You are on page 1of 57

‫انبیاءکرام کا‬

‫ؑ‬
‫تعلق باہلل‬

‫حضرت ابراہی ؑم کا تعلق باہلل‬


‫تعالی نے ان کو اپنا خلیل بنا‬
‫ٰ‬ ‫حضرت ابراہی ؑم کا ہللا سے تعلق اس قدر مضبوط تھا کہ ہللا‬
‫لیا اور ان کو جو لقب مال وہ تھا (خلیل ہللا)۔‬

‫تعالی نے ارشاد فرمایا‪:‬‬


‫ٰ‬ ‫قرآن مجید میں حضرت ابراہ ؑیم کے بارے میں ہللا‬

‫یم الَّذِي َوفَّى (سورۃالنجم‪)۳۷:‬‬


‫َوإِب َْرا ِه َ‬

‫اور ابراہی ؑم جس نے ہللا کے احکام کو پورا پورا پہنچا دیا تھا؟‬

‫معنی یہ ہے کہ ابراہی ؑم نے‬


‫ٰ‬ ‫ابن کثیر میں سعید بن جبیراور ثوری کہتے ہیں کہ اس کا‬
‫تفسیر ِ‬
‫معنی یہ‬
‫ٰ‬ ‫ان تمام کاموں کو پورا کر دیا جنکا آپکو حکم دیا گیا تھا ِ‬
‫۔ابن عباس کہتے ہیں اسکا‬
‫ہے انہوں نے ہللا کی خاطردین کو پہنچا دینے کے کام کا فریضہ ادا کیا۔قتادہ کہتے ہیں کہ‬
‫انہوں نے ہللا کی اطاعت اور مخلوق کی طرف اسکے پیغام کوپہنچا دینے کے کام کو پورا‬
‫ابن جریر نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے اور یہ سابقہ تمام اقوال پر مشتمل‬ ‫کر دیا۔امام ِ‬
‫ہے۔قرآن میں آتا ہے کہ‪:‬‬

‫ت فَأَت َ َّم ُھ َّن قَا َل ِإ ِني َجا ِعلُ َك ِللنَّ ِ‬


‫اس ِإ َما ًما(سورۃالبقرۃ‪)۱۲۴:‬‬ ‫َو ِإ ِذ ا ْبتَلَى ِإب َْرا ِه َ‬
‫یم َربُّهُ ِب َك ِل َما ٍ‬

‫اور جب پروردگار نے چند باتوں میں ابراہیم ؑ کی آزمأیش کی تو وہ ان پر پورا اترے ہللا‬
‫بناوں گا ۔‬
‫نے فرمایامیں تمہیں لوگوں کا پیشوا ٔ‬
‫آپ نے تمام اوامر کو پورا کیا‘تمام نواہی کو ترک کر دیااور ہللا کے پیغام کوبتمام و کمال‬
‫پاے کہ انسانیت کی امامت کا تاج ان‬
‫پہنچادیا‘اسی وجہ سے وہ اس بات کے مستحق قرار ٔ‬
‫جاے کہ تمام احوال ‘اقوال اور افعال میں‬
‫جاے اور ایسا امام بنا دیا ٔ‬
‫کے فرخِ ناز پر سجا دیا ٔ‬
‫جاے۔‬
‫نقش قدم پر چال ٔ‬
‫انہی کے ِ‬

‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ارشا ِد باری‬

‫یم َح ِنیفًا َو َما َكانَ ِمنَ ْال ُم ْش ِركِینَ (‪۱۲۳‬سورۃ النحل‪)۱۲۳:‬‬


‫ث ُ َّم أ َ ْو َح ْینَا ِإلَی َْك أ َ ِن ات َّ ِب ْع ِملَّةَ ِإب َْرا ِه َ‬
‫پھر ہم نےآپکی طرف وحی بھیجی کہ ِ‬
‫دین ابراہیم کی پیروی اختیار کریں جو ایک ہللا کی‬
‫طرف ہو جانے والے تھےاور مشرکین میں سے نہ تھے۔‬

‫تعالی فرماتا‬
‫ٰ‬ ‫ابوذرسے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایاکہ ہللا‬
‫ؓ‬ ‫جامع ترمذی میں ابودرداء اور‬
‫ہے‪:‬‬

‫ابن آدم!ارکع لی اربع رکعات من اول النھار‘اکفک آخرہ‬


‫ِ‬

‫لیے چار رکعات پڑه لو ‘میں دن کے آخری حصے‬ ‫ٓ‬ ‫ٓ‬


‫ابن ادم دن کے اخری حصے میں میرے ٔ‬
‫تک تجھے کفایت کروں گا۔‬

‫ابراھیم ؑ اس بات کےمستحق ہیں کہ ہللا نے انہیں اپنا خلیل قرار دیا‪:‬‬

‫قوم‬
‫ابن کثیر میں سدی نے لکھا ہےکہ جب ہللا نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ جا کر ِ‬
‫تفسیر ِ‬
‫لوط کو تباہ کر دیں تو وہ خو ب صورت نوجوان لڑکوں کی صورت میں ابراهیم ؑ کے‬
‫ابراهیم نے جب اپنے ان مہمانوں‬
‫ؑ‬ ‫ے اور اپنے آپکو مہمانوں کی شکل میں پیش کیا‬ ‫ٓ‬
‫پاس اگ ٔ‬
‫فرمالی ۔ قرآن میں آتا ہے ‪:‬‬
‫ٔ‬ ‫افزالی‬
‫ٔ‬ ‫کو دیکھا تو ان کی عزت‬

‫ین(سورۃ الذ ٰ‬
‫اریت‪)۲۶:‬‬ ‫غ إِلَى أ َ ْه ِل ِه فَ َجا َء بِ ِع ْج ٍل َ‬
‫س ِم ٍ‬ ‫فَ َرا َ‬

‫گےاور ایک موٹا تازہ بچھڑا لے آ ٔ‬


‫ے۔‬ ‫پھر چپکے سے اپنے اہل کی طرف چلے ٔ‬

‫پھر اسے ذبح کر کے گرم پتھروں پر بھون کر لے آ ٔ‬


‫ےاور خود بھی ان کے ساتھ بیٹھ‬
‫ٔگے۔آپ نے کھانا ان کے سامنے پیش کیا اور فرمایا تم کھانا کیوں نہیں کھاتے؟انہوں نے‬
‫ابراهیم نے فرمایا‪:‬ہاں‬
‫ؑ‬ ‫ابراهیم!هم تو قیمت ادا کر کے کھانا کھاتے ہیں تو‬
‫ؑ‬ ‫جواب دیا ‪:‬اے‬
‫اسکی بھی ایک قیمت ہے ۔ انہوں نے فرمایا‪:‬وہ کیا ؟ آپ نے فرمایا‪:‬وہ یہ کہ کھانا شروع‬
‫کرنے سے پہلے ہللا کے نام سے شروع کرو اور جب کھانا ختم کر لو تو ہللا کا شکر ادا‬
‫کرو۔ یہ سن کر جبرأیل نے میکا ٔیل کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ واقعی اس بات‬
‫تعالی انھیں اپنا دوست قرار دیں (ایسا ہوتا ہے تعلق ہللا سے کہ‬
‫ٰ‬ ‫کےمستحق ہیں کہ ہللا‬
‫فرشتے بھی تعریف کریں ہللا اور بندے کی دوستی پر۔‬

‫عملی نکات‪:‬‬

‫تعالی سے تعلق کی مضبوطی میں ایک‬


‫ٰ‬ ‫ابراهیم کے اس واقعےسے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہللا‬
‫ؑ‬
‫اور چیز جو معاون ثابت ہوتی ہے وہ ہے مہمان نوازی۔یہ چیز بدیہی اور عیاں ہے کہ سچا‬
‫مسلمان جسکی روح جودوسخا کی حقیقتوں سے سیراب ہوتی ہے وہ مہمان نواز بھی‬
‫ہوتا ہے۔ وہ مہمان کے آنے پر خوش ہوتاہے۔ ہللا کی طرف سے اس پر رحمت برستی ہے‬
‫اور رحمت مہمان کی آمد کی صورت میں گھر میں داخل ہوتی ہے اور وہ اسکے اکرام و‬
‫پاے جانے والے اس پاکیزہ اسالمی اخالق‬
‫ٔ‬ ‫اعزاز کی طرف لپکتا ہے اور اپنے دل میں‬
‫روز آخرت پر ایمان ہے۔‬
‫پر لبیک کہتا ہے جس کا سر چشمہ ہللا اور ِ‬

‫حدیث میں آتا ہے کہ ( من کان یومن ہ‬


‫باّٰلل والیوماالخر فلیکرم ضیفہ)‬

‫روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ مہمان کی عزت کرے ۔‬


‫جو شخص ہللا اور ِ‬
‫گویا مہمان نوازی ایمانیات اور اخالقیات کااہم حصہ ہےاور مہمان کی عزت کرنے واال‬
‫روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔‬
‫ِ‬ ‫اپنے عمل سے ثابت کرتا ہےکہ وہ ہللا اور‬

‫حدیث میں آتا ہے کہ (ال خیر فیمن ال یضیف)‬


‫کولی خیر نہیں۔‬
‫ٔ‬ ‫جو شخص مہمان نوازی نہیں کرتا ‘اس میں‬

‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫اعلی مثال قا ئم کی ہے یہاں تک کہ ہللا‬
‫ٰ‬ ‫سلف صالحین نے مہمان نوازی کی‬
‫ِ‬ ‫ہمارے‬
‫کو بھی ان کا عمل بہت پسند آیا۔ حدیث میں آتا ہے‪:‬ایک شخص نبیﷺ کی خدمت میں حاضر‬
‫ہوا۔آپﷺ نے اپنی بیویوں کو کہال بھیجا (کہ جو کھانا ہو وہ بھیج دو)سب نے جواب‬
‫دیاہمارے پاس پانی کے عالوہ اور کچھ نہیں ۔تب رسولﷺ نے صحابہ ؓ سے فرمایا‪:‬اس‬
‫صحابی نے عرض کی ‪:‬میں ۔پھر وہ‬
‫ؓ‬ ‫شخص کی کون مہمان نوازی کر سکتا ہے؟ ایک‬
‫اسے اپنے گھر لے گئےاور اپنی بیوی سے فرمایا‪:‬آپﷺ کے مہمان کی خاطر تواضع کرو‪،‬‬
‫بیوی نے کہا ‪ :‬میرے پاس بچوں کے کھانے کے عالوہ اور کچھ بھی نہیں ؛انہوں نے کہا‬
‫بچوں کو سال دینا‪،‬بیوی نے ایسا ہی کیا‪،‬کھانا تیار کیا اور بچوں کو سالدیا پھر کھڑی ہوئی‬
‫اور چراغ درست کرنے کے بہانے سےچراغ گل کر دیا اور دونوں نے مہمان کے ساتھ‬
‫بیٹھ کر یہ ظاہر کیا کہ وہ مہمان کے ساتھ کھانے میں شریک ہیں اس طرح انہوں نے‬
‫مہمان کو کھانا کھال دیا اور خود پوری رات بچوں سمیت فاقے میں گزار دی۔ جب صبح‬
‫ہولی تو وہ صحابی ؓ رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫ٔ‬
‫(لقد عجب ہلّٰلا من ضیعکمابضیفکمااللیلۃ)‬

‫تعالی کو بہت پسند‬


‫ٰ‬ ‫تم دونوں میاں بیوی نے رات اپنے مہمان کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ ہللا‬
‫علَى أَ ْنفُ ِس ِھ ْم َولَ ْو َكانَ ِب ِھ ْم‬
‫تعالی نے یہ آیت نازل کی ‪َ :‬ویُؤْ ثِ ُرونَ َ‬
‫ٰ‬ ‫آیا۔ اس پر ہللا‬

‫ش َّح نَ ْف ِس ِه فَأُولَئِ َك ُه ُم ْال ُم ْف ِل ُحونَ (‪٩‬سورۃالحشر‪)٩ :‬‬


‫صةٌ َو َم ْن یُوقَ ُ‬ ‫َخ َ‬
‫صا َ‬
‫ترجمعہ‪:‬وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں حقیقت‬
‫یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لئے ست‬

‫عملی نکات‪:‬‬

‫تو جو اس طرح کی مثالی مہمان نوازی کرے جیسا کہ اس حدیث میں بیان ہوئی اور جو‬
‫ابراهیم‬
‫ؑ‬ ‫ابراهیم ؑ کے قصے سے پتہ چلی تو ضرور اس کا تعلق ہللا سے مضبوط ہو گا ۔اور‬
‫کی اس خوبی کی وجہ سے وہ خلیل ہللا کی تعریف پر پورا اترے تو کیا ہم نہیں چاہتے کہ‬
‫ہمارابھی ہللا سے تعلق مضبوط ہو ہم بھی مہمان نوازی کے ذریعے ہللا کی تعریف کے‬
‫مستحق ہوں۔‬
‫سوچیے!آپ دنیا میں ہللا کی مخلوق کے ساتھ مہمان نوازی کا مثالی تعلق قائم کریں‬
‫ٔ‬ ‫ذرا‬
‫تعالی بھی اوپر فرشتوں کے ساتھ بیٹھ کر آپکی قائم کردہ مثالی مہمان نوازی کا‬
‫ٰ‬ ‫گےاور ہللا‬
‫تذکرہ کریں گے۔‬

‫دوست کی دوست سے مالقات کی رغبت‪:‬‬

‫حضرت ابراهیم ؑ کی روح کو قبض کرنے ملک الموت آئے تو انہوں نے فرمایا(هل رایت‬
‫خلیالًیقبض روح خلیلہ ) کیا آپ نے ایسے دوست کو دیکھا ہے جو اپنے دوست کی روح‬
‫تعالی کے پاس گئے اور‬
‫ٰ‬ ‫قبض کر ے؟ملک الموت کو یہ بات بہت عجیب لگی وہ سیدها ہللا‬
‫تعالی نے فرمایا کہ میرے حبیب سے کہہ دینا کہ کیا کوئی دوست‬
‫ٰ‬ ‫سب کچھ بتا دیا تو ہللا‬
‫ابراهیم کا ہللا‬
‫ؑ‬ ‫اپنے دوست کی مالقات کا انکار کرتا ہے تو سبحان ہللا کیسا مضبوط تعلق تھا‬
‫تعالی بھی آپکی مالقات کا شوق رکھتے تھے۔‬
‫ٰ‬ ‫سے کہ ہللا‬

‫ابراهیم اپنی بکریوں کا ریوڑ چرارہے تھےکہ ایک آدمی‬ ‫ؑ‬ ‫اسی طرح ایک مرتبہ حضرت‬
‫تعالی کی شان میں یہ الفاظ ذرا بلند آواز‬
‫ٰ‬ ‫آپکے قریب سے گزرا۔گزرتے گزرتے اس نے ہللا‬
‫آواز میں بولے‪:‬‬

‫(سبحان ذی الملک و الملکوت‪،‬سبحان ذی العزۃ والعظمۃ والھیبتہ والقدرۃ والکبریاء والجبروت)‬

‫پاک ہے وہ زمین کی بادشاہی اور آسمان کی بادشاہی واال پاک ہے وہ عزت بزرگی ہیبت‬
‫اور قدرت واال اور بڑائی اور دبدبے واال‬

