You are on page 1of 54

‫‪Question no.

1‬‬

‫اس الم اور ایم ان میں کیا ف رق ہے؟ اس ب ارے میں علم ائے ک رام نے عقائد کی کتب میں بہت تفص یالت ذکر کی ہیں‪ ،‬ان تفص یالت کا‬
‫خالصہ یہ ہے کہ جب یہ لفظ الگ الگ ذکر ہوں تو پھر ہر ایک کا مطلب پورا دین اسالم ہوتا ہے‪ ،‬تو اس وقت لفظ اسالم ہو یا ایمان ان‬
‫میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔اور اگر یہ دونوں الفاظ ایک ہی سیاق اور جملے میں مذکور ہوں تو پھر ایمان سے ب اطنی یا روح انی اعم ال‬
‫م راد ل یے ج اتے ہیں‪ ،‬جیسے کہ قل بی عب ادات‪ ،‬مثالً‪ :‬ہللا تع الی پر ایم ان‪ ،‬ہللا تع الی سے محبت‪ ،‬خ وف‪ ،‬امی د‪ ،‬اور ہللا تع الی کے ل یے‬
‫اخالص وغیرہ۔اور اسالم سے مراد ظ اہری اعم ال ہ وتے ہیں کہ بسا اوق ات جن کے س اتھ قل بی ایم ان کبھی ہوتا ہے‪ ،‬اور کبھی نہیں‬
‫ہوتا‪،‬تو دوسری صورت میں ان ظاہری اعمال کو کرنے واال یا تو من افق ہوتا ہے یا پھر من افق تو نہیں ہوتا لیکن اس کا ایم ان کم زور‬
‫ہے۔‬ ‫ہوتا‬

‫تے ہی‬ ‫الم ابن تیمیہ رحمہ ہللا کہ‬ ‫یخ االس‬ ‫ش‬

‫لفظ "ایمان" کو بسا اوقات اس الم یا عمل ص الح کے س اتھ مال کر ذکر نہیں کیا جاتا بلکہ وہ بالکل الگ تھلگ ہوتا ہے‪ ،‬اور بسا اوق ات"‬
‫لفظ "ایمان" کو اسالم کے ساتھ مال کر ذکر کیا جاتا ہے جیسے کہ حدیث جبریل علیہ السالم میں ہے کہ‪( :‬اسالم کیا ہے؟۔۔۔ اور ایمان کیا‬
‫ان ہے‬ ‫الی کا فرم‬ ‫رح ہللا تع‬ ‫‪:‬ہے؟۔۔۔) اسی ط‬

‫ت(‬
‫ا ِ‬ ‫ْؤ ِمنِينَ َو ْال ُم ْؤ ِمنَ‬ ‫ت َو ْال ُم‬
‫لِ َما ِ‬ ‫لِ ِمينَ َو ْال ُم ْس‬ ‫)إِ َّن ْال ُم ْس‬

‫زاب‪]35:‬‬ ‫واتین [األح‬ ‫ومن خ‬ ‫رد اور م‬ ‫ومن م‬ ‫واتین‪ ،‬اور م‬ ‫لمان خ‬ ‫رد اور مس‬ ‫لمان م‬ ‫رجمہ‪ :‬بیشک مس‬ ‫ت‬

‫رح ایک اور جگہ فرمایا‬ ‫‪:‬اسی ط‬

‫وبِ ُك ْم(‬ ‫انُ فِي قُلُ‬ ‫ْد ُخ ِل اإْل ِ ي َم‬ ‫لَ ْمنَا َولَ َّما يَ‬ ‫وا أَ ْس‬ ‫وا َولَ ِك ْن قُولُ‬ ‫لْ لَ ْم تُ ْؤ ِمنُ‬ ‫َرابُ آ َمنَّا قُ‬ ‫ت اأْل َ ْع‬
‫ال َ ِ‬ ‫)قَ‬

‫ترجمہ‪ :‬خانہ بدوشوں نے کہا‪ :‬ہم ایمان لے آئے‪ ،‬آپ کہہ دیں کہ‪ :‬تم ایمان نہیں الئے‪ ،‬تاہم تم کہو‪ :‬ہم اس الم لے آئے ہیں‪ ،‬ابھی تو ایم ان‬
‫رات‪]14:‬‬ ‫وا ہے۔ [الحج‬ ‫وں میں داخل نہیں ہ‬ ‫ارے دل‬ ‫تمہ‬

‫یز فرمایا‬ ‫‪:‬ن‬

‫لِ ِمينَ (‬ ‫ت ِمنَ ْال ُم ْس‬


‫َر بَ ْي ٍ‬ ‫ْدنَا فِيهَا َغ ْي‬ ‫ْؤ ِمنِينَ ‪ .‬فَ َما َو َج‬ ‫انَ فِيهَا ِمنَ ْال ُم‬ ‫)فَأ َ ْخ َرجْ نَا َم ْن َك‬

‫ترجمہ‪ :‬تو ہم نے ان میں سے جو بھی م ومن تھے انہیں وہ اں سے نک ال دی ا‪ ،‬تو ہمیں اس میں مس لمانوں کے ایک گھ رانے کے عالوہ‬
‫ذاريات‪]36:‬‬ ‫کچھ نہ مال۔ [ال‬

‫اتھ ذکر فرمایا تو‬ ‫الم کے س‬ ‫ان کو اس‬ ‫ات میں جب ایم‬ ‫‪ :‬تو ان آی‬

‫یرہ‬ ‫اۃ‪ ،‬روزہ‪ ،‬حج وغ‬ ‫از‪ ،‬زک‬ ‫رار‪ ،‬نم‬ ‫ہادتین کا اق‬ ‫یے‪ ،‬مثالً‪ :‬ش‬ ‫ال ل‬ ‫اہری اعم‬ ‫راد ظ‬ ‫الم سے م‬ ‫اس‬

‫اور ایم ان سے م راد قل بی ام ور ل یے ‪ ،‬مثالً‪ :‬ہللا تع الی پر ایم ان‪ ،‬فرش توں‪ ،‬کت ابوں‪ ،‬رس ولوں اور آخ رت کے دن پر ایم ان۔‬

‫تاہم جب ایمان کا لفظ اکیال ذکر کیا جائے تو اس میں اسالم اور اعمال صالحہ سب شامل ہوتے ہیں‪ ،‬جیسے کہ رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ‬
‫و سلم کا ایمان کے درجات بیان کرنے والی حدیث میں فرمان ہے‪( :‬ایمان کے ستر سے زائد درج ات ہیں‪ ،‬ان میں سب سے اعلی درجہ‬
‫یز ہٹانا ہے)‬ ‫تے سے تکلیف دہ چ‬ ‫ا‪ ،‬اور سب سے چھوٹا درجہ راس‬ ‫ال الہ اال ہللا کہن‬

‫تو یہی طریقہ کار دیگر تمام احادیث کے ساتھ اپنایا ج ائے گا جن میں نیکی کے ک اموں کو ایم ان کا حصہ بتالیا گیا ہے" اختص ار کے‬
‫وا‬ ‫اس مکمل ہ‬ ‫اتھ اقتب‬ ‫س‬

‫اوى" (‪")15-7/13‬‬ ‫وع الفت‬ ‫مجم‬


‫تے ہیں‬ ‫ثیمین رحمہ ہللا کہ‬ ‫یخ ابن ع‬ ‫‪:‬ش‬

‫جب [لفظ ایمان اور اسالم] دونوں اکٹھے ذکر ہوں تو پھر اسالم سے مراد ظاہری اعمال مراد لیے ج اتے ہیں جس میں زب ان سے ادا"‬
‫ہونے والے کلمات‪ ،‬اور اعضا سے ہونے والے اعمال شامل ہیں اور یہ کلم ات اور اعم ال کامل ایم ان واال م ومن یا کم زور ایم ان واال‬
‫الی ہے‬ ‫اری تع‬ ‫ا ِن ب‬ ‫کتا ہے‪ ،‬فرم‬ ‫ومن بھی کر س‬ ‫‪:‬م‬

‫وبِ ُك ْم(‬ ‫انُ فِي قُلُ‬ ‫ْد ُخ ِل اإْل ِ ي َم‬ ‫لَ ْمنَا َولَ َّما يَ‬ ‫وا أَ ْس‬ ‫وا َولَ ِك ْن قُولُ‬ ‫لْ لَ ْم تُ ْؤ ِمنُ‬ ‫َرابُ آ َمنَّا قُ‬ ‫ت اأْل َ ْع‬
‫ال َ ِ‬ ‫)قَ‬

‫ترجمہ‪ :‬خانہ بدوشوں نے کہا‪ :‬ہم ایمان لے آئے‪ ،‬آپ کہہ دیں کہ‪ :‬تم ایمان نہیں الئے‪ ،‬تاہم تم کہو‪ :‬ہم اس الم لے آئے ہیں‪ ،‬ابھی تو ایم ان‬
‫رات‪]14:‬‬ ‫وا ہے۔ [الحج‬ ‫وں میں داخل نہیں ہ‬ ‫ارے دل‬ ‫تمہ‬

‫اور اسی ط رح من افق ش خص ہے کہ اسے ظ اہری ط ور پر تو مس لمان کہا جاتا ہے لیکن وہ ب اطنی ط ور پر ک افر ہے۔‬

‫ان‬
‫اور ایمان سے مراد باطنی یا قلبی امور لیے جاتے ہیں اور یہ کام صرف وہی شخص کرتا ہے جو حقیقی م ومن ہ و‪ ،‬جیسے کہ فرم ِ‬
‫الی ہے‬ ‫اری تع‬ ‫‪:‬ب‬

‫الص اَل ةَ َو ِم َّما‬


‫َّ‬ ‫ت َعلَ ْي ِه ْم آيَاتُ هُ زَا َد ْتهُ ْم إِي َمانًا َو َعلَى َربِّ ِه ْم يَتَ َو َّكلُ ونَ (‪ )2‬الَّ ِذينَ يُقِي ُم ونَ‬ ‫إِنَّ َما ْال ُم ْؤ ِمنُ ونَ الَّ ِذينَ إِ َذا ُذ ِك َر هَّللا ُ َو ِجلَ ْ‬
‫ت قُلُ وبُهُ ْم َوإِ َذا تُلِيَ ْ‬
‫ونَ َحقًّا لَهُ ْم‬ ‫ك هُ ُم ْال ُم ْؤ ِمنُ‬
‫َ‬ ‫ونَ (‪ )3‬أُولَئِ‬ ‫اهُ ْم يُ ْنفِقُ‬ ‫َرزَ ْقنَ‬

‫ترجمہ‪ :‬حقیقی مومن تو وہی ہیں کہ جب ہللا کا ذکر کیا ج ائے تو ان کے دل ڈر ج اتے ہیں اور جب ان پر اس کی آی ات پ ڑھی ج ائیں تو‬
‫انہیں ایمان میں بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسا رکھتے ہیں۔ [‪ ]2‬وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں اور اس میں سے جو ہم‬
‫نے انہیں دیا‪ ،‬خرچ کرتے ہیں [‪ ]3‬یہی لوگ سچے مومن ہیں‪ ،‬انہی کے ل یے ان کے رب کے پ اس بہت سے درجے اور ب ڑی بخشش‬
‫‪]4‬‬ ‫‪-‬‬ ‫ال‪2 :‬‬ ‫زت رزق ہے۔ [األنف‬ ‫اور با ع‬

‫تو اس اعتب ار سے ایم ان کا درجہ اعلی ہو گ ا‪ ،‬لہ ذا ہر م ومن مس لمان ہے لیکن ہر مس لمان م ومن نہیں ہے" ختم شد‬

‫ثیمین" (‪")4/92‬‬ ‫ائل ابن ع‬ ‫اوى ورس‬ ‫وع فت‬ ‫مجم‬

‫اب سوال میں مذکور آیت کا مفہوم اس توجیہ کے موافق ہے کہ لوط علیہ السالم کے گھر والوں کو ایک بار ایمان سے موصوف کیا گیا‬
‫الم سے ۔‬ ‫ار اس‬ ‫ری ب‬ ‫تو دوس‬

‫تو یہاں پر اسالم سے مراد ظاہری امور مراد ہیں اور ایمان سے مراد قلبی اور حقیقی ایمان مراد ہے‪ ،‬لہ ذا جب ہللا تع الی نے ل وط علیہ‬
‫السالم کے تمام گھرانے والوں کا ذکر کیا تو انہیں ظاہری اعتبار سے اس الم کے س اتھ موص وف فرمایا ؛ کی ونکہ ل وط علیہ الس الم کی‬
‫بی وی بھی آپ کے گھ رانے میں ش امل تھی اور وہ ظ اہری ط ور پر مس لمان تھی‪ ،‬لیکن حقیقت میں ک افر تھی‪ ،‬اسی وجہ سے جب ہللا‬
‫‪:‬تع الی نے ع ذاب سے بچ نے والے اور نج ات پا ج انے والے لوگ وں کا ذکر فرمایا تو انہیں ایم ان سے موص وف فرمایا اور کہا‬

‫لِ ِمينَ (‬ ‫ت ِمنَ ْال ُم ْس‬


‫َر بَ ْي ٍ‬ ‫ْدنَا فِيهَا َغ ْي‬ ‫ْؤ ِمنِينَ ‪ .‬فَ َما َو َج‬ ‫انَ فِيهَا ِمنَ ْال ُم‬ ‫)فَأ َ ْخ َرجْ نَا َم ْن َك‬

‫ترجمہ‪ :‬تو ہم نے ان میں سے جو بھی م ومن تھے انہیں وہ اں سے نک ال دی ا‪ ،‬تو ہمیں اس میں مس لمانوں کے ایک گھ رانے کے عالوہ‬
‫ذاريات‪]36:‬‬ ‫کچھ نہ مال۔ [ال‬

‫تے ہیں‬ ‫الم ابن تیمیہ رحمہ ہللا کہ‬ ‫یخ االس‬ ‫ارے میں ش‬ ‫‪:‬اس ب‬

‫لوط علیہ السالم کی بیوی باطنی طور پر منافق اور کافر تھی‪ ،‬تاہم اپنے خاوند کے ساتھ ظاہری طور پر مسلمان تھی‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ "‬
‫اسے بھی قوم لوط کے ساتھ عذاب سے دوچ ار کیا گی ا‪ ،‬تو یہی ح ال ن بی ص لی ہللا علیہ و س لم کے س اتھ موج ود من افقین کا ہے کہ وہ‬
‫ظ اہری ط ور پر آپ تو ص لی ہللا علیہ و س لم کے س اتھ مس لمان تھے لیکن ب اطن میں م ومن نہیں تھے" ختم شد‬
‫ائل" (‪")6/221‬‬ ‫امع المس‬ ‫ج‬

‫تے ہیں کہ‬ ‫الم ابن تیمیہ مزید کہ‬ ‫یخ االس‬ ‫‪:‬ش‬

‫کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ ایمان اور اسالم دونوں ایک ہی چیزیں ہیں‪ ،‬اور ان آیتوں کو باہمی طور پر "‬
‫ا۔‬ ‫رار دی‬ ‫ارض ق‬ ‫متع‬

‫حاالنکہ معاملہ ایسے نہیں ہے‪ ،‬بلکہ یہ آیت پہلی آیت کے ساتھ موافقت رکھتی ہے؛ کیونکہ ہللا تعالی نے یہ بتالیا کہ ہللا تعالی نے وہ اں‬
‫پر جو بھی مومن تھا اسے نکال لیا اور مسلمانوں کا وہاں ایک ہی گھر پایا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوط علیہ الس الم کی بی وی ل وط علیہ‬
‫السالم کے گھرانے میں موجود تھی لیکن وہ ان لوگوں میں ش امل نہیں جنہیں نک ال لیا گیا اور نج ات پا گ ئے تھے‪ ،‬بلکہ وہ ع ذاب میں‬
‫مبتال ہونے والے اور پیچھے رہ جانے والوں میں شامل تھی۔ لوط علیہ السالم کی بی وی ظ اہری ط ور پر تو اپ نے خاوند کے س اتھ تھی‬
‫لیکن باطنی طور پر وہ اپنی قوم کے دین پر تھی‪ ،‬اور اپنے خاوند کو دھوکا دے رہی تھی کہ اس نے اپنی قوم کو آنیوالے مہمانوں کے‬
‫وں فرمایا کہ‬ ‫الی نے ی‬ ‫یز کا ذکر ہللا تع‬ ‫ا‪ ،‬جیسے کہ اس چ‬ ‫ارے میں مطلع کر دی‬ ‫‪:‬ب‬

‫(‬ ‫الِ َحي ِْن فَخَانَتَاهُ َما‬ ‫َد ْي ِن ِم ْن ِعبَا ِدنَا َ‬


‫ص‬ ‫وط كَانَتَا تَحْ تَ َع ْب‬
‫ٍ‬ ‫َرأَتَ لُ‬ ‫وح َوا ْم‬
‫ٍ‬ ‫َرأَتَ نُ‬ ‫رُوا ا ْم‬ ‫ب هَّللا ُ َمثَاًل لِلَّ ِذينَ َكفَ‬
‫َر َ‬ ‫ض‬
‫) َ‬

‫ريم‪]10:‬‬ ‫رجمہ‪ [ :‬التح‬ ‫ت‬

‫اور جس خیانت کا ذکر ہللا تعالی نے فرمایا ہے یہ ان دونوں عورتوں کی جانب سے دینی خیانت تھی پاک دامنی سے متعلق نہیں تھی۔ بہ‬
‫ہر حال مقصود یہ ہے کہ لوط علیہ السالم کی بیوی مومن نہیں تھی‪ ،‬نہ ہی وہ ان لوگوں میں شامل تھی جنہیں عذاب سے نکال کر نجات‬
‫دے دی گئی‪ ،‬لہ ذا وہ ہللا تع الی کے اس فرم ان ‪( :‬فَأ َ ْخ َرجْ نَا َم ْن َك انَ فِيهَا ِمنَ ْال ُم ْؤ ِمنِينَ ) تو ہم نے ان میں سے جو بھی م ومن تھے انہیں‬
‫وہاں سے نکال دیا [الذاريات‪]36:‬میں شامل نہیں ہے‪ ،‬اور چونکہ وہ ظاہری ط ور پر مس لمان تھی اس ل یے وہ ہللا تع الی کے فرم ان ‪:‬‬
‫ت ِمنَ ْال ُم ْسلِ ِمينَ ) تو ہمیں اس میں مسلمانوں کے ایک گھ رانے کے عالوہ کچھ نہ مال۔ [ال ذاريات‪ ]36:‬میں ش امل‬ ‫(فَ َما َو َج ْدنَا فِيهَا َغي َْر بَ ْي ٍ‬
‫ہے۔‬

‫یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ قرآن کریم کسی بھی چیز کو بی ان ک رنے میں انتہ ائی ب اریکی اختی ار کرتا ہے کہ جب لوگ وں کو‬
‫عذاب سے بچانے کا ذکر کیا تو وہاں پر مومنین کا لفظ بوال‪ ،‬لیکن جب وجود اور عدم وجود کی بات آئی تو وہاں مسلمین کا لفظ ب وال"‬
‫شد‬ ‫ختم‬

‫اوى " (‪")474-7/472‬‬ ‫وع الفت‬ ‫مجم‬

‫تے ہیں‬ ‫ثیمین رحمہ ہللا کہ‬ ‫یخ ابن ع‬ ‫‪:‬ش‬

‫الم کے واقعے میں فرمایا"‬ ‫وط علیہ الس‬ ‫الی نے ل‬ ‫‪:‬ہللا تع‬

‫لِ ِمينَ (‬ ‫ت ِمنَ ْال ُم ْس‬


‫َر بَ ْي ٍ‬ ‫ْدنَا فِيهَا َغ ْي‬ ‫ْؤ ِمنِينَ ‪ .‬فَ َما َو َج‬ ‫انَ فِيهَا ِمنَ ْال ُم‬ ‫)فَأ َ ْخ َرجْ نَا َم ْن َك‬

‫ت رجمہ‪ :‬تو ہم نے ان میں سے جو بھی م ومن تھے انہیں وہ اں سے نک ال دی ا‪ ،‬تو ہمیں اس میں ک وئی ایک گھر کے س وا مس لمانوں کا‬
‫ذاريات‪]36:‬‬ ‫وئی گھر نہ مال۔ [ال‬ ‫ک‬

‫ہللا تعالی نے یہاں پر موم نین اور مس لمین میں ف رق کیا ہے؛ کی ونکہ اس بس تی میں ظ اہری ط ور پر یہی ایک گھ رانہ تھا جو اس المی‬
‫تھا[مکمل ایمانی نہیں تھا]؛ کیونکہ اس گھرانے میں لوط علیہ السالم کی بیوی بھی تھی جس نے لوط علیہ السالم کو ظاہری اس الم دکھا‬
‫کر دھوکا دیا ہوا تھا‪ ،‬حاالنکہ وہ اندر سے کافر تھی‪ ،‬چن انچہ جن لوگ وں کو نک اال گیا اور نج ات دی گ ئی تو وہ ل وگ ہی حقیقی م ومن‬
‫ا۔" ختم شد‬ ‫ان داخل ہو چکا تھ‬ ‫ور پر ایم‬ ‫وں میں حقیقی ط‬ ‫تھے کہ جن کے دل‬

‫ثیمین" (‪")49-1/47‬‬ ‫ائل ابن ع‬ ‫اوى و رس‬ ‫وع فت‬ ‫مجم‬

‫‪Question no. 2‬‬


‫ف‪:‬۔‬ ‫رك كی تعری‬ ‫ش‬

‫نی ہے کسی دوس رے کو اپ نے ک ام یا حصہ میں ش ریک کر لینا ۔جبکہ اصطالحاًش رک کہ تے ہیں ہللا کی‬
‫لغ وی ط ور پر ش رک کا مع ٰ‬
‫ا۔‬ ‫ریک بنان‬ ‫یر ہللا کو ہللا کا ش‬ ‫فات میں ‘یا ان میں سے کسی ایک میں کسی غ‬ ‫ماء وص‬ ‫ربوبیّت‘الوہیّت‘اس‬

‫پس جو شخص یہ عقی دہ رکھے کہ ہللا کے سا تھ کو ئی اور بھی خ الق یا م دد گ ار ہے‘یا ہللا کے س وا ک وئی اور بھی عب ادت کے الئق‬
‫ہے‘ یا اسماء وصفات میں اس کا کوئی ہم پلہ ہے۔تو وہ ٓادمی مشرک ہے۔اور شرک سے بڑا کوئی گناہ نہیں‘اس کی مثال ی وں س مجھو!‬
‫جیسے بادشاہ کے ہاں مختلف جرائم کی مختلف سزائیں مقرر ہیں ۔مثالًچوری ‘ڈکیتی ‘پہرہ دیتے دیتے سو جانا‘میدان جنگ سے بھ اگ‬
‫جانا ‘سلطنت کی رقم پہنچانے میں تاخیر کرنا‘قومی خزانے کو نقصان پہنچانا وغیرہ وغیرہ۔ ان سب جرائم کی سزائیں مق رر ہیں‘مگر‬
‫اف کر دے۔‬ ‫زا دے یا مع‬ ‫رم کو س‬ ‫اہ کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ مج‬ ‫اب بادش‬

‫لیکن بعض جرائم ایسے ہوتے ہیں جن سے بغاوت ظ اہر ہ وتی ہے‘اور وہ ناقابل مع افی ہ وتے ہیں۔مثالًبادش اہ کی موج ودگی میں کسی‬
‫وزیر کو یا مشیر کو‘چوہدری کو یا رئیس کو ‘بھنگی کو یا چمار کو بادشاہ بنا دیا جائے تو اس قسم کی حرکت بغاوت ہے۔یہ ج رم تم ام‬
‫جرموں میں سب سے بڑا ہے ‘اور اس کی سزا یقینا ً ضرورملنی چاہیے۔اور جو بادشاہ اس قسم کے جرائم کی س زا میں غفلت برتتا ہے‬
‫‘اور ایسے مجرموں کو سزا نہیں دیتا تواس کی سلطنت کمزور ہو جاتی ہے‘اور ارب اب دانش ایسے بادش اہ کو نا اہل کہ تے ہیں۔لوگ و!‬
‫اس مالک الملک غیرت مند بادشاہ سے ڈر جأوجس کی طاقت کا حد وشمار نہیں‘بھال وہ مشرکوں کو کیوں سزا نہ دے گا ‘جبکہ ش رک‬
‫کرنا ہللا کے ساتھ سب سے بڑی بغاوت ہے۔جب ایک عام بادشاہ اس قسم کی بغاوت برداشت نہیں کر سکتا تو بادشاہوں کا بادش اہ کیسے‬
‫وئی زوال نہیں جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔‬ ‫اہت کو ک‬ ‫برداشت کر لے گا جس کی بادش‬

‫ام‬ ‫رک کی اقس‬ ‫ش‬

‫میں ہیں۔‬ ‫ار قس‬ ‫رک کی چ‬ ‫ش‬

‫رک فی العلم‪:‬۔)‪(۱‬‬ ‫ش‬

‫ہللا ربّ الع ّزت ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔یعنی اس کا علم ہر چیز کو گھ یرے میں ل ئے ہ وئے ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ہر وقت ہر چ یز‬
‫سے با خ بر رہتا ہے۔خ واہ وہ چ یز دور ہو یا قریب‘پوش یدہ ہو یا ظاہر‘ٓاس مانوں میں ہو یا زمین وں میں‘پہ اڑوں کی چوٹی وں پر ہو یا‬
‫سمندروں کی تہہ میں۔یہ ہللا ہی کی شان ہے اور کسی کی نہیں۔اگر کوئی شخص کسی غیر ہللا کے اندر یہ صفات پائے ج انے کا عقی دہ‬
‫رکھے کہ غیر ہللا بھی ہر جگہ حاضر وناظر ہے‘ہر چیز سے باخبر ہے خواہ وہ غیر ہللا ن بی ہو یا ولی ‘جن ہو یا فرش تہ۔تو ایسا عقی دہ‬
‫رک ہے۔‬ ‫نے واال مش‬ ‫رکھ‬

‫رّف)‪(۲‬‬ ‫رک فی التص‬ ‫‪:‬ش‬

‫کائنات میں ارادے سے تصرّف و اختیار کرنا ‘حکم چالنا‘خواہش سے مارنا اور زندہ کرنا‘رزق میں تنگدستی و فراخی کرنا‘تندرس تی‬
‫وبیم اری سے دوچ ار کرن ا‘فتح و شکست دین ا‘ع ّزت وذلّت سے دوچ ار کرنا‘اقب ال وادبارکا الن ا‘مرادیں بر النا‘مش کل میں دس تگیری‬
‫کرنا‘اوربر وقت مدد کرنا۔یہ سب کچھ ہللا ہی کی شان ہے کسی اور کی نہیں‘خواہ وہ کتنا بڑا انسان یا مقرّب فرش تہ ہی کی وں نہ ہ و۔پس‬
‫جو ش خص کسی غ یر ہللا سے م رادیں م انگے اور اس کو تص رّف کا مالک س مجھے تو وہ ٓادمی مش رک ہے۔‬

‫ادات)‪(۳‬‬ ‫رک فی العب‬ ‫‪:‬ش‬

‫تعالی نے بعض کام اپنی عبادت کے ل ئے مخص وص فرما دی ئے ہیں۔جن کو عب ادات کہا جاتا ہے۔مثالً س جدہ کرن ا‘رکوع کرنا‘ہ اتھ‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫بان دھ کر کھ ڑا ہونا‘ص دقہ وخ یرات کرن ا‘روزہ رکھن ا‘دور دور سے اس کے مق ّدس گھر کی زی ارت کیل ئے جان ا‘بیت ہللا کا ط واف‬
‫کرنا‘اس کی طرف منہ کر کے سجدہ کرنا‘قربانی کرنا اور منتیں مانن ا‘کعبہ پر غالف چڑھان ا‘حجر اس ود کو چومن ا‘اس میں خ ادم بن‬
‫کر رہنا‘جھاڑو دینا اور صفائی کرنا‘ٓاب زمزم پین ا۔یہ سب ک ام ہللا نے مس لمانوں پر اپ نی عب ادت کے ط ور پر ف رض ک ئے ہیں۔یہ سب‬
‫ان کے الئق ہیں اور کسی کے نہیں۔‬ ‫ادات ہللا ہی کی ش‬ ‫عب‬

‫پس جو شخص کسی نبی کویا ولی کو‘جن کو یا فرشتے کو‘کسی سچی یا جھوٹی ق بر کوس جدہ ک رے ‘چڑھاوا چڑھائے‘تبرک حاصل‬
‫کرے‘مجاور بن کر بیٹھے‘اس قبر یا ٓاس تانے کی ع ّزت ک رے اور اس کو مق ّدس ج انے تو ایسا عقی دہ رکھ نے واال ٓادمی مش رک ہے۔‬
‫ادات)‪(۴‬‬ ‫رک فی الع‬ ‫‪:‬ش‬

‫ہللا نے اپنے بندوں کو یہ ادب سکھالیا ہے کہ وہ عام دنیوی ک اموں میں بھی ہللا کو ی اد رکھیں‘ اور اس کی تعظیم بجا الئیں۔جیسے ک ام‬
‫شروع کرتے وقت بسم ہللا پڑھنا ‘اوالد کی نعمت پر بطور شکریہ ج انور ذبح کرنا ‘بچ وں کے ن ام عبد ہللا ‘عبد ال رحمن رکھنا ‘کھی تی‬
‫سے کچھ حصہ ہللا کے نام پر صدقہ کرنا ‘ہر کام کا ارادہ ک رتے وقت ان ش اء ہللا کہنا ‘ض رورت کے موقع پر ص رف ہللا کے ن ام کی‬
‫قسم کھانا وغیرہ وغیرہ۔اگر کوئی شخص غیر ہللا کی قسم کھاتا ہے ‘دنیوی ک اموں میں ہللا کے س وا کسی اور سے م دد مانگتا ہے ‘ک ام‬
‫شروع کرتے وقت بسم ہللا کی بج ائے کسی اور کا ن ام لیتا ہے ‘مثالّ یا علی م دد ‘اوالد کا ن ام پ یروں کے ن ام پر رکھتا ہے جیس ے۔پ یر‬
‫بخش ‘عبد النّ بی ‘غالم رس ول ‘ام ام بخش وغ یرہ تو ایسا عقی دہ رکھ نے واال ش خص مش رک ہے۔[تق ویۃ االیم ان]‬

‫اہر‬ ‫رك كے مظ‬ ‫ش‬

‫عالم اسالم میں پھیلے ہوئے شرک کے مختلف انداز ہیں۔جو ہر عالقہ کے اعتبار سے مختلف ہیں۔یہاں شرک کی چند صورتوں کو بی ان‬
‫کے۔‬ ‫وظ رکھ س‬ ‫نے ٓاپ کو محف‬ ‫راہی سے اپ‬ ‫رک جیسی گم‬ ‫ان ش‬ ‫کیا گیا ہے ‘تا کہ انس‬

‫مثالًغیر ہللا سے دعائیں مانگنا ‘ قبروں پر جا کر ن ذر و نی از تقس یم کرنا اور منّ تیں ماننا ‘ م زاروں پر ش رینی تقس یم کرنا یا چڑھاوے‬
‫چڑھانا ‘ قبروں یا ٓاستانوں کے پاس جانور ذبح کرنا ‘ قبروں کا طواف کرنا یاپیشانیاںٹیکنا اور رکوع کی ح الت میں جھکنا ‘ ق بروں کی‬
‫طرف منہ کر کے نماز پڑھنا یا سجدہ کرنا ‘ قبروں کی طرف ث واب اور ت برّک کی نیت سے کج اوے کس نا اور س فر کرنا ‘ اولی اء اور‬
‫نیک لوگو ں کو مسجد میں دفن کرنا ‘ غیر ہللا سے مدد مانگنا جیسے یا علی مدد کہنا ‘ بیماری یا مصیبت سے بچنے کے لئے کڑا پہننا‬
‫‘دھاگہ لٹکانا یا انگوٹھی پہننا جیسے مخصوص پتھروں والی انگو ٹھیاں پہنی جاتی جاتی ہیں ‘ نظر بد سے بچنے کے ل ئے بچ وں کے‬
‫گلے میں تعویزلٹکانا ‘ پرن دوں یا ٓادمی وں سے ف ال لینا ‘ درخت وں پتھ روں اور اص نام سے ب رکت حاصل کرنا ‘ ج ادو کے ذریعہ ش فا‬
‫حاصل کرنا ‘ نجومیوں کے پاس جا کر اپنی قسمت معلوم کروانا اور ان کی تص دیق کرنا ‘ علم فلکی سے زمی نی حوادث ات کی خ بریں‬
‫دینا ‘ ستاروں کے ذریعہ بارش طلب کرنا ‘ جانوروں کو غیر ہللا کے ن ام پر چھ وڑ دینا ‘ ق رٓان وس نّت کے مخ الف ام ور میںحکا م کی‬
‫یرہ۔‬ ‫یرہ وغ‬ ‫ائز ہے وغ‬ ‫اعت اس نیت سے کرنا کہ یہ ج‬ ‫اط‬

‫یہ شرک کی چند ایک مثالیں ہیں جو مختلف ممالک میں مختلف ان داز سے رائج ہیں۔اس کے عالوہ بھی ش رک کی ک ئی ایک ص ورتیں‬
‫ائے۔ٓامین۔‬ ‫وظ فرم‬ ‫رک سے محف‬ ‫کل ہے ۔ہللا ہم سب کو ش‬ ‫ہیں جو اس مختصر پمفلٹ پر بیا ن کرنا مش‬

‫انات‬ ‫رک کے نقص‬ ‫ش‬

‫ذیل میں ش رک کے وہ نقص انات بی ان ک ئے جا رہے ہیں ۔جو مش رک کی زن دگی پر دنیا و ٓاخ رت میں م رتّب ہ وتے ہیں۔‬

‫)‪(۱‬‬ ‫رمت‬ ‫اح کی ح‬ ‫‪:‬نک‬

‫اور شرک کرنے والی عورتوں سے تا وقتیکہ وہ ایمان نہ الئیں تم نکاح نہ کرو۔ایماندار لونڈی بھی شرک کرنے والی ٓازاد ع ورت سے‬
‫بہت بہتر ہے‘گو تمہیں مشرکہ ہی اچھی لگتی ہو۔ اور نہ شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورت وں کو دو‘جب تک کہ وہ‬
‫ایم ان نہ الئیں۔ایمان دار غالم ٓازاد مش رک سے بہ تر ہے‘گو مش رک تمہیں اچھا لگے۔یہ ل وگ جہنّم کی ط رف بالتے ہیں اور ہللا اپ نی‬
‫رۃ‪]۲۲۱:‬‬ ‫رف بالتا ہے۔[البق‬ ‫بخشش اور جنّت کی ط‬

‫انعت)‪(۲‬‬ ‫ازہ کی مم‬ ‫از جن‬ ‫‪:‬نم‬

‫ان میں سے کوئی مر جائے تو ٓاپ اس کے جنازہ کی ہر گز نماز نہ پڑھیں‘اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔یہ ہللا اورا س کے رس ول‬
‫وبۃ‪]۸۴:‬‬ ‫اعت رہے۔[الت‬ ‫ار بے اط‬ ‫رتے دم تک بد ک‬ ‫کے منکر ہیں‘اور م‬

‫)‪(۳‬‬ ‫انعت‬ ‫رت کی مم‬ ‫اء مغف‬ ‫‪:‬دع‬

‫پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مش رکین کے ل ئے مغف رت کی دعا مانگیںاگرچہ وہ رش تہ دار ہی ہ وں۔اس امر کے‬
‫وبۃ‪]۱۱۳:‬‬ ‫رک ہیں۔[الت‬ ‫وگ مش‬ ‫انے کے بعد کہ یہ ل‬ ‫اہر ہو ج‬ ‫ظ‬
‫یاع)‪(۴‬‬ ‫ال کا ض‬ ‫‪:‬اعم‬

‫اور اگر فرض ا ً یہ حض رات بھی ش رک ک رتے تو جو کچھ یہ اعم ال ک رتے ہیںان کے سب اک ارت ہو ج اتے۔[االنع ام‪]۸۸:‬‬

‫رام ہونا)‪(۵‬‬ ‫‪:‬جنّت کا ح‬

‫الی نے اس پر جنت ح رام ک ردی ہے۔اس کا ٹھک انہ جہنّم ہی ہے‘اور گن اہ‬
‫یقین مانو کہ جو ش خص ہللا کے س اتھ ش رک کرتا ہے‘ہللا تع ٰ‬
‫دۃ‪]۷۲:‬‬ ‫ا۔[المائ‬ ‫وئی نہیں ہو گ‬ ‫ددکرنے واال ک‬ ‫اروں کی م‬ ‫گ‬

‫نجس ہونے کی وجہ سے حرم میں داخلہ ممنوع ہونا‪:‬۔اے ایمان والو!بے شک مشرک بالکل ہی ناپاک ہیں وہ اس سال کے بعد مسجد )‪(۶‬‬
‫وبۃ‪]۲۸:‬‬ ‫ائیں۔[الت‬ ‫نے پ‬ ‫اس بھی نہ پھٹک‬ ‫رام کے پ‬ ‫ح‬

‫بب‪:‬۔)‪(۷‬‬ ‫ازی کا س‬ ‫رقہ ب‬ ‫تف‬

‫لوگو! مشرکین میں سے نہ ہو جأو جنہوں نے اپنے دین کو ٹک ڑے ٹک ڑے کر دیا اور خ ود بھی گ روہ گ روہ ہو گ ئے۔[ال روم‪]۳۲‘۳۱:‬‬

‫)‪(۸‬‬ ‫وہین‪:‬۔‬ ‫انیت کی ت‬ ‫انس‬

‫اعلی و برتر ہے اس کو چھ وڑ کر گھٹیا پر یقین رکھتا ہے۔ہللا فرم اتے ہیں۔ س نو!ہللا کے س اتھ‬
‫ٰ‬ ‫کیونکہ مشرک ٓادمی ہللا رب الع زت جو‬
‫شریک کرنے واال گویا ٓاسمان سے گر پ ڑا ‘اب یا تو اسے پرن دے اچک لے ج ائیں گے یا ہ وا کسی دور درازکی جگہ پھینک دے گی۔‬
‫[الحج‪]۳۱:‬‬

‫ز‪:‬۔)‪(۹‬‬ ‫ام کا مرک‬ ‫وف و اوہ‬ ‫خ‬

‫مش رک ٓادمی کی عقل ہر ط رح کی خراف ات کو قب ول کر لی تی ہے اور وہ باطل کی تص دیق پر تی ار ہو جاتا ہے۔اور وہ ک ئی جہت سے‬
‫خوف کھاتا ہے کیونکہ وہ کئی معب ودوں پر یقین رکھتا ہے۔ہللا فرم اتے ہیں ‪:‬ہم عنق ریب ک افروں کے دل وں میں رعب ڈال دیں گے اس‬
‫وجہ سے کہ وہ ہللا کے س اتھ ان چ یزوں کو ش ریک بن اتے ہیںجس کی ہللا نے ک وئی دلیل ن ازل نہیں کی۔ان کا ٹھک انہ جہنم ہے اور ان‬
‫ری جگہ ہے۔‬ ‫الموں کی ب‬ ‫ظ‬

‫ران‪[۱۵۱:‬‬ ‫]ٓال عم‬

‫‪Question no. 3‬‬

‫تعالی نے ہر زمانے میں اپنی ط رف سے رس ول اور ن بی‬ ‫ٰ‬ ‫عقیدہ توحید کے بعد اسالم کا دوسرا بنیادی عقیدہ‪ ،‬عقیدہ رسالت ہے۔یعنی ہللا‬
‫بھیجے جو انسانیت کی ہدایت کے لیے ہللا کی طرف سے پیغام لے کر آتے رہے۔ یہ سلسلہ آدم علیہ السالم سے شروع ہ وا اور ہم ارے‬
‫نبی محمد ﷺپر ختم ہوا۔ آپ ﷺ نے رس الت کا حق ادا کر دی ا‪ ،‬اورامت کو بہ ترین ان داز میں نص یحت‬
‫کی ۔‬

‫تعالی کے دین کی ب اال دس تی ق ائم ہو اور لوگ وں پر حجت نہ رہے کہ انہیں کچھ‬
‫ٰ‬ ‫تمام انبیاءو رسل اس لیے دنیا میں تشریف الئے کہ ہللا‬
‫الی کی عب ادت‪ ،‬اط اعت اور فرم اں ب رداری کیسے ک رنی ہے۔ اس ل یے ہللا تع الی نے فرمایا‬ ‫‪:‬پتہ نہیں تھا کہ ہللا تب ارک و تع ٰ‬

‫پیغمبروں کو (ہللا تعالی) نے خوشخبری سنانے واال‪ ،‬ڈرس نانے واال بنا کر بھیجا تا کہ رس ولوں کو بھیج نے کے بعد لوگ وں کی ہللا پر"‬
‫اء– ‪)165‬‬ ‫ورہ نس‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫وئی حجت نہ رہے" (ق‬ ‫ک‬

‫جو لوگ منصب رسالت پر سرفراز کئے گئے‪ ،‬ہللا تعالی کی طرف سے ان کو غیر معمولی علم‪ ،‬ت دبر‪ ،‬ق وت فیص لہ اور ن ور بص یرت‬
‫عطا کیا گیا۔ اسی لیے ایک رسول اور فلسفی میں بنی ادی ف رق ہی یہ ہے کہ فلس فی جو کچھ کہتا ہے وہ عقل و ظن کی بنی اد پر کہتا ہے‬
‫جبکہ انبیاء ورسل جو کچھ کہتے ہیں وہ وحی کی بنیاد پر کہ تے رہے۔ انہ وں نے جو دع وت پیش کی علم اور دلیل کے س اتھ پیش کی۔‬
‫سب رس ول بشر تھے‪ ،‬مگر ہللا تع الی کی مخل وق میں علی االطالق افضل و اکمل تھے۔ جب تک تم ام انبی اءو رسل پر ایم ان نہ رکھا‬
‫جائے کوئی بھی شخص صاحب ایمان نہیں ہو سکتا۔ رسول کی اط اعت ایک مس تند ذریعہ ہے جس سے ہم کو ہللا کے احک ام و ف رامین‬
‫پہنچتے ہیں۔ کوئی اطاعت ہللا اور رسول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے۔ رسولﷺ کی پیروی سے منہ موڑنا‪ ،‬ہللا کی‬
‫اط اعت سے بغ اوت ہے۔ ‪ ،‬ہللا تع الی کے رس ول دنیا کی تم ام قوم وں میں آئے اور ان سب نے اس الم کی تعلیم دی اورہم ارے ن بی‬
‫ﷺوہی تعلیم دینے کے لیے سب سے آخر میں تشریف الئے‪ ،‬اس لحاظ سے ہللا کے تم ام رس ول ایک گ روہ کے ل وگ‬
‫ادہے‬ ‫الی کا ارش‬ ‫‪:‬تھے۔ جیسا کہ ہللا تع‬

‫اغوت سے دورر ہو ۔"‬ ‫رو اور ط‬ ‫ادت ک‬ ‫ائے) ہللا کی عب‬ ‫وں کو بت‬ ‫ول بھیجا (تا کہ وہ لوگ‬ ‫وم میں رس‬ ‫"ہم نے ہر ق‬

‫ورہ نحل ‪(3-6 :‬‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫ایک مسلمان اور مومن کے لیے اپنی ذات کی معرفت اتنی ضروری نہیں جتنی کہ محمد رسول ہللا ﷺکی ذات گ رامی‬
‫کی معرفت ضروری ہے‪ ،‬کیونکہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں ایمان ب اہلل کے س اتھ ایم ان ب الر س الت کو تکمیل ایم ان کی ش رط کے‬
‫الی ہے‬
‫ٰ‬ ‫اری تع‬ ‫اد ب‬ ‫انچہ ارش‬ ‫ان فرمایا گیا ہے‪ ،‬چن‬ ‫ور پر بی‬ ‫‪:‬ط‬

‫ارا۔"‬ ‫ور پرجو ہم نے ات‬ ‫ول پر اور اس ن‬ ‫ان الؤ ہللا اور اس کے رس‬ ‫"ایم‬

‫آیت ‪(8 :‬‬ ‫ابن ‪،64‬‬ ‫ورہ تغ‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫رس ول ہللا ﷺکی اط اعت تم ام انس انوں پر ب العموم اور ایم ان وال وں پر بالخص وص ف رض ہے۔ چن انچہ ہللا تع الی کا‬
‫ادہے‬ ‫‪ :‬ارش‬

‫اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ رسول آ گیاہے اس پر ایمان لے آو – اس میں تمہ اری بھالئی ہے۔""‬
‫اء‪)170-‬‬ ‫ورہ نس‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫(ق‬

‫اد فرمایا‬ ‫الی نے مزید ارش‬ ‫‪:‬ہللا تع‬

‫"‬ ‫وب(‬ ‫)!اے محب‬ ‫وں ۔‬ ‫ول ہ‬ ‫رف ہللا کا رس‬ ‫"کہو کہ اے لوگو میں تم سب کی ط‬

‫آیت ‪(158 :‬‬ ‫راف ‪،7‬‬ ‫ورہ اع‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫ق‬ ‫)‬

‫خود آپ ﷺنے فرمایا ‪ " :‬ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف بھیجے ج اتے تھے اور میں تم ام انس انوں کی ط رف بھیجا‬
‫وں۔‬ ‫"گیا ہ‬

