You are on page 1of 41

‫ن‬

‫ام ‪ :‬عزیزہللا‬
‫ت‬
‫کورس ‪ :‬عارف حدی ث۔‬

‫ن‬ ‫تف‬ ‫کوڈ‪2900:‬‬


‫ن‬
‫ک‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫ص‬ ‫ج‬
‫سوال مب ر ‪1:‬۔حی ت حدی ث پر لی وٹ ھی ں۔‬
‫ج واب‪ :‬کتاب وسنت یعنی قرآن وحدیث ہمارے دین ومذہب کی اولین اساس وبنیاد ہیں‪ ،‬پھر ان میں‬
‫کتاب اٰل ہی اصل اصول ہے اور احادیث رسول اس کی تبیان و تفسیر ہیں۔ خدائے علیم وخبیر ک&&ا ارش&&اد‬
‫ہے ”َو َاْنَز ْلَنا ِاَلْیَک الِّذْک َر ِلُتَبّین ِللَّناِس َم ا ُنِّز َل ِاَلْیِہْم “ (اآلیة) اور ہم نے اتارا آپ کی طرف ق&&رآن؛ ت&&اکہ آپ‬
‫لوگوں کے سامنے اسے خوب واضح کردیں۔‬
‫فرمان اٰل ہی سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ص&&لی ہللا علیہ وس&لم کی رس&الت ک&&ا مقص&&د عظیم ق&رآن‬
‫محکم کے معانی و مراد کا بیان اور وضاحت ہے‪ ،‬آپ صلى هللا عليه وسلم نے اس فرض کو اپنے قول‬
‫و فعل وغیرہ سے کس طور پر پ&ورا فرمای&ا‪ ،‬حض&رت عائش&ہ ص&دیقہ رض&ی ہللا عنہ&ا نے اس&ے ای&ک‬
‫مختصر مگر انتہائی بلیغ جملہ میں یوں بی&ان کی&ا ہے ”ک&ان خلقہ الق&رآن“ یع&نی آپ کی برگزی&دہ ہس&تی‬
‫مجسم قرآن تھی‪ ،‬لٰہ ذا اگر قرآن حجت ہے (اور بال ریب وش&&ک حجت ہے) ت&&و پھ&&ر اس میں بھی ک&&وئی‬
‫تردد و شبہ نہیں ہے کہ اس کا بیان بھی حجت ہوگا‪ ،‬آپ نے جو بھی کہا ہے‪،‬ج&&و بھی کی&&ا ہے‪ ،‬وہ ح&&ق‬
‫ہے‪ ،‬دین ہے‪ ،‬ہدایت ہے‪،‬اور نیکی ہی نیکی ہے‪ ،‬اس لئے آپ کی زندگی جو مکم&&ل تفس&&یر کالم رب&&انی‬
‫ہے آنکھ بند کرکے قابل اتباع ہے ”َلَقْد َک اَن َلُک ْم ِفی َر ُسوِل ِہّٰللا ُاْس َو ة َحَس َنٌة“ خدا کا رس&&ول تمہ&&ارے ل&&ئے‬
‫بہترین نمونہٴ عمل ہے‪ ،‬عالوہ ازیں آپ صلى هللا عليه وسلم کو خداے علی وعزیز کی بارگاہ بے نہ&&ایت‬
‫سے رفعت وبلندی کا وہ مقام بلند نصیب ہے کہ ساری رفع&تیں اس کے آگے س&رنگوں ہیں ح&تی کہ آپ‬
‫کے چشم وابرو کے اشارے پر بغیر کسی تردد وتوقف کے اپنی مرضی س&&ے دس&&تبردار ہوجان&&ا معی&&ار‬
‫لموِم ٍن َو َال ُم وِم َنٍة ِاذا َقضی ُہّٰللا وَر ُسوُلہ َاْم ًرا ان یک&&ون لہم الِخَی َر ة‬
‫ایمان و اسالم ٹھہرایا گیا ہے۔ َو َم ا َک ان ٴ‬
‫من امرہم کسی مومن مرد وعورت کو گنجائش نہیں ہے جب ہللا اور اس ک&&ا رس&&ول ک&&وئی حکم دے ت&&و‬
‫پھر ان کے لئے اس کام میں کوئی اختیار ب&&اقی رہے۔ رّب علیم وعزی&&ز کی ان واض&&ح ہ&&دایات کے بع&&د‬
‫بھی کیا کسی کو یہ حق پہنچ سکتا ہے کہ وہ رسول ہللا صلى هللا عليه وسلم کے اقوال و افعال میں اپ&&نی‬
‫جانب سے تقسیم و تفریق کرے کہ یہ ہمارے لئے حجت ہے‪ ،‬اور یہ حجت نہیں ہے۔‬
‫نیز رسوِل خدا علیہ الصلٰو ة والسالم کا ارشاد ہے‪:‬‬
‫اال انی ُاوتیت الکتاب ومثلہ معہ اال یوِش ُک رجٌل َش بَع اُن علی اریکتہ یقول‪ :‬علیکم بہذا القرآن‪ ،‬فم&&ا‬
‫وجدتم فیہ من حالل فاحّلوہ‪ ،‬وما وجدتم فیہ من حرام فحّرموہ‪ ،‬اال ال یحّل لکم الحمار االہلی‪ ،‬وال ذی ن&&اب‬
‫[‪]i‬‬
‫ابوداود في السنن في کتاب السنة واالطعمة)‬ ‫ٴ‬ ‫من السبع‪ ،‬وال کل ذی ِم خلب من الطیر“ الحدیث (رواہ‬
‫بغور سنو! مجھے ہللا تعالٰی کی جانب سے قرآن دیاگیا ہے‪ ،‬اور قرآن کے ساتھ ق&&رآن ہی جیس&&ی‬
‫(یعنی حدیث وسنت بھی) دی گئی ہے‪ ،‬خبردار رہو! قریب ہے کہ کوئی آسودہ حال شخص اپنی آراستہ‬
‫سیج پر بیٹھا کہے گا‪ ،‬اس&ی ق&رآن ک&&و الزم پک&&ڑو پس ج&و چ&یز اس میں از قبی&&ل حالل پ&&اؤ اس&ے حالل‬
‫جانو‪ ،‬اور جو اس میں از قبیل حرام پاؤ اسے حرام جانو‪ ،‬خبردار تمہارے لئے گھریلو گ&&دھا حالل نہیں‬
‫ہے اور نہ ہی شکاری درندہ اور نہ ہی شکاری پرندہ حالل ہے (ح&&االنکہ ص&&راحت س&&ے ان ج&&انوروں‬
‫کے حرام ہونے کا ذکر قرآن میں نہیں ہے)‬
‫اس حدیث سے درج ذیل امور معلوم ہوئے‪:‬‬
‫(الف) قرآن ہی کی طرح احادیث بھی منجانب ہللا نبی علیہ الصلٰو ة والسالم کو دی گئی ہیں‪( ،‬ب)‬
‫قرآن کی طرح احادیث بھی احکام میں حجت ہیں‪( ،‬ج) اور ق&&رآن ہی کی ط&&رح ان کی اتب&&اع اور ان پ&&ر‬
‫عمل الزم ہے۔‬
‫قرآن و حدیث کی ان تصریحات کے مطابق حضرات صحابہ‪ ،‬تابعین‪ ،‬محدثین‪ ،‬فقہائے مجتہ&&دین‬
‫اور تمام علماء اہل سنت والجماعت حدیث رس&&ول ص&&لی ہللا علیہ وس&&لم کی حجیت اور اس کی تش&&ریعی‬
‫حیثیت پر بصیرت کے ساتھ یقین رکھتے ہیں‪ ،‬اہ&&ل اس&&الم کے کس&&ی گ&&روہ‪ ،‬ی&&ا ف&&رد نے جب کبھی بھی‬
‫حدیث پاک کی اس شرعی حیثیت پر ردوقدح کی ہے تو اسے یکسر مسترد کردیا گیا ہے۔‬
‫غرضیکہ علماء حق کا یہی جادئہ متوارثہ ہے۔ اپنے تمام اساتذہ کو بھی اسی موقف پر پای&ا‪ ،‬اور‬
‫اب تک اس موضوع پر جن کتابوں کے مطالعہ کی توفیق ملی وہ تقریب&&ا ای&&ک درجن س&&ے زائ&&د ہیں ان‬
‫میں صرف فرقہ ق&رآنیہ کے بعض مص&ّنفین کی دو ای&&ک کت&&ابوں کے عالوہ س&ب میں قاب&&ل قب&&ول ق&وی‬
‫دالئل کے ساتھ حجیت حدیث کے مذہب منصور کا اثبات اور تائید و توثیق کی گئی ہے۔ ب&&ایں ہمہ ای&&ک‬
‫ہم عصر مشہور فاضل نے جو اپنی وسیع علمی خدمات کی بناء پر اوساط علمیہ میں اعتبار واستحسان‬
‫کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اپنی ایک تحریر میں اس بارے میں میرے علم کے مط&&ابق س&&ب س&&ے‬
‫الگ ایک جدید نقطئہ نظر پیش کیا ہے جو انھیں کے الف&&اظ میں یہ ہے کہ ”ح&&دیث اور س&&نت میں ف&&رق‬
‫(ہے) اور حجت سنت ہے حدیث نہیں“ زیر نظ&&ر تحری&&ر میں اس&&ی نقطئہ نظ&&ر ک&&ا اپ&&نے علم و فہم کے‬
‫مطابق جائزہ لیاگیا ہے۔ وہّٰللا ہو الملہم الصواب والسداد‪ ،‬وعلیہ التکالن واالعتماد‪.‬‬
‫(الف) سنت کا لغوی معنی‬
‫‪ -۱‬امام لغت مطرزی متوفی ‪۶۱۰‬ھ ”لفظ سنن“ کے تحت لکھتے ہیں‪:‬‬
‫”السنة“ الطریقہ ومنہا الحدیث في مجوس َہَج ر ”سّنوا بہم سّنة اہل الکتاب“ ای اسلکوا بہم طریقہم‬
‫یعنی عاملوہم معاملة ٰہ ٴوالء في اعطاء االمان باخذ الجزیة منہم‪( .‬الُم غِر ب‪ ،‬ج‪ ،۱:‬ص‪)۴۱۷:‬‬
‫”سنت“ طریقہ کے معنی میں ہے اسی معنی میں مجوِس ہجر کے بارے میں ح&&دیث ہے ”س &ّنوا‬
‫بہم سنة اہل الکتاب“ ان مجوسیوں کے ساتھ اہل کتاب جیسا طریقہ اختیار کرو یع&&نی ج&&زیہ لے ک&&ر امن‬
‫دینے کا جو معاملہ اہل کتاب کے ساتھ کرتے ہو یہی معاملہ ان مجوسیوں کے ساتھ کرو۔‬
‫‪ -۲‬امام محی الدین ابوزکریا نووی متوفی ‪۶۷۶‬ھ لفظ ”السنة“ کے تحت رقمطراز ہیں‪:‬‬
‫”سنة النبي صلی ہّٰللا علیہ وسلم أصلہا الطریقہ‪ ،‬وتطلق سنتہ صلی ہّٰللا علیہ علی األحادیث المرویة‬
‫عنہ صلی ہّٰللا علیہ وسلم‪ ،‬وتطلق السنة علی المن&دوب‪ ،‬ق&ال جماع&ة من أص&حابنا في أص&ول الفقہ‪ :‬الس&نة‪،‬‬
‫والمندوب‪ ،‬والتطوع‪ ،‬والنفل‪ ،‬والمرغب‪ ،‬والمستحب کلہا بمعنی واحد وہو ما ک&&ان فعلہ راجح &ًا علی ت&&رکہ‬
‫وال اثم علی ترکہ“ (تہذیب االسماء واللغات‪ ،‬ج‪،۳:‬ص‪)۱۵۶:‬‬
‫سنت کا اصل معنی طریقہ ہے اور سنت رسول صلی ہللا علیہ وسلم کا لفظ اص&&طالحًا رس&&ول ہللا‬
‫صلى هللا عليه وسلم سے مروی احادیث پر بوال جاتا ہے نیز سنت ک&&ا اطالق ام&&ر مس&&تحب پ&&ر بھی ہوت&&ا‬
‫ہے ہمارے شوافع فقہائے اصول کی ایک جماعت کا قول ہے کہ سنت‪ ،‬من&&دوب‪ ،‬تط&&وع‪ ،‬نف&&ل‪ ،‬م&&رّغ ب‪،‬‬
‫اور مستحب یہ سب الفاظ ایک مع&&نی میں ہیں یع&&نی وہ فع&&ل جس ک&&ا کرن&&ا نہ ک&&رنے پ&&ر راجح ہے اور‬
‫اسے چھوڑ دینے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔‬
‫‪ -۳‬ماہر لغت ابن المنظور متوفی ‪۷۱۱‬ھ اپنی گرانقدر تصنیف ”لسان العرب“ میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫وقد تکرر في الحدیث ذکر السنة وما تصّر ف منہا‪ ،‬واألصل فیہ الطریقة‪ ،‬والس&&یرة‪ ،‬واذا اطلقت في‬
‫الشرع فانما یراد بہا ما أمر بہ النبي صلی ہّٰللا علیہ وسلم ونہی عنہ وندب الیہ قوًال وفعًال مم&&ا لم ینط&&ق بہ‬
‫الکتاب العزیز ولہذا یقال في أدلة الشرع الکتاب والسنة أي القرآن والحدیث (فصل السین حرف النون‪ ،‬ج‪:‬‬
‫‪،۱۷‬ص‪)۸۹:‬‬
‫سنت اور اس کے مشتقات کا ذکر حدیث میں بار بار آیا ہے‪ ،‬اس کا اصل معنی ط&&ریقہ اور چ&&ال‬
‫چلن کے ہے‪ ،‬اور شرع میں جب یہ لفظ بوال جاتا ہے تو اس سے مراد وہ کام لی&&ا جات&&اہے جس ک&&ا ن&&بی‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم نے حکم دیا‪ ،‬یا جس سے منع کیا‪ ،‬یا جس کی اپ&&نے ق&&ول و فع&&ل کے ذریعہ دع&&وت‬
‫دی جن کے بارے میں کتاب عزیز نے (صراحت) سے کچھ نہیں کہا ہے‪ ،‬اسی بن&&اء پ&&ر دالئ&&ل ش&رعیہ‬
‫(کے بیان) میں کہا جاتا ہے ”الکتاب والسنة“ یعنی ”قرآن وحدیث“۔‬
‫عالمہ ابن المنظور کے کالم میں ”ما أمر بہ النبي صلی ہّٰللا علیہ وس&&لم ونہی عنہ“ ع&&ام ہے جس‬
‫میں امر وجوبی‪ ،‬وغیروجوبی اور نہی تحریمی وغیرتحریمی سب داخل ہوں گی۔‬
‫‪ -۴‬المعجم الوسیط مادہ سنن میں ہے‪:‬‬
‫الَّسَنن‘ الطریقة والمثال یقال بنوا بیوتہم علی سنن واحد‪ ...‬والسنة الطریقة والسیرة حمی&&دة ک&&انت او‬
‫ذمیمة‪ ،‬وس&&نة ہّٰللا حکمہ في خلیقتہ‪ ،‬وس&&نة الن&&بي ص&&لی ہّٰللا علیہ وس&&لم‪ :‬م&&ا ینس&&ب الیہ من ق&&ول او فع&&ل او‬
‫تقریر‪” ،‬وفي الشرع“ العمل المحمود في الدین مما لیس فرضًا وال واجبًا“ (ص‪)۴۵۶:‬‬
‫سنن طریقہ اور مثال کے مع&&نی میں ہے اس&ی مع&&نی میں ب&&وال جات&&ا ہے ”بن&&وا بی&&وتہم علی س&نن‬
‫واحد“ یعنی اپنے گھروں کو ایک طریقہ اور ایک نمونہ پر بنای&&ا‪ ...‬اور س&نت بمع&&نی ط&&ریقہ اور ط&&رز‬
‫زندگی ہے یہ طریقہ خواہ محمود ہو یا مذموم‪ ،‬اور ”سنت ہللا“ کا معنی ہللا ک&&ا اپ&&نی مخل&&وق کے متعل&&ق‬
‫فیصلہ کے ہیں‪ ،‬اور سنت رسول سے مراد وہ قول وفع&&ل اور تقری&&ر ہیں ج&&و آنحض&&رت ص&&لی ہللا علیہ‬
‫وسلم کی جانب منسوب ہیں‪ ،‬اور فقہ میں یہ لفظ دین میں اس پسندیدہ عمل پر ب&&وال جات&&ا ہے ج&&و ف&&رض‬
‫واجب نہیں ہیں۔‬
‫(ب) حدیث کا لغوی معنی‬
‫‪ -۱‬لسان العرب میں ہے‪:‬‬
‫الحدیث نقیض القدیم ‪ ...‬والحدیث کون الشيء لم یکن‪ ... ،‬والح&&دیث الجدی&&د من االش&&یاء‪ ،‬والح&&دیث‬
‫الخبر یأتي علی القلیل والکثیر والجمع أحادیث (ج‪،۲:‬ص‪ ۴۳۶:‬و ‪ ۴۳۸‬فصل الحاء حرف الثاء)‬
‫شی ک&&ا ہوجان&&ا ج&&و پہلے نہیں تھی‪ ،‬بمع&&نی‬ ‫حدیث قدیم کا نقیض (یعنی مقابل مخالف) ہے‪ ،‬حدیث ٴ‬
‫جدید اور نئی‪ ،‬بمعنی خبر خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر‪ ،‬اور جمع احادیث ہے۔‬
‫‪ -۲‬ابن سیدہ متوفی ‪۴۵۸‬ھ المخصص میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫الحدیث الخبر‪ ،‬وقال سیبویہ‪ :‬والجمع أحادیث‪( .‬ج‪،۳:‬ص‪)۳۲۳:‬‬
‫حدیث کے معنی خبر کے ہیں اور سیبویہ نے کہا ہے کہ اس کی جمع احادیث ہے۔‬
‫‪ -۳‬عالمہ قاضی محمد اعلٰی تھانوی متوفی ‪۱۱۹۱‬ھ کشاف اصطالحات الفنون میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫الحدیث لغة ضد القدیم ویستعمل في قلیل الکالم وکثیرہ (‪)۲۷۹‬‬
‫حدیث قدیم کا ضد ہے‪ ،‬اور کالم قلیل وکثیر میں بھی استعمال ہوتا ہے۔‬
‫‪ -۴‬عالمہ راغب اصفہانی متوفی ‪۵۰۳‬ھ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫کل کالم یبلغ االنساَن من جہة السمع او الوحي في یقظتہ أو منامہ یق&&ال لہ ح&&دیث‪ .‬ق&&ال ع &ّز وج&&ّل‪:‬‬
‫”َو ِاْذ َاَس َّر الَّنِبُّي ِالی َبْع ِض َاْز َو اِج ہ حدیًثا (التحریم‪ ،۳:‬مفردات الفاظ القرآن‪ ،‬ص‪)۱۲۴:‬‬
‫ہر وہ کالم جو انسان تک پہنچتا ہے کان کی جانب سے یا وحی کی جانب سے بیداری یا خ&&واب‬
‫کی حالت میں اسے حدیث کہا جاتا ہے۔ ہللا عّز وج&&ّل ک&&ا ارش&&اد ہے‪ :‬واذ َاس&&ّر الن&&بّی “ اآلی&&ة اور جب کہ‬
‫کہی نبی نے اپنی بعض بیوی سے ایک بات۔‬
‫علم&&ائے لغت کی من&&درجہ ب&&اال عب&&ارتوں س&&ے معل&&وم ہ&&وا کہ ”ح&&دیث“ از روئے لغت‪ ،‬جدی&&د‪،‬‬
‫غیرموجود کا وجود میں آجانا‪ ،‬خبر اور کالم یعنی بات کے معنی میں بوال جاتا ہے۔‬
‫سنت وح&&دیث کی اس لغ&&وی معن&&وی تحقی&&ق کے بع&&د ان ہ&&ر دو کی اص&&طالحی تعری&&ف مالحظہ‬
‫کیجئے‪ ،‬جس کے تحت علمائے حدیث‪ ،‬علمائے اصول فقہ‪ ،‬اور فقہ حنفی کی ال&&گ ال&&گ تعریف&&ات نق&&ل‬
‫کی ج&&ارہی ہیں؛ ت&&اکہ مس&&ئلہ زی&&ربحث میں ہرجم&&اعت و طبقہ کی اص&&طالحات س&&امنے رہیں اور خل&&ط‬
‫مبحث سے بچا جاسکے۔ سب سے پہلے حدیث کی تعریف محدثین کے الفاظ میں مالحظہ کیجئے۔‬
‫حدیث محدثین کی اصطالح میں‬
‫شیخ ابوالفیض محمد بن محمد فارسی حنفی المعروف بہ فص&&یح ہ&&روی مت&&وفی ‪۸۳۷‬ھ اپ&&نی مفی&&د‬
‫تصنیف جواہر االصول میں حدیث کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں‪:‬‬
‫‪” - ۱‬الحدیث‪ ،‬وہو في اللغة ضد القدیم‪ ،‬ویس&تعمل في قلی&&ل الکالم وکث&&یرہ‪ ،‬وفي اص&&طالحہم‪ :‬ق&ول‬
‫رسول ہّٰللا صلی ہّٰللا علیہ وسلم وحکایة فعلہ وتقریرہ والسنة ترادفہ عندہم“ (ص‪)۱۰:‬‬
‫لغت میں حدیث قدیم کا ضد ہے‪ ،‬اور تھوڑی وزیادہ بات پر بھی حدیث ک&&ا لف&&ظ اس&&تعمال کیاجات&&ا‬
‫ہے‪ ،‬اور محدثین کی اصطالح میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کا ق&&ول اور آپ ص&&لى هللا عليه وس&&لم‬
‫کے فعل وتقریر کی حکایت و بیان حدیث ہے‪ ،‬ان حضرات کے نزدیک سنت‪ ،‬حدیث کے مرادف ہے۔‬
‫ش&&یخ االس&&الم حاف&&ظ ابن حج&&ر عس&&قالنی مت&&وفی ‪۸۵۲‬ھ ص&&حیح بخ&&اری کے ب&&اب الح&&رص علی‬
‫الحدیث کے تحت لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ہّٰللا‬
‫‪” - ۲‬المراد بالحدیث في عرف الش&&رع م&&ا یض&&اف الی الن&&بي ص&&لی علیہ وس&&لم وک&&أّنہ أری&&د بہ‬
‫مقابلة القرآن ألنہ قدیم“ (فتح الباری‪،‬ج‪،۱:‬ص‪)۲۵۷:‬‬
‫حدیث سے مراد شرعی ودینی عرف واصطالح میں وہ امور ہیں‪ ،‬جو ن&&بی ص&&لی ہللا علیہ وس&&لم‬
‫کی جانب منسوب ہیں‪” ،‬ما یضاف الی الن&&بی“ میں حاف&&ظ عس&&قالنی رحم&&ة هللا عليه نے جس عم&&وم کی‬
‫جانب اشارہ کیا تھا‪ ،‬ان کے تلمیذ رشید حافظ سخاوی نے اپنی ذکر کردہ تعریف میں اسی کی تش&&ریح و‬
‫توضیح کی ہے۔ ”وہللا اعلم“‬
‫‪ -۳‬حافظ سخاوی متوفی ‪۹۰۲‬ھ ”حدیث“ کی تعریف ان الفاظ سے کرتے ہیں‪:‬‬
‫”الحدیث“ لغة ضد القدیم‪ ،‬واصطالحًا‪ :‬ما أضیف الی النبي صلی ہّٰللا علیہ وسلم قوًال لہ أو فعًال‪ ،‬أو‬
‫تقریًر ا أو صفًة حتی الحرکات والسکنات في الیقظة والمنام‪ ،‬فہو أعّم من السنة ‪ ...‬وکث&&یرًا م&&ا یق&&ع في کالم‬
‫أہل الحدیث ‪ -‬ومنہم الناظم ‪ -‬ما یدل لترادفہما“ (فتح المغیث‪،‬ج‪،۱:‬ص‪)۹:‬‬
‫حدیث لغت میں حادث ونوپید کے معنی میں ہے اور اصطالح محدثین میں حدیث وہ سب چیزیں‬
‫ہیں جو نبی علیہ الصلٰو ة والسالم کی جانب منسوب ہیں (یعنی) آپ صلى هللا عليه وسلم کا قول‪ ،‬ی&&ا فع&&ل‪،‬‬
‫یا آپ کا کسی امر کو ثابت اور برقرار رکھنا‪ ،‬ی&&ا آپ کی ص&&فات؛ ح&&تی کہ بی&&داری اور نی&&د میں آپ کی‬
‫حرکت وسکون (یہ سب حدیث ہیں لٰہ ذا اس تعریف کی رو سے یہ سنت سے عام ہے‪( ،‬جبکہ) علم&&ائے‬
‫حدیث (جن میں ناظم یعنی الفیة الحدیث کے مصنف حافظ عراقی متوفی ‪۸۰۶‬ھ بھی ہیں) کا کالم کثرت‬
‫سے یوں واقع ہوا ہے‪ ،‬جو حدیث وسنت کے ترادف اور ایک ہونے کو بتارہا ہے۔‬
‫نادرئہ روزگار عالمہ عبدالحئی فرنگی محلی رحمة هللا عليه مت&&وفی ‪۱۳۰۴‬ھ ح&&دیث کی تعری&&ف‬
‫پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ہّٰللا‬ ‫ہّٰللا‬
‫‪ - ۴‬واختلف عباراتہم في تفسیر الحدیث‪ ،‬فق&&ال بعض&&ہم‪ :‬م&&ا أض&&یف الی رس&&ول ص&&لی علیہ‬
‫وسلم قوًال أو فعًال أو تقریًر ا‪ ،‬أو الی الصحابي‪ ،‬أو الی التابعي‪ ،‬وحینئذ فہو مرادف الس&&نة‪ ،‬وکث&&یرا م&&ا یق&&ع‬
‫في کالم الحفاظ ما یدل علی الترادف‪ .‬وزاد بعضہم أو صفة‪ ،‬وقی&ل ُروی&اء أیض&ًا ب&ل الحرک&ات والس&کنات‬
‫النبوی&&ة في المن&&ام والیقظ&&ة أیض&&ًا‪ ،‬وعلی ہ&&ذا فہ&&و أعم من الس&&نة (ظفراالم&&انی م&&ع تعلی&&ق عالمہ ش&&یخ‬
‫ابوغدہ‪،‬ص‪)۲۴:‬‬
‫حدیث کی تفسیر و تعریف میں حض&&رات مح&&دثین کی عب&&ارتیں مختل&&ف ہیں‪ ،‬بعض مح&&دثین ی&&وں‬
‫تعریف کرتے ہیں وہ قول یا فعل یا تقریر جو رسوِل خدا صلی ہللا علیہ وس&&لم کی ج&&انب منس&&وب ہیں ی&&ا‬
‫صحابی یا تابعی کی طرف ان کی نسبت ہے (وہ حدیث ہے) اس تعریف کی رو سے ح&&دیث‪ ،‬س&&نت کے‬
‫مرادف ہوگی اور حفاظ حدیث کے بکثرت کالم و تصرفات دونوں کے مرادف ہ&&ونے پ&&ر داللت ک&&رتے‬
‫ہیں۔‬
‫اور بعض محدثین نے ح&&دیث کی تعری&&ف میں آنحض&&رت ص&&لى هللا عليه وس&&لم کی ص&&فات‪ ،‬اور‬
‫خوابوں کا بھی؛ بلکہ بحالت ن&&وم ی&&ا بی&&داری آپ کے حرک&&ات وس&&کنات ک&&ا اض&&افہ کی&&ا ہے؛ لٰہ ذا ان کی‬
‫تعریف کے لحاظ سے حدیث میں سنت کے اعتبار سے وسعت و عمومیت ہوگی۔‬
‫سنت محدثین کی اصطالح میں‬
‫حافظ الدنیا ابن حجر عسقالنی متوفی ‪۸۵۲‬ھ فتح الباری میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫‪ - ۱‬والمراد ”بالکتاب“ القرآن المتعبد بتالوتہ‪ ،‬و”بالسنة“ ما ج&&اء عن الن&&بي ص&&لى هللا عليه وس&&لم‬
‫من أقوالہ وأفعالہ وتقریرہ وما َہَّم بفعلہ‪ ،‬والسنة في أہل اللغة الطریقة وفي اصطالح األصولیین والمح&&دثین‬
‫ما تقدم‪( .‬کتاب االعتصام بالکتاب والسنة‪ ،‬ج‪ ،۱۳:‬ص‪)۳۰۶:‬‬
‫”الکتاب“ سے مراد ق&&رآن ہے جس کی تالوت ک&&و عب&&ادت گ&&ذاری ٹھہرایاگی&&ا ہے‪ ،‬اور ”الس&&نة“‬
‫سے مراد نبی علیہ الصلٰو ة والسالم کے اقوال‪ ،‬افع&ال‪ ،‬تقری&ر اور وہ چ&یزیں ہیں جن کے ک&رنے ک&ا آپ‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم نے قصد و ارادہ فرمای&&ا‪ ،‬اور س&&نت اص&&ل لغت میں ط&&ریقہ کے مع&&نی میں ہے اور‬
‫علمائے اصول اور علمائے حدیث کی اصطالح میں یہی ہے جس کا اوپر بیان ہوا۔‬
‫حافظ عسقالنی رحمة هللا عليه کی اس تصریح سے معلوم ہوا کہ حضرات محدثین اور اص&&ولیین‬
‫سنت کے اصطالحی معنی میں متفق ہیں۔‬
‫‪ -۲‬عالمہ بدرالدین عینی متوفی ‪۸۵۵‬ھ نے بھی بعینہ انہی الف&&اظ میں س&&نت کی تعری&&ف ذک&&ر کی‬
‫ہے (دیکھئے عمدة القاری‪،‬ج‪،۲۵:‬ص‪ ۲۳:‬کتاب االعتصام بالکتاب والسنة کی ابتدائی سطور)‬
‫‪ -۳‬حافظ السخاوی متوفی ‪۹۰۲‬ھ نے اپنی نہایت مفید و محققانہ تصنیف ”فتح المغیث بشرح ألفی&&ة‬
‫الحدیث للعراقي“ میں سنت کی تعریف یہ کی ہے ”السنن المضافة للنبي ص&&لی ہّٰللا علیہ وس&&لم ق&&وًال لہ أو‬
