Professional Documents
Culture Documents
رازے انبیاءکرام
رازے انبیاءکرام
ؑ
تعلق باہلل
اور جب پروردگار نے چند باتوں میں ابراہیم ؑ کی آزمأیش کی تو وہ ان پر پورا اترے ہللا
بناوں گا ۔
نے فرمایامیں تمہیں لوگوں کا پیشوا ٔ
آپ نے تمام اوامر کو پورا کیا‘تمام نواہی کو ترک کر دیااور ہللا کے پیغام کوبتمام و کمال
پاے کہ انسانیت کی امامت کا تاج ان
پہنچادیا‘اسی وجہ سے وہ اس بات کے مستحق قرار ٔ
جاے کہ تمام احوال ‘اقوال اور افعال میں
جاے اور ایسا امام بنا دیا ٔ
کے فرخِ ناز پر سجا دیا ٔ
جاے۔
نقش قدم پر چال ٔ
انہی کے ِ
تعالی ہے:
ٰ ارشا ِد باری
تعالی فرماتا
ٰ ابوذرسے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایاکہ ہللا
ؓ جامع ترمذی میں ابودرداء اور
ہے:
ابراھیم ؑ اس بات کےمستحق ہیں کہ ہللا نے انہیں اپنا خلیل قرار دیا:
قوم
ابن کثیر میں سدی نے لکھا ہےکہ جب ہللا نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ جا کر ِ
تفسیر ِ
لوط کو تباہ کر دیں تو وہ خو ب صورت نوجوان لڑکوں کی صورت میں ابراهیم ؑ کے
ابراهیم نے جب اپنے ان مہمانوں
ؑ ے اور اپنے آپکو مہمانوں کی شکل میں پیش کیا ٓ
پاس اگ ٔ
فرمالی ۔ قرآن میں آتا ہے :
ٔ افزالی
ٔ کو دیکھا تو ان کی عزت
ین(سورۃ الذ ٰ
اریت)۲۶: غ إِلَى أ َ ْه ِل ِه فَ َجا َء بِ ِع ْج ٍل َ
س ِم ٍ فَ َرا َ
عملی نکات:
تعالی
ٰ اعلی مثال قا ئم کی ہے یہاں تک کہ ہللا
ٰ سلف صالحین نے مہمان نوازی کی
ِ ہمارے
کو بھی ان کا عمل بہت پسند آیا۔ حدیث میں آتا ہے:ایک شخص نبیﷺ کی خدمت میں حاضر
ہوا۔آپﷺ نے اپنی بیویوں کو کہال بھیجا (کہ جو کھانا ہو وہ بھیج دو)سب نے جواب
دیاہمارے پاس پانی کے عالوہ اور کچھ نہیں ۔تب رسولﷺ نے صحابہ ؓ سے فرمایا:اس
صحابی نے عرض کی :میں ۔پھر وہ
ؓ شخص کی کون مہمان نوازی کر سکتا ہے؟ ایک
اسے اپنے گھر لے گئےاور اپنی بیوی سے فرمایا:آپﷺ کے مہمان کی خاطر تواضع کرو،
بیوی نے کہا :میرے پاس بچوں کے کھانے کے عالوہ اور کچھ بھی نہیں ؛انہوں نے کہا
بچوں کو سال دینا،بیوی نے ایسا ہی کیا،کھانا تیار کیا اور بچوں کو سالدیا پھر کھڑی ہوئی
اور چراغ درست کرنے کے بہانے سےچراغ گل کر دیا اور دونوں نے مہمان کے ساتھ
بیٹھ کر یہ ظاہر کیا کہ وہ مہمان کے ساتھ کھانے میں شریک ہیں اس طرح انہوں نے
مہمان کو کھانا کھال دیا اور خود پوری رات بچوں سمیت فاقے میں گزار دی۔ جب صبح
ہولی تو وہ صحابی ؓ رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا:
ٔ
(لقد عجب ہلّٰلا من ضیعکمابضیفکمااللیلۃ)
عملی نکات:
تو جو اس طرح کی مثالی مہمان نوازی کرے جیسا کہ اس حدیث میں بیان ہوئی اور جو
ابراهیم
ؑ ابراهیم ؑ کے قصے سے پتہ چلی تو ضرور اس کا تعلق ہللا سے مضبوط ہو گا ۔اور
کی اس خوبی کی وجہ سے وہ خلیل ہللا کی تعریف پر پورا اترے تو کیا ہم نہیں چاہتے کہ
ہمارابھی ہللا سے تعلق مضبوط ہو ہم بھی مہمان نوازی کے ذریعے ہللا کی تعریف کے
مستحق ہوں۔
سوچیے!آپ دنیا میں ہللا کی مخلوق کے ساتھ مہمان نوازی کا مثالی تعلق قائم کریں
ٔ ذرا
تعالی بھی اوپر فرشتوں کے ساتھ بیٹھ کر آپکی قائم کردہ مثالی مہمان نوازی کا
ٰ گےاور ہللا
تذکرہ کریں گے۔
حضرت ابراهیم ؑ کی روح کو قبض کرنے ملک الموت آئے تو انہوں نے فرمایا(هل رایت
خلیالًیقبض روح خلیلہ ) کیا آپ نے ایسے دوست کو دیکھا ہے جو اپنے دوست کی روح
تعالی کے پاس گئے اور
ٰ قبض کر ے؟ملک الموت کو یہ بات بہت عجیب لگی وہ سیدها ہللا
تعالی نے فرمایا کہ میرے حبیب سے کہہ دینا کہ کیا کوئی دوست
ٰ سب کچھ بتا دیا تو ہللا
ابراهیم کا ہللا
ؑ اپنے دوست کی مالقات کا انکار کرتا ہے تو سبحان ہللا کیسا مضبوط تعلق تھا
تعالی بھی آپکی مالقات کا شوق رکھتے تھے۔
ٰ سے کہ ہللا
ابراهیم اپنی بکریوں کا ریوڑ چرارہے تھےکہ ایک آدمی ؑ اسی طرح ایک مرتبہ حضرت
تعالی کی شان میں یہ الفاظ ذرا بلند آواز
ٰ آپکے قریب سے گزرا۔گزرتے گزرتے اس نے ہللا
آواز میں بولے:
پاک ہے وہ زمین کی بادشاہی اور آسمان کی بادشاہی واال پاک ہے وہ عزت بزرگی ہیبت
اور قدرت واال اور بڑائی اور دبدبے واال
ابراهیم نے جب اپنے محبوب حقیقی کی تعریف اتنے پیارے الفاظ میں سنی تو دل
ؑ حضرت
مچل اٹھا۔ فرمایا کہ اے بھائی یہ الفاظ ایک با ر اور کہہ دینا ۔ اس نے کہا مجھے اس کے
بدلے کیا دیں گے۔آپ نے فرمایا آدها ریوڑ۔اس نے یہ الفاظ دوبارہ کہہ دیے۔ آپ کو اتنا