‫ان آیات اور احادیث سے ہمیں یہ رہنمائی مل تی ہے کہ آپ ص رف اپ نے مل ک‪ ،‬اپ نے زم انے اور اپ نی ق وم کے ل یے ہی نہیں بلکہ آپ‬
‫ئے۔‬ ‫ائے گ‬ ‫وث فرم‬ ‫ول مبع‬ ‫یے رس‬ ‫انی کے ل‬ ‫وع انس‬ ‫وری ن‬ ‫امت تک پ‬ ‫قی‬

‫لہ ذا رس الت پرایم ان النے میں یہ داخل ہے کہ آپ کو انس انیت کی ط رف ہللا کا آخ ری رس ول ماناج ائے‪،‬اوریہ عقی دہ رکھا ج ائے کہ‬
‫رسول جوکچھ بتائے وہ حق ہے جو کچھ کہے وہ سچ اور جو عمل کرے وہ قابل اتباع ہے۔ ان کی بت ائی ہ وئی تم ام ب اتوں پر عمل کرنا‬
‫فرض ہے‪ ،‬خواہ ان باتوں کا تعلق عبادت و مع امالت‪ ،‬تہ ذیب و معاش رت‪ ،‬اخالق و ک ردار یا زن دگی کے کسی بھی ش عبہ سے ہ و‪ ،‬اس‬
‫لیے کہ یہی اسوہ کامل ہے۔ آپ کا ارشاد ہے ‪" :‬میری ساری کی س اری امت جنت میں داخل ہو گی‪ ،‬س وائے اس ش خص کے‪ ،‬جس نے‬
‫انکار کیا۔ پوچھا گیا ‪:‬انکار کا کیا مطلب ہے‪ ،‬آپ نے فرمایا‪ :‬جو میری اطاعت کرے گا۔ وہ جنت میں داخل ہو گا۔جو نافرمانی کرے گ ا‪،‬‬
‫ا۔‬ ‫ار کرےگ‬ ‫"وہ انک‬

‫اط اعت کا مطلب اتب اع ہے‪ ،‬ہر وہ عمل جو آپ کے ق ول و فعل اور تقریر سے ص حیح ط ور ث ابت ہ و‪ ،‬وہ س نت ہے‪ ،‬جس کی اتب اع‬
‫ادہے‬ ‫اعت ہے۔ ہللا کا ارش‬ ‫ام اط‬ ‫اع کا ن‬ ‫روری ہے۔ اسی اتب‬ ‫‪:‬ض‬

‫"‬ ‫اؤ۔‬ ‫ریں اس سے رک ج‬ ‫یز) سے منع ک‬ ‫وکچھ( حکم) تمہیں دیں اس کو لے لو اور جس(چ‬ ‫ول ج‬ ‫"اوررس‬

‫(‬ ‫آیت ‪7:‬‬ ‫ورة الحشر‪،59‬‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬
‫ادہے‬ ‫الی کا ارش‬ ‫‪ :‬ہللا تع‬

‫ہللا اور اسکے رسول کی اطاعت کرو آپس میں جھگ ڑا نہ ک رو‪ ،‬ورنہ تم ب زدل ہو ج اؤ گے اور تمہ اری ہ وا(رعب اور ط اقت)اکھڑ "‬
‫ائے گی۔‬ ‫"ج‬

‫آیت ‪(46 :‬‬ ‫ال‪،8‬‬ ‫ورہ انف‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫ق‬ ‫)‬

‫ہللا اور اسکے رسول کی اطاعت ہی میں ہمارا امن اور ہماری وحدت ہے۔ جو کوئی اس اطاعت سے منحرف ہ وا‪ ،‬گویا وہ غ یر فط ری‬
‫رت میں۔‬ ‫ابی ہے اور نہ آخ‬ ‫وئی کامی‬ ‫یے نہ دنیا میں ک‬ ‫وں پر چل نکال۔ جس کے ل‬ ‫راہ‬

‫وت‬ ‫ات نب‬ ‫اثب‬

‫نبوت ايک ايسا عظيم و مقدس منصب ہےجس پر فائز ہونے واال ش خص لوگ وں کے درميان م ومن و مص دق ہوجاتا ہے‪ ،‬ان کے ل ئے‬
‫محبوب و مقدس بن جاتا ہے اور اس کی اطاعت و پيروی لوگوں کے لئے شرعی اور دينی وظيفہ اور ذمہ داری ہوج اتی ہے۔ یہی وجہ‬
‫ہے کہ تاریخ میں اکثر ایسا ہوا ہے کہ بعض دوس روں سے س وئے اس تفادہ ک رنے والے اف راد نب وت کا جھوٹا اور بے بنی اد دع ٰ‬
‫وی کر‬
‫بیٹھے ہیں تاکہ نبوت کے ظاہری فوائد سے مستفید ہوتے ہوئے لوگوں کو اپنا گرویدہ بن الیں اور ان پر غلبہ حاصل کر لیں۔ یہی امر اس‬
‫وی کی ص داقت و حقیقت کو‬ ‫بات کا موجب ہوجاتا ہے کہ ہم ان راہوں اور دالئل کو پہنچ انیں جو نب وت کا دع وی ک رنے والے کے دع ٰ‬
‫واضح کر س کیں ۔ نب وت کا دع وی ک رنے والے ش خص کی ص داقت تین راہ وں سے ث ابت ہو س کتی ہے۔‬

‫)‪(1‬‬ ‫واہد‬ ‫رائن و ش‬ ‫ق‬

‫نب وت کا ادعا ک رنے والے ش خص کی ص داقت کو س مجھنے کا ايک راس تہ يہ ہے کہ اس کی گذش تہ زن دگی‪ ،‬اخالقی ص فات‬
‫وخصوصيات‪ ،‬اس کے پيغام‪ ،‬وہ معاشرہ جس ميں دعوت دی جائے اور اس سے مربوط دوسرے تمام امور کا عميق تجزيہ اور پھر ان‬
‫ائے۔‬ ‫وروفکر کيا ج‬ ‫داقت پر غ‬ ‫رکے اس کی ص‬ ‫ات کو يکجا ک‬ ‫ام نک‬ ‫تم‬

‫)‪(2‬‬ ‫بی کی تائيد‬ ‫تہ ن‬ ‫گذش‬

‫ايسا ش خص جس کی نب وت‪ ،‬دالئل کے ذريعہ ہم ارے نزديک ث ابت اور مس لم ہے‪ ،‬اگر يہ خ بر دے گيا ہو کہ م يرے بعد فالں فالں‬
‫خصوصيات وصفات کے ساتھ خدا کے طرف سے ايک نبی مبعوث ہوگا اور يہ تمام خصوصيات وص فات اس ش خص پر منطبق ہ وتی‬
‫ٰ‬
‫دعوی کررہا ہے تو ان تمام افراد کے لئے جو گذشتہ نبی پر ايمان رکھتے ہيں اور اس کی طرف سے دی گئی بش ارت‬ ‫ہوں جو نبوت کا‬
‫سے آگ اہ بھی ہيں ‪ ،‬شک وش بہ کی ک وئی گنج ائش ب اقی نہيں رہ ج اتی کہ يہ ش خص ن بی خ دا ہے۔‬

‫)‪(3‬‬ ‫زہ‬ ‫معج‬

‫انبياء کرام عام طور پر معجزے کے ذريعہ اپنی نبوت کوثابت کيا کرتے تھے‪ -‬قرآن مجيد کي آيتوں سے واضح ہوتا ہے کہ امتيں اپ نے‬
‫نبی سے معجزے کی درخواست کيا کرتی تھيں اور جب بھی اس ط رح کی ک وئی درخواست حق وحقيقت کی جس تجو کی خ اطر ہ وتی‬
‫تھی‪ ،‬انبياء کرام معجزہ پيش بھی کرتے تھے البتہ اکثر ايسا بھی ہوتا تھا کہ نبی کی طرف سے اتمام حجت اور حق کے روشن ہوجانے‬
‫کے باوجود بھی مشرکين تمسخر‪ ،‬استہزاء اوردوسرے غلط افکار کی بنا پر دوبارہ معجزے کی خواہش کرتے تھے۔ ظ اہر ب ات ہے کہ‬
‫ايسے موقع وں پر ان اف راد کی خ واہش کو ک وئی اہميت نہيں دی ج اتی تھی اور ک وئی دوس را نيا معج زہ وق وع پ ذير نہيں ہوتا تھ ا۔‬

‫یزیں‬ ‫یے الزمی چ‬ ‫وت کے ل‬ ‫نب‬

‫ک وئی ش خص انس انی کم ال کے کت نے ہی بلند ت رین م رحلہ کو پہنچ ج ائے مگر وہ اس منصب نب وت اور مق ام رس الت کو نہیں پا‬
‫سکتا‪،‬چنانچہ قرآ ن مجید کی متعدد آیات کے ضمن میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے‪ ،‬اور ق رآن میں واضح ط ور پر بی ان کیا‬
‫گیا ہے کہ انبی اء ک رام کم ال انس انی کے آخ ری م رحلے پر ف ائز تھے‪ ،‬اسی ط رح ان کے اور بالخص وص آنحض رت‬
‫ﷺکے خصوصیا ت اور امتیا زات کا ذکر کیا گیا ہے‪ ،‬چنانچہ قرآن مجید کی جن آیا ت میں ش ناخت ِ نب وت سے متعلق‬
‫رتےہیں‬ ‫رجمہ کو ذیل میں پیش ک‬ ‫ائی ہے ان میں سے ہم چند آیا ت کے ت‬ ‫ائی فرم‬ ‫الی نے رہنم‬
‫ٰ‬ ‫‪ :‬ہللا تع‬
‫یے منتخب فرمالیتا ہے۔"‬ ‫انے کے ل‬ ‫ام پہنچ‬ ‫نے اپنا پیغ‬ ‫انوں میں بعض کو اپ‬ ‫توں میں سے اور انس‬ ‫الی فرش‬
‫ٰ‬ ‫"ہللا تع‬

‫آیت ‪(75 :‬‬ ‫ورۂ حج ‪،22‬‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫اس آیت سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ انبیاء کرام (علیہم السالم) صفوت و نجابت کے اعتبار سے تمام انسانوں سے برگزیدہ اف راد ہیں اسی‬
‫ام کا امین بنایا ہے۔‬ ‫نے پیغ‬ ‫اکر اپ‬ ‫رفراز فرم‬ ‫الت سے س‬ ‫دہ رس‬
‫ٴ‬ ‫الی نے انہیں عہ‬‫ٰ‬ ‫دائے تع‬ ‫وجہ سے خ‬

‫رار دے۔"‬ ‫اں ق‬ ‫الت کہ‬ ‫تر جانتا ہے کہ منصب ِ رس‬ ‫ادہ بہ‬ ‫"ہللا زی‬

‫آیت ‪(124 :‬‬ ‫ام ‪،6‬‬ ‫ورہ انع‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫اس آیت سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ انبیاء کرام عظمت ‪ ،‬قوت روح ‪ ،‬صفائے نفس‪ ،‬شجاعت‪ ،‬معارف الہی‪ ،‬خ دا شناسی ا ور تم ام اخالقی‬
‫تعالی نے ان کو اپنی رسالت کا محل و مقر قرار دی ا‪ ،‬اور انہیں س عادت ‪ ،‬انس انیت‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫مسائل کے اعتبار سے اس قدر بلند تھے کہ خدا ئے‬
‫ا۔‬ ‫رفت کا مرجع بنای‬ ‫دایت اورمع‬ ‫ہ‬

‫تعالی ہرگز اپنی امانت ِ رسالت و نبوت اور ہ دایت ان کو س پرد نہ کرتا‬
‫ٰ‬ ‫اگر انبیا ء کرام میں یہ لیاقت پہلے سے نہ پائی جاتی تو خدا ئے‬
‫تعالی کا ان حضرات کو تاج رسالت و نبوت سے س رفراز کرنا اس ب ات کی دلیل ہے کہ یہ پہلے سے رذائل و خب اثت سے‬ ‫ٰ‬ ‫‪،‬لہٰ ذا خدائے‬
‫‪:‬دور تھے‪ ،‬چن انچہ ق وم ثم ود کی حض رت ص الح علیہ الس الم سے من درجہ ذیل گفتگو ہم اری اس ب ات کی تائید ک رتی ہے‬

‫دوں کے مرکز تھے۔"‬ ‫وم میں امی‬ ‫اری ق‬ ‫الح!اس سے پہلے تم ہی ہم‬ ‫نے لگے ‪:‬اے ص‬ ‫وگ کہ‬ ‫"وہ ل‬

‫آیت ‪(62 :‬‬ ‫ود ‪،11‬‬ ‫ورہ ہ‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫یعنی تمہاری ہوشمندی ‪ ،‬ذکاوت‪ ،‬فراست‪ ،‬سنجیدگی و متانت اور پروقار شخصیت کو دیکھ کر ہم یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ ب ڑے‬
‫آدمی بنو گے ۔ اپنی دنیا بھی خوب بناؤ گے اور ہمیں بھی دوسری قوموں اور قبیلوں کے مقابلے میں تمہارے تدبر سے فائدہ اٹھ انے کا‬
‫موقع ملے گا ۔ مگر تم نے یہ توحید اور آخ رت کا نیا راگ چھ یڑ کر تو ہم اری س اری امی دوں پر پ انی پھ یر دیا ہے۔‬

‫یہ آیت روشن دلیل ہے کہ انبیاء کرام قبل ِ بعثت اپنی قوموں کے درمیان ایک خ اص اخالقی امتیا ز او ر محیط زن دگی کے مالک تھے‪،‬‬
‫اور ان کو لوگ ایک عاد ی فرد کی حیثیت سے نہ دیکھ تے تھے‪ ،‬یہی ش یوہٴاخالقی س بب ب نی کہ ل وگ آپ سے کچھ زی ادہ ہی انتظ ار‬
‫رکھتے تھے‪ ،‬اور انہوں نے اپنی اس بات کا اظہار بھی کیا چن انچہ پہلے سے انبی اء کا منصب ِ نب وت کے ل ئے آم ادہ اور شائس تہ ہونا‬
‫سبب ہوا کہ جب آپ کو دعوت حق کا حکم مالتو جو لوگ سرکش اور ض دی م زاج نہ تھے انہ وں نے پہلی ہی م رتبہ میں آپ کی ب ات‬
‫مان لی ‪،‬اور آپ کے حکم پر کمر بستہ ہو کر میدان عمل میں آگئے۔ رس ول اک رمﷺکی زن دگی کو اس کے ل ئے ش اہد‬
‫کتا ہے۔‬ ‫ور پیش کیا جاس‬ ‫ال کے ط‬ ‫مث‬

‫مت و عفت‬ ‫اء کی عص‬ ‫‪:‬انبی‬

‫علمائے عقائد نے انبیاء کرام کی عص مت کے ب ارے میں متع دد دالئل بی ان ک ئے ہیں ہم یہ اں ان میں سے چند دالئل پیش کر رہے ہیں۔‬

‫موثر اسباب میں‬


‫اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیائے کرام کی بعثت کامقصد انسانوں کی تربیت اور ان کی راہنمائی ہے اور تربیت کے ٴ‬
‫سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ مربی میں ایسے صفات پائے جائیں جن کی وجہ سے لوگ اس سے قریب ہوجائیں ۔مثال کی طور پر اگر‬
‫کوئی مربی خوش گفتار ‪،‬فصیح وبلیغ بات کرنے واال ہو لیکن بعض ایسے نفرت انگیز صفات اس میں پائے جائیں جس کے سبب ل وگ‬
‫ا۔‬ ‫ورا نہیں ہوگ‬ ‫ربیت کامقصد ہی پ‬ ‫ورت میں ت‬ ‫ائیں تو ایسی ص‬ ‫اس سے دور ہوج‬

‫ایک م ربی ورہ بر سے لوگ وں کی دوری اور نف رت کا سب سے ب ڑا س بب یہ ہے کہ اس کے ق ول وفعل میں تض اد اور دورنگی پ ائی‬
‫جاتی ہو۔اس صورت میں نہ صرف اس کی رہنمائیاں بے ق در اور بیک ار ہوج ائیں گی بلکہ اس کی نب وت کی اس اس وبنی اد ہی م تزلزل‬
‫ائےگی۔‬ ‫ہوج‬
‫اگر کوئی ڈاکٹر شراب کے نقصانات پر کت اب لکھے ی اکوئی مت اٴثر ک رنے والی فلم دکھ ائے لیکن خ ود لوگ وں کے مجمع میں اس ق در‬
‫شراب پئے کہ اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوسکے ۔ایسی صورت میں شراب کے خالف اس کی تمام تحریریں ‪،‬تقریریں اور زحمتیں خ اک‬
‫میں مل جائیں گی۔اسی طرح فرض کیجئے کہ کسی گروہ کارہبر کرسی پر بیٹھ کر عدل وانصاف اور مساوات کی خوبی اں بی ان ک رنے‬
‫کے لئے زبردست تقریرکرے لیکن خود عملی طور سے لوگوں کا م ال ہ ڑپ کرت ارہے تو اس کاعمل اس کی کہی ہ وئی ب اتوں کو بے‬
‫ا۔‬ ‫ادے گ‬ ‫اثر بن‬

‫تعالی اسی وجہ سے انبیاء کو ایسا علم وایمان اور صبر وحوص لہ عطا کرت اہے ت اکہ وہ تم ام گن اہوں سے خ ود کو محف وظ رکھیں ۔‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬

‫اس بیان کی روشنی میں انبیائے ٰالہی کے لئے ضروری ہے کہ وہ بعثت کے بعد یا بعثت سے پہلے اپنی پوری زن دگی میں گن اہوں اور‬
‫غلطیوں سے دور رہیں اور ان کا دامن کسی بھی طرح کی قول وفعل کی کمزوری سے پاک اور نیک صفات سے معطر رہنا چاہیئے ۔‬
‫کی ونکہ اگر کسی ش خص نے اپ نی عمر ک اتھوڑا سا حصہ بھی لوگ وں کے درمی ان گن اہ اور معص یت کے س اتھ گزاراہھو اور اس کی‬
‫زندگی کانامہٴ اعمال سیاہ اور کمزوریوں سے بھ را ہو تو ایسا ش خص بعد میں لوگ وں کے دل وں میں گھر نہیں کرس کتا اور لوگ وں کو‬
‫کتا۔‬ ‫اثر نہیں کرس‬ ‫ردار سے مت‬ ‫وال وک‬ ‫نے اق‬ ‫اپ‬

‫تعالی کی حکمت کاتقاضا ہے کہ وہ اپنے نبی ورسول میں ایسے اسباب وصفات پیدا ک رے کہ وہ ہر دل عزیز بن ج ائیں۔اور ایسے‬
‫ٰ‬ ‫رب‬
‫اسباب سے انہیں دور رکھے جن سے لوگوں کے نبی یارسول سے دور ہونے کا خدشہ ہو ۔ظاہر ہے کہ انسان کے گزشتہ ب رے اعم ال‬
‫اور اس کاتاریک ماضی لوگوں میں اس کے نفوذ اور اس کی ہر دلعزیزی کو انتہائی کم کردے گا اور ل وگ یہ کہیں گے کہ کل تک تو‬
‫رنے چالہے؟‬ ‫دایت ک‬ ‫ا‪ ،‬آج ہمیں ہ‬ ‫ود بد عمل تھ‬ ‫وہ خ‬

‫تعلیم وتربیت کے شرائط میں سے ایک ش رط ‪،‬جو انبی اء ک رام کے اہم مقاصد میں سے ہے ‪،‬یہ ہے کہ انس ان اپ نے م ربی کی ب ات کی‬
‫سچائی پر ایمان رکھتاہوکیونکہ کسی چیز کی ط رف ایک انس ان کی کشش اسی ق در ہ وتی ہے جس ق در وہ اس چ یز پر اعتم اد وایم ان‬
‫اعلی علمی کمی ٹی اس کی تائید‬
‫ٰ‬ ‫رکھتاہے۔ایک اقتصادی یا ص حی پروگ رام کا پر ج وش اس تقبال ع وام اسی وقت ک رتے ہیں جب ک وئی‬
‫پیشواوں کے‬
‫ٴ‬ ‫مذہبی‬ ‫اگر‬ ‫اب‬ ‫۔‬ ‫ہے‬ ‫کردیتی ہے ۔کیونکہ بہت سے ماہروں کے اجتماعی نظریہ میں خطا یا غلطی کاامکان بہت کم پایا جاتا‬
‫ب ارے میں یہ امک ان ہو کہ وہ گن اہ ک رتے ہ وں گے تو قطعی ط ور سے جھ وٹ یا حق ائق کی تحریف کا امک ان بھی پایا جاتا ہوگا ۔اس‬
‫امکان کی وجہ سے ان کی باتوں سے ہماراا طمینان اٹھ جائے گا۔ اسی طرح انبیاء کا مقصد جو انسانوں کی ت ربیت اور ہ دایت ہے ہ اتھ‬
‫ا۔‬ ‫نہ آئے گ‬

‫ممکن ہے یہ کہا جائے کہ اعتماد واطمینان حاصل کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ دینی پیشوا جھوٹ نہ بولیں اور اس گناہ کے قریب نہ‬
‫جائیں تا کہ انہیں لوگوں کا اعتماد حاصل ہو ۔بقیہ سارے گناہوں سے ان کا پرہیز کرنا الزم نہیں ہے کیونکہ دوسرے گناہوں کے کرنے‬
‫ا۔‬ ‫وئی اثر نھیں پڑت‬ ‫ان پر ک‬ ‫اد واطمین‬ ‫ئلہ اعتم‬ ‫رنے سے مس‬ ‫یا نہ ک‬

‫جواب یہ ہے کہ اس بات کی حقیقت ظاہر ہے ‪،‬کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص جھوٹ بول نے پر آم ادہ نہ ہو لیکن دوس رے‬
‫گناہوں مثالً آدم کشی ‪،‬خیانت اور بے عفتی وبے حیائی کے اعمال کرنے میں اسے کوئی باک نہ ھو‪،‬اصوالً جو شخص دنیا کی لمح اتی‬
‫لذتوں کے حص ول کے ل ئے ہر ط رح کے گن اہ انج ام دی نے پر آم ادہ ہو وہ ان کے حص ول کے ل ئے جھ وٹ کیسے نہیں ب ول س کتا۔؟‬

‫اصولی طور سے انسان کو گناہ سے روکنے والی طاقت ایک ب اطنی ق وت یع نی خ وف خ دا اور نفس پر ق ابو پان اہے ۔جس کے ذریعہ‬
‫انسان گن اہوں سے دور رہتا ہے ۔پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جھ وٹ کے سلس لہ میں تو یہ ق وت ک ام ک رے لیکن دوس رے گن اہوں کے‬
‫سلسلہ میں جو عموما ً بہت برے اور وجدان و ضمیر کی نظر میں جھوٹ سے بھی زیادہ قبیح ہوں ‪،‬یہ قوت کام نہ کرے ؟اور اگر ہم اس‬
‫جدائی کو ثبوت کے طور پر قبول کربھی لیں تو اثبات کے طور سے یعنی عمالً عوام اسے قبول نہیں کریں گے۔کیونکہ لوگ اس طرح‬
‫رتے۔‬ ‫لیم نھیں ک‬ ‫دائی کو ہرگز تس‬ ‫کی ج‬

‫اس کے عالوہ گناہ جس طرح گن اہ گ ار کو لوگ وں کی نظر میں قابل نف رت بن ادیتے ہیں اسی ط رح ل وگ اس کی ب اتوں پر بھی اعتم اد‬
‫واطمین ان نہیں رکھ تے اور” یہ دکھو کیا کہہ رہ اہے یہ نہ دیکھو ک ون کہہ رہ اہے کا فلس فہ فقط ان لوگ وں کے ل ئے م ٴوثر ہے جو‬
‫شخص یت اور اس کی ب ات کے در می ان ف رق کرنا چ اہتے ہیں لیکن ان لوگ وں کے ل ئے جو ب ات کی ق درقیمت کو کہ نے والے کی‬
‫ا۔‬ ‫ارگر نہیں ہوت‬ ‫فہ ک‬ ‫تے ہیں یہ فلس‬ ‫دس کے آئینہ میں دیکھ‬ ‫ارت وتق‬ ‫یت اور اس کی طہ‬ ‫شخص‬
‫یہ بی ان جس ط رح رہ بری وقی ادت کے منصب پر آنے کے بعد ص احب منصب کے ل ئے عص مت کو ض روری جانت اہے‪،‬اسی ط رح‬
‫صاحب منصب ہونے سے پہلے اس کے لئے عصمت کو الزم وضروری سمجھتاہے ۔کی ونکہ جو ش خص ایک عرصہ تک گن اہ گ ارو‬
‫الابالی رہاہواور اس نے ایک عمر جرائم وخیانت اور فساد میں گزاری ہو‪ ،‬چاہے وہ بعد میں توبہ بھی ک رلے ‪،‬اس کی روح میں روحی‬
‫ومعنوی انقالب بھی پیدا ہوجائے اور وہ متقی وپرہیزگاراور نیک انسان بھی ہوجائے لیکن چونکہ لوگوں کے ذہنوں میں اس کے ب رے‬
‫اعمال کی یادیں محفوظ ہیں لہذا لوگ اس کی نیکی کی طرف دعوت کو بھی بد بینی کی نگاہ سے دیکھیں گے اور بسا اوقات یہ تص ور‬
‫بھی کرس کتے ہیں کہ یہ سب اس کی ریاکاری اں ہیں وہ اس راہ سے لوگ وں کو ف ریب دینا اور ش کار کرنا چاہت اہے۔اور یہ ذہ نی کیفیت‬
‫خ اص طورسے تعب دی مس ائل میں جہ اں عقلی اس تدالل اور تج زیہ کی گنج ائش نہیں ہ وتی ‪،‬زی ادہ ش دت سے ظ اہر ہ وتی ہے۔‬

‫مختصر یہ کہ شریعت کے تمام اصول و فروع کی بنیاد استدالل و تجربہ پر نہیں ہوتی کہ پیغمبر ایک فلسفی یا ایک معلم کی طرح سے‬
‫اس راہ کو اختیار کرے اور اپنی ب ات اس تدالل کے ذریعہ ث ابت ک رے ‪،‬بلکہ ش ریعت کی بنی اد وحی ٰالہی اور ایسی تعلیم ات پر ہے کہ‬
‫انسان صدیوں کے بعد اس کے اسرار و علل سے آگاہ ہوتا ہے اور اس طرح کی تعلیمات کو قبول کرنے کے لئے شرط یہ ہے کہ ل وگ‬
‫پیغمبر کے اوپر سو فی صد ی اعتماد کرتے ہوں کہ جو کچھ وہ سن رہے ہیں اسے وحی ٰالہی اور عین حقیقت تصور کریں ‪ ،‬اور ظ اہر‬
‫ہے کہ یہ حالت ایسے رہبر کے سلسلے میں لوگوں کے دلوں میں ہر گز پیدا نہیں ہو سکتی جس کی زندگی ابتدا سے انتہا تک روشن و‬
‫و۔‬ ‫اکیزہ نہ ہ‬ ‫اک و پ‬ ‫اں اور پ‬ ‫درخش‬

‫قرآن کریم کی متعدد آیات سے مستفاد ہوتا ہے کہ انبیاء کرام ہر گناہ ‪ ،‬خطا و لغزش سے معصوم (محفوظ) ہ وتے ہیں‪ ،‬چن انچہ ذیل میں‬
‫رتے ہیں‬ ‫ور دلیل پیش ک‬ ‫رجمہ بط‬ ‫ات کے ت‬ ‫‪ :‬ہم چند آی‬

‫"‬ ‫وگ ہیں(‬ ‫)یہی وہ ل‬ ‫و۔‬ ‫دایت کی ہے‪ ،‬تو تم انہیں کی راہ چل‬ ‫دا نے ہ‬ ‫"جن کو خ‬

‫آیت ‪(90 :‬‬ ‫ام ‪،6‬‬ ‫ورہ انع‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫تعالی نے اٹھارہ انبیا ء کرام کے اسماء کا ذکر کیا ہے‪ ،‬اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے ‪” :‬میں نے ان کے آباء‬ ‫ٰ‬ ‫اس آیت شریف سے پہلے ہللا‬
‫َ‬ ‫ْ‬ ‫َ‬
‫و اوالد میں سے بھی بعض کو رسول بنایا‪ ،‬اور یہ وہ لوگ ہیں جن کی خود خ دا نے ہ دایت کی۔آیت مب ارکہ” فبِہُ داہُ ُم اقت ِد ْہ“(یع نی انہیں‬
‫کی راہ )سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمومی ہدایت نہیں ہے ‪،‬بلکہ ایک ایسی ہدایت ہے جو صرف انبیاءعلیہم السالم سے مخصوص ہے‪،‬‬
‫لہٰ ذا اس ہدایت اور امتیاز کے ہوتے ہوئے کوئی نبی گناہ نہیں کرس کتا ‪،‬اور نہ وہ ہ دایت کے راس تے سے گم راہ ہوس کتا ہے‪ ،‬چن انچہ‬
‫وا‬ ‫اد ہ‬ ‫اتھ ارش‬ ‫راحت کے س‬ ‫ری آیت میں ص‬ ‫‪ :‬دوس‬

‫کتا۔"‬ ‫راہ نہیں کر س‬ ‫وئی گم‬ ‫دایت دےاسے ک‬ ‫"اور جسے ہللا ہ‬

‫آیت ‪(37 :‬‬ ‫ورہ زمر ‪،39‬‬ ‫رآن مجید ‪ ،‬س‬ ‫)ق‬

‫الی نے کی ہے‪ ،‬اور ہ دایت بھی ایسی کی‬‫مذکورہ دونوں آیتوں کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ تمام انبیاء و مرسلین کی ہدایت و راہنم ائی ہللا تع ٰ‬
‫ہے کہ گناہ صغیرہ کا بھی کوئی نبی و رسول ارتکاب نہیں کرسکتا‪،‬ل ٰہذا جب ضاللت ‪،‬گمراہی اور گن اہ ان سے س رزد نہیں ہو س کتا تو‬
‫اب دوسرے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ ان بر گزیدہ افراد کی پ یروی ک ریں۔اب رہا ض اللت ‪ ،‬گم راہی ‪ ،‬معص یت ا ور نافرم انی‬
‫ادہوتا ہے‬ ‫ئی ہے‪ ،‬ارش‬ ‫ان دہی کی گ‬ ‫رآن میں اس کی بھی نش‬ ‫تے ہیں ‪،‬تو ق‬ ‫‪:‬کسے کہ‬

‫"اے اوالد آدم!کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا کہ تم ش یطان کی پ یروی نہیں ک رو گے؟ یقین ا ً وہ تمہ ارا کھال دش من ہے۔" ‪1.‬‬

‫آیت ‪(60‬‬ ‫ورہ ٰیس ‪،36‬‬ ‫رآن مجید ‪ ،‬س‬ ‫)ق‬

‫اس آیت میں شیطان کی پرستش اور پیروی کو گمراہی کہا گیاہے‪ ،‬یعنی ہر وہ گمراہی اور معصیت جو شیطان کی وجہ سے وج ود میں‬
‫آئے اسے قرآن کی زبان میں ضاللت و گم راہی کہا جات اہے‪ ،‬لہٰ ذا تین وں آیت وں کا مفہ وم یہ ہوگا ‪:‬انبی اء و مرس لین ہر اس گم راہی اور‬
‫وا‬ ‫ذا خالصہ یہ ہ‬ ‫اللت کہا گیا ہے ‪ ،‬لہ‬ ‫وتے ہیں جسے ض‬ ‫وظ ہ‬ ‫یت سے محف‬ ‫‪ :‬معص‬

‫‪1.‬‬ ‫و۔‬ ‫وازہ ہ‬ ‫دایت سے ن‬ ‫اص ہ‬ ‫نی خ‬ ‫دا نے اپ‬ ‫ول انہیں کو منتخب کیا جاتا ہے جن کو خ‬ ‫اء و رس‬ ‫انبی‬

‫انبی اء و مرس لین میں ض اللت و گم راہی کا ش ائبہ بھی نہیں پایا جاس کتا‪،‬کی ونکہ وہ خ اص ہ دایت سے ن وازے گ ئے ہیں ۔ ‪2.‬‬
‫تعالی کے حکم کے مقابلہ میں ہو اسے ضاللت اور گمراہی کہا ‪3.‬‬
‫ٰ‬ ‫قرآن مجید کی اصطالح میں ہر وہ معصیت اور انحراف جو خدائے‬
‫۔‬ ‫ہے‬ ‫جاتا‬

‫نتیجہ ‪ :‬مذکورہ تینوں مطالب کی روشنی میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تم ام انبی اء و مرس لین پ اک و پ اکیزہ اور معص وم ہ وتے ہیں‪،‬اوران‬
‫کتا ۔‬ ‫زد نہیں ہو س‬ ‫اہ س‬ ‫وئی خطا اور گن‬ ‫سے ک‬

‫‪2.‬‬ ‫ائے۔"‬ ‫اعت کی ج‬ ‫یے بھیجا ہے کہ ہللا کے حکم کی سے اس کی اط‬ ‫ول بھی بھیجا ہے‪ ،‬اس ل‬ ‫"اورہم نے جو رس‬

‫آیت ‪(64 :‬‬ ‫اء ‪،4‬‬ ‫ورہ نس‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫اس آیت سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ کوئی رسول اس وقت تک مبعوث نہیں ہوتاجب تک کہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری نہ کی جائے‪،‬‬
‫یعنی ہللا کا منشاء یہ ہے کہ انبیاء ہر حال میں ُمطاع قرار پائیں گویا گفت ار و ک ردار دون وں کے اعتب ار سے ان کی اط اعت کی ج ائے‪،‬‬
‫کی ونکہ جس ط رح انبی اء ک رام کی گفت ار ذریعہٴ تبلیغ ہے اسی ط رح ان حض رات کا ک ردار بھی وس یلہٴ تبلیغ ہوتا ہے۔‬

‫آیت کے مطابق انبیاء و مرسلین کے کردار و گفتار دونوں کی اطاعت کرنا چاہیئے ل ٰہذا اگر انبی اء سے بھ ول اور نس یان واقع ہو تو اس‬
‫تعالی نے انبیاء کی پیروی لوگوں پہ فرض کی ہے‪ ،‬ل ٰہ ذا‬ ‫ٰ‬ ‫کا الزمہ یہ ہوگا کہ یہ بھول محبوب ا ورمشیت خدا وندی ہے‪ ،‬چونکہ خدا ئے‬
‫جیسے افعال بھی انبیاء کرام سے صادر ہوں گے چاہے برے افعال ہو ں یا اچھے ‪،‬ان کی اطاعت ہر حال میں ہمارے اوپر من جانب هللا‬
‫ال سے منع فرمایا ہے۔‬ ‫رے افع‬ ‫الی نے ب‬ ‫ٰ‬ ‫دا وند تع‬ ‫االنکہ خ‬ ‫ائے گی ح‬ ‫رار پ‬ ‫الزم ق‬

‫لہذا تسلیم کرنا پڑے گا کہ انبیاء کو معصوم ہونا چاہئے ت اکہ خ دا کی ذات پر ح رف نہ آئے‪ ،‬بالف اظ دیگر اگر انبی اء معص وم نہ ہ وں تو‬
‫تعالی نے منع فرمایا اسی کوبجاالنے کا حکم بھی فرمایا ہے!! یعنی جو چ یز محب وب ِخ دا ہے وہی‬ ‫ٰ‬ ‫الزم آئے گا کہ جس چیز کو خدائے‬
‫ور کرنا یقینا فاسد و باطل ہے۔‬ ‫ئے ایسا تص‬ ‫ار کیل‬ ‫دا بھی ہے‪ ،‬اور ذات پروردگ‬ ‫وض خ‬ ‫یز مبغ‬ ‫چ‬

‫"وہ (ش یطان) ب وال ت یری ع زت و جالل کی قسم ! ان میں سے ت یرے مخلص بن دوں کے س وا سب کو گم راہ ک ردوں گ ا۔ " ‪3.‬‬

‫‪(83‬‬ ‫آیت ‪،82 :‬‬ ‫ورہ ص ‪،38‬‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫اس آیت میں شیطان کے قول کو نقل کیا گیا ہے کہ وہ سوائے مخلص بندوں کے تم ام لوگ وں کو بہک ائے گا ل ٰہ ذا اگرانبی ائے ک رام سے‬
‫کوئی چھوٹے سے چھوٹا گناہ سرزد ہوا تو گویا وہ شیطان کے بہکاوے میں آگئے!اور جب انبیاء پر ش یطان اپنا پھن دہ ڈال س کتا ہے تو‬
‫تعالی انبیائے ک رام کو اپ نے برگزی دہ اور مخلص ین بن دوں میں سے ش مار‬ ‫ٰ‬ ‫پھر وہ مخلصین عباد ہللا میں نہ رہیں گے۔ حاال نکہ خدائے‬
‫الی نے انبیا ء کو مخلص ین بن دوں میں سے قراردی اہے‬ ‫ٰ‬ ‫‪ :‬کرتا ہے جیسا کہ م ذکورہ آیت سے پہلے چند آیا ت کے ان در ہللا تع‬

‫از کیا ہے۔"‬ ‫اد) سے ممت‬ ‫رت کی ی‬ ‫فت (آخ‬ ‫اص ص‬ ‫وں کو ایک خ‬ ‫"بیشک ہم نے ان لوگ‬

‫آیت ‪(46 :‬‬ ‫ورہ ص‪،38‬‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫آپ نے مال حظہ فرمایا کہ خود شیطان اس بات کا اقرار و اعتراف کرتا ہے کہ وہ ان لوگ وں کو نہیں بہکا س کتا جو مخلص ہیں اوریہی‬
‫الی نے بھی انبی اء ک رام کے مخلص ہ ونے کی گ واہی دی ہے‪ ،‬اور ان کے م رتبہٴاخالص کی اپ نی ط رف سے‬ ‫نہیں بلکہ خ دا ئے تع ٰ‬
‫تض مین اور تائید فرما ئی ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس ب ات سے ث ابت ہو تا ہے کہ ش یطان کے وسوسہ کی پہنچ اور اس کے ف ریب دہی کے کمند کی‬
‫رسائی انبیاء کے دامن تک نہیں ہو سکتی‪ ،‬اوریہاں سے ہمیں اس بات کا بھی یقین کامل ہو جاتا ہے کہ انبیا ء سے کسی گناہ و معص یت‬
‫ادر ہونا ممکن نہیں ہے۔‬ ‫کا ص‬

‫اں‬ ‫ادی غلط فہمی‬ ‫الت سے متعلق بعض بنی‬ ‫منصب رس‬

‫نبی کریم ﷺکے منصب رسالت کی حیثیت اور آپ کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت کے ب ارےمیں بعض لوگ وں میں‬
‫جو بعض غلط تصورات پیدا ہو چکے ہیں۔ہم یہاں پر صرف تین بنیادی غلط فہمی وں کی ط رف اش ارہ ک ریں گے جو ہم ارے تین ب ڑے‬
‫اتی ہیں۔‬ ‫ائی ج‬ ‫در پ‬ ‫وں کے ان‬ ‫ڑے گروہ‬ ‫ب‬
‫روہ‬ ‫رنے واال گ‬ ‫الت کی تنقیص ک‬ ‫منصب رس‬

‫ہمارے ان در ایک گ روہ ایسے لوگ وں کا ہے جو خ دا اور بن دوں کے درمی ان نع وذ ب اہلل آنحض رت ﷺکی وہی حی ثیت‬
‫سمجھتا ہے جو ایک کاتب (یعنی لکھنے واال) اور مکتوب الیہ [جس کے لئے لکھا گیا ہو] کے درمیان کسی معتمد اور ایک دی انت دار‬
‫قاصد کی ہ وتی ہے۔ ان کے نزدیک آنحض رت ﷺکا ک ام بس یہ تھا کہ ہللا تع الی نے جو کت اب اپ نے بن دوں پر ن ازل‬
‫ا۔‬ ‫ام ختم ہوگی‬ ‫اہی وہ آپ نے ان کو پہنچا دی‪ ،‬اس کے بعد آپ کا ک‬ ‫انی چ‬ ‫فرم‬

‫وہ اپنے اسی تصور کے لحاظ سے نبی ﷺکے س اتھ اپ نے تعلق کی ن وعیت متعین ک رتے ہیں۔ ظ اہر ہے کہ جو ل وگ‬
‫منصب رسالت کا اس قدر حقیر تص ور رکھ تے ہ وں‪ ،‬ان کے ل ئے مع رفت الہی کے نقطہ نظر سے ن بی ﷺکی ک وئی‬
‫خاص اہمیت ب اقی نہیں رہ ج اتی اور جب آپ کی ک وئی خ اص اہمیت ب اقی نہیں رہ ج اتی تو آپ کی ذات کے س اتھ کسی غ یر معم ولی‬
‫وابستگی کے لئے بھی کوئی معقول وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ جب اصلی کام آپ کا صرف خط کا پہنچا دینا تھا اور آپ خط پہنچا چکے تو‬
‫اس کے بعد اگر کوئی اہمیت ہے تو وہ اصل خط کی ہے یا زیادہ سے زیادہ کاتب کی‪ ،‬نہ کہ خط کے النے والے قاصد کی۔ اس کے بعد‬
‫تو اگر قاصد سرے سے درمیان سے غائب بھی ہو ج ائے‪ ،‬جب بھی ان حض رات کے نقطہ نظر سے ک وئی خال نہیں واقع ہونا چ اہیے۔‬

‫رسالت کا یہ تصور بنیادی طور پر غلط ہے۔ نبی‪ ،‬خدا اور اس کے بندوں کے درمیان ص رف ایک قاصد یا ن امہ بر ہی نہیں ہوت ا‪ ،‬بلکہ‬
‫وہ ایک معلم بھی ہوتا ہے‪ ،‬ایک م زکی (ت زکیہ و ت ربیت ک رنے واال) بھی ہوتا ہے‪ ،‬ایک مرشد بھی ہوتا ہے‪ ،‬ایک م بین (وض احت‬
‫کرنےواال) بھی ہوتا ہے اور ایک مبشر (بشارت دی نے واال) بھی ہوتا ہے‪ ،‬ایک من ذر (خ بردار ک رنے واال) بھی ہوتا ہے‪ ،‬ایک س راج‬
‫من یر (ہ دایت کا چ راغ) بھی ہوتا ہے اور سب سے ب ڑھ کر یہ کہ وہ ایک واجب االط اعت ہ ادی بھی ہوتا ہے اور پھر اپ نی ان تم ام‬
‫خصوصیتوں کے ساتھ ساتھ وہ اپ نے ارش اد و ہ دایت کے ف رائض کے سلس لہ میں ب راہ راست خ دا کی نگ رانی میں ہوتا ہے۔ جس کے‬
‫امون ہوتا ہے۔‬ ‫وظ و م‬ ‫روں سے بالکل محف‬ ‫ام خط‬ ‫راہی کے تم‬ ‫بب سے وہ غلطی اور گم‬ ‫س‬

‫اس کا فریضہ صرف یہی نہیں ہے کہ وہ خدا کی کتاب بندوں کو پہنچا دے‪ ،‬بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ وہ اس کتاب کے تمام اس رار‬
‫ورموز لوگوں کو سمجھا دے‪ ،‬اس کتاب پر عمل کر کے دکھ اوے‪ ،‬اس کت اب پر عمل ک رنے وال وں کا ایک گ روہ اپ نی تعلیم و ت ربیت‬
‫سے تیار کر دے اور اس کتاب کے مضمرات‪ ،‬ان کی انفرادی و اجتم اعی زن دگیوں میں نمای اں کر دے۔ ان س ارے ک اموں میں اس کی‬
‫اپنی ذات ایک عامل کی حیثیت سے بھی شریک ہوتی ہے اور ایک راہنما کی حیثیت سے بھی شریک ہ وتی ہے اور اپ نی اس دوس ری‬
‫حیثیت میں جو کچھ وہ کہتا ہے یا کرتا ہے یا جس چیز کو وہ منظور کر لیتا ہے‪ ،‬اس کو اس کتاب کے اور اس کے منصب رسالت کے‬
‫ول کیا جاتا ہے۔‬ ‫ثیت سے اس کو قب‬ ‫مجھا جاتا ہے اور اسی حی‬ ‫تحت ہی س‬

‫رسالت کے اس تصور کو سامنے رکھ کر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ نبی ﷺکے ساتھ ہم جتنی گونا گ وں نوعیت وں‬
‫کے تعلقات رکھتے ہیں‪ ،‬اتنی گونا گوں نوعیتوں کے تعلقات نہ دنیا میں ہمارے کسی کے ساتھ ہیں‪ ،‬نہ ہو س کتے ہیں۔ یہ اں آپ سے آپ‬
‫یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اگر کوئی شخص ان گونا گوں تعلقات کی نوعیت سے اچھی طرح واقف نہ ہو یا ان میں سے بعض کا یا کل کا‬
‫منکر ہ و‪ ،‬تو وہ ہرگز آپ کی ذات بابرک ات سے وہ فائ دہ حاصل نہیں کر س کتا جس کے ل ئے آپ کی بعثت ہ وئی ہے۔‬

