Professional Documents
Culture Documents
1
الی نے انس انیت کی ہ دایت اور اس کے ل یے ش ب وروز گ زارنے کے
ق رآن مق دس میں جگہ جگہ ہللا تب ارک وتع ٰ
اصول بیان کیے ہیں ۔ انسانیت کی خوبیوں کو آش کارا کیا ہے اور خ امیوں کی نش ان دہی کی ہے۔ ج و بھی اس پ ر عم ل
کرے گا اور اس سے استفادہ کرے گا وہ دین و دنیاکی کامیابی سے ہم کنار ہوگااورجو اس کی خالف ورزی کرے گ ا وہ
ناکام ونامراد ہوگا۔
حضور صلى هللا عليه وسلم کو جب نبوت کے منصب عظیم سے نوازا گیا ،اس وقت جزی رة الع رب کی کیا ح الت
تھی؟ قتل وغارت گری ،چوری ،ڈکیتی ،قتل اوالد ،زنا،بت پرستی کون سی ایسی برائی تھی جو ان میں پائی نہ ج اتی ہ و۔
بعضے وقت بڑے فخریہ انداز میں اسے نجام دیاجاتا تھا۔ ہللا کے رسول نے ان کی تعلیم و تربیت اس ان داز س ے کی اور
زندگی گزارنے کے ایسے اصول بتائے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی حالت یکسر بدل گئی اور تہذیبی قدروں سے آش نا
ہوگئے۔ جہاں اور جدھر دیکھیے لوگ تعلیم وتعلم سے جڑ گئے اور قرآن وحدیث کی افہام وتفہیم میں مشغول ہوگئے۔ اس
کے لیے باضابطہ ہللا کے رسول نے مسجد نبوی میں ایک مقام کو خاص کردیا ،جسے صفہ کہا جاتا تھا۔اس میں ص حابہ
کرام فروکش ہوتے اور علم وعمل کی دولت س ے م اال م ال ہ وتے۔ اس کے عالوہ بھی م دینہ میں اور مس جدیں تھیں جن
میں صحابہ کرام کی تعلیم و تربیت کا انتظام تھا۔ یہاں سے فیض ان نب وت حاص ل ک رکے یہ حض رات دور دراز مق ام پ ر
پہنچے اور دوسروں کو علوم نبوت سے ماالمال کیا۔ کون کہہ سکتا تھا کہ عرب جیس ی اج ڈ ق وم ات نی جل د علم و تہ ذیب
سے اس طرح آراس تہ وپیراس تہ ہوج ائے گی کہ ل وگ اس کی تقلید ک رنے لگیں گے اور دنیا اس روش نی س ے معم ور
ہوجائے گی۔ یہ کارنامہ تھا ہللا کے رسول کا اور ان کے فیوض و برکات کا جس کی نظیر نہیں ملتی۔جیساکہ دنیا پر عہ د
نبوی کے تعلیمی اثرات کا جائزہ لیتے ہوے ایک دانش ور لکھتے ہیں:
”عرب میں چھٹی صدی عیسوی میں اسالم سے علم وحکمت کا نیا باب ش روع ہ وا،جس نے پن درہویں ص دی ت ک
ایشیاء ،افریقہ اور مغربی یورپ کو دنیا کے نقشہ پر انقالب آف ریں خطہ بنادی ااور علم وحکمت کی فص ل گ ل س ے پ ورا
خطہ چمن زار ہوگیا۔ باآلخر ہر چہار سو خوش حالی ،امن و آشتی اور باد بہاری کی خوش گواری س ے اہ ل ی ورپ بھی
وسطی کہالیا۔ اس عہد کی ابتدا ء میں کہ تے ہیں ق رطبہ اور بغ داد دنیا کی عظیم ت رین دانش گ اہ
ٰ بیدار ہوے۔ یہ عہد عہد
مانی جاتی تھی۔ قدیم علمی ذخیروں کی تالش کی گئی اور یونان ،مصر،روم اور ہند کی نایاب کت ابوں ک ا ت رجمہ ک رکے
ان علمی سرمایوں کو ضائع ہونے سے بچالیا۔ مسلم خلفا ء و سالطین نے اپ نی نوازش وں س ے علم کی خ دمت پ ر م امور
دنیا بھ ر کے دانش وروں اور م اہرین فن کی سرپرس تی کی جنہ وں نے علم و حکمت میں گ راں م ایہ کارن امے انج ام
دیے۔“()۲
اہل علم کی فضیلت
نبی اکرم کو جس دین سے نوازا گیا ،اس کی ابتدا ہی تعلیم ہوئی۔غارحرا میں سب س ے پہلی ج و وحی ن ازل ہ وئی
وہ سورہ علق کی ابتدائی چند آیتیں ہیں ،جن میں نبی امی کو کہا گیا :
نس انَ َم ا لَ ْم ق .ا ْق َر ْأ َو َرب َ
ُّک اأْل َ ْک َر ُم .الَّ ِذیْ عَلَّ َم بِ ْالقَلَ ِم .عَلَّ َم اإْل ِ َ ِّک الَّ ِذیْ َخلَ قَ .خَ لَ َ
ق اإْل ِ َ
نس انَ ِم ْن َعلَ ٍ ”ا ْق َر ْأ بِ ْ
اس ِم َرب َ
یَ ْعلَم(“.العلق)۵-۱:
2
(پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے سب کو پیدا کیا۔ پیدا کیا اس نے انس ان ک و خ ون کے ل وتھڑے س ے ۔ پ ڑھ ،
تیرارب بڑا کریم ہے۔ جس نے سکھایا علم قلم کے زیعہ۔ اس چیز کا علم دیا انسان کو جو وہ نہیں جانتا ۔)
علم کے ذریعہ ہی آدمی ایمان ویقین کی دنیا آباد کرتا ہے ،بھٹکے ہوے لوگوں کو س یدھا راس تہ دکھات ا ہے ،ب روں
کو اچھا بناتا ہے ،دشمن کو دوست بناتاہے ،بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن وام ان کی فض اء پیدا کرت ا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ حاملین علم کی قرآن وحدیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اسے دنیوی و اخروی بشارتوں سے
نوازاگیا ہے۔ قرآن کہتا ہے:
”یَرْ فَ ِع ہَّللا ُ الَّ ِذ ْینَ آ َمنُوا ِمن ُک ْم َوالَّ ِذ ْینَ أُوتُوا ْال ِع ْل َم َد َر َجا ٍ
ت َوہَّللا ُ بِ َما تَ ْع َملُونَ َخبِ ْیرٌ(“.المجادلہ)۱۱:
(تم میں سے جو لوگ ایمان الئے اور جن کو علم عطا ہواہے ،ہللا اس کے درجات بلند فرم ائے گ ا اورج و عم ل تم
کرتے ہو اس سے ہللا باخبر ہے۔)
دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے:
”قُلْ ہَلْ یَ ْست َِویْ الَّ ِذ ْینَ یَ ْعلَ ُمونَ َوالَّ ِذ ْینَ اَل یَ ْعلَ ُمونَ إِنَّ َما یَتَ َذ َّک ُر أُوْ لُوا اأْل َ ْلبَاب( “.الزمر)۹:
(اے نبی،کہہ دیجیے کیاعلم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے (جاہل) براب ر ہوس کتے ہیں۔نص یحت ت و
وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔)
وتعالی فرماتا ہے:
ٰ تاریکی اور روشنی کی مثال دے کر عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیاہے۔ ہللا تبارک
ص ْی ُر أَ ْم ہَلْ تَ ْست َِویْ ُّ
الظلُ َم ُ
ات َوالنُّور(“.الرعد)۱۶: ”قُلْ ہَلْ یَ ْست َِویْ األَ ْع َمی َو ْالبَ ِ
(کہہ دیجیے،کیا برابر ہوس کتے ہیں ان دھا(جاہ ل) اور دیکھ نے واال(ع الم) ی ا کہیں براب ر ہوس کتا ہے ان دھیرا اور
اجاال۔)
اس طرح کی بہت ساری آیتیں ہیں جن میں عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیا ہے اور ان کے درج ات کے
تعین کے ساتھ مسلمانوں کو حصول علم کے لیے ابھارا گیا ہے۔
اس سلسلے میں کثرت سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جن میں اہل علم کی ستائش کی گئی ہے اور انہیں انس انیت
کا سب سے اچھا آدمی قرار دیا گیا ہے۔ ہللا کے رسول فرماتے ہیں:
ض لِی َعلَی اَ ْدنَ ا ُک ْم ،ثُ َّم قَ ا َل َر ُس و ُل ہّٰللا ِ ص لى هللا علي ه وس لم :اِ َّن ہّٰللا َ َو َماَل ئِ َکتَہُ َوا ْھ َلض ُل ْال َع الِ ِم َعلَی ْالعابِ ِد َ ،کفَ ْ” َوفَ ْ
اس ْالخَ ی َْر)۳(“. ض ْینَ َحتَّی النَّ ْملَةَ فِی جُحْ ِرھَا َو َحتَّی ْالحُوْ تَ لَیُ َ
صلُّوْ نَ عَلی ُم َعلِّ ِم النَّ ِ ت َو ااْل َرْ ِ
السَّمٰ َوا ِ
(اورعاب د پ ر ع الم کی فض یلت ایس ی ہے جیس ے م یری فض یلت تم میں س ے ادنی پ ر۔ یقین ا ہللا عزوج ل ،اس کے
حتی کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی ت ک لوگ وں کے معلم کے ل یے بھالئی کی
فرشتے اور آسمان وزمین والے ٰ
دعاء کرتی ہیں۔)
ایک دوسرے حدیث کے راوی حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہ ہیں ،وہ بیان کرتے ہیں:
عض ُح َج ِر ِہ ،فَ َدخَ َل ْال َم ْس ِجدَ ،فَ اِ َذا ھُ َو بِ َح ْلقَتَ ْی ِن :اِحْ داھُ َما یَق َر ٴُون ہّٰللا
”خ ََر َج َرسُوْ ُل ِ صلى هللا عليه وس لم َذاتَ یَ وْ ٍم ِمن بَ ِ
یُ :ک ٌّل عَلی َخ ْی ٍرٰ ،ھ ٴُواَل ِء یَقُ َر ٴُونَ ْالقُ رْ آنَ َویَ ْد ُعوْ نَ ہّٰللا ،فَ اِ ْن َش ا َء ہّٰللا
الُقُرْ آنَ َویَ ْد ُعوْ نَ َ ،وااْل ُ ْخ َری یَتَ َعلَّ ُم ونَ َویُ َعلِّ ُم ونَ .فَقَ َ
ال النَّبِ ُ
اَ ْعطَاھُ ْم َواِ ْن َشا َء َمنَ َعھُ ْمَ ،و ٰھ ٴواَل ِء یَتَ َعلَّ ُموْ نَ َویُ َعلِّ ُموْ نَ َ ،واِنَّ ّما بُ ِع ْث ُ
ت ُم َعلِّماً ،فَ َجلَ َ
س َم َعھُ ْم)۴(“.
3
(ایک دن رسول ہللا اپنے حجرے سے باہر تشریف الئے اور مس جد (نب وی) میں داخ ل ہ وے،وہ اں دوحلقے بیٹھے
ہوے تھے،ایک حلقہ قرآن کی تالوت کررہا تھا اورہللا سے دعاء کررہا تھا،دوسرا تعلیم وتعلم کا کام سرانجام دے رہا تھا۔
آپ نے فرمایا :دونوں بھالئی پر ہیں۔ یہ حلقہ قرآن پڑھ رہا ہے اور ہللا سے دع اء کررہ اہے ۔ ہللا چ اہے ت و اس کی دع اء
قبول فرمائے ،یا نہ فرمائے۔دوسرا حلقہ تعلیم وتعلم میں مشغول ہے (یہ زیادہ بہتر ہے) اور میں تو معلم بناکر بھیج ا گیا
ہوں۔ پھر یہیں بیٹھ گئے۔)
اہل علم کاصرف یہی مقام ومرتبہ نہیں ہے کہ اسے دنیا کی تمام چیزوں پر فضیلت دی گئی ہے اور اس کام میں وہ
تعالی کی تمام مخلوق اس کے لیے دعاء کرتی رہتی ہے،بلکہ اس کا مقام وم رتبہ یہ بھی ہے
ٰ جب تک مصروف ہیں ،ہللا
کہ ہللا کے رسول نے انہیں انبیاء کا وارث اور جانشین قرار دیا ہے :
ب ْال ِع ْل ِمَ ،واِ َّن ” م ْن سلَک طَریْقا ً ی ْبتَغی ف ْیہ ع ْلما ً سلَ ہّٰللا
ک ُ بِہ طَ ِریْقا ً اَلَی ْال َجنَّ ِةَ ،واِ َّن ْال َمالئِ َکةَ لَت َ
َض ُع اَجنِحْ تَھَا َرضًی لَطَ الِ ِ َ َ َ َ َ ِ َ ِ ِ ِ ِ
ض َحتَّی ْال ِحیتَانُ فَی ْال َما ِءَ ،وفَضْ ُل ْال َعالِم َعلَی ْال َعابِ ِدَ ،کفَضْ ِل ْالقَ َم ِر َعلَی َس ائِ ِر ت َو َم ْن فِی ااْل َرْ ِْال َعالِ َم لَیَ ْستَ ْغفِ ُر لَہُ َم ْن فِی ال َّس َموا ِ
ان ْالع ُْل َم ا َء َو َرثَ ةُ ااْل َ ْنبِیَ ا ِء ،اِ َّن ااْل َ ْنبِیَ ا َء لَ ْم یُ َورِّ ثُ وْ ا ِد ْینَ ارًا َواَل ِدرْ ھَم اً ،اِنَّ َم ا َو َّرثُ وا ْال ِع ْل َم ،فَ َم ْن اَخَ َذ بِہ فَقَ ْد اَخَ َذ بِ َح ظّ ْال َک َوا ِک ِ
بَّ ،
َوافَ ٍر)۵(“.