‫فعًال أو تقریًرا‪ ،‬وکذا وصًفا وأیاًم ا“ (ج‪،۱:‬ص‪)۱۳:‬‬
‫نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی جانب منسوب قول‪ ،‬فعل‪ ،‬تقریر‪ ،‬نیز آپ کی صفات وایام س&&نت‬
‫ہیں۔ حافظ سخاوی رحمة هللا عليه جنھوں نے سنت کی تعریف میں آپ ص&&لی ہللا علیہ وس&&لم کی ص&&فات‬
‫اور آپ سے متعلق تاریخ وواقعات کو بھی شامل کیا ہے‪ ،‬الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے س&&اتھ انھ&&وں‬
‫نے یہی تعریف حدیث کی بھی کی ہے‪ ،‬جس سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث وسنت ان کے نزدیک ایک ہی‬
‫ہیں۔‬
‫حدیث وسنت کو ایک معنی میں استعمال کی چند مثالیں‬
‫حاف&&ظ س&&خاوی رحم&&ة هللا عليه اور عالمہ ف&&رنگی محلی رحم&&ة هللا عليه دون&&وں حض&&رات نے‬
‫صراحت کی ہے کہ ائمہ حدیث کے کالم اور تصرفات سے معلوم ہوت&&ا ہے کہ ح&&دیث وس&&نت ای&&ک ہی‬
‫حقیقت کے دو نام ہیں‪ ،‬یعنی ان میں باہم نسبت تساوی کی ہے‪ ،‬تباین یا عام‪ ،‬خاص کی نسبت نہیں‪ ،‬ذی&&ل‬
‫میں اس کی چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں‪:‬‬
‫‪ -۱‬امام ابوداؤد سجستانی متوفی ‪۲۷۵‬ھ اہِل مکہ کے نام اپنے مشہور رسالہ و مکتوب میں اپ&&نی‬
‫سنن کے بارے میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ہّٰللا‬
‫”فان ُذ کرلک عن النبي صلی علیہ وسلم ُس ّنة لیس مم&&ا خ&&ّر جتہ ف&&اعلم أنہ ح&&دیث واٍہ“ (رس&&الة‬
‫االمام ابوداؤد السجستانی الی اہل مکة فی وصف سننہ مع تعلیق شیخ عبدالفتاح ابوغدہ‪،‬ص‪)۳۴:‬‬
‫”اگر تم سے نبی صلی ہللا علیہ وس&لم کی ج&انب منس&وب ک&&وئی س&نت ذک&&ر کی ج&ائے‪ ،‬جس کی‬
‫تخریج میں نے (اس کتاب میں) نہیں کی ہے تو جان لو کہ یہ حدیث ضعیف ہے“‬
‫امام ابوداؤد کی اس عبارت میں سنت وحدیث کا مرادف وہم معنی ہونا بالکل ظاہرہے۔‬
‫‪ -۲‬امام حافظ ابوبکر محمد بن موسٰی حازمی متوفی ‪۵۸۴‬ھ ناسخ ومنسوخ کے موضوع پر اپ&&نی‬
‫نہایت مفید کتاب ”االعتبار في الناسخ والمنسوخ من اآلثار“ میں کتاب کا تع&&ارف ک&&راتے ہ&&وئے لکھ&&تے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫ہّٰللا‬ ‫ہّٰللا‬
‫فہ&&ذا کت&&اب أذک&&ر فیہ&&ا م&&ا انتہیت الی مع&&رفتہ من ناس&&خ ح&&دیث رس&&ول ص&&لی علیہ وس&&لم‬
‫ومنسوخہ (خطبة الکتاب‪ ،‬ص‪ )۳:‬اس کت&&اب میں رس&&ول ہللا ص&&لی ہللا علیہ وس&&لم کی ان ناس&&خ ومنس&&وخ‬
‫خطبہ کت&&اب میں آگے چ&ل ک&&ر‬ ‫ٴ‬ ‫حدیثوں کا ذکر کروں گا‪ ،‬جن کی معرفت تک میں پہنچ سکا ہ&&وں‪ ،‬اس&ی‬
‫لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ہّٰللا‬
‫وانما أوردنا نبذة منہا لیعلم شدة اعتناء الصحابة بمعرفة الناسخ والمنس&وخ في کت&اب وس&نة ن&بیہ‬
‫صلی ہّٰللا علیہ اذ شأنہما واحدة“(ص‪)۵:‬‬
‫میں نے یہ چند روایتیں پیش کی ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ قرآن وسنت میں ناس&&خ ومنس&&وخ کی‬
‫صحابہ کرام کو کس درجہ اہتمام تھا کیونکہ دونوں کی صفت (وجوب عم&&ل میں) ای&&ک ہے۔‬ ‫ٴ‬ ‫معرفت کا‬
‫پہلی عبارت میں حدیث ناسخ ومنسوخ کا اور دوسری عبارت میں ناسخ ومنسوخ سنت ک&&ا لف&&ظ اس&&تعمال‬
‫کیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ امام حازمی حدیث وسنت کو ایک معنی میں لیتے ہیں۔‬
‫‪ -۳‬سنت کی لغوی تحقیق میں امام نووی رحمة هللا عليه کی یہ عبارت تہ&&ذیب األس&&ماء والص&&فات‬
‫کے حوالہ سے اوپر ذکر کی جاچکی ہے۔‬
‫ہّٰللا‬
‫وتطلق سنتہ صلى هللا عليه وسلم علی األحادیث المرویة عنہ صلی علیہ وسلم‪.‬‬
‫اور سنت رسول علی ص&&احبہا الص&&لٰو ة والس&&الم ک&&ا اطالق آنحض&&رت ص&&لی ہللا علیہ وس&&لم س&&ے‬
‫مروی احادیث پر ہوتا ہے۔ امام نووی رحمة هللا عليه کی اس عب&&ارت س&ے س&نت وح&دیث ک&&ا ای&&ک ہون&&ا‬
‫بالکل ظاہر ہے۔‬
‫‪ -۴‬شیخ االسالم حافظ ابن حجرعسقالنی رحمة هللا عليه حدیث وخبر کے درمی&&ان ف&&رق کے ق&&ول‬
‫کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ومن ثم قیل لمن یشتغل بالتواریخ وما شاکلہا األخباري‪ ،‬ولمن یشتغل بالسنة النبویة المح&&دث‪ ،‬وقی&&ل‬
‫بینہما عموم وخصوص مطلقًا فکل حدیث خبر من غیر عکس (نزہة النظر مع نورالقمر‪،‬ص‪)۲۷:‬‬
‫اسی فرق کی بناء پر جو شخص تاریخ یا تاریخ جیسے امور میں اشتغال رکھتا ہے اسے اخباری‬
‫(مورخ) کہا جاتا ہے اور جو سنت نبویہ علی صاحبہا الصلٰو ة والسالم میں مشغول رہتا ہے اسے محدث‬
‫کہا جاتا ہے‪ ،‬اور کہا گیا ہے کہ خبر وحدیث میں عموم و خصوص کی نسبت ہے۔ لٰہ ذا ہ&&ر ح&&دیث خ&&بر‬
‫ہے اور ہ&&ر خ&&بر ح&&دیث نہیں ہے۔ اس عب&&ارت میں ای&&ک جگہ س&&نت اور دوس&&ری جگہ ح&&دیث ک&&ا لف&&ظ‬
‫استعمال کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک دونوں ایک ہیں۔‬
‫بغرض اختصار صرف چار مثالوں پر اکتفاء کیاگیا ورنہ علم&&ائے ح&&دیث کے کالم س&&ے دون&&وں‬
‫کے مترادف ہونے کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔‬
‫عام طور پر متأخرین محدثین حدیث وسنت کی اوپ&ر م&ذکور یہی تعری&ف ک&رتے ہیں‪ ،‬اور اپ&نے‬
‫کالم میں عام طور پر دونوں کو ای&ک ہی مع&نی میں اس&تعمال ک&رتے ہیں جیس&اکہ اوپ&ر کی بی&ان ک&ردہ‬
‫تفصیالت سے معلوم ہوچکا ہے۔‬
‫ایک قدیم اصطالح‪ :‬عالمہ محمد بن جعف&&ر کّت انی مت&&وفی ‪۱۳۴۵‬ھ اپ&&نی مش&&ہور اور نہ&&ایت مفی&&د‬
‫تصنیف ”الرسالة المستطرفة لبیان مشہور کتب السنة المش&&رفة“ میں کتب س&&نن کے تع&&ارف میں لکھ&&تے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫”ومنہا کتب تع&&رف بالس&&نن وہی في اص&&طالحہم الکتب المرتب&&ة علی األب&&واب الفقہی&&ة من االیم&&ان‬
‫والطہارة والزکاة الی آخرہ&&ا ولیس فیہ&&ا ش&&یء من الموق&&وف ألن الموق&&وف ال یس&ّٰم ی في اص&&طالحہم س&&نة‬
‫ویسمی حدیًثا“ (ص‪)۲۹:‬‬
‫اور ان کتب حدیث میں بعض وہ ہیں جو س&نن س&ے مع&روف ہیں اور س&نن ان کی اص&طالح میں‬
‫ابواب فقہیہ پر مرتب کتابیں ہیں یعنی ایمان‪ ،‬طہارت‪ ،‬صالة‪ ،‬زکٰو ة الی آخرہ یعنی اسی ترتیب پر پ&&وری‬
‫کتاب مرتب ہوتی ہے۔ اور سنن کی کتابوں میں موقوف روایتیں نہیں ہیں؛ کیونکہ ان کی اص&&طالح میں‬
‫موقوف کو سنت نہیں کہا جاتا ہے‪ ،‬بلکہ حدیث کہا جاتا ہے۔‬
‫سید شریف علی بن محمد جرجانی متوفی ‪۸۱۶‬ھ نے بھی اس اصطالح کا ذکر ان الف&&اظ میں کی&&ا‬
‫ہے‪:‬‬
‫السلف أطلقوا الحدیث علی أقوال الصحابة والت&&ابعین لہم باحس&&ان وآث&&ارہم وفت&&اواہم (خالص&&ہ‪،‬ص‪:‬‬
‫‪ ۳۳‬مال علی کی شرح شرح نخبة الفکر کے صفحہ ‪ ۱۵۳‬پر ”خبر‪ ،‬حدیث اور اثر“ کے بیان میں کت&&اب‬
‫کے محقق نے خالصہ کی یہ عبارت اپنی تعلیق میں نقل کی ہے)‬
‫ائمہ سلف نے ”حدیث“ کا اطالق صحابہ اور تابعین کے اقوال‪ ،‬آث&&ار اور ان کے فت&&اوٰی پ&&ر کی&&ا‬
‫ہے۔‬
‫غالبًا اسی اصطالح کے مطابق امام عبدالرحمن بن مہدی رحم&ة هللا عليه نے ام&ام س&فیان ث&وری‬
‫رحمة هللا عليه کی علوم میں جامعیت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے‪:‬‬
‫الناس علی وجوہ‪ ،‬فمنہم من ہو امام في السنة وامام في الحدیث‪ ،‬ومنہم من ہو ام&&ام في الس&&نة ولیس‬
‫بامام في الحدیث‪ ،‬ومنہم من ہو امام في الحدیث لیس بامام في السنة‪ ،‬فأما من ہ&&و ام&&ام في الس&&نة وام&&ام في‬
‫الحدیث فسفیان الثوري (تقدمة الجرح والتعدیل البن ابی حاتم‪ ،‬ص‪)۱۱۸:‬‬
‫علماء متعدد صفات کے حامل ہیں‪ ،‬ان میں بعض وہ ہیں ج&&و س&&نت میں ام&&ام ہیں اور ح&&دیث میں‬
‫بھی امام ہیں‪ ،‬اور ان میں بعض وہ ہیں جو سنت میں امام ہیں اور ح&&دیث میں ام&&ام نہیں ہیں‪،‬اور ان میں‬
‫بعض وہ ہیں جو حدیث میں امام ہیں سنت میں امام نہیں ہیں تو جو سنت اور حدیث دونوں میں ام&&ام ہیں‬
‫وہ سفیان ثوری رحمة هللا عليه ہیں۔ یعنی سفیان ث&&وری رحم&&ة هللا عليه اح&&ادیث مرف&&وعہ اور ص&&حابہ و‬
‫تابعین سے منقول آثار اور فتاوٰی سب میں امام و پیشوا تھے۔‬
‫متق&&دمین ائمہ ح&&دیث کی س&&نت و ح&&دیث کے ب&&ارے میں ف&&رق کی یہ ای&&ک اص&&طالح تھی؛ لیکن‬
‫متأخرین کے یہاں اس اص&&طالح ک&&ا اس&&تعمال نہیں ہے۔ متق&&دمین ائمہ ح&&دیث اگ&&رچہ س&&نت وح&&دیث کے‬
‫درمیان اصطالحی طور پر یہ فرق کرتے ہیں؛ لیکن عام طور پر وہ شریعت میں صحابہ کے ق&&ول ک&&و‬
‫بھی حجت مانتے ہیں؛ اس لئے اس اصطالحی فرق سے ان کی حجیت میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔‬
‫ایک اور اصطالح‪ :‬بہت سے اصولیین اور بعض محدثین بھی سنت وحدیث میں اص&&طالحی ط&&و‬
‫رپر یہ فرق کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے قول‪ ،‬فعل‪ ،‬تقریر اور طریق ص&&حابہ س&&ب‬
‫پر سنت کا لفظ بولتے ہیں‪،‬اور ح&&دیث و خ&&بر ک&&ا اطالق ص&&رف آپ ص&&لى هللا عليه وس&&لم کے فع&&ل پ&&ر‬
‫کرتے ہیں۔ موالنا عبدالحئی فرنگی محلی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ہّٰللا‬ ‫ہّٰللا‬
‫ذکر ابن َم َلک في ”شرح منار األصول“ َاّن سنة تطل&&ق علی ق&&ول رس&&ول ص&&لی علیہ وس&&لم‬
‫وفعلہ‪ ،‬وسکوتہ وطریقة الصحابة‪ ،‬والحدیث والخبر مختصان باألول‪.‬‬
‫&ریقہ ص&&حابہ پ&&ر‬
‫سنت کا اطالق رسول خدا صلى هللا عليه وسلم کے قول‪ ،‬فع&&ل‪ ،‬س&&کوت‪ ،‬اور ط& ٴ‬
‫کیاجاتا ہے اور حدیث وخبر پہلے (یعنی قول رسول ہللا صلى هللا عليه وسلم) کے ساتھ خاص ہیں۔ (ظفر‬
‫االمانی‪،‬ص‪)۲۵-۲۴:‬‬
‫محقق عالء الدین عب&&دالعزیز بخ&&اری مت&&وفی ‪۷۳۰‬ھ اص&&ول ب&&زدوی کی عب&&ارت ”تمس&&کًا بالس&&نة‬
‫والحدیث“ کے تحت لکھتے ہیں‪:‬‬
‫السنة أعم من الحدیث النہا تتناول الفعل والقول‪ ،‬والحدیث مختص بالقول“ الخ (کشف االس&&رار‪،‬ج‪:‬‬
‫‪،۱‬ص‪)۵۹:‬‬
‫”سنت“‪” ،‬حدیث“ سے عام ہے کیونکہ سنت فعل وقول (سب کو) شامل ہے اور حدیث ق&&ول کے‬
‫ساتھ خاص ہے۔ یہی تفصیل تلویح اور عضدی میں بھی ہے۔‬
‫لفظ سنت وحدیث کے درمیان استعمال ک&&ا یہ ف&&رق بھی بس اص&&طالح ہی کی ح&&د ت&&ک ہے‪ ،‬جس‬
‫سے ان کی حجیت قطعًا متاثر نہیں ہوگی؛ کیونکہ ج&و حض&&رات س&نت ک&&و ع&&ام مع&&نی یع&&نی آنحض&&رت‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم کے قول وفعل کے مع&نی میں لی&تے ہیں وہ ت&و اس&ے حجت م&انتے ہی ہیں اور ج&و‬
‫آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے قول کو حدیث سے تعبیر کرتے ہیں اور سنت کا اطالق اس پ&&ر نہیں‬
‫کرتے ہیں وہ بھی اس حدیث قولی کو حجت قرار دیتے ہیں۔‬
‫سنت علمائے اصول کی اصطالح میں‬
‫علمائے اصول جن کا موضوع احکام شرعی کے اصول ومآخذ ک&&ا بی&&ان‪ ،‬اور کت&&اب وس&نت کے‬
‫نصوص سے اخذ معانی وغیرہ کے قواعد وضوابط کی تنقیح و تدوین ہے‪ ،‬جب وہ اپ&&نے موض&&وع کے‬
‫مطابق فقہی احکام کے دوسرے مصدر و مآخذ کی حیثیت سے سنت رسول صلی ہللا علیہ وسلم کا ذک&&ر‬
‫کرتے ہیں تو اپنے فن کے تحت سنت کی تعریف بھی بیان کرتے ہیں بطور نمونہ اصول فقہ کی مستند‬
‫و معروف چند کتابوں سے یہ تعریف نقل کی جارہی ہے۔‬
‫‪ -۱‬قاضی بیضاوی متوفی ‪۶۸۵‬ھ ”منہاج الوصول الی علم األصول“ میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫الکتاب الثانی في السنة‪ :‬وہو قول الرسول صلی ہّٰللا علیہ وسلم او فعلہ الخ‪.‬‬
‫کتاب ثانی سنت کے بیان میں اور سنت رسول ہللا صلى هللا عليه وسلم کا قول یا فعل ہے۔‬
‫شیخ جمال الدین اسنوی متوفی ‪۷۷۲‬ھ اس کی شرح میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫أقول‪ :‬السنة لغة ہي العادة والطریقة ق&ال ہّٰللا تع&&اٰل ی‪” :‬ق&د َخ َلْت ِم ْن َقْبِلُک ْم ُس َنٌن َفِس ْیُرْو ا في اَالرِض“‬
‫ای طرق‪ ،‬وفي االصطالح تطلق علی ما یقابل الفرض من العبادات‪ ،‬وعلی م&&ا ص&&در من الن&&بي ص&&لی ہّٰللا‬
‫علیہ وسلم من األفعال أو األقوال لیست لالعجاز وہذا ہو المراد ہہنا‪ ،‬ولما کان التقریر عبارة من الکف عن‬
‫االنکار والکف فعل کما تق&&دم اس&&تغنی المص&&نف عنہ بہ أی عن التقری&&ر بالفع&&ل“ (نہای&&ة الس&&ول في ش&&رح‬
‫منہاج الوصول الی علم األصول علی الہامش التقریر والحبیر‪ ،‬ج‪ ،۲:‬ص‪)۵۲:‬‬
‫میں کہتا ہوں کہ سنت لغت میں عادت اور طریقہ کے معنی میں ہے ہللا تع&&الٰی ک&&ا ارش&&اد ہے ق&&د‬
‫خلت الخ یعنی تحقیق کہ تم سے پہلے طریقے گذرچکے ہیں‪ ،‬لٰہ ذا زمین میں گھوم پھ&&ر (ک&&ر انہیں دیکھ‬
‫لو) (آیت میں مذکور لف&&ظ ُس َنن بمع&&نی) ط&&ریقے ہے‪ ،‬اور اص&&طالح میں (‪ )۱‬ان عب&&ادتوں پ&&ر س&&نت ک&&ا‬
‫اطالق ہوتا ہے جو فرض کے مقابل ہیں‪ )۲( ،‬اور آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم س&&ے ص&&ادر ان افع&&ال‬
‫واقوال پر ہوتا ہے جو (صراحتًا) قرآن میں نہیں ہیں‪ ،‬اور اس جگہ یہی دوسرا اص&&طالحی مع&&نی م&&راد‬
‫ہے‪ ،‬اور جب انکار سے رکنے کو تقریر سے تعبیرکیا جاتا ہے تو ”کف“ یع&&نی رکن&&ا (ای&&ک) فع&&ل ہے‬
‫اس لئے قول کے ساتھ فعل کے ذکر کے بعد تقریر کے ذکر کی مصنف نے ضرورت نہیں سمجھی۔‬
‫‪ -۲‬امام ابواسحاق الشاطبی متوفی ‪۷۹۰‬ھ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ہّٰللا‬
‫ویطلق لفظ السنة علی ما جاء منقوال عن النبي ص&&لی علیہ وس&&لم علی الخص&&وص بم&&ا لم ینص‬
‫علیہ في الکتاب العزیز بل انما نص علیہ من جہتہ علیہ الصلٰو ة والس&الم ک&ان بیان&ًا لم&ا في الکت&اب؛ أوًال‪،‬‬
‫ویطلق أیضًا في مقابلة البدعة‪ ،‬فیقال‪” :‬فالن علی سنة اذا عمل علی وفق ما عمل علیہ النبي صلی ہّٰللا علیہ‬
‫وسلم‪ ،‬کان ذلک مما نص علیہ في الکتاب أوًال‪ ،‬ویقال‪ :‬فالن علی بدعة ”اذا عمل علی خالف ذلک‪ ،‬وکأن‬
‫ہذا االطالق انما اعتبر فیہ عمل صاحب الشریعة فأطلق علیہ لفظ الس&&نة من تل&&ک الجہ&&ة‪ ،‬وان ک&&ان العم&&ل‬
‫بمقتضی الکتاب‪.‬‬
‫ویطلق أیضا لفظ الس&نة علی م&ا عم&ل علیہ الص&حابة وج&د ذل&ک في الکت&اب أو الس&نة أو لم یوج&د‬
‫لکونہ اتباعًا لسنة ثبتت عندہم لم تنقل الینا‪ ،‬أو اجتہاًدا مجتمعًا علیہ منہم أو من خلفائہم ‪ ...‬واذا جمع ما تقدم‬
‫تحصل منہ في االطالق أربعة أوجہ‪ ،‬قولہ علیہ الص&&الة والس&&الم‪ ،‬وفعلہ‪ ،‬واق&&رارہ‪ -‬وک&&ل ذل&&ک ام&&ا متلقی‬
‫بالوحی أو باالجتہاد‪ ،‬وہذہ ثالثة‪ ،‬والرابع ما جاء عن الصحابة أوالخلفاء‪( .‬الموافقات‪،‬ج‪ ،۴:‬ص‪ ۳:‬تا ‪)۶‬‬
‫اور لفظ سنت ان امور پر بوال جاتا ہے جو نبی صلى هللا عليه وس&&لم س&&ے منق&&ول ہ&&وکر آئے ہیں‬
‫بالخصوص وہ امور جو قرآن مجید میں منصوص نہیں ہیں؛ بلکہ وہ آنحضرت ص&&لی ہللا علیہ وس&&لم ہی‬
‫کی جانب سے مذکور ہیں‪ ،‬پھر وہ امور قرآن کی مراد کا بیان و تفسیر ہوں‪ ،‬یا ایسے نہ ہوں۔‬
‫اور سنت کا لفظ بدعت کے مقابلہ میں بھی بوال جاتا ہے‪ ،‬چنانچہ کہا جاتا ہے فالں سنت پر ہے؛‬
‫جبکہ اس کا عمل نبی صلی ہللا علیہ وسلم کے عمل کے موافق ہو‪ ،‬خواہ یہ عمل ان اعمال میں سے ہ&&و‬
‫جن کی قرآن میں صراحت کی گئی ہے‪ ،‬یا ایسا نہ ہو‪،‬اور کہا جاتا ہے فالں بدعت پرہے؛ جبکہ اس ک&&ا‬
‫وہ عمل آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے عمل کے موافق نہ ہو‪ ،‬گویا اس اطالق میں صاحب ش&&ریعت‬
‫(صلى هللا عليه وسلم) کے عمل کا اعتبار کیاگیا ہے‪ ،‬اور اسی لحاظ سے اس پر س&&نت ک&&ا لف&&ظ اس&&تعمال‬
‫کیاگیاہے۔ اگرچہ وہ عمل بتقاضائے کتاب اٰل ہی ہو۔‬
‫نیز لفظ سنت کا اطالق صحابہ کرام رضوان هللا تعالى عليهم اجمعين کے عم&&ل پ&&ر بھی ہوت&&ا ہے‬
‫قرآن وحدیث میں اس کے وجود سے ہم واقف ہوں یا نہ ہوں؛ کیونکہ ص&&حابہ ك&&رام رض&&وان هللا تع&&الى‬
‫عليهم اجمعين کا یہ عمل یاتو سنت کی اتب&&اع میں ہوگ&&ا ج&&و ان کے نزدی&&ک ث&&ابت تھی اور ہم ت&&ک نہیں‬
‫پہنچی یا ان کے اجماعی اجتہاد یا خلفاء کے اجتہاد کی بناء پر ہوگا ‪ ...‬ان م&&ذکورہ ص&&ورتوں ک&&و جم&&ع‬
‫کیا جائے تو سنت کے اطالق کی چار صورتیں نکلیں گی‪ )۱( :‬آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم ک&&ا ق&&ول‪،‬‬
‫(‪ )۲‬آپ کا فعل‪ )۳( ،‬آپ کا اقرار واثبات اور یہ سب یا تو وحی سے حاصل شدہ ہوں گی یا اجتہاد س&&ے‬
‫یہ تین قسمیں ہوئیں‪ )۴( ،‬اور چوتھی قسم صحابہ رضوان هللا تعالى عليهم اجمعين یا خلف&&اء رض&&وان هللا‬
‫تعالى عليهم اجمعين سے ثابت شدہ امور ہیں۔‬
‫محقق ابن ہمام متوفی ‪۸۶۱‬ھ نے اصول فقہ میں اپنی مش&&ہور وکث&&یر الفائ&&دہ تص&&نیف ”التحری&&ر“‬
‫میں سنت کی تعریف یہ کی ہے‪” :‬وفي االص&&ول ق&&ولہ علیہ الس&&الم وفعلہ و تقری&&رہ وفي فقہ الحنفی&&ة‪ :‬م&&ا‬
‫واظب علی فعلہ مع ترک بال عذر لیل&&زم ک&&ونہ بال وج&&وب‪ ،‬وم&&ا لم ی&&واظبہ من&&دوب ومس&&تحب“ (التقری&&ر‬
‫والتحبیر شرح التحریر‪ ،‬ج‪ ،۲:‬ص‪)۲۲۳:‬‬
‫سنت اصول فقہ میں آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے قول‪ ،‬فعل اور تقری&&ر ک&&و کہ&&تے ہیں‪،‬اور‬
‫فقہ حنفی میں جس فع&&ل پ&&ر آپ نے م&&واظبت فرم&&ائی ہے بغ&&یر ع&&ذر کے کبھی کبھ&&ار ت&&رک کے س&اتھ‬
‫(ترک بال عذر کی قید اس لئے ہے) تاکہ الزم ہوجائے کہ اس فعل پر ہمیشگی بط&&ور وج&&وب کے نہیں‬
‫تھی (کیونکہ بال عذر ترِک فعل کی واجب میں رخصت واجازت نہیں)‬
‫ادلہ اربعہ کے ض&&من میں‬ ‫اس تعری&&ف ک&&ا ص&&اف مطلب یہ ہے کہ فقہ&&ائے اص&&ول جب فقہ کے ٴ‬
‫سنت کا ذکر کرتے ہیں اور اس کی تعریف آنحضرت صلى هللا عليه وسلم کے قول و فع&&ل س&&ے ک&&رتے‬
‫ہیں تو یہی سنت ان کے نزدی&&ک مس&&ائل کے ل&&ئے دلی&&ل وحجت ہ&&وتی ہے اور عب&&ادات کے م&&راتب کی‬
‫تعیین کے وقت بالخصوص فقہائے احناف فرض و واجب کے بعد اور نفل سے پہلے جب لفظ سنت ک&&ا‬
‫ذکر کرتے ہیں اور اس کی تعریف ما واظب علی فعلہ الخ یا الطریقة المسلوکہ في الدین سے کرتے ہیں‬
‫تو اس سنت کا ان کے نزدیک احکام شرعی کی حجت و دلیل ہونے سے کوئی تعل&&ق نہیں ہے؛ بلکہ یہ‬
‫تو اس حکم شرعی کا عرفی نام ہے جو آنحضرت صلى هللا عليه وسلم کے عمل مع المواظبة ب&&ترک م&&ا‬
‫سے ثابت ہوا ہے۔‬
‫سنت کی اصولی و فقہی یہی تعریفیں قدیم وجدید سب مص &ّنفین اپ&&نی اص&&ول فقہ کی کت&&ابوں میں‬
‫بیان کرتے ہیں‪ ،‬ان سب کے ذکر میں تکرار محض اور طوالت ہے؛ اس لئے بطور نمونہ تین م&&اہر فن‬
‫علماء کی تحریروں پر اکتفا کیا جارہا ہے‪ ،‬جن میں پہلے شافعی دوسرے مالکی اور تیسرے حنفی ہیں۔‬