مزہ آیاکہ بیقرار ہو کر فرمایا اے بھائی یہ الفاظ ایک مرتبہ پھر کہہ دیجئےاس نے کہااب
مجھے اس کے بدلے کیا ملے گا فرمایا بقیہ آدها ریوڑ۔اس نے وہ الفاظ دوبارہ کہہ دیے
۔آپکو پھر اتنا سرور مال کہ بے ساختہ دوبارہ بول اٹھے کہ بھائی یہ الفاظ ایک بار پھر
سے بول دو،اس نے کہا اب تو آپ کے پاس دینے کیلئےکچھ بچا بھی نہیں اب آپ مجھے
کیا دو گے۔فرمایا اے بھائی میں تیری بکریاں چرایا کروں گا تم ایک بار میرے محبوب
ابراهیم آپکو مبارک ہو میں تو ہللا کا فرشتہ ہوں مجھے
ؑ کی تعریف اور کر دو ۔اس نے کہا
جاو اور میرا نام لواور دیکھو کہ یہ میرے نام کے کیا دام لگاتا
ہللا نے بھیجا ہےکہ ٔ
ہے(سبحان ہللا)
عملی نکات:
ہللا سے چپکے چپکے سرگوشی کیا کریں یہ تعلق کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
ترجمعہ:
انہوں نے کہا اگر تمھیں کچھ اور کرنا ہے تو اسکو جال ڈالو اور اپنے معبو دوں
کی مدد کرو۔
پھر اسکے لئے انہوں نے بہت بڑا ایندهن تیار کیا ۔ سدی کہتے ہیں اگر ان میں سے کوئی
عورت بیمار ہوتی تو وہ نذر مانتی کہ اگر وہ صحت یاب ہو گئی تو ابراهیم ؑ کیلئے جالئی
جانے والی اس آگ میں ایندهن جھونکے گی،پھر انہوں نے اس ایندهن کوایک بہت بڑے
تھےحتی کہ اس سے
ٰ گڑهے میں جمع کر کےاس میں آگ لگا دی جسکے شعلے بہت بلند
پہلے کبھی ایسی آگ نہیں جالئی گئ تھی اور پھر انہوں نے فارس کے ایک کر دی اعرابی
ابراهیم کو منجنیق کے ایک پلڑے میں رکھا۔ شعیب جبائی کہتے ہیں کہ
ؑ کے اشارے سے
تعالی نے اسے زمین میں دهنسا دیااور وہ قیامت تک زمین میں دهنستا
ٰ اسکا نام ہیزن تھا ہللا
جائے گا۔ انہوں نے جب آپکو آگ میں ڈاال تو آپکی زبان پر یہ الفاظ تھےجو ہر چیز سے
انکو کافی ہو گئے(حسبی ہللا ونعم الوکیل) میرے لئے ہللا ہی کافی ہے اور وہ کتنا اچھا
ابراهیم کو آگ
ؑ ابن عباس سے مروی ہے کہ جب
کارساز ہے ۔سعید بن جبیر نے کہاجبکہ ِ
میں ڈاال گیاکہ بارش کے خازن فرشتے نے کہنا شروع کیا کہ مجھے کب بارش برسانے
تعالی کا حکم اس بھی کئی گنا تیز رفتار
ٰ کا حکم ہوتا ہے کہ میں بارش برسا دوں لیکن ہللا
ابن عالیہ کہتے ہیں کہ اگر ہللا تو زمین میں جو بھی آگ تھی وہ بجھ گئی ۔ ِ
ابن عباس اور ِ
ابراهیم کو
ؑ تعالی نے (برداً) کے ساتھ (و سلماً) نہ لگایا ہوتا تو آگ اس قدرسرد ہو جاتی کہ
ٰ
َوأ َ َراد ُوا بِ ِه فرمان ٰالہی ہے :
ِ سردی کی شدت سے تکلیف پہنچتی
س ِرینَ (سورۃاالنبیاء)۷۰: َك ْیدًا فَ َج َع ْلنَا ُه ُم ْ
األخ َ
ترجمعہ:اور ان لوگوں نے ان کیساتھ مکر کیامگر ہم نے انھی کو انتہائی خسارے واال کر
دیا ۔ کیونکہ انہوں نے ہللا کے خلیل کے ساتھ مکر کرنا چاہا تھا مگر ہللا نے ان کی
تدبیروں کو خاک میں مال دیا اور حضرت ابراہیم ؑ کےلئے آگ کو گلزار بنا دیااور وہ سب
مغلوب و خاسر ہو کر رہ گئے۔
ٰ
الصلوۃ واسالم یا ابراهیم الی نبیہ ابراهیم علیہ
تعالی ٰ
ٰ کتابوں میں لکھا ہے کہ (اوحی ہللا
انک لی خلیل فاحذران اطلع علی قلبک فاجد مشغوال بغیری فیقطع حبک منی فانی انما
ابراهیم کی طرف
ؑ اختیارلجی من لواحرقتہلم یلتفت قلبہ عنی) ہللا رب العزت نے اپنے نبی
ابراهیم!آپ میرے خلیل ہیں ۔اس بات سے پرہیز کرنا کہ میں آپ
ؑ وحی نازل کی کہ اے
پاوں اس لئے کہ جسکو میں اپنی محبت کیلئے
کے قلب کو کسی غیر کے ساتھ مشغول ٔ
چن لیتا ہوں تو وہ ایسا ہوتا ہے کہ اگر اسکو آگ میں جال بھی دیا جائے تو بھی اسا قلب
ابراهیم کو آگ میں ڈاال جا رہا تھا تو
ؑ میری طرف سے کہیں اور متوجہ نہیں ہوتا۔ جب
!ابراهیم کے دل میں آپکی کتنی محبت ہے کہ
ؑ فرشتے تعجب سے کہنے لگےکہ اے ہللا
آپکی محبت کی وجہ سے وہ آگ میں ڈالے جا رہے تھے لیکن انہوں نے اسباب کی پرواہ
تعالی نے فرشتوں سے فرمایا تم
ٰ تک نہیں کی اے ہللا آپ انکی مدد فرما دیجئے مگر ہللا
جاو اور اسکو اپنی مدد پیش کرو پھر اگر میرا خلیل مدد قبول کرے تو
ابراهیم ؑ کے پاس ٔ
اسکی مدد کر دینا ،ورنہ خلیل جانے اور خلیل کا رب جانے کیونکہ یہ میرا اور میرے
ابراهیم کے پاس آکر مدد پیش کی مگر
ؑ خلیل کا معاملہ ہے(سبحان ہللا ) چناچہ فرشتوں نے
آپ ؑ نے ان کی بات سن کر فرمایا(:ال حاجتہ لی الیکم)مجھے تمہاری کوئی حاجت نہیں
ابراهیم نے فرمایا!اے جبرأیل آپ
ؑ ،پھر جبرأیل ؑ حاضر ہوئے اور امداد پیش کی،حضرت
اپنی مرضی سے آئے ہیں یا ہللا رب العزت نے بھیجا ہے ؟جبرا عیل ؑ نے عرض کیا !