‫ابراهیم نے جب اپنے محبوب حقیقی کی تعریف اتنے پیارے الفاظ میں سنی تو دل‬
‫ؑ‬ ‫حضرت‬
‫مچل اٹھا۔ فرمایا کہ اے بھائی یہ الفاظ ایک با ر اور کہہ دینا ۔ اس نے کہا مجھے اس کے‬
‫بدلے کیا دیں گے۔آپ نے فرمایا آدها ریوڑ۔اس نے یہ الفاظ دوبارہ کہہ دیے۔ آپ کو اتنا‬
‫مزہ آیاکہ بیقرار ہو کر فرمایا اے بھائی یہ الفاظ ایک مرتبہ پھر کہہ دیجئےاس نے کہااب‬
‫مجھے اس کے بدلے کیا ملے گا فرمایا بقیہ آدها ریوڑ۔اس نے وہ الفاظ دوبارہ کہہ دیے‬
‫۔آپکو پھر اتنا سرور مال کہ بے ساختہ دوبارہ بول اٹھے کہ بھائی یہ الفاظ ایک بار پھر‬
‫سے بول دو‪،‬اس نے کہا اب تو آپ کے پاس دینے کیلئےکچھ بچا بھی نہیں اب آپ مجھے‬
‫کیا دو گے۔فرمایا اے بھائی میں تیری بکریاں چرایا کروں گا تم ایک بار میرے محبوب‬
‫ابراهیم آپکو مبارک ہو میں تو ہللا کا فرشتہ ہوں مجھے‬
‫ؑ‬ ‫کی تعریف اور کر دو ۔اس نے کہا‬
‫جاو اور میرا نام لواور دیکھو کہ یہ میرے نام کے کیا دام لگاتا‬
‫ہللا نے بھیجا ہےکہ ٔ‬
‫ہے(سبحان ہللا)‬

‫عملی نکات‪:‬‬

‫ہللا کا ذکرکثرت سے کریں ‪،‬اس کے ذکر اسکے نام سے محبت کریں۔‬

‫ہللا سے چپکے چپکے سرگوشی کیا کریں یہ تعلق کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔‬

‫ٓتش نمرود میں عشق‪:‬‬


‫بے خطر کود پڑا ا ِ‬
‫دین حق کی طرف بالیا تو‬
‫ِ‬ ‫ابراهیم نے جب اپنی قوم کو اور بلخصوص نمرود کو‬
‫ؑ‬ ‫حضرت‬
‫ساری قوم سمیت نمرود آپکی جان کے دشمن بن گئے ۔نمرود نے تو ہر طرح کے دالل‬
‫اور حجتیں پیش کیں کہ آپکو ِ‬
‫دین حق سے ہٹا دیا جائے لیکن جب انکی ہر حجت ناکام ہو‬
‫گئ اور انکا عجز نمایاں ہو گیا ‪،‬حق ظاہر ہو گیا اور باطل نابود ہو گیا تو انہوں نے اپنی‬
‫حکومت کی طاقت اور قوت کو استعمال کرنا شروع کر دیا اور کہا‬

‫قَالُوا َح ِرقُوہُ َوا ْن ُ‬


‫ص ُروا آ ِل َھت َ ُك ْم ِإ ْن ُك ْنت ُ ْم فَا ِع ِلینَ (‪٦٨‬سورۃ االنبیاء‪) ۶٨:‬‬

‫ترجمعہ‪:‬‬

‫انہوں نے کہا اگر تمھیں کچھ اور کرنا ہے تو اسکو جال ڈالو اور اپنے معبو دوں‬
‫کی مدد کرو۔‬
‫پھر اسکے لئے انہوں نے بہت بڑا ایندهن تیار کیا ۔ سدی کہتے ہیں اگر ان میں سے کوئی‬
‫عورت بیمار ہوتی تو وہ نذر مانتی کہ اگر وہ صحت یاب ہو گئی تو ابراهیم ؑ کیلئے جالئی‬
‫جانے والی اس آگ میں ایندهن جھونکے گی‪،‬پھر انہوں نے اس ایندهن کوایک بہت بڑے‬
‫تھےحتی کہ اس سے‬
‫ٰ‬ ‫گڑهے میں جمع کر کےاس میں آگ لگا دی جسکے شعلے بہت بلند‬
‫پہلے کبھی ایسی آگ نہیں جالئی گئ تھی اور پھر انہوں نے فارس کے ایک کر دی اعرابی‬
‫ابراهیم کو منجنیق کے ایک پلڑے میں رکھا۔ شعیب جبائی کہتے ہیں کہ‬
‫ؑ‬ ‫کے اشارے سے‬
‫تعالی نے اسے زمین میں دهنسا دیااور وہ قیامت تک زمین میں دهنستا‬
‫ٰ‬ ‫اسکا نام ہیزن تھا ہللا‬
‫جائے گا۔ انہوں نے جب آپکو آگ میں ڈاال تو آپکی زبان پر یہ الفاظ تھےجو ہر چیز سے‬
‫انکو کافی ہو گئے(حسبی ہللا ونعم الوکیل) میرے لئے ہللا ہی کافی ہے اور وہ کتنا اچھا‬
‫ابراهیم کو آگ‬
‫ؑ‬ ‫ابن عباس سے مروی ہے کہ جب‬
‫کارساز ہے ۔سعید بن جبیر نے کہاجبکہ ِ‬
‫میں ڈاال گیاکہ بارش کے خازن فرشتے نے کہنا شروع کیا کہ مجھے کب بارش برسانے‬
‫تعالی کا حکم اس بھی کئی گنا تیز رفتار‬
‫ٰ‬ ‫کا حکم ہوتا ہے کہ میں بارش برسا دوں لیکن ہللا‬

‫سال ًما َعلَى ِإب َْرا ِه َ‬


‫یم‬ ‫تعالی نے فرمایا‪ :‬قُ ْلنَا َیا ن ُ‬
‫َار ُكو ِني َب ْردًا َو َ‬ ‫ٰ‬ ‫تھا اور وہ یہ کہ ہللا‬
‫(سورۃاالنبیاء‪)٦٩ :‬‬

‫ترجمعہ‪:‬کہہ دیا ہم نے اے آگ سرد ہو جا اور ابراهیم ؑ کیلئے موج ِ‬


‫ب سالمتی بن جا۔‬

‫ابن عالیہ کہتے ہیں کہ اگر ہللا‬ ‫تو زمین میں جو بھی آگ تھی وہ بجھ گئی ۔ ِ‬
‫ابن عباس اور ِ‬
‫ابراهیم کو‬
‫ؑ‬ ‫تعالی نے (برداً) کے ساتھ (و سلماً) نہ لگایا ہوتا تو آگ اس قدرسرد ہو جاتی کہ‬
‫ٰ‬
‫َوأ َ َراد ُوا بِ ِه‬ ‫فرمان ٰالہی ہے ‪:‬‬
‫ِ‬ ‫سردی کی شدت سے تکلیف پہنچتی‬
‫س ِرینَ (سورۃاالنبیاء‪)۷۰:‬‬ ‫َك ْیدًا فَ َج َع ْلنَا ُه ُم ْ‬
‫األخ َ‬
‫ترجمعہ‪:‬اور ان لوگوں نے ان کیساتھ مکر کیامگر ہم نے انھی کو انتہائی خسارے واال کر‬
‫دیا ۔ کیونکہ انہوں نے ہللا کے خلیل کے ساتھ مکر کرنا چاہا تھا مگر ہللا نے ان کی‬
‫تدبیروں کو خاک میں مال دیا اور حضرت ابراہیم ؑ کےلئے آگ کو گلزار بنا دیااور وہ سب‬
‫مغلوب و خاسر ہو کر رہ گئے۔‬
‫ٰ‬
‫الصلوۃ واسالم یا ابراهیم‬ ‫الی نبیہ ابراهیم علیہ‬
‫تعالی ٰ‬
‫ٰ‬ ‫کتابوں میں لکھا ہے کہ (اوحی ہللا‬
‫انک لی خلیل فاحذران اطلع علی قلبک فاجد مشغوال بغیری فیقطع حبک منی فانی انما‬
‫ابراهیم کی طرف‬
‫ؑ‬ ‫اختیارلجی من لواحرقتہلم یلتفت قلبہ عنی) ہللا رب العزت نے اپنے نبی‬
‫ابراهیم!آپ میرے خلیل ہیں ۔اس بات سے پرہیز کرنا کہ میں آپ‬
‫ؑ‬ ‫وحی نازل کی کہ اے‬
‫پاوں اس لئے کہ جسکو میں اپنی محبت کیلئے‬
‫کے قلب کو کسی غیر کے ساتھ مشغول ٔ‬
‫چن لیتا ہوں تو وہ ایسا ہوتا ہے کہ اگر اسکو آگ میں جال بھی دیا جائے تو بھی اسا قلب‬
‫ابراهیم کو آگ میں ڈاال جا رہا تھا تو‬
‫ؑ‬ ‫میری طرف سے کہیں اور متوجہ نہیں ہوتا۔ جب‬
‫!ابراهیم کے دل میں آپکی کتنی محبت ہے کہ‬
‫ؑ‬ ‫فرشتے تعجب سے کہنے لگےکہ اے ہللا‬
‫آپکی محبت کی وجہ سے وہ آگ میں ڈالے جا رہے تھے لیکن انہوں نے اسباب کی پرواہ‬
‫تعالی نے فرشتوں سے فرمایا تم‬
‫ٰ‬ ‫تک نہیں کی اے ہللا آپ انکی مدد فرما دیجئے مگر ہللا‬
‫جاو اور اسکو اپنی مدد پیش کرو پھر اگر میرا خلیل مدد قبول کرے تو‬
‫ابراهیم ؑ کے پاس ٔ‬
‫اسکی مدد کر دینا ‪،‬ورنہ خلیل جانے اور خلیل کا رب جانے کیونکہ یہ میرا اور میرے‬
‫ابراهیم کے پاس آکر مدد پیش کی مگر‬
‫ؑ‬ ‫خلیل کا معاملہ ہے(سبحان ہللا ) چناچہ فرشتوں نے‬
‫آپ ؑ نے ان کی بات سن کر فرمایا‪(:‬ال حاجتہ لی الیکم)مجھے تمہاری کوئی حاجت نہیں‬
‫ابراهیم نے فرمایا!اے جبرأیل آپ‬
‫ؑ‬ ‫‪،‬پھر جبرأیل ؑ حاضر ہوئے اور امداد پیش کی‪،‬حضرت‬
‫اپنی مرضی سے آئے ہیں یا ہللا رب العزت نے بھیجا ہے ؟جبرا عیل ؑ نے عرض کیا !‬
‫تعالی نے فرمایا ہے کہ اگر وہ مدد قبول کریں‬
‫ٰ‬ ‫میں تو ہللا کی مرضی سے آیا ہوں مگر ہللا‬
‫ابراهیم کس‬
‫ؑ‬ ‫ابراهیم نے فرمایا‪:‬نہیں جب میرے ہللا کو معلوم ہے کہ‬
‫ؑ‬ ‫تو مدد کر دینا ۔ حضرت‬
‫حال میں ہے ‪،‬میرا مالک جانتا ہے کہ مجھے اس کے نام پر آگ میں ڈاال جا رہا ہے لہذا‬
‫میں اس آگ میں جانا ہی پسند کروں گا ۔ جب فرشتے انکا جواب سن کر واپس چلے گئے‬
‫ابراهیم کیلئے ٹھنڈی ہو جا اور‬
‫ؑ‬ ‫تعالی نے آگ سے مخاطب ہو کر فرمایا ‪:‬اے آگ تو‬
‫ٰ‬ ‫تو ہللا‬
‫سالمتی والی بن جا۔‬

‫ایوب کا تعلق باہلل‬


‫ؑ‬ ‫حضرت‬

‫تعالی نے مختلف قسم کی آزمائشوں میں ڈاال تو انہوں نے صبر سے کام‬


‫ٰ‬ ‫سیدنا ایوب ؑ کو ہللا‬
‫حرف شکایت اپنی زبان پر نہ الئے اور نہ ہی ان کے دل مین شکوہ کا‬
‫ِ‬ ‫لیا اور ایک بھی‬
‫کوئی گذر ہوا۔ آپ کسی بیماری اور شدید تکلیف میں مبتال ہو گئے‪ ،‬اور کئی سال تک اسی‬
‫حال میں رہے ۔‬

‫ایوب صبر کا مظاہرہ کرتے رہے ‪،‬ہللا سے تعلق مضبوط کیا‪:‬‬


‫ؑ‬ ‫سیدنا‬

‫تعالی کا ارشاد ہے‪:‬‬


‫ٰ‬ ‫صبر ایوب ضرب المثل ہے۔ہللا‬
‫ِ‬ ‫ایوب ؑ حد درجہ صابر تھےح ٰتی کہ‬

‫صا ِب ًرا ِن ْع َم ْال َع ْبد ُ ِإنَّهُ أَ َّو ٌ‬


‫اب (‪٤٤‬سورۃ ص‪)۴۴:‬‬ ‫ِإنَّا َو َج ْدنَاہُ َ‬

‫ترجمعہ‪:‬بے شک ہم نے اسے صابر پایا‪(،‬وہ)اچھا بندہ تھا‪،‬بیشک وہ ہللا کی طرف سے رجوع‬


‫کرنے واال تھا۔‬

‫ایوب اور دعا کے ذریعے تعلق باہلل ‪:‬‬


‫ؑ‬

‫ایوب نے رب العالمین کے حضور تضرع اور آہ زاری کرتے‬


‫ؑ‬ ‫جب تکلیف بہت بڑه گئی تو‬
‫ہوئے دعا کی‪:‬‬

‫اح ِمینَ (‪٨۳‬سورۃ االنبیاء‪ )٨۳ :‬ترجمعہ‪(:‬بےشک مجھے‬ ‫ت أ َ ْر َح ُم َّ‬


‫الر ِ‬ ‫ي الض ُُّّر َوأ َ ْن َ‬ ‫أ َ ِني َم َّ‬
‫س ِن َ‬
‫تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے واال ہے۔)‬

