Professional Documents
Culture Documents
com
سورة یُوسُف
بِس ِْم هَّللا ِ الرَّحْ َم ِن الر ِ
َّح ِيم
ب ْال ُمبِ ِ
ين ات ْال ِكتَا ِ الر ۚ تِ ْل َ
ك آيَ ُ
﴿﴾012:001
ْت أَ َح َد َع َش َر
ت إِنِّي َرأَي ُ ُف أِل َبِي ِه يَا أَبَ ِ
إِ ْذ قَا َل يُوس ُ
ين
اج ِد َس َو ْالقَ َم َر َرأَ ْيتُهُ ْم لِي َس َِك ْو َكبًا َوال َّش ْم َ
﴿﴾012:004
[جالندھری] اور اسی طرح خدا تمہیں برگزیدہ (ممتاز) کرے گا
اور (خواب کی) باتوں کی تعبیر کا علم سکھائے گا۔ اور جس طرح
اس نے اپنی نعمت پہلے تمہارے دادا پردادا ابراہیم اور اسحاق پر
پوری کی تھی اسی طرح تم پر اور اوالد یعقوب پر پوری کرے گا۔
بیشک تمہارا پروردگار (سب کچھ) جاننے واال (اور) حکمت واال
ہے ۔
تفسیر ابن كثیر
أَرْ ِس ْلهُ َم َعنَا َغ ًدا يَرْ تَ ْع َويَ ْل َعبْ َوإِنَّا لَهُ لَ َحافِظُ َ
ون
﴿﴾012:012
ُون قَالُوا لَئِ ْن أَ َكلَهُ ال ِّذ ْئبُ َونَحْ ُن ُعصْ بَةٌ إِنَّا إِ ًذا لَ َخ ِ
اسر َ
﴿﴾012:014
ت ْالجُبِّ
فَلَ َّما َذهَبُوا بِ ِه َوأَجْ َمعُوا أَ ْن يَجْ َعلُوهُ فِي َغيَابَ ِ
ۚ َوأَ ْو َح ْينَا إِلَ ْي ِه لَتُنَبِّئَنَّهُ ْم بِأ َ ْم ِر ِه ْم هَ َذا َوهُ ْم اَل يَ ْش ُعر َ
ُون
﴿﴾012:015
َوقَا َل الَّ ِذي ا ْشتَ َراهُ ِم ْن ِمصْ َر اِل ْم َرأَتِ ِه أَ ْك ِر ِمي َم ْث َواهُ
ك َم َّكنَّا لِيُوس َ
ُف َع َسى أَ ْن يَ ْنفَ َعنَا أَ ْو نَتَّ ِخ َذهُ َولَ ًدا ۚ َو َك َذلِ َ
ث ۚ َوهَّللا ُ ض َولِنُ َعلِّ َمهُ ِم ْن تَأْ ِو ِ
يل اأْل َ َحا ِدي ِ ِ رَْ فِي اأْل
ون َغالِبٌ َعلَى أَ ْم ِر ِه َولَ ِك َّن أَ ْكثَ َر النَّ ِ
اس اَل يَ ْعلَ ُم َ
﴿﴾012:021
صهُ ِم ْن ُدب ٍُر َوأَ ْلفَيَا َسيِّ َدهَا ت قَ ِمي َ اب َوقَ َّد َْوا ْستَبَقَا ْالبَ َ
ك سُو ًءا إِاَّل ت َما َج َزا ُء َم ْن أَ َرا َد بِأ َ ْهلِ َ لَ َدى ْالبَا ِ
ب ۚ قَالَ ْ
أَ ْن يُ ْس َج َن أَ ْو َع َذابٌ أَلِي ٌم
﴿﴾012:025
ُف أَ ْع ِرضْ َع ْن هَ َذا ۚ َوا ْستَ ْغفِ ِري لِ َذ ْنبِ ِك ۖ إِنَّ ِك يُوس ُ
ين ت ِم َن ْال َخ ِ
اطئِ َ ُك ْن ِ
﴿﴾012:029
ت ْال َع ِز ِ
يز تُ َر ِ
او ُد فَتَاهَا َوقَا َل نِ ْس َوةٌ فِي ْال َم ِدينَ ِة ا ْم َرأَ ُ
ضاَل ٍل ُمبِ ٍ
ين َع ْن نَ ْف ِس ِه ۖ قَ ْد َش َغفَهَا ُحبًّا ۖ إِنَّا لَنَ َراهَا فِي َ ﴿﴾012:030
ت فَ َذلِ ُك َّن الَّ ِذي لُ ْمتُنَّنِي فِي ِه ۖ َولَقَ ْد َرا َو ْدتُهُ َع ْن نَ ْف ِس ِه
قَالَ ْ
ص َم ۖ َولَئِ ْن لَ ْم يَ ْف َعلْ َما آ ُم ُرهُ لَيُ ْس َجنَ َّن َولَيَ ُكونًا
فَا ْستَ ْع َ
ين
ِم َن الصَّا ِغ ِر َ
﴿﴾012:032
ان ۖ قَا َل أَ َح ُدهُ َما إِنِّي أَ َرانِي َو َد َخ َل َم َعهُ ال ِّسجْ َن فَتَيَ ِ
ص ُر َخ ْمرًا ۖ َوقَا َل اآْل َخ ُر إِنِّي أَ َرانِي أَحْ ِم ُل فَ ْو َ
ق أَ ْع ِ
َر ْأ ِسي ُخ ْب ًزا تَأْ ُك ُل الطَّ ْي ُر ِم ْنهُ ۖ نَبِّ ْئنَا بِتَأْ ِويلِ ِه ۖ إِنَّا نَ َرا َ
ك
ينِم َن ْال ُمحْ ِسنِ َ
﴿﴾012:036
قَا َل اَل يَأْتِي ُك َما طَ َعا ٌم تُرْ َزقَانِ ِه إِاَّل نَبَّأْتُ ُك َما بِتَأْ ِويلِ ِه قَ ْب َل
ت ِملَّةَ أَ ْن يَأْتِيَ ُك َما ۚ َذلِ ُك َما ِم َّما َعلَّ َمنِي َربِّي ۚ إِنِّي تَ َر ْك ُ
ون بِاهَّلل ِ َوهُ ْم بِاآْل ِخ َر ِة هُ ْم َكافِر َ
ُون قَ ْو ٍم اَل ي ُْؤ ِمنُ َ
﴿﴾012:037
ق َويَ ْعقُ َ
وب ۚ َما ْت ِملَّةَ آبَائِي إِ ْب َرا ِهي َم َوإِ ْس َحا َ
َواتَّبَع ُ
ك ِم ْن فَضْ ِل هَّللا ِ ان لَنَا أَ ْن نُ ْش ِر َ
ك بِاهَّلل ِ ِم ْن َش ْي ٍء ۚ َذلِ َ َك َ
اس اَل يَ ْش ُكر َ
ُون اس َولَ ِك َّن أَ ْكثَ َر النَّ ِ
َعلَ ْينَا َو َعلَى النَّ ِ
﴿﴾012:038
[جالندھری] اور اپنے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے
مذہب پر چلتا ہوں۔ ہمیں شایان نہیں ہے کہ کسی چیز کو خدا کے
ساتھ شریک بنائیں۔ یہ خدا کا فضل ہے ہم پر بھی اور لوگوں پر
بھی لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے ۔
تفسیر ابن كثیر
ون َخ ْي ٌر أَ ِم هَّللا ُ
احبَ ِي ال ِّسجْ ِن أَأَرْ بَابٌ ُمتَفَرِّ قُ َ ص ِ يَا َ
اح ُد ْالقَهَّا ُر
ْال َو ِ
﴿﴾012:039
[جالندھری] میرے جیل خانے کے رفیقو! بھال کئی جدا جدا آقا