(جو کوئی حصول علم کی غرض سے راستہ طے کرے تو خدا اس کے س بب اس ے جنت کی ای ک راہ چالت ا ہے۔
فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں اور یقین ا ع الم کے ل یے آس مان اور زمین کی تم ام چ یزیں
مغفرت طلب کرتی ہیں،یہاں تک کہ وہ مچھلیاں بھی جو پانی میں ہیں ۔ عابد پر عالم کو ایسی فض یلت حاص ل ہے جیس ی
چاند کو تم ام ت اروں پ ر۔بالش بہ علم اء ہی پیغم بروں کے وارث ہیں۔پیغم بروں نے ت رکہ میں نہ دین ار چھ وڑا ہے اور نہ
درہم ۔ انہوں نے تو صرف علم کو اپنے ترکہ میں چھوڑا۔ پس جس کسی نے علم حاصل کیا اس نے ہی حصہ کامل پایا۔)
علم کا دائرہ بہت وسیع ہے
قرآن میں جہاں بھی علم کا تذکرہ کیا گیا ہے ،بیش تر مقامات پر مطلق علم کاذکر ہوا ہے۔ اس سے معل وم ہوت ا ہے
کہ علم اپنی ذات کے اعتبار سے ال محدود ہے اور اسالم نے اس کی المحدودیت کو برقرار رکھتے ہوے حکم دیا ہے کہ
علم حاصل کرو۔حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا بیان کرتے ہیں:
ہّٰللا
ضةٌ عَا ِدلَةٌ(“. ”قَا َل َرسُوْ ُل ِ صلى هللا عليه وسلم اَ ْل ِع ْل ُم ثَالثَةٌ :فَ َما َو َرا َء ٰذلِ َ
ک فَھُ َو فَضْ لٌ ،آیَةٌ ُمحْ َک َمةٌ ،اَوْ ُسنَّةٌ قَائِ َمةٌ اَوْ فَ ِر ْی َ
)۶
(ہللا کے رسول صلى هللا عليه وسلم نے فرمایا :علم تین ہیں:آیت محکمہ،سنت قائمہ اور فریضہٴ ع ادلہ،اس کے س وا
جو کچھ بھی ہے وہ زائد ہے۔)
ایک دوسری حدیث میں جو تفصیل آئی ہے ،اس سے بھی یہی واضح ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا:
ض ْع ِع ْل ِم ْی فِ ْی ُک ْم اِل َع ِّذبَ ُک ْمْ ،اذھَبُ وْ ا فَقَ ْد ث ہّٰللا ُ ْال ِعبَا َد یَوْ َم ْالقِیَا َم ِة ،ثُ َّم یُ َمیِّ ُز ْال ُعلَ َم ا َء فَیَقُ وْ لُ :یَ ا َمع َ
ْش َر ْال ُعلَ َم ا ِء اِنِّی لَ ْم اَ َ ”یَ ْب َع ُ
ت لَ ُک ْم)۷(“.
َغفَرْ ُ
تعالی لوگوں کو زندہ کرے گا اور اس میں علماء کو ممتاز کرے گا اور فرم ائے گ ا اے پ ڑھے
ٰ (قیامت کے دن ہللا
،جاو تم سب کی مغفرت کردی۔)
لکھے لوگو!میں نے اپنا علم تمہارے اندر اس لیے نہیں رکھا کہ میں تمہیں عذاب دوں ٴ
4
عالم کہتے ہی ہیں پڑھے لکھے لوگوں کو ،چاہے اس نے قرآن کی تعلیم حاصل کی ہو یا حدیث کی ،فقہ کی کی ہو
یا کالم ومنطق کی ۔ سائنس کی ڈگری لی ہو یا میڈیکل سائنس کی ۔ نیچرل سائنس پڑھ اہو ی اآرٹس کے مض امین ۔ س ارے
کے سارے پڑھے لکھے لوگوں میں شمار کیے جائیں گے۔ یہ ایسی چ یز ہے ج و انس ان ک و ہمیش ہ ک ام آئے گی ،مقص د
نیک ہو اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے تو اس کی بدولت وہ دین ودنیا کی س اری نعمت اور دولت حاص ل کرس کتا
ہے۔
قرآن میں متعدد مقامات پر اہل ایمان کوعلم حاصل کرنے کا حکم دی ا گیا ہے ،اس میں دی نی عل وم بھی ش امل ہیں
اورسائنسی علوم بھی۔ بلکہ ان آیات کی تالوت کی جائے تویہ واضح ہوتا ہے کہ آج ہم جن چ یزوں کوس ائنس وٹکن الوجی
کاعلم کہتے ہیں،اسکے حصول پر خاص طور سے توجہ دالئی گئی ہے۔ جگہ جگہ فرمایاگیاہے :تم اپ نی ص الحیتوں ک و
کام میں کیوں نہیں التے؟ تم عقل س ے ک ام کیوں نہیں لیتے؟ تم ق رآنی آی ات پرغ ور کیوں نہیں ک رتے ؟ تمہ ارے ان در
شعورکیوں نہیں ہے؟ تم سمجھ کر کیوں نہیں پڑھتے؟ میری نشانی پرغور کیوں نہیں کرتے ؟ گویاکہ قرآن مجید میں لف ظ
علم مختلف اشتقاقی صورتوں میں ۷۷۸مرتبہ واردہواہے ۔ان سے یہ نتیجہ نکالن ا مش کل نہیں کہ ق رآن مجیدکی رو س ے
علم ک و غ یر معم ولی بلکہ ف وق الک ل اہمیت حاص ل ہے اور جب یہ لف ظ ج زوی ت رادف کے س اتھ دوس رے مرادف ات
(مثالتعقلون ،یتدبرون ،تفہمون ،تشعرون).وغیرہ کے ساتھ مل کریاان کی جگہ آتاہے توان سے علم کے طریقوں ،غ ایتوں
اورجہتوں کاپتہ چلتاہے ۔()۸
انسان کو جس چیز سے واسطہ پڑ سکتا ہے ،اس کے حل کے لیے معلومات حاصل کرنا اور اس میں مہ ارت پیدا
تعالی نے جب پیدا کیا تو انہیں وہ تمام عل وم عط اکیے جن س ے
ٰ کرنا اسالم کو مطلوب ہے۔حضرت آدم علیہ السالم کو ہللا
ان کا واسطہ پڑ سکتا تھا۔قرآن کریم میں اس کی صراحت موجودہے:
َک الَ ِع ْل َم لَنَ ا
وا ُسب َْحان َ صا ِدقِیْن .قَالُ ْ ضہُ ْم َعلَی ْال َمالَئِ َک ِة فَقَا َل أَنبِئُونِ ْی بِأ َ ْس َماء ہَؤُالء إِن ُکنتُ ْم َ ” َوعَلَّ َم آ َد َم األَ ْس َماء ُکلَّہَا ثُ َّم ع ََر َ
ت
الس َم َوا ِ ب َّ ال أَلَ ْم أَقُ ل لَّ ُک ْم إِنِّ ْی أَ ْعلَ ُم َغ ْْی َ
ال یَ ا آ َد ُم أَنبِ ْئہُم بِأ َ ْس َمآئِ ِہ ْم فَلَ َّما أَنبَ أَہُ ْم بِأ َ ْس َمآئِ ِہ ْم قَ َ
ک أَنتَ ْال َعلِ ْی ُم ْال َح ِک ْی ُم .قَ َ
إِالَّ َما عَلَّ ْمتَنَا إِنَّ َ
ض َوأَ ْعلَ ُم َما تُ ْب ُدونَ َو َما ُکنتُ ْم تَ ْکتُ ُمونَ ( “.البقرہ)۳۱:
َواألَرْ ِ
تعالی نے آدم کو تمام چیزوں کے نام اور پھر سامنے کیا ان س ب چ یزوں کوفرش توں کے،پھ ر ہللا
ٰ (اور سکھایا ہللا
بتاو مجھ کو ان کے نام اگر تم س چے(ج انتے) ہ و؟فرش توں نے کہ ا :ت یری ذات پ اک ہے ،ہم ک و نہیں
نے فرمایا ان سے ٴ
معلوم ،مگر جتنا تونے مجھے علم دیا ہے۔ بے ش ک ت و ہی ہے اص ل ج اننے واال اور حکمت واال۔ پھ ر ہللا نے آدم س ے
بتاو تم ان کو ان چیزوں کے نام ۔ جب انہوں نے بتادیا ان کے نام ،توہللا نے فرش توں س ے کہ ا :کیا میں نے تم س ے
کہا :ٴ
نہیں کہا تھا کہ میں خوب جانتا ہوں ان چیزوں کو جو آسمان و زمیں میں چھپی ہ وئی ہیں اور میں یہ بھی جانت ا ہ وں ج و
ظاہر ہے اور جو چیز چھپی ہوئی ہے۔)
حکمت ودانائی کی بات مومن کی گم شدہ پونجی ہے
انسان کو جب ہللا نے اپنا خلیفہ بنایا ہے(البقرہ )۲۰:تو ضروری ہے کہ وہ خالفت کا حق اداکرے۔یہ ک ام ایس ے ہی
انجام نہیں پائے گا۔اس کے لیے بہت سی چیزوں کی ضرور ت پڑتی ہے اور ہر طرح کے لوگ درکار ہوتے ہیں،تاکہ وہ
اپنے علم وہنر اور تجربے کی روش نی میں اور خالفت کی ض رورتوں ک و پ ورا ک ریں۔اگ ر نف ع بخش ی ک ا س امان کس ی
5
دوسری جگہ سے حاصل ہو تو یہ بھی ضروری ہے کہ اسے وہاں س ے حاص ل کیاج ائے ،اگ ر وہ اس کے حص ول میں
کوتا ہی کرے گا تو خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہوگا۔ہللا کے رسول نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے :
ضالَّةُ ْال ُم ْٴو ِم ِن ،فَ َحی ُ
ْث َو َج َدھَافَھ َُو اَ َح ُّ
ق بِھَا)۹(“. ”اَ ْل َکلِ َمةُ ْال ِح ْک َمةُ َ
(حکمت ودانائی کی بات مومن کی گم شدہ پونجی ہے ،پس جہاں بھی پائے حاصل کرنا چاہیے)
حکمت کے معنی ڈکشنری میں وہی ملیں گے جو س ائنس کے مع نی ہیں۔ یع نی اش یاء اور چ یزوں کی حقیقت وں پ ر
غور کرن ا ،اس ے پہچانن ا اور س مجھنا ،اس کے خ واص اور ت اثیرات ک و معل وم ک رنے کے بع د اس ک و اپ نے ل یے اور
دوسروں کے لیے نفع بخش بنانا اور استعمال میں النا ہے۔
علم سے انسان کے اندر اخالق حمیدہ پیدا ہوتے ہیں
جب انبیا ِء سابقین کے عہد میں علم واخالق کو عمومی وسعت حاصل نہ ہوس کی ت و کیس ے ممکن تھ ا کہ دنیا میں
اخالق وکردار اور تہذیب وتمدن کا بول باالہو۔انبیاء کی آمد سے ان کے اندر کسی ق در تہ ذیبی ق دروں ک و ت رقی ض رور
ہوئی ،مگر جلدہی وہ فن ا ہوگ ئی۔اس ل یے یہ کہ ا جاس کتا ہے کہ وہ پہلے بھی جہ الت میں مبتال تھے اور بع د میں بھی یہ
صورت برقرار رہی۔ بڑے اچھے انداز میں اس نکتہ کی وضاحت کرتے ہوے عالمہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
”دنیامیں بابل واسیریا،ہندوستان وچین،مصر وشام ،یون ان وروم میں ب ڑے ب ڑے تم دن پیدا ہ وے۔اخالق کے ب ڑے
بڑے نظریے قائم کیے گئے۔ تہذیب وشائستگی کے بڑے بڑے اصول بن ائے گ ئے۔ اٹھ نے بیٹھ نے ،کھ انے پینے،مل نے
جلنے،پہننے اوڑھنے ،رہنے سہنے،سونے ج اگنے ،ش ادی بیاہ،م رنے جینے ،غم ومس رت ،دع وت ومالق ات،مص افحہ
وسالم ،غسل و طہارت ،عیادت وتع زیت ،تبری ک وتہ نیت ،دفن وکفن کے بہت س ے رس وم ،آداب ،ش رائط اور ہ دایات
مرتب ہوے اور ان سے ان قوموں کی تہذیب ،تمدن ،اور معاشرت کے اصول بنائے گئے۔ یہ اصول صدہا س ال میں ب نے
پھر بھی بگڑ گئے۔صدیوں میں ان کی تعمیر ہوئی تاہم وہ فنا ہوگئے۔“()۱۰
لیکن قرآن ،پیغمبر عربی صلى هللا عليه وسلم نے ص الح معاش رہ کی تعم یر وتش کیل ک ا ج ودرس دی ا وہ اس وقت
سے لے کر آج تک اپنی اصل صورت میں برقرار ہے اور جب تک مسلمانوں کے اندر دینی وعلمی روح زن دہ رہے گی
،دنیا میں اخالقی اقدار کی باال دستی رہے گی۔ مسلمانوں کا فریض ہ ہے کہ وہ خودک و اخالق ک ا نم ونہ بن ائیں ۔ گھ ر میں
ہوں یا بازار میں ،محفل میں ہوں یا مجلس میں ،ہر جگہ اخالق کا مظاہر ہ کرنا اسالم ک و مطل وب ہے۔ہللا کے رس ول نے
ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا ۔ دوست ہو یا دشمن ،اپنے ہو کہ پرائے ،سب کے ساتھ حسن سلوک ک ا مظ اہرہ کیا۔اگ ر علم
حاصل کرنے کے بعد آدمی کے اندر یہ صفت پیدا نہ ہوئی تو ایسا علم کسی کام ک انہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہللا کے رس ول
ُس ن ااْل ِ ْخاْل ق۔)۱۱( آپ کے اس وص ف خ اص کی گ واہی ق رآن مق دس میں بھی موج ود فرمایا ک رتے تھے :ب ُِع ْث ُ
