You are on page 1of 21

‫‪ANS 01‬‬

‫وتعالی نے حضرت آدم علیہ الس الم س ے لے ک ر آخ ری ن بی حض رت محم د ص لى هللا علي ه وس لم ت ک‬


‫ٰ‬ ‫ہللا تبارک‬
‫ہزاروں نبیوں و رسولوں کو اپنی کتاب اور اپنے احکام سے نوازااور انہیں انس انیت کی ہ دایت کے ل یے دنیا میں بھیج ا۔‬
‫باوجود اس کے دنیا میں تہذیب وتم دن اور علم وفن کی ت رقی نہیں ہ وئی اور وہ جہ الت ہی میں مبتال رہی۔ان کت ابوں نے‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا کہ ان میں دنیا کی تمام چیزوں کو جمع کردیاگیا ہے۔ انبیا ِء سابقین پ ر ن ازل کت اب‬ ‫اور نہ ان کے حاملین نے یہ‬
‫اور ان کی تعلیمات کو مخصوص خطہ ‪،‬محدود افراداور ایک خاص عہد تک کے لیے موثر قرار دیتے ہ وے عالمہ س ید‬
‫سلیمان ندوی رحمة هللا عليه لکھتے ہیں‪:‬‬
‫”تورات کے تمام انبیاء ملک عراق یا ملک شام یا ملک مصر سے آگے نہیں بڑھے‪،‬یعنی اپ نے وطن میں جہ اں وہ‬
‫رہتے تھے محدود رہے اور اپنی نسل و قوم کے سوا غیروں ک و انہ وں نے آواز نہیں دی۔ زی ادہ ت ر ان کی کوشش وں ک ا‬
‫مرکز صرف اسرائیل کا خان دان رہ ا۔ع رب کے ق دیم انبیاء بھی اپ نی اپ نی قوم وں کے ذمہ دار تھے‪،‬وہ ب اہر نہیں گ ئے۔‬
‫عیسی کے مکتب میں بھی غیر اسرائیلی طالب علم کا وجود نہ تھا‪،‬وہ صرف اسرائیل کی کھوئی ہ وئی بھ یڑیوں‬
‫ٰ‬ ‫حضرت‬
‫کی تالش میں تھے(متی‪،‬باب‪،۷:‬آیت‪ )۲۴:‬اور غیروں کو تعلیم دے کر وہ بچوں کی روٹی کت وں کے آگے ڈالن ا پس ند نہیں‬
‫کرتے تھے۔ (انجیل) ہندوستان کے داعی پاک آریہ ورت سے باہر جانے کا خیال بھی دل میں نہیں الس کتے تھے‪،‬اگ رچہ‬
‫یرووں ک ا‬
‫ٴ‬ ‫بدھ کے پیرو بادشاہوں نے اس کے پیغام کو باہر کی قوموں تک پہنچایا‪،‬مگر یہ عیسائیوں کی طرح بع د کے پ‬
‫فعل تھا ‪ ،‬جو داعی مذہب کی سیرت اس عالم گیر جامعت کی مثال سے خالی ہے۔“(‪)۱‬‬
‫اس کے برعکس نبی صلى هللا عليه وسلم پر جو کتاب نازل ہوئی اس کا اعجاز وامتیاز اور دع ٰ‬
‫وی ہے کہ یہ کت اب‬
‫الی نے‬
‫رہتی دنیا تک اور پوری انسانیت کے لیے ہدایت ورحمت ہے۔ اس میں دنیا کے تمام عل وم ک ا ذک ر ہے اور ہللا تع ٰ‬
‫اسے دوسروں تک پہنچانے کا حکم دیا ہے ۔ اس کے رسول صلى هللا عليه وسلم نے بھی بہ ذات خود اس کی اشاعت میں‬
‫بڑی دل چسپی لی ۔ قرآن کہتا ہے‪:‬‬
‫َاب تِ ْبیَانا ً لِّ ُک ِّل َش ْْی ٍء َوہُدًی َو َرحْ َمةً َوبُ ْش َری لِ ْل ُم ْسلِ ِم ْینَ ‪( “.‬النحل‪)۸۹:‬‬ ‫” َونَ َّز ْلنَا َعلَ ْْی َ‬
‫ک ْال ِکت َ‬
‫(اے نبی صلى هللا عليه وسلم ! ہم نے آپ پر جو کتاب نازل کی ہے اس میں ہرچیز کو بیان کردی ا ہے اور اس میں‬
‫رحمت وہدایت ہے اور مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہے۔)‬

‫‪1‬‬
‫الی نے انس انیت کی ہ دایت اور اس کے ل یے ش ب وروز گ زارنے کے‬
‫ق رآن مق دس میں جگہ جگہ ہللا تب ارک وتع ٰ‬
‫اصول بیان کیے ہیں ۔ انسانیت کی خوبیوں کو آش کارا کیا ہے اور خ امیوں کی نش ان دہی کی ہے۔ ج و بھی اس پ ر عم ل‬
‫کرے گا اور اس سے استفادہ کرے گا وہ دین و دنیاکی کامیابی سے ہم کنار ہوگااورجو اس کی خالف ورزی کرے گ ا وہ‬
‫ناکام ونامراد ہوگا۔‬
‫حضور صلى هللا عليه وسلم کو جب نبوت کے منصب عظیم سے نوازا گیا ‪،‬اس وقت جزی رة الع رب کی کیا ح الت‬
‫تھی؟ قتل وغارت گری‪ ،‬چوری‪ ،‬ڈکیتی ‪،‬قتل اوالد‪ ،‬زنا‪،‬بت پرستی کون سی ایسی برائی تھی جو ان میں پائی نہ ج اتی ہ و۔‬
‫بعضے وقت بڑے فخریہ انداز میں اسے نجام دیاجاتا تھا۔ ہللا کے رسول نے ان کی تعلیم و تربیت اس ان داز س ے کی اور‬
‫زندگی گزارنے کے ایسے اصول بتائے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی حالت یکسر بدل گئی اور تہذیبی قدروں سے آش نا‬
‫ہوگئے۔ جہاں اور جدھر دیکھیے لوگ تعلیم وتعلم سے جڑ گئے اور قرآن وحدیث کی افہام وتفہیم میں مشغول ہوگئے۔ اس‬
‫کے لیے باضابطہ ہللا کے رسول نے مسجد نبوی میں ایک مقام کو خاص کردیا ‪،‬جسے صفہ کہا جاتا تھا۔اس میں ص حابہ‬
‫کرام فروکش ہوتے اور علم وعمل کی دولت س ے م اال م ال ہ وتے۔ اس کے عالوہ بھی م دینہ میں اور مس جدیں تھیں جن‬
‫میں صحابہ کرام کی تعلیم و تربیت کا انتظام تھا۔ یہاں سے فیض ان نب وت حاص ل ک رکے یہ حض رات دور دراز مق ام پ ر‬
‫پہنچے اور دوسروں کو علوم نبوت سے ماالمال کیا۔ کون کہہ سکتا تھا کہ عرب جیس ی اج ڈ ق وم ات نی جل د علم و تہ ذیب‬
‫سے اس طرح آراس تہ وپیراس تہ ہوج ائے گی کہ ل وگ اس کی تقلید ک رنے لگیں گے اور دنیا اس روش نی س ے معم ور‬
‫ہوجائے گی۔ یہ کارنامہ تھا ہللا کے رسول کا اور ان کے فیوض و برکات کا جس کی نظیر نہیں ملتی۔جیساکہ دنیا پر عہ د‬
‫نبوی کے تعلیمی اثرات کا جائزہ لیتے ہوے ایک دانش ور لکھتے ہیں‪:‬‬
‫”عرب میں چھٹی صدی عیسوی میں اسالم سے علم وحکمت کا نیا باب ش روع ہ وا‪،‬جس نے پن درہویں ص دی ت ک‬
‫ایشیاء‪ ،‬افریقہ اور مغربی یورپ کو دنیا کے نقشہ پر انقالب آف ریں خطہ بنادی ااور علم وحکمت کی فص ل گ ل س ے پ ورا‬
‫خطہ چمن زار ہوگیا۔ باآلخر ہر چہار سو خوش حالی ‪ ،‬امن و آشتی اور باد بہاری کی خوش گواری س ے اہ ل ی ورپ بھی‬
‫وسطی کہالیا۔ اس عہد کی ابتدا ء میں کہ تے ہیں ق رطبہ اور بغ داد دنیا کی عظیم ت رین دانش گ اہ‬
‫ٰ‬ ‫بیدار ہوے۔ یہ عہد عہد‬
‫مانی جاتی تھی۔ قدیم علمی ذخیروں کی تالش کی گئی اور یونان‪ ،‬مصر‪،‬روم اور ہند کی نایاب کت ابوں ک ا ت رجمہ ک رکے‬
‫ان علمی سرمایوں کو ضائع ہونے سے بچالیا۔ مسلم خلفا ء و سالطین نے اپ نی نوازش وں س ے علم کی خ دمت پ ر م امور‬
‫دنیا بھ ر کے دانش وروں اور م اہرین فن کی سرپرس تی کی جنہ وں نے علم و حکمت میں گ راں م ایہ کارن امے انج ام‬
‫دیے۔“(‪)۲‬‬
‫اہل علم کی فضیلت‬
‫‪ ‬نبی اکرم کو جس دین سے نوازا گیا ‪،‬اس کی ابتدا ہی تعلیم ہوئی۔غارحرا میں سب س ے پہلی ج و وحی ن ازل ہ وئی‬
‫وہ سورہ علق کی ابتدائی چند آیتیں ہیں ‪،‬جن میں نبی امی کو کہا گیا ‪:‬‬
‫نس انَ َم ا لَ ْم‬ ‫ق‪ .‬ا ْق َر ْأ َو َرب َ‬
‫ُّک اأْل َ ْک َر ُم‪ .‬الَّ ِذیْ عَلَّ َم بِ ْالقَلَ ِم‪ .‬عَلَّ َم اإْل ِ َ‬ ‫ِّک الَّ ِذیْ َخلَ قَ‪ .‬خَ لَ َ‬
‫ق اإْل ِ َ‬
‫نس انَ ِم ْن َعلَ ٍ‬ ‫”ا ْق َر ْأ بِ ْ‬
‫اس ِم َرب َ‬
‫یَ ْعلَم‪(“.‬العلق‪)۵-۱:‬‬

‫‪2‬‬
‫(پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے سب کو پیدا کیا۔ پیدا کیا اس نے انس ان ک و خ ون کے ل وتھڑے س ے ۔ پ ڑھ ‪،‬‬
‫تیرارب بڑا کریم ہے۔ جس نے سکھایا علم قلم کے زیعہ۔ اس چیز کا علم دیا انسان کو جو وہ نہیں جانتا ۔)‬
‫علم کے ذریعہ ہی آدمی ایمان ویقین کی دنیا آباد کرتا ہے ‪،‬بھٹکے ہوے لوگوں کو س یدھا راس تہ دکھات ا ہے‪ ،‬ب روں‬
‫کو اچھا بناتا ہے‪ ،‬دشمن کو دوست بناتاہے ‪ ،‬بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن وام ان کی فض اء پیدا کرت ا ہے ۔‬
‫یہی وجہ ہے کہ حاملین علم کی قرآن وحدیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اسے دنیوی و اخروی بشارتوں سے‬
‫نوازاگیا ہے۔ قرآن کہتا ہے‪:‬‬
‫”یَرْ فَ ِع ہَّللا ُ الَّ ِذ ْینَ آ َمنُوا ِمن ُک ْم َوالَّ ِذ ْینَ أُوتُوا ْال ِع ْل َم َد َر َجا ٍ‬
‫ت َوہَّللا ُ بِ َما تَ ْع َملُونَ َخبِ ْیرٌ‪(“.‬المجادلہ‪)۱۱:‬‬
‫(تم میں سے جو لوگ ایمان الئے اور جن کو علم عطا ہواہے ‪،‬ہللا اس کے درجات بلند فرم ائے گ ا اورج و عم ل تم‬
‫کرتے ہو اس سے ہللا باخبر ہے۔)‬
‫دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے‪:‬‬
‫”قُلْ ہَلْ یَ ْست َِویْ الَّ ِذ ْینَ یَ ْعلَ ُمونَ َوالَّ ِذ ْینَ اَل یَ ْعلَ ُمونَ إِنَّ َما یَتَ َذ َّک ُر أُوْ لُوا اأْل َ ْلبَاب‪( “.‬الزمر‪)۹:‬‬
‫(اے نبی‪،‬کہہ دیجیے کیاعلم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے (جاہل) براب ر ہوس کتے ہیں۔نص یحت ت و‬
‫وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔)‬
‫وتعالی فرماتا ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫تاریکی اور روشنی کی مثال دے کر عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیاہے۔ ہللا تبارک‬
‫ص ْی ُر أَ ْم ہَلْ تَ ْست َِویْ ُّ‬
‫الظلُ َم ُ‬
‫ات َوالنُّور‪(“.‬الرعد‪)۱۶:‬‬ ‫”قُلْ ہَلْ یَ ْست َِویْ األَ ْع َمی َو ْالبَ ِ‬
‫(کہہ دیجیے‪،‬کیا برابر ہوس کتے ہیں ان دھا(جاہ ل) اور دیکھ نے واال(ع الم) ی ا کہیں براب ر ہوس کتا ہے ان دھیرا اور‬
‫اجاال۔)‬
‫اس طرح کی بہت ساری آیتیں ہیں جن میں عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیا ہے اور ان کے درج ات کے‬
‫تعین کے ساتھ مسلمانوں کو حصول علم کے لیے ابھارا گیا ہے۔‬
‫‪ ‬اس سلسلے میں کثرت سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جن میں اہل علم کی ستائش کی گئی ہے اور انہیں انس انیت‬
‫کا سب سے اچھا آدمی قرار دیا گیا ہے۔ ہللا کے رسول فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ض لِی َعلَی اَ ْدنَ ا ُک ْم‪ ،‬ثُ َّم قَ ا َل َر ُس و ُل ہّٰللا ِ ص لى هللا علي ه وس لم‪ :‬اِ َّن ہّٰللا َ َو َماَل ئِ َکتَہُ َوا ْھ َل‬‫ض ُل ْال َع الِ ِم َعلَی ْالعابِ ِد ‪َ ،‬کفَ ْ‬‫” َوفَ ْ‬
‫اس ْالخَ ی َْر‪)۳(“.‬‬ ‫ض ْینَ َحتَّی النَّ ْملَةَ فِی جُحْ ِرھَا َو َحتَّی ْالحُوْ تَ لَیُ َ‬
‫صلُّوْ نَ عَلی ُم َعلِّ ِم النَّ ِ‬ ‫ت َو ااْل َرْ ِ‬
‫السَّمٰ َوا ِ‬
‫(اورعاب د پ ر ع الم کی فض یلت ایس ی ہے جیس ے م یری فض یلت تم میں س ے ادنی پ ر۔ یقین ا ہللا عزوج ل ‪،‬اس کے‬
‫حتی کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی ت ک لوگ وں کے معلم کے ل یے بھالئی کی‬
‫فرشتے اور آسمان وزمین والے ٰ‬
‫دعاء کرتی ہیں۔)‬
‫ایک دوسرے حدیث کے راوی حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہ ہیں ‪،‬وہ بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫عض ُح َج ِر ِہ‪ ،‬فَ َدخَ َل ْال َم ْس ِجدَ‪ ،‬فَ اِ َذا ھُ َو بِ َح ْلقَتَ ْی ِن‪ :‬اِحْ داھُ َما یَق َر ٴُون‬ ‫ہّٰللا‬
‫”خ ََر َج َرسُوْ ُل ِ صلى هللا عليه وس لم َذاتَ یَ وْ ٍم ِمن بَ ِ‬
‫ی‪ُ :‬ک ٌّل عَلی َخ ْی ٍر‪ٰ ،‬ھ ٴُواَل ِء یَقُ َر ٴُونَ ْالقُ رْ آنَ َویَ ْد ُعوْ نَ ہّٰللا ‪ ،‬فَ اِ ْن َش ا َء‬ ‫ہّٰللا‬
‫الُقُرْ آنَ َویَ ْد ُعوْ نَ ‪َ ،‬وااْل ُ ْخ َری یَتَ َعلَّ ُم ونَ َویُ َعلِّ ُم ونَ ‪ .‬فَقَ َ‬
‫ال النَّبِ ُ‬
‫اَ ْعطَاھُ ْم َواِ ْن َشا َء َمنَ َعھُ ْم‪َ ،‬و ٰھ ٴواَل ِء یَتَ َعلَّ ُموْ نَ َویُ َعلِّ ُموْ نَ ‪َ ،‬واِنَّ ّما بُ ِع ْث ُ‬
‫ت ُم َعلِّماً‪ ،‬فَ َجلَ َ‬
‫س َم َعھُ ْم‪)۴(“.‬‬

