Professional Documents
Culture Documents
4611 1
4611 1
1
تف ت تف ن
کورس کا ام :اصول سی ر و اری خ سی ر ()4611
خ
سمسٹ ر :زاں2020 ،ء
حسب ذیل ہے:
کالم ہللا:
قرٓان میں صرف ہللا تعالی کا کالم ہے۔ کسی انسان ،جن یافرشتے کا کالم اس میں شامل نہیں۔ اسے ہللا تعالی نے خود ہی
تعالی ہے:
ٰ کالم ہللا یا ٓایات ہللا فرمایا ہے۔ ارشاد باری
{۔۔َ ح ٰتّی یَ ْس َم َع کَاَل َم ہّٰللا ِ} (التوبۃ)۶:
....تاکہ وہ کالم ہللا کو سن لے۔
ت ہّٰللا ِ}( آل عمران)۱۱۳ :
{۔۔۔یَ ْتلُوْ نَ ٓایَا ِ
وہ ہللا کی ٓایات کی تالوت کرتے ہیں۔
غیر مخلوق:
قرآن ہللا تعالی کا کالم ہے اور کالم کرنا ہللا تعالی کی صفت ہے اس لئے یہ بھی ہللا تعالی کی ذات کی طرح غیر مخلوق
ہے۔گوہم اس صفت کی حقیقت نہیں جانتے اور نہ ہی اسے مخلوق کی طرح سمجھتے ہیں۔ بس اتنا جانتے ہیں کہ {لیس
کمثلہ شئ}۔ اس جیسا کوئی ہے ہی نہیں۔ دو فرقے اس بارے میں گمراہ ہوگئے۔ ایک قدریہ معتزلہ ہے جو ہللا تعالی کی
صفات کے ظاہری معنی کو چھوڑ کر تاویلیں کرتا ہے۔ تاویل سے صفات کی تخفیف وانکار الزم آتا ہے جو انتہائی کفر
ہے۔ دوسرا فرقہ مشبہہ مجسمہ ہے وہ اس صفت کو مخلوق کے مشابہ بتاتا ہے یہ بھی پہلے سے کم گمراہ نہیں۔ مناسب
یہی ہے کہ جو ہللا تعالی کی صفات قرآن کریم اور حدیث رسول میں آئی ہیں ان کے لفظی معنی معلوم ہونے کے بعد پھر
کیفیت کی کھدیڑ نہ کی جائے۔جب اصل حقیقت کا علم نہیں تو اسے مخلوق کے مشابہ قرار دینا کون سی دانش مندی ہے۔
یہ ازلی صفات کا اقرار ہے اور تاویل کا انکار۔
یعنی قرآن مجید کا کوئی لفظ زائد نہیں بلکہ اس کے فوائد ہیں۔ یہ مختصر ،جامع ،تعمیری ،اور واقعیت پسندی کے ساتھ
اپنے معانی و اہداف کو بیان کرتے ہیں ۔ مثالً طہ ،ألم ،عسق وغیرہ۔ انہیں ہم زائد نہیں کہتے مگر اس کے فوائدعرب
بہتر جانتے ہیں کیونکہ ان کے خطباء کے ہاں ان کی زبردست اہمیت ہے۔ ان کی مراد ہللا تعالی ہی بہترجانتے ہیں۔امام
حسن بصری رحمہ ہللا کے حلقہ میں کچھ لوگ کہا کرتے کہ یہ الفاظ زائد اور بے فائدہ ہیں۔جس پر انہوں نے فرمایا:
ُخ ُذوْ ا ہُٰؤاَل ِئ َ ،و َجنِّبُوْ ہُم فِ ْی َح َشا ْال َح ْلقَ ِۃ۔
انہیں پکڑو اور انہیں ہمارے حلقے سے الگ کرکے اس کے حاشئے میں بٹھادو۔ اس لئے انہیں حشویہ کہا گیا۔
ظاہری معنی ہی مراد ہوگا:
اس کے باطنی معنی لینے کی کوئی دلیل ہے اور نہ ہی ہم اس کے مکلف ہیں۔ایسے دعوے دراصل قرآن کریم کو اپنے
من پسند عقائد ونظریات میں ڈھالنے کی دعوت ہے۔مگر جو معنی ومفہوم ہللا تعالی نے اپنے رسول کو بتائے ،صحابہ
کرام نے جن پر عمل کیا انہیں قابل اعتناء نہ سمجھا جائے یہ کون سی قرآن دانی ہے؟۔
باطنیہ کہا کرتے:
قرآن کے الفاظ کا ظاہری مفہوم مراد نہیں لیا جاسکتا اور اس کے باطن کا مفہوم ہر کوئی نہیں جانتا۔اسے صرف ہمارے
باطنی ائمہ ہی جانتے ہیں۔ باطنی معنی میں اشاری معنی بھی آجاتا ہے ۔ مثالً کوئی یہ کہے کہ اس لفظ کے معنی ومفہوم
2
تف ت تف ن
کورس کا ام :اصول سی ر و اری خ سی ر ()4611
خ
سمسٹ ر :زاں2020 ،ء
کا مجھے اشارہ ہوا ہے۔ یہ اشارے اگر ہللا کے رسول کے کہے یا مراد کے مطابق ہوں تو درست ورنہ یہ شیطانی
اشارے بھی ہو سکتے ہیں۔یہ دونوں انداز فکر رسول ہللا ﷺ سے اور امت کے اجماع سے جان چھڑانے اور اپنی الگ
شریعت سازی کے مترادف ہیں۔
عاجز کردینے واال :
ال ُم ْع ِجز کا مطلب ہے عاجز کر دینے واال۔ قرٓان مجید نے ثابت کر دیا کہ عرب فصحاء ہی نہیں بلکہ دنیا کے سارے
انسان اس جیسی کتاب پیش کرنے سے عاجز و قاصر ہیں۔ اس میں غیب کی خبریں اور امم سابقہ کے حاالت ہیں۔ زمان
ومکان کی مناسبت سے معاشی اور معاشرتی ضرورت کو دیکھ کر اس میں محکم قانون سازی کی گئی ہے۔ عقل انسانی
دنگ اور بے بس ہے کہ اس جیسی کوئی چیز مقابلہ کے طور پرالسکے۔ خود قرٓان نے بنی نوع انسان کو متعدد بار یہ
چیلنج دیا کہ وہ اس جیسی کوئی چیز لے ٓائیں۔ باوجود اس بات کے کہ یہ چیلنج ہمتوں کو ابھارنے واال اور مقابلہ کے
لیے ٓامادہ کرنے واال تھا۔ محرک بھی موجود تھا مگر پھر بھی وہ اس کے مقابلہ سے عاجز رہے۔مثال ارشاد باری تعالی
ہے:
ْض ظَ ِہ ْیرًا} (اإلسراء )۸۸ : ت ااْل ِ ْنسُ َو ْال ِج ُّن ع َٰلٓی اَ ْن یَّاْتُوْ ا بِ ِم ْث ِل ٰہ َذا ْالقُرْ ٰا ِن الَ یَاْتُوْ نَ بِ ِم ْثلِ ٖہ َولَوْ َکانَ بَ ْع ُ
ضہُ ْم لِبَع ٍ { قُلْ لَِّئ ِن اجْ تَ َم َع ِ
کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جن سب جمع ہو کر اس قرٓان کی مانند ایک کتاب النا چاہیں تو نہ ال سکیں گے۔خواہ وہ
سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔
اسی چیلنج کو ایک اور جگہ ذرا کمی کرکے ان الفاظ میں دہرایا گیا:
ت َّوا ْد ُعوْ ا َم ِن ا ْستَطَ ْعتُ ْم ِّم ْن ُدوْ ِن ہّٰللا ِ اِ ْن ُک ْنتُ ْم ٰ
ص ِدقِ ْینَ } {اَ ْم یَقُوْ لُوْ نَ ا ْفت َٰرہٗ ط قُلْ ْفاْتُوْ ا بِ َع ْش ِر ُس َو ٍر ِّم ْثلِ ٖہ ُم ْفتَ َر ٰی ٍ
کیا یہ کہتے ہیں کہ اسے رسول نے گھڑا ہے۔ کہہ دیجئے کہ اس جیسی دس گھڑی ہوئی سورتیں لے ٓأو اور ہللا کے سوا
جس کو بالنا چاہوبال لو اگر تم سچے ہو۔
جب اس سے بھی عاجز رہے تو ایک آدھ چھوٹی سورت کا کہہ دیا۔
صا ِدقِينَ ب ِّم َّما نَ َّز ْلنَا َعلَ ٰى َع ْب ِدنَا فَْأتُوا بِس َ
ُور ٍة ِّمن ِّم ْثلِ ِه َوا ْدعُوا ُشهَدَا َء ُكم ِّمن دُو ِن اللَّـ ِه ِإن ُكنتُ ْم َ َوِإن ُكنتُ ْم فِي َر ْي ٍ
اگر اس چیز کے بارے میں تمہیں کوئی شک ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا
الٔو ہللا کے سوا اپنے تمام مددگا بال لو اگر تم سچے ہو۔
اس چیلنج کا اولین مقصد یہی تھا کہ نبی اُمی جناب محمد بن عبد ہللا ﷺ کی رسالت ونبوت ثابت کی جاسکے۔ رسول
اکرم ﷺ کا اُمی ہونا آپ ﷺ کے حق میں معجزہ ہے مگر امت کا اُمی ہونا امت کے حق میں معجزہ نہیں۔ قرآن مجید کو
نازل ہوئے آج پندرہ سو سال گزرگئے ہیں یہ بھی اس کا معجزہ ہے جس نے افراد امت کا تعلق نہ صرف ہللا سے جوڑا
بلکہ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ سے بھی منسلک کردیا۔اس کے عالوہ بے شمار پہلو ایسے ہیں جو معجزہیں جن کا ذکر ہم
آگے کریں گے۔
ال ُمنَ َّز ُل کا مطلب ہے بتدریج نازل کردہ۔یعنی صرف وہ کالم ،قرٓان یا کالم ہللا ہے جو آپﷺپر بذریعہ وحی اترا۔ صحف
ابراہیم وموسی ،تورات ،زبور ،انجیل وغیرہ کالم ٰالہی ہونے کے باوجود قرٓان میں شامل نہیں کیونکہ وہ دوسرے انبیاء
پر نازل ہوئیں۔ُ منَ َّزل کہنے سے یہ نکات بھی معلوم ہوئے کہ غیر ہللا یعنی کسی انسان ،نبی ،فرشتہ کا کالم اس میں
3
تف ت تف ن
کورس کا ام :اصول سی ر و اری خ سی ر ()4611
خ
سمسٹ ر :زاں2020 ،ء
شامل نہیں۔ خواہ وہ حدیث قدسی ہی کیوں نہ ہو۔ نیز قرٓان مجید عربی میں ہے اورلفظ و معنی دونوں کا نام ہے ۔ اس بناء
تعالی کی طرف سے نہیں اگرچہ ان کے مضامین و مطالب ہللا
ٰ پر احادیث قرٓان میں شامل نہیں کیونکہ ان کے الفاظ ہللا
وحی خفی ٓاپﷺ پر نازل ہوئے ہیں۔ اسی طرح تفسیرقرٓان بھی اس میں داخل نہیں خواہ وہ
ِ تعالی کی طرف سے بذریعہ
ٰ
عربی میں ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے ہی عربی سے دوسری زبانوں میں قرٓان مجید کا ترجمہ بھی قرٓان نہیں اور نہ یہ ترجمہ
قرٓان میں شامل ہے۔
بذریعہ جبرائیل:
قرٓان مجید ،سیدنا جبرئیل علیہ السالم کے واسطے سے آپ ﷺ کے قلب اطہر پر نازل ہواہے کیونکہ وہی حفظ ویادداشت
کا مرکز ہے۔ قرٓان مجید میں ہے:
{ َواِنَّ ٗہ لَتَ ْن ِز ْی ُل َربِّ ْال ٰعلَ ِم ْینَ ¢نَ َز َل بِ ِہ الرُّ وْ ُح ااْل َ ِمیْن ¢ع َٰلی قَ ْلبِ َ
ک لِتَ ُکوْ نَ ِمنَ ْال ُم ْن ِذ ِر ْینَ ¢بِلِ َسا ٍن ع ََربِ ٍّی ُّمبِ ْی ٍن (} ¢الشعراء ۱۹۲ :۔
)۱۹۵
اور بال شبہ یہ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے جسے روح االمین لے کر اترے ہیں اسے آپﷺ کے
قلب اطہر پر اتارا ہے تاکہ آپ انذار کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔ صاف ،واضح عربی زبان میں ہے ۔