ت اِل ُتَ ِّمم ح ْ
لی ُخل ق َعظَیْم۔( الق رآن) (آپ اخالق کے اعلی مق ام پ ر ف ائز ہیں۔)ای ک م رتبہ چن د ص حابہ رض وان هللا عليهم ہے:اِنَّ َ
ک لَ َع ٰ
اجمعين حضرت عائشہ رضى هللا تعالى عنها کی خدمت میں حاض ر ہ وے اور ان س ے دری افت کیا کہ ہمیں حض ور کے
ق َرسُوْ ل ہّٰللا صلى هللا عليه وس لم َک ا نَ ْالقُ رْ آنَ ۔)۱۲(
اخالق اور معموالت کے بارے میں کچھ بتائیے۔انہوں نے فرمایاُ :خ ْل َ
درستی اخالق کی دع اکرتے رہ تے ہیں۔ آئینہ میں اپن ا چہ رہ ٴ (آپ کا اخالق ہمہ تن قرآن تھا۔) باوجود اس کے آپ ہر وقت
یکھتے تو ہللا کا شکر اداکرتے اور خدا کے حضور یہ دعا کرتے :اَ ٰللّھُ َّم اَحْ َس ْنتَ خَ ْلقِ ْی فَاَحْ ِس نَ ُخ ْلقِی۔(( )۱۳اے ہللا م یرے
6
اخالق کو بھی اسی طرح اچھا کردے جس طرح تونے میرے چہرے کو اچھ ا بنای ا ہے۔) آپ س ے کس ی نے پوچھ ا ک ون
لوگ اچھے ہیں؟ آپ نے فرمایا”:اِ َّن َخیَا َر ُک ْم اَحْ َسنُ ُک ْم اَ ْخاَل قاً۔“( )۱۴سب سے بہ تر انس ان وہ ہے جس ک ا اخالق س ب س ے
اچھا ہے۔) ایک اور موقع پر آپ نے فرمای ا:اَ ْک َم ُل ْال ُم ْٴو ِمنِ ْینَ اِ ْی َمان ا ً اَحْ َس نُھُم ُخ ْلق اً۔()۱۵( س ب س ے زی ادہ کام ل االیم ان وہ
شخص ہے جس کا اخالق سب سے اچھا ہو۔) اس طرح بہت سی احادیث ہیں جن میں اخالق کی اہمیت کو واض ح کیا گیا
ہے۔
اخالق صرف یہی نہیں ہے کہ لوگوں سے ہنستے مسکراتے مل لیا اور اس کے س اتھ کچھ اچھی ب اتیں ک رلیں ۔ یہ
تو اخالق کا جزوہے ،ان کے عالوہ بھی اور بہت ساری ب اتیں اخالق میں داخ ل ہیں۔ یہ خوبیاں اس ی وقت پیدا ہ وں گی
جب ہم علم سے آراستہ و پیراستہ ہوں گے۔ ہللا اور اس کے بتائے ہوے راستہ پر چلیں گے۔اگ ر ای ک آدمی اچھے اخالق
کا حامل ہے تو کسی کے ظلم کو برداشت کرنا بھی اخالق کے دائرہ میں آتا ہے۔ بے صبری کا مظاہرہ کرنااورانتق ام لین ا
بے اخالقی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تلخ باتوں پر صبر کریں ۔ ہ و س کتا ہے کہ ایس ا ک رنے س ے وہ ہم ن وا بن
جائے ۔ غصہ کرنا،بد لہ لینا،کسی کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش نہ آنا،کسی کا ما ل غصب کرنا،چ وری ڈکیتی کرن ا یہ
مذموم حرکتیں ہیں ،جو بداخالقی ہے۔چنانچہ ہللا کے رسول نے فرمایا:
ک نَ ْف َسہُ ِع ْند َْالغ َ
َضب)۱۶(“. ْس ال َّش ِد ْی ُد بِالصُّ رْ عَة اِنَّ َماال َّش ِد ْی ُد اَلَّ ِذیْ یَ ْملِ ُ
”لَی َ
( ط اقت وروہ آدمی نہیں ہے جوکش تی میں کس ی ک و پچھ اڑدے ،بلکہ وہ آدمی ط اقت ور ہے ،جوغص ہ کے وقت
اپنے نفس کوقابو میں رکھے۔)
ایک دوسری حدیث میں ہللا کے رسول نے فرمایا:
تَ ،واَل فِ ْقہٌ فِی ال ِّد ْی ِن)۱۷(“.
قُ :حسْنُ َس ْم ٍ ”خَصْ لَت ِ
َان اَل تَجْ تَ ِم َع ِ
ان فِی ُمنَافِ ٍ
(دوعادتیں ایسی ہیں جو منافق میں جمع نہیں ہوتیں ۔ ایک اچھی عادت اور دوسرے دینی بصیرت۔)
دنیا کے لیے نفع بخش بنا جائے
اسالم حکم دیتا ہے کہ اپنے آپ کو ضرر رساں نہیں بلکہ نفع بخش بنا ٴو۔ایک انسان کے قول وعمل س ے دوس رے
انسان کو تکلیف نہ پہنچے۔ اچھی اور بھلی باتوں کا تمیز وہی انسان کرسکتا ہے جس کے اندر شعور وفراست ہ وگی اور
یہ خوبی بغیر علم کے پیدا نہیں ہوسکتی۔عقل و شعور تو جاہل کے پا س بھی ہے۔مگر جو فراست ایک پ ڑھے لکھے ک و
حاص ل ہ وگی وہ جاہ ل ک و ہ ر گ ز حاص ل نہیں ہوس کتی۔اس کے دن رات کے عم ل میں ،اس کی گفتگ و میں ،اس کے
معامالت میں ،اس کے فیصلہ لینے میں ایسی بات کا صادر ہونا جس س ے دوس روں ک و تکلیف پہنچ ج ائے ک وئی بعید
نہیں ہے۔ اگر اسے اس کا ادراک ہوجائے تو وہ جاہل ہی کیوں رہے گا۔ ہللا کے رس ول کی ح دیث س ے بھی اس ب ات ک و
اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔آپ نے فرمایا:
ق فِی َسبِی ِْل ہّٰللا )۱۸(“.
”ان َمثَ َل ِع ْل ٍم اَل یَ ْنفَ ُع َک َمثَ ِل َک ْن ٍز اَل یُ ْنفَ ُ
َّ
( ج و علم نف ع بخش نہ ہ و اس کی مث ال اس خ زانے جیس ی ہے جس میں س ے خ داکی راہ میں کچھ خ رچ نہ کیا
جائے۔)
نیز آپ نے یہ بھی فرمایا:
7
اس اَ ْنفَ َعھُ ْم لِلنَّ ِ
اس)۱۹(“. ” َخ ْی ُر النَّ ِ
( ہللا کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ آدمی وہ ہے جو سب سے زیادہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے واالہے۔)
جب آدمی کے اندر یہ ذوق و جذبہ ہوگ ا ت و یقین ا وہ کوش ش ک رے گ ا کہ وہ علم حاص ل ک رے اور دوس روں ت ک
پہنچائے۔
علم نافع کی دعا ء بھی کرتے رہنا چاہیے
نبی اکرم صلى هللا عليه وس لم دنیا کے ل یے معلم بن اکر بھیجے گ ئے ۔ آپ کی وجہ س ے دنیا میں علم کی روش نی
پھیلی اورانسانیت کو روشن اور واضح سمت مال ۔باوجود اس کے ہر وقت ہللا کے حض ور زی ادتی علم اور اس تقامت علم
کے ساتھ علم نافع کی دعا ء کرتے ہیں:
ک ِم ْن ِع ْل ٍم اَل یَ ْنفَعَُ ،و ِم ْن ُدعَا ٍء اَل یُ ْس َمعَُ ،و ِم ْن قَ ْل ٍ ٰ
ب اَل یَ ْخ َش ُع َو ِم ْن نَ ْف ٍ
س اَل تَ ْشبَعُ۔“()۲۰ ”اَللّہُ َّم اِنِّی اَ ُعوْ ُذبِ َ
(اے ہللا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نفع بخش نہ ہو اور اس دعاء سے جو سنی نہ ج ائے اور اس دل
سے جس میں خشوع نہ ہو اور اس نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو۔)
علم نافع اور رزق وسیع کے لیے ہللا کے حضور یہ دعاء بھی کرتے تھے:
ک ِع ْلما ً نَافِعاًَ ،ع َمالً ُمتَقَبَّالًَ ،و ِر ْزقا ً طَیِّباً)۲۱(“. ٰ
”اَللّھُ َّم اِنّی اَ ْسئَلُ َ
(اے ہللا! میں تجھ سے علم نافع ،عمل مقبول اور پاک رزق کی درخواست کرتا ہوں۔)
کیوں کہ ہللا نے انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا تھا:
ٰ
ما(“.طہٰ )۱۱۴:” َوقُل رَّبِّ ِز ْدنِ ْی ِع ْل
(اے پیغمبر کہو:اے میرے رب !میرا علم زیادہ کر۔)
” َربَّنَا آتِنَا فِ ْی ال ُّد ْنیَا َح َسنَةً َوفِ ْی اآل ِخ َر ِة َح َسنَةً(“.البقرہ)۲۰۱:
(اے میرے رب! تو مجھے دنیا وآخرت دونوں میں اچھا بنا۔)
ہللا نے انسان کو جو علم عطا کیا ہے ،اسے ہی حرف آخر نہ سمجھا ج ائے ،بلکہ زی ادتی علم کی کوش ش ک رتے
رہنا چاہیے اوراسے اپ نی محنت اور ج دو جہ د ک ا ن تیجہ نہ س مجھنا چ اہیے بلکہ عط ا ِء خ دا ون دی س مجھتے ہ وئے یہ
اعتراف کرتے رہنا چاہیے:
ک َما لَ ْم تَ ُک ْن تَ ْعلَ ُم َو َکانَ فَضْ ُل ہّللا ِ َعلَ ْْی َ
ک َع ِظیْما( “.النساء)۱۱۳: ” َو َعلَّ َم َ
(اور تجھ کوسکھائیں وہ باتیں جو نہیں جانتا تھااور یہ تیرے رب کا فضل عظیم ہے۔)
جس کو علم وحکمت سے نواز دیاگیا،گویا اسے دین ودنیا کی دولت حاصل ہو گئی۔ ضروری ہے کہ جو علم عط ا
تعالی نے اہ ل علم کی س تائش ک رتے ہ وے
ٰ کیا گیا ہے اس کی قدر کی جائے اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ باری
فرمایا:
” َو َمن ی ُْؤتَ ْال ِح ْک َمةَ فَقَ ْد أُوتِ َی خَ ْْیراً َکثِیْراً َو َما یَ َّذ َّک ُر إِالَّ أُوْ لُ ْ
وا األَ ْلبَا ِ
ب( “.البقرہ)۲۶۹:
(اور جس کو حکمت مل گئی اس کو بڑی خوبی کی چ یز م ل گ ئی اور نص یحت وہی حاص ل ک رتے ہیں ج و عق ل
رکھتے ہیں۔)
8
اسی طرح ہللا کے رسول صلى هللا عليه وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا:
اس ٌمَ ،وہّٰللا ُ یُ ْع ِطی)۲۲(“. ہّٰللا
” َمن ی ُِر ِد ُ بِہ َخ ْیرًایُفَقِّ ْہہُ فِی ال ِّد ْی ِنَ ،واِنَّ َما اَنَا قَ ِ
(ہللا جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرت ا ہے اور میں ت و ص رف تقس یم ک رنے واال
ہوں اور دینے واال ہللا ہے۔)
عہد نبوی میں علوم وفنون کی ترقی
عہدنبوی کے مدنی معاشرہ پرغورکریں کہ کس کس مپرسی کے عالم میں مسلمان مکہ س ے ہج رت ک رکے م دینہ
پہنچے ۔ کھانے کھانے کوترستے تھے ،تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا میسر نہیں تھ ا،رہ نے ک وگھرنہیں تھے ،لیکن ان کے
اندرحصول علم کاجذبہ تھا۔ اسی وجہ سے مختصرعرصے میں وہ نم ونہ زن دگی بن گ ئے اورزن دگی کے ہرش عبے میں
کمال پیدا کرکے اپنی ضرورتوں کی تکمیل کرنے لگے ۔ چوں کہ ہللا کے رسول صلى هللا عليه وس لم ای ک ب ڑے پیغم بر
ہونے کے ساتھ ایک عظیم حکم راں بھی تھے اورکوئی بھی حکومت اس وقت تک صحیح طریقے سے نہیں چ ل س کتی
جب تک کہ اس کے اندرمختلف ص الحیت کے اف راد موج ودنہ ہ وں۔ض روری ہے کہ یہ اں ط بیب بھی ہ وں اور س رجن
بھی ،یہ بھی ضروری ہے کہ وہاں بڑھی بھی ہ وں اور لوہ اربھی ،کاش ت ک ار بھی ہ وں اور ص نعت گ ربھی ۔جس وقت
حضورصلى هللا عليه وسلم مسجدنبوی کی تعمیر کروارہے تھے ،صحابہ کرام مختلف کاموں پ ر م امور تھے ۔ کس ی ک و
اینٹ بنانے اور ڈھونے کا حکم دیا تو کسی کو گارا بنانے کا ،تو کسی کو کوئی دوسرے کام پر مامور کیا۔ ای ک ص حابی
نے خواہش ظاہر کی کہ میں دوسرا کام بھی کرسکتا ہوں ،آپ نے منع کیا اور فرمایا :نہیں تم گارا گھولو،تم اس ک ام س ے
خوب واقف ہو۔ ( )۲۳گویاکہ حضورکے زمانہ میں ہرفن کے ماہرین موجودتھے ۔ کچھ لوگوں نے علمی کام ک یے ،کچھ
لوگوں نے دست کاریاں سیکھیں ،بعض صحابہ نے دوسری قوم وں کی زب ان اور ان کی تہ ذیب و تم دن کامط العہ کیا۔ (