‫‪3‬‬
‫(ایک دن رسول ہللا اپنے حجرے سے باہر تشریف الئے اور مس جد (نب وی) میں داخ ل ہ وے‪،‬وہ اں دوحلقے بیٹھے‬
‫ہوے تھے‪،‬ایک حلقہ قرآن کی تالوت کررہا تھا اورہللا سے دعاء کررہا تھا‪،‬دوسرا تعلیم وتعلم کا کام سرانجام دے رہا تھا۔‬
‫آپ نے فرمایا‪ :‬دونوں بھالئی پر ہیں۔ یہ حلقہ قرآن پڑھ رہا ہے اور ہللا سے دع اء کررہ اہے ۔ ہللا چ اہے ت و اس کی دع اء‬
‫قبول فرمائے ‪ ،‬یا نہ فرمائے۔دوسرا حلقہ تعلیم وتعلم میں مشغول ہے (یہ زیادہ بہتر ہے) اور میں تو معلم بناکر بھیج ا گیا‬
‫ہوں۔ پھر یہیں بیٹھ گئے۔)‬
‫اہل علم کاصرف یہی مقام ومرتبہ نہیں ہے کہ اسے دنیا کی تمام چیزوں پر فضیلت دی گئی ہے اور اس کام میں وہ‬
‫تعالی کی تمام مخلوق اس کے لیے دعاء کرتی رہتی ہے‪،‬بلکہ اس کا مقام وم رتبہ یہ بھی ہے‬
‫ٰ‬ ‫جب تک مصروف ہیں ‪ ،‬ہللا‬
‫کہ ہللا کے رسول نے انہیں انبیاء کا وارث اور جانشین قرار دیا ہے ‪:‬‬
‫ب ْال ِع ْل ِم‪َ ،‬واِ َّن‬ ‫” م ْن سلَک طَریْقا ً ی ْبتَغی ف ْیہ ع ْلما ً سلَ ہّٰللا‬
‫ک ُ بِہ طَ ِریْقا ً اَلَی ْال َجنَّ ِة‪َ ،‬واِ َّن ْال َمالئِ َکةَ لَت َ‬
‫َض ُع اَجنِحْ تَھَا َرضًی لَطَ الِ ِ‬ ‫َ َ‬ ‫َ َ َ ِ َ ِ ِ ِ ِ‬
‫ض َحتَّی ْال ِحیتَانُ فَی ْال َما ِء‪َ ،‬وفَضْ ُل ْال َعالِم َعلَی ْال َعابِ ِد‪َ ،‬کفَضْ ِل ْالقَ َم ِر َعلَی َس ائِ ِر‬ ‫ت َو َم ْن فِی ااْل َرْ ِ‬‫ْال َعالِ َم لَیَ ْستَ ْغفِ ُر لَہُ َم ْن فِی ال َّس َموا ِ‬
‫ان ْالع ُْل َم ا َء َو َرثَ ةُ ااْل َ ْنبِیَ ا ِء‪ ،‬اِ َّن ااْل َ ْنبِیَ ا َء لَ ْم یُ َورِّ ثُ وْ ا ِد ْینَ ارًا َواَل ِدرْ ھَم اً‪ ،‬اِنَّ َم ا َو َّرثُ وا ْال ِع ْل َم‪ ،‬فَ َم ْن اَخَ َذ بِہ فَقَ ْد اَخَ َذ بِ َح ظّ‬ ‫ْال َک َوا ِک ِ‬
‫ب‪َّ ،‬‬
‫َوافَ ٍر‪)۵(“.‬‬
‫(جو کوئی حصول علم کی غرض سے راستہ طے کرے تو خدا اس کے س بب اس ے جنت کی ای ک راہ چالت ا ہے۔‬
‫فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں اور یقین ا ع الم کے ل یے آس مان اور زمین کی تم ام چ یزیں‬
‫مغفرت طلب کرتی ہیں‪،‬یہاں تک کہ وہ مچھلیاں بھی جو پانی میں ہیں ۔ عابد پر عالم کو ایسی فض یلت حاص ل ہے جیس ی‬
‫چاند کو تم ام ت اروں پ ر۔بالش بہ علم اء ہی پیغم بروں کے وارث ہیں۔پیغم بروں نے ت رکہ میں نہ دین ار چھ وڑا ہے اور نہ‬
‫درہم ۔ انہوں نے تو صرف علم کو اپنے ترکہ میں چھوڑا۔ پس جس کسی نے علم حاصل کیا اس نے ہی حصہ کامل پایا۔)‬
‫علم کا دائرہ بہت وسیع ہے‬
‫قرآن میں جہاں بھی علم کا تذکرہ کیا گیا ہے ‪،‬بیش تر مقامات پر مطلق علم کاذکر ہوا ہے۔ اس سے معل وم ہوت ا ہے‬
‫کہ علم اپنی ذات کے اعتبار سے ال محدود ہے اور اسالم نے اس کی المحدودیت کو برقرار رکھتے ہوے حکم دیا ہے کہ‬
‫علم حاصل کرو۔حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫ہّٰللا‬
‫ضةٌ عَا ِدلَةٌ‪(“.‬‬ ‫”قَا َل َرسُوْ ُل ِ صلى هللا عليه وسلم اَ ْل ِع ْل ُم ثَالثَةٌ‪ :‬فَ َما َو َرا َء ٰذلِ َ‬
‫ک فَھُ َو فَضْ لٌ‪ ،‬آیَةٌ ُمحْ َک َمةٌ‪ ،‬اَوْ ُسنَّةٌ قَائِ َمةٌ اَوْ فَ ِر ْی َ‬
‫‪)۶‬‬
‫(ہللا کے رسول صلى هللا عليه وسلم نے فرمایا ‪:‬علم تین ہیں‪:‬آیت محکمہ‪،‬سنت قائمہ اور فریضہٴ ع ادلہ‪،‬اس کے س وا‬
‫جو کچھ بھی ہے وہ زائد ہے۔)‬
‫ایک دوسری حدیث میں جو تفصیل آئی ہے ‪،‬اس سے بھی یہی واضح ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا‪:‬‬
‫ض ْع ِع ْل ِم ْی فِ ْی ُک ْم اِل َع ِّذبَ ُک ْم‪ْ ،‬اذھَبُ وْ ا فَقَ ْد‬ ‫ث ہّٰللا ُ ْال ِعبَا َد یَوْ َم ْالقِیَا َم ِة‪ ،‬ثُ َّم یُ َمیِّ ُز ْال ُعلَ َم ا َء فَیَقُ وْ لُ‪ :‬یَ ا َمع َ‬
‫ْش َر ْال ُعلَ َم ا ِء اِنِّی لَ ْم اَ َ‬ ‫”یَ ْب َع ُ‬
‫ت لَ ُک ْم‪)۷(“.‬‬
‫َغفَرْ ُ‬
‫تعالی لوگوں کو زندہ کرے گا اور اس میں علماء کو ممتاز کرے گا اور فرم ائے گ ا اے پ ڑھے‬
‫ٰ‬ ‫(قیامت کے دن ہللا‬
‫‪،‬جاو تم سب کی مغفرت کردی۔)‬
‫لکھے لوگو!میں نے اپنا علم تمہارے اندر اس لیے نہیں رکھا کہ میں تمہیں عذاب دوں ٴ‬

‫‪4‬‬
‫عالم کہتے ہی ہیں پڑھے لکھے لوگوں کو ‪،‬چاہے اس نے قرآن کی تعلیم حاصل کی ہو یا حدیث کی‪ ،‬فقہ کی کی ہو‬
‫یا کالم ومنطق کی ۔ سائنس کی ڈگری لی ہو یا میڈیکل سائنس کی ۔ نیچرل سائنس پڑھ اہو ی اآرٹس کے مض امین ۔ س ارے‬
‫کے سارے پڑھے لکھے لوگوں میں شمار کیے جائیں گے۔ یہ ایسی چ یز ہے ج و انس ان ک و ہمیش ہ ک ام آئے گی‪ ،‬مقص د‬
‫نیک ہو اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے تو اس کی بدولت وہ دین ودنیا کی س اری نعمت اور دولت حاص ل کرس کتا‬
‫ہے۔‬
‫‪ ‬قرآن میں متعدد مقامات پر اہل ایمان کوعلم حاصل کرنے کا حکم دی ا گیا ہے‪ ،‬اس میں دی نی عل وم بھی ش امل ہیں‬
‫اورسائنسی علوم بھی۔ بلکہ ان آیات کی تالوت کی جائے تویہ واضح ہوتا ہے کہ آج ہم جن چ یزوں کوس ائنس وٹکن الوجی‬
‫کاعلم کہتے ہیں‪،‬اسکے حصول پر خاص طور سے توجہ دالئی گئی ہے۔ جگہ جگہ فرمایاگیاہے‪ :‬تم اپ نی ص الحیتوں ک و‬
‫کام میں کیوں نہیں التے؟ تم عقل س ے ک ام کیوں نہیں لیتے؟ تم ق رآنی آی ات پرغ ور کیوں نہیں ک رتے ؟ تمہ ارے ان در‬
‫شعورکیوں نہیں ہے؟ تم سمجھ کر کیوں نہیں پڑھتے؟ میری نشانی پرغور کیوں نہیں کرتے ؟ گویاکہ قرآن مجید میں لف ظ‬
‫علم مختلف اشتقاقی صورتوں میں‪ ۷۷۸‬مرتبہ واردہواہے ۔ان سے یہ نتیجہ نکالن ا مش کل نہیں کہ ق رآن مجیدکی رو س ے‬
‫علم ک و غ یر معم ولی بلکہ ف وق الک ل اہمیت حاص ل ہے اور جب یہ لف ظ ج زوی ت رادف کے س اتھ دوس رے مرادف ات‬
‫(مثالتعقلون‪ ،‬یتدبرون‪ ،‬تفہمون‪ ،‬تشعرون‪).‬وغیرہ کے ساتھ مل کریاان کی جگہ آتاہے توان سے علم کے طریقوں‪ ،‬غ ایتوں‬
‫اورجہتوں کاپتہ چلتاہے ۔(‪)۸‬‬
‫انسان کو جس چیز سے واسطہ پڑ سکتا ہے ‪،‬اس کے حل کے لیے معلومات حاصل کرنا اور اس میں مہ ارت پیدا‬
‫تعالی نے جب پیدا کیا تو انہیں وہ تمام عل وم عط اکیے جن س ے‬
‫ٰ‬ ‫کرنا اسالم کو مطلوب ہے۔حضرت آدم علیہ السالم کو ہللا‬
‫ان کا واسطہ پڑ سکتا تھا۔قرآن کریم میں اس کی صراحت موجودہے‪:‬‬
‫َک الَ ِع ْل َم لَنَ ا‬
‫وا ُسب َْحان َ‬ ‫صا ِدقِیْن‪ .‬قَالُ ْ‬ ‫ضہُ ْم َعلَی ْال َمالَئِ َک ِة فَقَا َل أَنبِئُونِ ْی بِأ َ ْس َماء ہَؤُالء إِن ُکنتُ ْم َ‬ ‫” َوعَلَّ َم آ َد َم األَ ْس َماء ُکلَّہَا ثُ َّم ع ََر َ‬
‫ت‬
‫الس َم َوا ِ‬ ‫ب َّ‬ ‫ال أَلَ ْم أَقُ ل لَّ ُک ْم إِنِّ ْی أَ ْعلَ ُم َغ ْْی َ‬
‫ال یَ ا آ َد ُم أَنبِ ْئہُم بِأ َ ْس َمآئِ ِہ ْم فَلَ َّما أَنبَ أَہُ ْم بِأ َ ْس َمآئِ ِہ ْم قَ َ‬
‫ک أَنتَ ْال َعلِ ْی ُم ْال َح ِک ْی ُم‪ .‬قَ َ‬
‫إِالَّ َما عَلَّ ْمتَنَا إِنَّ َ‬
‫ض َوأَ ْعلَ ُم َما تُ ْب ُدونَ َو َما ُکنتُ ْم تَ ْکتُ ُمونَ ‪( “.‬البقرہ‪)۳۱:‬‬
‫َواألَرْ ِ‬
‫تعالی نے آدم کو تمام چیزوں کے نام اور پھر سامنے کیا ان س ب چ یزوں کوفرش توں کے‪،‬پھ ر ہللا‬
‫ٰ‬ ‫(اور سکھایا ہللا‬
‫بتاو مجھ کو ان کے نام اگر تم س چے(ج انتے) ہ و؟فرش توں نے کہ ا‪ :‬ت یری ذات پ اک ہے ‪،‬ہم ک و نہیں‬
‫نے فرمایا ان سے ٴ‬
‫معلوم‪ ،‬مگر جتنا تونے مجھے علم دیا ہے۔ بے ش ک ت و ہی ہے اص ل ج اننے واال اور حکمت واال۔ پھ ر ہللا نے آدم س ے‬
‫بتاو تم ان کو ان چیزوں کے نام ۔ جب انہوں نے بتادیا ان کے نام ‪،‬توہللا نے فرش توں س ے کہ ا‪ :‬کیا میں نے تم س ے‬
‫کہا‪ :‬ٴ‬
‫نہیں کہا تھا کہ میں خوب جانتا ہوں ان چیزوں کو جو آسمان و زمیں میں چھپی ہ وئی ہیں اور میں یہ بھی جانت ا ہ وں ج و‬
‫ظاہر ہے اور جو چیز چھپی ہوئی ہے۔)‬
‫حکمت ودانائی کی بات مومن کی گم شدہ پونجی ہے‬
‫انسان کو جب ہللا نے اپنا خلیفہ بنایا ہے(البقرہ‪ )۲۰:‬تو ضروری ہے کہ وہ خالفت کا حق اداکرے۔یہ ک ام ایس ے ہی‬
‫انجام نہیں پائے گا۔اس کے لیے بہت سی چیزوں کی ضرور ت پڑتی ہے اور ہر طرح کے لوگ درکار ہوتے ہیں‪،‬تاکہ وہ‬
‫اپنے علم وہنر اور تجربے کی روش نی میں اور خالفت کی ض رورتوں ک و پ ورا ک ریں۔اگ ر نف ع بخش ی ک ا س امان کس ی‬