اچھے یا (ایک) خدائے یکتا وغالب؟
تفسیر ابن كثیر
ون ِم ْن ُدونِ ِه إِاَّل أَ ْس َما ًء َس َّم ْيتُ ُموهَا أَ ْنتُ ْم َما تَ ْعبُ ُد َ
ان ۚ إِ ِن ْال ُح ْك ُم إِاَّلَوآبَا ُؤ ُك ْم َما أَ ْن َز َل هَّللا ُ بِهَا ِم ْن س ُْلطَ ٍ
ين ْالقَيِّ ُم َولَ ِك َّن
ك ال ِّد ُ هَّلِل ِ ۚ أَ َم َر أَاَّل تَ ْعبُ ُدوا إِاَّل إِيَّاهُ ۚ َذلِ َ
اس اَل يَ ْعلَ ُم َ
ون أَ ْكثَ َر النَّ ِ
﴿﴾012:040
شاہ مصر کا خواب اور تالش تعبیر میں یوسف علیہ السالم تک
رسائی
قدرت ٰالہی نے یہ مقرر رکھا تھا کہ حضرت یوسف علیہ السالم قید
خانے سے بعزت و اکرام پاکیزگی برات اور عصمت کے ساتھ
نکلیں۔ اس کے لیے قدرت نے یہ سبب بنایا کہ شاہ مصر نے ایک
خواب دیکھا جس سے بھونچکا سا ہو گیا۔ دربار منعقد کیا اور تمام
امراء ،رؤسا ،کاہن ،منجم اور علماء کو خواب کی تعبیر بیان کرنے
والوں کو جمع کیا۔ اور اپنا خواب بیان کر کے ان سب سے تعبیر
دریافت کی۔ لیکن کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اور سب نے
الچار ہو کر یہ کہہ کر ٹال دیا کہ یہ کوئی باقاعدہ الئق تعبیر سچا
خواب نہیں جس کی تعبیر ہو سکے۔ یہ تو یونہی پریشان خواب
مخلوط خیاالت اور فضول توہمات کا خاکہ ہے۔ اس کی تعبیر ہم
نہیں جانتے۔ اس وقت شاہی ساقی کو حضرت یوسف علیہ السالم یاد
آگئے کہ وہ تعبیر خواب کے پورے ماہر ہیں۔ اس علم میں ان کو
کافی مہارت ہے۔ یہ وہی شخص ہے جو حضرت یوسف علیہ السالم
کے ساتھ جیل خانہ بھگت رہا تھا یہ بھی اور اس کا ایک اور
ساتھی بھی۔ اسی سے حضرت یوسف علیہ السالم نے کہا تھا کہ
بادشاہ کے پاس میرا ذکر بھی کرنا۔ لیکن اسے شیطان نے بھال دیا
تھا۔ آج مدت مدید کے بعد اسے یاد آگیا اور اس نے سب کے سامنے
کہا کہ اگر آپ کو اس کی تعبیر سننے کا شوق ہے اور وہ بھی
صحیح تعبیر تو مجھے اجازت دو۔ یوسف صدیق علیہ السالم جو قید
خانے میں ہیں ان کے پاس جاؤں اور ان سے دریافت کر آؤں۔ آپ
نے اسے منظور کیا اور اسے ہللا کے محترم نبی صلی ہللا علیہ
وسلم کے پاس بھیجا۔ امتہ کی دوسری قرأت امتہ بھی ہے۔ اس کے
معنی بھول کے ہیں۔ یعنی بھول جانے کے بعد اسے حضرت یوسف
علیہ السالم کا فرمان یاد آیا۔ دربار سے اجازت لے کر یہ چال۔ قید
خانے پہنچ کر ہللا کے نبی ابن نبی ابن نبی ابن نبی علیہ السالم سے
کہا کہ اے نرے سچے یوسف علیہ السالم بادشاہ نے اس طرح کا
ایک خواب دیکھا ہے۔ اسے تعبیر کا اشتیاق ہے۔ تمام دربار بھرا ہوا
ہے۔ سب کی نگاہیں لگیں ہوئی ہیں۔ آپ مجھے تعبیر بتال دیں تو
میں جا کر انہیں سناؤں اور سب معلوم کرلیں۔ آپ نے نہ تو اسے
کوئی مالمت کی کہ تو اب تک مجھے بھولے رہا۔ باوجود میرے
کہنے کے تونے آج تک بادشاہ سے میرا ذکر بھی نہ کیا۔ نہ اس امر
کی درخواست کی کہ مجھے جیل خانے سے آزاد کیا جائے بلکہ
بغیر کسی تمنا کے اظہار کے بغیر کسی الزام دینے کے خواب کی
پوری تعبیر سنا دی اور ساتھ ہی تدبیر بھی بتا دی۔
فرمایا کہ سات فربہ گایوں سے مراد یہ ہے کہ سات سال تک برابر
حاجت کے مطابق بارش برستی رہے گی۔ خوب ترسالی ہوگی۔ غلہ
کھیت باغات خوب پھلیں گے۔ یہی مراد سات ہری بالیوں سے ہے۔
گائیں بیل ہی ہلوں میں جتتے ہیں ان سے زمین پر کھیتی کی جاتی
ہے۔ اب ترکیب بھی بتال دی کہ ان سات برسوں میں جو اناج غلہ
نکلے۔ اسے بطور ذخیرے کے جمع کر لینا اور رکھنا بھی بالوں
اور خوشوں سمیت تاکہ سڑے گلے نہیں خراب نہ ہو۔ ہاں اپنی
کھانے کی ضرورت کے مطابق اس میں سے لے لینا۔ لیکن خیال
رہے کہ ذرا سا بھی زیادہ نہ لیا جائے صرف حاجت کے مطابق ہی
نکاال جائے۔ ان سات برسوں کے گزرتے ہی اب جو قحط سالیاں
شروع ہوں گی وہ برابر سات سال تک متواتر رہیں گی۔ نہ بارش
برسے گی نہ پیداوار ہوگی ۔ یہی مراد ہے سات دبلی گایوں اور
سات خشک خوشوں سے ہے کہ ان سات برسوں میں وہ جمع شدہ
ذخیرہ تم کھاتے پیتے رہو گے۔ یاد رکھنا ان میں کوئی غلہ کھیتی
نہ ہوگی۔ وہ جمع کردہ ذخیرہ ہی کام آئے گا۔ تم دانے بوؤ گے لیکن
پیداوار کچھ بھی نہ ہوگی۔ آپ نے خواب کی پوری تعبیر دے کر
ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی سنا دی کہ ان سات خشک سالیوں کے
بعد جو سال آئے گا وہ بڑی برکتوں واال ہوگا۔ خوب بارشیں برسیں