‫روہ‬ ‫راد کا گ‬ ‫ند اف‬ ‫دت پس‬ ‫ج‬

‫ہمارے اندر ایک گروہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو نبی ﷺکو ماضی کی ایک قابل احترام شخص یت سے زی ادہ اہمیت‬
‫نہیں دیتے۔ ساری قوم چونکہ آپ کو رسول کہ تی ہے‪ ،‬اس وجہ سے یہ ل وگ بھی آپ کو رس ول ہی کہ تے ہیں اور ق ومی روای ات کے‬
‫زیر اثر آپ کے ل ئے حمیت اور عص بیت کا ج ذبہ بھی ایک حد تک رکھ تے ہیں‪ ،‬لیکن یہ ب ات ان لوگ وں کے دل میں کسی ط رح بھی‬
‫نہیں دھنستی کہ آپ جس معاملے میں جو کچھ فرما گئے ہیں‪ ،‬وہی حرف آخر ہے اور انسان کی دنیوی اور اخروی سعادت کا انحص ار‬
‫نے ہی پر ہے۔‬ ‫ان لی‬ ‫را م‬ ‫ون و چ‬ ‫بس اس کو بے چ‬

‫ان لوگ وں کے نزدیک آپ نے جو کچھ بتایا اور س کھایا‪ ،‬وہ ایک مخص وص زم انہ اور ایک مخص وص م احول کے ل ئے تو بے شک‬
‫ٹھیک تھا لیکن علم و روشنی کے اس زمانہ میں انہیں چیزوں پر اصرار کئے چلے جانا‪ ،‬ان کے خیال میں جہ الت اور حم اقت ہے۔ اب‬
‫آپ کی بتائی ہوئی باتوں میں سے اگر کچھ چیزیں مانے جانے کے قابل ہیں‪ ،‬تو یا تو وہ ہیں جو خود ان کی اپ نی خواہش ات کے مط ابق‬
‫ہیں‪ ،‬یا وہ ہیں جن کو خوش قسمتی سے موجودہ زمانے میں بھی قدر و احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے عالوہ کوئی چیز‬
‫بھی ایسی نہیں جس کو یہ لوگ دل سے گوارا کرنے کے لئے تیار ہوں اگرچہ اپنی کمزوری اور ب زدلی کے س بب سے اس کے خالف‬
‫وں۔‬ ‫تے ہ‬ ‫رأت نہ رکھ‬ ‫نے کی ج‬ ‫ان کھول‬ ‫زب‬
‫اس‬ ‫وام الن‬ ‫ع‬

‫عوام الناس کا ایک بڑا طبقہ ایسے لوگوں پر بھی مش تمل ہے‪ ،‬جن کے نزدیک ن بی ﷺکی ذات بس ایک ان دھی بہ ری‬
‫عقیدت کا مرجع ہے‪ ،‬وہ مختلف اوقات میں اپنی اس عقیدت کا اظہار کر کے اپنے خیال میں آپ کے نبوت و رس الت کے تم ام حق وق و‬
‫تے ہیں۔‬ ‫بکدوش کر لی‬ ‫نے آپ کو س‬ ‫ات سے اپ‬ ‫واجب‬

‫انہیں اس سے کچھ بحث نہیں کہ نبی ﷺکس مقصد کے لئے دنیا میں تش ریف الئے تھے‪ ،‬آپ نے دنیا کو کیا تعلیم دی‪،‬‬
‫اپ نے بعد امت پر کیا ذمہ داری اں چھ وڑ گ ئے اور ان ذمہ داری وں کو ادا ک رنے کے ل ئے ہمیں کیا کچھ کرنا ہے۔ ان س والوں پر غ ور‬
‫کرنے اور ان کے تقاضے پورے کرنے کی بج ائے وہ اپ نے تص ورات کے مط ابق آپ کی ذات کے س اتھ اظہ ار عقی دت کر لی نے کو‬
‫ک افی س مجھتے ہیں‪ ،‬اگ رچہ اس اظہ ار عقی دت کا ط ریقہ ص ریحا ً آپ کی تعلیم ات اور ہ دایات کے خالف ہی ہ و۔‬

‫جاہل پیروں اور مولویوں کی ایک جماعت نے نبی ﷺکے ساتھ عوام کے اس جذبہ عقیدت سے خ وب فائ دہ اٹھایا ہے۔‬
‫انہوں نے دیکھا کہ شریعت کی حقیقی ذمہ داریوں سے محفوظ رہتے ہوئے عوام میں مقب ول بن نے کا یہ راس تہ بہت س ہل ہے کہ ع وام‬
‫کی اس جاہالنہ عقیدت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ آنحضرت ﷺکے ساتھ اظہار عقیدت و محبت کے ایسے ط ریقے‬
‫ایج اد ک ئے جن سے ان کو اپ نی خواہش ات نفس کی تس کین کے ل ئے ش ریعت کی تم ام پابن دیوں سے پ وری آزادی مل ج ائے۔‬

‫اتمیت‬ ‫کی خ‬ ‫دی ﷺ‬ ‫ت محم‬


‫ال ِ‬ ‫رس‬

‫نبوت محمدی ﷺکی خاتمیت نے آپ ﷺکی سیرت طیبہ کو کائنات انسانی کی آخری پیغم برانہ س یرت‬
‫الی نے ہرچند آپ ﷺکو خلق ا ً اوّل االنبی اء بنایا مگر آپ ﷺبعثا ً آخر االنبی اء ق رار‬ ‫بنا دیا ہے۔ ب اری تع ٰ‬
‫دیئے گئے گویا آپ ﷺنبوت کے ملنے میں سب سے مقدم کئے گئے مگر نبوت کے ظاہر ک رنے میں سب سے م وخر‬
‫کئے گئے تاکہ اولین و آخرین کے تمام فضائل و کماالت آپ کے دامن نبوت میں س مٹ ج ائیں۔ چ ونکہ آپ ﷺکو خ اتم‬
‫االنبی اء بنایا گیا اس ل ئے آپ ﷺکی س یرت طیبہ کو وہ کم ال و دوام اور حسن و مق ام عطا کیا گیا ۔ آپ‬
‫ﷺکی آمد سے نظ ام نب وت کے بپا ک ئے ج انے کا مقصد پ ورا ہو گی ا‪ ،‬آپ ﷺکی بعثت سے سلس لہ‬
‫رسالت کے قیام کی غرض و غایت مکمل ہو گئی سو ض روری تھا کہ اب ب اب رس الت کسی بھی ن ئی بعثت کے ل ئے بند کر دیا ج ائے‬
‫اور ختم نبوت کا دائمی اعالن کر دیا جائے تاکہ قیامت کے دن تک جملہ ادوار و زمن نبوت و رس الت محم دی ﷺکے‬
‫زیر سایہ رہیں اور آئندہ تمام انسانی نسلیں فیض ان س یرت محم دی ﷺسے پ رورش پ ائیں۔ ختم نب وت کے ال وہی اعالن‬
‫الی‬
‫کے بعد اب کسی شخص کا مدعی نبوت ہونا حقیقت میں قرآن و حدیث کا منکر اور دین اس الم سے مرتد ہ ونے کے عالوہ ب اری تع ٰ‬
‫کے عظیم منصوبہ ہدایت کا کھال باغی ہونا بھی تصور کیا جائےگا کیونکہ اس نے اپنے ‘‘اعالن سے فی الواقع نبوت و رسالت محمدی‬
‫ﷺکی خاتمیت کی الوہی حکمت اور حقیقی عظمت کو بزعم خویش رد کر دیا ہے اور معاذ ہللا تکمیل سلسلہ ہدایت کے‬
‫الوہی منصوبہ کو ناکافی و ناقص سمجھتے ہوئے اسے اپنے تئیں مکمل کرنے کی گمراہانہ کوشش کی ہے۔ اور یہ حقیقت فرام وش کر‬
‫دی ہے کہ اگر علم ٰالہی میں آپ ﷺکے بعد کسی ن ئے ن بی یا رس ول کی بعثت کی ض رورت و گنج ائش ہ وتی تو‬
‫آنحضور ﷺکی تعلیمات (قرآن و سنت) کو حرفا ً حرفا ً محفوظ رکھنے کا اس قدر غیر معمولی اور عدیم المثال اہتمام نہ‬
‫الی ان کی حف اظت کا خ ود ذمہ دار نہ بنت ا۔ جب یکے بعد دیگ رے انبی اء و رسل کے مبع وث ہ ونے کا دور تھا ہللا‬
‫کیا جاتا اور باری تع ٰ‬
‫تعالی نے کسی نبی یا رسول کی الہ امی کتب‪ ،‬وحی اور تعلیم ات کی اس ط رح حف اظت کا انتظ ام نہیں فرمای ا۔ کی ونکہ ہر زم انے میں‬
‫ٰ‬
‫حسب ضرورت انبیاء مبعوث ہو رہے تھے‪ ،‬اگر پہلی وحی اور تعلیمات محفوظ نہ رہ سکیں تو نئے نبی اور رسول نے آکر انہی بنیادی‬
‫تعلیمات کی پھر تجدید کردی‪ ،‬انہیں دوبارہ یاد کروا دیا‪ ،‬پھر ایک زمانے کے لئے انسانی س ینوں میں محف وظ کردیا اور ی وں یکے بعد‬
‫ت تعلیم ات کا جو نظ ام ہزارہا س ال سے‬ ‫دیگرے یہ سلسلہ جاری رہا۔ جب حضور نبی اکرم ﷺکی بعثت ہوئی تو حفاظ ِ‬
‫چال آرہا تھا کلیتا ً بدل دیا گیا اور تعلیمات محمدی ﷺکو سینوں کے ساتھ ساتھ س فینوں میں بھی لفظ ا ً و حرف ا ً اس ط رح‬
‫محفوظ کروا دیا گیا کہ ک وئی تب دیلی نہ کی جاس کے۔ اس کا مقصد واضح ط ور پر انس انوں کو یہ ب اور کروانا تھا کہ اب اس ن بی آخر‬
‫الزمان ﷺکے بعد حسب سابق کوئی نبی یا رسول مبعوث نہیں ہوگا اب قیامت تک یہی کت اب اور س یرت تمہ ارے ک ام‬
‫آئے گی‪ ،‬اسے محف وظ رکھ و۔ چن انچہ ق رآن مجید نے بعثت محم دی ﷺکے جملہ مقاصد کی تکمیل کا اعالن ان الف اظ‬
‫ہے‬ ‫کیا‬ ‫میں‬ ‫‪:‬‬

‫آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پ وری کر دی اور تمہ ارے ل ئے اس الم کو (بط ور) دین (یع نی"‬
‫ند کر لیا‬ ‫ے) پس‬ ‫ثیت س‬ ‫ات کی حی‬ ‫ام حی‬ ‫"مکمل نظ‬
‫آیت ‪(3 :‬‬ ‫دہ ‪،5‬‬ ‫ورہ مائ‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫اد فرمایا‬ ‫وداع میں آپ ﷺنے ارش‬ ‫‪ :‬خطبہ حجتہ ال‬

‫وئی امت نہیں۔"‬ ‫ارے بعد ک‬ ‫بی نہیں اور تمہ‬ ‫وئی ن‬ ‫یرے بعد ک‬ ‫اد رکھو م‬ ‫" لوگو !ی‬

‫اور یہ ایک واضح اور منطقی با ت ہے کہ جب آپ کی نبوت کسی مخصوص قوم یا مخصوص عالقے کے لئے نہیں‪ ،‬بلکہ پورے ب نی‬
‫نوع انسان کے لئے ہے‪ ،‬عالوہ ازیں آپ نبوت کے سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی ہیں‪ ،‬آپ کے بعد کسی اور ن بی کو بھی نہیں آنا تھ ا‪ ،‬تو‬
‫آپ کو دین بھی وہ عطا کیا جاتا جو ہرلحاظ سے مکمل ہوتا جس میں عالم گیریت کی شان بھی ہوتی اور اَبدیت کی خ وبی بھی۔ الحم دہلل‬
‫اسالم میں یہ شان اور خوبی ہے۔ اس میں تمام انسانوں کی ہ دایت کا س امان ہے‪ ،‬چ اہے وہ دنیا کے کسی بھی عالقے میں آب اد ہ وں اور‬
‫اس کے اص ول بھی اب دی اور ناقابل تغ یر ہیں لیکن و ہ اح وال و ح وادث کے تغ یرات کے ب اوجود قابل عمل ہیں‪ ،‬ان میں تب دیلی کی‬
‫رورت نہیں۔‬ ‫ض‬

‫امیت‬ ‫الت کی تم‬ ‫ت رس‬


‫ِد بعث ِ‬ ‫مقاص‬

‫ن بی اک رم ﷺنے جس عظیم اور ع المی پیغم برانہ مشن کا مکہ معظمہ سے آغ از فرمایا تھا وہ آپ‬
‫ﷺکی حیات ظاہری میں ہی بتمام و کمال کامیابی و کامرانی سے ہمکن ار ہوگی ا۔ اس پیغم برانہ جدوجہد کی کامی ابی کا‬
‫پہال مرحلہ ‪1‬ھ میں اسالمی ریاست مدینہ کا قیام تھا دوس را ‪8‬ھ میں فتح مکہ‪ ،‬تیس را ‪ 10‬ھ میں خطبہ حجۃ ال وداع کے ذریعے نیو ورلڈ‬
‫آرڈر کا اعالن تھا اور چوتھا مشرق سے مغرب تک عالمی س طح پر اس المی دع وت کی تحریک کو بپا کردینا تھ ا۔ یہ اع زاز و امتی از‬
‫تاریخ میں صرف رسالت و سیرت محمدی ﷺکو ہی نصیب ہوا کہ اپنی ظاہری حی ات مب ارکہ کے ان در ہی اپ نے مشن‬
‫کو ہر جہت اور ہر اعتب ار سے پ ایہ تکمیل تک پہنچا دی ا۔ پھر کامی ابی اور ن تیجہ خ یزی کا یہ عمل تسلسل کے س اتھ آنحض ور‬
‫ﷺکی وفات کے بعد بھی صدیوں تک جاری رہا۔ باآلخر فروغ دع وت حق کا یہ سلس لہ روئے زمین کی ان ح دود تک‬
‫ا۔‬ ‫ور ﷺکو کروایا گیا تھ‬ ‫اہدہ آنحض‬ ‫جا پہنچا جن کا مش‬

‫‪ Michael H.‬یہاں فقط ایک حوالہ ہی اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔ دور حاضر کے ایک غیر مسلم مؤرخ اور محقق‬
‫میں کائنات انسانی کی ‪ The 100, A Ranking of the Most Influential persons in History‬نے اپنی معروف تصنیف ‪Hart‬‬
‫تاریخ میں عظیم‪ ،‬نامور اور تاریخی کارہائے نمایاں کی حامل شخص یات کی فہرست میں حض ور ن بی اک رم ﷺکا اسم‬
‫رتےہے‬ ‫ان ک‬ ‫اظ میں بی‬ ‫ود اس کی وجہ ان الف‬ ‫ور پر لکھا ہے وہ خ‬ ‫ام کے ط‬ ‫رامی سب سے پہلے ن‬ ‫‪:‬گ‬

‫‪My choice of Muhammad to lead the list of the world's most influential persons may surprise some‬‬
‫‪readers and may be questioned by others, but he was the only man in history who was supremely‬‬
‫‪successful on both the religious and secular levels despite of humble origins, Muhammad founded and‬‬
‫‪promulgated one of the worlds great religions and became immensely effective political leader. Today,‬‬
‫‪thirteen centuries after his death, his inflence is still powerful and pervasive.‬‬

‫‪It may initially seem strange that Muhammad has been ranked higher than Jesus. There are two‬‬
‫‪principal reasons for that decision. First, Muhammad played a far more important role in the‬‬
‫)‪development of islam than that done by Jesus for Christianity Furthermore, Muhammad (unlike Jesus‬‬
‫‪was a secular as well as a religious leader. In fact, as the driving force behind the Arab conquests, he‬‬
‫‪may‬‬ ‫‪well‬‬ ‫‪rank‬‬ ‫‪as‬‬ ‫‪the‬‬ ‫‪most‬‬ ‫‪inflential‬‬ ‫‪political‬‬ ‫‪leader‬‬ ‫‪of‬‬ ‫‪all‬‬ ‫‪time.‬‬

‫‪It is this unparalleed combination of secular and religious inflence which I feel entitles Muhammad to be‬‬
‫‪considerd‬‬ ‫‪the‬‬ ‫‪most‬‬ ‫‪influential‬‬ ‫‪single‬‬ ‫‪figure‬‬ ‫‪in‬‬ ‫‪human‬‬ ‫‪history.‬‬

‫دنیا کی سب ذی اثر شخصیات میں سے محمد (ﷺ) کا میرا پہال انتخاب‪ ،‬کچھ قارئین کو حیران کر دے گا اور ہوسکتا "‬
‫ہے بعض حلقوں کی ط رف سے اس پر س وال کیا ج ائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ذات محمد (ﷺ )ہی وہ ذات اق دس ہے‬
‫جو دنیوی و مادی اور مذہبی و روحانی دونوں سطحوں پر سب سے بڑھ کر کامیاب رہی۔ ایک انتہائی متوسط خاندان سے تعلق رکھنے‬
‫والے محمد (ﷺ )نے نہ صرف دنیا کے ایک عظیم مذہب کی بنیاد رکھی بلکہ اس کی اشاعت بھی کی اور ایک انتہائی‬
‫سحر انگیز سیاسی موثر راہنما بن گئے۔ ان کی وفات کے تیرہ سو سال بعد ان کا اثر آج بھی پائی دار‪ ،‬مض بوط اور اسی ط رح ج اری و‬
‫اری ہے۔‬ ‫"س‬

‫عیسی (علیہ السالم "‬


‫ٰ‬ ‫ابتدائی طور پر یہ بات حیرت انگیز ہوسکتی ہے کہ حضرت محمد (ﷺ )کا رتبہ و مرتبہ حضرت‬
‫)سے بلند تر ہے۔ اس فیصلے کی دو بنیادی وجوہات ہیں ‪ :‬اول یہ کہ حضرت محمد (ﷺ) نے اشاعت اسالم اور اس کی‬
‫"ت رویج و ت رقی میں جو کچھ کیا وہ حض رت عیس ٰی (علیہ الس الم )کی عیس ائیت کی تبلیغ و اش اعت سے کہیں ب ڑھ کر ہے۔‬

‫عیسی (علیہ السالم )کے ب رعکس م ذہبی و الدین س بھی لوگ وں کے راہنما "‬
‫ٰ‬ ‫عالوہ ازیں حضرت محمد (ﷺ) حضرت‬
‫تھے۔ فی الحقیقت عربوں کی فتوحات کے پیچھے انہی کی زبردست قوت کام کر رہی تھی۔ انہیں بال تامل تاریخ کی ایسی اثر انگیز اور‬
‫موثر شخصیت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جن کی مثال نہیں ملتی اور نہ ہی مل سکتی ہے۔ مذہب و دنیاوی زن دگی پر ان کے وہ‬
‫"عظیم اور گہ رے اث رات ہیں جن کی وجہ سے میں س مجھتا ہ وں کہ محمد ﷺتاریخ انس انی کی واحد مث ال ہیں۔‬

‫ان‬ ‫‪ A.J.‬اس امر کا بی‬ ‫‪Arberry‬‬ ‫اظ میں کیا ہے‬ ‫‪ :‬نے ان الف‬

‫‪When he (Muhammad) died in 634, Islam was secure as the paramount religion and political system of‬‬
‫‪all‬‬ ‫)‪Arabia.(1‬‬

‫)‪(1‬‬ ‫‪A.J.‬‬ ‫‪Arberry,‬‬ ‫‪Aspects‬‬ ‫‪of‬‬ ‫‪Islamic‬‬ ‫‪Civilization,‬‬ ‫‪p.‬‬ ‫‪11.‬‬

‫جب ‪634‬ء میں حضرت محمد ﷺکا وصال ہوا اس وقت اسالم پورے خطہ عرب میں ایک غالب دین اور سیاسی نظام"‬
‫ا۔‬ ‫تحکم ہو چکا تھ‬ ‫ور پر مس‬ ‫"کے ط‬

‫تے ہیں‬ ‫‪ :‬وہ مزید لکھ‬

‫‪From the Atlantic coast, to the borders of China the call to prayer, in the tongue of Macca, rang out from‬‬
‫‪minaret, summoning the faithful to prostrate themselves to the Lord of the world. The rapidity spread of‬‬
‫‪Islam, through extensive provinces which had long been Christian, is a crucial fact of history which has‬‬
‫‪naturally‬‬ ‫‪engaged‬‬ ‫‪the‬‬ ‫‪speculative‬‬ ‫‪allousion‬‬ ‫‪of‬‬ ‫‪many‬‬ ‫‪critical‬‬ ‫)‪investigator.(1‬‬

‫)‪(1‬‬ ‫‪A.J.‬‬ ‫‪Arberry,‬‬ ‫‪Aspect‬‬ ‫‪of‬‬ ‫‪Islamic‬‬ ‫‪Civilization,‬‬ ‫‪p.‬‬ ‫‪12.‬‬

‫وادی مکہ سے اٹھ نے والی حق کی یہ آواز ہر ط رف پھیل چکی تھی۔ بحر اوقی انوس کے س احل سے لے کر چین کی س رحدوں تک"‬
‫مساجد کے میناروں سے بلند ہونے والی صدائے دلن واز اہل ایم ان کو رب کائن ات کے حض ور سر بس جود ہ ونے کی دع وت دے رہی‬
‫تھی۔ اس الم کی اس درجہ ت یزی سے اش اعت خصوص ا ً ان دور دراز عالق وں میں جو عرصہ دراز سے عیس ائی رہ چکے تھے ایک‬
‫"ایسی اٹل ت اریخی حقیقت ہے جس نے بہت سے نق اد ت اریخ نگ اروں کی ت وجہ کو ب دیہی ط ور پر اپ نی ط رف مب ذول کر لیا ہے۔‬

‫اس کتاب میں حضور نبی اکرم ﷺکی شخصی اور رسالتی جہت سے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا جو اس حقیقت کو‬
‫واضح کر دیتا ہے اگر کوئی مثالی شخص یت کامل نم ونہ ہو س کتی ہے تو حض ور ن بی اک رم ﷺکی ذات مب ارکہ ہے۔‬

‫دی کا ایک پہلو‬ ‫المین‪ :‬رحمت محم‬ ‫رحمۃ للع‬

‫اد ہے‬ ‫الی کا ارش‬ ‫‪:‬ہللا تع‬

‫وب("‬ ‫)! اے محب‬ ‫اکر بھیجا ہے۔‬ ‫یے رحمت ہی بن‬ ‫ان کے ل‬ ‫ارے جہ‬ ‫"ہم نے تم کو س‬

‫آیت ‪(107 :‬‬ ‫اء ‪،21‬‬ ‫ورہ انبی‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬
‫اگر کوئی شخص یہ دیکھنا چاہے کہ نبی ﷺکی ذات مبارکہ تمام جہان کے لئے کس طرح رحمت بنی تو اس کا احاطہ‬
‫یا نا ممکن۔ اس لئے ہم آپ کے سامنے اس رحمت کے صرف ایک پہلو کے بیان پر اکتفا ک رتے ہیں۔ ن بی اک رم ﷺنے‬
‫انسانی سماج کے لئے وہ اصول پیش کئے ہیں جن کی بنیاد پر انسانوں کی ایک برادری بن سکتی ہے اور انہی اصولوں پر ایک عالمی‬
‫بھی معرض وجود میں آ سکتی ہے اور انسانوں کے درمیان وہ تقس یم بھی ختم ہو س کتی ہے جو ہمیشہ سے )‪ (World State‬حکومت‬
‫نی رہی ہے۔‬ ‫اعث ب‬ ‫ظلم کا ب‬

‫دنیا میں جتنی بھی تہ ذیبیں گ زری ہیں‪ ،‬انہ وں نے جو بھی اص ول پیش ک ئے ہیں‪ ،‬وہ انس انوں کو ج وڑنے والے نہیں ہیں بلکہ ت وڑنے‬
‫والے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ ہٹلر کو لے لیجیےاس نے یہ دعوی کیا تھا کہ ج رمن نسل سب سے برتر و ف ائق ہے۔ نس لی برت ری کا‬
‫یہی تصور یہودی ذہنیت میں بھی رچا بسا ہوا ہے۔ ان کے قانون کے مط ابق جو پیدائشی اس رائیلی نہیں‪ ،‬وہ اس رائیلیوں کے برابر نہیں‬
‫ہے۔ اسی طرح یونانیوں کے اندر بھی ایک نسلی غرور پایا جاتا ہے۔یہی چیز آپ کو مغربی ذہنیت میں پیوست دکھائی دیتی ہے۔ جنوبی‬
‫اتھ کر رہا ہے۔‬ ‫ان کے س‬ ‫ان انس‬ ‫یا میں یہی ظلم آج بھی انس‬ ‫ریقہ اور روڈیش‬ ‫اف‬

‫کا ایک نشہ بھی ہے۔ دنیا کی دو ب ڑی جنگیں اسی تعصب کی بنی اد پر )‪ (Territorial Nationalism‬اسی قبیل سے عالق ائی ق ومیت‬
‫چھڑیں۔ اور یہی کیفیت خود عرب میں بھی تھی۔ قبائلی عصبیت ان لوگوں کے رگ و ریشہ میں رچی بسی ہوئی تھی۔ ہر قبیلہ اپ نے آپ‬
‫کو دوسرے کے مقابلے میں برتر و فائق سمجھتا تھا۔ دوس رے ق بیلے کا ک وئی ش خص کتنا ہی نیک کی وں نہ ہوت ا‪ ،‬وہ ایک ق بیلے کے‬
‫ا۔‬ ‫را آدمی رکھتا تھ‬ ‫در نہیں رکھتا تھا جتنا کہ ان کے نزدیک ان کا اپنا ایک ب‬ ‫نی ق‬ ‫نزدیک ات‬

‫جس سرزمین میں انسانوں کے درمیان امتیاز نسل‪ ،‬قبیلے اور رنگ کی بنا پر ہوتا تھا وہاں نبی ﷺنے اپنی پکار انسان‬
‫کی حیثیت سے بلند کی۔ ایک عرب نیشنلسٹ کی حیثیت سے نہیں اور نہ ع رب یا ایش یا کا جھن ڈا بلند ک رنے کے ل ئے کی تھی۔ آپ نے‬
‫ار کر فرمایا‬ ‫‪:‬پک‬

‫وں۔‬ ‫وا ہ‬ ‫وث ہ‬ ‫رف مبع‬ ‫انو! میں تم سب کی ط‬ ‫اے انس‬

‫اکہ‬ ‫ان تھ‬ ‫دا کا یہ فرم‬ ‫ات پیش کی وہ خ‬ ‫‪:‬اور جو ب‬

‫اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا‪ ،‬اور تم کو قبیلوں اور گروہ وں میں اس ل ئے بانٹا ہے کہ تم کو ب اہم تع ارف"‬
‫ادہ ڈرتا ہے۔‬ ‫زت واال وہ ہے جو اس سے سب سے زی‬ ‫و۔ ہللا کے نزدیک برتر اور ع‬ ‫"ہ‬

‫آیت ‪(13 :‬‬ ‫رات ‪،49‬‬ ‫ورہ حج‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫آپ نے فرمایا کہ تم ام انس ان اصل میں ایک ہی نسل سے تعلق رکھ تے ہیں۔ وہ ایک م اں ب اپ کی اوالد ہیں اور اس حی ثیت سے بھ ائی‬
‫کتا۔‬ ‫اد پر نہیں کیا جا س‬ ‫گ‪ ،‬نسل اور وطن کی بنی‬ ‫رق رن‬ ‫وئی ف‬ ‫ان ک‬ ‫ائی ہیں۔ ان کے درمی‬ ‫بھ‬

‫‪ :‬آنحضور ﷺفلسفی نہیں تھے کہ محض ایک فلسفہ پیش کر دیا۔ آپ نے اس بنی اد پر ایک امت بن ائی اور اسے بتایا کہ‬

‫ائم کر دو۔‬ ‫واہی ق‬ ‫رت کی) گ‬ ‫وں پر (ہللا اور آخ‬ ‫اکہ تم لوگ‬ ‫انی امت بنایا ت‬ ‫ط)درمی‬ ‫تمہیں (امت وس‬

‫ادل ہے۔‬ ‫لمان امت ع‬ ‫وم یہی ہے کہ مس‬ ‫امت وسط کا مفہ‬

‫اب یہ امت عادل بنتی کس چیز پر ہے؟ یہ کسی قبیلے پر نہیں بنتی‪ ،‬کسی نسل یا وطن پر نہیں بنتی‪ ،‬یہ بنتی ہے تو ایک کلمے پر یع نی‬
‫ہللا اور اس کے رسول کا حکم تسلیم کر لو تو جہ اں بھی پی دا ہ وئے ہ و‪ ،‬جو بھی رنگ ہے‪ ،‬بھ ائی بھ ائی ہ و۔ اس ب رادری میں جو بھی‬
‫وئ ف رق نہیں اور نہ ع ربی کو عجمی پر ک وئی‬ ‫ش امل ہو جاتا ہے اس کے حق وق سب کے س اتھ برابر ہیں۔ کسی س ید اور ش یخ میں ک ٰ‬
‫وقیت ہے۔‬ ‫ف‬

‫اس امت میں بالل حبشی بھی تھے‪ ،‬س لمان فارسی بھی اور ص ہیب رومی بھی (رضی ہللا عنہم)۔ یہی وہ چ یز تھی جس نے س اری دنیا‬
‫کو اسالم کے قدموں میں ال ڈاال۔ خالفت راشدہ کے عہد مبارک میں ملک پر ملک فتح ہوتا چال گی ا۔ اس ل ئے نہیں کہ مس لمان کی تل وار‬
‫سخت تھی بلکہ اس لئے کہ وہ جس اصول کو لے کر نکلے تھے اس کے سامنے کوئی گردن جھکے بغیر نہ رہ سکتی تھی۔ ایران میں‬
‫ویسا ہی اونچ نیچ کا فرق تھا جیسا کہ عرب جاہلیت میں۔ جب ایرانیوں نے مسلمانوں کو ایک صف میں کھڑے دیکھا تو ان کے دل خود‬
‫ئے۔‬ ‫خر ہو گ‬ ‫ود مس‬ ‫بخ‬

‫مسلمان جب بھی اس اصول سے ہٹے‪ ،‬مار کھائے۔ اسپین پر مسلمانوں کی آٹھ سو برس حکومت رہی۔ جب مس لمان وہ اں سے نکلے تو‬
‫اس کی وجہ تھی‪ ،‬قبائلی عصبیت کی بناء پر باہمی چپقلش۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی ط اقت کی وں ٹ وٹی‪ ،‬ان میں وہی‬
‫جاہلیت کی عصبیتیں ابھر آئی تھیں۔ کوئی اپنے مغل ہونے پر ناز کرتا تھا تو کوئی پٹھ ان ہ ونے پ ر۔ ن تیجہ یہ نکال کہ وہ پہلے مرہٹ وں‬
‫در ہوگیا ہے۔‬ ‫تے رہنا گویا ان کا مق‬ ‫ٹے اور اب تو آئے دن پٹ‬ ‫کھوں سے پ‬ ‫ٹے‪ ،‬پھر س‬ ‫سے پ‬

‫نی میں‬ ‫ات کی روش‬ ‫ات وروای‬ ‫آی‬ ‫ول ہللا ﷺ‬ ‫رس‬

‫بعض آیات ِکریمہ سے صراحت کے ساتھ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اکرمﷺ قبل ِ بعثت ایم ان ‪،‬عقی دہ ‪،‬اخالقی شائس تگی‬
‫تی کہ آپ کف ارکے درمی ان بھی امین و ص ادق جیسے لقب سے‬‫اور ص داقت کے اعتب ار سے تم ام لوگ وں سے افضل و برتر تھے ‪،‬ح ٰ‬
‫مشہور و مع روف تھے اور اسی ط رح آپ کے آب اء واج داد سب موحد ‪ ،‬خ دا پرست ‪،‬ش رک سے دوراور پیم بران ِ خ دا میں سے تھے‬
‫رتے ہیں‬ ‫ور دلیل پیش ک‬ ‫ارے میں ذیل میں ہم چند آیا ت کو بط‬ ‫انچہ اس ب‬ ‫‪،:‬چن‬

‫جو آیت اس حقیقت کی ط رف اش ارہ ک رتی ہے اور آپ کی منصب رس الت کے ل ئے آم ادگی کو بی ان ک رتی ہے‪ ،‬وہ وہی آیت ہے جو‬
‫‪ :‬آپﷺ کی مکی زن دگی کے وسط میں ن ازل ہ وئی جب کہ کف ار ق ریش نے آپ پر اع تراض کی ااور یہ کہ نے لگے‬

‫ہم اس وقت تک ایمان نہیں الئیں گے جب تک ہم کو " )اور جب ان کے پاس کوئی نشانی دین کی تصدیق کے لئے آتی ہے توکہتے ہیں (‬
‫خ ود ویسی چ یز (وحی وغ یرہ) نہ دی ج ائے گی جو رس ولوں کو دی گ ئی ہے ۔" (یع نی ہم بھی مق ام نب وت پر ف ائز ہ وں )۔‬

‫آیت ‪124 :‬‬ ‫ام‪،6‬‬ ‫ورہ انع‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫اد فرمایا‬ ‫الی نے ارش‬


‫ٰ‬ ‫دا تع‬ ‫واب میں خ‬ ‫‪ :‬ان کے ج‬

‫‪ü‬‬ ‫رے۔"‬ ‫الت کو کس جگہ ودیعت ک‬ ‫تر جانتا ہے کہ رس‬ ‫ادہ بہ‬ ‫دا زی‬ ‫"خ‬

‫آیت ‪(124 :‬‬ ‫ام ‪،6‬‬ ‫ورہ انع‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫یہ آیت انبیاء کرام کے منتخب ہونے کی حکمت کو بطور عموم اور آنحضرت ﷺکے انتخاب کرنے کی علت کو بطور‬
‫الی‬
‫خصوص بیان کرتی ہے یعنی مقام رسالت ایسا نہیں ہے کہ بغیر پہلے سے آم ادگی اور ش رائط کے ہر کس و ن اکس کو خ دا ئے تع ٰ‬
‫عنایت کردے‪ ،‬بلکہ یہ منصب اس کو ملتا ہے جو اپنے وجود میں پہلے سے اس کے تمام الزمی شرائط اور مقدمات کو آمادہ رکھتا ہو‪،‬‬
‫تعالی ایسے داناترین افراد کو مقام رس الت سے س رفراز کرتا ہے ‪،‬یع نی اس پ اک منصب کیل ئے ض روری ہے کہ انس ان پہلے‬ ‫ٰ‬ ‫خدائے‬
‫ایمان ‪ ،‬صداقت اوراخالق و ک ردار میں کامل اور تم ام رذائل اور خب ائث سے پ اک ہو تب خ دا کہیں اپنا خ اص عہ دہ عن ایت کرتا ہے ۔‬

‫‪ü‬‬ ‫و۔"‬ ‫ائز ہ‬ ‫ا ً تم خلق عظیم پر ف‬ ‫وب!)یقین‬ ‫"اور (اے محب‬

‫آیت ‪(4 :‬‬ ‫ورہ قلم ‪،68‬‬ ‫د‪،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫یہ آیت تمام اعتبار سے آنحضرت ﷺکی حیات طیبہ کی طرف اشارہ کرتی ہے‪ ،‬اور صراحت کے ساتھ لفظ خلق عظیم‬
‫کے ذریعہ آپ کی رسالت سے قبل لیاقت ا ور استعداد پر بطور عموم داللت کرتی ہے (کیونکہ یہ آیت بعثت کے ابت دائی ای ام میں ن ازل‬
‫ہوئی‪ ،‬اگرچند ایام گذر جانے کے بعد نازل ہوتی تو سمجھا جاسکتا تھا کہ خلق سے مراد نبوت و رسالت ہے یا وہ اوصاف جو رسالت و‬
‫نبوت ملنے کے بعد آنحضرتﷺ میں پیدا ہوئے ل ٰہذا ماننا پڑیگا کہ) خلق عظیم سے مراد آپ کے وہ کم االت ہیں جو آپ‬
‫کے وجود میں مبعوث برسالت ہو نے سے پہلے نمایاں تھے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ﷺ کی مدح کے لئے‬
‫اس آیت سے بہتر اور کوئی جامع اور وسیع جملہ نہیں ہو س کتا‪،‬اور اس جملہ میں جو مفہ وم اور معن ویت پ ائی ج اتی ہے وہ کسی اور‬
‫جملے میں نہیں ہے‪ ،‬کیو نکہ لفظ خلق تم ام اچھے اعم ال ‪،‬امتی از اور عب ادت کو ش امل ہے‪،‬یع نی ص فت ِ خلق وہ ص فت ہے جوتم ام‬
‫الی نے ایسی ص فت کے ب ارے میں فرمایا کہ‬ ‫شخصی‪،‬اجتماعی ‪،‬انسانی‪ ،‬خانوادگی اور م ذہبی اوص اف کی مظہر ہے ‪،‬اور خ دائے تع ٰ‬
‫رسول اس صفت کے عالی اور عظیم مرحلہ پر ف ائز ہیں‪،‬کی ونکہ آیت میں ص رف خلق کا ہی لفظ نہیں ہے بلکہ’’ عظیم ‘‘بھی آیا ہے ‪،‬‬
‫دیق بھی فرما دی ہے‬ ‫ارہ تص‬ ‫الی نے آپ کے امتیا زی اخالق کی دوب‬
‫ٰ‬ ‫‪ :‬اور پھر اس آیت کے ذریعہ ہللا تع‬

‫رے۔"‬ ‫الت کو کس جگہ ودیعت ک‬ ‫تر جانتا ہے کہ رس‬ ‫ادہ بہ‬ ‫دا زی‬ ‫"خ‬

‫آیت ‪(124 :‬‬ ‫ام ‪،6‬‬ ‫ورہ انع‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫"ہللا تو یہی چاہتا ہے اے ن بی کے گھر وال و! کہ تم سے ہر ناپ اکی کو دور فرم ادے اور تمہیں پ اک ک رکے خ وب س تھرا ک ردے۔ " ‪ü‬‬

‫آیت ‪(33 :‬‬ ‫زاب ‪،33‬‬ ‫ورہ اح‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫یہ آیت رسول ہللا ﷺ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے‪ ،‬جو آپ اور آپ کے خاندان کی طہارت پر داللت‬
‫ک رتی ہے ‪ ،‬یع نی رس ول اور آپ کے اہل بیت ہر قسم کے ش رک ‪ ،‬کفر ‪ ،‬گن اہ ‪ ،‬معص یت ‪،‬آل ودگی ‪ ،‬نجاست اور رذائل سے دور ہیں‪،‬‬
‫کیونکہ رجس کا اطالق اِن تم ام چ یزوں پر ہوتا ہے‪ ،‬پس آیت کی رو سے آنحض رت ﷺاور خان دان ہر قسم کے رجس‬
‫اکیزہ ہیں ۔‬ ‫اک و پ‬ ‫سے پ‬

‫‪ü‬‬ ‫"‬ ‫از پڑھتا ہے تو روکتا ہے۔‬ ‫دہ کو جب نم‬ ‫خص کو بھی دیکھا جو ایک بن‬ ‫"بھال تم نے اس ش‬

‫‪(11‬‬ ‫آیت ‪،10 :‬‬ ‫ورہ علق ‪،96‬‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫یہ آیت آنحضرت ﷺکی تعریف اور ایک مغرور اور سر کش شخص کی مذمت میں ن ازل ہ وئی ہے ‪،‬جو آپ کو ہمیشہ‬
‫ارہ ہوتا ہے‬ ‫رف اش‬ ‫وں کی ط‬ ‫ادت سے منع کرتا تھا ‪،‬بہر کیف اس آیت سے دو نکت‬ ‫دا کی عب‬ ‫‪:‬خ‬

‫آنحضرت ﷺبعثت سے قبل نہ تنہا موحد تھے بلکہ آپ ہمیشہ خدا کی پرستش و عبادت میں مش غول رہ تے تھے‪ ،‬کیو ·‬
‫نکہ یہ سورہٴ علق کی آیت ہے جو کہ کثیر روایات اور مفسرین کے مطابق سب سے پھلے نازل ہوئی ‪،‬ل ٰہذا یہاں عب ادت کا ت ذکرہ بعثت‬
‫انب ہے۔‬ ‫دگی کی ج‬ ‫سے قبل کی زن‬

‫یہ عبادت جزیرة العرب کے رہنے والوں کی عبادت کے خالف تھی اسی وجہ سے وہ اس کی مخالفت کرتے تھے‪ ،‬اور اس مطلب کا ·‬
‫استفادہ متعدد روایا ت سے بھی ہو تا ہے کہ رسو ل اسالمﷺ بعثت سے پہلے کبھی مخفی ط ور پر اور کبھی سب کے‬
‫رتے تھے۔‬ ‫ادت ک‬ ‫دا کی عب‬ ‫نے خ‬ ‫امنے اپ‬ ‫س‬

‫ایمان بالرسالت کے تصور کو سمجھ لی نے کے بعد اب یہ س وال پی دا ہوتا ہے کہ ن بی اک رم ﷺ پر ایم ان النے اور اس‬
‫‪ :‬ایم ان کے کامل ہ ونے کے بنی ادی تقاضے کیا ہیں ۔ بنی ادی ط ور پر ایم ان بالرس الت کے دو بنی ادی م دارج ہیں‬

‫اصل ایمان ‪ :‬یہ وہ اساسی ایمان ہے جو نبی کریم ﷺ کی نبوت و رسالت کا زبان سے اقرار کرنے اور دل سے تصدیق‬
‫رنے سے متحقق ہوجاتا ہے‬ ‫ام پر عمل ک‬ ‫کے احک‬ ‫ول ﷺ‬ ‫یز ہللا اور اس کے رس‬ ‫رنے ن‬ ‫ک‬

‫کم ال ایم ان ‪ :‬یہ ایم ان کامل جو بعض ش رائط اور تقاضے ص حیح ط ور پر پ ورے ک یے بغ یر ممکن نہیں ہوت ا۔‬

‫ایم ان بالرس الت اق رار و تص دیق کی ش رط پ وری ک رنے کے عالوہ درج ذیل چ ار تقاض وں سے م رکب ہے ۔‬

‫‪1.‬‬ ‫ول‬ ‫تعظیم رس‬

‫‪2.‬‬ ‫ول‬ ‫محبت رس‬

‫‪3.‬‬ ‫ول‬ ‫رت رس‬ ‫نص‬

‫‪4.‬‬ ‫ول‬ ‫اعت رس‬ ‫اط‬


‫ایمان باہلل اور ایمان بالرسالت کے تحقیق و ثبوت میں ایک قدر مشترک ہے اور ایک مختل ف۔ جہ اں تک اصل اور کم ال کے م دارج کا‬
‫روی ہے کہ‬ ‫اذ بن انس سے م‬ ‫رت مع‬ ‫رے کے مماثل ہیں۔ جیساحض‬ ‫وں ایک دوس‬ ‫‪ :‬تعلق ہے دون‬

‫جس نے ہللا کے لیے کسی سے محبت کی اور ہللا کے لیے کسی کو کچھ دیا اور ہللا ہی کے ل یے کسی سے کچھ روکا تو اس نے ایم ان‬
‫ا۔‬ ‫مکمل کر لی‬

‫حاالنکہ ان شرائط پر پ ورا نہ ات رنے کے ب اوجود اس کا ہللا پر ایم ان رکھنا اصال ث ابت ہوجاتا ہے مگر ن اقص رہ جاتا ہے ۔ جہ اں تک‬
‫ایمان بالرسالت میں اصل ایمان اور کمال ایمان کے تعین اور ان کے ثب وت کے ح دود کا تعلق ہے اس میں اس کی حی ثیت مختلف ہے ۔‬
‫م ذکورہ ب اال چ ار ش رائط اور تقاض وں میں سے پہلے دو (محبت اور تعظیم) اصل ایم ان کا حصہ ہے ۔ جبکہ بقیہ دو (اط اعت اور‬
‫ان کا حصہ ہیں۔‬ ‫ال ایم‬ ‫رت) کم‬ ‫نص‬

‫اگر نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ سرے سے محبت ہی نہ ہو ‪ ،‬بلکہ قلبی اور باطنی س طح پر ایک ط رح کی ال‬
‫تعلقی یا عدم رغبت کی کیفیت ہو نہ ہی دل میں آپ کی تعظیم کا کوئی داعیہ موجود ہو تو ان خص ائص کا فق دان مطلقا ایم ان ہی کی نفی‬
‫کو مستلزم ہوگا ۔ اس کے برعکس اگر محبت رسول اور تعظیم رسول کے عناصر انسان کی طبیعت میں پ ائے ج ائیں ‪ ،‬مگر بد قس متی‬
‫سے اطاعت اور نصرت کی توفیق نہ ہو تو پھر ایمان اصال تو ثابت ہوگا مگر ناقص رہ جائے گا۔ اس کا کمال بلکہ خ ود داعی ات محبت‬
‫یر ممکن نہیں۔‬ ‫رت کے بغ‬ ‫اعت اور نص‬ ‫ال اط‬ ‫و تعظیم کا کم‬

‫یر‬ ‫تعظیم و توق‬

‫تعظیم رسالت ایک ایسا مسئلہ ہے جسے قرآن پاک نے ب ڑی اہمیت دی ہے اور اسے ایسے ایم ان اف روز اس لوب میں بی ان کیا ہے جس‬
‫اد فرمایا‬ ‫انچہ ارش‬ ‫کتا۔چن‬ ‫ور بھی نہیں کیا جا س‬ ‫لوب کا تص‬ ‫یز اس‬ ‫نی خ‬ ‫ین تر اور مع‬ ‫‪:‬سے حس‬

