You are on page 1of 17

‫کورس‪ :‬م طالعہ حدی ث(‪)4622‬‬

‫خ‬
‫سمسٹ ر ‪ :‬زاں‪2021 ،‬ء‬ ‫ت ن ش ن‬
‫ق‬ ‫ت ق فض ئ‬ ‫ش‬ ‫‪1‬‬ ‫ر‬ ‫ام حا نی م ق ب‬
‫م‬
‫ع‬ ‫ن‬ ‫ع‬
‫کت اب ال لم کی رو ی می ں لم سے م عل ہ ا ل و آداب لم ب ن د کری ں۔‬ ‫سوال مب ر ‪1‬۔‬
‫وتعالی نے حضرت آدم علیہ الس الم س ے لے ک ر آخ ری ن بی حض رت محم د ص لى هللا علي ه وس لم ت ک‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا تبارک‬
‫ہزاروں نبیوں و رسولوں کو اپنی کتاب اور اپنے احکام سے نوازااور انہیں انس انیت کی ہ دایت کے ل یے دنیا میں بھیج ا۔‬
‫باوجود اس کے دنیا میں تہذیب وتم دن اور علم وفن کی ت رقی نہیں ہ وئی اور وہ جہ الت ہی میں مبتال رہی۔ان کت ابوں نے‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا کہ ان میں دنیا کی تمام چیزوں کو جمع کردیاگیا ہے۔ انبیا ِء سابقین پ ر ن ازل کت اب‬ ‫اور نہ ان کے حاملین نے یہ‬
‫اور ان کی تعلیمات کو مخصوص خطہ ‪،‬محدود افراداور ایک خاص عہد تک کے لیے موثر قرار دیتے ہ وے عالمہ س ید‬
‫سلیمان ندوی رحمة هللا عليه لکھتے ہیں‪:‬‬
‫”تورات کے تمام انبیاء ملک عراق یا ملک شام یا ملک مصر سے آگے نہیں بڑھے‪،‬یعنی اپ نے وطن میں جہ اں وہ‬
‫رہتے تھے محدود رہے اور اپنی نسل و قوم کے سوا غیروں ک و انہ وں نے آواز نہیں دی۔ زی ادہ ت ر ان کی کوشش وں ک ا‬
‫مرکز صرف اسرائیل کا خان دان رہ ا۔ع رب کے ق دیم انبیاء بھی اپ نی اپ نی قوم وں کے ذمہ دار تھے‪،‬وہ ب اہر نہیں گ ئے۔‬
‫عیسی کے مکتب میں بھی غیر اسرائیلی طالب علم کا وجود نہ تھا‪،‬وہ صرف اسرائیل کی کھوئی ہ وئی بھ یڑیوں‬
‫ٰ‬ ‫حضرت‬
‫کی تالش میں تھے(متی‪،‬باب‪،۷:‬آیت‪ )۲۴:‬اور غیروں کو تعلیم دے کر وہ بچوں کی روٹی کت وں کے آگے ڈالن ا پس ند نہیں‬
‫کرتے تھے۔ (انجیل) ہندوستان کے داعی پاک آریہ ورت سے باہر جانے کا خیال بھی دل میں نہیں الس کتے تھے‪،‬اگ رچہ‬
‫یرووں ک ا‬
‫ٴ‬ ‫بدھ کے پیرو بادشاہوں نے اس کے پیغام کو باہر کی قوموں تک پہنچایا‪،‬مگر یہ عیسائیوں کی طرح بع د کے پ‬
‫فعل تھا ‪ ،‬جو داعی مذہب کی سیرت اس عالم گیر جامعت کی مثال سے خالی ہے۔“(‪)۱‬‬
‫اس کے برعکس نبی صلى هللا عليه وسلم پر جو کتاب نازل ہوئی اس کا اعجاز وامتیاز اور دع ٰ‬
‫وی ہے کہ یہ کت اب‬
‫الی نے‬
‫رہتی دنیا تک اور پوری انسانیت کے لیے ہدایت ورحمت ہے۔ اس میں دنیا کے تمام عل وم ک ا ذک ر ہے اور ہللا تع ٰ‬
‫اسے دوسروں تک پہنچانے کا حکم دیا ہے ۔ اس کے رسول صلى هللا عليه وسلم نے بھی بہ ذات خود اس کی اشاعت میں‬
‫بڑی دل چسپی لی ۔ قرآن کہتا ہے‪:‬‬
‫َاب تِ ْبیَانا ً لِّ ُک ِّل َش ْْی ٍء َوہُدًی َو َرحْ َمةً َوبُ ْش َری لِ ْل ُم ْسلِ ِم ْینَ ‪( “.‬النحل‪)۸۹:‬‬ ‫” َونَ َّز ْلنَا َعلَ ْْی َ‬
‫ک ْال ِکت َ‬
‫(اے نبی صلى هللا عليه وسلم ! ہم نے آپ پر جو کتاب نازل کی ہے اس میں ہرچیز کو بیان کردی ا ہے اور اس میں‬
‫رحمت وہدایت ہے اور مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہے۔)‬
‫الی نے انس انیت کی ہ دایت اور اس کے ل یے ش ب وروز گ زارنے کے‬
‫ق رآن مق دس میں جگہ جگہ ہللا تب ارک وتع ٰ‬
‫اصول بیان کیے ہیں ۔ انسانیت کی خوبیوں کو آش کارا کیا ہے اور خ امیوں کی نش ان دہی کی ہے۔ ج و بھی اس پ ر عم ل‬
‫کرے گا اور اس سے استفادہ کرے گا وہ دین و دنیاکی کامیابی سے ہم کنار ہوگااورجو اس کی خالف ورزی کرے گ ا وہ‬
‫ناکام ونامراد ہوگا۔‬
‫حضور صلى هللا عليه وسلم کو جب نبوت کے منصب عظیم سے نوازا گیا ‪،‬اس وقت جزی رة الع رب کی کیا ح الت‬
‫تھی؟ قتل وغارت گری‪ ،‬چوری‪ ،‬ڈکیتی ‪،‬قتل اوالد‪ ،‬زنا‪،‬بت پرستی کون سی ایسی برائی تھی جو ان میں پائی نہ ج اتی ہ و۔‬
‫بعضے وقت بڑے فخریہ انداز میں اسے نجام دیاجاتا تھا۔ ہللا کے رسول نے ان کی تعلیم و تربیت اس ان داز س ے کی اور‬
‫‪1‬‬
‫زندگی گزارنے کے ایسے اصول بتائے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی حالت یکسر بدل گئی اور تہذیبی قدروں سے آش نا‬
‫ہوگئے۔ جہاں اور جدھر دیکھیے لوگ تعلیم وتعلم سے جڑ گئے اور قرآن وحدیث کی افہام وتفہیم میں مشغول ہوگئے۔ اس‬
‫کے لیے باضابطہ ہللا کے رسول نے مسجد نبوی میں ایک مقام کو خاص کردیا ‪،‬جسے صفہ کہا جاتا تھا۔اس میں ص حابہ‬
‫کرام فروکش ہوتے اور علم وعمل کی دولت س ے م اال م ال ہ وتے۔ اس کے عالوہ بھی م دینہ میں اور مس جدیں تھیں جن‬
‫میں صحابہ کرام کی تعلیم و تربیت کا انتظام تھا۔ یہاں سے فیض ان نب وت حاص ل ک رکے یہ حض رات دور دراز مق ام پ ر‬
‫پہنچے اور دوسروں کو علوم نبوت سے ماالمال کیا۔ کون کہہ سکتا تھا کہ عرب جیس ی اج ڈ ق وم ات نی جل د علم و تہ ذیب‬
‫سے اس طرح آراس تہ وپیراس تہ ہوج ائے گی کہ ل وگ اس کی تقلید ک رنے لگیں گے اور دنیا اس روش نی س ے معم ور‬
‫ہوجائے گی۔ یہ کارنامہ تھا ہللا کے رسول کا اور ان کے فیوض و برکات کا جس کی نظیر نہیں ملتی۔جیساکہ دنیا پر عہ د‬
‫نبوی کے تعلیمی اثرات کا جائزہ لیتے ہوے ایک دانش ور لکھتے ہیں‪:‬‬
‫”عرب میں چھٹی صدی عیسوی میں اسالم سے علم وحکمت کا نیا باب ش روع ہ وا‪،‬جس نے پن درہویں ص دی ت ک‬
‫ایشیاء‪ ،‬افریقہ اور مغربی یورپ کو دنیا کے نقشہ پر انقالب آف ریں خطہ بنادی ااور علم وحکمت کی فص ل گ ل س ے پ ورا‬
‫خطہ چمن زار ہوگیا۔ باآلخر ہر چہار سو خوش حالی ‪ ،‬امن و آشتی اور باد بہاری کی خوش گواری س ے اہ ل ی ورپ بھی‬
‫وسطی کہالیا۔ اس عہد کی ابتدا ء میں کہ تے ہیں ق رطبہ اور بغ داد دنیا کی عظیم ت رین دانش گ اہ‬
‫ٰ‬ ‫بیدار ہوے۔ یہ عہد عہد‬
‫مانی جاتی تھی۔ قدیم علمی ذخیروں کی تالش کی گئی اور یونان‪ ،‬مصر‪،‬روم اور ہند کی نایاب کت ابوں ک ا ت رجمہ ک رکے‬
‫ان علمی سرمایوں کو ضائع ہونے سے بچالیا۔ مسلم خلفا ء و سالطین نے اپ نی نوازش وں س ے علم کی خ دمت پ ر م امور‬
‫دنیا بھ ر کے دانش وروں اور م اہرین فن کی سرپرس تی کی جنہ وں نے علم و حکمت میں گ راں م ایہ کارن امے انج ام‬
‫دیے۔“(‪)۲‬‬
‫اہل علم کی فضیلت‬
‫‪ ‬نبی اکرم کو جس دین سے نوازا گیا ‪،‬اس کی ابتدا ہی تعلیم ہوئی۔غارحرا میں سب س ے پہلی ج و وحی ن ازل ہ وئی‬
‫وہ سورہ علق کی ابتدائی چند آیتیں ہیں ‪،‬جن میں نبی امی کو کہا گیا ‪:‬‬
‫نس انَ َم ا لَ ْم‬ ‫ق‪ .‬ا ْق َرْأ َو َرب َ‬
‫ُّک اَأْل ْک َر ُم‪ .‬الَّ ِذیْ عَلَّ َم بِ ْالقَلَ ِم‪ .‬عَلَّ َم اِإْل َ‬ ‫نس انَ ِم ْن َعلَ ٍ‬ ‫ِّک الَّ ِذیْ َخلَ قَ‪ .‬خَ لَ َ‬
‫ق اِإْل َ‬ ‫”ا ْق َرْأ بِ ْ‬
‫اس ِم َرب َ‬
‫یَ ْعلَم‪(“.‬العلق‪)۵-۱:‬‬
‫(پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے سب کو پیدا کیا۔ پیدا کیا اس نے انس ان ک و خ ون کے ل وتھڑے س ے ۔ پ ڑھ ‪،‬‬
‫تیرارب بڑا کریم ہے۔ جس نے سکھایا علم قلم کے زیعہ۔ اس چیز کا علم دیا انسان کو جو وہ نہیں جانتا ۔)‬
‫علم کے ذریعہ ہی آدمی ایمان ویقین کی دنیا آباد کرتا ہے ‪،‬بھٹکے ہوے لوگوں کو س یدھا راس تہ دکھات ا ہے‪ ،‬ب روں‬
‫کو اچھا بناتا ہے‪ ،‬دشمن کو دوست بناتاہے ‪ ،‬بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن وام ان کی فض اء پیدا کرت ا ہے ۔‬
‫یہی وجہ ہے کہ حاملین علم کی قرآن وحدیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اسے دنیوی و اخروی بشارتوں سے‬
‫نوازاگیا ہے۔ قرآن کہتا ہے‪:‬‬
‫”یَرْ فَ ِع ہَّللا ُ الَّ ِذ ْینَ آ َمنُوا ِمن ُک ْم َوالَّ ِذ ْینَ ُأوتُوا ْال ِع ْل َم َد َر َجا ٍ‬
‫ت َوہَّللا ُ بِ َما تَ ْع َملُونَ َخبِ ْیرٌ‪(“.‬المجادلہ‪)۱۱:‬‬

‫‪2‬‬
‫کورس‪ :‬م طالعہ حدی ث(‪)4622‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر ‪ :‬زاں‪2021 ،‬ء‬
‫(تم میں سے جو لوگ ایمان الئے اور جن کو علم عطا ہواہے ‪،‬ہللا اس کے درجات بلند فرم ائے گ ا اورج و عم ل تم‬
‫کرتے ہو اس سے ہللا باخبر ہے۔)‬
‫دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے‪:‬‬
‫”قُلْ ہَلْ یَ ْست َِویْ الَّ ِذ ْینَ یَ ْعلَ ُمونَ َوالَّ ِذ ْینَ اَل یَ ْعلَ ُمونَ ِإنَّ َما یَتَ َذ َّک ُر ُأوْ لُوا اَأْل ْلبَاب‪( “.‬الزمر‪)۹:‬‬
‫(اے نبی‪،‬کہہ دیجیے کیاعلم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے (جاہل) براب ر ہوس کتے ہیں۔نص یحت ت و‬
‫وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔)‬
‫وتعالی فرماتا ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫تاریکی اور روشنی کی مثال دے کر عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیاہے۔ ہللا تبارک‬
‫ص ْی ُر َأ ْم ہَلْ تَ ْست َِویْ ُّ‬
‫الظلُ َم ُ‬
‫ات َوالنُّور‪(“.‬الرعد‪)۱۶:‬‬ ‫”قُلْ ہَلْ یَ ْست َِویْ اَأل ْع َمی َو ْالبَ ِ‬
‫(کہہ دیجیے‪،‬کیا برابر ہوس کتے ہیں ان دھا(جاہ ل) اور دیکھ نے واال(ع الم) ی ا کہیں براب ر ہوس کتا ہے ان دھیرا اور‬
‫اجاال۔)‬
‫اس طرح کی بہت ساری آیتیں ہیں جن میں عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیا ہے اور ان کے درج ات کے‬
‫تعین کے ساتھ مسلمانوں کو حصول علم کے لیے ابھارا گیا ہے۔‬
‫‪ ‬اس سلسلے میں کثرت سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جن میں اہل علم کی ستائش کی گئی ہے اور انہیں انس انیت‬
‫کا سب سے اچھا آدمی قرار دیا گیا ہے۔ ہللا کے رسول فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ض لِی َعلَی اَ ْدنَ ا ُک ْم‪ ،‬ثُ َّم قَ ا َل َر ُس و ُل ہّٰللا ِ ص لى هللا علي ه وس لم‪ :‬اِ َّن ہّٰللا َ َو َماَل ِئ َکتَہُ َوا ْھ َل‬‫ض ُل ْال َع الِ ِم َعلَی ْالعابِ ِد ‪َ ،‬کفَ ْ‬‫” َوفَ ْ‬
‫اس ْالخَ ی َْر‪)۳(“.‬‬ ‫ض ْینَ َحتَّی النَّ ْملَةَ فِی جُحْ ِرھَا َو َحتَّی ْالحُوْ تَ لَیُ َ‬
‫صلُّوْ نَ عَلی ُم َعلِّ ِم النَّ ِ‬ ‫ت َو ااْل َرْ ِ‬
‫السَّمٰ َوا ِ‬
‫(اورعاب د پ ر ع الم کی فض یلت ایس ی ہے جیس ے م یری فض یلت تم میں س ے ادنی پ ر۔ یقین ا ہللا عزوج ل ‪،‬اس کے‬
‫حتی کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی ت ک لوگ وں کے معلم کے ل یے بھالئی کی‬
‫فرشتے اور آسمان وزمین والے ٰ‬
‫دعاء کرتی ہیں۔)‬
‫ایک دوسرے حدیث کے راوی حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہ ہیں ‪،‬وہ بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫عض ُح َج ِر ِہ‪ ،‬فَ َدخَ َل ْال َم ْس ِجدَ‪ ،‬فَ اِ َذا ھُ َو بِ َح ْلقَتَ ْی ِن‪ :‬اِحْ داھُ َما یَق َر ٴُون‬ ‫ہّٰللا‬
‫”خ ََر َج َرسُوْ ُل ِ صلى هللا عليه وس لم َذاتَ یَ وْ ٍم ِمن بَ ِ‬
‫ی‪ُ :‬ک ٌّل عَلی َخ ْی ٍر‪ٰ ،‬ھ ٴُواَل ِء یَقُ َر ٴُونَ ْالقُ رْ آنَ َویَ ْد ُعوْ نَ ہّٰللا ‪ ،‬فَ اِ ْن َش ا َء‬ ‫ہّٰللا‬
‫الُقُرْ آنَ َویَ ْد ُعوْ نَ ‪َ ،‬وااْل ُ ْخ َری یَتَ َعلَّ ُم ونَ َویُ َعلِّ ُم ونَ ‪ .‬فَقَ َ‬
‫ال النَّبِ ُ‬
‫اَ ْعطَاھُ ْم َواِ ْن َشا َء َمنَ َعھُ ْم‪َ ،‬و ٰھ ٴواَل ِء یَتَ َعلَّ ُموْ نَ َویُ َعلِّ ُموْ نَ ‪َ ،‬واِنَّ ّما بُ ِع ْث ُ‬
‫ت ُم َعلِّماً‪ ،‬فَ َجلَ َ‬
‫س َم َعھُ ْم‪)۴(“.‬‬
‫(ایک دن رسول ہللا اپنے حجرے سے باہر تشریف الئے اور مس جد (نب وی) میں داخ ل ہ وے‪،‬وہ اں دوحلقے بیٹھے‬
‫ہوے تھے‪،‬ایک حلقہ قرآن کی تالوت کررہا تھا اورہللا سے دعاء کررہا تھا‪،‬دوسرا تعلیم وتعلم کا کام سرانجام دے رہا تھا۔‬
‫آپ نے فرمایا‪ :‬دونوں بھالئی پر ہیں۔ یہ حلقہ قرآن پڑھ رہا ہے اور ہللا سے دع اء کررہ اہے ۔ ہللا چ اہے ت و اس کی دع اء‬
‫قبول فرمائے ‪ ،‬یا نہ فرمائے۔دوسرا حلقہ تعلیم وتعلم میں مشغول ہے (یہ زیادہ بہتر ہے) اور میں تو معلم بناکر بھیج ا گیا‬
‫ہوں۔ پھر یہیں بیٹھ گئے۔)‬

