Professional Documents
Culture Documents
4612 2
4612 2
اسالم التے وقت انہی چیزوں کا ہر مومن اپنی بیعت میں اق رار کرت ا تھ ا ،چن انچہ ص حابہ رض ی ہللا عنہم کے الف اظ ہیں
کہ ہم نے رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم س ے بیعت کی کہ” ہم س نتے رہیں گے اور م انتے چلے ج ائیں گے ،خ واہ جی
1
ئ ن ق
م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء ،سورۃ الما دۃ) ()4612
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
چاہے خواہ نہ چاہے ،خواہ دوسروں کو ہم پر ترجیح دی جائے اور کسی الئق شخص سے ہم کس ی ک ام ک و نہیں چھی نیں
تعالی عزوجل کا ارشاد ہے کہ ” تم کیوں ایمان نہیں التے؟ حاالنکہ رسول ص لی ہللا
ٰ گے ۔[ صحیح بخاری ]7056:باری
علیہ وسلم تمہیں رب پر ایمان النے کی دعوت دے رہے ہیں ،اگر تمہیں یقین ہو اور اس نے تم سے عہ د بھی لے لی ا ہے
“۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں یہودیوں کو یاد دالیا جا رہا ہے کہ تم سے نبی کریم صلی ہللا علیہ وس لم کی تابع داری
کے قول قرار ہو چکے ہیں ،پھر تمہاری نافرمانی کے کیا معنی؟ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حض رت آدم علیہ الس الم کی پیٹھ
سے نکال کر جو عہد ہللا رب العزت نے بنو آدم سے لیا تھا ،اسے یاد دالیا جا رہ ا ہے جس میں فرمای ا تھ ا کہ ” کی ا میں
تمہ ارا رب نہیں ہ وں؟ “ س ب نے اق رار کی ا کہ ہ اں ہم اس پ ر گ واہ ہیں ،لیکن پہال ق ول زی ادہ ظ اہر ہے۔
سدی رحمة هللا اور سیدنا ابن عب اس رض ی ہللا عنہ س ے وہی م روی ہے اور ام ام ابن جری ر رحمہ ہللا نے بھی اس ی ک و
مختار بتایا ہے۔ ہر حال میں ہر حال میں انسان کو ہللا کا خوف رکھنا چ اہیئے۔ دل وں اور س ینوں کے بھی د س ے وہ واق ف
ہے۔ ایمان والو لوگوں کو دکھانے کو نہیں بلکہ ہللا کی وجہ سے حق پر قائم ہو ج اؤ اور ع دل کے س اتھ ص حیح گ واہ بن
جاؤ۔ بخاری و مسلم میں سیدنا نعمان بن بشیر رض ی ہللا عنہ س ے روایت ہے کہ م یرے ب اپ نے مجھے ای ک عطیہ دے
رکھا تھا ،میری م اں عم رہ بنت رواحہ نے کہ ا کہ میں ت و اس وقت ت ک مطمئن نہیں ہ ونے لگی جب ت ک کہ تم اس پ ر
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو گواہ نہ بنا لو ،میرے باپ نبی ک ریم ص لی ہللا علیہ وس لم کی خ دمت میں حاض ر ہ وئے
واقعہ بیان کیا تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا اپنی دوسری اوالد ک و بھی ایس ا ہی عطیہ دی ا ہے؟ ج واب
دیا کہ نہیں ،تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :ہللا سے ڈرو ،اپنی اوالد میں عدل کیا کرو ،جاؤ میں کسی ظلم پر گ واہ
اری ]2586: حیح بخ ا ۔[ ص ا لی دقہ لوٹ اپ نے وہ ص یرے ب انچہ م ا ۔ چن نہیں بنت
پھر فرمایا ” دیکھو کسی کی عداوت اور ضد میں آ کر عدل سے نہ ہٹ جانا۔ دوست ہو یا دشمن ہو ،تمہیں عدل و انصاف
ریب یہی ہے “۔ ادہ ق ے زی وے س اہیئے ،تق اچ اتھ دین اس ک
«ه َُو» کی ض میر کے مرج ع پ ر داللت فع ل نے ک ر دی ہے جیس ے کہ اس کی نظ ریں ق رآن میں اور بھی ہے اور کالم
يل لَ ُك ُم ارْ ِج ُع وا فَ ارْ ِجعُوا هُ َو َأ ْز َك ٰى لَ ُك ْم َواللَّـهُ بِ َما تَ ْع َملُ ونَ َعلِي ٌم»-24[ الن ور:
عرب میں بھی ،جیسے اور جگہ ہےَ « وِإن قِ َ
]28یعنی ” اگر تم کسی مکان میں جانے کی اجازت مانگو اور نہ ملے بلکہ کہ ا ج ائے کہ واپس ج اؤ ت و تم واپس چلے
اعث ہے “۔ اب اکیزگی ک ادہ پ یے زی ارے ل اؤ یہی تمہ ج
پس یہاں« هُ َو» کی ضمیر کا مرجع مذکور نہیں ،لیکن فعل کی داللت موجود ہے یعنی لوٹ جانا۔ اسی ط رح من درجہ آیت
2
ئ ن ق
م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء ،سورۃ الما دۃ) ()4612
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
يل» ک ا ص یغہ ایس ے م وقعہ پ ر ہے کہ
ض ِمیں یعنی عدل کرنا۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہاں پر« ه َُو َأ ْق َربُ لِلتَّ ْق َوى»َ« أ ْف َع ِل التَّ ْف ِ
ص ٰحبُ ْال َجنَّ ِة يَوْ َم ِٕى ٍذ خَ ْي ٌر ُّم ْستَــقَ ًّرا َّواَحْ َس نُ َمقِ ْياًل »-25[
دوسری ج انب اور ک وئی چ یز نہیں ،جیس ے اس آیت میں ہے« ،اَ ْ
الفرقان ]24:۔ اور جیسے کہ کسی صحابیہ رضی ہللا عنہا کا عمر رضی ہللا عنہ سے کہنا کہ« اَ ْنتَ اَفَ ُّ
ظ َواَ ْغلَظُ ِم ْن ر ُ
َّس وْ ِل
اری ]3294: حیح بخ لَّ َم» ۔[ ص ِه َو َس لَّى هَّللا ُ َعلَ ْي هلّلا ِ َ
ص
” ہللا س ے ڈرو! وہ تمہ ارے عمل وں س ے ب اخبر ہے ،ہ ر خ یر و ش ر ک ا پ ورا پ ورا ب دلہ دے گا “۔
وہ ایمان والوں ،نیک کاروں سے ان کے گناہوں کی بخشش کا اور انہیں اجر عظیم یعنی جنت دینے کا وعدہ کر چکا ہے۔
گو دراصل وہ اس رحمت کو صرف فعل ٰالہی سے حاصل کرینگے لیکن رحمت کی ت وجہ ک ا س بب ان کے نی ک اعم ال
بنے۔ پس حقیقتا ً ہر ط رح قاب ل تعری ف و س تائش ہللا ہی ہے اور یہ س ب کچھ اس ک ا فض ل و رحم ہے۔ حکمت و ع دل ک ا
تقاضا یہی تھا کہ ایمانداروں اور نیک کاروں ک و جنت دی ج ائے اور ک افروں اور جھٹالنے وال وں ک و جہنم واص ل کی ا
جائے چنانچہ یونہی ہوگا۔ سیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہ سے مروی ہے کہ یہودیوں نے آپ صلی ہللا علیہ وس لم ک و اور
آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے صحابہ رضی ہللا عنہم کو قتل کرنے کے ارادہ سے زہر مال کر کھانا پکا کر دع وت ک ردی،
لیکن ہللا نے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو آگاہ کر دیا اور آپ ص لی ہللا علیہ وس لم بچ رہے ،یہ بھی کہ ا گی ا ہے کہ کعب بن
اش رف اور اس کے یہ ودی س اتھیوں نے اپ نے گھ ر میں بال ک ر آپ ص لی ہللا علیہ وس لم ک و ص دمہ پہنچان ا چاہ ا تھ ا ۔
ابن اسحاق رحمة هللا وغیرہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد بنو نضیر کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے چکی کا پاٹ قلعہ کے اوپر
سے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے سر پر گرانا چاہتا تھ ا جبکہ آپ ص لی ہللا علیہ وس لم ع امری لوگ وں کی دیت کے لی نے
