسیر کے ذریعے پرد ِہ ابہام دور ہوتا ہے اور تأویل کے ذریعے سے شبہ رفع‬
‫ت خود تأویل ایک قسم کی تفسیر ہے جو ابہام کو دور کرتی ہے اور‪ ‬شبہ‪ ‬کو رفع کرتی ہے۔‬
‫بالفاظ دیگر بذا ِ‬
‫ِ‬ ‫ہوتا ہے۔‬
‫چنانچہ تأویل کی تفسیر کی طرف نسبت‪ ‬عام خاص مطلق‪ ‬کی ہو گی۔ ہر وہ جگہ جہاں تأویل موجود ہے تفسیر بھی ہے‬
‫لیکن تفسیر اعم ہے جو مبہات کے مورد میں ہوتی ہے اور ابہام محکم اور متشابہ ہر دو میں قابل تصور ہے۔ چنانچہ‬
‫تفسیر کا دائرہ عمومی ہے جو متشابہات کے ساتھ ساتھ محکمات کو بھی شامل ہے۔ اس کے برعکس تأویل فقط متشابہ‬
‫کے مورد تکے ساتھ‪ ‬خاص‪ ‬ہے۔‬
‫یک ئ‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫یک ئ‬ ‫ت‬ ‫غ‬ ‫ف ت‬ ‫ن‬
‫ے۔‬ ‫ی ج‬ ‫ان‬ ‫ب‬ ‫رق‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫وں‬ ‫دو‬ ‫اور‬ ‫ے‬‫ج‬ ‫ف‬‫ی‬‫عر‬ ‫الحی‬‫ط‬ ‫ص‬‫ا‬ ‫و‬ ‫وی‬ ‫ل‬ ‫کی‬ ‫ل‬ ‫ی‬‫او‬ ‫رو‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫۔‬‫‪5‬‬ ‫ر‬ ‫سوال ب‬
‫م‬
‫تفسیر یہ لفظ‪'' ‬فسر یفسر تفسیرا''‪ ‬باب تفعیل کا مصدر ہے جس کے لغوی معنی واضح کرنے اور کھول دینے کے ہیں‬
‫'جیسے ہللا تعالی فرماتا ہے ‪:‬‬
‫ق َوَأحْ َسنَ تَ ْف ِسي ًر‌ا ﴿‪(﴾٣٣‬الفرقان)‬
‫ك بِ ْال َح ِّ‬ ‫َواَل يَْأتُونَ َ‬
‫ك بِ َمثَ ٍل ِإاَّل ِجْئنَا َ‬
‫'' یہ کافر ٓاپ کے پاس جو کوئی مثال الئیں گے ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ تفصیل ٓاپ کوبتادیں گے ۔''‬
‫ا س ٓایت میں لفظ‪ ‬تفسیرا‪ ‬بمعنی تفصیال ہے حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہ نے بھی یہی معنی لیا ہے۔‬
‫تفسیر کی مفسرین نے مختلف تعریفیں کی ہیں جن میں سے زیادہ مشہور یہ ہے ‪:‬‬
‫ھو علم یبحث فیہ عن احوال القرا ن المجید من حیث وال لتیہ علی مراد ہللا تعالی بقدر الطاقتۃ البشریتۃ‬
‫( التفسیر ولمفسرون ‪ 15/1 :‬وقواعد التفیسر‪)29/1 :‬‬
‫'' تفسیر ایسا علم ہے جس میں انسانی طاقت کے مطابق قرٓان مجید کے احوال کے بارے میں اس طرح بحث کی جائے‬
‫کہ اس سے ہللا کی مراد حاصل ہو جائے ''‬
‫تاویل‪:‬‬
‫یہ لفظ‪'' ‬اول یوول تاویال''‪ ‬باب تفعیل کا مصدر ہے جس کے لغوی معنی رجوع کرنے کے ہیں ۔‬
‫اصطالحی تعریف‪:‬‬
‫تاویل کی تعریف میں متقدمیں ومتاخرین کا اختالف ہے ۔‬
‫متقدمین کی تعریف ‪:‬‬
‫متقدمین سے دو تعریفیں منقول ہیں ‪:‬‬
‫‪'' -1‬تاویل اور تفسیر دونوں مترادف ہیں ۔ ''‬
‫یعنی جو تعریف تفسیر کی ہے وہی تاویل کی ہے ۔ ان مفسرین نے اس ٓایت سے استدالل کیا ہے‪:‬‬