اس طرح قرآن کی عظمت ،مالئکہ اور اہل ایمان دونوں پر واضح کردی گئی اور آپ ﷺ کو بھی یقین ہوگیا کہ یہ
شیطانی کالم نہیں بلکہ جبریل امین ہی اسے میرے پاس الئے ہیں جو فرشتوں کے مطاع ہیں۔ باقی قائمۃ الکروبین ،اہل
المراتب والتمکین جیسے فرشتے یا نون فرشتہ اور قلم فرشتہ سب اختراعات ہیں جو عوام کو قرآنی عقیدہ سے ہٹانے
والی باتیں ہیں۔
لسان عربی :
ابن فارس نے لکھا ہے {:خلق اإلنسان علمہ البیان} ہللا تعالی نے بیان کو دیگر مخلوقات مثالً :شمس وقمر ،نجوم وشجر
کے ذکر سے قبل بیان کی۔جس کاسکھا دینا بہت بڑی عنایت ربانی ہے دوسرے اس سے محروم ہیں۔پھر یہ بیان عربی
زبان میں ہے کیونکہ دیگر زبانوں میں یہ وسعت نہیں اسی بناء پر عربی زبان کا انتخاب ہللا تعالی نے فرمایا۔باقی وحی
کا کسی زبان میں اترنا بڑا مسئلہ نہیں ۔اگروحی عبرانی یا سریانی زبان میں اترسکتی ہے تو خالص عربی میں کیوں
نہیں؟ لسان عربی سے مراد یہ نہیں کہ قرآن مجید سابقہ الہامی کتب کے مثل ایک کتاب ہے بلکہ بنیادی طور پر دوسری
کتب کے مقابلے میں قرآن مجید کو اپنا منفرد مقام حاصل ہے۔
کتابی شکل:
المکتوب کا مطلب ہے لکھا ہوا ۔اور المصاحف جمع ہے مصحف کی ،یعنی یہ لوح محفوظ میں لکھا ہواہے نیز آیات کے
نزول کے بعد آپ ﷺ بھی اسے لکھوالیتے۔مگرکتابت سے پہلے بھی یہ قرآن ،قرآن کہالتا تھا ۔ معلوم ہوا کہ قرٓان محض
تعالی ہے:
ٰ زبانی الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ کتابی شکل میں بھی ہے ارشاد باری
ب َم ْسطُوْ ِر ¢فِي َر ِّ
ق َّم ْن ُشوْ ِر}¢ { َو ُّ
الطوْ ِرَ ¢و ِکتَا ِ
قسم ہے طور کی ،اور لکھی ہوئی کتاب کی ،پھیلے ہوئے صفحات میں۔
4
تف ت تف ن
کورس کا ام :اصول سی ر و اری خ سی ر ()4611
خ
سمسٹ ر :زاں2020 ،ء
اس کی قراء ت عبادت ہے :
ٰ
صلوۃ اور یعنی اس کتاب کی تالوت کو عبادت کا درجہ حاصل ہے تاکہ مومن رب کی قربت حاصل کرے۔ اسے اقامت
انفاق فی سبیل ہللا کے ساتھ رکھا گیا ہے اور اس پر نہ ضائع ہونے والی تجارت کی بشارت دی گئی ہے۔
َاب ہّٰللا ِ َوَأ قَا ُموْ ا ال َّ
صاَل ۃَ َؤَأ ْنفَقُوْ ا ِم َّما َر َز ْقنَاہُ ْم ِس ًّرا َو َعاَل نِیَۃً یَّرْ جُوْ نَ تِ َجا َرۃً لَ ْن تَبُوْ َر}( فاطر )۲۹: {ِإ َّن الَّ ِذ ْینَ یَ ْتلُوْ نَ ِکت َ
بے شک وہ لوگ جو ہللا کی کتاب پڑھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے انہیں رزق دیا اس میں سے پوشیدہ اور
عالنیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کی امید رکھتے ہیں جو ہرگز ضائع نہیں ہوگی۔
آپ ﷺ نے تالوت قرٓان پر ثواب کی بشارت یوں ارشاد فرمائی:
جو شخص قرٓان مجید کے ایک حرف کی تالوت کرے گا۔ اسے دس نیکیوں کا ثواب ملے گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الم
تف ایک حرف ہے۔ بلکہ الف ایک حرف ہے الم ایک حرف ہے۔ اور میم ایک حرف ہے۔
ن
ے۔
یک ئ
ان ب ل ی سوال م ر2۔ ق رآن جم د کے علوم پ ن گان ہ م ں سے علم اال کام ور علم الت ذک ر الموت و ما ب عد الموت کے م عل ات کو ال ص
ق ت
ی ج ب یب ح ج ی ی ب
فہم قرآن میں سب سے بڑی دشواری یہ پیش آتی ہے کہ بظاہر آیات قرآنی اور ان کے مضامین میں ربط نظر نہیں آتا
اور ایک مبتدی کو بہت سے مسائل سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ حضرت شاہ ولی ہللا ؒ محدث دہلوی نے الفوز
الکبیر میں اس مشکل کو حل کر دیا ہے۔ انھوں نے قرآن مجید کے تمام مطالب کو پانچ حصوں یا علوم پنجگانہ میں
منقسم کیا ہے۔ قرآن مجید میں جو مضامین اور مفہوم بیان کئے گئے ہیں وہ ان پانچ علوم سے باہر نہیں۔ شاہ صاحب
’’الفوز الکبیر ‘‘ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ ’’امید ہے کہ طالب علموں کے سامنے صرف ان قواعد کے سمجھ لینے
ہی سے کتاب ہللا کو سمجھنے کی ایک وسیع شاہراہ کھل جائے گی ، ،۔
ذیل میں ’’الفوز الکبیر ‘‘ کے پہلے باب کا خالصہ پیش ہے۔
( )۱علم احکام:
قرآن مجید کے تمام احکام۔ واجب ،مستحب ،حرام ،مکروہ اور مباح۔ خواہ عبادات سے متعلق ہوں یا معامالت سے
تدبیر منزل سے ہوں یا سیاست مدن سے یہ تمام علم اس میں آ جاتے ہیں۔ ان احکام کو متن نویسوں کی طرح پیش نہیں
تعالی نے جس حکم کو بندوں کے لئے ضروری سمجھا اور جس انداز میں ضروری سمجھا بیان کر دیا
ٰ کیا گیا بلکہ خدا
خواہ کوئی حکم مقدم ہو جائے یا موخر۔ علم احکام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ۔ ۔ ۔ چونکہ رسول ہللاﷺ ملت ابراہیمی پر
تعالی نے عرب کو حضورﷺ
ٰ مبعوث ہوئے اس لئے اس ملت کے طریقوں کا باقی رکھنا ضروری ہے اور چونکہ ہللا
کے ہاتھ اور پھر باقی تمام عالم کو عربوں کے ہاتھ سے پاک کرنے کا ارادہ فرمایا ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ
شریعت محمدیہ کا مواد عربوں ہی کی رسوم و عادات سے لیا جائے۔
ملت ابراہیم کی تمام عبادات میں فتور عظیم پیدا ہو گیا تھا۔ اس کے احکام میں تساہل برتا جاتا۔ اہل جاہلیت نے اس میں
تحریف کر دی تھی۔ قرآن مجید نے اس بدنظمی کو دور کر کے اصالح و درستی کر دی۔ اسی طرح معامالت خانگی
میں بُری رسوم اور ظلم نے دخل پا لیا تھا اور احکام سیاست مدن بھی بالکل قطع ہو چکے تھے۔ اس لئے قرآن نے ان
کے اصول بھی منضبط کر کے ان کی پوری حدبندی فرما دی۔
( )۲علم مناظرہ۔
5
تف ت تف ن
کورس کا ام :اصول سی ر و اری خ سی ر ()4611
خ
سمسٹ ر :زاں2020 ،ء
ٰ
نصاری ،مشرکین اور منافقین سے مباحث ہوئے یہ مباحثے دو طرح پر کئے قرآن مجید میں چار گمراہ فرقوں ،یہود ،
گئے ہیں۔
اول یہ کہ فقط باطل عقیدہ کو بیان کر کے اس کی قباحت بیان کر دی گئی اور اس طرح اس عقیدہ سے نفرت دالئی گئی۔
دوم یہ کہ گمراہوں کے شبہات کو بیان کر کے ان کو حل کیا گیا۔
(الف) مشرکین سے مباحثہ :مشرکین مکہ اپنے کو ملت ابراہیمی کا پابند کہتے لیکن انھوں نے ملت ابراہیمی کی
تعالی کے وجود کا عقیدہ۔ اس کا خالق کائنات ہونے اور رسولوں کو بھیجنے پر قادر
ٰ عالمات کو ترک کر دیا تھا۔ خدا
ہونے وغیرہ کے وہ قائل تھے لیکن انھوں نے ان عقائد میں شبہات پیدا کر دئے تھے۔
اس طرح وہ شرک ، تشبیہ اور تجسّم کے قائل تھے۔ معاد کے منکر تھے۔ نبی کریمﷺ کی رسالت کو بعید از قیاس
سمجھتے تھے۔ برے اعمال عالنیہ کرتے۔ نئے نئے رسوم و عبادات ایجاد کرتے تھے۔ قرآن کریم نے ان کے ایک ایک
فساد عقیدہ اور عمل کی گمراہی کو علم مباحثہ کے ذریعہ دور کیا۔
شرک کا جواب یہ دیا گیا کہ ان سے شرک کی دلیل طلب کی گئی۔ تقلید آباء کا استدالل کیا گیا۔ ان کو بتایا گیا کہ وہ
بندگان خدا جن کو وہ خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں خدا کے برابر نہیں ہو سکتے اور تمام انبیاء نے شرک کی اجتماعی
طور پر مخالفت کی ہے۔
تشبیہ کا یہ جواب دیا گیا کہ تمہاری تحریف کردہ باتیں ملت ابراہیمی سے ثابت نہیں ہیں اور ایسے لوگوں کی اختراعات
ہیں جو معصوم نہ تھے۔
انکار معاد اور حشرو نشر کے انکار کا جواب یہ دیا گیا کہ اس کو زمین کی حیات پر قیاس کر لیا جائے۔ نیز ان امور
کی خبر پر تمام اہل کتاب کا اتفاق ہے۔
(ب) یہود :یہود کی گمراہی یہ تھی کہ وہ توریت میں لفظی اور معنوی تحریف کرتے تھے۔ بعض آیات کو چھپاتے اور
جو احکام اس میں نہ ہوتے وہ مال دیتے۔ احکام کی پابندی میں تساہل برتتے۔ تعصب مذہبی میں شدت ،رسول ہللاﷺ کی
رسالت میں تامل ،بے ادبی ،طعنہ زنی ،بخل اور حرص میں مبتال تھے۔ قرآن مجید تمام کتب سابقہ کا محافظ ،ان کے
اشکاالت کو کھولنے واال ہے۔ اس لئے ان کی تحریف آیات کو چھپانا اور افترا پردازی کو پوری طرح کھول کر رکھ دیا
ہے۔ رسالت نبی کریمﷺ کو تسلیم کرنے میں ان کے تامل کی نشاندہی کر کے اس کے اسباب بیان کر دیئے گئے ہیں۔
تعالی کو تین ایسے حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا جو بعض
ٰ ٰ
نصاری کی گمراہی یہ تھی کہ انھوں نے خدا ٰ
نصاری : (ج)
وجوہ سے الگ الگ اور بعض وجوہ سے متحد تھے۔ اس کو وہ اقانیم ثالثہ کہتے ہیں۔ ایک اقنوم باپ ،دوسرا ابن اور