کیل ئے ان کے پ اس گ ئے تھے ت و ان ش ریروں نے عم رو بن حج اش بن کعب ک و اس ب ات پ ر آم ادہ کی ا تھ ا کہ ہم ن بی
کریم صلی ہللا علیہ وسلم کو نیچے کھڑا کر کے باتوں میں مشغول کر لیں گے تو اوپ ر س ے یہ پھین ک ک ر آپ ص لی ہللا
الی نے اپ نے پیغم بر ص لی ہللا علیہ وس لم ک و ان کی ش رارت و
علیہ وسلم کا کام تمام کر دینا لیکن راستے میں ہی ہللا تع ٰ
خب اثت س ے آگ اہ ک ر دی ا آپ ص لی ہللا علیہ وس لم م ع اپ نے ص حابہ رض ی ہللا عنہم کے وہیں س ے پلٹ گ ئے۔
تعالی ہی پر بھروسہ کرنا چاہیئے جو کف ایت ک رنے واال ،حف اظت ک رنے
ٰ اسی کا ذکر اس آیت میں ہے ” ،مومنوں کو ہللا
واال ہے “۔ اس کے بعد نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم ہللا کے حکم سے بنو نضیر کی طرف مع لشکر گئے ،محاصرہ کیا،
وہ ہارے اور انہیں جال وطن کر دیا۔[ تفسیر ابن جریر الطبری ]11560:
ن
سوال مب ر2۔ سورۃ المائدۃکی آیت نمبر 32تا 34کی روشنی میں قانون قصاص کی حکمت واضح کیجئے۔
اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ حقیقت یہ ہے کہ جس نے ایک جان کو کسی جان کے (بدلے کے) بغیر،
یا زمین میں فساد کے بغیر قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے اسے زن دگی بخش ی ت و گوی ا
3
ئ ن ق
م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء ،سورۃ الما دۃ) ()4612
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
اس نے تمام انسانوں کو زندگی بخشی اور بالشبہ ان کے پاس ہمارے رسول واضح دالئل لے کر آئے ،پھ ر بے ش ک ان
میں سے بہت سے لوگ اس کے بعد بھی زمین میں یقینا حد سے بڑھنے والے ہیں۔ ]32[ ان لوگوں کی جزا ج و ہللا اور
اس کے رسول سے جنگ ک رتے ہیں اور زمین میں فس اد کی کوش ش ک رتے ہیں ،یہی ہے کہ انھیں ب ری ط رح قت ل کی ا
جائے ،یا انھیں بری طرح سولی دی جائے ،یا ان کے ہاتھ اور پائوں مختلف سمتوں سے بری طرح کاٹے جائیں ،یا انھیں
اس سر زمین سے نکال دیا جائے۔ یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بہت بڑا ع ذاب ہے۔[
]33مگر جو لوگ اس سے پہلے توبہ کر لیں کہ تم ان پر قابو پائو تو جان لو کہ ہللا بے حد بخش نے واال ،نہ ایت مہرب ان
ہے۔]34[
سیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہما سے مروی ہے کہ اہل کتاب کے ایک گروہ سے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کا معاہ دہ
تعالی نے اپنے نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کو اختیار
ٰ ہوگیا تھا لیکن انہوں نے اسے توڑ دیا اور فساد مچا دیا۔ اس پر ہللا
دی ا کہ اگ ر آپ ص لی ہللا علیہ وس لم چ اہیں ت و انہیں قت ل ک ر دیں ،چ اہیں ت و ال ٹے س یدھے ہ اتھ پ اؤں کٹ وا دیں ۔
سعد رحمة هللا فرماتے ہیں“ یہ حروریہ خوارج کے ب ارے میں ن ازل ہ وئی ہے۔“ ص حیح یہ ہے کہ ج و بھی اس فع ل ک ا
ئے یہ حکم ہے۔ و اس کیل رتکب ہ م
چنانچہ بخاری مسلم میں ہے کہ قبیلہ عکل کے آٹھ آدمی رسول ہللا صلی ہللا علیہ وس لم کے پ اس آئے ،آپ ص لی ہللا علیہ
وسلم نے ان سے فرمایا :اگر تم چاہو تو ہمارے چرواہوں کے ساتھ چلے جاؤ اونٹوں کا دودھ اور پیش اب تمہیں ملے گ ا ۔
چنانچہ یہ گئے اور جب ان کی بیماری جاتی رہی تو انہوں نے ان چرواہ وں ک و م ار ڈاال اور اونٹ لے ک ر چل تے ب نے،
حض ور ص لی ہللا علیہ وس لم ک و جب یہ خ بر پہنچی ت و آپ ص لی ہللا علیہ وس لم نے ص حابہ رض ی ہللا عنہم ک و ان کے
پیچھے دوڑایا کہ انہیں پکڑ الئیں ،چنانچہ یہ گرفتار کئے گئے اور نبی کریم صلی ہللا علیہ وس لم کے س امنے پیش ک ئے
گئے۔ پھر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے اور آنکھوں میں گرم سالئیاں پھیری گ ئیں اور دھ وپ میں پ ڑے ہ وئے ت ڑپ
تڑپ کر مر گئے ۔ مسلم میں ہے یا تو یہ لوگ عکل کے تھے یا عرینہ کے۔ یہ پانی مانگتے تھے مگ ر انہیں پ انی نہ دی ا
اری ]233: حیح بخ ئے ۔[ ص وئے گ ا نہ ان کے زخم دھ گی
انہوں نے چوری بھی کی تھی ،قتل بھی کیا تھا ،ایمان کے بعد کفر بھی کی ا تھ ا اور ہللا رس ول ص لی ہللا علیہ وس لم س ے
لڑتے بھی تھے۔ انہوں نے چرواہوں کی آنکھوں میں گرم سالئیاں بھی پھیری تھیں ،مدینے کی آب و ہوا اس وقت درس ت
نہ تھی ،سرسام کی بیماری تھی ،حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے ان کے پیچھے بیس انص اری گھ وڑ س وار بھیجے تھے
اور ایک کھوجی تھا ،جو نشان قدم دیکھ کر رہبری کرتا جاتا تھا۔ موت کے وقت ان کی پیاس کے مارے یہ حالت تھی کہ
زمین چ اٹ رہے تھے ،انہی کے ب ارے میں یہ آیت ات ری ہے۔[ س نن ترم ذي ،1845:ق ال الش يخ األلب اني:ص حیح]
4
ئ ن ق
م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء ،سورۃ الما دۃ) ()4612
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
ایک مرتبہ حجاج نے سیدنا انس رضی ہللا عنہ سے سوال کی ا کہ س ب س ے ب ڑی اور س ب س ے س خت س زا ج و رس ول
ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے کسی کو دی ہو ،تم بی ان ک رو ت و آپ رض ی ہللا عنہ نے یہ واقعہ بی ان فرمای ا۔ اس میں یہ بھی
ہے کہ یہ لوگ بحرین سے آئے تھے ،بیماری کی وجہ سے ان کے رنگ زرد پڑ گئے تھے اور پیٹ ب ڑھ گ ئے تھے ت و
آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے انہیں فرمایا :کہ جاؤ اونٹوں میں رہو اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو ۔ حض رت انس رض ی ہللا
عنہ فرماتے ہیں” پھر میں نے دیکھا کہ حج اج نے ت و اس روایت ک و اپ نے مظ الم کی دلی ل بن ا لی تب ت و مجھے س خت
واهد] هش عیف ول ناده ض ان کی؟۔“[ اس وں بی دیث کی ے یہ ح وئی کہ میں نے اس س دامت ہ ن
اور روایت میں ہے کہ ان میں سے چار شخص تو عرینہ ق بیلے کے تھے اور تین عک ل کے تھے ،یہ س ب تندرس ت ہ و
بری ]11818: ر الط یر ابن جری ئے۔[ تفس د بن گ و یہ مرت ئے ت گ
ایک اور روایت میں ہے کہ راستے بھی انہوں نے بند کر دیئے تھے اور زنا ک ار بھی تھے۔[ تفس یر ابن جری ر الط بری:
]11820
جب یہ آئے تو اب سب کے پاس بوجہ فقیری پہننے کے کپڑے تک نہ تھے ،یہ قتل و غارت کر کے بھاگ کر اپنے ش ہر