‫اے نبی! بے شک ہم نے آپ کو شہادت و بشارت اور انذار کے منصب پر فائز کرکے بھیجا ہے‪( ،‬اے لوگو! یہ اس ل ئے ہے) ت اکہ تم"‬
‫"ہللا اور اس کے رس ول پر ایم ان الؤ اور ان کے دین کی م دد ک رواور رس ول کی خ وب تعظیم و توق یر ک رو ۔‬

‫آیت ‪(8-9 :‬‬ ‫ورہ فتح ‪،48‬‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫اس واضح ترتیب میں ایمان کے بعد اولیت تعظیم و توق یر کو دی گ ئی ہے۔ یہ ب ڑا اہم اور ایم ان اف روز نکتہ ہے کہ نص رت و اط اعت‬
‫رسول ہللا علیہ وآلہ وسلم ان دو تقاضوں کے بعد مذکور ہیں۔ اس ترتیب سے یہ حقیقت بھی سمجھ لینی چاہئے کہ دع وت و تبلی ِغ دین کا‬
‫فریضہ جو فی الحقیقت نصرت رسول ﷺ ہے ‪ ،‬قرآنی منشاء کے مطابق اس وقت تک م وثر ‪ ،‬ن تیجہ خ یز اور م وجب‬
‫ثم رات نہیں بنتا جب تک پہلے دین لے کر آنے والے رس ول ﷺ کے س اتھ تعظیم و توق یر کے دو تعلق اس توار نہ‬
‫ائیں۔‬ ‫ہوج‬

‫ت رسول ﷺدونوں کا تعلق عقائد ‪ ،‬نظریات اور جذبات سے زی ادہ اعم ال و افع ال کے س اتھ ہے۔ جبکہ‬ ‫نصرت و اطاع ِ‬
‫اول الذکر دونوں تقاضے ایم انی کیفیت ‪ ،‬تعلق کی ن وعیت اور عقی دے کی طہ ارت کے معی ار کو ظ اہر ک رتے ہیں۔ ایم ان کی توثیق و‬
‫تص دیق تبھی ہ وتی ہے جب تعظیم رس ول ﷺسے ایم ان کو پرکھا جاتا ہے کی ونکہ تعظیم ‪ ،‬ایم ان پر گ واہی کا درجہ‬
‫رکھتی ہے۔ جب تک کوئی شخص نبی پاک ﷺکے ادب اور تعظیم کو بدرجہ اتم اپنے دل میں ج اگزیں نہ ک رے اس کا‬
‫ایمان کامل نہیں ہوتا۔ ایمان کی تکمیل کے بعد ہی اطاعت و نصرت کی کاوشیں مقبول اور باثمر ہوں گی۔ یاد رکھا ج ائے کہ توق یر بھی‬
‫تعظیم سے ہے لیکن باعتب ار مخل وق یہ ادب و اح ترام کا وہ بلند درجہ ہے جو ش رعا ً آنحض ور ﷺکا حق ہے۔‬

‫قرآن پاک نے دوسری جگہ ٹوٹ کر محبت کرنے اور تعظیم و توق یر کا یہی عمل اختی ارکرنے وال وں کو دنیا اور آخ رت میں کامی ابی‬
‫الی ہے‬
‫ٰ‬ ‫اری تع‬ ‫اد ب‬ ‫ارت دی ہے۔ ارش‬ ‫‪:‬کی بش‬

‫وہ لوگ جو ایمان الئے اور ان کی خوب تعظیم کی اور مدد کی اور جو نور ان کے ساتھ اتارا گیا ہے اس کی پ یروی کی تو یہی ل وگ"‬
‫وں گے۔‬ ‫امراد ہ‬ ‫اب و ب‬ ‫"کامی‬

‫آیت ‪(157 :‬‬ ‫راف ‪،7‬‬ ‫ورہ اع‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬
‫دونوں آیات میں حضور نبی ک ریم ﷺ کی تعظیم کا حکم دی نے کے ل ئے لفظ ’’تعزی ر‘‘ الیا گیا ہے جو اپ نی جگہ ب ڑا‬
‫مع نی خ یز ہے۔ یہ لفظ ع ام قسم کی تعظیم و تک ریم کے ل ئے نہیں ب وال جاتا بلکہ تعظیم کی اس ح الت پر ب وال جاتا ہے جو تعظیم کی‬
‫انتہائی حدوں کو چھولے۔ عام انسانوں کے لئے تو تعظیم میں مب الغہ آ س کتا ہے لیکن آنحض ور ﷺکی وہ ذات گ رامی‬
‫ہے کہ تعظیم و تکریم میں مبالغہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لئے قرآن پاک نے یہ لفظ ذکر کیا ہے ت اکہ اہل ایم ان ان کی تعظیم کے‬
‫لئے جو بھی عمل اور انداز اختیار کرنا چاہیں وہ بال تکلف اختیار کرلیں اور اپنے پ اک ن بی کی ص فت وثن اء بی ان ک ریں‪ ،‬چ اہے ان کا‬
‫حسن عقیدت سے لبریز ہو اور ان کا نیاز مندانہ انداز‪ ،‬خواہ کتنی ہی عاجزی ل ئے ہ وئے ہو پھر بھی اس میں‬ ‫ِ‬ ‫بیان کتنا ہی پر شکوہ اور‬
‫اعلی ہے اور رب ک ریم نے ان کو ات نی عظم تیں عطا‬ ‫ٰ‬ ‫مبالغہ پیدا نہیں ہوگا کیونکہ ن بی اک رم ﷺکی ش ان ات نی ارفع و‬
‫فرمائی ہیں کہ امتی جو خوبی اور شان بھی بیان کرے گا وہ ان کی ذات اقدس میں موجود ہوگی۔چنانچہ نبی کریم ﷺ کا‬
‫اد ہے‬ ‫‪:‬ارش‬

‫عیسی علیہ السالم کے بارے میں مبالغہ کیا تھا‪ ،‬تم اس سے باز رہو اور م یری اس قسم کی تعریف نہ"‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫نصاری نے حضرت‬ ‫جس طرح‬
‫رو۔‬ ‫"ک‬

‫نبی کو خدا کا بیٹا کہنا بے شک مبالغہ اور خالف واقعہ بات ہے‪ ،‬کفر ہے‪ ،‬اس ل ئے اس سے منع کیا گیا ہے‪ ،‬کی ونکہ یہ تعریف نہیں‪، ،‬‬
‫تعالی اوالد سے پاک ہے‪ ،‬کوئی ن بی اس کا بیٹا نہیں ہوس کتا‪ ،‬اس ل ئے جو بھی کسی کو اس‬
‫ٰ‬ ‫خالف واقعہ‪ ،‬غلط اور جھوٹی بات ہے۔ ہللا‬
‫کا بیٹا کہے گا وہ جھوٹ بولے گا اور مبالغہ کی ح دوں سے بھی آگے ب ڑھ ج ائے گ ا‪ ،‬اس ل ئے یہ غلط ب ات کہ نے اور اس ان داز سے‬
‫تعریف ک رنے کی اج ازت نہیں‪ ،‬ب اقی ہر قسم کی تعریف و س تائش‪ ،‬م دح ونعت اور ص فت و ثن اء کی اج ازت ہے۔‬

‫اس ح دیث کی آڑ لے کر یہ کہنا کہ ن بی ک ریم ﷺنے اپ نی تعریف سے منع فرمایا ہے‪ ،‬اس ل ئے کسی قسم کی م دح و‬
‫ستائش جائز نہیں اور وہ مبالغہ کی تعریف میں آ ج اتی ہے‪ ،‬یہ بالکل غلط ہے۔ اس ح دیث پ اک میں خ دا کا بیٹا کہہ کر م دح ک رنے کی‬
‫مم انعت ہے‪ ،‬ب اقی رہے وہ اوص اف جو آپ کی ذات اق دس میں حقیقت ا ً پ ائے ج اتے ہیں ان کے بی ان کی مم انعت نہیں بلکہ ان کا ذکر‬
‫رکت ہے۔‬ ‫یرو ب‬ ‫وجب خ‬ ‫روری اور م‬ ‫ض‬

‫حضرت حسان رضی ہللا عنہ جب آحضور ﷺ کی نعت پڑھتے تو آپ ﷺ ان کو دعا دیا ک رتے تھے۔‬

‫ا۔"‬ ‫امور فرم‬ ‫ئے م‬ ‫ویت کے ل‬ ‫ان کی تائید و تق‬ ‫"اے ہللا! جبریل امین کو حس‬

‫الی عزوجل سے متع ارض و متص ادم‬ ‫لہذا مذکورہ باال آیات واحادیث سے ثابت ہ وا کہ تعظیم ح بیب ﷺتوحید ب اری تع ٰ‬
‫نہیں۔ کیونکہ اس عمل کا حکم تو خود رب کریم نے اپنے پ اک کالم میں دیا ہے۔ اس کے س اتھ س اتھ نص وص ق رآنیہ سے یہ بھی ث ابت‬
‫تعالی کی بے ادبی کرتا ہے۔ اور جو نبی پاک‬
‫ٰ‬ ‫ہوتا ہے کہ جو کوئی نبی پاک ﷺکی بے ادبی کرتا ہے تو وہ دراصل ہللا‬
‫ﷺکی اط اعت سے منہ موڑتا ہے تو وہ دراصل ہللا عزوجل کی اط اعت سے منہ موڑتا ہے۔ اسی ط رح ن بی پ اک‬
‫ﷺکو اذیت دینا دراصل ہللا کریم کو اذیت دینا ہے اور ہللا کریم کو اذیت دی نے کا مطلب اس کے غضب کو دع وت دینا‬
‫الی ہوتا ہے‬ ‫اری تع‬ ‫اد ب‬ ‫‪ :‬ہے ۔ ارش‬

‫بے شک جو ہللا اور اس کے رس ول کو ای ذا دی تے ہیں ۔ دنیا و آخ رت میں ان پر ہللا کی لعنت ہے ۔ اور ان کے ل یے ہللا نے ذلت آم یز"‬
‫ار کر رکھا ہے۔‬ ‫ذاب تی‬ ‫"ع‬

‫آیت ‪(57 :‬‬ ‫زاب ‪،33‬‬ ‫ورہ اح‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫واضح ہوا کہ ہللا و رسول ہللا ﷺ کے حق ایک دوس رے کے س اتھ الزم و مل زوم ہیں۔ جیسا کہ ق رآن عظیم نے ہللا اور‬
‫رار دیا ہے۔‬ ‫یز ق‬ ‫انی کو ایک ہی چ‬ ‫یت و نافرم‬ ‫الفت اور معص‬ ‫ول کی مخ‬ ‫اس کے رس‬

‫یہ تو ايسى بارگاه ہے جہاں حكم عدولى كى تو كيا گنجائش ہوتى‪ ،‬يہاں اونچى آواز سے بولنا بهى غارت گر ِايمان ہے‪ -‬س ورة الحج رات‬
‫‪ :‬كى ابت دائى چ ار آيات ميں آنحض ورﷺ كے ادب و اح ترام كے مختلف پہلو واضح فرم ائے گ ئے ہيں‬

‫اے ایمان والو! ہللا اور اس کے رسول کے سامنے پیش قدمی نہ کرو اور ہللا سے ڈرتے رہ و‪ ،‬بال ش بہ ہللا سب کچھ س نتا جانتا ہے۔اے"‬
‫ايمان والو! اپنى آوازيں نبى كى آواز سے بلند نہ كرو اور نہ ہى ان كے سامنے اس ط رح اونچى آواز سے بولو جيسے تم ايك دوس رے‬
‫سے بول تے ہ و۔ کہیں تمہ ارے اعم ال برب اد نہ ہوج ائيں اور تمہیں اس كى خ بر بهى نہ ہ و‪-‬بال ش بہ جو ل وگ رس ول هللا‬
‫ﷺكے حضور اپنى آوازيں پست ركهتے ہيں‪ ،‬يہى لوگ ہیں جن كے دل وں كو هللا نے تق ٰ‬
‫وى كے ل ئے پ رکھ ليا ہے‪ ،‬ان‬
‫كے لئے بخشش اور اجر عظيم ہے۔ (اے نبى!) جو لوگ تم كو حجروں كے باہر سے پك ارتے ہيں‪ ،‬ان ميں سے اك ثر بے عقل ہيں۔ اگر‬
‫"یہ لوگ صبر كرتے یہاں تک کہ تم ان كى طرف خود نكلتے تو یہ ان كے حق ميں بہتر تها اور هللا بخشنے واال رحم فرمانے واال ہے۔‬

‫آیت ‪(1-5 :‬‬ ‫رات ‪،49‬‬ ‫ورہ حج‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫سن ‪ 06‬ہجری کو جب کفار مکہ نے حدیبیہ کے مق ام پر مس لمانوں کو عم رہ ک رنے سے روک دیا تو اس وقت مس لمانوں اور ک افروں‬
‫کے درمیان صلح نامہ طے پایا۔ اس موقع پر عروہ بن مسعود نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں کف ار کا وکیل بن کر آی ا۔ اس‬
‫نے صحابہ کرام علیہم الرض وان کو حض ور ﷺ کی بے حد تعظیم ک رتے ہ وئے دیکھ ا۔ اور جو اس نے محبت و ادب‬
‫رسول ﷺ کے حیران کن مناظر دیکھے تو واپس جا کر اپ نے س اتھیوں کے س امنے ان کی منظر کشی کی۔ اے ق وم !‬
‫ری اور نجاشی جیسے بادش اہوں کے‬ ‫خ دا کی قسم میں ب ڑے ب ڑے بادش اہوں کے درب اروں میں وفد لے کر گیا ہ وں۔ میں قیصر و کس ٰ‬
‫درب اروں میں حاضر ہ وا ہ وں لیکن خ دا کی قسم ! میں نے ک وئی ایسا بادش اہ نہیں دیکھا جس کے درب اری اس کی اس ط رح دل سے‬
‫رتے ہیں۔‬ ‫حاب ان کی تعظیم ک‬ ‫کے اص‬ ‫وں جیسے محمد ﷺ‬ ‫رتے ہ‬ ‫" تعظیم ک‬

‫کا ادب‬ ‫ول ہللا ﷺ‬ ‫رس‬

‫اد ہے‬ ‫الی کا ارش‬ ‫رآن مجید میں ہللا تع‬ ‫‪:‬ق‬

‫اے ایمان والو! 'راعنا' نہ کہا کرو بلکہ 'انظرنا' کہا کرو اور توجہ سے بات کو سنا ک رو۔ یہ انک ار ک رنے والے تو دردن اک س زا کے"‬
‫‪)104‬‬ ‫رۃ ‪:2‬‬ ‫تحق ہیں۔" (البق‬ ‫مس‬

‫رسول ہللا ﷺسے بغض رکھنے والے بعض یہودی اور منافقین آپ کی خدمت میں حاضر ہ وتے تو ظ اہری اح ترام کو‬
‫برق رار رکھ تے ہ وئے بھی ان کی یہ کوشش ہ وا ک رتی کہ وہ کسی ط رح آپ کی ش ان میں بے ادبی کر س کیں۔‬

‫راعنا' ایک ذو معنی لفظ تھا۔ ص حابہ ک رام رضی ہللا عنہم آنحض ور ﷺکی گفتگو س نتے ہ وئے اگر کبھی ک وئی ب ات '‬
‫سمجھ نہ پاتے تو آپ سے رعایت کی درخواست کرتے ہوئے یہ لفظ بول کر بات کو دوہرانے کے لئے کہ تے۔ اس لفظ کو ذرا لچکا کر‬
‫بوال جائے تو یہ ایک اہ انت آم یز لفظ بن جات ا۔ ہللا تع الی نے اہل ایم ان کو اس لفظ کے اس تعمال سے روک دیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ‬
‫ایسے موقع پر 'انظرنا' یعنی ہم پر نظر فرمائیے کہہ کر آپ کی توجہ حاصل کریں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ بات کو پہلے ہی ت وجہ سے‬
‫وبت نہ آئے۔‬ ‫اکہ اس کی ن‬ ‫نیں ت‬ ‫س‬

‫اس حکم کو ہللا تعالی نے ق رآن مجید کا حصہ بنا دی ا۔ اس سے یہ معل وم ہوتا ہے کہ ہللا تع الی نے اپ نے رس ول ﷺکی‬
‫عزت و حرمت کے مع املے کو کت نی اہمیت دی ہے۔ ن بی ک ریم ﷺکی جو حی ثیت ہللا کے نزدیک ہے‪ ،‬اس کو م دنظر‬
‫رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے آپ کی ذات واال صفات کا انتہائی درجے میں ادب و احترام کیا جائے اور ک وئی ایسا لفظ نہ ب وال ج ائے‬
‫اور نہ ہی ایسا عمل کیا جائے جس سے آپ کی شان میں ادنی درجے میں بھی گستاخی کا ک وئی ش ائبہ ہ و۔ یہی رویہ دیگر انبی اء ک رام‬
‫اہیے۔‬ ‫ار کرنا چ‬ ‫ارے میں اختی‬ ‫الم کے ب‬ ‫لوۃ والس‬ ‫علیہم الص‬

‫آپ كے صحابہ كرام كو حضور سے جو والہانہ محبت تهى اسى كا نتیجہ تها کہ وه ہر اس كام كو كرنے كى كوشش ك رتے جو حض ور‬
‫نے كيا ہوتا۔ ان كو وہى كهانا پسندہوتا جو آپ كو پسند ہوتا‪ -‬جس مقام پر آپ تش ريف فرما ہ وتے يا نم از پ ڑھ ليتے‪ ،‬وه جگہ بهى واجب‬
‫‪ :‬االح ترام ہوج اتى اور اس مق ام پر وہى عمل انج ام دينا وه اپ نى س عادت ج انتے ‪ ،‬جیسا کہ بخ اری ش ریف کی ایک روایت ہے کہ‬

‫موسى بن عقبہ بيان ك رتے ہيں کہ ميں نے س الم بن عبدهللا بن عمر كو ديكهاکہ وه دورا ِن س فر راس تے ميں بعض مقام ات تالش ك رتے‬‫ٰ‬
‫تهے اور وہاں نماز پڑهتے تهے كيونکہ انہوں نے اپ نے والد عبدهللا كو اور انہ وں نے اپ نے والد عمر كو وہ اں نم از پڑه تے ديكها تها‬
‫‪-‬اور عمروہ اں اس ل ئے نم از پڑه تے تهے کہ انہ وں نے آنحض ور ﷺ كو وہ اں نم از پڑه تے ديكها تها‬

‫دربار نبوت ميں حاضرىكے لئے خاص تق ريب كا موقع ہوت ا‪ ،‬ص اف س تهرے ك پڑے زيب تن ك رتے ‪ ،‬بغ ير طہ ارت كے آپ كى‬
‫ِ‬ ‫انہیں‬
‫خدمت ميں حاضر ہونا اور مصافحہ كرنا گوارا نہ ہوتا‪ ،‬راستے ميں كبهى ساتھ ہوجاتا تو اپ نى س وارى كو آنحض ورﷺ‬
‫كى سوارى سے آگے نہ بڑهنے ديتے‪ -‬غايت ِادب كى بنا پر كسى بهى ب ات ميں س بقت گ وارا نہ تهى۔ دس تر خ وان پرہ وتے تو جب آپ‬
‫كهانا شروع نہ فرماتے كوئى كهانے ميں ہاتھ نہ ڈالتا‪ -‬یہ تو تها آپ كى زندگى ميں صحابہ كرام كا معمول مگر آپ كى وف ات كے بعد ہم‬
‫صدق دل سے محبت كريں‪ ،‬آپ كے فرم ودات‬ ‫ِ‬ ‫لوگوں كے لئے آپ كى عزت و تكريم كا طریقہ یہ ہے کہ ہم آپ ﷺسے‬
‫مجھیں۔‬ ‫نہ س‬ ‫وه حس‬
‫ٴ‬ ‫ُ‬
‫ئے اس‬ ‫نے ل‬ ‫دگى ميں آپ كو واقعى اپ‬ ‫نى زن‬ ‫ريں‪ ،‬اپ‬ ‫پر عمل ك‬

‫ول‬ ‫ت رس‬
‫محب ِ‬

‫دین اسالم میں وہ ایم ان یا وہ اط اعت معت بر نہیں ہے جس کی بنی اد محبت پر نہ ہ و۔پھر محبت بھی محض رس می اور ظ اہری قسم کی‬
‫مطل وب نہیں ہے بلکہ ایسی محبت مطل وب ہے جو تم ام محبت وں پر غ الب آ ج ائے‪ ،‬جس کے مقابل میں عزیز سے عزیز رش تے اور‬
‫محبوب سے محبوب تعلقات کی بھی کوئی قدر و قیمت باقی نہ رہ جائے‪ ،‬جس کے لئے دنیا کی ہر چیز کو چھوڑا جا س کے لیکن خ ود‬
‫ار یہ بتایا گیا ہے‬ ‫رآن مجید میں اس محبت کا معی‬ ‫کے۔ ق‬ ‫وڑا جا س‬ ‫اقی نہ چھ‬ ‫‪:‬اس کو کسی قیمت پر ب‬

‫کہہ دو کہ اگر تمہیں اپنے باپ‪ ،‬اپنے بیٹے‪ ،‬اپنے بھائی‪ ،‬اپنی بیویاں‪ ،‬اپنے کنبہ والے اور وہ اموال جو " )اے محبوب! مسلمانوں سے (‬
‫تم نے کمائے ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑ جانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے اور تمہارے پسندیدہ مکانات (اگر یہ سب)‬
‫"ہللا اور اس کے رس ول کی راہ میں تگ و دو ک رنے سے زی ادہ محب وب ہیں تو تم ہللا کے حکم (ع ذاب) کاانتظ ار ک رو ۔‬

‫آیت ‪(24 :‬‬ ‫وبہ ‪،9‬‬ ‫ورہ ت‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫اس آیت کے عموم سے یہ ض رور ث ابت ہوتا ہے کہ س چا ایم ان اسی وقت نص یب ہوس کتا ہے جبکہ ہللا اور اس کے رس ول کی محبت‬
‫س اری دنیا بلکہ خ ود اپ نی ج ان سے بھی زی ادہ ہو اور آپ کی محبت اس درجہ ہو کہ دوس ری ک وئی محبت اس پر غ الب نہ آس کے۔‬
‫احادیث مب ارکہ سے بھی حب بن وی کی اہمیت کا ان دازہ ہوتا ہے کہ جب تک ک وئی آپ سے دنیا ومافیہا کی ہر محب وب چ یز کی محبت‬
‫سے زیادہ محبت نہ کرے اور دوسروں کی محبتوں پر آپﷺکی محبت کو ف وقیت نہ دے تو اعم ال ص الحہ کا ب ڑا سے‬
‫بڑا ذخیرہ بھی اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔ کی ونکہ ایم ان کی بنی اد اور اصل ہی آپ کی محبت ہے‪ ،‬گ رچہ ب اقی ارک ان کی اہمیت اپ نی‬
‫لم ہے۔‬ ‫جگہ مس‬

‫حضرت انس رضی ہللا عنہ سے راویت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا‪ :‬تم میں سے ک وئی اس وقت تک م ؤمن نہیں ہو’’‬
‫اؤں۔‬ ‫وب نہ ہو ج‬ ‫ادہ محب‬ ‫وں سے زی‬ ‫د‪ ،‬اوالد اور سب لوگ‬ ‫کتا جب تک میں اُسے اُس کے وال‬ ‫‘‘س‬

‫درج باال حدیث میں محبت نبوی کو ایمان کیلئے اسا س یعنی شرط ق رار دیا گیا ہے۔ ایک م ؤمن کو اپ نی ج ان پر جتنا حق ہے اس سے‬
‫الی نے یہ ق انون اپ نی کت اب میں ان الف اط میں بی ان فرمایا‬ ‫ٰ‬ ‫‪:‬زی ادہ اس کی ج ان پرن بی کا حق ہے ‘ ہللا تع‬

‫ادہ حق دار ہے۔"‬ ‫انوں سے زی‬ ‫وں پر ان کی ج‬ ‫بی مومن‬ ‫"یہ ن‬

‫آیت ‪(6 :‬‬ ‫زاب ‪،33‬‬ ‫ورہ اح‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫اور بخاری شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرنے آپ سے عرض کیا کہ یا رسول ہللا! آپ مجھے اپنی ج ان کے س وا ہر چ یز‬
‫سے عزیز ہیں‪ ،‬یہ سن کر آپﷺ نے فرمایا تم میں کوئی شخص اُس وقت تک مومن کامل نہیں ہوس کتا جب تک کہ میں‬
‫اس کے لیے اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ حضرت عمرنے تھوڑے توقف کے بعد عرض کیا بخدا یا رس ول ہللا! اب‬
‫آپ مجھے اپ نی ج ان سے بھی زی ادہ محب وب ہیں۔ یہ سن کر آپﷺنے فرمایا اے عم ر! اب تمہ ارا ایم ان مکمل ہ وا۔‬

‫میں ہیں‬ ‫واب یہ ہے کہ محبت کی تین قس‬ ‫راد ہے؟ اس کا ج‬ ‫دیث میں کونسی م‬ ‫میں ہیں اور ح‬ ‫نی قس‬ ‫‪:‬محبت کی کت‬

‫‪1.‬‬ ‫رتی ہے۔‬ ‫بیعت تقاضہ ک‬ ‫وں کا ط‬ ‫نی جن محبت‬ ‫محبت طبعی‪ :‬یع‬

‫محبت عقلی‪ :‬یعنی جن محبتوں کا عقل تقاضہ کرتی ہے۔ جیسے مریض طبعا ً ک ڑوی دوا کو نا پس ند کرتا ہے‪ ،‬لیکن عقل کے تقاضہ ‪2.‬‬
‫ہے۔‬ ‫لیتا‬ ‫دواکھا‬ ‫وہ‬ ‫سے‬
‫محبت ایمانی‪:‬یعنی وہ محبت جس کا ایم ان تقاضہ کرتا ہے۔ جیسا کہ اگر ن بی اک رمﷺ کا فر ب اپ یا ک افر بی ٹے کو ‪3.‬‬
‫جنگ میں قتل کرنے کا حکم دیں تو محبت طبعی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ باپ اور بیٹے کو قتل نہ کیا ج ائے لیکن محبت ایم ان کا تقاضہ‬
‫تعالی عنہ نے اپنے والد جراح کو‬
‫ٰ‬ ‫یہ ہے کہ مسلمان اپنے باپ اور بیٹے کو قتل کر دے۔ جیساکہ غزوہ بدر میں حضرت عبیدہ رضی ہللا‬
‫الی عنہ نے اپ نے بی ٹے سے ل ڑائی اور اُسے قتل ک رنے کی اج ازت طلب کی۔‬ ‫قتل کیا اور حض رت اب وبکر ص دیق رضی ہللا تع ٰ‬

‫لہ ذا محبت عقلی وایم انی کا مطلب یہ ہے کہ عقل اور ایم ان اس کا تقاضا ک رتے ہے کہ اس سے محبت کی ج ائے جیسا کہ ہمیں بے‬
‫شمار دالئل سے معلوم ہوا ہے کہ ہللا کا ہم پر یہ سب سے بڑ ا احس ان ہے کہ اس نے ہمیں پی دا کیا اس ل یے اس کا حق ہے کہ اس سے‬
‫محبت رکھیں اور اس کی عب ادت ک ریں اس کے بعد رس ول ہللا ﷺ اور یہ اس کا ہم پر احس ان ہے کہ ان کے ذریعے‬
‫ہمیں س یدھا راس تہ معل وم ہ وا ان ک احق ہے کہ ہم ان سے محبت ک ریں اور ان کی اط اعت ک ریں چ ونکہ ہللا اور اس کے رس ول‬
‫ﷺ ہمارے تمام دوستوں اور ع ام لوگ وں سے زی ادہ ہم ارے خ یر خ واہ ہیں اس ل ئے جب ہم اری ط بیعت کی محب وب‬
‫چ یزوں اور ہللا اور اس کے رس ول کی محبت کے درمی ان مق ابلہ ہوتو ایم ان کا تقاضا یہ ہے کہ ہللا اور اس کے رس ول‬
‫ﷺ کے مقابلے میں کسی چیز کو ترجیح نہ دیں ۔ وہ ہمارے ان تمام رشتوں ‪ ،‬لوگ وں اور چ یزوں سے زی ادہ خ یرخواہ‬
‫الی کی محبت کا تقاضا ہے‬
‫ٰ‬ ‫ہیں کہ ایک ط رف بی ٹے ‪ ،‬بی وی کی محبت کا تقاضا ہے اور دوس ری ط رف ہللا تع‬
‫رف جاتا ہے۔‬ ‫دہ کس ط‬ ‫الت میں پتہ چلتا ہے کہ بن‬ ‫ان ہے کہ ایسی ح‬ ‫کا فرم‬ ‫رتﷺ‬ ‫آنحض‬

‫ان تین قسموں میں سے حدیث باال میں محبت عقلی اور محبت ایمانی م راد ہے۔ محبت طبعی انس ان کے اختی ار میں نہیں‪ ،‬لہ ذا مس لمان‬
‫محبت طبعی کا مکلف نہیں ہے۔ البتہ محبت عقلی اور محبت ایم انی کا مس لمان مکلف ہے‪ ،‬محبت ایم انی کی بنی اد پر حض ور ن بی‬
‫اک رمﷺ کو دنیا کی ہر چ یز سے عزیز جاننا ح دیث ب اال اور دیگر م ذکورہ ب اال دالئل ش رعیہ سے واضح ہے۔‬

‫رسول ہللا ﷺ کے ساتھ یہاں جس محبت کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مقصود وہی عقلی اور اص ولی محبت ہے جو ایک‬
‫شخص کو کسی اصول اور مسلک کے ساتھ ہوا کرتی ہے اور جس کی بنا پر وہ اپنی زندگی میں ہر جگہ اسی اص ول اور اسی مس لک‬
‫کو مقدم رکھتا ہے‪ ،‬اس اصول اور مسلک کے اوپر وہ ہر چ یز اور ہر اص ول اور ہر مس لک اور ہر خ واہش اور ہر حکم کو قرب ان کر‬
‫ا۔‬ ‫ان نہیں کرت‬ ‫یز پر بھی قرب‬ ‫ود اس کو دنیا کی کسی چ‬ ‫دیتا ہے لیکن خ‬

‫محبت رسول کے اس اص ول اور مس لک کی برت ری کے ل ئے وہ س اری چ یزوں کو پست کر دیتا ہے لیکن اس اص ول اور مس لک کو‬
‫کسی حالت میں بھی پست دیکھنا گوارا نہیں کرت ا۔ اگر اس سے خ ود اس کا اپنا نفس اس مس لک کی مخ الفت میں م زاحم ہوتا ہے تو وہ‬
‫اس سے بھی لڑتا ہے‪ ،‬اگر دوسرے اس سے مزاحم ہ وتے ہیں تو ان کا بھی وہ مق ابلہ کرتا ہے‪ ،‬یہ اں تک کہ اس کے بی وی بچ وں اور‬
‫اع زا و اق ارب کے مطالب ات بھی اگر اس کے اس مس لک کے مطالب ات سے کسی م رحلہ پر ٹک راتے ہیں تو وہ اپ نے اس اص ول اور‬
‫مس لک کا س اتھ دیتا ہے اور بے تکلف اپ نے بی وی بچ وں کی خواہش وں اور اپ نے خان دان اور ق وم کے مط البہ کو ٹھک را دیتا ہے۔۔۔۔‬

‫بى محبت‬ ‫قل‬

‫تكميل ايم ان كے ل ئے رس ول هللا ﷺكى ص رف ظ اہرى اط اعت ہى نہيں بلكہ قل بى تس ليم ورضا بهى ض رورى ہے۔‬

‫الى ہے‬
‫ٰ‬ ‫ارى تع‬ ‫ان ب‬
‫ِ‬ ‫‪:‬فرم‬

‫پس تمہارے رب کی قسم ! یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے ب اہمی اختالف ات میں تمہیں (محمد ) کو فیصل نہ م الیں پھر"‬
‫"جو کچھ تم فیص لہ ک رواس پر اپ نے دل وں میں ک وئی تنگی محس وس نہ ک ریں بلکہ دل و ج ان سے سے اسے تس لیم ک ریں۔‬

‫آیت ‪(65 :‬‬ ‫اء ‪،4‬‬ ‫ورہ نس‬ ‫رآن مجید ‪ ،‬س‬ ‫)ق‬

‫رس ول هللا ﷺكے حكم كى موج ودگى ميں اپ نى مرضى يا كسى دوس رے كے حكم پر عمل ك رنے كى دين اس الم ميں‬
‫دى ہے‬ ‫ا ِن خداون‬ ‫زاب ميں فرم‬ ‫ورة االح‬ ‫ائش نہيں‪-‬س‬ ‫وئى گنج‬ ‫‪:‬ك‬

‫اور کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب ہللا اور اس کے رسول کسی کام کا حکم دے تو انہیں اپنے کام میں اختیار باقی "‬
‫ا۔‬ ‫راہی میں پڑ گی‬ ‫ریح گم‬ ‫انی کی تو وہ ص‬ ‫ول کی نا فرم‬ ‫" رہے اور جس نے ہللا اور اس کے رس‬
‫آیت ‪(36 :‬‬ ‫زاب ‪،33‬‬ ‫ورہ اح‬ ‫رآن مجید ‪ ،‬س‬ ‫)ق‬

‫ا ِد ٰالہى ہے‬ ‫ورة الحشر ارش‬ ‫رح س‬ ‫‪:‬اسی ط‬

‫اؤ"‬ ‫ائیں رک ج‬ ‫یز سے منع فرم‬ ‫ائیں ‪،‬لے لو اور جس چ‬ ‫ول تمہیں عطا فرم‬ ‫" اور جو کچھ رس‬

‫(‬ ‫آیت ‪7:‬‬ ‫ورة الحشر‪،59‬‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫دم‬
‫گويا آپ كا حكم اور عمل ہى فیص لہ كن س ند ق رار پ ائے اور اس حكم كو م اننے يا نہ م اننے اور اس پر ن اگوارى كے احس اس يا ع ِ‬
‫احساس پر ہى آدمى كے م ٴومن ہ ونے يا نہ ہ ونے كا انحص ار ٹھہ را ہے‪ -‬یہ ممكن ہى نہيں کہ م ٴومن هللا اور اس كے رس ول كے ك ئے‬
‫گئے فیص لہ كے متعلق ع دم اطمين ان كا ش ائبہ تك دل ميں الئے‪-‬آج كے مس لمانوں كواپنا ج ائزه لينا چ اہیئے كہ وه حب ِرس ول كے اس‬
‫اتے ہيں؟‬ ‫تقاضے كو كس حد تك نبھ‬

‫یلت‬ ‫سے محبت کی فض‬ ‫ریم ﷺ‬ ‫بی ک‬ ‫ن‬

‫حضرت انس بن مالک رضی ہللا عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول ہللا ﷺکے پاس آیا اور کہا کہ یا رسول ہللا! قیامت‬
‫الی اور اس کے رس ول‬ ‫کب آئے گی؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ تو نے قیامت کے ل ئے کیا تی اری کی ہے؟ وہ ب وال کہ ہللا تع ٰ‬
‫کی محبت۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ تو اسی کے ساتھ ہو گا جس سے تو محبت رکھے گ ا۔ س یدنا انس رضی ہللا عنہ نے کہا‬
‫کہ ہم اس الم النے کے بعد کسی چ یز سے اتنا خ وش نہیں ہ وئے جتنا اس ح دیث کے س ننے سے خ وش ہ وئے۔‬

‫حض رت عب دہللا بن مس عود رضی ہللا عنہ کہ تے ہیں ایک آدمی رس ول ہللا ﷺ کی خ دمت میں حاضر ہ وا اور ع رض‬
‫کیا"یا رسول ہللا ﷺ !آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو ایسے (نی ک) لوگ وں سے محبت کرتا ہے جن‬
‫کے نیک اعمال کو وہ نہیں پہنچا۔" آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "(قیامت کے دن) آدمی اس کے س اتھ ہو گا جس کے س اتھ‬
‫"اس نے محبت کی۔‬

‫حضرت انس رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رس ول ہللا ﷺنے فرمای ا‪ " :‬تین ب اتیں جس میں ہ وں گی وہ ان کی وجہ‬
‫سے ایمان کی مٹھ اس اور حالوت پ ائے گ ا۔ ایک تو یہ کہ ہللا اور اس کے رس ول سے دوس رے سب لوگ وں سے زی ادہ محبت رکھے۔‬
‫دوس رے یہ کہ کسی آدمی سے ص رف ہللا کے واس طے دوس تی رکھے (یع نی دنیا کی ک وئی غ رض نہ ہو اور نہ ہی اس سے ڈر ہ و)‬
‫"تیس رے یہ کہ کفر میں لوٹ نے کو بعد اس کے کہ ہللا نے اس سے بچا لیا اس ط رح ب را ج انے جیسے آگ میں ڈال دیا جان ا۔‬

‫وں؟‬ ‫ادہ محبت کی‬ ‫سے سب سے زی‬ ‫ول ہللا ﷺ‬ ‫رس‬

‫اسالم کا مطالبہ ہے کہ ہرمؤمن کے نزدیک تم ام مخلوق ات میں سب سے زی ادہ محب وب ت رین ذات ‪،‬رس ول ہللا ﷺ کی‬
‫ہونی چاہے ‪ ،‬حتی کہ اسے اپ نی ج ان سے بھی زی ادہ آپ ﷺ سے محبت ہ ونی چ اہے اگرایس انہیں ہے ت واس کاایم ان‬
‫رہ میں ہے۔‬ ‫خط‬

‫س وال یہ ہے کہ ہر م ؤمن ک وہللا کے ن بی ﷺ سے سب سے زی ادہ محبت ہ ونی چ اہئے اس کی کی اوجہ ؟‬

‫مرک زی وجہ یہی ہے کہ آپ ﷺکی محبت آپ کی تعلیم ات پرعمل ک رنے پر آم ادہ ک رے ‪،‬لیکن س اتھ ہی س اتھ آپ‬
‫ﷺکی ذات میں بھی ایسی خوبی اں موج ود ہیں ج وآپ ﷺسے سب سے زی ادہ محبت ک افطری تقاضہ‬
‫ک رتی ہیں ‪،‬ان خوبی وں کے ت ذکرہ سے قبل آئ یے دیکھ تے ہیں کہ کسی سے محبت کی وں کی ج اتی ہے ؟اگ رہم اہل دنیا کی محبت وں‬
‫‪:‬کاجائزہ لیں اوران کے واقعات پڑھیں تومعلوم ہوتاہے کہ ہرمحبت کے پیچھے درج ذیل تین اسباب میں سے ک وئی ایک س بب ہوت اہے‬

‫‪1.‬‬ ‫ان‬ ‫وب کا احس‬ ‫محب‬

‫‪2.‬‬ ‫ردار‬ ‫وب کا ک‬ ‫محب‬

‫‪3.‬‬ ‫ال‬ ‫وب کا حسن وجم‬ ‫محب‬


‫اہل دنیا کی محبتوں کے پیچھے ان اسباب میں سے کوئی ایک ہی سبب ہوتا ہے‪،‬یعنی کوئی صرف کسی کے احسان کے سبب اس سے‬
‫محبت کرنے لگتا ہے‪،‬خواہ وہ عمدہ کرداراورحسن وجمال سے محروم ہی کی وں نہ ہ و۔اسی ط رح ک وئی ش خص کسی فن میں مہ ارت‬
‫رکھتاہے توکچھ لوگ اس پر فداء ہوجاتے ہیں چاہے وہ احسان اورحسن وجمال کی خوبی سے عاری ہی کی وں نہ ہ و۔اسی ط رح ک وئی‬
‫حس ین وجمیل ہے تول وگ اس کے بھی گروی دہ ہوج اتے ہیں گ رچہ وہ ب داخالق اورب دکردارہی کی وں نہ ہ و۔‬

‫لیکن جب ہم اہل ایمان کی ن بی اک رم ﷺسے محبت کودیکھ تے ہیں توپ وری انس انیت میں ص رف اورص رف یہی ایک‬
‫ایسی محبوب ذات نظرآتی ہے جن کی محبت کے پیچھے نہ صرف یہ کہ مذکوہ جملہ اس باب محبت بیک وقت پ ائے ج اتے ہیں بلکہ یہ‬
‫وئے ہیں۔‬ ‫وپہنچے ہ‬ ‫ال ک‬ ‫باب درجہ کم‬ ‫اس‬

‫اتے ہیں‬ ‫ووی رحمہ ہللا فرم‬ ‫ام ن‬ ‫لم ام‬ ‫ارح مس‬ ‫‪:‬ش‬

‫کبھی کسی ش خص سے محبت اس ل ذت کی بنا پر ہ وتی ہے جسے انس ان کسی کی ص ورت وآوازیا کھ انے وغ یرہ میں محس وس‬
‫کرتاہے‪،‬کبھی ان اندورنی خوبیو ں کی بناپرہوتی ہے جسے انسان اپنے شعورکے ذریعہ بزرگوں‪،‬اہل علم یاہرقسم کے اہل فضل لوگوں‬
‫میں محسوس کرتا ہے‪ ،‬اورکبھی محبت اپنے اوپرکئے گئے احسان یا اپ نی مش کالت ک اازالہ ک ئے ج انے کی بنا پرہوج اتی ہے‪ ،‬اوریہ‬
‫تمام اسباب نبی اک رم ﷺکی ذات میں موج ودہیں کی ونکہ آپ ﷺبیک وقت ہرقسم کے ظ اہری وب اطنی‬
‫جمال وکمال اورہرقسم کے فضائل وکردار سے متصف ہیں نیزآپ ﷺنے ص راط مس تقیم اوردائمی نعمت وں کی ط رف‬
‫اہے۔‬ ‫ان عظیم کی‬ ‫رکے احس‬ ‫رکے اور جہنم سے انہیں دورک‬ ‫ائی ک‬ ‫لمانوں کی رہنم‬ ‫ام مس‬ ‫تم‬

‫ان‬ ‫احس‬

‫آپ ﷺکے احسانات کوچندلفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا‪،‬آپ ﷺکی پوری زندگی اس سے پرہے‪،‬آپ‬
‫ﷺنے پ وری انس انیت پ راس قدراحس ان ک ئے ہیں کہ ت اریخ اس کی مث ال پیش ک رنے سے قاصر ہے۔‬

‫اس سے بڑااحسان کیاہوگا کہ آپ ﷺاپنے دش منوں تک ک وبھی جہنم کی دائمی آگ سے بچ انے کی فکرک رتے اوراس‬
‫وئی‬ ‫ازل ہ‬ ‫اں تک کہ آیت ن‬ ‫تے تھے‪،‬یہ‬ ‫ان کردی‬ ‫کون بھی قرب‬ ‫اچین وس‬ ‫رمیں اپن‬ ‫‪:‬فک‬

‫)!اے محب وب( "‬ ‫"اگر یہ ل وگ ایم ان نہ الئیں تو کیا ان کے پیچھے ش دت رنج و غم میں اپ نی ج ان پر کھیل ج اؤگے۔‬

‫آیت ‪(6 :‬‬ ‫ورہ کہف ‪،18‬‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫رح پیش کی ہے۔‬ ‫ال اس ط‬ ‫ان کی مث‬ ‫نے احس‬ ‫انیت پراپ‬ ‫ودآپ ﷺنے انس‬ ‫خ‬

‫م یری اور لوگ وں کی مث ال اس ش خص کی ہے کہ جس نے آگ س لگائی۔ پس اس کے ارد گ رد روش نی پھیل گ ئی۔ تو پ روانے اور وہ‬
‫کیڑے جو آگ میں گرتے ہیں۔ اس میں گرنے لگے۔ وہ آدمی انہیں کھینچ کر باہر نکالنے لگا اور وہ اس پر غالب آکر اس آگ میں گرے‬
‫ج اتے تھے۔ (اسی ط رح) میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے ب اہر کھینچتا ہ وں اور تم ہ و‪ ،‬کہ اس میں داخل ہ وئے ج اتے ہ و۔‬

‫فرض کیجئے کہ کوئی شخص خود کشی کے ارادے سے کسی کنویں میں کودنے جارہاہواورآپ اسے بچ انے کے ل ئے آئے اس پ روہ‬
‫آپ کوگ الی دی نے لگے اورالٹ اآپ ہی کوم ارنے پیٹ نے لگے کیا ایسی ص ورت میں بھی آپ اسے بچ ائیں گے ؟ ہرگ زنہیں۔‬

‫لیکن آپ ﷺکو ظ الموں نے ہرط رح سے ب رابھال کہا ‪،‬ح تی کہ ایک دفعہ آپ ﷺ کولہولہ ان بھی‬
‫کردیا‪،‬طائف کا وہ ہولن اک منظر جب آپ ﷺ اہل ط ائف کی نج ات کے ل ئے انہیں حق کی دع وت دے رہے تھے ‪،‬اس‬
‫پرانہوں نے کیا کیا؟ آپ کوگالیاں دیں‪ ،‬اورآپ کے پیچھے اوباش بچوں کولگادیاجوآپ پرپتھراؤ کررہے تھے‪ ،‬آپ اس قدررخمی ہ وئے‬
‫کہ آپ کے جسموں سے خون بہہ کرآپ کی جوتیوں میں جم گئے‪،‬اگر آپ اس وقت چاہتے تو پوری قوم تباہ و برباد ہو س کتی تھی جیسا‬
‫اتے ہیں ۔‬ ‫ان فرم‬ ‫الت کو بی‬ ‫اس کے بعد کی ح‬ ‫ریم ﷺ‬ ‫بی ک‬ ‫کہ ن‬