تعالی نے فرمایا ہے کہ اگر وہ مدد قبول کریں
ٰ میں تو ہللا کی مرضی سے آیا ہوں مگر ہللا
ابراهیم کس
ؑ ابراهیم نے فرمایا:نہیں جب میرے ہللا کو معلوم ہے کہ
ؑ تو مدد کر دینا ۔ حضرت
حال میں ہے ،میرا مالک جانتا ہے کہ مجھے اس کے نام پر آگ میں ڈاال جا رہا ہے لہذا
میں اس آگ میں جانا ہی پسند کروں گا ۔ جب فرشتے انکا جواب سن کر واپس چلے گئے
ابراهیم کیلئے ٹھنڈی ہو جا اور
ؑ تعالی نے آگ سے مخاطب ہو کر فرمایا :اے آگ تو
ٰ تو ہللا
سالمتی والی بن جا۔
ترجمعہ :ہم نے کہا زمین پر الت مارو (دیکھو ) یہ (چشمہ نکل آیا) نہانے کو ٹھنڈا اور
پینے کو( شیریں )۔
حتی کہ
ایوب اٹھارہ سال بیماری میں رہے ٰ
ؑ رسولﷺ کا ارشا ِد گرامی قدر ہے :ہللا کے نبی
دور قریب کے رشتہ دار سب چھو ڑ گئے ،دو ا ٓدمیوں کے عالوہ ۔۔۔۔۔آپ قضائے حاجت کے
حتی کہ آپ واپس آجاتے۔ ایک دن اس سے
لئے نکلتے تو آ ؑپ کی بیوی ہاتھ کا سہارا دیتیں ٰ
پاوں زمین پر مارو ،یہ
تعالی نے وحی نازل فرمائی(ارلض برجلک) اپنا ٔ
ٰ دیر ہو گئی تو ہللا
نہانے اور پینے کے لیے ٹھنڈا پانی ہے۔ بیوی دیر سے پہنچیں تو دیکھنے لگ گئیں ،سیدنا
ایوب ؑ اسکی طرف آئےجبکہ ہللا نے بیماری بالکل ختم کر دی تھی اور اب وہ بہت خوب
صورت حالت میں تھے۔ بیوی آپ کو دیکھ کر کہنے لگیں ،کیا آپ نے ہللا کے ؑ
نبی کو دیکھا
ہےجو یہاں بیماری کی حالت میں موجود تھے؟اور ہللا کی قسم جب وہ صحیح تھے تو وہ
آپ سے سب سے زیادہ مشابھت رکھتے تھے،تو انہوں نے فرمایا :وہ میں ہی ہوں ۔سیدنا
ایوب کے دو کھلیان تھے ،ایک گندم کا اور دوسرا جو َ کا ،پس ہللا نے دو بادل بھیجے۔ایک
ؑ
بادل گندم کے کھلیان پر آیا ،اس نے سونا برسایا ٰ
حتی کہ وہ لبا لب بھر گیا۔پھر دوسرے نے
حتی کہ وہ بھی مکمل طور پر چاندی سے بھر گیا۔
جو کے کھیت پر چاندی برسائی ٰ
َ
پھر ہللا تعالی ٰ نے آپکو اوالد بھی عطا کر دی اور ان کے ساتھ اتنے ہی مزید بخشے۔ ہللا
تعالی کا ارشاد ہے :
ٰ
ترجمعہ:اور ہم نے اسکو اہلو عیال بھی دیے اور اپنی طرف سے مہربانی کے لئے ان کے
ساتھ اتنے ہی اور بھی عطا کیے۔
تعالی
ٰ یہ ان کے صبر وثبات ،انابت ،تواضع اور اظہار مسکنت کی وجہ سے رحمت باری
اور اہل عقل وخرد کے لیےنصیحت تھی تا کہ وہ جان لیں کہ صبر کا انجام کشادگی
،کامیابی اور راحت ہے۔
ب (سورۃ قرآن مجید میں آتا ہےَ :و َو َه ْبنَا لَهُ أ َ ْهلَهُ َو ِمثْلَ ُھ ْم َم َع ُھ ْم َر ْح َمةً ِمنَّا َو ِذ ْك َرى ألو ِلي ْ
األلبَا ِ
ص)۴۳ :
عملی نکات:
ایوب کا ہللا سے تعلق کہ جسکی بناء پر وہ مفلسی کی آزمائش پر بغیر بے صبرا پن
ؑ یہ تھا
دکھائے پورا اترےہم بھی ہللا سے تعلق مضبوط کر سکتے ہیں مندرجہ ذیل خوبیوں کو اپنا
کر:
۱۔خوشی اور غم دونوں حالتوں میں ہللا کی رضا میں راضی رہنا ۔
۴۔نعمت کے چھن جانے پر بھی راضی رہنا اور ہللا کا شکر ادا کرنا ۔
علی سے مروی ہے کہ (بدر کے دن مقداد کے عالوہ ہمارے ساتھ کوئی بھی گھڑ سوار
سیدنا ؓ
نہیں تھا ۔ ہم سے ہر شخص گہری نیند سویا ۔ سوائے ہللا کے نبی ﷺ کے ،جو ایک درخت
کے نیچے بیٹھ کر ساری رات ہللا کی عبادت کرتے اور روتے رہے۔
سیدنا انس ؓ سے مروی ہے کہ نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا :مجھے ہللا کی راہ میں اس
قدر اذیت دی گئی کہ کسی اور کو اس قدر اذیت نہیں دی گئی،اور مجھے ہللا کے راستے
میں اس قدار ڈرایا گیا کہ اتنا کسی اور کو خوف زدہ نہیں کیا گیا۔ مجھ پر تین دن اور راتیں
ایسی گزریں کہ میرے اور بالل ؓ کے پاس اتنا کھانا بھی نہ تھا کہ جسے کوئی جگر واال
کھائے۔ وہ اتنا کم ہوتا تھا کہ جسے بالل ؓ بغل میں چھپا لیتے تھے۔
اے ہللا ! میں تیری رضا کے ذریعے تیرے غصے سے پناہ مانگتا ہوں ،اور تیری معافات
کے ذریعہ تیری عقاب سے ،اور اے ہللا ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں ،میں تیری ثناء اس
طرح بیان نہیں کر سکتا جیسا کہ تو نے خود اپنی ثنا ء بیا ن کی ۔
ؓ
مغفل سے سنا ،وہ فرماتے تھے کہ میں معاوہ بن قر ؒۃ فرماتے ہیں :میں نے سیدنا عبدہللا بن
نے نبیﷺ کو فتح مکہ کے دن اپنی سوواری پر بیٹھے یہ پڑهتے ہوئے سنا ِ ( :إنَّا فَت َ ْحنَا لَ َك
لّٰلاُ َما تَقَد ََّم ِم ْن ذَ ْن ِب َك َو َما تَأ َ َّخ َر) (سورۃالفتح)۱،۲:
فَتْ ًحا ُم ِبینًا)( ِلیَ ْغ ِف َر لَ َك َّ
آپﷺ یہ آیات دهرا دهرا کر پڑه رہے تھے۔معاویہ بن قر ؒۃ کہتے ہیں ،اگر مجھے ڈر نہ ہوتا
کہ لوگ میرے اردگرد جمع ہو جائیں گے ،تو میں اسی طرح تم کو قرأت اور تجویدو تحسین
کے ساتھ پڑه کر سناتا۔
تواضع:
مریضوں کی عیادت کرنا بھی تواضع کا نمونہ ہے ۔سیدنا جابر بن عبدہللا ؓ سے مروی ہے
،وہ فرماتے ہیں کہ عسول ہللا ﷺ میرے پاس تشریف الئےتو آپ نہ خچر پر سوار تھے نہ