‫‪5‬‬
‫دوسری جگہ سے حاصل ہو تو یہ بھی ضروری ہے کہ اسے وہاں س ے حاص ل کیاج ائے ‪،‬اگ ر وہ اس کے حص ول میں‬
‫کوتا ہی کرے گا تو خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہوگا۔ہللا کے رسول نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے ‪:‬‬
‫ضالَّةُ ْال ُم ْٴو ِم ِن‪ ،‬فَ َحی ُ‬
‫ْث َو َج َدھَافَھ َُو اَ َح ُّ‬
‫ق بِھَا‪)۹(“.‬‬ ‫”اَ ْل َکلِ َمةُ ْال ِح ْک َمةُ َ‬
‫(حکمت ودانائی کی بات مومن کی گم شدہ پونجی ہے ‪،‬پس جہاں بھی پائے حاصل کرنا چاہیے)‬
‫حکمت کے معنی ڈکشنری میں وہی ملیں گے جو س ائنس کے مع نی ہیں۔ یع نی اش یاء اور چ یزوں کی حقیقت وں پ ر‬
‫غور کرن ا ‪،‬اس ے پہچانن ا اور س مجھنا ‪،‬اس کے خ واص اور ت اثیرات ک و معل وم ک رنے کے بع د اس ک و اپ نے ل یے اور‬
‫دوسروں کے لیے نفع بخش بنانا اور استعمال میں النا ہے۔‬
‫علم سے انسان کے اندر اخالق حمیدہ پیدا ہوتے ہیں‬
‫جب انبیا ِء سابقین کے عہد میں علم واخالق کو عمومی وسعت حاصل نہ ہوس کی ت و کیس ے ممکن تھ ا کہ دنیا میں‬
‫اخالق وکردار اور تہذیب وتمدن کا بول باالہو۔انبیاء کی آمد سے ان کے اندر کسی ق در تہ ذیبی ق دروں ک و ت رقی ض رور‬
‫ہوئی ‪،‬مگر جلدہی وہ فن ا ہوگ ئی۔اس ل یے یہ کہ ا جاس کتا ہے کہ وہ پہلے بھی جہ الت میں مبتال تھے اور بع د میں بھی یہ‬
‫صورت برقرار رہی۔ بڑے اچھے انداز میں اس نکتہ کی وضاحت کرتے ہوے عالمہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫”دنیامیں بابل واسیریا‪،‬ہندوستان وچین‪،‬مصر وشام ‪،‬یون ان وروم میں ب ڑے ب ڑے تم دن پیدا ہ وے۔اخالق کے ب ڑے‬
‫بڑے نظریے قائم کیے گئے۔ تہذیب وشائستگی کے بڑے بڑے اصول بن ائے گ ئے۔ اٹھ نے بیٹھ نے‪ ،‬کھ انے پینے‪،‬مل نے‬
‫جلنے‪،‬پہننے اوڑھنے‪ ،‬رہنے سہنے‪،‬سونے ج اگنے‪ ،‬ش ادی بیاہ‪،‬م رنے جینے‪ ،‬غم ومس رت‪ ،‬دع وت ومالق ات‪،‬مص افحہ‬
‫وسالم ‪،‬غسل و طہارت‪ ،‬عیادت وتع زیت‪ ،‬تبری ک وتہ نیت‪ ،‬دفن وکفن کے بہت س ے رس وم ‪ ،‬آداب ‪ ،‬ش رائط اور ہ دایات‬
‫مرتب ہوے اور ان سے ان قوموں کی تہذیب‪ ،‬تمدن‪ ،‬اور معاشرت کے اصول بنائے گئے۔ یہ اصول صدہا س ال میں ب نے‬
‫پھر بھی بگڑ گئے۔صدیوں میں ان کی تعمیر ہوئی تاہم وہ فنا ہوگئے۔“(‪)۱۰‬‬
‫لیکن قرآن ‪ ،‬پیغمبر عربی صلى هللا عليه وسلم نے ص الح معاش رہ کی تعم یر وتش کیل ک ا ج ودرس دی ا وہ اس وقت‬
‫سے لے کر آج تک اپنی اصل صورت میں برقرار ہے اور جب تک مسلمانوں کے اندر دینی وعلمی روح زن دہ رہے گی‬
‫‪،‬دنیا میں اخالقی اقدار کی باال دستی رہے گی۔ مسلمانوں کا فریض ہ ہے کہ وہ خودک و اخالق ک ا نم ونہ بن ائیں ۔ گھ ر میں‬
‫ہوں یا بازار میں‪ ،‬محفل میں ہوں یا مجلس میں‪ ،‬ہر جگہ اخالق کا مظاہر ہ کرنا اسالم ک و مطل وب ہے۔ہللا کے رس ول نے‬
‫ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا ۔ دوست ہو یا دشمن ‪،‬اپنے ہو کہ پرائے ‪،‬سب کے ساتھ حسن سلوک ک ا مظ اہرہ کیا۔اگ ر علم‬
‫حاصل کرنے کے بعد آدمی کے اندر یہ صفت پیدا نہ ہوئی تو ایسا علم کسی کام ک انہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہللا کے رس ول‬
‫ُس ن ااْل ِ ْخاْل ق۔‪)۱۱( ‬آپ کے اس وص ف خ اص کی گ واہی ق رآن مق دس میں بھی موج ود‬ ‫فرمایا ک رتے تھے‪ :‬ب ُِع ْث ُ‬
‫ت اِل ُتَ ِّمم ح ْ‬
‫لی ُخل ق َعظَیْم۔‪( ‬الق رآن) (آپ اخالق کے اعلی مق ام پ ر ف ائز ہیں۔)ای ک م رتبہ چن د ص حابہ رض وان هللا عليهم‬ ‫ہے‪:‬اِنَّ َ‬
‫ک لَ َع ٰ‬
‫اجمعين حضرت عائشہ رضى هللا تعالى عنها کی خدمت میں حاض ر ہ وے اور ان س ے دری افت کیا کہ ہمیں حض ور کے‬
‫ق َرسُوْ ل ہّٰللا صلى هللا عليه وس لم َک ا نَ ْالقُ رْ آنَ ۔‪)۱۲( ‬‬
‫اخالق اور معموالت کے بارے میں کچھ بتائیے۔انہوں نے فرمایا‪ُ  :‬خ ْل َ‬
‫درستی اخالق کی دع اکرتے رہ تے ہیں۔ آئینہ میں اپن ا چہ رہ‬ ‫ٴ‬ ‫(آپ کا اخالق ہمہ تن قرآن تھا۔) باوجود اس کے آپ ہر وقت‬
‫یکھتے تو ہللا کا شکر اداکرتے اور خدا کے حضور یہ دعا کرتے‪ :‬اَ ٰللّھُ َّم اَحْ َس ْنتَ خَ ْلقِ ْی فَاَحْ ِس نَ ُخ ْلقِی۔(‪( )۱۳‬اے ہللا م یرے‬

‫‪6‬‬
‫اخالق کو بھی اسی طرح اچھا کردے جس طرح تونے میرے چہرے کو اچھ ا بنای ا ہے۔) آپ س ے کس ی نے پوچھ ا ک ون‬
‫لوگ اچھے ہیں؟ آپ نے فرمایا‪”:‬اِ َّن َخیَا َر ُک ْم اَحْ َسنُ ُک ْم اَ ْخاَل قاً۔“(‪ )۱۴‬سب سے بہ تر انس ان وہ ہے جس ک ا اخالق س ب س ے‬
‫اچھا ہے۔) ایک اور موقع پر آپ نے فرمای ا‪:‬اَ ْک َم ُل ْال ُم ْٴو ِمنِ ْینَ اِ ْی َمان ا ً اَحْ َس نُھُم ُخ ْلق اً۔‪()۱۵( ‬س ب س ے زی ادہ کام ل االیم ان وہ‬
‫شخص ہے جس کا اخالق سب سے اچھا ہو۔) اس طرح بہت سی احادیث ہیں جن میں اخالق کی اہمیت کو واض ح کیا گیا‬
‫ہے۔‬
‫اخالق صرف یہی نہیں ہے کہ لوگوں سے ہنستے مسکراتے مل لیا اور اس کے س اتھ کچھ اچھی ب اتیں ک رلیں ۔ یہ‬
‫تو اخالق کا جزوہے ‪ ،‬ان کے عالوہ بھی اور بہت ساری ب اتیں اخالق میں داخ ل ہیں۔ یہ خوبیاں اس ی وقت پیدا ہ وں گی‬
‫جب ہم علم سے آراستہ و پیراستہ ہوں گے۔ ہللا اور اس کے بتائے ہوے راستہ پر چلیں گے۔اگ ر ای ک آدمی اچھے اخالق‬
‫کا حامل ہے تو کسی کے ظلم کو برداشت کرنا بھی اخالق کے دائرہ میں آتا ہے۔ بے صبری کا مظاہرہ کرنااورانتق ام لین ا‬
‫بے اخالقی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تلخ باتوں پر صبر کریں ۔ ہ و س کتا ہے کہ ایس ا ک رنے س ے وہ ہم ن وا بن‬
‫جائے ۔ غصہ کرنا‪،‬بد لہ لینا‪،‬کسی کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش نہ آنا‪،‬کسی کا ما ل غصب کرنا‪،‬چ وری ڈکیتی کرن ا یہ‬
‫مذموم حرکتیں ہیں ‪،‬جو بداخالقی ہے۔چنانچہ ہللا کے رسول نے فرمایا‪:‬‬
‫ک نَ ْف َسہُ ِع ْند َْالغ َ‬
‫َضب‪)۱۶(“.‬‬ ‫ْس ال َّش ِد ْی ُد بِالصُّ رْ عَة اِنَّ َماال َّش ِد ْی ُد اَلَّ ِذیْ یَ ْملِ ُ‬
‫”لَی َ‬
‫( ط اقت وروہ آدمی نہیں ہے جوکش تی میں کس ی ک و پچھ اڑدے‪ ،‬بلکہ وہ آدمی ط اقت ور ہے‪ ،‬جوغص ہ کے وقت‬
‫اپنے نفس کوقابو میں رکھے۔)‬
‫ایک دوسری حدیث میں ہللا کے رسول نے فرمایا‪:‬‬
‫ت‪َ ،‬واَل فِ ْقہٌ فِی ال ِّد ْی ِن‪)۱۷(“.‬‬
‫ق‪ُ :‬حسْنُ َس ْم ٍ‬ ‫”خَصْ لَت ِ‬
‫َان اَل تَجْ تَ ِم َع ِ‬
‫ان فِی ُمنَافِ ٍ‬
‫(دوعادتیں ایسی ہیں جو منافق میں جمع نہیں ہوتیں ۔ ایک اچھی عادت اور دوسرے دینی بصیرت۔)‬
‫دنیا کے لیے نفع بخش بنا جائے‬
‫اسالم حکم دیتا ہے کہ اپنے آپ کو ضرر رساں نہیں بلکہ نفع بخش بنا ٴو۔ایک انسان کے قول وعمل س ے دوس رے‬
‫انسان کو تکلیف نہ پہنچے۔ اچھی اور بھلی باتوں کا تمیز وہی انسان کرسکتا ہے جس کے اندر شعور وفراست ہ وگی اور‬
‫یہ خوبی بغیر علم کے پیدا نہیں ہوسکتی۔عقل و شعور تو جاہل کے پا س بھی ہے۔مگر جو فراست ایک پ ڑھے لکھے ک و‬
‫حاص ل ہ وگی وہ جاہ ل ک و ہ ر گ ز حاص ل نہیں ہوس کتی۔اس کے دن رات کے عم ل میں ‪،‬اس کی گفتگ و میں ‪،‬اس کے‬
‫معامالت میں ‪ ،‬اس کے فیصلہ لینے میں ایسی بات کا صادر ہونا جس س ے دوس روں ک و تکلیف پہنچ ج ائے ک وئی بعید‬
‫نہیں ہے۔ اگر اسے اس کا ادراک ہوجائے تو وہ جاہل ہی کیوں رہے گا۔ ہللا کے رس ول کی ح دیث س ے بھی اس ب ات ک و‬
‫اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔آپ نے فرمایا‪:‬‬
‫ق فِی َسبِی ِْل ہّٰللا ‪)۱۸(“.‬‬
‫”ان َمثَ َل ِع ْل ٍم اَل یَ ْنفَ ُع َک َمثَ ِل َک ْن ٍز اَل یُ ْنفَ ُ‬
‫َّ‬
‫( ج و علم نف ع بخش نہ ہ و اس کی مث ال اس خ زانے جیس ی ہے جس میں س ے خ داکی راہ میں کچھ خ رچ نہ کیا‬
‫جائے۔)‬
‫نیز آپ نے یہ بھی فرمایا‪:‬‬

‫‪7‬‬
‫اس اَ ْنفَ َعھُ ْم لِلنَّ ِ‬
‫اس‪)۱۹(“.‬‬ ‫” َخ ْی ُر النَّ ِ‬
‫( ہللا کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ آدمی وہ ہے جو سب سے زیادہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے واالہے۔)‬
‫جب آدمی کے اندر یہ ذوق و جذبہ ہوگ ا ت و یقین ا وہ کوش ش ک رے گ ا کہ وہ علم حاص ل ک رے اور دوس روں ت ک‬
‫پہنچائے۔‬
‫علم نافع کی دعا ء بھی کرتے رہنا چاہیے‬
‫نبی اکرم صلى هللا عليه وس لم دنیا کے ل یے معلم بن اکر بھیجے گ ئے ۔ آپ کی وجہ س ے دنیا میں علم کی روش نی‬
‫پھیلی اورانسانیت کو روشن اور واضح سمت مال ۔باوجود اس کے ہر وقت ہللا کے حض ور زی ادتی علم اور اس تقامت علم‬
‫کے ساتھ علم نافع کی دعا ء کرتے ہیں‪:‬‬
‫ک ِم ْن ِع ْل ٍم اَل یَ ْنفَعُ‪َ ،‬و ِم ْن ُدعَا ٍء اَل یُ ْس َمعُ‪َ ،‬و ِم ْن قَ ْل ٍ‬ ‫ٰ‬
‫ب اَل یَ ْخ َش ُع َو ِم ْن نَ ْف ٍ‬
‫س اَل تَ ْشبَعُ۔“(‪)۲۰‬‬ ‫”اَللّہُ َّم اِنِّی اَ ُعوْ ُذبِ َ‬
‫(اے ہللا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نفع بخش نہ ہو اور اس دعاء سے جو سنی نہ ج ائے اور اس دل‬
‫سے جس میں خشوع نہ ہو اور اس نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو۔)‬
‫علم نافع اور رزق وسیع کے لیے ہللا کے حضور یہ دعاء بھی کرتے تھے‪:‬‬
‫ک ِع ْلما ً نَافِعاً‪َ ،‬ع َمالً ُمتَقَبَّالً‪َ ،‬و ِر ْزقا ً طَیِّباً‪)۲۱(“.‬‬ ‫ٰ‬
‫”اَللّھُ َّم اِنّی اَ ْسئَلُ َ‬
‫(اے ہللا! میں تجھ سے علم نافع‪ ،‬عمل مقبول اور پاک رزق کی درخواست کرتا ہوں۔)‬
‫کیوں کہ ہللا نے انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا تھا‪:‬‬
‫ٰ‬
‫ما‪(“.‬طہٰ ‪)۱۱۴:‬‬‫” َوقُل رَّبِّ ِز ْدنِ ْی ِع ْل‬
‫(اے پیغمبر کہو‪:‬اے میرے رب !میرا علم زیادہ کر۔)‬
‫” َربَّنَا آتِنَا فِ ْی ال ُّد ْنیَا َح َسنَةً َوفِ ْی اآل ِخ َر ِة َح َسنَةً‪(“.‬البقرہ‪)۲۰۱:‬‬
‫(اے میرے رب! تو مجھے دنیا وآخرت دونوں میں اچھا بنا۔)‬
‫‪ ‬ہللا نے انسان کو جو علم عطا کیا ہے ‪،‬اسے ہی حرف آخر نہ سمجھا ج ائے ‪ ،‬بلکہ زی ادتی علم کی کوش ش ک رتے‬
‫رہنا چاہیے اوراسے اپ نی محنت اور ج دو جہ د ک ا ن تیجہ نہ س مجھنا چ اہیے بلکہ عط ا ِء خ دا ون دی س مجھتے ہ وئے یہ‬
‫اعتراف کرتے رہنا چاہیے‪:‬‬
‫ک َما لَ ْم تَ ُک ْن تَ ْعلَ ُم َو َکانَ فَضْ ُل ہّللا ِ َعلَ ْْی َ‬
‫ک َع ِظیْما‪( “.‬النساء‪)۱۱۳:‬‬ ‫” َو َعلَّ َم َ‬
‫(اور تجھ کوسکھائیں وہ باتیں جو نہیں جانتا تھااور یہ تیرے رب کا فضل عظیم ہے۔)‬
‫‪ ‬جس کو علم وحکمت سے نواز دیاگیا‪،‬گویا اسے دین ودنیا کی دولت حاصل ہو گئی۔ ضروری ہے کہ جو علم عط ا‬
‫تعالی نے اہ ل علم کی س تائش ک رتے ہ وے‬
‫ٰ‬ ‫کیا گیا ہے اس کی قدر کی جائے اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ باری‬
‫فرمایا‪:‬‬
‫” َو َمن ی ُْؤتَ ْال ِح ْک َمةَ فَقَ ْد أُوتِ َی خَ ْْیراً َکثِیْراً َو َما یَ َّذ َّک ُر إِالَّ أُوْ لُ ْ‬
‫وا األَ ْلبَا ِ‬
‫ب‪( “.‬البقرہ‪)۲۶۹:‬‬
‫(اور جس کو حکمت مل گئی اس کو بڑی خوبی کی چ یز م ل گ ئی اور نص یحت وہی حاص ل ک رتے ہیں ج و عق ل‬
‫رکھتے ہیں۔)‬