‫‪3‬‬
‫اہل علم کاصرف یہی مقام ومرتبہ نہیں ہے کہ اسے دنیا کی تمام چیزوں پر فضیلت دی گئی ہے اور اس کام میں وہ‬
‫تعالی کی تمام مخلوق اس کے لیے دعاء کرتی رہتی ہے‪،‬بلکہ اس کا مقام وم رتبہ یہ بھی ہے‬
‫ٰ‬ ‫جب تک مصروف ہیں ‪ ،‬ہللا‬
‫کہ ہللا کے رسول نے انہیں انبیاء کا وارث اور جانشین قرار دیا ہے ‪:‬‬
‫ب ْال ِع ْل ِم‪َ ،‬واِ َّن‬ ‫” م ْن سلَک طَریْقا ً ی ْبتَغی ف ْیہ ع ْلما ً سلَ ہّٰللا‬
‫ک ُ بِہ طَ ِریْقا ً اَلَی ْال َجنَّ ِة‪َ ،‬واِ َّن ْال َمالِئ َکةَ لَت َ‬
‫َض ُع اَجنِحْ تَھَا َرضًی لَطَ الِ ِ‬ ‫َ َ‬ ‫َ َ َ ِ َ ِ ِ ِ ِ‬
‫ض َحتَّی ْال ِحیتَانُ فَی ْال َما ِء‪َ ،‬وفَضْ ُل ْال َعالِم َعلَی ْال َعابِ ِد‪َ ،‬کفَضْ ِل ْالقَ َم ِر َعلَی َس اِئ ِر‬ ‫ت َو َم ْن فِی ااْل َرْ ِ‬‫ْال َعالِ َم لَیَ ْستَ ْغفِ ُر لَہُ َم ْن فِی ال َّس َموا ِ‬
‫ان ْالع ُْل َم ا َء َو َرثَ ةُ ااْل َ ْنبِیَ ا ِء‪ ،‬اِ َّن ااْل َ ْنبِیَ ا َء لَ ْم یُ َورِّ ثُ وْ ا ِد ْینَ ارًا َواَل ِدرْ ھَم اً‪ ،‬اِنَّ َم ا َو َّرثُ وا ْال ِع ْل َم‪ ،‬فَ َم ْن اَخَ َذ بِہ فَقَ ْد اَخَ َذ بِ َح ظّ‬ ‫ْال َک َوا ِک ِ‬
‫ب‪َّ ،‬‬
‫َوافَ ٍر‪)۵(“.‬‬
‫(جو کوئی حصول علم کی غرض سے راستہ طے کرے تو خدا اس کے س بب اس ے جنت کی ای ک راہ چالت ا ہے۔‬
‫فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں اور یقین ا ع الم کے ل یے آس مان اور زمین کی تم ام چ یزیں‬
‫مغفرت طلب کرتی ہیں‪،‬یہاں تک کہ وہ مچھلیاں بھی جو پانی میں ہیں ۔ عابد پر عالم کو ایسی فض یلت حاص ل ہے جیس ی‬
‫چاند کو تم ام ت اروں پ ر۔بالش بہ علم اء ہی پیغم بروں کے وارث ہیں۔پیغم بروں نے ت رکہ میں نہ دین ار چھ وڑا ہے اور نہ‬
‫درہم ۔ انہوں نے تو صرف علم کو اپنے ترکہ میں چھوڑا۔ پس جس کسی نے علم حاصل کیا اس نے ہی حصہ کامل پایا۔)‬
‫علم کا دائرہ بہت وسیع ہے‬
‫قرآن میں جہاں بھی علم کا تذکرہ کیا گیا ہے ‪،‬بیش تر مقامات پر مطلق علم کاذکر ہوا ہے۔ اس سے معل وم ہوت ا ہے‬
‫کہ علم اپنی ذات کے اعتبار سے ال محدود ہے اور اسالم نے اس کی المحدودیت کو برقرار رکھتے ہوے حکم دیا ہے کہ‬
‫علم حاصل کرو۔حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫ہّٰللا‬
‫ضةٌ عَا ِدلَةٌ‪(“.‬‬ ‫”قَا َل َرسُوْ ُل ِ صلى هللا عليه وسلم اَ ْل ِع ْل ُم ثَالثَةٌ‪ :‬فَ َما َو َرا َء ٰذلِ َ‬
‫ک فَھُ َو فَضْ لٌ‪ ،‬آیَةٌ ُمحْ َک َمةٌ‪ ،‬اَوْ ُسنَّةٌ قَاِئ َمةٌ اَوْ فَ ِر ْی َ‬
‫‪)۶‬‬
‫فریضہ ع ادلہ‪،‬اس کے س وا‬
‫ٴ‬ ‫(ہللا کے رسول صلى هللا عليه وسلم نے فرمایا ‪:‬علم تین ہیں‪:‬آیت محکمہ‪،‬سنت قائمہ اور‬
‫جو کچھ بھی ہے وہ زائد ہے۔)‬
‫ایک دوسری حدیث میں جو تفصیل آئی ہے ‪،‬اس سے بھی یہی واضح ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا‪:‬‬
‫ض ْع ِع ْل ِم ْی فِ ْی ُک ْم اِل َع ِّذبَ ُک ْم‪ْ ،‬اذھَبُ وْ ا فَقَ ْد‬ ‫ث ہّٰللا ُ ْال ِعبَا َد یَوْ َم ْالقِیَا َم ِة‪ ،‬ثُ َّم یُ َمیِّ ُز ْال ُعلَ َم ا َء فَیَقُ وْ لُ‪ :‬یَ ا َمع َ‬
‫ْش َر ْال ُعلَ َم ا ِء اِنِّی لَ ْم اَ َ‬ ‫”یَ ْب َع ُ‬
‫ت لَ ُک ْم‪)۷(“.‬‬
‫َغفَرْ ُ‬
‫تعالی لوگوں کو زندہ کرے گا اور اس میں علماء کو ممتاز کرے گا اور فرم ائے گ ا اے پ ڑھے‬
‫ٰ‬ ‫(قیامت کے دن ہللا‬
‫‪،‬جاو تم سب کی مغفرت کردی۔)‬
‫لکھے لوگو!میں نے اپنا علم تمہارے اندر اس لیے نہیں رکھا کہ میں تمہیں عذاب دوں ٴ‬
‫عالم کہتے ہی ہیں پڑھے لکھے لوگوں کو ‪،‬چاہے اس نے قرآن کی تعلیم حاصل کی ہو یا حدیث کی‪ ،‬فقہ کی کی ہو‬
‫یا کالم ومنطق کی ۔ سائنس کی ڈگری لی ہو یا میڈیکل سائنس کی ۔ نیچرل سائنس پڑھ اہو ی اآرٹس کے مض امین ۔ س ارے‬
‫کے سارے پڑھے لکھے لوگوں میں شمار کیے جائیں گے۔ یہ ایسی چ یز ہے ج و انس ان ک و ہمیش ہ ک ام آئے گی‪ ،‬مقص د‬
‫نیک ہو اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے تو اس کی بدولت وہ دین ودنیا کی س اری نعمت اور دولت حاص ل کرس کتا‬
‫ہے۔‬
‫‪4‬‬
‫کورس‪ :‬م طالعہ حدی ث(‪)4622‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر ‪ :‬زاں‪2021 ،‬ء‬
‫‪ ‬قرآن میں متعدد مقامات پر اہل ایمان کوعلم حاصل کرنے کا حکم دی ا گیا ہے‪ ،‬اس میں دی نی عل وم بھی ش امل ہیں‬
‫اورسائنسی علوم بھی۔ بلکہ ان آیات کی تالوت کی جائے تویہ واضح ہوتا ہے کہ آج ہم جن چ یزوں کوس ائنس وٹکن الوجی‬
‫کاعلم کہتے ہیں‪،‬اسکے حصول پر خاص طور سے توجہ دالئی گئی ہے۔ جگہ جگہ فرمایاگیاہے‪ :‬تم اپ نی ص الحیتوں ک و‬
‫کام میں کیوں نہیں التے؟ تم عقل س ے ک ام کیوں نہیں لیتے؟ تم ق رآنی آی ات پرغ ور کیوں نہیں ک رتے ؟ تمہ ارے ان در‬
‫شعورکیوں نہیں ہے؟ تم سمجھ کر کیوں نہیں پڑھتے؟ میری نشانی پرغور کیوں نہیں کرتے ؟ گویاکہ قرآن مجید میں لف ظ‬
‫علم مختلف اشتقاقی صورتوں میں‪ ۷۷۸‬مرتبہ واردہواہے ۔ان سے یہ نتیجہ نکالن ا مش کل نہیں کہ ق رآن مجیدکی رو س ے‬
‫علم ک و غ یر معم ولی بلکہ ف وق الک ل اہمیت حاص ل ہے اور جب یہ لف ظ ج زوی ت رادف کے س اتھ دوس رے مرادف ات‬
‫(مثالتعقلون‪ ،‬یتدبرون‪ ،‬تفہمون‪ ،‬تشعرون‪).‬وغیرہ کے ساتھ مل کریاان کی جگہ آتاہے توان سے علم کے طریقوں‪ ،‬غ ایتوں‬
‫اورجہتوں کاپتہ چلتاہے ۔(‪)۸‬‬
‫انسان کو جس چیز سے واسطہ پڑ سکتا ہے ‪،‬اس کے حل کے لیے معلومات حاصل کرنا اور اس میں مہ ارت پیدا‬
‫تعالی نے جب پیدا کیا تو انہیں وہ تمام عل وم عط اکیے جن س ے‬
‫ٰ‬ ‫کرنا اسالم کو مطلوب ہے۔حضرت آدم علیہ السالم کو ہللا‬
‫ان کا واسطہ پڑ سکتا تھا۔قرآن کریم میں اس کی صراحت موجودہے‪:‬‬
‫َک الَ ِع ْل َم لَنَ ا‬
‫وا ُسب َْحان َ‬ ‫صا ِدقِیْن‪ .‬قَالُ ْ‬ ‫ضہُ ْم َعلَی ْال َمالَِئ َک ِة فَقَا َل َأنبُِئونِ ْی بَِأ ْس َماء ہَُؤالء ِإن ُکنتُ ْم َ‬ ‫” َو َعلَّ َم آ َد َم اَأل ْس َماء ُکلَّہَا ثُ َّم ع ََر َ‬
‫ت‬
‫الس َم َوا ِ‬ ‫ب َّ‬ ‫ال َألَ ْم َأقُ ل لَّ ُک ْم ِإنِّ ْی َأ ْعلَ ُم َغ ْْی َ‬
‫ال یَ ا آ َد ُم َأنبِْئہُم بَِأ ْس َمآِئ ِہ ْم فَلَ َّما َأنبَ َأہُ ْم بَِأ ْس َمآِئ ِہ ْم قَ َ‬
‫ک َأنتَ ْال َعلِ ْی ُم ْال َح ِک ْی ُم‪ .‬قَ َ‬
‫ِإالَّ َما عَلَّ ْمتَنَا ِإنَّ َ‬
‫ض َوَأ ْعلَ ُم َما تُ ْب ُدونَ َو َما ُکنتُ ْم تَ ْکتُ ُمونَ ‪( “.‬البقرہ‪)۳۱:‬‬
‫َواَألرْ ِ‬
‫تعالی نے آدم کو تمام چیزوں کے نام اور پھر سامنے کیا ان س ب چ یزوں کوفرش توں کے‪،‬پھ ر ہللا‬
‫ٰ‬ ‫(اور سکھایا ہللا‬
‫بتاو مجھ کو ان کے نام اگر تم س چے(ج انتے) ہ و؟فرش توں نے کہ ا‪ :‬ت یری ذات پ اک ہے ‪،‬ہم ک و نہیں‬
‫نے فرمایا ان سے ٴ‬
‫معلوم‪ ،‬مگر جتنا تونے مجھے علم دیا ہے۔ بے ش ک ت و ہی ہے اص ل ج اننے واال اور حکمت واال۔ پھ ر ہللا نے آدم س ے‬
‫بتاو تم ان کو ان چیزوں کے نام ۔ جب انہوں نے بتادیا ان کے نام ‪،‬توہللا نے فرش توں س ے کہ ا‪ :‬کیا میں نے تم س ے‬
‫کہا‪ :‬ٴ‬
‫نہیں کہا تھا کہ میں خوب جانتا ہوں ان چیزوں کو جو آسمان و زمیں میں چھپی ہ وئی ہیں اور میں یہ بھی جانت ا ہ وں ج و‬
‫ظاہر ہے اور جو چیز چھپی ہوئی ہے۔)‬
‫حکمت ودانائی کی بات مومن کی گم شدہ پونجی ہے‬
‫انسان کو جب ہللا نے اپنا خلیفہ بنایا ہے(البقرہ‪ )۲۰:‬تو ضروری ہے کہ وہ خالفت کا حق اداکرے۔یہ ک ام ایس ے ہی‬
‫انجام نہیں پائے گا۔اس کے لیے بہت سی چیزوں کی ضرور ت پڑتی ہے اور ہر طرح کے لوگ درکار ہوتے ہیں‪،‬تاکہ وہ‬
‫اپنے علم وہنر اور تجربے کی روش نی میں اور خالفت کی ض رورتوں ک و پ ورا ک ریں۔اگ ر نف ع بخش ی ک ا س امان کس ی‬
‫دوسری جگہ سے حاصل ہو تو یہ بھی ضروری ہے کہ اسے وہاں س ے حاص ل کیاج ائے ‪،‬اگ ر وہ اس کے حص ول میں‬
‫کوتا ہی کرے گا تو خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہوگا۔ہللا کے رسول نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے ‪:‬‬
‫ضالَّةُ ْال ُم ْٴو ِم ِن‪ ،‬فَ َحی ُ‬
‫ْث َو َج َدھَافَھ َُو اَ َح ُّ‬
‫ق بِھَا‪)۹(“.‬‬ ‫”اَ ْل َکلِ َمةُ ْال ِح ْک َمةُ َ‬
‫(حکمت ودانائی کی بات مومن کی گم شدہ پونجی ہے ‪،‬پس جہاں بھی پائے حاصل کرنا چاہیے)‬