گی خوب غلے اور کھیتیاں ہوں گی۔ ریل پیل ہو جائے گی اور
تنگی دور ہو جائے گی اور لوگ حسب عادت زیتون وغیرہ کا تیل
نکالیں گے اور حسب عادت انگور کا شیرہ نچوڑیں گے۔ اور
جانوروں کے تھن دودھ سے لبریز ہو جائیں گے کہ خوب دودھ
نکالیں پئیں۔
َوقَا َل الَّ ِذي نَ َجا ِم ْنهُ َما َوا َّد َك َر بَ ْع َد أُ َّم ٍة أَنَا أُنَبِّئُ ُك ْم
ُ َ َ ْ
ون
ِ ل س
ِ رْ أ ف ه
ِ ِ ل يوبِتَأ ِ
﴿﴾012:045
[جالندھری] اب وہ شخص جو دونوں قید یوں میں سے رہائی پا گیا
تھا اور جسے مدت کے بعد وہ بات یاد آگئی بول اٹھا کہ میں آپ کو
اس کی تعبیر (ال) بتاتا ہوں۔ مجھے (جیل خانے) جانے کی اجازت
دیجئے ۔
تفسیر ابن كثیر
ان
ت ِس َم ٍ ق أَ ْفتِنَا فِي َسب ِْع بَقَ َرا ٍ ُف أَيُّهَا الصِّ ِّدي ُ
يُوس ُ
ت ُخضْ ٍر َوأُ َخ َر اف َو َسب ِْع ُس ْنبُاَل ٍيَأْ ُكلُه َُّن َس ْب ٌع ِع َج ٌ
ون ت لَ َعلِّي أَرْ ِج ُع إِلَى النَّ ِ
اس لَ َعلَّهُ ْم يَ ْعلَ ُم َ يَابِ َسا ٍ ﴿﴾012:046
ك َس ْب ٌع ِش َدا ٌد يَأْ ُك ْل َن َما قَ َّد ْمتُ ْم لَه َُّنثُ َّم يَأْتِي ِم ْن بَ ْع ِد َذلِ َ
ون إِاَّل قَلِياًل ِم َّما تُحْ ِ
صنُ َ
﴿﴾012:048
[جالندھری] پھر اس کے بعد (خشک سالی کے) سات سخت (سا
ل) آئیں گے کہ جو (غلہ) تم نے جمع کر رکھا ہوگا وہ سب کھا
جائیں گیں پھر وہی تھوڑا سا رہ جائے جو تم احتیاط سے رکھ
چھوڑو گے۔
تفسیر ابن كثیر
ك ا ْئتُونِي بِ ِه ۖ فَلَ َّما َجا َءهُ ال َّرسُو ُل قَا َل َوقَا َل ْال َملِ ُ
ك فَاسْأ َ ْلهُ َما بَا ُل النِّ ْس َو ِة الاَّل تِي قَطَّع َْن ارْ ِج ْع إِلَى َربِّ َ
أَ ْي ِديَه َُّن ۚ إِ َّن َربِّي بِ َك ْي ِد ِه َّن َعلِي ٌم
﴿﴾012:050
[جالندھری] (یہ تعبیر سُن کر) بادشاہ نے حکم دیا کہ یوسف کو
میر پاس لے آؤ۔ جب قاصد انکے پاس گیا۔ تو انہوں نے کہا کہ اپنے
آقا کے پاس واپس جاؤ اور ان سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا
حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے۔ بیشک میرا پروردگار
ان کے مکروں سے خوب واقف ہے۔
تفسیر ابن كثیر
[جالندھری] اور میں اپنے تئیں پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس
ا ّمارہ (انسان کو) برائی ہی سکھاتا رہتا ہے مگر یہ کہ میرا
پروردگار رحم کرے۔ بیشک میرا پروردگار بخشنے واال مہربان
ہے۔
تفسیر ابن كثیر
عزیز مصر کی بیوی کہہ رہی ہے کہ میں اپنی پاکیزگی بیان نہیں
کر رہی اپنے آپ کو نہیں سراہتی ۔ نفس انسانی تمناؤں اور بری
باتوں کا مخزن ہے ۔ اس میں ایسے جذبات اور شوق اچھلتے رہتے
ہیں ۔ وہ برائیوں پر ابھارتا رہتا ہے ۔ اسی کے پھندے میں پھنس کر
میں نے حضرت یوسف علیہ السالم کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا ۔
مگر جسے ہللا چاہے نفس کی برائی سے محفوظ رکھ لیتا ہے ۔ اس
لئے کہ ہللا بڑا غفور و رحیم ہے ۔ بخشش کرنا معافی دینا اس کی
ابدی اور الزمی صفت ہے ۔ یہ قول عزیز مصر کی عورت کا ہی
ہے ۔ یہی بات مشہور ہے اور زیادہ الئق ہے اور واقعہ کے بیان
سے بھی زیادہ مناسب ہے ۔ اور کالم کے معنی کے ساتھ بھی زیادہ
موافق ہے ۔ اما ماوردی رحمتہ ہللا علیہ نے اپنی تفسیر میں اسے
وارد کیا ہے ۔ اور عالمہ ابوالعباس حضرت امام ابن تیمیہ رحمۃ ہللا
علیہ نے تو اسے ایک مستقل تصنیف میں بیان فرمایا ہے اور اس
کی پوری تائید کی ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ قول حضرت یوسف
علیہ السالم کا ہے ۔ لیعلم سے اس دوسری آیت کے ختم تک انہی کا
فرمان ہے ۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے تو صرف یہی ایک قول
نقل کیا ہے ۔ چنانچہ ابن جریر میں ابن عباس رضی ہللا عنہ سے
مروی ہے کہ بادشاہ نے عورتوں کو جمع کر کے جب ان سے
پوچھا کہ کیا تم نے حضرت یوسف علیہ السالم کو بہالیا پھسالیا تھا
؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ حاشاہلل ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں
دیکھی ۔ اس وقت عزیز مصر کی بیوی نے اقرار کیا کہ واقعی حق
تو یہی ہے ۔ تو حضرت یوسف علیہ السالم نے فرمایا یہ سب اس
لئے تھا کہ میری امانت درای کا یقین ہو جائے ۔ حضرت جبرائیل