کو جا رہے تھے۔ سیدنا جریر رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ یہ اپنی قوم کے پاس پہنچنے والے تھے ج و ہم نے انہیں ج ا
لیا۔ وہ پانی مانگتے تھے اور نبی کریم صلی ہللا علیہ وس لم فرم اتے تھے اب ت و پ انی کے ب دلے جہنم کی آگ ملے گی ۔
اس روایت میں یہ بھی ہے کہ آنکھوں میں سالئیاں پھیرن ا ہللا ک و ناپس ند آی ا ،یہ ح دیث ض عیف اور غ ریب ہے لیکن اس
سے یہ معلوم ہوا کہ جو لشکر ان مرتدوں کے گرفتار کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا ،ان کے س ردار س یدنا جری ر رض ی ہللا
الی نے ان کی آنکھ وں میں س الئیاں پھیرن ا مک روہ
عنہ تھے۔ ہ اں اس روایت میں یہ فق رہ بالک ل منک ر ہے کہ ہللا تع ٰ
بری ]11815: ر الط یر ابن جری ا۔[ تفس رکھ
اس لیے کہ صحیح مسلم میں یہ موجود ہے کہ انہوں نے چرواہوں کے ساتھ بھی یہی کی ا تھ ا ،پس یہ اس ک ا ب دلہ اور ان
کا قصاص تھا جو انہوں نے ان کے ساتھ کیا تھا وہی ان کے ساتھ کیا گی ا ۔َ « وهللاُ اَ ْعلَ ُم» ۔ اور روایت میں ہے کہ یہ ل وگ
بن و ف زارہ کے تھے ،اس واقعہ کے بع د ن بی ک ریم ص لی ہللا علیہ وس لم نے یہ س زا کس ی ک و نہیں دی۔[ عب د ال رزاق:
عیف] :18541ض
ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا ایک غالم تھا ،جس کا ن ام یس ار تھ ا چ ونکہ یہ ب ڑے اچھے
نمازی تھے ،اس لیے حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر دیا تھا اور اپنے اونٹوں میں انہیں بھیج دی ا تھ ا کہ یہ
ان کی نگرانی رکھیں ،انہی کو ان مرتدوں نے قتل کیا اور ان کی آنکھوں میں کانٹے گاڑ ک ر اونٹ لے ک ر بھ اگ گ ئے،
5
ئ ن ق
م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء ،سورۃ الما دۃ) ()4612
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
جو لشکر انہیں گرفتار کر کے الیا تھا ،ان میں ایک شاہ زور کرز بن جابر فہری تھے ۔[ ط برانی کب یر:6223:ض عیف]
حافظ ابوبکر بن مردویہ رحمة هللا نے اس روایت کے تمام طریقوں کو جمع ک ر دی ا ہللا انہیں ج زائے خ یر دے۔ اب وحمزہ
عبد الکریم رحمة هللا سے اونٹوں کے پیشاب کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو آپ ان محاربین ک ا قص ہ بی ان فرم اتے ہیں
اس میں یہ بھی ہے کہ یہ لوگ منافقانہ طور پر ایمان الئے تھے اور نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم س ے م دینے کی آب و
ہوا کی ناموافقت کی شکایت کی تھی ،جب نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کو ان کی دغا بازی اور قتل و غ ارت اور ارت داد
و ۔ ڑے ہ کریو اٹھ کھ رائی کہ ہللا کے لش ادی ک لم نے من لی ہللا علیہ وس و آپ ص وا ،ت ا علم ہ ک
یہ آواز سنتے ہی مجاہدین کھڑے ہو گئے ،بغیر اس کے کہ کوئی کسی کا انتظار کرے ان مرتد ڈاک وؤں اور ب اغیوں کے
پیچھے دوڑے ،خود نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم بھی ان کو روانہ کر کے ان کے پیچھے چلے ،وہ لوگ اپنی جائے امن
میں پہنچنے ہی کو تھے کہ صحابہ رضی ہللا عنہم نے انہیں گھیر لیا اور ان میں سے جت نے گرفت ار ہ و گ ئے ،انہیں لے
کر نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیا اور یہ آیت ات ری ،ان کی جال وط نی یہی تھی کہ انہیں حک ومت
اسالم کی ح دود س ے خ ارج ک ر دی ا گی ا۔ پھ ر ان ک و عبرتن اک س زائیں دی گ ئیں۔ اس کے بع د ن بی ک ریم ص لی ہللا علیہ
وسلم نے کسی کے بھی اعضاء بدن سے جدا نہیں ک رائے بلکہ آپ نے اس س ے من ع فرمای ا ہے ،ج انوروں ک و بھی اس
طرح کرنا منع ہے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ قتل کے بعد انہیں جال دیا گیا[ ،تفسیر ابن جریر الطبری:11814:ضعیف]
بعض کہتے ہیں یہ بنو سلیم کے لوگ تھے۔ بعض بزرگوں کا قول ہے کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے جو س زا انہیں
دی وہ ہللا کو پسند نہ آئیں اور اس آیت سے اسے منسوخ کردیا۔ ان کے نزدیک گویا اس آیت میں نبی کریم ص لی ہللا علیہ
ا ہے۔ ا گی ے روک زا س و اس س لم ک وس
ص َدقُوا َوتَ ْعلَ َم ْال َك ا ِذبِينَ »-9[ التوب ة ]43:میں اور بعض کہ تے جیسے آیتَ « عفَا اللَّـهُ عَنكَ لِ َم َأ ِذنتَ لَهُ ْم َحتَّ ٰى يَتَبَيَّنَ لَ َ
ك الَّ ِذينَ َ
ہیں کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے مثلہ کرنے سے یعنی ہاتھ پاؤں کان ن اک ک اٹنے س ے ج و مم انعت فرم ائی ہے،
ئی۔ وگ وخ ہ زا منس ے یہ س دیث س اس ح
لیکن یہ ذرا غور طلب ہے پھر یہ بھی سوال طلب امر ہے کہ ناس خ کی ت اخیر کی دلی ل کی ا ہے؟ بعض کہ تے ہیں ح دود
اسالم مقرر ہوں اس سے پہلے کا یہ واقعہ ہے لیکن یہ بھی کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا ،بلکہ حدود کے تقرر کے بع د ک ا
واقعہ معلوم ہوتا ہے اس ل یے کہ اس ح دیث کے ای ک راوی س یدنا جری ر بن عب دہللا رض ی ہللا عنہ ہیں اور ان ک ا اس الم
سورۃ المائدہ کے نازل ہو چکنے کے بعد کا ہے۔ بعض کہتے ہیں ن بی ک ریم ص لی ہللا علیہ وس لم نے ان کی آنکھ وں میں
گرم سالئیاں پھیرنی چاہی تھیں لیکن یہ آیت اتری اور آپ صلی ہللا علیہ وس لم اپ نے ارادے س ے ب از رہے ،لیکن یہ بھی
6
ئ ن ق
م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء ،سورۃ الما دۃ) ()4612
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
درست نہیں۔ اس لیے کہ بخاری و مسلم میں یہ لفظ ہیں کہ نبی کریم ص لی ہللا علیہ وس لم نے ان کی آنکھ وں میں س الئیں
پھروائیں ۔
ن
سوال مب ر 3۔ سورۃ المائدۃکی آیت نمبر 57تا 63کی روشنی میں شعائر دین کی اہمیت تحریر کیجئے۔
اے لوگو جو ایمان الئے ہو! ان لوگوں کو جنھوں نے تمھارے دین کو مذاق اور کھیل بنا لیا ،ان لوگوں میں سے جنھیں تم
سے پہلے کتاب دی گئی ہے اور کفار کو دوست نہ بنائو اور ہللا سے ڈرو ،اگر تم ایمان والے ہ و۔ ]57[ اور جب تم نم از
کی طرف آواز دیتے ہو تو وہ اسے مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ وہ ایس ے ل وگ ہیں ج و س مجھتے نہیں۔[
]58
کہہ دے اے اہل کتاب! تم ہم سے اس کے سوا کس چیز کا انتقام لیتے ہو کہ ہم ہللا پ ر ایم ان الئے اور اس پ ر ج و ہم اری
