Professional Documents
Culture Documents
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء ت ن ش ن
ق ت ق فض ئ ش 1 ر ام حا نی م ق ب
م
ع ن ع
کت اب ال لم کی رو ی می ں لم سے م عل ہ ا ل و آداب لم ب ن د کری ں۔ سوال مب ر 1۔
وتعالی نے حضرت آدم علیہ الس الم س ے لے ک ر آخ ری ن بی حض رت محم د ص لى هللا علي ه وس لم ت ک ٰ ہللا تبارک
ہزاروں نبیوں و رسولوں کو اپنی کتاب اور اپنے احکام سے نوازااور انہیں انس انیت کی ہ دایت کے ل یے دنیا میں بھیج ا۔
باوجود اس کے دنیا میں تہذیب وتم دن اور علم وفن کی ت رقی نہیں ہ وئی اور وہ جہ الت ہی میں مبتال رہی۔ان کت ابوں نے
ٰ
دعوی کیا کہ ان میں دنیا کی تمام چیزوں کو جمع کردیاگیا ہے۔ انبیا ِء سابقین پ ر ن ازل کت اب اور نہ ان کے حاملین نے یہ
اور ان کی تعلیمات کو مخصوص خطہ ،محدود افراداور ایک خاص عہد تک کے لیے موثر قرار دیتے ہ وے عالمہ س ید
سلیمان ندوی رحمة هللا عليه لکھتے ہیں:
”تورات کے تمام انبیاء ملک عراق یا ملک شام یا ملک مصر سے آگے نہیں بڑھے،یعنی اپ نے وطن میں جہ اں وہ
رہتے تھے محدود رہے اور اپنی نسل و قوم کے سوا غیروں ک و انہ وں نے آواز نہیں دی۔ زی ادہ ت ر ان کی کوشش وں ک ا
مرکز صرف اسرائیل کا خان دان رہ ا۔ع رب کے ق دیم انبیاء بھی اپ نی اپ نی قوم وں کے ذمہ دار تھے،وہ ب اہر نہیں گ ئے۔
عیسی کے مکتب میں بھی غیر اسرائیلی طالب علم کا وجود نہ تھا،وہ صرف اسرائیل کی کھوئی ہ وئی بھ یڑیوں
ٰ حضرت
کی تالش میں تھے(متی،باب،۷:آیت )۲۴:اور غیروں کو تعلیم دے کر وہ بچوں کی روٹی کت وں کے آگے ڈالن ا پس ند نہیں
کرتے تھے۔ (انجیل) ہندوستان کے داعی پاک آریہ ورت سے باہر جانے کا خیال بھی دل میں نہیں الس کتے تھے،اگ رچہ
یرووں ک ا
ٴ بدھ کے پیرو بادشاہوں نے اس کے پیغام کو باہر کی قوموں تک پہنچایا،مگر یہ عیسائیوں کی طرح بع د کے پ
فعل تھا ،جو داعی مذہب کی سیرت اس عالم گیر جامعت کی مثال سے خالی ہے۔“()۱
اس کے برعکس نبی صلى هللا عليه وسلم پر جو کتاب نازل ہوئی اس کا اعجاز وامتیاز اور دع ٰ
وی ہے کہ یہ کت اب
الی نے
رہتی دنیا تک اور پوری انسانیت کے لیے ہدایت ورحمت ہے۔ اس میں دنیا کے تمام عل وم ک ا ذک ر ہے اور ہللا تع ٰ
اسے دوسروں تک پہنچانے کا حکم دیا ہے ۔ اس کے رسول صلى هللا عليه وسلم نے بھی بہ ذات خود اس کی اشاعت میں
بڑی دل چسپی لی ۔ قرآن کہتا ہے:
َاب تِ ْبیَانا ً لِّ ُک ِّل َش ْْی ٍء َوہُدًی َو َرحْ َمةً َوبُ ْش َری لِ ْل ُم ْسلِ ِم ْینَ ( “.النحل)۸۹: ” َونَ َّز ْلنَا َعلَ ْْی َ
ک ْال ِکت َ
(اے نبی صلى هللا عليه وسلم ! ہم نے آپ پر جو کتاب نازل کی ہے اس میں ہرچیز کو بیان کردی ا ہے اور اس میں
رحمت وہدایت ہے اور مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہے۔)
الی نے انس انیت کی ہ دایت اور اس کے ل یے ش ب وروز گ زارنے کے
ق رآن مق دس میں جگہ جگہ ہللا تب ارک وتع ٰ
اصول بیان کیے ہیں ۔ انسانیت کی خوبیوں کو آش کارا کیا ہے اور خ امیوں کی نش ان دہی کی ہے۔ ج و بھی اس پ ر عم ل
کرے گا اور اس سے استفادہ کرے گا وہ دین و دنیاکی کامیابی سے ہم کنار ہوگااورجو اس کی خالف ورزی کرے گ ا وہ
ناکام ونامراد ہوگا۔
حضور صلى هللا عليه وسلم کو جب نبوت کے منصب عظیم سے نوازا گیا ،اس وقت جزی رة الع رب کی کیا ح الت
تھی؟ قتل وغارت گری ،چوری ،ڈکیتی ،قتل اوالد ،زنا،بت پرستی کون سی ایسی برائی تھی جو ان میں پائی نہ ج اتی ہ و۔
بعضے وقت بڑے فخریہ انداز میں اسے نجام دیاجاتا تھا۔ ہللا کے رسول نے ان کی تعلیم و تربیت اس ان داز س ے کی اور
1
زندگی گزارنے کے ایسے اصول بتائے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی حالت یکسر بدل گئی اور تہذیبی قدروں سے آش نا
ہوگئے۔ جہاں اور جدھر دیکھیے لوگ تعلیم وتعلم سے جڑ گئے اور قرآن وحدیث کی افہام وتفہیم میں مشغول ہوگئے۔ اس
کے لیے باضابطہ ہللا کے رسول نے مسجد نبوی میں ایک مقام کو خاص کردیا ،جسے صفہ کہا جاتا تھا۔اس میں ص حابہ
کرام فروکش ہوتے اور علم وعمل کی دولت س ے م اال م ال ہ وتے۔ اس کے عالوہ بھی م دینہ میں اور مس جدیں تھیں جن
میں صحابہ کرام کی تعلیم و تربیت کا انتظام تھا۔ یہاں سے فیض ان نب وت حاص ل ک رکے یہ حض رات دور دراز مق ام پ ر
پہنچے اور دوسروں کو علوم نبوت سے ماالمال کیا۔ کون کہہ سکتا تھا کہ عرب جیس ی اج ڈ ق وم ات نی جل د علم و تہ ذیب
سے اس طرح آراس تہ وپیراس تہ ہوج ائے گی کہ ل وگ اس کی تقلید ک رنے لگیں گے اور دنیا اس روش نی س ے معم ور
ہوجائے گی۔ یہ کارنامہ تھا ہللا کے رسول کا اور ان کے فیوض و برکات کا جس کی نظیر نہیں ملتی۔جیساکہ دنیا پر عہ د
نبوی کے تعلیمی اثرات کا جائزہ لیتے ہوے ایک دانش ور لکھتے ہیں:
”عرب میں چھٹی صدی عیسوی میں اسالم سے علم وحکمت کا نیا باب ش روع ہ وا،جس نے پن درہویں ص دی ت ک
ایشیاء ،افریقہ اور مغربی یورپ کو دنیا کے نقشہ پر انقالب آف ریں خطہ بنادی ااور علم وحکمت کی فص ل گ ل س ے پ ورا
خطہ چمن زار ہوگیا۔ باآلخر ہر چہار سو خوش حالی ،امن و آشتی اور باد بہاری کی خوش گواری س ے اہ ل ی ورپ بھی
وسطی کہالیا۔ اس عہد کی ابتدا ء میں کہ تے ہیں ق رطبہ اور بغ داد دنیا کی عظیم ت رین دانش گ اہ
ٰ بیدار ہوے۔ یہ عہد عہد
مانی جاتی تھی۔ قدیم علمی ذخیروں کی تالش کی گئی اور یونان ،مصر،روم اور ہند کی نایاب کت ابوں ک ا ت رجمہ ک رکے
ان علمی سرمایوں کو ضائع ہونے سے بچالیا۔ مسلم خلفا ء و سالطین نے اپ نی نوازش وں س ے علم کی خ دمت پ ر م امور
دنیا بھ ر کے دانش وروں اور م اہرین فن کی سرپرس تی کی جنہ وں نے علم و حکمت میں گ راں م ایہ کارن امے انج ام
دیے۔“()۲
اہل علم کی فضیلت
نبی اکرم کو جس دین سے نوازا گیا ،اس کی ابتدا ہی تعلیم ہوئی۔غارحرا میں سب س ے پہلی ج و وحی ن ازل ہ وئی
وہ سورہ علق کی ابتدائی چند آیتیں ہیں ،جن میں نبی امی کو کہا گیا :
نس انَ َم ا لَ ْم ق .ا ْق َرْأ َو َرب َ
ُّک اَأْل ْک َر ُم .الَّ ِذیْ عَلَّ َم بِ ْالقَلَ ِم .عَلَّ َم اِإْل َ نس انَ ِم ْن َعلَ ٍ ِّک الَّ ِذیْ َخلَ قَ .خَ لَ َ
ق اِإْل َ ”ا ْق َرْأ بِ ْ
اس ِم َرب َ
یَ ْعلَم(“.العلق)۵-۱:
(پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے سب کو پیدا کیا۔ پیدا کیا اس نے انس ان ک و خ ون کے ل وتھڑے س ے ۔ پ ڑھ ،
تیرارب بڑا کریم ہے۔ جس نے سکھایا علم قلم کے زیعہ۔ اس چیز کا علم دیا انسان کو جو وہ نہیں جانتا ۔)
علم کے ذریعہ ہی آدمی ایمان ویقین کی دنیا آباد کرتا ہے ،بھٹکے ہوے لوگوں کو س یدھا راس تہ دکھات ا ہے ،ب روں
کو اچھا بناتا ہے ،دشمن کو دوست بناتاہے ،بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن وام ان کی فض اء پیدا کرت ا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ حاملین علم کی قرآن وحدیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اسے دنیوی و اخروی بشارتوں سے