‫ایوب کی آزمائش کی تو ان کا اہل و‬


‫ؑ‬ ‫تعالی نے جب سیدنا‬
‫ٰ‬ ‫یزید بن میسرہ کہتے ہیں کہ ہللا‬
‫مال اور اوالد سب کچھ چھن گیااور کچھ باقی نہ رہا تو انہوں نے ہللا کا خوب احسن انداز‬
‫میں ذکر کیا اور بارگا ِہ ٰالہی میں عرض کیا‪:‬اے رب االرباب ! میں تیری ہی تعریف کرتا‬
‫حتی کہ دل کے ہر‬
‫ہوں ‪ ،‬تو نے مجھ پر احسان فرمایا ‪ ،‬مجھے مال واوالد سے نوازا ٰ‬
‫حصے میں مال و اوالد کی محبت رچ بس گئ تھی‪،‬اب جب کہ تو نے یہ سارا مال اور اوالد‬
‫واپس لے لیا‪،‬ان کی محبت سے میرا دل خالی کر دیا ہےتو اب میرے اور تیرے درمیان‬
‫کوئی چیز حائل نہیں ہے‪ ،‬تو نے میرے ساتھ جو کیا ہے اگر میرے دشمن ابلیس کو اس‬
‫ایوب کی اس بات سے بہت‬
‫ؑ‬ ‫بات کا علم ہو جا ئےتو وہ مجھ سے حسد کرنے لگے۔ابلیس کو‬
‫پریشانی ہوئی ۔ سیدنا ایوب ؑ نے باگا ِہ ٰالہی میں یہ بھی عرض کیا ‪:‬اے ہللا تو نے مجھے مال‬
‫واوالد عطا فرمایا لیکن میرے دروازے پر کبھی کوئی ایسا شخص نہیں ہوا جس پر میں‬
‫لیے جب بستر بچھایا جاتا تھا‬
‫ظلم کیا ہو اور تجھے بھی اس بات کا خوب علم ہے کہ میرے ٔ‬
‫تو اپنے جی میں کہتا ‪:‬اے میر ی جان تجھے بستروں پرآعام کرنے کیلئے پیدا نہیں کیا‬
‫گیاتو میں تیری رضا اور خشنودی کیلئے بستر ترک کر دیتا تھا۔‬

‫صبر کا پھل اور ہللا کی رحمت کی برکھا‪:‬‬

‫شرف قبو لیت سے سرفراز فرمایااور حکم دیا کہ اپنی جگہ‬


‫ِ‬ ‫تعالی نے آپکی دعا کو‬
‫ٰ‬ ‫چناچہ ہللا‬
‫تعالی نے ایک چشمہ‬
‫ٰ‬ ‫سے اٹھیں اور اپنی ٹانگ زمین پر ماریں ۔آپ نے ایسا ہی کیا تو ہللا‬
‫جاری فرما دیا اور حکم دے دیا کہ اس سے غسل کریں ‪،‬آپ نے غسل کیا تو آپ کی ساری‬
‫تعالی ہے کہ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫تکلیف دور ہو گئی‪،‬چناچہ ارشا ِد باری‬

‫اردٌ َوش ََر ٌ‬


‫اب(سورۃ ص‪)۴۲ :‬‬ ‫ار ُك ْ‬
‫ض ِب ِر ْج ِل َك َهذَا ُم ْغت َ َ‬
‫س ٌل َب ِ‬ ‫ْ‬

‫ترجمعہ ‪ :‬ہم نے کہا زمین پر الت مارو (دیکھو ) یہ (چشمہ نکل آیا) نہانے کو ٹھنڈا اور‬
‫پینے کو( شیریں )۔‬

‫حتی کہ‬
‫ایوب اٹھارہ سال بیماری میں رہے ٰ‬
‫ؑ‬ ‫رسولﷺ کا ارشا ِد گرامی قدر ہے ‪ :‬ہللا کے نبی‬
‫دور قریب کے رشتہ دار سب چھو ڑ گئے ‪ ،‬دو ا ٓدمیوں کے عالوہ ۔۔۔۔۔آپ قضائے حاجت کے‬
‫حتی کہ آپ واپس آجاتے۔ ایک دن اس سے‬
‫لئے نکلتے تو آ ؑپ کی بیوی ہاتھ کا سہارا دیتیں ٰ‬
‫پاوں زمین پر مارو‪ ،‬یہ‬
‫تعالی نے وحی نازل فرمائی(ارلض برجلک) اپنا ٔ‬
‫ٰ‬ ‫دیر ہو گئی تو ہللا‬
‫نہانے اور پینے کے لیے ٹھنڈا پانی ہے۔ بیوی دیر سے پہنچیں تو دیکھنے لگ گئیں ‪،‬سیدنا‬
‫ایوب ؑ اسکی طرف آئےجبکہ ہللا نے بیماری بالکل ختم کر دی تھی اور اب وہ بہت خوب‬

‫صورت حالت میں تھے۔ بیوی آپ کو دیکھ کر کہنے لگیں ‪،‬کیا آپ نے ہللا کے ؑ‬
‫نبی کو دیکھا‬
‫ہےجو یہاں بیماری کی حالت میں موجود تھے؟اور ہللا کی قسم جب وہ صحیح تھے تو وہ‬
‫آپ سے سب سے زیادہ مشابھت رکھتے تھے‪،‬تو انہوں نے فرمایا ‪:‬وہ میں ہی ہوں ۔سیدنا‬
‫ایوب کے دو کھلیان تھے ‪ ،‬ایک گندم کا اور دوسرا جو َ کا ‪،‬پس ہللا نے دو بادل بھیجے۔ایک‬
‫ؑ‬
‫بادل گندم کے کھلیان پر آیا ‪،‬اس نے سونا برسایا ٰ‬
‫حتی کہ وہ لبا لب بھر گیا۔پھر دوسرے نے‬
‫حتی کہ وہ بھی مکمل طور پر چاندی سے بھر گیا۔‬
‫جو کے کھیت پر چاندی برسائی ٰ‬
‫َ‬

‫تعالی نےایوب ؑ کوجب‬


‫ٰ‬ ‫سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬ہللا‬
‫تعالی نے ان پر سونے کی مکڑی(ٹڈی)کی بارش نازل‬
‫ٰ‬ ‫عافیت عطا فرمادی تو ہللا‬
‫فرمائی‪،‬آپ انہیں ہاتھ سے پکڑ پکڑ کرکپڑے میں جمع کرنے لگے ‪،‬آپ سے کہا گیا‪:‬اے‬
‫ایوب!کیا آپ سیر نہیں ہوئے؟آپ نے عرض کیا ‪:‬اے ہللا ! آپ کے فضل اور رحمت سے‬
‫ؑ‬
‫کون سیر ہو سکتا ہے؟۔‬

‫پھر ہللا تعالی ٰ نے آپکو اوالد بھی عطا کر دی اور ان کے ساتھ اتنے ہی مزید بخشے۔ ہللا‬
‫تعالی کا ارشاد ہے ‪:‬‬
‫ٰ‬

‫ض ٍر َوآتَ ْینَاہُ أ َ ْهلَهُ َو ِمثْ َل ُھ ْم َم َع ُھ ْم َر ْح َمةً ِم ْن ِع ْن ِدنَا َو ِذ ْك َرى‬


‫ش ْفنَا َما بِ ِه ِم ْن ُ‬
‫فَا ْست َ َج ْبنَا لَهُ فَ َك َ‬
‫ِل ْلعَابِدِینَ (سورۃ االنبیاء‪)٨۴ :‬‬

‫ترجمعہ‪:‬اور ہم نے اسکو اہلو عیال بھی دیے اور اپنی طرف سے مہربانی کے لئے ان کے‬
‫ساتھ اتنے ہی اور بھی عطا کیے۔‬

‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫یہ ان کے صبر وثبات ‪،‬انابت ‪،‬تواضع اور اظہار مسکنت کی وجہ سے رحمت باری‬
‫اور اہل عقل وخرد کے لیےنصیحت تھی تا کہ وہ جان لیں کہ صبر کا انجام کشادگی‬
‫‪،‬کامیابی اور راحت ہے۔‬
‫ب (سورۃ‬ ‫قرآن مجید میں آتا ہے‪َ :‬و َو َه ْبنَا لَهُ أ َ ْهلَهُ َو ِمثْلَ ُھ ْم َم َع ُھ ْم َر ْح َمةً ِمنَّا َو ِذ ْك َرى ألو ِلي ْ‬
‫األلبَا ِ‬
‫ص‪)۴۳ :‬‬

‫ترجمعہ‪:‬اور ہم نے ان کو اہل و عیال اور ان کے ساتھ ان کے برابراور بخشے (یہ) ہماری‬


‫طرف سے رحمت اور عقل والوں کے لیے نصیحت تھی۔‬

‫عملی نکات‪:‬‬

‫ایوب کا ہللا سے تعلق کہ جسکی بناء پر وہ مفلسی کی آزمائش پر بغیر بے صبرا پن‬
‫ؑ‬ ‫یہ تھا‬
‫دکھائے پورا اترےہم بھی ہللا سے تعلق مضبوط کر سکتے ہیں مندرجہ ذیل خوبیوں کو اپنا‬
‫کر‪:‬‬

‫‪۱‬۔خوشی اور غم دونوں حالتوں میں ہللا کی رضا میں راضی رہنا ۔‬

‫‪۲‬۔ کوئی شکوہ شکایت منہ سے نہ نکالنا ۔‬

‫‪۳‬۔ہللا سے بہت زیادہ دعا کرنا ۔‬

‫‪۴‬۔نعمت کے چھن جانے پر بھی راضی رہنا اور ہللا کا شکر ادا کرنا ۔‬

‫آپﷺ کا تعلق باہلل‬

‫تعالی چاہتا ہے کہ اس سے محبت کرنے والے ‪،‬اس کے محبوب ‪،‬جناب‬


‫ٰ‬ ‫ق کائنات‪ ،‬ہللا‬
‫خال ِ‬
‫اداوں پر عمل‪،‬اور ان کے ذریعے پھر ہللا کا قرب حاصل کریں ‪،‬اور‬
‫محمد رسول ہللاﷺ کی ٔ‬
‫خطاوں اور غلطیوں پر معافی کا قلم پھرا کر جنت الفردوس کے وارث‬‫ٔ‬ ‫اپنی زندگیوں کی‬
‫بن جائیں ۔ قرآن مجید میں آتا ہے‪:‬‬

‫لّٰلاُ َو َی ْغ ِف ْر َل ُك ْم ذُنُو َب ُك ْم َو َّ‬


‫لّٰلاُ َغفُ ٌ‬
‫ور َر ِحی ٌم (سورۃ ال‬ ‫قُ ْل ِإ ْن ُك ْنت ُ ْم ت ُ ِحبُّونَ َّ َ‬
‫لّٰلا فَات َّ ِبعُو ِني ی ُْح ِب ْب ُك ُم َّ‬
‫عمران‪)۳۱۳۱:‬‬
‫ترجمعہ‪ :‬کہہ دیجئے ! کہ اگر تم ہللا سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری پیروی کرو ہللا بھی‬
‫تم سے محبت کرے گا اور وہ تمہارے گناہوں کو معاف فرما دے گا ‪ ،‬اور ہللا بہت بخشنے‬
‫واال نہایت رحم کرنے واال ہے۔‬

‫اس آیت مبارکہ میں یہی ِ‬


‫رمز ِ محبت بتایا گیا ہے۔‬

‫ہللا کی شکر گزاری مضبوط تعلق کا ذریعہ‪:‬‬

‫صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ آپﷺ رات کو اتنا لمبا قیام‬


‫ؓ‬ ‫سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ اور سیدہ عائشہ‬
‫فرماتے کہ آپ کے ٔ‬
‫پاوں مبارک بوجہ ورم پھٹنے لگتے۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے‬
‫تعالی (غفورورحیم)‬
‫ٰ‬ ‫عرض کیا ‪ :‬اے ہللا کے رسولﷺ !آپ ایسا کیوں کرتے ہیں ‪،‬حاالنکہ ہللا‬
‫نے تو آپکی اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دی ہیں ‪،‬تو آپﷺ نے کیا فرمایا‪:‬‬

‫(افال اکون عبدا ً شکوراً)‬

‫تو کیا میں ہللا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ۔‬

‫خشیعت ِ ٰالہی سے گریہ زاری‪:‬‬

‫شخیر سے روایت ہے کہ میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا‪،‬اور آپﷺ‬


‫ؓ‬ ‫سیدنا عبدہللا بن‬
‫نماز پڑه رہے تھے ۔(میں نے دیکھا کہ )آپ کے سینے سے رونے کی وجہ سے اس طرح‬
‫آواز نکل رہی تھی ‪،‬جیسے شولہے پر رکھی ہوئی ہنڈیا سے نکلتی ہے۔‬

‫اعلی مقام اور تعلق باہلل ‪:‬‬


‫ٰ‬ ‫عبودیت کا‬

‫علی سے مروی ہے کہ (بدر کے دن مقداد کے عالوہ ہمارے ساتھ کوئی بھی گھڑ سوار‬
‫سیدنا ؓ‬
‫نہیں تھا ۔ ہم سے ہر شخص گہری نیند سویا ۔ سوائے ہللا کے نبی ﷺ کے ‪،‬جو ایک درخت‬
‫کے نیچے بیٹھ کر ساری رات ہللا کی عبادت کرتے اور روتے رہے۔‬

‫ہللا کی معیت کا کامل یقین‪:‬‬


‫(سفر ِِ ِِ ہجرت میں)‬
‫ِ‬ ‫ابوبکر نے بیان فرمایا‬
‫ؓ‬ ‫سیدنا براءبن عازب ؓ روایت کرتے ہیں کہ سیدنا‬
‫ہم روانہ ہوئے تو لوگوں نے ہمارا تعاقب کیا ۔ ان میں سے صرف سراقہ بن مالک اپنے‬
‫گھوڑے پر سوار ہمارے قریب پہنچ گیا۔ میں نے عرض کیا ‪ :‬اے ہللا کے رسولﷺ! یہ ہمارا‬
‫تعاقب کرتے ہوئے ہمارے قریب آ پہنچا ہے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا (ال تحزن ان ہللا معنا)‬
‫غم ن ہ کر ہللا ہمارے ساتھ ہے۔ وہ ہماعے اس قدر نزدیک پہنچ گیا کہ ہمارے اور اس کے‬
‫ؓ‬
‫صدیق فرماتے ہیں ‪:‬میں‬ ‫درمیان ایک ‪،‬دو نیزوں کے برابر فاصلہ رہ گیا ۔ حضرت ابوبکر‬
‫نے عرض کیا اے ہللا کر رسولﷺ! یہ ہم تک آپہنچا ہے ‪،‬اور ساتھ ہی میں رونے لگا ۔آپﷺ‬
‫نے فرمایا ‪ :‬تم کیوں روتے ہو؟میں نے عرض کیا ‪،‬ہللا کی قسم ! میں اپنی جان کو خطرے‬
‫۔(ابوبکر‬
‫ؓ‬ ‫میں دیکھ کر نہیں رو رہا‪ ،‬بلکہ آپکی سالمتی کو خطرے میں دیکھ کر رو رہا ہوں‬
‫تعالی سے مدد کی دعا کی ‪:‬اے ہللا! جس طرح آپ پسند کریں‬
‫ٰ‬ ‫نے) بیان کیا کہ نبیﷺ نے ہللا‬
‫ہمارے لیے اس کے مقابلے میں کافی ہوجا۔ آپﷺ کی دعا کے نتیجے میں اس کے گھوڑے‬
‫کی ٹانگیں سخت زمین میں پیٹ تک دهنس گئیں ۔‬

‫مصائب ومشکالت میں صبر کا اظہار اور تعلق باہلل‪:‬‬

‫سیدنا انس ؓ سے مروی ہے کہ نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا ‪ :‬مجھے ہللا کی راہ میں اس‬
‫قدر اذیت دی گئی کہ کسی اور کو اس قدر اذیت نہیں دی گئی‪،‬اور مجھے ہللا کے راستے‬
‫میں اس قدار ڈرایا گیا کہ اتنا کسی اور کو خوف زدہ نہیں کیا گیا۔ مجھ پر تین دن اور راتیں‬
‫ایسی گزریں کہ میرے اور بالل ؓ کے پاس اتنا کھانا بھی نہ تھا کہ جسے کوئی جگر واال‬
‫کھائے۔ وہ اتنا کم ہوتا تھا کہ جسے بالل ؓ بغل میں چھپا لیتے تھے۔‬