‫‪8‬‬
‫اسی طرح ہللا کے رسول صلى هللا عليه وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫اس ٌم‪َ ،‬وہّٰللا ُ یُ ْع ِطی‪)۲۲(“.‬‬ ‫ہّٰللا‬
‫” َمن ی ُِر ِد ُ بِہ َخ ْیرًایُفَقِّ ْہہُ فِی ال ِّد ْی ِن‪َ ،‬واِنَّ َما اَنَا قَ ِ‬
‫(ہللا جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرت ا ہے اور میں ت و ص رف تقس یم ک رنے واال‬
‫ہوں اور دینے واال ہللا ہے۔)‬
‫عہد نبوی میں علوم وفنون کی ترقی‬
‫عہدنبوی کے مدنی معاشرہ پرغورکریں کہ کس کس مپرسی کے عالم میں مسلمان مکہ س ے ہج رت ک رکے م دینہ‬
‫پہنچے ۔ کھانے کھانے کوترستے تھے‪ ،‬تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا میسر نہیں تھ ا‪،‬رہ نے ک وگھرنہیں تھے ‪ ،‬لیکن ان کے‬
‫اندرحصول علم کاجذبہ تھا۔ اسی وجہ سے مختصرعرصے میں وہ نم ونہ زن دگی بن گ ئے اورزن دگی کے ہرش عبے میں‬
‫کمال پیدا کرکے اپنی ضرورتوں کی تکمیل کرنے لگے ۔ چوں کہ ہللا کے رسول صلى هللا عليه وس لم ای ک ب ڑے پیغم بر‬
‫ہونے کے ساتھ ایک عظیم حکم راں بھی تھے اورکوئی بھی حکومت اس وقت تک صحیح طریقے سے نہیں چ ل س کتی‬
‫جب تک کہ اس کے اندرمختلف ص الحیت کے اف راد موج ودنہ ہ وں۔ض روری ہے کہ یہ اں ط بیب بھی ہ وں اور س رجن‬
‫بھی ‪،‬یہ بھی ضروری ہے کہ وہاں بڑھی بھی ہ وں اور لوہ اربھی ‪ ،‬کاش ت ک ار بھی ہ وں اور ص نعت گ ربھی ۔جس وقت‬
‫حضورصلى هللا عليه وسلم مسجدنبوی کی تعمیر کروارہے تھے ‪ ،‬صحابہ کرام مختلف کاموں پ ر م امور تھے ۔ کس ی ک و‬
‫اینٹ بنانے اور ڈھونے کا حکم دیا تو کسی کو گارا بنانے کا ‪،‬تو کسی کو کوئی دوسرے کام پر مامور کیا۔ ای ک ص حابی‬
‫نے خواہش ظاہر کی کہ میں دوسرا کام بھی کرسکتا ہوں ‪،‬آپ نے منع کیا اور فرمایا ‪:‬نہیں تم گارا گھولو‪،‬تم اس ک ام س ے‬
‫خوب واقف ہو۔ (‪ )۲۳‬گویاکہ حضورکے زمانہ میں ہرفن کے ماہرین موجودتھے ۔ کچھ لوگوں نے علمی کام ک یے ‪ ،‬کچھ‬
‫لوگوں نے دست کاریاں سیکھیں‪ ،‬بعض صحابہ نے دوسری قوم وں کی زب ان اور ان کی تہ ذیب و تم دن کامط العہ کیا۔ (‬
‫‪)۲۴‬اس وقت کی ضرورت کے مطابق ک وئی ایس ا علم اورفن نہ تھ اجس میں ص حابہ ک رام پیچھے رہے ہ وں۔ عملی علم‬
‫ہویافنی ‪ ،‬سبھی میں صحابہ کرام ماہراور یکتا ِء روزگارتھے۔ مندرجہ ذیل اقتباس سے اس کا اندازہ بخ وبی لگای ا جاس کتا‬
‫ہے۔ عالمہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫”ایک طرف عقال ِء روزگار ‪،‬اسرار فطرت کے محرم ‪،‬دنیا کے جہاں باں اور ملکوں کے فرم اں روااس درس گ اہ‬
‫سے تعلیم پاکر نکلے ہیں‪ ،‬جنہوں نے مشرق سے مغرب تک ‪،‬افریقہ سے ہندوستان کی سرحد تک فرم اں روائی کی اور‬
‫ایسی فرماں روائی جو دنیا کے بڑے سے بڑے شہنشاہ اور حکم راں کی سیاست وتدبر اور نظم ونسق کے کارناموں ک و‬
‫منسوخ کردیتی ہے ۔ دوسری طرف خالد بن ولید رضى هللا عنه‪ ،‬سعدبن ابی وق اص رض ى هللا علي ه‪ ،‬اب و عبیدہ بن ج راح‬
‫رضى هللا عنه‪ ،‬عمروبن العاص رضى هللا عنه ہیں جنہوں نے مشرق ومغرب کی دوظالم و گناہ گار اور انسانیت کے لیے‬
‫لعنت سلطنتوں کا چند سال میں قلع قمع کر دیتے ہیں اور دنیا کے وہ فاتح اعظم اور سپہ ساالر اکبر ث ابت ہ وتے ہیں‪ ،‬جن‬
‫کے فاتحانہ کارناموں کی دھاک آج بھی دنیا میں بیٹھی ہوئی ہے۔ تیس ری ط رف وہ ص حابہ ہیں جنہ وں نے ص وبوں اور‬
‫شہروں کی کامیاب حکومت کی اور خلق خدا کو آرام پہنچایا۔ چوتھی طرف علماء وفقہاء کی ص ف ہے۔ انہ وں نے اس الم‬
‫کے فقہ وقانون کی بنیاد ڈالی اور دنیا کے مقنن میں خاص درجہ پایا۔ پانچویں صف عام ارباب روایت وتاریخ کی ہے‪،‬جو‬
‫احکام ووقائع کے ناقل وراوی ہیں۔ ایک چھٹی جماعت ان ستر صحابہ (اصحاب ص فہ) کی ہے جن کے پ اس س ررکھنے‬

‫‪9‬‬
‫کے لیے مسجد نبوی کے چبوترے کے س وا ک وئی جگہ نہ تھی ۔ س اتواں رخ دیکھ و! اب و ذررض ى هللا عن ه ہیں‪ ،‬ان کے‬
‫ٰ‬
‫دوتقوی‬ ‫نزدیک آج کا کھانا کل کے لیے اٹھا رکھنا بھی شان توکل کے خالف تھا۔سلمان فارسی رض ى هللا عن ه ہیں ج و زہ‬
‫کی تصویر ہیں ۔ عبدہللا بن عمر رضى هللا عنه ہیں جن کے سامنے خالفت پیش ہوئی تو فرمایا کہ اگ ر اس میں مس لمانوں‬
‫کا ایک قطرہ خون گرے تو مجھے منظور نہیں ۔ مصعب بن عمیر رضى هللا عن ه ہیں ج و اس الم س ے پہلے ق اقم وحری ر‬
‫کے کپڑے پہنتے اور جب اسالم الئے تو ٹاٹ اوڑھتے اور پیوند لگے ک پڑے پہن تے تھے اور جب ش ہادت پ ائی ت و کفن‬
‫کے لیے پورا کپڑا تک نہ مال۔ عثمان بن مطع ون رض ى هللا عن ه ہیں ج و اس الم س ے پہلے ص وفی کہالتے ہیں۔ اب ودردا‬
‫رضى هللا عنه ہیں کہ جن کی راتیں نمازوں میں اور دن روزوں میں گزرتے تھے۔ ایک اور طرف دیکھو! یہ بہ ادر ک ار‬
‫پردازوں اور عرب کے مدبرین کی جماعت ہے ۔کاروباری دنیا میں دیکھو تو مکہ کے تاجر اور بیوپ اری ہیں اور م دینہ‬
‫کے کاشت کار اور کسان بھی ہیں اور بڑے بڑے دولت مند بھی ہیں۔ ان نیرنگیوں اور اختالف استعداد کے ب اوجود ای ک‬
‫چیز تھی جو مشترک طورسے سب میں نمایاں تھی۔وہ ایک بجلی تھی جو سب میں کوند رہی تھی‪،‬ک وئی بھی ہ وں توحید‬
‫الی کی رض ا‬
‫کا نور‪ ،‬اخالق کی رو‪،‬قربانی کا ولولہ ‪،‬خلق کی ہدایت اور رہنمائی کا جذبہ اور باآلخر ہ ر ک ام میں خ دا تع ٰ‬
‫طلبی کا جو ش ہر ایک کے اندر کام کررہاتھا۔“(‪)۲۵‬‬
‫‪ANS 02‬‬
‫غیبت کہتے ہیں آدمی کا کسی بھائی کے پیٹھـ پیچھے تذکرہ ایسے الفاظ میں کرنا جن کو وہ ناپسند کرتا ہو‪ ،‬خواہ برائی کا‬
‫تذکرہ اس کے بدن سے متعلق ہو یا نسب سے‪ ،‬اوصاف سے متعلق ہو یا قول و فعل سے‪ ،‬یا دین سے یا دنیاوی مع امالت‬
‫سے‪ ،‬اگرچہ یہ تذکرہ اس کے لباس سے یا اس کے گھریا سواری سے متعلق ہی کیوں نہ ہو‪ ،‬چنانچہ حضرت أب و ہری رہ‬
‫رضي هللا عنه سے روایت ہے کہ رسول هللا صلى هللا عليه وسلم نے فرمایا‪ :‬کیا تم ج انتے ہ و غیبت کیا ہے؟ ص حابہ نے‬
‫عرض کیا‪ :‬ہللا اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں‪ ،‬آپ نے فرمایا‪ :‬تمہارا اپنے بھائی کا تذکرہ کرن ا ایس ی ب ات س ے ج و‬
‫اسے ناپسند ہے‪ ،‬ایک صحابی نے عرض کیا‪ :‬اگر میرے بھائی میں وہ بات ہ و ج و میں کہ وں تب بھی یہ غیبت ہے؟ آپ‬
‫نے فرمایا‪ :‬اگر اس میں وہ بات ہے ج و تم کہہ رہے ہ و ت و یقین ا تم نے اس کی غیبت کی‪ ،‬اور اگ ر اس میں وہ ب ات نہیں‬
‫ہے جو تم کہہ رہے ہو تو یقینا تم نے اس پر بہتان لگایا اسے روايت كيا ہے امام مسلم نے۔‬
‫غیبت ہرحال میں حرام ہے‪ ،‬خواہ کسی بھی سبب سے ہو‪ ،‬چاہے غصہ کے ازالہ کے لئے‪ ،‬یا ساتھیوں کا دل جیت نے کے‬
‫لئے‪ ،‬یا گفتگو میں ان کی مدد کے لئے ہو‪ ،‬یا کالم میں تصنع پیدا کرنے کے لئے ہو‪ ،‬یا حس د کی وجہ س ے ہ و‪ ،‬ی ا کھیل‬
‫کود اور ہنسی مذاق کے طور پر ہو‪ ،‬یا وقت گزاری کے لئے ہو‪ ،‬چنانچہ دوسرے کے عیوب کا ذکر اس طرح کیا ج ائے‬
‫کہ دوسرے لوگ ہنسیں‪ ،‬یہ سب غیبت ہے‪ ،‬ہللا رب الع المین نے اس س ے اپ نے بن دوں ک و روک ا‪ ،‬اور متنبہ کیا ہے‪ :‬ﺍﮮ‬
‫ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮ ! ﺑﮩﺖ ﺑﺪﮔﻤﺎﻧﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﭽﻮ ﯾﻘﯿﻦ ﻣﺎﻧﻮ ﻛﮧ ﺑﻌﺾ ﺑﺪﮔﻤﺎﻧﯿﺎﮞ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯿﺪ ﻧﮧ ﭨﭩﻮﻻ ﻛﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﻧﮧﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻛﻮﺋﯽ‬
‫ﻛﺴﯽ ﻛﯽ ﻏﯿﺒﺖ ﻛﺮﮮ۔ ﻛﯿﺎ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻛﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯﻣﺮﺩﮦ ﺑﮭﺎﺋﯽ کا ﮔﻮﺷﺖ ﻛﮭﺎﻧﺎ ﭘﺴﻨﺪ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ؟ ﺗﻢ ﻛﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮔﮭﻦ ﺁﺋﮯ‬
‫ﮔﯽ‪ ،‬ﺍﻭﺭ ﺍہلل ﺳﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﺭﮨﻮ‪ ،‬ﺑﯿﺸﻚ ﺍہلل ﺗﻮﺑﮧ ﻗﺒﻮﻝ ﻛﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮨﮯ۔‬
‫صحیح مسلم میں حض رت اب وہریرہ رض ی ہللا عنہ س ے روایت ہے کہ جن اب محم د رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم نے‬
‫ارشاد فرمایا‪ :‬ہر مسلمان کا خون‪ ،‬مال اور عزت دوسرے مسلمان پ ر ح رام ہے اس ح دیث ک و ام ام مس لم نے روايت كي ا‬

‫‪10‬‬
‫ہے۔ اور آپ صلى هللا عليه وسلم نے حجۃ الوداع کے خط بے میں فرمای ا‪ :‬بے ش ک تمہ ارے خ ون اورتمہ ارے م ال اور‬
‫تمہاری عزتیں تمہارے اوپر ح رام ہیں بالك ل تمہ ارے آج کے ِدن کی ط رح‪ ،‬تمہ ارے اِس مہي نے میں‪ ،‬اور تمہ ارے اِس‬
‫شہر میں (حرام ہیں )‪ ،‬کیا میں نے ( ہللا کا ) پیغام پہنچا ِدیا۔ اس حدیث ک و ام ام بخ اری اورمس لم نے روایت کیا ہے۔ اور‬
‫حضرت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ‪ :‬س ود‬
‫کی سب سے بری قسم آدمی کا اپنے بھائی کی عزت پر ہاتهـ ڈالنا ہے اسے بزار اور ابوداود نے روایت کیا ہے۔‬
‫اسی طرح غیبت کی حرمت ومذمت کے سلسلے میں جناب رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے متعدد احادیث ثابت ہیں۔‬
‫‪ -2‬دوسری چیز جس سے اجتناب اور تنبیہ ضروری ہے وہ ہے ( چغل خوری)‬
‫( جلد کا نمبر ‪ ،3‬صفحہ ‪)238‬‬
‫اس کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف‪ ،‬یا ایک جماعت سے دوس ری جم اعت‬
‫کی طرف ‪ ،‬یا ایک قبیلہ سے دوسرے قبیلہ کی طرف فساد اور جھگڑے کی غرض سے کوئی کالم منتقل کرنا‪ ،‬یعنی ہ ر‬
‫اس چیز یا راز کو کھول دینا جس کا کھل جانا نا پسندیدہ ہو‪ ،‬خواہ اس شخص کو ناپسند ہو جس سے متعلق نقل کیا گیا ی ا‬
‫اس شخص کو جس کی طرف نقل کیا گيا‪ ،‬یا تیسرا شخص اس کو ناپسند کرتا ہو‪ ،‬چاہے یہ برائی قول سے ہو یا فعل س ے‬
‫ہو یا اشارے سے ہو‪ ،‬اور چاہے منقولہ چیز قول کی شکل میں یا فع ل کی ش کل میں‪ ،‬اور چ اہے یہ چ یز منق ول عنہ کے‬
‫لئے عیب اور نقص کی بات ہو یا نہ ہو ؛ لہذا انسان کو لوگوں کے احوال کے تعلق سے خاموش رہنا چاہیے ہ اں اگ ر اس‬
‫کو بیان کرنے سے مسلمانوں کا فائدہ ہو‪ ،‬یا کسی برائی کا ازالہ ہو تو جائز ہے ۔‬
‫چغل خوری کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں‪-1 :‬منقول عنہ کے حق میں برائی کی نیت ‪ -2‬منقول الیہ سے محبت کا اظہ ار‬
‫‪ -3‬فضول اور بکواس باتوں میں مشغول ہو کر لطف اندوز ہونا‪ ،‬یہ تینوں طریقے اسالم میں حرام ہیں‪ ،‬چنانچہ اگ ر کس ی‬
‫شخص سے کوئی کسی قسم کی چغلی کرتا ہے تو اس شخص کو چاہیے کہ اس چغل خور کی تص دیق نہ ک رے‪ ،‬کیونکہ‬
‫چغل خور فاسق اور گواہی میں غیر معتبر ہوتا ہے‪ ،‬ارشاد باری تعالی ہے ‪ :‬ﺍﮮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮ ! ﺍﮔﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻛﻮﺋﯽ ﻓﺎﺳﻖ ﺧﺒﺮ ﺩﮮ‬
‫ﺗﻮ ﺗﻢ ﺍﺱ ﻛﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻛﺮ ﻟﯿﺎ ﻛﺮﻭ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﮨﻮ ﻛﮧ ﻧﺎﺩﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻛﺴﯽ ﻗﻮﻡ ﻛﻮ ﺍﯾﺬﺍ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﻭاور اس آدمی کے لئے‬
‫ضروری ہے کہ اسے چغلی سے روکے‪ ،‬اسے نص یحت ک رے‪ ،‬اور اس کے اس فعل کی م ذمت ک رے‪ ،‬کیونکہ ہللا رب‬
‫العالمین کا ارشاد ہے‪ :‬توﺍﭼﮭﮯ کاﻣﻮﮞ ﻛﯽ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﻛﺮﺗﮯ ﺭﮨﻨﺎ‪ ،‬ﺑﺮﮮ کاﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﻛﯿﺎ ﻛﺮﻧﺎ اور ہللا تعالی کی خاطر‬
‫اس چغل خور سے بغض رکھے‪ ،‬اور منقول عنہ کے سلسلے میں برا خیال نہ کرے بلکہ اچھ ا ہی گم ان رکھے‪ ،‬کیونکہ‬
‫ہللا تعالی فرماتا ہے‪ :‬ﺍﮮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮ ! ﺑﮩﺖ ﺑﺪﮔﻤﺎﻧﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﭽﻮ ﯾﻘﯿﻦ ﻣﺎﻧﻮ ﻛﮧ ﺑﻌﺾ ﺑﺪﮔﻤﺎﻧﯿﺎﮞ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﯿﮟ۔ اور نبی محترم صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے‪ :‬بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے اس حدیث كي ص حت پ ر‬
‫اتفاق ہے۔‬
‫اور اس پرالزم ہے کہ منقول عنہ کے سلسلے میں تجسس سے کام نہ لے‪ ،‬اوراپنے لئے اس عمل کو پس ند نہ ک رے جس‬
‫سے چغل خور کو منع کیا ہے کہ خود تک پہنچی ہوئی چغل خوری کو دوسرے سے بیان کرے۔‬