نوازاگیا ہے۔ قرآن کہتا ہے:
”یَرْ فَ ِع ہَّللا ُ الَّ ِذ ْینَ آ َمنُوا ِمن ُک ْم َوالَّ ِذ ْینَ ُأوتُوا ْال ِع ْل َم َد َر َجا ٍ
ت َوہَّللا ُ بِ َما تَ ْع َملُونَ َخبِ ْیرٌ(“.المجادلہ)۱۱:
2
کورس :م طالعہ حدی ث()4622
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
(تم میں سے جو لوگ ایمان الئے اور جن کو علم عطا ہواہے ،ہللا اس کے درجات بلند فرم ائے گ ا اورج و عم ل تم
کرتے ہو اس سے ہللا باخبر ہے۔)
دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے:
”قُلْ ہَلْ یَ ْست َِویْ الَّ ِذ ْینَ یَ ْعلَ ُمونَ َوالَّ ِذ ْینَ اَل یَ ْعلَ ُمونَ ِإنَّ َما یَتَ َذ َّک ُر ُأوْ لُوا اَأْل ْلبَاب( “.الزمر)۹:
(اے نبی،کہہ دیجیے کیاعلم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے (جاہل) براب ر ہوس کتے ہیں۔نص یحت ت و
وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔)
وتعالی فرماتا ہے:
ٰ تاریکی اور روشنی کی مثال دے کر عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیاہے۔ ہللا تبارک
ص ْی ُر َأ ْم ہَلْ تَ ْست َِویْ ُّ
الظلُ َم ُ
ات َوالنُّور(“.الرعد)۱۶: ”قُلْ ہَلْ یَ ْست َِویْ اَأل ْع َمی َو ْالبَ ِ
(کہہ دیجیے،کیا برابر ہوس کتے ہیں ان دھا(جاہ ل) اور دیکھ نے واال(ع الم) ی ا کہیں براب ر ہوس کتا ہے ان دھیرا اور
اجاال۔)
اس طرح کی بہت ساری آیتیں ہیں جن میں عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیا ہے اور ان کے درج ات کے
تعین کے ساتھ مسلمانوں کو حصول علم کے لیے ابھارا گیا ہے۔
اس سلسلے میں کثرت سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جن میں اہل علم کی ستائش کی گئی ہے اور انہیں انس انیت
کا سب سے اچھا آدمی قرار دیا گیا ہے۔ ہللا کے رسول فرماتے ہیں:
ض لِی َعلَی اَ ْدنَ ا ُک ْم ،ثُ َّم قَ ا َل َر ُس و ُل ہّٰللا ِ ص لى هللا علي ه وس لم :اِ َّن ہّٰللا َ َو َماَل ِئ َکتَہُ َوا ْھ َلض ُل ْال َع الِ ِم َعلَی ْالعابِ ِد َ ،کفَ ْ” َوفَ ْ
اس ْالخَ ی َْر)۳(“. ض ْینَ َحتَّی النَّ ْملَةَ فِی جُحْ ِرھَا َو َحتَّی ْالحُوْ تَ لَیُ َ
صلُّوْ نَ عَلی ُم َعلِّ ِم النَّ ِ ت َو ااْل َرْ ِ
السَّمٰ َوا ِ
(اورعاب د پ ر ع الم کی فض یلت ایس ی ہے جیس ے م یری فض یلت تم میں س ے ادنی پ ر۔ یقین ا ہللا عزوج ل ،اس کے
حتی کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی ت ک لوگ وں کے معلم کے ل یے بھالئی کی
فرشتے اور آسمان وزمین والے ٰ
دعاء کرتی ہیں۔)
ایک دوسرے حدیث کے راوی حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہ ہیں ،وہ بیان کرتے ہیں:
عض ُح َج ِر ِہ ،فَ َدخَ َل ْال َم ْس ِجدَ ،فَ اِ َذا ھُ َو بِ َح ْلقَتَ ْی ِن :اِحْ داھُ َما یَق َر ٴُون ہّٰللا
”خ ََر َج َرسُوْ ُل ِ صلى هللا عليه وس لم َذاتَ یَ وْ ٍم ِمن بَ ِ
یُ :ک ٌّل عَلی َخ ْی ٍرٰ ،ھ ٴُواَل ِء یَقُ َر ٴُونَ ْالقُ رْ آنَ َویَ ْد ُعوْ نَ ہّٰللا ،فَ اِ ْن َش ا َء ہّٰللا
الُقُرْ آنَ َویَ ْد ُعوْ نَ َ ،وااْل ُ ْخ َری یَتَ َعلَّ ُم ونَ َویُ َعلِّ ُم ونَ .فَقَ َ
ال النَّبِ ُ
اَ ْعطَاھُ ْم َواِ ْن َشا َء َمنَ َعھُ ْمَ ،و ٰھ ٴواَل ِء یَتَ َعلَّ ُموْ نَ َویُ َعلِّ ُموْ نَ َ ،واِنَّ ّما بُ ِع ْث ُ
ت ُم َعلِّماً ،فَ َجلَ َ
س َم َعھُ ْم)۴(“.
(ایک دن رسول ہللا اپنے حجرے سے باہر تشریف الئے اور مس جد (نب وی) میں داخ ل ہ وے،وہ اں دوحلقے بیٹھے
ہوے تھے،ایک حلقہ قرآن کی تالوت کررہا تھا اورہللا سے دعاء کررہا تھا،دوسرا تعلیم وتعلم کا کام سرانجام دے رہا تھا۔
آپ نے فرمایا :دونوں بھالئی پر ہیں۔ یہ حلقہ قرآن پڑھ رہا ہے اور ہللا سے دع اء کررہ اہے ۔ ہللا چ اہے ت و اس کی دع اء
قبول فرمائے ،یا نہ فرمائے۔دوسرا حلقہ تعلیم وتعلم میں مشغول ہے (یہ زیادہ بہتر ہے) اور میں تو معلم بناکر بھیج ا گیا
ہوں۔ پھر یہیں بیٹھ گئے۔)
3
اہل علم کاصرف یہی مقام ومرتبہ نہیں ہے کہ اسے دنیا کی تمام چیزوں پر فضیلت دی گئی ہے اور اس کام میں وہ
تعالی کی تمام مخلوق اس کے لیے دعاء کرتی رہتی ہے،بلکہ اس کا مقام وم رتبہ یہ بھی ہے
ٰ جب تک مصروف ہیں ،ہللا
کہ ہللا کے رسول نے انہیں انبیاء کا وارث اور جانشین قرار دیا ہے :
ب ْال ِع ْل ِمَ ،واِ َّن ” م ْن سلَک طَریْقا ً ی ْبتَغی ف ْیہ ع ْلما ً سلَ ہّٰللا
ک ُ بِہ طَ ِریْقا ً اَلَی ْال َجنَّ ِةَ ،واِ َّن ْال َمالِئ َکةَ لَت َ
َض ُع اَجنِحْ تَھَا َرضًی لَطَ الِ ِ َ َ َ َ َ ِ َ ِ ِ ِ ِ
ض َحتَّی ْال ِحیتَانُ فَی ْال َما ِءَ ،وفَضْ ُل ْال َعالِم َعلَی ْال َعابِ ِدَ ،کفَضْ ِل ْالقَ َم ِر َعلَی َس اِئ ِر ت َو َم ْن فِی ااْل َرْ ِْال َعالِ َم لَیَ ْستَ ْغفِ ُر لَہُ َم ْن فِی ال َّس َموا ِ
ان ْالع ُْل َم ا َء َو َرثَ ةُ ااْل َ ْنبِیَ ا ِء ،اِ َّن ااْل َ ْنبِیَ ا َء لَ ْم یُ َورِّ ثُ وْ ا ِد ْینَ ارًا َواَل ِدرْ ھَم اً ،اِنَّ َم ا َو َّرثُ وا ْال ِع ْل َم ،فَ َم ْن اَخَ َذ بِہ فَقَ ْد اَخَ َذ بِ َح ظّ ْال َک َوا ِک ِ
بَّ ،
َوافَ ٍر)۵(“.
(جو کوئی حصول علم کی غرض سے راستہ طے کرے تو خدا اس کے س بب اس ے جنت کی ای ک راہ چالت ا ہے۔
فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں اور یقین ا ع الم کے ل یے آس مان اور زمین کی تم ام چ یزیں
مغفرت طلب کرتی ہیں،یہاں تک کہ وہ مچھلیاں بھی جو پانی میں ہیں ۔ عابد پر عالم کو ایسی فض یلت حاص ل ہے جیس ی
چاند کو تم ام ت اروں پ ر۔بالش بہ علم اء ہی پیغم بروں کے وارث ہیں۔پیغم بروں نے ت رکہ میں نہ دین ار چھ وڑا ہے اور نہ
درہم ۔ انہوں نے تو صرف علم کو اپنے ترکہ میں چھوڑا۔ پس جس کسی نے علم حاصل کیا اس نے ہی حصہ کامل پایا۔)
علم کا دائرہ بہت وسیع ہے
قرآن میں جہاں بھی علم کا تذکرہ کیا گیا ہے ،بیش تر مقامات پر مطلق علم کاذکر ہوا ہے۔ اس سے معل وم ہوت ا ہے
کہ علم اپنی ذات کے اعتبار سے ال محدود ہے اور اسالم نے اس کی المحدودیت کو برقرار رکھتے ہوے حکم دیا ہے کہ
علم حاصل کرو۔حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا بیان کرتے ہیں:
ہّٰللا
ضةٌ عَا ِدلَةٌ(“. ”قَا َل َرسُوْ ُل ِ صلى هللا عليه وسلم اَ ْل ِع ْل ُم ثَالثَةٌ :فَ َما َو َرا َء ٰذلِ َ
ک فَھُ َو فَضْ لٌ ،آیَةٌ ُمحْ َک َمةٌ ،اَوْ ُسنَّةٌ قَاِئ َمةٌ اَوْ فَ ِر ْی َ
)۶
فریضہ ع ادلہ،اس کے س وا
ٴ (ہللا کے رسول صلى هللا عليه وسلم نے فرمایا :علم تین ہیں:آیت محکمہ،سنت قائمہ اور
جو کچھ بھی ہے وہ زائد ہے۔)
ایک دوسری حدیث میں جو تفصیل آئی ہے ،اس سے بھی یہی واضح ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا:
ض ْع ِع ْل ِم ْی فِ ْی ُک ْم اِل َع ِّذبَ ُک ْمْ ،اذھَبُ وْ ا فَقَ ْد ث ہّٰللا ُ ْال ِعبَا َد یَوْ َم ْالقِیَا َم ِة ،ثُ َّم یُ َمیِّ ُز ْال ُعلَ َم ا َء فَیَقُ وْ لُ :یَ ا َمع َ
ْش َر ْال ُعلَ َم ا ِء اِنِّی لَ ْم اَ َ ”یَ ْب َع ُ
ت لَ ُک ْم)۷(“.