طرف نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو اس سے پہلے نازل کیا گیا اور یہ کہ تمھارے اکثر نافرمان ہیں۔ ]59[ کہہ دے کی ا
میں تمھیں ہللا کے نزدیک جزا کے اعتبار سے اس سے زیادہ برے لوگ بت ائوں ،وہ جن پ ر ہللا نے لعنت کی اور جن پ ر
غصے ہوا اور جن میں سے بندر اور خنزیر بنا دیے اور جنھوں نے طاغوت کی عب ادت کی ،یہ ل وگ درجے میں زی ادہ
برے اور سیدھے راستے سے زیادہ بھٹکے ہ وئے ہیں۔ ]60[ اور جب وہ تمھ ارے پ اس آتے ہیں ت و کہ تے ہیں ہم ایم ان
الئے ،حاالنکہ یقینا وہ کفر کے ساتھ داخل ہوئے اور یقینا اسی کے ساتھ وہ نکل گئے اور ہللا زیادہ جاننے واال ہے جو وہ
چھپاتے تھے۔ ]61[ اور تو ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھے گا کہ وہ گناہ اور زیادتی اور اپنی ح رام خ وری میں
دوڑ کر جاتے ہیں۔ یقینا برا ہے جو وہ عمل کرتے تھے۔ ]62[ انھیں رب والے لوگ اور علماء ان کے جھوٹ کہ نے اور
ان کے حرام کھانے سے کیوں نہیں روکتے؟ یقینا برا ہے جو وہ کیا کرتے تھے۔]63[
حکم ہوتا ہے کہ ” جو اہل کتاب تمہارے دین پر م ذاق اڑاتے ہیں ،ان س ے کہ و کہ تم نے ج و دش منی ہم س ے ک ر رکھی
ہے ،اس کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں کہ ہم ہللا پر اور اس کی تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں “۔ پس دراص ل نہ ت و
ع ہے۔ تثناء منقط ذمت بہ اس بب م وئی وجہ بغض ہے ،نہ س یہ ک
«و َما نَقَ ُموْ ا ِم ْنهُ ْم اِآَّل اَ ْن يُّْؤ ِمنُوْ ا باهّٰلل ِ ْال َع ِزي ِْز ْال َح ِم ْي ِد»-85[ البروج ، ]8:یعنی ” فقط اس وجہ سے انہ وں نے
اور آیت میں ہےَ
انتے تھے “۔ وم دک ز و حمی منی کی تھی کہ وہ ہللا عزی ے دش ان س
اور جیسے اور آیت میںَ « و َما نَقَ ُموا ِإاَّل َأ ْن َأ ْغنَاهُ ُم اللَّـهُ َو َرسُولُهُ ِمن فَضْ لِ ِه»-9[ التوبة ]74:۔ یع نی ” انہ وں نے ص رف اس
کا انتقام لیا ہے کہ انہیں ہللا نے اپنے فضل سے اور رسول صلی ہللا علیہ وسلم نے مال دے کر غنی کر دیا ہے “۔
بخاری مسلم کی حدیث میں ہے ابن جمیل اس ی ک ا ب دلہ لیت ا ہے کہ وہ فق یر تھ ا ت و ہللا نے اس ے غ نی ک ر دی ا ۔[ ص حیح
اری ]1468: بخ
اور یہ کہ تم میں سے اکثر صراط مستقیم سے الگ اور خارج ہو چکے ہیں ،تم جو ہماری نسبت گمان رکھتے ہ و آؤ میں
تمہیں بتاؤں کہ ہللا کے ہاں سے بدلہ پانے میں کون بدتر ہے؟ اور وہ تم ہ و کہ کی ونکہ یہ خص لتیں تم میں ہی پ ائی ج اتی
ہیں۔ یعنی جسے ہللا نے لعنت کی ہو ،اپنی رحمت سے دور پھینک دی ا ہ و ،اس پ ر غص بناک ہ وا ہ و ،ایس ا جس کے بع د
رضامند نہیں ہوگا اور جن میں سے بعض کی صورتیں بگاڑ دی ہ وں ،بن در اور س ور بن ا دی ئے ہ وں۔ اس ک ا پ ورا بی ان
7
ئ ن ق
م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء ،سورۃ الما دۃ) ()4612
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
ا ہے۔ زر چک رہ میں گ ورۃ البق س
نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ یہ بندر و سور وہی ہیں؟ تو آپ ص لی ہللا علیہ وس لم نے فرمای ا ،جس ق وم
پر ہللا کا ایسا عذاب نازل ہوتا ہے ،ان کی نسل ہی نہیں ہوتی ،ان سے پہلے بھی سور اور بندر تھے ۔ روایت مختلف الفاظ
میں صحیح مسلم اور نسائی میں بھی ہے۔[ صحیح مسلم ]2663:
مسند میں ہے کہ جنوں کی ای ک ق وم س انپ بن ا دی گ ئی تھی۔ جیس ے کہ بن در اور س ور بن ا دی ئے گ ئے ۔[ مس ند احم د:
حیح] :348/1ص
ئے ۔ ا دی تار بن یر ہللا کے پرس وغ ے بعض ک ریب ہے ،انہی میں س دیث بہت ہی غ یہ ح
ایک قرأت میں اضافت کے ساتھ طاغوت کی زیر سے بھی ہے۔ یعنی ” انہیں بتوں ک ا غالم بن ا دی ا “۔ بری د اس لمی رحمہ
ت» پڑھ تے تھے۔ اب و جعف ر ق اری رحمہ ہللا س ےَ « و ْعبِ َد الطَّا ُغوْ ُ
ت» بھی منق ول ہے ج و بعی د از ہللا اسے« عَابِ ُد الطَّا ُغوْ ِ
معنی ہو جات ا ہے لیکن فی الواق ع ایس ا نہیں ہوت ا مطلب یہ ہے کہ ” تم ہی وہ ہ و ،جنہ وں نے ط اغوت کی عب ادت کی “۔
الغرض اہل کتاب کو الزام دیا جاتا ہے کہ ہم پر تو عیب گیری کرتے ہ و ،ح االنکہ ہم موح د ہیں ،ص رف ای ک ہللا برح ق
کے ماننے والے ہیں اور تم تو وہ ہو کہ مذکورہ سب برائیاں تم میں پائی گئیں۔ اسی ل یے خ اتمے پ ر فرمای ا کہ یہی ل وگ
باعتبار قدر و منزلت کے بہت برے ہیں اور باعتبار گمراہی کے انتہائی غلط راہ پ ر پ ڑے ہ وئے ہیں۔ اس افع ل التفص یل
میں دوسری جانب کچھ مشارکت نہیں اور یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں۔ جیسے اس آیت میں « اَصْ ٰحبُ ْال َجنَّ ِة يَوْ َم ِٕى ٍذ َخ ْي ٌر
ان ]24: نُ َمقِ ْياًل »-25[ الفرق ُّم ْستَــقَ ًّرا َّواَحْ َس
پھر منافقوں کی ایک اور بدخصلت بیان کی جا رہی ہے کہ ” ظاہر میں تو وہ مومنوں کے سامنے ایمان کا اظہ ار ک رتے
ہیں اور ان کے باطن کفر سے بھرے پڑے ہیں۔ یہ تیرے کفر کی حالت میں پاس آتے ہیں اور اسی حالت میں تیرے پ اس
سے جاتے ہیں تو تیری باتیں ،تیری نصیحتیں ان پر کچھ اثر نہیں کرتیں۔ بھال یہ پ ردہ داری انہیں کی ا ک ام آئے گی ،جس
سے ان کا معاملہ ہے ،وہ تو عالم الغیب ہے ،دلوں کے بھید اس پر روشن ہیں۔ وہاں جا کر پورا پورا بدلہ بھگتنا پڑے گا
” تو دیکھ رہا ہے کہ یہ لوگ گناہوں پر ،حرام پر اور باطل کے ساتھ لوگوں کے مال پر کس طرح چڑھ دوڑتے ہیں؟ ان
کے اعمال نہایت ہی خراب ہو چکے ہیں۔ ان کے اولیاء ہللا یعنی عابد و عالم اور ان کے علماء انہیں ان باتوں س ے کی وں
نہیں روکتے؟ دراصل ان کے علماء اور پیروں کے اعمال بدترین ہوگئے ہیں “۔ سیدنا ابن عب اس رض ی ہللا عنہ فرم اتے
ہیں کہ” علماء اور فقراء کی ڈانٹ کیلئے اس سے زیادہ سخت آیت کوئی نہیں۔“
ن
سوال مب ر 4۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر 89تا 93کی روشنی میں بیان کردہ شراب کے قطعی حکم کی وضاحت کیجئے۔
ہللا تم سے تمھاری قسموں میں لغو پر مٔواخذہ نہیں کرتا اور لیکن تم سے اس پر مٔواخذہ کرت ا ہے ج و تم نے پختہ ارادے
سے قسمیں کھائیں۔ تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھالنا ہے ،درمیانے درجے ک ا ،ج و تم اپ نے گھ ر وال وں ک و