‫‪5‬‬
‫حکمت کے معنی ڈکشنری میں وہی ملیں گے جو س ائنس کے مع نی ہیں۔ یع نی اش یاء اور چ یزوں کی حقیقت وں پ ر‬
‫غور کرن ا ‪،‬اس ے پہچانن ا اور س مجھنا ‪،‬اس کے خ واص اور ت اثیرات ک و معل وم ک رنے کے بع د اس ک و اپ نے ل یے اور‬
‫دوسروں کے لیے نفع بخش بنانا اور استعمال میں النا ہے۔‬
‫علم سے انسان کے اندر اخالق حمیدہ پیدا ہوتے ہیں‬
‫جب انبیا ِء سابقین کے عہد میں علم واخالق کو عمومی وسعت حاصل نہ ہوس کی ت و کیس ے ممکن تھ ا کہ دنیا میں‬
‫اخالق وکردار اور تہذیب وتمدن کا بول باالہو۔انبیاء کی آمد سے ان کے اندر کسی ق در تہ ذیبی ق دروں ک و ت رقی ض رور‬
‫ہوئی ‪،‬مگر جلدہی وہ فن ا ہوگ ئی۔اس ل یے یہ کہ ا جاس کتا ہے کہ وہ پہلے بھی جہ الت میں مبتال تھے اور بع د میں بھی یہ‬
‫صورت برقرار رہی۔ بڑے اچھے انداز میں اس نکتہ کی وضاحت کرتے ہوے عالمہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫”دنیامیں بابل واسیریا‪،‬ہندوستان وچین‪،‬مصر وشام ‪،‬یون ان وروم میں ب ڑے ب ڑے تم دن پیدا ہ وے۔اخالق کے ب ڑے‬
‫بڑے نظریے قائم کیے گئے۔ تہذیب وشائستگی کے بڑے بڑے اصول بن ائے گ ئے۔ اٹھ نے بیٹھ نے‪ ،‬کھ انے پینے‪،‬مل نے‬
‫جلنے‪،‬پہننے اوڑھنے‪ ،‬رہنے سہنے‪،‬سونے ج اگنے‪ ،‬ش ادی بیاہ‪،‬م رنے جینے‪ ،‬غم ومس رت‪ ،‬دع وت ومالق ات‪،‬مص افحہ‬
‫وسالم ‪،‬غسل و طہارت‪ ،‬عیادت وتع زیت‪ ،‬تبری ک وتہ نیت‪ ،‬دفن وکفن کے بہت س ے رس وم ‪ ،‬آداب ‪ ،‬ش رائط اور ہ دایات‬
‫مرتب ہوے اور ان سے ان قوموں کی تہذیب‪ ،‬تمدن‪ ،‬اور معاشرت کے اصول بنائے گئے۔ یہ اصول صدہا س ال میں ب نے‬
‫پھر بھی بگڑ گئے۔صدیوں میں ان کی تعمیر ہوئی تاہم وہ فنا ہوگئے۔“(‪)۱۰‬‬
‫لیکن قرآن ‪ ،‬پیغمبر عربی صلى هللا عليه وسلم نے ص الح معاش رہ کی تعم یر وتش کیل ک ا ج ودرس دی ا وہ اس وقت‬
‫سے لے کر آج تک اپنی اصل صورت میں برقرار ہے اور جب تک مسلمانوں کے اندر دینی وعلمی روح زن دہ رہے گی‬
‫‪،‬دنیا میں اخالقی اقدار کی باال دستی رہے گی۔ مسلمانوں کا فریض ہ ہے کہ وہ خودک و اخالق ک ا نم ونہ بن ائیں ۔ گھ ر میں‬
‫ہوں یا بازار میں‪ ،‬محفل میں ہوں یا مجلس میں‪ ،‬ہر جگہ اخالق کا مظاہر ہ کرنا اسالم ک و مطل وب ہے۔ہللا کے رس ول نے‬
‫ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا ۔ دوست ہو یا دشمن ‪،‬اپنے ہو کہ پرائے ‪،‬سب کے ساتھ حسن سلوک ک ا مظ اہرہ کیا۔اگ ر علم‬
‫حاصل کرنے کے بعد آدمی کے اندر یہ صفت پیدا نہ ہوئی تو ایسا علم کسی کام ک انہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہللا کے رس ول‬
‫ُس ن ااْل ِ ْخاْل ق۔‪)۱۱( ‬آپ کے اس وص ف خ اص کی گ واہی ق رآن مق دس میں بھی موج ود‬ ‫فرمایا ک رتے تھے‪ :‬ب ُِع ْث ُ‬
‫ت اِل ُتَ ِّمم ح ْ‬
‫لی ُخل ق َعظَیْم۔‪( ‬الق رآن) (آپ اخالق کے اعلی مق ام پ ر ف ائز ہیں۔)ای ک م رتبہ چن د ص حابہ رض وان هللا عليهم‬ ‫ہے‪:‬اِنَّ َ‬
‫ک لَ َع ٰ‬
‫اجمعين حضرت عائشہ رضى هللا تعالى عنها کی خدمت میں حاض ر ہ وے اور ان س ے دری افت کیا کہ ہمیں حض ور کے‬
‫ق َرسُوْ ل ہّٰللا صلى هللا عليه وس لم َک ا نَ ْالقُ رْ آنَ ۔‪)۱۲( ‬‬
‫اخالق اور معموالت کے بارے میں کچھ بتائیے۔انہوں نے فرمایا‪ُ  :‬خ ْل َ‬
‫درستی اخالق کی دع اکرتے رہ تے ہیں۔ آئینہ میں اپن ا چہ رہ‬ ‫ٴ‬ ‫(آپ کا اخالق ہمہ تن قرآن تھا۔) باوجود اس کے آپ ہر وقت‬
‫یکھتے تو ہللا کا شکر اداکرتے اور خدا کے حضور یہ دعا کرتے‪ :‬اَ ٰللّھُ َّم اَحْ َس ْنتَ خَ ْلقِ ْی فَاَحْ ِس نَ ُخ ْلقِی۔(‪( )۱۳‬اے ہللا م یرے‬
‫اخالق کو بھی اسی طرح اچھا کردے جس طرح تونے میرے چہرے کو اچھ ا بنای ا ہے۔) آپ س ے کس ی نے پوچھ ا ک ون‬
‫لوگ اچھے ہیں؟ آپ نے فرمایا‪”:‬اِ َّن َخیَا َر ُک ْم اَحْ َسنُ ُک ْم اَ ْخاَل قاً۔“(‪ )۱۴‬سب سے بہ تر انس ان وہ ہے جس ک ا اخالق س ب س ے‬
‫اچھا ہے۔) ایک اور موقع پر آپ نے فرمای ا‪:‬اَ ْک َم ُل ْال ُم ْٴو ِمنِ ْینَ اِ ْی َمان ا ً اَحْ َس نُھُم ُخ ْلق اً۔‪()۱۵( ‬س ب س ے زی ادہ کام ل االیم ان وہ‬

‫‪6‬‬
‫کورس‪ :‬م طالعہ حدی ث(‪)4622‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر ‪ :‬زاں‪2021 ،‬ء‬
‫شخص ہے جس کا اخالق سب سے اچھا ہو۔) اس طرح بہت سی احادیث ہیں جن میں اخالق کی اہمیت کو واض ح کیا گیا‬
‫ہے۔‬
‫اخالق صرف یہی نہیں ہے کہ لوگوں سے ہنستے مسکراتے مل لیا اور اس کے س اتھ کچھ اچھی ب اتیں ک رلیں ۔ یہ‬
‫تو اخالق کا جزوہے ‪ ،‬ان کے عالوہ بھی اور بہت ساری ب اتیں اخالق میں داخ ل ہیں۔ یہ خوبیاں اس ی وقت پیدا ہ وں گی‬
‫جب ہم علم سے آراستہ و پیراستہ ہوں گے۔ ہللا اور اس کے بتائے ہوے راستہ پر چلیں گے۔اگ ر ای ک آدمی اچھے اخالق‬
‫کا حامل ہے تو کسی کے ظلم کو برداشت کرنا بھی اخالق کے دائرہ میں آتا ہے۔ بے صبری کا مظاہرہ کرنااورانتق ام لین ا‬
‫بے اخالقی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تلخ باتوں پر صبر کریں ۔ ہ و س کتا ہے کہ ایس ا ک رنے س ے وہ ہم ن وا بن‬
‫جائے ۔ غصہ کرنا‪،‬بد لہ لینا‪،‬کسی کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش نہ آنا‪،‬کسی کا ما ل غصب کرنا‪،‬چ وری ڈکیتی کرن ا یہ‬
‫مذموم حرکتیں ہیں ‪،‬جو بداخالقی ہے۔چنانچہ ہللا کے رسول نے فرمایا‪:‬‬
‫ک نَ ْف َسہُ ِع ْند َْالغ َ‬
‫َضب‪)۱۶(“.‬‬ ‫ْس ال َّش ِد ْی ُد بِالصُّ رْ عَة اِنَّ َماال َّش ِد ْی ُد اَلَّ ِذیْ یَ ْملِ ُ‬
‫”لَی َ‬
‫( ط اقت وروہ آدمی نہیں ہے جوکش تی میں کس ی ک و پچھ اڑدے‪ ،‬بلکہ وہ آدمی ط اقت ور ہے‪ ،‬جوغص ہ کے وقت‬
‫اپنے نفس کوقابو میں رکھے۔)‬
‫ایک دوسری حدیث میں ہللا کے رسول نے فرمایا‪:‬‬
‫ت‪َ ،‬واَل فِ ْقہٌ فِی ال ِّد ْی ِن‪)۱۷(“.‬‬
‫ق‪ُ :‬حسْنُ َس ْم ٍ‬ ‫”خَصْ لَت ِ‬
‫َان اَل تَجْ تَ ِم َع ِ‬
‫ان فِی ُمنَافِ ٍ‬
‫(دوعادتیں ایسی ہیں جو منافق میں جمع نہیں ہوتیں ۔ ایک اچھی عادت اور دوسرے دینی بصیرت۔)‬
‫دنیا کے لیے نفع بخش بنا جائے‬
‫اسالم حکم دیتا ہے کہ اپنے آپ کو ضرر رساں نہیں بلکہ نفع بخش بنا ٴو۔ایک انسان کے قول وعمل س ے دوس رے‬
‫انسان کو تکلیف نہ پہنچے۔ اچھی اور بھلی باتوں کا تمیز وہی انسان کرسکتا ہے جس کے اندر شعور وفراست ہ وگی اور‬
‫یہ خوبی بغیر علم کے پیدا نہیں ہوسکتی۔عقل و شعور تو جاہل کے پا س بھی ہے۔مگر جو فراست ایک پ ڑھے لکھے ک و‬
‫حاص ل ہ وگی وہ جاہ ل ک و ہ ر گ ز حاص ل نہیں ہوس کتی۔اس کے دن رات کے عم ل میں ‪،‬اس کی گفتگ و میں ‪،‬اس کے‬
‫معامالت میں ‪ ،‬اس کے فیصلہ لینے میں ایسی بات کا صادر ہونا جس س ے دوس روں ک و تکلیف پہنچ ج ائے ک وئی بعید‬
‫نہیں ہے۔ اگر اسے اس کا ادراک ہوجائے تو وہ جاہل ہی کیوں رہے گا۔ ہللا کے رس ول کی ح دیث س ے بھی اس ب ات ک و‬
‫اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔آپ نے فرمایا‪:‬‬
‫ق فِی َسبِی ِْل ہّٰللا ‪)۱۸(“.‬‬
‫”ان َمثَ َل ِع ْل ٍم اَل یَ ْنفَ ُع َک َمثَ ِل َک ْن ٍز اَل یُ ْنفَ ُ‬
‫َّ‬
‫( ج و علم نف ع بخش نہ ہ و اس کی مث ال اس خ زانے جیس ی ہے جس میں س ے خ داکی راہ میں کچھ خ رچ نہ کیا‬
‫جائے۔)‬
‫نیز آپ نے یہ بھی فرمایا‪:‬‬
‫اس اَ ْنفَ َعھُ ْم لِلنَّ ِ‬
‫اس‪)۱۹(“.‬‬ ‫” َخ ْی ُر النَّ ِ‬
‫( ہللا کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ آدمی وہ ہے جو سب سے زیادہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے واالہے۔)‬

