Professional Documents
Culture Documents
051 - Surah Az-Zuriyat
051 - Surah Az-Zuriyat
com
سورة ّ
الذاریَات
بِس ِْم هَّللا ِ الرَّحْ َم ِن الر ِ
َّح ِيم
ت َذرْ ًوا َوال َّذ ِ
اريَا ِ﴿﴾051:001
خلیفۃ المسلمین حضرت علی کرم ہللا وجہہ کوفے کے منبر پر چڑھ
کر ایک مرتبہ فرمانے لگے کہ قرآن کریم کی جس آیت کی بابت
اور جس سنت رسول صلی ہللا علیہ وسلم کی بابت تم کوئی سوال
کرنا چاہتے ہو کر لو ۔ اس پر ابن الکواء نے کھڑے ہو کر پوچھا
کہ (ذاریات) سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا ہوا ،پوچھا (حامالت )
سے ؟ فرمایا ابر۔ کہا (جاریات ) سے ؟ فرمایا کشتیاں ،کہا
(مقسمات) سے ؟ فرمایا فرشتے اس بارے میں ایک مرفوع حدیث
بھی آئی ہے ۔ بزار میں ہے (صبیغ) تمیمی امیر المومنین حضرت
عمر کے پاس آیا اور کہا بتاؤ (ذاریات) سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا
ہوا ۔ اور اسے اگر میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے سنا
ہوا نہ ہوتا تو میں کبھی یہ مطلب نہ کہتا ۔ پوچھا (مقسمات) سے کیا
مراد ہے ؟ فرمایا فرشتے اور اسے بھی میں نے حضور صلی ہللا
علیہ وسلم سے سن رکھا ہے ۔ پوچھا (جاریات) سے کیا مطلب
ہے ؟ فرمایا کشتیاں ۔ یہ بھی میں نے اگر رسول ہللا صلی ہللا علیہ
وسلم سے نہ سنا ہوتا تو تجھ سے نہ کہتا۔ پھر حکم دیا کہ اسے سو
کوڑے لگائے جائیں چنانچہ اسے درے مارے گئے اور ایک مکان
میں رکھا گیا جب زخم اچھے ہوگئے تو بلوا کر پھر کوڑے
موسی کو لکھ بھیجا کہ یہ ٰ پٹوائے ، 3اور سوار کرا کر حضرت ابو
موسی
ٰ کسی مجلس میں نہ بیٹھنے پائے کچھ دنوں بعد یہ حضرت
کے پاس آئے اور بڑی سخت تاکیدی قسمیں کھا کر انہیں یقین دالیا
کہ اب میرے خیاالت کی پوری اصالح ہو چکی اب میرے دل میں
موسی نےٰ بد عقیدگی نہیں رہی جو پہلے تھی ۔ چنانچہ حضرت ابو
جناب امیر المومنین کی خدمت میں اس کی اطالع دی اور ساتھ ہی
یہ بھی لکھا کہ میرا خیال ہے کہ اب وہ واقعی ٹھیک ہو گیا ہے ۔
اس کے جواب میں دربار خالفت سے فرمان پہنچا کہ پھر انہیں
مجلس میں بیٹھنے کی اجازت دے دی جائے ۔ امام ابوبکر بزار
فرماتے ہیں اس کے دو راویوں میں کالم ہے پس یہ حدیث ضعیف
ہے ۔ ٹھیک بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ حدیث بھی موقوف ہے
یعنی حضرت عمر کا اپنا فرمان ہے مرفوع حدیث نہیں ۔ امیر
المومنین نے اسے جو پٹوایا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی بد
عقیدگی آپ پر ظاہر ہو چکی تھی اور اس کے یہ سواالت ازروئے
انکار اور مخالفت کے تھے وہللا اعلم ۔ صبیغ کے باپ کا نام عسل
تھا اور اس کا یہ قصہ مشہور ہے جسے پورا پورا حافظ ابن
عساکر الئے ہیں ۔ یہی تفسیر حضرت ابن عباس حضرت ابن عمر
حضرت مجاہد حضرت صعید بن جبیر حضرت حسن حضرت قتادہ
حضرت سدی وغیرہ سے مروی ہے ۔ امام ابن جریر اور امام ابن