َغفَرْ ُ
تعالی لوگوں کو زندہ کرے گا اور اس میں علماء کو ممتاز کرے گا اور فرم ائے گ ا اے پ ڑھے
ٰ (قیامت کے دن ہللا
،جاو تم سب کی مغفرت کردی۔)
لکھے لوگو!میں نے اپنا علم تمہارے اندر اس لیے نہیں رکھا کہ میں تمہیں عذاب دوں ٴ
عالم کہتے ہی ہیں پڑھے لکھے لوگوں کو ،چاہے اس نے قرآن کی تعلیم حاصل کی ہو یا حدیث کی ،فقہ کی کی ہو
یا کالم ومنطق کی ۔ سائنس کی ڈگری لی ہو یا میڈیکل سائنس کی ۔ نیچرل سائنس پڑھ اہو ی اآرٹس کے مض امین ۔ س ارے
کے سارے پڑھے لکھے لوگوں میں شمار کیے جائیں گے۔ یہ ایسی چ یز ہے ج و انس ان ک و ہمیش ہ ک ام آئے گی ،مقص د
نیک ہو اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے تو اس کی بدولت وہ دین ودنیا کی س اری نعمت اور دولت حاص ل کرس کتا
ہے۔
4
کورس :م طالعہ حدی ث()4622
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
قرآن میں متعدد مقامات پر اہل ایمان کوعلم حاصل کرنے کا حکم دی ا گیا ہے ،اس میں دی نی عل وم بھی ش امل ہیں
اورسائنسی علوم بھی۔ بلکہ ان آیات کی تالوت کی جائے تویہ واضح ہوتا ہے کہ آج ہم جن چ یزوں کوس ائنس وٹکن الوجی
کاعلم کہتے ہیں،اسکے حصول پر خاص طور سے توجہ دالئی گئی ہے۔ جگہ جگہ فرمایاگیاہے :تم اپ نی ص الحیتوں ک و
کام میں کیوں نہیں التے؟ تم عقل س ے ک ام کیوں نہیں لیتے؟ تم ق رآنی آی ات پرغ ور کیوں نہیں ک رتے ؟ تمہ ارے ان در
شعورکیوں نہیں ہے؟ تم سمجھ کر کیوں نہیں پڑھتے؟ میری نشانی پرغور کیوں نہیں کرتے ؟ گویاکہ قرآن مجید میں لف ظ
علم مختلف اشتقاقی صورتوں میں ۷۷۸مرتبہ واردہواہے ۔ان سے یہ نتیجہ نکالن ا مش کل نہیں کہ ق رآن مجیدکی رو س ے
علم ک و غ یر معم ولی بلکہ ف وق الک ل اہمیت حاص ل ہے اور جب یہ لف ظ ج زوی ت رادف کے س اتھ دوس رے مرادف ات
(مثالتعقلون ،یتدبرون ،تفہمون ،تشعرون).وغیرہ کے ساتھ مل کریاان کی جگہ آتاہے توان سے علم کے طریقوں ،غ ایتوں
اورجہتوں کاپتہ چلتاہے ۔()۸
انسان کو جس چیز سے واسطہ پڑ سکتا ہے ،اس کے حل کے لیے معلومات حاصل کرنا اور اس میں مہ ارت پیدا
تعالی نے جب پیدا کیا تو انہیں وہ تمام عل وم عط اکیے جن س ے
ٰ کرنا اسالم کو مطلوب ہے۔حضرت آدم علیہ السالم کو ہللا
ان کا واسطہ پڑ سکتا تھا۔قرآن کریم میں اس کی صراحت موجودہے:
َک الَ ِع ْل َم لَنَ ا
وا ُسب َْحان َ صا ِدقِیْن .قَالُ ْ ضہُ ْم َعلَی ْال َمالَِئ َک ِة فَقَا َل َأنبُِئونِ ْی بَِأ ْس َماء ہَُؤالء ِإن ُکنتُ ْم َ ” َو َعلَّ َم آ َد َم اَأل ْس َماء ُکلَّہَا ثُ َّم ع ََر َ
ت
الس َم َوا ِ ب َّ ال َألَ ْم َأقُ ل لَّ ُک ْم ِإنِّ ْی َأ ْعلَ ُم َغ ْْی َ
ال یَ ا آ َد ُم َأنبِْئہُم بَِأ ْس َمآِئ ِہ ْم فَلَ َّما َأنبَ َأہُ ْم بَِأ ْس َمآِئ ِہ ْم قَ َ
ک َأنتَ ْال َعلِ ْی ُم ْال َح ِک ْی ُم .قَ َ
ِإالَّ َما عَلَّ ْمتَنَا ِإنَّ َ
ض َوَأ ْعلَ ُم َما تُ ْب ُدونَ َو َما ُکنتُ ْم تَ ْکتُ ُمونَ ( “.البقرہ)۳۱:
َواَألرْ ِ
تعالی نے آدم کو تمام چیزوں کے نام اور پھر سامنے کیا ان س ب چ یزوں کوفرش توں کے،پھ ر ہللا
ٰ (اور سکھایا ہللا
بتاو مجھ کو ان کے نام اگر تم س چے(ج انتے) ہ و؟فرش توں نے کہ ا :ت یری ذات پ اک ہے ،ہم ک و نہیں
نے فرمایا ان سے ٴ
معلوم ،مگر جتنا تونے مجھے علم دیا ہے۔ بے ش ک ت و ہی ہے اص ل ج اننے واال اور حکمت واال۔ پھ ر ہللا نے آدم س ے
بتاو تم ان کو ان چیزوں کے نام ۔ جب انہوں نے بتادیا ان کے نام ،توہللا نے فرش توں س ے کہ ا :کیا میں نے تم س ے
کہا :ٴ
نہیں کہا تھا کہ میں خوب جانتا ہوں ان چیزوں کو جو آسمان و زمیں میں چھپی ہ وئی ہیں اور میں یہ بھی جانت ا ہ وں ج و
ظاہر ہے اور جو چیز چھپی ہوئی ہے۔)
حکمت ودانائی کی بات مومن کی گم شدہ پونجی ہے
انسان کو جب ہللا نے اپنا خلیفہ بنایا ہے(البقرہ )۲۰:تو ضروری ہے کہ وہ خالفت کا حق اداکرے۔یہ ک ام ایس ے ہی
انجام نہیں پائے گا۔اس کے لیے بہت سی چیزوں کی ضرور ت پڑتی ہے اور ہر طرح کے لوگ درکار ہوتے ہیں،تاکہ وہ
اپنے علم وہنر اور تجربے کی روش نی میں اور خالفت کی ض رورتوں ک و پ ورا ک ریں۔اگ ر نف ع بخش ی ک ا س امان کس ی
دوسری جگہ سے حاصل ہو تو یہ بھی ضروری ہے کہ اسے وہاں س ے حاص ل کیاج ائے ،اگ ر وہ اس کے حص ول میں
کوتا ہی کرے گا تو خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہوگا۔ہللا کے رسول نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے :
ضالَّةُ ْال ُم ْٴو ِم ِن ،فَ َحی ُ
ْث َو َج َدھَافَھ َُو اَ َح ُّ
ق بِھَا)۹(“. ”اَ ْل َکلِ َمةُ ْال ِح ْک َمةُ َ
(حکمت ودانائی کی بات مومن کی گم شدہ پونجی ہے ،پس جہاں بھی پائے حاصل کرنا چاہیے)
5
حکمت کے معنی ڈکشنری میں وہی ملیں گے جو س ائنس کے مع نی ہیں۔ یع نی اش یاء اور چ یزوں کی حقیقت وں پ ر
غور کرن ا ،اس ے پہچانن ا اور س مجھنا ،اس کے خ واص اور ت اثیرات ک و معل وم ک رنے کے بع د اس ک و اپ نے ل یے اور
دوسروں کے لیے نفع بخش بنانا اور استعمال میں النا ہے۔
علم سے انسان کے اندر اخالق حمیدہ پیدا ہوتے ہیں
جب انبیا ِء سابقین کے عہد میں علم واخالق کو عمومی وسعت حاصل نہ ہوس کی ت و کیس ے ممکن تھ ا کہ دنیا میں
اخالق وکردار اور تہذیب وتمدن کا بول باالہو۔انبیاء کی آمد سے ان کے اندر کسی ق در تہ ذیبی ق دروں ک و ت رقی ض رور
ہوئی ،مگر جلدہی وہ فن ا ہوگ ئی۔اس ل یے یہ کہ ا جاس کتا ہے کہ وہ پہلے بھی جہ الت میں مبتال تھے اور بع د میں بھی یہ
صورت برقرار رہی۔ بڑے اچھے انداز میں اس نکتہ کی وضاحت کرتے ہوے عالمہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
”دنیامیں بابل واسیریا،ہندوستان وچین،مصر وشام ،یون ان وروم میں ب ڑے ب ڑے تم دن پیدا ہ وے۔اخالق کے ب ڑے
بڑے نظریے قائم کیے گئے۔ تہذیب وشائستگی کے بڑے بڑے اصول بن ائے گ ئے۔ اٹھ نے بیٹھ نے ،کھ انے پینے،مل نے
جلنے،پہننے اوڑھنے ،رہنے سہنے،سونے ج اگنے ،ش ادی بیاہ،م رنے جینے ،غم ومس رت ،دع وت ومالق ات،مص افحہ
وسالم ،غسل و طہارت ،عیادت وتع زیت ،تبری ک وتہ نیت ،دفن وکفن کے بہت س ے رس وم ،آداب ،ش رائط اور ہ دایات
مرتب ہوے اور ان سے ان قوموں کی تہذیب ،تمدن ،اور معاشرت کے اصول بنائے گئے۔ یہ اصول صدہا س ال میں ب نے
پھر بھی بگڑ گئے۔صدیوں میں ان کی تعمیر ہوئی تاہم وہ فنا ہوگئے۔“()۱۰
لیکن قرآن ،پیغمبر عربی صلى هللا عليه وسلم نے ص الح معاش رہ کی تعم یر وتش کیل ک ا ج ودرس دی ا وہ اس وقت
سے لے کر آج تک اپنی اصل صورت میں برقرار ہے اور جب تک مسلمانوں کے اندر دینی وعلمی روح زن دہ رہے گی
،دنیا میں اخالقی اقدار کی باال دستی رہے گی۔ مسلمانوں کا فریض ہ ہے کہ وہ خودک و اخالق ک ا نم ونہ بن ائیں ۔ گھ ر میں
ہوں یا بازار میں ،محفل میں ہوں یا مجلس میں ،ہر جگہ اخالق کا مظاہر ہ کرنا اسالم ک و مطل وب ہے۔ہللا کے رس ول نے
ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا ۔ دوست ہو یا دشمن ،اپنے ہو کہ پرائے ،سب کے ساتھ حسن سلوک ک ا مظ اہرہ کیا۔اگ ر علم
حاصل کرنے کے بعد آدمی کے اندر یہ صفت پیدا نہ ہوئی تو ایسا علم کسی کام ک انہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہللا کے رس ول
ُس ن ااْل ِ ْخاْل ق۔)۱۱( آپ کے اس وص ف خ اص کی گ واہی ق رآن مق دس میں بھی موج ود فرمایا ک رتے تھے :ب ُِع ْث ُ
ت اِل ُتَ ِّمم ح ْ