‫سوال نمبر ‪ :2‬عہد نبوی میں حفاظت و تدوین حدیث کے متعلق روایات پر نوٹ لکھیں‪،‬‬
‫جواب ‪ِ :‬اَّنا َنْح ُن َنَّز ْلَنا الِّذْك َر َو ِاَّنا َلٗه َلٰح ِفُظْو َن (الحجر‪)9 :‬‬

‫’’یقینًا ہم نے ہی اس قرٓان کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘‬

‫ایک دوسری جگہ فرمایا ‪:‬‬

‫َو اَل َيْاُتْو َنَك ِبَمَثٍل ِااَّل ِج ْئٰن َك ِباْلَح ِّق َو َاْح َسَن َتْفِسْيًر ا (الفرقان ‪)33 :‬‬

‫’’ اور نہیں وہ التے ٓاپ کے پاس کوئی مثال گر ہم ٓاپ کے پا س حق اور بہترین تفسیر بھیج دیتے‬
‫ہیں۔‘‘‬

‫حدیث نبوی ﷺ جو احکام شریعت کا دوسرا بڑا ماخذ ہے دوِر نبوی ﷺ سے ہی مدون‬
‫ومرتب ہوتا چال ٓارہا ہے یہ بات یقینی ہے کہ صحابہ کرام رضی ہللا عنہم نے نبی کریم ﷺ کے‬
‫ایک ایک قول‪،‬فعل اور تقریر کو محفوظ کرنے کی بہت زیادہ محنت وکوشش کی ۔ ہر صحابی میں اس‬
‫بات کی خواہش اور تڑپ موجود تھی کہ وہ نبی کریم ﷺ کی صحبت سے زیادہ سے زیادہ فیض‬
‫یاب ہو تاکہ احادیث کا علم ہو پھر یہ اصحاب ایک دوسرے سے ٓاپ کے فرامین وہدایات معلوم کیا‬
‫کرتے تھے۔ ضروریات زندگی اور ناگزیر مصروفیات کے باوجود رسول ہللا ﷺ کی صحبت‬
‫سے استفادہ کرنے کا اور حدیث سے بہرہ ور ہونے کا اہتمام کرتے تھے اس کا اندازہ سیدنا عمر‬
‫فاروق رضی ہللا عنہ کے اس بیان سے لگایا جاسکتاہے۔‬
‫’’ کہ میں اور میرا ایک پڑوسی انصاری جو کہ بنوامیہ سے تعلق رکھتا تھا ‪ ،‬باری باری رسول ہللا‬
‫ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ایک دن میں ٓاتا دوسرے دن وہ ٓاتا جس دن میں ٓاتا اس دن کی‬
‫احادیث اسے پہنچاتا اور جس دن وہ ٓاتا اس دن کی احادیث وہ مجھے پہنچاتا۔‬

‫(صحیح البخاری‪ ،‬کتاب العلم ‪ ،‬باب التنأوب… الحدیث‪)89:‬‬

‫ٓاخر ایسے کیوں نہ ہوتا جبکہ ہللا تعالٰی نے قرٓان وحدیث کی حفاظت کا ذمہ خوداٹھایا ہے چنانچہ ہللا‬
‫تعالٰی نے فرمایا ‪:‬‬

‫ِاَّنا َنْح ُن َنَّز ْلَنا الِّذْك َر َو ِاَّنا َلٗه َلٰح ِفُظْو َن (الحجر‪)9 :‬‬

‫’’یقینًا ہم نے ہی اس قرٓان کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘‬

‫اور دوسرے مقام پر فرمایا ‪:‬‬

‫َفِاَذا َقَر ْاٰن ُه َفاَّتِبْع ُقْر ٰا َنٗه (القیامۃ‪:‬‬ ‫ِاَّن َعَلْيَنا َج ْم َعٗه َو ُقْر ٰا َنهٗ َفِاَذا َقَر ْاٰن ُه َفاَّتِبْع ُقْر ٰا َنٗه‬ ‫اَل ُتَحِّر ْك ِبٖه ِلَساَنَك ِلَتْعَج َل ِبٖه‬
‫‪16‬۔ ‪)19‬‬

‫’’ ٓاپ اس قرٓان کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دیں‪ ،‬تاکہ ٓاپ اسے جلدی(یاد)کرلیں‪ ،‬یقینًا ہمارے‬
‫ذمے ہے اس کا جمع کرنا(ٓاپ کے سینے میں) اور اس کا پڑھنا (ٓاپ کی زبان سے) سوجب ہم اسے‬
‫پڑھ لیں تو ٓاپ اس کے پڑھنے کی پیروی کیجیے پھر یقینًا اس کا واضح کرنا ہمارے ذمے ہے۔ ‘‘‬

‫بہر حال جس طرح قرٓان کی حفاظت ہللا تعالٰی نے کی ہے اسی طرح حدیث رسول ﷺ کی بھی‬
‫حفاظت کی ہے۔ حدیث کی تدوین وترتیب عہد رسالت سے ہی شروع ہوچکی تھی لیکن اب تدوین‬
‫حدیث کے بارے میں پہال سوال جوابھر کر ہمارے سامنے ٓاتاہے وہ یہ کہ خود عہِد نبوی ﷺ میں‬
‫حفاظت وجمع احادیث کا اہتمام کس حد تک ہوسکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب قوم کا حافظہ‬
‫غیر معمولی تھا اور صحابہ کرام رضی ہللا عنہم اس والہانہ محبت وعقیدت کی بنا پر جو وہ رسول ہللا‬
‫ﷺ سے رکھتے تھے۔ ٓاب کے ارشادات گرامی کو حفظ کرنے کا انہیں بہت اشتیاق تھا مگر یہ‬
‫کہنا سراسر حق کی تکذیب ہے کہ عہد نبوی ﷺ میں احادیث ضبط تحریر میں نہیں الئی گئیں‬
‫اور کتابت وتدوین کا کام نبی کریم ﷺ کی وفات کے ‪ 90‬برس بعد شروع ہوا اور اس درمیانی‬
‫عرصے میں محض زبانی روایات پر بھروسہ رہا۔ حدیث اور تاریخ کی مستند کتابوں سے پتہ چلتاہے‬
‫کہ صحابہ کرام رضی ہللا عنہم نے محض حافظے پر ہی اعتماد نہیں کیا بلکہ وہ احادیث کو ضبط‬
‫تحریر میں التے تھے اور احادیث کا بہت بڑا سرمایہ ٓاپ کے دور میں صحابہ کرام رضی ہللا عنہم‬
‫کے ہاتھوں سے مرتب ہوچکا تھا وہ احادیث جو ٓاپ ﷺ کے زمانے میں قلمبند ہوئیں ان کو تین‬
‫حصوں میں تقسیم کیا جاتاہے۔‬

‫‪1‬رسول ہللا ﷺ کے حکم سے لکھی جانے والی احادیث‬

‫‪ٓ 2‬اپ ﷺ کی اجازت سے لکھی جانے والی احادیث‬

‫‪ 3‬مجلس نبوی ﷺ کے برخواست ہونے کے بعد قلمبند کی جانے والی احادیث‬

‫‪1‬رسول ہللا ﷺ کے حکم سے لکھی جانے والی احادیث‬


‫‪1‬صحیفہ عمرو بن حزم ‪ :‬نبی کریم ﷺ نے زکوۃ‪،‬صدقات اور خون بہا کے احکام پوری تشریح‬
‫کے ساتھ عمرو بن حزم کو یمن کیلئے لکھوا کر دیئے۔ (شرح معانی آالثار للطحاوی ‪)2/417‬‬

‫‪ 2‬سیدنا عمر بن عبد العزیز نے اپنے عہد خالفت میں رسول ہللا ﷺ کے فرمان صدقات کی تالش‬
‫کے لیے اہل مدینہ کے پاس قاصد بھیجا تو وہ مجموعہ احکام صدقات عمرو بن حزم صحابی کے‬
‫لڑکوں سے مل گیا۔(دارقطنی ‪ ،‬ص‪)451:‬‬

‫‪ 3‬صحیفہ عمروبن حزم کی نقول سیدنا ابو بکر اور عمروبن حزم کے خاندان اور متعدد اشخاص کے‬
‫پاس موجود تھیں۔‬

‫(دارقطنی ‪ ،‬کتاب الزکاۃ ‪ ،‬ص‪)209:‬‬

‫‪4‬عبد ہللا بن الحکیم کی روایت ہے کہ رسول ہللا ﷺ کی ایک تحریر ہمارے قبیلے جہینہ کو‬
‫پہنچی جس میں مختلف احادیث تھیں کہ مردار جانوروں کی کھال اور پٹھے وغیرہ بغیر دباغت کئے‬
‫ہوئے استعمال میں نہ الٔو۔ (ترمذی‪)1/206‬‬

‫‪ 5‬سیدنا وائل بن حجر رضی ہللا عنہ جب مدینہ میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے کچھ دن ٓاپ کی خدمت‬
‫میں حاضر رہے جب وطن جانے لگے تو ٓاپ نے ایک صحیفہ لکھوا کر انہیں دیا جس میں‬
‫نماز‪،‬روزہ‪،‬شراب اور سود وغیرہ کے احکام تھے۔ ( طبرانی صغیر ‪ ،‬ص‪241:‬۔‪)242‬‬

‫‪ 6‬دارمی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ٓاپ نے یمن والوں کو بھی ایک صحیفہ لکھوا کر بھیجا تھا۔‬
‫الفاظ یوں ہیں ‪:‬‬

‫َٔاَّن َرُسوَل الَّلِه َص َّلى اللُه َعَلْيِه َو َسَّلَم َكَتَب ِإَلى َٔاْهِل اْلَيَمِن َٔاْن اَل َيَمَّس اْلُقْرٓاَن ِإاَّل َطاِهٌر ‪َ ،‬و اَل َطاَل َق َقْبَل ِإْم اَل ٍك ‪َ ،‬و اَل َعَتاَق‬
‫َح َّتى َيْبَتاَع (سنن دارمی‪،‬ص‪)393 :‬‬

‫’’ بے شک رسول ہللا ﷺ نے یمن والوں کی طرف لکھا کہ نہ قرٓان کو چھوئے مگر پاک ٓادمی‬
‫ہی اور ملکیت سے پہلے طالق نہیں ہے اور نہیں ہے ٓازادی حتی کہ وہ خرید لے۔‘‘‬

‫‪ 7‬سیدنا ا بن عمر کا بیان ہے کہ رسول ہللا ﷺ نے اپنی زندگی کے ٓاخری زمانہ میں اپنے‬
‫عالموں کے پاس بھیجنے کیلئے کتاب الصدقہ لکھوائی تھی۔ (ترمذی‪)1/79‬‬

‫‪ 8‬خطوط ووثائق ‪ :‬احادیث کے ان کتابی ذخیروں کے عالوہ سینکڑوں کی تعداد میں وہ خطوط اور‬
‫وثیقے ہیں جو کہ رسول ہللا ﷺ نے مختلف اوقات میں بادشاہوں‪ ،‬قبیلوں‪،‬سرداروں اور دوسرے‬
‫لوگوں کے نام لکھوائے اور خود ان پر مہر ثبت کی۔‬

‫‪ 9‬جب رسول ہللا ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف الئے تو عرب اوس وخزرج بارہ‬
‫قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے۔ یہودی دس قبیلوں میں منقسم تھے۔ ہر قبیلے کا الگ راج تھا۔ کوئی‬
‫مرکزی شہری نظام نہ تھا تو ٓاپ وہاں کے باشندوں مہاجرین وانصاری‪ ،‬یہود اور غیرمسلموں سے‬
‫مشورہ کرنے کے بعد ایک دستوِر مملکت نافذ فرمایا جس میں حاکم ومحکوم دونوں کے حقوق‬
‫وواجبات کی تفصیل تھی۔ یہ ایک اہم دستاویز تھی جسے ابن اسحاق نے اپنی سیرت میں‪ ،‬ابو عبیدہ‬
‫قاسم بن سالم نے کتاب االموال اور بعد کے مصنفین میں سے حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں‪،‬‬
‫ابن سید الناس نے سیرت میں مکمل نقل کیا ہے اس دستاویز میں ‪ 53‬جملے تھے قانون کی زبان میں‬
‫یوں کہیے کہ یہ ‪ 53‬دفعات پر مشتمل دستوِر مملکت تھے۔‬

‫‪ٓ 2‬اپ ﷺ کی اجازت سے لکھی جانے والی احادیث‬

‫‪ n‬سیدنا عبد ہللا بن عمرو بن العاص رضی ہللا عنہ کاتب حدیث اپنے ایک بیان کی ابتداء یوں فرماتے‬
‫ہیں‬

‫بینما نحن حول رسول ہللا نکتب‬

‫’’ اسی دوران کہ ہم رسول ہللا ﷺ کے اردگرد(بیٹھے) لکھ رہے تھے۔ ‘‘ ( دارمی ‪ ،‬ص‪)68:‬‬

‫اس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ رسول ہللا ﷺ کے زمانے میں کتابت حدیث کا انداز یہ ہوتا تھا کہ‬
‫ٓاپ درمیان محفل تشریف فرما ہوتے اور صحابہ کی جماعت ٓاپ کے اردگرد حلقہ بنا کر بیٹھ جاتی اور‬
‫جو کچھ ٓاپ فرماتے صحابہ لکھتے جاتے تو یہ بالکل امالء کی شکل ہے اور ساتھ ساتھ سیدنا انس‬
‫رضی ہللا عنہ کی روایت کو بھی پیش نظر رکھیے۔‬

‫’’ کہ رسول ہللا ﷺ کو بات کو دو دو ‪ ،‬تین تین مرتبہ دہراتے تاکہ لوگوں کے سمجھنے میں‬
‫سہولت ہو۔‘‘‬

‫اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی ہللا عنہم کو صحت وتعیین کے ساتھ احادیث قلمبند کرنے‬
‫میں کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔‬

‫‪ n‬سیدنا عبد ہللا بن عمرو مہاجرین میں سے ہیں تذکرہ نگاروں نے انہیں ’’العالم الرّبانی‘‘ کا لقب دیا‬
‫ہے ۔ تورات وانجیل کے بھی عالم تھے۔ پھر ان کا زہد وتقوٰی ‪ ،‬عبادت وریاضت عہد رسالت میں ہی‬
‫مسلم تھی۔ (تذکرۃ الحفاظ ‪)1/356 ،‬‬

‫‪ n‬سیدنا عبد ہللا بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول ہللا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا‬
‫کہ ہم ٓاپ سے بہت سی احادیث سنتے ہیں جو ہمیں یاد نہیں رہتیں کیا ہم وہ لکھ نہ لیا کریں؟ تو‬
‫ٓاپ ﷺ نے فرمایا ‪:‬‬

‫بلی فاکتبوھا‬

‫’’ کیوں نہیں ! ان کو لکھ لیا کرو۔‘‘ (ابو داود ‪)3646 :‬‬

‫‪ n‬اسی طرح سیدنا عبد ہللا بن عمرو رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ میں جو کچھ رسول ہللا ﷺ‬
‫سے سنتا تھا اسے لکھ لیا کرتا تھا بعض حضرات نے کتابت سے منع کیا۔ فرماتے ہیں کہ قریش کے‬
‫لوگوں نے مجھ سے کہا کہ رسول ہللا ﷺ بشر ہیں۔ بہت سی باتیں غصہ کی حالت میں بھی‬
‫فرماتے ہیں اس لیے احادیث نہ لکھا کرو میں نے ٓاپ کے سامنے ذکر کیا تو ٓاپ نے اپنی مبارک‬
‫انگلی سے اشارہ کرکے فرمایا‬

‫َفَو اَّلِذي َنْفِس ي ِبَيِدِه َم ا َيْخ ُرُج ِم ْنُه ِإاَّل َح ٌّق ( سنن ابی داود‪ ،3646 :‬حاکم ‪ ،1/106‬مسند احمد ‪)2/207‬‬

‫’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے صرف حق ہی نکلتاہے۔‘‘‬


‫اس کے بعد سیدنا عبد ہللا بن عمرو رضی ہللا عنہ نے کتابت حدیث کا سلسلہ برابر جاری رکھا اور‬
‫لکھتے لکھتے ان کے پاس احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا‪ ،‬حدیث کی اس کتاب کے بار ےمیں‬
‫فرمایا کرتے تھے ۔‬

‫َفَٔاَّما الَّص اِدَقُة‪َ ،‬فَصِح يَفٌة َكَتْبُتَها ِم ْن َرُسوِل الَّلِه َص َّلى اللُه َعَلْيِه َو َسَّلَم (سنن الدارمی‪)513 :‬‬

‫’’رہا صحیفہ صادقہ تو میں نے اسے رسول ہللا ﷺ سے لکھا ہے۔‘‘‬

‫اس صحیفہ صادقہ سے بڑی محبت کرتے تھے ‪ ،‬زندگی کا عزیز ترین سرمایہ سمجھتے تھے ‪،‬‬
‫فرماتے تھے ‪:‬‬

‫َم ا ُيَر ِّغُبِني ِفي اْلَحَياِة ِإاَّل الَّص اِدَقُة (سنن الدارمی)‬

‫’’صادقہ مجھے زندگی میں بہت زیادہ مرغوب ہے۔‘‘‬

‫اب رہا یہ سوال کہ حدیث کی یہ کتاب ’’الصادقہ‘‘ کتنی بڑی اور ضخیم تھی اور اس میں کتنی‬
‫احادیث درج تھیں اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ جن کی روایات کی‬
‫تعداد ‪ 5374‬ہے ‪ ،‬فرماتے ہیں ‪:‬‬

‫َم ا ِم ْن َٔاْصَح اِب الَّنِبِّي ﷺ َٔاَح ٌد َٔاْك َثَر َحِديًثا َعْنُه ِم ِّني‪ِ ،‬إاَّل َم ا َكاَن ِم ْن َعْبِد الَّلِه ْبِن َعْمٍرو‪َ ،‬فِإَّنُه َكاَن َيْك ُتُب َو َال َٔاْك ُتُب (صحیح‬
‫البخاری مع فتح الباری ‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،113 :‬کتاب العلم ‪ ،‬باب کتابۃ العلم)‬

‫’’ نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے کوئی ایک بھی نہیں تھا جو ٓاپ ﷺ سے زیادہ روایات‬
‫بیان کرنے واال ہو میری بنسبت سوائے سیدنا عبد ہللا بن عمرو کے کیونکہ بیشک وہ احادیث لکھتے‬
‫تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔‘‘‬

‫‪ n‬اس بات کی توثیق سیدنا عبد ہللا بن عمرو رضی ہللا عنہ کے اس بیان سے بھی اور زیادہ ہوجاتی‬
‫ہے ۔‬

‫ُكْنُت َٔاْك ُتُب ُكَّل َشْي ٍء َٔاْس َم ُعُه ِم ْن َرُسوِل الَّلِه ﷺ‬

‫(سنن ابی دأود‪3646:‬۔ تحفۃ االحوذی‪،‬ص‪)83:‬‬

‫سیدنا ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ کے اس بیان سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ صادقہ میں ‪ 5374‬سے بھی‬
‫زیادہ روایات تھیں جبکہ بخاری ومسلم کی غیر مکرراحادیث کی تعداد ‪ 4‬ہزار سے بھی زیادہ ہیں جن‬
‫میں کافی حصہ ان حدیثوں کا ہے جو دونوں کتابوں میں مشترک ہے۔ مٔوطا امام مالک جسے بعض‬
‫حضرات بخاری ومسلم پر فوقیت دیتے تھے ان کی مرویات کی تعداد ‪ 1720‬ہے۔‬