ترکی گھوڑے پر (بلکہ آپ پیدل تشریف الئے)۔
االعلی)
ٰ ت طیبہ کے آخری الفاظ یہ تھے (:اللھم اغفرلی وارحمنی والحقنی بالرفیق
حیا ِ
اے ہللا میرے گناہ معاف فرما ،مجھ پر رحم فرما اور مجھے بلند پایا رفقاء سے مال دے۔
صحا بہ کرام ؓ کا
تعلق باہلل
ؓ
صدیق کا تعلق باہلل حضرت ابوبکر
صدیق سے غا ر میں فرمایا تھا :ان دو کے بارے میں آپ کا
ؓ رسول ہللا ﷺنے سیدنا ابوبکر
کیا خیال ہے جن کا تیسرا ہللا ہے
صدیقہ سے روایت مروی ہے،رسول ہللا نے مجھ سے فرمایا :اپنے والد اور
ؓ سیدہ عائشہ
بالو تا کہ میں کوئی تحریر لکھوں ،کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کوئی
بھائی کو میرے پاس ٔ
آرزو کرنے واال آرزو نہ کرے،اور کوئی کہنے واال کہے کہ میں سب سے بہتر ہوں ۔
حاالنکہ ہللا اور سب اہل ایمان ،ابوبکر کے سوا سب کا انکار کر یں گے۔
تعالی کا
ٰ ابوبکر کو بناتا۔بالشبہ تمہارا ساتھی ہللا
ؓ اگر میں نے کسی کو دوست بنانا ہوتا تو
دوست ہے۔
علی بن ابی طالب فرماتےہیں :ہم رسول مکرمﷺکے ہمراہ تھے کہ اچانک سیدنا
سیدنا ؓ
عمر نظر آگئےتو رسول ہللا ﷺ نے فرما یا:یہ دونوں انبیاءاور رسولوں
ابوبکر اور ؓ
کےعالوہ باقی تمام اگلے پچھلے بوڑهے جنتیوں کے سردار ہیں ،اے علی ! ان دونوں کو
مطعم فرماتے ہیں کہ :ایک عورت آپﷺ کے پاس آئی
ؓ یس کی خبر نہ دینا ۔سید نا جبیربن
اور اس نے کسی معاملے میں آپ سے گفتگو کی ،آپﷺ نے اس کسی بات کا حکم فرمایا
پاو ں تو؟آپﷺ نے
،اس نے کہا :اے ہللا کے رسولﷺ آپ کا کیا خیال ہے اگر آپ کو نہ ٔ
فرمایا :اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر کے پاس چلی جانا۔
سبِی ِل َّ
لّٰلاِ اج ِرینَ فِي َ سعَ ِة أ َ ْن یُؤْ تُوا أُو ِلي ْالقُ ْربَى َو ْال َم َ
ساكِینَ َو ْال ُم َھ ِ ض ِل ِم ْن ُك ْم َوال ََّوال یَأْت َ ِل أُولُو ْالفَ ْ
ور َر ِحی ٌم (۲۲سورۃالنور)۲۲: غف ُ ٌ لّٰلاُ َ َو ْلیَ ْعفُوا َو ْلیَ ْ
صفَ ُحوا أَال ت ُ ِحبُّونَ أ َ ْن َی ْغ ِف َر َّ
لّٰلاُ َل ُك ْم َو َّ
ترجمعہ:اور تم میں دولت مند لوگ قرابتداروں ،مسکینوں اور مہاجرین فی سبیل ہللا کو دینے
کی قسم نہ کھا بیٹھیں اور عفودرگزر کریں ،کیا تم لوگ یہ پسید نہیں کرتے کہ ہللا تمہاری
مغفرت کرے ۔اور ہللا مغفرت کرنے واال اور رحم کرنے واال ہے۔
اور اب سیدنا ابوبکر ؓ ان کے مصارف کے کفیل ہو گئےاور کہا :ہاں! مجھے یہی پسند ہے
کہ ہللا میری مغفرت کرے۔
سالطین و امراء کے جاہو جالل سے اگرچہ انسان دفعت ًہ مرعوب ہو جاتا ہے لیکن حقیقی
اطاعت اور اصل محبت زہدوتواضع کے ذریعے سے ہی پیدا ہو سکتی ہے ۔صحابہ ؓ کے
دور خالفت میں اگرچہ دنیا نے ان کے سامنےاپنے خزانے اگل دیے،تاہم انھوں نے اپنی
ِ
قدیم سادگی اور خاکساری کو ہمیشہ قائم رکھا اس لیے عرب کی غیور طبیعتوں کو انکی
ابوبکر خالفت سے قبل
ؓ اطاعت اور فرما بزداری سے کبھی عارو استنکاف نہیں ہوا۔ سیدنا
ب خالفت سے ممتاز ہوئے تو ایک لڑکے نے کہا:اب وہ ہماری
بکریاں دوہا کرتے تھے منص ِ
بکریاں نہ دوہیں گے ،انھوں نے سنا تو بولے :ہللا کی قسم ضرور دوہوں گا ،ہللا نے چاہا تو
امور خالفت کو بھی انجام دیتے
ِ خالفت میری قدیم حالت میں تغیر نہ پیدا کرے گی چناچہ
تھے اور ان کی بکریاں بھی دوہتے تھے،بلکہ اگر ضرورت ہوتی تو ان کو چرا کر بھی
التے تھے۔
زہدو عبادت کا یہ حال تھا کہ اکثر راتیں قیام میں ،اکثر دن روزے میں گزارتے تھے ۔خشوع
و خضو ع کا یہ عالم تھا کہ نماز کی حالت میں چوب خشک نظر آتے تھے۔رقت اتنی طاری
ہو جاتی کہ روتے روتے ہچکی بنده جاتی ۔عبرت پذیری کا یہ حال تھا کہ دنیا کا ذرہ ذرہ
ان کے لیے عبرت ِ دفتر تھا ۔ کوئی سر سبز درخت دیکھتے تو فرماتے ،کاش میں درخت
ہوتا کہ آخرت کے خطروں سے محفوظ رہتا۔
چڑیوں کو چہچہاتے دیکھتے تو فرماتے ،پرندوخوش نصیب ہو کہ دینا میں چرتے چگتے
اور درختوں کے سائے میں بیٹھتےہو اور قیا مت کے محاسبہ کا کوئی خطرہ نہیں ،کاش
ابو بکر ؓ تمھاری طرح ہوتا ،بات بات پر آہ سرد کھینچتے تھے ،یہاں تک کہ اواہ لقب ہو
گیا۔
(اکثرو من ذکرالنار فان حرها شدید وقعرها بعید ومقامعھا حدید)تم آگ کا کثرت سے ذکر کیا
کرو ،اسکی گرمی انتہائی تیز ،اسکے گڑهے انتہائی گہرے اور اسکے ہتھوڑے لوہے کے
ہیں ۔
عمر نے فرمایا :اگر میں ایسا نہ کروں تو پھر کیا ہوگا ؟بدوی بوال :میں قسم کھاتا
سیدنا ؓ
عمر نے فرمایا :
ؓ جاوں گا۔ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا :سیدنا
ہوں کہ میں اپنے انجام کو پہنچ ٔ
بدوی نے جواب دیا :ہللا کی قسم !آپ سے میرے اگر تو مر گیا تو پھر کیا ہو گا؟
بارے میں ضرور سوال ہو گا ۔