علیہ السالم نے آپ سے فرمایا وہ دن بھی یاد ہے ؟ کہ آپ نے کچھ
ارادہ کر لیا تھا ؟ تب آپ نے فرمایا میں اپنے نفس کی برات تو نہیں
کر رہا ؟ بیشک نفس برائیوں کا حکم دیتا ہے ۔ الغرض ایک قول یہ
بھی ہے کہ یہ کالم حضرت یوسف علیہ السالم کا ہے ۔ لیکن پہال
قول یعنی اس کالم کا عزیز کی موت کا کالم ہونا ہی زیادہ قوی اور
زیادہ ظاہر ہے ۔ اس لئے کہ اوپر سے انہی کا کالم چال آ رہا ہے
جو بادشاہ کے سامنے سب کی موجودگی میں ہو رہا تھا ۔ اس وقت
تو حضرت یوسف علی السالم وہاں موجود ہی نہ تھے ۔ اس تمام
قصے کے کھل جانے کے بعد بادشاہ نے آپ کو بلوایا۔
ك ا ْئتُونِي بِ ِه أَ ْستَ ْخلِصْ هُ لِنَ ْف ِسي ۖ فَلَ َّما َكلَّ َمهُ َوقَا َل ْال َملِ ُ
ين أَ ِم ٌ
ين ك ْاليَ ْو َم لَ َد ْينَا َم ِك ٌ قَا َل إِنَّ َ
﴿﴾012:054
[جالندھری] بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے میرے پاس الؤ میں اسے
اپنا مصاحب خاص بناؤ نگا۔ پھر جب ان سے گفتگو کی تو کہا کہ
آج سے تم ہمارے ہاں صاحب منزلت اور صاحب اعتبار ہو ۔
تفسیر ابن كثیر
زمین مصر میں یوں حضرت یوسف علیہ السالم کی ترقی ہوئی ۔
اب ان کے اختیار میں تھا کہ جس طرح چاہیں تصرف کریں ۔ جہاں
چاہیں مکانات تعمیر کریں ۔ یا اس تنہائی اور قید کو دیکھئے یا اب
اس اختیار اور آزادی کو دیکھئے ۔ سچ ہے رب جسے چاہے اپنی
رحمت کا جتنا حصہ چاہے دے۔ صابروں کا پھل ال کر ہی رہتا
ہے ۔ بھائیوں کا دکھ سہا ،ہللا کی نافرمانی سے بچنے کے لئے
عزیز مصر کی عورت سے بگاڑ لی اور قید خانے کی مصیبتیں
برداشت کیں ۔ پس رحمت الہی کا ہاتھ بڑھا اور صبر کا اجر مال ۔
نیک کاروں کی نیکیاں کبھی ضائع نہیں جاتیں ۔ پھر ایسے باایمان
تقوی والے آخرت میں بڑے درجے اور اعلی ثواب پاتے ہیں ۔ یہاں
یہ مال ،وہاں کے ملنے کی تو کچھ نہ پوچھئے ۔ حضرت سلیمان
علیہ السالم کے بارے میں بھی قرآن میں آیا ہے کہ یہ دنیا کی
دولت وسلطنت ہم نے تجھے اپنے احسان سے دی ہے اور قیامت
کے دن بھی تیرے لئے ہمارے ہاں اچھی مہمانی ہے ۔ الغرض شاہ
مصر ریان بن ولید نے سلطنت مصر کی وزارت آپ کو دی ،پہلے
اسی عہدے پر اس عورت کا خاوند تھا۔ جس نے آپ کو اپنی طرف
مائل کرنا چاہا تھا ،اسی نے آپ کو خرید لیا تھا۔ آخر شاہ مصر آپ
کے ہاتھ پر ایمان الیا ۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ آپ کے خریدنے
والے کا نام اطغر تھا ۔ یہ انہی دنوں میں انتقال کر گیا ۔ اس کے بعد
باشاہ نے اس کی زوجہ راعیل سے حضرت یوسف علیہ السالم کا
نکاح کر دیا ۔ جب آپ ان سے ملے تو فرمایا کہو کیا یہ تمہارے اس
ارادے سے بہتر نہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اے صدیق مجھے
مالمت نہ کیجیئے آپ کو معلوم ہے کہ میں حسن وخوبصورتی
والی دھن دولت والی عورت تھی میرے خاوند مردمی سے محروم
تھے وہ مجھ سے مل ہی نہیں سکتے تھے ۔ ادھر آپ کو قدرت نے
جس فیاضی سے دولت حسن کے ساتھ ماال مال کیا ہے وہ بھی
ظاہر ہے ۔ پس مجھے اب مالمت نہ کیجئے ۔ کہتے ہیں کہ واقعی
حضرت یوسف علیہ السالم نے انہیں کنواری پایا ۔ پھر ان کے بطن
سے آپ کو دو لڑکے ہوئے افراثیم اور میضا ۔ افراثیم کے ہاں نون
پیدا ہوئے جو حضرت یوشع کے والد ہیں اور رحمت نامی
صاحبزادی ہوئی جو حضرت ایوب علیہ السالم کی بیوی ہیں ۔
حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں کہ عزیز کی
بیوی راستے میں کھڑی تھیں جو حضرت یوسف علیہ السالم کی
بیوی ہیں ۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں کہ
عزیز کی بیوی راستے میں کھڑی تھیں جب حضرت یوسف علیہ
السالم کی سواری نکلی تو بےساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ
الحمد ہللا ہللا کی شان کے قربان جس نے اپنی فرمانبرداری کی وجہ
سے غالموں کو بادشاہی پر پہنچایا اور اپنی نافرمانی کی وجہ سے
بادشاہوں کو غالمی پر ال اتارا۔
خ لَ ُك ْم ِم ْن أَبِي ُك ْماز ِه ْم قَا َل ا ْئتُونِي بِأ َ ٍَولَ َّما َجهَّ َزهُ ْم بِ َجهَ ِ
ۚ أَاَل تَ َر ْو َن أَنِّي أُوفِي ْال َك ْي َل َوأَنَا َخ ْي ُر ْال ُم ْن ِزلِ َ
ين
﴿﴾012:059
ضا َعتَهُ ْم فِي ِر َحالِ ِه ْم لَ َعلَّهُ ْم َوقَا َل لِفِ ْتيَانِ ِه اجْ َعلُوا بِ َ