مسیح کی روح کا لباس اختیار کر لیا تھا ،اس لئے حضرت
ؑ تیسرا روح القدس ،ان کا عقیدہ تھا کہ اقنوم ابن نے حضرت
ٰؑ
عیسی خدا بھی ہیں ،ابن ہللا اور بشر بھی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
ٰؑ
عیسی نے بعض دفعہ ہللا اس کا جواب یہ دیا گیا کہ قدیم زمانہ میں لفظ ابن ،مقرب اور محبوب کے ہم معنی تھا۔ حضرت
کے افعال کو اپنی جانب منسوب کیا ہے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ یہ نسبت بطریق نقل و حکایت ہے جیسے کسی بادشاہ
ٰؑ
عیسی خدا کے بندے کا ایلچی یہ کہے کہ ہم نے فالں ملک فتح کر لیا۔ خدا نے ان عقائد کو رد کر کے کہا کہ حضرت
ٰؑ
عیسی کو مقتول سمجھتے تھے۔ اس شبہ کا قرآن سے ازالہ کیا گیا۔ ٰ
نصاری کی گمراہی یہ تھی کہ وہ حضرت تھے۔ نیز
6
تف ت تف ن
کورس کا ام :اصول سی ر و اری خ سی ر ()4611
خ
سمسٹ ر :زاں2020 ،ء
ٰؑ
عیسی لیتے جو قتل کے بعد حواریوں کے پاس گئے ان کی ایک گمراہی یہ تھی کہ وہ فارقلیط موعود سے مراد حضرت
تھے۔ قرآن نے بتایا کہ یہ بشارت ہمارے نبی کریمﷺ کے لئے تھی۔
(د) منافقین :منافقین دو طرح کے تھے۔ اول وہ جو زبان سے کلمہ ایمان کہتے مگر ان کا قلب کفر اور سرکشی پر پختہ
تھا۔ ان لوگوں کے متعلق فرمایا گیا کہ ’’فی الدرک االسفل من النار‘‘
دوسرے وہ جنھوں نے اسالم قبول کر لیا مگر ایمان ضعیف تھا۔ دنیاوی لذتوں کی پیروی کرتے تھے۔ اس لئے خدا اور
رسول کی محبت باقی نہ رہی تھی۔ حرص مال اور حسد و کینہ دلوں پر مسلط تھا۔ امور دنیا میں منہمک ہو گئے تھے
اس لئے آخرت کی فکر نہ رہی تھی۔ رسول ہللا ﷺ کی رسالت کی نسبت بیہودہ خیاالت و شبہات رکھتے تھے مگر اتنی
جرات نہ تھی کہ اسالم کے دائرہ سے نکل جاتے۔
قرآن میں ان تمام گروہوں سے مباحثہ دیکھ کر یہ گمان نہ کرنا چاہئے کہ یہ مباحث ایک خاص قوم سے تھے جو گزر
گئی اور اب اس کی ضرورت نہیں رہی بلکہ ان کا نمونہ آج بھی موجود ہے۔ ان کا مقصود اصلی ان مقاصد کے لئے
کلیات کا بیان ہے نہ کہ ان حکایات کی خصوصیات۔
( )۳تذکیر باآلء ہللا:
تعالی نے تذکیر باآل ء ہللا کے سلسلہ میں
ٰ قرآن کریم کا نزول تمام نسل انسانی کی تہذیب کے لئے ہوا ہے اس لئے خدا
تمام افراد بنی آدم کی اکثریت کی معلومات سے زیادہ بیان نہیں کیا اور نہ ہی زیادہ بحث سے کام لیا ہے۔ اسماء اور
اعلی کو ایسے آسان طریقہ سے بیان کیا ہے کہ تمام نسل انسانی حکمت ٰالہی اور علم کالم میں مہارت کے بغیر
ٰ صفات
ہی اپنی فطرت کے ذریعہ ان کو سمجھ سکے۔ چنانچہ ذات ٰالہی کا ذکر اجمالی فرمایا کیونکہ اس کا علم تمام افراد کی
فطرت میں موجود ہے اور چونکہ صفات ٰالہی کا فہم گہری نظر سے حاصل کرنا محال تھا اس لئے ان کو ان بشری
صفات کاملہ سے سمجھایا گیا جس کو ہم جانتے ہیں اور جو ہمارے نزدیک قابل تعریف سمجھے جاتے ہیں۔ اس طرح
جن نعمتوں کا ذکر مناسب تھا کیا گیا۔ یہ نعمتیں عام ہیں مثالً زمین و آسمان کی پیدائش ،بادلوں سے پانی برسانا ،زمین
سے پانی کے چشمے جاری کرنا۔ اس سے طرح طرح کے پھل پھول غلہ لگانا ضروری صفتوں کا الہام اور ان کے
جاری کرنے کی قدرت بخشنا۔ مصیبتوں کے ہجوم اور ان کے دور ہونے کے وقت لوگوں کا رویہ بدل جانے پر تنبیہ
بھی کی گئی ہے۔
( )۴تذکیر بایام ہللا:
اس میں وہ واقعات بیان کئے گئے ہیں جو ہدایت و ضاللت اور حق و باطل کی کشمکش کے مختلف پہلوؤں پر روشنی
ڈالتے ہیں اور ترغیب یا ترہیب کا کام انجام دیتے ہیں مثالً فرمانرواؤں کے لئے انعام اور نا فرمانوں کے لئے عذاب۔ اس
کے لئے ایسی جزئیات کو بیان کیا گیا ہے جو اس سے پہلے وہ سن چکے تھے مثالً عاد ثمود کے قصے۔ حضرت
ابراہیم اور انبیائے بنی اسرائیل کی داستانیں وغیرہ۔ غیر مانوس قصے بیان نہیں کئے گئے۔ مشہور قصوں میں سے بھی
ؑ
ان کو لیا گیا ہے جو تذکیر میں کارآمد ہوں اور تمام قصوں کو ان کی تمام خصوصیات کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا۔ اس
میں مصلحت یہ ہے کہ عوام جب کوئی عجیب و غریب داستان سنتے ہیں یا داستان اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ ان
7
تف ت تف ن
کورس کا ام :اصول سی ر و اری خ سی ر ()4611
خ
سمسٹ ر :زاں2020 ،ء
کے سامنے بیان کی جاتی ہے تو ان کی طبیعت محض اس داستان کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ اور تذکیر کا مقصد فوت
ہو جاتا ہے۔
ان قصص کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ان واقعات سے آگاہی ہو جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ سننے والے کا ذہن شرک اور
گناہ کی برائی سے نفرت کرے اور وہ کفار پر عذاب اور مخلصین پر خدا کی عنایت پر مطمئن ہو جائے۔
( )۵تذکیر بالموت و بما بعد الموت
اس سلسلہ میں یہ امور بیان ہوئے ہیں۔ انسانی موت کی کیفیت۔ بے چارگی کا عالم۔ موت کے بعد جنت اور دوزخ کا
عیسی کا نزول۔ دجال اور یا جوج ماجوج کا ظہور۔ صورٰؑ سامنے آنا ،عذاب کے فرشتوں کا آنا۔ عالمات قیامت۔ حضرت
فنا۔ صور حشر و نشر۔ سوال جواب۔ میزان اور نامہ اعمال۔ مومنین کا دیدار ٰالہی۔ عذاب کی نوعیتیں۔ نغمہ ہائے جنت کی
تفصیالت وغیرہ۔ ان سب کے بیان کرنے کا مقصد بھی تذکیر ہے اور ان کو مختلف صورتوں میں ان کے حسب حال
اجماالً یا تفصیالً فبیان کیا گیا ہے۔
یک ئ ف ن ن ن ف غ ش ئ ق ن
ے اور ان کو ت عر عدم کی زول اب ا اور سوخ م و اسخ ، اظ ب ر سے ں م الت ک ل حا ں م ہ تراس کے میہ رآن ۔3 ر
ی ج ب م ب س ال ی ی م ی سوال ب
م
مش ک ح ب ت یک ئ
ے۔ہ ر ای ک ل کا ل ھی ج ویز ج
تعالی نے قرآن مجید عالم انسانیت کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے نازل فرماکر انسانیت کو ہدایت اور صراط مستقیم ٰ ہللا
کا راستہ دکھا کر اپنی حجت تمام کر لی ہے ۔ قرآن مجید ایک واضح کتاب اور دلیل قاطع ہے جو انسانوں کو اندھیروں
سے نکال کر روشنی کی راہ دکھاتی ہے ۔ جس کے ذریعے انسان حق اور باطل ،صحیح اور غلط ،سچ اور جھوٹ،
تعالی نے ایک ہی بار نازل نہیں فرمایا بلکہ تدریجا آہستہ آہستہ
ٰ شرک اور توحید میں تمیز کر سکتا ہے۔ اس قرآن کو ہللا
تعالی
ٰ تئیس سال کی مدت میں قرآن کا نزول مکمل ہوا۔ جس میں تیرہ سال مکی دور کے اوردس سال مدنی دور کے ،ہللا
:کا ارشاد ہے کہ
ٰ ٰ
َنزيالً۬ ()۱
ث َونَ َّزلۡنَهُ ت ِ َوقُرۡ َءانً۬ا فَ َرقۡنَهُ لِتَقۡ َرَأهُ ۥ َعلَى ٱلنَّ ِ
اس َعلَ ٰى ُمكۡ ٍ۬
ترجمہ :اور قرآن کو ہم نے جدا جدا کر کے اتا را تاکہ آپ اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں اور ہم نے اسے تدریجا
اتارا۔
تعالی نے اس آیت میں واضح کر دیا اور تدریجا نازل کر نے کا سبب بھی واضح الفاظ میں بیان کر دیا کہ آپ اس
ٰ ہللا
قرآن کو لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ جو بات ٹھہر ٹھہر کر اور وقفے وقفے سے پڑھی جاتی ہے وہ دلنشین ہوجاتی
ہے اور آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے ۔
:اسلوب ِقرآن
قرآن مجید جس زبان اور جس خطے میں نازل ہوا اس خطے کی زبان اور انہیں لوگوں کے اسلوب میں نازل ہوا۔ اس
لیے عرب کے کسی شخص نے قرآن کے اسلوب پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ قرآن مجید جس طرح ایک فصیح اللسان
شاعر کو سمجھ میں آیا تھا اسی طرح ایک عام ،ان پڑھ شخص کو بھی سمجھ میں آیا ۔
امین احمد اسلوب قرآن کے متعلق لکھتے ہیں "قرآن مجید عرب کی زبان میں اور انہی کے اسلوب میں نازل ہوا ،قرآن
کے تمام الفاظ عربی ہیں سوا چند الفاظ کے جو دوسری زبانوں سے لیے گئے ہیں لیکن ان الفاط پر عربیت کا اثر غالب
8
تف ت تف ن
کورس کا ام :اصول سی ر و اری خ سی ر ()4611
خ
سمسٹ ر :زاں2020 ،ء
آگیا۔
قرآن کا اسلوب عرب کا اسلوب ہے اس میں حقیقت ،مجاز اور کنایۃ عرب کالم کے مطابق ہے کیونکہ قرآن کے پہلے
تعالی کا ارشاد ہے
ٰ مخاطب عرب ہی تھے تو اس لیے ان کو اس زبان میں مخاطب کیا گیا جو وہ سمجھتے تھے "( )۲ہللا
:کہ