‫سیدنا رافع بن خدیج فرماتےہیں کہ ہم لوگوں نے دربار رسالت میں عرض کی کہ ہمیں ٓاپ کی بہت‬
‫سی باتیں یاد نہیں رہتیںاور انہیں لکھ لیتے ہیں ٓاپ نے فرمایا ‪ ’’:‬لکھ لیا کرو اس میں کوئی مضائقہ‬
‫نہیں۔‘‘ (کنزالعمال ‪)5/223‬‬
‫ایک دن مروان نے خطبہ میں بیان کیا کہ مکہ حرم ہے۔ رافع بن خدیج نے پکار کر کہا اور مدینہ‬
‫بھی حرم ہے یہ بیان میرے پاس موجود ہے اگر چاہو تو پڑھ کر سنادوں۔ (مسلم‪ ، 3315:‬مجمع‬
‫الزوائد ‪)4/14‬‬

‫ٓاپ کے ٓازاد کردہ غالم اور خادم ابو رافع نے بھی ٓاپ سے حدیث لکھنے کی اجازت مانگی اور‬
‫ٓاپ نے انہیں اجازت دے دی تھی۔ ( طبقات ابن سعد جلد ‪ 4‬حصہ دوم ‪ ،‬صفحہ ‪)11:‬‬

‫رسول ہللا ﷺ نے اجازت ہی نہیں دی بلکہ ترغیب بھی دالتے تھے۔ سیدنا عبد ہللا بن عمر رضی‬
‫ہللا عنہما فرماتے ہیں کہ ٓاپ ﷺ نے فرمایا ‪:‬‬

‫’’علم کو مقید کر لو سیدنا عبد ہللا رضی ہللا عنہ نے عرض کیا کہ مقید کرنے سے ٓاپ کی مراد کیا‬
‫ہے ؟ فرمایا ’’لکھنا۔‘‘ (مجمع الزائد ‪ ،‬ص‪)152:‬‬

‫سیدنا انس رضی ہللا عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص نے شکایت کی کہ اسے احادیث یاد نہیں رہتیں‬
‫ٓاپ ﷺ نے فرمایا ’’ اپنے ہاتھ سے مدد لو یعنی لکھ لیا کرو۔‘‘ ( مجمع الزوائد ‪ ،‬ص‪)152:‬‬

‫سیدنا جابر اورسیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہم سے بھی یہی منقول ہے کہ ٓاپ نے اپنے ہاتھ سے مدد‬
‫لینے کا حکم دیا۔‘‘ (کنزالعمال ‪)5/226 ،‬‬

‫فتح مکہ کے موقع پر ٓاپ نے خطبہ دیا تو ایک یمنی صحابی ابو شاہ رضی ہللا عنہ کھڑے ہوکر‬
‫عرض کرنے لگے‬

‫اْك ُتْب ِلي َيا َرُسوَل الَّلِهﷺ‬

‫’’ مجھے بھی لکھ دو ‘‘ تو ٓاپ ﷺ نے فرمایا‬

‫اْك ُتُبوا َٔاِلِبي َشاٍه (بخاری‪112 :‬۔ مسلم‪3305 :‬۔ ابو داود‪2017 :‬۔ ترمذی‪2667 :‬۔نسائی‪)4799 :‬‬

‫’’ابو شاہ کو لکھ دو۔‘‘‬

‫صحابہ کرام رضی ہللا عنہم نے نہ صرف احادیث کو قلمبند کیا بلکہ اپنے بچوں سے کہا تھا کہ‬

‫َيا َبِنَّي َقِّيُدوا َهَذا اْلِع ْلَم (سنن الدارمی ‪ ،‬ص‪)491 :‬‬

‫’’ اے میرے بیٹو! اس علم کو مقید کر لو۔‘‘‬

‫منع کتابت والی حدیث کی صحیح تشریح ‪:‬‬

‫اَل َتْك ُتُبوا َعِّني َشْيًئا ِإاَّل اْلُقْرٓاَن (مسلم‪7510 :‬۔ ترمذی‪2665 :‬۔ شرح السنۃ ‪)1/234‬‬

‫’’ مجھ سے قرٓان کے عالوہ کچھ نہ لکھو۔‘‘‬

‫اس حدیث اور کتابت حدیث کی ترغیب واجازت والی احادیث میں بظاہر تعارض معلوم ہوتاہے کہ ایک‬
‫میں کتابت سے منع کیا ہے اور دیگر روایات میں لکھنے کی ترغیب ہے۔ ان میں کوئی تعارض نہیں‬
‫ہے صورت حال یہ تھی کہ قرٓان مجید ٓاہستہ ٓاہستہ نازل ہورہا تھا تو رسول ہللا ﷺ اس کی‬
‫توضیح فرماتے تو صحابہ احادیث اور قرٓان کو ایک جگہ لکھ لیتے تھے اس کی تائید اس بیان سے‬
‫بھی ہوتی ہے۔‬

‫َعْن َٔاِبي ُبْرَدَة ْبِن َٔاِبي ُموَسى َقاَل‪َ :‬كَتْبُت َعْن َٔاِبي ِكَتاًبا‪َ ،‬فَقاَل‪َ :‬لْو اَل َٔاَّن ِفيِه ِكَتاَب الَّلِه َٔاَلْح َر ْقُتُه (مجمع الزائد ‪)1/60‬‬

‫’’ سیدنا ابو بردہ بن ابی موسی رضی ہللا عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے ایک کتاب لکھی تو‬
‫انہوں نے کہا اگر اس میں کتاب ہللا نہ ہوتی تو میں اسے ضر ور جال دیتا۔‘‘‬

‫تو ٓاپ نے فرمایا ‪:‬‬

‫َٔاْم ِحُض وا ِكَتاَب الَّلِه َو َٔاْخ َلُص وُه (مجمع الزوائد)‬

‫’’ کتاب ہللا کو مٹادو اور اس کو خالص کرلو یعنی الگ کرلو۔‘‘‬

‫صحابہ فرماتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ لکھا ہوا تھا سب اکٹھا کرکے جالدیا یعنی خلط ملط کرکے‬
‫لکھنے سے منع کیامطلقًا منع نہیں کیا۔ جب قرٓان وحدیث کا فرق واضح ہوگیا تو ٓاپ نے صحابہ کرام‬
‫رضی ہللا عنہم کو اجازت دیدی اور صحابہ کرام نے احادیث کو قلمبند کیا۔‬

‫حافظ ابن حجر عسقالنی رحمہ ہللا نے فتح الباری میں منع کتابت والی حدیث اور اذن کتاب والی‬
‫احادیث وروایات میں تطبیق دیتے ہوئے کئی احتماالت ذکر کیے ہیں مذکورہ باال احتمال وقیع معلوم‬
‫ہوتاہے۔‬

‫اگر طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو مشہور محدث موالنا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ ہللا کے ایک‬
‫دو فقروں پر غور کیجیے‪:‬‬

‫قد ظن بعض الجهلة في هذا الزمان ٔان االحاديث النبوية لم يكن مكتوبة في عهد رسول هللا ول في عهد‬
‫الصحابة وإنما كتبت وجمعت في عهد التابعين قلت‪ :‬ظن بعض الجهلة هذا فاسد مبني علي عدم وقوفه علي‬
‫حقيقة الحال۔(مقدمة تحفة االحوذي‪ ،‬ص‪ 28:‬دار الحديث قاهرة)‬

‫’’اس زمانے کے بعض جاہل لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بےشک احادیث نبویہ نہ نبی کریم‬
‫ﷺ کے دور میں لکھی گئیں اور نہ صحابہ کے دور میں بلکہ ان کی جمع وکتابت تابعین کے‬
‫زمانے میں ہوئی۔ میں کہتا ہوں کہ بعض جھال کا یہ گمان فاسد ہے اور حقیقت حال پر عدم واقفیت پر‬
‫مبنی ہے۔‘‘‬

‫بہر حال حکم واذن کتابت کی تمام احادیث وروایات کو یکسر نظر اندازکرتے ہوئے اور سیاق وسباق‬
‫عبارت کو حذف کرتے ہوئے اور حکم کی علت پر پردہ ڈالتے ہوئے محض ’’اَل َتْك ُتُبوا َع ِّني َشْيًئا ِإاَّل‬
‫اْلُقْر ٓاَن ‘‘ کے فقرے پر ہنگامہ برپا کرنا علمی دیانت کے یکسر منافی ہے۔ وہللا اعلم بالصواب۔‬

‫سوال نمبر ‪:3‬امام بخاری اور ان کی کتاب الجامع الصحیح تعارف کرائیں۔‬

‫جواب ‪ :‬امام بخاری (محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرہ الجعفی البخاری) (‪810‬ء ‪870 -‬ء) ایک‬
‫مشہور اسالمی علماء اور حدیث نگار تھے جنہوں نے اپنی معروف کتاب "الجامع الصحیح" کی‬
‫تصنیف کی تھی۔ وہ اسالمی تہذیب کی عبادات‪ ،‬معاشرتی اصول‪ ،‬اخالقی معائن‪ ،‬اور دنیاوی مسائل‬
‫سے متعلق ہزاروں حدیثوں کا مجموعہ کرنے میں مصروف تھے۔‬
‫الجامع الصحیح" کتاب‪ ،‬جو عام طور پر "صحیح البخاری" کے نام سے جانی جاتی ہے‪ ،‬ایک بہت"‬
‫بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب امام بخاری کی حدیث کی معیاری مجموعہ ہے اور اسالمی تہذیب‬
‫کے مختلف پہلوؤں کو پرچم بنایا ہوا ہے۔‬
‫الجامع الصحیح" میں تقریبًا ‪ ۷۵۰٠‬حدیثیں شامل ہیں جن میں پیغمبر اسالم محمد صلی ہللا علیہ وآلہ"‬
‫وسلم کی ہدایتیں‪ ،‬اخالقی تعلیمات‪ ،‬فقہی مسائل‪ ،‬نماز‪ ،‬روزہ‪ ،‬حج‪ ،‬زکوۃ‪ ،‬اور دیگر عبادات کی تشریعی‬
‫تفصیالت شامل ہیں۔ اس کتاب کو اسالمی حدیثوں کی ترویج اور تصدیق کے لئے اہمیت دی جاتی ہے‬
‫اور بہت سی اسالمی فقہاء اور علماء نے اس کو حوالہ دیا ہے۔‬
‫الجامع الصحیح" کے ساتھ‪-‬ساتھ‪ ،‬امام بخاری نے دوسری کتب بھی تصنیف کی ہیں جیسے کہ"‬
‫"التاریخ الکبیر" جو تاریخی مواد پر مشتمل ہے اور "األدب المفرد" جو اخالقی معائن پر مبنی ہے۔‬
‫اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں موجود حدیثوں کی زبان اور توثیق کی پیروی کرتے ہوئے‬
‫مسلمان اپنی دینی اور زندگی کے مسائل کا حل تالش کرتے ہیں۔‬
‫‪:‬الجامع الصحیح" کی اہمیت کچھ اہم نکات پر مبنی ہے"‬
‫حدیث کی تصدیق‪ :‬اسالمی تہذیب میں‪ ،‬حدیث نبوی کی تصدیق اہم ہے تاکہ صحیح معلومات پر مبنی‬
‫عبادات اور اخالقی اصول پر عمل کیا جاسکے۔ "الجامع الصحیح" میں معتبر حدیثوں کا انتخاب کیا گیا‬
‫ہے جو اسالمی تعلیمات کی تصدیق کرتے ہیں۔‬
‫فقہی تفصیالت‪ :‬کتاب میں فقہی مسائل کی تفصیالت بھی شامل ہیں جو نماز‪ ،‬روزہ‪ ،‬زکوۃ‪ ،‬حج‪ ،‬وغیرہ‬
‫سے متعلق ہیں۔ مسلمانوں کے لئے یہ کتاب ان کی دینی روایات اور عملی معلومات کا مرجع بنتی ہے۔‬
‫اخالقی معائن‪ :‬امام بخاری نے اس کتاب میں اخالقی معائن کو بھی شامل کیا ہے جو مسلمانوں کو‬
‫اچھے اخالقی قیمتوں کی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔‬
‫علماء اور فقہاء کے لئے رہنمائی‪" :‬الجامع الصحیح" علماء اور فقہاء کے لئے ایک قیمتی ریفرنس ہے‬
‫جو ان کو اسالمی تعلیمات اور حدیث کی تشریعی تفصیالت کی روشنی میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔‬
‫تاریخی اہمیت‪ :‬کتاب میں شامل حدیثوں کے ذریعے اسالمی تاریخ کے اہم واقعات کی بھی تصدیق‬
‫ہوتی ہے۔‬
‫الجامع الصحیح" کی تشریعی اہمیت اور انسانی معاشرت میں اس کا کردار نہ صرف انجام بخشی ہے"‬
‫بلکہ اس نے مسلمانوں کو ان کی دینی تعلیمات کی صحیح سمجھ اور عمل پر النے میں مدد فراہم کی‬
‫ہے۔ اسی طرح‪ ،‬امام بخاری کی کوشیشوں نے حدیث نبوی کی تصدیق اور منظم اور تصنیفی کام کی‬
‫اہمیت کو ظاہر کیا ہے جو اسالمی علماء اور محققین کیلئے مثالی ہے‬
‫عالمی شہرت‪ :‬امام بخاری کی کتاب "الجامع الصحیح" دنیا بھر میں مشہور ہے اور اس کی تعریف‬
‫علماء‪ ،‬محققین‪ ،‬اور دینی منظر عالم کی جانی مانی ہے۔ ان کی کوشیشوں کی بدولت‪ ،‬ان کا نام اسالمی‬
‫تہذیب کے سربراہ حدیث نگارین میں شامل ہوا ہے۔‬
‫تعلیم و تربیت کا ذریعہ‪" :‬الجامع الصحیح" کتاب نے مسلمانوں کو ایک منسجم اور معقول طریقہ سے‬
‫ان کی تعلیم و تربیت کی راہ میں مدد فراہم کی ہے۔ اس کتاب کے ذریعے افراد کو ان کے دینی و‬
‫معاشرتی ذمہ واریوں کی سمجھ اور ان پر عمل کرنے کا صحیح راستہ دکھایا گیا ہے۔‬
‫مذہبی اختالفات کے حوالے سے راہنمائی‪ :‬امام بخاری کی کتاب مسلمانوں کو مذہبی اختالفات کے‬
‫بارے میں راہنمائی فراہم کرتی ہے‪ ،‬کیونکہ اس میں صحیح حدیثوں کا انتخاب کیا گیا ہے جو مختلف‬
‫مذاہب کے اقرار کے قریب قرار ہیں۔‬
‫الجامع الصحیح" اور امام بخاری کی مجموعہ کتابوں کی تعریف کرتے وقت‪ ،‬یہ ضروری ہے کہ ان"‬
‫کے کاموں کی عظیم اہمیت کا احترام کیا جائے جو اسالمی تعلیمات کو مستند اور معتبر طریقے سے‬
‫فراہم کرنے کی کوشیشوں کا نتیجہ ہیں۔ ان کی کتابیں مسلمانوں کے لئے یکم راہنمائی کے مواد کے‬
‫طور پر قدر پائی ہیں جو ان کی روحانی‪ ،‬اخالقی‪ ،‬اور دنیوی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہیں۔‬
‫تاریخی پیشہ ورانگزاری‪ :‬امام بخاری کی کتاب "الجامع الصحیح" نے ان کی تاریخی پیشہ ورانگزاری‬
‫کو بھی ثابت کیا ہے۔ ان کی محنت‪ ،‬تحقیقات‪ ،‬اور اختصاص کی بدولت وہ ایک کامیاب محقق اور‬
‫حدیث نگار بنے جن کے کاموں کی اہمیت اور قدر علماء کے لئے اباد ہوتی ہے۔‬
‫منظومیت اور تنظیم‪ :‬امام بخاری نے اپنی کتاب کو ایک منظوم اور تنظیمی طریقے سے تشکیل دیا‬
‫ہے۔ اس کی کتاب میں حدیثوں کی تفصیالت کو ایک چستی سے منظوم کیا گیا ہے جو قارئین کو ان‬
‫کی تصدیق کے لئے مدد فراہم کرتی ہے۔‬
‫اخالقی تربیت‪" :‬الجامع الصحیح" میں مختلف اخالقی مواقف اور معائن بھی شامل ہیں جو انسانوں کو‬
‫اچھے اخالق کی طرف مائل کرتے ہیں۔‬
‫علماء کے لئے رہنمائی‪ :‬امام بخاری کی کتب‪ ،‬خصوصًا "الجامع الصحیح"‪ ،‬علماء کو معتبر مراجع کی‬
‫فراہمی کرتی ہیں جن کو وہ اپنی تعلیم و تربیت کے لئے استفادہ کرسکتے ہیں۔‪1‬‬
‫امام بخاری کی کتاب "الجامع الصحیح" اور دیگر ان کی کتب کی تعریف کرتے وقت‪ ،‬ان کی محنت‪،‬‬
‫تعلیم‪ ،‬اختصاص‪ ،‬اور دینی ذمہ واری کی عظیم قدر کا احترام کرنا ضروری ہے۔ ان کی کتب نے‬
‫مسلمانوں کی روحانی‪ ،‬فکری‪ ،‬اور عملی تربیت کو ترویج دی ہے اور ان کی کوشیشوں کا اثر دنیا‬
‫بھر میں محسوس ہوتا ہے۔‪1‬‬
‫تعلیمی اہمیت‪" :‬الجامع الصحیح" اور امام بخاری کی دیگر کتب اسالمی تعلیمات کو عوام کے لئے بھی‬
‫سمجھنے اور ان کو ان کی زندگی میں عمل کرنے میں مدد فرم کرتی ہیں۔ ان کتب کو مدرسوں‪،‬‬
‫مساجدوں‪ ،‬مدرسہ نظامیں‪ ،‬اور اسالمی تعلیمی اداروں میں تعلیمی مناہج کا حصہ بنایا جاتا ہے تاکہ‬
‫نوجوان نسل کو صحیح علمی اور دینی تعلیم مل سکے۔‬
‫مسلمان امت کی تمیز اور معیار‪" :‬الجامع الصحیح" کے معتبر حدیثوں کی بنیاد پر‪ ،‬مسلمان امت کی‬
‫تمیز اور معیار کو معین کیا جاتا ہے۔ اس کتاب کی موثر تصدیق اور تشہیر کے باعث‪ ،‬مسلمانوں کی‬
‫روشنی زمینی معیار کے مطابق بلند کرنے میں مدد ملتی ہے۔‬
‫تاریخی تثبیت اور ترویج‪" :‬الجامع الصحیح" کی ترویج نے اسالمی تاریخ‪ ،‬حدیث‪ ،‬اور تعلیمات کو‬
‫علماء کی راہ میں تصدیق اور ترویج دی ہے۔ اس کتاب کے تحقیقاتی کام کے باعث‪ ،‬مسلمانوں کے دل‬
‫میں اپنے دینی اور تاریخی وراثت کی قدر و‬
‫الجامع الصحیح" اور امام بخاری کی کتابوں کی تشہیر اور ترویج کی بنیاد پر‪ ،‬اسالمی تعلیمات‪"،‬‬
‫اخالقی اصول‪ ،‬عبادات‪ ،‬اور دنیوی مسائل کو مسلمانوں کے دل و ذہن میں جگہ دینے میں کامیابی‬
‫ملتی ہے۔ ان کی کوشیشوں کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان جماعت ان کی رہنمائی اور تعلیم کے ساتھ دنیا‬
‫بھر میں اپنے اخالقی‪ ،‬دینی‪ ،‬اور علمی مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشیش کر رہی ہے۔‬
‫تحقیقی معیار‪ :‬امام بخاری کی کتب‪ ،‬خصوصًا "الجامع الصحیح"‪ ،‬تحقیقی معیار کی مثالی مثالی ہیں۔‬
‫انہوں نے حدیثوں کی تصدیق کرنے کے لئے مختلف روایات اور سندوں کا جائزہ لیا اور صحیح‬
‫حدیثوں کو منتخب کرتے وقت کثیر سند کے اصول کا خصوصی خیال رکھا۔ ان کی کتب میں ایسی‬
‫مثالی تحقیق کی موجود ہوتی ہے کہ دنیا بھر کے علماء ان کی تشریف لے کر ان کے تحقیقی اصولوں‬
‫کو پسند کرتے ہیں۔‬
‫علماء کے مابین مشہوری‪ :‬امام بخاری کی کتابوں کی تعریف اور ان کی تصدیقیں علماء کے مابین‬
‫مشہور ہیں اور ان کے نام اسالمی علمائی دائرہ کار میں المع ہیں۔ ان کے تحقیقی اور حدیث نگاری‬
‫کے قابلیتوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے مقام کو عالمی سطح پر بڑھایا گیا ہے۔‬
‫حدیث کی معیاری مجموعہ‪" :‬الجامع الصحیح" کا مقصد نوعیت اور معیار کی بنیاد پر حدیث کو‬
‫معیاری طریقے سے منتخب کرنا ہے تاکہ لوگ صحیح حدیثوں کی روشنی میں اپنے عملی اور دینی‬
‫معامالت کو حل کریں۔‬
‫مختلف موضوعات پر معلومات‪" :‬الجامع الصحیح" میں مختلف موضوعات پر حدیثوں کی معلومات‬
‫شامل ہیں جو انسانوں کو مختلف جانبداریوں کے بارے میں درست معلومات فراہم کرتی ہیں اور‬
‫صحیح دالئل کے ذریعے بال غیرتی سبائی موضوعات پر روشنی ڈالتی ہیں۔‬

‫قومی اور انسانی یکجہتی کی ترویج‪ :‬امام بخاری کی کتب نے انسانوں کو قومی اور انسانی یکجہتی‬
‫کی ترویج کی سمجھ دی ہے۔ ان کے کتب مختلف قوموں‪ ،‬زبانوں‪ ،‬اور تعلیمات کے لوگوں کے‬
‫درمیان ایک اشتراک اور ایکترجی فہم کو بڑھاتے ہیں۔‬
‫امام بخاری کی کتب کی تشہیر‪ ،‬تعریف‪ ،‬اور ترویج کے باعث‪ ،‬ان کی محنتی کوشیشوں کی اہمیت اور‬
‫ان کے کاموں کا معاشرتی‪ ،‬دینی‪ ،‬اور تعلیمی میدان میں اثر دنیا بھر میں محسوس کیا جاتا ہے۔ ان کے‬
‫کام نے امت کو دینی اور اخالقی تربیت دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ان کی کتب مسلمانوں کے‬
‫لئے ہدایتی منار ہیں جو ان کی روحانی‪ ،‬دینی‪ ،‬اور دنیوی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتی‬
‫ہیں۔‬
‫اخالقی تعالیم کی ترویج‪ :‬امام بخاری کی کتب میں اخالقی تعالیم کی بھرمار کی گئی ہے جو مسلمانوں‬
‫کو اخالقی اصولوں کا پیروی کرنے اور اچھے اخالق کو اپنانے کی راہ دکھاتی ہیں۔ ان کے کام نے‬
‫انسانیت کو بہترین اخالقی معیارات کی طرف اشارہ کیا ہے اور ان کی کتب کا مطالعہ اخالقی ترقی‬
‫کی راہ میں مدد فراہم کرتا ہے۔‬
‫معاشرتی عدالت کی ترویج‪ :‬امام بخاری کی کتب معاشرتی عدالت‪ ،‬برابری‪ ،‬اور انصاف کی ترویج‬
‫کرتی ہیں۔ ان کی تصدیق کے ذریعے مختلف تربیتی‪ ،‬اخالقی‪ ،‬اور اجتماعی موضوعات پر بھی‬
‫روشنی ڈالی جاتی ہے جو ایک عدالت پسند معاشرت کی تخلیق میں مدد فراہم کرتی ہیں۔‬
‫دینی تعلیمات کی جگہ بنانے میں مدد‪ :‬امام بخاری کی کتب مسلمانوں کو دینی تعلیمات کی سمجھ‪،‬‬
‫تصدیق‪ ،‬اور عملی انطباق میں مدد دیتی ہیں۔ ان کی کتب کے ذریعے لوگوں کو دینی معامالت کی‬
‫تشریعی تفصیالت ملتی ہیں جو ان کی روحانی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد کرتی ہیں۔‬
‫تفہیم اور ترویج کا ذریعہ‪ :‬امام بخاری کی کتب نے معنوں کی تفہیم اور دینی تعلیمات کی ترویج کا‬
‫بھرمار کیا ہے۔ ان کے کاموں نے مسلمانوں کو ان کے دینی اصولوں کی تصدیق کرنے میں مدد فراہم‬
‫کی ہے اور ان کی روحانی‪ ،‬فکری‪ ،‬اور عملی روایات کو سمجھنے میں مدد کرتی ہیں۔‬

‫دعوتی کام کی ترویج‪ :‬امام بخاری کی کتب نے دعوتی کام کی ترویج کی ہے جو دعوت کرنے والوں‬
‫کو دینی اصولوں اور تعالیم کی تصدیق کے اہمیت کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔‬

‫امام بخاری کی کتب کی تشہیر اور ترویج کے باعث‪ ،‬ان کی محنتی کوشیشوں کی اہمیت اور ان کے‬
‫کاموں کا معاشرتی‪ ،‬دینی‪ ،‬تعلیمی‪ ،‬اور دعوتی میدان میں اثر دنیا بھر میں محسوس کیا جاتا ہے۔ ان‬
‫کے کام نے مسلمانوں کو ان کے دینی اصولوں کی سمجھ‪ ،‬تصدیق‪ ،‬اور عمل پر النے میں مدد فراہم‬
‫کی ہے اور ان کی روحانی‪ ،‬دینی‪ ،‬اور دنیوی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کی ہے۔‬
‫تعلیمی اداروں کی بنیاد‪ :‬امام بخاری کی کتب کی تشہیر اور ترویج کے نتیجے میں مختلف تعلیمی‬
‫ادارے قائم کئے گئے ہیں جو دینی تعلیمات کو منظم اور موثر طریقے سے فراہم کرتے ہیں۔ ان کے‬
‫کتب کو تعلیمی مناہج کا حصہ بنایا جاتا ہے تاکہ طلباء کو دینی تعلیمات مل سکیں۔‬
‫روحانی رہنماؤں کی تربیت‪ :‬امام بخاری کی کتب نے روحانی رہنماؤں کی تربیت کے لئے بھی مواد‬
‫فراہم کی ہے۔ ان کی کتب کے ذریعے روحانی رہنماؤں کو دینی تعلیمات کی تصدیق کرنے اور ان کو‬
‫ان کی جماعت کو بہتر طریقے سے رہنمائی فراہم کرنے کا ذریعہ ملتا ہے۔‬
‫علماء کی تربیت‪ :‬امام بخاری کی کتب علماء کی تربیت کے لئے بھی قدرمندی کی مصدر ہیں۔ ان کی‬
‫کتب نے علماء کو صحیح حدیثوں کی اہمیت کو سمجھنے اور ان کو دینی مسائل کو منظم اور موثر‬
‫طریقے سے پیش کرنے کی مہارت فراہم کی ہے۔‬
‫عام لوگوں کی ترویج‪ :‬امام بخاری کی کتب نے عام لوگوں کی ترویج کے لئے بھی کام آئی ہیں۔ ان کی‬
‫کتب کے ذریعے لوگوں کو دینی تعلیمات کی سمجھ‪ ،‬تصدیق‪ ،‬اور عمل پر النے کی راہ دکھائی جاتی‬
‫ہے جو ان کی روحانی‪ ،‬دینی‪ ،‬اور معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔‬
‫اختالفات کی حل کی راہنمائی‪ :‬امام بخاری کی کتب اختالفات کی حل کی راہنمائی کرتی ہیں۔ ان کی‬
‫کتب میں مختلف موضوعات پر حدیثوں کی تفصیالت شامل ہوتی ہیں جو اختالفات کے مسائل کو حل‬
‫کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں اور انسانوں کو صحیح دالئل کے ذریعے سوچنے کی سمجھ دیتی ہیں۔‬
‫امام بخاری کی کتب کی تشہیر اور ترویج کے نتائج میں‪ ،‬مختلف میدانوں میں ترقی‪ ،‬دنیاوی اصولوں‬
‫اور دینی تعلیمات کی سمجھ‪ ،‬انسانی اخالق‪ ،‬عدالت‪ ،‬تعلیم‪ ،‬تربیت‪ ،‬دعوت‪ ،‬روحانی رہنماؤں کی‬
‫تربیت‪ ،‬علماء کی تربیت‪ ،‬عوام کی تربیت‪ ،‬اختالفات کے حل‪ ،‬اور دینی معامالت کو بہتر بنانے میں‬
‫مدد ملتی ہے۔ ان کی کتب کا مطالعہ مسلمانوں کو ان کی دنیوی اور دینی زندگی کو بہتر بنانے میں‬
‫مدد فراہم کرتا ہے اور ان کے اصولوں کی روشنی میں ان کو اپنے اہداف کی تالش کرنے میں ہدایت‬
‫کرتا ہے۔‬
‫معاشرتی اصالح کی ترویج‪ :‬امام بخاری کی کتب معاشرتی اصالح کی ترویج کرتی ہیں جو انسانوں‬
‫کو بہتر معاشرتی مواقع پیش کرنے کی راہ دکھاتی ہیں۔ ان کی کتب کے ذریعے اخالقی اصولوں کی‬
‫پیروی کرنے کی ترویج کی جاتی ہے جو معاشرتی امور کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔‬
‫دینی تفہیم کی ترویج‪ :‬امام بخاری کی کتب دینی تفہیم کی ترویج کرتی ہیں جو انسانوں کو دینی‬
‫معلومات کی درستی کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ ان کی کتب کے ذریعے لوگوں کو اپنے‬
‫دینی اعتقادات کو بہتر سے سمجھنے اور دنیاوی مسائل کو دینی روایات کی روشنی میں دیکھنے کی‬
‫صالحیت ملتی ہے۔‬
‫تعلیمی مقاصد کی ترویج‪ :‬امام بخاری کی کتب تعلیمی مقاصد کی ترویج کرتی ہیں جو طلباء کو‬
‫معیاری تعلیمی منصوبوں کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔ ان کی کتب کے ذریعے طلباء کو علمی تعلیم‬
‫کی اہمیت اور معیار کو قدر دینے کی توجہ دی جاتی ہے۔‬
‫دینی اصولوں کی سمجھ و تصدیق کی ترویج‪ :‬امام بخاری کی کتب دینی اصولوں کی سمجھ و تصدیق‬
‫کی ترویج کرتی ہیں جو مسلمانوں کو اپنے اعتقادات کی قوت کو بڑھانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ ان‬
‫کی کتب کے ذریعے لوگوں کو دینی مواقف کی سمجھ‪ ،‬تصدیق‪ ،‬اور پیروی کرنے کی توجہ دی جاتی‬
‫ہے۔‬
‫روحانی ترقی کی ترویج‪ :‬امام بخاری کی کتب روحانی ترقی کی ترویج کرتی ہیں جو انسانوں کو دینی‬
‫راہوں پر ترقی کرنے کی راہ دکھاتی ہیں۔ ان کی کتب کے ذریعے لوگوں کو روحانی تربیت‪ ،‬تقوٰی ‪،‬‬
‫اور دینی پیشہ ورانہ ترقی کی سمجھ دی جاتی ہے۔‬
‫امام بخاری کی کتب کی تشہیر اور ترویج کے نتائج میں‪ ،‬معاشرتی اصالح‪ ،‬دینی تفہیم‪ ،‬تعلیمی مقاصد‪،‬‬
‫دینی اصولوں کی سمجھ و تصدیق‪ ،‬روحانی ترقی‪ ،‬اور دعوت کی ترویج کی جاتی ہے۔ ان کی کتب‬
‫کے مطالعے سے انسانوں کی دنیاوی اور دینی زندگی کو بہتر بنانے کی راہ میں رہنمائی ملتی ہے‬
‫اور ان کے اصولوں کی روشنی میں ان کو اپنے مقاصد کی پیروی کرنے کی توجہ حاصل ہوتی ہے۔‬

‫سوال نمبر ‪4 :‬علم روایت پر لکھی گئی ؎چوتھی صدی کی مشہور کتابوں کا تعارف کرائیں۔‬
‫جوابَ ‪ :‬کتاب’ رواۃ الحدیث‘ کا تعارف‬
‫جامعہ اسالمیہ مدینہ منورہ میں کلیۃ الحدیث کے نصاب میں ’ رواۃ الحدیث‘ کے نام سے ایک ’مادہ‘‬
‫مقرر ہے۔ ہم نے یہ موضوع کلیہ کے مایہ ناز استاد دکتور عواد رویثی حفظہ ہللا سے پڑھا‪ ،‬اس وقت‬
‫انہوں نے اپنا ایک مذکرہ دیا تھا‪ ،‬لیکن بعد میں یہی ’نوٹس‘ ایک مکمل کتاب کی شکل میں طباعت‬
‫پذیر ہوئے۔‬
‫زیر نظر تحریر میں اسی کتاب کا تعارف مقصود ہے۔‬
‫جیسا کہ کتاب کے نام ’رواۃ الحدیث‘ سے ظاہر ہے کہ اس میں ’راویاِن حدیث‘ سے متعلقہ مباحث کا‬
‫‪:‬ذکر ہے۔ مضامینِ کتاب درج ذیل ترتیب پر ہیں‬
‫سب سے پہلے مقدمہ اور پھر تمہید ہے‪ ،‬جس میں اصول حدیث کی بجائے ’علم اإلسناد‘ کی اصطالح‬
‫استعمال کی گئی ہے‪ ،‬پھر ’سند‘ کی تعریف‪ ،‬اہمیت اور ’سند‘ کے استعمال کی ابتدا کے متعلق‬
‫معلومات ہیں‪ ،‬ابن سیرین کے مشہور قول‪" :‬لم يكونوا يسألون عن اإلسناد فلما وقعت الفتنة‪ ،‬قالوا‪ :‬سموا‬
‫لنا رجالكم‪ "...‬کی شاندار تشریح ہے‪ ،‬اور اس حوالے سے مستشرقین کے شبہات و اعتراضات کا‬
‫شافی رد ہے۔‬
‫تمہید کے دوسرے حصے میں ’رواۃ الحدیث‘ کو ’ علم اإلسناد‘ کی ایک قسم اور فرع کے طور پر‬
‫ذکر کرکے‪ ،‬اس کی تعریف‪ ،‬اس سے متعلق محدثین کے اہتمام اور تصنیفات کی ابتدا کا ذکر ہے۔‬
‫رواۃ سے متعلق کتب کا تعارف‬
‫اس باب کا مقصد پانچویں صدی ہجری تک راویاِن حدیث سے متعلق کتابوں کا تعارف ہے‪ ،‬جبکہ یہ‬
‫سات فصول پر مشتمل ہے۔‬
‫پہلی فصل‪ :‬تعارف صحابہ‬
‫سلسلہ رواۃ کی سب سے افضل کڑی صحابہ کرام ہیں‪ ،‬پہلی فصل انہیں سے متعلق ہے‪ ،‬جس کا عنوان‬
‫ہے‪’ :‬صحابہ سے متعلق کتابیں‘۔‬
‫اس فصل کی تمہید میں صحابی کی تعریف‪ ،‬صحابیت کا ثبوت‪ ،‬طبقات صحابہ‪ ،‬عدالت صحابہ وغیرہ‬
‫کے حوالے سے اہل سنت کے موقف اور بعض اہل بدعت کی آراء کا بیان ہے‪ ،‬اسی طرح مکثرین‬
‫صحابہ کا ذکر اور حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ سے متعلق شبہات واعتراضات کی تردید کی گئی‬
‫ہے۔‬
‫اس فصل کا مرکزی مضمون صحابہ کے تعارف پر لکھی گئی کتب کا عمومی ذکر‪ ،‬جبکہ دو کتابوں‬
‫االستیعاب البن عبد البر اور اإلصابہ البن حجر کا تفصیلی تعارف ہے۔‬
‫دوسری فصل‪ :‬کتِب طبقات‬
‫محدثین کے ہاں راویان کی ترتیب میں مختلف مناہج میں سے ایک منہج طبقاتی تقسیم کا بھی ہے‪ ،‬لہذا‬
‫‪:‬اس فصل میں اس حوالے سے لکھی گئی کتابوں کا ذکر اور تین کتابوں کا تفصیلی تعارف ہے‬
‫الطبقات البن سعد‪ ،‬الطبقات از خلیفہ خیاط اور المعین فی طبقات المحدثین از حافظ ذہبی‬
‫اس سے پہلے تمہیدی مباحث کے طور پر ’ علم الطبقات‘ کی تعریف‪ ،‬اہمیت اور اس سلسلے میں‬
‫مصنفین کے مختلف مناہج کا ذکر ہے۔‬
‫تیسری فصل‪ :‬کتِب جرح وتعدیل‬
‫یہاں جرح وتعدیل کا معنی ومفہوم‪ ،‬مشروعیت‪ ،‬جارح و معدل کی صالحیت و اہلیت اور علم جرح و‬
‫تعدیل کی اہمیت و فضیلت کا بیان ہے۔‬
‫بعد میں جرح و تعدیل کی کتابوں کا عمومی ذکر کرکے چار کتابوں کا تفصیلی تعارف پیش کیا گیا‬
‫‪:‬ہے‬
‫التاریخ الکبیر للبخاری‪ ،‬الجرح والتعدیل البن أبی حاتم‪ ،‬الثقات البن حبان اور الکامل البن عدی۔‬
‫چوتھی فصل‪ :‬تاریِخ بلدان سے متعلق کتابیں‬
‫اس میں تاریخ بلدان سے مراد کیا ہے؟ اس میں تصنیف و تالیف کی سوچ کب کیسے پیدا ہوئی؟ کے‬
‫بیان کے بعد اس کے متعلق کتابوں کا ذکر ہے‪ ،‬اور آخر میں ’تاریخ بغداد للخطیب‘ کا تفصیلی تعارف‬
‫پیش کیا گیا ہے۔‬
‫پانچویں فصل‪:‬پھر پانچویں فصل کنیت‪ ،‬اور القاب و انساب سے متعلق ہے‪ ،‬جس میں تمہیدی مباحث‬
‫کے عالوہ کنیت سے متعلق "الكنى واألسماء للدوالبي"‪ ،‬القاب سے متعلق "نزهة األلباب البن حجر"‬
‫اور انساب سے متعلق " األنساب للسمعاني" کا تفصیلی تعارف ہے۔‬
‫اسی فصل کا دوسرا حصہ ملتے جلتے اسماء و القاب وغیرہ کی پہچان سے متعلق ہے‪ ،‬جس میں‬
‫مؤتلف و مختلف‪ ،‬متفق و مفترق اور مشتبہ کی وضاحت ‪ ،‬اس سلسلے میں لکھی گئی کتابوں کا‬
‫عمومی ذکر ہے‪ ،‬جبکہ "اإلكمال البن ماكوال" اور "المتفق والمتفرق للخطيب" اور "تبصير المنتبه" كا‬
‫تفصیلی تعارف ہے۔‬
‫چھٹی فصل میں راویان کی تاریخ وفات کے متعلق کتابوں اور معاجم الشیوخ کا ذکر ہے‪ ،‬اور علم‬
‫الرواۃ کی اس قسم کی اہمیت کا بیان ہے۔‬
‫ساتویں فصل‪ :‬مخصوص کتِب حدیث کے رواۃ کا تعارف‬
‫محدثین نے بعض کتابوں کے راویوں اور رجال کے تعارف پر مخصوص کتب بھی تصنیف فرمائی‬
‫ہیں‪ ،‬یہاں ان کتابوں کا تذکر ہے‪ ،‬جبکہ اس ضمن میں لکھی گئی چار اہم کتابوں یعنی ’تہذیب الکمال‬
‫للمزی‘‪ ،‬الکاشف للذہبی‘ اور ابن حجر ’ التہذیب‘ اور ’التقریب‘ کا تفصیلی تعارف ہے۔‬
‫یوں کتاب کا پہال باب مکمل ہوتا ہے‪ ،‬ویسے اس باب کی شرط یہ تھی کہ پانچویں صدی تک کی‬
‫کتابوں کا ذکر ہوگا‪ ،‬لیکن اہمیت کے پیش نظر ساتویں فصل اور اس سے پہلے بعض کتابیں چھٹی‪،‬‬
‫ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کی بھی ذکر کردی گئی ہیں۔‬
‫باب دوم‪ :‬رواۃ سے متعلق خاص اصطالحات‬
‫یہ مکمل باب جن مباحث و مضامین پر مشتمل ہے‪ ،‬ان سب کو اس فن کا کوئی متخصص ہی سمجھ‬
‫سکتا ہے‪ ،‬ورنہ عام شخص جو اس علم سے بے بہر ہ ہے‪ ،‬اس کے نزدیک یہ مضامین کسی طلسم و‬
‫تعویذ کو پڑھنے کے مترادف ہیں۔ اس باب کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ محدثین نے فن حدیث اور‬
‫جرح و تعدیل اور علم الرواۃ میں کس کس انداز سے داِد تحقیق دی ہے۔‬
‫اس باب کے مضامین (‪ )15‬فصلوں میں منقسم ہیں۔‬
‫پہلی فصل‪ :‬رواية األكابر عن األصاغر یعنی بڑوں کی چھوٹوں سے روایت کی پہچان‬
‫عموما یہ ہوتا ہے کہ چھوٹا بڑے سے روایت کرتا ہے‪ ،‬لیکن بعض دفعہ ایسے بھی ہوتا ہے کہ بڑے‬
‫لوگ چھوٹوں سے روایت کرتے ہیں‪ ،‬اور یہ حاالت و استثناءات محدثین نے اس فن کی کتابوں میں‬
‫خوب کھول کر بیان کردیے ہیں‪ ،‬تاکہ کوئی جاہل اور سطحی نظر واال یہ نہ کہہ دے کہ سند میں‬
‫غلطی یا تقدیم و تاخیر ہوگئی ہے۔ منکرین حدیث پتہ نہیں کن وادیوں میں گم رہتے ہیں‪ ،‬ذرا ان‬
‫باریکیوں کو دیکھیں تو انہیں اندازہ ہو کہ وہ انکار حدیث میں مبتال ہو کر اس عظیم الشان فن پر کس‬
‫قدر الیعنی اعتراضات کرنے پر اتر آئے ہیں۔‬
‫نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا حدیث جساسہ کو تمیم داری رضی ہللا عنہ سے بیان کرنا‪ ،‬سائب بن‬
‫یزید رضی ہللا عنہ کا " من نام عن حزبه‪ "...‬والی روایت کو ایک تابعی عبد الرحمن القارّی سے بیان‬
‫کرنا‪ ،‬اسی طرح ابن شہاب زہری وغیرہ کا مالک سے بیان کرنا یہ اس قسم کی مثالیں ہیں۔ اور محدثین‬
‫کی اس موضوع سے متعلق درجن کے قریب کتابیں ہیں۔‬
‫اس کے بعد دو فصلوں میں روایۃ اآلباء عن االبناء اور روایۃ األبناء عن اآلباء کا ذکر ہے۔‬
‫جیساکہ حضرت عباس نے اپنے بیٹے فضل سے روایت بیان کی‪ ،‬حضرت عمر نے اپنے صاحبزادے‬
‫عبد ہللا سے روایت کی۔ رضی ہللا عنہم اجمعین۔‬
‫اسی طرح عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ‪ ،‬بہز بن حکیم عن أبیہ عن جدہ‪ ،‬طلحۃ بن مصرف بن‬
‫عمرو بن کعب عن أبیہ عن جدہ دوسری قسم کی مثالیں ہیں۔‬
‫چوتھی فصل‪ :‬ہم عمر لوگوں کی روایت کی پہچان‬
‫اسے علمی اصطالح میں روایۃ األقران اور المدبج جیسے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے‪ ،‬عموما یہ ہوتا‬
‫ہے کہ مختلف ساتھی مل کر اپنے شیخ سے روایت کرتے ہیں‪ ،‬لیکن بعض دفعہ ایسے بھی ہوتا ہے ہم‬
‫عصر اور ساتھی راوی ایک دوسرے بھی روایت کرلیتے ہیں‪ ،‬محدثین نے ان باریکیوں کی بھی‬
‫صراحت کر رکھی ہے ۔ پھر اس میں مزید تفصیل ہے‪ ،‬اگر دونوں ساتھی ایک دوسرے سے بیان‬
‫کریں‪ ،‬تو اس کا نام اور ہے‪ ،‬اور اگر دونوں میں سے صرف ایک ہی دوسرے سے بیان کرے‪ ،‬لیکن‬
‫دوسرا پہلے سے بیان نہ کرے تو اس کا نام اور ہے ۔ پہلی صورت کو ’مدبج‘ اور دوسری کو ’ غیر‬
‫مدبج‘ کہا جاتا ہے۔‬
‫حضرت عائشہ اور ابو ہریرہ رضی ہللا عنہما کا ایک دوسرے سے روایت کرنا‪ ،‬مالک و اوزاعی کا‪،‬‬
‫اسی طرح احمد بن حنبل اور علی بن المدینی کا ایک دوسرے سے روایت کرنا اس کی مثال ہے۔‬
‫جو لوگ کتب حدیث سے اسانید دیکھتے ہیں‪ ،‬وہ اس کے فائدے کو سمجھ سکتے ہیں کہ اس کی‬
‫معرفت سے سند میں لگنے والی بعض غلطیوں سے انسان محفوظ رہتا ہے ۔‬
‫امام مسلم‪ ،‬دارقطنی‪ ،‬ابن الجوزی اور ابن حجر وغیرہ کی اس حوالہ سے مستقل تصنیفات ہیں۔‬
‫پانچویں فصل ’معرفۃ األخوۃ واألخوات‘ یعنی بہن بھائیوں کی پہچان سے متعلق ہے‪ ،‬اس کی معرفت‬
‫سے بھی انسان کئی ایک غلطیوں سے بچ سکتا ہے‪ ،‬مثال مشہور راوی ہیں ہمام بن منبہ‪ ،‬لیکن انہیں‬
‫کے ایک بھائی ہیں‪ ،‬وہب بن منبہ‪ ،‬دونوں کا علم ہوگا‪،‬تو جب دوسرے کی روایت آئے گی‪ ،‬تو یہ نہیں‬
‫کہا جائے گا کہ محدث کو نام لینے میں غلطی لگ گئی ہے‪ ،‬کہنا ہمام بن منبہ تھا‪ ،‬کہہ دیا وہب بن منبہ‬
‫۔ وغیرہ۔‬
‫اس میں بھی درجنوں مستقل تصانیف ہیں۔‬
‫اس کے بعد کی فصول میں بھی اس قسم کی باریکیوں کا ذکر اور ان سے متعلق کتب کا تعارف‬
‫موجود ہے‪ ،‬مثال وہ راوی جن سے صرف ایک ہی راوی روایت کرتا ہے‪ ،‬وہ راوی جنہوں نے‬
‫صرف ایک حدیث ہی بیان کی ہے‪ ،‬وہ نام یا کنیت جو صرف ایک راوی کی ہی ہے‪ ،‬اسی طرح اسانید‬
‫میں بعض دفعہ ’رجل‪ ،‬شیخ‘ جیسے الفاظ آجاتے ہیں‪ ،‬اسی طرح بعض دفعہ ’عبد ہللا‪ ،‬عبد الرحمن‘‬
‫جیسے مشہور و کثیر االستعمال نام آجاتے ہیں‪ ،‬ایسی صورت میں راوی کی پہچان کیسے ہوگی‪ ،‬اسی‬
‫طرح ایک ہی راوی سے روایت کرنے والے دو شخص ہیں‪ ،‬لیکن دونوں کی عمروں میں پچاس سال‬
‫کا فرق ہے‪ ،‬ان حاالت کی بھی تفصیل ہے۔ احمد ابن حجر میں محدث آپ کو بتائے گا کہ حجر احمد کا‬
‫والد نہیں بلکہ یہ اس کی پشت میں کسی اور کا نام ہے‪ ،‬أبو مسعود البدری کے لقب کی توضیح محدث‬
‫کرے گا کہ بدر میں شریک نہ ہونے کے باوجود انہیں بدری کیوں کہا جاتا ہے؟ راوی ثقہ ہے‪ ،‬لیکن‬
‫لوگوں میں وہ عبد ہللا الضعیف کے نام سے کیوں مشہور ہے؟ صحیح العقیدہ شخص کو معاویۃ الضال‬
‫کیوں کہا گیا؟ چار چار ناموں کے متعلق محدثین آپ کو بتائیں گے کہ یہ ایک ہی شخصیت کے مختلف‬
‫نام تھے۔‬
‫ان تمام فصول کو دیکھ کر محدثین کی باریک بینی اور حفاظت سنت میں احتیاط کا اندازہ کیا جاسکتا‬
‫ہے ۔‬
‫میں اسی لیے عرض کرتا ہوں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر منہ پھاڑ کر حدیث کو خالف عقل یا جھوٹ یا‬
‫گستاخی قرار دینا آسان کام ہے‪ ،‬لیکن اس کی تحقیق و تفتیش کے اصول و وضابطے سمجھنے کے‬
‫لیے پوری کی پوری عمریں درکار ہیں۔‬
‫باب سوم‪ :‬طبقاتِ رواۃ‬
‫راویاِن حدیث میں کچھ لوگ ایسے ہیں‪ ،‬جن سے پانچ دس لوگ روایت کرنے والے ہیں‪ ،‬جن سے آٹھ‬
‫دس احادیث مروی ہیں‪ ،‬لیکن کچھ ایسے ہیں‪ ،‬جن کے تالمذہ کی فہرست سینکڑوں پر مشتمل ہے‪ ،‬ان‬
‫کی احادیث کی تعداد ہزاروں میں ہے‪ ،‬ایسی صورت حال کے لیے ’علم طبقات الرواۃ‘ معرض وجود‬
‫میں آیا۔‬
‫مشہور اور کبار راویاں حدیث‪ ،‬ائمہ ومحدثین کو جمع کیا گیا‪ ،‬ان سے روایت کرنے والے سیکڑوں‬
‫ہزاروں لوگوں کی درجہ بندیاں کی گئیں‪ ،‬بعض کی عمر کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا‪ ،‬بعض‬
‫کے تالمذہ کو اس کے علمی اسفار کی روشنی میں ترتیب دیا گیا‪ ،‬تاکہ معلوم ہو کہ کسی نے کوئی‬
‫روایت کسی شیخ سے کس حالت ‪ ،‬ماحول اور عالقے میں سنی ہے ۔ ایک ہی امام اور محدث نے جب‬
‫مختلف لوگ مختلف باتیں بیان کریں گے‪ ،‬تو ترجیح کس کی بات کو ہوگی؟ مصنف نے تیسرے باب‬
‫میں ان سب باریکیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔ علل الحدیث کے باب میں بھی اس کی بہت اہمیت‬
‫ہے ۔ علی بن مدینی‪ ،‬احمد بن حنبل‪ ،‬ابو حاتم الرازی‪ ،‬ابو زرعۃ الرازی‪ ،‬امام بخاری‪ ،‬امام نسائی‪،‬‬
‫دارقطنی وغیرہ جنہیں ائمہ علل کہا جاتا ہے‪ ،‬یہ سب باریکیاں ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا کرتی‬
‫تھیں تو یہ ’ائمہ علل‘ کہالئے۔‬
‫صحابہ میں کثرت تالمذہ میں عبد ہللا بن مسعود‪ ،‬عبد ہللا بن عباس اور زید بن ثابت رضی ہللا عنہم‬
‫مشہور ہوئے‪ ،‬پھر بعد میں مدینہ میں ابن شہاب زہری ہوئے‪ ،‬مکہ میں عمرو بن دینار‪ ،‬بصرہ میں‬
‫قتادۃ بن دعامہ اور یحیی بن أبی کثیر‪ ،‬کوفہ میں سبیعی اور اعمش کے گرد طلبہ امڈ امڈ کر آنے‬
‫لگے‪ ....‬پھر بعد میں ان کے شاگردوں میں پھر ان کے شاگردوں میں‪ .....‬اس طرح آخر تک یہ سلسلہ‬
‫جاری رہا۔ اور ہر زمانے کے محدثین نے ان جلیل القدر شخصیات کے شاگردوں اور تالمذہ کو‬
‫مختلف اعتبار سے تقسیم کیا‪ ،‬اور یہی علم الطبقات کہالیا۔‬
‫لیکن ہم اس دور سے گزر رہے ہیں‪ ،‬جہاں ایک طرف تو الحمدہلل محدثین کی جہود کو نمایاں کرنے‬
‫والے لوگ ہیں‪ ،‬لیکن دوسری طرف ایسے ظالم و جاہل بھی ہیں‪ ،‬جو ان باتوں کو سمجھنے کی بجائے‬
‫بالکل ویسے ہی جملے بازی کرتے ہیں‪ ،‬جو دور نبوت کے مکذبین و منکرین کیا کرتے تھے‪ " ،‬وإذ‬
‫لم يهتدوا به فسيقولون هذا إفك قديم" کہ جب ان کی عقلوں میں یہ عظیم الشان علم اور فن نہیں آئے گا‬
‫تو یہ اس کی تکذیب و انکار کرنا شروع کردیں گے۔‬
‫کتابوں کے تعارف میں مصنف کا منہج‬
‫مصنف کا منہج یہ ہے کہ ہر موضوع سے متعلق کئی ایک کتابوں کا عمومی تذکرہ کرتے ہیں‪ ،‬اور‬
‫بعض کتابوں کا خصوصی تعارف‪ ،‬جن کتابوں کا صرف ذکر ہے‪ ،‬ان کی تعداد تو سیکڑوں ہے‪ ،‬البتہ‬
‫جن کتابوں کا تفصیلی تعارف ہے‪ ،‬ان کی تعداد دو درجن کے قریب ہے۔ کتاب کے تعارف میں جن‬
‫چیزوں کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے‪ ،‬مصنف نے ان نکات کا ابتدا میں ذکر کیا ہے کہ کسی بھی‬
‫‪:‬کتاب سے کما حقہ استفادہ کے لیے درج ذیل دس امور مد نظر رکھنے چاہییں‬
‫کتاب کا عنوان یعنی نام‪ ،‬جو کہ کتاب کی اصل پہچان ہوتا ہے ۔ )‪(1‬‬
‫مؤلف کتاب کی پہچان‪ ،‬جس سے کتاب کی علمی قیمتی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ )‪(2‬‬
‫کتاب کا موضوع کہ یہ کس فن اور اور اس کی کس قسم میں ہے ۔ )‪(3‬‬
‫کتاب کی قدر و منزلت‪ ،‬جو کہ علما کی تعریف و توصیف‪ ،‬کتاب کی طرف ان کی توجہ اور )‪(4‬‬
‫اعتماد سے معلوم ہوتی ہے‪ ،‬اسی طرح کتاب کے مصادر اور مؤلف کی قدر ومنزلت بھی کتاب کے‬
‫علمی قد کاٹھ میں اضافہ کا باعث بنتی ہے ۔‬
‫کتاب کی ترتیب کا معلوم ہونا ضروری ہے۔ تاکہ اس سے استفادہ کرنا آسان ہو۔ )‪(5‬‬
‫یہاں مصنف نے ترتیب کتاب سے متعلق بہت مفید علمی نکات بیان کیے ہیں‪ ،‬مثال‪ :‬کتاب کی ترتیب‬
‫میں علما کے کئی ایک طریقے ہیں‪ ،‬بعض حروف تہجی کے اعتبار سے مرتب کرتے ہیں‪ ،‬بعض‬
‫طبقات پر‪ ،‬بعض عالقوں اور شہروں کی ترتیب سے‪ ،‬بعض قبائل وغیرہ کی نستبوں کے اعتبار سے‪،‬‬
‫بعض تاریخ وفات کے لحاظ۔ بعض طریقوں میں مزید تفصیالت ہیں‪ ،‬مثال حروف تہجی پر مرتب‬
‫کتابوں میں بھی فرق ہے‪ ،‬کیونکہ متقدمین عموما نام یا کنیت ولقب میں سے صرف پہلے لفظ کا خیال‬
‫رکھتے ہیں‪ ،‬جیسا کہ بخاری و ابن ابی حاتم وغیرہ‪ ،‬جبکہ متاخرین جیسا کہ مزی‪ ،‬ذہبی و ابن حجر‬
‫وغیرہ ہر ہر لفظ کا آخر تک خیال رکھ کر ترتیب لگاتے ہیں‪ ،‬اسی طرح مشرقی حروف تہجی کی‬
‫ترتیب اور مغربی حروف تہجی کی ترتیب میں بھی فرق ہے‪ ،‬یہاں حروف تہجی کی ترتیب کی بعض‬
‫مفید تفصیالت بھی مذکور ہیں۔‬
‫مؤلف کتاب کا منہج معلوم ہونا ضروری ہے‪ ،‬بعض دفعہ مؤلف خود بیان کردیتے ہیں‪ ،‬بعض دفعہ )‪(6‬‬
‫کوئی اور محدث اس کا ذکر کرتا ہے‪ ،‬ورنہ خود کتاب کے استقراء سے معلوم کرنا پڑتا ہے ۔‬
‫کتاب کے مصادر و موارد معلوم ہونا ضروری ہیں‪ ،‬جیساکہ گزرا کہ اس سے کتاب کی قدر و )‪(7‬‬
‫منزلت کے تعین اور نصوص کی توثیق میں مدد ملتی ہے ۔‬
‫دیگر علما کا کتاب کے ساتھ اہتمام اور توجہ جسے عموما’ عنایۃ العلماء بالکتاب‘ کے عناوین )‪(8‬‬
‫سے ذکر کیا جاتا ہے ۔ اس عنایت و اہتمام کی بھی مختلف شکلیں ہیں‪ ،‬مثال کسی کتاب کو مرتب کرنا‪،‬‬
‫شرح کرنا‪ ،‬اختصار و تہذیب کرنا‪ ،‬سماع و اجازہ اور نسخ وغیرہ‪ ،‬یہ سب اہتمام کی ہی مختلف شکلیں‬
‫ہیں۔‬
‫کتاب پر اعتراضات و انتقادات معلوم کرنا بھی ضروری ہے‪ ،‬کیونکہ بعض کتابوں پر دیگر علما )‪(9‬‬
‫کے ملحوظات و تحفظات ہوتے ہیں۔‬
‫کتاب کی طبعات کا تعارف بھی اہم ہے‪ ،‬تاکہ طالب علم اچھے اور بہترین طبعہ سے استفادہ )‪(10‬‬
‫کرے۔ لیکن مصنف کے نزدیک اس حوالے سے مختلف طبعات کو جمع کرنے میں وقت اور پیسہ‬
‫صرف کرنا‪ ،‬پھر ان میں کیڑے نکالنا‪ ،‬یہ کوئی زیادہ مفید کام نہیں۔ کوشش کرکے ایک طبعہ اختیار‬
‫کرلینا چاہیے‪ ،‬اور بقیہ سے بوقت ضرورت استفادہ کرلیا جائے۔‬
‫‪:‬اب بطور نمونہ مشہور زمانہ کتاب ’تقریب التہذیب‘ کے تعارف سے بعض نکات پیش خدمت ہیں‬
‫کتاب کےعنوان اور مصنف کے نام کو دو سطروں میں بیان کردیا گیا ہے‪ ،‬پھر موضوع کتاب کو ابن‬
‫حجر کی زبانی ہی بیان کیا کہ یہ تہذیب التہذیب کا اختصار ہے‪ ،‬اس کے لیے مصنف نے تعجیل‬
‫المنفعۃ وغیرہ سے بھی معلومات نقل کی ہیں۔‬
‫علمی قدر ومنزلت‪ :‬تقریب کی علمی قدر ومنزلت کو ‪ 9‬نکات میں واضح کیا گیا ہے۔ مثال یہ کہ اس‬
‫کے مؤلف بہت بلند ترین شخصیت ہیں‪ ،‬یہ مصنف کی فنی اور علمی زندگی کا نچوڑ اور خالصہ ہے‪،‬‬
‫مختصرات میں اس سے بہتر کتاب موجود نہیں‪ ،‬کتاب مختصر ہونے کے ساتھ جامع ہے‪ ،‬علما کے‬
‫ہاں اسے شہرت و تلقی حاصل ہے‪ ،‬اور اس کثیر تعداد میں خطی نسخے ہیں‪ ،‬مؤلف گو ‪827‬ھ میں‬
‫اس کی تالیف سے فارغ ہوچکے تھے‪ ،‬لیکن ‪850‬ھ یعنی وفات سے دو سال قبل تک اس کی تحریر و‬
‫تدقیق اور نظرثانی میں مصروف رہے۔‬
‫پھر منہج مؤلف اور تالیف کی غرض و غایت کو ابن حجر کے الفاظ میں ہی نقل کرنے کے بعد نکات‬
‫کی شکل میں منہج مؤلف کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔‬
‫اس کے بعد ابن حجر کے بیان کردہ ’مراتب الجرح والتعدیل‘ اور ’ طبقات الرواۃ‘ پر نفیس تعلیقات و‬
‫توضیحات ہیں‪ ،‬جو بعض باحثین کے نزدیک اسی کتاب کا خاصہ ہیں‪ ،‬کہیں اور یہ تفصیالت نہیں‬
‫ملتیں۔‬
‫طبعات کے ذکر میں لکھنو کے طبعہ حجریہ کو قدیم طبعات میں افضل قرار دیا‪ ،‬اور جدید طبعات میں‬
‫محمد عوامہ اور شیخ ابو االشبال مرحوم کے طبعہ کو افضل قرار دیا۔ اس کے عالوہ کئی ایک طبعات‬
‫اور علمی بحوث و دراسات کا ذکر کیا‪ ،‬جو ابن حجر کی تقریب یا منہج یا تعقبات و استدراکات پر‬
‫مشتمل ہیں۔ ایک بہت اہم کتاب جس کا یہاں ذکر نہیں‪ ،‬وہ ہے ‪ :‬تحفة اللبيب بمن تكلم فيهم الحافظ ابن‬
‫حجر من الرواة في غير «التقريب»‪ ،‬شیخ مقبل بن ہادی الوادعی کے کسی شاگرد کی طرف جمع کردہ‪،‬‬
‫بہت نفیس کتاب ہے‪ ،‬راویوں کے متعلق ابن حجر کی تمام کتابوں سے ’احکام‘ جمع کردیے گئے ہیں۔‬
‫بہر صورت شیخ عواد کا تقریب کا تفصیلی و علمی تعارف الئق مطالعہ ہے‪ ،‬کبھی تقریب کا تعارف‬
‫لکھنے کا موقعہ مال تو اس کے نکات پیش کروں گا۔ ان شاءہللا۔ زیر نظر تحریر تقریب کے نہیں‪ ،‬بلکہ‬
‫’رواۃ الحدیث‘ کے تعارف پر مشتمل ہے۔‬
‫کتاب ’رواۃ الحدیث ‘سے حاصل شدہ نتائج‬
‫‪:‬مصنف نے آخر میں اس طویل کتاب سے حاصل شدہ نتائج کو درج ذیل نکات میں بیان کیا ہے‬
‫ہللا تعالی نے اس دین کو محفوظ کیا‪ ،‬اور اس کے لیے ایسے لوگوں کو توفیق دی ہے‪ ،‬جنہوں نے )‪(1‬‬
‫دن رات اس کے لیے محنتیں اور کوششیں کی ہیں‪ ،‬چاہے وہ قرآن سے متعلق ہوں یا حدیث کے‬
‫متعلق۔‬
‫اسناد اس امت کی خصوصیات میں سے ایک ہے‪ ،‬نہ صرف محدثین نے اس سے دین کو محفوظ )‪(2‬‬
‫کیا‪ ،‬بلکہ دیگر علوم وفنون اور دیگر ادیان و ملل بھی اس سے تاثر لیے بغیر نہ رہ سکے۔‬
‫اسناد سے متعلق علم رواۃ الحدیث جیسا جلیل القدر علم علمائے اہل حدیث کے مفاخر و مآثر میں )‪(3‬‬
‫شمار ہوتا رہے گا۔‬
‫علم الرواۃ ایک طویل و دقیق علم ہے‪ ،‬اسی لیے اس سے متعلق مصنفات سے مکتبوں کے مکتبے )‪(4‬‬
‫بھرے ہوئے ہیں۔‬
‫علم الرواۃ مختلف مراحل سے گزرا ہے‪ ،‬مختلف زمانوں میں اس کی خدمت مختلف انداز سے )‪(5‬‬
‫ہوتی رہی ہے۔‬
‫کئی ایک زمانوں میں ’راویاِن حدیث‘ بالخصوص صحابہ کرام اور مکثرین رواۃ کو طعن وتشنیع )‪(6‬‬
‫کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے‪ ،‬تاکہ ان سے مروی شدہ روایات و احادیث اور سنتوں کے متعلق شکوک و‬
‫شبہات کو ہوا دی جائے‪ ،‬لیکن طاعنین و ظالمین مر مٹ گئے‪ ،‬جبکہ راویان حدیث صحابہ و غیر‬
‫صحابہ آج بھی قدر و منزلت کی اوج ثریا پر موجود ہیں اور رہیں گے‪ ،‬جبکہ حاسدین و فتنہ پروروں‬
‫کی ناک ہمیشہ خاک آلود ہوتی رہے گی ۔‬