ابی حاتم نے ان آیتوں کی تفسیر میں اور کوئی قول وارد ہی نہیں
کیا حامالت سے مراد ابر ہونے کا محاورہ اس شعر میں بھی پایا
جاتا ہے ۔
واسلمت نفسی لمن اسلمت لہ المزن تحمل عذباز الال
یعنی میں اپنے آپ کو اس ہللا کا تابع فرمان کرتا ہوں جس کے تابع
فرمان وہ بادل ہیں جو صاف شفاف میٹھے اور ہلکے پانی کو اٹھا
کر لے جاتے ہیں جاریات سے مراد بعض نے ستارے لئے ہیں جو
ادنی سےآسمان پر چلتے پھرتے رہتے ہیں یہ معنی لینے میں یعنی ٰ
اعلی کی طرف ہو گی ۔ اواًل ًہوا پھر بادل پھر ستارے پھر فرشتے ۔ٰ
جو کبھی ہللا کا حکم لے کر اترتے ہیں کبھی کوئی سپرد کردہ کام
بجا النے کے لئے تشریف التے ہیں ۔ چونکہ یہ سب قسمیں اس
بات پر ہیں کہ قیامت ضرور آنی ہے اور لوگ دوبارہ زندہ کئے
جائیں گے اس لئے ان کے بعد ہی فرمایا کہ تمہیں جو وعدہ دیا جاتا
ہے وہ سچا ہے اور حساب کتاب جزا سزا ضرور واقع ہونے والی
ہے ۔ پھر آسمان کی قسم کھائی جو خوبصورتی رونق حسن اور
برابری واال ہے بہت سے سلف نے یہی معنی (حبک ) کے بیان
کئے ہیں حضرت ضحاک وغیرہ فرماتے ہیں کہ پانی کی موجیں ،
ریت کے ذرے ،کھیتیوں کے پتے ہوا کے زور سے جب لہراتے
ہیں اور پرشکن لہرائے دار ہو جاتے ہیں اور گویا ان میں راستے
پڑ جاتے ہیں اسی کو حبک کہتے ہیں ،ابن جریر کی ایک حدیث
میں ہے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں تمہارے پیچھے
کذاب بہکانے واال ہے اس کے سر کے بال پیچھے کی طرف سے
حبک حبک ہیں یعنی گھونگر والے 3۔ ابو صالح فرماتے ہیں حبک
سے مراد شدت واال خصیف کہتے ہیں مراد خوش منظر ہے۔ حسن
بصری فرماتے ہیں اس کی خوبصورتی اس کے ستارے ہیں
حضرت عبدہللا بن عمر فرماتے ہیں اس سے مراد ساتواں آسمان
ہے ممکن ہے آپ کا مطلب یہ ہو کہ قائم رہنے والے ستارے اس
آسمان میں ہیں اکثر علماء ہیئت کا بیان ہے کہ یہ آٹھویں آسمان میں
ہیں جو ساتویں کے اوپر ہے وہللا اعلم ان تمام اقوال 3کا ماحصل
ایک ہی ہے یعنی حسن و رونق واال آسمان ۔ اس کی بلندی ،صفائی
،پاکیزگی ،بناوٹ کی عمدگی ،اس کی مضبوطی ،اس کی
چوڑائی اور کشادگی ،اس کا ستاروں کا جگمگانا ،جن میں سے
بعض چلتے پھرتے رہتے ہیں اور بعض ٹھہرے ہوئے ہیں اس کا
سورج اور چاند جیسے سیاروں سے مزین ہونا یہ سب اس کی
خوبصورتی اور عمدگی کی چیزیں ہیں پھر فرماتا ہے اے مشرکو
تم اپنے ہی اقوال میں مختلف اور مضطرب ہو تم کسی صحیح
نتیجے پر اب تک خود اپنے طور پر بھی نہیں پہنچے ہو ۔ کسی
رائے پر تمہارا اجتماع نہیں ،حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ان میں
سے بعض تو قرآن کو سچا جانتے تھے بعض اس کی تکذیب
کرتے تھے ۔ پھر فرماتا ہے یہ حالت اسی کی ہوتی ہے جو خود
گمراہ ہو ۔ وہ اپنے ایسے باطل اقوال کی وجہ سے بہک اور بھٹک
جاتا ہے صحیح سمجھ اور سچا علم اس سے فوت ہو جاتا ہے