)۲۴اس وقت کی ضرورت کے مطابق ک وئی ایس ا علم اورفن نہ تھ اجس میں ص حابہ ک رام پیچھے رہے ہ وں۔ عملی علم
ہویافنی ،سبھی میں صحابہ کرام ماہراور یکتا ِء روزگارتھے۔ مندرجہ ذیل اقتباس سے اس کا اندازہ بخ وبی لگای ا جاس کتا
ہے۔ عالمہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
”ایک طرف عقال ِء روزگار ،اسرار فطرت کے محرم ،دنیا کے جہاں باں اور ملکوں کے فرم اں روااس درس گ اہ
سے تعلیم پاکر نکلے ہیں ،جنہوں نے مشرق سے مغرب تک ،افریقہ سے ہندوستان کی سرحد تک فرم اں روائی کی اور
ایسی فرماں روائی جو دنیا کے بڑے سے بڑے شہنشاہ اور حکم راں کی سیاست وتدبر اور نظم ونسق کے کارناموں ک و
منسوخ کردیتی ہے ۔ دوسری طرف خالد بن ولید رضى هللا عنه ،سعدبن ابی وق اص رض ى هللا علي ه ،اب و عبیدہ بن ج راح
رضى هللا عنه ،عمروبن العاص رضى هللا عنه ہیں جنہوں نے مشرق ومغرب کی دوظالم و گناہ گار اور انسانیت کے لیے
لعنت سلطنتوں کا چند سال میں قلع قمع کر دیتے ہیں اور دنیا کے وہ فاتح اعظم اور سپہ ساالر اکبر ث ابت ہ وتے ہیں ،جن
کے فاتحانہ کارناموں کی دھاک آج بھی دنیا میں بیٹھی ہوئی ہے۔ تیس ری ط رف وہ ص حابہ ہیں جنہ وں نے ص وبوں اور
شہروں کی کامیاب حکومت کی اور خلق خدا کو آرام پہنچایا۔ چوتھی طرف علماء وفقہاء کی ص ف ہے۔ انہ وں نے اس الم
کے فقہ وقانون کی بنیاد ڈالی اور دنیا کے مقنن میں خاص درجہ پایا۔ پانچویں صف عام ارباب روایت وتاریخ کی ہے،جو
احکام ووقائع کے ناقل وراوی ہیں۔ ایک چھٹی جماعت ان ستر صحابہ (اصحاب ص فہ) کی ہے جن کے پ اس س ررکھنے
9
کے لیے مسجد نبوی کے چبوترے کے س وا ک وئی جگہ نہ تھی ۔ س اتواں رخ دیکھ و! اب و ذررض ى هللا عن ه ہیں ،ان کے
ٰ
دوتقوی نزدیک آج کا کھانا کل کے لیے اٹھا رکھنا بھی شان توکل کے خالف تھا۔سلمان فارسی رض ى هللا عن ه ہیں ج و زہ
کی تصویر ہیں ۔ عبدہللا بن عمر رضى هللا عنه ہیں جن کے سامنے خالفت پیش ہوئی تو فرمایا کہ اگ ر اس میں مس لمانوں
کا ایک قطرہ خون گرے تو مجھے منظور نہیں ۔ مصعب بن عمیر رضى هللا عن ه ہیں ج و اس الم س ے پہلے ق اقم وحری ر
کے کپڑے پہنتے اور جب اسالم الئے تو ٹاٹ اوڑھتے اور پیوند لگے ک پڑے پہن تے تھے اور جب ش ہادت پ ائی ت و کفن
کے لیے پورا کپڑا تک نہ مال۔ عثمان بن مطع ون رض ى هللا عن ه ہیں ج و اس الم س ے پہلے ص وفی کہالتے ہیں۔ اب ودردا
رضى هللا عنه ہیں کہ جن کی راتیں نمازوں میں اور دن روزوں میں گزرتے تھے۔ ایک اور طرف دیکھو! یہ بہ ادر ک ار
پردازوں اور عرب کے مدبرین کی جماعت ہے ۔کاروباری دنیا میں دیکھو تو مکہ کے تاجر اور بیوپ اری ہیں اور م دینہ
کے کاشت کار اور کسان بھی ہیں اور بڑے بڑے دولت مند بھی ہیں۔ ان نیرنگیوں اور اختالف استعداد کے ب اوجود ای ک
چیز تھی جو مشترک طورسے سب میں نمایاں تھی۔وہ ایک بجلی تھی جو سب میں کوند رہی تھی،ک وئی بھی ہ وں توحید
الی کی رض ا
کا نور ،اخالق کی رو،قربانی کا ولولہ ،خلق کی ہدایت اور رہنمائی کا جذبہ اور باآلخر ہ ر ک ام میں خ دا تع ٰ
طلبی کا جو ش ہر ایک کے اندر کام کررہاتھا۔“()۲۵
ANS 02
غیبت کہتے ہیں آدمی کا کسی بھائی کے پیٹھـ پیچھے تذکرہ ایسے الفاظ میں کرنا جن کو وہ ناپسند کرتا ہو ،خواہ برائی کا
تذکرہ اس کے بدن سے متعلق ہو یا نسب سے ،اوصاف سے متعلق ہو یا قول و فعل سے ،یا دین سے یا دنیاوی مع امالت
سے ،اگرچہ یہ تذکرہ اس کے لباس سے یا اس کے گھریا سواری سے متعلق ہی کیوں نہ ہو ،چنانچہ حضرت أب و ہری رہ
رضي هللا عنه سے روایت ہے کہ رسول هللا صلى هللا عليه وسلم نے فرمایا :کیا تم ج انتے ہ و غیبت کیا ہے؟ ص حابہ نے
عرض کیا :ہللا اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ،آپ نے فرمایا :تمہارا اپنے بھائی کا تذکرہ کرن ا ایس ی ب ات س ے ج و
اسے ناپسند ہے ،ایک صحابی نے عرض کیا :اگر میرے بھائی میں وہ بات ہ و ج و میں کہ وں تب بھی یہ غیبت ہے؟ آپ
نے فرمایا :اگر اس میں وہ بات ہے ج و تم کہہ رہے ہ و ت و یقین ا تم نے اس کی غیبت کی ،اور اگ ر اس میں وہ ب ات نہیں
ہے جو تم کہہ رہے ہو تو یقینا تم نے اس پر بہتان لگایا اسے روايت كيا ہے امام مسلم نے۔
غیبت ہرحال میں حرام ہے ،خواہ کسی بھی سبب سے ہو ،چاہے غصہ کے ازالہ کے لئے ،یا ساتھیوں کا دل جیت نے کے
لئے ،یا گفتگو میں ان کی مدد کے لئے ہو ،یا کالم میں تصنع پیدا کرنے کے لئے ہو ،یا حس د کی وجہ س ے ہ و ،ی ا کھیل
کود اور ہنسی مذاق کے طور پر ہو ،یا وقت گزاری کے لئے ہو ،چنانچہ دوسرے کے عیوب کا ذکر اس طرح کیا ج ائے
کہ دوسرے لوگ ہنسیں ،یہ سب غیبت ہے ،ہللا رب الع المین نے اس س ے اپ نے بن دوں ک و روک ا ،اور متنبہ کیا ہے :ﺍﮮ
ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮ ! ﺑﮩﺖ ﺑﺪﮔﻤﺎﻧﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﭽﻮ ﯾﻘﯿﻦ ﻣﺎﻧﻮ ﻛﮧ ﺑﻌﺾ ﺑﺪﮔﻤﺎﻧﯿﺎﮞ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯿﺪ ﻧﮧ ﭨﭩﻮﻻ ﻛﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﻧﮧﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻛﻮﺋﯽ
ﻛﺴﯽ ﻛﯽ ﻏﯿﺒﺖ ﻛﺮﮮ۔ ﻛﯿﺎ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻛﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯﻣﺮﺩﮦ ﺑﮭﺎﺋﯽ کا ﮔﻮﺷﺖ ﻛﮭﺎﻧﺎ ﭘﺴﻨﺪ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ؟ ﺗﻢ ﻛﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮔﮭﻦ ﺁﺋﮯ
ﮔﯽ ،ﺍﻭﺭ ﺍہلل ﺳﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﺭﮨﻮ ،ﺑﯿﺸﻚ ﺍہلل ﺗﻮﺑﮧ ﻗﺒﻮﻝ ﻛﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮨﮯ۔
صحیح مسلم میں حض رت اب وہریرہ رض ی ہللا عنہ س ے روایت ہے کہ جن اب محم د رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم نے
ارشاد فرمایا :ہر مسلمان کا خون ،مال اور عزت دوسرے مسلمان پ ر ح رام ہے اس ح دیث ک و ام ام مس لم نے روايت كي ا
10
ہے۔ اور آپ صلى هللا عليه وسلم نے حجۃ الوداع کے خط بے میں فرمای ا :بے ش ک تمہ ارے خ ون اورتمہ ارے م ال اور
تمہاری عزتیں تمہارے اوپر ح رام ہیں بالك ل تمہ ارے آج کے ِدن کی ط رح ،تمہ ارے اِس مہي نے میں ،اور تمہ ارے اِس
شہر میں (حرام ہیں ) ،کیا میں نے ( ہللا کا ) پیغام پہنچا ِدیا۔ اس حدیث ک و ام ام بخ اری اورمس لم نے روایت کیا ہے۔ اور
حضرت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :س ود
کی سب سے بری قسم آدمی کا اپنے بھائی کی عزت پر ہاتهـ ڈالنا ہے اسے بزار اور ابوداود نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح غیبت کی حرمت ومذمت کے سلسلے میں جناب رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے متعدد احادیث ثابت ہیں۔
-2دوسری چیز جس سے اجتناب اور تنبیہ ضروری ہے وہ ہے ( چغل خوری)
( جلد کا نمبر ،3صفحہ )238
اس کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف ،یا ایک جماعت سے دوس ری جم اعت
کی طرف ،یا ایک قبیلہ سے دوسرے قبیلہ کی طرف فساد اور جھگڑے کی غرض سے کوئی کالم منتقل کرنا ،یعنی ہ ر
اس چیز یا راز کو کھول دینا جس کا کھل جانا نا پسندیدہ ہو ،خواہ اس شخص کو ناپسند ہو جس سے متعلق نقل کیا گیا ی ا
اس شخص کو جس کی طرف نقل کیا گيا ،یا تیسرا شخص اس کو ناپسند کرتا ہو ،چاہے یہ برائی قول سے ہو یا فعل س ے
ہو یا اشارے سے ہو ،اور چاہے منقولہ چیز قول کی شکل میں یا فع ل کی ش کل میں ،اور چ اہے یہ چ یز منق ول عنہ کے
لئے عیب اور نقص کی بات ہو یا نہ ہو ؛ لہذا انسان کو لوگوں کے احوال کے تعلق سے خاموش رہنا چاہیے ہ اں اگ ر اس
کو بیان کرنے سے مسلمانوں کا فائدہ ہو ،یا کسی برائی کا ازالہ ہو تو جائز ہے ۔
چغل خوری کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں-1 :منقول عنہ کے حق میں برائی کی نیت -2منقول الیہ سے محبت کا اظہ ار
-3فضول اور بکواس باتوں میں مشغول ہو کر لطف اندوز ہونا ،یہ تینوں طریقے اسالم میں حرام ہیں ،چنانچہ اگ ر کس ی
شخص سے کوئی کسی قسم کی چغلی کرتا ہے تو اس شخص کو چاہیے کہ اس چغل خور کی تص دیق نہ ک رے ،کیونکہ
چغل خور فاسق اور گواہی میں غیر معتبر ہوتا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :ﺍﮮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮ ! ﺍﮔﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻛﻮﺋﯽ ﻓﺎﺳﻖ ﺧﺒﺮ ﺩﮮ
ﺗﻮ ﺗﻢ ﺍﺱ ﻛﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻛﺮ ﻟﯿﺎ ﻛﺮﻭ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﮨﻮ ﻛﮧ ﻧﺎﺩﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻛﺴﯽ ﻗﻮﻡ ﻛﻮ ﺍﯾﺬﺍ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﻭاور اس آدمی کے لئے
ضروری ہے کہ اسے چغلی سے روکے ،اسے نص یحت ک رے ،اور اس کے اس فعل کی م ذمت ک رے ،کیونکہ ہللا رب
العالمین کا ارشاد ہے :توﺍﭼﮭﮯ کاﻣﻮﮞ ﻛﯽ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﻛﺮﺗﮯ ﺭﮨﻨﺎ ،ﺑﺮﮮ کاﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﻛﯿﺎ ﻛﺮﻧﺎ اور ہللا تعالی کی خاطر