پھر آپکو وہاں بہت سے مسائل کا سامنا کر نا پڑے گا اور جسکی ان مسائل کے بارے
میں تفتیش ہوئی وہ یا تو آگ کی طرف جائے گا یا پھر جنت کی طرف جائے گا !یہ سن
عمر زاروقطار رونے لگے یہاں تک کہ ڈاڑ هی مبارک تر ہو گئی پھر خادم
کر سیدنا ؓ
سے فرمایا :اے لڑکے!اسے آج کے دن اس نصیحت آموزی کے سبب میری یہ قمیص دے
دو یہ میں اسے اس دن کے لیے دے رہا ہوں اس لیے نہیں دے رہا کہ اس نے مجھے
اشعار سنائے ہیں ۔ ہللا کی قسم ! میں آج کر دن اس قمیص کے عالوہ کسی چیز کا مالک
عمر نے بدو کے اشعار سنے تو سسک سسک کر روئے۔ ان میں قیامت
ؓ نہیں ہوں ۔ سیدنا
عمر کے بارے میں یہ نہیں کہا تھا کہ
کے دن اور حساب کا ذکر تھا حاالنکہ اس نے ؓ
عمر ایسے نہیں تھے ،وہ ہللا کی خشعیت اور
انہوں نے کسی پر ظلم نہیں کیا تھا ۔ سیدنا ؓ
خوف کی وجہ سے ہر اس شخص کی بات سن کر رو پڑتے تھےجو ان کے سامنے
عمر اکثر خشعیت ِ ٰالہی کی وجہ سے اپنا محاسبہ کیا کرتے
قیامت کا تذکرہ کرتا تھا ۔ سیدنا ؓ
تھے اگر محسوس کرتے کہ اگر انہوں نے کسی پر زیادتی کی ہےاور اسے فورا ً تیار
کرتے اور قصاص دینے کے لیے تیار ہو جاتے۔
عمر محاسبہ نفس کے بارے میں فرماتے تھے(:حاسبو أنفسکم قبل ان تحاسبو ا
سیدنا ؓ
وزنوها قبل ان توزنوا و تھی ٔوا للعرض االکبر)
اس سے پہلے کہ تمہارا ہللا کے سامنے محاسبہ کیا جائے خود اپنا محاسبہ کر لو ،اس سے
پہلے کہ تمہارا وزن ہو خود اپنا وزن کر لواور قیامت کے دن کی سب سے بڑی پیشی کا
سامان کر لو۔
قرآن مجید میں آتا ہے َ :ی ْو َمئِ ٍذ ت ُ ْع َرضُونَ ال تَ ْخفَى ِم ْن ُك ْم خَافِ َیةٌ(سورۃ الحاقہ)۱٨ :
عمر شدت خشیعت سے فرماتے تھے اگر کوئی بکری کا بچہ فرات کے کنارے مر
سیدنا ؓ
عمرقرآن کریم سے نہایت
عمر سے سوال کرے گا ۔سیدنا ؓ
گیا تو ہللا قیامت کے دن ؓ
لگاو،آپﷺ کی مصاحبت اور اس کائنات میں غوروفکر کے بعد اس نتیجے کہ دنیا آزمائش
ٔ
کا گھر ہے،یہ آخرت کی کھیتی ہے اور وہ دنیا کی تمام رنگینیوں ،زیب وزینت اور چمک
دمک کو ہیچ اور ناقاب ِل توجہ سمجھتے تھے۔وہ دنیا کی دلفریبیوں سے آزاد ہو کر دلودماغ
کی گہرائیوں سے اپنے رب کے کامل اطاعت گزاربن کر اس کے سامنے مکمل طور پر
عمر کا ہللا سے
جھک چکے تھےاور اس سے تعلق مضبوط کرنے کے کوشاں تھے۔ سیدنا ؓ
تعلق اس قدر مضبوط تھا کہ جب وہ نماز ادا کرتے تو انتہائی خشوع خضوع سے ادا کرتے
عمر کے پیچھے نماز ادا کی ان کے
عمر فرماتے ہیں :میں نے سیدنا ؓ
۔ حضرت عبدہللا بن ؓ
رونے کی آواز آرہی تھی جو کہ تیسری صف میں بھی سنی جا سکتی تھی۔ ایک روایت
نماز فجر میں قرآن کریم کے اس حصے کی تالوت فرمائی کہ
میں آتا ہے کہ انہوں نے ِ
میں تو اپنی ظاہر ہو جانے والی بے قراری اپنے غم کی شکایت صرف ہللا کی جناب میں
کرتا ہوں ۔
اس پر وہ اس قدر روئے کہ ان کی ہچکی بنده گئی جو آخری صف میں بھی سنائی دے
عمر رات کے درمیانی حصہ میں نماز ادا کرنے کے شائق تھے ۔ وہ اپنی رہی تھی ۔ سیدنا ؓ
عادت کے مطابق رات کو اٹھتے تھے اور جب رات کا آخری حصہ ہو جاتا تو اہ ِل خانہ کو
بیدار فرماتے اور کہتے :نماز کے لیے جاگو اور پھر یہ آیت تالوت فرماتے :
سورۃطہ )۱۳۲:
ٰ علَ ْی َھا ال نَسْأَلُ َك ِر ْزقًا ن َْح ُن ن َْر ُزقُ َك َو ْالعَاقِبَةُ ِللت َّ ْق َوى ( ص َ
طبِ ْر َ َوأْ ُم ْر أ َ ْهلَ َك بِال َّ
صالۃِ َوا ْ
ترجمعہ:اور اپنے گھر والوں کو نما ز کا کہہ اور اور خود بھی نماز پر جما رہ،ہم تجھ سے
تقوی کا ہی ہے۔
ٰ روزی نہیں مانگتے بلکہ ہم تجھے رزق دیتے ہیں اور آخر انجام
عمر کے مزاج میں نہایت عاجزی تھی ،وہ اپنے پروردگار سے خوب دل لگا کر سیدنا ؓ
دعائیں مانگا کرتے تھے ان کی دعا کے مشہور الفاظ یہ تھے( :اللھم اجعل عملی کلہ
صالحاًولوجھک خالصاًوال تجعل الح ٍد فیہ شٔیاً) اے ہللا میرے سارے عمل نیک کر دے ،اپنی
رضا کے لئے خالص کر دے اور یہ ذرہ بھر بھی کسی غیر کیلئے نہ ہو۔
مزید فرماتے :اے ہللا ! اگر تو نے مجھے اپنے ہاں بدبخت لکھا ہے تو اسے مٹا دے اور
نیک بخت لکھ دے ،تو چیز کو مٹانے اور برقرار لکھنے پر قادر ہے۔فرماتے تھے :مجھے
دعا کی قبو لیت سے زیادہ دعا کی شرائط کا فکر ہوتا ہے کیونکہ جب مجھے دعا کرنے کا
طریقہ آگیا تو قبولیت یقینی بات ہے۔ وہ اپنے رب کی یاد میں کھوئے ہوئے انسان تھے ،ہر
وقت اپنے رب کی یاد میں رہنا پسند فرماتے تھے۔
موسی ! ہمیں ہمارا رب یاد دالدے !پھر وہ
ٰ موسی اشعری سے فرمایا کرتے تھے:اے ابو ٰ ابو
قرآن پڑهتے تو سب حاضرین سنتے تھےاور بہت زیادہ روتے تھے۔ وہ فرماتے تھے(علیکم
بذکر ہللا فانہ شفاء ایاکم و ذکرالناس فانہ داء)
ہللا کا ذکر کثرت سے کیا کرو ،اس میں شفاء ہےلوگوں کا ذکر چھوڑ دو ،اس میں بیماری
ہے۔