‫رضائے ٰالہی کی تالش‪:‬‬

‫نمازتہجد میں یہ دعا پڑها‬


‫سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ رسول ہللا ﷺ نے ِ‬
‫کرتے تھے‪:‬‬
‫(اللہم انی اعوذبک برضاک من سخطک ‪،‬وبمعافاتک من عقو بتک ‪ ،‬واعوذبک منک ‪،‬ال‬
‫احصی ثناء علیک ‪ ،‬انت کما أثنیت علی نفسک)‬

‫اے ہللا ! میں تیری رضا کے ذریعے تیرے غصے سے پناہ مانگتا ہوں ‪،‬اور تیری معافات‬
‫کے ذریعہ تیری عقاب سے ‪،‬اور اے ہللا ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں ‪ ،‬میں تیری ثناء اس‬
‫طرح بیان نہیں کر سکتا جیسا کہ تو نے خود اپنی ثنا ء بیا ن کی ۔‬

‫قرآن کریم کی خوش ادائی سے تالوت اور تعلق باہلل ‪:‬‬

‫ؓ‬
‫مغفل سے سنا ‪،‬وہ فرماتے تھے کہ میں‬ ‫معاوہ بن قر ؒۃ فرماتے ہیں ‪:‬میں نے سیدنا عبدہللا بن‬
‫نے نبیﷺ کو فتح مکہ کے دن اپنی سوواری پر بیٹھے یہ پڑهتے ہوئے سنا ‪ِ ( :‬إنَّا فَت َ ْحنَا لَ َك‬
‫لّٰلاُ َما تَقَد ََّم ِم ْن ذَ ْن ِب َك َو َما تَأ َ َّخ َر) (سورۃالفتح‪)۱،۲:‬‬
‫فَتْ ًحا ُم ِبینًا)( ِلیَ ْغ ِف َر لَ َك َّ‬

‫آپﷺ یہ آیات دهرا دهرا کر پڑه رہے تھے۔معاویہ بن قر ؒۃ کہتے ہیں ‪ ،‬اگر مجھے ڈر نہ ہوتا‬
‫کہ لوگ میرے اردگرد جمع ہو جائیں گے‪ ،‬تو میں اسی طرح تم کو قرأت اور تجویدو تحسین‬
‫کے ساتھ پڑه کر سناتا۔‬

‫تواضع‪:‬‬

‫مریضوں کی عیادت کرنا بھی تواضع کا نمونہ ہے ۔سیدنا جابر بن عبدہللا ؓ سے مروی ہے‬
‫‪،‬وہ فرماتے ہیں کہ عسول ہللا ﷺ میرے پاس تشریف الئےتو آپ نہ خچر پر سوار تھے نہ‬
‫ترکی گھوڑے پر (بلکہ آپ پیدل تشریف الئے)۔‬

‫ت طیبہ کے آخری لمحات میں ہللا سے تعلق‪:‬‬


‫حیا ِ‬

‫االعلی)‬
‫ٰ‬ ‫ت طیبہ کے آخری الفاظ یہ تھے ‪(:‬اللھم اغفرلی وارحمنی والحقنی بالرفیق‬
‫حیا ِ‬

‫اے ہللا میرے گناہ معاف فرما ‪ ،‬مجھ پر رحم فرما اور مجھے بلند پایا رفقاء سے مال دے۔‬
‫صحا بہ کرام ؓ کا‬
‫تعلق باہلل‬

‫ؓ‬
‫صدیق کا تعلق باہلل‬ ‫حضرت ابوبکر‬
‫صدیق سے غا ر میں فرمایا تھا ‪:‬ان دو کے بارے میں آپ کا‬
‫ؓ‬ ‫رسول ہللا ﷺنے سیدنا ابوبکر‬
‫کیا خیال ہے جن کا تیسرا ہللا ہے‬

‫صدیقہ سے روایت مروی ہے‪،‬رسول ہللا نے مجھ سے فرمایا‪ :‬اپنے والد اور‬
‫ؓ‬ ‫سیدہ عائشہ‬
‫بالو تا کہ میں کوئی تحریر لکھوں ‪،‬کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کوئی‬
‫بھائی کو میرے پاس ٔ‬
‫آرزو کرنے واال آرزو نہ کرے‪،‬اور کوئی کہنے واال کہے کہ میں سب سے بہتر ہوں ۔‬
‫حاالنکہ ہللا اور سب اہل ایمان ‪،‬ابوبکر کے سوا سب کا انکار کر یں گے۔‬

‫سیدنا عبدہللا بن مسعودؓ فرماتے ہیں ‪ :‬رسول ہللاﷺ نےفرمایا‪:‬‬

‫تعالی کا‬
‫ٰ‬ ‫ابوبکر کو بناتا۔بالشبہ تمہارا ساتھی ہللا‬
‫ؓ‬ ‫اگر میں نے کسی کو دوست بنانا ہوتا تو‬
‫دوست ہے۔‬

‫علی بن ابی طالب فرماتےہیں ‪:‬ہم رسول مکرمﷺکے ہمراہ تھے کہ اچانک سیدنا‬
‫سیدنا ؓ‬
‫عمر نظر آگئےتو رسول ہللا ﷺ نے فرما یا‪:‬یہ دونوں انبیاءاور رسولوں‬
‫ابوبکر اور ؓ‬
‫کےعالوہ باقی تمام اگلے پچھلے بوڑهے جنتیوں کے سردار ہیں ‪،‬اے علی ! ان دونوں کو‬
‫مطعم فرماتے ہیں کہ ‪ :‬ایک عورت آپﷺ کے پاس آئی‬
‫ؓ‬ ‫یس کی خبر نہ دینا ۔سید نا جبیربن‬
‫اور اس نے کسی معاملے میں آپ سے گفتگو کی ‪،‬آپﷺ نے اس کسی بات کا حکم فرمایا‬
‫پاو ں تو؟آپﷺ نے‬
‫‪،‬اس نے کہا ‪:‬اے ہللا کے رسولﷺ آپ کا کیا خیال ہے اگر آپ کو نہ ٔ‬
‫فرمایا ‪ :‬اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر کے پاس چلی جانا۔‬

‫ابوبکر رسول ہللا ﷺ کے پاس حا ضر ہوئے تو آپ ﷺ نے‬


‫ؓ‬ ‫عائشہ فرماتی ہیں ‪:‬‬
‫ؓ‬ ‫سیدہ‬
‫تعالی نے تجھ کو آگ سے آزاد کر دیا ہے ۔ اس دن سے ابوبکر ؓ کا لقب عتیق‬
‫ٰ‬ ‫فرمایا‪:‬ہللا‬
‫پڑه گیا۔‬

‫عمل بالقرآن اور تعلق باہلل‪:‬‬


‫مسطح سیدنا ابوبکر ؓ کے رشتہ دار تھے اس لیے وہ ان کی کفالت کرتے تھے‪،‬لیکن‬
‫ؓ‬ ‫سیدنا‬
‫جب سیدہ عائشہ ؓ پر تہمت لگانے والوں کی ہاں میں ہاں مالئی تو انہوں نے ان کی کفالت‬
‫سے ہاتھ کھینچ لیا ۔اس پر آیت نازل ہوئی‪:‬‬

‫سبِی ِل َّ‬
‫لّٰلاِ‬ ‫اج ِرینَ فِي َ‬ ‫سعَ ِة أ َ ْن یُؤْ تُوا أُو ِلي ْالقُ ْربَى َو ْال َم َ‬
‫ساكِینَ َو ْال ُم َھ ِ‬ ‫ض ِل ِم ْن ُك ْم َوال َّ‬‫َوال یَأْت َ ِل أُولُو ْالفَ ْ‬
‫ور َر ِحی ٌم (‪۲۲‬سورۃالنور‪)۲۲:‬‬ ‫غف ُ ٌ‬ ‫لّٰلاُ َ‬ ‫َو ْلیَ ْعفُوا َو ْلیَ ْ‬
‫صفَ ُحوا أَال ت ُ ِحبُّونَ أ َ ْن َی ْغ ِف َر َّ‬
‫لّٰلاُ َل ُك ْم َو َّ‬

‫ترجمعہ‪:‬اور تم میں دولت مند لوگ قرابتداروں ‪،‬مسکینوں اور مہاجرین فی سبیل ہللا کو دینے‬
‫کی قسم نہ کھا بیٹھیں اور عفودرگزر کریں ‪،‬کیا تم لوگ یہ پسید نہیں کرتے کہ ہللا تمہاری‬
‫مغفرت کرے ۔اور ہللا مغفرت کرنے واال اور رحم کرنے واال ہے۔‬

‫اور اب سیدنا ابوبکر ؓ ان کے مصارف کے کفیل ہو گئےاور کہا ‪ :‬ہاں! مجھے یہی پسند ہے‬
‫کہ ہللا میری مغفرت کرے۔‬

‫زہدو تواضع کے ذریعے تعلق باہلل‪:‬‬

‫سالطین و امراء کے جاہو جالل سے اگرچہ انسان دفعت ًہ مرعوب ہو جاتا ہے لیکن حقیقی‬
‫اطاعت اور اصل محبت زہدوتواضع کے ذریعے سے ہی پیدا ہو سکتی ہے ۔صحابہ ؓ کے‬
‫دور خالفت میں اگرچہ دنیا نے ان کے سامنےاپنے خزانے اگل دیے‪،‬تاہم انھوں نے اپنی‬
‫ِ‬
‫قدیم سادگی اور خاکساری کو ہمیشہ قائم رکھا اس لیے عرب کی غیور طبیعتوں کو انکی‬
‫ابوبکر خالفت سے قبل‬
‫ؓ‬ ‫اطاعت اور فرما بزداری سے کبھی عارو استنکاف نہیں ہوا۔ سیدنا‬
‫ب خالفت سے ممتاز ہوئے تو ایک لڑکے نے کہا‪:‬اب وہ ہماری‬
‫بکریاں دوہا کرتے تھے منص ِ‬
‫بکریاں نہ دوہیں گے‪ ،‬انھوں نے سنا تو بولے ‪:‬ہللا کی قسم ضرور دوہوں گا ‪،‬ہللا نے چاہا تو‬
‫امور خالفت کو بھی انجام دیتے‬
‫ِ‬ ‫خالفت میری قدیم حالت میں تغیر نہ پیدا کرے گی چناچہ‬
‫تھے اور ان کی بکریاں بھی دوہتے تھے‪،‬بلکہ اگر ضرورت ہوتی تو ان کو چرا کر بھی‬
‫التے تھے۔‬
‫زہدو عبادت کا یہ حال تھا کہ اکثر راتیں قیام میں ‪،‬اکثر دن روزے میں گزارتے تھے ۔خشوع‬
‫و خضو ع کا یہ عالم تھا کہ نماز کی حالت میں چوب خشک نظر آتے تھے۔رقت اتنی طاری‬
‫ہو جاتی کہ روتے روتے ہچکی بنده جاتی ۔عبرت پذیری کا یہ حال تھا کہ دنیا کا ذرہ ذرہ‬
‫ان کے لیے عبرت ِ دفتر تھا ۔ کوئی سر سبز درخت دیکھتے تو فرماتے ‪،‬کاش میں درخت‬
‫ہوتا کہ آخرت کے خطروں سے محفوظ رہتا۔‬

‫چڑیوں کو چہچہاتے دیکھتے تو فرماتے ‪ ،‬پرندوخوش نصیب ہو کہ دینا میں چرتے چگتے‬
‫اور درختوں کے سائے میں بیٹھتےہو اور قیا مت کے محاسبہ کا کوئی خطرہ نہیں ‪،‬کاش‬
‫ابو بکر ؓ تمھاری طرح ہوتا ‪،‬بات بات پر آہ سرد کھینچتے تھے ‪ ،‬یہاں تک کہ اواہ لقب ہو‬
‫گیا۔‬

‫عمر کا تعلق باہلل‬


‫ؓ‬ ‫سیدنا‬

‫تعالی اور آخرت پر ایمان‬


‫ٰ‬ ‫ق اعظم کی شخصیت کی سب سے بڑی خوبی ان کا ہللا‬
‫فارو ِ‬
‫تھا ۔ یہی وہ خو بی تھی جسکی وجہ سے ان کی طبیعت میں نا قاب ِل یقین حد تک نہایت‬
‫ب خاص کی وجہ سے ان کی شخصیت‬
‫حیرت انگیز توازن پایا جاتا ہے ۔ اسی سب ِ‬
‫ب نظر بن گئی تھی۔ اسی لیے ان کی زبردست طاقت ان کی عدالت پر ان کی‬
‫انتہائی جاز ِ‬
‫حاکمیت ان کے ترحم پر اور ان کی ماداری ان کی عاجزی پر غلبہ نہ پا سکی اور وہ ہللا‬
‫کی طرف سے تائید و نصرت کے مستحق قرار پائے۔ انھوں نے کلمہ ٔ تو حید میں پا ئی‬
‫جانے والی تمام مغلوبہ شرألط یعنی علم ‪ ،‬یقین اور اطا عت شعاری کو دلو جاں سے تسلیم‬
‫کلمہ توحید اور ایمان کی حقیقت کا مکمل ادراک رکھتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ‬
‫کیا۔ وہ ٔ‬
‫ان کی زندگی کے ہر لمحے پر گہرے نقوش ثبت نظر آتے ہیں ۔ ان میں سے نمایاں درج‬
‫ذیل ہیں ‪:‬‬

‫محاسبہ ٔ نفس کا شدید احساس‪:‬‬


‫تعالی سے اس قدر مضبوط تعلق تھا وہ اکثر اپنے رب کی رضا کی خاطر اپنے‬
‫ٰ‬ ‫عمر کا ہللا‬
‫ؓ‬
‫نفس کو کچلتے تھے ‪ ،‬وہ اکثر فرمایا کرتے تھے‪:‬‬

‫(اکثرو من ذکرالنار فان حرها شدید وقعرها بعید ومقامعھا حدید)تم آگ کا کثرت سے ذکر کیا‬
‫کرو ‪،‬اسکی گرمی انتہائی تیز ‪،‬اسکے گڑهے انتہائی گہرے اور اسکے ہتھوڑے لوہے کے‬
‫ہیں ۔‬

‫ایک دن ایک بدوی آیا ۔ سیدنا ؓ‬


‫عمر کے قریب ہوگیا اور کہنے لگا ‪:‬‬

‫ماوں کو عطا کرے گا‬


‫اے عمر تجھے بہترین بدلہ عطا ہو گا اگر تو میری بیٹیوں اور ٔ‬
‫میں ہللا کی قسم کھاتا ہوں کہ تو یہ کام ضرور کرے گا‬