َو َمٓا َأرۡ َسلۡنَا ِمن َّرسُو ٍل ِإاَّل بِلِ َسا ِن قَوۡ ِم ِهۦ لِيُبَيِّنَ لَهُمۡ ()۳
ترجمہ :اور ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس قوم کی زبان میں تاکہ وہ ان کے لیے پیغام اچھی طرح واضح کر
سکے۔
اس آیت میں ہللا تعالی نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا کہ رسول ہللا ﷺ انہی میں سے ہیں اور انہی کی زبان میں ان
سے بات کرتے ہیں اور ہللا کی کتاب بھی اسی قوم کی زبان میں نازل کی جاتی ہے ۔ اس کے باوجود قرآن کو تمام
صحابہ برابر سمجھنے سے قاصر تھے ۔ جس طرح عربی میں لکھی ہوئی کتاب کو تمام اہل زبان نہیں سمجھ سکتے
اسی طرح انگریزی اور اردو زبان میں لکھی ہوئی کتاب کو اہل زبان مکمل نہیں سمجھ سکتے کیونکہ عقل ،فہم و
فراست میں طبقات اور درجات ہوتے ہیں اسی طرح ہر شخص اپنی مادری زبان کا احاطہ نہیں کر سکتا عربی زبان کا
معاملہ بھی ٹھیک اسی طرح کا ہے ،یہاں پر حضرت عمر رضی ہللا عنہ کا واقعہ ذکر کرنا موزوں ہوگا۔ انس بن مالک
تعالی َ :وفَ ٰـ ِكهَةً۬ َوَأبًّ۬ا۔
ٰ رضی ہللا عنہ روایت کرتے ہیں کہ :ان رجال سئال عمر بن الخطاب عن قولہ
یعنی ایک شخص نے حضرت عمر رضی ہللا عنہ سے سورۃ عبس کی آیت َوفَ ٰـ ِكهَةً۬ َوَأبًّ۬ا ،میں ا َبًّ۬ا لفظ کے معنی دریافت
کی تو حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے اس سے کہا کہ ہمیں تکلفات میں پڑنے سے منع کیا گیا ہے ( )۴یہ تھے حضرت
عمر رضی ہللا عنہ جن کی فہم و فراست اور دینی علم کی گہرائی کو ہم جانتے ہیں۔ ان کے ساتھ عام صحابہ کا بھی یہی
حال ہوگا ۔
:قرآن کی نزول کے اعتبار سے تقسیم
نزول قرآن کے اعتبار سے قرآن مجید کے دو حصے ہیں۔
قرآن مجید کا وہ حصہ جو بغیر کسی سوال یا حادثہ کے نازل ہوا ایسی آیات اکثر و بیشتر مندرجہ ذیل مضامین سے )(۱
تعلق رکھتی
ہیں۔
وہ آیات جن میں انبیاء سابقین اور امم سابقہ کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ •
زمانہ ماضی کے واقعات ۔ •
وہ آیات جن میں مستقبل میں پیش آنے والے غیبی واقعات کا ذکر ہے۔ •
قیامت کے متعلق آیات •
عذاب اور ثواب کے متعلق آیات وغیرہ ۔ •
قرآن کے اس حصے کا نزول بغیر کسی سوال یا سبب کے ہوا ہے ۔ قرآن میں ایسی آیات اچھی خاصی تعداد میں موجود
ہیں ،ان کے نازل کرنے کی غرض یہ ہے کہ مخلوق خدا کو سیدھی راہ دکھائی جائے ۔ یہ آیات سیاق و سباق کے ساتھ
9
تف ت تف ن
کورس کا ام :اصول سی ر و اری خ سی ر ()4611
خ
سمسٹ ر :زاں2020 ،ء
مربوط و متصل ہیں مگر کسی سوال کے جواب میں نازل نہیں ہوئی اور ان میں کسی چیز کا حکم بھی مذکور نہیں ہے ۔
قرآن مجید کا وہ حصہ جس کے نزول کا سبب سوال یا کوئی حادثہ ہے یعنی سوال کے جواب میں آیات نازل ہوئیں )(۲
یا کسی حادثہ کے متعلق آیات نازل ہوئیں۔
قرآن مجید کی تفسیر سبب نزول کی معرفت کے بغیر مناسب نہیں ہو سکتی کیونکہ جس دور میں اور جن حاالت میں
قرآن مجید نازل ہوا ان حاالت کو جاننا بے حد ضروری ہے کہ یہ آیت کسی حادثہ یا کسی سوال کے جواب میں نازل
ہوئی ہے ۔
امام واحدی رحمۃ ہللا علیہ سبب نزول کے متعلق لکھتے ہیں کہ :آیت کا تفسیر اور اس کے غرض و غایت کا علم اس
کے سبب نزول کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔ اور اس کے سبب نزول میں کوئی بات کرنا جائز نہیں سوائے صحیح روایت کے
جنہوں نے قرآن کے نزول کا زمانہ پایا()۵۔
سبب نزول آیت کے مقصد اور تفسیر میں مدد گار ثابت ہوتا ہے ،امام ابن تیمیۃ رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں :ومعرفۃ سبب
النزول یعین علی فھم اآلیۃ ،فان العلم بالسبب یورث العلم بالمسبب۔( )۶یعنی سبب نزول کی پہچان کسی آیت کے فہم و
ادراک میں مدد دیتی ہے اس لیے کہ سبب کے علم سے مسبب کا معلوم ہونا ایک فطری بات ہے ۔
جالل الدین سیوطی رحمۃ ہللا علیہ امام ابن دقیق العید رحمۃ ہللا علیہ کا قول ذکر کرتے ہیں کہ سبب نزول کا علم قرآن
کے معانی اور فہم کا قوی ذریعہ ہے ()۷ان حوالوں کے سبب نزول کی اہمیت اور ضرورت واضح ہو گی۔
:اسباب نزول سے نا آشناہونے کا نتیجہ
اسباب نزول کا علم آیت کے مقصد کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو تاہے اور اسباب نزول کی ال علمی غلطی اور خطا
،کا سبب بنتا ہے
شیخ احمد امین حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے دور میں خالفت کا ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی
ہللا عنہ نے حضرت قدامۃ بن مظعون کو بحرین کا گورنر مقرر کیا تھا ،حضرت جارود نے حضرت عمر رضی ہللا عنہ
سے آکر شکایت کی کہ قدامۃ بن مظعون شراب پی کر مدہوش ہو گیا تھا۔ حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے جارود سے
کہا تمہاری اس بات کی کون گواہی دیگا؟ جارود نے کہا حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ میری بات کی گواہی دیں گے ۔
تو حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے قدامۃ بن مظعون سے کہا تم پر شراب نوشی کی حد جاری کرونگا ۔ اس پر قدامۃ نے
کہا اگر ایسا ہے جیسے آپ کہتے ہیں تو آپ مجھ پر حد جاری نہیں کر سکتے اس پر حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے
تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے کہ
ٰ :قدامۃ سے پوچھا وہ کیسے ؟ قدامۃ نے کہا ہللا
وا ثُ َّم ٱتَّقَ ْ
وا وا َّو َءا َمنُ ْ
ت ثُ َّم ٱتَّقَ ْ وا َو َع ِملُ ْ
وا ٱل َّ
صـٰلِ َحـٰ ِ وا َّو َءا َمنُ ْ
ت ُجنَا ٌح۬ فِي َما طَ ِع ُم ٓو ْا ِإ َذا مَا ٱتَّقَ ْ وا َو َع ِملُ ْ
وا ٱل َّ
صـٰلِ َحـٰ ِ س َعلَى ٱلَّ ِذينَ َءا َمنُ ْ لَيۡ َ
َّوَأحۡ َسنُ ْ
واۗ َوٱهَّلل ُ يُ ِحبُّ ٱۡل ُمحۡ ِسنِينَ ۔(المائدہ )۹۳
یعنی ان لوگوں پر جو ایمان الئے اور نیک عمل کرتے رہے کوئی گناہ نہیں جو وہ کھا پی چکے ہیں جب وہ ڈرجائیں
ٰ
تقوی اختیار کریں اور نیکی ٰ
تقوی اختیار کریں اور ایمان لے آئیں پھر وہ اور ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں پھر وہ
کا کام کریں۔
اس آیت کو دلیل کے طور پر پیش کر تے ہوئے قدامۃ نے کہا میں ان لوگوں میں سے ہوں جو ایمان الئے اور نیک عمل
10
تف ت تف ن
کورس کا ام :اصول سی ر و اری خ سی ر ()4611
خ
سمسٹ ر :زاں2020 ،ء
تقوی اختیار کر کے اچھے کام کیے اور میں رسول ہللاﷺ ٰ ٰ
تقوی اختیار کیا اور ایمان الئے اور کیے پھر انہوں نے
کےساتھ بدر ،احد ،خندق اور دوسرے معرکوں میں شریک رہا ہوں۔ قدامۃ کی یہ دلیل سن کر حضرت عمر رضی ہللا
عنہ نے کہا اس کو کوئی جواب نہیں دیتا؟ تو حضرت عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہ نے کہا یہ آیت شراب کی حرمت
تعالی نے فرمایا ہےکہ
ٰ :نازل ہونے سے پہلے مسلمانوں کے لیے عذر ہے اور باقی لوگوں پر حجت ہے ،کیونکہ ہللا
صابُ َوٱۡلَأزۡلَ ٰـ ُم ِرجۡسٌ ۬ ِّمنۡ َع َم ِل ٱل َّشيۡطَـ ِٰن فَٱ ۡ
جتَنِبُوهُ لَ َعلَّ ُكمۡ تُفۡلِحُونَ ۔سورۃ المائدہ ()۹۰ يَـَٰٓأيُّہَا ٱلَّ ِذينَ َءا َمنُ ٓو ْا ِإنَّ َما ٱۡلخَمۡ ُر َوٱۡل َميۡ ِس ُر َوٱۡلَأن َ
ترجمہ:اے ایمان والوں بیشک اور جوا اور نصب کیے گئے بُت اور فال نکالنے کے تیر یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں
سو تم ان سے
پرہیز کرو تاکہ تم فالح پاؤ۔
حضرت عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہ کی یہ دلیل سن کر حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے کہا تم نے سچ کہا ۔()۸
اس واقعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسباب نزول کا علم انسان کو غلطی سے بچاتا ہے ۔ اگر اس آیت کے سبب
:نزول کا علم کسی کو نہ ہو تو ہر شخص اس آیت کو اپنے لیے دلیل بناتا اور کہتا کہ
ت ُجنَا ٌح۬ فِي َما طَ ِع ُم ٓو ْا وا َو َع ِملُ ْ
وا ٱل َّ
صـٰلِ َحـٰ ِ س َعلَى ٱلَّ ِذينَ َءا َمنُ ْ
لَيۡ َ
کوئی گناہ نہیں ان لوگوں پر جو ایمان لے اور اور نیک عمل کر تے رہے جو کچھ کھاتے ،پیتے رہے ۔ یہ سبب نزول