اس چغل خور سے بغض رکھے ،اور منقول عنہ کے سلسلے میں برا خیال نہ کرے بلکہ اچھ ا ہی گم ان رکھے ،کیونکہ
ہللا تعالی فرماتا ہے :ﺍﮮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮ ! ﺑﮩﺖ ﺑﺪﮔﻤﺎﻧﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﭽﻮ ﯾﻘﯿﻦ ﻣﺎﻧﻮ ﻛﮧ ﺑﻌﺾ ﺑﺪﮔﻤﺎﻧﯿﺎﮞ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﯿﮟ۔ اور نبی محترم صلی
ہللا علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے اس حدیث كي ص حت پ ر
اتفاق ہے۔
اور اس پرالزم ہے کہ منقول عنہ کے سلسلے میں تجسس سے کام نہ لے ،اوراپنے لئے اس عمل کو پس ند نہ ک رے جس
سے چغل خور کو منع کیا ہے کہ خود تک پہنچی ہوئی چغل خوری کو دوسرے سے بیان کرے۔
11
چغلی کی حرمت پربہت سے دالئل کتاب وسنت میں موج ود ہیں ،جن میں س ے ای ک دلیل ہللا رب الع المین ک ا یہ فرم ان
ہے :ﺍﻭﺭ ﺗﻮ ﻛﺴﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﺷﺨﺺ کا ﺑﮭﯽ ﻛﮩﺎ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﻨﺎ ﺟﻮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻗﺴﻤﯿﮟ ﻛﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ۔( )10ﺑﮯ ﻭﻗﺎﺭ ،ﻛﻤﯿﻨﮧ ،ﻋﯿﺐ ﮔﻮ ،ﭼﻐﻞ
ﺧﻮﺭ۔ اور هللا تعالى كا یہ فرمان ہے :ﺑﮍﯼ ﺧﺮﺍﺑﯽ ﮨﮯﮨﺮ ﺍﯾﺴﮯ ﺷﺨﺺ ﻛﯽ ﺟﻮ ﻋﯿﺐ ﭨﭩﻮﻟﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻏﯿﺒﺖ ﻛﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮ۔
( جلد کا نمبر ،3صفحہ )239
اور حضرت حذیفہ یمانی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب محمد رسول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم نے ارش اد فرمای ا:
جنت میں چغل خور داخل نہیں ہوگا یہ متفق علیہ حدیث ہے۔ اور حضرت عب د ہللا بن مس عود رض ی ہللا عنہ س ے روایت
ہے کہ جناب محمد رسول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم نے فرمای ا :س نو میں تمہیں بتات ا ہ وں کہ اف تراء پ ردازی کیا ہے؟ وہ
غیبت ہے جو لوگوں کے درمیان کی جائے۔ اسے امام مسلم نے روايت كيا ہے۔ اور چغل خوری ان اس باب میں س ے ہے
جن سے قبر میں عذاب واجب ہوتا ہے ،جیساکہ حضرت عبد ہللا بن عباس رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ جن اب محم د
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کا گزر دوقبروں کے پاس سے ہوا توآپ نے ارشاد فرمایا :بے ش ک ان دون وں ک و ع ذاب
دیا جا رہا ہے اور انہیں عذاب کسی بڑی چیز کے سبب نہیں دیا جا رہ ا ،پھ ر آپ نے فرمای ا :جی ہ اں ان میں س ے ای ک
پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا غیبت کیا کرتا تھا متفق عليه روایت ہے۔ غیبت اور چغلی دون وں ح رام
ہیں؛ کیونکہ ان کے ذریعہ لوگوں میں فساد ،پھوٹ ،انتشار ،بدامنی ،انارکی ،عداوت ،کینہ ،بغض ،حسد اور نف اق کی آگ
بھڑک تی ہے ،اور دو بھ ائیوں کے درمیان انس ومحبت کی جگہ تف رقہ ،دش منی اور من افرت پیدا ہوج اتی ہے ،اور اس ی
طرح ان دونوں چیزوں میں جھوٹ ،دھوکہ ،خیانت ،بے قصور پرتہمت ،گالی گلوچ اور برائیوں کا تذکرہ ہوتا ہے ،نیز یہ
چیزیں بزدلی ،کمینگی اور کمزوری کی پہچان ہوتی ہیں ،مزید برآں ایسا کرنے والوں س ے ات نے بے ش مار گن اہ س رزد
ہوج اتے ہیں کہ جن کی وجہ س ے وہ ہللا تع الی کے غض ب ،ناراض گی ،اور اس کے دردن اک ع ذاب کے مس تحق ث ابت
ہوتے ہیں۔
-3حسد بھی ایک مذموم خصلت ہے جس سے انسان کو دور رہنا چاہیے ،حسد کہتے ہیں کہ :آدمی اپنے مسلم بھائی کے
پاس موجود نعمت کے زوال کی تمنا کرے ،خواہ وہ نعمت دین سے متعلق ہو ی ا دنیا س ے متعل ق ہ و ،گوی ا کہ حس د کے
ذریعہ انسان ہللا رب الع المین کے فیص لہ پ ر اع تراض کرت ا ہے کہ ہللا تع الی نے فالں ش خص ک و فالں نعمت کیوں دی
اورمجھے کیوں نہ دی ا ،حس د کے ذریعہ انس ان خ ود اپ نے اوپ ر ظلم کرت ا ہے ،اس کے ایم ان میں کمی آج اتی ہے ،وہ
مصائب ومشکالت اورحزن وغم کا شکار ہوجاتا ہے ،جو اس کی ہالکت کا سبب بن تے ہیں ،چن انچہ ہللا رب الع المین ک ا
ارشاد ہے :ﯾﺎ ﯾﮧﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺣﺴﺪ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺍہلل ﺗﻌﺎلی ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﻀﻞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ اور حضرت ابوہریرہ
رضی ہللا عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ جناب محمد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
( جلد کا نمبر ،3صفحہ )240
تم ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ،آپس میں بغض نہ رکھو ،ایک دوسرے سے پیٹھـ نہ پھ یرا ک رو ،خرید وف روخت میں
بولی بڑھا کر ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو اور ہللا کے بندے تم آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو اس حدیث کو امام مسلم
نے روایت کیا ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ جن اب محم د رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم
12
نے ارشاد فرمایا :خبردار حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں كو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی ك و کھ ا ج اتی ہے
اسے امام ابوداود نے روايت كيا ہے ۔
4۔ اسی طرح ظلم وزیادتی سے انسان کو پرہیز کرنا ضروی ہے ،ظلم کہتے ہیں :وضع الشئ فی غیرموض عہ الش رعی:
یعنی کسی بھی شے ک و اس کے غ یر ش رعی مح ل میں رکھـ دین ا ،یہ ظلم کہالتا ہے ،اورسب سے ب ڑا ظلم ش رک ہے،
یعنی انسان ہللا تعالی کے ساتھـ دوس روں کو ش ریک ٹھ رائے ،اس کی نافرم انی اور مخ الفت ک رے ،ہللا رب الع المین ک ا
ارشاد ہے :ﺑےﺸﻚ ﺷﺮﻙ ﺑﮍﺍ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ ۔ اور هللا تعالى نے فرمايا :ﺍﻭﺭ ﰷﻓﺮ ﮨﯽ ﻇﺎﻟﻢ ﮨﯿﮟاسی طرح کسی کے مال کو
ناحق لے لینا یا کسی کی زمین پر ناحق قبضہ کرلینا یا کسی پرزیادتی کرنا ظلم کہالتا ہے۔ اور یہ کبیرہ گناہوں میں داخل
ہے اور ہللا کی معصیت ہے ،اور یہ نعوذ باہلل دل میں تاریکی کی وجہ سے صادر ہوتا ہے کیونکہ اگر ظالم ک ا دل ہ دایت
کے نور سے منور رہت ا ت و کبھی وہ ظلم نہیں کرت ا ،ہللا تع الی ک ا ارش اد ہے :ﻇﺎﻟﻤﻮﮞ ﰷ ﻧﮧ ﻛﻮﺋﯽ ﺩﻟﯽ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﻮﮔﺎ ﻧﮧ
ﺳﻔﺎﺭﺷﯽ ﻛﮧ ﺟﺲ ﻛﯽ ﺑﺎﺕ ﻣﺎﻧﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ اورهللا تعالى نے فرمايا :ﻇﺎﻟﻤﻮﮞ کا ﻛﻮﺋﯽ ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ۔ اورهللا تعالى نے فرمايا:
ﻧﺎﺍﻧﺼﺎﻓﻮﮞ ﻛﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﺳﮯ ہللا ﻛﻮ ﻏﺎﻓﻞ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮫ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﺩﻥ ﺗک ﻣﮩﻠﺖ ﺩﯾﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﮯ ﺟﺲ ﺩﻥ ﺁﻧﻜﮭﯿﮟ ﭘﮭﭩﯽ ﻛﯽ
ﭘﮭﭩﯽ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ اورهللا تعالى نے فرمايا :ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺟﺲ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻇﻠﻢ ﻛﯿﺎ ﮨﮯ ﮨﻢ ﺍﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻋﺬﺍﺏ ﭼﻜﮭﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ۔ اور
صحیح مسلم میں حضرت ابوذر رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ جناب محمد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وس لم نے فرمایا :
ہللا تعالی فرماتا ہے (حدیث قدسی ہے) اے میرے بندوں میں نے اپ نے اوپر ظلم ح رام کیا ہے اور اسے تمہ ارے درمیان
بھی حرام کیا ہے لہذا تم آپس میں ظلم نہ کرو پوری حديث۔
اور حضرت جابر رضي هللا عنه سے روایت ہے کہ رسول هللا صلى هللا عليه وسلم نے فرمایا :ظلم سے بچ و کیونکہ ظلم
قیامت کے دن تاریکیاں لے کر آئے گا پوری حدیث۔ اور اسی طرح حضرت عبد ہللا بن عمرو بن العاص رضی ہللا عنہم ا
سے روایت ہے کہ
( جلد کا نمبر ،3صفحہ )241
نبی صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور جس کےہاتھـ سے مس لمان ل وگ محف وظ رہیں ،اور
مہاجر وہ ش خص ہے جو ہللا کی ممن وعہ چ یزوں کو چھ وڑ دےیہ متفق علیہ ح دیث ہے۔ م ذکورہ اح ادیث اور ان کے ہم
معنی دیگر احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہرحال میں ظلم وزیادتی وغیرہ سے بچنا ض روری ہے ،خ واہ ظلم
نفس کے سلسلے میں ہو یا مال میں یا عزت میں؛ کیونکہ اس میں عظیم شر اور سنگین فساد ہے ،اور اس کے برے نتائج
برآمد ہوتے ہیں ،چنانچہ ظالم کوچاہیے کہ اپنے سابقہ ظلم سے توبہ کرے ،اور تمام گناہوں کوچھوڑدے۔
ANS 03
امام ابوداود نے اہل مکہ کے نام اپنے مکتوب میں کتاب السنن کے منہج اورطریقہ ٔ تالیف پرمفصل روشنی ڈالی ہے ،ذیل
میں ہم اس کے کچھ فق رات ٓاپ کے منہج وط ریقٔہ ت الیف ک و بیان ک رنے کے ل ئے نق ل ک ررہے ہیں:
-۱میں نے ہرباب میں صرف ایک یا دو حدیثیں نقل کی ہیں ،گو اس باب میں اور بھی صحیح حدیثیں موجود ہیں ،اگر ان