‫‪7‬‬
‫جب آدمی کے اندر یہ ذوق و جذبہ ہوگ ا ت و یقین ا وہ کوش ش ک رے گ ا کہ وہ علم حاص ل ک رے اور دوس روں ت ک‬
‫پہنچائے۔‬
‫علم نافع کی دعا ء بھی کرتے رہنا چاہیے‬
‫نبی اکرم صلى هللا عليه وس لم دنیا کے ل یے معلم بن اکر بھیجے گ ئے ۔ آپ کی وجہ س ے دنیا میں علم کی روش نی‬
‫پھیلی اورانسانیت کو روشن اور واضح سمت مال ۔باوجود اس کے ہر وقت ہللا کے حض ور زی ادتی علم اور اس تقامت علم‬
‫کے ساتھ علم نافع کی دعا ء کرتے ہیں‪:‬‬
‫ک ِم ْن ِع ْل ٍم اَل یَ ْنفَعُ‪َ ،‬و ِم ْن ُدعَا ٍء اَل یُ ْس َمعُ‪َ ،‬و ِم ْن قَ ْل ٍ‬ ‫ٰ‬
‫ب اَل یَ ْخ َش ُع َو ِم ْن نَ ْف ٍ‬
‫س اَل تَ ْشبَعُ۔“(‪)۲۰‬‬ ‫”اَللّہُ َّم اِنِّی اَ ُعوْ ُذبِ َ‬
‫(اے ہللا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نفع بخش نہ ہو اور اس دعاء سے جو سنی نہ ج ائے اور اس دل‬
‫سے جس میں خشوع نہ ہو اور اس نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو۔)‬
‫علم نافع اور رزق وسیع کے لیے ہللا کے حضور یہ دعاء بھی کرتے تھے‪:‬‬
‫ک ِع ْلما ً نَافِعاً‪َ ،‬ع َمالً ُمتَقَبَّالً‪َ ،‬و ِر ْزقا ً طَیِّباً‪)۲۱(“.‬‬ ‫ٰ‬
‫”اَللّھُ َّم اِنّی اَسَْئلُ َ‬
‫(اے ہللا! میں تجھ سے علم نافع‪ ،‬عمل مقبول اور پاک رزق کی درخواست کرتا ہوں۔)‬
‫کیوں کہ ہللا نے انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا تھا‪:‬‬
‫ٰ‬
‫ما‪(“.‬طہٰ ‪)۱۱۴:‬‬‫” َوقُل رَّبِّ ِز ْدنِ ْی ِع ْل‬
‫(اے پیغمبر کہو‪:‬اے میرے رب !میرا علم زیادہ کر۔)‬
‫” َربَّنَا آتِنَا فِ ْی ال ُّد ْنیَا َح َسنَةً َوفِ ْی اآل ِخ َر ِة َح َسنَةً‪(“.‬البقرہ‪)۲۰۱:‬‬
‫(اے میرے رب! تو مجھے دنیا وآخرت دونوں میں اچھا بنا۔)‬
‫‪ ‬ہللا نے انسان کو جو علم عطا کیا ہے ‪،‬اسے ہی حرف آخر نہ سمجھا ج ائے ‪ ،‬بلکہ زی ادتی علم کی کوش ش ک رتے‬
‫رہنا چاہیے اوراسے اپ نی محنت اور ج دو جہ د ک ا ن تیجہ نہ س مجھنا چ اہیے بلکہ عط ا ِء خ دا ون دی س مجھتے ہ وئے یہ‬
‫اعتراف کرتے رہنا چاہیے‪:‬‬
‫ک َما لَ ْم تَ ُک ْن تَ ْعلَ ُم َو َکانَ فَضْ ُل ہّللا ِ َعلَ ْْی َ‬
‫ک َع ِظیْما‪( “.‬النساء‪)۱۱۳:‬‬ ‫” َوعَلَّ َم َ‬
‫(اور تجھ کوسکھائیں وہ باتیں جو نہیں جانتا تھااور یہ تیرے رب کا فضل عظیم ہے۔)‬
‫‪ ‬جس کو علم وحکمت سے نواز دیاگیا‪،‬گویا اسے دین ودنیا کی دولت حاصل ہو گئی۔ ضروری ہے کہ جو علم عط ا‬
‫تعالی نے اہ ل علم کی س تائش ک رتے ہ وے‬
‫ٰ‬ ‫کیا گیا ہے اس کی قدر کی جائے اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ باری‬
‫فرمایا‪:‬‬
‫” َو َمن یُْؤ تَ ْال ِح ْک َمةَ فَقَ ْد ُأوتِ َی خَ ْْیراً َکثِیْراً َو َما یَ َّذ َّک ُر ِإالَّ ُأوْ لُ ْ‬
‫وا اَأل ْلبَا ِ‬
‫ب‪( “.‬البقرہ‪)۲۶۹:‬‬
‫(اور جس کو حکمت مل گئی اس کو بڑی خوبی کی چ یز م ل گ ئی اور نص یحت وہی حاص ل ک رتے ہیں ج و عق ل‬
‫رکھتے ہیں۔)‬
‫اسی طرح ہللا کے رسول صلى هللا عليه وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫اس ٌم‪َ ،‬وہّٰللا ُ یُ ْع ِطی‪)۲۲(“.‬‬ ‫ہّٰللا‬
‫” َمن ی ُِر ِد ُ بِہ َخ ْیرًایُفَقِّ ْہہُ فِی ال ِّد ْی ِن‪َ ،‬واِنَّ َما اَنَا قَ ِ‬
‫‪8‬‬
‫کورس‪ :‬م طالعہ حدی ث(‪)4622‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر ‪ :‬زاں‪2021 ،‬ء‬
‫(ہللا جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرت ا ہے اور میں ت و ص رف تقس یم ک رنے واال‬
‫ہوں اور دینے واال ہللا ہے۔)‬
‫عہد نبوی میں علوم وفنون کی ترقی‬
‫عہدنبوی کے مدنی معاشرہ پرغورکریں کہ کس کس مپرسی کے عالم میں مسلمان مکہ س ے ہج رت ک رکے م دینہ‬
‫پہنچے ۔ کھانے کھانے کوترستے تھے‪ ،‬تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا میسر نہیں تھ ا‪،‬رہ نے ک وگھرنہیں تھے ‪ ،‬لیکن ان کے‬
‫اندرحصول علم کاجذبہ تھا۔ اسی وجہ سے مختصرعرصے میں وہ نم ونہ زن دگی بن گ ئے اورزن دگی کے ہرش عبے میں‬
‫کمال پیدا کرکے اپنی ضرورتوں کی تکمیل کرنے لگے ۔ چوں کہ ہللا کے رسول صلى هللا عليه وس لم ای ک ب ڑے پیغم بر‬
‫ہونے کے ساتھ ایک عظیم حکم راں بھی تھے اورکوئی بھی حکومت اس وقت تک صحیح طریقے سے نہیں چ ل س کتی‬
‫جب تک کہ اس کے اندرمختلف ص الحیت کے اف راد موج ودنہ ہ وں۔ض روری ہے کہ یہ اں ط بیب بھی ہ وں اور س رجن‬
‫بھی ‪،‬یہ بھی ضروری ہے کہ وہاں بڑھی بھی ہ وں اور لوہ اربھی ‪ ،‬کاش ت ک ار بھی ہ وں اور ص نعت گ ربھی ۔جس وقت‬
‫حضورصلى هللا عليه وسلم مسجدنبوی کی تعمیر کروارہے تھے ‪ ،‬صحابہ کرام مختلف کاموں پ ر م امور تھے ۔ کس ی ک و‬
‫اینٹ بنانے اور ڈھونے کا حکم دیا تو کسی کو گارا بنانے کا ‪،‬تو کسی کو کوئی دوسرے کام پر مامور کیا۔ ای ک ص حابی‬
‫نے خواہش ظاہر کی کہ میں دوسرا کام بھی کرسکتا ہوں ‪،‬آپ نے منع کیا اور فرمایا ‪:‬نہیں تم گارا گھولو‪،‬تم اس ک ام س ے‬
‫خوب واقف ہو۔ (‪ )۲۳‬گویاکہ حضورکے زمانہ میں ہرفن کے ماہرین موجودتھے ۔ کچھ لوگوں نے علمی کام ک یے ‪ ،‬کچھ‬
‫لوگوں نے دست کاریاں سیکھیں‪ ،‬بعض صحابہ نے دوسری قوم وں کی زب ان اور ان کی تہ ذیب و تم دن کامط العہ کیا۔ (‬
‫‪)۲۴‬اس وقت کی ضرورت کے مطابق ک وئی ایس ا علم اورفن نہ تھ اجس میں ص حابہ ک رام پیچھے رہے ہ وں۔ عملی علم‬
‫ہویافنی ‪ ،‬سبھی میں صحابہ کرام ماہراور یکتا ِء روزگارتھے۔ مندرجہ ذیل اقتباس سے اس کا اندازہ بخ وبی لگای ا جاس کتا‬
‫ہے۔ عالمہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫”ایک طرف عقال ِء روزگار ‪،‬اسرار فطرت کے محرم ‪،‬دنیا کے جہاں باں اور ملکوں کے فرم اں روااس درس گ اہ‬
‫سے تعلیم پاکر نکلے ہیں‪ ،‬جنہوں نے مشرق سے مغرب تک ‪،‬افریقہ سے ہندوستان کی سرحد تک فرم اں روائی کی اور‬
‫ایسی فرماں روائی جو دنیا کے بڑے سے بڑے شہنشاہ اور حکم راں کی سیاست وتدبر اور نظم ونسق کے کارناموں ک و‬
‫منسوخ کردیتی ہے ۔ دوسری طرف خالد بن ولید رضى هللا عنه‪ ،‬سعدبن ابی وق اص رض ى هللا علي ه‪ ،‬اب و عبیدہ بن ج راح‬
‫رضى هللا عنه‪ ،‬عمروبن العاص رضى هللا عنه ہیں جنہوں نے مشرق ومغرب کی دوظالم و گناہ گار اور انسانیت کے لیے‬
‫لعنت سلطنتوں کا چند سال میں قلع قمع کر دیتے ہیں اور دنیا کے وہ فاتح اعظم اور سپہ ساالر اکبر ث ابت ہ وتے ہیں‪ ،‬جن‬
‫کے فاتحانہ کارناموں کی دھاک آج بھی دنیا میں بیٹھی ہوئی ہے۔ تیس ری ط رف وہ ص حابہ ہیں جنہ وں نے ص وبوں اور‬
‫شہروں کی کامیاب حکومت کی اور خلق خدا کو آرام پہنچایا۔ چوتھی طرف علماء وفقہاء کی ص ف ہے۔ انہ وں نے اس الم‬
‫کے فقہ وقانون کی بنیاد ڈالی اور دنیا کے مقنن میں خاص درجہ پایا۔ پانچویں صف عام ارباب روایت وتاریخ کی ہے‪،‬جو‬
‫احکام ووقائع کے ناقل وراوی ہیں۔ ایک چھٹی جماعت ان ستر صحابہ (اصحاب ص فہ) کی ہے جن کے پ اس س ررکھنے‬
‫کے لیے مسجد نبوی کے چبوترے کے س وا ک وئی جگہ نہ تھی ۔ س اتواں رخ دیکھ و! اب و ذررض ى هللا عن ه ہیں‪ ،‬ان کے‬

‫‪9‬‬
‫ٰ‬
‫دوتقوی‬ ‫نزدیک آج کا کھانا کل کے لیے اٹھا رکھنا بھی شان توکل کے خالف تھا۔سلمان فارسی رض ى هللا عن ه ہیں ج و زہ‬
‫کی تصویر ہیں ۔ عبدہللا بن عمر رضى هللا عنه ہیں جن کے سامنے خالفت پیش ہوئی تو فرمایا کہ اگ ر اس میں مس لمانوں‬
‫کا ایک قطرہ خون گرے تو مجھے منظور نہیں ۔ مصعب بن عمیر رضى هللا عن ه ہیں ج و اس الم س ے پہلے ق اقم وحری ر‬
‫کے کپڑے پہنتے اور جب اسالم الئے تو ٹاٹ اوڑھتے اور پیوند لگے ک پڑے پہن تے تھے اور جب ش ہادت پ ائی ت و کفن‬
‫کے لیے پورا کپڑا تک نہ مال۔ عثمان بن مطع ون رض ى هللا عن ه ہیں ج و اس الم س ے پہلے ص وفی کہالتے ہیں۔ اب ودردا‬
‫رضى هللا عنه ہیں کہ جن کی راتیں نمازوں میں اور دن روزوں میں گزرتے تھے۔ ایک اور طرف دیکھو! یہ بہ ادر ک ار‬
‫پردازوں اور عرب کے مدبرین کی جماعت ہے ۔کاروباری دنیا میں دیکھو تو مکہ کے تاجر اور بیوپ اری ہیں اور م دینہ‬
‫کے کاشت کار اور کسان بھی ہیں اور بڑے بڑے دولت مند بھی ہیں۔ ان نیرنگیوں اور اختالف استعداد کے ب اوجود ای ک‬
‫چیز تھی جو مشترک طورسے سب میں نمایاں تھی۔وہ ایک بجلی تھی جو سب میں کوند رہی تھی‪،‬ک وئی بھی ہ وں توحید‬
‫الی کی رض ا‬
‫کا نور‪ ،‬اخالق کی رو‪،‬قربانی کا ولولہ ‪،‬خلق کی ہدایت اور رہنمائی کا جذبہ اور باآلخر ہ ر ک ام میں خ دا تع ٰ‬
‫طلبی کا جو ش ہر ایک کے اندر کام کررہاتھا۔“(‪)۲۵‬‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫سوال مب ر ‪2‬۔ کت اب العلم ب اب مب ر ‪53‬کی احادی ث کا م طالعہ کری ں اور درج ذی ل کی وض احت کری ں۔‬
‫علم کی فضیلت کے بیان میں۔‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ع‬
‫ے حاالت و زمان ہ کی ر ی ب‬ ‫لمی سرگر یم وں کے یل‬ ‫(الف)‬
‫َوقَوْ ِل هَّللا ِ تَ َعالَى‪ :‬يَرْ فَ ِع هَّللا ُ الَّ ِذينَ آ َمنُوا ِم ْن ُك ْم َوالَّ ِذينَ ُأوتُوا ْال ِع ْل َم َد َر َجا ٍ‬
‫ت َوهَّللا ُ بِ َما تَ ْع َملُونَ خَ بِيرٌ‪َ .‬وقَوْ لِ ِه َع َّز َو َجلَّ‪َ :‬ربِّ ِز ْدنِي ِع ْل ًما‪.‬‬
‫جو تم میں ایماندار ہیں اور جن کو علم دیا گیا ہے ہللا ان کے درجات بلند کرے گا اور ہللا کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔‬
‫تعالی نے‪( ‬سورۃ ط ٰہ میں)‪ ‬فرمایا‪( ‬کہ یوں دعا کیا کرو)‪ ‬پروردگار مجھ کو علم میں ترقی عطا فرما۔‬
‫ٰ‬ ‫اور ہللا‬
‫يث ثُ َّم َأ َج َ‬
‫اب السَّاِئ َل‪:‬‬ ‫‪ -2‬بَابُ َم ْن ُسِئ َل ِع ْل ًما َوه َُو ُم ْشتَ ِغ ٌل فِي َح ِديثِ ِه فََأتَ َّم ْال َح ِد َ‬
‫باب‪ :‬اس بیان میں کہ جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی جائے اور وہ اپ نی کس ی دوس ری ب ات میں مش غول ہ و‬
‫پس (ادب کا تقاضا ہے کہ) وہ پہلے اپنی بات پوری کر لے پھر پوچھنے والے کو جواب دے۔‬
‫حدیث نمبر‪:53‬‬
‫ْح‪ ،‬قَ ا َل‪َ :‬ح َّدثَنِي‪َ ‬أبِي‪ ،‬قَ ا َل‪:‬‬ ‫َح َّدثَنَا‪ُ  ‬م َح َّم ُد بْنُ ِس نَا ٍن‪ ،‬قَ ا َل‪َ :‬ح َّدثَنَا‪ ‬فُلَ ْيحٌ‪ .‬ح و َح َّدثَنِي‪ِ ‬إ ْب َرا ِهي ُم بْنُ ْال ُم ْن ِذ ِر‪ ،‬قَ َ‬
‫ال‪َ :‬ح َّدثَنَا‪ُ  ‬م َح َّم ُد بْنُ فُلَي ٍ‬
‫ِّث ْالقَوْ َم َجا َءهُ‬
‫س ي َُحد ُ‬ ‫ار‪ ،‬ع َْن‪َ ‬أبِي هُ َر ْي َرةَ‪ ،‬قَا َل‪" :‬بَ ْينَ َما النَّبِ ُّي َ‬
‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم فِي َمجْ لِ ٍ‬ ‫َح َّدثَنِي‪ِ  ‬هاَل ُل بْنُ َعلِ ٍّي‪ ،‬ع َْن‪َ  ‬عطَا ِء ب ِْن يَ َس ٍ‬
‫ال‪ ،‬فَ َك ِرهَ َما قَا َل‪َ ،‬وقَ ا َل‬‫ال بَعْضُ ْالقَوْ ِم‪َ :‬س ِم َع َما قَ َ‬ ‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم ي َُحد ُ‬
‫ِّث‪ ،‬فَقَ َ‬ ‫ضى َرسُو ُل هَّللا ِ َ‬ ‫ال‪َ :‬متَى السَّا َعةُ؟ فَ َم َ‬ ‫َأ ْع َرابِ ٌّي‪ ،‬فَقَ َ‬
‫ت‬ ‫ال‪ :‬فَ ِإ َذا ُ‬
‫ض يِّ َع ِ‬ ‫الس ا َع ِة؟ قَ ا َل‪ :‬هَ ا َأنَ ا يَ ا َر ُس َ‬
‫ول هَّللا ِ‪ ،‬قَ َ‬ ‫ضى َح ِديثَهُ‪ ،‬قَا َل‪َ :‬أ ْينَ ُأ َراهُ السَّاِئ ُل ع َِن َّ‬ ‫ضهُ ْم‪ :‬بَلْ لَ ْم يَ ْس َمعْ‪َ ،‬حتَّى ِإ َذا قَ َ‬‫بَ ْع ُ‬
‫ضا َعتُهَا؟ قَا َل‪ِ :‬إ َذا ُو ِّس َد اَأْل ْم ُر ِإلَى َغي ِْر َأ ْهلِ ِه فَا ْنت َِظ ِر السَّا َعةَ”‪.‬‬
‫اَأْل َمانَةُ فَا ْنت َِظ ِر السَّا َعةَ‪ ،‬قَا َل‪َ :‬ك ْيفَ ِإ َ‬
‫حدثنا محمد بن سنان‪ ،‬قال حدثنا فليح‪ ،‬ح وحدثني إبراهيم بن المنذر‪ ،‬قال ح دثنا محم د بن فليح‪ ،‬ق ال ح دثني أبي ق ال‪ ،‬ح دثني‬
‫هالل بن علي‪ ،‬عن عطاء بن يسار‪ ،‬عن أبي هريرة‪ ،‬قال بينما النبي صلى هللا عليه وسلم في مجلس يحدث القوم ج اءه أع رابي‬
‫فقال متى الساعة فمضى رسول هللا صلى هللا عليه وسلم يحدث‪ ،‬فقال بعض القوم سمع ما قال‪ ،‬فكره ما قال‪ ،‬وق ال بعض هم ب ل‬