کھالتے ہو ،یا انھیں کپڑے پہنانا ،یا ایک گردن آزاد کرنا ،پھر جو نہ پائے ت و تین دن کے روزے رکھن ا ہے۔ یہ تمھ اری
قسموں کا کفارہ ہے ،جب تم قسم کھا لو اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ اسی طرح ہللا تمھارے لیے اپنی آیات کھول کر
بیان کرتا ہے ،تاکہ تم شکر کرو۔ ]89[ اے لوگو جو ایمان الئے ہو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور ش رک کے ل یے
8
ئ ن ق
م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء ،سورۃ الما دۃ) ()4612
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیر سراسر گندے ہیں ،شیطان کے کام سے ہیں ،س و اس س ے بچ و ،ت اکہ تم فالح پ ائو۔[
]90شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمھارے درمی ان دش منی اور بغض ڈال دے اور تمھیں ہللا
کے ذکر سے اور نماز سے روک دے ،تو کیا تم باز آنے والے ہ و۔ ]91[ اور ہللا ک ا حکم م انو اور رس ول ک ا حکم م انو
اور بچ جاؤ ،پھر اگر تم پھر جائو تو ج ان ل و کہ ہم ارے رس ول کے ذمے ت و ص رف واض ح ط ور پ ر پہنچ ا دین ا ہے۔[
]92ان لوگوں پر جو ایمان الئے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اس چیز میں کوئی گناہ نہیں ج و وہ کھ ا چکے ،جب کہ
وہ متقی بنے اور ایمان الئے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ،پھر وہ متقی ب نے اور ایم ان الئے ،پھ ر وہ متقی ب نے اور
انھوں نے نیکی کی اور ہللا نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔]93[
اب ہم یہاں پر حرمت شراب کی مزید احادیث وارد کرتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے سیدنا اب وہریرہ رض ی ہللا عنہ فرم اتے
ہیں شراب تین مرتبہ حرام ہوئی۔ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم جب مدینے شریف میں آئے تو ل وگ ج واری ش رابی تھے
نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم سے اس ب ارے میں س وال ہ وا اور آیت« يَ ْســَٔـلُوْ نَكَ ع َِن ْالخَ ــ ْم ِر َو ْال َمي ِْس ِر قُ لْ فِ ْي ِه َمآ اِ ْث ٌم َكبِ ْي ٌر
وئی۔ ازل ہ رۃ ]219:ن ُر ِم ْن نَّ ْف ِع ِه َما»-2[ البق اس ۡ َواِ ْثـ ُمهُ َمآ اَ ْكبَ
افِ ُع للنَّ ِ َّو َمنَ
اس پر لوگوں نے کہا یہ دونوں چیزیں ہم پر حرام نہیں کی گئیں بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ” ان میں بہت ب ڑا گن اہ ہے اور
تے رہے۔ راب پی انچہ ش د بھی ہیں “۔ چن ئے کچھ فوائ وں کیل لوگ
ایک دن ایک صحابی رضی ہللا عنہ اپنے ساتھیوں کو مغرب کی نماز پڑھانے کیلئے کھڑے ہوئے تو قرأت خ ط مل ط ہ و
الص ٰلوةَ َواَ ْنتُ ْم ُس ٰك ٰرى َح ٰتّى تَ ْعلَ ُم وْ ا َم ا تَقُوْ لُ وْ نَ َواَل ُجنُبً ا اِاَّل َع ابِ ِريْ َس بِ ْي ٍل َح ٰتّى
گئی اس پر آیتٰ « يٓاَيُّھَ ا الَّ ِذ ْينَ ٰا َمنُ وْ ا اَل تَ ْق َربُ وا َّ
تَ ْغتَ ِسلُوْ ا»-4[ النسآء ]43:نازل ہوئی۔ یہ بہ نسبت پہلی آیت کے زیادہ س خت تھی اب لوگ وں نے نم ازوں کے وقت ش راب
اری رہی۔ رج ادت براب وڑ دی لیکن ع چھ
اس پر اس سے بھی زیادہ سخت اور صریح آیتٰ « يٓاَيُّھَاالَّ ِذ ْينَ ٰا َمنُ ْٓوا اِنَّ َما ْالخَ ْم ُر َو ْال َمي ِْس ُر َوااْل َ ْن َ
ص ابُ َوااْل َ ْزاَل ُم ِرجْ سٌ ِّم ْن َع َم ِل
ال َّشي ْٰط ِن فَاجْ تَنِبُوْ هُ لَ َعلَّ ُك ْم تُ ْفلِحُوْ نَ »-5[ المائدہ ]90:نازل ہوئی اسے سن کر سارے صحابہ رضی ہللا عنہم بول اٹھے« اِ ْنتَهَ ْینَ ا
ئے۔“ از رہے ،ہم رک گ َربَّنَا»” اے ہللا ہم اب ب
پھر لوگوں نے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا جو شراب اور جوئے کی حرمت کے نازل ہ ونے س ے پیش تر ہللا
ت ُجنَ ا ٌح ْس َعلَى الَّ ِذينَ آ َمنُوا َو َع ِملُوا َّ
الص الِ َحا ِ کی راہ میں شہید کئے گئے تھے اس کے جواب میں اس کے بعد کی آیت« لَي َ
ت ثُ َّم اتَّقَ وا َّوآ َمنُ وا ثُ َّم اتَّقَ وا َّوَأحْ َس نُوا َوهَّللا ُ يُ ِحبُّ ْال ُمحْ ِس نِينَ »-5[ المائ دہ، ]93: فِي َما طَ ِع ُموا ِإ َذا َما اتَّقَوا َّوآ َمنُوا َو َع ِملُوا َّ
الص الِ َحا ِ
نازل ہوئی اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :اگر ان کی زندگی میں یہ حکم اترا ہوتا تو وہ بھی تمہ اری ط رح اس ے
مان لیتے ۔[ مسند احمد:351/2:ضعیف] مسند احمد میں ہے عمر بن خط اب رض ی ہللا عنہ نے تح ریم ش راب کے ن ازل
9
ئ ن ق
م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء ،سورۃ الما دۃ) ()4612
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
ہونے پر فرمایا یا ہللا ہمارے سامنے اور کھول کر بیان فرما پس سورۃ البقرہ کی آیت« فِي ِه َما ِإ ْث ٌم َكبِ يرٌ»-2[ البق رہ ]219:
نازل ہوئی۔ سیدنا عمر فاروق رضی ہللا عنہ کو بلوایا گیا اور ان کے س امنے اس کی تالوت کی گ ئی پھ ر بھی آپ رض ی
ا!۔“ وں میں فرم ح لفظ و ہمیں اور واض ا” اے ہللا ت ہللا عنہ نے فرمای
الص اَل ةَ َوَأنتُ ْم ُس َكا َر ٰى»-4[ النس اء ]43:ن ازل ہ وئی اور م ؤذن جب« حی علی
پس س ورۃ نس اء کی آیت« اَل تَ ْق َربُ وا َّ
ریب بھی نہ آئیں۔ از کے ق ز نم ز ہرگ از ہرگ ہب ا کہ نش اتھ ہی کہہ دیت وس ات لوۃ» کہت الص
سیدنا عمر رضی ہللا عنہ کو بلوایا گیا اور یہ آیت بھی انہیں سنائی گ ئی لیکن پھ ر بھی آپ رض ی ہللا عنہ نے یہی فرمای ا
کہ” اے ہللا اس بارے میں صفائی سے بیان فرما۔“ پس سورۃ المائدہ کی آیت اتری آپ رضی ہللا عنہ کو بلوای ا گی ا اور یہ
الص اَل ِة فَهَ لْ َأنتُم ض ا َء فِي ْال َخ ْم ِر َو ْال َمي ِْس ِر َويَ ُ
ص َّد ُك ْم عَن ِذ ْك ِر هَّللا ِ َوع َِن َّ آیتِ« إنَّ َما ي ُِري ُد ال َّش ْيطَانُ َأن يُوقِ َع بَ ْينَ ُك ُم ْال َع دَا َوةَ َو ْالبَ ْغ َ
ُّمنتَهُونَ »-5[ المائدہ ]91:سنائی گئی جب« فَهَلْ َأنتُم ُّمنتَهُونَ » تک سنا ت و فرم انے لگے « اِ ْنتَهَ ْینَ ا اِ ْنتَهَ ْینَ ا» ہم رک گ ئے ہم
حیح] اني:ص يخ األلب ال الش وداود ،3670:ق نن اب ئے۔[ س رک گ
بخاری و مسلم میں ہے کہ” سیدنا فاروق اعظم رضی ہللا عنہ نے منبرنبوی پر خطبہ دی تے ہ وئے فرمای ا کہ” ش راب کی
حرمت جب نازل ہوئی اس وقت شراب پانچ چیزوں کی بنائی جاتی تھی ،انگور ،شہد ،کھجور ،گہیوں اور جو۔ ہر وہ چ یز