ْرفُونَهَا إِ َذا ا ْنقَلَبُوا إِلَى أَ ْهلِ ِه ْم لَ َعلَّهُ ْم يَرْ ِجع َ
ُون يَع ِ
﴿﴾012:062
[جالندھری] اور (یوسف علیہ السالم نے) اپنے خ ّدام سے کہا کہ
ان سرمایہ (یعنی غلہ کی قیمت) ان کے تھیلوں میں رکھدو عجب
نہیں کہ جب یہ اپنے اہل و عیال میں جائیں تو اسے پہچان لیں
(اور) عجب نہیں کہ یہ پھر یہاں آئیں۔
تفسیر ابن كثیر
فَلَ َّما َر َجعُوا إِلَى أَبِي ِه ْم قَالُوا يَا أَبَانَا ُمنِ َع ِمنَّا ْال َك ْي ُل
ونفَأَرْ ِسلْ َم َعنَا أَ َخانَا نَ ْكتَلْ َوإِنَّا لَهُ لَ َحافِظُ َ
﴿﴾012:063
قَا َل هَلْ آ َمنُ ُك ْم َعلَ ْي ِه إِاَّل َك َما أَ ِم ْنتُ ُك ْم َعلَى أَ ِخي ِه ِم ْن
ين قَ ْب ُل ۖ فَاهَّلل ُ َخ ْي ٌر َحافِظًا ۖ َوهُ َو أَرْ َح ُم الر ِ
َّاح ِم َ
﴿﴾012:064
اح ٍد َوا ْد ُخلُوا ِم ْن ب َو ِ ي اَل تَ ْد ُخلُوا ِم ْن بَا ٍ َوقَا َل يَا بَنِ َّ
ب ُمتَفَرِّ قَ ٍة ۖ َو َما أُ ْغنِي َع ْن ُك ْم ِم َن هَّللا ِ ِم ْن َش ْي ٍء ۖ أَ ْب َوا ٍ
ت ۖ َو َعلَ ْي ِه فَ ْليَتَ َو َّك ِل
إِ ِن ْال ُح ْك ُم إِاَّل هَّلِل ِ ۖ َعلَ ْي ِه تَ َو َّك ْل ُ
ْال ُمتَ َو ِّكلُ َ
ون
﴿﴾012:067
از ِه ْم َج َع َل ال ِّسقَايَةَ فِي َرحْ ِل أَ ِخي ِه فَلَ َّما َجهَّ َزهُ ْم بِ َجهَ ِ
ثُ َّم أَ َّذ َن ُم َؤ ِّذ ٌن أَيَّتُهَا ْال ِعي ُر إِنَّ ُك ْم لَ َس ِ
ارقُ َ
ون
﴿﴾012:070
جب آپ اپنے بھائیوں کو حسب عادت ایک ایک اونٹ غلے کا دینے
لگے اور ان کا اسباب لدنے لگا تو اپنے چاالک مالزموں سے
چپکے سے اشارہ کر دیا کہ چاندی کا شاہی کٹورا بنیامین کے
اسباب میں چپکے سے رکھ دیں ۔ بعض نے کہا ہے یہ کٹورا سونے
کا تھا ۔ اسی میں پانی پیا جاتا تھا اور اسی سے غلہ بھر کے دیا
جاتا تھا بلکہ ویسا ہی پیالہ حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہ کے
پاس بھی تھا ۔ پس آپ کے مالزمین نے ہوشیاری سے وہ پیالہ آپ
کے بھائی حضرت بنیامین کی خورجی میں رکھ دیا ۔ جب یہ چلنے
لگے تو سنا کہ پیچھے سے منادی ندا کرتا آ رہا ہے کہ اے قافلے
والو تم چور ہو ۔ ان کے کان کھڑے ،رک گئے ،ادھر متوجہ
ہوئے اور پوچھا کہ آپ کی کیا چیز کھوئی گئی ہے ؟ جواب مال کہ
شاہی پیمانہ جس سے اناج ناپا جاتا تھا ،سنو شاہی اعالن ہے کہ
اس کے ڈھونڈ النے والے کو ایک بوجھ غلہ ملے گا اور میں خود
ضامن ہوں ۔
قَالُوا تَاهَّلل ِ لَقَ ْد َعلِ ْمتُ ْم َما ِج ْئنَا لِنُ ْف ِس َد فِي اأْل َرْ ِ
ض َو َما
ين
ارقِ َُكنَّا َس ِ
﴿﴾012:073
فَبَ َدأَ بِأ َ ْو ِعيَتِ ِه ْم قَ ْب َل ِو َعا ِء أَ ِخي ِه ثُ َّم ا ْستَ ْخ َر َجهَا ِم ْن
ان لِيَأْ ُخ َذ أَ َخاهُ
ُف ۖ َما َك َ ك ِك ْدنَا لِيُوس َ ِو َعا ِء أَ ِخي ِه ۚ َك َذلِ َ
ت َم ْن ين ْال َملِ ِك إِاَّل أَ ْن يَ َشا َء هَّللا ُ ۚ نَرْ فَ ُع َد َر َجا ٍ
فِي ِد ِ
ق ُكلِّ ِذي ِع ْل ٍم َعلِي ٌم نَ َشا ُء ۗ َوفَ ْو َ
﴿﴾012:076
قَالُوا يَا أَيُّهَا ْال َع ِزي ُز إِ َّن لَهُ أَبًا َش ْي ًخا َكبِيرًا فَ ُخ ْذ أَ َح َدنَا
ك ِم َن ْال ُمحْ ِسنِ َ
ين َم َكانَهُ ۖ إِنَّا نَ َرا َ
﴿﴾012:078
قَا َل َم َعا َذ هَّللا ِ أَ ْن نَأْ ُخ َذ إِاَّل َم ْن َو َج ْدنَا َمتَا َعنَا ِع ْن َدهُ إِنَّا
إِ ًذا لَظَالِ ُم َ
ون
﴿﴾012:079
[جالندھری] (یوسف نے) کہا کہ خدا پناہ میں رکھے کہ جس
شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اسکے سوا کسی اور کو
پکڑ لیں۔ ایسا کریں تو ہم (بڑے) بے انصاف ہیں۔
تفسیر ابن كثیر
فَلَ َّما ا ْستَيْأَسُوا ِم ْنهُ َخلَصُوا نَ ِجيًّا ۖ قَا َل َكبِي ُرهُ ْم أَلَ ْم
تَ ْعلَ ُموا أَ َّن أَبَا ُك ْم قَ ْد أَ َخ َذ َعلَ ْي ُك ْم َم ْوثِقًا ِم َن هَّللا ِ َو ِم ْن
ض َحتَّى ُف ۖ فَلَ ْن أَ ْب َر َح اأْل َرْ َ َّطتُ ْم فِي يُوس َ قَ ْب ُل َما فَر ْ
يَأْ َذ َن لِي أَبِي أَ ْو يَحْ ُك َم هَّللا ُ لِي ۖ َوهُ َو َخ ْي ُر ْال َحا ِك ِم َ
ين
﴿﴾012:080
ق َو َما
ك َس َر َ ارْ ِجعُوا إِلَى أَبِي ُك ْم فَقُولُوا يَا أَبَانَا إِ َّن ا ْبنَ َ
ينب َحافِ ِظ َ َش ِه ْدنَا إِاَّل بِ َما َعلِ ْمنَا َو َما ُكنَّا لِ ْل َغ ْي ِ
﴿﴾012:081
[جالندھری] پھر انکے پاس سے چلے گئے اور کہنے لگے ہائے
افسوس یوسف (ہائے افسوس) اور رنج والم میں (اس قدر روئے