‫‪11‬‬
‫چغلی کی حرمت پربہت سے دالئل کتاب وسنت میں موج ود ہیں‪ ،‬جن میں س ے ای ک دلیل ہللا رب الع المین ک ا یہ فرم ان‬
‫ہے‪ :‬ﺍﻭﺭ ﺗﻮ ﻛﺴﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﺷﺨﺺ کا ﺑﮭﯽ ﻛﮩﺎ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﻨﺎ ﺟﻮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻗﺴﻤﯿﮟ ﻛﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ۔(‪ )10‬ﺑﮯ ﻭﻗﺎﺭ‪ ،‬ﻛﻤﯿﻨﮧ‪ ،‬ﻋﯿﺐ ﮔﻮ‪ ،‬ﭼﻐﻞ‬
‫ﺧﻮﺭ۔ اور هللا تعالى كا یہ فرمان ہے‪ :‬ﺑﮍﯼ ﺧﺮﺍﺑﯽ ﮨﮯﮨﺮ ﺍﯾﺴﮯ ﺷﺨﺺ ﻛﯽ ﺟﻮ ﻋﯿﺐ ﭨﭩﻮﻟﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻏﯿﺒﺖ ﻛﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮ۔‬
‫( جلد کا نمبر ‪ ،3‬صفحہ ‪)239‬‬
‫اور حضرت حذیفہ یمانی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب محمد رسول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم نے ارش اد فرمای ا‪:‬‬
‫جنت میں چغل خور داخل نہیں ہوگا یہ متفق علیہ حدیث ہے۔ اور حضرت عب د ہللا بن مس عود رض ی ہللا عنہ س ے روایت‬
‫ہے کہ جناب محمد رسول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم نے فرمای ا ‪ :‬س نو میں تمہیں بتات ا ہ وں کہ اف تراء پ ردازی کیا ہے؟ وہ‬
‫غیبت ہے جو لوگوں کے درمیان کی جائے۔ اسے امام مسلم نے روايت كيا ہے۔ اور چغل خوری ان اس باب میں س ے ہے‬
‫جن سے قبر میں عذاب واجب ہوتا ہے‪ ،‬جیساکہ حضرت عبد ہللا بن عباس رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ جن اب محم د‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کا گزر دوقبروں کے پاس سے ہوا توآپ نے ارشاد فرمایا ‪ :‬بے ش ک ان دون وں ک و ع ذاب‬
‫دیا جا رہا ہے اور انہیں عذاب کسی بڑی چیز کے سبب نہیں دیا جا رہ ا‪ ،‬پھ ر آپ نے فرمای ا‪ :‬جی ہ اں ان میں س ے ای ک‬
‫پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا غیبت کیا کرتا تھا متفق عليه روایت ہے۔ غیبت اور چغلی دون وں ح رام‬
‫ہیں؛ کیونکہ ان کے ذریعہ لوگوں میں فساد‪ ،‬پھوٹ‪ ،‬انتشار‪ ،‬بدامنی‪ ،‬انارکی ‪ ،‬عداوت‪ ،‬کینہ‪ ،‬بغض‪ ،‬حسد اور نف اق کی آگ‬
‫بھڑک تی ہے‪ ،‬اور دو بھ ائیوں کے درمیان انس ومحبت کی جگہ تف رقہ‪ ،‬دش منی اور من افرت پیدا ہوج اتی ہے‪ ،‬اور اس ی‬
‫طرح ان دونوں چیزوں میں جھوٹ‪ ،‬دھوکہ‪ ،‬خیانت‪ ،‬بے قصور پرتہمت‪ ،‬گالی گلوچ اور برائیوں کا تذکرہ ہوتا ہے‪ ،‬نیز یہ‬
‫چیزیں بزدلی‪ ،‬کمینگی اور کمزوری کی پہچان ہوتی ہیں‪ ،‬مزید برآں ایسا کرنے والوں س ے ات نے بے ش مار گن اہ س رزد‬
‫ہوج اتے ہیں کہ جن کی وجہ س ے وہ ہللا تع الی کے غض ب‪ ،‬ناراض گی‪ ،‬اور اس کے دردن اک ع ذاب کے مس تحق ث ابت‬
‫ہوتے ہیں۔‬
‫‪ -3‬حسد بھی ایک مذموم خصلت ہے جس سے انسان کو دور رہنا چاہیے‪ ،‬حسد کہتے ہیں کہ‪ :‬آدمی اپنے مسلم بھائی کے‬
‫پاس موجود نعمت کے زوال کی تمنا کرے‪ ،‬خواہ وہ نعمت دین سے متعلق ہو ی ا دنیا س ے متعل ق ہ و‪ ،‬گوی ا کہ حس د کے‬
‫ذریعہ انسان ہللا رب الع المین کے فیص لہ پ ر اع تراض کرت ا ہے کہ ہللا تع الی نے فالں ش خص ک و فالں نعمت کیوں دی‬
‫اورمجھے کیوں نہ دی ا‪ ،‬حس د کے ذریعہ انس ان خ ود اپ نے اوپ ر ظلم کرت ا ہے‪ ،‬اس کے ایم ان میں کمی آج اتی ہے‪ ،‬وہ‬
‫مصائب ومشکالت اورحزن وغم کا شکار ہوجاتا ہے‪ ،‬جو اس کی ہالکت کا سبب بن تے ہیں ‪ ،‬چن انچہ ہللا رب الع المین ک ا‬
‫ارشاد ہے ‪ :‬ﯾﺎ ﯾﮧﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺣﺴﺪ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺍہلل ﺗﻌﺎلی ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﻀﻞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ اور حضرت ابوہریرہ‬
‫رضی ہللا عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ جناب محمد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫( جلد کا نمبر ‪ ،3‬صفحہ ‪)240‬‬
‫تم ایک دوسرے سے حسد نہ کرو‪ ،‬آپس میں بغض نہ رکھو‪ ،‬ایک دوسرے سے پیٹھـ نہ پھ یرا ک رو‪ ،‬خرید وف روخت میں‬
‫بولی بڑھا کر ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو اور ہللا کے بندے تم آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو اس حدیث کو امام مسلم‬
‫نے روایت کیا ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ جن اب محم د رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم‬

‫‪12‬‬
‫نے ارشاد فرمایا ‪ :‬خبردار حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں كو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی ك و کھ ا ج اتی ہے‬
‫اسے امام ابوداود نے روايت كيا ہے ۔‬
‫‪ 4‬۔ اسی طرح ظلم وزیادتی سے انسان کو پرہیز کرنا ضروی ہے‪ ،‬ظلم کہتے ہیں‪ :‬وضع الشئ فی غیرموض عہ الش رعی‪:‬‬
‫یعنی کسی بھی شے ک و اس کے غ یر ش رعی مح ل میں رکھـ دین ا‪ ،‬یہ ظلم کہالتا ہے‪ ،‬اورسب سے ب ڑا ظلم ش رک ہے‪،‬‬
‫یعنی انسان ہللا تعالی کے ساتھـ دوس روں کو ش ریک ٹھ رائے‪ ،‬اس کی نافرم انی اور مخ الفت ک رے‪ ،‬ہللا رب الع المین ک ا‬
‫ارشاد ہے‪ :‬ﺑےﺸﻚ ﺷﺮﻙ ﺑﮍﺍ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ ۔ اور هللا تعالى نے فرمايا‪ :‬ﺍﻭﺭ ﰷﻓﺮ ﮨﯽ ﻇﺎﻟﻢ ﮨﯿﮟاسی طرح کسی کے مال کو‬
‫ناحق لے لینا یا کسی کی زمین پر ناحق قبضہ کرلینا یا کسی پرزیادتی کرنا ظلم کہالتا ہے۔ اور یہ کبیرہ گناہوں میں داخل‬
‫ہے اور ہللا کی معصیت ہے‪ ،‬اور یہ نعوذ باہلل دل میں تاریکی کی وجہ سے صادر ہوتا ہے کیونکہ اگر ظالم ک ا دل ہ دایت‬
‫کے نور سے منور رہت ا ت و کبھی وہ ظلم نہیں کرت ا‪ ،‬ہللا تع الی ک ا ارش اد ہے‪ :‬ﻇﺎﻟﻤﻮﮞ ﰷ ﻧﮧ ﻛﻮﺋﯽ ﺩﻟﯽ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﻮﮔﺎ ﻧﮧ‬
‫ﺳﻔﺎﺭﺷﯽ ﻛﮧ ﺟﺲ ﻛﯽ ﺑﺎﺕ ﻣﺎﻧﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ اورهللا تعالى نے فرمايا‪ :‬ﻇﺎﻟﻤﻮﮞ کا ﻛﻮﺋﯽ ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ۔ اورهللا تعالى نے فرمايا‪:‬‬
‫ﻧﺎﺍﻧﺼﺎﻓﻮﮞ ﻛﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﺳﮯ ہللا ﻛﻮ ﻏﺎﻓﻞ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮫ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﺩﻥ ﺗک ﻣﮩﻠﺖ ﺩﯾﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﮯ ﺟﺲ ﺩﻥ ﺁﻧﻜﮭﯿﮟ ﭘﮭﭩﯽ ﻛﯽ‬
‫ﭘﮭﭩﯽ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ اورهللا تعالى نے فرمايا‪ :‬ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺟﺲ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻇﻠﻢ ﻛﯿﺎ ﮨﮯ ﮨﻢ ﺍﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻋﺬﺍﺏ ﭼﻜﮭﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ۔ اور‬
‫صحیح مسلم میں حضرت ابوذر رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ جناب محمد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وس لم نے فرمایا ‪:‬‬
‫ہللا تعالی فرماتا ہے (حدیث قدسی ہے) اے میرے بندوں میں نے اپ نے اوپر ظلم ح رام کیا ہے اور اسے تمہ ارے درمیان‬
‫بھی حرام کیا ہے لہذا تم آپس میں ظلم نہ کرو پوری حديث۔‬
‫اور حضرت جابر رضي هللا عنه سے روایت ہے کہ رسول هللا صلى هللا عليه وسلم نے فرمایا‪ :‬ظلم سے بچ و کیونکہ ظلم‬
‫قیامت کے دن تاریکیاں لے کر آئے گا پوری حدیث۔ اور اسی طرح حضرت عبد ہللا بن عمرو بن العاص رضی ہللا عنہم ا‬
‫سے روایت ہے کہ‬
‫( جلد کا نمبر ‪ ،3‬صفحہ ‪)241‬‬
‫نبی صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور جس کےہاتھـ سے مس لمان ل وگ محف وظ رہیں‪ ،‬اور‬
‫مہاجر وہ ش خص ہے جو ہللا کی ممن وعہ چ یزوں کو چھ وڑ دےیہ متفق علیہ ح دیث ہے۔ م ذکورہ اح ادیث اور ان کے ہم‬
‫معنی دیگر احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہرحال میں ظلم وزیادتی وغیرہ سے بچنا ض روری ہے‪ ،‬خ واہ ظلم‬
‫نفس کے سلسلے میں ہو یا مال میں یا عزت میں؛ کیونکہ اس میں عظیم شر اور سنگین فساد ہے‪ ،‬اور اس کے برے نتائج‬
‫برآمد ہوتے ہیں‪ ،‬چنانچہ ظالم کوچاہیے کہ اپنے سابقہ ظلم سے توبہ کرے‪ ،‬اور تمام گناہوں کوچھوڑدے۔‬
‫‪ANS 03‬‬
‫امام ابوداود نے اہل مکہ کے نام اپنے مکتوب میں کتاب السنن کے منہج اورطریقہ ٔ تالیف پرمفصل روشنی ڈالی ہے‪ ،‬ذیل‬
‫میں ہم اس کے کچھ فق رات ٓاپ کے منہج وط ریقٔہ ت الیف ک و بیان ک رنے کے ل ئے نق ل ک ررہے ہیں‪:‬‬
‫‪ -۱‬میں نے ہرباب میں صرف ایک یا دو حدیثیں نقل کی ہیں‪ ،‬گو اس باب میں اور بھی صحیح حدیثیں موجود ہیں‪ ،‬اگر ان‬
‫سب کو میں ذکر کرت ا ت و ان کی تع داد ک افی ب ڑھ ج اتی‪ ،‬اس سلس لہ میں م یرے پیش نظ ر ص رف ق رب منفعت رہ اہے۔‬
‫‪ -۲‬اگر کسی روایت کے دویا تین طرق سے ٓانے کی وجہ سے میں نے کسی باب میں اسے مکرر ذکرکیا ہے ت و اس کی‬

‫‪13‬‬
‫وجہ صرف سیاق کالم کی زیادتی ہے ‪ ،‬بسااوقات بعض س ندوں میں ک وئی لف ظ زائ د ہوت اہے ج و دوس ری س ند میں نہیں‬
‫ا کیا ہے۔‬ ‫ئے میں نے ایس‬ ‫رنے کے ل‬ ‫و بیان‪ ‬ک‬ ‫ظک‬ ‫د لف‬ ‫ا ‪ ،‬اس زائ‬ ‫ہوت‬
‫‪-۳‬بعض طویل حدیثوں کو میں نے اس لئے مختصر کردیا ہے کہ اگر میں انہیں پوری ذکر کرتاتوبعض س امعین (وق راء)‬
‫کی نگاہ سے اصل مقصد اوجھل رہ جاتا‪ ،‬اور وہ اصل نکتہ نہ سمجھ پاتے‪ ،‬اس وجہ سے‪ ‬میں نے زوائد کو حذف‪ ‬کرکے‬
‫ص رف اس ٹک ڑے ک و ذک ر کیا ہے ‪ ،‬ج و اص ل مقص د س ے مناس بت ومط ابقت رکھت ا ہے۔‬
‫‪ -۴‬کتاب السنن میں میں نے کسی متروک الحدیث شخص سے کوئی روایت نہیں نقل کی ہے‪ ،‬اور اگر صحیح روایت کے‬
‫نہ ہونے کی وجہ سے اگر کس ی ب اب میں ک وئی منک ر روایت ٓائی بھی ہے‪ ،‬ت و اس کی نک ارت واض ح ک ردی گ ئی ہے۔‬
‫‪ -۵‬میری اس کتاب میں اگر کوئی روایت ایسی ٓائی ہے جس میں شدید ضعف پایا جاتاہے‪ ‬تو اس کا یہ ضعف بھی میں نے‬
‫واض ح کردی ا ہے‪ ،‬اور اگ ر کس ی روایت کی س ند ص حیح نہیں اور میں نے اس پرس کوت اختیار کیا ہے ت و وہ م یرے‬
‫ح ہیں۔‬ ‫ے اص‬ ‫بتہً ان میں بعض بعض س‬ ‫الح ہے‪ ،‬اور نس‬ ‫کص‬ ‫نزدی‬
‫‪ -۶‬اس کتاب میں بعض روایتیں ایسی بھی ہیں جو‪ ‬غیر متصل‪ ،‬مرسل اور م دلس‪ ‬ہیں‪ ،‬بیش تر مح دثین ایس ی روایت وں ک و‬
‫اتے ہیں۔‬ ‫ا حکم لگ‬ ‫ل ہی ک‬ ‫ر متص‬ ‫انتے ہیں اور ان پ‬ ‫بر م‬ ‫تند و معت‬ ‫مس‬