جو عقل پر غالب آ جائے خمر ہے۔ یعنی شراب کے حکم میں ہے اور حرام ہے۔“[ صحیح بخاری ]4619:
صحیح بخاری میں ابن عمر رضی ہللا عنہ سے مروی ہے کہ” شراب کی حرمت کی آیت کے نزول کے موقع پر م دینے
ش ریف میں پ انچ قس م کی ش رابیں تھیں ان میں انگ ور کی ش راب نہ تھی۔“[ ص حیح بخ اری ]4616:
اب وداؤد طیالس ی میں ہے س یدنا ابن عم ر رض ی ہللا عنہ فرم اتے ہیں” ش راب کے ب ارے میں تین آی تیں ات ریں۔ اول ت و
ك َع ِن ْال َخ ْم ِر َو ْال َم ْي ِس ِر قُلْ فِي ِه َما ِإ ْث ٌم َكبِي ٌر»-2[ البقرۃ ]219:والی آیت اتری تو کہ ا گی ا کہ ش راب ح رام ہوگ ئی۔
آیت« يَ ْسَألُونَ َ
اس پر بعض صحابہ رضی ہللا عنہ نے فرمایا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم ہمیں اس سے نفع اٹھانے دیجئیے جیس ے کہ
الص اَل ةَ َوَأنتُ ْم ُس َك َ
ار ٰى»-4[ النس اء ]43: تعالی نے فرمایا ،آپ صلی ہللا علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔ پھر آیت« اَل تَ ْق َربُ وا َّ
ٰ ہللا
والی آیت اتری اور کہا گیا کہ شراب حرام ہوگئی۔ لیکن صحابہ رضی ہللا عنہم نے فرمایا رسول ہللا ہم بوقت نماز نہ پ ئیں
گے۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم پھر چپ رہے پھر یہ دونوں آیتیں اتری اور خود رسول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم نے فرمادی ا
عیف] ان:5570:ض عب االیم ئی ۔[ بیهقی فی ش رام ہوگ راب ح کہ اب ش
مسلم وغیرہ میں ہے کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا ایک دوست تھا ق بیلہ ثقی ف میں س ے ی ا ق بیلہ دوس میں س ے۔ فتح
مکہ والے دن وہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم سے مال اور ایک مشک شراب کی آپ صلی ہللا علیہ وس لم ک و تحفت ا ً دی نے لگ ا
10
ئ ن ق
م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء ،سورۃ الما دۃ) ()4612
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
تعالی نے اسے حرام کر دیا ہے ۔ اب اس شخص نے اپنے
ٰ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہللا
غالم سے کہا کہ جا اسے بیچ ڈال ،آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :کیا کہا؟ اس نے جواب دی ا کہ بیچ نے ک و کہہ رہ ا
ہوں۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :جس ہللا نے اس کا پینا حرام کیا ہے اسی نے اس کا بیچنا بھی حرام کی ا ہے ۔ اس
نے اس ی وقت کہ ا ج اؤ اس ے لے ج اؤ اور بطح اء کے می دان میں بہ ا آؤ ۔[ ص حیح مس لم ]1579:
یعلی موصلی میں ہے کہ سیدنا تمیم دارمی رضی ہللا عنہ ،نبی کریم ص لی ہللا علیہ وس لم ک و تحفہ دی نے کیل ئے ای ک
ابو ٰ
مشک شراب کی الئے ،آپ صلی ہللا علیہ وسلم اسے دیکھ کر ہنس دیئے اور فرمایا :یہ تو تمہارے ج انے کے بع د ح رام
ہو گئی ہے ۔ کہا خیر یا رسول ہللا میں اسے واپس لے جاتا ہوں اور بیچ کر قیمت وصول کر لوں گا ،یہ سن کر آپ ص لی
ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :یہودیوں پر ہللا کی لنعٹ ہوئی کہ ان پر جب گ ائے بک ری کی چ ربی ح رام ہ وئی ت و انہ وں نے
الی نے ش راب ک و اور اس کی قیمت ک و ح رام ک ر دی ا ہے ۔[ ط برانی کب یر:
اس ے پگھال ک ر بیچن ا ش روع کی ا ،ہللا تع ٰ
:1275ضعیف] مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے ،اس میں ہے کہ ہر سال دارمی ایک مشک ہدیہ ک رتے تھے ،اس کے
آخر میں حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا دو مرتبہ یہ فرمانا ہے کہ شراب بھی ح رام اور اس کی قیمت بھی ح رام ۔[ مس ند
حیح] د:227/4:ص احم
ایک حدیث مسند احمد میں اور ہے اس میں ہے کہ کیس ان رض ی ہللا عنہ ش راب کے ت اجر تھے جس س ال ش راب ح رام
ہوئی اس سال یہ شام کے ملک سے بہت سی شراب تجارت کیلئے الئے تھے حضور صلی ہللا علیہ وسلم س ے ذک ر کی ا۔
آپ صلی ہللا علیہ وس لم نے فرمایا :اب ت و ح رام ہوگ ئی ۔ پوچھ ا پھ ر میں اس ے بیچ ڈال وں؟ آپ ص لی ہللا علیہ وس لم نے
فرمایا :یہ بھی ح رام ہے اور اس کی قیمت بھی ح رام ہے ۔ چن انچہ کیس ان رض ی ہللا عنہ نے وہ س اری ش راب بہ ا
عیف] د:335/4:ض ند احم دی ۔[ مس
مسند احمد میں ہے سیدنا انس رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں ،میں ابوعبیدہ بن جراح ابی بن کعب ،سہل بن بیضاء اور صحابہ
کرام رضی ہللا عنہم کی ایک جماعت کو شراب پال رہا تھا دور چل رہا تھ ا س ب ل ذت ان دوز ہ و رہے تھے ق ریب تھ ا کہ
نشے کا پارہ بڑھ جائے ،اتنے میں کسی صحابی رضی ہللا عنہ نے آکر خبر دی کہ کیا تمہیں علم نہیں شراب تو حرام ہ و
گئی؟ انہیں نے کہا بس کرو جو باقی بچی ہے اسے لنڈھا دو ہللا کی قس م اس کے بع د ای ک قط رہ بھی ان میں س ے کس ی
کے حلق میں نہیں گیا۔ یہ شراب کھجور کی تھی اور عموما ً اسی کی ش راب بن ا ک رتی تھی ۔ یہ روایت بخ اری مس لم میں
بھی ہے۔[ صحیح بخاری ]5582:
مسند احمد کی اور روایت میں ہے کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے یہ مشکیں کٹوا دیں پھر مجھے اور میرے ساتھیوں
کو چھری دے کر فرمایا جاؤ جتنی مشکیں شراب کی جہاں پاؤ سب کاٹ ک ر بہ ا دو ،پس ہم گ ئے اور س ارے ب ازار میں
حیح] د:132/2:ص ند احم وڑی ۔[ مس ک بھی نہ چھ ک مش ای
11
ئ ن ق
م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء ،سورۃ الما دۃ) ()4612
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
بیہقی کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص شراب بیچتے تھے اور بہت خیرات کیا ک رتے تھے س یدنا ابن عب اس رض ی ہللا
عنہ سے شراب فروشی کا مسئلہ پوچھا گی ا ت و آپ رض ی ہللا عنہ نے فرمای ا” یہ ح رام ہے اور اس کی قیمت بھی ح رام
ہے ،اے امت محم د ص لی ہللا علیہ وس لم اگ ر تمہ اری کت اب کے بع د ک وئی کت اب ات رنے والی ہ وتی اور اگ ر تمہ ارے
نبی صلی ہللا علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی اور آنے واال ہوتا ،جس طرح اگلوں کی رس وائیاں اور ان کی برائی اں تمہ اری
کتاب میں اتریں تمہاری خرابیاں ان پر نازل ہوتیں لیکن تمہارے افعال کا اظہار قیامت کے دن پر مؤخر رکھا گیا ہے اور