وہ یہ بھی فرماتے تھے :خلوت نشینی کی عادت ڈال لو۔
تعلق ایسا کہ شیطان بھی اپناراستہ بدل لے:
جن لوگوں کا ہللا سے مضبوط تعلق ہوتا ہے تو ہللا ان کے دشمنوں کے دلوں میں ان کا رعب
عمر کا بھی ہللا سے جتنا مضبوط تعلق تھا تو ان کا رعب
اور دبدبہ بیٹھا دیتے ہیں سیدنا ؓ
تعالی نے دشمنوں کے بھی دشمن شیطان کے دل میں بھی بیٹھا دیا تھا ۔ آپﷺ نے
ٰ بھی ہللا
فرمایا :اے خطاب کے بیٹے !قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،شیطان
تم سے گلی میں چلتے ہوئے ملے گا تو تمہاری گلی چھوڑ کر دوسری گلی میں چلنے لگے
گا۔
عملی نکات:
عمر کے ہللا سے مضبوط تعلق کے ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں آخرت پر
حضرت ؓ
یقین بہت زیادہ تھا لہذا بھی آخرت کی فکر کرنی چاہیے اور ایسے کام کرنے چاہیے جن
کی وجہ سے ہم آخرت میں سرخرو ہو سکیں جیسے:
۱۔ خود بھی نماز پڑهیں اور گھر والوں کو بھی اسکی تاکید کریں ۔
۲۔ ہللا سے اسکی رحمت کا سوال کریں اور اسکا فضل تالش کریں ۔ دعا مانگئے(اللھم انی
سلک من فضلک العظیم)
أ
۳۔ اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھائیں کیونکہ قیامت کے دن ان سے متعلق
پوچھا جائے گا۔
۴۔ ہللا کا ذکر کثرت سے کیا کریں اور اس کی یاد میں رویا کریں ۔
۵۔ اپنا تعلق ہللا سے اس قدر مضبوط کر لیں کہ آپ پر شیطانی وسوسو ں کا زور نہ چلے۔
نبی کریم ﷺ نے سیدنا علی ؓ سے فرمایا :تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں ۔
قرآن مجید کے بعد صحابہ کرام کا محور عمل صرف رسول ہللا ﷺ کی ذات تھی اس لیے
وہ تما م اعمال میں آپ کی سنت کی اتباع کرتے تھے۔ایک دفعہ ؓ
علی سوار ہونے لگے تو
پاوں رکھا ،پشت پر پہنچے تو الحمد ہللا کہا ۔ پھر یہ آیت پڑهی:
رکاب میں بسم ہللا کہہ کر ٔ
س ْب َحانَ الَّذِي َ
س َّخ َر لَنَا ور ِہ ث ُ َّم ت َ ْذ ُك ُروا نِ ْع َمةَ َربِ ُك ْم إِذَا ا ْست َ َو ْیت ُ ْم َعلَ ْی ِه َوتَقُولُوا ُ ِلت َ ْست َ ُووا َعلَى ُ
ظ ُھ ِ
َهذَا َو َما ُكنَّا لَهُ ُم ْق ِرنِینَ (۱۳سورۃالزخرفَ )۱۳:و ِإنَّا ِإلَى َربِنَا لَ ُم ْنقَ ِلبُونَ (سورۃ الزخرف)۱۴:
پھر تین بار الحمدہللا اور تین بار ہللا اکبر کہا ۔ اس کے یہ دعا پڑهی ۔
((سبحانک انی ظلمت نفسی فاغفرلی ،فانہ ال یغفر الذنوب اال انت))
پھر ہنس پڑے ،لوگوں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی ،بولے،ایک با ر رسول ہللا ﷺ ان ہی
پابندیوں کے ساتھ سوار ہوئے اور اخیر میں ہنس پڑے،میں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو
فرمایا کہ جب بندہ علمو یقین کے ساتھ یہ دعا کرتا ہے تو ہللا اس سے خوش ہوتا ہے۔
آ ؓپ دنیا اور اسکی دلفریبیوں سے وحشت کرتے تھے۔رات کی تاریکی اور اس کی تنہائی
سے انس رکھتے تھے۔عبرت پذیر اور بہت غوروفکر کرنے والے تھے ۔ وہ اکثر رات کی
تاریکی میں جب ستارے جلمال رہے ہوتے تھے تو وہ اپنی ڈارهی مٹھی میں دبائے مار
گزیدہ کی طرح بے قرار اور غم زدہ کی طرح اشکبار ہوتے اور کہتے:اے دنا! کسی
اور کو فریب دے ،تو مجھ سے لگاوٹ کر رہی ہے ،میری مشتاق ہے ،افسوس
!افسوس!میں نے تجھے تین طالقیں دیں ،تیری عمر تھوڑی اور تیرا مقصد حقیر ہے ،ہائے
ہائےسفر طویل ،راستہ وحشت ناک اور سفر تھوڑا ہے ۔ یہ تمام اوصاف امیر معاویہ ؓ نے
(علی) پر رحم فرمائے ،وہللا !وہ ایسے ہی
ؓ بیان کیے اور وہ رو دیے اور کہا ،ہللا ابوالحسن
تھے۔
ص ْینَا اإل ْن َ
سانَ ِب َوا ِلدَ ْی ِه ُح ْسنًا(سورۃ العنکبوت)٨: َو َو َّ
اور وہ میرے ساتھ اس چیز کو شریک کرنے پر مجبور کریں جسکا تجھے علم نہیں ہے
تو پھر انکی اطاعت نہ کرنا ۔ہاں دنیاوی معامالت میں ان کا اچھا ساتھی بن جا ۔
سبحان ہللا ! کیسا تعلق تھا سعدؓ کا ہللا کے ساتھ کہ انہوں نے دین پر استقامت اختیار کی
خواہ ان کاعزیز رشتہ آڑے آیا لیکن انہوں نے اپنے رب کی خاطر یہ قربانی دینا گوارہ
کر لی۔
ؓ
صحابیات کا
تعلق باہلل
عملی نکات:
اس سے پتہ چلتا ہے کہ جولوگ اپنے دنیاوی عیش وعشرت کو محض ہللا کی خاطر اور
تعالی بھی ایسے لوگوں
ٰ اسکے دین کا کلمہ بلند کرنے کیلئے ترک کر دیتے ہیں تو ہللا
تعالی سالمتی
ٰ سے تعلق مضبوط کرنا پسند فرماتے ہیں اور پھر ایسے لوگوں کے لئے ہللا
بھیجتا ہے لہذا کر نے کا کام یہی ہے کہ ہم اپنا سرمایہ دین کے لیے وقف کر دیں ۔
دعا کرتیں اور روتیں اور بار بار اس آئت کو دہراتیں میں انتظار میں کھڑا رہا کہ کب آپ ؓ
فارغ ہو ں تو میں سالم عرض کروں جب میں کھڑا رہ کر اکتا گیا تو اپنے کسی کام کے
لیے بازار چال گیا جب میں کام سے فارغ ہو کر واپس آیا تو وہ با دستور کھڑی نماز ادا
کر رہی تھیں کیا خوب تعلق تھا ان کا ہللا کے ساتھ سبحان ہللا!