جیسے اور آیت میں ہے آیت (فانکم وما تعبدون ما انتم علیہ بفاتنین
اال من ھو صال الجحیم ) یعنی تم لوگ مع اپنے معبودان 3باطل کے
سوائے جہنمی لوگوں 3کے کسی کو بہکا نہیں سکتے حضرت ابن
عباس اور سدی فرماتے ہیں اس سے گمراہ وہی ہوتا ہے جو خود
بہکا ہوا ہو ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس سے دور وہی ہوتا ہے
جو بھالئیوں سے دور ڈال 3دیا گیا ہے حضرت امام حسن بصری
فرماتے ہیں قرآن سے وہی ہٹتا ہے جو اسے پہلے ہی سے
جھٹالنے پر کم کس لئے ہو پھر فرماتا ہے کہ بےسند باتیں کہنے
والے ہالک ہوں یعنی جھوٹی باتیں بنانے والے جنہیں یقین نہ تھا
جو کہتے تھے کہ ہم اٹھائے نہیں جائیں گے حضرت ابن عباس
فرماتے ہیں یعنی شک کرنے والے ملعون ہیں ۔ حضرت ابن عباس
فرماتے ہیں یعنی شک کرنے والے ملعون ہیں حضرت معاذ بھی
اپنے خطبے میں یہی فرماتے تھے ،یہ دھوکے والے اور بدگمان
لوگ ہیں پھر فرمایا جو لوگ 3اپنے کفر و شک میں غافل اور
بےپرواہ ہیں ۔ یہ لوگ 3ازروئے انکار پوچھتے ہیں کہ جزا کا دن
کب آئے گا؟ ہللا فرماتا ہے اس دن تو یہ آگ میں تپائے جائیں گے
جس طرح سونا تپایا جاتا ہے یہ اس میں جلیں گے اور ان سے کہا
جائے گا کہ جلنے کا مزہ چکھو ۔ اپنے کرتوت کے بدلے برداشت
کرو ۔ پھر ان کی اور زیادہ حقارت کے لئے ان سے بطور ڈانٹ
ڈپٹ کے کہا جائے گا یہی ہے جس کی جلدی مچا رہے تھے کہ
کب آئے گا کب آئے گا ،وہللا اعلم ۔
فَ ْال َحا ِماَل ِ
ت ِو ْقرًا
﴿﴾051:002
ت أَ ْمرًا
فَ ْال ُمقَ ِّس َما ِ
﴿﴾051:004
صا ِد ٌ
ق إِنَّ َما تُو َع ُد َ
ون لَ َ ﴿﴾051:005
ك َع ْنهُ َم ْن أُفِ َ
ك ي ُْؤفَ ُ
﴿﴾051:009
الَّ ِذ َ
ين هُ ْم ِفي َغ ْم َر ٍة َساهُ َ
ون
﴿﴾051:011
ون أَي َ
َّان يَ ْو ُم ال ِّد ِ
ين يَسْأَلُ َ
﴿﴾051:012
ار يُ ْفتَنُ َ
ون يَ ْو َم هُ ْم َعلَى النَّ ِ
﴿﴾051:013
[جالندھری] اس دن (ہوگا) جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا
تفسیر ابن كثیر
ت َو ُعي ٍ
ُون إِ َّن ْال ُمتَّقِ َ
ين فِي َجنَّا ٍ ﴿﴾051:015
ُون َوبِاأْل َ ْس َح ِ
ار هُ ْم يَ ْستَ ْغفِر َ
﴿﴾051:018
[جالندھری] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں (بہت) سی
نشانیاں ہیں
تفسیر ابن كثیر
[جالندھری] (اور کھانے کے لئے) انکے آگے رکھ دیا کہنے لگے
کہ آپ تناول کیوں نہیں کرتے؟
تفسیر ابن كثیر
فَأ َ ْو َج َ
س ِم ْنهُ ْم ِخيفَةً ۖ قَالُوا اَل تَ َخ ْ
ف ۖ َوبَ َّشرُوهُ بِ ُغاَل ٍم
َعلِ ٍيم
﴿﴾051:028
[جالندھری] تو ابراہیم کی بیوی چالتی آئی اور اپنا منہ پیٹ کر
کہنے لگی (اے ہے ایک تو) بڑھیا اور (دوسرے) بانجھ
تفسیر ابن كثیر
قَالُوا َك َذلِ ِك قَا َل َرب ُِّك ۖ إِنَّهُ هُ َو ْال َح ِكي ُم ْال َعلِي ُم
﴿﴾051:030
قَا َل فَ َما َخ ْ
طبُ ُك ْم أَيُّهَا ْال ُمرْ َسلُ َ
ون
﴿﴾051:031
ين ك لِ ْل ُمس ِ