لی ُخل ق َعظَیْم۔( الق رآن) (آپ اخالق کے اعلی مق ام پ ر ف ائز ہیں۔)ای ک م رتبہ چن د ص حابہ رض وان هللا عليهم ہے:اِنَّ َ
ک لَ َع ٰ
اجمعين حضرت عائشہ رضى هللا تعالى عنها کی خدمت میں حاض ر ہ وے اور ان س ے دری افت کیا کہ ہمیں حض ور کے
ق َرسُوْ ل ہّٰللا صلى هللا عليه وس لم َک ا نَ ْالقُ رْ آنَ ۔)۱۲(
اخالق اور معموالت کے بارے میں کچھ بتائیے۔انہوں نے فرمایاُ :خ ْل َ
درستی اخالق کی دع اکرتے رہ تے ہیں۔ آئینہ میں اپن ا چہ رہ ٴ (آپ کا اخالق ہمہ تن قرآن تھا۔) باوجود اس کے آپ ہر وقت
یکھتے تو ہللا کا شکر اداکرتے اور خدا کے حضور یہ دعا کرتے :اَ ٰللّھُ َّم اَحْ َس ْنتَ خَ ْلقِ ْی فَاَحْ ِس نَ ُخ ْلقِی۔(( )۱۳اے ہللا م یرے
اخالق کو بھی اسی طرح اچھا کردے جس طرح تونے میرے چہرے کو اچھ ا بنای ا ہے۔) آپ س ے کس ی نے پوچھ ا ک ون
لوگ اچھے ہیں؟ آپ نے فرمایا”:اِ َّن َخیَا َر ُک ْم اَحْ َسنُ ُک ْم اَ ْخاَل قاً۔“( )۱۴سب سے بہ تر انس ان وہ ہے جس ک ا اخالق س ب س ے
اچھا ہے۔) ایک اور موقع پر آپ نے فرمای ا:اَ ْک َم ُل ْال ُم ْٴو ِمنِ ْینَ اِ ْی َمان ا ً اَحْ َس نُھُم ُخ ْلق اً۔()۱۵( س ب س ے زی ادہ کام ل االیم ان وہ
6
کورس :م طالعہ حدی ث()4622
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
شخص ہے جس کا اخالق سب سے اچھا ہو۔) اس طرح بہت سی احادیث ہیں جن میں اخالق کی اہمیت کو واض ح کیا گیا
ہے۔
اخالق صرف یہی نہیں ہے کہ لوگوں سے ہنستے مسکراتے مل لیا اور اس کے س اتھ کچھ اچھی ب اتیں ک رلیں ۔ یہ
تو اخالق کا جزوہے ،ان کے عالوہ بھی اور بہت ساری ب اتیں اخالق میں داخ ل ہیں۔ یہ خوبیاں اس ی وقت پیدا ہ وں گی
جب ہم علم سے آراستہ و پیراستہ ہوں گے۔ ہللا اور اس کے بتائے ہوے راستہ پر چلیں گے۔اگ ر ای ک آدمی اچھے اخالق
کا حامل ہے تو کسی کے ظلم کو برداشت کرنا بھی اخالق کے دائرہ میں آتا ہے۔ بے صبری کا مظاہرہ کرنااورانتق ام لین ا
بے اخالقی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تلخ باتوں پر صبر کریں ۔ ہ و س کتا ہے کہ ایس ا ک رنے س ے وہ ہم ن وا بن
جائے ۔ غصہ کرنا،بد لہ لینا،کسی کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش نہ آنا،کسی کا ما ل غصب کرنا،چ وری ڈکیتی کرن ا یہ
مذموم حرکتیں ہیں ،جو بداخالقی ہے۔چنانچہ ہللا کے رسول نے فرمایا:
ک نَ ْف َسہُ ِع ْند َْالغ َ
َضب)۱۶(“. ْس ال َّش ِد ْی ُد بِالصُّ رْ عَة اِنَّ َماال َّش ِد ْی ُد اَلَّ ِذیْ یَ ْملِ ُ
”لَی َ
( ط اقت وروہ آدمی نہیں ہے جوکش تی میں کس ی ک و پچھ اڑدے ،بلکہ وہ آدمی ط اقت ور ہے ،جوغص ہ کے وقت
اپنے نفس کوقابو میں رکھے۔)
ایک دوسری حدیث میں ہللا کے رسول نے فرمایا:
تَ ،واَل فِ ْقہٌ فِی ال ِّد ْی ِن)۱۷(“.
قُ :حسْنُ َس ْم ٍ ”خَصْ لَت ِ
َان اَل تَجْ تَ ِم َع ِ
ان فِی ُمنَافِ ٍ
(دوعادتیں ایسی ہیں جو منافق میں جمع نہیں ہوتیں ۔ ایک اچھی عادت اور دوسرے دینی بصیرت۔)
دنیا کے لیے نفع بخش بنا جائے
اسالم حکم دیتا ہے کہ اپنے آپ کو ضرر رساں نہیں بلکہ نفع بخش بنا ٴو۔ایک انسان کے قول وعمل س ے دوس رے
انسان کو تکلیف نہ پہنچے۔ اچھی اور بھلی باتوں کا تمیز وہی انسان کرسکتا ہے جس کے اندر شعور وفراست ہ وگی اور
یہ خوبی بغیر علم کے پیدا نہیں ہوسکتی۔عقل و شعور تو جاہل کے پا س بھی ہے۔مگر جو فراست ایک پ ڑھے لکھے ک و
حاص ل ہ وگی وہ جاہ ل ک و ہ ر گ ز حاص ل نہیں ہوس کتی۔اس کے دن رات کے عم ل میں ،اس کی گفتگ و میں ،اس کے
معامالت میں ،اس کے فیصلہ لینے میں ایسی بات کا صادر ہونا جس س ے دوس روں ک و تکلیف پہنچ ج ائے ک وئی بعید
نہیں ہے۔ اگر اسے اس کا ادراک ہوجائے تو وہ جاہل ہی کیوں رہے گا۔ ہللا کے رس ول کی ح دیث س ے بھی اس ب ات ک و
اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔آپ نے فرمایا:
ق فِی َسبِی ِْل ہّٰللا )۱۸(“.
”ان َمثَ َل ِع ْل ٍم اَل یَ ْنفَ ُع َک َمثَ ِل َک ْن ٍز اَل یُ ْنفَ ُ
َّ
( ج و علم نف ع بخش نہ ہ و اس کی مث ال اس خ زانے جیس ی ہے جس میں س ے خ داکی راہ میں کچھ خ رچ نہ کیا
جائے۔)
نیز آپ نے یہ بھی فرمایا:
اس اَ ْنفَ َعھُ ْم لِلنَّ ِ
اس)۱۹(“. ” َخ ْی ُر النَّ ِ
( ہللا کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ آدمی وہ ہے جو سب سے زیادہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے واالہے۔)
7
جب آدمی کے اندر یہ ذوق و جذبہ ہوگ ا ت و یقین ا وہ کوش ش ک رے گ ا کہ وہ علم حاص ل ک رے اور دوس روں ت ک
پہنچائے۔
علم نافع کی دعا ء بھی کرتے رہنا چاہیے
نبی اکرم صلى هللا عليه وس لم دنیا کے ل یے معلم بن اکر بھیجے گ ئے ۔ آپ کی وجہ س ے دنیا میں علم کی روش نی
پھیلی اورانسانیت کو روشن اور واضح سمت مال ۔باوجود اس کے ہر وقت ہللا کے حض ور زی ادتی علم اور اس تقامت علم
کے ساتھ علم نافع کی دعا ء کرتے ہیں:
ک ِم ْن ِع ْل ٍم اَل یَ ْنفَعَُ ،و ِم ْن ُدعَا ٍء اَل یُ ْس َمعَُ ،و ِم ْن قَ ْل ٍ ٰ
ب اَل یَ ْخ َش ُع َو ِم ْن نَ ْف ٍ
س اَل تَ ْشبَعُ۔“()۲۰ ”اَللّہُ َّم اِنِّی اَ ُعوْ ُذبِ َ
(اے ہللا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نفع بخش نہ ہو اور اس دعاء سے جو سنی نہ ج ائے اور اس دل
سے جس میں خشوع نہ ہو اور اس نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو۔)
علم نافع اور رزق وسیع کے لیے ہللا کے حضور یہ دعاء بھی کرتے تھے:
ک ِع ْلما ً نَافِعاًَ ،ع َمالً ُمتَقَبَّالًَ ،و ِر ْزقا ً طَیِّباً)۲۱(“. ٰ
”اَللّھُ َّم اِنّی اَسَْئلُ َ
(اے ہللا! میں تجھ سے علم نافع ،عمل مقبول اور پاک رزق کی درخواست کرتا ہوں۔)
کیوں کہ ہللا نے انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا تھا:
ٰ
ما(“.طہٰ )۱۱۴:” َوقُل رَّبِّ ِز ْدنِ ْی ِع ْل
(اے پیغمبر کہو:اے میرے رب !میرا علم زیادہ کر۔)
” َربَّنَا آتِنَا فِ ْی ال ُّد ْنیَا َح َسنَةً َوفِ ْی اآل ِخ َر ِة َح َسنَةً(“.البقرہ)۲۰۱:
(اے میرے رب! تو مجھے دنیا وآخرت دونوں میں اچھا بنا۔)
ہللا نے انسان کو جو علم عطا کیا ہے ،اسے ہی حرف آخر نہ سمجھا ج ائے ،بلکہ زی ادتی علم کی کوش ش ک رتے
رہنا چاہیے اوراسے اپ نی محنت اور ج دو جہ د ک ا ن تیجہ نہ س مجھنا چ اہیے بلکہ عط ا ِء خ دا ون دی س مجھتے ہ وئے یہ
اعتراف کرتے رہنا چاہیے:
ک َما لَ ْم تَ ُک ْن تَ ْعلَ ُم َو َکانَ فَضْ ُل ہّللا ِ َعلَ ْْی َ
ک َع ِظیْما( “.النساء)۱۱۳: ” َوعَلَّ َم َ
(اور تجھ کوسکھائیں وہ باتیں جو نہیں جانتا تھااور یہ تیرے رب کا فضل عظیم ہے۔)
جس کو علم وحکمت سے نواز دیاگیا،گویا اسے دین ودنیا کی دولت حاصل ہو گئی۔ ضروری ہے کہ جو علم عط ا
تعالی نے اہ ل علم کی س تائش ک رتے ہ وے
ٰ کیا گیا ہے اس کی قدر کی جائے اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ باری
فرمایا:
” َو َمن یُْؤ تَ ْال ِح ْک َمةَ فَقَ ْد ُأوتِ َی خَ ْْیراً َکثِیْراً َو َما یَ َّذ َّک ُر ِإالَّ ُأوْ لُ ْ
وا اَأل ْلبَا ِ
ب( “.البقرہ)۲۶۹:
(اور جس کو حکمت مل گئی اس کو بڑی خوبی کی چ یز م ل گ ئی اور نص یحت وہی حاص ل ک رتے ہیں ج و عق ل
رکھتے ہیں۔)
اسی طرح ہللا کے رسول صلى هللا عليه وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا:
اس ٌمَ ،وہّٰللا ُ یُ ْع ِطی)۲۲(“. ہّٰللا
” َمن ی ُِر ِد ُ بِہ َخ ْیرًایُفَقِّ ْہہُ فِی ال ِّد ْی ِنَ ،واِنَّ َما اَنَا قَ ِ
8
کورس :م طالعہ حدی ث()4622