‫بادل کے ایک ٹکڑے کو اپ نے اوپر س ایہ فگن پایا میں نے جو دیکھا تو اس میں جبرائیل علیہ الس الم تھے انہ وں نے مجھے آواز دی"‬
‫تہ کو‬ ‫اڑوں کے فرش‬ ‫واب سن لیا ہے اب پہ‬ ‫وم کی گفتگو اور ان کا ج‬ ‫الی نے آپ سے آپ کی ق‬ ‫ٰ‬ ‫اور کہا کہ ہللا تع‬
‫آپ(ﷺ)کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ ایسے ک افروں کے ب ارے میں جو چ اہیں حکم دیں پھر مجھے پہ اڑوں کے فرش تہ‬
‫نے آواز دی اور س الم کیا پھر کہا کہ اے محم د!(ﷺ) یہ سب کچھ آپ کی مرضی ہے اگر آپ چ اہیں تو میں اخش بین‬
‫الی ان‬
‫نامی دو پہاڑوں کو ان کافروں پر ال کر رکھ دوں۔ رس ول ہللا ﷺنے فرمایا (نہیں) بلکہ مجھے امید ہے کہ ہللا تع ٰ‬
‫"کافروں کی نسل سے ایسے ل وگ پی دا ک رے گا جو ص رف اسی کی عب ادت ک ریں گے اور اس کے س اتھ بالکل ش رک نہ ک ریں گے۔‬

‫غ ورکریں جن کے پیچھے اوب اش بچ وں کے لگایا گیاتھا ان کے س اتھ ملک الجب ال(پہ اڑی فرش تے ) کوکھڑاکردیاگی ا‪،‬جن‬
‫پرکنکرپتھ رپھینکے گ ئے تھے ان کے اختی ارمیں پہ اڑدے دیا گیا ‪،‬آج اگردنیا والے اس ط اقت کے مالک ہ وتے توکیا ک رتے۔لیکن آپ‬
‫ﷺنے ان ظ الموں پر بھی اس ط اقت کواس تعمال نہ کیا ‪،‬اورنہ ص رف ان پ ربلکہ ان کے ذریعہ پی داہونے والی آئن دہ‬
‫نس لوں پ ربھی رحم کیا ‪،‬آج نہ ج انے پ وری دنیا میں کت نے خان دان انہیں کی نسل سے ہیں ‪ ،‬انس انیت پ راس سے بڑااحس ان‬
‫کتاہے۔‬ ‫اورکیاہوس‬

‫موجودہ امت سے قبل بہت سی قوموں پرہللا نے عمومی عذاب نازل کرکے انہیں تہس نہس کردیا‪،‬وجہ یہ تھی کہ وہ بھیانک ج رائم میں‬
‫ملوث تھے ‪،‬لیکن جن جن جرائم کی وجہ سے گذشتہ قومیں تباہ وبربادکی گئی‪،‬وہ تمام ج رائم موج ودہ امت کے کسی نہ کسی حلقہ میں‬
‫‪ :‬موجودہیں اس کے باوجودبھی ان پرعمومی عذاب نہیں آرہا ہے ‪،‬کیونکہ رسول رحمت ﷺ نے یہ دعاء کررکھی ہے‬

‫میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ میری امت کو (عم ومی غ رق) سے ہالک نہ کیا ج ائے تو رب نے مجھے یہ عطاکی ا۔میں نے اپ نے‬
‫رب سے دعا کی کہ میری امت کو(عمومی) قحط سے ہالک نہ کرنا توہللا نے مجھے یہ عطا کردیا۔(یعنی اس امت کوکسی بھی عمومی‬
‫ا۔)‬ ‫ائے گ‬ ‫ذاب سے ہالک نہیں کیاج‬ ‫ع‬

‫ان عظیم ہے۔‬ ‫ودہ امت پراحس‬ ‫اء موج‬ ‫کی یہ دع‬ ‫بی ﷺ‬ ‫یقینا ہللا کے ن‬

‫ت مسلمہ پر اس قدر ہیں کہ ان کو کسی عدد محصور میں بیان ہی نہیں کیا جاس کتا‪،‬‬ ‫محسن انسانیت ﷺکے احسانات ام ِ‬
‫انسانیت کی ہدایت ورہنمائی کے لیے آپ نے کیا کچھ نہیں فرمایا‪ ،‬آپ مومنین کے حق میں رؤف ورحیم بلکہ رحمتہ للع المین ہیں بش یر‬
‫اور نذیر ہیں‪ ،‬آپ ہی کی وجہ سے یہ امت خیرامت کہالئی‪ ،‬آپ ہی کے ذریعے سے کت اب وحکمت کی تعلیم چ ار دانگ ع الم میں ع ام‬
‫ہوئی‪ ،‬امت کے افراد کا تزکیہ ہوا‪ ،‬جوامت اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے جہنم کے کنارے پہنچ چکی تھی فالح وکامرانی کی ش اہراہ پر‬
‫گامزن ہوئی‪ ،‬اس امت پر یہ تمام انعامات صرف آپ ہی کے احسانات کے بدلے مقدر ہوئے۔ آپ کی قرابت ہر مسلمان سے ہے بلکہ آپ‬
‫ٰ‬
‫اقوی ہے‪ ،‬کیونکہ دنیوی قرابتیں جس مانی اور ف انی ہ وا ک رتی ہیں اور آپ کی ق رابت روح انی اور‬ ‫کی قرابت دوسروں کی قرابت سے‬
‫اولی اور اقرب نہ ہ وں۔‬
‫باقی ہے‪ ،‬آپ نے فرمایا کہ کوئی مومن ایسا نہیں جس کے لیے میں دنیا وآخرت میں سارے انسانوں سے زیادہ ٰ‬
‫ایک حدیث میں ہے کہ آپ امت کے حق میں بمنزلۂ شفیق مہربان باپ کے ہیں‪ ،‬جب آپ کی ذات میں تمام خص ائل جمیلہ وجمیع اس باب‬
‫وگی۔‬ ‫ونکر محبت کے الئق نہ ہ‬ ‫ود ہیں تو آپ کی ذات کی‬ ‫محبت موج‬

‫غرض یہ کہ دنیاوالے اگراس وجہ سے کسی سے محبت ک رتے ہیں کہ اس نے ان پراحس ان کیا ہے تومعل وم ہونا چ اہیے کہ ان پرسب‬
‫سے بڑااحس ان ہللا کے ن بی ﷺ کا ہے لہٰ ذاان کے نزدیک سب سے زی ادہ محب وب شخص یت ہللا کے ن بی‬
‫اہئے۔‬ ‫ونی چ‬ ‫کی ہ‬ ‫ﷺ‬

‫ردار‬ ‫‪:‬اخالق و ک‬

‫دوسراسبب جس کی بن اپر دنی اوالے کسی سے محبت ک رتے ہیں وہ کرداراورخوبی وں کی عظمت ہے‪،‬مثالک وئی کسی فن میں م اہرہے‬
‫تولوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ‪،‬کوئی بڑابہ ادرہے تول وگ اس پ ربھی ف داء ہوج اتے ہیں ‪،‬ک وئی بہت اخالق من دہے ت ووہ بھی‬
‫لوگوں کامحبوب بن جاتاہے‪،‬وغیرہ وغیرہ یعنی کوئی انسان عمدہ کرداراوراچھی خوبی کامالک ہے تواس کی وجہ سے ل وگ اس سے‬
‫تے ہیں۔‬ ‫رنے لگ‬ ‫محبت ک‬

‫اعلی ک ردار و اخالق کی‬


‫ٰ‬ ‫آپ ﷺہراچھے معامالت میں اعلی کرداراورعمدہ خوبی وں کے مالک تھے ‪،‬چن انچہ آپ کے‬
‫ات نے دی ہے‬ ‫الق کائن‬ ‫واہی خودخ‬ ‫‪:‬گ‬

‫ائز ہیں۔"‬ ‫بے پر ف‬ ‫رین مرت‬ ‫ا ً آپ اخالق کے بلند ت‬ ‫"اور یقین‬

‫آیت ‪(4 :‬‬ ‫ورہ قلم ‪،68‬‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬
‫ائیے‬ ‫دیث میں مالحظہ فرم‬ ‫ونہ اس ح‬ ‫یز نم‬ ‫یرت انگ‬ ‫‪:‬آپ ﷺکے اخالق کا ح‬

‫عمربن سعد رضی ہللا عنہ کہتے ہیں کہ ہللا کے نبی ﷺ لوگوں کے ساتھ الفت کامظاہرہ کرتے ہ وئے ان میں سب سے‬
‫کم ترین شخص سے بھی پوری ط رح مت وجہ ہوکرب ات ک رتے تھے ‪،‬چن انچہ آپ ﷺ مجھ سے بھی اس ق درتوجہ کے‬
‫ساتھ گفتگوکرتے کہ میں یہ سمجھ بیٹھا کہ میں لوگوں میں سب سے افضل ہوں‪ ،‬چنانچہ ایک دن میں آپ ﷺ سے پوچھ‬
‫بیٹھا کہ اے ہللا کے رسول ﷺ میں بہترہوں یا اب وبکر؟آپ ﷺ نے فرمای ا‪:‬اب وبکر۔میں نے پھرپوچھا ‪:‬‬
‫اے ہللا کے رس ول ﷺ میں بہ ترہوں ی اعمر؟ آپ ﷺ نے فرمای ا‪:‬عم ر۔میں نے پھرپوچھا ‪ :‬اے ہللا کے‬
‫رس ول ﷺ میں بہ ترہوں یاعثم ان؟آپ ﷺ نے فرمای ا‪:‬عثم ان۔تو جب میں نے آپ ﷺ‬
‫سواالت کئے توآپ ﷺ نے حق گوئی سے کام لیا‪،‬کاش کہ میں نے آپ ﷺ سے یہ سواالت ہی نہ ک ئے‬
‫ہوتے۔غورکریں کہ آپ ﷺنے ایک عام ص حابی کے س اتھ ایسے اخالق کامظ اہرہ کیا کہ اس سے مت اثر ہوکرص حابی‬
‫مذکورنے یہ سمجھ لیاکہ یہ تمام صحابہ سے افضل ہیں تبھی توہللا کے نبی ﷺان کے ساتھ اتنے اعلی اخالق کامظ اہرہ‬
‫ک ررہے ہیں لیکن جب انہ وں نے س واالت کیا تب انہیں معل وم ہ وا کہ ص حابہ کا مق ام اپ نی اپ نی جگہ مگررس ول اک رم‬
‫اں ہے۔‬ ‫اتھ یکس‬ ‫ﷺکااخالق سب کے س‬

‫کیاپوری دنیامیں کوئی ایک بھی ایساانسان مل سکتاہے کہ وہ کسی سے بات کرے تومخاطب یہ سمجھ لے کہ میں اس کی نظ رمیں سب‬
‫اممکن ہے۔‬ ‫ال پیش کرنان‬ ‫ردارکی مث‬ ‫وں؟ یقیناایسے اخالقی ک‬ ‫خص ہ‬ ‫ترام ش‬ ‫ادہ قابل اح‬ ‫سے زی‬

‫اگرکوئی صرف آپ ﷺکے ک ردارکی عظمت وں پرغ ورکرلے ت ووہ خ واہ آپ ﷺکادشمن ہی کی وں نہ‬
‫ہوآپ ﷺسے پوری انسانیت میں سب سے زیادہ محبت کرنے لگے گ ا‪،‬یہ ان دازے کی ب ات نہیں ہے بلکہ اس کی مث ال‬
‫موجودہے ‪،‬عہدنبوی میں آپ کاایک مشہوردشمن ''ثمامہ بن اثال'' نامی سردارتھا‪،‬اس نے مسجد نبوی میں ص رف تین دن قید کی ح الت‬
‫میں گذارے اس بیچ نہ تواس پرکوئی جبرکیاگیا اورنہ ہی اسے اسالم کی دع وت دی گ ئی ‪،‬لیکن تین دن کے بعد جب اسے آزاد کردیاگیا‬
‫تومحض آپ ﷺکے اعلی اخالق کی بناپرآپ ﷺکایہ مشہوردشمن مس لمان ہوگی ااورآپ سے ح ددرجہ‬
‫محبت کرنے لگا۔قب ول اس الم کے وقت اس کے الف اظ یہ تھے‪":‬اے محمد (ﷺ)ہللا کی قسم !اس روئے زمین پر آپ کے‬
‫چہرے سے زیادہ مبغوض چہرہ میری نظ رمیں ک وئی اورنہ تھا مگ راب م یرے نزدیک آپ ک اچہرہ تم ام چہ روں میں سب سے زی ادہ‬
‫وب ہے۔‬ ‫"محب‬

‫اگردنی اوالے کسی کے حسن کردارسے مت اثرہوکراس سے محبت ک رتے ہیں ت وانہیں چ اہئے کہ ہللا کے ن بی ﷺسے‬
‫ردارکے مالک تھے۔‬ ‫ال ک‬ ‫بی ﷺہرکارخیرمیں بے مث‬ ‫ونکہ ہللا کے ن‬ ‫ریں کی‬ ‫محبت ک‬

‫ال‬ ‫حسن وجم‬

‫تیسراسبب جس کی بناپردنیاوالے کسی سے محبت کرتے ہیں وہ حسن وجمال ہے یہ خ وبی بھی آپ کے اندرب درجہ اتم موج ودہے‪،‬دس‬
‫اتے ہیں‬ ‫رنے والے انس بن مالک فرم‬ ‫دمت ک‬ ‫ال آپ ﷺکی خ‬ ‫‪:‬س‬

‫ورت تھے۔‬ ‫ادہ خوبص‬ ‫وں میں سب سے زی‬ ‫بی ﷺتمام لوگ‬ ‫ہللا کے ن‬

‫حسن وجمال کوبیان کرنے میں سب سے زیادہ مہارت شعراء حض رات کوہ وتی ہے‪،‬ص حابہ ک رام میں بھی ایک شاعرحس ان بن ث ابت‬
‫‪:‬رضی ہللا عنہ تھے انہ وں نے اپ نے اش عارمیں آپ ﷺکی خوبص ورتی کا ح یرت انگ یز نقشہ کھینچ اہے‬

‫ُّ‬
‫ط عيني‬ ‫َر ق‬ ‫ك لم ت‬
‫َ‬ ‫نُ من‬ ‫وأَحس‬

‫ا ُء‬ ‫ِد النّ َس‬ ‫كَ لَ ْم تَلِ‬ ‫ُل ِم ْن‬ ‫َوأجْ َم‬

‫ّل عي ٍ‬
‫ب‬ ‫برأً ْ‬
‫من ك‬ ‫خلقتَ م‬

‫ا ُء‬ ‫ْد خلقتَ كما تش‬ ‫كَ ق‬ ‫كأن‬

‫·‬ ‫یری آنکھ نے دیکھا نہیں‬ ‫ین م‬ ‫ادہ حس‬ ‫آپ ﷺسے زی‬
‫·‬ ‫انہیں‬ ‫اتون نے جن‬ ‫ادہ جمیل کسی خ‬ ‫آپ ﷺسے زی‬

‫·‬ ‫اک ہے‬ ‫رح پ‬ ‫وب سے اس ط‬ ‫دائش ہرقسم کے عی‬ ‫آپ ﷺکی پی‬

‫·‬ ‫ئے ہیں۔‬ ‫داکئے گ‬ ‫ابق پی‬ ‫واہش کے مط‬ ‫اہے آپ ﷺاپنی خ‬ ‫کہ لگت‬

‫دونوں اشعار پرغورکریں ‪،‬پہلے شعر کے مصرع اول میں ''اجمل ''کالفظ ہے اورمصرع ثانی میں ''احسن '' کالفظ ہے‪،‬جمیل اورحس ین‬
‫مترادف الفاظ ہیں لیکن جب یکجا ان کااستعمال ہوتوان میں لطیف فرق ہے‪،‬جمیل کامطلب ہوگارنگ ورونق کے اعتبارسے خوبصورت‬
‫جبکہ حسین کامطلب ہوگاچہرے کی بناوٹ اور ناک و نقشہ کے اعتبارسے خوبص ورت کسی بھی انس ان کے کامل خوبص ورت ہ ونے‬
‫کے لئے ضروری ہے کہ وہ جمیل ہ ونے کے س اتھ س اتھ حس ین بھی ہواگرک وئی ص رف جمیل ہے یع نی ص رف رنگ اچھا ہے لیکن‬
‫چہرے کی بن اوٹ درست نہیں تواسے خوبص ورت نہیں کہاجاس کتا‪،‬اسی ط رح کسی ک اچہرہ تو ب ڑا جمیل ہو مگر رنگ اچھ انہیں ہے‬
‫اکوئی حق نہیں ہے۔‬ ‫وانے ک‬ ‫ورت کہل‬ ‫تواسے بھی خوبص‬

‫حسان بن ثابت رضی ہللا عنہ کے مذکورہ بیت میں دوسرامص رع معن وی اعتبارسے پہلے مص رع ک اتکرارنہیں ہے بلکہ شاعررس ول‬
‫دوسرے مصرع میں یہ بتالناچ اہتے ہیں کہ آپ ﷺجمیل ہ ونے کے س اتھ س اتھ حس ین بھی ہیں یع نی حقیقی مع نی میں‬
‫خوبصورت ہیں۔اب دوسرے شعرپرغورکیجئے اس میں حسان بن ثابت رضی ہللا عنہ نے آپ ﷺکے حسن وجم ال کی‬
‫مق داربیان کی ہے اوراس کے ل ئے ایسی عم دہ تعبیراس تعمال کی ہے کہ ش عرکی دنیا میں اس کی مث ال نہیں مل تی ‪ ،‬کہ آپ‬
‫ﷺکی بے انتہا خوبصورتی کودیکھ کرایسا لگتاہے کہ آپ ﷺاپنی خ واہش کے مط ابق پی داہوئے ہ وں‬
‫اہو۔‬ ‫اب کی‬ ‫ال کاانتخ‬ ‫نی مرضی سے حسن وجم‬ ‫اوراپ‬

‫اس تعبیرکوسمجھنے کے لئے اس بات پرغورکیجئے کہ تقریباہرانس ان خودکوبن انے س نوارنے کی فک رمیں رہت اہے‪،‬خصوص اخواتین‬
‫اس مع املے میں سب سے زی ادہ فکرمن دہوتی ہیں ‪،‬یہ جب ڈریس نگ ٹیبل پ رآتی ہیں توخ ود کوبن انے س نوارنے کے ل ئے اپ نی پ وری‬
‫توانائی صرف کردیتی ہیں ‪،‬اگران خواتین میں سے کسی سے ہللا تبارک وتعالی یہ کہہ دے کہ اے خاتون تجھے اختیارہے توجس طرح‬
‫بنناچ اہتی ہے بن جا ! توذراس وچئے یہ ع ورت خ ود کوکیسا بن ائے گی؟ کس درجہ کا حسن وجم ال اپ نے ل ئے منتخب ک رے گی؟‬

‫حسان بن ثابت رضی ہللا عنہ یہی کہناچاہتے ہیں کہ آپ ﷺکے حسن وجمال کودیکھ کرایس الگتاہے کہ ہللا نے آپ سے‬
‫یہ کہہ دیاہوکہ آپ جس طرح بنناچاہتے ہیں بن جائیے ‪،‬اورآپ ﷺنے اپ نی مرضی کے مطا بق حسن وجم ال کاانتہ ائی‬
‫درجہ منتخب کیاہو۔یہ حسن وجمال کے بیان کی ایسی تعبیرہے جوکسی بھی ش اعرکے کالم میں نہیں مل تی اس کی وجہ ش اعرکی ادبی‬
‫کم زوری نہیں بلکہ اس کی نظ رکی مح رومی ہے کسی ش اعرنے آپ ﷺجیساحسین وجمیل دیکھ اہی نہیں کہ اس کی‬
‫زبان پربے ساختہ ایسی تعبیرآجائے۔بہرحال حسن وجمال کی خوبی میں بھی آپ ﷺدرجہ کمال کوپہنچے ہ وئے تھے ۔‬

‫اتے ہیں‬ ‫الی عنہ فرم‬


‫ٰ‬ ‫ابر رضی ہللا تع‬ ‫رت ج‬ ‫‪ :‬جیسا کہ حض‬

‫ا۔ "‬ ‫اب جیسا تھ‬ ‫اب و ماہت‬ ‫ور آفت‬ ‫رۂ ان‬ ‫"آپ کا چہ‬

‫ایک بارپھرواضح رہے کہ محبت کے یہ تم ام اس باب آپ ﷺکی ذات میں بیک وقت اورب درجہ اتم موج ودہیں ‪ ،‬جس‬
‫احق حاصل ہے‬ ‫نے ک‬ ‫وں اسے یہ کہ‬ ‫االت ہ‬ ‫در یہ کم‬ ‫‪:‬ذات کے ان‬

‫تم میں سے کوئی بھی ش خص اس وقت تک م ؤمن نہیں ہوس کتاجب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے ب اپ ‪،‬اس کے بی ٹے اورتم ام‬
‫اؤں۔‬ ‫وب نہ بن ج‬ ‫ادہ محب‬ ‫وں سے زی‬ ‫لوگ‬

‫اس حدیث میں آپ ﷺسے سب سے زیادہ محبت کاجومطالبہ ہے وہ بالوجہ نہیں ہے‪،‬جب محبت کے جتنے بھی اسباب‬
‫ہوتے ہیں سب ایک ساتھ اعلی درجہ میں آپ ﷺکی ذات میں پائے جاتے ہیں ت واس ص ورت ح ال ک افطری تقاضہ ہے‬
‫ائے۔‬ ‫ادہ محبت کی ج‬ ‫کہ آپ ﷺسے سب سے زی‬

‫اسباب محبت یہ محبت رسول کا صرف ایک پہلوہے اس کے ساتھ ساتھ محبت رسول کے دیگرپہلوں پرنظررکھنی چاہے محبت رسول‬
‫یرہ ۔‬ ‫یرہ وغ‬ ‫ال‪ ،‬وغ‬ ‫افہ کے اعم‬ ‫ول میں اض‬ ‫کے تقاضے ‪،‬محبت رس‬
‫ول‬ ‫رت رس‬ ‫‪ :‬نص‬

‫آنحضرت ﷺ کے پیغمبرانہ مشن کی خدمت کو قرآنی اصطالح میں نصرت رس ول سے تعب یر کیا گیا ہے ۔یع نی اپ نی‬
‫جان و مال ‪ ،‬ممکنہ وسائل و ذرائع اور علم و عمل کی تمام صالحیتوں کو نبی کریم ﷺ کے مشن کی خدمت مٰ ں لگادینا‬
‫در اصل نبی کریم ﷺ کی نصرت و اعانت ہے جیسا کہ سورہ توبہ کی آیت کریمہ میں محبت کے تین عناصر بیان کے‬
‫ئے ہیں‬ ‫‪:‬گ‬

‫کہہ دو کہ اگر تمہیں اپنے باپ‪ ،‬اپنے بیٹے‪ ،‬اپنے بھائی‪ ،‬اپنی بیویاں‪ ،‬اپنے کنبہ والے اور وہ اموال جو )اے محبوب! مسلمانوں سے( "‬
‫تم نے کمائے ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑ جانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے اور تمہارے پسندیدہ مکانات (اگر یہ سب)‬
‫"ہللا اور اس کے رس ول کی راہ میں تگ و دو ک رنے سے زی ادہ محب وب ہیں تو تم ہللا کے حکم (ع ذاب) کاانتظ ار ک رو ۔‬

‫آیت ‪(24 :‬‬ ‫وبہ ‪،9‬‬ ‫ورہ ت‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫شی اور منفعت خدا کی محبت ‪ ،‬رسول کی محبت اور پیغم برانہ مشن کی خ دمت سے زی ادہ عزیز‬
‫جس کامطلب یہ کہ کائنات کی کوئی ٔ‬
‫اہیے۔‬ ‫ونی چ‬ ‫وب نہیں ہ‬ ‫اور محب‬

‫ذکور ہے‬ ‫وں م‬ ‫ام پر ی‬ ‫رآن مجید میں ایک مق‬ ‫ور ق‬ ‫دد کا یہی تص‬ ‫دمت و م‬ ‫برانہ مشن کی خ‬ ‫‪:‬پیغم‬

‫جو ل وگ ایم ان الئے اور انہ وں نے ہج رت کی اوراپ نے ج ان و م ال سے ہللا کی راہ میں تگ و دو ک رتے رہے ۔ ہللا کے نزدیک ان "‬
‫امراد ہیں۔‬ ‫اب و ب‬ ‫وگ کامی‬ ‫ڑا ہے اور وہی ل‬ ‫ادرجہ بہت ب‬ ‫"ک‬

‫آیت ‪(20‬‬ ‫وبہ ‪،9‬‬ ‫ورہ ت‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫ول‬ ‫اعت رس‬ ‫‪ :‬اط‬

‫ابت ہوتا ہے۔‬ ‫اکہ درجہ ذيل دالئل سے ث‬ ‫ول ہے جيس‬ ‫اعت ِرس‬ ‫ول كا سب سے اہم تقاضا اط‬ ‫حب ِرس‬

‫اد فرماتا ہے‬ ‫الی ارش‬


‫ٰ‬ ‫‪ :‬ہللا تع‬

‫کہہ دو! اگر تم ہللا تعالی سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو‪ ،‬خ ود ہللا تم سے محبت کرےگا اور تمہ ارے )! اے محبوب( "‬
‫ان ہے۔‬ ‫نے واال مہرب‬ ‫ڑا بخش‬ ‫الی ب‬ ‫ا‪ ،‬اور ہللا تع‬ ‫اف فرما دےگ‬ ‫اہ مع‬ ‫" گن‬

‫آیت ‪(31 :‬‬ ‫ران ‪،3‬‬ ‫ورہ آل عم‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫چنانچہ ہللا اور اسکے رسول سے محبت اسی وقت ثابت ہوگی جبکہ اسکے تقاضے کی تکمیل ہو یعنی اتباع رس ول کا عملی ج امہ پہن‬
‫رار دیا ہے‬ ‫اعت ق‬ ‫نی اط‬ ‫وعین اپ‬ ‫اعت ک‬ ‫کی اط‬ ‫رمﷺ‬ ‫بی اک‬ ‫‪:‬لیں۔ ہللا نے ن‬

‫اعت كى۔"‬ ‫اعت كى دراصل اس نے هللا كى اط‬ ‫ول كى اط‬ ‫"جس نے رس‬

‫آیت ‪(80 :‬‬ ‫اء‪،4‬‬ ‫ورہ نس‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫ہے‬ ‫وی ﷺ‬ ‫ان نب‬ ‫یز فرم‬ ‫ن‬ ‫‪:‬۔‬

‫"جس نے م یری اط اعت کی‪ ،‬اس نے ہللا کی اط اعت کی اور جس نے م یری نافرم انی کی‪ ،‬اس نے ہللا کی نافرم انی کی ۔"‬

‫ايك صحابى خدمت ِاقدس ميں حاضر ہوئے اور عرض كى ‪ ”:‬يارسول هللا! ميں آپ كو اپنى جان و مال‪ ،‬اہل و عيال سے زياده محبو ب‬
‫شوق زيارت بے قرار كرتاہے تو دوڑا دوڑا آپ كے پاس آتا‬ ‫ِ‬ ‫ركهتا ہوں‪ ،‬جب ميں اپنے گهر ميں اپنے اہل وعيال كے ساتھ ہوتا ہوں اور‬
‫ہوں‪ ،‬آپ كا ديدار كركے سكون حاصل كرليتا ہوں۔ ليكن جب ميں اپ نى اور آپ كى م وت كو ياد كرتا ہ وں تو س وچتا ہ وں کہ آپ تو انبيا‬
‫اعلى ترين درجات ميں ہ وں گے‪ ،‬ميں جنت ميں گيا بهى تو آپ تك نہ پہنچ س كوں گا اور آپ كے ديدار سے مح روم‬ ‫ٰ‬ ‫ئے کرام كے ساتھ‬
‫تعالى نے سورة النساء كى آيت نمبر ‪ 69‬نازل فرمائى جس کا ترجمہ ی وں ہے‪" :‬جو‬
‫ٰ‬ ‫رہوں گا۔ یہ سوچ كر بے چين ہوجاتا ہوں اس پر هللا‬
‫الی نے انع ام فرمایا‬
‫ہللا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے تو ایسے لوگ (روز قیامت) ان لوگوں کے ساتھ ہ وں گے جن پر ہللا تع ٰ‬
‫"ہے یع نی انبی اء ‪ ،‬ص دیقین ‪ ،‬ش ہداء اور ص الحین کے س اتھ ۔ اور ب ڑی ہی نیک بخت اور عم دہ رف اقت ہے ان لوگ وں کی۔‬

‫آیت ‪(69 :‬‬ ‫اء ‪،4‬‬ ‫ورہ نس‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫اظہار محبت كے جواب ميں هللا نے یہ آيت نازل كركے واضح فرما ديا کہ اگر تم حب ِرس ول ميں س چے ہو اور آنحض ور‬
‫ِ‬ ‫صحابى كے‬
‫ول اك رم ﷺ كى اط اعت و فرم انبردارى اختيار ك رو۔‬ ‫ﷺكى رف اقت حاصل كرنا چ اہتے ہو تو رس ِ‬

‫حضرت ربیعہ بن كعب اسلمى روايت كرتے ہيں کہ ايك روز نبى کریم ﷺنے مجهے مخاطب ك ركے فرمايا‪ :‬مانگ لو‬
‫(جومانگنا چاہتے ہو) ميں نے عرض كيا‪" :‬جنت ميں آپ كى رفاقت كا طلب گار ہ وں۔" آپ نے فرمايا "کچھ اس كے عالوه بهى ؟" ميں‬
‫ت س جود سے م يرى م دد ك رو۔‬
‫"نے عرض كيا "بس يہى مطلوب ہے۔" تو آپ نے فرمايا "تو پهر اپنے مطلب كے حصول كيل ئے ك ثر ِ‬

‫گويا آپ نے واضح فرما دياکہ اگر ميرى محبت ميں ميرى رفاقت چاہتے ہو تو عمل كرو۔ يہى حب ِرس ول ہے اور معيت ِرس ول حاصل‬
‫اذریعہ بهى۔‬ ‫رنے ك‬ ‫ك‬

‫حضرت عبدهللا بن مغفل بيان كرتے ہيں کہ ايك شخص نے رسو ِل اكرم ﷺكى خدمت ميں ع رض كيا کہ ‪" :‬يارس ول هللا‬
‫ا! مجهے آپ سے محبت ہے۔ "آپ نے فرمايا "جو کچھ کہہ رہے ہ و‪ ،‬س وچ س مجھ كر كہ و۔"تو اس نے تين دفعہ كہ ا‪" ،‬خ دا كى قسم‬
‫مجهے آپ سے محبت ہے۔" آپ نے فرمايا کہ" اگر مجهے محب وب ركهتے ہو تو پهر فقروف اقہ كے ل ئے تيار ہوج اؤ (کہ م يرا طريق‬
‫اميرى نہيں‪ ،‬فقيرى ہے) کیونکہ جو مجھ سے محبت كرت اہے فقر و ف اقہ اس كى ط رف اس سے زياده ت يزى سے آتا ہے جيسى ت يزى‬
‫رف بہتا ہے۔‬ ‫يب كى ط‬ ‫دى سے نش‬ ‫انى بلن‬ ‫"سے پ‬

‫گويا جس كے دل ميں حب ِرس ول ہے‪ ،‬اسے چ اہیے کہ آنحض ورﷺكى س نت كى پ يروى ميں اپ نے ان در س ادگى‪،‬‬
‫عى كرتا رہے۔‬ ‫رنے كى س‬ ‫فات پيدا ك‬ ‫اعت اور رضا بالقضا كى ص‬ ‫بروتحمل‪ ،‬قن‬ ‫ص‬

‫ان ہے‬ ‫کا فرم‬ ‫ریم ﷺ‬ ‫بی ک‬ ‫‪:‬ن‬

‫"جس نے ميرى سنت سے محبت كى‪ ،‬اس نے مجھ سے محبت كى اور جس نے مجھ سے محبت كى‪ ،‬وه جنت ميں ميرے س اتھ هوگ ا۔"‬

‫اتے ہیں‬ ‫فرم‬ ‫ام پر آپ ﷺ‬ ‫‪:‬ایک مق‬

‫تم ميں سے ك وئى ش خص اس وقت تك م ٴومن نہيں ہوس كتا جب تك کہ اپ نى خواہش ات كو م يرى الئى ہ وئى ش ريعت كے ت ابع نہ "‬
‫ك ردے۔"یع نی ك افر اور م ٴومن ميں تم يز ہى يہى ہے کہ جو هللا كے رس ول كى تابع دارى ك رے گا وه م ٴومن ہوگا اور جو رس ول هللا‬
‫ﷺ كى اطاعت نہ كرے گا‪ ،‬وه كافر ہوگا جيساکہ حضرت ابوہريره فرم اتے ہيں کہ رس ول هللا ﷺ نے‬
‫فرمايا‪":‬ميرى اُمت كا ہر شخص جنت ميں داخل ہوگا‪ ،‬سوائے اس كے جس نے انكار كيا۔" صحابہ نے عرض کیا ‪ :‬اے هللا كے رس ول!‬
‫وه كون شخص ہے جس نے (جنت ميں جانے سے) انكار كيا؟ آپ نے فرمايا‪" :‬جس نے ميرى اط اعت كى‪ ،‬وه جنت ميں داخل ہوگا اور‬
‫ار كيا۔‬ ‫انى كى‪ ،‬اس نے انك‬ ‫يرى نافرم‬ ‫"جس نے م‬

‫الى نے اسی کا حکم دیا ہے‬


‫ٰ‬ ‫رآ ِن مجيد ميں بهى هللا تع‬ ‫‪:‬ق‬

‫ائے ۔"‬ ‫اعت کی ج‬ ‫راس کی اط‬ ‫یے بھیجا ہے کہ ہللا کے حکم کی بنا پ‬ ‫ول بھی بھیجا ہے‪ ،‬اس ل‬ ‫"اورہم نے جو رس‬

‫آیت ‪(64 :‬‬ ‫اء‪،4‬‬ ‫ورہ نس‬ ‫د‪ ،‬س‬ ‫رآن مجی‬ ‫)ق‬

‫اگر ہم صحابہ كرام رضى هللا عنہم كى زن دگيوں پر نظر ڈاليں تو آنكھیں كهل ج اتى ہيں کہ كيسے انہ وں نے حب ِرس ول كا حق ادا كيا۔‬
‫آپ ﷺكى زندگى كا كوئى گوشہ ایسا نہ تها جسے انہوں نے غور سےنہ ديكها ہو اور پهر اپنے آپ كو اس كے مط ابق‬
‫ت قرآنى اور احاديث ِرس ول كى روش نى ميں یہ ب ات بالكل واضح ہے کہ حب رس ول ﷺكا‬ ‫ڈهال نہ لیا ہو۔ بے شمار آيا ِ‬
‫تقاضا یہ ہے کہ زن دگى كے تم ام مع امالت ميں ق دم ق دم پر آپ كى اط اعت كى ج ائے۔ وه محبت جو س نت رس ول هللا پر عمل كرنا نہ‬
‫سكهائے محض دھوکہ اور فريب ہے۔ وه محبت جو رسول اكرم ﷺ كى اطاعت و پيروى نہ سكهائے محض لفاظى اور‬
‫نفاق ہے‪ -‬وه محبت جو رسول هللا ﷺ كى غالمى كے عملى آداب نہ سكهائے محض ريا اور دكهاوا ہے۔ ہللا اور اسکے‬
‫رسول ﷺسے ان کی اطاعت کے بغیر محبت تسلیم نہیں کی جاتی گرچہ انسان دل سے محبت کیوں نہ کرتا ہو۔جیسا کہ‬
‫آپ ﷺکے چچا حمزہ کو بھی آپ ﷺسے بے پناہ لگاؤتھا ‪ ،‬جب انہیں علم ہوا کہ ابوجہل نے نبی اک رم‬
‫ﷺسے بدس لوکی اور ب دزبانی کی‪ ،‬تو بھ تیجے کی محبت امنڈ پ ڑتی ہے اور بال توقف ابو جہل کا رخ ک رتے ہیں‪ ،‬ابو‬
‫جہل کو ذلت آم یز الف اظ سے مخ اطب ک رتے ہ وئے اس پر اپ نے کم ان سے حملہ آور ہ وتے ہیں اور انتق ام لی نے کے بعد ن بی اک رم‬
‫ﷺکے دربار میں حاضر ہوتے ہیں‪ ،‬اور کہتے ہیں کہ بھتیجے خوش ہوجا ‪ ،‬میں نے تمہ ارے دش من سے تمہ ارا ب دلہ‬
‫لے لیا ہے‪ ،‬رسول ہللا ﷺاپنے چچا سے مخاطب ہو کر فرم اتے ہیں۔ مجھے ان دنی وی محبت وں سے کبھی خوشی نہیں‬
‫ملتی جب تک کہ آپ ہللا پر ایمان نہ لے آئیں اور میری اتباع نہ کریں۔ یہ سن کر حمزہ رضی ہللا عنہ حلقہ بگوش اسالم ہوگئے۔ ان آیات‬
‫و احادیث اور دالئل سے جہاں ایمان بالرسول کی اہمیت واضح ہوتی ہے وہیں یہ ب ات بھی ث ابت ہ وتی ہے کہ آپﷺسے‬
‫تعلق ومحبت کے بغیر دولت ایمان کا حصول بے بنیاد ہے‪ ،‬اس ل یے ایم ان بالرس الت کا تقاضا ہے کہ محب اپ نے محب وب کے ہر حکم‬
‫کے آگے اپنی جبین عقیدت کو اس طرح خم کردے کہ عقل وخرد اور فکر وفلس فہ کا اس میں ک وئی عمل دخل نہ ہ و۔ حب نب وی ایم ان‬
‫الی پر ص حیح ایم ان کا معی ار یہی ہے کہ ن بی ک ریم‬ ‫ٰ‬ ‫کی بنی اد بھی ہے اور اس کی مع راج کم ال بھی‪ ،‬اس ل یے ہللا تع‬
‫ﷺکے ہر قول وعمل کو بالچوں وچرا اسی طرح مان لیا ج ائے جس ط رح آپ نے فرمایا یا عملی نم ونہ پیش فرمای ا‪،‬‬
‫نیز آپ سے ایسی محبت کی جائے جو طبعاً‪ ،‬شرعا ً اور عقالً مطلوب وپسندیدہ ہو۔ ماشاہللا۔۔۔قابل توجہ حدیث ہے‪،‬ہم سب کے لئ یے لمحہ‬
‫فکریہ ہے۔حضرت ابوہريره فرماتے ہيں کہ رسول هللا ﷺ نے فرمايا‪":‬م يرى اُمت كا ہر ش خص جنت ميں داخل ہوگ ا‪،‬‬
‫سوائے اس كے جس نے انكار كيا۔" صحابہ نے عرض کیا ‪ :‬اے هللا كے رسول! وه ك ون ش خص ہے جس نے (جنت ميں ج انے س ے)‬
‫انكار كيا؟ آپ نے فرمايا‪" :‬جس نے م يرى اط اعت كى‪ ،‬وه جنت ميں داخل ہوگا اور جس نے م يرى نافرم انى كى‪ ،‬اس نے انك ار كيا۔‬

‫‪Question no. 4‬‬

‫ان‬ ‫امت پر محکم دالئل و برہ‬ ‫رورت قی‬ ‫ض‬

‫رآنی دالئل‬ ‫اول‪ :‬ق‬

‫بے شک روز قیامت پر ایمان رکھنے کی بنیاد اس وحی ٰالھی کے ثب وت پر ق ائم ھے جو ذات اق دس سے ص ادر ھوتی ھے‪،‬اور عقی دہ‬
‫قیامت پر قرآن مجید میں بہت سی آیات بیان ھوئی ھیں‪،‬اور قرآن مجید کا کوئی سورہ بھی ایسا نہ ھوگا جس میں قیامت اور عالم آخ رت‬
‫کے ب ارے میں گفتگو نہ کی گ ئی ھو‪،‬یہ اں تک کہ بعض علم اء نے یہ بھی بی ان کی اھے کہ ق رآن مجید میں تقریب ا ً ایک ہ زار آی ات‬
‫ان ھوا ھے۔‬ ‫ارے میں بی‬ ‫امت کے ب‬ ‫ایہ میں قی‬ ‫ارہ و کن‬ ‫اتھ یاارش‬ ‫احت کے س‬ ‫میںوض‬

‫اسی ط رح روز قی امت اور اس سے متعلق ام ور کے ب ارے میں مختلف ص ورتوں میں تفص یل بی ان ھوئی ھے‪ ،‬جن کے ذریعہ سے‬
‫مختلف دالئل اور ب راھین کے ذریعہ قی امت کے وج ود کو حتمی اور ض روری عن وان سے بی ان کیا گیا ھے‪ ،‬اس عقی دہ کو تم ام ھی‬
‫آسمانی ادیان کے مسلم اصول میں شمار کیا جاتاھے‪،‬اور انکار کرنے والوں کے ش بہات ر ّد ک ئے گ ئے ھیں‪ ،‬اور روز قی امت‪ ،‬حش رو‬
‫نشر‪ ،‬حساب و صراط اور جنت میں مومنین کے حاالت اور ان کے لئے آمادہ نعمات نیز گناہگاروں کے لئے جہنم اور ان کے لئے تیار‬
‫ان ھوئی ھے۔‬ ‫یل بی‬ ‫ارے میں تفص‬ ‫ذاب کے ب‬ ‫گی ع‬ ‫ھمیش‬

‫‪:‬ق ارئین ک رام! ھم یہ اں پر قی امت سے متعلق ق رآن مجید کی اھم مض امین پر مش تمل ان آی ات کو بی ان ک رتے ھیں‬

‫۔ روز قیامت کو اعتق ادی بنی ادوں میں ش مار کیا گیا ھے اور اس ب ات پر زور دیا گی اھے کہ روز قی امت کا اعتق اد واجب اعتق اد کے‪۱‬‬
‫دی ھے‬ ‫اد خداون‬ ‫ول میں سے ھے‪ ،‬جیسا کہ ارش‬ ‫‪:‬اص‬
‫ب َولَ ِک َّن ْالبِ َّر َم ْن آ َمنَ بِاهللِ َو ْالیَ وْ ِم اآْل ِخ ِر َو ْال َمالَئِ َک ِة َو ْال ِکتَ ا ِ‬
‫ب َوالنَّبِیِّینَ >[‪< ]1‬‬ ‫ْس ْالبِ َّر اَٴ ْن تُ َولُّوا ُو ُج وہَ ُک ْم قِبَ َل ْال َم ْش ِر ِ‬
‫ق َو ْال َم ْغ ِر ِ‬ ‫لَی َ‬

‫نیکی کچھ یھی تھ وڑی ھے کہ (نم ازمیں)اپ نے منہ اور پ ورب یا پچھم کی ط رف کرل وبلکہ نیکی تو اس کی ھے جو خ دا اور روز”‬
‫ان الئے“۔‬ ‫بروں پر ایم‬ ‫اب اور پیغم‬ ‫دا کی)کت‬ ‫توںاور( خ‬ ‫رت اور فرش‬ ‫ٓاخ‬

‫اد ھوتا ھے‬ ‫رح ارش‬ ‫‪:‬اسی ط‬

‫ف َعلَی ِْہ ْم>[‪<]2‬‬


‫وْ ٌ‬ ‫الِحًا فَالَ َخ‬ ‫ص‬
‫َل َ‬ ‫وْ ِم اآْل ِخ ِر َو َع ِم‬ ‫َم ْن آ َمنَ بِاهللِ َو ْالیَ‬

‫وف ھو گا “۔”‬ ‫وئی خ‬ ‫رے گا ان پر البتہ نہ تو ک‬ ‫ام ک‬ ‫ان الئے گا اور اچھے (اچھے)ک‬ ‫رت پر ایم‬ ‫دا اور روز ٓاخ‬ ‫جو خ‬

‫۔درج ذیل آی ات میں روز قی امت کے وج ود پر تاکید کی گ ئی ھے اور اس کو ایک حتمی اور غ یر قابل شک امر بتایا گیا ھے‪ ،‬ارش اد‪۲‬‬
‫ھے‬ ‫‪:‬ھوتا‬

‫ادَ>[‪<]3‬‬ ‫فُ ْال ِمی َع‬ ‫ْب فِی ِہ ِٕا َّن هللاَ الَی ُْخلِ‬
‫وْ ٍم الَ َری َ‬ ‫ا ِم ُع النَّ ِ‬
‫اس لِیَ‬ ‫َربَّنَا ِٕانَّ َ‬
‫ک َج‬

‫اے ھمارے پرور دگ ار بیشک تو ایک نہ ایک دن جس کے ٓانے میں ک وئی ش بہ نھیں لوگ وں کو اکٹھا ک رے گا (تو ھم پر نظر عن ایت ”‬
‫دے کے خالف نھیں کرتا “۔‬ ‫نے وع‬ ‫دا اپ‬ ‫رھے )بیشک خ‬