سب کو میں ذکر کرت ا ت و ان کی تع داد ک افی ب ڑھ ج اتی ،اس سلس لہ میں م یرے پیش نظ ر ص رف ق رب منفعت رہ اہے۔
-۲اگر کسی روایت کے دویا تین طرق سے ٓانے کی وجہ سے میں نے کسی باب میں اسے مکرر ذکرکیا ہے ت و اس کی
13
وجہ صرف سیاق کالم کی زیادتی ہے ،بسااوقات بعض س ندوں میں ک وئی لف ظ زائ د ہوت اہے ج و دوس ری س ند میں نہیں
ا کیا ہے۔ ئے میں نے ایس رنے کے ل و بیان ک ظک د لف ا ،اس زائ ہوت
-۳بعض طویل حدیثوں کو میں نے اس لئے مختصر کردیا ہے کہ اگر میں انہیں پوری ذکر کرتاتوبعض س امعین (وق راء)
کی نگاہ سے اصل مقصد اوجھل رہ جاتا ،اور وہ اصل نکتہ نہ سمجھ پاتے ،اس وجہ سے میں نے زوائد کو حذف کرکے
ص رف اس ٹک ڑے ک و ذک ر کیا ہے ،ج و اص ل مقص د س ے مناس بت ومط ابقت رکھت ا ہے۔
-۴کتاب السنن میں میں نے کسی متروک الحدیث شخص سے کوئی روایت نہیں نقل کی ہے ،اور اگر صحیح روایت کے
نہ ہونے کی وجہ سے اگر کس ی ب اب میں ک وئی منک ر روایت ٓائی بھی ہے ،ت و اس کی نک ارت واض ح ک ردی گ ئی ہے۔
-۵میری اس کتاب میں اگر کوئی روایت ایسی ٓائی ہے جس میں شدید ضعف پایا جاتاہے تو اس کا یہ ضعف بھی میں نے
واض ح کردی ا ہے ،اور اگ ر کس ی روایت کی س ند ص حیح نہیں اور میں نے اس پرس کوت اختیار کیا ہے ت و وہ م یرے
ح ہیں۔ ے اص بتہً ان میں بعض بعض س الح ہے ،اور نس کص نزدی
-۶اس کتاب میں بعض روایتیں ایسی بھی ہیں جو غیر متصل ،مرسل اور م دلس ہیں ،بیش تر مح دثین ایس ی روایت وں ک و
اتے ہیں۔ ا حکم لگ ل ہی ک ر متص انتے ہیں اور ان پ بر م تند و معت مس
-۷میں نے کتاب السنن میں صرف احکام کی حدیثوں کو شامل کیا ہے اس میں زہد اور فضائل اعمال وغیرہ س ے متعل ق
حدیثیں درج نہیں کیں ،یہ کتاب کل چارہزار ٓاٹھ سو احادیث پرمشتمل ہے ،جو سب کی سب احکام کے سلسلہ کی ہیں۔
مام بقاعی ابو داود کے مذکورہ باال قول ( :ج و ان کے مکت وب بن ام اہ ل مکہ میں موج ود ہے) ک و ذک ر ک رنے کے بع د
تی ہیں: میں بن انچ قس ادیث کی پ نن میں وارد اح ےس ول کی روس تے ہیں :ان کے اس ق لکھ
ا۔ راد لیاہوگ ذاتہ م حیح ل وں نے ص ے انہ حیح جس س -۱ص
وگی۔ یرہ ہ حیح لغ راد ص ے ان کی م ابہ جس س حیح کے مش -۲ص
وں گے۔ راد لیتے ہ ذاتہ م نل ے وہ حس ا ً اس س ریب غالب حت کے ق -۳درجہ ص
و۔ عف ہ دید ض -۴جس میں ش
-۵ان کے اس قول’’ :وما سكتت عنه فهو صالح‘‘( جن احادیث پر میں نے سکوت اختیار کیا ہے وہ صالح ہیں) سے سنن
میں وارد احادیث کی ای ک پ انچویں قس م ان اح ادیث کی س مجھی ج اتی ہے ج و بہت زی ادہ کم زور نہ ہ وں،اس قس م کی
ے ہیں ار کے قبیل س رف اعتب و وہ ص وں ت روم ہ ے مح ویت س ر تائید و تق تیں اگ روای
-۶لیکن اگر انہیں کسی کی تائید و تقویت مل جائے تو بحیثیت مجموعی وہ ’’حسن لغیرہ‘‘ کے درجہ پر ٓاج اتی ہیں ،اور
استدالل واحتجاج کے الئق بن جاتی ہیں ،اس طرح ایک چھٹی قسم بھی وجود میں ٓاجاتی ہے۔
امام ذہبی کابیان ہے کہ ابوداود کی کتاب میں وارد احادیث کے مختل ف درجے ہیںٓ ،اپ نے ابن داس ہ ک ا یہ ق ول نق ل کیا
کہ’’میں نے ابو داود کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے اپنی سنن میں صحیح اور اس سے قریب کی احادیث ذکر کی
ہیں ،اور اگر ان میں شدید ضعف ہے تو میں نے اس کو بیان کر دیا ہے‘‘ ،ذہبی کہ تے ہیں’’ :میں کہت ا ہ وں :ام ام رحمہ
ہللا نے اپنے اجتہاد کے مطابق اسے پورا پورا بیان کیا اور شدید ض عف والی اح ادیث ک و جس ک ا ض عف قاب ل برداش ت
14
نہیں تھا بیان کردیا ،اور قابل برداشت خفیف ضعف سے اغماض برتا ،تو ایسی حالت میں ٓاپ کے کسی حدیث پر س کوت
سے یہ الزم نہیں ٓاتا کہ یہ حدیث ٓاپ کے یہاںحسن کے درجے کی ہو،بالخصوص جب ہم حسن کی تعریف پ ر اپ نی جدی د
اصطالح کا حکم لگائیں جو سلف کے عرف میںصحیح کی اقس ام میں س ے ای ک قس م کی ط رف لوٹ تی ہے ،اور جمہ ور
علماء کے یہاں جس پر عمل واجب ہوتا ہے ،یا جس سے امام بخاری بے رغبتی برتتے ہیں اور امام مسلم اسے لے لیتے
ہیں ،وبالعکس ،تو یہ مراتب صحت کے ادنی مرتبہ میں ہے ،اور اگر اس سے بھی نیچے گر جائے تو احتجاج واس تدالل
کی حد سے خارج ہوجاتی ،اور حسن اور ضعیف کے درمیان متجاذب قسم بن جاتی ہے ،تو ابو داود کی کتاب السنن میں :
-۱سب سے اونچا درجہ ان روایات کا ہے جن کی تخریج بخاری ومسلم دونوں نے کی ہے ،اور جو تقریب ا ً نص ف کت اب
تمل ہے۔ ر مش پ
-۲اس کے بعد وہ حدیثیں ہیں جن کی تخریج بخاری ومسلم (شیخین) میں سے کسی ای ک نے کی ،اور دوس رے نے نہیں
کی ہے۔
-۳پھر اس کے بعد وہ روایات ہیں جن کو بخاری ومسلم (شیخین) نے روایت نہیں کیا ،اور وہ جید االس ناد ہیں اور علت
وظ ہیں۔ ے محف ذوذ س وش
-۴پھر وہ روایات ہیں جس کی اسناد صالح ہے ،اور علماء نے ان کو دو ی ا اس س ے زی ادہ ض عیف ط رق س ے ٓانے کی
وجہ س ے قب ول ک ر لیا ہے کہ ان میں س ے ہ ر س ند دوس رے کے ل ئے تق ویت ک ا ب اعث ہے۔
-۵پھراس کے بعد وہ احادیث ہیں جن کی سندوں کا ضعف رواۃ کے حفظ میں کمی کی وجہ سے ہے ،ایس ی اح ادیث ک و
اتے ہیں۔ کوت اختیار فرم رس ثر اس پ ر لیتے ہیں اور اک ول ک و داود قب اب
-۶ان کے بعد سب سے ٓاخری درجہ ان احادیث کا ہے جن کے رواۃ کا ضعف واضح ہوتاہے ،ایسی روایت وں پ ر وہ ع ام
تے ہیں۔ ر کردی عف ذک اض تے ہیں ،ان ک اموش نہیں رہ ےخ ور س ط
-۷اور اگ رکبھی خ اموش رہ تے بھی ہیں ت و اس کی وجہ اس کے ض عف کی ش ہرت و نک ارت ہ وتی ہے ،وہللا اعلم‘‘
(السیر ۱۳؍ )۲۱۵ -۲۱۴۔
ANS 04
نبی کریم ﷺ اعلى اقدار،حسن اخالق،نرم خوئی ونرم گوئی ،امانت وصداقت ،تہذیب وشائستگی،متانت
وسنجیدگی ،حلم وبردباری،عفو ودرگزری،حسن معاملہ ،شفقت وکرم،بلند وباال کردار ،حسن اوصاف اور ع الی اط وار
وعادات کے پیکر تھے۔ ہمارے نبی ﷺ نبوت س ے قب ل بھی اخالقی خوبیوں س ے ممت ار تھے ،اور
جب نبوت سے سرفراز ہوئے تو آپ ﷺ مکمل طور سے قرآن وحدیث کے تن اظر میں اخالقی ش رافتوں
سے بہرہ ور ہوگیے۔ اور ہللا تعالى نے ہم ارے تاج دار م دینہ مص طفقی ﷺ کے اخالق فاض لہ ک و اپ نی
َظي ٍْم“( .سورہ قلم)4 : ك لَ َعلَى ُخلُ ٍ
قع ِ ”:وإِنَّ َ
کتاب میں ثبت کردیا ہے ،جیسا کہ ہللا تعالى کا فرمان ہے َ
ترجمہ ”:اور بے شک تو بہت بڑے (عمدہ) اخالق پر ہے“۔
ُ
ار َم اأْل َ ْخاَل ِ
ق“(.موطأ امام مالک،ح)2633: ت أَ ْن أتَ ِّم َم َم َک ِ
اور نبی کریم ﷺکا فرمان ہے ”:بُ ِع ْث ُ
ترجمہ” :میں اعلى اخالقی شرافتوں کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں“۔
15
جب حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا سے نبی کریم ﷺکے اخالق کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا َ ”:كانَ ُخلُقُهُ
ْالقُرْ آنَ “(.مسند احمد)
ترجمہ” :آپ کاخلق قرآن ہے“۔
امام ابوداود رحمہ ہللا نے اپنی کتاب ”سنن ابی داود “ میں نبی کریم ﷺ کے اخالق کریمانہ سے متعلق
حضرت انس رضی ہللا عنہ کے قصہ کے ساتھ چیدہ چیدہ احادیث بیان کیا ہے ،جو درج ذیل ہیں-:
اس ُخلُقً ا ،فَأَرْ َس لَنِي يَوْ ًم ا
ص لَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َس لَّ َم ِم ْن أَحْ َس ِن النَّ ِ -1حضرت انس رضی ہللا عنہ فرماتے ہیںَ " :ك انَ َر ُس و ُل هَّللا ِ َ
ت َحتَّى أَ ُم َّر َعلَى ال :فَخَ َرجْ ُ َب لِ َما أَ َم َرنِي بِ ِه نَبِ ُّي هَّللا ِ َ
ص لَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َس لَّ َم .قَ َ ت َ :وهَّللا ِ اَل أَ ْذهَبُ َ .وفِي نَ ْف ِسي أَ ْن أَ ْذه َ
لِ َحا َج ٍة ،فَقُ ْل ُ
ك فَقَ ا َل : اي ِم ْن َو َرائِي ،فَنَظَرْ ُ
ت إِلَ ْي ِه َوهُ َو يَ ْ
ض َح ُ صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم قَابِضٌ بِقَفَ َ ص ْبيَا ٍن َوهُ ْم يَ ْل َعبُونَ فِي الس ِ
ُّوق ،فَإِ َذا َرسُو ُل هَّللا ِ َ ِ
ُول هَّللا ِ .قَا َل أَنَسٌ َ :وهَّللا ِ لَقَ ْد خَ َد ْمتُهُ َس ْب َع ِسنِينَ – أَوْ تِ ْس َع ِسنِينَ – َما
ت :نَ َع ْم ،أَنَا أَ ْذهَبُ يَا َرس َ ك " .قُ ْل ُ ” يَا أُنَيْسُ ْ ،اذهَبْ َحي ُ
ْث أَ َمرْ تُ َ
ت :هَاَّل فَ َع ْلتَ َك َذا َو َك َذا ؟”( سنن ابی داود ،ح)4773:
ْت :لِ َم فَ َع ْلتَ َك َذا َو َك َذا ؟ َواَل لِ َش ْي ٍء تَ َر ْك ُ
صنَع ُ َعلِ ْم ُ
ت قَا َل لِ َش ْي ٍء َ
ترجمہ”:حضرت انس رضی ہللا عنہ فرم اتے ہیں کہ ن بی ک ریمﷺ لوگ وں میں باعتب ار اخالق کےس ب
سے اچھے تھے ،ایک دن نبی کریم ﷺ نے مجھے کس ی ض رورت کے پیش نظ ر (ب اہر)بھیج ا ،ت و میں
نے کہ اکہ و ہللا میں نہیں ج اؤں گ ا ،اور دل میں یہ ب ات تھی کہ آپ ﷺکے حکم کی تعمیل کے
لیے(ضرور) جاؤں گا۔ (بعد ازاں ) حضرت أنس رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں گھ ر س ے نکال ت و ب ازار میں
کھیل رہے کچھ بچوں کے پاس سے گذر ہوا ،پس اچانک نبی کریمﷺ میرے پیچھے سے میرے س رکی
گدی پکڑ لیے ،جب میں نے دیکھا ت و ن بی ک ریم ﷺ ہنس رہے ہیں،اور فرمای ا«:اے انس! ج اؤ جہ اں
جانے کا حکم دیا تھا»پس میں نے کہا کہ ہاں میں جاؤں گا یارسول ہللا۔ حضرت انس رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ میں