‫ن‬ ‫تف‬ ‫ن‬


‫ک‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫ص‬ ‫خ ت ت‬
‫سوال مب ر ‪5:‬۔ ب ر م وا ر پر لی وٹ ھی ں۔‬
‫خ ت ت‬
‫ج واب‪ :‬ب ر م وا ر ۔ اصطالح حدیث میں ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کے بیان کرنے والوں (راویوں)‬
‫کی تعداد ہرزمانے میں اتنی کثیر ہو کہ ان کا آپس میں جھوٹ پر اتفاق کرلینا عقًال وعادتًا محال ہو‬
‫‪:‬یعنی کوئی حدیث اس وقت تک متواتر نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس میں یہ شرائط نہ پائی جاتی ہوں‬
‫اسے روایت کرنے والے کثیر تعداد میں ہوں (اس میں اختالف ہے کہ کم ازکم کتنی تعداد ہونی )‪(۱‬‬
‫چاہیے)۔‬
‫یہ وصف (کثرت تعداد) ابتداء سے انتہاء تک ہرزمانے میں ہو۔ )‪(۲‬‬
‫اس روایت کو ُرواة ایسی ِح ّسی مشاہدے کے طور پر بیان کریں مثًال یہ کہیں کہ ہم نے سنا ہے یا )‪(۳‬‬
‫ہم نے دیکھا ہے محض اپنی عقل سے قیاس آرائی کرکے بیان نہ کریں۔ متواتر کی دو قسمیں ہیں‪:‬‬
‫لفظی ومعنوی۔ تواتر کی مثال یہ حدیث ہے‪ :‬من کذب علّي متعمًدا فلیتبوأ مقعدہ من النار اور مسح علی‬
‫․الخفین کی روایت وغیرہما‬
‫دو قسم کے ذریعوں سے ثابت ہوتی ہے قطعی ذریعہ‪ ،‬ظنی ذریعہ‪ ،‬جب علوم تدوین پاگئے تو بعد از‬
‫تدوین فن حدیث بھی اہل علم میں یہ رجحان پایا جاتا رہا کہ توار کی تعریف میں اصل چیز ’’قطعیت‘‘‬
‫ہے ناکہ کافی سارے رواۃ کی روایت متقدمین اہل علم کے اس تصور کی توضیح اور وضاحت پر فن‬
‫حدیث کی قدیم وجدید کتب میں بہت کچھ چھپ چکا ہے۔ ابھی پیچھے جن دو کتب کا میں حوالہ دے‬
‫چکا ہوں ‪ ،‬اس ضمن میں ان میں انتہائی مفید بحثیں موجود ہیں ان لوگوں نے اپنی کتب میں اس‬
‫موضوع بہت خوب بحث کی ہے کہ تواتر میں متاخر محدثین میں معتزلہ اور ان سے متاثر بعض فقہاء‬
‫کی وجہ سے فلسفیانہ رنگ ٓا گیا ہے جس کے مصداق کا تعین کرنا انتہائی مشکل ہے اس طرح امام‬
‫مصطلح الحدیث حافظ ابن الصالح رحمہ ہللا اور تمام شارحین نے بھی متواتر حدیث کی عام تعریف‬
‫جس کا تعلق تواتر اسنادی سے ہے پر خوب ہی کالم فرمائی ہے کہ مروجہ تعریف تواتر میں محدثین‬
‫کے بجائے بعض متاخرین اصولیوں نے رنگ ٓامیزی کی ہے کیونکہ جو تعریف عام طور پر تواتر‬
‫االسناد ذکر کی جاتی ہے اس کا مصداق تالش کرنا امر واقعہ صرف ایک حدیث ’’من کذب علی‬
‫متعمدًا فلیتبؤا مقعدہ من النار‘‘ (صحیح بخاری‪ )۱۰۷:‬شائد بن سکے۔ مقدمہ ابن الصالح کے شارحین‬
‫نقًال حافظ عراقی رحمہ ہللا وغیرہ نے وضاحت کی کہ حافظ صاحب رحمہ ہللا اور عام محدثین امام‬
‫حاکم‪ ،‬حافظ ابن عبد البررحمہ ہللا‪ ،‬امام سیوطی رحمہ ہللا وغیرہ جس تواتر کو مانتے ہیں وعہ اسنادی‬
‫یا بالفاظ دیگر عدوی تواتر نہیں ‪ ،‬بلکہ تواتر اإلشتراک ہے ایسا تواتر مختلف ’ اخبار ٓاحاد‘ کے‬
‫مجموعہ میں الفاظ بامعانی کے اعتبار سے موجود قدر مشترک سے حاصل ہوتا ہے چنانچہ تواتر‬
‫اإلسناد تو اّو ًال محدثین کی کوئی مسلمہ اصطالح ہی نہیں اور جس اصطالح کو میں اصل چیز عددی یا‬
‫اسنادی تواتر نہیں بلکہ تواتر اإلشتراک ہے جو روایت وخبر کے پہلو سے در حقیقت خبر واحد اور‬
‫نتیجہ کے اعتبار سے ایسی روایت ہوتی ہے جس میں موجود شے علم قطعی سے ثابت ہوتی ہے۔‬
‫لغوی مفہوم‪:‬خبر واحد کے لغوی معنی یہ ہیں کہ وہ خبر جسے روایت کرنے واال صرف ایک ہی‬
‫شخص ہو۔واحد کی جمع ٓاحاد ہے جیسے حجر کی جمع احجار ٓاتی ہے۔‬
‫ِاصطالحی مفہوم‪:‬عام محدثین اور علمائے ُاصول کی ِاصطالح میں خبرواحد سے مراد وہ حدیث ہے‬
‫جس میں متواتر کی تمام شروط وصفات نہ پائی جائیں خواہ اس کو روایت کرنے واال تنہا ایک شخص‬
‫ہو یا ایک سے زیادہ ہوں۔ (الکفایۃ للخطیب‪۱:‬؍‪)۳۱‬‬
‫محدثین کے نزدیک متواتر کے عالوہ باقی تمام اخبار پر اخبار ٓاحاد کا ہی اطالق ہوتاہے۔(تحفۃ ٔاہل‬
‫الفکر‪:‬ص‪)۹‬‬
‫‪:‬چنانچہ جناب ظفر احمد عثمانی تھانوی رحمہ ہللا صاحب فرماتے ہیں‬
‫وکلہا سوی المتواتر ٓاحاد‘‘ …’’ متواتر کے عالوہ باقی تمام َاحادیث ٓاحاد ہیں۔‘‘(قواعد فی علوم ’’‬
‫الحدیث للتھانوی‪:‬ص‪)۳۳‬‬
‫خبر واحد کی یہ تعریف اس گروہ کے نزدیک قابل اعتبارہے جس نے تواتر کی تعریف عدد کثیر کے‬
‫اعتبار سے کی ہے جب کہ پیچھے گزر چکا ہے۔خبر واحد جوصحیح الثبوت ہو اس کی مزید دو‬
‫‪:‬قسمیں ہیں‬
‫خبر واحد محتف بالقرائن (‪)٢‬خبرواحدغیر محتف بالقرائن)‪(١‬‬
‫وہ خبر واحد ہے جو علم نظری وظنی کا فائدہ دیتی ہے یعنی ایسا علم جس میں تحقیق ونظر کی‬
‫ضرورت ہوتی ہے اور تحقیق کے بعد اس میں بھی سچ وجھوٹ میں سے ایک پہلو قطع ہو جاتا ہے۔‬