کا علم ہی ہے جو ہمیں اس طرح کی غلطیوں سے بچاتا ہے ۔()۸
:اسی طرح مروان بن حکم کو اس آیت کے سمجھنے میں ابہام اور اشکال پیدا ہوا
بۖ َولَهُمۡ َع َذابٌ َألِي ٌم۬ـآلعمران ُوا بِ َما لَمۡ يَفۡ َعلُ ْ
وا فَاَل تَحۡ َسبَنَّہُم بِ َمفَا َز ٍة۬ ِّمنَ ٱۡل َع َذا ِ َوا َّوي ُِحبُّونَ َأن يُحۡ َمد ْ
اَل تَحۡ َسبَ َّن ٱلَّ ِذينَ يَفۡ َرحُونَ بِ َمٓا َأت ْ
۳/۱۸۸
یعنی آپ ایسے لوگوں کو ہر گز خیال نہ کریں جو اپنی کارستانیوں پر خوش ہو رہے ہیں اور نہ کردہ اعمال پر بھی اپنی
تعریف کے خواہشمند ہیں آپ انہیں ہر گز عذاب سے نجات پانے واال نہ سمجھیں اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
اس پر مروان بن حکم نے کہا یہ آیت مسلمانوں کے لیے وعید ہے ،جو شخص اپنے عمل پر خوش ہوتا ہے اور وہ چاہتا
ہے کہ جو عمل اس نے نہیں کیا اس پر اس کی تعریف کی جائے ۔
حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہ نے کہا کہ یہ آیت اہل کتاب کے متعلق نازل ہوئی جب رسو ل ہللا ﷺ نے ان سے کسی
چیزکے متعلق پوچھا تھا تو انہوں نے صحیح بات چھپا کر کچھ اور بتایا اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ جو رسول ہللا ﷺ
نے ان سے پوچھا اسی کے بارے میں ہی انہوں نے بتایا ہے اور وہ چاہتے تھے کہ اس پر ان کی تعریف کی جائے()۹۔
جو شخص قرآن مجید کو سمجھنا چاہتا ہے یا قرآن کی تفسیر کرنا چاہتا ہے تو اس شخص کے لیے الزمی ہے کہ وہ
اسباب نزول کا بھی علم حاصل کرے ،اس سے وہ خود کو شبہات سے محفوظ کر لے گا ،اور قرآن کا صحیح فہم و
ادراک حاصل کر پائے گا ۔ ورنہ وہ قرآن سے ہدایت پانے کے بجائے گمراہی کی طرف چال جائے گا ۔
ابو عبید ابراہیم التیمی کا قول ذکر کرتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی ہللا عنہ حسرت کے انداز میں یہ کہ رہے
تھے کہ یہ امت آپس میں کیسے اختالف کر سکتی ہے ،جب کہ اس امت کا رسول بھی ایک ہے اور قبلہ بھی ایک ،اس
پر حضرت عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہ نے کہا :اے امیر المٔومنین بیشک ہماری موجودگی میں قرآن مجید نازل ہوا
11
تف ت تف ن
کورس کا ام :اصول سی ر و اری خ سی ر ()4611
خ
سمسٹ ر :زاں2020 ،ء
ہم نے اس قرآن کو پڑھا ،اور یہ بھی جانا کہ یہ آیت کس کے متعلق نازل ہوئی ہے اور عنقریب ہمارے بعد ایسے لوگ
آئینگے جو قرآن کی تالوت تو کر رہے ہونگے مگر ان کو یہ معلوم نہیں ہوگا یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی
ہے ۔ پھر وہ لوگ اپنے خیاالت اور رائے کا اظہار کرینگے ۔ جس سے ان کا آپس میں اختالف ہو جائےگا جب ان میں
اختالف ہوگا تو آپس میں لڑ پڑینگے اور ایک دوسرے کو قتل کریں گے ۔
اس پر حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے حضرت عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہ کو ڈانٹا اور ابن عباس وہاں سے اٹھ کر
چلے گئے۔ حضرت عمر رضی ہللا عنہ حضرت عبدہللا بن عباس کی بات پر غور فکر کیا تو حقیقت جان گئے تو
حضرت عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہ کی طرف بال وا بھیجا اور ان سے کہا کہ جو بات آپ نے کی وہ دہرائیں تو
انہوں نے حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے سامنے وہ بات دہرائی تو حضرت عمر رضی ہللا عنہ کو اس بات پر تعجب
ہوا ۔ حضرت عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہ کا قول تجربے سے صحیح ثابت ہوا ۔
ابن وھب سے روایت ہے کہ بکیرنے نافع سے پوچھا حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہ فرقۃ حروریۃ کے متعلق کیا
رائے رکھتے تھے؟ نافع نے کہا حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہ حروریۃ والوں کو بد ترین مخلوق سمجھتے
تھے ،جو آیات کفار کے لیے نازل ہوئیں تھیں۔ ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر تے تھے۔ حضرت عبدہللا بن عباس رضی
ہللا عنہ نے اس رائے سے خبردار کیا تھا ۔()۱۰
:الفاظ کا اعتبار عام ہوگا اور سبب خاص
شیخ االسالم ابن تیمیۃ رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں کہ ! اگر چہ لوگوں نے اس امر میں اختالف کیا ہے کہ جو عام الفاظ
کسی خاص سبب کی بنا پر وارد ہوئے ہوں آیا اپنے سبب کے ساتھ مختص ہوں گے؟ کسی شخص نے بھی یہ بات نہیں
کہی کہ کتاب و سنت کے عموم کسی خاص شخص کے ساتھ مخصوص ہوں گے ،زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاتا ہے کہ وہ
الفاظ اس شخص کی نوع کے ساتھ مختص ہوں گے اور اس کے ساتھ ملتےجلتے اشخاص بھی شامل ہونگے۔ ان میں جو
عموم ہوگا وہ الفاظ اس شخص کی نوع کے ساتھ مختص ہوگا۔ جس آیت کا کوئی خاص سبب ہو اگر وہ امر یا نہیں ہو تو
وہ اس شخص کو بھی شامل ہوگی جس کے حق میں اتری اور دوسروں کو بھی جواس جیسے ہوں گے۔()۱۱
ٰ
للیسری( )۷یعنی پس جس نے ٰ
بالحسنی()۶فسنیسرہ واتقی()۵وصدق
ٰ اس کی مثال یہ ہے کہ سورۃ اللیل میں۔ فٔامامن ٰ
اعطی
اپنا مال ہللا کی راہ میں دیا اور پرہیز گاری اختیار کی اور اس نے اچھائی کی تصدیق کی ،تو عنقریب اس کی آسانی کے
لیے سہولت فراہم کردیں گے ۔ ()۱۲
یہ آیات سبب نزول کے اعتبار سے حضرت ابو بکر صدیق رضی ہللا عنہ کے لیے نازل ہوئی ہیں مگر ان آیات کا اعتبار
عام ہے ہر اس شخص کے لیے جس کے اندر یہ مذکورہ صفات پائی جائیں گی ،اور اسی طرح وہ آیات جو کسی منافق
کے لیے نازل ہوئی ہیں ان کا سبب تو خاص ہے مگر کسی شخص میں وہی صفات ہیں تو وہ شخص بھی ان آیات کے
حکم میں شامل ہوگا۔
:امام زرکشی کی سبب نزول کے متعلق رائے
قال الزرکشی فی البرھان :قد عرف من عادۃ الصحابۃ والتابعین ان احدھم اذاقال :نزلت ھذۃ االیۃ فی کذا فانہ یرید بذالک
انھا تتضمن ھذا الحکم ال ان ھذا کان السبب فی نزولھا فھو من جنس االستدالل علی الحکم باال یۃ ال من جنس النقل لما وقع ۔
12
تف ت تف ن
کورس کا ام :اصول سی ر و اری خ سی ر ()4611
خ
سمسٹ ر :زاں2020 ،ء
زرکشی نے برہان میں لکھا کے کہ صحابہ و تا بعین رضی ہللا عنہم کی یہ عام عادت تھی کہ جب وہ کہتے ہیں کہ فالں"
آیت فالں بارے میں نازل ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہوا کرتا ہے کہ وہ آیت اس حکم پر مشتمل ہے ۔ یہ مطلب نہیں ہوتا کہ
بعینہ وہ بات اس آیت کے نزول کا سبب ہے۔ یہ گویا اس حکم پر اس آیت سے ایک قسم کا استدالل ہوتا ہے ۔ اس سے
مقصود نقل واقعہ نہیں ہوتا۔ (")۱۳۔
:موالنا حمید الدین فراہی رحمۃ ہللا علیہ کی رائے
شان نزول کا مطلب ،جیسا کہ بعض لوگوں نے غلطی سے سمجھا ہے ،یہ نہیں ہے کہ وہ کسی آیت یا سورہ کے نزول
کا سبب ہوتا ہے ،بلکہ اس سے مراد لوگوں کی وہ حالت و کیفیت ہوتی ہے جس پر وہ کالم بر سر موقع حاوی ہوتا ہے ۔
کوئی سورہ ایسی نہیں ہے جس میں کسی خاص امر یا چند خاص امور کو مد نظر رکھے بغیر کالم کیا گیا ہو ،اور وہ
امر یا امور جن کو کسی سورہ میں مد نظر رکھا جاتا ہے ،اس سورہ کے مر کزی مضمون کے تحت ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر
تم کو شان نزول معلوم کرنی ہو تو اس کو خود سورۃ سے معلوم کرو کیونکہ کالم کا اپنے موقع و محل کے مناسب ہونا
ضروری ہے ۔ جس طرح ایک ماہر طبیب دوا کے نسخہ سے اس شخص کی بیماری معلوم کر سکتا ہے جس کے لیے
نسخہ لکھا گیا ہے اسی طرح تم ہر سورہ سے اس سورہ کے شان نزول معلوم کر سکتے ہو۔ اگر کالم میں کوئی خاص
موضوع پیش نظر ہے تو اس کالم اور اس موضوع میں وہی مناسبت ہو گی جو مناسبت لباس اور جسم میں بلکہ جلد اور
بدن میں ہوتی ہے ۔ اور یہ قطعی ہے کہ کالم کے تمام اجزاء باہم د گر مربوط و متصل ہوں گے۔ اور یہ جو روایتوں میں
آتا ہے کہ فالں فالں آیتیں فالں فالں معامالت کے بارے میں نازل ہوئیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ سورہ کے
نزول کے وقت یہ احوال و مسائل درپیش تھے تاکہ معلوم ہو سکے کہ سورہ کے نزول کے لیے کیا محرکات اور اسباب
موجود تھے۔()۱۴
:شاہ ولی ہللا رحمۃ ہللا علیہ کی رائے