‫‪ -۷‬میں نے کتاب السنن میں صرف‪ ‬احکام کی حدیثوں کو شامل کیا ہے‪ ‬اس میں زہد اور فضائل اعمال وغیرہ س ے متعل ق‬
‫حدیثیں درج نہیں کیں‪ ،‬یہ کتاب کل چارہزار ٓاٹھ سو احادیث پرمشتمل ہے‪ ،‬جو سب کی سب احکام کے سلسلہ کی ہیں۔‬
‫مام بقاعی ابو داود کے مذکورہ باال قول ‪ ( :‬ج و ان کے مکت وب بن ام اہ ل مکہ میں موج ود ہے) ک و ذک ر ک رنے کے بع د‬
‫تی ہیں‪:‬‬ ‫میں بن‬ ‫انچ قس‬ ‫ادیث کی پ‬ ‫نن میں وارد اح‬ ‫ےس‬ ‫ول کی روس‬ ‫تے ہیں‪ :‬ان کے اس ق‬ ‫لکھ‬
‫ا۔‬ ‫راد لیاہوگ‬ ‫ذاتہ م‬ ‫حیح ل‬ ‫وں نے ص‬ ‫ے انہ‬ ‫حیح جس س‬ ‫‪ -۱‬ص‬
‫وگی۔‬ ‫یرہ ہ‬ ‫حیح لغ‬ ‫راد ص‬ ‫ے ان کی م‬ ‫ابہ جس س‬ ‫حیح کے مش‬ ‫‪ -۲‬ص‬
‫وں گے۔‬ ‫راد لیتے ہ‬ ‫ذاتہ م‬ ‫نل‬ ‫ے وہ حس‬ ‫ا ً اس س‬ ‫ریب غالب‬ ‫حت کے ق‬ ‫‪ -۳‬درجہ ص‬
‫و۔‬ ‫عف ہ‬ ‫دید ض‬ ‫‪ -۴‬جس میں ش‬
‫‪ -۵‬ان کے اس قول‪’’ :‬وما سكتت عنه فهو صالح‘‘‪( ‬جن احادیث پر میں نے سکوت اختیار کیا ہے وہ صالح ہیں) سے سنن‬
‫میں وارد احادیث کی ای ک پ انچویں قس م ان اح ادیث کی س مجھی ج اتی ہے ج و بہت زی ادہ کم زور نہ ہ وں‪،‬اس قس م کی‬
‫ے ہیں‬ ‫ار کے قبیل س‬ ‫رف اعتب‬ ‫و وہ ص‬ ‫وں ت‬ ‫روم ہ‬ ‫ے مح‬ ‫ویت س‬ ‫ر تائید و تق‬ ‫تیں اگ‬ ‫روای‬
‫‪ -۶‬لیکن اگر انہیں کسی کی تائید و تقویت مل جائے تو بحیثیت مجموعی وہ ’’حسن لغیرہ‘‘ کے درجہ پر ٓاج اتی ہیں‪ ،‬اور‬
‫استدالل واحتجاج کے الئق بن جاتی ہیں‪ ،‬اس طرح ایک چھٹی قسم بھی وجود میں ٓاجاتی ہے۔‬
‫امام ذہبی کابیان ہے کہ ابوداود کی کتاب میں وارد احادیث کے مختل ف درجے ہیں‪ٓ ،‬اپ نے ابن داس ہ ک ا یہ ق ول نق ل کیا‬
‫کہ’’میں نے ابو داود کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے اپنی سنن میں صحیح اور اس سے قریب کی احادیث ذکر کی‬
‫ہیں‪ ،‬اور اگر ان میں شدید ضعف ہے تو میں نے اس کو بیان کر دیا ہے‘‘‪ ،‬ذہبی کہ تے ہیں‪’’ :‬میں کہت ا ہ وں‪ :‬ام ام رحمہ‬
‫ہللا نے اپنے اجتہاد کے مطابق اسے پورا پورا بیان کیا اور شدید ض عف والی اح ادیث ک و جس ک ا ض عف قاب ل برداش ت‬

‫‪14‬‬
‫نہیں تھا بیان کردیا‪ ،‬اور قابل برداشت خفیف ضعف سے اغماض برتا‪ ،‬تو ایسی حالت میں ٓاپ کے کسی حدیث پر س کوت‬
‫سے یہ الزم نہیں ٓاتا کہ یہ حدیث ٓاپ کے یہاںحسن کے درجے کی ہو‪،‬بالخصوص جب ہم حسن کی تعریف پ ر اپ نی جدی د‬
‫اصطالح کا حکم لگائیں جو سلف کے عرف میںصحیح کی اقس ام میں س ے ای ک قس م کی ط رف لوٹ تی ہے‪ ،‬اور جمہ ور‬
‫علماء کے یہاں جس پر عمل واجب ہوتا ہے‪ ،‬یا جس سے امام بخاری بے رغبتی برتتے ہیں اور امام مسلم اسے لے لیتے‬
‫ہیں‪ ،‬وبالعکس‪ ،‬تو یہ مراتب صحت کے ادنی مرتبہ میں ہے‪ ،‬اور اگر اس سے بھی نیچے گر جائے تو احتجاج واس تدالل‬
‫کی حد سے خارج ہوجاتی‪ ،‬اور حسن اور ضعیف کے درمیان متجاذب قسم بن جاتی ہے‪ ،‬تو ابو داود کی کتاب السنن میں ‪:‬‬
‫‪ -۱‬سب سے اونچا درجہ ان روایات کا ہے جن کی تخریج بخاری ومسلم دونوں نے کی ہے‪ ،‬اور جو تقریب ا ً نص ف کت اب‬
‫تمل ہے۔‬ ‫ر مش‬ ‫پ‬
‫‪ -۲‬اس کے بعد وہ حدیثیں ہیں جن کی تخریج بخاری ومسلم (شیخین) میں سے کسی ای ک نے کی‪ ،‬اور دوس رے نے نہیں‬
‫کی ہے۔‬
‫‪ -۳‬پھر اس کے بعد وہ روایات ہیں جن کو بخاری ومسلم (شیخین) نے روایت نہیں کیا‪ ،‬اور وہ جید االس ناد ہیں اور علت‬
‫وظ ہیں۔‬ ‫ے محف‬ ‫ذوذ س‬ ‫وش‬
‫‪ -۴‬پھر وہ روایات ہیں جس کی اسناد صالح ہے‪ ،‬اور علماء نے ان کو دو ی ا اس س ے زی ادہ ض عیف ط رق س ے ٓانے کی‬
‫وجہ س ے قب ول ک ر لیا ہے کہ ان میں س ے ہ ر س ند دوس رے کے ل ئے تق ویت ک ا ب اعث ہے۔‬
‫‪ -۵‬پھراس کے بعد وہ احادیث ہیں جن کی سندوں کا ضعف رواۃ کے حفظ میں کمی کی وجہ سے ہے‪ ،‬ایس ی اح ادیث ک و‬
‫اتے ہیں۔‬ ‫کوت اختیار فرم‬ ‫رس‬ ‫ثر اس پ‬ ‫ر لیتے ہیں اور اک‬ ‫ول ک‬ ‫و داود قب‬ ‫اب‬
‫‪ -۶‬ان کے بعد سب سے ٓاخری درجہ ان احادیث کا ہے جن کے رواۃ کا ضعف واضح ہوتاہے‪ ،‬ایسی روایت وں پ ر وہ ع ام‬
‫تے ہیں۔‬ ‫ر کردی‬ ‫عف ذک‬ ‫اض‬ ‫تے ہیں‪ ،‬ان ک‬ ‫اموش نہیں رہ‬ ‫ےخ‬ ‫ور س‬ ‫ط‬
‫‪ -۷‬اور اگ رکبھی خ اموش رہ تے بھی ہیں ت و اس کی وجہ اس کے ض عف کی ش ہرت و نک ارت ہ وتی ہے‪ ،‬وہللا اعلم‘‘‬
‫(السیر ‪۱۳‬؍ ‪)۲۱۵ -۲۱۴‬۔‬
‫‪ANS 04‬‬
‫نبی کریم‪  ‬ﷺ اعلى اقدار‪،‬حسن اخالق‪،‬نرم خوئی ونرم گوئی‪ ،‬امانت وصداقت‪ ،‬تہذیب وشائستگی‪،‬متانت‬
‫وسنجیدگی‪ ،‬حلم وبردباری‪،‬عفو ودرگزری‪،‬حسن معاملہ‪ ،‬شفقت وکرم‪،‬بلند وباال کردار‪  ،‬حسن‪  ‬اوصاف‪  ‬اور ع الی اط وار‬
‫وعادات کے پیکر تھے۔ ہمارے نبی‪  ‬ﷺ نبوت‪  ‬س ے قب ل‪   ‬بھی اخالقی خوبیوں س ے ممت ار تھے‪  ،‬اور‬
‫جب نبوت سے سرفراز ہوئے تو آپ ﷺ مکمل طور سے‪  ‬قرآن وحدیث کے تن اظر میں اخالقی ش رافتوں‬
‫سے بہرہ ور ہوگیے۔ اور ہللا تعالى نے‪  ‬ہم ارے تاج دار م دینہ مص طفقی ﷺ کے اخالق فاض لہ ک و اپ نی‬
‫َظي ٍْم“‪( .‬سورہ قلم‪)4 :‬‬ ‫ك لَ َعلَى ُخلُ ٍ‬
‫قع ِ‬ ‫‪”:‬وإِنَّ َ‬
‫کتاب‪  ‬میں‪  ‬ثبت کردیا ہے‪ ،‬جیسا کہ ہللا تعالى کا فرمان ہے َ‬
‫ترجمہ‪ ”:‬اور بے شک تو بہت بڑے (عمدہ) اخالق پر ہے“۔‬
‫ُ‬
‫ار َم اأْل َ ْخاَل ِ‬
‫ق“‪(.‬موطأ امام مالک‪،‬ح‪)2633:‬‬ ‫ت أَ ْن أتَ ِّم َم َم َک ِ‬
‫اور نبی کریم ﷺکا فرمان ہے ‪”:‬بُ ِع ْث ُ‬
‫ترجمہ‪” :‬میں‪  ‬اعلى اخالقی شرافتوں کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں“۔‬

‫‪15‬‬
‫جب حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا سے نبی کریم ﷺکے اخالق کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا ‪َ ”:‬كانَ ُخلُقُهُ‬
‫ْالقُرْ آنَ “‪(.‬مسند احمد)‬
‫ترجمہ‪” :‬آپ کاخلق قرآن ہے“۔‬
‫امام ابوداود رحمہ ہللا نے اپنی کتاب ”سنن ابی داود “ میں نبی کریم ﷺ کے‪   ‬اخالق کریمانہ سے متعلق‪ ‬‬
‫حضرت انس رضی ہللا عنہ کے قصہ کے ساتھ چیدہ چیدہ احادیث بیان کیا ہے‪ ،‬جو درج ذیل ہیں‪-:‬‬
‫اس ُخلُقً ا‪ ،‬فَأَرْ َس لَنِي يَوْ ًم ا‬
‫ص لَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َس لَّ َم ِم ْن أَحْ َس ِن النَّ ِ‬‫‪ -1‬حضرت انس رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں‪َ " :‬ك انَ َر ُس و ُل هَّللا ِ َ‬
‫ت َحتَّى أَ ُم َّر َعلَى‬ ‫ال ‪ :‬فَخَ َرجْ ُ‬ ‫َب لِ َما أَ َم َرنِي بِ ِه نَبِ ُّي هَّللا ِ َ‬
‫ص لَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َس لَّ َم‪ .‬قَ َ‬ ‫ت ‪َ :‬وهَّللا ِ اَل أَ ْذهَبُ ‪َ .‬وفِي نَ ْف ِسي أَ ْن أَ ْذه َ‬
‫لِ َحا َج ٍة‪ ،‬فَقُ ْل ُ‬
‫ك فَقَ ا َل ‪:‬‬ ‫اي ِم ْن َو َرائِي‪ ،‬فَنَظَرْ ُ‬
‫ت إِلَ ْي ِه َوهُ َو يَ ْ‬
‫ض َح ُ‬ ‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم قَابِضٌ بِقَفَ َ‬ ‫ص ْبيَا ٍن َوهُ ْم يَ ْل َعبُونَ فِي الس ِ‬
‫ُّوق‪ ،‬فَإِ َذا َرسُو ُل هَّللا ِ َ‬ ‫ِ‬
‫ُول هَّللا ِ‪ .‬قَا َل أَنَسٌ ‪َ :‬وهَّللا ِ لَقَ ْد خَ َد ْمتُهُ َس ْب َع ِسنِينَ – أَوْ تِ ْس َع ِسنِينَ – َما‬
‫ت ‪ :‬نَ َع ْم‪ ،‬أَنَا أَ ْذهَبُ يَا َرس َ‬ ‫ك "‪ .‬قُ ْل ُ‬ ‫” يَا أُنَيْسُ ‪ْ ،‬اذهَبْ َحي ُ‬
‫ْث أَ َمرْ تُ َ‬
‫ت ‪ :‬هَاَّل فَ َع ْلتَ َك َذا َو َك َذا ؟”( سنن ابی داود‪ ،‬ح‪)4773:‬‬
‫ْت ‪ :‬لِ َم فَ َع ْلتَ َك َذا َو َك َذا ؟ َواَل لِ َش ْي ٍء تَ َر ْك ُ‬
‫صنَع ُ‬ ‫َعلِ ْم ُ‬
‫ت قَا َل لِ َش ْي ٍء َ‬
‫ترجمہ‪”:‬حضرت انس‪  ‬رضی ہللا عنہ فرم اتے ہیں کہ ن بی ک ریمﷺ لوگ وں میں‪  ‬باعتب ار اخالق ‪ ‬کےس ب‬
‫سے اچھے تھے‪ ،‬ایک دن نبی کریم ﷺ نے مجھے کس ی ض رورت کے پیش نظ ر (ب اہر)بھیج ا‪ ،‬ت و میں‬
‫نے کہ اکہ و ہللا میں نہیں ج اؤں گ ا‪  ،‬اور دل میں یہ ب ات تھی کہ آپ ﷺکے حکم کی تعمیل کے‬
‫لیے(ضرور) جاؤں گا۔ (بعد ازاں ) حضرت أنس‪  ‬رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ ‪ ‬جب ‪ ‬میں گھ ر س ے نکال ت و ب ازار میں‬
‫کھیل رہے کچھ ‪ ‬بچوں کے پاس سے گذر ہوا‪ ،‬پس اچانک نبی کریمﷺ میرے پیچھے سے میرے س رکی‬
‫گدی پکڑ لیے‪   ،‬جب میں نے ‪ ‬دیکھا ت و ن بی ک ریم ﷺ ہنس رہے ہیں‪،‬اور فرمای ا‪«:‬اے انس! ‪ ‬ج اؤ جہ اں‬
‫جانے کا حکم دیا تھا»پس میں نے کہا کہ ہاں میں جاؤں گا‪  ‬یارسول ہللا۔ ‪ ‬حضرت انس رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ ‪ ‬میں‬
‫نے نبی کریم ﷺ کی سات سال یا ن و س ال خ دمت کی‪ ، ‬مجھے نہیں معل وم کہ میرےک یے ہ وئے ک ام پ ر‬
‫کبھی سوال کیے ہوں‪ ،‬اور نہ کیے ہوئے کام پر میری سرزنش اور مالمت کی ہو۔‬
‫‪ -2‬نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم کا فرمان ہے‪”:‬إِ َّن ْالهَ ْد َ‬
‫ي الصَّالِ َح‪َ ،‬وال َّس ْمتَ الصَّالِ َح‪َ ،‬وااِل ْقتِ َ‬
‫صا َد ُج ْز ٌء ِم ْن َخ ْم َس ٍة َو ِع ْش ِرينَ‬
‫ج ُْز ًءا ِمنَ النُّبُ َّو ِة”( سنن ابی داود‪ ،‬ح‪)4776:‬‬
‫ترجمہ”یقینا راست روی‪  ،‬اور حسن خلق‪ ،‬اور میانہ روی نبوت کے پچیسویں اجزاء کا ایک جزو ہے” –‬
‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم خَا ِد ًما َواَل ا ْم َرأَةً قَ ُّ‬
‫ط”‪(.‬سنن ابی داود‪ ،‬ح‪)4789:‬‬ ‫ب َرسُو ُل هَّللا ِ َ‬
‫ض َر َ‬ ‫‪-3‬ع َْن عَائِ َشةَ َعلَ ْيهَا ال َّساَل ُم قَالَ ْ‬
‫ت ‪َ " :‬ما َ‬
‫ترجمہ‪ :‬حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا فرماتی ہیں کہ‪”:‬ہللا کے نبی صلی ہللا علیہ و سلم نے کبھی کسی مالزم ک و ض رب‬
‫نہیں ماری اور‪  ‬نہ کسی عورت کو”‪-‬‬
‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم إِ َذا بَلَ َغهُ ع َِن ال َّر ُج ِل َّ‬
‫الش ْي ُء لَ ْم يَقُ لْ ‪َ :‬م ا بَ ا ُل فُاَل ٍن يَقُ و ُل ؟‬ ‫ض َي هَّللا ُ َع ْنهَا قَالَ ْ‬
‫ت ‪َ :‬كانَ النَّبِ ُّي َ‬ ‫‪-4‬ع َْن عَائِ َشةَ َر ِ‬
‫َولَ ِك ْن يَقُو ُل ‪َ ” :‬ما بَا ُل أَ ْق َو ٍام يَقُولُونَ َك َذا َو َك َذا ؟ "‪(.‬سنن ابی داود‪ ،‬ح‪)4788:‬‬
‫ترجمہ‪ :‬حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا عرض کرتی ہیں کہ”نبی ک ریم ص لی ہللا علیہ و س لم کی جن اب میں کس ی ش خص‬
‫سے متعلق کوئی چیز (شکایات)پہونچتی‪ ،‬تو آپ نے یہ نہیں فرماتے کہ فالں ک و کیا ہوگیاہے ج و ایس ی ب ات کرت ا ہے‪،‬‬
‫لیکن یہ ضرور کہتے کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو ایسی باتیں کرتے ہیں” –‬