‫عمر نے فرمایا ‪ :‬اگر میں ایسا نہ کروں تو پھر کیا ہوگا ؟بدوی بوال ‪:‬میں قسم کھاتا‬
‫سیدنا ؓ‬
‫عمر نے فرمایا ‪:‬‬
‫ؓ‬ ‫جاوں گا۔ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا‪ :‬سیدنا‬
‫ہوں کہ میں اپنے انجام کو پہنچ ٔ‬
‫بدوی نے جواب دیا ‪ :‬ہللا کی قسم !آپ سے میرے‬ ‫اگر تو مر گیا تو پھر کیا ہو گا؟‬
‫بارے میں ضرور سوال ہو گا ۔‬

‫پھر آپکو وہاں بہت سے مسائل کا سامنا کر نا پڑے گا اور جسکی ان مسائل کے بارے‬
‫میں تفتیش ہوئی وہ یا تو آگ کی طرف جائے گا یا پھر جنت کی طرف جائے گا !یہ سن‬
‫عمر زاروقطار رونے لگے یہاں تک کہ ڈاڑ هی مبارک تر ہو گئی پھر خادم‬
‫کر سیدنا ؓ‬
‫سے فرمایا‪ :‬اے لڑکے!اسے آج کے دن اس نصیحت آموزی کے سبب میری یہ قمیص دے‬
‫دو یہ میں اسے اس دن کے لیے دے رہا ہوں اس لیے نہیں دے رہا کہ اس نے مجھے‬
‫اشعار سنائے ہیں ۔ ہللا کی قسم ! میں آج کر دن اس قمیص کے عالوہ کسی چیز کا مالک‬
‫عمر نے بدو کے اشعار سنے تو سسک سسک کر روئے۔ ان میں قیامت‬
‫ؓ‬ ‫نہیں ہوں ۔ سیدنا‬
‫عمر کے بارے میں یہ نہیں کہا تھا کہ‬
‫کے دن اور حساب کا ذکر تھا حاالنکہ اس نے ؓ‬
‫عمر ایسے نہیں تھے ‪،‬وہ ہللا کی خشعیت اور‬
‫انہوں نے کسی پر ظلم نہیں کیا تھا ۔ سیدنا ؓ‬
‫خوف کی وجہ سے ہر اس شخص کی بات سن کر رو پڑتے تھےجو ان کے سامنے‬
‫عمر اکثر خشعیت ِ ٰالہی کی وجہ سے اپنا محاسبہ کیا کرتے‬
‫قیامت کا تذکرہ کرتا تھا ۔ سیدنا ؓ‬
‫تھے اگر محسوس کرتے کہ اگر انہوں نے کسی پر زیادتی کی ہےاور اسے فورا ً تیار‬
‫کرتے اور قصاص دینے کے لیے تیار ہو جاتے۔‬

‫عمر محاسبہ نفس کے بارے میں فرماتے تھے‪(:‬حاسبو أنفسکم قبل ان تحاسبو ا‬
‫سیدنا ؓ‬
‫وزنوها قبل ان توزنوا و تھی ٔوا للعرض االکبر)‬

‫اس سے پہلے کہ تمہارا ہللا کے سامنے محاسبہ کیا جائے خود اپنا محاسبہ کر لو‪ ،‬اس سے‬
‫پہلے کہ تمہارا وزن ہو خود اپنا وزن کر لواور قیامت کے دن کی سب سے بڑی پیشی کا‬
‫سامان کر لو۔‬

‫قرآن مجید میں آتا ہے ‪َ :‬ی ْو َمئِ ٍذ ت ُ ْع َرضُونَ ال تَ ْخفَى ِم ْن ُك ْم خَافِ َیةٌ(سورۃ الحاقہ‪)۱٨ :‬‬

‫ترجمعہ ‪ :‬اس دن تمہاری پیشی ہو گی اور تم سے کوئی راز خفیہ نہ ہو گا ۔‬

‫عمر شدت خشیعت سے فرماتے تھے اگر کوئی بکری کا بچہ فرات کے کنارے مر‬
‫سیدنا ؓ‬
‫عمرقرآن کریم سے نہایت‬
‫عمر سے سوال کرے گا ۔سیدنا ؓ‬
‫گیا تو ہللا قیامت کے دن ؓ‬
‫لگاو‪،‬آپﷺ کی مصاحبت اور اس کائنات میں غوروفکر کے بعد اس نتیجے کہ دنیا آزمائش‬
‫ٔ‬
‫کا گھر ہے‪،‬یہ آخرت کی کھیتی ہے اور وہ دنیا کی تمام رنگینیوں‪ ،‬زیب وزینت اور چمک‬
‫دمک کو ہیچ اور ناقاب ِل توجہ سمجھتے تھے۔وہ دنیا کی دلفریبیوں سے آزاد ہو کر دلودماغ‬
‫کی گہرائیوں سے اپنے رب کے کامل اطاعت گزاربن کر اس کے سامنے مکمل طور پر‬
‫عمر کا ہللا سے‬
‫جھک چکے تھےاور اس سے تعلق مضبوط کرنے کے کوشاں تھے۔ سیدنا ؓ‬
‫تعلق اس قدر مضبوط تھا کہ جب وہ نماز ادا کرتے تو انتہائی خشوع خضوع سے ادا کرتے‬
‫عمر کے پیچھے نماز ادا کی ان کے‬
‫عمر فرماتے ہیں ‪:‬میں نے سیدنا ؓ‬
‫۔ حضرت عبدہللا بن ؓ‬
‫رونے کی آواز آرہی تھی جو کہ تیسری صف میں بھی سنی جا سکتی تھی۔ ایک روایت‬
‫نماز فجر میں قرآن کریم کے اس حصے کی تالوت فرمائی کہ‬
‫میں آتا ہے کہ انہوں نے ِ‬
‫میں تو اپنی ظاہر ہو جانے والی بے قراری اپنے غم کی شکایت صرف ہللا کی جناب میں‬
‫کرتا ہوں ۔‬

‫اس پر وہ اس قدر روئے کہ ان کی ہچکی بنده گئی جو آخری صف میں بھی سنائی دے‬
‫عمر رات کے درمیانی حصہ میں نماز ادا کرنے کے شائق تھے ۔ وہ اپنی‬ ‫رہی تھی ۔ سیدنا ؓ‬
‫عادت کے مطابق رات کو اٹھتے تھے اور جب رات کا آخری حصہ ہو جاتا تو اہ ِل خانہ کو‬
‫بیدار فرماتے اور کہتے ‪ :‬نماز کے لیے جاگو اور پھر یہ آیت تالوت فرماتے ‪:‬‬
‫سورۃطہ ‪)۱۳۲:‬‬
‫ٰ‬ ‫علَ ْی َھا ال نَسْأَلُ َك ِر ْزقًا ن َْح ُن ن َْر ُزقُ َك َو ْالعَاقِبَةُ ِللت َّ ْق َوى (‬ ‫ص َ‬
‫طبِ ْر َ‬ ‫َوأْ ُم ْر أ َ ْهلَ َك بِال َّ‬
‫صالۃِ َوا ْ‬
‫ترجمعہ‪:‬اور اپنے گھر والوں کو نما ز کا کہہ اور اور خود بھی نماز پر جما رہ‪،‬ہم تجھ سے‬
‫تقوی کا ہی ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫روزی نہیں مانگتے بلکہ ہم تجھے رزق دیتے ہیں اور آخر انجام‬
‫عمر کے مزاج میں نہایت عاجزی تھی‪ ،‬وہ اپنے پروردگار سے خوب دل لگا کر‬ ‫سیدنا ؓ‬
‫دعائیں مانگا کرتے تھے ان کی دعا کے مشہور الفاظ یہ تھے‪( :‬اللھم اجعل عملی کلہ‬
‫صالحاًولوجھک خالصاًوال تجعل الح ٍد فیہ شٔیاً) اے ہللا میرے سارے عمل نیک کر دے ‪،‬اپنی‬
‫رضا کے لئے خالص کر دے اور یہ ذرہ بھر بھی کسی غیر کیلئے نہ ہو۔‬
‫مزید فرماتے ‪:‬اے ہللا ! اگر تو نے مجھے اپنے ہاں بدبخت لکھا ہے تو اسے مٹا دے اور‬
‫نیک بخت لکھ دے ‪،‬تو چیز کو مٹانے اور برقرار لکھنے پر قادر ہے۔فرماتے تھے ‪:‬مجھے‬
‫دعا کی قبو لیت سے زیادہ دعا کی شرائط کا فکر ہوتا ہے کیونکہ جب مجھے دعا کرنے کا‬
‫طریقہ آگیا تو قبولیت یقینی بات ہے۔ وہ اپنے رب کی یاد میں کھوئے ہوئے انسان تھے ‪،‬ہر‬
‫وقت اپنے رب کی یاد میں رہنا پسند فرماتے تھے۔‬
‫موسی ! ہمیں ہمارا رب یاد دالدے !پھر وہ‬
‫ٰ‬ ‫موسی اشعری سے فرمایا کرتے تھے‪:‬اے ابو‬ ‫ٰ‬ ‫ابو‬
‫قرآن پڑهتے تو سب حاضرین سنتے تھےاور بہت زیادہ روتے تھے۔ وہ فرماتے تھے(علیکم‬
‫بذکر ہللا فانہ شفاء ایاکم و ذکرالناس فانہ داء)‬
‫ہللا کا ذکر کثرت سے کیا کرو ‪،‬اس میں شفاء ہےلوگوں کا ذکر چھوڑ دو‪ ،‬اس میں بیماری‬
‫ہے۔‬
‫وہ یہ بھی فرماتے تھے ‪:‬خلوت نشینی کی عادت ڈال لو۔‬
‫تعلق ایسا کہ شیطان بھی اپناراستہ بدل لے‪:‬‬
‫جن لوگوں کا ہللا سے مضبوط تعلق ہوتا ہے تو ہللا ان کے دشمنوں کے دلوں میں ان کا رعب‬
‫عمر کا بھی ہللا سے جتنا مضبوط تعلق تھا تو ان کا رعب‬
‫اور دبدبہ بیٹھا دیتے ہیں سیدنا ؓ‬
‫تعالی نے دشمنوں کے بھی دشمن شیطان کے دل میں بھی بیٹھا دیا تھا ۔ آپﷺ نے‬
‫ٰ‬ ‫بھی ہللا‬
‫فرمایا ‪ :‬اے خطاب کے بیٹے !قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‪،‬شیطان‬
‫تم سے گلی میں چلتے ہوئے ملے گا تو تمہاری گلی چھوڑ کر دوسری گلی میں چلنے لگے‬
‫گا۔‬
‫عملی نکات‪:‬‬
‫عمر کے ہللا سے مضبوط تعلق کے ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں آخرت پر‬
‫حضرت ؓ‬
‫یقین بہت زیادہ تھا لہذا بھی آخرت کی فکر کرنی چاہیے اور ایسے کام کرنے چاہیے جن‬
‫کی وجہ سے ہم آخرت میں سرخرو ہو سکیں جیسے‪:‬‬

‫‪۱‬۔ خود بھی نماز پڑهیں اور گھر والوں کو بھی اسکی تاکید کریں ۔‬

‫‪۲‬۔ ہللا سے اسکی رحمت کا سوال کریں اور اسکا فضل تالش کریں ۔ دعا مانگئے(اللھم انی‬
‫سلک من فضلک العظیم)‬
‫أ‬

‫‪۳‬۔ اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھائیں کیونکہ قیامت کے دن ان سے متعلق‬
‫پوچھا جائے گا۔‬

‫‪ ۴‬۔ ہللا کا ذکر کثرت سے کیا کریں اور اس کی یاد میں رویا کریں ۔‬

‫‪ ۵‬۔ اپنا تعلق ہللا سے اس قدر مضبوط کر لیں کہ آپ پر شیطانی وسوسو ں کا زور نہ چلے۔‬

‫سیدنا علی ؓ کا تعلق باہلل ‪:‬‬

‫نبی کریم ﷺ نے سیدنا علی ؓ سے فرمایا‪ :‬تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں ۔‬

‫علی سے فرمایا‪ :‬تمہاری مجھ‬


‫وقاص فرماتے ہیں ‪ :‬نبی کریمﷺ نے سیدنا ؓ‬
‫ؓ‬ ‫سیدنا سعد بن ابی‬
‫موسی ؑ سے ہے۔مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔‬
‫ٰ‬ ‫سے وہی نسبت ہے جو هارون کی‬
‫علی فرماتے ہیں ‪:‬نبی ﷺ نے مجھ سے عہد فرمایا تھا کہ تجھ سے ایمان دار محبت‬
‫ؓ‬ ‫سیدنا‬
‫اور منافق بغض رکھے گا ۔‬

‫اتباعِ سنت کے ذریعے تعلق باہلل‪:‬‬

‫قرآن مجید کے بعد صحابہ کرام کا محور عمل صرف رسول ہللا ﷺ کی ذات تھی اس لیے‬
‫وہ تما م اعمال میں آپ کی سنت کی اتباع کرتے تھے۔ایک دفعہ ؓ‬
‫علی سوار ہونے لگے تو‬
‫پاوں رکھا ‪،‬پشت پر پہنچے تو الحمد ہللا کہا ۔ پھر یہ آیت پڑهی‪:‬‬
‫رکاب میں بسم ہللا کہہ کر ٔ‬

‫س ْب َحانَ الَّذِي َ‬
‫س َّخ َر لَنَا‬ ‫ور ِہ ث ُ َّم ت َ ْذ ُك ُروا نِ ْع َمةَ َربِ ُك ْم إِذَا ا ْست َ َو ْیت ُ ْم َعلَ ْی ِه َوتَقُولُوا ُ‬ ‫ِلت َ ْست َ ُووا َعلَى ُ‬
‫ظ ُھ ِ‬
‫َهذَا َو َما ُكنَّا لَهُ ُم ْق ِرنِینَ (‪۱۳‬سورۃالزخرف‪َ )۱۳:‬و ِإنَّا ِإلَى َربِنَا لَ ُم ْنقَ ِلبُونَ (سورۃ الزخرف‪)۱۴:‬‬
‫پھر تین بار الحمدہللا اور تین بار ہللا اکبر کہا ۔ اس کے یہ دعا پڑهی ۔‬

‫((سبحانک انی ظلمت نفسی فاغفرلی‪ ،‬فانہ ال یغفر الذنوب اال انت))‬

‫پھر ہنس پڑے ‪ ،‬لوگوں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی ‪،‬بولے‪،‬ایک با ر رسول ہللا ﷺ ان ہی‬
‫پابندیوں کے ساتھ سوار ہوئے اور اخیر میں ہنس پڑے‪،‬میں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو‬
‫فرمایا کہ جب بندہ علمو یقین کے ساتھ یہ دعا کرتا ہے تو ہللا اس سے خوش ہوتا ہے۔‬