نے نبی کریم ﷺ کی سات سال یا ن و س ال خ دمت کی ، مجھے نہیں معل وم کہ میرےک یے ہ وئے ک ام پ ر
کبھی سوال کیے ہوں ،اور نہ کیے ہوئے کام پر میری سرزنش اور مالمت کی ہو۔
-2نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم کا فرمان ہے”:إِ َّن ْالهَ ْد َ
ي الصَّالِ َحَ ،وال َّس ْمتَ الصَّالِ َحَ ،وااِل ْقتِ َ
صا َد ُج ْز ٌء ِم ْن َخ ْم َس ٍة َو ِع ْش ِرينَ
ج ُْز ًءا ِمنَ النُّبُ َّو ِة”( سنن ابی داود ،ح)4776:
ترجمہ”یقینا راست روی ،اور حسن خلق ،اور میانہ روی نبوت کے پچیسویں اجزاء کا ایک جزو ہے” –
صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم خَا ِد ًما َواَل ا ْم َرأَةً قَ ُّ
ط”(.سنن ابی داود ،ح)4789: ب َرسُو ُل هَّللا ِ َ
ض َر َ -3ع َْن عَائِ َشةَ َعلَ ْيهَا ال َّساَل ُم قَالَ ْ
ت َ " :ما َ
ترجمہ :حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا فرماتی ہیں کہ”:ہللا کے نبی صلی ہللا علیہ و سلم نے کبھی کسی مالزم ک و ض رب
نہیں ماری اور نہ کسی عورت کو”-
صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم إِ َذا بَلَ َغهُ ع َِن ال َّر ُج ِل َّ
الش ْي ُء لَ ْم يَقُ لْ َ :م ا بَ ا ُل فُاَل ٍن يَقُ و ُل ؟ ض َي هَّللا ُ َع ْنهَا قَالَ ْ
ت َ :كانَ النَّبِ ُّي َ -4ع َْن عَائِ َشةَ َر ِ
َولَ ِك ْن يَقُو ُل َ ” :ما بَا ُل أَ ْق َو ٍام يَقُولُونَ َك َذا َو َك َذا ؟ "(.سنن ابی داود ،ح)4788:
ترجمہ :حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا عرض کرتی ہیں کہ”نبی ک ریم ص لی ہللا علیہ و س لم کی جن اب میں کس ی ش خص
سے متعلق کوئی چیز (شکایات)پہونچتی ،تو آپ نے یہ نہیں فرماتے کہ فالں ک و کیا ہوگیاہے ج و ایس ی ب ات کرت ا ہے،
لیکن یہ ضرور کہتے کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو ایسی باتیں کرتے ہیں” –
16
ك ْال ِم َرا َء َوإِ ْن َك انَ ُم ِحقًّ اَ ،وبِبَ ْي ٍ
ت فِي ض ْال َجنَّ ِة لِ َم ْن ت ََر َ -5نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم کا فرمان ہے ”:أَنَا زَ ِعي ٌم بِبَ ْي ٍ
ت فِي َربَ ِ
ت فِي أَ ْعلَى ْال َجنَّ ِة لِ َم ْن َحسُنَ ُخلُقُهُ "(.سنن ابی داود ،ح)4800: َو َس ِط ْال َجنَّ ِة لِ َم ْن تَ َركَ ْال َك ِذ َ
ب َوإِ ْن َكانَ َم ِ
ازحًاَ ،وبِبَ ْي ٍ
ترجمہ”:میں ایسے شخص کے لیے جنت کے عالقے میں ایک گھر کی ضمانت لیتا ہوں جس نے حق بجانب ہوتے ہوئے
جنگ وجدال سے ہاتھ ٹھالیا ،اور جنت کے وس ط میں ای ک گھ ر کی ض مانت لیت ا ہ وں جس نے مزاح ا ہی س ہی جھ وٹ
ودورغ گوئی سے اجتناب کرلیا ،اور جنت کے اعلی سطح پر ایک گھر کی ضمانت لیتا ہ وں جس نے اخالق وک ردار کی
تحسین وتزئین کاری کی”-
ُس ِن ْال ُخلُ ِ
ق "(.س نن ابی داود ،ح: ”-6نبی کریم صلی ہللا علیہ و س لم ک ا فرم ان ہےَ ”:م ا ِم ْن َش ْي ٍء أَ ْثقَ ُل فِي ْال ِم يزَ ِ
ان ِم ْن ح ْ
)4799
ترجمہ(”:انسانی)میزان میں حسن خلق سے بھاری بھرکم کوئی چیز نہیں”-
ان احادیث کے عالوہ بہت سی حدیثیں حدیث کی کتابوں میں درج ہیں جو نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم کی ش رافتوں اور
اعلی اخالقی اقدار سے روشناس کرتی ہیں -طول وطویل کے پیش نظر انہی چند احادیث پر اکتفا کرتا ہوں-
مذکورہ احادیث سے مستنبط مسائل:
-1نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم کی اخالقی اقدار کا مقابلہ کرہ ارضی پ ر قیام پ ذیر ل وگ نہیں کرس کتے ،کیوں کہ آپ
حسن کردار کی اعلی سطح پر براجمان تھے-
-2ہمارے نبی تاجدار مدینہ صلی ہللا علیہ و سلم نہایت ہی خندہ رو ،خ وش م زاج ،خ وش طب ع اور ہنس مکھ تھے ،غیظ
وغضب سے بہت پرے تھے-
-3مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اسالمی س انچے اور اس المی تعلیم ات ک ا آئینہ دار بن ائیں اور اچھے
عادات واطوار اور اعلی کردار سے اپنے آپ کو متصف کریں-
-4اپنے مالزمین اور نوکر چاکر کے ساتھ اچھا سلوک وبرتاؤ کریں ،انہیں اخالق باختہ کلمات ت سے نہ بالئیں ،اگ ر ان
سے بشری تقاضے کے مطابق کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو ترش روئی ک ا مظ اہرہ نہ ک ریں اور نہ سرزنش ی ک ردار
نبھائیں ،جیساکہ نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم کے واقعات سے پتہ چلتا ہے –
-5بزرگ اور بڑوں کی خدمت کرنی چاہیے ،ان سے نرم لہجے میں کالم کرنا چاہیے-
-6راست روی اور دیانت داری ،حسن اخالق اور اعتدال پسندی ایک عظیم انسانی سوغات ہے ،جس ے ن بی ک ریم ص لی
ہللا علیہ و سلم نے اس کی اہمیت وفضلت کے پیش نظر نبوت کے پچیسویں اجزاء کا ایک جزو قرار دیا –
-7کسی کی اصالح اور سدھار کرتے وقت عمومی طور سے انکار منک ر ک ریں ت اکہ کس ی کے دل میں تنگی نہ ہ ونے
پائے-
-8حسن خلق نہایت ہی وزنی شی ہے ،جسے کوئی میزان سے وزن نہیں کیا جاسکتا-
ANS 05
رسول ہللا کی مبارک زن دگی میں عف و و درگ زر ،رحم و ک رم ،محبت و ش فقت اورپیار ہی پیارنظر ٓات اہے۔ٓاپ نے پ وری
زندگی کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا۔کسی پر ہاتھ نہیں اٹھا یا ۔ کسی کو برابھال نہیں کہا ۔ام المومنین حضرت عا ئشہ
17
اتی ہیں: اد فرم ارحمت میں رہیں ۔وہ ارش حبت ب ک ٓاپ کی ص رس ت دیقہ ؓ9ب ص
ت شریفہ کسی کو برا بھال کہ نے کی نہیں تھی ٓ،اپ ب رائی کے ب دلے میں کس ی کیس اتھ ب رائی
’’ رسو ل ہللا کی عاد ِ
نہیں کرتے بلکہ اسے معاف فرمادیتے تھے ۔ٓاپ کی زبان مبارک سے کبھی بھی کوئی غلط الف اظ نہیں نکلے ۔ٓاپ گن اہو
ں کی باتوں سے ہمیشہ کوسوں دور رہے ۔ٓاپ اپنی ذات کیل ئے کس ی س ے انتق ام نہیں لیا۔غالم ،لون ڈی ،ع ورت،بچہ ی ا
خادم یہاں تک کہ کسی جانور کوبھی کبھی نہیں مارالیکن اگر ک وئی ح دود ہللا کی بے حرم تی کرت ا ت و ن بی ک ریم اس ے
لم ) ۔ ام لیتے۔‘‘ ( مس ا انتق رتے اور اس ک ت نہیں ک برداش
اف کردینا: و مع الم ک منان ِاس دش
عفو و درگزراور رحم وکرم کی اس سے بڑی مثال کیا ہوس کتی ہے کہ فتح مکہ کے موق ع پ ر رس ول ہللا نے ان
رام پ ر
تمام دشمنوں کو معاف فرمادیا جنھوں نے چند ماہ نہیں متواتر 13سال تک مکہ میں ٓاپ پراور ٓاپ کے صحا بہ ک ؓ
عرصٔہ حیات تنگ کررکھا ۔طرح طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ظلم و ستم کے پہ اڑ ت وڑے تھے اور ٓاپ ک و
اپنا محبوب وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا تھالیکن جب مکہ فتح ہوتا ہے تو نبی کریمہزاروں جانثار ص حا بہ ک رام ؓ کے
تعالی کی نغمہ سرائی کرتے ہوئے سرزمی ِن حرم میں داخل ہوتے ہیں ۔سب سے پہلے بیت ہللا شریف
ٰ ی
جلو میں حمد بار ٔ
منان اس الم س ے بھ را
ِ صحن ح رم دش
ِ تشریف التے ہیں،دوگانہ نماز ادا کرتے ہیں،ہللا رب العزت کا شکر ادا کرتے ہیں،
ہوا ہے۔ وہ سراسیمہ اور خوفزدہ ہیں کہ ٓا ج ہمارے تمام اگلے پچھلے ب رے کرتوت وں ک ا حس اب کت اب چکای ا جائیگ ا کہ
وتی ہے: دہ ک ٓاواز بلن اچان
’’ اے ق ریش کے لوگ و!تم س وچ رہے ہ و کہ میں تمہ ارے س اتھ کیا مع املہ ک رنے واال ہ وں؟‘‘
تمام لوگوں نے کہا :اے محمد()!تم سے ہم کو خیر اور بھالئی کی امید ہے اس لئے کہ تم ہمارے بہترین بھائی ہو اور
دہو!۔ د ارجمن ائی کے فرزن ریف بھ ارے ش ہم
اد فرمایا : انیتنے ارش ِن انس دنبی رحمت محس اس کے بع
و۔ ‘‘ وگ ٓازاد ہ وئی لعنت و مالمت نہیں ،تم ل رک وں پ ٓ’’ اج تم لوگ
اف کردینا: و مع رنے والے ک تراض ک اع
غزوئہ حنین میں صحا بہ ک رام ؓ ک و واف ر مق دار میں م ا ِل غ نیمت ہ اتھ ٓای ا تھ ا۔ن بی کریم نے بعض ص حا بہ ک رام
کومصلحتازیادہ حصہ دیا۔ حضرت اقرع بن حابس ؓ اور حضرت عیینہؓ کو 100,100اونٹ دی ئے۔ای ک ص حابی ؓ ک و اس
ؓ
مسعود س ے تقسیم پر اعتراض ہوا اور انہوں نے کہا کہ میں اس تقسیم سے خوش نہیں ہوں۔انہوں نے حضرت عبد ہللا بن
نبی ک ریم کے فیص لے کی ش کایت کی۔ انہ وں نے ن بی ک ریم ک و اس واقعہ کی اطالع دی دی ۔ یہ س ن ک ر ن بی ک ریم نے
اد فرمایا : ابلکہ ارش ار نہیں فرمای ا اظہ گی ک ناراض
موسی پر رحم فرمائے کہ
ٰ ’’ ہللا اور اس کا رسول درست فیصلہ نہیں کرے گا تو ٓاخر کون کرے گا؟ہللا ٰ
تعالی ـ حضرت
وڑا۔ ‘‘ ا دامن نہیں چھ بر ک وں نے ص ئی لیکن انہ ائی گ ادہ اذیت اور تکلیف پہنچ ان کو اس سے زی
اف کردینا: و مع یر ک
ؓ کعب ابن زہ
کعب بن زہیر اپنے بھائی (بجیربن زہیر )کے ہمراہ نبی کریمسے مالقات کرنے مدینہ طیبہ ٓاتے ہیں۔جب م دینہ من ورہ
18
کے قریب پہنچتے ہیں تو بجیر بن زہیر ،کعب بن زہیر کو ایک مقام پر ٹھہراکر نبی کریم سے مالقات کرنے تش ریف لے
جاتے ہیں۔وہ ٓاپ سے مالقات کرتے ہیں ۔ ٓاپ انک و اس الم کی دع وت دی تے ہیں ۔ ٓاپ کی ن ورانی تعلیم ات س ے وہ مت اثر
ہوکر حلقہ بگوش اسالم ہوجا تے ہیں۔جب کعب بن زہیر کو واقعہ کی اطالع ہوتی ہے ت و وہ ب رہم ہوجات ا ہے ۔ ن بی ک ریم
کی شا ِن مبارک میں ہجویّہ اش عار لکھت اہے ۔ن بی ک ریم ک وجب اس ک ا علم ہوت اہے ت و ٓا پ اس کی گ ردن زدنی ک ا حکم
اعلی اخالق و خصائل سے ٓاگاہ ک رتے ہیں جن