عملی نکات:
۲۔ طویل قیام کرنا چاہیے اور قرآن کی آیات میں غوروفکر کرنا چاہیے۔
المومنین سیدہ حفصہ ؓ عبادت گزار ،رات کو قیام کرنے والیں ،دنا سے بے رغبتی
ام ٔ
تقوی شعار ،پاکیزہ طبیعت ،نیک دل اور سخی خاتون تھیں ۔وہ رات
ٰ اختیار کرنے والیں ،
کو بہت زیادہ عبادت میں مصروف رہتیں اور دن کو کثرت سے روزے رکھتیں ۔ انہوں
جبرائیل نے سیدہ
ؑ نے اپنے رب کی عبادت گزاری میں اخالص کا طریقہ اختیار کیا۔ سیدنا
حفصہ کی بڑائی بیان کرتے فرمایا :وہ کثرت سے روزے رکھنے والی ،کثرت سے
ؓ
عبادت کرنے والی ،نیک دل خاتون ہیں اور وہ جنت میں آپ ﷺ کی زوجہ ہوں گی۔
حفصہ کے بارے میں اہل خانہ میں سے ایک شخص نے بتایا کہ ان کا ہللا سے بہت
ؓ سیدہ
گہرا تعلق تھا ،یہ کثرت سے روزے رکھتیں اور روزے ہی کی حالت میں وفات پا گئیں ۔
مومنین کا
ٔ
تعلق باہلل
خجر تسلیم و رضا ،صبرو تحمل کے کوہ ِ گراں ،مملکت علم و عمل کے تاجدار،
ِ کشتگان
ِ
میدان جنگ کے شہسوار ،منبرو
ِ ب زندہ دار ،رات کو جائے نماز اور دن کو
زہد اور ش ِ
محراب کی زینت ،تالوت کے دهنی اور قرآنو سنت کے دلدادہ ،اپنے سینوں میں نورانی
دل رکھنے والے ،اپنے دلوں میں قر آنی انوار کی تجلیات کو جذب کرنے والے اور وہ
لوگ جنہوں نے دنیاوی مال و متا ع کو ہر کام کی حیثیت نہ دی تو ان کا تعلق ہللا کے
ساتھ کیا ہو گا ۔ آیئے ہم ان ٔ
مو منین کی زندگی کو تعلق باہلل کی رو سے دیکھتے ہیں ۔
امام ابو حنیفہ ؒ اکثر وبیشتر دن کو روزہ رکھتے اور رات کو عبادت میں مصروف رہتے،
قرآ ِن حکیم کو بڑی محبت اور چاہت کے ساتھ پڑهتے ،یوں معلوم ہوتا کہ آپ قر آن کے
گہرے دوست ہیں ۔ سحری کے وقت اپنے رب کی بار گاہ میں کثرت سے استغفار کرتے
اور عبادت کرتے اور اس میں مگن ہونے کا اصلی سبب یہ تھا کہ ایک دن انہوں نے لوگوں
میں سے چند افراد کو یہ کہتے ہوئے سن لیا تھا کہ یہ شخص بڑا عبادت گزار ہے ،رات
بھر عبادت میں مصروف رہتا ہے ۔ جب آپ نے اپنے بارے میں یہ بات سنی تو فرمانے لگے
طرز عمل تو لوگوں کے جزبات کے بالکل بر عکس ہے کیو ں نہ میں ویسا ہی بن
ِ کہ مرا
جا ٔوں جیسا لوگ میرے بارے میں خیال کرتے ہیں پھر انہوں نے عزم کر لیا کہ میں زندگی
میں اپنے سر کے نیچے تکیہ نہیں رکھوں گا ،پھر ان کی عادت یہ ہو گئی کہ وہ بیشتر
حصہ عبادت میں صرف کرتے اور اپنے رب سے باتیں کرتے اور اپنا تعلق مضبوط کرتے
۔ جب رات تاریکی کی چادر کو کائنات پر پھیال دیتی جب لوگ نیند کے مزے لینے لگتے
تو یہ عمدہ لباس پہنتے ،داڑهی میں کنگھی کرتے ،خوشبو لگاتے پھر محراب میں قیام
کرتے ،رکوع اور سجدے کی حالت میں رات کا بیشتر حصہ گزار دیتے ،کبھی گڑگڑا
کر ہللا کے حضور دعائیں مانگتے اورط کبھی یہ آیت با ر بار پڑهتے جاتے
عةُ أ َ ْدهَى َوأ َ َم ُّر (سورۃ القمر)۴۶ : عةُ َم ْو ِعد ُ ُه ْم َوال َّ
سا َ سا َ
بَ ِل ال َّ
اور ہللا کی خشیعت سے زاروقطار ایسا روتے جس سے دل دہل جاتے ۔ خوف ِ خدا سے
روتے ہوئے بعض اوقات گھگھی بنده جاتی جس سے عام آدمی کا جگر چھلنی ہو جاتا ہے
اور جب آپ سورۃ زلزال پڑهتے تو آپ کے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ،دل خوف سے
تھر تھر کانپنے لگتا ،اپنی داڑهی کو ہاتھ میں پکڑ کر کہتے :اے ذرا برابر نیکی کا بدلہ
دینے والے ! اے ذرا برابر شر کی سزا دینے والے ! اپنے بندے نعمان کو جہنم کی آگ
سے بچا لینا۔
ٰالہی! اپنے بندے کو ان برائیوں سے دور کر دے جو جہنم کے قریب کرنے کا باعث بنتی
ہیں ۔
یا ارحم الراحمین! اپنی رحمت کے وسیع سائے میں اپنے بندے کو داخل کر لے۔
عملی نکات:
وہ نماز ایسی وارفتگی میں پڑه رہے تھے کہ کیا کہنے! مین نے ایسی عمدہ مکمل اور
خشوع سے بھر پور نماز اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ،نماز سے فارغ ہو کر
انہوں نے اپنے رب سے سرگوشیاں شروع کر دیں ،دلدوز آواز میں کہنے لگے :
ٰالہی تو نے مجھے اپنی مرضی سے پیدا کیا اور اپنی مرضی سے ہی اس دنیا کی
آزمائشوں میں مبتال کیا ،پھر تو خود ہی مجھ سے فرماتا ہے کہ سنبھل کر چل ۔
ٰالہی تو جانتا ہے کہ اگر مجھے یہ ساری دنیا دے دی جائے اور پھر کوئی مجھ سے تیری
رضا کی خاطر اس کا مطالبہ کر دے تومیں تیری رضا کو ترجیح دوں گا اور ساری دنیا
مطالبہ کرنے والے کو دے دوں گا ۔
سکون قلب عطا کر ۔
ِ اے رحم کرنے والے ! مجھے
ٰالہی ! میں نے تجھ سے تین چیزیں مانگی تھیں ان میں سے تو نے دو تو عطا کر دیں اور
ایک ابھی تک عطا نہیں کی ۔ ٰالہی ! وہ تیسری چیز بھی عطا کر دے تا کہ میں اپنی منشاء
کے مطابق پوری رات تیری عبادت کر سکوں ،پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور پیچھے
مڑے تو ان کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ گھبرا گئے اور بڑے ہی افسردہ لہجے میں مجھ
سے کہا کہ میرے بصری بھائی کیا تو مجھے ساری رات یہاں دیکھتا رہا ہے ؟ میں
نے کہا کہ :جی ہاں ! فرمانے لگے کہ خدارا تو نے جو کچھ دیکھا ہے کسی کو نہ بتانا
اس کو اپنے دل میں ہی چھپائے رکھنا ہللا تمہاری حفاظت کر ے اور میں نے کہا مجھے
بتاو جو تم نے ہللا سے مانگی تھیں ،دو تمھیں دی گئیں اور ایک تمھیں نہیں
وہ تین چیزیں ٔ