‫دنیا سے بے رغبتی اور ہللا سے تعلق ‪:‬‬

‫آ ؓپ دنیا اور اسکی دلفریبیوں سے وحشت کرتے تھے۔رات کی تاریکی اور اس کی تنہائی‬
‫سے انس رکھتے تھے۔عبرت پذیر اور بہت غوروفکر کرنے والے تھے ۔ وہ اکثر رات کی‬
‫تاریکی میں جب ستارے جلمال رہے ہوتے تھے تو وہ اپنی ڈارهی مٹھی میں دبائے مار‬
‫گزیدہ کی طرح بے قرار اور غم زدہ کی طرح اشکبار ہوتے اور کہتے‪:‬اے دنا! کسی‬
‫اور کو فریب دے ‪،‬تو مجھ سے لگاوٹ کر رہی ہے ‪،‬میری مشتاق ہے ‪،‬افسوس‬
‫!افسوس!میں نے تجھے تین طالقیں دیں ‪،‬تیری عمر تھوڑی اور تیرا مقصد حقیر ہے ‪،‬ہائے‬
‫ہائےسفر طویل ‪،‬راستہ وحشت ناک اور سفر تھوڑا ہے ۔ یہ تمام اوصاف امیر معاویہ ؓ نے‬
‫(علی) پر رحم فرمائے ‪،‬وہللا !وہ ایسے ہی‬
‫ؓ‬ ‫بیان کیے اور وہ رو دیے اور کہا ‪ ،‬ہللا ابوالحسن‬
‫تھے۔‬

‫سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ کا تعلق باہلل ‪:‬‬

‫وقاص کے حق میں کئی آیات‬


‫ؓ‬ ‫سیدنا معصب بن سعد ؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا سعد بن ابی‬
‫نازل ہوئیں کہ جب سعد ؓ مسلمان ہوگئے تو ان کی والدہ نے قسم اٹھا لی کہ میں تجھ سے‬
‫کھاو ں‬
‫اس وقت تک نہ بولوں گی جب تک تو اسالم سے نہیں پھر جائے گا ‪،‬اور نہ ہی میں ٔ‬
‫گی اور نہ ہی میں پیوں گی ۔‬

‫تعالی نے تجھے والدین سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا‬


‫ٰ‬ ‫اور اس نے یہ بھی کہا کہ ہللا‬
‫ہے ‪ ،‬اور میں تیری ماں ہوں تجھے حکم دیتی ہوں کہ اس دین سے باز آجا ۔تین دن تک نہ‬
‫‪،‬حتی کہ تکلیف بڑه گئی اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑی ‪،‬تو اس کا بیٹا عمار‬
‫ٰ‬ ‫کھایا نہ پیا‬
‫آگیا ‪،‬اس نے اسے پانی پالیا اور کھڑا کیا ‪،‬ہوش آنے پر اس نے سیدنا سعدؓ کو بدعائیں دینا‬
‫تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫شروع کر دیں ‪،‬تب ہللا‬

‫ص ْینَا اإل ْن َ‬
‫سانَ ِب َوا ِلدَ ْی ِه ُح ْسنًا(سورۃ العنکبوت‪)٨:‬‬ ‫َو َو َّ‬

‫اور ہم نے انسان کو والدین سے نیکی کرنے کی وصیت کی ہے ۔‬

‫اح ْب ُھ َما ِفي الدُّ ْن َیا َم ْع ُروفًا‬


‫ص ِ‬‫ْس لَ َك ِب ِه ِع ْل ٌم فَال ت ُ ِط ْع ُھ َما َو َ‬
‫على أ َ ْن ت ُ ْش ِر َك ِبي َما لَی َ‬ ‫َو ِإ ْن َجا َهدَ َ‬
‫اك َ‬
‫(سورۃ لقمان ‪)۱۵:‬‬

‫اور وہ میرے ساتھ اس چیز کو شریک کرنے پر مجبور کریں جسکا تجھے علم نہیں ہے‬
‫تو پھر انکی اطاعت نہ کرنا ۔ہاں دنیاوی معامالت میں ان کا اچھا ساتھی بن جا ۔‬
‫سبحان ہللا ! کیسا تعلق تھا سعدؓ کا ہللا کے ساتھ کہ انہوں نے دین پر استقامت اختیار کی‬
‫خواہ ان کاعزیز رشتہ آڑے آیا لیکن انہوں نے اپنے رب کی خاطر یہ قربانی دینا گوارہ‬
‫کر لی۔‬
‫ؓ‬
‫صحابیات کا‬
‫تعلق باہلل‬

‫ت خویلد کا تعلق باہلل‬


‫سیدہ خدیجہ ؓ بن ِ‬
‫سیدہ خدیجہ ؓ نے ہللا کے کلمے کو بلند کرنے کیلئے اپنے مالو آرام کو بے دریغ قربان کیا‬
‫‪ ،‬وہ ہر دم اپنے آپ کو قربان پاتی تھیں کہ اپنی ہر چیز کو اس غرض کیلئے فیاضانہ انداز‬
‫میں خرچ کر دیں تا کہ ہللا کی رضا حاصل ہو اور ان کا ہللا سے ذاتی تعلق بھی مضبوط ہو‬
‫دین اسالم کائنات میں جگمگا اٹھے اور تمام کافروں کی بات ہر طرح‬
‫اور ہللا کا نور یعنی ِ‬
‫پیش نظر ہو تو اپنے پیاروں کی جدائی کا دکھ سہنا‬
‫تعالی کی رضا ِ‬
‫ٰ‬ ‫سے پست ہو ۔ جب ہللا‬
‫بھی آسان ہو جاتا ہے ‪،‬جب مالک و مقتدر کے قرب کی لذت کا احساس ہونے لگے تو اپنے‬
‫غم فراق کی گرمی ہلکی محسوس ہونے لگتی ہے‪ ،‬ہللا وہ ذات ہے جس‬
‫جگر گوشوں کے ِ‬
‫تقوی شعار لوگوں کیلئے باغات اور نہریں بنا رکھی ہیں جو صدق و صفاء اور‬
‫ٰ‬ ‫نے‬

‫خدیجہ کا ہللا سے کس قدر تعلق‬


‫ؓ‬ ‫فیضان عام کا گہوارہ ثابت ہوں گی سیدہ‬
‫ِ‬ ‫تعالی کے‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫تعالی نے انکو دنیا اور آخرت میں عزت سے نوازا اور ام ِ‬
‫ت‬ ‫ٰ‬ ‫مضبوط ہو گا نا کہ ہللا‬
‫محمدیہ کی بہترین خاتون قرار دیا۔ سیدنا علی بن طالب ؓ فرماتے ہیں کہ رسول ہللا ﷺ نے‬
‫فرمایا ‪:‬‬

‫خدیجہ ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے‬


‫ؓ‬ ‫ساری دنیا کی عورتوں سے بہتر سیدہ مریم ؑ اور سیدہ‬
‫ہیں کہ ایک دفعہ جبرائیل ؑ آپﷺ کے پاس تشریف الئے اور کہا کہ اے ہللا کے رسولﷺ‬
‫سیدہ خدیجہ ؓ تشریف ال رہی ہیں ان کے ہاتھوں میں برتن ہے جس میں کھانا اور پانی رکھا‬
‫تعالی اور میری طرف سے سالم دینا اور جنت‬
‫ٰ‬ ‫ہے جب وہ آپ کے پاس آئیں تو انہیں ہللا‬
‫میں ہیرے اور جواہرات سے بنے ایک گھر کی بشارت دیجیئے گا کہ جس میں نہ‬
‫خدیجہ نے جواب میں کیا خوب‬
‫ؓ‬ ‫شوروغل ہو گا اور نہ ہی تھکاوٹ اور اکتاہٹ ہو گی۔ سیدہ‬
‫جبرائیل پر سالمتی ہو اور آپ ﷺ پر ہللا کی‬
‫ؑ‬ ‫تعالی خود سراپا سالمتی ہیں ‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫کہا کہ ہللا‬
‫رحمت ‪ ،‬سالمتی اور برکتیں نازل ہوں ۔‬

‫عبدہللا بن عباس ؓ سے روایت سے روایت ہے کہ رسول ہللا ﷺ نے زمین پر چار لکیریں‬


‫ہے؟صحابہ نے عرض کیا کہ ہللا اور‬
‫ؓ‬ ‫کھینچیں اور فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا‬
‫خواتین اہ ِل جنت میں‬
‫ِ‬ ‫اسکا رسولﷺ ہی بہتر جانتے ہیں تو رسول ہللا ﷺ نے فرمایا کہ‬
‫ت محمد ﷺ‪،‬مریم بن عمران‬
‫ت خویلد سب سے افضل ہیں اور اسی طرح فاطمہ بن ِ‬
‫خدیجہ بن ِ‬
‫اور فرعون کی بیوی آسیہ سب جنتی عورتوں میں افضل ہیں ۔‬

‫عملی نکات‪:‬‬
‫اس سے پتہ چلتا ہے کہ جولوگ اپنے دنیاوی عیش وعشرت کو محض ہللا کی خاطر اور‬
‫تعالی بھی ایسے لوگوں‬
‫ٰ‬ ‫اسکے دین کا کلمہ بلند کرنے کیلئے ترک کر دیتے ہیں تو ہللا‬
‫تعالی سالمتی‬
‫ٰ‬ ‫سے تعلق مضبوط کرنا پسند فرماتے ہیں اور پھر ایسے لوگوں کے لئے ہللا‬
‫بھیجتا ہے لہذا کر نے کا کام یہی ہے کہ ہم اپنا سرمایہ دین کے لیے وقف کر دیں ۔‬

‫حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا تعلق باہلل‬

‫المومنین عائشہ ؓ مسلسل روزے رکھا کرتی تھیں یہاں تک‬


‫قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ ام ٔ‬
‫کہ روزے کی حالت میں وہ بہت کمزور نظر آنے لگتی تھیں اور میں ان کو صبح سب‬
‫سے پہلے سالم عض کیا کرتا تھا ‪،‬ایک دن صبح کے وقت جب میں انکی خدمت میں‬
‫حاضر ہوا تو کحڑے نماز ادا کر رہی تھیں اور درج ذیل آیت پڑهی تھیں‬

‫دعا کرتیں اور روتیں اور بار بار اس آئت کو دہراتیں میں انتظار میں کھڑا رہا کہ کب آپ ؓ‬
‫فارغ ہو ں تو میں سالم عرض کروں جب میں کھڑا رہ کر اکتا گیا تو اپنے کسی کام کے‬
‫لیے بازار چال گیا جب میں کام سے فارغ ہو کر واپس آیا تو وہ با دستور کھڑی نماز ادا‬
‫کر رہی تھیں کیا خوب تعلق تھا ان کا ہللا کے ساتھ سبحان ہللا!‬

‫عملی نکات‪:‬‬

‫‪۲‬۔ طویل قیام کرنا چاہیے اور قرآن کی آیات میں غوروفکر کرنا چاہیے۔‬

‫سیدہ حفصہ ؓ کا تعلق باہلل‬

‫المومنین سیدہ حفصہ ؓ عبادت گزار ‪،‬رات کو قیام کرنے والیں ‪ ،‬دنا سے بے رغبتی‬
‫ام ٔ‬
‫تقوی شعار ‪ ،‬پاکیزہ طبیعت ‪،‬نیک دل اور سخی خاتون تھیں ۔وہ رات‬
‫ٰ‬ ‫اختیار کرنے والیں ‪،‬‬
‫کو بہت زیادہ عبادت میں مصروف رہتیں اور دن کو کثرت سے روزے رکھتیں ۔ انہوں‬
‫جبرائیل نے سیدہ‬
‫ؑ‬ ‫نے اپنے رب کی عبادت گزاری میں اخالص کا طریقہ اختیار کیا۔ سیدنا‬
‫حفصہ کی بڑائی بیان کرتے فرمایا ‪ :‬وہ کثرت سے روزے رکھنے والی ‪ ،‬کثرت سے‬
‫ؓ‬
‫عبادت کرنے والی‪ ،‬نیک دل خاتون ہیں اور وہ جنت میں آپ ﷺ کی زوجہ ہوں گی۔‬

‫حفصہ کے بارے میں اہل خانہ میں سے ایک شخص نے بتایا کہ ان کا ہللا سے بہت‬
‫ؓ‬ ‫سیدہ‬
‫گہرا تعلق تھا ‪،‬یہ کثرت سے روزے رکھتیں اور روزے ہی کی حالت میں وفات پا گئیں ۔‬
‫مومنین کا‬
‫ٔ‬
‫تعلق باہلل‬
‫خجر تسلیم و رضا‪ ،‬صبرو تحمل کے کوہ ِ گراں ‪ ،‬مملکت علم و عمل کے تاجدار‪،‬‬
‫ِ‬ ‫کشتگان‬
‫ِ‬
‫میدان جنگ کے شہسوار‪ ،‬منبرو‬
‫ِ‬ ‫ب زندہ دار‪ ،‬رات کو جائے نماز اور دن کو‬
‫زہد اور ش ِ‬
‫محراب کی زینت‪ ،‬تالوت کے دهنی اور قرآنو سنت کے دلدادہ ‪ ،‬اپنے سینوں میں نورانی‬
‫دل رکھنے والے‪ ،‬اپنے دلوں میں قر آنی انوار کی تجلیات کو جذب کرنے والے اور وہ‬
‫لوگ جنہوں نے دنیاوی مال و متا ع کو ہر کام کی حیثیت نہ دی تو ان کا تعلق ہللا کے‬
‫ساتھ کیا ہو گا ۔ آیئے ہم ان ٔ‬
‫مو منین کی زندگی کو تعلق باہلل کی رو سے دیکھتے ہیں ۔‬

‫حنیفہ کا تعلق باہلل‬


‫ؒ‬ ‫امام ابو‬

‫امام ابو حنیفہ ؒ اکثر وبیشتر دن کو روزہ رکھتے اور رات کو عبادت میں مصروف رہتے‪،‬‬
‫قرآ ِن حکیم کو بڑی محبت اور چاہت کے ساتھ پڑهتے ‪،‬یوں معلوم ہوتا کہ آپ قر آن کے‬
‫گہرے دوست ہیں ۔ سحری کے وقت اپنے رب کی بار گاہ میں کثرت سے استغفار کرتے‬
‫اور عبادت کرتے اور اس میں مگن ہونے کا اصلی سبب یہ تھا کہ ایک دن انہوں نے لوگوں‬
‫میں سے چند افراد کو یہ کہتے ہوئے سن لیا تھا کہ یہ شخص بڑا عبادت گزار ہے ‪ ،‬رات‬
‫بھر عبادت میں مصروف رہتا ہے ۔ جب آپ نے اپنے بارے میں یہ بات سنی تو فرمانے لگے‬
‫طرز عمل تو لوگوں کے جزبات کے بالکل بر عکس ہے کیو ں نہ میں ویسا ہی بن‬
‫ِ‬ ‫کہ مرا‬
‫جا ٔوں جیسا لوگ میرے بارے میں خیال کرتے ہیں پھر انہوں نے عزم کر لیا کہ میں زندگی‬
‫میں اپنے سر کے نیچے تکیہ نہیں رکھوں گا ‪ ،‬پھر ان کی عادت یہ ہو گئی کہ وہ بیشتر‬
‫حصہ عبادت میں صرف کرتے اور اپنے رب سے باتیں کرتے اور اپنا تعلق مضبوط کرتے‬
‫۔ جب رات تاریکی کی چادر کو کائنات پر پھیال دیتی جب لوگ نیند کے مزے لینے لگتے‬
‫تو یہ عمدہ لباس پہنتے ‪ ،‬داڑهی میں کنگھی کرتے ‪ ،‬خوشبو لگاتے پھر محراب میں قیام‬
‫کرتے ‪ ،‬رکوع اور سجدے کی حالت میں رات کا بیشتر حصہ گزار دیتے ‪ ،‬کبھی گڑگڑا‬
‫کر ہللا کے حضور دعائیں مانگتے اورط کبھی یہ آیت با ر بار پڑهتے جاتے‬