ڑا ہے۔“ اری اور ب یہ بہت بھ
پھر سیدنا عب دہللا بن عم ر رض ی ہللا عنہ س ے یہ س وال کی ا گی ا ت و انہ وں نے فرمای ا” س نو میں حض ور ص لی ہللا علیہ
وسلم کے ساتھ مسجد میں تھا۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم گوٹھ لگائے ہ وئے بیٹھے تھے فرم انے لگے جس کے پ اس جت نی
ش راب ہ و وہ ہم ارے پ اس الئے ۔ لوگ وں نے النی ش روع کی ،جس کے پ اس جت نی تھی حاض ر کی۔ آپ ص لی ہللا علیہ
وسلم نے فرمایا :جاؤ اسے بقیع کے میدان میں فالں فالں جگہ رکھو۔ جب سب جمع ہوجائے مجھے خبر کرو ۔ جب جم ع
ہوگئی اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم سے کہا گیا تو آپ ص لی ہللا علیہ وس لم اٹھے میں آپ ص لی ہللا علیہ وس لم کے داہ نے
یعلی موصلی میں ہے کہ ایک شخص خیبر سے
جانب تھا آپ صلی ہللا علیہ وسلم مجھ پر ٹیک لگائے چل رہے تھے۔ ابو ٰ
شراب ال کر مدینے میں فروخت کیا کرتا تھا ایک دن وہ ال رہا تھا ایک صحابی رضی ہللا عنہ راس تے میں ہی اس ے م ل
گئے اور فرمایا شراب تو اب ح رام ہ و گ ئی وہ واپس مڑگی ا اور ای ک ٹیلے تلے اس ے ک پڑے س ے ڈھ انپ ک ر آگی ا اور
حضور صلی ہللا علیہ وسلم سے کہنے لگا کیا یہ سچ ہے کہ شراب حرام ہو گئی؟ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :ہ اں
سچ ہے ۔ کہا پھر مجھے اجازت دیجئیے کہ جس سے لی ہے اسے واپس کر دوں۔ فرمایا :اس ک ا لوٹان ا بھی ج ائز نہیں،
کہا پھر اج ازت دیجئ یے کہ میں اس ے ایس ے ش خص ک و تحفہ دوں ج و اس ک ا معاوض ہ مجھے دے۔ آپ ص لی ہللا علیہ
وس لم نے فرمایا :یہ بھی ٹھی ک نہیں ۔ کہ ا حض ور ص لی ہللا علیہ وس لم اس میں ی تیموں ک ا م ال بھی لگ ا ہ وا ہے۔
فرمایا :دیکھو جب ہمارے پاس بحرین کا مال آئے گا اس سے ہم تمہارے یتیموں کی مدد ک ریں گے ۔ پھ ر م دینہ میں من ا
دی ہوگئی۔ ای ک ش خص نے کہ ا حض ور ص لی ہللا علیہ وس لم ش راب کے برتن وں س ے نف ع حاص ل ک رنے کی اج ازت
دیجئیے۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :جاؤ مشکوں کو کھول ڈال و اور ش راب بہ ا دو اس ق در ش راب بہی کہ می دان
عیف] ویعلی:1884:ض
ٰ ند اب ریب ہے۔[ مس دیث غ ئے ۔ یہ ح رگ بھ
مسند احمد میں ہے کہ ابوطلحہ رضی ہللا عنہ نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وس لم س ے س وال کی ا کہ م یرے ہ اں ج و ی تیم
بچے پل رہے ہیں ان کے ورثے میں انہیں شراب ملی ہے۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :جاؤ اس بہا دو ۔ عرض کیا
اگر اجازت ہو تو اس کا س رکہ بن ا ل وں؟ فرمایا :نہیں ۔ یہ ح دیث مس لم اب وداؤد اور ترم ذی میں بھی ہے۔[ ص حیح مس لم:
]1983
12
ئ ن ق
م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء ،سورۃ الما دۃ) ()4612
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
ابن ابی حاتم میں صحیح سند سے مروی ہے کہ” عبدہللا بن عمرو رضی ہللا عنہ نے فرمایا” جیسے یہ آیت قرآن میں ہے
تعالی نے حق کو نازل فرمایا تاکہ اس کی وجہ سے باطل کو دور کر دے اور اس س ے کھی ل
ٰ تورات میں بھی ہے کہ ہللا
الی نے اپ نی
تماشے باجے گاجے بربط دف طنبورہ راگ راگنیاں فنا کر دے۔ شرابی کیل ئے ش راب نقص ان دہ ہے۔ ہللا تع ٰ
عزت کی قسم کھائی ہے کہ ” جو اسے حرمت کے بعد پئے گا اسے میں قیامت کے دن پیاسا رکھوں گ ا اور ح رمت کے
بعد جوا سے چھوڑے گا میں اسے جنت کے پاکیزہ چش مے س ے پالؤں گا “۔“[ تفس یر ابن ابی ح اتم:1196/4:موق وف]
حدیث شریف میں ہے جس شخص نے نشہ کی وجہ سے ایک وقت کی نماز چھوڑی وہ ایس ا ہے جیس ے کہ س ے روئے
الی اس ےِ « طينَ ِة
زمین کی س لطنت جھن گ ئی اور جس ش خص نے چ ار ب ار کی نم از نش ے میں چھ وڑ دی ہللا تع ٰ
ْال َخبَا ِل» پالئے گا۔ پوچھا گیا کہ یہِ « طينَ ِة ْال َخبَا ِل» کیا ہے؟ فرمایا :جہنمیوں کا لہو پیپ پسینہ پیشاب وغیرہ ۔[ مس ند احم د:
:178/2حسن]
ن
سوال مب ر 5۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر 109تا 115کا با محاورہ ترجمہ و تشریح تحریر کیجئے۔
جس دن ہللا رسولوں کو جمع کرے گا ،پھر کہے گا تمہیں کیا جواب دیا گیا؟ وہ کہیں گے ہمیں کچھ علم نہیں ،بےشک ت و
عیسی ابن مریم! اپنے اوپر اور اپ نی وال دہ پ ر
ٰ ہی چھپی باتوں کو بہت خوب جاننے واال ہے۔ ]109[ جب ہللا کہے گا اے
میری نعمت یاد کر ،جب میں نے روح پاک سے تیری مدد کی ،تو گود میں اور ادھیڑ عمر میں لوگوں سے باتیں کرتا تھا
اور جب میں نے تجھے کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل سکھائی اور جب تو مٹی سے پرندے کی شکل کی مانن د
میرے حکم سے بناتا تھا ،پھر تو اس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے ای ک پرن دہ بن ج اتی تھی اور ت و پیدائش ی
اندھے اور برص والے کو میرے حکم سے تندرست کرتا تھا اور جب تو مردوں کو میرے حکم سے نکال کھڑا کرتا تھ ا
اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے روکا ،جب تو ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آی ا ت و ان میں س ے ان لوگ وں
نے کہا جنہوں نے کفر کیا ،یہ تو کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں۔ ]110[ اور جب میں نے حواری وں کی ط رف وحی کی
کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان الؤ ،انھوں نے کہا ہم ایمان الئے اور گ واہ رہ کہ ہم فرم اں ب ردار ہیں۔ ]111[ جب
عیسی ابن مریم! کیا تیرا رب کر سکتا ہے کہ ہم پ ر آس مان س ے ای ک دس ترخوان ات ارے؟ اس نے
ٰ حواریوں نے کہا اے
کہا :ہللا سے ڈرو ،اگر تم مومن ہو۔ ]112[ انھوں نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ ہم اس میں سے کھ ائیں اور ہم ارے دل مطمئن
عیسی ابن مریم
ٰ ہو جائیں اور ہم جان لیں کہ واقعی تو نے ہم سے سچ کہا ہے اور ہم اس پر گواہوں سے ہو جائیں۔ ]113[
نے کہا اے ہللا! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک دسترخوان اتار ،جو ہمارے پہلوں اور ہم ارے پچھل وں کے ل یے
عید ہو اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو اور ہمیں رزق دے اور تو س ب رزق دی نے وال وں س ے بہ تر ہے۔ ]114[ ہللا