حضرات صحابہ و تابعین کے کالم پر غور و فکر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ فرمانا کہ یہ آیت فالں بارے میں
نازل ہوئی کسی ایسے واقعہ کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہوتا جو عہد نبوی میں واقع ہو کر نزول وحی کا سبب بنا بلکہ
ان کا معمول یہ ہے کہ وہ ایسے واقعات کا جو آیت کے مطالب سے مطابقت رکھتے ہوں ،قطع نظر اس سے کہ وہ عہد
نبوی میں وقوع پذیر ہوئی ہوں یا اس کے بعد ،ذکر کر کے کہہ دیتے ہیں کہ یہ فالں بارے میں نازل ہوئی ،ایسی شکلوں
میں اس آیت کا بعینہ منطبق ہونا چنداں ضروری نہیں ہے ،صرف اصل حکم میں انطباق کافی ہے اور بسا اوقات ایسا
بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں کوئی سوال پیش کیا ،یا آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں
کوئی واقعہ رونما ہوا اور آپ نے اس کا حکم کسی آیت سے مستنبط فرمایا اور اس کو اس موقع پر تالوت فرمایا تو
ایسی صورتوں میں وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ آیت اس بارے میں اتری ۔ ایسی ہی شکلوں میں کبھی وہ یہ بھی کہہ دیتے
تعالی نے یہ حکم نازل فرمایا یا یہ وحی اتری ۔ اس سے ان کا اشارہ اس بات کی طرف ہوتا ہے کہ نبی
ٰ ہیں کہ اس پر ہللا
ﷺ اس آیت سے استنباط فرمایا اور اس وقت چونکہ آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اس آیت کا القاء بھی وحی اور الہام
خداوندی کی نوعیت کا ہوتا ہے اس لیے ایسے مواقع پر فانزلت ،کا استعمال درست ہے اور اگر کوئی شخص اس کو
تکرار نزول سے تعبیر کرنا چاہے تو بھی ٹھیک ہے ۔ محدثین حضرات قرآن کی آیات کے تحت بہت سی باتیں بیان کر
13
تف ت تف ن
کورس کا ام :اصول سی ر و اری خ سی ر ()4611
خ
سمسٹ ر :زاں2020 ،ء
جاتے ہیں جو اصال اسباب نزول میں داخل نہیں ہوتیں ۔ اس کی مثالیں ہیں :صحابہ کرام کا اپنے باہمی مذاکروں میں
کسی آیت سےاستنباط و استدالل نبی ﷺ کا کسی آیت کو اپنے استنباط کے لیے تالوت فرمانا ،کسی ایسی حدیث کا بیان
جس کو آیت کے ساتھ اس کے مقصود یا موقع نزول یا بعض اسماء کے ابہام کی توضیح یا کسی قرآنی کلمہ کے صحیح
تلفظ کی ادائگی کےلیے مفید خیال کیا گیا ہو ،سورتوں اور آیات کے فضائل کا بیان اور قرآن کے احکام کی بجا آوری
میں پیغمبر ﷺ کے عمل کی صحیح تصویر حقیقت میں یہ سب چیزیں اسباب نزول میں شامل نہیں ہیں اور ایک مفسر
کے لیے ان کا احاطہ ضروری نہیں ہے۔ ()۱۵
:موالنا امین احسن اصالحی کی رائے
تعالی قولہ یا فنزلت وانزلت ،وغیرہ کی اصطالحات صحابہ و تابعین رضی ہللا عنہم کے
ٰ نزلت فی کذا اور فانزل ہللا
نزدیک کیا مفہوم رکھتی تھیں اور شان نزول سے متعلق جو روایات تفسیر کی کتابوں میں مذکور ہیں ان کی نوعیت کیا
ہے ۔ ان کی حیثیت استنباط و استدالل اور تطبیق کی ہے یا نقص و بیان کی ؟ سارا اشکال یہیں سے پیدا ہوا تھا کہ لوگوں
نے سمجھا کہ سلف جس آیت کی نسبت کہتے ہیں کہ "نزلت فی کذا" تو اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ بعینہ وہی
واقعہ اس آیت کے نزول کا سبب ہے ،لیکن اوپر عالمہ زرکشی ؒ اور حضرت شاہ ولی ہللا دہلوی ؒ کے جو اقوال نقل
تعالی قولہ" وغیرہ اصطالحات کا وہ منشا نہیں ہے جو
ٰ ہوئے ہیں ان سے صاف ہو گیا کہ " نزلت فی کذا یا فانزل ہللا
لوگ سمجھتے ہیں ،بلکہ یہ استنباط و استدالل کے قسم کی ایک چیز ہے۔ یعنی اس کا منشا یہ ہوتا ہے کہ اس آیت سے
فالں بات نکلتی ہے ۔()۱۶
سبب نزول کے متعلق امام زرکشی رحمۃ ہللا علیہ ،موالنا حمید الدین فراہی رحمۃ ہللا علیہ ،شاہ ولی ہللا رحمۃ ہللا علیہ
کی رائے ایک ہی نظر آتی ہے ،صرف الفاظ کا فرق ہے ،وہ فرق یہ ہے کہ ان حضرات کے نزدیک سبب نزول یہ ہے
کہ اس آیت میں اس بات کا حکم ہے اور وہ حالت و کیفیت ہوتی ہے جس پر وہ کالم بر سر موقع حاوی ہوتا ہے ،اور
دوسری رائے یہ ہے کہ یہ واقعہ یا سوال اس آیت کے نزول کا سبب بنا ان دونوں رائے میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے
صرف الفاظ کے استعمال کا فرق ہے ۔ میں اس رائے کا قائل ہوں کہ اس آیت کا سبب نزول یہ ہے یا یہ حادثہ اور سوال
اس آیت کے نزول کا سبب بنا یعنی واقعہ اور سوال وقوع پذیر ہونے کے بعد آیت نازل ہوتی ہے ۔
:سبب نزول میں صحابی کے قول کی اہمیت
امام ابن تیمیۃ رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں کہ :علماء محدثین کا اختالف ہے کہ جب صحابی کہے کہ آیت فالں بارے میں
نازل ہوئی ہے تو اس کا یہ قول حدیث مسند قرار دیا جائے یا محض صحابی کی تفسیر جو حدیث مسند نہیں سمجھی
جاتی ؟ امام بخاری رحمۃ ہللا علیہ نے ایسے قول کو حدیث مسند مانا ہے مگر دوسرے محدثین ایسا نہیں کرتے اکثر کتب
مسانید مثال مسند احمد وغیرہ اسی اصطالح کے مطابق ہیں ،لیکن جب صحابی سبب بیان کر کے کہتا ہے کہ آیت اس
وجہ سے نازل ہوئی ہے تو ایسے قول کو تمام محدث حدیث مسند ہی مانتے ہیں۔ ()۱۷
سیوطی رحمۃ ہللا علیہ امام حاکم رحمۃ ہللا علیہ کا قول ذکر کرتے ہیںٕ :اذا ٔاخبر الصحابی الذی شھد الوحی والتنزیل عن
آیۃ من القرآن ٔ ،انھا نزلت فی کذا فانہ حدیث مسند ۔ یعنی جس صحابی نے نزول قرآن کا زمانہ یا اور کسی آیت کے متعلق
کہا کہ یہ آیت فالں کے لیے نازل ہوئی ہے تو صحابی کے اس قول کو حدیث مسند مانا جائے گا۔ ()۱۸
14
تف ت تف ن
کورس کا ام :اصول سی ر و اری خ سی ر ()4611
خ
سمسٹ ر :زاں2020 ،ء
سلف صالحین صحیح روایت اور بغیر علم کے قرآن کی تفسیر اور سبب نزول کے متعلق کچھ کہنے سے ڈرتے اور
بچتے تھے کیونکہ ان کو آپ ﷺ کا یہ فرمان ہر وقت ذہن نشین رہتا تھا کہ من کذب علی متعمدا فلیتبؤا مقعدہ من النار(
)۱۹یعنی جس شخص نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بوال اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانا جھنم میں بنا لے ۔
ق ن
یک ئ
ے۔ ان ب کو لی سوال م ر4۔محکم ،مت ش ا ہ ،ک ن ا ہ،ت عری ض اور از ع
ی ج مج ب ی ب
ت محکمات اور متشابہات پر مشتمل ہے۔ محکم سے مراد وہ کالم ہے جس کی داللت واضح اور ص ریح ہ و قرآن کریم آیا ِ
اساس قرآن کو تشکیل دی تے
ِ اور اس کے ظاہر سے متکلم کی مراد و مقصود کا علم حاصل ہو جاتا ہے۔ محکمات اصل و
ہیں۔ اس کے مق ابلے میں متش ابہ آت ا ہے ،متش ابہ وہ کالم ہے ج و مختل ف مع انی ک ا حام ل ہوت ا ہے اور اس س ے م را ِد
ت نظر کی جائے اور اس کو محکمات کی ط رف
متکلم واضح و روشن نہیں ہوتی ،مگر یہ کہ متشابہ کالم پر تحقیق و دق ِ
پلٹایا جائے۔
ب الہی کو محکمات و متشابہات میں تقسیم کیا گیا ہے ،سورہ آل عمران میں ارشاد قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ کتا ِ
ب َوُأخَ ُر ُمتَ َشابِهَ ٌ
ات فََأ َّما الَّ ِذینَ فِی قُلُوبِ ِه ْم َز ْی ٌغ ات ه َُّن ُأ ُّم ْال ِکتَا ِ ک ْال ِکت َ
َاب ِم ْنهُ آیَ ٌ
ات ُمحْ َک َم ٌ باری تعالی ہوتا ہے:هُ َو الَّ ِذی َأ ْنزَ َل َعلَ ْی َ
فَیَتَّبِعُونَ َما تَ َشابَهَ ِم ْنهُ ا ْبتِغَا َء ْالفِ ْتنَ ِة َوا ْبتِغَا َء تَْأ ِویلِ ِه َو َما یَ ْعلَ ُم تَْأ ِویلَهُ ِإال هَّللا ُ َوالرَّا ِس ُخونَ فِی ْال ِع ْل ِم یَقُولُونَ آ َمنَّا بِ ِه ُکلٌّ ِم ْن ِع ْن ِد َربِّنَا
ب؛ وہ وہ ذات ہے جس نے آپ پر کتاب کو نازل کیا ،جس میں سے بعض آیات محکمات ہیں األلبَا َِو َما یَ َّذ َّک ُر ِإال ُأولُو ْ
جوکہ ام الکتاب ہیں اور دیگر متشابہات ہیں ،وہ لوگ جن کے دلوں میں کج روی و ٹیڑھا پن ہے وہ اس میں سے متشابہ
کی اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ کو برپا کریں اور اس کی تأویل کرنے کی کوشش کریں ،اور اس کی تاویل فقط ہللا اور
راسخون فی العلم جانتے ہیں جو کہتے ہیں :ہم اس پر ایمان الئے ،ان میں سے ہر ایک ہمارے رب کی طرف سے ہے
اور تذکر تو صرف عقل والے کرتے ہیں۔
ب الہی محکمات اور متشابہات سے تشکیل پائی ہے
اس آیت کریمہ میں ہللا تعالی نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ کتا ِ