‫ِدیثًا>[‪<]4‬‬ ‫ق ِم ْن هللاِ َح‬


‫َد ُ‬ ‫ْب فِی ِہ َو َم ْن ٴاَ ْ‬
‫ص‬ ‫ِة الَ َری َ‬ ‫وْ ِم ْالقِیَا َم‬ ‫َو لَیَجْ َم َعنَّ ُک ْم ِٕالَی یَ‬ ‫هللاُ الَِٕالَہَ ِٕاالَّ ہُ‬

‫ہللا تو وھی پروردگ ارھے جس کے س وا ک وئی قابل پر س تش نھیں وہ تم کو قی امت کے دن جس میں ذرا بھی شک نھیں ض رور”‬
‫ا“۔‬ ‫ون ھوگ‬ ‫چا ک‬ ‫ات میں س‬ ‫ڑھ کر ب‬ ‫دا سے ب‬ ‫اکرے گا خ‬ ‫اکٹھ‬

‫<‬ ‫ونَ ۔>[‪]5‬‬ ‫َر النَّ ِ‬


‫اس الَیَ ْعلَ ُم‬ ‫دًا َعلَ ْی ِہ َحقًّا َولَ ِک َّن اٴَ ْکثَ‬ ‫وت بَلَی َو ْع‬
‫ُ‬ ‫انِ ِہ ْم الَیَ ْب َع ُ‬
‫ث هللاُ َم ْن یَ ُم‬ ‫َد اٴَ ْی َم‬ ‫ُموا بِاهللِ َج ْہ‬ ‫َواٴَ ْق َس‬
‫اور یہ کفار خدا کی جتنی قس میں ان کے امک ان میں تھیں کھا کر کہ تے ھیں کہ جو ش خص مرجاتا ھے پھر خ دا اس کو دوب ارہ زن دہ”‬
‫نھیں کرے گا(اے رسول تم کہدو کہ)ہاں(ضرور ایسا کرے گ ا)اس پر اپ نے وع دہ (کی وف ا)الزمی و ض روری ھے مگربُہ تر ے ٓادمی‬
‫انتے ھیں“۔‬ ‫نھیں ج‬

‫ْاٴتِیَنَّ ُک ْم۔>۔[‪<]6‬‬ ‫لْ بَلَی َو َربِّی لَتَ‬ ‫ا َعةُ قُ‬ ‫ال الَّ ِذینَ َکفَرُواالَتَ ْاٴتِینَا َّ‬
‫الس‬ ‫َ‬ ‫َوقَ‬

‫اور کفار کہنے لگے کہ ھم پر تو قیامت ٓائے ھی گی نھیں (اے رسول)تم کہدو ہاں(ہ اں)مجھ کو اپ نے اس ع الم الغیب پ رور دگ ار کی”‬
‫ھے“۔‬ ‫قسم‬

‫۔ھم ذیل میں وہ آیات پیش کرتے ھیں جن میں ظاہری طور پر قیامت کے تصور کو ثابت کیا گی اھے اور کبھی بھی ان آی ات کی تاویل‪۳‬‬
‫و توجیہ نھیں کی جاسکتی ‪ ،‬جن میں گزشتہ امتوں کے بعض افراد یا گروہ اور حیوانات کو اسی دنیا میں موت کے بعد دوبارہ زن دہ کیا‬
‫گیا ھے‪ ،‬جب کہ وہ م رچکے تھے ‪،‬ان کی م وت ث ابت ھوچکی تھی‪ ،‬اور اس م وت کے بعد خ دا نے ان کو دوب ارہ زن دہ کےااور پھر‬
‫دوب ارہ خ دا نے ان کو م وت دی ھے‪ ،‬یہ ک ام مختلف زم انوں میں انج ام پایا ھے ت اکہ اس کے بعد دنیا والے تعجب نہ ک رےں‪ ،‬اور‬
‫انھیںخداون دعالم کی ق درت کا ان دازہ ھوج ائے‪ ،‬ھم یہ اں پر ان میں سے بعض آی ات کو مث ال کے ط ور پر بی ان ک رتے ھیں۔[‪]7‬‬

‫دعالم ھوتا ھے‬ ‫اد خداون‬ ‫دگی ملی‪ ،‬جیسا کہ ارش‬ ‫ارہ زن‬ ‫روہ کو دوب‬ ‫رائیل کے ایک گ‬ ‫نی اس‬ ‫ف۔ ب‬ ‫‪:‬ال‬

‫اس َولَ ِک َّن اٴَ ْکثَ َر النَّ ِ‬


‫اس <‬ ‫ال لَہُ ْم هللاُ ُموتُ وا ثُ َّم اٴَحْ یَ اہُ ْم ِٕا َّن هللاَ لَ ُذو فَ ْ‬
‫ض ٍل َعلَی النَّ ِ‬ ‫ار ِہ ْم َوہُ ْم اٴُلُ ٌ‬
‫وف َح َذ َر ْال َم وْ ِ‬
‫ت فَقَ َ‬ ‫َ‬
‫اٴلَ ْم تَ َر ِٕالَی الَّ ِذینَ َخ َر ُج وا ِم ْن ِدیَ ِ‬
‫ُکرُونَ >[‪]8‬‬ ‫الَیَ ْش‬

‫تاکہ تم سمجھو (اے رسول)کیا تم نے ان لوگوں (کے حال)پر نظر نھیں کی جو موت کے ڈر کے مارے اپنے گھروں سے نکل بھاگے ”‬
‫جاو (اور وہ مر گئے )پھر خدا نے انھیں زن دہ کیا ۔بیشک خ دا‬
‫اور وہ ہزاروں ٓادمی تھے تو خدا نے ان سے فرمایا کہ سب کے سب مر ٴ‬
‫رتے“۔‬ ‫کریہ ادا نھیں ک‬ ‫ثر لو گ اس کا ش‬ ‫ان ھے مگر اک‬ ‫وں پر بڑ ا مہرب‬ ‫لوگ‬

‫اد ھے‬ ‫ارش‬ ‫دعالم کا‬ ‫اکہ خداون‬ ‫ا‪،‬جیس‬ ‫دہ کیا گی‬ ‫ارہ زن‬ ‫بی کو دوب‬ ‫رائیل کے ایک ن‬ ‫نی اس‬ ‫‪:‬ب۔ ب‬

‫ت یَوْ ًما اٴَوْ <‬ ‫ُوشہَا قَا َل اٴَنَّی یُحْ یِی ہَ ِذ ِہ هللاُ بَ ْع َد َموْ تِہَا فَاٴَ َماتَہُ هللاُ ِمائَةَ َع ٍام ثُ َّم بَ َعثَہُ قَ ا َل َک ْم لَبِ ْثتَ قَ َ‬
‫ال لَبِ ْث ُ‬ ‫اٴَوْ کَالَّ ِذی َم َّر َعلَی قَرْ یَ ٍة َو ِہ َی خ ِ‬
‫َاویَةٌ َعلَی ُعر ِ‬
‫اس َوانظُ رْ ِٕالَی ْال ِعظَ ِام َک ْی فَ‬ ‫ک آیَ ةً لِلنَّ ِ‬ ‫ک َولِنَجْ َعلَ َ‬ ‫ار َ‬‫ک لَ ْم یَت ََس نَّ ْہ َوانظُ رْ ِٕالَی ِح َم ِ‬ ‫ک َوش ََرابِ َ‬ ‫َام فَانظُرْ ِٕالَی طَ َعا ِم َ‬‫ال بَلْ لَبِ ْثتَ ِمائَةَ ع ٍ‬ ‫ْض یَوْ ٍم قَ َ‬
‫بَع َ‬
‫ِدیرٌ>[‪]9‬‬ ‫ْی ٍء قَ‬ ‫ِّل َش‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ا َل اٴ ْعلَ ُم اٴ َّن هللاَ َعلَی ُک‬ ‫وہَا لَحْ ًما فَلَ َّما تَبَیَّنَ لَہُ قَ‬ ‫ُزہَا ثُ َّم نَ ْک ُس‬ ‫نُ ِ‬
‫نش‬
‫اوں پر (سے ھو ک ر)گ ذرا اور وہ ایسا اج ڑا تھا کہ اپ نے) اے رس ول تم نے(”‬ ‫مثالً اس (بن دے کے ح ال )پر نظر بھی کی جو ایک گ ٴ‬
‫گاوں کو (ایسی )ویرانی کے بعد کیونکر ٓاباد ک رے گا اس پر‬
‫چھتوں پر ڈھے کے گر پڑا تھا ‪،‬یہ دیکھ کر وہ بندہ کہنے لگا ‪ ،‬ہللا اب اس ٴ‬
‫خدا نے اس کو (مار ڈاال )سو ب رس تک م ردہ رکھا پھر اس کو جال اٹھایا (تب)پوچھا تم کت نی دیر پ ڑے رھے ع رض کی ایک دن پ ڑا‬
‫رھایا ایک دن سے بھی کم‪،‬فرمایا نھیں تم (اسی حالت میں) سو برس پڑے رھے ‪،‬اب ذرا اپ نے کھ انے پی نے (کی چ یزوں)کو دیکھ کہ‬
‫اُبسی تک نھیں اور ذرا اپنے گدھے (سواری)کو تو دیکھو(کہ اس کی ہڈیاں ڈھیر پڑی ھیں اوریہ سب اس واسطے کیاھے ت اکہ لوگ وں‬
‫کے لئے تمھیں قدرت کا نمونہ بنائیں اور (اچھا اب اس گدھے کی ہڈیوں کی طرف نظر کرو کہ ھم کیونکر جوڑ جاڑ کر ڈھانچہ بن اتے‬
‫ھیں پھر ان پر گوشت چڑھاتے ھیں پس جب ان پر یہ ظاہر ھوا تو بیس اختہ ب ول اٹھے کہ(اب )میں بہ یقین کامل جانتا ھوں کہ خ دا ہر‬
‫ادر ھے “۔‬ ‫یز پر ق‬ ‫چ‬

‫اد ھوتا ھے‬ ‫ا‪ ،‬ارش‬ ‫دہ کی‬ ‫ارہ زن‬ ‫وں کو دوب‬ ‫تّر لوگ‬ ‫ٰی کے س‬ ‫وم موس‬ ‫‪:‬ج۔ ق‬

‫َّاعقَةُ َواٴَ ْنتُ ْم تَنظُرُونَ ‪ #‬ثُ َّم بَ َع ْثنَ ا ُک ْم ِم ْن بَ ْع ِد َم وْ تِ ُک ْم لَ َعلَّ ُک ْم ت َْش ُکرُونَ >[‪<]10‬‬
‫ک َحتَّی ن ََری هللاَ َج ْہ َرةً فَاٴَ َخ َذ ْت ُک ْم الص ِ‬
‫َوِٕا ْذ قُ ْلتُ ْم یَا ُمو َسی لَ ْن نُ ْؤ ِمنَ لَ َ‬

‫موسی ھم تم پر اس وقت تک ہر گز ایم ان نہ الئیں گے جب تک تم خ دا”‬


‫ٰ‬ ‫موسی سے کھاتھا کہ اے‬
‫ٰ‬ ‫اور وہ وقت بھی یاد کرو جب تم نے‬
‫کو ظ اہر بظ اہر نہ دیکھ لیں اس پر تمھیں بجلی نے لے ڈاال اور تم تک تے ھی رہ گ ئے ۔پھر تمھیں تمہ ارے م رنے کے بعد ھم نے‬
‫رو“۔‬ ‫کر ک‬ ‫اکہ تم ش‬ ‫جالاٹھایا ت‬

‫اد ھوتا ھے‬ ‫ا‪ ،‬ارش‬ ‫دہ ھون‬ ‫خص کا زن‬ ‫ول ش‬ ‫رائیل کے ایک مقت‬ ‫نی اس‬ ‫‪:‬د۔ ب‬

‫ک یُحْ یي هللاُ ْال َموْ تَی َوی ُِری ُک ْم آیَاتِ ِہ لَ َعلَّ ُک ْم تَ ْعقِلُ ونَ >[ <‬ ‫ار ْاٴتُ ْم فِیہَا َوهللاُ ُم ْخ ِر ٌج َما ُکنتُ ْم تَ ْکتُ ُمونَ (‪ )۷۲‬فَقُ ْلنَا اضْ ِربُوہُ بِبَع ِ‬
‫ْضہَا َک َذلِ َ‬ ‫َوِٕا ْذ قَت َْلتُ ْم نَ ْفسًا فَا َّد َ‬
‫‪]11‬‬

‫اور جب تم نے ایک شخص کو مارڈاال اور تم میں اس کی بابت پھوٹ پڑگ ئی ۔کہ ایک دوس رے کوقاتل بت انے لگا اور جو تم چھپ اتے ”‬
‫تھے خدا کو اس کا ظاہر کرنا منظور تھا۔ پس ھم نے کھاکہ اس گائے کا کوئی ٹکڑا لے کر اس (کی الش)پر مارو ی وں خ دا م ردے کو‬
‫مجھو “۔‬ ‫اکہ تم س‬ ‫انیان دکھادیتا ھے ت‬ ‫درت کی نش‬ ‫نی ق‬ ‫دہ کرتا ھے اور تم کو اپ‬ ‫زن‬

‫اد ھوتا ھے‬ ‫ا‪ ،‬جیسا کہ ارش‬ ‫دہ ھون‬ ‫دوں کا زن‬ ‫اذن ہللا پرن‬ ‫ئے ب‬ ‫الم کے ل‬ ‫راھیم علیہ الس‬ ‫اب اب‬ ‫‪:‬ھ۔ جن‬

‫ک ثُ َّم اجْ َع لْ <‬ ‫ط َمئِ َّن قَ ْلبِی قَا َل فَ ُخ ْذ اٴَرْ بَ َعةً ِم ْن الطَّی ِْر فَ ُ‬
‫ص رْ ہ َُّن ِٕالَ ْی َ‬ ‫ال بَلَی َولَ ِک ْن لِیَ ْ‬ ‫ال اٴَ َولَ ْم تُ ْؤ ِم ْن قَ َ‬
‫ال ِٕاب َْر ِاہی ُم َربِّ اٴَ ِرنِی َک ْیفَ تُحْ یِي ْال َموْ تَی قَ َ‬
‫َوِٕا ْذ قَ َ‬
‫ٌز َح ِکی ٌم >[‪]12‬‬ ‫َ‬ ‫ْ‬
‫ْزء اً ثُ َّم ا ْد ُعہُ َّن یَاٴتِینَ‬ ‫ٍل ِم ْنہُ َّن ُج‬ ‫َعلَی ُک‬
‫ْعیًا َوا ْعلَ ْم اٴ َّن هللاَ ع ِ‬
‫َزی‬ ‫ک َس‬ ‫َ‬ ‫ِّل َجبَ‬
‫اور(اے رسول )وہ واقعہ بھی یاد کرو )جب ابراھیم نے (خداس ے)در خواست کی اے م یرے پ رور دگ ار تو مجھے بھی دکھا دے کہ”‬
‫تو م ردہ کو کی ونکر زن دہ کرتا ھے خ دا نے فرمایا کیا تمھیں (اس ک ا) یقین نھیں ‪،‬اب راھیم نے ع رض کی (کی وں نھیں) مگر ٓانکھ سے‬
‫دیکھنا اس لئے چاہتاھوں کہ میرے دل کو اطمینان ھوجائے فرمایا (اچھااگر یہ چ اہتے ھو) تو چ ار پرن دے لو اور ان ک و( اپ نے پ اس‬
‫بالو(پھر دیکھوتو کی ونکر)وہ سب‬
‫منگا لو اور )ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو پھر ہر پہ اڑ پر ان کا ایک ایک ٹک ڑا رکھ دو اس کے بعد ان کو ٴ‬
‫الب و حکمت واال ھے“۔‬ ‫دا بیشک غ‬ ‫مجھو کہ خ‬ ‫رح ٓاتے ھیں اور س‬ ‫ارے پا س کس ط‬ ‫کے سب تمہ‬

‫۔ قرآن مجید میں اس بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیاھے کہ انبیاء علیھم السالم کے مھم امور میں سے ایک کام روز قیامت اور ‪۴‬‬
‫اد ھوتا ھے‬ ‫ا‪ ،‬جیسا کہ ارش‬ ‫اب سے ڈرانا تھ‬ ‫اب و کت‬ ‫‪ :‬روز حس‬

‫نس اٴَلَ ْم یَ ْاٴتِ ُک ْم ُر ُس ٌل ِم ْن ُک ْم یَقُصُّ ونَ َعلَ ْی ُک ْم آیَاتِی َویُن ِذرُونَ ُک ْم لِقَا َء یَوْ ِم ُک ْم ہَ َذا قَ الُوا َش ِہ ْدنَا َعلَی اٴَنفُ ِس نَا َو َغ َّر ْتہُ ْم ْال َحیَ اةُ ال ُّد ْنیَا <‬
‫یَا َم ْع َش َر ْال ِجنِّ َوإِاْل ِ‬
‫افِ ِرینَ >[‪]13‬‬ ‫انُوا َک‬ ‫ِہ ْم اٴَنَّہُ ْم َک‬ ‫ِہدُوا َعلَی اٴَنفُ ِس‬ ‫َو َش‬

‫پھر( ھم پوچھیں گے)کہ کیوں اے گروہ جن و انس کیا تمہ ارے پ اس تمھیں میں سے پیغم بر نھیں ٓائے جو تم سے ھم اری ٓای تیں بی ان”‬
‫کریں اور تمھیں اس روز (قیامت )کے پیش ٓانے سے ڈرائیں وہ سب عرض کریں گے (بیشک ٓائے تھے)ھم خود اپنے اوپر ٓاپ (اپ نے‬
‫خالف )گ واھی دی تے ھیں (واقعی )ان کو دنیا کی (چند روزہ)زن دگی نے دھوکے میں ڈال رکھا اور ان لوگ وں نے اپ نے خالف ٓاپ‬
‫افر تھے ‘ ‘ ۔‬ ‫واھی دی کہ بیشک یہ سب کے سب ک‬ ‫گ‬

‫اد ھوتا ھے‬ ‫ری جگہ ارش‬ ‫یز ایک دوس‬ ‫‪:‬ن‬

‫ال لَہُ ْم خَ زَ نَتُہَا اٴَلَ ْم یَ ْاٴتِ ُک ْم ُر ُس ٌل ِم ْن ُک ْم یَ ْتلُونَ َعلَ ْی ُک ْم آیَا ِ‬


‫ت َربِّ ُک ْم َویُ ْن ِذرُونَ ُک ْم <‬ ‫ت اٴَ ْب َوابُہَا َوقَ َ‬
‫ق الَّ ِذینَ َکفَرُوا ِٕالَی َجہَنَّ َم ُز َمرًا َحتَّی ِٕا َذا َجا ُء وہَا فُتِ َح ْ‬
‫َو ِسی َ‬
‫افِ ِرینَ >[‪]14‬‬ ‫ب َعلَی ْال َک‬ ‫َذا ِ‬ ‫ةُ ْال َع‬ ‫ت َکلِ َم‬‫الُوا بَلَی َولَ ِک ْن َحقَّ ْ‬ ‫َذا قَ‬ ‫وْ ِم ُک ْم ہَ‬ ‫ا َء یَ‬ ‫لِقَ‬

‫اور جو لوگ کافر تھے ان کے غول کے غول جہنم کی طرف ہنکائے ج ائیں گے یہ اں تک کہ جب جہنم کے پ اس پہنچیں گے تو اس”‬
‫کے دروازے کھو ل دئے جائیں گے اور اس کے داروغہ ان سے پوچھیں گے کہ کیا تم ھی لوگ وں میںسے پیغم بر تمہ ارے پ اس نھیں‬
‫ٓائے تھے جو تم کو تمہارے پرور دگار کی ٓایتیں پڑھ کر سناتے اور تم کو اس روز (بد) کے پیش ٓانے سے ڈراتے وہ لوگ ج واب دیں‬
‫گے کہ ہ اں (ٓائے ت وتھے)مگر (ھم نے نہ مان ااور ) ع ذاب کا حکم ک افروں کے ب ارے میں پ ورا ھو کر رھا“۔‬

‫وص نھیں ھیں۔‬ ‫وم سے مخص‬ ‫اص ق‬ ‫راد ھیں‪ ،‬کسی خ‬ ‫نی م‬ ‫ام مع‬ ‫وف سے ع‬ ‫ذار اور خ‬ ‫اں پر ان‬ ‫یہ‬

‫۔ قرآن کریم نے اس بات پرزور دیاھے کہ اسالم سے قبل آسمانی شریعتوں میں معاد کا عقیدہ موجود تھ ا‪ ،‬جیسا کہ خداون دعالم جن اب‪۵‬‬
‫رتے ھوئے فرماتا ھے‬ ‫اب ک‬ ‫وم سے خط‬ ‫نی ق‬ ‫وح کے اپ‬ ‫‪:‬ن‬
‫ض نَبَاتًا ثُ َّم یُ ِعی‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ِر ُج ُک ْم ِٕا ْخ َراجًا >[‪<]15‬‬ ‫ُد ُک ْم فِیہَا َوی ُْخ‬ ‫َوهللاُ اٴ ْنبَتَ ُک ْم ِم ْن ااْل ٴرْ ِ‬

‫اور خدا ھی نے تم کو زمین سے پیدا کیا پھر تم کو اسی میں دوب ارہ لے ج ائے گا اور (قی امت میں اسی س ے)نک ال کھ ڑا ک رے گ ا“۔ ”‬

‫اد فرماتا ھے‬ ‫ارے میں ارش‬ ‫ٰی کے ب‬ ‫اب موس‬ ‫رح جن‬ ‫‪:‬اسی ط‬

‫<‬ ‫ی َو َرحْ َم ةً لَ َعلَّہُ ْم بِلِقَ ا ِء َرب ِِّہ ْم ی ُْؤ ِمنُ ونَ >[‪]16‬‬ ‫اب تَ َما ًما َعلَی الَّ ِذی اٴَحْ َس نَ َوتَ ْف ِ‬
‫ص یاًل لِ ُک لِّ َش ْی ٍء َوہُ د ً‬ ‫َ‬ ‫وس ی ْال ِکتَ‬
‫ثُ َّم آتَ ْینَا ُم َ‬

‫موسی کو کت اب (ت وریت)عطا فرم ائی اور اس میں ہر چ یز کی”‬


‫ٰ‬ ‫پھر ھم نے جو نیکی کی اس پر اپنی نعمت پوری کرنے کے واسطے‬
‫تفصیل (بیان کر دی )تھی اور لوگوں کے لئے (از سرتا پا)ہدایت و رحمت ھے تاکہ وہ لوگ اپنے پرور دگار کے سامنے حاضر ھونے‬
‫ریں“۔‬ ‫کا یقین ک‬

‫رتے ھوئے فرماتا ھے‬ ‫ایت ک‬ ‫وم کی حک‬ ‫ون اور اس کی ق‬ ‫ٰی کی فرع‬ ‫اب موس‬ ‫دعالم جن‬ ‫رح خداون‬ ‫‪:‬اسی ط‬

‫ب >[‪< ]17‬‬
‫ا ِ‬ ‫وْ ِم ْال ِح َس‬ ‫ْؤ ِمنُ بِیَ‬ ‫لِّ ُمتَ َکب ٍِّر الَیُ‬ ‫َربِّی َو َربِّ ُک ْم ِم ْن ُک‬ ‫ْذ ُ‬
‫ت بِ‬ ‫ی ِٕانِّی ُع‬ ‫ال ُموْ ٰ ٓس‬
‫َ‬ ‫َوقَ‬

‫موسی نے کھاکہ میں تو ہر متکبر سے جو حس اب کے دن (قی امت)پر ایم ان نھیں التا اپ نے اور تمہ ارے پروردگ ار کی پن اہ لے”‬
‫ٰ‬ ‫اور‬
‫چکا ھوں“۔‬

‫اد ھوتا ھے‬ ‫رتے ھوئے ارش‬ ‫ذکرہ ک‬ ‫امت کے متعلق ت‬ ‫ئے قی‬ ‫الم کے ل‬ ‫ٰی علیہ الس‬ ‫اب عیس‬ ‫یز جن‬ ‫‪:‬ن‬

‫ق الَّ ِذینَ َکفَ رُوا ِٕالَی یَ وْ ِم ْالقِیَا َم ِة ثُ َّم ِٕالَ َّ‬


‫ی<‬ ‫ک فَ وْ َ‬ ‫اع ُل الَّ ِذینَ اتَّبَ ُع و َ‬ ‫ک ِم ْن الَّ ِذینَ َکفَرُوا َو َج ِ‬
‫ی َو ُمطَہِّ ُر َ‬
‫ُک ِٕالَ َّ‬
‫یک َو َرافِع َ‬ ‫ِٕا ْذ قَا َل هللاُ یَ ِ‬
‫اعی َسی ِٕانِّی ُمتَ َوفِّ َ‬
‫ونَ >[‪]18‬‬ ‫َ‬
‫اٴحْ ُک ُم بَ ْینَ ُک ْم فِی َما ُک ْنتُ ْم فِی ِہ ت َْختَلِفُ‬ ‫رْ ِج ُع ُک ْم فَ‬ ‫َم‬

‫جب عیس ٰی سے خ دا نے فرمایا اے عیس ٰی میں ض رور تمہ اری زن دگی کی م دت پ وری کر کے تم کو اپ نی ط رف اٹھا ل وں گا اور”‬
‫ک افروں (کی گن دگی)سے تم کو پ اک و پ اکیزہ رکھ وں گا اور جن لوگ وں نے تمہ اری پ یروی کی ان کو قی امت تک ک افروں پر غ الب‬
‫رکھ وں گا ‪،‬پھر تم سب کو م یری ط رف ل وٹ ٓانا ھے تب(اس دن)جن ب اتوں میں تم (دنی ا)میں جھگ ڑے ک رتے تھے (ان ک ا)تمہ ارے‬
‫ردوں گا “۔‬ ‫لہ ک‬ ‫ان فیص‬ ‫درمی‬
‫۔قرآن کریم نے بہت سی آیات میں اس بات کی تاکید کی ھے کہ خداوندعالم نے بندوں کے اعمال و افعال کو دقیق طور پر لکھنے کے ‪۶‬‬
‫لئے فرشتوں کو مامور کیا ھے‪ ،‬اور ایسے دفتر میں لکھتے ھیں جس میں وہ ان کے اعمال نہ ذرہ برابر اضافہ کرتے ھیں اور نہ کمی‬
‫درت ھے‬ ‫اد ق‬ ‫رتے ھیں‪ ،‬جیسا کہ ارش‬ ‫‪:‬ک‬

‫<‬ ‫ٍام ُمبِی ٍن >[‪]19‬‬ ‫ْینَاہُ فِی ِٕا َم‬ ‫ْی ٍء اٴحْ َ‬
‫ص‬ ‫َّل َش‬ ‫ا َرہُ ْم َو ُک‬ ‫َّد ُموا َوآثَ‬ ‫وْ تَی َونَ ْکتُبُ َما قَ‬ ‫ِٕانَّا نَحْ نُ نُحْ ِی ْال َم‬

‫ھم ھی یقینا ً مردوں کو زندہ کرتے ھیں اور جو کچھ وہ لوگ پہلے کرچکے ھیں(ان کو) اوران کی(اچھی یا بُری باقی مان دہ) نش انیوں”‬
‫اھے “۔‬ ‫یر دی‬ ‫وا میں گھ‬ ‫ریح و روشن پیش‬ ‫یز کو ایک ص‬ ‫اتے ھیں اور ھم نے ہر چ‬ ‫تے ج‬ ‫کو لکھ‬

‫اد ھوتا ھے‬ ‫یز ارش‬ ‫‪:‬ن‬

‫ونَ >[‪<]20‬‬ ‫َدی ِْہ ْم یَ ْکتُبُ‬ ‫لُنَا لَ‬ ‫َواہُ ْم بَلَی َور ُ‬
‫ُس‬ ‫َّرہُ ْم َونَجْ‬ ‫َم ُع ِس‬ ‫بُونَ اٴَنَّا الَن َْس‬ ‫اٴَ ْم یَحْ َس‬

‫کیا وہ لوگ یہ سمجھتے ھیں کہ ھم ان کے بھیداور ان کی سر گو شیوں کو نھیں سنتے۔ ہاں (ضرور س نتے ھیں)اور ھم ارے فرش تے”‬
‫اتے ھیں “۔‬ ‫تے ج‬ ‫اتیں لکھ‬ ‫اس ھیں اور ان کی سب ب‬ ‫ان کے پ‬

‫اد ھوتا ھے‬ ‫ری جگہ ارش‬ ‫رح دوس‬ ‫‪:‬اسی ط‬

‫الش َما ِل قَ ِعی ٌد َما یَ ْلفِ ظُ ِم ْن<‬ ‫َولَقَ ْد خَ لَ ْقنَا إِاْل ْنسَانَ َونَ ْعلَ ُم َما تُ َوس ِْوسُ بِ ِہ نَ ْف ُسہُ َونَحْ نُ اٴَ ْق َربُ ِٕالَ ْی ِہ ِم ْن َح ْب ِل ْال َو ِری ِد ِٕا ْذ یَتَلَقَّی ْال ُمتَلَقِّیَ ا ِن ع َْن ْالیَ ِم ِ‬
‫ین َوع َْن ِّ‬
‫د>[‪]21‬‬ ‫َد ْی ِہ َرقِیبٌ َعتِی‬ ‫وْ ٍل ِٕاالَّ لَ‬ ‫قَ‬

‫اور بیشک ھم نے انسان کو پیدا کیا اور جو خیاالت اس کے دل میں گذرتے ھیں ھم ان کو ج انتے ھیں اور ھم تو اس کی ش ہرگ سے”‬
‫بھی زیادہ قریب ھیں جب ( وہ کوئی کام کرتا ھے تو)وہ لکھنے والے (کراماًکاتبین)جو (اس کے )داہنے بائیں بیٹھے ھیں لکھ لیتے ھیں‬
‫ار رہتا ھے “۔‬ ‫اس تی‬ ‫ان اس کے پ‬ ‫ان پر نھیں ٓاتی مگر نگہب‬ ‫ات اس کی زب‬ ‫وئی ب‬ ‫ک‬

‫درج ذیل قرآنی آیات اس بات کو واضح کرتی ھیں کہ روز قیامت انسان کا نامہ اعمال ان کے سامنے پیش کیا جائے گا‪ ،‬جیسا کہ ارش اد‬
‫ھے‬ ‫‪:‬ھوتا‬
‫ونَ >[‪<]22‬‬ ‫ُخ َما ُکنتُ ْم تَ ْع َملُ‬ ‫َنس‬ ‫ْال َح ِّ‬
‫ق ِٕانَّا ُکنَّا نَ ْست ِ‬ ‫ق َعلَ ْی ُک ْم بِ‬
‫ُ‬ ‫َذا ِکتَابُنَا یَن ِط‬ ‫ونَ ہَ‬ ‫زَ وْ نَ َما ُکنتُ ْم تَ ْع َملُ‬ ‫وْ َم تُجْ‬ ‫ْالیَ‬

‫جو کچھ تم لوگ کرتے تھے ٓاج تم کواس کا بدلہ دیا جائے گا یہ ھماری کتاب (جس میں اعم ال لکھے ھیں) تمہ ارے مق ابلہ میں ٹھیک”‬
‫اتے تھے “۔‬ ‫واتے ج‬ ‫رتے تھے ھم لکھ‬ ‫ول رھی ھے جو کچھ بھی تم ک‬ ‫ٹھیک ب‬

‫چنانچہ ان نامہ اعمال کو دیکھ کر کہ اس میں کس قدر امانت داری اور دقت سے کام لیا گیا ھے گناہگ اروں میں خ وف و دہشت ط اری‬
‫اد ٰالھی ھے‬ ‫ا‪ ،‬جیسا کہ ارش‬ ‫ائے گ‬ ‫‪:‬ھوج‬

‫ص ِغی َرةً َوالَ َکبِی َرةً ِٕاالَّ اٴَحْ َ‬


‫ص اہَا َو َو َج دُوا َما َع ِملُ وا <‬ ‫ال ہَ َذا ْال ِکتَا ِ‬
‫ب الَیُغَا ِد ُر َ‬ ‫ض َع ْال ِکتَابُ فَت ََری ْال ُمجْ ِر ِمینَ ُم ْشفِقِینَ ِم َّما فِی ِہ َویَقُولُونَ یَ َ‬
‫او ْیلَتَنَا َم ِ‬ ‫َو ُو ِ‬
‫دًا>[‪]23‬‬ ‫ک اٴَ َح‬ ‫ب‬
‫ُّ‬ ‫ر‬
‫َ َ ُِ َ َ‬‫م‬ ‫ل‬ ‫ْ‬
‫ظ‬ ‫ی‬‫َ‬ ‫ال‬ ‫و‬ ‫ًا‬
‫ر‬ ‫اض‬
‫َح ِ‬

‫اور لوگ وں کے اعم ال کی کت اب (س امنے )رکھی ج ائے گی تو تم گنہگ ار وں کو دیکھو گے کہ جو کچھ اس میں (لکھ ا) ھے(دیکھ”‬
‫کر)سھمے ھوئے ھیں اور کہتے جاتے ھیں ہائے ھماری شامت یہ کیسی کتاب ھے کہ نہ چھوٹے ھی گناہ کو بے قلمبند کئے چھ وڑتی‬
‫ھے نہ بڑے گناہ کو‪،‬اور جو کچھ ان لوگوں نے (دنیامیں )کیا تھا وہ سب( لکھا ھوا)موجود پائیں گے اور ت یرا پ رور دگ ار کسی پر ظلم‬
‫ا“۔‬ ‫رے گ‬ ‫نہ ک‬

‫قارئین کرام! ان تمام آیات کے پیش نظر انسان مکمل طور سے قیامت کے عقیدہ پر یقین حاصل کرس کتا ھے وہ روز قی امت جہ اں پر‬
‫انس انی زن دگی کا حس اب و کت اب پیش کیا ج ائے گ ا‪ ،‬جہ اں پر تم ام چھ وٹی ب ڑی سب چیزیںپیش ھوں گی۔‬

‫۔ قرآنی وہ بہت سی آیات جن میں قیامت کے منکرین کے بے جا اعتراضات کا جواب دیا گیا ھے اور اس ب ات کی تاکید کی گ ئی ھے‪۷‬‬
‫کہ ان کے انکار کے لئے ذرہ بھی گنجائش باقی نھیں ھے‪ ،‬کیونکہ وہ تو صرف ظن کی پ یروی ک رتے ھیں اور ظن حق سے بے نی از‬
‫دی ھوتا ھے‬ ‫اد خداون‬ ‫کتا‪ ،‬ارش‬ ‫‪:‬نھیں کرس‬

‫ک ِم ْن ِع ْل ٍم ِٕا ْن ہُ ْم ِٕاالَّ یَظُنُّونَ >[‪<]24‬‬


‫َذلِ َ‬ ‫َّد ْہ ُر َو َما لَہُ ْم بِ‬ ‫وت َونَحْ یَا َو َما یُ ْہلِ ُکنَا ِٕاالَّ ال‬
‫ُ‬ ‫ُّد ْنیَا نَ ُم‬ ‫الُوا َما ِہ َی ِٕاالَّ َحیَاتُنَا ال‬ ‫َوقَ‬

‫اور وہ ل وگ کہ تے ھیں کہ ھم اری زن دگی تو بس دنیا ھی کی ھے یھیں م رتے ھیں اور یھیں جی تے ھیں اور ھم کو بس زم انہ ھی”‬
‫رتے ھیں “۔‬ ‫اتیں ک‬ ‫وگ تو بس اٹکل کی ب‬ ‫بر تو ھے نھیں یہ ل‬ ‫ا)مارتا ھے اور ان کو اس کی کچھ خ‬ ‫(جالت‬

‫اد ھوتا ھے‬ ‫ری جگہ ارش‬ ‫‪:‬ایک دوس‬

‫<‬ ‫ْیئًا۔>[‪]25‬‬ ‫ق َش‬


‫ِّ‬ ‫ونَ ِٕاالَّ الظَّ َّن َوِٕا َّن الظَّ َّن الَیُ ْغنِی ِم ْن ْال َح‬ ‫َو َما لَہُ ْم بِ ِہ ِم ْن ِع ْل ٍم ِٕا ْن یَتَّبِ ُع‬

‫انھیں اس کی کچھ خبر نھیں ۔وہ لوگ تو بس گمان (خیال)کے پیچھے چل رھے ھیں حاالنکہ گمان یقین کے مق ابلہ میں کچھ) حاالنکہ(”‬
‫ام نھیں ٓایا کرتا “۔‬ ‫بھی ک‬

‫اتی ھے‬ ‫رتے ھیں تو ان سے دلیل طلب کی ج‬ ‫ار ک‬ ‫امت کا انک‬ ‫رین قی‬ ‫‪:‬اور جب منک‬

‫ا ِدقِینَ >[‪<]26‬‬ ‫انَ ُک ْم ِٕا ْن ُکنتُ ْم َ‬


‫ص‬ ‫اتُوا بُرْ ہَ‬ ‫لْ ہَ‬ ‫قُ‬
‫رو ‘ ‘ ۔”‬ ‫نی دلیل پیش ک‬ ‫چے ھو تو اپ‬ ‫دوکہ اگر تم س‬ ‫ے) کہ‬ ‫رکین س‬ ‫ول )تم (ان مش‬ ‫اے (رس‬

‫بہات بے جا اور بے ھودہ ھوتے ھیں[‪ ]27‬جن کا‬ ‫ات اور ش‬ ‫ونکہ ان کے اعتراض‬ ‫کی‬

‫جواب ق رآن مجید نے ک افی اور وافی ط ور پر دیا ھے‪ ،‬جن میں سے بعض کو عقلی دالئل کی بنی اد پر پیش کیا گیا ھے اور قی امت کی‬
‫ضرورت اور وعدہ ٰالھی کے پورا ھونے پر تاکید کی گئی ھے‪ ،‬جیسا کہ خداوندعالم نے ان کے اعتراض کو بیان ک رتے ھوئے اس کا‬
‫واب بھی دیا ھے‬ ‫‪:‬ج‬

‫نش اٴَہَا اٴَو ََّل َم َّر ٍة َوہُ َو بِ ُک ِّل خَ ْل ٍ‬


‫ق َعلِی ٌم>[‪< ]28‬‬ ‫ظ ا َم َو ِہ َی َر ِمی ٌم ‪ #‬قُ لْ یُحْ یِیہَا الَّ ِذی اٴَ َ‬
‫ال َم ْن یُحْ یِي ْال ِع َ‬
‫ب لَنَا َمثَالً َون َِس َی خَ ْلقَہُ قَ َ‬
‫ض َر َ‬
‫َو َ‬

‫اور ھماری نسبت باتیں بنانے لگا اور اپنی خلقت (کی حالت)بھول گیا (اور)کہنے لگا کہ بھال جب یہ ہڈیاں (سڑ گل کر)خاک ھو جائیں ”‬
‫گی تو (پھر)کون (دوبارہ )زندہ کر سکتا ھے(اے رسول)تم کہدو کہ اس کو وھی زندہ کرے گا جس نے ان ک و(جب یہ کچھ نہ تھے )تو‬
‫دائش سے واقف ھے “۔‬ ‫رح کی پی‬ ‫دہ کر دکھا یا وہ ہر ط‬ ‫رتبہ زن‬ ‫پہلی م‬

‫وم‬ ‫ل‪ :‬کالم معص‬ ‫ری دلی‬ ‫دوس‬

‫احادیث نبوی (ص)اور کالم اہل بیت علیھم السالم میں عالم آخرت ‪،‬روز قیامت حشر و نش ر‪ ،‬حس اب و کت اب اور ج زا و س زا کا ت ذکرہ‬
‫تفصیل سے بیان ھوا ھے‪ ،‬اور جس تفصیل سے قرآن مجید میں آیات موجود ھیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اور مزید وض احت کے س اتھ‬
‫احادیث میں ذکر ھوا ھے‪ ،‬ھم یہاں پر بعض ان احادیث کا ذکر ک رتے ھیں جو قی امت کے وج ود کو ث ابت ک رتی ھیں اور اس کو حتمی‬
‫مجھتی ھیں۔‬ ‫روری س‬ ‫اور ض‬

‫اتے ھیں‬ ‫اد فرم‬ ‫رم (ص)ارش‬ ‫ول اک‬ ‫رت رس‬ ‫‪:‬حض‬

‫امون‪،‬ولتبعثن کما تس تیقظون‪،‬ومابعد الم وت دا ٌر ٕا ٰالّ جنّة”‬


‫ّ‬ ‫یا ب نی عبد المطلب!ٕان الرائد الیک ذب اٴہلہ‪،‬وال ذی بعث نی ب الحق لتم ّ‬
‫وتن کما تن‬
‫الی‪<:‬وما خلقکم وال بعثکم اال کنفس واح دة۔>(س ورہ‬ ‫اٴونار‪،‬خَ ْل ُ‬
‫ق جمیع الخلق و بعثھم علی هللا ع ّزوج ّل کخلق نفس واحدة و بعثہا‪،‬قال هللا تع ٰ‬
‫ان آیت‪]29[)۲۸‬‬ ‫لقم‬

‫اے بنی عبد المطلب ! بیشک سر پرست اپنے اہل و عیال کے سامنے جھوٹ نھیں بولتا قسم اس خدا کی جس نے مجھے حق کے س اتھ”‬
‫مبعوث کیا تمھیں م وت ویسے ھی آئے گی جیسے تمھیں نیند آتی ھے‪ ،‬اور تم کو اٹھایاج ائے گا جیسے تم بی دار ھوتے ھو‪ ،‬اور م وت‬
‫کے بعد سوائے جنت یا جہنم کے کچھ نھیں ھے‪ ،‬تمام مخل وق کو خداون دعالم کے س امنے ایک نفس کی ط رح پیش ھونا ھے‪ ،‬جیسا کہ‬
‫خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے‪” :‬تم سب کا پیدا کرنا اور پھر (مرنے کے بعد )جال اٹھانا ایک ش خص کے (پی دا) ک رنے اور جالاٹھ انے‬
‫ھے“۔‬ ‫برابر‬ ‫کے‬

‫رامی ھے‬ ‫اد گ‬ ‫رم (ص)کا ارش‬ ‫ول اک‬ ‫یز رس‬ ‫‪:‬ن‬

‫ال ی ٴومن عبد ح تی ی ٴومن باربع ة‪ :‬یش ھد ان الالہ اال ہللا وح دہ ال ش ریک لہ‪،‬وانی رس ول ہللا بعث نی ب الحق ‪،‬وح تی ی ٴومن ب البعث بعد ”‬
‫در۔“[‪]30‬‬ ‫ٴومن بالق‬ ‫تی ی‬
‫ٰ‬ ‫وت‪،‬وح‬ ‫الم‬

‫کوئی بھی شخص اس وقت تک ایمان النے واال نھیں بن سکتا جب تک چار چیزوں پر یقین نہ رکھے‪ :‬گ واھی دے کہ س وائے ہللا کے”‬
‫کوئی خدا نھیں ھے اور اس کا کوئی شریک نھیں ھے‪ ،‬اور م یری نب وت کا اق رار ک رے کہ مجھے حق کے س اتھ معب وث کیا گیا ھے‪،‬‬
‫در پر یقین رکھے“۔‬ ‫او) ق‬ ‫ان الئے‪ ،‬اور (قض‬ ‫امت پر ایم‬ ‫اور روز قی‬
‫اتے ھیں‬ ‫اد فرم‬ ‫الم ارش‬ ‫نین علیہ الس‬ ‫الموم‬
‫یر ٴ‬ ‫رت ام‬ ‫‪:‬حض‬

‫حتی اذا بلغ الکتاب اجلہ ‪،‬واالمر مق ادیرہ‪،‬والحق ٓاخرالخلق ب اولہ‪،‬وج اء من ام رہللا مایرید ہ من تجدید خلقہ‪،‬م اد الس ماء وفطرھا‪ ،‬وارج”‬
‫االرض وارجفھا‪،‬وقلع جبالھاونسفھا‪،‬ودک بعضھابعضا من ھیبة جاللتہ‪،‬ومخوف س طوتہ ‪،‬واخ رج من فیھا فج ددھم بعد اخالقھم ‪،‬و جمعھم‬
‫ھوالء“۔ [‪]31‬‬
‫ھوالء‪ ،‬وانتقم من ٴ‬
‫بعد تفرقھم ‪،‬ثم میزھم لما یریدہ من مسالتھم عن خفایا االعمال‪،‬وخبایا االفع ال‪،‬و جعلھم ف ریقین ‪:‬انعم علی ٴ‬