‫‪10‬‬
‫کورس‪ :‬م طالعہ حدی ث(‪)4622‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر ‪ :‬زاں‪2021 ،‬ء‬
‫لم يسمع‪ ،‬حتى إذا قضى حديثه قال ” أين ـ أراه ـ الس ائل عن الس اعة ”‪ .‬ق ال ها أنا يا رس ول هللا‪ .‬ق ال ” ف إذا ض يعت األمانة‬
‫فانتظر الساعة ”‪ .‬قال كيف إضاعتها قال ” إذا وسد األمر إلى غير أهله فانتظر الساعة ”‪.‬‬
‫ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا‪ ،‬کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا‪( ‬دوسری س ند)‪ ‬اور مجھ س ے اب راہیم بن المن ذر نے بیان‬
‫کیا‪ ،‬کہا مجھ سے میرے باپ‪( ‬فلیح)‪ ‬نے بیان کیا‪ ،‬کہا ہالل بن علی نے‪ ،‬انہوں نے عطاء بن یسار سے نقل کیا‪ ،‬انہ وں نے‬
‫ابوہریرہ رضی ہللا عنہ سے کہ‪ ‬ایک بار نبی کریم‪ ‬ص لی ہللا علیہ وس لم‪ ‬لوگ وں میں بیٹھے ہ وئے ان س ے ب اتیں ک ر رہے‬
‫تھے۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وس لم‪ ‬اپ نی گفتگ و‬
‫میں مصروف رہے۔ بعض لوگ‪( ‬جو مجلس میں تھے)‪ ‬کہنے لگے آپ‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلمنے دیہاتی کی ب ات س نی لیکن‬
‫پس ند نہیں کی اور بعض کہ نے لگے کہ نہیں بلکہ آپ نے اس کی ب ات س نی ہی نہیں۔ جب آپ‪ ‬ص لی ہللا علیہ وس لم‪ ‬اپ نی‬
‫باتیں پوری کر چکے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪  ‬نے یوں فرمای ا وہ قیامت کے ب ارے میں پوچھ نے‬
‫واال کہ اں گیا اس(دیہ اتی)‪ ‬نے کہ ا‪( ‬ی ا رس ول ہللا!)‪ ‬میں موج ود ہ وں۔ آپ‪ ‬ص لی ہللا علیہ وس لم‪ ‬نے فرمای ا کہ جب‬
‫امانت‪( ‬ایمانداری دنیا سے)‪ ‬اٹھ جائے تو قیامت قائم ہونے کا انتظار کر۔ اس نے کہ ا ایمان داری اٹھ نے ک ا کیا مطلب ہے؟‬
‫آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے فرمایا کہ جب‪( ‬حکومت کے کاروبار)ناالئق لوگوں کو سونپ دئیے جائیں تو قیامت کا انتظ ار‬
‫کر۔‬
‫ئ‬ ‫ع‬
‫ے ال حہ عمل کی ت ی اری‬
‫لمی سرگر یم وں کے یل‬ ‫(ب)‬
‫تدریس ایک پیشہ ہی نہیں بلکہ ایک فن ہے۔ پیشہ وارانہ تدریسی فرائض کی انجام دہی کے لئے استاد ک ا فن ت دریس کے‬
‫اصول و ضوابط سے کم حقہ واقف ہوناضروری ہے۔ ایک باکمال اس تاد موض وع ک و معیاری ان داز میں طلبہ کے ذہ نی‬
‫اور نفسیاتی تقاضوں کے عین مطابق پیش کرنے کے فن سے آگاہ ہوتا ہے۔ معیاری اور نفسیاتی ان داز میں نفس مض مون‬
‫کو پیش کر نا ہی تدریس ہے۔ موثر تدریس کے لئے ‪،‬کسی بھی موضوع کی تدریس سیقبل‪ ،‬استاد کا موضوع س ے متعل ق‬
‫اپنی سابقہ معلومات کا تشفی بخش اعادہ ا ور جائزہ بے حد ضروری ہے۔ سابقہ معلوم ات کے اع ادہ و ج ائزہ کے عالوہ‬
‫موضوع سے متعلق جدید تحقیقات و رجحانات سے لیس ہوکر اساتذہ اپنی شخص یت ک و باکم ال اور ت دریس ک و ب ااثر بن ا‬
‫سکتے ہیں۔ موثر تدریس کی انجام دہی کے لئے اساتذہ کا تدریسی مقاصد سے آگ اہ ہون ا بھی ض روری ہوت ا ہے۔تدریس ی‬
‫اص ولوں پ ر عم ل پ یرائی کے ذریعے اس اتذہ مقاص د تعلیم کی ج انب کامیاب پیش رفت ک ر س کتے ہیں۔ م وثر ت دریس‬
‫اورتعلیمی مقاصد کے حصول میں تدریسی اصول نمایا ں کردار ادا کرتے ہیں۔تدریسی اص ولوں س ے اس اتذہ کیوں‪ ،‬کب‬
‫اور کیسے پڑھانے کا فن سیکھتے ہیں۔تدریسیاصولوں کا علم اساتذہ کو تدریسی الئحہ عمل کی ترتیب اور منظم منص وبہ‬
‫بندی کا عادی بناتا ہے۔کیوں‪ ،‬کب ‪ ،‬اورکیسے پڑھا نے کااصو ل اساتذہ کی مسلسل رہنمائی کے عالوہ تدریسی باریکیوں‬
‫کی جانکاری بھی فراہم کرت ا ہے ۔ تدریس ی اص ولو ں پ ر عم ل ک رتے ہ وئے اس اتذہ م وثر اور عملی ت دریس ک و ممکن‬
‫بناسکتے ہیں۔تدریسی اصول بامقصد تدریس‪،‬نئے تعلیمی رجحانات ‪ ،‬تجزیہ و تنقید‪ ،‬مطالعہ و مشاہدہ ‪،‬شعور اور دلچس پی‬
‫کو فروغ دیتے ہیں۔ تدریسی اصولوں پر قائم تعلیمی نظام نتیجہ خیز اور ثمر آورثابت ہوتا ہے۔تدریسی اص ولوں پرکاربن د‬
‫استا د معلم سے زیادہ‪ ،‬ایک رہنما اور رہ برکے ف رائض انج ام دیت اہے۔ جدی د تعلیمینظری ات کی روش نی میں اس تاد ای ک‬

‫‪11‬‬
‫مدرس اور معلم ہی نہیں بلکہ ایک رہ بر اور رہنم ا بھی ہوت ا ہے۔ اس المی تعلیم ات س ے ع دم آگہی کی وجہ س ے ہم اس‬
‫نظریہ تعلیم کو جدیدیت سے تعبیر کر رہے ہیں جب کہ یہ ایک قدیم اسالمی تعلیمی نظریہ ہے جہا ں اس تاد ک و معلوم ات‬
‫کی منتقلی کے ایک وسیلے کی شکل میں نہیں بلکہ ایک مونس مشفق مربی رہنما اور رہبر کی حیثیت س ے پیش کیا گیا‬
‫ہے۔ تدریسی اصولوں س ے ب اخبر اس تاد بنیادی تدریس ی و نفس یاتی اص ولوں کی یکج ائی س ے تعلیم و اکتس اب ک و طلبہ‬
‫مرک وز بنادیت ا ہے۔ذی ل میں اہمیت کے حام ل چن د نمای اں تدریس ی اص ولوں ک و بیان کیا جارہ اہے ۔‬
‫(‪ )1‬ترغیب و محرکہ تدریسی اصولوں میں اساسی حیثیت کا حامل ہے۔طلبہ میں تحریک و ترغیب پیدا کیئے بغ یر م وثر‬
‫تدریس کو انجام نہیں دیا جاسکتا۔ طلبہ میں اکتسابی میالن ت رغیب و تحری ک کے مرہ ون منت ج اگزیں ہوت اہے۔ حص ول‬
‫علم‪ ،‬پائیدار اکتس اب اور علم س ے کس ب فیض حاص ل ک رنے کے ل ئے طلبہمیں دلچس پی اور تحری ک پیدا کرن ا بہت‬
‫ضروری ہوتا ہے۔فعال و ثمر آور اکتساب ترغیب و تحریک کے زیر اثر ہی ممکن ہے۔تدریس میں ہ ر مق ام پ ر طلبہ میں‬
‫محرکہ کا مطالبہ کرتی ہے۔ بغیر محرکہ پیدا کیئے کامیاب اکتس اب ممکن ہی نہیں ہے۔اکتس ابی دلچس پیوں کی برق راری‬
‫کے لئے محرکہ بہت اہم ہے۔محرکہ کی وجہ سے طلبہ میں اکتساب کی تمنا انگڑائی لیتی ہے۔‬

‫(‪)2‬درس و تدریس استاد اور طالب علم پر مبنی ایک دوطرفہ عمل ہے۔موثر تدریس اور کامیاب اکتساب کے ل ئے تعلیمی‬
‫عمل میں استاد اور شاگرد دونوں کی سرگرم ش رکت الزمی تص ور کی ج اتی ہے۔تعلیمی س رگرمیوں کے بغ یر تدریس ی‬
‫عم ل بے کیف اور ع دم دلچس پ بن جات ا ہے۔طلبہ میں اکتس ابی دلچس پی کی نم و ‪،‬ف روغ اور برق راری میں تعلیمی‬
‫سرگرمیاں بہت اہم ہوتی ہیں۔ کامیاب اکتساب اور موثر تدریس میں محرکہ کے بعد سب سے نمای اں مق ام س رگرمیوں پ ر‬
‫مبنی تدریس و اکتساب (‪)Activity Based Teaching‬کو حاصل ہے۔ س رگرمیوں پ ر مبنیت دریس طلبہ میں تعلیم س ے‬
‫دلچسپی ‪،‬شوق و ذوق پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔سرگرمیوں کے زیر اثر طلبہ میں نصابی مہ ارتیں ف روغ پ انے لگ تی‬
‫ہیں۔سرگرمیوں کے زیر اثر انجام پانے والی تدریس اور اکتساب موثر اور پائیدار واقع ہوتے ہیں۔سرگرمیوں کے ذریعے‬
‫طلبہ میں عملی اکتساب (‪)Practical Learning‬فروغ پاتی ہے۔تدریسی اص ولوں میں س رگرمیوں پ ر مب نی ت دریس ک و‬
‫بہت اہمیت حاصل ہے اسی لئے اساتذہ اپنی تدریس کو کامیابی سے ہمکنار ک رنے کے ل ئے س رگرمیوں(‪)activities‬ک و‬
‫ا لیں۔‬ ‫زو بن‬ ‫ا الزمی ج‬ ‫دریس ک‬ ‫نی ت‬ ‫اپ‬
‫(‪)3‬دوران تدریس استاد جو حکمت عملی اختیار کرتا ہے اسے تدریسی حکمت عملی یا طریقہ تدریس کہ تے ہیں۔تدریس ی‬
‫طریقہ ک ار معلوم ات کی منتقلی اورطلبہ میں علم س ے محبت و دلچس پی پیدا ک رنے میں اہم ک ردار ادا کرت ا ہے۔ت دریس‬
‫دراصل معلومات کی منتقلی کا نام نہیں ہے بلکہ طلبہ میں ذوق و شوق کو پیدا کرنے ک ا ن ام ہے۔ طلبہ میں علم ک ا ذوق و‬
‫شو ق اگر پیدا کردیا جائے تب اپنی منزلیں وہ خود تالش کرلیتے ہیں۔ایک کامیاب اس تاد اپ نے ط ریقہ ت دریس س ے طلبہ‬
‫میں معلومات کی منتقلی سے زیادہ شوق و ذوق کی بیداری ک و اہمیت دیت ا ہے۔وہ تدریس ی حکمت عملی اور ط ریقہ ک ار‬
‫کامیاب کہالتا ہے جو بچوں میں اکتساب کی دلچسپی کو برق رار رکھے ۔اس اتذہ طلبہ میں اکتس ابی دلچس پی کی برق راری‬
‫کے لئے تدریسی معاون اشیاء(چارٹ‪،‬نقش ے‪،‬خ اکے‪،‬تص اویر‪،‬قص ے ‪،‬کہ انیوں‪،‬دلچس پ مک الموں اور فق روں) ک و اپ نی‬
‫تدریسی حکمت عملی میں شامل رکھیں۔‬
‫‪12‬‬
‫کورس‪ :‬م طالعہ حدی ث(‪)4622‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر ‪ :‬زاں‪2021 ،‬ء‬