‫‪16‬‬
‫ك ْال ِم َرا َء َوإِ ْن َك انَ ُم ِحقًّ ا‪َ ،‬وبِبَ ْي ٍ‬
‫ت فِي‬ ‫ض ْال َجنَّ ِة لِ َم ْن ت ََر َ‬ ‫‪-5‬نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم کا فرمان ہے‪ ”:‬أَنَا زَ ِعي ٌم بِبَ ْي ٍ‬
‫ت فِي َربَ ِ‬
‫ت فِي أَ ْعلَى ْال َجنَّ ِة لِ َم ْن َحسُنَ ُخلُقُهُ "‪(.‬سنن ابی داود‪ ،‬ح‪)4800:‬‬ ‫َو َس ِط ْال َجنَّ ِة لِ َم ْن تَ َركَ ْال َك ِذ َ‬
‫ب َوإِ ْن َكانَ َم ِ‬
‫ازحًا‪َ ،‬وبِبَ ْي ٍ‬
‫ترجمہ‪”:‬میں ایسے شخص کے لیے جنت کے عالقے میں ایک گھر کی ضمانت لیتا ہوں جس نے حق بجانب ہوتے ہوئے‬
‫جنگ وجدال سے ہاتھ ٹھالیا‪ ،‬اور جنت کے وس ط میں ای ک گھ ر کی ض مانت لیت ا ہ وں جس نے مزاح ا ہی س ہی جھ وٹ‬
‫ودورغ گوئی سے اجتناب کرلیا‪ ،‬اور جنت کے اعلی سطح پر ایک گھر کی ضمانت لیتا ہ وں جس نے اخالق وک ردار کی‬
‫تحسین وتزئین کاری کی”‪-‬‬
‫ُس ِن ْال ُخلُ ِ‬
‫ق "‪(.‬س نن ابی داود‪ ،‬ح‪:‬‬ ‫‪ ”-6‬نبی کریم صلی ہللا علیہ و س لم ک ا فرم ان ہے‪َ ”:‬م ا ِم ْن َش ْي ٍء أَ ْثقَ ُل فِي ْال ِم يزَ ِ‬
‫ان ِم ْن ح ْ‬
‫‪)4799‬‬
‫ترجمہ‪(”:‬انسانی)میزان میں حسن خلق سے بھاری بھرکم کوئی چیز نہیں”‪-‬‬
‫ان احادیث کے عالوہ بہت سی حدیثیں حدیث کی کتابوں میں درج ہیں جو نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم کی ش رافتوں اور‬
‫اعلی اخالقی اقدار سے روشناس کرتی ہیں‪ -‬طول وطویل کے پیش نظر انہی چند احادیث پر اکتفا کرتا ہوں‪-‬‬
‫مذکورہ احادیث سے مستنبط مسائل‪:‬‬
‫‪ -1‬نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم کی اخالقی اقدار کا مقابلہ کرہ ارضی پ ر قیام پ ذیر ل وگ نہیں کرس کتے‪ ،‬کیوں کہ آپ‬
‫حسن کردار کی اعلی سطح پر براجمان تھے‪-‬‬
‫‪ -2‬ہمارے نبی تاجدار مدینہ صلی ہللا علیہ و سلم نہایت ہی خندہ رو‪ ،‬خ وش م زاج‪ ،‬خ وش طب ع اور ہنس مکھ تھے‪ ،‬غیظ‬
‫وغضب سے بہت پرے تھے‪-‬‬
‫‪ -3‬مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اسالمی س انچے اور اس المی تعلیم ات ک ا آئینہ دار بن ائیں اور اچھے‬
‫عادات واطوار اور اعلی کردار سے اپنے آپ کو متصف کریں‪-‬‬
‫‪ -4‬اپنے مالزمین اور نوکر چاکر کے ساتھ اچھا سلوک وبرتاؤ کریں‪ ،‬انہیں اخالق باختہ کلمات ت سے نہ بالئیں‪ ،‬اگ ر ان‬
‫سے بشری تقاضے کے مطابق کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو ترش روئی ک ا مظ اہرہ نہ ک ریں اور نہ سرزنش ی ک ردار‪ ‬‬
‫نبھائیں‪ ،‬جیساکہ نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم کے واقعات سے پتہ چلتا ہے –‬
‫‪ -5‬بزرگ اور بڑوں کی خدمت کرنی چاہیے‪ ،‬ان سے نرم لہجے میں کالم کرنا چاہیے‪-‬‬
‫‪ -6‬راست روی اور دیانت داری‪ ،‬حسن اخالق اور اعتدال پسندی ایک عظیم انسانی سوغات ہے‪ ،‬جس ے ن بی ک ریم ص لی‬
‫ہللا علیہ و سلم نے اس کی اہمیت وفضلت کے پیش نظر نبوت کے پچیسویں اجزاء کا ایک جزو قرار دیا –‬
‫‪ -7‬کسی کی اصالح اور سدھار کرتے وقت عمومی طور سے انکار منک ر ک ریں ت اکہ کس ی کے دل میں تنگی نہ ہ ونے‬
‫پائے‪-‬‬
‫‪ -8‬حسن خلق نہایت ہی وزنی شی ہے‪ ،‬جسے کوئی میزان سے وزن نہیں کیا جاسکتا‪-‬‬
‫‪ANS 05‬‬
‫رسول ہللا کی مبارک زن دگی میں عف و و درگ زر ‪،‬رحم و ک رم‪ ،‬محبت و ش فقت اورپیار ہی پیارنظر ٓات اہے۔ٓاپ نے پ وری‬
‫زندگی کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا۔کسی پر ہاتھ نہیں اٹھا یا ۔ کسی کو برابھال نہیں کہا ۔ام المومنین حضرت عا ئشہ‬

‫‪17‬‬
‫اتی ہیں‪:‬‬ ‫اد فرم‬ ‫ارحمت میں رہیں ۔وہ ارش‬ ‫حبت ب‬ ‫ک ٓاپ ‪   ‬کی ص‬ ‫رس ت‬ ‫دیقہ ؓ‪9‬ب‬ ‫ص‬
‫ت شریفہ کسی کو برا بھال کہ نے کی نہیں تھی ‪ٓ،‬اپ ‪  ‬ب رائی کے ب دلے میں کس ی کیس اتھ ب رائی‬
‫‪ ’’    ‬رسو ل ہللا کی عاد ِ‬
‫نہیں کرتے بلکہ اسے معاف فرمادیتے تھے ۔ٓاپ کی زبان مبارک سے کبھی بھی کوئی غلط الف اظ نہیں نکلے ۔ٓاپ ‪  ‬گن اہو‬
‫ں کی باتوں سے ہمیشہ کوسوں دور رہے ۔ٓاپ ‪  ‬اپنی ذات کیل ئے کس ی س ے انتق ام نہیں لیا۔غالم ‪،‬لون ڈی‪ ،‬ع ورت‪،‬بچہ ی ا‬
‫خادم یہاں تک کہ کسی جانور کوبھی کبھی نہیں مارالیکن اگر ک وئی ح دود ہللا کی بے حرم تی کرت ا ت و ن بی ک ریم اس ے‬
‫لم ) ۔‬ ‫ام لیتے۔‘‘ ( مس‬ ‫ا انتق‬ ‫رتے اور اس ک‬ ‫ت نہیں ک‬ ‫برداش‬
‫اف کردینا‪:‬‬ ‫و مع‬ ‫الم ک‬ ‫منان ِاس‬ ‫‪          ‬دش‬
‫‪         ‬عفو و درگزراور رحم وکرم کی اس سے بڑی مثال کیا ہوس کتی ہے کہ فتح مکہ کے موق ع پ ر رس ول ہللا نے ان‬
‫رام پ ر‬
‫تمام دشمنوں کو معاف فرمادیا جنھوں نے چند ماہ نہیں متواتر ‪13‬سال تک مکہ میں ٓاپ‪  ‬پراور ٓاپ کے صحا بہ ک ؓ‬
‫عرصٔہ حیات تنگ کررکھا ۔طرح طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ظلم و ستم کے پہ اڑ ت وڑے تھے اور ٓاپ ک و‬
‫اپنا محبوب وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا تھالیکن جب مکہ فتح ہوتا ہے تو نبی کریمہزاروں جانثار ص حا بہ ک رام ؓ کے‬
‫تعالی کی نغمہ سرائی کرتے ہوئے سرزمی ِن حرم میں داخل ہوتے ہیں ۔سب سے ‪  ‬پہلے بیت ہللا شریف‬
‫ٰ‬ ‫ی‬
‫جلو میں حمد بار ٔ‬
‫منان اس الم س ے بھ را‬
‫ِ‬ ‫صحن ح رم دش‬
‫ِ‬ ‫تشریف التے ہیں‪،‬دوگانہ نماز ادا کرتے ہیں‪،‬ہللا رب العزت کا شکر ادا کرتے ہیں‪،‬‬
‫ہوا ہے۔ وہ سراسیمہ اور خوفزدہ ہیں کہ ٓا ج ہمارے تمام اگلے پچھلے ب رے کرتوت وں ک ا حس اب کت اب چکای ا جائیگ ا کہ‬
‫وتی ہے‪:‬‬ ‫دہ‬ ‫ک ٓاواز بلن‬ ‫اچان‬
‫‪ ’’    ‬اے ق ریش کے لوگ و!تم‪  ‬س وچ رہے ہ و کہ میں تمہ ارے س اتھ کیا مع املہ ک رنے واال ہ وں؟‘‘‬
‫‪    ‬تمام لوگوں نے کہا ‪ :‬اے محمد()!تم سے ہم کو خیر اور بھالئی کی امید ہے اس لئے کہ تم ہمارے بہترین بھائی ہو اور‬
‫دہو!۔‬ ‫د ارجمن‬ ‫ائی کے فرزن‬ ‫ریف بھ‬ ‫ارے ش‬ ‫ہم‬
‫اد فرمایا ‪:‬‬ ‫انیتنے ارش‬ ‫ِن انس‬ ‫دنبی رحمت محس‬ ‫‪    ‬اس کے بع‬
‫و۔ ‘‘‬ ‫وگ ٓازاد ہ‬ ‫وئی لعنت و مالمت نہیں‪ ،‬تم ل‬ ‫رک‬ ‫وں پ‬ ‫‪ٓ’’    ‬اج تم لوگ‬
‫اف کردینا‪:‬‬ ‫و مع‬ ‫رنے والے ک‬ ‫تراض ک‬ ‫‪          ‬اع‬
‫‪        ‬غزوئہ حنین میں صحا بہ ک رام‪ ؓ  ‬ک و واف ر مق دار میں م ا ِل غ نیمت ہ اتھ ٓای ا تھ ا۔ن بی کریم نے بعض ص حا بہ ک رام‬
‫کومصلحتازیادہ حصہ دیا۔ حضرت اقرع بن حابس ؓ اور حضرت عیینہ‪ؓ  ‬کو ‪ 100,100‬اونٹ دی ئے۔ای ک ص حابی ؓ ک و اس‬
‫ؓ‬
‫مسعود س ے‬ ‫تقسیم پر اعتراض ہوا اور انہوں نے کہا کہ میں اس تقسیم سے خوش نہیں ہوں۔انہوں نے حضرت عبد ہللا بن‬
‫نبی ک ریم کے فیص لے کی ش کایت کی۔ انہ وں نے ن بی ک ریم ک و اس واقعہ کی اطالع دی دی ۔ یہ س ن ک ر ن بی ک ریم نے‬
‫اد فرمایا ‪:‬‬ ‫ابلکہ ارش‬ ‫ار نہیں فرمای‬ ‫ا اظہ‬ ‫گی ک‬ ‫ناراض‬
‫موسی پر رحم فرمائے کہ‬
‫ٰ‬ ‫‪ ’’    ‬ہللا اور اس کا رسول درست فیصلہ نہیں کرے گا تو ٓاخر کون کرے گا؟ہللا ٰ‬
‫تعالی ـ حضرت‬
‫وڑا۔ ‘‘‬ ‫ا دامن نہیں چھ‬ ‫بر ک‬ ‫وں نے ص‬ ‫ئی لیکن انہ‬ ‫ائی گ‬ ‫ادہ اذیت اور تکلیف پہنچ‬ ‫ان کو اس سے زی‬
‫اف کردینا‪:‬‬ ‫و مع‬ ‫یر ک‬
‫ؓ‬ ‫‪    ‬کعب ابن زہ‬
‫‪    ‬کعب بن زہیر اپنے بھائی (بجیربن زہیر )کے ہمراہ نبی کریمسے مالقات کرنے مدینہ طیبہ ٓاتے ہیں۔جب م دینہ من ورہ‬