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
(ہللا جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرت ا ہے اور میں ت و ص رف تقس یم ک رنے واال
ہوں اور دینے واال ہللا ہے۔)
عہد نبوی میں علوم وفنون کی ترقی
عہدنبوی کے مدنی معاشرہ پرغورکریں کہ کس کس مپرسی کے عالم میں مسلمان مکہ س ے ہج رت ک رکے م دینہ
پہنچے ۔ کھانے کھانے کوترستے تھے ،تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا میسر نہیں تھ ا،رہ نے ک وگھرنہیں تھے ،لیکن ان کے
اندرحصول علم کاجذبہ تھا۔ اسی وجہ سے مختصرعرصے میں وہ نم ونہ زن دگی بن گ ئے اورزن دگی کے ہرش عبے میں
کمال پیدا کرکے اپنی ضرورتوں کی تکمیل کرنے لگے ۔ چوں کہ ہللا کے رسول صلى هللا عليه وس لم ای ک ب ڑے پیغم بر
ہونے کے ساتھ ایک عظیم حکم راں بھی تھے اورکوئی بھی حکومت اس وقت تک صحیح طریقے سے نہیں چ ل س کتی
جب تک کہ اس کے اندرمختلف ص الحیت کے اف راد موج ودنہ ہ وں۔ض روری ہے کہ یہ اں ط بیب بھی ہ وں اور س رجن
بھی ،یہ بھی ضروری ہے کہ وہاں بڑھی بھی ہ وں اور لوہ اربھی ،کاش ت ک ار بھی ہ وں اور ص نعت گ ربھی ۔جس وقت
حضورصلى هللا عليه وسلم مسجدنبوی کی تعمیر کروارہے تھے ،صحابہ کرام مختلف کاموں پ ر م امور تھے ۔ کس ی ک و
اینٹ بنانے اور ڈھونے کا حکم دیا تو کسی کو گارا بنانے کا ،تو کسی کو کوئی دوسرے کام پر مامور کیا۔ ای ک ص حابی
نے خواہش ظاہر کی کہ میں دوسرا کام بھی کرسکتا ہوں ،آپ نے منع کیا اور فرمایا :نہیں تم گارا گھولو،تم اس ک ام س ے
خوب واقف ہو۔ ( )۲۳گویاکہ حضورکے زمانہ میں ہرفن کے ماہرین موجودتھے ۔ کچھ لوگوں نے علمی کام ک یے ،کچھ
لوگوں نے دست کاریاں سیکھیں ،بعض صحابہ نے دوسری قوم وں کی زب ان اور ان کی تہ ذیب و تم دن کامط العہ کیا۔ (
)۲۴اس وقت کی ضرورت کے مطابق ک وئی ایس ا علم اورفن نہ تھ اجس میں ص حابہ ک رام پیچھے رہے ہ وں۔ عملی علم
ہویافنی ،سبھی میں صحابہ کرام ماہراور یکتا ِء روزگارتھے۔ مندرجہ ذیل اقتباس سے اس کا اندازہ بخ وبی لگای ا جاس کتا
ہے۔ عالمہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
”ایک طرف عقال ِء روزگار ،اسرار فطرت کے محرم ،دنیا کے جہاں باں اور ملکوں کے فرم اں روااس درس گ اہ
سے تعلیم پاکر نکلے ہیں ،جنہوں نے مشرق سے مغرب تک ،افریقہ سے ہندوستان کی سرحد تک فرم اں روائی کی اور
ایسی فرماں روائی جو دنیا کے بڑے سے بڑے شہنشاہ اور حکم راں کی سیاست وتدبر اور نظم ونسق کے کارناموں ک و
منسوخ کردیتی ہے ۔ دوسری طرف خالد بن ولید رضى هللا عنه ،سعدبن ابی وق اص رض ى هللا علي ه ،اب و عبیدہ بن ج راح
رضى هللا عنه ،عمروبن العاص رضى هللا عنه ہیں جنہوں نے مشرق ومغرب کی دوظالم و گناہ گار اور انسانیت کے لیے
لعنت سلطنتوں کا چند سال میں قلع قمع کر دیتے ہیں اور دنیا کے وہ فاتح اعظم اور سپہ ساالر اکبر ث ابت ہ وتے ہیں ،جن
کے فاتحانہ کارناموں کی دھاک آج بھی دنیا میں بیٹھی ہوئی ہے۔ تیس ری ط رف وہ ص حابہ ہیں جنہ وں نے ص وبوں اور
شہروں کی کامیاب حکومت کی اور خلق خدا کو آرام پہنچایا۔ چوتھی طرف علماء وفقہاء کی ص ف ہے۔ انہ وں نے اس الم
کے فقہ وقانون کی بنیاد ڈالی اور دنیا کے مقنن میں خاص درجہ پایا۔ پانچویں صف عام ارباب روایت وتاریخ کی ہے،جو
احکام ووقائع کے ناقل وراوی ہیں۔ ایک چھٹی جماعت ان ستر صحابہ (اصحاب ص فہ) کی ہے جن کے پ اس س ررکھنے
کے لیے مسجد نبوی کے چبوترے کے س وا ک وئی جگہ نہ تھی ۔ س اتواں رخ دیکھ و! اب و ذررض ى هللا عن ه ہیں ،ان کے
9
ٰ
دوتقوی نزدیک آج کا کھانا کل کے لیے اٹھا رکھنا بھی شان توکل کے خالف تھا۔سلمان فارسی رض ى هللا عن ه ہیں ج و زہ
کی تصویر ہیں ۔ عبدہللا بن عمر رضى هللا عنه ہیں جن کے سامنے خالفت پیش ہوئی تو فرمایا کہ اگ ر اس میں مس لمانوں
کا ایک قطرہ خون گرے تو مجھے منظور نہیں ۔ مصعب بن عمیر رضى هللا عن ه ہیں ج و اس الم س ے پہلے ق اقم وحری ر
کے کپڑے پہنتے اور جب اسالم الئے تو ٹاٹ اوڑھتے اور پیوند لگے ک پڑے پہن تے تھے اور جب ش ہادت پ ائی ت و کفن
کے لیے پورا کپڑا تک نہ مال۔ عثمان بن مطع ون رض ى هللا عن ه ہیں ج و اس الم س ے پہلے ص وفی کہالتے ہیں۔ اب ودردا
رضى هللا عنه ہیں کہ جن کی راتیں نمازوں میں اور دن روزوں میں گزرتے تھے۔ ایک اور طرف دیکھو! یہ بہ ادر ک ار
پردازوں اور عرب کے مدبرین کی جماعت ہے ۔کاروباری دنیا میں دیکھو تو مکہ کے تاجر اور بیوپ اری ہیں اور م دینہ
کے کاشت کار اور کسان بھی ہیں اور بڑے بڑے دولت مند بھی ہیں۔ ان نیرنگیوں اور اختالف استعداد کے ب اوجود ای ک
چیز تھی جو مشترک طورسے سب میں نمایاں تھی۔وہ ایک بجلی تھی جو سب میں کوند رہی تھی،ک وئی بھی ہ وں توحید
الی کی رض ا
کا نور ،اخالق کی رو،قربانی کا ولولہ ،خلق کی ہدایت اور رہنمائی کا جذبہ اور باآلخر ہ ر ک ام میں خ دا تع ٰ
طلبی کا جو ش ہر ایک کے اندر کام کررہاتھا۔“()۲۵
ن ن
سوال مب ر 2۔ کت اب العلم ب اب مب ر 53کی احادی ث کا م طالعہ کری ں اور درج ذی ل کی وض احت کری ں۔
علم کی فضیلت کے بیان میں۔
ت ت ع
ے حاالت و زمان ہ کی ر ی ب لمی سرگر یم وں کے یل (الف)
َوقَوْ ِل هَّللا ِ تَ َعالَى :يَرْ فَ ِع هَّللا ُ الَّ ِذينَ آ َمنُوا ِم ْن ُك ْم َوالَّ ِذينَ ُأوتُوا ْال ِع ْل َم َد َر َجا ٍ
ت َوهَّللا ُ بِ َما تَ ْع َملُونَ خَ بِيرٌَ .وقَوْ لِ ِه َع َّز َو َجلََّ :ربِّ ِز ْدنِي ِع ْل ًما.
جو تم میں ایماندار ہیں اور جن کو علم دیا گیا ہے ہللا ان کے درجات بلند کرے گا اور ہللا کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔
تعالی نے( سورۃ ط ٰہ میں) فرمایا( کہ یوں دعا کیا کرو) پروردگار مجھ کو علم میں ترقی عطا فرما۔
ٰ اور ہللا
يث ثُ َّم َأ َج َ
اب السَّاِئ َل: -2بَابُ َم ْن ُسِئ َل ِع ْل ًما َوه َُو ُم ْشتَ ِغ ٌل فِي َح ِديثِ ِه فََأتَ َّم ْال َح ِد َ
باب :اس بیان میں کہ جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی جائے اور وہ اپ نی کس ی دوس ری ب ات میں مش غول ہ و
پس (ادب کا تقاضا ہے کہ) وہ پہلے اپنی بات پوری کر لے پھر پوچھنے والے کو جواب دے۔
حدیث نمبر:53
ْح ،قَ ا َلَ :ح َّدثَنِيَ أبِي ،قَ ا َل: َح َّدثَنَاُ م َح َّم ُد بْنُ ِس نَا ٍن ،قَ ا َلَ :ح َّدثَنَا فُلَ ْيحٌ .ح و َح َّدثَنِيِ إ ْب َرا ِهي ُم بْنُ ْال ُم ْن ِذ ِر ،قَ َ
الَ :ح َّدثَنَاُ م َح َّم ُد بْنُ فُلَي ٍ
ِّث ْالقَوْ َم َجا َءهُ
س ي َُحد ُ ار ،ع َْنَ أبِي هُ َر ْي َرةَ ،قَا َل" :بَ ْينَ َما النَّبِ ُّي َ
صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم فِي َمجْ لِ ٍ َح َّدثَنِيِ هاَل ُل بْنُ َعلِ ٍّي ،ع َْنَ عطَا ِء ب ِْن يَ َس ٍ
ال ،فَ َك ِرهَ َما قَا َلَ ،وقَ ا َلال بَعْضُ ْالقَوْ ِمَ :س ِم َع َما قَ َ صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم ي َُحد ُ
ِّث ،فَقَ َ ضى َرسُو ُل هَّللا ِ َ الَ :متَى السَّا َعةُ؟ فَ َم َ َأ ْع َرابِ ٌّي ،فَقَ َ
ت ال :فَ ِإ َذا ُ
ض يِّ َع ِ الس ا َع ِة؟ قَ ا َل :هَ ا َأنَ ا يَ ا َر ُس َ
ول هَّللا ِ ،قَ َ ضى َح ِديثَهُ ،قَا َلَ :أ ْينَ ُأ َراهُ السَّاِئ ُل ع َِن َّ ضهُ ْم :بَلْ لَ ْم يَ ْس َمعَْ ،حتَّى ِإ َذا قَ َبَ ْع ُ
ضا َعتُهَا؟ قَا َلِ :إ َذا ُو ِّس َد اَأْل ْم ُر ِإلَى َغي ِْر َأ ْهلِ ِه فَا ْنت َِظ ِر السَّا َعةَ”.