‫(‪)4‬اختیار ک ردہ تعلیمی پروگ رام اور س رگرمیوں کے پہلے س ے ط ئے ش دہ مقاص د ہ ونے چ اہیئے۔ اور ان مقاص د کے‬
‫حصول کے لئے مناسب الئحہ عمل کے تحت اساتذہ کو تعلیمی سرگرمیوں کو منتخب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔مبنی‬
‫بر مقاصد تعلیمی سرگرمیاں تعلیمی اقدار کی سربلندی اور ب امعنی اکتس اب میں بہت مع اون ہ وتی ہیں۔تعلیمی س رگرمیاں‬
‫تعلیمی مقاصد سے مربوط ہونی چاہیئے۔ورنہ تعلیمی مقاصد کا حصول اور بامقصد اکتساب دونوں بھی ن اممکن ہوج اتے‬
‫ہیں۔‬
‫(‪)5‬اساتذہ تدریسی تنوع کے لئے جہاں مختلف سرگرمیوں سے کام لیتے ہیں وہیں تدریس کے دوران انھیں ای ک ب ات ک ا‬
‫خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہو تی ہے اور یہ توجہ تدریس کا سب سے اہم اصول ہے اور وہ ہے بچہ کی انف رادیت‬
‫کا احترام ۔بچے کی انفرادیت اور اس کی شخصیت کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر اساتذہ کو تدریس ی خ دمات انج ام دی نی‬
‫چاہیئے۔دوران تدریس بچے کی انفرادیت اور اس کے اکتسابی تنوع (‪)Learning Diversities‬کا خ اص خیال رکھ نے‬
‫کی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ ہ ر بچے کی ذہ نی ص الحیت ‪ ،‬ذہ انت ‪ ،‬ج ذباتیت‪ ،‬احس اس دلچس پی اور ض روریا ت میں‬
‫نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ان تمام امور کو مد نظر رکھتے ہوئے اساتذہ کو تدریس ی ف رائض انج ام دین ا ض روری ہوت ا ہے۔‬
‫اساتذہ جب طلبہ کی شخصیت اور انفرادیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپ نے ف رائض انج ام دی تے ہیں تب اس تاد اور‬
‫شاگرد میں ایک اٹوٹ وابستگی پیدا ہوج اتی ہے اور کن د ذہن س ے کن د ذہن ط الب علم بھی تعلیم میں دلچس پی لینے لگت ا‬
‫ہے ۔طلبہ کی انفرادیت اور اکتسابی تنوع کا خیال رکھنے سے ایک بہت ہی خ وش گ وار تدریس ی اور اکتس ابی فض ا جنم‬
‫لیتی ہے۔اور اس فضاء میں ہر بچہ خود کو نہایت اہم اور خاص تص ور ک رنے لگت ا ہے۔ تعلیمی و تدریس ی حکمت عملی‬
‫اختیار کرتے وقت اساتذہ طلبہ کے تنوع قاور انفرادیت کا بطور خاص خیال رکھیں ۔‬
‫خ‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫سوال مب ر ‪3‬۔ س ن ابی داؤد کی صوص ی ات لم ب ن د کری ں۔‬
‫امام ابوداود نے اہل مکہ کے نام اپنے مکتوب میں کتاب السنن کے منہج اورطریقہ ٔ تالیف پرمفصل روشنی ڈالی ہے‪ ،‬ذیل‬
‫میں ہم اس کے کچھ فق رات ٓاپ کے منہج وط ریقٔہ ت الیف ک و بیان ک رنے کے ل ئے نق ل ک ررہے ہیں‪:‬‬
‫‪ -۱‬میں نے ہرباب میں صرف ایک یا دو حدیثیں نقل کی ہیں‪ ،‬گو اس باب میں اور بھی صحیح حدیثیں موجود ہیں‪ ،‬اگر ان‬
‫سب کو میں ذکر کرت ا ت و ان کی تع داد ک افی ب ڑھ ج اتی‪ ،‬اس سلس لہ میں م یرے پیش نظ ر ص رف ق رب منفعت رہ اہے۔‬
‫‪ -۲‬اگر کسی روایت کے دویا تین طرق سے ٓانے کی وجہ سے میں نے کسی باب میں اسے مکرر ذکرکیا ہے ت و اس کی‬
‫وجہ صرف سیاق کالم کی زیادتی ہے ‪ ،‬بسااوقات بعض س ندوں میں ک وئی لف ظ زائ د ہوت اہے ج و دوس ری س ند میں نہیں‬
‫ا کیا ہے۔‬ ‫ئے میں نے ایس‬ ‫رنے کے ل‬ ‫و بیان‪ ‬ک‬ ‫ظک‬ ‫د لف‬ ‫ا ‪ ،‬اس زائ‬ ‫ہوت‬
‫‪-۳‬بعض طویل حدیثوں کو میں نے اس لئے مختصر کردیا ہے کہ اگر میں انہیں پوری ذکر کرتاتوبعض س امعین (وق راء)‬
‫کی نگاہ سے اصل مقصد اوجھل رہ جاتا‪ ،‬اور وہ اصل نکتہ نہ سمجھ پاتے‪ ،‬اس وجہ سے‪ ‬میں نے زوائد کو حذف‪ ‬کرکے‬
‫ص رف اس ٹک ڑے ک و ذک ر کیا ہے ‪ ،‬ج و اص ل مقص د س ے مناس بت ومط ابقت رکھت ا ہے۔‬
‫‪ -۴‬کتاب السنن میں میں نے کسی متروک الحدیث شخص سے کوئی روایت نہیں نقل کی ہے‪ ،‬اور اگر صحیح روایت کے‬
‫نہ ہونے کی وجہ سے اگر کس ی ب اب میں ک وئی منک ر روایت ٓائی بھی ہے‪ ،‬ت و اس کی نک ارت واض ح ک ردی گ ئی ہے۔‬
‫‪13‬‬
‫‪ -۵‬میری اس کتاب میں اگر کوئی روایت ایسی ٓائی ہے جس میں شدید ضعف پایا جاتاہے‪ ‬تو اس کا یہ ضعف بھی میں نے‬
‫واض ح کردی ا ہے‪ ،‬اور اگ ر کس ی روایت کی س ند ص حیح نہیں اور میں نے اس پرس کوت اختیار کیا ہے ت و وہ م یرے‬
‫ح ہیں۔‬ ‫ے اص‬ ‫بتہً ان میں بعض بعض س‬ ‫الح ہے‪ ،‬اور نس‬ ‫کص‬ ‫نزدی‬
‫‪ -۶‬اس کتاب میں بعض روایتیں ایسی بھی ہیں جو‪ ‬غیر متصل‪ ،‬مرسل اور م دلس‪ ‬ہیں‪ ،‬بیش تر مح دثین ایس ی روایت وں ک و‬
‫اتے ہیں۔‬ ‫ا حکم لگ‬ ‫ل ہی ک‬ ‫ر متص‬ ‫انتے ہیں اور ان پ‬ ‫بر م‬ ‫تند و معت‬ ‫مس‬

‫‪ -۷‬میں نے کتاب السنن میں صرف‪ ‬احکام کی حدیثوں کو شامل کیا ہے‪ ‬اس میں زہد اور فضائل اعمال وغیرہ س ے متعل ق‬
‫حدیثیں درج نہیں کیں‪ ،‬یہ کتاب کل چارہزار ٓاٹھ سو احادیث پرمشتمل ہے‪ ،‬جو سب کی سب احکام کے سلسلہ کی ہیں۔‬
‫مام بقاعی ابو داود کے مذکورہ باال قول ‪ ( :‬ج و ان کے مکت وب بن ام اہ ل مکہ میں موج ود ہے) ک و ذک ر ک رنے کے بع د‬
‫تی ہیں‪:‬‬ ‫میں بن‬ ‫انچ قس‬ ‫ادیث کی پ‬ ‫نن میں وارد اح‬ ‫ےس‬ ‫ول کی روس‬ ‫تے ہیں‪ :‬ان کے اس ق‬ ‫لکھ‬
‫ا۔‬ ‫راد لیاہوگ‬ ‫ذاتہ م‬ ‫حیح ل‬ ‫وں نے ص‬ ‫ے انہ‬ ‫حیح جس س‬ ‫‪ -۱‬ص‬
‫وگی۔‬ ‫یرہ ہ‬ ‫حیح لغ‬ ‫راد ص‬ ‫ے ان کی م‬ ‫ابہ جس س‬ ‫حیح کے مش‬ ‫‪ -۲‬ص‬
‫وں گے۔‬ ‫راد لیتے ہ‬ ‫ذاتہ م‬ ‫نل‬ ‫ے وہ حس‬ ‫ا ً اس س‬ ‫ریب غالب‬ ‫حت کے ق‬ ‫‪ -۳‬درجہ ص‬
‫و۔‬ ‫عف ہ‬ ‫دید ض‬ ‫‪ -۴‬جس میں ش‬
‫‪ -۵‬ان کے اس قول‪’’ :‬وما سكتت عنه فهو صالح‘‘‪( ‬جن احادیث پر میں نے سکوت اختیار کیا ہے وہ صالح ہیں) سے سنن‬
‫میں وارد احادیث کی ای ک پ انچویں قس م ان اح ادیث کی س مجھی ج اتی ہے ج و بہت زی ادہ کم زور نہ ہ وں‪،‬اس قس م کی‬
‫ے ہیں‬ ‫ار کے قبیل س‬ ‫رف اعتب‬ ‫و وہ ص‬ ‫وں ت‬ ‫روم ہ‬ ‫ے مح‬ ‫ویت س‬ ‫ر تائید و تق‬ ‫تیں اگ‬ ‫روای‬
‫‪ -۶‬لیکن اگر انہیں کسی کی تائید و تقویت مل جائے تو بحیثیت مجموعی وہ ’’حسن لغیرہ‘‘ کے درجہ پر ٓاج اتی ہیں‪ ،‬اور‬
‫استدالل واحتجاج کے الئق بن جاتی ہیں‪ ،‬اس طرح ایک چھٹی قسم بھی وجود میں ٓاجاتی ہے۔‬
‫امام ذہبی کابیان ہے کہ ابوداود کی کتاب میں وارد احادیث کے مختل ف درجے ہیں‪ٓ ،‬اپ نے ابن داس ہ ک ا یہ ق ول نق ل کیا‬
‫کہ’’میں نے ابو داود کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے اپنی سنن میں صحیح اور اس سے قریب کی احادیث ذکر کی‬
‫ہیں‪ ،‬اور اگر ان میں شدید ضعف ہے تو میں نے اس کو بیان کر دیا ہے‘‘‪ ،‬ذہبی کہ تے ہیں‪’’ :‬میں کہت ا ہ وں‪ :‬ام ام رحمہ‬
‫ہللا نے اپنے اجتہاد کے مطابق اسے پورا پورا بیان کیا اور شدید ض عف والی اح ادیث ک و جس ک ا ض عف قاب ل برداش ت‬
‫نہیں تھا بیان کردیا‪ ،‬اور قابل برداشت خفیف ضعف سے اغماض برتا‪ ،‬تو ایسی حالت میں ٓاپ کے کسی حدیث پر س کوت‬
‫سے یہ الزم نہیں ٓاتا کہ یہ حدیث ٓاپ کے یہاںحسن کے درجے کی ہو‪،‬بالخصوص جب ہم حسن کی تعریف پ ر اپ نی جدی د‬
‫اصطالح کا حکم لگائیں جو سلف کے عرف میںصحیح کی اقس ام میں س ے ای ک قس م کی ط رف لوٹ تی ہے‪ ،‬اور جمہ ور‬
‫علماء کے یہاں جس پر عمل واجب ہوتا ہے‪ ،‬یا جس سے امام بخاری بے رغبتی برتتے ہیں اور امام مسلم اسے لے لیتے‬
‫ہیں‪ ،‬وبالعکس‪ ،‬تو یہ مراتب صحت کے ادنی مرتبہ میں ہے‪ ،‬اور اگر اس سے بھی نیچے گر جائے تو احتجاج واس تدالل‬
‫کی حد سے خارج ہوجاتی‪ ،‬اور حسن اور ضعیف کے درمیان متجاذب قسم بن جاتی ہے‪ ،‬تو ابو داود کی کتاب السنن میں ‪:‬‬
‫‪ -۱‬سب سے اونچا درجہ ان روایات کا ہے جن کی تخریج بخاری ومسلم دونوں نے کی ہے‪ ،‬اور جو تقریب ا ً نص ف کت اب‬
‫‪14‬‬
‫کورس‪ :‬م طالعہ حدی ث(‪)4622‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر ‪ :‬زاں‪2021 ،‬ء‬
‫تمل ہے۔‬ ‫ر مش‬ ‫پ‬
‫‪ -۲‬اس کے بعد وہ حدیثیں ہیں جن کی تخریج بخاری ومسلم (شیخین) میں سے کسی ای ک نے کی‪ ،‬اور دوس رے نے نہیں‬
‫کی ہے۔‬
‫‪ -۳‬پھر اس کے بعد وہ روایات ہیں جن کو بخاری ومسلم (شیخین) نے روایت نہیں کیا‪ ،‬اور وہ جید االس ناد ہیں اور علت‬
‫وظ ہیں۔‬ ‫ے محف‬ ‫ذوذ س‬ ‫وش‬
‫‪ -۴‬پھر وہ روایات ہیں جس کی اسناد صالح ہے‪ ،‬اور علماء نے ان کو دو ی ا اس س ے زی ادہ ض عیف ط رق س ے ٓانے کی‬
‫وجہ س ے قب ول ک ر لیا ہے کہ ان میں س ے ہ ر س ند دوس رے کے ل ئے تق ویت ک ا ب اعث ہے۔‬
‫‪ -۵‬پھراس کے بعد وہ احادیث ہیں جن کی سندوں کا ضعف رواۃ کے حفظ میں کمی کی وجہ سے ہے‪ ،‬ایس ی اح ادیث ک و‬
‫اتے ہیں۔‬ ‫کوت اختیار فرم‬ ‫رس‬ ‫ثر اس پ‬ ‫ر لیتے ہیں اور اک‬ ‫ول ک‬ ‫و داود قب‬ ‫اب‬
‫‪ -۶‬ان کے بعد سب سے ٓاخری درجہ ان احادیث کا ہے جن کے رواۃ کا ضعف واضح ہوتاہے‪ ،‬ایسی روایت وں پ ر وہ ع ام‬
‫تے ہیں۔‬ ‫ر کردی‬ ‫عف ذک‬ ‫اض‬ ‫تے ہیں‪ ،‬ان ک‬ ‫اموش نہیں رہ‬ ‫ےخ‬ ‫ور س‬ ‫ط‬
‫‪ -۷‬اور اگ رکبھی خ اموش رہ تے بھی ہیں ت و اس کی وجہ اس کے ض عف کی ش ہرت و نک ارت ہ وتی ہے‪ ،‬وہللا اعلم‘‘‬