سے بتاو گے تو میں تمہارا راز فاش کر دوں گا اور لوگوں
ملیں ۔ اگر تم مجھے نہیں ٔ
آج تک کا پورا واقعہ بیان کر دوں گا فرمایا :تیری مہربانی آج کا یہ واقعہ کسی کو نہ
بتانا ،میں نے کہا تیری وہی شرط ہے ،جب انہوں نے میرا یہ رویہ دیکھا تو فرمایا :
مجھے ہللا کو گواہ بنا کر وعدہ دو کہ تم میری کیفیت کو کسی کے سامنے بیان نہیں کرو
گے ۔ میں نے عرض کی میں تیری زندگی میں یہ واقعہ کسی کو نہیں بتا ٔو ں گا ۔
پھر وہ فرمانے لگے کہ مجھے سب سے زیادہ خطرہ دین کو تبہ و برباد کرنے والی
عورتوں سے تھا۔ میں نے اپنے رب سے التجا کی کہ میرے دل سے عورتوں کی محبت
نکال دے ۔ ہللا نے میری یہ دعا قبول کر لی اب میری یہ حالت ہے کہ عورت اور دیوار کو
ہے؟
دیکھنا میرے لیے برابر ہے ۔ میں نے کہا! یہ تو ایک چیز ہوئی ! دوسری کیا َ
فرمانے لگے :میں نے اپنے رب سے دوسری التجا یہ کی کہ میں اس کے سوا کسی سے
نہ ڈروں تو اس نے میری یہ دعا بھی قبول کر لی ۔ اب میں عرض و سماء میں کسی سے
بھی نہیں ڈرتا ۔ پھر فرمایا میں نے ہللا سے یہ چیز مانگی کہ میری نیند ختم کر دے تا کہ
میں تیری عبادت کر سکوں لیکن میری یہ دعا قبول نہیں ہوئی ۔ جب میں نے یہ باتیں سن
لیں تو اس سے کہا آپ اپنے آپ پر رحم کیجئے آپ دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات
بھر عبادت کرتے ہیں جنت توآپکو اس سے کم عمل پر بھی مل جائے گی اور آپ جہنم
سے بچ جائیں گے ہللا کی مد د اور رحمت آپکے شام ِل حال ہے آپ اپنے آپ پر رحم
کہیں شرمسار نہ ہونا کیجیئے لیکن انہوں نے فرمایا :مجھے قیامت کے دن
پڑے۔جبکہ اس وقت شرمسار ی کوئی فائدہ نہ دے گی ۔ بخدا میں عبادت میں اپنی تمام تر
توا نایاں صرف کر دینا چاہتا ہوں ۔
عملی نکات:
الگ رہتے ہیں پہلو ان کے بستر وں سے ،وہ پکارتے ہیں اپنے رب کو خوف اور امید
کی حا لت میں اور اس میں سے جو ہم نے ان کو رزق دیا وہ خرچ کرتے ہیں ۔((کوئی
نفس نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا سامان تیار کر رکھا ہے ،یہ بدلہ
ہے اس کا جو کرتے تھے۔))
تعالی یہاں پر قرآن میں ان لوگوں کا ذکر بیان کر رہے ہیں کہ جو لوگ رات کو اٹھتے
ٰ ہللا
ہیں اور اپنے رب سے استغفار کرتے ہیں اور ان سے دعائیں اور التجائیں کر تے ہیں ۔
ت آسمان ِ خاموش
یہ رفع ِ
،جہان فراموش
ِ خوابیدہ زمیں
جسکا دل ایمان و یقین سے لبریز ہو ۔ خلیفتہ المسلمین ولید بن عبدالملک نے بڑی محبت اور
اشتیاق سے انہیں دارالخالفہ دمشق میں مالقات کی دعوت دی ۔ انہوں بصد شوق دعوت
قبول کر لی ۔
اپنے بیٹے کو ہمراہ لیا اور دمشق میں روانہ ہو گئے ۔جب وہاں پہنچے تو خلیفہ نے والہانہ
ا ن کا استقبال کیا اور انھیں شاہی مہمان کا اعزاز دیا گیا۔ پھر وہی ہوا جو ہللا کومنظور تھا
اور جو آزمائش اس نے اپنے بندے کے لیے تیار کر رکھی تھی۔ اس کی خود سے تعلق کو
مزید مضبوط کرنے اور درجات کی بلندی کے لیے وہ آزمائش انکو آپہنچی ۔ ہوا یہ کہ
زبیر کا بیٹا سواری کے شوق میں شاہی اصطبل میں داخل ہوا۔ جونہی وہ
حضرت عروہ بن ؒ
ایک مونہہ زور گھوڑے کے قریب آیا تو اس نے زور سے الت ماری جو اس کے سینے
میں لگی اور جان لیوا ثابت ہوئی پھر غموں سے نڈهال باپ جب اپنے بیٹے کے قبر پر
پاوں میں ورم
پاو ں میں اچانک شدید درد ہونے لگا ۔ ٔ
مٹی ڈال رہا تھا تو اس دوران ان کے ٔ
پیدا ہوا اور وہ بڑی تیزی سے پنڈلی کی طرف پھیلنے لگا ۔ حالت تشویشناک حد تک بگڑ
گئی ۔ خلیفۃ المسلمین ولید بن عبدا لمالک شدید پریشان ہو گئے۔ فوری طور پر شاہی اطباء
کو کہا کہ عالج پر پوری توجہ دی جائے اور اس میں ایک لمحے کی غفلت بھی نہ برتی
جائے۔ معائنے کے بعد تمام اطباء نے متفقہ فیصلہ دیا کہ ٹانگ کاٹ دی جائے ورنہ یہ
مریض کی موت کا سبب بن جائے گی ۔ جب ٹانگ کاٹنے کے لیے ایک ماہر جراح اپنے
اوزار لے کر حاضر ہوا تو طبیب نے حضرت عروہ بن زبیر ؒ سے کہا کہ ہم آپکو تھوڑی
سی شراب پالئیں گے تا کہ ٹانگ کٹنے کی تکلیف زیادہ محسوس نہ ہو ۔ آپ نے یہ بات
سن کر فرمایا ایسا قطعا ً نہیں ہو سکتا کہ حرام کے ذریعے سے اپنی عافیت کی امید نہیں
رکھتا ۔
ہللا اکبر! اس کو کہتے ہیں ہللا سے تعلق کی مضبوطی کہ مجبوری میں بھی ہللا کی نافرمانی
اور محرمات سے بچنا ۔
طبیب نے کہا کہ پھر کوئی نشہ آور چیز آپکو پال دیتے ہیں ورنہ تکلیف نہ قاب ِل برداشت ہو
گی ،آپ نے فرمایا :میں نہیں چاہتا کہ میرے جسم کا کوئی عضو اس حالت میں کاٹا جائے
کہ مجھے درد کا احساس کوئی احساس بھی نہ ہو آپ بغیر کسی نشہ آور چیز دیئے ہی
نے بہت سے اسے کاٹیں ،اس درد میں انشاءہللا مجھے ثواب ملے گا ۔ جب جراح
آدمیوں کو بالیا تو آپ نے کہا کہ یہ ہجوم کس چیز کا ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ جب آپکی
ٹانگ کاٹی جائے گی تو اس وقت آپکو سنبھالنے کے لیے ان لوگوں کی ضرورت پڑے گی
تو انہو ں نے کہا کہ میرے لیے ہللا کا نام کافی ہے تو جب انکی ٹانگ کاٹی گئی اور ان کا
گوشت کاٹا گیا اور ہڈی پر آری چالئی گئی تو انہوں نے ہللا اکبر اور الحمدہلل کہنا شروع کر
دیا اور جب ابلتے تیل میں انکی ٹانگ کو ڈاال گیا تو وہ بے ہوش ہو گئے ۔یہی موقع تھا
انکی زندگی میں جب ان سے قرآن کی تالوت نہ ہو سکی۔