کہ) انکی آنکھیں سفید ہوگئیں اور ان کا دل غم سے بھر رہا تھا۔
تفسیر ابن كثیر
قَا َل إِنَّ َما أَ ْش ُكو بَثِّي َوح ُْزنِي إِلَى هَّللا ِ َوأَ ْعلَ ُم ِم َن هَّللا ِ َما
اَل تَ ْعلَ ُم َ
ون
﴿﴾012:086
[جالندھری] بیٹا (یوں کرو کہ ایک دفعہ پھر) جاؤ اور یوسف اور
اس کے بھائی کو تالش کرو۔ اور خدا کی رحمت سے نا امید نہ ہو
کہ خدا کی رحمت سے بے ایمان لوگ نا امید ہوا کرتے ہیں۔
تفسیر ابن كثیر
حضرت یعقوب علیہ السالم اپنے بیٹوں کو حکم فرما رہے ہیں کہ تم
ادھر ادھر جاؤ اور حضرت یوسف اور بنیامین کی تالش کرو ۔
عربی میں تحسس کا لفظ بھالئی کی جستجو کے لئے بوال جاتا ہے
اور برائی کی ٹٹول کے لئے تجسس کا لفظ بوال جاتا ہے ۔ ساتھ میں
فرماتے ہیں کہ ہللا کی ذات سے مایوس نہ ہو نا چاہیے اس کی
رحمت سے مایوس وہی ہوتے ہیں جن کے دلوں میں کفر ہوتا ہے ۔
تم تالش بند نہ کرو ،ہللا سے نیک امید رکھو اور اپنی کوشش
جاری رکھو ۔ چنانچہ یہ لوگ چلے ،پھر مصر پہنچے ،حضرت
یوسف کے دربار میں حاضر ہوئے ،وہاں اپنی خستہ حالی ظاہر
کی کہ قحط سالی نے ہمارے خاندان کو ستا رکھا ہے ،ہمارے پاس
کچھ نہیں رہا ،جس سے غلہ خریدتے اب ردی ،واہی ،ناقص ،
بےکار ،کھوٹی اور قیمت نہ بننے والی کچھ یونہی سی رکھی
رکھائی چیزیں لے کر آپ کے پاس آئے ہیں گویہ بدلہ نہیں کہا جا
سکتا نہ قیمت بنتی ہے لیکن تاہم ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمیں
وہی دیجئے جو سچی صحیح اور پوری قیمت پر دیا کرتے ہیں ۔
ہمارے بوجھ بھر دیجئے ،ہماری خورجیاں پر کر دیجئے ،ابن
مسعود کی قرأت میں (فاوف لنا الکیل) کے بدلے فاوقرر کا بنا ہے
یعنی ہمارے اونٹ غلے سے الد دیجئے ۔ اور ہم پر صدقہ کیجئے
ہمارے بھائی کو رہائی دیجئے ،یا یہ مطلب ہے کہ یہ غلہ ہمیں
ہمارے اس مال کے بدلے نہیں بلکہ بطور خیرات دیجئے ۔ حضرت
سفیان بن عیینہ رحمۃ ہللا علیہ سے سوال ہوتا ہے کہ ہمارے نبی
صلی ہللا علیہ وسلم سے پہلے بھی کسی نبی پر صدقہ حرام ہوا ہے
؟ تو آپ نے یہی آیت پڑھ کر استدالل کیا کہ نہیں ہوا ۔ حضرت
مجاہد رحمۃ ہللا علیہ سے سوال ہوا کہ کیا کسی شخص کا اپنی دعا
میں یہ کہنا مکروہ ہے کہ یا ہللا مجھ پر صدقہ کر ۔ فرمایا ہاں اس
لئے کہ صدقہ وہ کرتا ہے جو طالب ثواب ہو۔
فَلَ َّما َد َخلُوا َعلَ ْي ِه قَالُوا يَا أَيُّهَا ْال َع ِزي ُز َم َّسنَا َوأَ ْهلَنَا
ف لَنَا ْال َك ْي َل ضا َع ٍة ُم ْز َجا ٍة فَأ َ ْو ِ
الضُّ رُّ َو ِج ْئنَا بِبِ َ
ين ص َّد ْق َعلَ ْينَا ۖ إِ َّن هَّللا َ يَجْ ِزي ْال ُمتَ َ
ص ِّدقِ َ َوتَ َ
﴿﴾012:088
ُف َوهَ َذا أَ ِخي ۖ ُف ۖ قَا َل أَنَا يُوس ُ ت يُوس ُ ك أَل َ ْن َقَالُوا أَإِنَّ َ
ق َويَصْ بِرْ فَإِ َّن هَّللا َ اَل
قَ ْد َم َّن هَّللا ُ َعلَ ْينَا ۖ إِنَّهُ َم ْن يَتَّ ِ
ُضي ُع أَجْ َر ْال ُمحْ ِسنِ َ
ين ي ِ
﴿﴾012:090
چونکہ ہللا کے رسول حضرت یعقوب علیہ السالم اپنے رنج وغم
میں روتے روتے نابینا ہو گئے تھے ،اس لئے حضرت یوسف
علیہ السالم اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ میرا یہ کرتہ لے کر تم
ابا کے پاس جاؤ ،اسے ان کے منہ پر ڈالتے ہی انشاء ہللا ان کی
نگاہ روشن ہو جائے گی ۔ پھر انہیں اور اپنے گھرانے کے تمام اور
لوگوں کو یہیں میرے پاس لے آؤ ۔ ادھر یہ قافلہ مصر سے نکال ،
تعالی نے حضرت یعقوب علیہ السالم کو حضرت یوسف ادھر ہللا ٰ
کی خوشبو بہنچا دی تو آپ نے اپنے ان بچوں سے جو آپ کے پاس
تھے فرمایا کہ مجھے تو میرے پیارے فرزند یوسف کی خوشبو آ
رہی ہے لیکن تم تو مجھے سترا بہترا کم عقل بڈھا کہہ کر میری
اس بات کو باور نہیں کرنے کے ۔ ابھی قافلہ کنعان سے آٹھ دن کے
فاصلے پر تھا جو بحکم الہی ہوا نے حضرت یعقوب کو حضرت
یوسف کے پیراہن کی خوشبو پہنچا دی ۔ اس وقت حضرت یوسف
علیہ السالم کی گمشدگی کی مدت اسی سال کی گزر چکی تھی اور
قافلہ اسی فرسخ آپ سے دور تھا ۔ لیکن بھائیوں نے کہا آپ تو
یوسف کی محبت میں غلطی میں پڑے ہوئے ہیں نہ غم آپ کے دل
سے دور ہو نہ آپ کو تسلی ہو ۔ ان کا یہ کلمہ بڑا سخت تھا کسی
الئق اوالد کو الئق نہیں کہ اپنے باپ سے یہ کہے نہ کسی امتی کو
الئق ہے کہ اپنی نبی سے یہ کہے.