‫‪18‬‬
‫کے قریب پہنچتے ہیں تو بجیر بن زہیر‪ ،‬کعب بن زہیر کو ایک مقام پر ٹھہراکر نبی کریم سے مالقات کرنے تش ریف لے‬
‫جاتے ہیں۔وہ ٓاپ سے مالقات کرتے ہیں ۔ ٓاپ انک و اس الم کی دع وت دی تے ہیں ۔ ٓاپ کی ن ورانی تعلیم ات س ے وہ مت اثر‬
‫ہوکر حلقہ بگوش اسالم ہوجا تے ہیں۔جب کعب بن زہیر کو واقعہ کی اطالع ہوتی ہے ت و وہ ب رہم ہوجات ا ہے ۔ ن بی ک ریم‬
‫کی شا ِن مبارک میں ہجویّہ اش عار لکھت اہے ۔ن بی ک ریم ک وجب اس ک ا علم ہوت اہے ت و ٓا پ‪  ‬اس کی گ ردن زدنی ک ا حکم‬
‫اعلی اخالق و خصائل سے ٓاگاہ ک رتے ہیں جن‬
‫ٰ‬ ‫بجیر نے خط لکھ کر کعب بن زہیر کو نبی کریمکے‬
‫ؓ‬ ‫فرماتے ہیں۔حضرت‬
‫کو سن کر ان کے دل کی دنیا بدل جاتی ہے۔وہ اونٹ پر سوار ہوکر مدینہ من ورہ ٓاتے ہیں ۔ اونٹ ک و مس جد نب وی ش ریف‬
‫کے صحن میں کھڑاکرتے ہیں‪  ‬اوررسالت مٓابکی خ دمت میں حاض ر ہوکرقب ول ِاس الم ک ا اعالن ک رتے ہیں۔اپن ا مش ہور‬
‫قصیدہ (بانت سعاد)کا نذرانٔہ عقیدت پیش کرکے معافی کے طلبگار ہوتے ہیں۔ نبی کریم کی کریم ذات نہ صرف معافی کا‬
‫ادیتے ہیں۔‬ ‫ایت فرم‬ ‫ارک انہیں عن‬ ‫نی ردائے مب‬ ‫رت میں اپ‬ ‫رط مس‬
‫ِ‬ ‫تی ہے بلکہ ف‬ ‫روانہ دی‬ ‫پ‬
‫اف کردینا‪:‬‬ ‫ورت کومع‬ ‫نے والی ع‬ ‫ر دی‬ ‫‪      ‬زہ‬
‫‪        ‬خیبر کی یہودی عورت زینب بنت الحارث نے نبی کریمکی خدمت میں زہر ٓالود بکرے ک ا گوش ت پیش کیا ۔آپ نے‬
‫کرام‪  ‬کو حکم دیا کہ یہ گوشت کوئی استعمال نہ کرے اس لئے کہ یہ زہر ٓال ود ہے۔‬
‫نوالہ چکھ کر تھوک دیا۔ٓاپنے صحابہ ؓ‬
‫اور ٓاپنے یہودی عورت کوحاضر کرنے کا حکم فرمایا۔جب و ہ رس الت م ٓاب کی خ دمت میں حاض ر ہ وئی ت و ٓاپ نے اس‬
‫سے دریافت فرمایا کہ تم نے یہ حرکت کیوں کی۔اس نے ج واب دی ا کہ میں ٓازمان ا چ اہتی تھی کہ ٓاپ واقعی ہللا کے ن بی‬
‫تعالی ٓاپ کواس کی اطالع دیدیںگے اور اگر ٓاپ جھوٹے ہیں توہم لوگ وں‬
‫ٰ‬ ‫ہیں یا نہیں؟اگر ٓاپ واقعی ہللا کے نبی ہیں تو ہللا‬
‫کو ٓاپ سے راحت مل جائیگی۔حضرت ابوہریرہؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس عورت پر ٓاپ نے ذرا بھی ناراضگی کا اظہ ار‬
‫ا۔‬ ‫اف فرمادی‬ ‫و مع‬ ‫ا اور اس ک‬ ‫نہیں فرمای‬
‫اف کرنا ‪:‬‬ ‫و مع‬ ‫احبزادی ک‬ ‫ائی کی ص‬ ‫اتم ط‬ ‫‪      ‬ح‬
‫‪        ‬ایک جنگ میں ک ئی ل وگ قید ی بن اکر الئے گ ئے۔ ان میں س خاوت و فیاض ی میں مش ہور زم انہ ح اتم ط ائی کی‬
‫صاحبزادی’’ طی‘‘ بھی تھی۔ جب اسے رسالت مٓاب کی خدمت میں الیا گیا تو اس نے کہا ‪:‬اے محمد()!کیا تم ج انتے ہ و‬
‫میں کون ہوں؟میں عرب کے مشہور قبیلے کے سردار کی صاحبزادی ہوں۔ میرا باپ سخاوت و فیاضی میں ممتاز تھا‪،‬وہ‬
‫بھوکوں کو کھانا کھالتا تھا ‪،‬ننگوں کو کپڑا پہناتا تھا ‪،‬حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرت ا تھ ا‪،‬اس نے اپ نی زن دگی میں‬
‫کبھی بھی کسی ضرورت مند کوواپس نہیں کیااور کوئی سائل اس کے در س ے خ الی ہ اتھ نہیں لوٹ ا۔ن بی کریم نے جب یہ‬
‫اعلی صفات تواہل ایمان کی ہیں۔اگر تمہارا باپ مسلمان ہوتا تو وہ ب ڑا نیک اور متقی انس ان‬
‫ٰ‬ ‫خوبیاں سنیں تو فرمایا کہ یہ‬
‫اد فرمایا ‪:‬‬ ‫د آپ نے ارش‬ ‫ا۔‪  ‬اس کے بع‬ ‫ہوت‬
‫ا۔ ‘‘‬ ‫ک تھ‬ ‫ا مال‬ ‫ادات ک‬ ‫ن ِاخالق و ع‬ ‫اپ حس‬ ‫ائے کہ اس کاب‬ ‫اج‬ ‫ا کردی‬ ‫و رہ‬ ‫‪ ’’    ‬اس ک‬
‫ارم خس روانہ س ے مت اثر ہوکراپ نے بھ ائی کے س اتھ مش رف باس الم‬
‫‪    ‬جب اسے رہا کردیا گیا تو وہ نبی ک ریم کے مک ِ‬
‫ئی۔‬ ‫ہوگ‬
‫اف کرنا‪:‬‬ ‫و مع‬ ‫رنے والے ک‬ ‫ال ک‬ ‫و پام‬ ‫دس ک‬ ‫جد کے تق‬ ‫‪     ‬مس‬
‫نبوی میں تشریف فرماہیں۔ ایک دیہاتی مسجد میں داخل ہ وکر مس جد کے تق دس و‬
‫کرام‪  ‬مسج ِد ؐ‬
‫ؓ‬ ‫‪       ‬نبی کریم اور صحابہ‬

‫‪19‬‬
‫کرام یہ دیکھ کر سخت ناراض ہ وکر‬
‫صحن حرم میں پیشاب کرنے بیٹھ جاتا ہے۔ صحا بہ ؓ‬
‫ِ‬ ‫حرمت کو پامال کردیتا ہے ۔وہ‬
‫کرام کوایسا کرنے س ے من ع ک رکے ارش اد فرمای ا‪ :‬اس ے‬
‫اسے مارنے پیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نبی کریم ‪  ‬صحا بہ ؓ‬
‫چھوڑ دو اور پیار سے سمجھاؤ کہ مسجدہللا ک ا گھ ر ہے‪ ،‬عب ادت کی جگہ ہے ‪،‬قاب ل اح ترام ہے‪ ،‬یہ اں ب ول وب راز نہیں‬
‫رام ک و جم ع ک رکے‬
‫ک رتے اورفرمای ا جس جگہ اس نے پیش اب کیا ہے اس جگہ پ ر پ انی بہ ا دو۔اس کے بعدص حابہ ک ؓ‬
‫نص یحت کی کہ ہمیں حس ِن اخالق اور حس ِن ک ردار ک ا مظ اہرہ کرن ا چ اہئے‪ٓ ،‬اس انیاں پیدا ک رنے کی کوش ش ک رنی‬
‫اہئے ۔‬ ‫اچ‬ ‫ز کرن‬ ‫رنے گری‬ ‫کالت پیدا ک‬ ‫واریاں اور مش‬ ‫اہئے‪،‬دش‬ ‫چ‬
‫اف کردینا ‪:‬‬ ‫و مع‬ ‫لک‬ ‫ا کے قات‬ ‫‪     ‬چچ‬
‫‪        ‬نبی کریم کے پیارے چچاسیدنا حمزہ ؓ غزوئہ احد میں نہایت جرٔات و دلیری سے کفارو مشرکین ک ا مق ابلہ ک ررہے‬
‫تھے ۔ میدا ِن جنگ میں جس طرف بھی رخ کرتے دشمنوں کے کشتوں کے پشتے لگ ج اتے ۔ جب یر بن مطعم ک ا حبش ی‬
‫غالم وحشی بن حرب ٓازادی حاصل کرنے اور اپنے ٓاقا کو خوش کرنے کیلئے سیدنا‪  ‬حمزہؓ کا تعاقب کررہاتھا کہ اچان ک‬
‫اس نے پیچھے سے چھپ کر حملہ کردیا اور نیزے سے ایسی کاری ضر ب لگائی کہ حضرت حمزہؓ زمین پ ر گ ر پ ڑے‬
‫اور جام شہادت نوش فرمایا لیکن یہی وحشی جب ‪8‬ہجری میں طائف کے ایک وفد کیساتھ مشرف بہ‪  ‬اسال م ہ ونے م دینہ‬
‫اد فرمایا‪:‬‬ ‫و ارش‬ ‫اتی ہے ت‬ ‫واس کی اطالع دی ج‬ ‫ریم ک‬ ‫بی ک‬ ‫ورہ ٓائے اور ن‬ ‫من‬
‫‪ ’’    ‬اس ے ٓانے دو‪،‬ای ک ش خص ک ا مس لمان ہون امیرے نزدی ک ہ زار ک افروں کے قت ل س ے بہ تر ہے۔‘‘‬
‫‪    ‬یہ فرم اکر اس کی تم ام غلطیوں ک و مع اف ک ر کے اس کا اس الم قب ول فرم الیتے ہیں۔ اس ے نص یحت ک رتے ہیں ‪:‬‬
‫‪’’    ‬اے وحشی! بے شک تم دائرٔہ اسالم میں داخل ہو گئے ہولیکن ممکن ہو تو میرے س امنے مت ٓای اکرواس ل ئے کہ تم‬
‫اتی ہے۔‘‘‬ ‫ازہ ہوج‬ ‫اد ت‬ ‫اکی ی‬ ‫ر پیارے چچ‬ ‫و دیکھ ک‬ ‫ک‬
‫اف کردینا‪:‬‬ ‫و مع‬ ‫دہ ک‬ ‫‪     ‬ہن‬
‫‪         ‬سید الشہداء حضرت حمزہ ؓنے جنگ بدر میں ہندہ کے باپ عتبہ کو واصل جہنم کیا تھا۔ہندہ‪  ‬نے اپنے باپ کا انتقام‬
‫لینے کی قسم کھائی تھی ۔جنگ احد میں وہ‪  ‬اپنے شوہر ابوسفیان بن حرب کے ساتھ شریک تھی اور اپنے جنگج وؤں ک و‬
‫رمزیہ اشعار پڑھ کر ہمت اور حوصلہ بڑھارہی تھی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ سید الشہداء حضرت حمزہؓ نے ج ِام ش ہادت‬
‫حمزہ کے پاس پہنچی اور انتہائی بے دردی سے ان کا پیٹ اور‬
‫ؓ‬ ‫نوش فرمالیا ہے تو نعشوں کو تالش کرتی ہوئی حضرت‬
‫زہ‬
‫سینہ چاک‪  ‬کرکے غیظ وغضب کی حالت میں کلیجہ چباکر نگل نے کی کوش ش ک رتی ہے اور خوش ی میں س یدنا‪  ‬حم ؓ‬
‫کے قاتل وحشی ابن حرب کو اپنے گلے کاقیمتی ہار دے دیتی ہے ۔ اس کا‪  ‬ہر عمل اس بات کا تقاضا کررہا تھ ا کہ اس ے‬
‫سخت ترین سزا دی جائے لیکن جب وہی سنگدل ہندہ فتح مکہ کے موقع پر رسالت مٓاب کی خدمت میں حاض ر ہ وتی ہے‬
‫دامن اس الم میں پن اہ دے دی ج اتی ہے۔‬
‫ِ‬ ‫ت و اس کے تم ام خط ائوں ک و مع اف کردی ا جات ا ہے اور‬
‫اف کرنا‪:‬‬ ‫و مع‬ ‫د یالیل کے بیٹے ک‬ ‫ردار عب‬ ‫ائف کے س‬ ‫‪ ‬ط‬
‫‪        ‬یہ وہی طائف کے سردارعبد یالیل کا سپوت ہے جسکے ظالم وجابر باپ نے محس ِن انس انیت کیس اتھ غیرانس انی و‬
‫نبی رحمتکی باتیں سننے سے انک ار کیاتھ ا بلکہ ٓاپ ک ا م زاق اڑایاتھ ا ‪ٓ،‬اپ‪  ‬ک و‬
‫غیر اخالقی سلوک کیا تھا اور نہ صرف ٔ‬
‫ذلیل کیا تھا‪،‬مظالم کے پہاڑ توڑے تھے لیکن جب وہ وفد کیساتھ مدینہ ٓایا تو ن بی رحمت کواس کی اطالع دیج اتی ہے۔ ٓاپ‬

‫‪20‬‬
‫نے مسرت و شادمانی کا اظہار فرماتے‪  ‬ہوئے ٓاگے بڑھ کراسکا استقبال کیا‪،‬صح ِن حرم میں اسکے قیام کاانتظ ام فرمای ا۔‬
‫اس کو ٓارام و راحت بہم پہچ انے کی ہ ر ممکن کوش ش‪  ‬کی ۔ روزانہ ٓاپ ‪  ‬اس کے خیمے میں تش ریف لیج اتے‪ ،‬خ یریت‬
‫دریافت کرتے اور طائف کی دلدوز داستان سناتے ہیں۔بآالخر اسے معافی ک ا پ روانہ دے کردائ رئہ اس الم داخ ل فرم اتے‬
‫ان کہ‪:‬‬ ‫ا فرم‬ ‫ہیں۔ یہ ہے ٓاپ ک‬
‫رو۔ ‘‘‬ ‫اف ک‬ ‫ے مع‬ ‫ر اور اس‬ ‫و پیار ک‬ ‫من ک‬ ‫نے دش‬ ‫‪’’     ‬اپ‬
‫اف کردینا ‪:‬‬ ‫و مع‬ ‫رب ک‬ ‫فیان بن ح‬ ‫‪    ‬ابوس‬
‫رورکائنات ‪  ‬اور آپ کے س تودہ ص فات‬
‫ِ‬ ‫‪        ‬یہ ابوسفیان کون ہیں ؟۔ عرب کے جنگجو’’ حرب‘‘ کا بیٹ اہے جس نے س‬
‫اصحاب‪ ؓ  ‬کو ایذائیں پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔اسالم کا نام مٹانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگادی ا تھ ا۔‬
‫جنگ بدر ‪،‬غزوئہ احداور غزوئہ خندق سمیت کئی جنگوں کا ہ یرو اور س رغنہ تھ ااور کت نے اہ ل ِایم ان کے خ ون س ے‬
‫سرورکائنات ‪  ‬کو قتل ک رنے کی سازش یں کی تھیں۔اس کاہر ج رم اورہ ر گن اہ‬
‫ِ‬ ‫اپنے دامن کو داغدار کیاتھا ۔ کتنی بار خود‬
‫سرعام سزا دی جائے ۔ ابو س فیان‬
‫منہ پھاڑ کر گواہی دے رہا تھاکہ اسے ایک لمحہ کیلئے بھی برداشت نہ کیا جائے اور ِ‬
‫محسن انسانیت کی خدمت میں سراسیمہ اور خوفزدہ حاضر ہ وتے ہیں ۔ن بی ک ریم‬
‫ِ‬ ‫نبی رحمت اور‬
‫حضرت عباس ؓ کیساتھ ٔ‬
‫ان دالتے ہیں ‪:‬‬ ‫لی اور اطمین‬ ‫تس‬
‫‪ ’’    ‬اے ابوس فیان!ڈرو مت!تم س ے ک وئی انتق ام نہیں لیا جائیگ ا۔تمہ ارا ک وئی مواخ ذہ نہیں ہوگ ا ۔ ‘‘‬
‫‪    ‬اور ابو سفیان کے تمام خطائوں کو نہ صرف معاف کردیا جاتا ہے بلکہ ارشاد ہوت ا ہے‪’’    :‬ج و اب و س فیان کے گھ ر‬
‫وظ ہے۔‘‘‬ ‫امون اور محف‬ ‫ا وہ م‬ ‫اہ لے گ‬ ‫میں پن‬
‫‪    ‬یہ محبوب ٓاقا‪،‬پیارے رس ول ‪،‬ن بی ٓاخرالزم اںکے عف وو درگ زر‪،‬رحم وک رم ‪،‬ش فقت و محبت اور ن رم دلی کے متعل ق‬
‫مختصر وضاحت ہے ورنہ نبی کریم کی پوری زندگی عفو و درگزر ‪ ،‬تواضع و انکساری ‪،‬رحم و ک رم ‪ ،‬محبت و ش فقت‬
‫ئے ۔‬ ‫راں کے ل‬ ‫ر بیک‬ ‫اہیے اس بح‬ ‫فینہ چ‬ ‫ارت ہے ۔ س‬ ‫ے عب‬ ‫ز و نیاز س‬ ‫اور عج‬
‫‪    ‬قرٓان کریم گواہی دیتا ہے کہ اگر ٓاپرحیم و کریم‪ ،‬شفیق و مہربان اورنرم خو نہ ہوتے ت و یہ وحش ی اور درش ت م زاج‬
‫انی ہے‪:‬‬ ‫اد رب‬ ‫وتے‪ ،‬ارش‬ ‫ریب نہ ہ‬ ‫ےق‬ ‫رب ٓاپ س‬ ‫ع‬
‫ٓاپ‪  ‬ان کیلئے نرم ہیں‪ ،‬اگر ٓاپ کج خلق اور سخت مزاج ہوتے تو یہ (لوگ ج و‬
‫تعالی کی عنایت اور رحمت سے ؐ‬
‫ٰ‬ ‫‪’’    ‬ہللا‬
‫اتے۔‘‘‬ ‫ے ہٹ ج‬ ‫اس س‬ ‫وئے ہیں ) ٓاپ کے پ‬ ‫عہ‬ ‫رد جم‬ ‫ٓاپ کے گ‬
‫‪        ‬دوسری جگہ ارشاد ہے‪  ’’    :‬تم‪  ‬میں سے ایک پیغمبر ٓایا جس پر تمہاری تکلیف بہت شاق گزرتی ہے‪،‬وہ تمہاری‬
‫بھالئی اور اچھائی کا خواہاں ہے اور ایمان والوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہے۔‘‘‬

‫‪21‬‬

You might also like