‫ق‬ ‫(السیر ‪۱۳‬؍ ‪)۲۱۵ -۲۱۴‬۔‬


‫ش‬ ‫ق‬ ‫غ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫غ‬ ‫ن‬
‫ات رآن ی ہ کی رح لم ب ن د کری ں ۔‬ ‫ی ِ‬‫آ‬ ‫اور‬ ‫ث‬ ‫ی‬ ‫احاد‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫سے‬ ‫مذمت‬ ‫اور‬ ‫ات‬ ‫ا‬ ‫ص‬ ‫کے‬ ‫صہ‬ ‫سوال ن ن‬
‫۔‬ ‫‪4‬‬ ‫ر‬ ‫ب‬ ‫م‬
‫ت‬ ‫ظ‬ ‫ت‬
‫ے کہ ج ہاں‬ ‫ہ‬ ‫ے ‪-‬ی ہ ج ذب خات ہ ی ہ ی ں ج ن کا ات ہار ہ مارے رویوں سے ہ و ا‬ ‫ہ‬ ‫عالی ےش ا سان کو احساسات اور ج ذب ات دے کر پ ی دا ک ی تا‬ ‫نہللا‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫ن غ‬ ‫ن ق‬
‫پ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫خ‬ ‫ٰپن خ‬
‫ے‪-‬‬ ‫کے ا در صہٹ ھی پ ی دا ہ و ج ا ا ہ‬ ‫لے و اس ن‬ ‫ئو تعات سے م ت لف امور دی کھ‬ ‫ے‪ ،‬وہ ی ں اگر اپ س دی دہ اور ا ی‬ ‫ا سانغ ا ی و ی پنرف وش ہ و ا ہ‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ث‬
‫ی ون کہ صہ ا ک م ی ذ ہ ے جس ر رو ت اب و ن ہ ا ا اے و ہ م اک ر دوسروں کے سا ھ سا ھ اپ ن ا ب ھی صان کر ی‬ ‫ق‬ ‫ق‬
‫ے اسالم‬ ‫ں تاس یل‬ ‫ی‬ ‫ےہ‬ ‫ھ‬ ‫تپی ج‬ ‫کن غ ضی ن ج ب ہ غ پ ب‬
‫ن‬ ‫ش نش ش‬ ‫ت‬ ‫ن تق‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ض‬
‫ے‪ ،‬ا کہ معا رہ ا ار کا کار ہ‬ ‫ے کی ل ی ن کی ہ‬ ‫ے کی ج اے صب رو سکون سے رہ‬ ‫وش ب کے و ت ا ام لی‬ ‫ج‬
‫ے صہ ب ط کرے اور ِ‬
‫ن‪-‬‬ ‫ہ و ب لکہ امن کا گہوارہ ب ن سک‬
‫ے‬
‫ن فض‬ ‫ق رآن جم د م ں غ صہ ن‬
‫‪:‬‬ ‫ان‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫کا‬ ‫لت‬ ‫ی‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫د‬ ‫کر‬ ‫عاف‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫ت‬ ‫ئ‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫ج‬
‫ی‬
‫َ‬
‫اْل ث م‬
‫َ‬ ‫ئ‬ ‫َ ی َ یج ْ َ‬
‫ے ح ی ا ی کے کاموں سے پرہ ی ز کرے‬ ‫’’اور و لوگ ب رہ گ ا وں اور‬ ‫ت‬
‫’’الَّ ِذی ْن َغْ َن ِب ُون کَ ب ٰٓـ ِر ا ِ ْم و‪ ‬‬ ‫‪ -1‬و‬
‫ت‬ ‫نی غ ت ب ت‬ ‫ض ْ ْ غف ُ ْ َ ِ‬ ‫فَ َ َ َ‬
‫ے ہ ی ں‘‘‪-‬‬ ‫ے و معاف کر دی‬ ‫ہ ی ں اور ج ب ا ہی ں صّہ ٓا ا ہ‬ ‫الْ َواحِش و ِاذا مَا َ ِب ُوا ہ ُم ی َ ْ ِرون‘‘[‬

‫ف‬ ‫ت ن‬ ‫ل‬ ‫ت‬


‫ً‬ ‫ت‬ ‫غ‪ ]1‬ٹ ن ن‬
‫عالی ے اہ ِل ای مان کی ص ات می ں سے اہ م‬ ‫ت کن اس آی ِت م ب ارکہ می ں ہللا ٰ‬
‫ے ہیں ی‬ ‫فصہ ھ ڈا ہ وے کے ب عد و عموماغلوگ معاف کر دی‬
‫ت‬
‫ے‪ -‬بل ن د ہ مت اور بل ن د حوصلہ لوگ‬ ‫اور ج رأت کا کام ہ و ا ہ‬ ‫مت‬ ‫حالت ض ب می ں ظمعاف کرے ہ ی ں ج و ب ہت ہ‬ ‫ے وہ ت ِ‬ ‫ص ت ی ہ ب ی ان کی ہ‬
‫ت‬ ‫ب ش فق‬ ‫ن‬ ‫ج ن‬
‫قن‬ ‫‪-‬‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ف‬ ‫کر‬ ‫ت‬ ‫ھی‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫والوں‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫لم‬ ‫ر‬ ‫پ‬‫او‬ ‫ے‬ ‫پ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫ہ ی اس ش ان کے مالک ہ‬
‫ق‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫ے ہ ی ں‪:‬‬ ‫سب ذی ل ا وال ل کی‬ ‫ح‬ ‫ے‬ ‫ھ)‬ ‫‪668‬‬ ‫ی‪:‬‬ ‫و‬ ‫م‬ ‫(‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫ط‬ ‫ر‬ ‫مالک‬ ‫احمد‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫دمحم‬ ‫دہللا‬ ‫ب‬ ‫ع‬ ‫و‬ ‫اس آی ِت م ب ارکہ کے ش ِان زول می ں عالمہ اب‬
‫ن ن‬ ‫ِ ئ‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫تع ن‬
‫ے ج ب ا ہی ں مکہ می ں گال ی اں دی گ ی ں اور ا ہوں ے اس پر صب ر‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ازل‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ہ)‬ ‫‪        .1‬ہ آی ت ض رت عمر(رض ی ہللا عن‬
‫ہ‬ ‫ح‬ ‫ی‬
‫ک ی ا‪-‬‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫ض‬
‫راہ خ ُدا می ں رچ کر دی ا و لوگوں ے اس پر ا ہی ں مالمت کی اور ب ُرا کہا و‬ ‫ن‬
‫نح رت اب وب کر صدیق (ر ی ہللا ع ہ) ے ج ب اپ ا سارا مال ِ‬
‫ن‬ ‫‪       .2‬‬
‫ن‬
‫ا ہوں ےاس پر صب رک ی ا‪-‬‬
‫ن ن‬ ‫ج‬ ‫ض‬ ‫ت‬ ‫ض‬ ‫ض‬
‫‪       .3‬ح رت علی (ر ی ہللا عن ہ) ب ی ان کرے ہ ی ں کہ ای ک مرت ب ہ صدی ِق اکب ر (ر ی ہللا عن ہ) کے پ اس مال مع ہ و گ یئا‪ ،‬ا ہوں ے وہ‬
‫ن‬ ‫خ ن‬ ‫ف ن‬ ‫ن ن‬ ‫خ‬ ‫ت‬ ‫نی‬
‫ے می ں رچ کر دی ا مسلما وں ے ان کو مالمت کی اور ک ار ے ان کی طا کالی جس پر ی ہ آی ت ازل ہ و ی‪:‬‬ ‫سب مال کی کے راس‬
‫‪15‬‬
‫ت‬ ‫خ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫تن‬ ‫ف خ‬ ‫َ ن فق ْ َ ف‬
‫رچ کرے‬ ‫’’ی ہ وہ لوگ ہ ی ں ج و را‬ ‫َ‬ ‫ّ‬ ‫ی‬
‫ن ی اور گی (دو وں حال وں) می ں غ‬ ‫غ ض‬
‫آئ‪ ‬‬ ‫ْن ُظ ْ ِ ُوَن غ َِی َ السَّرف َ ِ‬ ‫َ‬
‫‪’’-2‬الَّ ِذی‬
‫ہ ی ں اور صہن ب ط کرے والے ہ ی ں اور لوگوںنسے (ان کی ل یط وں‬ ‫آئ والْکَا ِمِی ْن الْ َی ْظ والْعَا ِی ْن‬ ‫َوا ض َّرَّ‬
‫ُّ لمحسن َ‬ ‫ل ن طَ ُ‬ ‫ِ‬
‫پر) درگزر کرے والے ہ ی ں؛ اور ہللا احسان کرے والوں سے حمب ت‬ ‫ع َِن ال َّاسِ ‪ ‬وہللا ‪ ‬ی ُحِب ا ْ ْ ُ ِ ِی ْن‘‘[‪]2‬‬
‫ف ت‬
‫ئ‬ ‫ے‘‘‪-‬‬ ‫رما ائ ہ‬ ‫ئ‬ ‫ئ‬
‫ج‬ ‫را ی کے عوض ب ھال ی کرن ا ج ود وکرم ے اور ب ھال ی کے عوض را ی کر ا اث‬
‫خ‬ ‫ن‬
‫ہللا کے‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ذکر‬ ‫کا‬ ‫کرم‬ ‫و‬ ‫ود‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫آ‬ ‫اس‬ ‫ے‪-‬‬ ‫ت‬ ‫ب ت ب‬ ‫ب‬
‫غض‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ہف‬ ‫غ‬ ‫نہ‬ ‫ق‬ ‫مسن‬
‫سان ج وت کسی پر ب‬ ‫ے کو ی ج اے ہ ی ں اور و و درگزر سے کام ل‬ ‫ع‬ ‫حمب وب و ی تن کا ی ہ‬ ‫ح‬
‫نغ‬ ‫ں‪ -‬ا ئ‬ ‫ی ی غ‬
‫ےہ‬ ‫ے کہ وہ تص پ ن‬ ‫وصف رآن ے ب ی ان ک ی ا ہ‬ ‫ش‬ ‫ن اک ہ وت ا ے و دراص‬
‫ے صہ کو‬ ‫ے کہ ج ب اسے کسی ب ات پر صہ آے و وہ پا‬ ‫ے‪،‬ا سان کو چ اہ ی‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫سے‬ ‫ہ‬ ‫ج‬ ‫و‬ ‫کی‬ ‫سے‬ ‫و‬ ‫وس‬ ‫کے‬ ‫طان‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫غ ی‬‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ض‬
‫ے اس کو معاف کر دے‪-‬‬ ‫س پر ف صہ آی ا ہ‬ ‫ب ط کرے اور ج‬
‫ض‬ ‫غ ض ن‬
‫’’ صہ ب ط کرے کی ی لت می ں احادی ث‘‘‪:‬‬
‫ت‬
‫ے دو آدمی ای ک دوسرے سے لڑے‪-‬‬
‫ن‬
‫ا‬‫س‬ ‫کے‬ ‫)‬ ‫(ﷺ‬ ‫م‬ ‫کری‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫ن‬
‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ان‬ ‫ب‬ ‫ہ)‬ ‫‪ ’’       .1‬ض رت س ی مان ب ن صدور (رض ی ہللا عن‬
‫ن‬ ‫نم‬ ‫ئ‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫غ لض ن‬ ‫ح‬
‫گ‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫ئ ں‪ -‬ب ی کری م (ﷺ)ے اس کی ش‬
‫طرف دی کھ‬ ‫گردن کی رگی فں پ ھول ی‬ ‫اس کی غ‬ ‫اک وا اس کا چہرہ سرخ و گ ی ا اور ت‬ ‫ان می ں سے ای ک ب‬
‫ف‬
‫ض‬ ‫ع‬
‫ل‬
‫ے‪’’  ،‬اعوذ ب اللّٰہ من ا یطٰن‬ ‫دےت و اس کا ش خب رو ہ و ج اے گا ‪-‬وہ ج ملہ ی ہ تہ‬ ‫ے کہ اگر وہ ی ہ ج ملہ کَہ‬ ‫ہ‬ ‫ے کا لم‬ ‫ن مل‬ ‫ےج‬‫ے ای ک ایس‬ ‫کر رمای ا‪ ،‬جم ھ‬
‫نت‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫نرسول اکرم‬ ‫ے ہ و کہ اب ھی‬ ‫ص کے پ اس گ ی ا اور اس سے کہا م ج ا‬ ‫ن‬ ‫اس‬ ‫وہ‬ ‫ھی‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫حد‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫(ﷺ)کی‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫کری‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫الرج ی م‘‘‪ -‬اینک جس ے‬
‫ے اگر اس ے وہ ج ملہ کَہ‬ ‫لم‬ ‫ے کا ع‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫ےج‬
‫س‬ ‫ا‬ ‫ے‬
‫ھ‬ ‫م‬ ‫(ﷺ) ے ک ا ف رما ا ت ھا؟ اس ے کہا ہ ں! اس ے کہا آپ (ﷺ)ے رما ا ت ھا کہ ج‬
‫ف‬
‫ت‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫یش خ ن ی ت‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫غ یخ ت ی ئ‬ ‫ت‬
‫ے و‘‘؟[‪]3‬‬ ‫ہ‬ ‫م‬‫ج‬ ‫ن‬ ‫ج‬
‫م‬
‫ے‪’’ ‬اعوذ ب اللّٰہ من ا طٰن الر ی م ئ‘‘‪ ،‬اس ص ے کہا! ک ی ا م ھ‬ ‫ج‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫دی ا و اس کا صہ م ہ و ج اےگا ‪-‬وہ ج ملہ ی ہ‬
‫ے دیوا ہ ھ‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫ن نپ‬ ‫ت‬ ‫غ‬ ‫ف ت‬
‫‪’’       .2‬س دن ا اب و مسعود ان صاری (رض ی ہللا عن‬
‫ے سے آواز س ی ‪-‬اے اب ومسعود‬ ‫ے یچ ھ‬ ‫ےا‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫کہ‬ ‫ھا‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫کر‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ٹ‬ ‫پ‬ ‫کی‬ ‫الم‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫رما‬ ‫ہ)‬ ‫نی‬
‫ت‬ ‫پ ن پ‬ ‫ت ق‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ق‬ ‫جن‬ ‫ت‬
‫ع‬ ‫م‬
‫ت‬
‫ی‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ہ‬
‫رسول‬ ‫ک‬
‫ے مُڑ کر دت ھا و وہ ت‬ ‫ن چھ‬
‫ف‬
‫ے ‪-‬می ں ے‬ ‫عالی اس سے زی ادہ م پر درت ر ھت ا ہ‬ ‫ے ہ و ہللا ٰ‬ ‫اس پر ت ی درت ر ھ‬ ‫ے کہ م ن‬ ‫ہی ں لم ہ و ا چ ات ی‬
‫ے‪ ،‬آپ (ﷺ) ے رمای ا‪،‬اگر م ی ہ ن ہ کرے‬ ‫ض‬
‫ے آزاد ہ‬ ‫ےعرض تکی ی ا رسول ہللا (ﷺ)تی ہ ہللا کی ر ا کے یل‬ ‫ی ت ف‬
‫ے‪ -‬م ں‬ ‫اکرم (ﷺ) ھ‬ ‫تت‬
‫دوزخ کی گآ چ ھو ی‘‘‪-]4[ ‬‬ ‫م‬ ‫م‬
‫ش‬ ‫ث‬ ‫غض ش‬ ‫ن ف‬ ‫دوزخ کی گآ ج ال یضی ا رمای ا کہن ہی ں ت‬ ‫ض‬
‫و ہی ں‬
‫(ﷺ) ے رمای ا‪ ،‬ب ی طان کے ا ر سے اور ی طان گآ‬ ‫خ‬ ‫ش‬ ‫ئ‬ ‫ان کر ی ہ ی ں کہ ترسول اکرم‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ہما) ب‬
‫ئ‬ ‫ع‬ ‫‪’’       .3‬ح رت عطی ہ (ر ن ی ہللا‬
‫ت ض‬ ‫غض ن‬ ‫ت‬ ‫ب‬
‫‘‘‪ -‬خ[‪]5‬‬‫ش‬ ‫کرے‬ ‫و‬ ‫و‬ ‫وہ‬ ‫و‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫اک‬ ‫ب‬ ‫ص‬ ‫ی‬ ‫کو‬ ‫سے‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫ج‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ے اور گآ پ ا ی سے ج ھا ی ج ا ی‬ ‫سے پ ی دا ک ی ا گ ی ا ہ‬
‫ئ‬ ‫غ‬ ‫ت‬ ‫ن ف‬ ‫ت‬ ‫ض‬ ‫ض‬
‫‪’’       .4‬ح رت اب وذر (ر ی ہللاخ عن ہ)ب ی ان کرے ہ ی ں کہ رسول کری م (ﷺ)ے رمای ا‪،‬ج ب م می ں سے کسی ص کو صہ آج اے‬
‫ئ‬ ‫ئ تٹ‬ ‫ت‬ ‫غ‬ ‫ت ٹ ئ‬
‫ے و ھ ی ک‪ ،‬ورن ہ وہ لی ٹ ج اے‘‘‪]6[-‬‬ ‫ف‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫صہ‬ ‫کا‬ ‫اس‬ ‫ھر‬ ‫پ‬ ‫ے‬ ‫کھڑا ہ و و ب ی ھ ج ا‬
‫ت‬ ‫ض‬ ‫ض‬ ‫ت‬ ‫ؒ ت‬ ‫ف‬
‫‪’’      .5‬امام اب و ج ع ر دمحم ب ن ج ریر طبش خری (م و ی‪ )310 :‬ہ ج ری روای ت کرے ہ ی ں کہ ح رت اب و ہ ریرہ (ر ی ہللا عن ہ) ب ی ان کرے ہ ی ں کہ‬
‫ت‬ ‫ق ت‬ ‫ظ‬ ‫ن‬ ‫ن غ ض‬ ‫ن ف‬ ‫ن‬
‫ب ی اکرم (ﷺ)ے رمای ا جس ص ے صہ ب ط کر ل ی ا حاال کہ وہ اس کے ا ہار پر ادر ھا ‪،‬ہللا ع ٰالی اس کو امن اور ای مان سے ب ھر‬
‫دے گا‘‘‪]7[-‬‬
‫ن‬ ‫نف‬ ‫ض غ‬
‫ض‬ ‫‪:‬‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ر‬ ‫ظ‬ ‫کی‬ ‫ات‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫ن ِ‬‫ی‬ ‫ر‬ ‫ہ‬ ‫ما‬ ‫صہ‬ ‫ب ِط‬
‫ت‬ ‫ع‬ ‫ت‬ ‫ض غ‬
‫ے‬ ‫ات می ں اسٹ لم کو بنطو ِر م مون پڑھای ا ج ا اہ‬ ‫جنم ن ت‬
‫مارے ی ہاں چک ھ ا ع‬ ‫ے ہ ی ں‪-‬ہ ض‬ ‫‪)Anger Management‬کہ‬ ‫ٹ‬ ‫ب ِط صہن کو ا گریزی می ں(‬
‫ن ٹ یش‬
‫ن‬
‫ے‪-‬ج ب کہ دی گر یورپی‬ ‫پہ‬ ‫ر‬ ‫ے‬ ‫ما‬ ‫پ‬
‫ف ی‬ ‫ے‬ ‫ھو‬ ‫چ‬ ‫ام‬ ‫ظ‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫ے‬ ‫ڑھا‬ ‫ضپ‬ ‫کو‬ ‫مون‬ ‫م‬ ‫اس‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ان‬ ‫ت‬ ‫س‬
‫ف‬ ‫ا‬
‫پک‬ ‫کن‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ں‪،‬‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ٹ‬ ‫ٹ‬ ‫م‬ ‫ار‬ ‫پ‬ ‫ی‬ ‫ڈ‬ ‫کے‬ ‫ن‬ ‫خ اص کر بز س ای ڈم س ر‬
‫ٹ‬ ‫ض‬
‫تم ِل اور پی ‪ -‬یا چ‪ -‬ڈی ڈگری اں دی‬ ‫ے ج ہاں اس مو وع پر ای م ‪-‬اے ‪ ،‬ای‬ ‫ہ‬ ‫ے‪ ،‬الگ ی کل ی‬ ‫ہ‬ ‫ممتالک می ں اس مو وع پر الگ ڈی پ ار من ٹ‬
‫ن‬ ‫ض‬ ‫ن‬
‫ے ہ ی ں یک و کہ عمومی طور پر روز مرہ کی‬ ‫ن‬ ‫ں؛ اس کے عالوہ وہ اں کی ب ڑی ب ڑی کم پ ی اں اور ادارے کے لوگ اس مو و ع پر کورسز کروا‬ ‫بج ا ی ہ ی چ ق‬
‫ض غ‬ ‫ٹ ن ت‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫غ‬
‫ےن‪ -‬ب ِط صہ‬
‫ق‬ ‫کے ادارے کو ب ڑا صان ا ھا ن افپڑ ا ہ‬ ‫ے ج فس کی وج ہ قسے انئ‬ ‫حث ی ا پ نلش کے ب اعث ادارے کے لوگوں کو صہ آجغا ا ہ‬
‫نن‬ ‫سے مراد ب ادی طور ر ع‬
‫ے‬ ‫ے کی کی ی ات پر اب و پ ای ا ج اے‪،‬اس حوالے سے ماہ ری ِن س ی ات ے چک ھ طری‬ ‫ے کہ کس طرح ص‬
‫ق‬
‫اس لم کو ج ا اغہ‬ ‫عم پ ن‬ ‫ی‬ ‫ئ‬
‫ے ج و کہ م درج ہ ذی ل ہ ی ں‪:‬‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫ر‬ ‫ے‬‫ص‬ ‫عد‬ ‫کے‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ل‬ ‫ر‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫بت ا‬
‫پ پی ج ک ہ‬ ‫ب‬ ‫پ‬ ‫ی‬