اَأْل َمانَةُ فَا ْنت َِظ ِر السَّا َعةَ ،قَا َلَ :ك ْيفَ ِإ َ
حدثنا محمد بن سنان ،قال حدثنا فليح ،ح وحدثني إبراهيم بن المنذر ،قال ح دثنا محم د بن فليح ،ق ال ح دثني أبي ق ال ،ح دثني
هالل بن علي ،عن عطاء بن يسار ،عن أبي هريرة ،قال بينما النبي صلى هللا عليه وسلم في مجلس يحدث القوم ج اءه أع رابي
فقال متى الساعة فمضى رسول هللا صلى هللا عليه وسلم يحدث ،فقال بعض القوم سمع ما قال ،فكره ما قال ،وق ال بعض هم ب ل
10
کورس :م طالعہ حدی ث()4622
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
لم يسمع ،حتى إذا قضى حديثه قال ” أين ـ أراه ـ الس ائل عن الس اعة ” .ق ال ها أنا يا رس ول هللا .ق ال ” ف إذا ض يعت األمانة
فانتظر الساعة ” .قال كيف إضاعتها قال ” إذا وسد األمر إلى غير أهله فانتظر الساعة ”.
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا ،کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا( دوسری س ند) اور مجھ س ے اب راہیم بن المن ذر نے بیان
کیا ،کہا مجھ سے میرے باپ( فلیح) نے بیان کیا ،کہا ہالل بن علی نے ،انہوں نے عطاء بن یسار سے نقل کیا ،انہ وں نے
ابوہریرہ رضی ہللا عنہ سے کہ ایک بار نبی کریم ص لی ہللا علیہ وس لم لوگ وں میں بیٹھے ہ وئے ان س ے ب اتیں ک ر رہے
تھے۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی ہللا علیہ وس لم اپ نی گفتگ و
میں مصروف رہے۔ بعض لوگ( جو مجلس میں تھے) کہنے لگے آپ صلی ہللا علیہ وسلمنے دیہاتی کی ب ات س نی لیکن
پس ند نہیں کی اور بعض کہ نے لگے کہ نہیں بلکہ آپ نے اس کی ب ات س نی ہی نہیں۔ جب آپ ص لی ہللا علیہ وس لم اپ نی
باتیں پوری کر چکے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے یوں فرمای ا وہ قیامت کے ب ارے میں پوچھ نے
واال کہ اں گیا اس(دیہ اتی) نے کہ ا( ی ا رس ول ہللا!) میں موج ود ہ وں۔ آپ ص لی ہللا علیہ وس لم نے فرمای ا کہ جب
امانت( ایمانداری دنیا سے) اٹھ جائے تو قیامت قائم ہونے کا انتظار کر۔ اس نے کہ ا ایمان داری اٹھ نے ک ا کیا مطلب ہے؟
آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب( حکومت کے کاروبار)ناالئق لوگوں کو سونپ دئیے جائیں تو قیامت کا انتظ ار
کر۔
ئ ع
ے ال حہ عمل کی ت ی اری
لمی سرگر یم وں کے یل (ب)
تدریس ایک پیشہ ہی نہیں بلکہ ایک فن ہے۔ پیشہ وارانہ تدریسی فرائض کی انجام دہی کے لئے استاد ک ا فن ت دریس کے
اصول و ضوابط سے کم حقہ واقف ہوناضروری ہے۔ ایک باکمال اس تاد موض وع ک و معیاری ان داز میں طلبہ کے ذہ نی
اور نفسیاتی تقاضوں کے عین مطابق پیش کرنے کے فن سے آگاہ ہوتا ہے۔ معیاری اور نفسیاتی ان داز میں نفس مض مون
کو پیش کر نا ہی تدریس ہے۔ موثر تدریس کے لئے ،کسی بھی موضوع کی تدریس سیقبل ،استاد کا موضوع س ے متعل ق
اپنی سابقہ معلومات کا تشفی بخش اعادہ ا ور جائزہ بے حد ضروری ہے۔ سابقہ معلوم ات کے اع ادہ و ج ائزہ کے عالوہ
موضوع سے متعلق جدید تحقیقات و رجحانات سے لیس ہوکر اساتذہ اپنی شخص یت ک و باکم ال اور ت دریس ک و ب ااثر بن ا
سکتے ہیں۔ موثر تدریس کی انجام دہی کے لئے اساتذہ کا تدریسی مقاصد سے آگ اہ ہون ا بھی ض روری ہوت ا ہے۔تدریس ی
اص ولوں پ ر عم ل پ یرائی کے ذریعے اس اتذہ مقاص د تعلیم کی ج انب کامیاب پیش رفت ک ر س کتے ہیں۔ م وثر ت دریس
اورتعلیمی مقاصد کے حصول میں تدریسی اصول نمایا ں کردار ادا کرتے ہیں۔تدریسی اص ولوں س ے اس اتذہ کیوں ،کب
اور کیسے پڑھانے کا فن سیکھتے ہیں۔تدریسیاصولوں کا علم اساتذہ کو تدریسی الئحہ عمل کی ترتیب اور منظم منص وبہ
بندی کا عادی بناتا ہے۔کیوں ،کب ،اورکیسے پڑھا نے کااصو ل اساتذہ کی مسلسل رہنمائی کے عالوہ تدریسی باریکیوں
کی جانکاری بھی فراہم کرت ا ہے ۔ تدریس ی اص ولو ں پ ر عم ل ک رتے ہ وئے اس اتذہ م وثر اور عملی ت دریس ک و ممکن
بناسکتے ہیں۔تدریسی اصول بامقصد تدریس،نئے تعلیمی رجحانات ،تجزیہ و تنقید ،مطالعہ و مشاہدہ ،شعور اور دلچس پی
کو فروغ دیتے ہیں۔ تدریسی اصولوں پر قائم تعلیمی نظام نتیجہ خیز اور ثمر آورثابت ہوتا ہے۔تدریسی اص ولوں پرکاربن د
استا د معلم سے زیادہ ،ایک رہنما اور رہ برکے ف رائض انج ام دیت اہے۔ جدی د تعلیمینظری ات کی روش نی میں اس تاد ای ک
11
مدرس اور معلم ہی نہیں بلکہ ایک رہ بر اور رہنم ا بھی ہوت ا ہے۔ اس المی تعلیم ات س ے ع دم آگہی کی وجہ س ے ہم اس
نظریہ تعلیم کو جدیدیت سے تعبیر کر رہے ہیں جب کہ یہ ایک قدیم اسالمی تعلیمی نظریہ ہے جہا ں اس تاد ک و معلوم ات
کی منتقلی کے ایک وسیلے کی شکل میں نہیں بلکہ ایک مونس مشفق مربی رہنما اور رہبر کی حیثیت س ے پیش کیا گیا
ہے۔ تدریسی اصولوں س ے ب اخبر اس تاد بنیادی تدریس ی و نفس یاتی اص ولوں کی یکج ائی س ے تعلیم و اکتس اب ک و طلبہ
مرک وز بنادیت ا ہے۔ذی ل میں اہمیت کے حام ل چن د نمای اں تدریس ی اص ولوں ک و بیان کیا جارہ اہے ۔
( )1ترغیب و محرکہ تدریسی اصولوں میں اساسی حیثیت کا حامل ہے۔طلبہ میں تحریک و ترغیب پیدا کیئے بغ یر م وثر
تدریس کو انجام نہیں دیا جاسکتا۔ طلبہ میں اکتسابی میالن ت رغیب و تحری ک کے مرہ ون منت ج اگزیں ہوت اہے۔ حص ول
علم ،پائیدار اکتس اب اور علم س ے کس ب فیض حاص ل ک رنے کے ل ئے طلبہمیں دلچس پی اور تحری ک پیدا کرن ا بہت
ضروری ہوتا ہے۔فعال و ثمر آور اکتساب ترغیب و تحریک کے زیر اثر ہی ممکن ہے۔تدریس میں ہ ر مق ام پ ر طلبہ میں
محرکہ کا مطالبہ کرتی ہے۔ بغیر محرکہ پیدا کیئے کامیاب اکتس اب ممکن ہی نہیں ہے۔اکتس ابی دلچس پیوں کی برق راری
کے لئے محرکہ بہت اہم ہے۔محرکہ کی وجہ سے طلبہ میں اکتساب کی تمنا انگڑائی لیتی ہے۔
()2درس و تدریس استاد اور طالب علم پر مبنی ایک دوطرفہ عمل ہے۔موثر تدریس اور کامیاب اکتساب کے ل ئے تعلیمی
عمل میں استاد اور شاگرد دونوں کی سرگرم ش رکت الزمی تص ور کی ج اتی ہے۔تعلیمی س رگرمیوں کے بغ یر تدریس ی
عم ل بے کیف اور ع دم دلچس پ بن جات ا ہے۔طلبہ میں اکتس ابی دلچس پی کی نم و ،ف روغ اور برق راری میں تعلیمی
سرگرمیاں بہت اہم ہوتی ہیں۔ کامیاب اکتساب اور موثر تدریس میں محرکہ کے بعد سب سے نمای اں مق ام س رگرمیوں پ ر
مبنی تدریس و اکتساب ()Activity Based Teachingکو حاصل ہے۔ س رگرمیوں پ ر مبنیت دریس طلبہ میں تعلیم س ے
دلچسپی ،شوق و ذوق پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔سرگرمیوں کے زیر اثر طلبہ میں نصابی مہ ارتیں ف روغ پ انے لگ تی
ہیں۔سرگرمیوں کے زیر اثر انجام پانے والی تدریس اور اکتساب موثر اور پائیدار واقع ہوتے ہیں۔سرگرمیوں کے ذریعے
طلبہ میں عملی اکتساب ()Practical Learningفروغ پاتی ہے۔تدریسی اص ولوں میں س رگرمیوں پ ر مب نی ت دریس ک و