‫یہاں تک کہ جب قسمت کا لکھا اپنی آخری حدتک اور امر ٰالھی اپنی مقررہ م نزل تک پہنچ جائےگ ا‪ ،‬اور آخ رین کو اولین سے مالدیا”‬
‫جائے گا‪ ،‬اور ایک نیا حکم ٰالھی آجائے گا‪ ،‬کہ خلقت کی تجدید کی جائے تو یہ امر آسمانوں کو حرکت دے کر ش گافتہ ک ردے گ ا‪ ،‬اور‬
‫زمین کو ہالکر کھوکھال کردے گا‪ ،‬اور پہاڑوں کو جڑ سے اکھاڑ کر اڑادے گا اور ھیبت جالل ٰالھی اور خوف سطوت پروردگ ار سے‬
‫ایک دوسرے سے ٹکراجائیں گے‪ ،‬اور زمین سب کو باہر نکال دے گی اور انھیں دوبارہ بوسیدگی کے بعد تازہ حیات دیدی ج ائے گی‪،‬‬
‫اور انتشار کے بعد جمع کردیا ج ائے گ ا‪ ،‬اور مخفی اعم ال پوش یدہ افع ال کے س وال کے ل ئے سب کو الگ الگ کردیا ج ائے گ ا‪ ،‬اور‬
‫مخلوق ات دو گروھوں میں تقس یم ھوج ائے گی ایک گ روہ مرکز نعم ات ھوگا اور دوس را محل انتق ام“۔‬

‫‪:‬اسی ط رح ایک دوس ری جگہ حض رت علی علیہ الس الم قی امت کی ص فات بی ان ک رتے ھوئے بی ان فرم اتے ھیں‬

‫ٰذلک یوم یجمع هللا فیہ االولین وٓاالخرین لنقاش الحساب وجزاء االعمال‪ ،‬خضوعا‪ ،‬قیاما ً قد الجمھم العرق ‪،‬و رجفت بھم االرض‪،‬فاحسنھم ”‬
‫عاً“۔[‪]32‬‬ ‫عاً‪ ،‬و لنفسہ متس‬ ‫دمیہ موض‬ ‫اال ً من وجد لق‬ ‫ح‬

‫وہ دن ھوگا جب پروردگار اوّلین و آخرین کو دقیق ترین حساب اور اعمال کی جزا کے لئے اس طرح جمع ک رے گا کہ )روز قیامت(”‬
‫سب خضوع و خشوع کے عالم میں کھڑے ھوں گے‪ ،‬پسینہ ان کے دہن تک پھونچا ھوگا اور زمین ل رز رھی ھوگی‪ ،‬بہ ترین ح ال اس‬
‫کا ھوگا جو اپ نے ق دم جم انے کی جگہ حاصل ک رلے گا اور جسے س انس لی نے کا موقع مل ج ائے گ ا“۔‬

‫اتے ھیں‬ ‫الم فرم‬ ‫دین علیہ الس‬ ‫ام زین العاب‬ ‫اجدین ام‬ ‫ید الس‬ ‫رت س‬ ‫رح حض‬ ‫‪:‬اسی ط‬

‫العجب کل العجب لمن شک فی ہللا وھو یری الخلق ‪،‬والعجب کل العجب لمن انکر الموت وھو یری من یموت کل یوم و لیلة‪ ،‬والعجب کل ”‬
‫االولی‪ ،‬والعجب کل العجب لع امر دار الفن اء و ی ترک دار البق اء“۔[‪]33‬‬
‫ٰ‬ ‫العجب لمن انکر النش اة االخ رة وھو ی ری النش اة‬

‫واقعا ً بہت زیادہ تعجب ھے اس شخص پر جو مخلوق کو تو دیکھ رھاھو لیکن خ دا کے وج ود کا انک ار ک رے‪ ،‬اور بہت زی ادہ تعجب”‬
‫ھے اس شخص پرجو موت کا انکار کرے اور وہ آئے دن مرنے والوں کو دیکھ رھاھو‪ ،‬اور واقع ا ً تعجب ھے اس ش خص پر جو روز‬
‫قیامت کا انکار کرے جبکہ وہ خلقت اول کو دیکھ رھاھو‪ ،‬اور بہت زیادہ تعجب ھے اس شخص کے لئے جو اس ف انی ھونے والی دنیا‬
‫رک کربیٹھا ھے“۔‬ ‫اء کو ت‬ ‫میں لگا ھوا ھے اور دار بق‬

‫اع‬ ‫ل‪ :‬اجم‬ ‫ری دلی‬ ‫تیس‬

‫روز قیامت ایک ایسا عقیدہ ھے جس پر تمام ھی اسالمی فرق وں کااجم اع اور اتف اق ھے‪ ،‬اور اس کے حتمی ھونے پر کسی کو ک وئی‬
‫اختالف نھیں ھے‪ ،‬اور سبھی اسالمی فرقے قیامت کے عقیدہ کو ضروریات دین [‪]34‬میں شمار کرتے ھیں اور اس عقی دہ کے وج وب‬
‫کے قائل ھیں‪ ،‬اور جو لوگ اس عقیدہ کا انکار کرتے ھیں وہ مس لمانوں کی فہرست سے خ ارج ھیں‪]35[ ،‬اور یھی وہ عقی دہ ھے جس‬
‫ک یَوْ ِم ال ِّدی ِْن۔>گویا یہ اس بات کا اع تراف ھے کہ م وت کے بعد ایک دن زن دہ کیا‬
‫کا ہر مسلمان نماز پنجگانہ میں اقرار کرتا ھے‪< :‬مالِ ِ‬
‫انتے ھیں۔‬ ‫بھی م‬ ‫دہ کو س‬ ‫ائے گا ‪ ،‬اور اس عقی‬ ‫ج‬

‫تمام ادیان اور شریعتیں اس بات پر متفق ھیں کہ مرنے کے بعد ایک حیات ھوگی اگرچہ موت کے بعد زندگی کی کیفیت کے بارے میں‬
‫اختالف پایا جاتا ھے‪ ،‬جیسا کہ ھم نے قیامت کے اصطالحی معنی میں اقوال ذکر ک ئے ھیں‪ ،‬ھم یہ اں پر ان اق وال کی نقد و تحقیق نھیں‬
‫کرنا چاہتے اور نہ ھی یہاں پر یہ بیان کرنا چاہتے ھیں کہ کونسا قول صحیح ھے اور کون باطل‪،‬یہاں پر اھم بات اصل عقیدہ قیامت کو‬
‫ثابت کرنا ھے کہ انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا چاھے کسی بھی طرح ھو اور اس کو اس کے اعمال و کردار کی جزا‬
‫دی جائے گی اگر اچھے اعمال انجام دئے ھیں تو اس کی جزا بھی اچھی دی جائے گی اور اگر ب رے اعم ال ک ئے ھیں تو ان کی س زا‬
‫بھی بُ ری ھی دی ج ائے گی‪ ،‬اور اس ب ات پر تم ام ھی ادی ان متفق ھیں‪ ،‬کی ونکہ یہ ب ات عقلی ط ور پر ممکن ھے اور ق رآنی و دیگر‬
‫ان کیا گیا ھے۔‬ ‫اتھ بی‬ ‫احت کے س‬ ‫ابوں میں وض‬ ‫مانی کت‬ ‫آس‬
‫ل‪ :‬دلیل عقلی‬ ‫وتھی دلی‬ ‫چ‬

‫بہت سے فالسفہ اور متکلمین نے محض عقلی دالئل اور برہان کے ذریعہ قیامت کے ضروری ھونے کو ث ابت کیا ھے‪ ،‬جیسا کہ خ ود‬
‫قرآن مجید میں بھی بہت سے عقلی اور فطری دالئل کے ذریعہ قیامت اور حیات آخرت کا انکار کرنے والوں کے ج واب میں ث ابت کیا‬
‫ھے‪ ،‬اور یہ بات واضح کی ھے کہ قیامت کا وجود ضروری اور حتمی ھے‪ ،‬ھم یہ اں پر اپ نے مع زز ق ارئین کے ل ئے چند دالئل پیش‬
‫رتے ھیں‬ ‫‪:‬ک‬

‫ان مماثلة‪۱‬‬ ‫۔ برہ‬

‫مرحوم عالمہ حلّی تحریر فرماتے ھیں‪ :‬ھم ارے ع الم کا مماثل (ھم مثل ) ع الم بھی ممکن الوج ود ھے کی ونکہ مثلین (ایک ط رح کی‬
‫دوچ یزوں) کا حکم ایک ھوتا ھے‪ ،‬ل ٰہ ذا جب یہ ع الم ممکن الوج ود ھے تو پھر دوس را ع الم بھی ممکن الوج ود ھے۔[‪]36‬‬

‫‪:‬جیسا کہ قرآن مجید میں دنیاوی اور آخرت کی زندگی کی مماثلت کی بعض مثالیں بیان کی گ ئی ھیں اور یہ ش باہت دو ط رح کی ھے‬

‫دم کے بعد ھوگی۔ ‪۱‬‬ ‫دگی بھی ع‬ ‫ری زن‬ ‫ود میں آئی اور دوس‬ ‫دم سے وج‬ ‫دگی ع‬ ‫۔ پہلی زن‬

‫۔آخ رت کی زن دگی کی مث ال اس زمین سے دی گ ئی ھے کہ جو پہلے م ردہ ھو پھر زن دہ ھوج ائے اور یہ اں ھم اری عقل مثلین کے‪۲‬‬
‫اتی ھے۔‬ ‫ارے میں ایک حکم لگ‬ ‫ب‬

‫عقل حکم کرتی ھے کہ ایک جیسی چ یزوں کا حکم بھی ایک ھی ھونا چ اہئے‪ ،‬جس سے یہ ب ات واضح ھوج اتی ھے کہ جو ذات پہلی‬
‫‪،‬زن دگی پر ق ادر ھے وہ دوس ری زن دگی پر بھی ق ادر ھے‪ ،‬کی ونکہ یہ دون وں ایک دوس رے کے مش ابہ ھیں‬

‫شباہت کی پہلی قسم‪ :‬ھم اس بات سے روز قیامت پر دلیل قائم کرنا چاہتے ھیں مبداء کی بنا پر‪ ،‬کی ونکہ ان دون وں میں ش باہت پ ائی‬
‫جاتی ھے‪ ،‬جیسا کہ قرآن کریم نے بھی پہلی شباہت کے طریقہ پر معاد کے امکان کو ثابت کیا ھے‪ ،‬کیونکہ دنیا میں انس ان کی پی دائش‬
‫عدم سے ھوئی ھے‪( ،‬جیسا کہ حضرت آدم علیہ السالم کو بغیر م اں ب اپ کے پی دا کیا ھے) اس کے بعد ق رآن میں بی ان کیا گیا ھے کہ‬
‫اد ٰالھی ھوتا ھے‬ ‫ائیں گے‪ ،‬ارش‬ ‫ئے ج‬ ‫دہ ک‬ ‫ارہ زن‬ ‫رنے کے بعد دوب‬ ‫‪:‬م‬

‫طفَ ٍة ثُ َّم ِم ْن َعلَقَ ٍة ثُ َّم ِم ْن ُمضْ َغ ٍة ُم َخلَّقَ ٍة َو َغی ِْر ُم َخلَّقَ ٍة لِنُبَیِّنَ لَ ُک ْم َونُقِ رُّ فِی <‬ ‫ب ثُ َّم ِم ْن نُ ْ‬ ‫ث فَِٕانَّا خَ لَ ْقنَا ُک ْم ِم ْن تُ َرا ٍ‬ ‫ب ِم ْن ْالبَ ْع ِ‬ ‫یَااٴَیُّہَا النَّاسُ ِٕا ْن ُک ْنتُ ْم فِی َر ْی ٍ‬
‫ااْل ٴَرْ َح ِام َما نَشَا ُء ِٕالَی اٴَ َج ٍل ُم َس ّمًی ثُ َّم نُ ْخ ِر ُج ُک ْم ِط ْفاًل ثُ َّم لِتَ ْبلُ ُغوا اٴَ ُش َّد ُک ْم َو ِم ْن ُک ْم َم ْن یُتَ َوفَّی َو ِم ْن ُک ْم َم ْن یُ َر ُّد ِٕالَی اٴَرْ َذ ِل ْال ُع ُم ِر لِ َک ْیالَیَ ْعلَ َم ِم ْن بَ ْع ِد ِع ْل ٍم‬
‫ْی ٍء قَ ِدیر>[‪]37‬‬ ‫ِّل َش‬ ‫ق َواٴَنَّہُ یُحْ یي ْال َم وْ تَی َواٴَنَّہُ َعلَی ُک‬ ‫ُّ‬ ‫ک بِ اٴَ َّن هللاَ ہُ َو ْال َح‬ ‫َ‬ ‫الی) َذلِ‬ ‫ٰ‬ ‫َش ْیئًا۔> (الی ق ولہ تع‬

‫اگر تم کو (مرنے کے بعد)دوبارہ زندہ ھونے میں کسی طرح کا شک ھے تو اس میں شک نھیں کہ ھم نے تمھیں (شروع شروع) مٹی”‬
‫سے اس کے بعد نطفہ سے اس کے بعد جمے ھوئے خون سے پھر اس لوتھڑے سے جو پورا (سڈول )ھویا ادھورا ھو پی دا کیا ت اکہ تم‬
‫پر (اپنی قدرت )ظاہر کریں(پھر دوبارہ زندہ کرنا کیا مش کل ھے)اور ھم عورت وں کے پیٹ میں جس (نطفہ)کو چ اہتے ھیں ایک م دت‬
‫معین تک ٹھہرا رکھتے ھیں پھر تم کو بچہ بنا کر نکالتے ھیں پھر (تمھیں پالتے ھیں)تاکہ تم اپنی ج وانی تک کو پہنچو اور تم میں سے‬
‫کچھ لوگ تو ایسے ھیں جو (قبل بڑھاپے کے)مر جاتے ھیں اور تم میںسے کچھ لوگ ایسے ھیں جو ناکارہ زندگی (بڑھاپے )تک پھ یر‬
‫الئے جاتے ھیں تاکہ سمجھنے کے بعد سٹھیا کے کچھ بھی (خاک)نہ سمجھ سکے اور تو زمین کو مردہ (بیکارافتادہ)دیکھ رہ اھے پھر‬
‫جب ھم اس پر پ انی بر س ادیتے ھیں تو لہلہ انے اور ابھ رنے لگ تی ھے اور ہر ط رح کی خوش نما چ یز یں اُگ ائی ھیں “۔‬

‫وادی ع دم سے ہس تی وج ود میں الی ا‪ ،‬اس کو عقل و زب ان‬


‫ٴ‬ ‫پس انسان قابل ذکر نہ تھا خداوندعالم نے اس کو مٹی سے خلق فرمای ا‪ ،‬اور‬
‫عطا کیا اور اس کو احسن تقویم قرار دیا‪ ،‬لہٰ ذا اگر اس کو مرنے اور اس کے اعضاء کے مٹی میں ملنے کے بعددوبارہ زن دہ کیا ج ائے‬
‫تو اس میں کسی طرح کا ک وئی شک و ش بہ نھیں ھے‪ ،‬کی ونکہ اس دنیا میں اس کی خلقت اور وج ود (آخ رت کے زن دگی) سے مش ابہ‬
‫ھے‪ ،‬اور دو مشابہ چیزوں کا حکم ایک ھوتا ھے ان دونوں کے درمی ان عقل ف رق نھیں ک رتی‪ ،‬بلکہ ایک کے وج ود کو دوس رے کے‬
‫وجود پر دلیل قرار دیتی ھے‪ ،‬جبکہ پہلی زن دگی تو ع دم سے ھے اور دوس ری زن دگی تو ان کے اعض اء کے ذریعہ ھوگی‪ ،‬بہرح ال‬
‫اد فرمایا ھے‬ ‫دعالم نے ارش‬ ‫ود خداون‬ ‫دگی اعظم اور اھم ھے‪ ،‬جیسا کہ خ‬ ‫‪:‬پہلی زن‬

‫َما َوا ِ َ‬
‫ت َوااْل ٴرْ ِ‬
‫ض>[‪<]38‬‬ ‫ُل ااْل ٴَ ْعلَی فِی َّ‬
‫الس‬ ‫َونُ َعلَ ْی ِہ َولَہُ ْال َمثَ‬ ‫َو ٴاَ ْہ‬ ‫ُدہُ َوہُ‬ ‫ق ثُ َّم ی ُِعی‬
‫َ‬ ‫َداٴُ ْالخَ ْل‬ ‫َو الَّ ِذی یَ ْب‬ ‫َوہُ‬
‫اور وہ ایسا (قادرمطلق) ھے جو مخلوقات کو پہلی بار پیدا کرتا ھے پھر دوبارہ (قیامت کے دن )پیدا کرے گا اور یہ اس پر بہت ٓاس ان”‬
‫ان ھے “۔‬ ‫اال تر اسی کی ش‬ ‫مان و زمین میں سب سے ب‬ ‫ھے اور ٓاس‬

‫‪:‬اس برہ ان اور دلیل میں وہ تم ام آی ات ش امل ھیں جو مب دا اور مع اد کو حکم کے لح اظ سے مس اوی اور برابر ج انتی ھیں‬

‫ونَ >[‪۱]39‬‬ ‫ُدہُ ثُ َّم ِٕالَ ْی ِہ تُرْ َج ُع‬ ‫ق ثُ َّم ی ُِعی‬


‫َ‬ ‫د ٴَُوا ْالخَ ْل‬ ‫۔ < هللاُ یَ ْب‬

‫اوگے “۔”‬
‫خ دا ھی نے مخلوق ات کو پہلی ب ار پی دا کیا پھر وھی دوب ارہ (پی دا) ک رے گا پھر تم سب ل وگ اسی کو لوٹا ئے ج ٴ‬

‫َّر ٍة>[‪۲]40‬‬ ‫َر ُک ْم اٴَ َّو َل َم‬ ‫لْ الَّ ِذی فَطَ‬ ‫ُدنَا قُ‬ ‫یَقُولُونَ َم ْن یُ ِعی‬ ‫۔ < فَ َس‬

‫تو یہ لوگ عنقریب ھی تم سے پوچھیں گے کہ بھال ھمیں دوبارہ کون زندہ کرے گا تم کہدو کہ وھی (خ دا) جس نے تم کو پہلی م رتبہ”‬
‫ا“۔‬ ‫دا کی‬ ‫پی‬

‫ا ِعلِ ْینَ >[‪۳]41‬‬ ‫داً َعلَ ْینَا ٴاِنَّا ُکنَّا فَ‬ ‫ُدہُ َو ْع‬ ‫ق نُ ِعی‬
‫ٍ‬ ‫َد ْاٴنَا اٴَو ََّل َخ ْل‬ ‫۔< َک َمابَ‬

‫جس طرح ھم نے (مخلوقات کو)پہلی بار پی دا کیا تھا (اسی ط رح)دوب ارہ (پی دا) کر چھ وڑیں گے (یہ وہ)وع دہ (ھے جس کا کرن ا)ھم”‬
‫رکے رھیں گے“۔‬ ‫رور ک‬ ‫رالزم ھے اور ھم اسے ض‬ ‫پ‬

‫شباہت کی دوسری قسم‪ :‬قرآن کریم بہت سی آیات[‪ ]42‬میںقیامت کے اثبات کو شباہت کے طریقہ پر محسوس اور مشاہدہ کے ط ور پر‬
‫دوبارہ زندگی پر تاکید کی ھے ‪ ،‬جو مردہ زمین کو دوبارہ حی ات دینا ھے‪ ،‬زمین سے س بزہ پی دا کیا ھے جبکہ وہ خشک اور بے ج ان‬
‫ھوچکی تھی‪ ،‬اور موسم سرما میں مردہ ھوچکی تھی‪ ،‬اسی طرح روز قی امت میں دوب ارہ زن دگی میں ش باہت پ ائی ج اتی ھے جیسا کہ‬
‫درت ھوتا ھے‬ ‫اد ق‬ ‫‪:‬ارش‬

‫ک نُ ْخ ِر ُج ْال َم وْ تَی لَ َعلَّ ُک ْم تَ َذ َّکرُونَ >[‪]43‬‬ ‫ت فَاٴَنزَ ْلنَا بِ ِہ ْال َم ا َء فَاٴَ ْخ َرجْ نَا بِ ِہ ِم ْن ُک ِّل الثَّ َم َرا ِ‬
‫ت َک َذلِ َ‬ ‫اٴَقَلَّ ْ‬
‫ت َس َحابًا ثِقَ ااًل ُس ْقنَاہُ لِبَلَ ٍد َمیِّ ٍ‬

‫ھواوں کو بھیجتا ھے یہ اں تک کہ جب ھوائیں”‬ ‫ٴ‬ ‫اور وھی تو وہ (خدا) ھے جو اپنی رحمت (ابر) سے پہلے خ وش خ بری دی نے والی‬
‫(پانی سے بھرے )بوجھل ب ادلوں کو لے اڑیں تو ھم نے ان کو کسی ش ہر کی ط رف (جو پ انی کی نای ابی سے گوی ا)مرچکا تھا ہنکادیا‬
‫پھر ھم نے اس سے پ انی برس ایا پھر ھم نے اس سے ہر ط رح کے پھل (زمین س ے)نک الے ھم ی ونھی (قی امت کے دن زمین سے )‬
‫رو“۔‬ ‫برت حاصل ک‬ ‫یحت و ع‬ ‫اکہ تم نص‬ ‫الیں گے ت‬ ‫ردوں کو نک‬ ‫م‬

‫قارئین کرام! یہ دونوں آیتیں عقل کے لئے یہ بات ثابت کرتی ھیں کہ دو مشابہ چیزوں کا حکم ایک جیسا ھوتا ھے‪ ،‬جب م ردہ زمین کو‬
‫زن دگی مل س کتی ھے تو پھر م ردہ انس ان بھی دوب ارہ زن دہ کیا جاس کتا ھے‪ ،‬اور دوس ری چ یزوں کو بھی زن دہ کیا جاس کتا ھے۔‬

‫ک لَ ُمحْ یِی ْال َم وْ تَی “ سے م راد زمین کے زن دہ‬


‫عالمہ طباطبائی (رحمة ہللا علیہ )اپنی تفسیر میں تحریر ک رتے ھیں‪ :‬آیہ ش ریفہ ” ِٕا َّن َذلِ َ‬
‫ھونے اور دوسرے مردوں کی زندہ ھونے میں شباہت پر داللت ھے‪ ،‬کیونکہ دونوں میں م وت پ ائی ج اتی ھے یع نی زن دگی کے آث ار‬
‫ختم ھوجاتے ھیں اور زندگی ان ھی آثار کے ختم ھونے کے بعد دوب ارہ واپس آنے کا ن ام ھے‪ ،‬اور جب زمین اور نبات ات میں دوب ارہ‬
‫زندگی ثابت ھوچکی ھے تو پھر انسان اور غیر انسان کی حیات اور زندگی بھی انھیں کے مشابہ ھے‪ ،‬اور”حکم االمثال فی ما یجوز و‬
‫فی ما الیجوز واح د۔“( مش ابہ اور ایک دوس رے کے مثل چ یزوں کا حکم ممکن اور غ یر ممکن میں ایک ھوتا ھے) پس جب ان بعض‬
‫چیزوں میں دوبارہ زندگی ثابت ھوگئی جیسے زمین اور نباتات تو پھر دوس ری چ یزوں کے ل ئے بھی یھی حکم ممکن اور ث ابت ھے۔[‬
‫‪]44‬‬

‫قرآن کریم نے اسی معنی و مفھوم کی طرف اشارہ کیا ھے کہ انسان کی خلقت نباتات کی ط رح ھے اسی ط رح اس کی دوب ارہ زن دگی‬
‫اد ھوتا ھے‬ ‫‪:‬بھی ھے‪ ،‬ارش‬

‫ض نَبَاتًا ‪ #‬ثُ َّم یُ ِعی‬ ‫َ‬ ‫َ‬


‫ا۔>[‪<]45‬‬ ‫ِر ُج ُک ْم ِٕا ْخ َرا ًج‬ ‫ُد ُک ْم فِیہَا َوی ُْخ‬ ‫َوهللاُ اٴ ْنبَتَ ُک ْم ِم ْن ااْل ٴرْ ِ‬

‫“ اور خدا ھی نے تم کو زمین سے پی دا کیا پھر تم کو اسی میں دوب ارہ لے ج ائے گا اور (قی امت میں اسی س ے)نک ال کھ ڑا ک رے گا”‬
‫درت‪۲‬‬ ‫ان ق‬ ‫۔برہ‬

‫جب خداوندعالم کی قدرت عظیم اور بے انتھاھے تو اس کی قدرت ہر مقدور شئے سے متعلق ھوسکتی ھے‪ ،‬اور خداکی یہ قدرت تم ام‬
‫چیزوں پر یکساں اور برابر ھے چاھے وہ کام آسان ھو یا مشکل ‪ ،‬اور یھی بات اس آیت سے ظاہر ھوتی ھے‪ِٕ< :‬ا َّن هللاَ َعلَی ُک ِّل َش ْی ٍء‬
‫‪ :‬قَ ِدیرٌ۔> ق رآنی آی ات دون وں طریق وں سے قی امت پر اس تدالل ق ائم ک رتی ھے ‪ ،‬کہ خ دا کی ق درت ع ام اور المح دود ھے‬

‫پہلی صورت‪ :‬خداوندعالم نے بہت سی آیات[‪ ]46‬میںمعاد اور روز قیامت کے سلسلے میں اپنی اس ق درت کا اظہ ار کیا ھے جس میں‬
‫اس بات کا اشارہ موجود ھے کہ جو ذات گرامی عدم سے وجود عطا ک رنے میں ق درت رکھ تی ھے‪ ،‬اس کے ل ئے ان کو دوب ارہ پلٹانا‬
‫اد ھوتا ھے‬ ‫ان ھے‪ ،‬ارش‬ ‫‪:‬آس‬

‫ق ثُ َّم هللاُ یُنش ِی ُء النَّ ْش اٴَةَ اآْل ِخ َرةَ<‬


‫ض فَا ْنظُرُوا َک ْیفَ بَ َداٴَ ْال َخ ْل َ‬ ‫َ‬ ‫اٴَ َولَ ْم یَرَوْ ا َک ْیفَ یُ ْی ِد ٴُ‬
‫ی هللاُ ْال َخ ْل َ‬
‫ق ثُ َّم ی ُِعی ُدہُ ِٕا َّن َذلِ َ‬
‫ک َعلَی هللاِ یَ ِسیرٌ‪#‬قُلْ ِسیرُوا فِی ااْل ٴرْ ِ‬
‫ِدیرٌ>[‪]47‬‬ ‫ْی ٍء قَ‬ ‫ِّل َش‬ ‫ِٕا َّن هللاَ َعلَی ُک‬

‫بس کیا ان لوگوں نے اس پر غور نھیں کیاکہ خداکس طرح مخلوقات کو پہلے پہل پیدا کرتا ھے اور پھر اس کو دوبارہ پیدا کرے گا یہ ”‬
‫تو خدا کے نزدیک بہت ٓاسان ھے (اے رسول ان لوگوں سے)تم کہدو کہ ذراروئے زمین پر چل پھر کر دیکھو تو کہ خدا نے کس طرح‬
‫پہلے پہل مخلوق کو پیدا کیا پھر( اسی طرح وھی)خدا (قیامت کے دن)ٓاخ ری پی دائش پی دا ک رے گابیشک خ دا ہر چ یز پر ق ادر ھے “۔‬

‫قارئین ک رام! آپ نے مالحظہ فرمایا کہ یہ دون وں م ذکورہ آی تیں انس ان کو خلقت میں غ ور و فکر ک رنے پر تحریک ک رتی ھیں ت اکہ‬
‫انسان کی عقل اپنے خالق اور مدبر کی معرفت میں اس تقالل اور اطمین ان پی دا ک رلے‪ ،‬اور انس ان یہ س مجھ لے کہ خ دا کی ق درت کے‬
‫سامنے معاد کی ضرورت ھے کیونکہ خدا کی قدرت بے انتھاھے‪ ،‬جیسا کہ قرآن مجید کی دوسری متعدد آیات میں اس بات پر زور دیا‬
‫اد ھوتا ھے‬ ‫‪:‬گیا ھے‪ ،‬ارش‬

‫ی ُر >[‪<]48‬‬ ‫فُ ْال َخبِ‬ ‫َو اللَّ ِطی‬ ‫ق َوہُ‬


‫َ‬ ‫اٴَالَیَ ْعلَ ُم َم ْن َخلَ‬

‫ار ھے“۔”‬ ‫ڑا باریک بیںواقف ک‬ ‫بر ھے اور وہ تو ب‬ ‫دا کیا وہ بے خ‬ ‫بھال جس نے پی‬

‫اد ھوتا ھے‬ ‫یز ارش‬ ‫‪:‬ن‬

‫<‬ ‫ِّدقُونَ >[‪]49‬‬ ‫ا ُک ْم فَلَوْ الَتُ َ‬


‫ص‬ ‫نَحْ نُ َخلَ ْقنَ‬

‫رتے“۔”‬ ‫دیق ک‬ ‫وں نھیں تص‬ ‫ارہ کی) کی‬ ‫دا کیا ھے پھر تم (دوب‬ ‫ار بھی )ھم ھی نے پی‬ ‫وں کو (پہلی ب‬ ‫تم لوگ‬

‫اد ھوا‬ ‫اں تک کہ ارش‬ ‫‪:‬یہ‬

‫ذ َّکرُونَ >[‪<]50‬‬ ‫اٴَةَ ااْل ٴُولَی فَلَوْ الَتَ‬ ‫ْد َعلِ ْمتُ ْم النَّ ْش‬ ‫َولَقَ‬

‫رتے‘ ‘۔”‬ ‫وں نھیں ک‬ ‫ور کی‬ ‫مجھ ھی لی ھے (کہ ھم نے کی)پھر تم غ‬ ‫دائش توس‬ ‫اور تم نے پہلی پی‬

‫یہ ب ات ظ اہر ھے کہ انس ان پہلی خلقت کا علم رکھتا ھے‪ ،‬اور یہ بھی جانتا ھے کہ اسی ذات نے اس کو پی دا کیا ھے اور اس کو اسی‬
‫کے لحاظ سے قدرت دی ھے اور اس کے امور کی تدبیر کرتا ھے‪ ،‬وھی ہللا تمام مخلوق ات کا خ الق ھے‪ ،‬اس کے عالوہ ک وئی اس کا‬
‫اد ٰالھی ھوتا ھے‬ ‫دبر نھیں ھے‪ ،‬ارش‬ ‫الق و م‬ ‫‪:‬خ‬

‫<‬ ‫ُدہُ>[‪]51‬‬ ‫ق ثُ َّم یُ ِعی‬


‫َ‬ ‫دوا ْال َخ ْل‬
‫ٴُ‬ ‫َرکَائِ ُک ْم َم ْن یَ ْب‬ ‫لْ ِم ْن ُش‬ ‫لْ ہَ‬ ‫قُ‬

‫پوچھو کہ تم نے جن لوگ وں کو (خ دا کا ) ش ریک بنایا ھے ک وئی بھی ایسا ھے جو مخلوق ات کو پہلی ب ار پی دا ) اے رس ول ان سے(”‬
‫رے“۔‬ ‫دہ ک‬ ‫ارہ زن‬ ‫رنے کے بعد )دوب‬ ‫رے پھر ان کو (م‬ ‫ک‬
‫درت ھوتا ھے‬ ‫اد ق‬ ‫یز ارش‬ ‫‪:‬ن‬

‫ونَ >[‪<]52‬‬ ‫ا ُک ْم ثُ َّم یُ ِمیتُ ُک ْم ثُ َّم یُحْ یِی ُک ْم ثُ َّم ِٕالَ ْی ِہ تُرْ َج ُع‬ ‫رُونَ بِاهللِ َو ُکنتُ ْم اٴَ ْم َواتًا فَاٴَحْ یَ‬ ‫فَ تَ ْکفُ‬ ‫َک ْی‬

‫اوںکے پیٹ میں)بے ج ان تھے تو اسی نے تم کو زن دہ کی اپھر وھی تم کو)ہائیں(”‬


‫کیوں کر تم خدا کا انکار کر سکتے ھوح االنکہ تم (م ٴ‬
‫اوگے“۔‬‫ٴ‬ ‫م ارڈالے گ اپھر وھی تم کو (دوب ارہ قی امت میں)زن دہ ک رے گ اپھر اسی کی ط رف لوٹ ائے ج‬

‫قارئین کرام! مذکورہ آیات کے پیش نظر یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ قدرت خدا کی نسبت پہلی اور دوس ری زن دگی کے ب ارے میں‬
‫ایک جیسی ھے وہ کسی کام کرنے سے عاجز نھیں ھے اور نہ اس کے ل ئے ک وئی ک ام کرنا مش کل ھے اور نہ ھی وہ کسی ک ام سے‬
‫اد ھوتا ھے‬ ‫‪:‬تھکتا ھے‪ ،‬ارش‬

‫ٍد>[‪<]53‬‬ ‫ق َج ِدی‬
‫ٍ‬ ‫س ِم ْن خَ ْل‬
‫لْ ہُ ْم فِی لَ ْب ٍ‬ ‫ق ااْل ٴَو َِّل بَ‬
‫ْالخَ ْل ِ‬ ‫اٴَفَ َعیِینَا بِ‬

‫کیا ھم پہلی بار پیدا کرکے تھک گئے ھیں (ہر گز نھیں ) مگر یہ لوگ از سر نو( دوبارہ ) پیدا کرنے کی نسبت شک میں پ ڑے ھیں“۔”‬

‫اور یہ بات بھی واضح ھوجاتی ھے کہ خلق اول اور خلق جدید کے بارے میں قدرت خدا امک ان اور وق وع کے لح اظ سے نفس واحد ہ‬
‫ار ھوتا ھے‬ ‫اد پروردگ‬ ‫رح ھے‪ ،‬ارش‬ ‫‪:‬کی خلقت کی ط‬

‫َد ٍة>[‪<]54‬‬ ‫ا َخ ْلقُ ُک ْم َوالَبَ ْعثُ ُک ْم ِٕاالَّ َکنَ ْف ٍ‬


‫س َوا ِح‬ ‫َم‬

‫تم سب کا پی دا کرنا اور پھر (م رنے کے بعد )جال اٹھانا ایک ش خص کے (پی دا) ک رنے اور جالاٹھ انے کے برابر ھے“۔”‬

‫لہٰ ذا خدا کے ل ئے ک وئی ک ام کرنا مش کل اور س خت نھیں ھے‪ ،‬یہ دلیل انس ان کے ل ئے عقی دہ مع اد کو ث ابت کردی تی ھے اور اس کی‬
‫تی ھے)‬ ‫افہ کردی‬ ‫ان میں اض‬ ‫ان کے ایم‬ ‫یز انس‬ ‫تی ھے‪(،‬ن‬ ‫اعث بن‬ ‫دیق کا ب‬ ‫تص‬

‫دوسری صورت‪ :‬خداوندعالم نے قیامت کے بارے میںاپنی ق درت کو خلقت زمین و آس مان کی خلقت پر م رتب کیا ھے یع نی جس خ دا‬
‫نے زمین و آس مان کو خلق کیا ھو اس کے ل ئے دوب ارہ پلٹانا ک وئی مش کل ک ام نھیں ھے‪ ،‬جیسا کہ ارش اد ھوتا ھے‬

‫ض قَ ا ِد ٌر َعلَی اٴَ ْن یَ ْخلُ َ‬


‫ق ِم ْثلَہُ ْم>[‪< ]55‬‬ ‫ت َوااْل ٴَرْ َ‬ ‫ق َّ‬
‫الس َما َوا ِ‬ ‫َوقَالُوا اٴَ ِء َذا ُکنَّا ِعظَا ًما َو ُرفَاتًا اٴَء ِنَّا لَ َم ْبعُوثُونَ َخ ْلقًا َج ِدیدًا اٴَ َولَ ْم یَرَوْ ا اٴَ َّن هللاَ الَّ ِذی َخلَ َ‬

‫اور کہنے لگے کہ جب ھم (مرنے کے بعدسڑگل کر)ہڈیاں ریزہ ریزہ ھوجائیں گے تو کیا پھر ھم از سر نو پیدا کرکے اٹھ ائے ج ائیں”‬
‫گے‪،‬کیا ان لوگوں نے اس پر بھی نھیں غور کیا کہ وہ خدا جس نے سارے ٓاسمان و زمین بنائے اس پر بھی (ض رور ) ق ادر ھے کہ ان‬
‫رے“۔‬ ‫دا ک‬ ‫کے ایسے ٓادمی پی‬

‫اد ھوتا ھے‬ ‫یز ارش‬ ‫‪:‬ن‬

‫ق ْال َعلِی ُم ‪ِٕ #‬انَّ َما اٴَ ْم ُرہُ ِٕا َذا اٴَ َرا َد َش ْیئًا اٴَ ْن یَقُ َ‬
‫ول لَہُ ُک ْن فَیَ ُک ون>[ <‬ ‫ض بِقَا ِد ٍر َعلَی اٴَ ْن یَ ْخلُ َ‬
‫ق ِم ْثلَہُ ْم بَلَی َوہُ َو ْالخَ الَّ ُ‬ ‫ت َوااْل ٴَرْ َ‬ ‫اٴَ َولَی َ‬
‫ْس الَّ ِذی َخلَ َ‬
‫ق ال َّس َم َ‬
‫اوا ِ‬
‫‪]56‬‬

‫جس خدانے سارے ٓاسمان اور زمین پیدا کئے کیا وہ اس پر قابو نھیں رکھتا کہ ان کے مثل دوبارہ پیدا کر دے ہاں(ضرورقدرت )بھال(”‬
‫رکھتاھے )اور وہ تو پیدا ک رنے واال واقف ک ار ھے اس کی ش ان تو یہ ھے کہ جب کسی چ یز کو (پی دا کرن ا) چاہتا ھے تو وہ کہہ دیتا‬
‫اتی ھے“۔‬ ‫وراً )ھو ج‬ ‫ھے کہ ھو جا تو (ف‬

‫زت ھوتا ھے‬ ‫اد رب الع‬ ‫ا ً ارش‬ ‫‪:‬ایض‬

‫ْی بِخَ ْلقِ ِہ َّن بِقَ ا ِد ٍر َعلَی اٴَ ْن یُحْ یِ َی ْال َم وْ تَی بَلَی ِٕانَّہُ َعلَی ُک ِّل َش ْی ٍء قَ ِدیر>[‪< ]57‬‬ ‫ت َوااْل ٴَرْ َ‬
‫ض َولَ ْم یَع َ‬ ‫ق َّ‬
‫الس َما َوا ِ‬ ‫اٴَ َولَ ْم یَ َروْ ا اٴَ َّن هللاَ الَّ ِذی َخلَ َ‬

‫کیاان لوگوں نے یہ نھیں غور کیا کہ جس خدا نے سارے ٓاسمان و زمین کو پی دا کیا اور ان کے پی دا ک رنے سے ذرا بھی تھکا نھیں وہ”‬
‫اس ب ات پر ق ادر ھے کہ م ردوں کو زن دہ ناکرپ ائے گا ہ اں(ض رور)وہ یقینا ہر چ یز پر ق ادر ھے“۔‬
‫قارئین کرام! اگر ھم زمین و آسمان کی خلقت پر غور و فکر کریں تو روز قیامت پر ھم ارے ایم ان میں اض افہ ھوج ائے گ ا‪ ،‬کی ونکہ‬
‫زمین و آسمان کی خلقت اتنی عظیم ھے(جیسا کہ اس عظیم وس عت‪ ،‬عجائب ات‪ ،‬چھ وٹے چھ وٹے نظ ام جن کو دیکھ کر انس ان ”انگشت‬
‫بدندان“ ھوجاتا ھے اور انسان ان میں ایک ذرہ ھے) تو پھر اس زمین و آسمان کا خلق کرنے واال روز قیامت دوب ارہ انس ان کو کیسے‬
‫‪:‬زن دہ نھیں کرس کتا؟! کی ونکہ زمین و آس مان کی خلقت کے س امنے انس ان کی خلقت بہت ھی آس ان ھے‪ ،‬ارش اد ٰالھی ھوت اھے‬

‫ونَ >[‪<]58‬‬ ‫َر النَّ ِ‬


‫اس الَیَ ْعلَ ُم‬ ‫اس َولَ ِک َّن اٴَ ْکثَ‬
‫ق النَّ ِ‬
‫ِ‬ ‫ُر ِم ْن خَ ْل‬ ‫ض اٴَ ْکبَ‬ ‫اوا ِ َ‬
‫ت َوااْل ٴرْ ِ‬ ‫َم َ‬ ‫ق َّ‬
‫الس‬ ‫ُ‬ ‫لَخَ ْل‬

‫سار ے ٓاسمان و زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے کی بہ نس بت یقی نی ب ڑا (ک ام ھے) مگر اک ثر ل وگ (اتن ابھی)نھیں ج انتے“۔”‬

‫اد ھوتا ھے‬ ‫یز ارش‬ ‫‪:‬ن‬

‫ک د ََحاھَا >[‪< ]59‬‬


‫َ‬ ‫َد ٰذلِ‬ ‫وَّاھَا ۔۔۔ َوااْل َرْ َ‬
‫ض بَ ْع‬ ‫ْم َکھَا فَ َس‬ ‫َع َس‬ ‫ما ُء بَنَاھَا َرفَ‬ ‫ا ً اٴَ ِم َّ‬
‫الس‬ ‫ُّد َخ ْلق‬ ‫َء اَ ْنتُ ْم اٴَ َش‬

‫بھال تمہ ارا پی دا کرنا زی ادہ مش کل ھے ‪،‬یا ٓاس مان کا کہ اسی نے اس کو بنایا اس کی چھت کو خ وب اونچا رکھا ۔۔۔۔۔۔اور اس کے بعد”‬
‫“۔‬ ‫پھیالیا‬ ‫کو‬ ‫زمین‬

‫یہاں پر قرآن مجید ان جاہل لوگوں کا جواب دیتا ھے جو قیامت کے منکر تھے اور معاد کو بعید از عقل س مجھتے تھے‪ ،‬کہ تے تھے‪<:‬‬
‫َوقَالُوا اٴَ ِء َذا ُکنَّا ِعظَا ًما َو ُرفَاتًا اٴَئِنَّا لَ َم ْبعُوثُونَ خَ ْلقًا َج ِدیدًا ۔>[‪”( ]60‬اور یہ لو گ کہ تے ھیں کہ جب ھم (مر نے کے بعد سڑ گل ک ر) ہ ڈیاں‬
‫رہ جائیں گے اور ریزہ ریزہ (ھو جائیں گے)تو کیا از سر نو پیدا کر کے اٹھا جائیں گے“) تو خداوندعالم نے اپ نی ق درت مطلقہ کا ذکر‬
‫رتے ھوئے فرمایا‬ ‫ریہ کو ر ّد ک‬ ‫رتے ھوئے ان کے اس نظ‬ ‫‪:‬ک‬

‫<‬ ‫ُور ُکم>[‪]61‬‬


‫د ِ‬ ‫ص‬
‫ُر فِی ُ‬ ‫دًا ٴاَوْ خَ ْلقًا ِم َّما یَ ْکبُ‬ ‫ا َرةً ٴاَوْ َح ِدی‬ ‫وا ِح َج‬ ‫لْ ُکونُ‬ ‫قُ‬

‫او یا لوھایا ک وئی اور چ یز جو تمہ ارے خی ال میں ب ڑی س خت ھو“۔)اے رس ول(”‬


‫تم کہ دو کہ تم (م رنے کے بع د)چ اھے پتھر بن ج ٴ‬

‫خدا نے ان کو پتھر یا لوھایا ان کے خیال میں سخت سے سخت چیز بن جانے کا حکم دیا یعنی جو چ اھوبن ج اؤ لیکن خداون دعالم تم کو‬
‫مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرلے گ ا‪ ،‬اس آیت میں اس ب ات کی ط رف اش ارہ ھے کہ خ دا کی ق درت مطلق اور بے پن اہ ھے‪ ،‬اس کے‬
‫ل ئے ک وئی مش کل نھیں ھے چ اھے تم گل س ڑکر م ٹی بن ج اؤ یا پتھر اور لوھابن ج اؤ وغ یرہ۔[‪]62‬‬

‫ان حکمت‪۳‬‬ ‫۔ برہ‬

‫بے شک خداوند عالم اپنے کاموں میں حکیم ھے (یع نی اس کے تم ام ک ام حکمت کے تحت اور حس اب و کت اب کی بنا پر ھوتے ھیں)‬
‫اور اس کے تمام کام چاھے عالم تکوینی میں ھوں یا عالم تشریعی میں؛ ان تمام کو حکمت کے تحت اور ہدف کے ساتھ انج ام دیتا ھے‪،‬‬
‫یہ عجیب نظام کائنات اپنے چھوٹے سے کام میں بھی خاص مقصد کے تحت حرکت کرتا ھے‪ ،‬اور اپنے بہ ترین ن تیجہ کو حاصل کرتا‬
‫ھے‪ ،‬اسی طرح عالم تشریع میں بھی تمام چھوٹی ب ڑی چ یزیں حکمت ٰالھی کے تحت ھوتی ھیں جن میں لغو اور بے فائ دگی کا ک وئی‬
‫دعالم فرماتا ھے‬ ‫انچہ خداون‬ ‫ا‪ ،‬چن‬ ‫ائبہ نھیں ھوت‬ ‫‪:‬ش‬

‫ونَ >[‪<]63‬‬ ‫ا ُک ْم َعبَثًا َواٴَنَّ ُک ْم ِٕالَ ْینَا الَتُرْ َج ُع‬ ‫ْبتُ ْم اٴَنَّ َما خَ لَ ْقنَ‬ ‫اٴَفَ َح ِس‬

‫اوگے“۔ ”‬
‫تو کیا تم یہ خی ال ک رتے ھو کہ ھم نے تم ک و(ی وںھی )بیک ار پی دا کیا اور یہ کہ تم ھم ارے حض ور میں لوٹا کر نہ الئے ج ٴ‬