ْرفِ َ ُم َس َّو َمةً ِع ْن َد َربِّ َ
﴿﴾051:034
ت ِم َن ْال ُم ْسلِ ِم َ
ين فَ َما َو َج ْدنَا 3فِيهَا َغ ْي َر بَ ْي ٍ
﴿﴾051:036
ين َوفِي ُمو َسى إِ ْذ أَرْ َس ْلنَاهُ إِلَى فِرْ َع ْو َن بِس ُْلطَ ٍ
ان ُمبِ ٍ ﴿﴾051:038
انجام تکبر
ارشاد ہوتا ہے کہ جس طرح قوم لوط 3کے انجام کو دیکھ کر لوگ3
عبرت حاصل کر سکتے ہیں اسی قسم کا فرعونیوں کا واقعہ ہے ہم
موسی کو روشن دلیلیں3 ٰ نے ان کی طرف اپنے کلیم پیغمبر حضرت
اور واضح 3برہان دے کر بھیجا لیکن ان کے سردار فرعون نے جو
تکبر کا مجسمہ تھا حق کے ماننے سے عناد کیا اور ہمارے فرمان
کو بےپرواہی سے ٹال دیا اس دشمن الہٰ ی نے اپنی طاقت و قوت
کے گھمنڈ پر اپنے راج لشکر کے بل بوتے پر رب کے فرمان کی
موسی
ٰ عزت نہ کی اور اپنے لوگوں 3کو اپنے ساتھ مال کر حضرت
موسی یا تو جادوگر ہےٰ کی ایذاء رسانی پر اتر آیا اور کہنے لگا کہ
یا دیوانہ ہے پس اس مالمتی کافر ،فاجر ،معاند متکبر شخص کو
ہم نے اس کے الؤ لشکر سمیت دریا برد کر دیا ۔ اسی طرح عادیوں
کے سراسر عبرتناک واقعات بھی تمہارے گوش گذار ہو چکے ہیں
جن کی سیہہ کاریوں کے وبال میں ان پر بےبرکت ہوائیں بھیجی
گئیں جن ہواؤں نے سب کے حلیے بگاڑ دئیے ایک لپٹ جس چیز
کو لگ گئی وہ گلی سڑی ہڈی کی طرح ہو گئی ابن ابی حاتم کی
حدیث میں ہے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں ہوا
دوسری زمین میں مسخر ہے جب ہللا ٰ
تعالی نے عادیوں کو ہالک
کرنا چاہا تو ہوا کے داروغہ کو حکم دیا کہ ان کی تباہی کے لئے
ہوائیں چال دو فرشتے نے کہا کیا ہواؤں کے خزانے میں اتنا وزن
وتعالی نے فرمایا نہیں
ٰ کر دوں جتنا بیل کا نتھنا ہوتا ہے ہللا تبارک
اگر اتنا وزن کر دیا تو زمین کو اور اس کائنات کو الٹ دے گی
بلکہ اتنا وزن کرو جتنا انگوٹھی کا حلقہ ہوتا ہے یہ تھیں وہ ہوائیں
جو کہ جہاں جہاں سے گذر گئیں تمام چیزوں کو تہ وباال کرتی
گئیں اس حدیث کا فرمان رسول ہونا تو منکر ہے سمجھ سے زیادہ
قریب بات یہی ہے کہ یہ حضرت عبدہللا بن عمرو کا قول ہے
یرموک کی لڑائی میں انہیں دو بورے اہل کتاب کی کتابوں کے
ملے تھے ممکن ہے انہی میں سے یہ بات آپ نے بیان فرمائی ہو
وہللا اعلم ۔ یہ ہوائیں جنوبی تھیں حضور صلی ہللا علیہ وسلم
فرماتے ہیں میری مدد پر وہ ہواؤں سے کی گئی ہے اور عادی
پچھوا ہواؤں سے ہالک ہوئے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح ثمودیوں کے
حاالت پر اور ان کے انجام پر غور کرو کہ ان سے کہدیا گیا کہ
ایک وقت مقررہ تک تو تم فائدہ اٹھاؤ جیسے اور جگہ فرمایا ہے
ثمودیوں 3کو ہم نے ہدایت دی لیکن انہوں نے ہدایت پر ضاللت کو
پسند کیا جس کے باعث ذلت کے عذاب کی ہولناک چیخ نے ان کے
پتے پانی کر دئیے اور کلیجے پھاڑ دئیے یہ صرف ان کی سرکشی
سرتابی نافرمانی اور سیاہ کاری کا بدلہ تھا ۔ ان پر ان کے دیکھتے