فَلَ َّما أَ ْن َجا َء ْالبَ ِشي ُر أَ ْلقَاهُ َعلَى َوجْ ِه ِه فَارْ تَ َّد بَ ِ
صيرًا ۖ
قَا َل أَلَ ْم أَقُلْ لَ ُك ْم إِنِّي أَ ْعلَ ُم ِم َن هَّللا ِ َما اَل تَ ْعلَ ُم َ
ون
﴿﴾012:096
کہتے ہیں کہ پیراہن یوسف علیہ السالم حضرت یعقوب علیہ السالم
کے بڑے صاحبزادے یہودا الئے تھے ۔ اس لئے کہ انہوں نے ہی
پہلے جھوٹ موٹ وہ کرتا پیش کیا تھا ۔ جسے خون آلود کر کے
الئے تھے اور باپ کو یہ سمجھایا تھا کہ یوسف کا خون ہے ،اب
بدلے کے لئے یہ کرتہ بھی یہی الئے کہ برائی کے بدلے بھالئی ہو
جائے بری خبر کے بدلے خوشخبری ہو جائے ۔ آتے ہی باپ کے
منہ پر ڈاال ۔ اسی وقت حضرت یعقوب علیہ السالم کی آنکھیں کھل
گئیں اور بچوں سے کہنے لگے دیکھو میں تو ہمیشہ تم سے کہا
کرتا تھا کہ ہللا کی بعض وہ باتیں میں جانتا ہوں جن سے تم محض
تعالی میرے یوسف کو بےخبر ہو ۔ میں تم سے کہا کرتا تھا کہ ہللا ٰ
ضرور مجھ سے مالئے گا ،ابھی تھوڑے دنوں کا ذکر ہے کہ میں
نے تم سے کہا تھا کہ مجھے آج میرے یوسف کی خوشبو آ رہی
ہے ۔
باپ جواب میں فرماتے ہیں کہ مجھے اس سے انکار نہیں اور
مجھے اپنے رب سے یہ بھی امید ہے کہ وہ تمہاری خطائیں معاف
فرما دے گا اس لئے کہ وہ بخششوں اور مہربانیوں واال ہے توبہ
کرنے والوں کی توبہ قبول فرما لیا کرتا ہے میں صبح سحری کے
وقت تمہارے لئے استغفار کروں گا ۔ ابن جریر میں ہے کہ حضرت
عمر رضی ہللا عنہ مسجد میں آتے تو سنتے کہ کوئی کہہ رہا ہے
کہ ہللا تو نے پکارا ،میں نے مان لیا تو نے حکم دیا میں بجا الیا ،
یہ سحر کا وقت ہے ،پس تو مجھے بخش دے ،آپ نے کان لگا کر
غور کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت عبدہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ
کے گھر سے یہ آواز آ رہی ہے ۔ آپ نے ان سے پوچھا انہوں نے
کہا یہی وہ وقت ہے جس کے لئے حضرت یعقوب علیہ السالم نے
اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ میں تمہارے لئے تھوڑی دیر بعد
استغفار کروں گا ۔ حدیث میں ہے کہ یہ رات جمعہ کی رات تھی ۔
ابن جریر میں ہے حضور صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مراد
اس سے یہ ہے کہ جب جمعہ کی رات آ جائے ۔ لیکن یہ حدیث
غریب ہے ۔ بلکہ اس کے مرفوع ہونے میں بھی کالم ہے وہللا
اعلم ۔
ين قَالُوا يَا أَبَانَا ا ْستَ ْغفِرْ لَنَا ُذنُوبَنَا إِنَّا ُكنَّا َخ ِ
اطئِ َ
﴿﴾012:097
ش َو َخرُّ وا لَهُ ُس َّج ًدا ۖ َوقَا َل يَا َو َرفَ َع أَبَ َو ْي ِه َعلَى ْال َعرْ ِ
ي ِم ْن قَ ْب ُل قَ ْد َج َعلَهَا َربِّي َحقًّا ۖ ت هَ َذا تَأْ ِوي ُل ر ُْؤيَا َ أَبَ ِ
َوقَ ْد أَحْ َس َن بِي إِ ْذ أَ ْخ َر َجنِي ِم َن ال ِّسجْ ِن َو َجا َء بِ ُك ْم
ان بَ ْينِي َوبَي َْن ِم َن ْالبَ ْد ِو ِم ْن بَ ْع ِد أَ ْن نَ َز َغ ال َّش ْيطَ ُ
يف لِ َما يَ َشا ُء ۚ إِنَّهُ هُ َو ْال َعلِي ُم
إِ ْخ َوتِي ۚ إِ َّن َربِّي لَ ِط ٌ
ْال َح ِكي ُم
﴿﴾012:100
ت لَ َد ْي ِه ْم إِ ْذ
ك ۖ َو َما ُك ْن َ
وحي ِه إِلَ ْي َ
ب نُ ِك ِم ْن أَ ْنبَا ِء ْال َغ ْي ِ
َذلِ َ
أَجْ َمعُوا أَ ْم َرهُ ْم َوهُ ْم يَ ْم ُكر َ
ُون
﴿﴾012:102
[جالندھری] (اے پیغمبر صلی ہللا علیہ وسلم) یہ اخبار غیب میں
برادارن یوسف
ِ سے ہیں۔ جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں اور جب
نے اپنی بات پر اتفاق کیا تھا اور وہ فریب کر رہے تھے تو تم ان
کے پاس تو نہ تھے۔
تفسیر ابن كثیر
حضرت یوسف علیہ السالم کا تمام وکمال قصہ بیان فرما کر کس
طرح بھائیوں نے ان کے ساتھ برائی کی اور کس طرح ان کی جان
تلف کرنی چاہی اور ہللا نے انہیں کس طرح بچایا اور کس طرح
اوج وترقی پر پہنچایا اب اپنے نبی صلی ہللا علیہ وسلم سے فرماتا
ہے کہ یہ اور اس جیسی اور چیزیں سب ہماری طرف سے تمہیں
دی جاتی ہیں تاکہ لوگ ان سے نصیحت حاصل کریں اور آپ کے
مخالفین کی بھی آنکھیں کھلیں اور ان پر ہماری حجت قائم ہو جائے
تو اس وقت کچھ ان کے پاس تھوڑے ہی تھا ۔ جب وہ حضرت
یوسف علیہ السالم کے ساتھ کھال داؤ فریب کر رہے تھے ۔ کنویں
میں ڈالنے کے لئے سب مستعد ہو گئے تھے ۔ صرف ہمارے بتانے
سکھانے سے تجھے یہ واقعات معلوم ہوئے ۔ جیسے حضرت مریم
علیہ السالم کے قصے کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ جب
وہ قلمیں ڈال رہے تھے کہ مریم کو کون پالے تو اس وقت ان کے
موسی کو اپنی باتیں سمجھا رہے تھے تو
ٰ پاس نہ تھا ۔ الخ ۔ حضرت
وہاں نہ تھا ۔ اسی طرح اہل مدین کا معاملہ بھی تجھ سے پوشیدہ ہی
اعلی کی آپس کی گفتگو میں تو موجود نہ تھا ۔ یہ سبتھا ۔ مالء ٰ
ہماری طرف سے بذریعہ وحی تجھے بتایا گیا یہ کھلی دلیل ہے
تیری رسالت ونبوت کی کہ گزشتہ واقعات تو اس طرح کہول کھول
کر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے کہ گویا تو نے آپ بچشم خود