بہت اہمیت حاصل ہے اسی لئے اساتذہ اپنی تدریس کو کامیابی سے ہمکنار ک رنے کے ل ئے س رگرمیوں()activitiesک و
ا لیں۔ زو بن ا الزمی ج دریس ک نی ت اپ
()3دوران تدریس استاد جو حکمت عملی اختیار کرتا ہے اسے تدریسی حکمت عملی یا طریقہ تدریس کہ تے ہیں۔تدریس ی
طریقہ ک ار معلوم ات کی منتقلی اورطلبہ میں علم س ے محبت و دلچس پی پیدا ک رنے میں اہم ک ردار ادا کرت ا ہے۔ت دریس
دراصل معلومات کی منتقلی کا نام نہیں ہے بلکہ طلبہ میں ذوق و شوق کو پیدا کرنے ک ا ن ام ہے۔ طلبہ میں علم ک ا ذوق و
شو ق اگر پیدا کردیا جائے تب اپنی منزلیں وہ خود تالش کرلیتے ہیں۔ایک کامیاب اس تاد اپ نے ط ریقہ ت دریس س ے طلبہ
میں معلومات کی منتقلی سے زیادہ شوق و ذوق کی بیداری ک و اہمیت دیت ا ہے۔وہ تدریس ی حکمت عملی اور ط ریقہ ک ار
کامیاب کہالتا ہے جو بچوں میں اکتساب کی دلچسپی کو برق رار رکھے ۔اس اتذہ طلبہ میں اکتس ابی دلچس پی کی برق راری
کے لئے تدریسی معاون اشیاء(چارٹ،نقش ے،خ اکے،تص اویر،قص ے ،کہ انیوں،دلچس پ مک الموں اور فق روں) ک و اپ نی
تدریسی حکمت عملی میں شامل رکھیں۔
12
کورس :م طالعہ حدی ث()4622
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
()4اختیار ک ردہ تعلیمی پروگ رام اور س رگرمیوں کے پہلے س ے ط ئے ش دہ مقاص د ہ ونے چ اہیئے۔ اور ان مقاص د کے
حصول کے لئے مناسب الئحہ عمل کے تحت اساتذہ کو تعلیمی سرگرمیوں کو منتخب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔مبنی
بر مقاصد تعلیمی سرگرمیاں تعلیمی اقدار کی سربلندی اور ب امعنی اکتس اب میں بہت مع اون ہ وتی ہیں۔تعلیمی س رگرمیاں
تعلیمی مقاصد سے مربوط ہونی چاہیئے۔ورنہ تعلیمی مقاصد کا حصول اور بامقصد اکتساب دونوں بھی ن اممکن ہوج اتے
ہیں۔
()5اساتذہ تدریسی تنوع کے لئے جہاں مختلف سرگرمیوں سے کام لیتے ہیں وہیں تدریس کے دوران انھیں ای ک ب ات ک ا
خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہو تی ہے اور یہ توجہ تدریس کا سب سے اہم اصول ہے اور وہ ہے بچہ کی انف رادیت
کا احترام ۔بچے کی انفرادیت اور اس کی شخصیت کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر اساتذہ کو تدریس ی خ دمات انج ام دی نی
چاہیئے۔دوران تدریس بچے کی انفرادیت اور اس کے اکتسابی تنوع ()Learning Diversitiesکا خ اص خیال رکھ نے
کی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ ہ ر بچے کی ذہ نی ص الحیت ،ذہ انت ،ج ذباتیت ،احس اس دلچس پی اور ض روریا ت میں
نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ان تمام امور کو مد نظر رکھتے ہوئے اساتذہ کو تدریس ی ف رائض انج ام دین ا ض روری ہوت ا ہے۔
اساتذہ جب طلبہ کی شخصیت اور انفرادیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپ نے ف رائض انج ام دی تے ہیں تب اس تاد اور
شاگرد میں ایک اٹوٹ وابستگی پیدا ہوج اتی ہے اور کن د ذہن س ے کن د ذہن ط الب علم بھی تعلیم میں دلچس پی لینے لگت ا
ہے ۔طلبہ کی انفرادیت اور اکتسابی تنوع کا خیال رکھنے سے ایک بہت ہی خ وش گ وار تدریس ی اور اکتس ابی فض ا جنم
لیتی ہے۔اور اس فضاء میں ہر بچہ خود کو نہایت اہم اور خاص تص ور ک رنے لگت ا ہے۔ تعلیمی و تدریس ی حکمت عملی
اختیار کرتے وقت اساتذہ طلبہ کے تنوع قاور انفرادیت کا بطور خاص خیال رکھیں ۔
خ ن ن
سوال مب ر 3۔ س ن ابی داؤد کی صوص ی ات لم ب ن د کری ں۔
امام ابوداود نے اہل مکہ کے نام اپنے مکتوب میں کتاب السنن کے منہج اورطریقہ ٔ تالیف پرمفصل روشنی ڈالی ہے ،ذیل
میں ہم اس کے کچھ فق رات ٓاپ کے منہج وط ریقٔہ ت الیف ک و بیان ک رنے کے ل ئے نق ل ک ررہے ہیں:
-۱میں نے ہرباب میں صرف ایک یا دو حدیثیں نقل کی ہیں ،گو اس باب میں اور بھی صحیح حدیثیں موجود ہیں ،اگر ان
سب کو میں ذکر کرت ا ت و ان کی تع داد ک افی ب ڑھ ج اتی ،اس سلس لہ میں م یرے پیش نظ ر ص رف ق رب منفعت رہ اہے۔
-۲اگر کسی روایت کے دویا تین طرق سے ٓانے کی وجہ سے میں نے کسی باب میں اسے مکرر ذکرکیا ہے ت و اس کی
وجہ صرف سیاق کالم کی زیادتی ہے ،بسااوقات بعض س ندوں میں ک وئی لف ظ زائ د ہوت اہے ج و دوس ری س ند میں نہیں
ا کیا ہے۔ ئے میں نے ایس رنے کے ل و بیان ک ظک د لف ا ،اس زائ ہوت
-۳بعض طویل حدیثوں کو میں نے اس لئے مختصر کردیا ہے کہ اگر میں انہیں پوری ذکر کرتاتوبعض س امعین (وق راء)
کی نگاہ سے اصل مقصد اوجھل رہ جاتا ،اور وہ اصل نکتہ نہ سمجھ پاتے ،اس وجہ سے میں نے زوائد کو حذف کرکے
ص رف اس ٹک ڑے ک و ذک ر کیا ہے ،ج و اص ل مقص د س ے مناس بت ومط ابقت رکھت ا ہے۔
-۴کتاب السنن میں میں نے کسی متروک الحدیث شخص سے کوئی روایت نہیں نقل کی ہے ،اور اگر صحیح روایت کے
نہ ہونے کی وجہ سے اگر کس ی ب اب میں ک وئی منک ر روایت ٓائی بھی ہے ،ت و اس کی نک ارت واض ح ک ردی گ ئی ہے۔
13
-۵میری اس کتاب میں اگر کوئی روایت ایسی ٓائی ہے جس میں شدید ضعف پایا جاتاہے تو اس کا یہ ضعف بھی میں نے
واض ح کردی ا ہے ،اور اگ ر کس ی روایت کی س ند ص حیح نہیں اور میں نے اس پرس کوت اختیار کیا ہے ت و وہ م یرے
ح ہیں۔ ے اص بتہً ان میں بعض بعض س الح ہے ،اور نس کص نزدی
-۶اس کتاب میں بعض روایتیں ایسی بھی ہیں جو غیر متصل ،مرسل اور م دلس ہیں ،بیش تر مح دثین ایس ی روایت وں ک و
اتے ہیں۔ ا حکم لگ ل ہی ک ر متص انتے ہیں اور ان پ بر م تند و معت مس
-۷میں نے کتاب السنن میں صرف احکام کی حدیثوں کو شامل کیا ہے اس میں زہد اور فضائل اعمال وغیرہ س ے متعل ق
حدیثیں درج نہیں کیں ،یہ کتاب کل چارہزار ٓاٹھ سو احادیث پرمشتمل ہے ،جو سب کی سب احکام کے سلسلہ کی ہیں۔
مام بقاعی ابو داود کے مذکورہ باال قول ( :ج و ان کے مکت وب بن ام اہ ل مکہ میں موج ود ہے) ک و ذک ر ک رنے کے بع د
تی ہیں: میں بن انچ قس ادیث کی پ نن میں وارد اح ےس ول کی روس تے ہیں :ان کے اس ق لکھ
ا۔ راد لیاہوگ ذاتہ م حیح ل وں نے ص ے انہ حیح جس س -۱ص
وگی۔ یرہ ہ حیح لغ راد ص ے ان کی م ابہ جس س حیح کے مش -۲ص
وں گے۔ راد لیتے ہ ذاتہ م نل ے وہ حس ا ً اس س ریب غالب حت کے ق -۳درجہ ص
و۔ عف ہ دید ض -۴جس میں ش
-۵ان کے اس قول’’ :وما سكتت عنه فهو صالح‘‘( جن احادیث پر میں نے سکوت اختیار کیا ہے وہ صالح ہیں) سے سنن
میں وارد احادیث کی ای ک پ انچویں قس م ان اح ادیث کی س مجھی ج اتی ہے ج و بہت زی ادہ کم زور نہ ہ وں،اس قس م کی
ے ہیں ار کے قبیل س رف اعتب و وہ ص وں ت روم ہ ے مح ویت س ر تائید و تق تیں اگ روای
-۶لیکن اگر انہیں کسی کی تائید و تقویت مل جائے تو بحیثیت مجموعی وہ ’’حسن لغیرہ‘‘ کے درجہ پر ٓاج اتی ہیں ،اور