‫عةُ أ َ ْدهَى َوأ َ َم ُّر (سورۃ القمر‪)۴۶ :‬‬ ‫عةُ َم ْو ِعد ُ ُه ْم َوال َّ‬
‫سا َ‬ ‫سا َ‬
‫بَ ِل ال َّ‬
‫اور ہللا کی خشیعت سے زاروقطار ایسا روتے جس سے دل دہل جاتے ۔ خوف ِ خدا سے‬
‫روتے ہوئے بعض اوقات گھگھی بنده جاتی جس سے عام آدمی کا جگر چھلنی ہو جاتا ہے‬
‫اور جب آپ سورۃ زلزال پڑهتے تو آپ کے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ‪ ،‬دل خوف سے‬
‫تھر تھر کانپنے لگتا ‪ ،‬اپنی داڑهی کو ہاتھ میں پکڑ کر کہتے ‪ :‬اے ذرا برابر نیکی کا بدلہ‬
‫دینے والے ! اے ذرا برابر شر کی سزا دینے والے ! اپنے بندے نعمان کو جہنم کی آگ‬
‫سے بچا لینا۔‬

‫ٰالہی! اپنے بندے کو ان برائیوں سے دور کر دے جو جہنم کے قریب کرنے کا باعث بنتی‬
‫ہیں ۔‬

‫یا ارحم الراحمین! اپنی رحمت کے وسیع سائے میں اپنے بندے کو داخل کر لے۔‬

‫عملی نکات‪:‬‬

‫تقوی سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ہللا سے بہت قریب تھے ‪،‬‬


‫ٰ‬ ‫امام ابو حنیفہ ؒ کی عبادت اور زہدو‬
‫ب‬
‫ان کا تعلق اپنے رب کے ساتھ بہت زیادہ مضبوط تھا اور یہ تعلق باہلل میں مضبوطی ش ِ‬
‫بیداری یعنی تہجد سے آتی ہے ‪ ،‬اپنے رب سے دعائیں مانگنا اور کثرت سے استغفار کرنا‬
‫‪،‬یہ ہللا کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرتا ہے ۔ ٰلہذا تہجد کا اہتما م کرنے والے کو اپنے قریب‬
‫کریب کر لیتا ہے ٰلہذا ہمیں بھی تہجد گزار بننا چاہیے ۔ ہم کیوں اپنے رب کی قربت پانے کے‬
‫لیے اس سے تعلق مضبوط کرنے کے لیے اپنے رات کے آرام کو قربان نہیں کر سکتے ۔‬

‫عالمہ اقبال ؒ فرماتے ہیں ‪:‬‬

‫کس قدر گراں تجھ پر شب کی بیداری ہے‬ ‫ؔ‬

‫ہم سے کہاں پیار ہے ‪ ،‬ہاں نیند تجھے پیاری ہے‬

‫محمد بن سیرین ؒ کا تعلق باہلل‬


‫محمد بن سیرین ؒ بصرہ میں اپنی نئی زندگی دو متواز ی راستوں پر چلتے ہوئے‬
‫گزارنے لگے ‪ ،‬جنکو اپنانے سے ان کا ہللا سے تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہو گیا ۔‬
‫انہوں نے دن کا نصف حصہ علم اور عبادت کے لیے وقف کر دیا ‪ ،‬دوسرا نصف کمائی‬
‫اور تجارت کے لیے وقف کر دیا ۔ کیا وہ شخص جو حقوق ہللا بھی ادا کرتا ہے اور حقوق‬
‫بھی ہے تو محض آخرت‬ ‫العباد بھی ادا کرتا ہے ۔ کیا وہ شخص جو دنیا کو اگر سنوارتا‬
‫سنوارنے کی غرض سے اس کا اپنے رب سے تعلق کتنا مضبوط ہو گا ۔ آپ کے بارے‬
‫میں کہا جاتا ہے کہ جب طلوعِ فجر کا وقت ہوتا اور دنیا اپنے رب کے نور سے چمک‬
‫اٹھتی تو یہ بصرہ کی مسجد کا رخ کرتے ‪ ،‬وہاں خود علم حاصل کرتے اور دوسروں کو‬
‫علم سکھاتے ‪،‬جب دن چڑه جاتا تو وہاں سے سیدهے بازار جاتے وہاں خریدو فروخت‬
‫کرتے ‪ ،‬جب رات کائنات پر اپنے پردے پھیال دیتی تو یہ اپنے گھر کے ایک کونے میں‬
‫تعالی کے حضور ہاتھ بانده کر کھڑے ہو جاتے اور پھر اپنی عاجزی اور انکساری‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫کا مظاہرہ کرتے ہوئے رکوع اور سجود ادا کرتے ۔ قرآن مجید کی تالوت بڑی ہی‬
‫وارفتگی کے انداز میں کرتے اور رحمٰ ن و رحیم کی خشیعت سے دل اور آنکھوں سے‬
‫آنسو بہاتے ‪ ،‬اور روتے روتے ان کی ہچکی بنده جاتی جس سے گھر والوں اور پڑوسیوں‬
‫کو خطرہ الحق ہو جاتا کہ کہیں یہ اسی آہو زاری میں ہللا کو پیارے نہ ہو جائیں ۔‬

‫عملی نکات ‪:‬‬

‫تقوی سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے رب سے قریب تھے اور‬


‫ٰ‬ ‫محمد بن سیرین ؒ کے زہدو‬
‫قیام شب کے ذریعے اپنا تعلق ہللا سے مضبوط کرتے اور دوسری بات‬
‫کیسے وہ تہجد یا ِ‬
‫جو تعلق باہلل کو مضبوط کرنے کا باعث بنتی ہے وہ حقوق ہللا اور حقوق العباد کی‬
‫ادائیگی ‪،‬فرائض اور حقوق کو ادا کرنے سے انسان اپنے رب کے بہت زیادہ قریب ہوتا‬
‫ہے۔‬

‫التمیمی کا تعلق باہلل‬


‫ؒ‬ ‫سیدنا عامر بن عبدہللا‬
‫تقوی میں عرو ج حاصل ہوا ان میں سب سے پہلے نمبر پر سیدنا‬
‫ٰ‬ ‫آٹھ اشخاص جنہیں زہدو‬
‫التمیمی ہیں ۔(علقمہ بن مرشد)‬
‫ؒ‬ ‫عام بن عبدہللا‬

‫زہدوتقوی کے بہت اونچے درجے‬


‫ٰ‬ ‫علقمہ بن مرشد کے نزدیک عامر بن عبدہللا التمیمی ؒ‬
‫پر تھے جس سے معلوم ہوتا کہ ان کا ہللا سے کس قدر مضبوط تعلق تھا اور وہ ہللا کے‬
‫کس قدر قریب تھے کہ ان کے تعلق باہلل کے بارے میں بصرہ کا ایک باسی بیان کرتا ہے‬
‫کہ مین ایک دفعہ سفر میں اس قافلہ میں شامل ہوا جس میں سیدنا عامر بن عبدہللا التمیمی ؒ‬
‫سفر کر رہے تھے ‪ ،‬رات ہوئی تو ہمارے قافلے نے جنگل کے ایک گھنے درخت کے‬
‫عامر نے اپنا سامان اکھٹا کیا اور اپنے گھوڑا درخت کے ساتھ باندها‬
‫ؒ‬ ‫پڑاو کیا ‪،‬سیدنا‬
‫نیچے ٔ‬
‫‪ ،‬زمین سے گھاس اکھٹی کر کے اس کے سامنے ڈال دی تا کہ یہ اسے کھا کر سیر ہو‬
‫جائے اور خود درختوں کے جھنڈ میں داخل ہو گئے ‪،‬میں بھی یہی عزم لے کر دبے‬
‫عامر رات کی تاریکی‬
‫ؒ‬ ‫پاوں ان کے پیچھے ہو لیا کہ آج میں ضرور یہ نظارہ کروں گا کہ‬
‫ٔ‬
‫اور درختوں کے خوفناک جھنڈ میں کیا کرتے ہیں ۔وہ درختوں کے درمیان دور تک گئے‬
‫یہاں تک کہ وہ ایسی جگہ جا کھڑے ہوئے جہاں کسی کی نظر نہ پڑے ‪،‬پھر انہوں نے‬
‫نماز پڑهنا شروع کر دی ۔‬

‫وہ نماز ایسی وارفتگی میں پڑه رہے تھے کہ کیا کہنے! مین نے ایسی عمدہ مکمل اور‬
‫خشوع سے بھر پور نماز اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی‪ ،‬نماز سے فارغ ہو کر‬
‫انہوں نے اپنے رب سے سرگوشیاں شروع کر دیں ‪،‬دلدوز آواز میں کہنے لگے ‪:‬‬

‫ٰالہی تو نے مجھے اپنی مرضی سے پیدا کیا اور اپنی مرضی سے ہی اس دنیا کی‬
‫آزمائشوں میں مبتال کیا ‪ ،‬پھر تو خود ہی مجھ سے فرماتا ہے کہ سنبھل کر چل ۔‬

‫ٰالہی تو جانتا ہے کہ اگر مجھے یہ ساری دنیا دے دی جائے اور پھر کوئی مجھ سے تیری‬
‫رضا کی خاطر اس کا مطالبہ کر دے تومیں تیری رضا کو ترجیح دوں گا اور ساری دنیا‬
‫مطالبہ کرنے والے کو دے دوں گا ۔‬
‫سکون قلب عطا کر ۔‬
‫ِ‬ ‫اے رحم کرنے والے ! مجھے‬

‫ٰالہی! میں نے تجھ سے ایسی محبت کی ہے جس سے دنیا کی ہر مصیبت جھیلنی میرے‬


‫لیے آسان ہو گئی ہے اور تیرے ہر فیصلے کو برضا و رغبت تسلیم کرنے کا حوصلہ مال‬
‫ہے تیری سچی محبت کے ہوتے ہوئے مجھے دن رات کے نشیب و فراز کی کوئی پرواہ‬
‫نہیں ۔ بصرہ کا رہنے واال وہ شخص بیان کرتا ہے کہ پھر مجھے نیند ا ٓ گئی لیکن نیند‬
‫گہری نہ تھی اور میں پوری رات نیند اور بیداری کی کشمکش میں مبتال رہا ۔ کبھی آنکھ‬
‫عامر پوری رات نماز اور منا جات میں‬
‫ؒ‬ ‫لگ جاتی اور کبھی کھل جاتی لیکن سیدنا‬
‫نماز فجر ادا کی اور‬
‫مصروف رہے یہاں تک کہ صبح صادق نمودار ہوئی تو انہوں نے ِ‬
‫اسکے بعد یہ دعا کی کہ اے ٰالہی صبح ہو چکی ہے ‪ ،‬تیرا فضل تالش کرنے کے لیے‬
‫لوگوں کی چہل پہل شروع ہو چکی ہے ۔ ہر شخص کی کوئی نہ کوئی ضرورت ہے ‪،‬‬
‫میری ضرورت یہ ہے کہ تومجھے بخش دے ‪ٰ ،‬الہی کرم فرما ‪ ،‬میری اور ان سب لوگوں‬
‫کی حاجات پوری کر دے بالشبہ تو سب سے بڑه کر کرم فرمانے واال ہے ۔‬

‫ٰالہی ! میں نے تجھ سے تین چیزیں مانگی تھیں ان میں سے تو نے دو تو عطا کر دیں اور‬
‫ایک ابھی تک عطا نہیں کی ۔ ٰالہی ! وہ تیسری چیز بھی عطا کر دے تا کہ میں اپنی منشاء‬
‫کے مطابق پوری رات تیری عبادت کر سکوں ‪ ،‬پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور پیچھے‬
‫مڑے تو ان کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ گھبرا گئے اور بڑے ہی افسردہ لہجے میں مجھ‬
‫سے کہا کہ میرے بصری بھائی کیا تو مجھے ساری رات یہاں دیکھتا رہا ہے ؟ میں‬
‫نے کہا کہ ‪ :‬جی ہاں ! فرمانے لگے کہ خدارا تو نے جو کچھ دیکھا ہے کسی کو نہ بتانا‬
‫اس کو اپنے دل میں ہی چھپائے رکھنا ہللا تمہاری حفاظت کر ے اور میں نے کہا مجھے‬
‫بتاو جو تم نے ہللا سے مانگی تھیں ‪،‬دو تمھیں دی گئیں اور ایک تمھیں نہیں‬
‫وہ تین چیزیں ٔ‬
‫سے‬ ‫بتاو گے تو میں تمہارا راز فاش کر دوں گا اور لوگوں‬
‫ملیں ۔ اگر تم مجھے نہیں ٔ‬
‫آج تک کا پورا واقعہ بیان کر دوں گا فرمایا ‪ :‬تیری مہربانی آج کا یہ واقعہ کسی کو نہ‬
‫بتانا ‪ ،‬میں نے کہا تیری وہی شرط ہے ‪ ،‬جب انہوں نے میرا یہ رویہ دیکھا تو فرمایا ‪:‬‬
‫مجھے ہللا کو گواہ بنا کر وعدہ دو کہ تم میری کیفیت کو کسی کے سامنے بیان نہیں کرو‬
‫گے ۔ میں نے عرض کی میں تیری زندگی میں یہ واقعہ کسی کو نہیں بتا ٔو ں گا ۔‬

‫پھر وہ فرمانے لگے کہ مجھے سب سے زیادہ خطرہ دین کو تبہ و برباد کرنے والی‬
‫عورتوں سے تھا۔ میں نے اپنے رب سے التجا کی کہ میرے دل سے عورتوں کی محبت‬
‫نکال دے ۔ ہللا نے میری یہ دعا قبول کر لی اب میری یہ حالت ہے کہ عورت اور دیوار کو‬
‫ہے؟‬
‫دیکھنا میرے لیے برابر ہے ۔ میں نے کہا! یہ تو ایک چیز ہوئی ! دوسری کیا َ‬
‫فرمانے لگے‪ :‬میں نے اپنے رب سے دوسری التجا یہ کی کہ میں اس کے سوا کسی سے‬
‫نہ ڈروں تو اس نے میری یہ دعا بھی قبول کر لی ۔ اب میں عرض و سماء میں کسی سے‬
‫بھی نہیں ڈرتا ۔ پھر فرمایا میں نے ہللا سے یہ چیز مانگی کہ میری نیند ختم کر دے تا کہ‬
‫میں تیری عبادت کر سکوں لیکن میری یہ دعا قبول نہیں ہوئی ۔ جب میں نے یہ باتیں سن‬
‫لیں تو اس سے کہا آپ اپنے آپ پر رحم کیجئے آپ دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات‬
‫بھر عبادت کرتے ہیں جنت توآپکو اس سے کم عمل پر بھی مل جائے گی اور آپ جہنم‬
‫سے بچ جائیں گے ہللا کی مد د اور رحمت آپکے شام ِل حال ہے آپ اپنے آپ پر رحم‬
‫کہیں شرمسار نہ ہونا‬ ‫کیجیئے لیکن انہوں نے فرمایا‪ :‬مجھے قیامت کے دن‬
‫پڑے۔جبکہ اس وقت شرمسار ی کوئی فائدہ نہ دے گی ۔ بخدا میں عبادت میں اپنی تمام تر‬
‫توا نایاں صرف کر دینا چاہتا ہوں ۔‬