دیکھے ہیں اور تیرے سامنے ہی گزرے ہیں ۔ پھر یہ واقعات
نصیحت وعبرت حکمت وموعظت سے پر ہیں ،جن سے انسانوں
کی دین و دنیا سنور سکتی ہے ۔
باوجود اس کے بھی اکثر لوگ ایمان سے کورے رہے جاتے ہیں
گو تو الکھ چاہے کہ یہ مومن بن جائیں اور آیت میں ہے آیت (و ان
تطع اکثر من فی االرض یضلوک عن سبیل ہللا) اگر تو انسانوں کی
اکثریت کی اطاعت کرے گا تو وہ تجھے ہللا کی راہ سے بہکا اور
بھٹکا دیں گے ۔ بہت سے واقعات کے بیان کے بعد ہر ایک واقعہ
کے ساتھ قرآن نے فرمایا ہے کہ گو اس میں بڑا زبردست نشان ہے
لیکن پھر بھی اکثر لوگ ماننے والے نہیں ۔ آپ جو کچھ بھی
جفاکشی کر رہے ہیں اور ہللا کی مخلوق کو راہ حق دکھا رہے
ہیں ،اس میں آپ کا اپنا دنیوی نفع ہرگز مقصود نہیں ،آپ ان سے
کوئی اجرت اور کوئی بدلہ نہیں چاہتے بلکہ یہ صرف ہللا کی رضا
جوئی کے لئے مخلوق کے نفع کے لئے ہے ۔ یہ تو تمام جہان کے
لئے سراسر ذکر ہے کہ وہ راہ راست پائیں نصیحت حاصل کریں
عبرت پکڑیں ہدایت ونجات پائیں ۔
ت بِ ُم ْؤ ِمنِ َ
ين َو َما أَ ْكثَ ُر النَّ ِ
اس َولَ ْو َح َرصْ َ
﴿﴾012:103
ت َواأْل َرْ ِ
ض يَ ُمرُّ َ
ون َو َكأَي ِّْن ِم ْن آيَ ٍة فِي ال َّس َما َوا ِ
ُون
ْرض َ َعلَ ْيهَا َوهُ ْم َع ْنهَا ُمع ِ ﴿﴾012:105
[جالندھری] اور آسمان اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں جن پر
یہ گزرتے ہیں۔ اور ان سے اعراض کرتے ہیں۔
تفسیر ابن كثیر
[جالندھری] اور یہ اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے۔ مگر (اس کے
ساتھ) شرک کرتے ہیں۔
تفسیر ابن كثیر
دعوت وحدانیت
تعالی اپنے رسول کو جنہیں تمام جن و انس کی طرف بھیجا ہے ہللا ٰ
،حکم دیتا ہے کہ لوگوں کو خبر کر دوں کہ میرا مسلک ،میرا
طریق ،میری سنت یہ ہے کہ ہللا کی وحدانیت کی دعوت عام کر
دوں ۔ پورے یقین دلیل اور بصیرت کے ساتھ ۔ میں اس طرف سب
کو بال رہا ہوں میرے جتنے پیرو ہیں ،وہ بھی اسی طرف سب کو
بال رہے ہیں ،شرعی ،نقلی اور عقلی دلیلوں کے ساتھ اس طرف
دعوت دیتے ہیں ہم ہللا کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں ،اس کی تعظیم
تقدیس ،تسبیح تہلیل بیان کرتے ہیں ،اسے شریک سے ،نظیر
سے ،عدیل سے ،وزیر سے ،مشیر سے اور ہر طرح کی کمی
اور کمزوری سے پاک مانتے ہیں ،نہ اس کی اوالد مانیں ،نہ
بیوی ،نہ ساتھی ،نہ ہم جنس ۔ وہ ان تمام بری باتوں سے پاک اور
بلند و باال ہے ۔ آسمان و زمین اور ان کی ساری مخلوق اس کی
حمد و تسبیح کر رہی ہے لیکن لوگ ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ،
ہللا بڑا ہی حلیم اور غفور ہے ۔
وحي إِلَ ْي ِه ْم ِم ْن أَ ْه ِل ك إِاَّل ِر َجااًل نُ ِ َو َما أَرْ َس ْلنَا ِم ْن قَ ْبلِ َ
ْف َك َ
ان ض فَيَ ْنظُرُوا َكي َ ِ رَْ أْلا ي ِ ف ُوا ر ي س
ِ َ ي مْ َ لَ فَ أ ۗ ى ر
َ ُ ق ْ
ال
ين ِم ْن قَ ْبلِ ِه ْم ۗ َولَ َدا ُر اآْل ِخ َر ِة َخ ْي ٌر لِلَّ ِذ َ
ين َعاقِبَةُ الَّ ِذ َ
وناتَّقَ ْوا ۗ أَفَاَل تَ ْعقِلُ َ
﴿﴾012:109
ب ۗ َما َك َ
ان ص ِه ْم ِع ْب َرةٌ أِل ُولِي اأْل َ ْلبَا ِ ص ِان فِي قَ َ لَقَ ْد َك َ
صي َلق الَّ ِذي بَي َْن يَ َد ْي ِه َوتَ ْف ِ َح ِديثًا يُ ْفتَ َرى َولَ ِك ْن تَصْ ِدي َ
ُكلِّ َش ْي ٍء َوهُ ًدى َو َرحْ َمةً لِقَ ْو ٍم ي ُْؤ ِمنُ َ
ون
﴿﴾012:111
عبرت ونصیحت
نبیوں کے واقعات ،مسلمانوں کی نجات ،کافروں کی ہالکت کے
قصے ،عقلمندوں کے لئے بڑی عبرت و نصیحت والے ہیں ۔ یہ
قرآن بناوٹی نہیں بلکہ اگلی آسمانی کتابوں کی سچائی کی دلیل ہے ۔
ان میں جو حقیقی باتیں ہللا کی ہیں ان کی تصدیق کرتا ہے ۔ اور جو
تحریف و تبدیلی ہوئی ہے اسے چھانٹ دیتا ہے ان کی دو باتیں باقی
رکھنے کی ہیں انہیں باقی رکھتا ہے ۔ اور جو احکام منسوخ ہو
گئے انہیں بیان کرتا ہے ۔ ہر ایک حالل و حرام ،محبوب و مکروہ
کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے ۔ طاعات واجبات ،مستحبات ،
محرمات ،مکروہات وغیرہ کو بیان فرماتا ہے اجمالی اور تفصیلی
تعالی جل وعال کی صفات بیان فرماتا ہے اورخبریں دیتا ہے ۔ ہللا ٰ
بندوں نے جو غلطیاں اپنے خالق کے بارے میں کی ہیں ان کی
اصالح کرتا ہے ۔ مخلوق کو اس سے روکتا ہے کہ وہ ہللا کی کوئی
صفت اس کی مخلوق میں ثابت کریں ۔ پس یہ قرآن مومنوں کے
لئے ہدایت و رحمت ہے ،ان کے دل ضاللت سے ہدایت اور
جھوٹ سے سچ اور برائی سے بھالئی کی راہ پاتے ہیں اور رب
العباد سے دنیا اور آخرت کی بھالئی حاصل کر لیتے ہیں ۔ ہماری
بھی دعا ہے کہ ہللا ٰ
تعالی ہمیں بھی دنیا آخرت میں ایسے ہی
مومنوں کا ساتھ دے اور قیامت کے دن جب کہ بہت سے چہرے
سفید ہوں گے اور بہت سے منہ کالے ہو جائیں گے ،ہمیں مومنوں
کے ساتھ نورانی چہروں میں شامل رکھے آمین ۔
الحمد ہلل سورۃ یوسف کی تفسیر ختم ہو گئی ۔ ہللا کا شکر ہے وہی
تعریفوں کے الئق ہے اور اسی سے ہم مدد چاہتے ہیں ۔