استدالل واحتجاج کے الئق بن جاتی ہیں ،اس طرح ایک چھٹی قسم بھی وجود میں ٓاجاتی ہے۔
امام ذہبی کابیان ہے کہ ابوداود کی کتاب میں وارد احادیث کے مختل ف درجے ہیںٓ ،اپ نے ابن داس ہ ک ا یہ ق ول نق ل کیا
کہ’’میں نے ابو داود کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے اپنی سنن میں صحیح اور اس سے قریب کی احادیث ذکر کی
ہیں ،اور اگر ان میں شدید ضعف ہے تو میں نے اس کو بیان کر دیا ہے‘‘ ،ذہبی کہ تے ہیں’’ :میں کہت ا ہ وں :ام ام رحمہ
ہللا نے اپنے اجتہاد کے مطابق اسے پورا پورا بیان کیا اور شدید ض عف والی اح ادیث ک و جس ک ا ض عف قاب ل برداش ت
نہیں تھا بیان کردیا ،اور قابل برداشت خفیف ضعف سے اغماض برتا ،تو ایسی حالت میں ٓاپ کے کسی حدیث پر س کوت
سے یہ الزم نہیں ٓاتا کہ یہ حدیث ٓاپ کے یہاںحسن کے درجے کی ہو،بالخصوص جب ہم حسن کی تعریف پ ر اپ نی جدی د
اصطالح کا حکم لگائیں جو سلف کے عرف میںصحیح کی اقس ام میں س ے ای ک قس م کی ط رف لوٹ تی ہے ،اور جمہ ور
علماء کے یہاں جس پر عمل واجب ہوتا ہے ،یا جس سے امام بخاری بے رغبتی برتتے ہیں اور امام مسلم اسے لے لیتے
ہیں ،وبالعکس ،تو یہ مراتب صحت کے ادنی مرتبہ میں ہے ،اور اگر اس سے بھی نیچے گر جائے تو احتجاج واس تدالل
کی حد سے خارج ہوجاتی ،اور حسن اور ضعیف کے درمیان متجاذب قسم بن جاتی ہے ،تو ابو داود کی کتاب السنن میں :
-۱سب سے اونچا درجہ ان روایات کا ہے جن کی تخریج بخاری ومسلم دونوں نے کی ہے ،اور جو تقریب ا ً نص ف کت اب
14
کورس :م طالعہ حدی ث()4622
خ
سمسٹ ر :زاں2021 ،ء
تمل ہے۔ ر مش پ
-۲اس کے بعد وہ حدیثیں ہیں جن کی تخریج بخاری ومسلم (شیخین) میں سے کسی ای ک نے کی ،اور دوس رے نے نہیں
کی ہے۔
-۳پھر اس کے بعد وہ روایات ہیں جن کو بخاری ومسلم (شیخین) نے روایت نہیں کیا ،اور وہ جید االس ناد ہیں اور علت
وظ ہیں۔ ے محف ذوذ س وش
-۴پھر وہ روایات ہیں جس کی اسناد صالح ہے ،اور علماء نے ان کو دو ی ا اس س ے زی ادہ ض عیف ط رق س ے ٓانے کی
وجہ س ے قب ول ک ر لیا ہے کہ ان میں س ے ہ ر س ند دوس رے کے ل ئے تق ویت ک ا ب اعث ہے۔
-۵پھراس کے بعد وہ احادیث ہیں جن کی سندوں کا ضعف رواۃ کے حفظ میں کمی کی وجہ سے ہے ،ایس ی اح ادیث ک و
اتے ہیں۔ کوت اختیار فرم رس ثر اس پ ر لیتے ہیں اور اک ول ک و داود قب اب
-۶ان کے بعد سب سے ٓاخری درجہ ان احادیث کا ہے جن کے رواۃ کا ضعف واضح ہوتاہے ،ایسی روایت وں پ ر وہ ع ام
تے ہیں۔ ر کردی عف ذک اض تے ہیں ،ان ک اموش نہیں رہ ےخ ور س ط
-۷اور اگ رکبھی خ اموش رہ تے بھی ہیں ت و اس کی وجہ اس کے ض عف کی ش ہرت و نک ارت ہ وتی ہے ،وہللا اعلم‘‘
16
کورس :م طالعہ حدی ث()4622
ٹ خ
ن ٹ ن 2021ء زاں، سمس ر : غ
ض ہ ہ ھ گ ن ن س جم ت .1ن ی ن د کا ورا ن ہ ہ ون ا ب
ے ب لکہ ے ج ب کہ ای سا روری تہی ں ہ ے و یچا ی ن 8 الزمی د ی کہ ں ی ہ ےی ھ ہ لوگ ھ ک چ ے، ہ ا ت ن ب اعث ب کا ےص ھی پ
ن گھ ٹ ئ ین ن ہت س ن ن ن ن ض ٹ
ے کام کے لحاظ سےنجس طح پر ال تا چ اے ہ ی ں لے آ ی ں ع ی روزا ہ ن وں کا عی ن کری ں کہ ے -ی د کو پا ہ روری ا سو ق ب طا م کے ن ی رو
غ ق ن ن تن ن
ے کری ں گے و مزاج می ں چ ڑچ ڑا پ ن اور صہ پ ی داہ وگا- ت زی ادہ او نپریچ ے ،پ ھر اس کے م طابق ی د پوری کری ں ،اگر و ا اسو ا
ت ب غ خت ت ن ن ہغ ن
ن
ے، ے اس سے ھی صہ مر ا ہ ے -ا سان ج ب اپ ی ج ان پر ج بر ی ا س ی کر ا ہ .2صہ آے کی دوسری ب ڑی وج ہ ورزش تکا ہ کر ا ہ
ت ن
ت ن - ے ہ ا و ہ دا ی پ کامح یک و کہ ورزش سے وج ود می ں طب عی طور پر اس
.3غ صہ کی ا ک و ہ آدمی کا اپ نی سوچ کو م ت ن ہ رک ن ا ب ھی ے-م ف ی سوچ ان سان کو ش ر کی ان
ے جس سے اس ج ہ ی ا لے ب ج ہ ھ ثب یت ج
ک ست ب غ ن ن پہ ت ن غ
ے- ہ ی ک آ می ں یم صہ ھی سے ے ڈا عادت کی ے کر الش لو ت م ں
ہ ہ ی ی ثب م ز چ ر ے- ا و ہ دا پ صہ کے ا در
ت ق سجم ن ش ن ت ل ت ت ن ی غ
ے کہ ہ مارے ان در احساس بر ری آج ا ا ہ ہ ب
ےہیں ے سے ح ی ر ھ ا روع تکر دی ے ،ت م مخ الف کو اپ ِ .4صہ آے کی ای ک وج ہ کب ر ھی ہ
ن ن ن ن ن غ ن کن ن ن
ےا در ے ،و اپ ے برابر ج ا ت ا ہ ے،وہ دوسروں کو اپ عت می ں رمی کا ع صر الب آج ا ا ہ ے والے ئکی طب ی ھ ن زی و ا کساری ر ے مزاج می ں عاج ج ب کہ انپ
ست غ
نف ت ے- ہ عج ز وا کسارین پ ی دا کرے سے ب ھی صہ می ں کمی ال ی ج ا ک ی
ق ت غ شن ع ف
ساس محرومی اور گز ت ہ ز دگی کے لخ وا عات س ی ا ی دب اؤ پ ی دا
ش ن
ا ے- ھی ے کی ا ک و ہ ذہ نی د اؤ ب ص ں م ی رو کی ات
ق ف ب ت ہ ح ِ ج ف ی ی تِ لم ی
س .5
ن ن ش ن
ے ا راد کو اپ ی ز دگی کے وا عات لکھ ن ا چ اہ ی ی ں اور ی ہ ب ھی ے،ایس کرے ہ ی ں اس ذ ی دب ضاؤ کی وج ہ سے ا راد کا ب لڈ پری قر زی ادہ ی ا کم ہ و ا رہ ت ا ہ
ہ
ق مست
ے ا دامات کر سکت ا ہ وں ج ن سے ان محرو یم وں کا ازالہ ممکن ے اور می ں ب ل می ں ب ہت سے ایس ے کہ ی ہ سب ما ی کا حصہ ہ ل کھ ن ا چ ا ہ ی
ے- ہ
ن ن ُت تق ت ق ت ن ش خ ن ن
ے ج ا و عات وابس ہ کر لی ن ا جغ ب کہ وہ ان و تعات پر پورا ہ ا رے-ا سان سے ب ے ا در ال محدود واہ ات کو پ ی دا کر لی ن ا ی اکسی ا سان .6اغپ
ن ش خ ن خ ق ق ت ن
ے- ےمی ں کمی آ ی ے سے ب ھی ص ے کو اب ھار ا ے -ح ی ت پ س ن دی کو ا ت ار کرے اور واہ ات کو حدود رک کے ا در ص
ہ
ن ن ھ م ی ہ غ
ن ن ن
ے ج و اس ے سر ہی ں یل ی چ اہ ی ے-آدمی کو ای سی ذمہت داری پا نی ہ غ ا ن ل لے مے ذ ے ا ھ
ی ج پ و ب ادہ ز سے ود ج و ے ا
ج پہ و ڑی ب اور ک ی ا کی ے ص .7
ن ئ ت ً ق
قن ے- ہ ک
ے می ںخ تمی آ یئ ے سے ب ھی ص ک
کاموں می ں ائعت دال ر ھ ے پ ئ م ت تس ال لوار کی مان ن د لٹ ک ج اے ،ا کے ک ن دھوں پر
ن غ خ ت ق غ
ج ب صہ آے و اس و ت کون کون سی اہ فم ًدابیر ا ت ی ار کی ج ا ی ں ج ن سے ہ مارے ا در صہ م ہ و ج اے اور ہ م کسی ب ڑے صان سے
ن ب ئ
ے: چ ج ا ی ں؟اس حوالے سے م ن درج ہ ذی ل امور پر ورا عمل کر ا چ اہ ی
ئ ت ٹ ئ ت ق غ
ے ہ وں و لی ٹ ج ا ی ں- ے کے و ت کھڑے ہ وں و ب ی ٹھ ج ا ی ں ،ب ی ھ .1ص
غ ئ تف ً ض
.2صہ آے و ورا و و کر لی ں-
ف ً ش ت ض ن ت غ
ج
ے ح ور ب ی کری م(ﷺ) کے ج ویز کردہ لمات’’ اعوذب اہللا من ال ی طان الر ی م “ ورا پڑھ لی ں- ک ے کے لی ے کے خ ا م .3ص
ٹ ت ن ت ن ئ
ے حساب کے ب ارے می ں سوچ ن ا ،ال ی گن ی گ ن ا- ے ج ذب ا ی ہی ں ہ ی ں ،ج ی س ے مسا ل کے ب ارے می ں سوچ ن ا ج و آپ کے لی .4ایس
ن ش غ
ے اور گہرے سا س لی ں - ے می ں ل بم .5دی د ص
ئ ف ش ت ق ت غ
ے والی ج گہ چ ھوڑ دی ں ،اگر کسی ن گ م ام پر موج ود ہ ی ں و ک ادہ ج گہ ی ا کھلی ض ا می ں آج ا ی ں - .6ص
ش ظ
ے آسمان کی طرف دی کھ ن ا- .7دور کے م ن ا ر کی طرف دی کھ ن ا روع کر دی ں ج ی س
17