‫تواتر کا مفہوم اور ثبوِت قرٓان کا ضابطہ‬


‫ایسی خبر جو محتف بالقرائن ہو جمہور محدثین اور جمہور علماء ُاصول کے نزدیک علم یقینی کا فائدہ‬
‫دیتی ہے اورحافظ ابن حجررحمہ ہللا نے اس بارے میں النکت علی ابن الصالح وغیرہ میں وضاحتًا‬
‫لکھا ہے کہ اہل الحدیث کے ہاں ایسی خبر متواتر حدیث کی طرح علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے یابالفاظ‬
‫دیگر ایسی خبر سے جو علم حاصل ہوتا ہے اسے متاخرین کی اصطالحات میں اگرچہ تواتر توقرار‬
‫نہیں دیا جاتا ‪،‬کیونکہ تواتر اسنادی کے لئے کم ازکم چار افراد کا ہر طبقے میں پایا جانا ضروری‬
‫ہے‪ ،‬لیکن اس کے باوجود یہ قسم تواتر کی طرح ہے‪ ،‬کیونکہ قرائن سے اسے ایسی قوت بخش دیتے‬
‫ہیں کہ یہ قطعیت کا درجہ حاصل کر لیتی ہے اہل الحدیث کے ہاں یہ قرائن کافی قسم کے ہوتے ہیں‬
‫جن کی تفصیل کتب مصطلح میں موجود ہے ان میں سے ایک قرینہ جیسے تقریبًا تمام فقہی مکاتب‬
‫فکر کے ہاںمقبولیت حاصل ہے یہ ہے کہ ایسی صحیح روایت جس کی صحت پر جمیع اہل فن کا اتفاق‬
‫ہو جائے ‪ ،‬جسے اصطالحات میں تلقی بالقبول کہتے ہیں تو یہ اتفاق اسے قطعیت کے مقام پر فائز کر‬
‫دیتا ہے صحیحین کو دیگر کئی قرائن کے ساتھ صرف اسی ایک قرینہ نے امت کے ہاں قطعیت کے‬
‫مقام کر دیا ہے عام طور پر علماء احناف خبر واحد کی بنا پر واجب اور فرض میں ‪ ،‬حرام اور مکروہ‬
‫تحریمی میں اور تخصیص عام اور تقیید اطالق وغیرہ کی مباحث میں جمہور سے مختلف ہیں اور اس‬
‫کی وجہ وہ یہی قرار دیتے ہیں کہ خبر واحد ظنی ہوتی جبکہ خبر متواتر علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے‬
‫جب کہ ذیل کی سطور میں چند وضاحتیں کی جار ہی ہیں۔‬
‫وہ خبر جو مشہور ہو اور اس کے کئی طرق ہوں اور سب طرق ضعف وعلل سے محفوظ ہوں۔ )‪(٢‬‬
‫وہ خبر جسے َائمہ ‪،‬حفاظ اور متقنین نے بیان کیا ہو اوروہ غریب نہ ہو اور دوسری جگہ فرماتے )‪(٣‬‬
‫ہیں‪،‬ایسی خبر جسے َائمہ حدیث نے بیان کیا ہو اور ُامت کی طرف سے اسے تلقی بالقبول حاصل ہوا‬
‫ہو۔تلقی بالقبولکے بارے میں کہتے ہیں کہ بالشک کسی خبر کے صحیح ہونے پر اجماع ُامت‪،‬قرائن‬
‫محتفہ اور مجرد کثرتِ طرق سے حاصل ہونے والے علم سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔(نزہۃ النظر ‪:‬‬
‫‪،۵۱‬النکت‪۱:‬؍‪)۳۷۸‬‬
‫‪:‬٭شیخ االسالم ابن تیمیہ رحمہ ہللا لکھتے ہیں‬
‫ایسی خبر واحد جس کو’تلقی بالقبول‘ حاصل ہو علم یقینی کافائدہ دیتی ہے اور یہی جمہور احناف’’‬
‫مالکیہ‪ ،‬شوافع اوراصحاب احمد کا قول ہے۔ اکثر اشاعرہ کا بھی یہی مذہب ہے جیساکہ استاذ اسفر‬
‫ائینی رحمہ ہللا اور ابن فورک رحمہ ہللا وغیرہ ہیں۔(فتاوی ابن تیمیۃ‪۱۸:‬؍‪)۴۱‬‬
‫حافظ ابن تیمیہ رحمہ ہللا کی مذکورہ باال جات کے مدلول میں چار یا اس سے زائد رواۃ کی کثرت بھی‬
‫شامل ہے جسے عمومًا تواتر اإلسناد کہتے ہیں اور چار سے کم رواۃ میں پائے جانے والی صفات کی‬
‫قوت بھی شامل ہے جسے اصطالح محدثین میں خبر واحد محتف بالقرائن کہتے ہیں ہم کہنا یہ چاہتے‬
‫ہیں کہ اگر جھوٹ کا احتمال تین یا اس سے کم رواۃ میں ختم ہو جاتا ہے تو محدثین کے باالتفاق ایسی‬
‫شے بھی علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے اس مثال میں ہم صحیح بخاری کے سلسلۃ الذہب کو پیش کر‬
‫سکتے ہیں سلسلۃ الذہب سے مراد سونے کی وہ سند ہے جو امام بخاری رحمہ ہللا اپنے استاد احمد بن‬
‫حنبل رحمہ ہللا سے اور وہ نقل کریں امام شافعی رحمہ ہللا سے اور وہ نقل کریں اپنے استاد امام مالک‬
‫رحمہ ہللا سے اور وہ روایت کرین نافع رحمہ ہللا ‪ ،‬یا سالم رحمہ ہللا سے اور وہ روایت کریں ابن‬
‫عمررضی ہللا عنہما سے ۔ اس سند میں موجود تمام افراد کو امیر المٔومنین فی الحدیث کا لقب حاصل‬
‫ہیت اور ہر ہر ٓادمی اپنی ثقاہت میں متعدد ثقہ راویوں کے برابر قوت رکھتا ہے۔‬
‫متواتر کی اصطالح سے اصل مقصود علم یقینی کا حصول ہے جبکہ بعض لوگ متواتر اس کو’’‬
‫کہتے ہیں جس کو ایک بہت بڑی تعداد نے نقل کیا ہو اورعلم یقینی صرف ان کی کثرت تعداد کی بنیاد‬
‫پر حاصل ہو رہاہو ۔ان کا یہ کہنا کہ ایک مخصوص تعداد جب ایک واقعہ میں علم یقین کا فائدہ دیتی‬
‫ہے تو وہ تعداد ہر واقعہ میں علم یقین کا فائدہ دے گی اور یہ قول ضعیف ہے۔ صحیح قول جمہور‬
‫علماء کا ہے جس کے مطابق بعض اوقات علم یقینی مخبرین کی تعداد سے حاصل ہوتا ہے جبکہ‬
‫بعض اوقات مخبرین کی (اعلی)دینی صفات اور ضبط سے حاصل ہوتاہے اسی طرح بعض اوقات خبر‬
‫کے ساتھ کچھ ایسے قرائن ملے ہوئے ہوتے ہیں کہ جن کی موجودگی میں علم یقینی حاصل ہو رہا‬
‫ہوتا ہے جبکہ بعض اوقات ایک گروہ کو ایک خبر سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے اوردوسرے کو نہیں‬
‫ہوتاہے۔‘‘(فتاوی ابن تیمیۃ‪۴:‬؍‪)۴۷‬‬
‫٭حافظ ابن حجر عسقالنی رحمہ ہللا ان لوگوں کے رد میں جو خبر واحدمختف بالقرائن کو مفید علم‬
‫‪:‬یقینی نہیں سمجھتے‪ ،‬فرماتے ہیں‬
‫ایسی خبر جس کی ُامت نے تصدیق کی ہو اوراپنے رد عمل کے ذریعے سے اسے قبولیت سے’’‬
‫نوازا ہو تو وہ خبر جمہور علماء سلف وخلف کے نزدیک مفیدعلم یقینی ہوتی ہے یہ وہ موقف ہے‬
‫جسے ُاصول فقہ کے جمہور مصنفین نے ذکر کیاہے۔ جیسے احناف میں سے شمس االئمہ سرخسی‬
‫رحمہ ہللا نے‪،‬مالکیہ میں قاضی ابویعلی رحمہ ہللا اورابوالخطاب رحمہ ہللا نے‪ ،‬اشاعرہ میں سے اکثر‬
‫اہل کالم کی بھی یہی رائے ہے‪،‬جیسے ابواسحاق اسفرائینی ‪،‬ابوبکر بن فورک‪،‬ابومنصور تمیمی ابن‬
‫سمعانی ‪،‬ابوہاشم جبائی اورابوعبد ہللا بصری رحمہم ہللا وغیرہ۔‬
‫فرماتے ہیں کہ یہ تمام محدثین کامذہب ہے اورابن الصالح رحمہ ہللا نے المدخل إلی علوم الحدیث میں‬
‫جوکچھ بیان کیا ہے اس کابھی یہی مفہوم ہے انہوں نے یہ استنباطًا ذکرکیا ہے کہ جس میں مذکورہ‬
‫َائمہ ان سے موافقت رکھتے ہیں اوراس میں ان لوگوں نے مخالفت اختیار کی ہے جن کا خیال یہ ہے‬
‫کہ جمہور‪،‬ابن الصالح رحمہ ہللا کی رائے کے خالف ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ)ان لوگوں نے‬
‫مخالفین جیسے ابوبکرباقالنی غزالی رحمہ ہللا‪،‬ابن عقیل رحمہ ہللا وغیرہ کی تصانیف کے عالوہ‬
‫دوسری کتب سے واقفیت حاصل نہیں کی‪ ،‬کیونکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ خبر واحد مطلقًا مفید علم نہیں‬
‫ہے اور اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ مجرد خبر واحد مفید علم نہیں ہے۔ (بلکہ وہ خبر واحد جو‬
‫محتف بالقرائن ہوگی وہ علم یقینی کا فائدہ دے گی)‘‘(النکت‪۱:‬؍‪)۳۷۴،۳۷۷‬‬
‫٭مشہور ُاصولی مال جیون رحمہ ہللا کا بھی یہی نقطئہ نظر ہے ۔(نورأالنوار‪۳:‬؍‪)۲۲۰‬‬
‫‪:‬٭ عالمہ جمال الدین قاسمی رحمہ ہللا نے اس بارے میں تین مذاہب بیان کیے ہیں‬
‫خبر واحد مطلق طورپر قطعیت کا فائدہ دیتی ہے اگرچہ اس کوشیخین نے تخریج نہ بھی کیا ہو۔یہ )‪(١‬‬
‫ابن طاہر مقدسی رحمہ ہللا کا نقطئہ نظرہے۔‬
‫صحیحین میں یا دونوں میں سے کسی ایک میں تخریج کی گئی ہوتوخبر واحد قطعیت کا فائدہ )‪(٢‬‬
‫دیتی ہے یہ ابن الصالح رحمہ ہللا کا نقطئہ نظر ہے۔‬
‫ایسی خبر واحد جوصحیحین میں ہو ‪ ،‬یا مشہور ہو جس کے کئی طرق ہوں اور وہ سبب علل سے )‪(٣‬‬
‫پاک ہو یا وہ خبرجومسلسل باالئمہ ہو‪،‬قطعیت کا فائدہ دیتی ہے۔یہ نقطئہ نظر ابن حجر عسقالنی رحمہ‬
‫ہللا کا ہے۔(قواعد التحدیث‪)۸۹:‬‬
‫دوسرے اورتیسرے مذہب کے مطابق ایسی خبر واحد جومحتف بالقرائن ہو وہ علم قطعی ویقینی کافائدہ‬
‫دیتی ہے۔‬
‫متاخر حنفی محدث انور شاہ کاشمیر ی رحمہ ہللا بھی اس نقطئہ نظر کے حامل ہیں کہ خبر واحد‬
‫‪:‬محتف بالقرائن علم قطعی کافائدہ دیتی ہے۔چنانچہ فرماتے ہیں‬
‫حاصلہ ٔانہ یفید القطع إذا احتف بالقرائن کخبر الصحیحین علی الصحیح‘‘(فیض الباري‪۴:‬؍‪’’)۵۰۶‬‬
‫ماحاصل یہ ہے کہ ایسی خبر واحد جو محتف بالقرائن ہے وہ علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے جیساکہ’’‬
‫‘‘صحیح قول کے مطابق صحیحین کی خبرہوتی ہے۔‬
‫مذکورہ باالتصریح سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ چند سطحی نظر فقہاء کے بالمقابل جلیل‬
‫القدر فقہاء ومحدثین نے خبر واحدمحتف بالقرائن کی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو استدالل‬
‫میں وہ مقام دیا ہے جو متواتر کو دیا جاتا ہے یعنی اس کو تواتر کی قبیل سے شمار کیا ہے۔‬
‫تواتر کے مفہوم میں صحیح مٔوقف‬
‫یہ بات ذہن نشین رہے کہ تواتر کے مفہوم کو سمجھنے سے پہلے تدوین وِاصطالح کا معنی ومفہوم‬
‫سمجھنا ازحد ضروری ہے‪ ،‬کیونکہ اس کا مفہوم تواتر کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔تدوین کے معنی درج‬
‫کرنے ‪،‬قلمبند کرنے اورترتیب دینے کے ہیں یعنی بکھری ہوئی چیزوں کو ایک دیوان میں جمع‬
‫کردینے کا نام تدوین ہے۔دیوان فارسی لفظ سے معرب بنایا گیا ہے جس کا معنی کاپی اور دفتر کے‬
‫ہیں۔ مختلف صحف کو ایک کتاب میںجمع کرنا بھی تدوین سے ہے۔ اسی طرح تدوین‪،‬تصنیف وتالیف‬
‫کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔‬
‫ڈاکٹر عبد الکریم زیدان رحمہ ہللا لکھتے ہیں کہ‬
‫اب تک دستور یہی رہا ہے کہ کوئی چیزپہلے وجود میں ٓاتی ہے بعد میں مدّو ن ہوتی ہے۔ تدوین اس’’‬
‫کے وجود کو بتالتی ہے ‪،‬خود اس کو وجود نہیں بخشتی ۔جیسے علم نحو اورمنطق میں ہوا ہے۔ عرب‬
‫اپنے کالم میں فاعل کو رفع اور مفعول کو نصب دیتے تھے اورنحو کی اسی قسم کے دوسرے قاعدے‬
‫علم نحو کی باقاعدہ تدوین سے پہلے جاری وساری تھے اسی طرح منطق کی تدوین اوراس کے‬
‫قاعدوں کی باقاعدہ ترتیب سے پہلے بھی عقالء ٓاپس میں مباحثے کرتے تھے اوربدیہیات سے استدالل‬
‫کرتے تھے۔‘‘ (الوجیز فی ٔاصول الفقہ‪۱:‬؍‪)۳۷‬‬
‫لفظ اصطالح کا مادہ ’صلح‘ ہے یعنی اصطالح سے مراد یہ ہے کہ اہل علم یا اہل فن کی اس بات پر‬
‫صلح ہوگئی ہے کہ ٓائندہ جب وہ یہ لفظ استعمال کریں گے تو اس لفظ سے ان کی مراد کوئی‬
‫مخصوص تصور ہوگا۔مثًال علماء نے اس بات پر اتفاق کر لیا ہے کہ جب وہ ’کتاب ہللا‘ بولیں گے‬
‫بھی کہا‪codifieation‬تواس سے مراد ان کے نزدیک قرٓان مجید ہوگا۔ ِاصطالح کو عالمتی نام یعنی‬
‫جاتا ہے یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ تدوین مٹتے یا ناپید ہوتے ہوئے تصورات کو محفو ظ کرنے‬
‫اور دوبارہ ُاجاگر کرنے کی غرض سے ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ قروِن َاولی میں تدوین کی زیادہ‬
‫ضرورت پیش نہیں ٓائی تھی۔جتنی بعد کے زمانوں میں پیش ٓائی۔‬
‫جیساکہ پیچھے گذر چکا ہے کہ اصطالحات پہلے سے موجود تصورات کو عالمتی نام دے‬
‫کر(بذریعہ کتابت) محفوظ کرنے کا نام ہے۔ چنانچہ اہل فن نے اس تصور اورمنہج کو جوکہ قروِن‬
‫اولی اورسلف اول میں تحقیِق خبر کے حوالے سے ان کے اتفاقی تعامل کی صورت میں موجود‬
‫تھا‪،‬الفاظ کا جامہ پہنا کر ِاصطالحات کی زبان میں بیان کردیا۔‬
‫یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ کتاب وسنت اور ان کے فہم کے حوالے سے سلف صالحین کی متفقہ‬
‫تعامل کی روشنی میں جو شے ٔالم نشرح ہے وہ یہ ہے کہ تحقیق روایت کا اصلی منہج صرف یہی ہے‬
‫کہ کسی بھی روایت کی صحت وضعف کے مابین امتیاز کرنے کے کچھ ضابطے بروئے کار الکر‬
‫قبولیت یا رد کا فیصلہ کر لیا جائے ۔یہی وجہ ہے کہ فن حدیث کا اصل موضوع ‪،‬خبر مقبول اور‬
‫مردود کی بحث ہے جو کہ عمومًا خبر واحد کے ضمن میں زیر بحث ٓاتی ہے۔رہی خبر متواتر تو یہ‬
‫فن حدیث کا مستقل موضوع نہیں ہے۔‬
‫الغرض تحقیق روایت کا وہ منہج جو کتاب وسنت اوراسالف کے مسلمہ تعامل کی روشنی میں سامنے‬
‫ٓایا ہے اس کے بنیادی تصورات‪،‬راوی کاکردار(اصطالحًا عدالت)‪ ،‬روایت کو محفوظ طریقے سے نقل‬
‫کرنے کی صالحیت (اصطالحًا ضبط واتقان) اوراتصال سند وغیرہا ہیں۔کسی روایت کا قطعی ہونا یا‬
‫کثرِت رواۃ سے مروی ہونا ہر دو بحث ‪،‬فن حدیث میں تحقیق کا اصل معیار نہیں تاہم عمل تحقیق میں‬
‫اضافی معاون کی حیثیت ضرور رکھتی ہیں۔مثًال کسی روایت کے کم از کم ثابت ہونے کے لئے اس کا‬
‫قبولیت حدیث کے معیار پر اترنا ضروری ہے جس میں روایت کا متواتر ہونا یا قطعی الثبوت ہونا‬
‫کسی طورپر الزم شرط کے طور پر داخل نہیں ہے۔چنانچہ اس پس منظر میں توکسی روایت کے‬
‫قبولیت ورد کا اصل معیار تواتر احادیث یاقطعیت وظنیت کو بنانا نہ کتاب وسنت کی روسے صحیح‬
‫ہے اور نہ ہی سلف صالحین کے تعامل ومسلمہ ٓاراء کے مطابق ہے‪،‬جنہیں بعد ازاں فن حدیث کی‬
‫صورت میں مدّو ن کر دیاگیا ہے۔فن حدیث کی رو سے قبولیت ورد کی اصل بحث تقسیم الخبر إلی‬
‫المتواتر وآالحاد کو بنانا ایک غلط رویہ ہے جس کے نہ سلف اول قائل تھے اورنہ ہی َائمہ تدوین۔البتہ‬
‫قطعیت کے ثبوت کے قرائن بشمول تواتر ِاصطالحی (تواتر عددی)کے مقبول روایت میں ِاضافی طور‬
‫پر قوت پیدا ضرورکرتی ہیں۔‬
‫اس پہلو سے غور کیا جائے توتواتر کی تعریف میں عدد کی تعیین وعدم تعیین کا موقف ہویا قطعی‬
‫الثبوت کو متواتر کہنے کا موقف‪،‬ہر ایک میں ظاہری اختالف سے قطع نظر اس بات پر تمام اہل فن‬
‫متفق ہیں کہ مثًال ایک غریب صحیح روایت پر رواۃ کی عددی کثرت کی کوئی نسبت بھی ہو (چاہے‬
‫عزیز یا مشہور ہی کیوں نہ ہو)بہر حال اضافی طور پر ثبوت کی قوت میں ضرور ِاضافہ کرتی ہیں۔‬
‫اب رہا مسئلہ تواتر کے حوالے سے اہل فن کے اس اختالف کا کہ تواتر سے مراد کیا ہے تو اس‬
‫مسئلے میں ہم یہ ذکر کرنا چاہیں گے کہ تدوین اور علوم کی ضابطہ بندی وِاصطالحات سازی یا‬
‫بالفاظ دیگر علوم کی فنی َاسالیب میں منتقل کرنے کی نوعیتوں سے جو لوگ واقف ہیں وہ جانتے ہیں‬
‫کہ ِاصطالحات میں بسا َاوقات اہل فن کے ہاں متعدد َاسالیب ایک ہی تصور کو بیان کرنے کے لئے‬
‫اختیار کر لئے جاتے ہیں جیساکہ مشہور مقولہ ہے’’ال مناقشۃ فی اإلصالح‘‘ چنانچہ عام اہل فن کا‬
‫تواتر اسنادی کی فنی تعریف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات پر اتفاق ہے کہ وہی قطعیت جو تواتر‬
‫سے حاصل ہوتی ہے قرائن سے مقرون خبر واحد سے بھی حاصل ہو جائے گی۔چنانچہ عام کتب فن‬
‫‪:‬میں ثبوت روایت میں علم قطعی کے حصول کے دوضابطے موجود ہیں‬
‫متواتر (‪)٢‬خبر واحدمحتف بالقرائن)‪(١‬‬
‫اس کے بالمقابل وہ اہل علم جوعلم قطعی والی روایت ہی کو متواتر کہہ کر بیان کرتے ہیں ان کا اپنا‬
‫ایک خاص ُاسلوب ہے کہ ان کے ہاں ’’الخبر الواحد المحتف بالقرائن‘‘ بھی متواتر ہی کہالئی جائے‬
‫گی‪،‬لیکن مذکورہ دونوں َاقوال باہم متضاد نہیں بلکہ ان میں صرف ِاصطالح کا فرق پایا جاتا ہے یہی‬
‫وجہ ہے کہ تمام وہ اہل علم جومتواتر اس روایت کوکہتے ہیں کہ جو علم قطعی کا فائدہ دے وہ بھی‬
‫متواتر کی پہلی تعریف(یعنی عدد کثیر کے لحاظ سے)کا انکار نہیں کرتے۔جبکہ عام اہل فن دوسری‬
‫تعریف (یعنی علم قطعی کے لحاظ سے)کا باقاعدہ اقرار تو نہیں کرتے‪ ،‬لیکن اسے حقیقت تواتر میں‬
‫بھرپور طور پر شامل کرتے ہیں۔‬
‫رہا تواتر کی تعریف میں کسی عدد کا تعین کرنا تویہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ اس قسم کے‬
‫لوگوں کی تعریف میں متواتر روایت اس حیثیت سے زیر بحث ہوتی ہے کہ مقبول روایت میں قوت کا‬
‫ِاضافہ کرتی ہے ورنہ عدد کی تعیین سے تواتر کی تعریف کرنا تواترکی حقیقت سے عدم ٓاشنائی ہی‬
‫قرار دیا جاسکتا ہے۔ تواتر کی حقیقت یہ ہے کہ ثبوت روایت میں امکان خطامستحیل قرار پائے۔ برابر‬
‫ہے کہ عددی کثرت سے ہو(جیسے عددی تواتر کہتے ہیں)یا مقبول صحیح روایت مقرون بالقرائن‬
‫سے ہو(جیسے قطعی تواتر کہتے ہیں)‬
‫عام تعریف تواتر میں فنی تعریف کی توشاید جامعیت پائی جائے‪ ،‬لیکن تصور تواتر یا حقیقت تواتر کی‬
‫جامعیت بہر حال نہیں کیوں کہ تصور تواتر اس تعریف سے خارج میں بھی موجود ہے لٰہ ذا اس لحاظ‬
‫سے تواتر کی تعریف ثانی یعنی’’ما ٔافاد القطع فہومتواتر‘‘ حقیقت تواتر اورتصور تواتر کی بہترین‬
‫عکاسی ہے جبکہ پہلی تعریف میں تدوین کے عمومی َاسالیب اور دیگر تصورات کی طرح تواتر کی‬
‫بھی ایک فنی تعریف مقرر کرنے کی کوشش کی گئی ہے‪ ،‬لیکن اس فنی تعریف کا قطعی الزمہ یہ‬
‫نہیں کہ حقیقت تواتر صرف صیغٔہ تواتر کی حد تک محدود ہے بلکہ اصل شے تعریف متواتر میں‬
‫بھی قطعیت ہے چنانچہ اسے ہر حال میں مدنظر رکھنا چاہیے۔‬
‫حافظ ابن الصالح رحمہ ہللا کا بھی یہی موقف ہے کہ محدثین میں تصور تواتر تو موجود تھا مگر‬
‫انہوں نے عددی تواتر کے ساتھ اس تصور کو معلق نہیں کیا جیسا کہ عام اہل فن اور بعض اہل ُاصول‬
‫نے کیا ہے وہ اس لیے کہ ذخیرئہ َاحادیث میں مکمل تالش وبسیار کے بعد ایک ہی ایسی مثال ملتی‬
‫ہے جو عددی تواتر پر پوری اتر تی ہے۔ اور وہ حدیث’’َم ْن َک َذ َب َع َلَّی ُم َتَع ِّم ًدا َفْلَیَتَبَّو ٔا َم ْقَع َد ُہ ِم َن‬
‫الَّناِر ‘‘ہے لٰہ ذا تواتر کو عددی تواتر کے خاص نام جو کہ خاص مفہوم پر داللت کرتا ہے سے متعلق‬
‫کرنا بہر صورت ٹھیک نہیں ہے‪،‬کیونکہ متقدم محدثین میں تصور تواتر اورحقیقت تواتر توضرور‬
‫موجود تھا مگر وہ اس خاص نام اور خاص مفہوم میں موجود نہیں تھا جس کو عام اہل فن اوربعض‬
‫اہل ُاصول نے بیان کیا ہے۔(التقیید واإلیضاح‪:‬ص‪)۲۲۵،۲۲۶‬‬
‫ثبوِت قرٓان کا ضابطہ‬
‫ثبوِت قرٓان کی وضاحت سے پہلے یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ علماء ُاصول ثبوِت قرٓان کے لیے‬
‫متواتر کی شرط لگاتے ہیں جبکہ متاخرین علماء وَائمہ فن قراء ۃ نے ثبوت قرٓان کے لیے صرف‬
‫صحت سند اور قبولیت عامہ کی شرط عائد کی ہے۔ اگر متواتر سے مراد علماء اصول کے نزدیک‬
‫اسنادی تواتر ہے تو پھر قرٓان کا ثبوت ایسے تواتر سے ممکن نہیں۔ اگر اس تواتر سے مراد حصوِل‬
‫علم قطعی ویقینی ہے تو پھر اس اعتبار سے قرٓان بعض اوقات خبر واحد المحتف بالقرائن سے بھی‬
‫ثابت ہوجاتا ہے‪،‬کیونکہ ایسی خبر واحد جو محتف بالقرائن ہو وہ استدالل میں تواتر سے کسی لحاظ‬
‫سے بھی کم نہیں ہے اور تواتر کی اصطالحی تعریف کے ضمن میں ذکر کردہ دوسرے گروہ نے‬
‫اسی خبر واحد کو تواتر سے تعبیر کیاہے۔ جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے۔‬
‫پس منظر‬
‫امام القراء ابو الخیر ابن الجزری رحمہ ہللا نے اس پس منظر کی طرف اشارہ کیا ہے چنانچہ لکھتے‬
‫‪:‬ہیں‬
‫جب ضبط کا اہتمام کم ہوگیا‪،‬دوِر رسالت کا فی پیچھے رہ گیا اورقریب تھا کہ حق باطل کے ساتھ’’‬
‫ملتبس ہو جاتا تو اس وقت ُامت کے مایہ ناز علماء اورعلم وفن میں یکتائے روزگار َائمہ اٹھے ۔انہوں‬
‫نے حق کو واضح کیا‪،‬حروف اور قراء ات مشہورہ اورشاذہ کے درمیان امتیاز کے لئے واضح ُاصول‬
‫اورَارکان قائم کرکے ان کو ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لئے الگ کردیا۔‘‘ (النشر فی القراء ات‬
‫العشر‪۱:‬؍‪)۹‬‬
‫صفحہ اول فورمز قرآن وحدیث قرآن وعلومہ علم القراءات‬
‫الحمدہلل محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو ‪ 2.1.7‬پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات‬
‫و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔‬
‫آئیے! مجلس التحقیق االسالمی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصالحی ویب سائٹس کے‬
‫ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسالم کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث‬
‫ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیالت جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔‬
‫تواتر کا مفہوم اور ثبوِت قرٓان کا ضابطہ‬
‫موضوع کا آغاز کرنے واالساجد تاریخ آغازفروری ‪ 2012 ،06‬ٹیگزتواتر حجیت قراءات متواتر‬
‫پچھال‬
‫امام سیوطی رحمہ ہللا کے بقول جس شخص نے اس سلسلہ میں سب سے خوبصورت اور عمدہ تحقیق‬
‫‪:‬پیش کی ہے وہ امام القراء عالمہ ابن الجزری رحمہ ہللا ہیں‪ ،‬چنانچہ فرماتے ہیں‬
‫ہر وہ قراء ات جو لغت عربی کی وجہ کے ساتھ موافق ہو‪ ،‬مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک’’‬
‫کے مطابق ہو(اوروہ موافقت خواہ حقیقی ہو یا تقدیری)نیزاس کی سند صحیح ہو تو یہ قراء ۃ صحیح‬
‫ہے(وہ بذریعہ تواتر منقول ہو تویہ قراء ۃ متواتر اورقطعی ہے)اس کا انکار جائز نہیں ‪،‬بلکہ یہ حروف‬
‫سبعہ میں سے ہے جن پر قرٓان نازل ہوا تھا۔لوگوں پر اس کوقبول کرنا واجب ہے …اور جب کسی‬
‫قراء ۃ میں مذکورہ تین َارکان میں سے کوئی ایک رکن بھی مفقود ہوگا تواس قراء ۃ پر ضعیفہ ‪،‬شاذہ یا‬
‫باطلہ کا اطالق ہو گا۔یہی مذہب سلف وخلف َائمہ تحقیق کے نزدیک صحیح ہے۔اسی کی وضاحت امام‬
‫دانی رحمہ ہللا ‪،‬مکی بن ابی طالب قیسی رحمہ ہللا‪،‬ابن عمار مہدوی رحمہ ہللا اورابوشامہ رحمہ ہللا نے‬
‫کی ہے اوریہی سلف صالحین کا مذہب ہے ان میں سے کسی سے بھی اس کے خالف مروی نہیں‬
‫ہے۔‘‘(منجد المقرئین‪:‬ص‪،۱۵‬النشر‪۱:‬؍‪)۹‬‬
‫یہ وہ معیار اورکسوٹی ہے جو َائمہ قراء نے صحیح اورشاذ قراء ات میں امتیاز کرنے کے لئے قائم‬
‫کی ہے کہ جس قراء ۃ میں مذکورہ تین َارکان میں سے کوئی ایک بھی ناپید ہوگا‪ ،‬اسے قراء ت شاذہ‬
‫‪:‬قرار دیا جائے گا۔اس ضابطے کے َارکان حسب ذیل ہیں‬
‫مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے ساتھ موافقت )‪(١‬‬
‫عربی وجہ کے ساتھ موافقت )‪(٢‬‬
‫صحت سند )‪(٣‬‬
‫اب مذکورہ َارکان ثالثہ کی انتہائی مختصر تشریح ذیل کی سطور میں پیش کی جاتی ہے۔‬