ت متشابہات ہیں۔ وہ لوگ جن کے دل ٹیڑھے اور قلب کج روی کا شکار ہیں وہ
ت محکمات کے کنارے پر ہی آیا ِ
اور آیا ِ
فتنوں کو برپا کرنے کے لیے متشابہات کا سہارا لیتے ہیں اور ان کی من گھڑت تاویلیں کرتے ہیں تاکہ ان آیات سے
سوء استفادہ کریں۔ حقیقت میں متشابہات کی حقیقی تأویل ہللا تعالی اور علم میں راسخ ہستیاں جانتی ہیں۔ نیز اس آیت سے
یہ بھی معلوم ہوا کہ محکمات اور متشابہات ہر دو کا منبع اور سرچشمہ ایک ہے جہاں سے یہ پھوٹی ہیں اور ان کو اس
طرح سے قرار دینے میں ہللا تعالی کی حکمت ہے۔ البتہ اس واقعیت اور حقیقت سے اہل عقل و خرد تذکر حاصل کریں
ت متشابہات
گے اور جو اہل عقل نہیں ہیں وہ اس سے تذکر حاصل نہیں کر سکتے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر آیا ِ
کیوں قرار دی گئی ہیں اور کون کون سی آیات یہ خصوصیت رکھتی ہیں؟ ان سواالت کا جواب حاصل کرنے کے لیے
ہمیں درج ذیل مطالب پر غور کرنا ہو گا۔
سب سے پہلے ہمیں اِحکام اور تشابہ کے معنی کی تحقیق کرنا ہو گی تاکہ جان سکیں کہ محکم اور متشابہ کے معنی کیا
:ہیں
اِحکام قرآنی آیات کے ذیل میں←
15
تف ت تف ن
کورس کا ام :اصول سی ر و اری خ سی ر ()4611
خ
سمسٹ ر :زاں2020 ،ء
:قرآن کریم میں احکام تین معانی میں استعمال ہوا ہے
پہال معنی←←
کردار یا گفتار کا صحیح اور درست ہونا جس میں کسی قسم کا خلل اور شبہ نہ پایا جائے۔ اس کے مقابلے میں متشابہ کا
معنی بد کردار ہونا اور شکوک و شبہات میں گرفتار ہونا ہے۔
دوسرا معنی←←
ثابت اور پائیدار ہونا ،شریعت میں ایسے اَحکام ہیں جو پائیدار اور ثابت شدہ ہوں ،انہیں محکم کہا جاتا ہے۔ اس کے
مقابلے میں ناپائیدار اور متزلزل احکام آتے ہیں۔ ناسخ اور منسوخ کے باب میں اِحکام کی اصطالح استعمال کی جاتی
ت محکم کہا جاتا ہے۔
ہے اور غیر منسوخ آیات کو آیا ِ
][۲
اسی طرح قول یا عمل میں استحکام و دقت کا مظاہرہ کرنے کو محکم یا مستحکم کہتے ہیں۔ سورہ ہود میں ہللا تعالی کا
کمال دقت کے ساتھ محکم ِ یر؛ (یہ قرآن وہ) کتاب جس کی آیات فرمان ہےِ :کتَابٌ ُأحْ ِک َم ْ
ت آیَاتُهُ ثُ َّم فُصِّ لَ ْ
ت ِم ْن لَد ُْن َح ِک ٍیم َخبِ ٍ
و مستحکم قرار دی گئی ہیں ،پھر حکیم خبیر ذات کی طرف سے مفصال بیان کی گئی ہیں۔
][۳
تیسرا معنی←←
ت متشابہ کے
اِحکام یعنی قرآن کریم کی تمام آیات کا احاطہ کرنا اور اس کو شامل ہونا۔ پس پہلے معنی کے مطابق آیا ِ
ت غیر منسوخ کو محکم کہا جاتا ہے۔ جبکہ تیسرے
مقابلے میں محکم استعمال ہوتا ہے ،دوسرے معنی کے مطابق آیا ِ
ت کریمہ کا احاطہ کرنا محکم کہالتا ہے۔
معنی کے مطابق آیا ِ
محکم کے لغوی معانی←
متشابہ کے مقابلے میں محکم آتا ہے جس کا معنی مستحکم و استوار اور خلل نا پذیر کے ہیں۔ یہَ ح َک َم حُکۡ ًماسے مشتق
ہے اور اس کے لغوی معنی منع کرنے ،باز رکھنے اور خلل و رکاوٹ کے ایجاد کرنے سے روکنے کے ہیں۔ اسی لیے
گھوڑے کے منہ پر لگام کو عربی لغت میںَ ح َک َمۃُ ۡالفَ َرسکہتے ہیں کیونکہ اس کی لگام اس کو سرکشی اور غیر
ضروری حرکات سکنات سے روکے رکھتی ہے۔ حاکم کو اسی لیے حاکم کہتے ہیں کیونکہ وہ ظالم کو اس کے ظلم
سے روکتا ہے اور قاضی کی قضاوت کو بھی اسی لیے حکم کہتے ہیں کیونکہ وہ ناانصافی اور ظلم کی راہ کو روک
دیتا ہے اور ظلم و زیادتی سے منع کیے رکھتا ہے۔ نیز حکمت کو اس لیے حکمت کہتے ہیں کیونکہ یہ دانائی کی باتیں
انسان کو احمق پن ،نادانی ،جہالت اور غیر صحیح اقدامات سے منع کرنے کا باعث بنتی ہیں۔
][۴
][۵
16
تف ت تف ن
کورس کا ام :اصول سی ر و اری خ سی ر ()4611
خ
سمسٹ ر :زاں2020 ،ء
][۶
البتہ یہ منع کرنا اور روکنا اصالح کی خاطر ہو نہ کہ فساد برپا کرنے کی جہت سے۔ چنانچہ ہر وہ قول یا عمل یا گفتگو
جس کے ذریعے سے شبہات کو روکا جاتا ہے اور کج روی و ٹیڑھے پن کو درست کیا جاتا ہے اس ذریعے کو محکم
یعنی مستحکم و استوار کہتے ہیں۔
تشابہ قرآنی آیات کے ذیل میں←
:قرآن کریم میں تشابہ بنیادی طور پر دو معنی میں آیا ہے
پہال معنی←←
متشابہ یعنی یکساں اور ایک جیسا ہونا۔
][۷
سورہ زمر میں تشابہ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جیساکہ ارشا ِد باری تعالی ہوتا ہے :هَّللا ُ نَ َّز َل َأحْ َسنَ ْال َح ِدی ِ
ث ِکتَابًا
ُمتَ َشابِهًا َمثَانِ َی تَ ْق َش ِعرُّ ِم ْنهُ ُجلُو ُد الَّ ِذینَ یَ ْخ َشوْ نَ َربَّهُ ْم؛ ہللا نے بہترین کالم ایسی کتاب کی صورت میں نازل کیا ہے جس کی
بعض آیات دیگر بعض جیسی ہیں (جو تکراراً تالوت کی جاتی ہیں) ،اس سے ان لوگوں کا وجود لرز اٹھتا ہے جو
اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔
][۸
یہ آیت بہترین دلیل ہے کہ قرآن کریم کسی بشر کا کالم نہیں ہے بلکہ ہللا تعالی کی جانب سے نازل کیا گیا کیونکہ اگر یہ
بلندی معنی
ِ بندوں میں سے کسی بندے کا کالم ہوتا یا ہللا تعالی اور بشر ہر دو کا مخلوط کالم ہوتا تو آیات اپنے استحکام،
اور اثر و تاثیر کے اعتبار سے یکساں نہ ہوتیں کیونکہ بندوں کا کالم بندوں سے مشابہ ہوتا ہے اور ایک کالم دوسرے
کالم کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ چنانچہ ہللا سبحانہ کے کالم میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور اس میں کسی قسم کا اختالف کا نہ
ہونا بہترین دلیل ہے کہ یہ بندوں کی جانب سے نہیں ہے ،قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہےَ :ولَوْ َکانَ ِم ْن ِع ْن ِد َغی ِْر هَّللا ِ لَ َو َجدُوا
اختِالفًا َکثِیرًا؛ اگر یہ ہللا کے عالوہ کسی اور کی جانب سے ہوتا تو وہ اس میں کثرت سے اختالف پاتے۔
فِی ِه ْ
][۹
پس اختالف کا نہ پایا جانا دلیل ہے کہ یہ ہللا تعالی کے غیر کی جانب سے نہیں ہے۔
دوسرا معنی←←
اصل مقصود
ِ شبہ انگیز ہونا ،ایسی گفتگو یا ایسا کردار جو شبہ انگیز یا شبہات و احتماالت کا حامل ہو جس کی وجہ سے
پنہاں اور پوشیدہ ہو کر رہ جائے ،اس کو متشابہ سے تعبیر کیا جاتا ہے ،جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہےِ:إ َّن ْالبَقَ َر
تَ َشابَهَ َعلَ ْینَا؛ گائے ہمارے لیے مشتبہ ہو گئی ہے۔
][۱۰
اس آیت کریمہ میں تشابہ بمعنی اصل مقصود کا روشن اور واضح نہ ہونا ہے۔ سورہ آل عمران آیت ۷میں متشابہات
اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ بعض آیات ایسی ہیں جن میں مختلف جہات اور مختلف معانی کا احتمال موجود ہے۔
مختلف معانی اور وجوہ کا ہونا شبہ کے ایجاد ہونے کا باعث بنتا ہے اور ٹیڑھے دل اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود
17
تف ت تف ن
کورس کا ام :اصول سی ر و اری خ سی ر ()4611
خ
سمسٹ ر :زاں2020 ،ء
ساختہ تأویلیں کر کے فتنوں کو جنم دیتے ہیں۔ سادہ لوح عوام الناس ان شبہات اور فتنوں کا شکار ہو جاتی ہے اور
حقیقت تک رسائی سے قاصر رہتی ہے۔ پس ایک لفظ کے متعدد معانی کا ہونا انہیں شبہ میں ڈال دیتا ہے۔ یہاں یہی
دوسرا معنی ہمارے مور ِد بحث ہے۔
تشابہ کے لغوی معنی←
اسم مصدر ہے جس کا معنی مثل اور مانند کے ہیں۔ اگر ہم شبہ کو مصدر قرار دیں تو
تشابہ لف ِظ شبہ سے مشتق ہے۔ شبہِ
اس کا معنی مثل ہونا اور مانند ہونا قرار پائے گا۔ مثل اور مانند ہونے کی وجہ سے شبہ ایجاد ہو جاتا ہے کیونکہ جب
حقیقت پنہاں ہو جائے اور حق و باطل میں باہمی آمیزش ہو جائے تو حق کا باطل کا ساتھ اشتباہ ہونے لگتا ہے جس کی
وجہ سے حق بات باطل کی صورت میں آشکار ہوتی ہے اور یہی مورد عوام الناس کو اشتباہ اور شش و پنج میں مبتال
کر دیتا ہے۔
اصطالحی معنی←
معنی ظاہری
ِ ئ ظَا ِه ُرهُ عَنۡ ُم َرا ِد ِه؛ وہ کالم جس کا
فقہاء نے متشابہ کی اصطالحی تعریف اس طرح سے کی ہےَ :ما اَل يُنۡبِ ُ
معنی مراد کی خبر نہ دے۔
ِ اس کے
][۱۱
متشابہ میں لفظ یا عمل سبب بنتا ہے کہ حقیقت و واقعیت آشکار نہیں ہوتی۔ اس تعریف کے مطابق کالم کا ظاہری معنی
معنی مقصود و مراد الگ الگ ہوتا ہے جس کی وجہ سے حقیقی مراد تک رسائی نہیں ہو پاتی۔ البتہ راغب