‫‪16‬‬
‫کورس‪ :‬م طالعہ حدی ث(‪)4622‬‬
‫ٹ خ‬
‫ن‬ ‫ٹ ن‬ ‫‪2021‬ء‬ ‫زاں‪،‬‬ ‫سمس ر ‪:‬‬ ‫غ‬
‫ض‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ھ‬ ‫گ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫جم ت‬ ‫‪       .1‬ن ی ن د کا ورا ن ہ ہ ون ا ب‬
‫ے ب لکہ‬ ‫ے ج ب کہ ای سا روری تہی ں ہ‬ ‫ے و یچا ی‬ ‫ن‬ ‫‪8‬‬ ‫الزمی‬ ‫د‬ ‫ی‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬‫ی ھ‬ ‫ہ‬ ‫لوگ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬ ‫چ‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫اعث‬ ‫ب‬ ‫کا‬ ‫ے‬‫ص‬ ‫ھی‬ ‫پ‬
‫ن گھ ٹ‬ ‫ئ ین‬ ‫ن ہت‬ ‫س‬ ‫ن ن ن‬ ‫ن ض‬ ‫ٹ‬
‫ے کام کے لحاظ سےنجس طح پر ال تا چ اے ہ ی ں لے آ ی ں ع ی روزا ہ ن وں کا عی ن کری ں کہ‬ ‫ے‪ -‬ی د کو پا‬ ‫ہ‬ ‫روری‬ ‫ا‬ ‫سو‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫طا‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫رو‬
‫غ‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫تن ن‬
‫ے کری ں گے و مزاج می ں چ ڑچ ڑا پ ن اور صہ پ ی داہ وگا‪-‬‬ ‫ت زی ادہ او نپریچ‬ ‫ے‪ ،‬پ ھر اس کے م طابق ی د پوری کری ں‪ ،‬اگر و‬ ‫ا اسو ا‬
‫ت‬ ‫ب غ‬ ‫خت ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ہغ ن‬
‫ن‬
‫ے‪،‬‬ ‫ے اس سے ھی صہ مر ا ہ‬ ‫ے‪ -‬ا سان ج ب اپ ی ج ان پر ج بر ی ا س ی کر ا ہ‬ ‫‪        .2‬صہ آے کی دوسری ب ڑی وج ہ ورزش تکا ہ کر ا ہ‬
‫ت‬ ‫ن‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫‪-‬‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫دا‬ ‫ی‬ ‫پ‬ ‫کام‬‫ح‬ ‫یک و کہ ورزش سے وج ود می ں طب عی طور پر اس‬
‫‪       .3‬غ صہ کی ا ک و ہ آدمی کا اپ نی سوچ کو م ت ن ہ رک ن ا ب ھی ے‪-‬م ف ی سوچ ان سان کو ش ر کی ان‬
‫ے جس سے اس‬ ‫ج ہ‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫لے‬ ‫ب‬ ‫ج‬ ‫ہ‬ ‫ھ‬ ‫ثب‬ ‫یت ج‬
‫ک ست‬ ‫ب غ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫پہ ت‬ ‫ن غ‬
‫ے‪-‬‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫آ‬ ‫می‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫صہ‬ ‫ھی‬ ‫سے‬ ‫ے‬ ‫ڈا‬ ‫عادت‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫الش‬ ‫لو‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ں‬
‫ہ ہ ی ی ثب‬ ‫م‬ ‫ز‬ ‫چ‬ ‫ر‬ ‫ے‪-‬‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫دا‬ ‫پ‬ ‫صہ‬ ‫کے ا در‬
‫ت‬ ‫ق سجم ن ش‬ ‫ن‬ ‫ت ل ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫غ‬
‫ے کہ ہ مارے ان در احساس بر ری آج ا ا ہ ہ‬ ‫ب‬
‫ےہیں‬ ‫ے سے ح ی ر ھ ا روع تکر دی‬ ‫ے‪ ،‬ت م مخ الف کو اپ‬ ‫ِ‬ ‫‪        .4‬صہ آے کی ای ک وج ہ کب ر ھی ہ‬
‫ن ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن غ‬ ‫ن‬ ‫کن‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ےا در‬ ‫ے‪ ،‬و اپ‬ ‫ے برابر ج ا ت ا ہ‬ ‫ے‪،‬وہ دوسروں کو اپ‬ ‫عت می ں رمی کا ع صر الب آج ا ا ہ‬ ‫ے والے ئکی طب ی‬ ‫ھ‬ ‫ن زی و ا کساری ر‬ ‫ے مزاج می ں عاج‬ ‫ج ب کہ انپ‬
‫ست‬ ‫غ‬
‫نف ت‬ ‫ے‪-‬‬ ‫ہ‬ ‫عج ز وا کسارین پ ی دا کرے سے ب ھی صہ می ں کمی ال ی ج ا ک ی‬
‫ق‬ ‫ت‬ ‫غ‬ ‫شن‬ ‫ع ف‬
‫ساس محرومی اور گز ت ہ ز دگی کے لخ وا عات س ی ا ی دب اؤ پ ی دا‬
‫ش ن‬
‫ا‬ ‫ے‪-‬‬ ‫ھی‬ ‫ے کی ا ک و ہ ذہ نی د اؤ ب‬ ‫ص‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫رو‬ ‫کی‬ ‫ات‬
‫ق‬ ‫ف‬ ‫ب ت ہ ح ِ‬ ‫ج‬ ‫ف ی‬ ‫ی‬ ‫ت‪ِ      ‬لم ی‬
‫س‬ ‫‪  .5‬‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫ے ا راد کو اپ ی ز دگی کے وا عات لکھ ن ا چ اہ ی ی ں اور ی ہ ب ھی‬ ‫ے‪،‬ایس‬ ‫کرے ہ ی ں اس ذ ی دب ضاؤ کی وج ہ سے ا راد کا ب لڈ پری قر زی ادہ ی ا کم ہ و ا رہ ت ا ہ‬
‫ہ‬
‫ق‬ ‫مست‬
‫ے ا دامات کر سکت ا ہ وں ج ن سے ان محرو یم وں کا ازالہ ممکن‬ ‫ے اور می ں ب ل می ں ب ہت سے ایس‬ ‫ے کہ ی ہ سب ما ی کا حصہ ہ‬ ‫ل کھ ن ا چ ا ہ ی‬
‫ے‪-‬‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫ن ُت‬ ‫تق‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے ج ا و عات وابس ہ کر لی ن ا جغ ب کہ وہ ان و تعات پر پورا ہ ا رے‪-‬ا سان‬ ‫سے ب‬ ‫ے ا در ال محدود واہ ات کو پ ی دا کر لی ن ا ی اکسی ا سان‬ ‫‪       .6‬اغپ‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫خ‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ے‪-‬‬ ‫ےمی ں کمی آ ی‬ ‫ے سے ب ھی ص‬ ‫ے کو اب ھار ا ے‪ -‬ح ی ت پ س ن دی کو ا ت ار کرے اور واہ ات کو حدود رک‬ ‫کے ا در ص‬
‫ہ‬
‫ن ن‬ ‫ھ‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫غ‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے ج و اس‬ ‫ے سر ہی ں یل ی چ اہ ی‬ ‫ے‪-‬آدمی کو ای سی ذمہت داری پا‬ ‫نی ہ غ‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫ل‬ ‫لے‬ ‫مے‬ ‫ذ‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ھ‬
‫ی ج پ‬ ‫و‬ ‫ب‬ ‫ادہ‬ ‫ز‬ ‫سے‬ ‫ود‬ ‫ج‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ا‬
‫ج پ‬‫ہ‬ ‫و‬ ‫ڑی‬ ‫ب‬ ‫اور‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫ص‬ ‫‪       .7‬‬
‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ً‬ ‫ق‬
‫قن‬ ‫ے‪-‬‬ ‫ہ‬ ‫ک‬
‫ے می ںخ تمی آ یئ‬ ‫ے سے ب ھی ص‬ ‫ک‬
‫کاموں می ں ائعت دال ر ھ‬ ‫ے‬ ‫پ‬ ‫ئ م ت تس ال لوار کی مان ن د لٹ ک ج اے‪ ،‬ا‬ ‫کے ک ن دھوں پر‬
‫ن غ‬ ‫خ‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫غ‬
‫ج ب صہ آے و اس و ت کون کون سی اہ فم ًدابیر ا ت ی ار کی ج ا ی ں ج ن سے ہ مارے ا در صہ م ہ و ج اے اور ہ م کسی ب ڑے صان سے‬
‫ن‬ ‫ب ئ‬
‫ے‪:‬‬ ‫چ ج ا ی ں؟اس حوالے سے م ن درج ہ ذی ل امور پر ورا عمل کر ا چ اہ ی‬
‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ٹ‬ ‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫غ‬
‫ے ہ وں و لی ٹ ج ا ی ں‪-‬‬ ‫ے کے و ت کھڑے ہ وں و ب ی ٹھ ج ا ی ں‪ ،‬ب ی ھ‬ ‫‪        .1‬ص‬
‫غ ئ تف ً ض‬
‫‪        .2‬صہ آے و ورا و و کر لی ں‪-‬‬
‫ف ً‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ض ن‬ ‫ت‬ ‫غ‬
‫ج‬
‫ے ح ور ب ی کری م(ﷺ) کے ج ویز کردہ لمات‪’’ ‬اعوذب اہللا من ال ی طان الر ی م “ ورا پڑھ لی ں‪-‬‬ ‫ک‬ ‫ے کے لی‬ ‫ے کے خ ا م‬ ‫‪        .3‬ص‬
‫ٹ ت ن‬ ‫ت ن‬ ‫ئ‬
‫ے حساب کے ب ارے می ں سوچ ن ا‪ ،‬ال ی گن ی گ ن ا‪-‬‬ ‫ے ج ذب ا ی ہی ں ہ ی ں‪ ،‬ج ی س‬ ‫ے مسا ل کے ب ارے می ں سوچ ن ا ج و آپ کے لی‬ ‫‪       .4‬ایس‬
‫ن‬ ‫ش غ‬
‫ے اور گہرے سا س لی ں ‪-‬‬ ‫ے می ں ل بم‬ ‫‪        .5‬دی د ص‬
‫ئ‬ ‫ف‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫غ‬
‫ے والی ج گہ چ ھوڑ دی ں ‪،‬اگر کسی ن گ م ام پر موج ود ہ ی ں و ک ادہ ج گہ ی ا کھلی ض ا می ں آج ا ی ں ‪-‬‬ ‫‪        .6‬ص‬
‫ش‬ ‫ظ‬
‫ے آسمان کی طرف دی کھ ن ا‪-‬‬ ‫‪       .7‬دور کے م ن ا ر کی طرف دی کھ ن ا روع کر دی ں ج ی س‬

‫‪17‬‬

You might also like