‫رکن اّو ل‬
‫مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے ساتھ موافقت ہویعنی حضرت عثمان رضی ہللا عنہ نے جو‬
‫مصاحف نقل کرکے مختلف عالقوں میں قراء صحابہ رضی ہللا عنہم کی معیت میں بھیجے تھے‪،‬‬
‫کسی قراء ت کے صحیح ہونے کے لئے یہ معیار ہے کہ وہ ان میں سے کسی ایک کے رسم کے‬
‫مطابق ہو اور یہ مطابقت حقیقی طور پر بھی ہو سکتی ہے اوراحتمالی وتقدیری طورپر بھی ہوسکتی‬
‫ہے۔‬
‫موافقت حقیقی کی مثال سورۃ توبہ میں ابن کثیررحمہ ہللا کی قراء ۃ’’َج ّٰن ٌت َتْج ِر ْی ِم ْن َتْح ِتَہا‬
‫أَالْنَہاُر ‘‘’من‘ کے اضافہ کے ساتھ ہے اور یہ اس مصحف میں ہے جو حضرت عثمان رضی ہللا عنہ‬
‫نے مکہ کی طرف بھیجا تھا۔‬
‫موافقت تقدیری کی مثال سورۃ فاتحہ کی ٓایت’’ٰم ِلِک َیْو ِم الِّدْیِن ‘‘کے لفظ’ملک‘ میں دو قراء تیں ہیں‬
‫الف کے ساتھ یعنی’مالک‘ اورالف کے بغیر یعنی’َم ِلِک ‘ لیکن یہ لفظ تمام مصاحف عثمانیہ میں الف‬
‫کے بغیر’َم ِلِک ‘ لکھا ہوا ہے اب اس میں’َم ِلِک ‘ کی قراء ت تورسم عثمانی کے ساتھ واضح اورحقیقی‬
‫طورپر موافق ہے جبکہ’ٰم ِلِک ‘ کی قراء ۃ تقدیری طورپر موافق ہے۔‬
‫رکن ثانی‬
‫عربی وجہ کے ساتھ موافقت ہو‪ ،‬مطلب یہ ہے کہ قراء ۃ ان قواعد عربیہ کے موافق ہو جو فصیح‬
‫عربی کالم سے مشتق ہو اور ان ماہر ین علم نحو کی ٓاراء سے مطابقت رکھتی ہو جو اپنے فن میں‬
‫درجہ امامت پر فائزہیں۔ مکی بن ابی طالب رحمہ ہللا نے مطلقًا موافقِت عربی کواس سلسلہ میں معیار‬
‫قراردیاہے جبکہ عالمہ ابن جزری رحمہ ہللا نے’ولو بوجہ‘کی قید لگائی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ‬
‫اگر کسی لفظ یا جملے میں نحوی قواعد کے اعتبار سے متعدد وجوہ ہوں توقراء ت ان میں سے کسی‬
‫ایک وجہ کے موافق ہونی چاہیے خواہ وہ وجہ درجہ فصاحت میں کم ہو یا اعلی یاوہ قواعد نحاۃ کے‬
‫نزدیک متفق علیہ ہو یا مختلف فیہ۔مثًال امام حمزہ رحمہ ہللا کی قراء ۃ’’َو اَّتُقوا اَﷲ اَّلِذ ْی َتَس اَئ ُلْو َن ِبِہ‬
‫َو أَالْر َح ام‘‘میں’أالرحام‘ جری حالت میں ہے اوریہ کوفیوں کے مذہب کے مطابق ’بہ‘ کی ضمیر‬
‫مجرور پر عطف ہے یا بصریوں کے مذہب کے مطابق حرف جار کو دوبارہ لوٹایا گیا ہے‪ ،‬لیکن‬
‫معلوم ہونے کی وجہ سے حذف کر دیا گیا ہے یا’ٔارحام‘ کی تعظیم اورصلہ رحمی کی ترغیب دینے‬
‫کے لئے قسم کی بنا پر زیر دی گئی ہے۔ تو یہاں امام حمزہ رحمہ ہللا کی قراء ۃ میں دونوں وجہیں‬
‫لغت کے اعتبار سے درست ہیں۔‬
‫حقیقت یہی ہے کہ کسی قراء ت کا تواتر(قطعیت) کی موجودگی میں عربی لغت کا کوئی قاعدہ‬
‫‪:‬اورقانون کسی قراء ت کو رد نہیں کرسکتا۔چنانچہ امام ابوعمرو بصری دانی رحمہ ہللا فرماتے ہیں‬
‫َائمہ قراء حروِف قرٓان کے سلسلہ میں اس بات پر اعتماد نہیں کرتے کہ وہ لفظ لغوی لحاظ سے عام’’‬
‫مستعمل ہے یاعربی قاعدہ کے زیادہ مطابق ہے بلکہ اس پر اعتماد کرتے ہیں کہ وہ حرف نقل وروایت‬
‫کے اعتبار سے صحیح ترین اورثبوت کے اعلی معیار پر ہو‪ ،‬کیونکہ قراء ۃ میں رسول‬
‫ہللاﷺسے َائمہ تک کے سلسلہ تواتر(قطعیت)کی اتباع کی جائے گی اور اس کی طرف لوٹنا اور‬
‫اسے قبول کرنا ضروری ہے۔‘‘(جامع البیان فی القراء ات السبع ‪:‬ض؍‪/۱۷۷‬ب‪،‬بحوالہقراء ت شاذہ‪:‬‬
‫‪)۱۰۶‬‬
‫امام ابن جزری رحمہ ہللا نے اس حقیقت کی صراحت ان الفاظ میں کی ہے کہ‬
‫تواتر(قطعیت)ہی درحقیقت قراء ۃ کی بہت بڑی بنیاد اورایک عظیم رکن ہے۔ لغت عربی کے ساتھ’’‬
‫موافقت کے سلسلے میں محققین ٓائمہ کے نزدیک یہی مذہب مختار ہے ۔متعدد قراء ات ایسی ہیں جن کا‬
‫بعض یا اکثر نحویوں نے انکار کیا ہے‪ ،‬لیکن ان کے اس انکار کا اعتبار نہیں کیاگیا ‪،‬بلکہ ٓائمہ سلف‬
‫نے باالتفاق ان قراء ات کوقبول کیا ہے۔‘‘ (النشر‪۱:‬؍‪)۱۰‬‬
‫اس سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ وجٔہ عربی کے ساتھ مطابقت کی شرط صحت سندیا تواتر‬
‫(قطعیت) کی طرح ایسا رکن نہیں ہے کہ اس کو معیار قرار دیا جائے بلکہ یہ شرط تومزید حزم‬
‫واحتیاط کے لئے لگائی گئی ہے تاکہ قراء اِت شاذہ کی قراء ات متواتر ہ کے ساتھ ٓامیزش کا دروازہ‬
‫ہمیشہ کے لئے بندہوجائے ۔البتہ اس لحاظ سے اسے ایک ضابطہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ جو قراء ت‬
‫تواترقطعیت)سے ثابت ہو وہ الزمًا کسی نہ کسی عربی وجہ کے بھی مطابق ہو گی۔‬
‫رکن ثالث‬
‫کسی قراء ت کے صحیح ہونے کی تیسری شرط یہ ہے کہ اس کی سند نہ صرف صحیح‪ ،‬متصل ہو‬
‫بلکہ وہ تواتر(یعنی قطعی الثبوت خبر اور خبر واحدمحتف بالقرائن)سے ثابت ہواور ساتھ اس کو َائمہ‬
‫فن کے نزدیک قبولیت عامہ بھی حاصل ہویہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ قرٓان خبر واحدمحتف‬
‫بالقرائن سے بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ یہ قوت استدالل میں خبر متواتر کے مترادف ہی ہوتی ہے ‪،‬اور‬
‫علم قطعی ویقینی کا فائدہ دیتی ہے ‪،‬اس لحاظ سے قرٓان کے ثبوت اورصحیحین کے ثبوت میں کوئی‬
‫فرق نہیں ہے‪ ،‬کیونکہ دونوں علم قطعی والی خبر سے حاصل ہوتے ہیں۔چنانچہ َائمہ فن ثبوت قراء ت‬
‫کے لئے جب بھی تواتر کا لفظ بولتے ہیں تواس سے مراد یہی ہے کہ وہ قطعی الثبوت خبر سے یا‬
‫خبر واحد محتف بالقرائن سے منقول ہو‪،‬کیونکہ اگر اس تواتر سے تواتر عددی مراد لیا جائے تو پھر‬
‫پورے قرٓان کوثابت کرنا اور بعید از امکان ہو جائے گا۔‬
‫اسی وجہ سے عالمہ ابن جزری رحمہ ہللا نے بھی منجد المقرئین میں تواتر کی اصل تعداد رواۃ کی‬
‫بجائے حصوِل علم کو قرار دیا ہے۔پس علماء قرٓان کومتواتر کہتے ہیں تو ان کی تواتر سے مراد تعداد‬
‫‪:‬رواۃ نہیں ہوتی بلکہ علم یقینی کا حصول ہوتا ہے۔ امام سرخسی رحمہ ہللا لکھتے ہیں‬
‫جان لو!کتاب ہللا سے مراد وہ قرٓان ہے جو کہ ہللا کے رسول‪1‬پر نازل کیا گیا ہے مصاحف کے’’‬
‫گتوں کے درمیان لکھاگیاہے اورہم تک معروف احرف سبعہ کے ساتھ تواتر سے منقول ہے۔‘‘(ٔاصول‬
‫السرخسی‪)۲۷۹:‬‬
‫‪:‬اسی طرح امام غزالی رحمہ ہللا لکھتے ہیں‬
‫کتاب ہللا کی تعریف یہ ہے کہ جومصحف کے دوگتوں کے درمیان معروف ٔاحرف سبعہ کے ساتھ ہم’’‬
‫تک متواتر منقول ہے۔‘‘ (المستصفی‪۱:‬؍‪)۸۱‬‬
‫ان دونوں جلیل المرتبت فقہاء نے قرٓان کی تعریف میں قراء ات متواترہ کو بھی شامل کیا ہے اور یہ‬
‫بات اظہر من الشمس ہے کہ قراء ات متواترہ کا تواتر‪،‬تعداد رواۃ کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ ایسی سند‬
‫کی بنیاد پر ہے جو یقینی وقطعی طور پر ثابت ہے۔‬
‫اسی طرح تواتر کی طرف امام ابن تیمیہ رحمہ ہللا‪،‬امام الحرمین رحمہ ہللا‪،‬اورامام ابن االثیررحمہ ہللا‬
‫وغیر ہ اہل علم نے’’ما ٔافاد القطع‘‘کے ساتھ ِاشارہ کیا ہے۔‬
‫ثبوت قراء ات کے سلسلہ مِیں ایک تواتر وہ ہے جو کہ عام طور پر نہیں پایا جاتا اس لیے عام اہل‬
‫الحدیث اس سے واقف بھی نہیں۔ اسے اہل قراء ات کی اصطالحات میں تواتر طبقہ کا نام دیا جاتا ہے‬
‫اس کی تفصیل یہ ہے کہ قرٓان کریم متعبد بالتالوۃ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ خواص میں پڑھا پڑھایا‬
‫جاتا رہا ‪ ،‬چنانچہ صحابہ کرام رضی ہللا عنہم کو ہللا کے رسولﷺنے قرٓان پڑھایا توصحابہ‬
‫رضی ہللا عنہم میں سے ہر شخص کا تعلق قرٓان سے تعلق رہا ‪ ،‬یہی حال تابعین وتبع تابعین میں رہا‬
‫حتی کہ ٓاج تک امت میں سے ہر ٓادمی قرٓان کو پڑھتا ہے جبکہ حدیث کا معاملہ اس سے مختلف ہے‬
‫عام لوگوں کا علم حدیث سے صرف اتنا تعلق رہا کہ اہل علم سے مسائل پوچھتے رہے اورحدیث کے‬
‫باقی علم کو اہل الحدیث کے سپرد کر کے اپنے دنیاوی امور میں مشغال ہو رہے ۔ اس اعتبار سے اگر‬
‫جائزہ لیا جائے توقرٓان کریم صحابہ ‪ ،‬تابعین وتبع تابعین سے لے کر ٓاج تک ہر دور میں پڑھا جارہا‬
‫ہے اورمختلف ممالک میں ہمیشہ سے مختلف قراء ات رائج رہی ہیں چنانچہ وہ لوگ جو مدارس میں‬
‫قراء اتِ قرٓانیہ کے محافظین ہیں اگر وہ ہر دور میں ہزاروں میں رہے ہیں تو معاشرہ میں انہی قراء‬
‫ات کو پڑھنے والے عوم الناس ہر زمانہ میں الکھوں‪ ،‬کروڑوںرہے ہیں۔ اب مثًال مدارس میں روایت‬
‫حفص سینکڑوں لوگ اسانید سے اخذ کر کے ٓاگے نقل کر رہے ہیں جبکہ صرف پاکستانی معاشرہ‬
‫میں سولہ کروڑ عوام بھی اسی روایت پر اختالف اتفاقی تعامل سے عمل پیدا ہے یہ مدارس میں‬
‫پڑھائی جانے والی روایت حفص کا انتہائی قرینہ کہ اس بنیاد پر خبر واحد کو وہی تقویت مل جاتی‬
‫ہے جو تلقی بالقبول کے ذریعے سے قراء ات کو ملی ہے ٓاج اگر امت میں ساری قراء تیں متداول‬
‫نہیں ہیں تو بھی اسی قسم کا تواتر بڑا فائدہ دہے کیونکہ قراء عشرتک تو اہل فن کے ہاں بھی تواتر‬
‫اسنادی موجود ہے معاملہ اس کے بعد کا ہے اور قراء عشر کے دور میں تمام سبعہ احرف عوام‬
‫وخواص میں متداول تھے چنانچہ ٓائمہ عشر تا رسول ہللاﷺتواتر طبقہ موجود ہے۔‬
‫غرض یہ کہ قراء ات کی صحت کے لئے اس کی سند کا اتصال اور نقل ہونا تمام َائمہ ‪،‬قراء اورفقہاء‬
‫کے نزدیک ایک مسلمہ رکن اور بنیادی عنصر ہے البتہ اس بات میں اختالف ہے کہ قراء ات کے‬
‫لئے صرف صحت سند ہی کافی ہے یا تواتر ضروری ہے ۔ اس کے متعلق ابن جزری رحمہ ہللا‬
‫‪:‬لکھتے ہیں‬
‫بعض متاخرین نے اس میں تواتر کی شرط لگائی ہے سند کی صحت کو کافی نہیں سمجھا ان کا’’‬
‫خیال یہ ہے کہ قرٓان تواتر ہی سے ثابت ہوتا ہے۔‘‘(النشر ‪۱:‬؍‪)۱۳‬‬
‫لیکن ابن جزری رحمہ ہللا نے متاخرین کی اس رائے کو ناپسند کیا ہے لکھتے ہیں‪’’:‬اس میں جو‬
‫خرابی ہے وہ ظاہر ہے‪ ،‬کیونکہ جب کوئی قراء ت تواتر سے ثابت ہو جائے توپھر باقی دو َارکان‬
‫یعنی موافقت رسم مصحف اورعربی قاعدہ کی موافقت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔اس لیے کہ‬
‫جواختالفی وجوہ نبی کریمﷺسے بطریق تواتر ثابت ہیں ان کا قبول کرناواجب اور ان کی قرٓانیت‬
‫کا پختہ یقین کرنا الزمی ہے خواہ وہ رسم کے موافق ہو یامخالف اورجب تمام وجوہ میں تواتر کی‬
‫شرط لگا دیں گے تو بہت سی وہ اختالفی وجوہ ختم ہو جائیں گی جوقراء سبعہ سے ثابت ہیں۔‘‘(حول‬
‫القراء ات الشاذۃ‪)۳:‬‬
‫واضح رہے کہ امام ابن جزری رحمہ ہللا نے حقیقت تواتر یا تصور تواتر کا انکار نہیں کیا بلکہ انہوں‬
‫نے ان لوگوں کا رد کیا ہے جو قراء ا ت کے ثبوت کے لئے تواتِر عددی یاتواتر اسنادی کی شرط‬
‫لگاتے ہیں۔پہلے وہ خود بھی اس موقف کے قائل تھے مگر بعد میں جب اس کی خرابی ظاہر ہوئی‬
‫توانہوں نے َائمہ سلف کے موقف کو اپنا لیا ۔اس لحاظ سے انہوں نے ان تمام قراء ات کے تواتر‬
‫کومحفوظ کر دیا ہے جو خبر واحدمحتف بالقرائن سے ثابت ہیں اورعلم قطعی ویقینی کا فائدہ دیتی ہیں۔‬

‫یہاں یہ بات بھی ذہن نشین ر ہے کہ ثبوت قراء ات کا ایک چوتھا ذریعہ بھی ہے جو تواتر کی ایک‬
‫مخصوص قسم ہے اور وہ یہ کہ قرٓان مجید کا ایک ایک کلمہ‪ ،‬ایک ایک ٓایت او رایک ایک سورت کو‬
‫بھی تواتر حاصل ہے۔ لیکن یہ تواتر سند وعدد واال تواتر نہیں بلکہ وہ تواتر ہے جسے محدثین ’تواتر‘‬
‫کے مطلق نام کے مصداق کے طور پر پہنچانتے وبیان کرتے ہیں۔ تواتر اسنادی کے بارے میں تو‬
‫پیچھے واضح ہو چکا ہے کہ محدثین اس کے انکاری ہیں ‪ ،‬انہوں نے زیادہ سے زیادہ اس کی اگر‬
‫کوئی مثال پیش کی بھی ہے تو وہ صرف ایک حدیث ’’ من کذب علی متعمدًا فلیتبؤا مقعدہ من النار ‘‘‬
‫ہے ۔ بلکہ صحیح بات یہہے کہ یہ حدیث بھی تواتر اسنادی کی تعریف پر پورا نہیں اترتی ‪ ،‬کیونکہ‬
‫دیگر روایات کی طرح اس روایت کے بھی ہر طبقہ میں کثرت عدد موجود نہیں ۔ بلکہ متعدد اخبار‬
‫ٓاحاد میں اس حدیث کے مذکورہ الفاظ مشترک طور پر وارد ہوئے ہیں۔ چنانچہ تمام روایات کا حاصل‬
‫یہ ہے کہ یہ روایت ان مشترکہ الفاظ کے اتفاق کے ساتھ درجہ یقین کو پہنچتی ہے۔ اس وضاحت کی‬
‫رو سے یہ روایت بھی تواتر اسنادی کے بجائے تواتر اشتراکی ہی ہے ۔بعض لوگوں نے مکمل روایت‬
‫میں الفاظ کے اشتراک کی بنا پر حاصل ہونے والے تواتر کو تواتر لفظی اور روایات میں قدر اشتراک‬
‫کی بناپر حاصل ہونے والے تواتر کو تواتر معنوی کا نام دیا ہے۔ بعض لوگوں نے مذکورہ تصور کی‬
‫بنا پر اخبار ٓاحاد کی رو سے ثابت ہونے والی پانچ دیگر روایات کو بھی تواتر لفظی قرار دیا ہے جن‬
‫میں ایک روایت ’’ٔانزل القرٓان علی سبعۃ ٔاحرف‘‘ (صحیح بخاری‪ )۴۹۹۱:‬بھی ہے۔ ان روایات کی‬
‫تفصیل کے لئے الوجیز فی اصول الفقہ ازڈاکٹر عبد الکریم زیدان کے اردو ترجمہ جامع االصول از‬
‫ڈاکٹر احمد حسن‪ ،‬میں بحث سنت کا مطالعہ فرمائیں۔ اسی طرح متعدد طرق میں مشترکہ طور پر’’‬
‫إنما أالعمال بالنیات‘‘ (صحیح البخاری‪ )۱:‬کے الفاظ موجود ہیں اگرچہ یہ روایت اپنی اصل کے‬
‫اعتبار سے خبر غریب ہے۔‬
‫اسی اشتراِک الفاظ کے بنا پر بعض حضرات نے اس روایت کو بھی ’’ من کذب علی متعمدًا‘‘ کی‬
‫طرح متواتر لفظی بنایا ہے اور بعض لوگ اس روایت کو متواتر معنوی شمار کرتے ہیں‪،‬کیونکہ اس‬
‫روایت میں وارد’’ نیت‘‘ کا مضمون مختلف روایات میں ٓایا ہے جن میں الفاظ کے اختالف سے قطع‬
‫نظر نیت کی فرضیت مشترک ہے۔ بعض محدثین تواتر اشتراکی کو تواتر معنوی بھی کہتے ہیں۔ لیکن‬
‫صحیح یہی ہے کہ قدر مشترک کا معاملہ کسی مضمون میں بھی ہو سکتا ہے اور متعدد روایات میں‬
‫ثابت الفاظ میں بھی۔ اس تناظر میں اگر ہم قراء ات عشرہ متواترہ صغرٰی وکبرٰی کا جائزہ لیں تو یہ‬
‫تمام ٓایاِت قرٓانیہ تواتر االشتراک فی الفاظ امر االشتراک فی آالیات کے اعتبار سے متواتر ہیں۔ مثال‬
‫سے یہ بات یوں سمجھیں کہ قرٓان کے کسی لفظ کو اہل قراء ات کے ہاں چھ سے زائد اندازوں سے‬
‫نہیں پڑھاگیا۔ جبکہ قراء ات قرٓانیہ متواترہ اس طرق کے ساتھ مروی ہیں۔ گویا قرٓان کریم ٓاج امت کے‬
‫پاس سبعہ احرف سمیت اسی اسانید کے ساتھ موجود ہے۔ چنانچہ قرٓان مجید کی مجموعہ قراء ات اس‬
‫طرق سے ثابت ہیں تو ‪ ۹۵‬فیصد متفق علیہ اسی روایات میں مشترک الفاظ کے اتفاق کے ساتھ متواتر‬
‫لفظی بنے۔ علی ہذا القیاس ‪،‬جو کلمہ چھ اندازوں سے پڑھا گیا ہے تو وہ تقریبًا تیرہ تیرہ اخبار ٓاحاد‬
‫میں موجود مشترک الفاظ کی بنا پر متواتر لفظی میں شامل ہوا۔‬
‫یاد رہے کہ چھ اندازوں سے جن کلمات کو پڑھاگیا ہے وہ ایک دو ہیں۔جنہیں پانچ طرح سے پڑھاگیا‬
‫ہے وہ اس سے کچھ زیادہ ہیں۔ چار طرح سے پڑھے جانے والے کلمات مزید کچھ زیادہ ہیں۔ اکثر‬
‫کلمات میں دو یا تین طرح ہی سے پڑھنے کا اختالف مروی ہے۔ الغرض اسی اعتبار سے دیکھیں تو‬
‫مروجہ قراء ات قرٓانیہ عشرہ متواترہ میں موجود تمام ٓایات‪ ،‬کلمات اور سٔور متواترًا ثابت ہیں اور‬
‫محدثین کے ہاں تواتر سے بالعموم تواتر اإلشتراک ہی مراد ہوتا ہے۔ چنانچہ محدثین کے معیار تواتر‬
‫پر قرٓان بہر حال ثابت ہے۔ المختصر قر ٓان کریم کے ثبوت میں پانچ طرح کے تواتر او رقطعیت کے‬
‫ذرائع موجود ہیں۔‬
‫‪:‬تواتر طبقہ‬
‫اس قسم کا تواتر ٓائمہ عشرہ سے قبل تو تمام قراء ات کے حا صل رہا‪ ،‬البتہ عصر حاضر میں یہ تواتر‬
‫صرف متداول چار قراء ات اور روایات کو حاصل ہے۔ نیز تواترکی یہ قسم صرف قرٓان مجید کے‬
‫ساتھ خاص ہے۔‬
‫تواتر اسنادی‬
‫قرٓان مجید کے ثبوت میں اسنادی تواتر موجود ہے البتہ ائمہ عشرہ تک ہے۔ اگرچہ اس سے ٓاگے تواتر‬
‫اسنادی وتواتر عددی موجود نہیں۔ کیونکہ ائمہ عشرہ سے قبل اختالط و روایات کا دور دورہ تھا۔‬
‫پیغامات‬
‫اس اعتبار سے قرٓان قطعی الثبوت طریقہ سے ثابت ہے جسے بعض لوگ تواتر سے تعبیر کرتے ہیں۔‬
‫قراء ات عشرہ متواترہ کو جمیع فنون کے ماہرین نے ہر دور میں باالتفاق قبولیت سے نوازاہے ۔پور‬
‫ی دنیا‪ ،‬جمیع مدارس اور جمیع اہل علم جو قرٓان یا قراء ات قرٓانیہ کونقل کرنے والے ہیں وہ تمام اس‬
‫بات پرمتفق ہیں کہ مروجہ قراء ات عشرہ قرٓان ہیں۔‬
‫الخبر الواحد المحتف بالقرائن المفید للعلم القطعی‬
‫چوتھی بات جوہم بیان کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر ایک قراء ت صحت سند سے ثابت ہو اور اس‬
‫میں رسم عثمانی کی موافقت اور لغات عرب کے مطابق شروط بھی پائی جائیں تو ایسی روایت خبر‬
‫واحدۃ مقرون بالقرائن کے قبیل سے ہو کر علم قطعی کا فائدہ دے گی۔‬
‫رکن ادارہ محدث‬
‫تواتر اإلشتراک‬
‫تواتر اسنادی کا تصور چونکہ ٓائمہ محدثین کے ہاں صرف خیالی تصور ہے جس کی مثال محدثین کے‬
‫بقول عمًال موجود نہیں او رتصور تواتر بقول حافظ ابن صالح رحمہ ہللا بعض متاخر اصولیوں کی‬
‫طرف سے پیش کردہ ہے جسے صرف خطیب بغدادی رحمہ ہللا نے اصولیوں سے متاثر ہو کر فن‬
‫حدیث میں پیش کر دیا۔ (التقیید االیضاح‪،‬ص‪)۲۲۵،۲۲۶‬‬
‫چنانچہ علم مصطلح الحدیث میں تواتر کے جس تصور سے محدثین مانوس ہیں وہ تواتر االشتراک ہی‬
‫ہے۔ تواتر کے اس تصور کی رو سے جمیع قراء ات قرٓانیہ حتمی طور پر متواترہ ثابت ہیں۔‬

You might also like