دیکھتے عذاب الہٰ ی آگیا تین دن تک تو یہ انتظار میں رہے عذاب
کے آثار دیکھتے رہے آخر چوتھے دن صبح ہی صبح رب کا
عذاب دفعۃً آپڑا حواس باختہ ہوگئے کوئی تدبیر نہ بن پڑی اتنی بھی
مہلت نہ ملی کہ کھڑے ہو کر بھاگنے کی کوشش تو کرتے یا کسی
اور طرح اپنے بچاؤ کی کچھ تو فکر کر سکتے اسی طرح ان سے
پہلے قوم نوح بھی ہمارے عذاب چکھ چکی ہے اپنی بدکاری اور
کھلی نافرمانی کا خمیازہ وہ بھی بھگت چکی ہے یہ تمام مفصل
واقعات فرعونیوں ،عادیوں ،ثمودیوں اور قوم نوح کے اس سے
پہلے کی سورتوں کی تفسیر میں کئی بار بیان ہو چکے ۔
اح ٌر أَ ْو َمجْ نُ ٌ
ون فَتَ َولَّى بِ ُر ْكنِ ِه َوقَا َل َس ِ ﴿﴾051:039
فَأ َ َخ ْذنَاهُ َو ُجنُو َدهُ 3فَنَبَ ْذنَاهُ ْم فِي ْاليَ ِّم َوهُ َو ُملِي ٌم
﴿﴾051:040
[جالندھری] اور عاد (کی قوم کے حال) میں بھی (نشانی ہے) جب
ہم نے ان پر نامبارک ہوا چالئی
تفسیر ابن كثیر
َما تَ َذ ُر ِم ْن َش ْي ٍء أَتَ ْ
ت َعلَ ْي ِه إِاَّل َج َعلَ ْتهُ َكال َّر ِم ِيم
﴿﴾051:042
[جالندھری] اور (قوم) ثمود (کے حال) میں بھی (نشانی ہے) جب
ان سے کہا گیا کہ ایک وقت تک فائدہ اٹھا لو
تفسیر ابن كثیر
فَ َعتَ ْوا َع ْن أَ ْم ِر َربِّ ِه ْم فَأ َ َخ َذ ْتهُ ُم الصَّا ِعقَةُ َوهُ ْم
يَ ْنظُر َ
ُون
﴿﴾051:044
ين فَ َما ا ْستَطَا ُعوا ِم ْن قِيَ ٍام َو َما َكانُوا ُم ْنتَ ِ
ص ِر َ
﴿﴾051:045
تخلیق کائنات
زمین و آسمان کی پیدائش کا ذکر فرما رہا ہے کہ ہم نے آسمان کو
اپنی قوت سے پیدا کیا ہے اسے محفوظ اور بلند چھت بنا دیا ہے
حضرت ابن عباس ،مجاہد ،قتادہ ثوری اور بہت سے مفسرین نے
یہی کہا ہے کہ ہم نے آسمانوں کو اپنی قوت سے بنایا ہے اور ہم
کشادگی والے ہیں اس کے کنارے ہم نے کشادہ کئے ہیں اور
بےستون اسے کھڑا کر دیا ہے اور قائم رکھا ہے زمین کو ہم نے
اپنی مخلوقات کے لئے بچھونا بنا دیا ہے اور بہت ہی اچھا بچھونا
ہے تمام مخلوق کو ہم نے جوڑ جوڑ پیدا کیا ہے جیسے آسمان
زمین ،دن رات ،خشکی تری ،اجاال اندھیرا ،ایمان کفر ،موت
حیات ،بدی نیکی ،جنت دوزخ ،یہاں تک کہ حیوانات اور نباتات
کے بھی جوڑے ہیں یہ اس لئے کہ تمہیں نصیحت حاصل ہو تم
جان لو کہ ان کا سب کا خالق ہللا ہی ہے اور وہ الشریک اور یکتا
ہے پس تم اس کی طرف دوڑو اپنی توجہ کا مرکز صرف اسی کو
بناؤ اپنے تمام تر کاموں میں اسی کی ذات پر اعتماد کرو تو تم سب
کو صاف صاف آگاہ کر دینے واال ہوں خبردار ہللا کے ساتھ کسی
کو شریک نہ ٹھہرانا میرے کھلم کھال خوف دالنے کا لحاظ رکھنا ۔
[جالندھری] اور خدا کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بناؤ ،میں اس
کی طرف سے صریح راستہ بتانے واال ہوں
تفسیر ابن كثیر
طا ُغ َ
ون أَتَ َوا َ
ص ْوا بِ ِه ۚ بَلْ هُ ْم قَ ْو ٌم َ
﴿﴾051:053
[جالندھری] خدا ہی تو رزق دینے واال زور آور اور مضبوط ہے
تفسیر ابن كثیر