‫‪19‬‬
‫تف ت تف‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫َو َما يَ ْعلَ ُم تَْأ ِويلَهُ ِإاَّل اللَّـهُ۔۔۔۔۔۔۔﴿‪ٓ(﴾٧‬ال عمران )‬
‫'' حاالنکہ ان (محکمات اور متشابہات) کا مفہوم ہللا کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا ''۔‬
‫‪2‬۔‪ '' ‬کسی کالم سے جو مفہوم اخذ کیاگیا ہوا سے تاویل کہتے ہیں ''‬
‫متاخرین کی تعریف ‪:‬‬
‫((ھو صرف اللفظ عن المعنی الراجح الی المعنی المرجوح لدلیل یقترن بہ ))‪ ( ‬التفسیر والمفسرون‪)۱۸/۱ :‬‬
‫'' کسی دلیل کے پیش نظر لفظ کےراجح معنی کو ترک کر کے مرجوح معنی مرادلے لینا تاویل کہالتا ہے ۔''‬
‫نوٹ ‪ :‬اصول فقہ اور اختال فی مسائل میں تاویل کا معنی متاخرین واال مراد لیا جاتا ہے۔ اس میں تاویل کرنے واال‬
‫دوچیزوں کا پابند ہوتا ہے ‪:‬‬
‫‪ 1‬۔جو معنی وہ مرادلے رہا ہو لفظ اس کااحتمال بھی رکھتا ہو ۔‬
‫‪ 2‬۔ وہ دلیل یا قرینہ بیان کر ےجس کی وجہ سے اس نے راجح معنی چھوڑ کر مرجوح معنی مراد لیا ہے' ورنہ وہ تاویل‬
‫فاسد ہو گی بلکہ ' تحریف کے زمرہ میں ٓا ئے گی ۔‬
‫تفسیر اور تاویل میں فرق ‪:‬‬
‫متقد مین تودونوں کو ایک ہی معنی میں استعمال کرتے ہیں لیکن متاخرین نے ان دونوں میں کئی انداز سے فرق بیان کیا‬
‫ہے‪ ' ‬مثال‪:‬‬
‫امام راغب اصفہانی رحمہ ہللا فرماتے ہیں ‪:‬‬
‫(الف) تفسیر عام ہے اورتاویل خاص ہے یعنی تفسیر کالفظ عموما الفاظ کے لیے اور تاویل کا لفظ معانی کے لیے‬
‫استعمال ہوتاہے۔‬
‫(ب) تفسیر کا عام طور استعمال ''مفردات'' میں ہوتا ہے اور تاویل کا اطالق '' جملوں '' پر ہوتاہے ۔‬
‫امام ماتریدی رحمہ ہللا فرماتے ہیں ‪:‬‬
‫جس میں یقینی طور پر ہللا تعالی کی مراد معلوم ہواسے تفسیر کہتے ہیں اور جس میں مختلف احتماالت رکھنے والے‬
‫معانی میں سے کسی ایک کو ترجیح دی جائے لیکن یقینی فیصلہ نہ کیا جائے تو اسے تاویل کہتے ہیں۔‬
‫امام ابو طالب ثعلبی رحمہ ہللا فرماتے ہیں ۔‪:‬‬
‫جس معنی کے لیے لفظ وضع کیا گیا ہو خواہ وہ حقیقی ہو یا مجازی ' اسے بیان کرنا'' تفسیر'' کہالتا ہے اور کسی لفظ‬
‫کے باطنی اور مخفی معنی کے واضح کرنے کو تاویل کہتے ہیں۔‬
‫امام بغوی اور الکواشی رحمہ ہللا فرماتے ہیں ‪:‬‬
‫ٓایت سے ایسا معنی مراد لینا جس کی اس میں گنجائش ہوا ور وہ ٓایت کے سیاق وسباق کے مطابق ہو ' نیز قرٓان وسنت‬
‫کے خالف نہ ہو ' اسے ''تاویل '' کہتے ہیں۔اور کسی ٓایت کے سبب نزول اور واقعہ کے متعلقہ ذکر وبیان کو '' تفسیر''‬
‫کہتے ہیں ۔‬
‫بعض کے نزدیک تفسیر کا تعلق روایت سے ہے اور تاویل کا تعلق درایت سے ہے۔‬

‫‪20‬‬
‫تف ت تف‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬اصول سی ر و اری خ سی ر (‪)4611‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫بعض کے نزدیک جو مفہوم تر تیب عبارت سے حاصل ہو وہ تفسیر کہالئے گا اور جو مفہوم ترتیب عبارت سے اشارتا‬
‫حاصل ہو وہ تاویل کہالئے گا۔‬
‫نوٹ‪:‬‬
‫مذکورہ اقوال میں ٓاخری قول زیادہ راجح ہے کیونکہ تفسیر کی تعریف یہ کی جاتی ہے ‪:‬‬
‫'' ٓایت کی اس طرح وضاحت کرنا کہ اس سے مراد ربانی کا اظہار قطعیت اور وثوق سے ہو جائے '' ۔‬
‫اور یہ صرف اسی وقت ممکن ہو گا جب خود رسول صلی ہللا علیہ وسلم یا صحابہ اکرام رضی ہللا عنہم سے روایتا‬
‫منقول ہو جب کہ تاویل میں یہ بات ملحوظ نہیں ہوتی بلکہ اس میں ایک لفظ میں جس قدر بھی معانی کی گنجائش ہو ان‬
‫میں سے کسی ایک کو ترجیح دی جاتی ہے اور ترجیح کے لیے اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے اور اجتہاد میں لغت‬
‫عرب اور سیاق و سباق کی طرف احتیاج ہوتی ہے جس کا تعلق درایت سے ہے ۔‬

‫‪21‬‬

You might also like