‫ِاگر نجات مل گئی تو یہ ہللا کی رحمت ہے‬

‫کوتاہی‬ ‫میری‬ ‫تو‬ ‫پکڑا گیا‬ ‫اگر‬


‫گی‬ ‫ہو‬

‫عملی نکات‪:‬‬

‫زہدوتقوی اور ہللا سے‬


‫ٰ‬ ‫التمیمی کس قدر ہللا سے قریب تھے ان کا‬
‫ؒ‬ ‫سیدنا عامر بن عبدہللا‬
‫تعلق کس قدر مضبوط تھا اس واقعے سے آپ یہ سمجھ ہی چکے ہوں گے اور یہ محض‬
‫ہللا سے ان کی محبت تھی کہ وہ رات کی تاریکیوں اور جنگل کی تنہائیوں میں اپنے‬
‫رب سے رازو نیاز کی باتیں کرتے اور رات کو عبادت میں صرف کر دیتے ‪ ،‬یونہی‬
‫نہیں ہللا سے تعلق مضبوط ہوا کرتا اس کے لیے اپنی نیند کی قربانی دینی پڑتی ہے ۔‬
‫ط َمعًا‬‫اجعِ َی ْدعُونَ َربَّ ُھ ْم خ َْوفًا َو َ‬ ‫ض ِ‬ ‫ع ِن ْال َم َ‬
‫قرآن مجید میں آتا ہے کہ ‪ :‬تَت َ َجافَى ُجنُوبُ ُھ ْم َ‬
‫ي لَ ُھ ْم ِم ْن قُ َّرۃِ أ َ ْعیُ ٍن‬ ‫ُ‬ ‫َو ِم َّما َرزَ ْقنَا ُه ْم یُ ْن ِفقُونَ (سورۃ السجدہ‪ ) ۱٦ :‬فَال ت َ ْعلَ ُم نَ ْف ٌ‬
‫س َما أ ْخ ِف َ‬
‫َجزَ ا ًء بِ َما َكانُوا یَ ْع َملُونَ (سورۃ السجدہ‪)۱۷:‬‬

‫الگ رہتے ہیں پہلو ان کے بستر وں سے ‪،‬وہ پکارتے ہیں اپنے رب کو خوف اور امید‬
‫کی حا لت میں اور اس میں سے جو ہم نے ان کو رزق دیا وہ خرچ کرتے ہیں ۔((کوئی‬
‫نفس نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا سامان تیار کر رکھا ہے ‪،‬یہ بدلہ‬
‫ہے اس کا جو کرتے تھے۔))‬

‫تعالی یہاں پر قرآن میں ان لوگوں کا ذکر بیان کر رہے ہیں کہ جو لوگ رات کو اٹھتے‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫ہیں اور اپنے رب سے استغفار کرتے ہیں اور ان سے دعائیں اور التجائیں کر تے ہیں ۔‬

‫عالمہ اقبال ؒ کیا خوب فرماتے ہیں ‪:‬‬

‫ِتنہائی ِ شب میں ہے جزیں کیا ؟‬

‫تیرے ہمنشین کیا ؟‬ ‫انجم نہیں‬

‫ت آسمان ِ خاموش‬
‫یہ رفع ِ‬

‫‪،‬جہان فراموش‬
‫ِ‬ ‫خوابیدہ زمیں‬

‫یہ چاند‪ ،‬یہ دشت و در یہ کہسار‬

‫فطرت ہے تمام نسترن زار‬

‫موتی خوش رنگ پیارے پیارے‬


‫ٓنسووں کے ہیں تارے‬
‫یعنی تیرے ا ٔ‬

‫کس شے کی تجھے ہوس ہے اے دل!‬

‫قدرت تیری ہم نفس ہے اے دل!‬

‫قرآن میں ایک اور مقام پر آتا ہے ‪:‬‬

‫جدًا َوقِیَا ًما (سورۃ الفرقان ‪)۶۴:‬‬ ‫َوالَّذِینَ یَبِیتُونَ ِل َر ِب ِھ ْم ُ‬


‫س َّ‬
‫ترجمعہ‪:‬اور وہ لوگ جو اپنے رب کے لیے سجدے میں اور قیام میں رات گزارتے ہیں ۔‬
‫تہجد کتنی خو ب صورت عبادت ہے ۔ تہجد کی لذت دنا کی تمام لذتوں سے بڑی ہے ۔ اپنے‬
‫رب کی یاد میں پوری رات سر بسجود رہنا یہ ہللا سے مضبوط تعلق کا ذریعہ نہیں تو پھر‬
‫تعالی نے رسالت کا پیغام اپنی قوم کو سنانے کا حکم دیا یعنی‬ ‫ٰ‬ ‫کیا ہے ؟ آپﷺ کو جب ہللا‬
‫دعوی کے کام میں کامیابی کے لیے دو‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی نے‬
‫ٰ‬ ‫دعوی کا کام سونپا تو ہللا‬
‫ٰ‬ ‫جب آپکو‬
‫چیزوں پر عمل کرنے کا حکم دیا تو ان میں سے ایک قیام اللیل تھا ۔‬
‫قیام اللیل کو تعلق باہلل کی مضبوطی کے اعتبار سے بہت اہمیت حاصل ہے۔‬
‫ٰ‬
‫الصلوۃ بعد المکتوبۃ قیام اللیل‬ ‫آپﷺ نے فرمایا ‪:‬افضل‬
‫نماز ِ فرائض کے بعد سب سے افضل نماز تہجد ہے۔‬
‫حضرت حسن ؓ سے کسی نے پوچھا ‪ :‬کیا بات ہے کہ تہجد پڑهنے والوں کے چہرے سب‬
‫سے زیادہ روشن اور پر ُ رونق ہوتے ہیں ؟‬
‫آ ؓپ نے فرمایا ‪ :‬کیونکہ انہیں عبادت میں ہللا کے ساتھ تنہائی نصیب ہوتی ہے اس وجہ سے‬
‫انہیں بھی ہللا کے نور کے کچھ حصے سے فیض یاب کر دیا جاتا ہے ۔ حضرت ابو سلیما‬
‫ن ؒ نے فرمایا ‪ :‬م شب بیدار لوگوں کو اپنی عبادت کی شب بیداری میں اور کھیل کود‬
‫میں مشغول رہنے والے سے کہیں زیادہ لذت حاصل ہوتی ہے نیز آپ نے فرمایا اگر رات‬
‫نہ ہوتی تو مجھے زندہ رہنے کی کو ئی خواہش نہ ہوتی ۔ حضرت اما م منکدر ؒ نے فرمایا‬
‫‪ :‬دنیا میں لذت صرف تین چیز وں کی وجہ سے باقی ہے‪:‬‬
‫(نماز تہجد)‬
‫ِ‬ ‫‪۱‬۔ قیام اللیل‬
‫‪۲‬۔بھائیوں کی مالقات‬
‫‪۳‬۔جماعت سے نماز کی ادائیگی ۔‬

‫زبیر کا تعلق باہلل‬


‫عروہ بن ؒ‬
‫حضرت عروہ بن زبیر ؒ نماز کو اپنے دل کا سکون اور آنکھوں کی ٹھنڈک خیال کرتے تھے‬
‫۔ نما ز کی حالت میں یوں معلوم ہوتا کہ زمین پر انہیں جنت نصیب ہو گئی ہے ٰلہذا نماز کو‬
‫دل لگا کر پڑتے ‪ ،‬اس کے تمام شعا ئر نہایت اطمینان سے ادا کرتے اور ہر رکعت ممکن حد‬
‫ب کائنات‬
‫تک طویل کرتے اورانکی لمبی نماز پڑهنے کی وجہ یہ ہوتی کہ زیادہ دیر وہ ر ِ‬
‫کے سامنے سر بسجدہ ہو سکیں اور اس سے زیادہ دیر مالقات کر سکیں ۔ ایک دفعہ انہوں‬
‫نے کسی شخص کو جلدی نماز پڑهتے ہوئے دیکھا تو اسے اپنے پاس بالیا اور محبت بہرے‬
‫تعالی کے‬
‫ٰ‬ ‫انداز میں فرمایا ‪ :‬بیٹے کیا تجھے ایسی کوئی ضرورت ال حق نہیں جو تورب‬
‫ب کائنات کی قسم ! میں تو ہللا سے ہر چیز مانگتا ہوں اور لجاجت‬
‫دربار میں پیش کر ے‪،‬ر ِ‬
‫سے مانگتا ہوں یہاں تک کہ نمک بھی ۔ وہ ہللا کی خاطر موسم گرما میں کثرت سے روزے‬
‫رکھتے محض ہللا کے قرب کی خاطراور شب زند ہ دار اور ذکر ٰالہی سے رطب اللسان‬
‫رہتے عالوہ ازیں قرآ ِن مجید کے ساتھ ان کی دوستی مثالی تھی اکثر و بیشتر اسکی تالوت‬
‫میں منہمک رہتے ۔ کیا لگتا ہے کہ آپ کو کہ جن کا قرآن سے اتنا گہرا تعلق قائم ہو جائے‬
‫تعالی سے تعلق کتنا مضبوط ہو گا ‪،‬وہ‬
‫ٰ‬ ‫تو لوگ ہللا سے کتنے قریب ہوں گے اور ان کا ہللا‬
‫روزانہ قرآن کے چوتھائی حصے کی تالوت دیکھ کر کیا کرتے تھے ‪،‬پھر رات کے وقت‬
‫یہی حصہ نوافل میں پڑهتے اور جوانی سے وفات تک ان کا یہی معمول رہا ‪،‬صرف ایک‬
‫بار ناغہ ہوا وہ دلخراش اور عبرت ناک واقعہ سن کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے‬
‫دور حکومت میں آپکو ایک ایسی‬
‫۔ وہ واقعہ یوں بیان ہوتا ہے کہ ولید بن عبد الملک کے ِ‬
‫آزمائش سے گزرنا پڑا جس میں کوئی ایسی عظیم ہستی ہی ثابت قدم رہ سکتی ہے جو ہللا‬
‫سے مضبوط تعلق کی حامل ہو۔‬

‫جسکا دل ایمان و یقین سے لبریز ہو ۔ خلیفتہ المسلمین ولید بن عبدالملک نے بڑی محبت اور‬
‫اشتیاق سے انہیں دارالخالفہ دمشق میں مالقات کی دعوت دی ۔ انہوں بصد شوق دعوت‬
‫قبول کر لی ۔‬

‫اپنے بیٹے کو ہمراہ لیا اور دمشق میں روانہ ہو گئے ۔جب وہاں پہنچے تو خلیفہ نے والہانہ‬
‫ا ن کا استقبال کیا اور انھیں شاہی مہمان کا اعزاز دیا گیا۔ پھر وہی ہوا جو ہللا کومنظور تھا‬
‫اور جو آزمائش اس نے اپنے بندے کے لیے تیار کر رکھی تھی۔ اس کی خود سے تعلق کو‬
‫مزید مضبوط کرنے اور درجات کی بلندی کے لیے وہ آزمائش انکو آپہنچی ۔ ہوا یہ کہ‬
‫زبیر کا بیٹا سواری کے شوق میں شاہی اصطبل میں داخل ہوا۔ جونہی وہ‬
‫حضرت عروہ بن ؒ‬
‫ایک مونہہ زور گھوڑے کے قریب آیا تو اس نے زور سے الت ماری جو اس کے سینے‬
‫میں لگی اور جان لیوا ثابت ہوئی پھر غموں سے نڈهال باپ جب اپنے بیٹے کے قبر پر‬
‫پاوں میں ورم‬
‫پاو ں میں اچانک شدید درد ہونے لگا ۔ ٔ‬
‫مٹی ڈال رہا تھا تو اس دوران ان کے ٔ‬
‫پیدا ہوا اور وہ بڑی تیزی سے پنڈلی کی طرف پھیلنے لگا ۔ حالت تشویشناک حد تک بگڑ‬
‫گئی ۔ خلیفۃ المسلمین ولید بن عبدا لمالک شدید پریشان ہو گئے۔ فوری طور پر شاہی اطباء‬
‫کو کہا کہ عالج پر پوری توجہ دی جائے اور اس میں ایک لمحے کی غفلت بھی نہ برتی‬
‫جائے۔ معائنے کے بعد تمام اطباء نے متفقہ فیصلہ دیا کہ ٹانگ کاٹ دی جائے ورنہ یہ‬
‫مریض کی موت کا سبب بن جائے گی ۔ جب ٹانگ کاٹنے کے لیے ایک ماہر جراح اپنے‬
‫اوزار لے کر حاضر ہوا تو طبیب نے حضرت عروہ بن زبیر ؒ سے کہا کہ ہم آپکو تھوڑی‬
‫سی شراب پالئیں گے تا کہ ٹانگ کٹنے کی تکلیف زیادہ محسوس نہ ہو ۔ آپ نے یہ بات‬
‫سن کر فرمایا ایسا قطعا ً نہیں ہو سکتا کہ حرام کے ذریعے سے اپنی عافیت کی امید نہیں‬
‫رکھتا ۔‬
‫ہللا اکبر! اس کو کہتے ہیں ہللا سے تعلق کی مضبوطی کہ مجبوری میں بھی ہللا کی نافرمانی‬
‫اور محرمات سے بچنا ۔‬

‫طبیب نے کہا کہ پھر کوئی نشہ آور چیز آپکو پال دیتے ہیں ورنہ تکلیف نہ قاب ِل برداشت ہو‬
‫گی ‪،‬آپ نے فرمایا ‪ :‬میں نہیں چاہتا کہ میرے جسم کا کوئی عضو اس حالت میں کاٹا جائے‬
‫کہ مجھے درد کا احساس کوئی احساس بھی نہ ہو آپ بغیر کسی نشہ آور چیز دیئے ہی‬
‫نے بہت سے‬ ‫اسے کاٹیں ‪ ،‬اس درد میں انشاءہللا مجھے ثواب ملے گا ۔ جب جراح‬
‫آدمیوں کو بالیا تو آپ نے کہا کہ یہ ہجوم کس چیز کا ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ جب آپکی‬
‫ٹانگ کاٹی جائے گی تو اس وقت آپکو سنبھالنے کے لیے ان لوگوں کی ضرورت پڑے گی‬
‫تو انہو ں نے کہا کہ میرے لیے ہللا کا نام کافی ہے تو جب انکی ٹانگ کاٹی گئی اور ان کا‬
‫گوشت کاٹا گیا اور ہڈی پر آری چالئی گئی تو انہوں نے ہللا اکبر اور الحمدہلل کہنا شروع کر‬
‫دیا اور جب ابلتے تیل میں انکی ٹانگ کو ڈاال گیا تو وہ بے ہوش ہو گئے ۔یہی موقع تھا‬
‫انکی زندگی میں جب ان سے قرآن کی تالوت نہ ہو سکی۔‬

You might also like