نے فرمایا بے شک میں اسے تم پر اتارنے واال ہوں ،پھر جو اس کے بعد تم میں سے ناشکری کرے گا تو بے ش ک میں
اسے عذاب دوں گا ،ایسا عذاب کہ وہ جہانوں میں سے کسی ایک کو نہ دوں گا۔]115[
13
ئ ن ق
م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء ،سورۃ الما دۃ) ()4612
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
تعالی سے دعا کی۔ عید ہونے سے مراد تو عید کا دن ی ا نم از گ زار نے ک ا دن ہون ا ہے ی ا
ٰ عیسی علیہ السالم نے ہللا
ٰ اب
اپنے بعد والوں کے لیے یادگار کا دن ہونا ہے یا اپنی اور اپنے بعد کی نسلوں کیلئے نصیحت و عبرت ہونا ہے ی ا اگل وں
عیسی علیہ الس الم فرم اتے ہیں” ی ا ہللا یہ ت یری ق درت کی ای ک نش انی ہ وگی اور
ٰ پچھلوں کے لیے کافی وافی ہونا ہے۔
میری سچائی کی بھی کہ ت ونے م یری دع ا قب ول فرم ا لی ،پس لوگ وں ت ک ان ب اتوں ک و ج و ت یرے ن ام س ے ہیں انہیں
پہنچاؤں گا یقین کر لیا کریں گے ،یا ہللا تو ہمیں یہ روزی بغیر مشقت و تکلیف کے محض اپنے فض ل و ک رم س ے عط ا
ترین رازق ہے۔“ و بہ وت ات فرم
تعالی نے دعا کی قبولیت کا وعدہ فرما لیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ ” اس کے اترنے کے بع د تم میں س ے ج و
ٰ ہللا
کوئی بھی جھٹالئے گا اور کفر کرے گا تو میں اسے وہ عذاب دوں گا جو تمہارے زمانے میں کسی اور ک و نہ دی ا ہو “۔
سیدنا عبدہللا بن عم رو رض ی ہللا عنہ س ے روایت ہے کہ قی امت کے دن ب دترین ع ذاب تین قس م کے لوگ وں ک و ہ و گ ا،
منافقوں کو اور مائدہ آسمانی کے بعد انکار کرنے والوں کو اور فرعونیوں کو۔
روی ہے۔ ےم لف س ارے میں س و اس ب نیئے ج وس ات ک اب ان روای
عیسی علیہ السالم نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ” تم ہللا کے لیے ایک مہینے
ٰ سیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں
کے روزے رکھو پھر رب سے دعا کرو وہ قبول فرم ائے گ ا۔“ انہ وں نے تیس روزے پ ورے ک رکے کہ ا اے بھالئی وں
کے بتانے والے ہم اگر کسی کا کام ایک ماہ کامل کرتے تو وہ بعد فراغت ضرور ہماری دعوت کرت ا ت و آپ علیہ الس الم
بھی ہللا سے بھرے ہوئے خوان کے آسمان سے اترنے کی دع ا کیج ئے۔ عیس ٰی علیہ الس الم نے پہلے ت و انہیں س مجھایا
الی نے قب ول فرم ائی س اتھ ہی دھمک ا بھی دی ا پھ ر
الی س ے دع ا کی ،ہللا تع ٰ
لیکن ان کی نیک نیتی کے اظہ ار پ ر ہللا تع ٰ
فرشتوں کے ہاتھوں آسمان سے خوان نعمت اتارا ،جس پر سات مچھلیاں تھیں س ات روٹی اں تھیں ،جہ اں یہ تھے وہیں وہ
ر اٹھے۔ وک یر ہ کم س ئے اور ش ب بیٹھ گ ئے س و رکھ گ انے ک ان کے کھ
ابن ابی حاتم کی ایک مر فوع حدیث میں ہے کہ اس مائدہ آسمانی میں گوشت روٹی اترا تھ ا حکم تھ ا کہ خی انت نہ ک ریں
کل کے لیے نہ لے جائیں لیکن انہوں نے حکم کی خالف ورزی کی ،لے بھی گ ئے اور چ را بھی لی ا ،جس کی س زا میں
وہ سور بندر بن گئے ۔[ سنن ترمذي،3061:قال الشيخ األلباني:ضعیف] س یدنا عم ار رض ی ہللا عنہ فرم اتے ہیں اس میں
14
ئ ن ق
م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء ،سورۃ الما دۃ) ()4612
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
جنت کے میوے تھے ،آپ رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں اگر وہ لوگ خیانت اور ذخیرہ نہ ک رتے ت و وہ خ وان ی وں ہی رہت ا
لیکن شام ہونے سے پہلے ہی انہوں نے چوریاں شروع کردیں ،پھر سخت عذاب کئے گئے ،اے عرب بھائیو! یاد ک رو تم
اونٹوں اور بکریوں کی دمیں مروڑتے تھے ،ہللا نے تم پر احسان کیا خود تم ہی میں سے رسول ص لی ہللا علیہ وس لم ک و
بھیج ا جن س ے تم واق ف تھے جن کے حس ب و نس ب س ے تم آگ اہ تھے ،اس رس ول علیہ س الم نے تمہیں بت ا دی ا کہ”
عجمیوں کے ملک تمہارے ہاتھوں فتح ہوں گے لیکن خبردار تم سونے چاندی کے خزانوں کے درپے نہ ہ و جانا “ لیکن
وہللا دن رات وہی ہیں اور تم وہ نہ رہے ،تم نے خزانے جمع کرنے شروع کر دیئے ،مجھے تو خوف ہے کہ کہیں تم پ ر
ڑے۔ رس نہ پ ذاب ب اع بھی ہللا ک
ٰ
اسحق بن عبدہللا فرماتے ہیں جن لوگوں نے مائدہ آسمانی میں سے چرایا ان کا خیال ہے تھا کہ کہیں ایسا نہ ہ و کہ یہ ختم
ہو جائے اور کل کے لیے ہمارے پاس کچھ نہ رہے۔ مجاہد رحمة هللا سے مروی ہے کہ جب وہ اتر تے ان پر مائ دہ اترت ا
عطیہ رحمة هللا فرماتے ہیں گو وہ تھی تو مچھلی لیکن اس میں ذائقہ ہر چیز ک ا تھ ا۔ وہب بن منبہ رحم ة هللا فرم اتے ہیں
ہر دن اس مائدہ پر آسمان سے میوے اترتے تھے قسم قسم کی روزیاں کھاتے تھے ،چار ہزار آدمی ایک وقت اس پر بیٹھ
جاتے پھر ہللا کی طرف سے غذا تبدیل ہو جاتی یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس پر روٹی اں ج و کی تھیں۔ س عید بن جی بررحمہ
ہللا فرماتے ہیں اس پر سوائے گوشت کے تمام چیزیں تھیں۔ عکرمہ رحم ة هللا فرم اتے ہیں اس پ ر چ اول کی روٹی تھی،
عیسی علیہ الس الم بہت رنجی دہ ہ وئے تھے اور فرمای ا تھ ا کہ” زمین
ٰ وہب رحمة هللا فرماتے ہیں کہ ان کے اس سوال پر
کے رزق پر قناعت کرو اور آسمانی دستر خوان نہ مانگو اگر وہ اترا تو چونکہ زبردست نشان ہوگ ا اگ ر ناق دری کی ت و
بری طرح پکڑے جاؤ گے۔ ثمودیوں کی ہالکت کا باعث بھی یہی ہوا کہ انہوں نے اپنے نبی علیہ السالم س ے نش ان طلب
ا۔“ ا تھ کی
عیسی علیہ السالم کی ایک نہ مانی اور اص رار کی ا کہ نہیں آپ علیہ الس الم ض رور دع ا کیج ئے اب
ٰ لیکن حواریوں نے
عیسی علیہ السالم اٹھے ،صوف کا جبہ اتار دیا ،سیاہ بالوں کا لبادہ پہن لیا اور چادر بھی بالوں کی اوڑھ لی ،وض و
ٰ جناب
کرکے غسل کرکے ،مسجد میں جا کر نماز پڑھ کر قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر کھڑے ہوگئے ،دونوں پ یر مالئے ،ای ک
پنڈلی دوسری پنڈالی سے لگا لی ،انگلیاں بھی ماللیں ،اپنے سینے پر اپنا داہنا ہاتھ ب ائیں ہ اتھ پ ر رکھ ا ،نگ اہیں زمین میں
گاڑ لیں سر جھکا دیا اور نہایت خشوع و خضوع سے عاجزانہ ط ور پ ر گ ریہ وزاری ش روع ک ر دی ،آنس و رخس اروں
سے بہ کر داڑھی کو تر کر کے زمین پر ٹپکنے لگے یہاں تک کہ زمین بھی تر ہوگئی۔
15