ٰ بجیر نے خط لکھ کر کعب بن زہیر کو نبی کریمکے
ؓ فرماتے ہیں۔حضرت
کو سن کر ان کے دل کی دنیا بدل جاتی ہے۔وہ اونٹ پر سوار ہوکر مدینہ من ورہ ٓاتے ہیں ۔ اونٹ ک و مس جد نب وی ش ریف
کے صحن میں کھڑاکرتے ہیں اوررسالت مٓابکی خ دمت میں حاض ر ہوکرقب ول ِاس الم ک ا اعالن ک رتے ہیں۔اپن ا مش ہور
قصیدہ (بانت سعاد)کا نذرانٔہ عقیدت پیش کرکے معافی کے طلبگار ہوتے ہیں۔ نبی کریم کی کریم ذات نہ صرف معافی کا
ادیتے ہیں۔ ایت فرم ارک انہیں عن نی ردائے مب رت میں اپ رط مس
ِ تی ہے بلکہ ف روانہ دی پ
اف کردینا: ورت کومع نے والی ع ر دی زہ
خیبر کی یہودی عورت زینب بنت الحارث نے نبی کریمکی خدمت میں زہر ٓالود بکرے ک ا گوش ت پیش کیا ۔آپ نے
کرام کو حکم دیا کہ یہ گوشت کوئی استعمال نہ کرے اس لئے کہ یہ زہر ٓال ود ہے۔
نوالہ چکھ کر تھوک دیا۔ٓاپنے صحابہ ؓ
اور ٓاپنے یہودی عورت کوحاضر کرنے کا حکم فرمایا۔جب و ہ رس الت م ٓاب کی خ دمت میں حاض ر ہ وئی ت و ٓاپ نے اس
سے دریافت فرمایا کہ تم نے یہ حرکت کیوں کی۔اس نے ج واب دی ا کہ میں ٓازمان ا چ اہتی تھی کہ ٓاپ واقعی ہللا کے ن بی
تعالی ٓاپ کواس کی اطالع دیدیںگے اور اگر ٓاپ جھوٹے ہیں توہم لوگ وں
ٰ ہیں یا نہیں؟اگر ٓاپ واقعی ہللا کے نبی ہیں تو ہللا
کو ٓاپ سے راحت مل جائیگی۔حضرت ابوہریرہؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس عورت پر ٓاپ نے ذرا بھی ناراضگی کا اظہ ار
ا۔ اف فرمادی و مع ا اور اس ک نہیں فرمای
اف کرنا : و مع احبزادی ک ائی کی ص اتم ط ح
ایک جنگ میں ک ئی ل وگ قید ی بن اکر الئے گ ئے۔ ان میں س خاوت و فیاض ی میں مش ہور زم انہ ح اتم ط ائی کی
صاحبزادی’’ طی‘‘ بھی تھی۔ جب اسے رسالت مٓاب کی خدمت میں الیا گیا تو اس نے کہا :اے محمد()!کیا تم ج انتے ہ و
میں کون ہوں؟میں عرب کے مشہور قبیلے کے سردار کی صاحبزادی ہوں۔ میرا باپ سخاوت و فیاضی میں ممتاز تھا،وہ
بھوکوں کو کھانا کھالتا تھا ،ننگوں کو کپڑا پہناتا تھا ،حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرت ا تھ ا،اس نے اپ نی زن دگی میں
کبھی بھی کسی ضرورت مند کوواپس نہیں کیااور کوئی سائل اس کے در س ے خ الی ہ اتھ نہیں لوٹ ا۔ن بی کریم نے جب یہ
اعلی صفات تواہل ایمان کی ہیں۔اگر تمہارا باپ مسلمان ہوتا تو وہ ب ڑا نیک اور متقی انس ان
ٰ خوبیاں سنیں تو فرمایا کہ یہ
اد فرمایا : د آپ نے ارش ا۔ اس کے بع ہوت
ا۔ ‘‘ ک تھ ا مال ادات ک ن ِاخالق و ع اپ حس ائے کہ اس کاب اج ا کردی و رہ ’’ اس ک
ارم خس روانہ س ے مت اثر ہوکراپ نے بھ ائی کے س اتھ مش رف باس الم
جب اسے رہا کردیا گیا تو وہ نبی ک ریم کے مک ِ
ئی۔ ہوگ
اف کرنا: و مع رنے والے ک ال ک و پام دس ک جد کے تق مس
نبوی میں تشریف فرماہیں۔ ایک دیہاتی مسجد میں داخل ہ وکر مس جد کے تق دس و
کرام مسج ِد ؐ
ؓ نبی کریم اور صحابہ
19
کرام یہ دیکھ کر سخت ناراض ہ وکر
صحن حرم میں پیشاب کرنے بیٹھ جاتا ہے۔ صحا بہ ؓ
ِ حرمت کو پامال کردیتا ہے ۔وہ
کرام کوایسا کرنے س ے من ع ک رکے ارش اد فرمای ا :اس ے
اسے مارنے پیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نبی کریم صحا بہ ؓ
چھوڑ دو اور پیار سے سمجھاؤ کہ مسجدہللا ک ا گھ ر ہے ،عب ادت کی جگہ ہے ،قاب ل اح ترام ہے ،یہ اں ب ول وب راز نہیں
رام ک و جم ع ک رکے
ک رتے اورفرمای ا جس جگہ اس نے پیش اب کیا ہے اس جگہ پ ر پ انی بہ ا دو۔اس کے بعدص حابہ ک ؓ
نص یحت کی کہ ہمیں حس ِن اخالق اور حس ِن ک ردار ک ا مظ اہرہ کرن ا چ اہئےٓ ،اس انیاں پیدا ک رنے کی کوش ش ک رنی
اہئے ۔ اچ ز کرن رنے گری کالت پیدا ک واریاں اور مش اہئے،دش چ
اف کردینا : و مع لک ا کے قات چچ
نبی کریم کے پیارے چچاسیدنا حمزہ ؓ غزوئہ احد میں نہایت جرٔات و دلیری سے کفارو مشرکین ک ا مق ابلہ ک ررہے
تھے ۔ میدا ِن جنگ میں جس طرف بھی رخ کرتے دشمنوں کے کشتوں کے پشتے لگ ج اتے ۔ جب یر بن مطعم ک ا حبش ی
غالم وحشی بن حرب ٓازادی حاصل کرنے اور اپنے ٓاقا کو خوش کرنے کیلئے سیدنا حمزہؓ کا تعاقب کررہاتھا کہ اچان ک
اس نے پیچھے سے چھپ کر حملہ کردیا اور نیزے سے ایسی کاری ضر ب لگائی کہ حضرت حمزہؓ زمین پ ر گ ر پ ڑے
اور جام شہادت نوش فرمایا لیکن یہی وحشی جب 8ہجری میں طائف کے ایک وفد کیساتھ مشرف بہ اسال م ہ ونے م دینہ
اد فرمایا: و ارش اتی ہے ت واس کی اطالع دی ج ریم ک بی ک ورہ ٓائے اور ن من
’’ اس ے ٓانے دو،ای ک ش خص ک ا مس لمان ہون امیرے نزدی ک ہ زار ک افروں کے قت ل س ے بہ تر ہے۔‘‘
یہ فرم اکر اس کی تم ام غلطیوں ک و مع اف ک ر کے اس کا اس الم قب ول فرم الیتے ہیں۔ اس ے نص یحت ک رتے ہیں :
’’ اے وحشی! بے شک تم دائرٔہ اسالم میں داخل ہو گئے ہولیکن ممکن ہو تو میرے س امنے مت ٓای اکرواس ل ئے کہ تم
اتی ہے۔‘‘ ازہ ہوج اد ت اکی ی ر پیارے چچ و دیکھ ک ک
اف کردینا: و مع دہ ک ہن
سید الشہداء حضرت حمزہ ؓنے جنگ بدر میں ہندہ کے باپ عتبہ کو واصل جہنم کیا تھا۔ہندہ نے اپنے باپ کا انتقام
لینے کی قسم کھائی تھی ۔جنگ احد میں وہ اپنے شوہر ابوسفیان بن حرب کے ساتھ شریک تھی اور اپنے جنگج وؤں ک و
رمزیہ اشعار پڑھ کر ہمت اور حوصلہ بڑھارہی تھی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ سید الشہداء حضرت حمزہؓ نے ج ِام ش ہادت
حمزہ کے پاس پہنچی اور انتہائی بے دردی سے ان کا پیٹ اور
ؓ نوش فرمالیا ہے تو نعشوں کو تالش کرتی ہوئی حضرت
زہ
سینہ چاک کرکے غیظ وغضب کی حالت میں کلیجہ چباکر نگل نے کی کوش ش ک رتی ہے اور خوش ی میں س یدنا حم ؓ
کے قاتل وحشی ابن حرب کو اپنے گلے کاقیمتی ہار دے دیتی ہے ۔ اس کا ہر عمل اس بات کا تقاضا کررہا تھ ا کہ اس ے
سخت ترین سزا دی جائے لیکن جب وہی سنگدل ہندہ فتح مکہ کے موقع پر رسالت مٓاب کی خدمت میں حاض ر ہ وتی ہے
دامن اس الم میں پن اہ دے دی ج اتی ہے۔
ِ ت و اس کے تم ام خط ائوں ک و مع اف کردی ا جات ا ہے اور
اف کرنا: و مع د یالیل کے بیٹے ک ردار عب ائف کے س ط
یہ وہی طائف کے سردارعبد یالیل کا سپوت ہے جسکے ظالم وجابر باپ نے محس ِن انس انیت کیس اتھ غیرانس انی و
نبی رحمتکی باتیں سننے سے انک ار کیاتھ ا بلکہ ٓاپ ک ا م زاق اڑایاتھ ا ٓ،اپ ک و
غیر اخالقی سلوک کیا تھا اور نہ صرف ٔ
ذلیل کیا تھا،مظالم کے پہاڑ توڑے تھے لیکن جب وہ وفد کیساتھ مدینہ ٓایا تو ن بی رحمت کواس کی اطالع دیج اتی ہے۔ ٓاپ
20
نے مسرت و شادمانی کا اظہار فرماتے ہوئے ٓاگے بڑھ کراسکا استقبال کیا،صح ِن حرم میں اسکے قیام کاانتظ ام فرمای ا۔
اس کو ٓارام و راحت بہم پہچ انے کی ہ ر ممکن کوش ش کی ۔ روزانہ ٓاپ اس کے خیمے میں تش ریف لیج اتے ،خ یریت
دریافت کرتے اور طائف کی دلدوز داستان سناتے ہیں۔بآالخر اسے معافی ک ا پ روانہ دے کردائ رئہ اس الم داخ ل فرم اتے
ان کہ: ا فرم ہیں۔ یہ ہے ٓاپ ک
رو۔ ‘‘ اف ک ے مع ر اور اس و پیار ک من ک نے دش ’’ اپ
اف کردینا : و مع رب ک فیان بن ح ابوس
رورکائنات اور آپ کے س تودہ ص فات
ِ یہ ابوسفیان کون ہیں ؟۔ عرب کے جنگجو’’ حرب‘‘ کا بیٹ اہے جس نے س
اصحاب ؓ کو ایذائیں پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔اسالم کا نام مٹانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگادی ا تھ ا۔
جنگ بدر ،غزوئہ احداور غزوئہ خندق سمیت کئی جنگوں کا ہ یرو اور س رغنہ تھ ااور کت نے اہ ل ِایم ان کے خ ون س ے
سرورکائنات کو قتل ک رنے کی سازش یں کی تھیں۔اس کاہر ج رم اورہ ر گن اہ
ِ اپنے دامن کو داغدار کیاتھا ۔ کتنی بار خود
سرعام سزا دی جائے ۔ ابو س فیان
منہ پھاڑ کر گواہی دے رہا تھاکہ اسے ایک لمحہ کیلئے بھی برداشت نہ کیا جائے اور ِ
محسن انسانیت کی خدمت میں سراسیمہ اور خوفزدہ حاضر ہ وتے ہیں ۔ن بی ک ریم
ِ نبی رحمت اور
حضرت عباس ؓ کیساتھ ٔ
ان دالتے ہیں : لی اور اطمین تس
’’ اے ابوس فیان!ڈرو مت!تم س ے ک وئی انتق ام نہیں لیا جائیگ ا۔تمہ ارا ک وئی مواخ ذہ نہیں ہوگ ا ۔ ‘‘
اور ابو سفیان کے تمام خطائوں کو نہ صرف معاف کردیا جاتا ہے بلکہ ارشاد ہوت ا ہے’’ :ج و اب و س فیان کے گھ ر
وظ ہے۔‘‘ امون اور محف ا وہ م اہ لے گ میں پن
یہ محبوب ٓاقا،پیارے رس ول ،ن بی ٓاخرالزم اںکے عف وو درگ زر،رحم وک رم ،ش فقت و محبت اور ن رم دلی کے متعل ق
مختصر وضاحت ہے ورنہ نبی کریم کی پوری زندگی عفو و درگزر ،تواضع و انکساری ،رحم و ک رم ،محبت و ش فقت
ئے ۔ راں کے ل ر بیک اہیے اس بح فینہ چ ارت ہے ۔ س ے عب ز و نیاز س اور عج
قرٓان کریم گواہی دیتا ہے کہ اگر ٓاپرحیم و کریم ،شفیق و مہربان اورنرم خو نہ ہوتے ت و یہ وحش ی اور درش ت م زاج
انی ہے: اد رب وتے ،ارش ریب نہ ہ ےق رب ٓاپ س ع
ٓاپ ان کیلئے نرم ہیں ،اگر ٓاپ کج خلق اور سخت مزاج ہوتے تو یہ (لوگ ج و
تعالی کی عنایت اور رحمت سے ؐ
ٰ ’’ ہللا
اتے۔‘‘ ے ہٹ ج اس س وئے ہیں ) ٓاپ کے پ عہ رد جم ٓاپ کے گ
دوسری جگہ ارشاد ہے ’’ :تم میں سے ایک پیغمبر ٓایا جس پر تمہاری تکلیف بہت شاق گزرتی ہے،وہ تمہاری
بھالئی اور اچھائی کا خواہاں ہے اور ایمان والوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہے۔‘‘
21