ِ متکلم کا
ِ اور
اصفہانی نے فقہاء کی طرف جس تعریف کو منسوب کیا ہے وہ تعریف خود بھی قابل اعتراض ہے کیونکہ یہ تعریف
کالم مجمل کو بھی شامل ہے جوکہ صحیح نہیں۔ کیونکہ مبہمات میں تفسیر کی ضرورت پیش آتی ہے جبکہ
مبہمات وِ
متشابہات میں تأویل کی۔ چنانچہ متشابہ کو ابہام و اجمال سے جدا کرنا چاہیے۔ راغب اصفہانی اس سے بہتر تعریف
کرتے ہوئے بیان کرتے ہیںَ :والۡ ُمتَ َشابَه ِمنَ ۡالقُرۡآ ِن َما أشکل تفسیرُهُ لِ ُم َشابَهَتِ ِه بِغَیۡ ِره؛ قرآن میں متشابہ کے ہونے سے
مقصود وہ مورد ہے جس کی شباہت اس کے غیر سے ہونے کی وجہ سے اس کی تفسیر میں مشکل پیش آتی ہے۔
][۱۲
وہ معنی اپنے غیر سے شباہت رکھتا ہے ایک ایسے معنی کے ظاہر ہونے کا سبب بنا ہوتا ہے جو متکلم کا مقصود نہیں
ہے۔ لہذا قرآن کریم میں ایک لفظ کا اپنے غیر سے مشابہ ہونے کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ قرآن
فرمان الہی ہے :فَ َما َذا بَ ْع َد ْال َح ِّ
ق ِإال الضَّال ُل؛ حق کے بعد فقط اور فقط ِ کریم کا غیر فقط ضاللت اور گمراہی ہے جیساکہ
گمراہی ہے۔
][۱۳
پس جہاں ہللا تعالی کا کالم ہے اور قرآن کریم کی صورت میں وہ نمایاں ہوتا ہے وہاں حق کے مقابلے میں فقط باطل رہ
جاتا ہے۔ اگر حق اپنے غیر سے مشابہ ہو تو اس کا معنی یہ نکلے گا کہ اس مورد میں حق کی شباہت باطل سے ہے
کیونکہ حق کا غیر ہمیشہ باطل ہوتا ہے۔
=====تفسیر اور تأویل میں عام خاص مطلق کی نسبت=====
18
تف ت تف ن
کورس کا ام :اصول سی ر و اری خ سی ر ()4611
خ
سمسٹ ر :زاں2020 ،ء
ت متشابہات میں تشابہ سے مراد حق و باطل کا مشابہ ہونا ہے ،اس طرح سے کہ ہللا تعالی نے
اس تعریف کے مطابق آیا ِ
حق بات بیان کی ہے جو باطل سے شباہت رکھتی ہے جس کے نتیجے میں حق بات باطل بات کی صورت میں سامنے آ
رہی ہے۔ اس اعتبار سے یہ شباہت لفظ یا عمل کے مبہم ہونے کا باعث بنتی ہے جس سے لفظ کے چہرے پر ابہام کا
پردہ ڈل جاتا ہے جوکہ شبہ کا باعث بنتا ہے۔ اگر یہ تشریح قبول کر لی جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ متشابہات
بھی تفسیر کی احتیاج رکھتی ہیں اور ان کے چہرے سے ابہام کا پردہ ہٹانے کی ضرورت ہے۔ پس متشابہات کو تفسیر
کی بھی ضرورت ہے اور تأویل کی بھی۔ تفسیر کے ذریعے پرد ِہ ابہام دور ہوتا ہے اور تأویل کے ذریعے سے شبہ رفع
ت خود تأویل ایک قسم کی تفسیر ہے جو ابہام کو دور کرتی ہے اور شبہ کو رفع کرتی ہے۔
بالفاظ دیگر بذا ِ
ِ ہوتا ہے۔
چنانچہ تأویل کی تفسیر کی طرف نسبت عام خاص مطلق کی ہو گی۔ ہر وہ جگہ جہاں تأویل موجود ہے تفسیر بھی ہے
لیکن تفسیر اعم ہے جو مبہات کے مورد میں ہوتی ہے اور ابہام محکم اور متشابہ ہر دو میں قابل تصور ہے۔ چنانچہ
تفسیر کا دائرہ عمومی ہے جو متشابہات کے ساتھ ساتھ محکمات کو بھی شامل ہے۔ اس کے برعکس تأویل فقط متشابہ
کے مورد تکے ساتھ خاص ہے۔
یک ئ ف ن یک ئ ت غ ف ت ن
ے۔ ی ج ان ب رق ں یم وں دو اور ےج فیعر الحیط صا و وی ل کی ل یاو رو ی س ۔5 ر سوال ب
م
تفسیر یہ لفظ'' فسر یفسر تفسیرا'' باب تفعیل کا مصدر ہے جس کے لغوی معنی واضح کرنے اور کھول دینے کے ہیں
'جیسے ہللا تعالی فرماتا ہے :
ق َوَأحْ َسنَ تَ ْف ِسي ًرا ﴿(﴾٣٣الفرقان)
ك بِ ْال َح ِّ َواَل يَْأتُونَ َ
ك بِ َمثَ ٍل ِإاَّل ِجْئنَا َ
'' یہ کافر ٓاپ کے پاس جو کوئی مثال الئیں گے ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ تفصیل ٓاپ کوبتادیں گے ۔''
ا س ٓایت میں لفظ تفسیرا بمعنی تفصیال ہے حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہ نے بھی یہی معنی لیا ہے۔
تفسیر کی مفسرین نے مختلف تعریفیں کی ہیں جن میں سے زیادہ مشہور یہ ہے :
ھو علم یبحث فیہ عن احوال القرا ن المجید من حیث وال لتیہ علی مراد ہللا تعالی بقدر الطاقتۃ البشریتۃ
( التفسیر ولمفسرون 15/1 :وقواعد التفیسر)29/1 :
'' تفسیر ایسا علم ہے جس میں انسانی طاقت کے مطابق قرٓان مجید کے احوال کے بارے میں اس طرح بحث کی جائے
کہ اس سے ہللا کی مراد حاصل ہو جائے ''
تاویل:
یہ لفظ'' اول یوول تاویال'' باب تفعیل کا مصدر ہے جس کے لغوی معنی رجوع کرنے کے ہیں ۔
اصطالحی تعریف:
تاویل کی تعریف میں متقدمیں ومتاخرین کا اختالف ہے ۔
متقدمین کی تعریف :
متقدمین سے دو تعریفیں منقول ہیں :
'' -1تاویل اور تفسیر دونوں مترادف ہیں ۔ ''
یعنی جو تعریف تفسیر کی ہے وہی تاویل کی ہے ۔ ان مفسرین نے اس ٓایت سے استدالل کیا ہے:
19
تف ت تف ن
کورس کا ام :اصول سی ر و اری خ سی ر ()4611
خ
سمسٹ ر :زاں2020 ،ء
َو َما يَ ْعلَ ُم تَْأ ِويلَهُ ِإاَّل اللَّـهُ۔۔۔۔۔۔۔﴿ٓ(﴾٧ال عمران )
'' حاالنکہ ان (محکمات اور متشابہات) کا مفہوم ہللا کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا ''۔
2۔ '' کسی کالم سے جو مفہوم اخذ کیاگیا ہوا سے تاویل کہتے ہیں ''
متاخرین کی تعریف :
((ھو صرف اللفظ عن المعنی الراجح الی المعنی المرجوح لدلیل یقترن بہ )) ( التفسیر والمفسرون)۱۸/۱ :
'' کسی دلیل کے پیش نظر لفظ کےراجح معنی کو ترک کر کے مرجوح معنی مرادلے لینا تاویل کہالتا ہے ۔''
نوٹ :اصول فقہ اور اختال فی مسائل میں تاویل کا معنی متاخرین واال مراد لیا جاتا ہے۔ اس میں تاویل کرنے واال
دوچیزوں کا پابند ہوتا ہے :
1۔جو معنی وہ مرادلے رہا ہو لفظ اس کااحتمال بھی رکھتا ہو ۔
2۔ وہ دلیل یا قرینہ بیان کر ےجس کی وجہ سے اس نے راجح معنی چھوڑ کر مرجوح معنی مراد لیا ہے' ورنہ وہ تاویل
فاسد ہو گی بلکہ ' تحریف کے زمرہ میں ٓا ئے گی ۔
تفسیر اور تاویل میں فرق :
متقد مین تودونوں کو ایک ہی معنی میں استعمال کرتے ہیں لیکن متاخرین نے ان دونوں میں کئی انداز سے فرق بیان کیا
ہے ' مثال:
امام راغب اصفہانی رحمہ ہللا فرماتے ہیں :
(الف) تفسیر عام ہے اورتاویل خاص ہے یعنی تفسیر کالفظ عموما الفاظ کے لیے اور تاویل کا لفظ معانی کے لیے
استعمال ہوتاہے۔
(ب) تفسیر کا عام طور استعمال ''مفردات'' میں ہوتا ہے اور تاویل کا اطالق '' جملوں '' پر ہوتاہے ۔
امام ماتریدی رحمہ ہللا فرماتے ہیں :
جس میں یقینی طور پر ہللا تعالی کی مراد معلوم ہواسے تفسیر کہتے ہیں اور جس میں مختلف احتماالت رکھنے والے
معانی میں سے کسی ایک کو ترجیح دی جائے لیکن یقینی فیصلہ نہ کیا جائے تو اسے تاویل کہتے ہیں۔
امام ابو طالب ثعلبی رحمہ ہللا فرماتے ہیں ۔:
جس معنی کے لیے لفظ وضع کیا گیا ہو خواہ وہ حقیقی ہو یا مجازی ' اسے بیان کرنا'' تفسیر'' کہالتا ہے اور کسی لفظ
کے باطنی اور مخفی معنی کے واضح کرنے کو تاویل کہتے ہیں۔
امام بغوی اور الکواشی رحمہ ہللا فرماتے ہیں :
ٓایت سے ایسا معنی مراد لینا جس کی اس میں گنجائش ہوا ور وہ ٓایت کے سیاق وسباق کے مطابق ہو ' نیز قرٓان وسنت
کے خالف نہ ہو ' اسے ''تاویل '' کہتے ہیں۔اور کسی ٓایت کے سبب نزول اور واقعہ کے متعلقہ ذکر وبیان کو '' تفسیر''
کہتے ہیں ۔
بعض کے نزدیک تفسیر کا تعلق روایت سے ہے اور تاویل کا تعلق درایت سے ہے۔
20
تف ت تف ن
کورس کا ام :اصول سی ر و اری خ سی ر ()4611
خ
سمسٹ ر :زاں2020 ،ء
بعض کے نزدیک جو مفہوم تر تیب عبارت سے حاصل ہو وہ تفسیر کہالئے گا اور جو مفہوم ترتیب عبارت سے اشارتا
حاصل ہو وہ تاویل کہالئے گا۔
نوٹ:
مذکورہ اقوال میں ٓاخری قول زیادہ راجح ہے کیونکہ تفسیر کی تعریف یہ کی جاتی ہے :
'' ٓایت کی اس طرح وضاحت کرنا کہ اس سے مراد ربانی کا اظہار قطعیت اور وثوق سے ہو جائے '' ۔
اور یہ صرف اسی وقت ممکن ہو گا جب خود رسول صلی ہللا علیہ وسلم یا صحابہ اکرام رضی ہللا عنہم سے روایتا
منقول ہو جب کہ تاویل میں یہ بات ملحوظ نہیں ہوتی بلکہ اس میں ایک لفظ میں جس قدر بھی معانی کی گنجائش ہو ان
میں سے کسی ایک کو ترجیح دی جاتی ہے اور ترجیح کے لیے اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے اور اجتہاد میں لغت
عرب اور سیاق و سباق کی طرف احتیاج ہوتی ہے جس کا تعلق درایت سے ہے ۔
21