‫اد ھوتا ھے‬ ‫یز ارش‬ ‫‪:‬ن‬

‫رُوا ِم ْن النَّ ِ‬
‫ار >[‪<]64‬‬ ‫ٌل لِلَّ ِذینَ َکفَ‬ ‫رُوا فَ َو ْی‬ ‫ک ظَ ُّن الَّ ِذینَ َکفَ‬
‫َ‬ ‫ا ِطالً َذلِ‬ ‫َما َء َوااْل ٴَرْ َ‬
‫ض َو َما بَ ْینَہُ َما بَ‬ ‫َو َما خَ لَ ْقنَا َّ‬
‫الس‬

‫اور ھم نے ٓاس مان اور زمین اور جو چ یزیں ان دون وں کے درمی ان ھیں بیک ار نھیں پی دا کیا یہ ان لوگ وں کا خی ال ھے جو ک افر ھو”‬
‫وس ھے“۔‬ ‫وگ دوزخ کے منکر ھیں ان پر افس‬ ‫بیٹھے تو جو ل‬

‫اد ھوا‬ ‫ا ً ارش‬ ‫‪:‬ایض‬


‫<‬ ‫ی >[‪]65‬‬
‫د ً‬ ‫ک ُس‬
‫َر َ‬ ‫انُ اٴَ ْن یُ ْت‬ ‫نس‬
‫بُ إِاْل َ‬ ‫اٴَیَحْ َس‬

‫ائے گا “۔ ”‬ ‫وڑ دیا ج‬ ‫وں ھی چھ‬ ‫مجھتا ھے کہ وہ ی‬ ‫ان یہ س‬ ‫اا نس‬ ‫کی‬

‫دمے ھیں‬ ‫کتا ھے‪ ،‬جس کے دو مق‬ ‫ان کیا جاس‬ ‫کل میں بھی بی‬ ‫اس کی ش‬ ‫ان کو قی‬ ‫رام! اس برہ‬ ‫ارئین ک‬ ‫‪:‬ق‬

‫احب حکمت ھے۔‪۱‬‬ ‫دعالم ص‬ ‫۔ خداون‬

‫ا۔‪۲‬‬ ‫ام نھیں کرت‬ ‫دہ ک‬ ‫وئی بے ھودہ اور بے فائ‬ ‫احب حکمت ک‬ ‫۔ص‬

‫پس ان دونوں مقدموں کو مالنے سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ خداوندعالم کوئی عبث اوربے ھودہ کام نھیں کرتا‪ ،‬اب اگر انس ان کے ل ئے‬
‫معاد نہ ھو تو اس کا خلق کرنا عبث اور بے فائدہ ھے‪ ،‬جبکہ خدا کی حکمت کا تقاضا یہ ھے کہ اس کا کوئی کام عبث اور بے ھودہ نہ‬
‫ھو‪ ،‬لہٰ ذا ض روری ھے کہ انس ان روز قی امت پلٹایا ج ائے‪ ،‬ت اکہ وہ اں پر حکمت ٰالھی ظ اہر ھوس کے۔‬

‫اوراگر انسان موت کے بعد نابود ھوج ائے‪ ،‬اور اس کے بعد اس کے ل ئے ک وئی دوس ری دنی ائے آخ رت نہ ھو جہ اں پر وہ س عادت و‬
‫شقاوت کی زندگی گزارے تو پھر اس دنیا میں اس کی خلقت بے فائ دہ ھوج ائے گی‪ ،‬کی ونکہ جب کسی ک ام کا ک وئی فائ دہ اور عقالئی‬
‫ہدف نہ ھو تو وہ کام عبث اور بے ھودہ ھوتا ھے‪ ،‬لہٰ ذا فائدہ اور ہدف مرتب کرنے کی خاطر مع اد کا ھونا ض روری ھے‪ ،‬کی ونکہ اگر‬
‫انس ان م وت کے بعد مع دوم ھوج ائے تو اس ک امطلب یہ ھے کہ اس کی خلقت کا ہ دف اور مقصد ص رف یھی چند روزہ مش کالت و‬
‫مص ائب کی دنیا تھی ‪ ،‬اور اس زن دگانی سے خداون دعالم ص رف حی ات دے کر مارنا چاہتا ھے‪ ،‬اورحی ات و زن دگی اسی ط رح کرتا‬
‫رھے اور اس کے کاموں کا کوئی مقصد نہ ھو !! واقعا ً اس چیز کو کوئی بھی عاقل انسان قبول نھیں کرسکتا‪ ،‬تو پھر صاحب حکمت و‬
‫جالل والی ذات اس کام کو کیونکر قبول کرسکتی ھے‪ ،‬کیونکہ خدا وندعالم کی حکمت سے ک وئی بے ھودہ اور باطل ک ام س رزد نھیں‬
‫یراً۔‬ ‫واً کب‬ ‫الی ہللا عن ذلک عل‬
‫ٰ‬ ‫ا‪ ،‬تع‬ ‫ھوت‬

‫لہٰ ذا مذکورہ گفتگو کے پیش نظر یہ بات ثابت ھوجاتی ھے کہ عالم آخرت اور قیامت کا ھونا ضروری ھے جس میں انسان کی خلقت کا‬
‫ہدف واضح ھوجائے‪ ،‬یہ وھی عالم ھے جس کو ”عالم بقا“( اور ق رآن کی )اص طالح میں” َحی َوان“ کھاجاتا ھے‪ ،‬ارش اد خداون دی ھوتا‬
‫‪:‬ھے‬

‫<‬ ‫ونَ >[‪]66‬‬ ‫انُوا یَ ْعلَ ُم‬ ‫وْ َک‬ ‫َوانُ لَ‬ ‫َرةَ لَ ِہ َی ْال َحیَ‬ ‫ار اآْل ِخ‬
‫َّد َ‬ ‫ٌو َولَ ِعبٌ َوِٕا َّن ال‬ ‫ُّد ْنیَا ِٕاالَّ لَ ْہ‬ ‫اةُ ال‬ ‫ِذ ِہ ْال َحیَ‬ ‫َو َما ہَ‬

‫اور یہ دنیا وی زندگی تو کھیل تما شے کے سوا کچھ نھیں اور اگر یہ لوگ سمجھیں بوجھیں تواس میں شک نھیں کہ ابدی زن دگی(کی”‬
‫رت کا گھر ھے “۔‬ ‫جگہ) تو بس ٓاخ‬

‫یہاں پر ھم ایسی قرآنی آیات پیش کرتے ھیں جو اس چیز کی تاکید کرتی ھیں کہ اس دنیا کی خلقت کی حکمت و مصلحت کے پیش نظر‬
‫اد ٰالھی ھوتا ھے‬ ‫روری ھے‪ ،‬ارش‬ ‫امت کا ھونا ض‬ ‫رت اور قی‬ ‫الم آخ‬ ‫‪:‬ع‬

‫ق َواٴَ َج ٍل ُم َس ّمًی َوِٕا َّن َکثِیرًا ِم ْن النَّ ِ‬


‫اس بِلِقَا ِء َرب ِِّہ ْم لَ َک افِرُونَ >[‪<]67‬‬ ‫ت َوااْل ٴَرْ َ‬
‫ض َو َما بَ ْینَہُ َما ِٕاالَّ بِ ْال َح ِّ‬ ‫اٴَ َولَ ْم یَتَفَ َّکرُوا فِی اٴَنفُ ِس ِہ ْم َما خَ لَ َ‬
‫ق هللاُ ال َّس َما َوا ِ‬

‫کیا ان لوگوں نے اپنے دل میں( اتنا بھی) غور نھیں کیا کہ خدا نے سارے ٓاسمان اور زمین کو اور جو چ یزیں ان دون وں کے درمی ان”‬
‫میں ھیں بس بالکل ٹھیک اور ایک مقررمیعاد کے واس طے خلق کیا ھے اور کچھ شک نھیں کہ بہت یرے ل وگ تواپ نے پروردگ ار (کی‬
‫انتے “۔‬ ‫رح نھیں م‬ ‫امت) ھی کو کسی ط‬ ‫ور (قی‬ ‫اہ)کے حض‬ ‫بارگ‬

‫اد ھوتا ھے‬ ‫یز ارش‬ ‫‪:‬ن‬

‫ص ِل ِمیقَ اتُہُ ْم اٴَجْ َم ِعینَ >[‪< ]68‬‬


‫ق َولَ ِک َّن اَٴ ْکثَ َرہُ ْم الَیَ ْعلَ ُم ونَ ِٕا َّن یَ وْ َم ْالفَ ْ‬
‫ض َو َما بَ ْینَہُ َما ٰل ِعبِینَ َما خَ لَ ْقنَاہُ َما ِٕاالَّ بِ ْال َح ِّ‬
‫ت َوااْل ٴَرْ َ‬ ‫َو َما خَ لَ ْقنَا َّ‬
‫الس َما َوا ِ‬

‫اور ھم نے سارے ٓاسمان و زمین اور جو چیزیں ان دونوں کے درمیان میںھیں ۔ ان کو کھیل تماشا کرنے کے لئے نھیں بنایا ان دون وں”‬
‫کو ھم نے بس ٹھیک (مص لحت س ے)پی دا کیا مگر ان میں کے بہت یرے ل وگ نھیں ج انتے بیشک فیص لہ (قی امت)کا دن ان سب (کے‬
‫رر وقت ھے“۔‬ ‫دہ ھونے)کا مق‬ ‫ارہ زن‬ ‫دوب‬
‫دالت‪۴‬‬ ‫ان ع‬ ‫۔ برہ‬

‫اء کرتا ھے‪۱‬‬ ‫امت کا اقتض‬ ‫ود قی‬ ‫رائض کا ھونا وج‬ ‫ئے ف‬ ‫ان کے ل‬ ‫‪:‬۔ انس‬

‫واضح رھے کہ خداوندعالم نے انسان کے لئے اس دنیا کو امتحان گاہ [‪]69‬اور آزمائش کی جگہ قرار دیا ھے‪ ،‬اس نے جہاں انس ان کو‬
‫جنبہ خیر عنایت کیا وھیں اس کو جنبہ شر بھی دیا ھے تاکہ وہ اس کے ذریعہ امتح ان دے س کے‪ ،‬اس کے س اتھ س اتھ خداون دعالم نے‬
‫اس انسان کو عقل بھی عنایت کی ھے جس سے وہ اچھائی اور برائی کے درمیان امتی از پی دا کرس کے‪ ،‬اس کے عالوہ خ دا نے انبی اء‬
‫اور مرسلین کو بھی بھیجا تاکہ خیر و ش ّر کے راس تہ کو معین ک ردیں‪ ،‬اس کے بعد خداون دعالم نے حق کی پ یروی کو واجب ق رار دیا‬
‫اور ش ّر اور برائی سے پرھیز کر نے کا حکم دیدیا‪ ،‬اس کے بعد انسان کو ارادہ و اختیار دیاتاکہ وہ اپنے ارادہ سے نیکی وں یا برائی وں‬
‫دی ھوتا ھے‬ ‫اد خداون‬ ‫کے‪ ،‬ارش‬ ‫تحق ھو س‬ ‫واب مس‬ ‫اب و ث‬ ‫نے پر عق‬ ‫ام دی‬ ‫‪:‬کے انج‬

‫نُ َع َمالً >[‪<]70‬‬ ‫َو ُک ْم اٴَیُّ ُک ْم اٴَحْ َس‬ ‫اةَ لِیَ ْبلُ‬ ‫وْ تَ َو ْال َحیَ‬ ‫ق ْال َم‬
‫َ‬ ‫الَّ ِذی َخلَ‬

‫ون ھے “۔”‬ ‫ام میں سب سے اچھا ک‬ ‫ائے کہ تم میں سے ک‬ ‫اکہ تمھیں ٓازم‬ ‫دا کیا ت‬ ‫دگی کو پی‬ ‫وت اور زن‬ ‫جس نے م‬

‫اً‬ ‫‪:‬ایض‬

‫ونَ >[‪<]71‬‬ ‫ت لَ َعلَّہُ ْم یَرْ ِج ُع‬


‫یِّئَا ِ‬ ‫ت َو َّ‬
‫الس‬ ‫نَا ِ‬ ‫اہُ ْم بِ ْال َح َس‬ ‫َوبَلَوْ نَ‬

‫ائیں“۔”‬ ‫رارت سے )بازٓاج‬ ‫اکہ وہ (ش‬ ‫رح)سے ٓازمایا ت‬ ‫وں ط‬ ‫اور دکھ (دون‬

‫اد ھوتا ھے‬ ‫یز ارش‬ ‫‪:‬ن‬

‫ونَ >[‪<]72‬‬ ‫ةً َو ٴاِلَ ْینَا تُرْ َج ُع‬ ‫ِر فِ ْتنَ‬ ‫رِّ َو ْال َخ ْی‬ ‫و ُکم بِ َّ‬
‫الش‬ ‫َو نَ ْبلُ‬

‫او گے “۔”‬
‫اور ھم تمھیں مص یبت و راحت میں امتح ان کی غ رض سے ٓازم اتے ھیں اور (ٓاخر ک ار) ھم اری ھی ط رف لوٹ ائے ج ٴ‬

‫اسی بنا پر دنیاوی زندگانی میں مختلف قسم کی پریشانیاں اور سختیاں‪ ،‬بیماری‪ ،‬ص حت ‪ ،‬مال داری اور غ ربت اور برائی وں کا رجح ان‬
‫اور نیکیوں سے بے رغبتی پائی جاتی ھے‪ ،‬یہ امتحان اور آزمائش ھے‪ ،‬اوریہاںپر کوئی ایسی چیز نھیں ھے جو جزا یا سزا بن سکے‪،‬‬
‫اور چ ونکہ ف رائض اور واجب ات کا ھونا اس ب ات کا تقاضا کرتا ھے کہ اس کے ل ئے ج زا یا س زا ھو اسی ل ئے روز قی امت کا ھونا‬
‫ضروری ھے تاکہ نیکی انجام دینے والوں کو نیک جزا دی جائے اور ب رائی ک رنے وال وں کو س زا دی ج ائے‪ ،‬اور اگر ایسا نہ ھو تو‬
‫پھر ف رائض اور واجب ات کا ک وئی فائ دہ نھیں ھوگا اور واجب ات و تک الیف لغو و بےک ار ھوج ائےں گے۔‬

‫اس سلسلہ میں عالمہ فاضل مقداد ۺکہتے ھیں‪ :‬اگر روز قیامت کا عقیدہ صحیح اور حق نہ ھو تو پھر واجبات و فرائض کا وجود قبیح‬
‫اور بُرا ھوگا‪ ،‬اور واجبات و فرائض قبیح نھیںھیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ عقیدہ قیامت بھی صحیح اور حق بجانب ھے کیونکہ فرائض‬
‫اور تکالیف ایک مشقت اور کلفت ھے‪ ،‬پس مشقت بغیر معاوضہ(اور بدلہ) کے ظلم ھے‪ ،‬اور یہ بدلہ فرائض کی ادائیگی کے وقت‬
‫نھیں ھے‪ ،‬تو اس کے لئے دوسرے جہان کا ھونا ضروری ھے تاکہ انسان کو اپنے اعمال کا بدلہ مل سکے‪ ،‬ورنہ تو واجبات اور‬
‫محرمات کا معین کرنا ظلم ھوجائے گا‪ ،‬جو قبیح اور بُرا ھے‪ ،‬خدا ظلم سے پاک و پاکیزہ ھے۔[‪]73‬‬

‫۔ وجود قیامت ‪،‬عدل ٰالھی کا تقاضا ھے‪۲‬‬

‫ھیں‪”:‬وعدہ (خدا) اور اس کی حکمت کا تقاضا یہ ھے کہ‬


‫ٴ‬ ‫عالمہ نصیر الدین طوسیۺ صاحب قیامت کو ثابت کرنے کے لئے کہتے‬
‫قیامت کا وجود ھو“۔ اس جملہ کی شرح میں عالمہ حلی ۺ فرماتے ھیں‪” :‬چونکہ خداوندعالم نے انسان سے ثواب و جزا کا وعدہ کیا‬
‫ھے اسی طرح عذاب کا بھی وعدہ کیا ھے‪ ،‬تو اس صورت میں قیامت کا ھونا ضروری ھے تاکہ خداوندعالم اپنے وعد و وعید پر وفا‬
‫کرے۔“[‪]74‬‬

‫کیونکہ اس بات میں کسی بھی انسان کو کوئی شک و شبہ نھیں ھے کہ انسان اس چند روزہ زندگی میں اپنے اعمال کی جزا یا سزا تک‬
‫نھیں پہنچتا‪ ،‬لہٰ ذا وہ متدین افراد جنھوں نے اپنی عمر عبادت و بندگی میں گزاردی ھواور معاشرہ کی فالح و بہبودی کے لئے زحمت‬
‫اٹھائی ھو ‪ ،‬اس سلسلہ میں مشکالت‪ ،‬سختیاں اور پریشانیاں برداشت کی ھوں ‪ ،‬تو کوئی بھی حکومت اس کے اعمال کی جزا اور ثواب‬
‫نھیں دے سکتی‪ ،‬اسی طرح انسانیت پر بڑے بڑے ظلم و ستم کرنے والے مجرمین کو جنھوں نے دوسروں پر ظلم و ستم کی وجہ سے‬
‫اس دنیا میں مزے اڑائے ھوں ‪،‬بعض اوقات تو مجرم غائب ھوجاتے ھیں اور اگر گرفتار بھی کرلئے جائیں تو ان کی سزا ان کے‬
‫جرائم سے بہت کم ھوتی ھے‪ ،‬مثالً اگر اس نے پچاس انسانوں کا خون بہایا ھو تو اگر اس کی سزا میں اس کو سولی بھی دی جائے تو‬
‫ایک انسان کا بدلہ ھوا ھے‪ ،‬اور باقی جرائم کا بدلہ باقی ھے‪ ،‬لہٰ ذا اس دنیا میں کوئی ایسی طاقت نھیں ھے جو اس کے تمام جرائم کی‬
‫سزا دے سکے۔‬

‫لیکن جب انسان مرجاتا ھے اور ظالم و مظلوم‪ ،‬صالح اور مفسد بغیر عادالنہ ثواب و عقاب کے قبروں کے حوالے کردئے جاتے‬
‫وعدہ ٰالھی کے‬
‫ٴ‬ ‫ھیںیعنی نیکی کرنے والوں کو ثواب نھیں ملتا اور ظلم و ستم کرنے والوں کو درد ناک عذاب نھیں ملتا‪ ،‬پس یہ چیز اس‬
‫خالف ھے جس کی بنا پر نیکی کرنے والوں اور ظلم و ستم کرنے والوں کے درمیان فرق قائم کرے اور نیک افراد کو ثواب دے اور‬
‫برے لوگوں کو عذاب دے‪ ،‬اور چونکہ یہ کام اس دنیا میں نھیں ھوتا ھے ل ٰہذا ایک ایسی عدالت (قیامت) کا ھونا ضروری ھے جہاں پر‬
‫خدا کا وعدہ عملی طور پر پورا ھو‪ ،‬اور انبیاء‪ ،‬اولیاء ‪ ،‬شہداء اور خدا کے نیک بندوں کے ساتھ کیا ھوا خدا کا وعدہ صادق ھو‪ ،‬اور‬
‫ظالمین و مفسدین سے انتقام لیا جائے۔‬

‫چنانچہ قرآن کریم نے اس دلیل کو وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا ھے‪ ،‬ان لوگوں کے مقابلہ میں جو نیک اور برے افراد کو‬
‫‪:‬برابر سمجھتے تھے‬

‫۔ جن آیات میں گناہگار اور اطاعت کرنے والوں میں روز قیامت فرق کیا جائے گا تاکہ ثواب و عذاب ‪ ،‬وعد و وعیدمحقّق ھو‪ ،‬اور یہ‪۱‬‬
‫سب کچھ عدل ٰالھی کا تقاضا ھے۔‬

‫‪:‬ارشاد رب العزت ھوتا ھے‬

‫ت بِ ْالقِ ْس ِط َوالَّ ِذینَ َکفَرُوا لَہُ ْم ش ََرابٌ ِم ْن َح ِم ٍیم <‬


‫ی الَّ ِذینَ آ َمنُوا َو َع ِملُوا الصَّالِ َحا ِ‬ ‫ِٕالَ ْی ِہ َمرْ ِج ُع ُک ْم َج ِمیعًا َو ْع َد هللاِ َحقًّا ِٕانَّہُ یَ ْب َداٴُ ْال َخ ْل َ‬
‫ق ثُ َّم یُ ِعی ُدہُ لِیَجْ ِز َ‬
‫َو َع َذابٌ اٴَلِی ٌم بِ َما کَانُوا یَ ْکفُرُونَ >[‪]75‬‬

‫تم سب کو (ٓاخر) اسی کی طرف لوٹنا ھے خدا کا وعدہ سچا ھے وھی یقینا مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا کرتا ھے پھر (مرنے کے”‬
‫بعد)وھی دوبارہ زندہ کرے گا تاکہ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کئے ان کو انصاف کے ساتھ جزائے خیر عطا‬
‫فرمائے گا ۔ اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لئے ان کے کفر کی سزامیں پینے کو کھولتا ھوا پانی اور دردناک عذاب ھوگا“۔‬

‫‪:‬نیز ارشاد ٰالھی ھوتا ھے‬

‫س ع َِن ْالھَ َو ٰی فَاٴِ َّن ْال َجنَّةَ ِھ َی ْال َم ْاٴ َو ٰی >[‪<]76‬‬


‫فَاٴَ َّما َم ْن طَغ َٰی َوٓاثَ َر ْال َحیَاةَ ال ُّد ْنیَا فَاٴِ َّن ْال َج ِحی َم ِھ َی ْال َم ْاٴ َو ٰی َواٴَ َّما َم ْن َخافَ َمقَا َم َربِّ ِہ َو نَھَی النَّ ْف َ‬

‫اور جس نے دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی اس کا ٹھکانا تو یقینا دوزخ ھے ۔مگر جو شخص اپنے پرور دگار کے سامنے کھڑے”‬
‫ھونے سے ڈرتا اور جولوگوں کونا جائز خواہشوں سے روکتا رھا۔تو اس کا ٹھکا نا یقینا بہشت ھے “۔‬

‫‪ :‬۔ جن آیات میں دونو ں کے برابر ھونے کو استفہام انکاری کے ذریعہ بیان کیا گیا ھے‪۲‬‬

‫‪:‬ارشاد پروردگار ھوتا ھے‬

‫اٴَفَ َم ْن َکانَ ُم ْؤ ِمنًا َک َم ْن َکانَ فَا ِسقًا الَیَ ْستَوُونَ >[‪<]77‬‬

‫تو کیا جو شخص ایمان دار ھے اس شخص کے برابر ھو جائے گا جو بدکار ھے(ہر گز نھیں یہ دونوں) بر ابر نھیں ھوسکتے“۔”‬

‫‪:‬نیز خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے‬

‫َ‬ ‫َ‬ ‫اٴَ ْم نَجْ َع ُل الَّ ِذینَ آ َمنُوا َو َع ِملُوا الصَّالِ َحا ِ‬
‫ض اٴ ْم نَجْ َع ُل ْال ُمتَّقِینَ ک َْالفُج ِ‬
‫َّار>[‪<]78‬‬ ‫ت ک َْال ُم ْف ِس ِدینَ فِی ااْل ٴرْ ِ‬
‫کیا جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور (اچھے اچھے ) کام کئے ان کو ھم ان لوگوں کے برابر کردیں جو روئے زمین میں فساد پھیالیا”‬
‫کرتے ھیں ۔یا ھم پرھیزگاروں کو مثل بدکاروں کے بنادیں“۔‬

‫‪:‬ایضا ً‬

‫ت اَٴ ْن نَجْ َعلَہُ ْم کَالَّ ِذینَ آ َمنُوا َو َع ِملُوا الصَّالِ َحا ِ‬


‫ت َس َوا ًء َمحْ یَاہُ ْم َو َم َماتُہُ ْم َسا َء َما یَحْ ُک ُمونَ > [‪<]79‬‬ ‫اٴَ ْم َح ِس َ‬
‫ب الَّ ِذینَ اجْ تَ َرحُوا ال َّسیِّئَا ِ‬

‫جو لوگ برے کام کرتے ھیں کیا وہ یہ سمجھتے ھیں کہ ھم انھیں لوگوں کے برابر کر دیں گے جو ایمان الئے اور اچھے اچھے کام”‬
‫بھی کرتے رھے اور ان سب کا جینا مرنا ایک ساں ھوگا یہ لوگ (کیا ) برے حکم لگاتے ھیں “۔‬

‫ت النَّ ِع ِیم اٴَفَنَجْ َع ُل ْال ُم ْسلِ ِمینَ ک َْال ُمجْ ِر ِمینَ َما لَ ُک ْم َک ْیفَ تَحْ ُک ُمونَ >[‪< ]80‬‬
‫ِٕا َّن لِ ْل ُمتَّقِینَ ِع ْن َد َرب ِِّہ ْم َجنَّا ِ‬

‫بیشک پر ھیز گار لوگ اپنے پروردگار کے ہاں عیش و ٓارام کے باغوں میں ھوں گے ۔تو کیا ھم فرنبرداروں کو نافرمانوں کے برابر”‬
‫کر دیں گے (ہرگزنھیں)تمھیں کیا ھوگیا ھے تم کیسا حکم لگاتے ھو“۔‬

‫‪Question no. 5‬‬

‫وأن علی العباد حفظۃ یکتبون أعمالھم‪ ،‬وال یسقط شئ من ذلک عن علم ربھم‪ ،‬وأن ملک الموت یقبض األرواح باذن" ‪[25]:‬‬
‫"ربہ۔‬

‫تعالی کے علم سے بھی کوئی عمل‬


‫ٰ‬ ‫ترجمہ‪ ":‬بندوں پر نگران فرشتے مقرر ہںن‪ ،‬جوان کے اعمال لکھتے ہیں‪ ،‬جبکہ ہللا‬
‫ساقط نہیں ہوتا(خواہ فرشتے لکھیں یا نہ ) اور ملک الموت فرشتہ ہللا کے اذن سے روحیں قبض کرتا ہے ۔‬

‫شرح‬

‫ث جبریل میں مذکور ہیں‬


‫‪:‬ایمان کے چھ اصولوں میں سے ایک اصل فرشتوں پر ایمان النا ہے ‪ ،‬یہ چھ اصول حدی ِ‬

‫"أن تؤمن باہلل ومال ئکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم اآلخر والقدر خیرہ شرہ"‬

‫تعالی پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن‬
‫ٰ‬ ‫ترجمہ‪":‬یہ کہ تو ہللا‬
‫"پر ایمان الئے ‪ ،‬اور تقدیر پر خواہ اچھی ہو یا بُری‬

‫فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں اس کی دلیل‪ ،‬صحیح مسلم(‪ )2996‬میں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی ہللا عنھا سے‬
‫مروی حدیث ہے ‪ ،‬رسول اللہﷺ نے فرمایا‪":‬خلقت المالئکۃ من نور‪ ،‬وخلق الجان من مارج من نار‪،‬‬
‫"وخلق آدم مما وصف لکم‬

‫یعنی‪ ":‬فرشتوں کو نور سے ‪ ،‬اور جنوں کو آگ کے بہت بھڑکنے والے شعلے سے پیدا کیا گیا ہے ‪ ،‬جبکہ آدم کو جس‬
‫"چیز سے پیدا کیا گیا ہے وہ تمہیں بتا دی گئی ہے (یعنی مٹی)۔‬

‫تعالی کا فرمان ہے‬


‫ٰ‬ ‫‪ :‬فرشتوں کے پر بھی ہوتے ہیں‪،‬ہللا‬

‫الحمدہلل فاطر السموات واالرض جاعل المال ئکۃ رسال اولی اجنحۃ مئنی وثلث وربع یزید فی الخلق مایشاء ان ہللا علی کل(‬
‫)شیء قدیر‬
‫ترجمہ‪":‬اس ہللا کیلئے تمام تعریفیں سزا وار ہیں جو ( ابتداء) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے واال اور دو دو‪ ،‬تین تین‪،‬‬
‫تعالی یقینا ً‬
‫ٰ‬ ‫چار چار ‪ ،‬پروں والے فرشتوں کو اپنا پیغمبر(قاصد) بنانے واال ہے ‪ ،‬مخلوق میں جو چاہے زیادتی کرتا ہے ہللا‬
‫" ہر چیز پر قادر ہے‬

‫جبریل امین کے چھ سو پر ہیں۔(صحیح بخاری(‪ )3232‬اور صحیح مسلم(‪)280‬‬

‫تعالی نے پیدا فرمایا ہے ‪ ،‬بلکہ دیگر‬


‫ٰ‬ ‫فرشتے ‪ ،‬انسانوں کے پاس اپنی اس ہئیت یا شکل میں نہیں آتے جن پر انہیں ہللا‬
‫شکلوں میں آتے ہیں‪ ،‬جیسا کہ جبریل ؑ کا رسول اللہﷺ کے پاس ایک غیر معروف آدمی کی شکل میں آنا‬
‫ث جبریل‪ ،‬جو امیر المؤمنین عمر بن خطاب ؓ کی روایت سے مروی ہے ‪ ،‬اور یہ صحیح مسلم میں‬ ‫ثابت ہے ۔ مالحظہ ہو حدی ِ‬
‫کتاب االیمان کی پہلی حدیث ہے ۔‬

‫جبریل ‪ ،‬وحیہ بن خلیفہ الکلبی کی شکل میں بھی رسول اللہﷺ کے پاس آیا کرتے تھے ‪ ،‬مریم‬ ‫ؑ‬ ‫اسی طرح‬
‫علیھا السالم کے پاس بھی بصورت بشر آئے ۔ مالئکہ ابراھیم ؑ کے پاس بھی انسانی شکل میں آئے تھے ‪ ،‬جیسا کہ ہللا‬
‫‪ :‬عزوجل کے اس فرمان میں ہے‬

‫ف اِ ْب ٰر ِه ْي ۘ َم(‬ ‫)الحجر‪َ ) (51:‬و نَبِّ ْئ ُه ْم عَنْ َ‬


‫ض ْي ِ‬

‫"ترجمہ‪":‬انہیں ابراھیم کے مہمانوں کا (بھی) حال سنادو‬

‫‪:‬نیز فرمایا‬

‫ف اِ ْب ٰر ِه ْي َم ا ْل ُم ْك َر ِمي ْۘنَ (‬
‫ض ْي ِ‬ ‫)الذاریات‪َ ) (24 :‬ه ْل اَ ٰتى َك َح ِد ْي ُ‬
‫ث َ‬

‫"ترجمہ‪":‬کیا تجھے ابراھیم کے معزز مہمانوں کی خبر بھی پہنچی ہے ؟‬

‫فرشتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ‪ ،‬جسے ہللا عزوجل کے سوا کوئی نہیں جانتا‪ ،‬جس کا ثبوت یہ ہے کہ "البیت المعمور"‬
‫جو ساتویں آسمان میں فرشتوں کی مسجد ہے میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں‪ ،‬اور جو فرشتے ایک بار‬
‫داخل ہو جاتا ہے دوبارہ نہیں ٹوٹ پاتا۔(صحیح بخاری(‪ )3207‬اور صحیح مسلم(‪)259‬‬

‫ت تعداد کی ایک اور دلیل‪ ،‬صحیح مسلم (‪ )2842‬کی یہ حدیث ہے‬


‫‪ :‬فرشتوں کی کثر ِ‬

‫عن عبدہللا ابن مسعود ؓ قال‪ :‬قال رسول اللہﷺ‪":‬یؤتی یجھنم یومئذ لھا سبعون ألف زمام مع کل زمام‬
‫"سبعون ألف ملک یجرونھا‬

‫عبد ہللا بن مسعود ؓ سے مروی ہے ‪ ،‬رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا‪":‬قیامت کے دن جہنم کو اس طرح‬
‫الیا جائے گا کہ وہ ستر ہزار لگاموں میں جکڑی ہو گی‪ ،‬ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتوں کی ڈیوٹی ہو گی‪ ،‬جواسے‬
‫کھینچ کر الئیں گے ۔" (صرف ان فرشتوں کی تعداد چار ارب نوے کروڑ بنتی ہے )‬

‫فرشتوں میں سے کچھ تو وحی پہنچانے پرمأ مور ہیں‪ ،‬کچھ بارش برسانے پر‪ ،‬کچھ موت پر ‪ ،‬کچھ عورتوں کے ارحام‬
‫پر‪ ،‬کچھ بندوں کی حفاظت پر‪ ،‬کچھ جنت پر‪ ،‬کچھ جہنم پر‪ ،‬اور کچھ ان کے عالوہ دیگر ڈیوٹیوں پر مقرر ہیں۔ تمام فرشتے‬
‫تعالی کے کسی امر کی نافرمانی نہیں‬
‫ٰ‬ ‫تعالی کے امر پر سرجھکانے والے اور فوری اطاعت کرنے والے ہیں‪ ،‬وہ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫کرتے اور وہی کچھ انجام دیتے ہیں جن کا انہیں پروردگار کی طرف سے حکم ملتا ہے ‪ ،‬قرآن و حدیث میں فرشتوں کی‬
‫بابت جو خبریں وارد ہوئی ہیں‪ ،‬ان پر ایمان النا اور مکمل تصدیق کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے ۔‬
‫مالئکہ کی ایک بڑی تعداد کو ‪ ،‬انسانوں کی حفاظت اور انک ے اعمال کی کتابت کی ڈیوٹی سونپی گئی ہے ‪ ،‬جیسا کہ)‪(2‬‬
‫تعالی کا فرمان ہے‬
‫ٰ‬ ‫‪ :‬ہللا‬

‫)االنفطار‪ 10:‬تا ‪َ ) (12‬و اِنَّ َعلَ ْي ُك ْم لَ ٰحفِ ِظي ْۙنَ ِك َرا ًما َكاتِبِي ْۙنَ اِنَّ ااْل َ ْب َر َ‬
‫ار لَفِ ْي نَ ِع ْي ۚ ٍم(‬

‫"ترجمہ‪":‬یقینا ً تم پر نگہبان عزت والے ‪ ،‬لکھنے والے مقرر ہیں۔ جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں‬

‫ش َما ِل(‬ ‫ب اِلَ ْي ِه ِمنْ َح ْب ِل ا ْل َو ِر ْي ِد اِ ْذ يَتَلَقَّى ا ْل ُمتَلَقِّ ٰي ۠ ِن َع ِن ا ْليَ ِم ْي ِن َو ع ِ‬


‫َن ال ِّ‬ ‫سه َو نَ ْحنُ اَ ْق َر ُ‬ ‫س بِه نَ ْف ُ‬ ‫س ِو ُ‬ ‫سانَ َو نَ ْعلَ ُم َما تُ َو ْ‬ ‫َو لَقَ ْد َخلَ ْقنَا ااْل ِ ْن َ‬
‫)ق‪16 :‬تا ‪) (18‬قَ ِع ْي ٌد َما يَ ْلفِظُ ِمنْ قَ ْو ٍل اِاَّل لَ َد ْي ِه َرقِ ْي ٌ‬
‫ب َعتِ ْي ٌد‬

‫ترجمہ‪":‬ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں جو خیاالت اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں اور ہم اس کی رگِ‬
‫جان سے بھی زیاہ اس سے قریب ہیں‪ ،‬جس وقت دو لینے والے جا لیتے ہیں ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف بیٹھا‬
‫" ہوا ہے ‪ ،‬انسان منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر کہ اس کے پاس نگہبان تیار ہے‬

‫وہ فرستے جنہیں بندوں کے اعمال کی کتابت کی ڈیوٹی سونپی گئی ہے ‪ ،‬وہ بندوں کے تمام اعمال و اقوال لکھ لیتے ہیں‪،‬‬
‫حتی کہ بندے اگر کسی نیکی یا بدی کا ارادہ کریں تو وہ بھی نوٹ کر لیتے ہیں‪ ،‬چنانچہ صحیح بخاری(‪ )7501‬اور صحیح‬
‫ٰ‬
‫‪ :‬مسلم(‪ )203‬میں ہے‬

‫عن ابی ھریرۃ ؓ أن رسول اللہﷺ قال‪":‬یقول ہللا‪ :‬اذا اراد عبدی ان یعمل سیئۃ فال تکتبو ھا علیہحتی یعملھا‬
‫‪ ،‬فان عملھا فا کتبو ھا بمئلھا ‪ ،‬وان ترکھا من أجلی فاکتبو ھالہ حسنۃ‪،‬وان اراد أن یعمل حسنۃ فلم یعملھا فاکتبو ھا لھا حسنۃ‬
‫"‪ ،‬فان عملھا فاکتبو ھا لہ بعشر أمثالھا الی سبعمأۃ‬

‫تعالی فرماتا ہے ‪":‬جب میرا بندہ کسی‬


‫ٰ‬ ‫ترجمہ‪ ":‬ابوھریرۃ ؓ سے مروی ہے ‪ ،‬رسول اللہﷺ نے فرمایا‪ :‬ہللا‬
‫برائی کا ارادہ کرتے تو اسے اس وقت تک نہ لکھو جب تک کر نہ لے اور جب کر لے تو ایک ہی گناہ لکھو‪ ،‬اور اگر‬
‫اسے میرے خوف سے چھوڑ دے تو اس کیلئے ایک نیکی لکھ دو۔ اور جب بندہ کسی نیکی کا ارادہ کر لے ‪ ،‬تو اگر وہ‬
‫نیکی نہ کر سکا تو بھی اس کیلئے ایک نیکی لکھ دو‪ ،‬اور اگر اس نے وہ نیکی کر لی‪ ،‬تو اسے دس گنا سے لے کر سات‬
‫"سوگنا تک بڑھا کر لکھ دو۔‬

‫اور جہاں تک فرشتوں کو انسانوں کی حفاظت کی ڈیوٹی سونپنے کا تعلق ہے ‪ ،‬تو یہ ان امور سے حفاظت ہے جو ہللا‬
‫تعالی ہر چیز کو خوب جاننے واال ہے ۔‬
‫ٰ‬ ‫تعالی چاہتا اور حکم فرماتا ہے ‪ ،‬اور ہللا‬
‫ٰ‬

‫تعالی کا فرمان ہے‬


‫ٰ‬ ‫‪ :‬ہللا‬

‫)الرعد‪) (11:‬لَه ُم َعقِّ ٰبتٌ ِّم ۢنْ َب ْي ِن َي َد ْي ِه َو ِمنْ َخ ْلفِه َي ْحفَظُ ْونَه ِمنْ اَ ْم ِر هّٰللا ِ(‬

‫"ترجمہ‪ ":‬اس کے پہرے دار انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں‪ ،‬جو ہللا کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں‬

‫تعالی اعمال و‬
‫ٰ‬ ‫تعالی خوب جانتا ہے ‪( ،‬یعنی ہللا‬
‫ٰ‬ ‫واضح ہو کہ بندوں کے اعمال و اقوال‪ ،‬فرشتے لکھیں یا نہ لکھیں‪ ،‬ہللا‬
‫اقوال کے علم کیلئے مالئکہ کی کتابت کا محتاج نہیں ہے )‬

‫ہللا رب العزت نے کتابت کا حکم اس لئے فرما رکھا ہے کہ فرشتے بندوں کے اعمال و اقوال کا شمار و احصاء کر کے ‪،‬‬
‫تعالی بندوں کو ان‬
‫ٰ‬ ‫تعالی کے عدل و انصاف کا اظہار و اعالن ہو گا‪ ،‬اور ہللا‬
‫ٰ‬ ‫قیامت کے دن بندوں کا آگاہ کر دیں‪ ،‬یوں ہللا‬
‫کے نیک اعمال سے باخبر کر دے گا(اور انہیں ان کا عظیم صلہ عطا فرما دے‬

‫‪ :‬گا) اور بُرے اعمال کی اطالع دے کر انہیں ان کی سزا دے گا‪ ،‬جیسا کہ ہللا پاک نے فرمایا ہے‬
‫)الزالزال‪) (8-7 :‬فَ َمنْ يَّ ْع َم ْل ِم ْثقَا َل َذ َّر ٍة َخ ْي ًرا يَّ َره َو َمنْ يَّ ْع َم ْل ِم ْثقَا َل َذ َّر ٍة َ‬
‫ش ¦©ًًّرا يَّ َره(‬

‫ترجمہ‪ ":‬پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا‪ ،‬اور جس نے ذرہ بابر بُرائی کی ہو گی وہ اسے‬
‫"دیکھ لے گا۔‬

‫تعالی کی مشیئت کے تحت ہے ‪ ،‬جیسا کہ ہللا‬


‫ٰ‬ ‫گناہوں میں سے شرک کی سزا تو الزمی ملے گی‪ ،‬دیگر گناہوں کی سزا‪ ،‬ہللا‬
‫تعالی کا فرمان ہے‬
‫ٰ‬ ‫‪:‬‬

‫)النساء‪) (48:‬اِنَّ هّٰللا َ اَل يَ ْغفِ ُر اَنْ ُّي ْ‬


‫ش َر َك بِه َو يَ ْغفِ ُر َما د ُْونَ ٰذلِكَ لِ َمنْ يَّشَآ ُء(‬

‫تعالی شرک کو معاف نہیں فرماتا اور شرک کے عالوہ جس گناہ کو چاہے معاف فرما دے‬
‫ٰ‬ ‫" ترجمہ‪":‬ہللا‬

‫ض ارواح) کی ڈیوٹی سونپی گئی )‪(3‬‬


‫مالئکہ پر ایمان النے میں‪ ،‬ان مالئکہ پر ایمان النا بھی شامل ہے ‪ ،‬جنہیں موت (قب ِ‬
‫ہے ۔‬

‫تعالی کی‬
‫ٰ‬ ‫تعالی کی طرف بھی ہے اور مالئکہ کی طرف بھی۔ ہللا‬
‫ٰ‬ ‫قرآن ِ حکیم میں" اَلتَّ َوفَی" یعنی موت دینے کی نسبت ہللا‬
‫ت کریمہ میں مذکور ہے‬ ‫‪ :‬طرف نسبت اس آی ِ‬
‫ۤ ۤ‬ ‫هّٰللَا‬
‫س ُل ااْل ُ ْخ ٰرى اِ ٰلى اَ َج ٍل ُّم َ‬
‫س ¦©ًمًّى(‬ ‫س ُك الَّتِ ْي قَ ٰ‬
‫ضى َعلَ ْي َها ا ْل َم ْوتَ َو يُ ْر ِ‬ ‫( ) ُ يَتَ َوفَّى ااْل َ ْنفُ َ‬
‫س ِحيْنَ َم ْوتِ َها َو الَّتِ ْي لَ ْم تَ ُمتْ فِ ْي َمنَا ِم َهاۚ‪ ١‬فَيُ ْم ِ‬
‫)الزمر‪42:‬‬

‫ترجمہ‪ ":‬ہللا ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی ٰ‬


‫انہیں ان کی نیند کے وقت قبض کر لیتا ہے ‪،‬‬
‫پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہے انہیں روک لیتا ہے اور دوسری (روحوں) کو ایک مقرر وقت تک کیلئے چھوڑ دیتا‬
‫" ہے‬

‫ت کریمہ میں مذکور ہے‬


‫‪ :‬مالئکہ کی طرف موت دینے کی نسبت اس آی ِ‬
‫ۤ‬
‫)االنعام‪َ ) (61 :‬ح ٰتّى اِ َذا َجآ َء اَ َح َد ُك ُم ا ْل َم ْوتُ ت ََوفَّ ْتهُ ُر ُ‬
‫سلُنَا َو ُه ْم اَل يُفَ ِّرطُ ْونَ (‬

‫ترجمہ‪ ":‬یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچتی ہے تو اس کی روح ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے ) قبض‬
‫" کر لیتے ہیں‪ ،‬اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے‬

‫‪ :‬جب کہ ایک مقام پر ملک الموت کی طرف بھی موت دینے کی نسبت مذکور ہے‬
‫ٰ‬
‫ي ُو ِّك َل ِب ُك ْم ثُ َّم اِ ٰلى َربِّ ُك ْم ت ُْر َج ُع ْونَ (‬ ‫)السجدہ‪) (11:‬قُ ْل َيت ََوفّى ُك ْم َّملَ ُك ا ْل َم ْو ِ‬
‫ت الَّ ِذ ْ‬

‫ترجمہ‪ ":‬کہہ دیجئے ! کہ تمہیں موت کا فرشتہ فوت کرے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے پھر تم سب اپنے پروردگار کی‬
‫" طرف لوٹائے جاؤ گے‬

‫واضح ہو کہ موت دینے سے متعلق ‪ ،‬ان تین مختلف نسبتوں میں کوئی منافات یا تعارض نہیں ہے ۔‬

‫تعالی کی طرف موت دینے کی نسبت اس لئے ہے کہ وہ موت کا حکم ار فیصلہ فرمانے واال ہے ‪ ،‬وہی موت کا مق ِدر و‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫مو ِجد ہے ‪ ،‬اور ملک الموت کی طرف اس لئے نسبت ہے کہ وہ مباشرۃُ(یعنی اپنے ہاتھوں سے ) روح قبض کرتا ہے ‪،‬‬
‫جبکہ مالئکہ کی طرف موت دینے کی نسبت اس لئے وارد ہوئی ہے کہ وہ ملک الموت سے ‪ ،‬جب وہ روح قبض کر لیتا‬
‫ہے ‪ ،‬لے لیتے ہیں(اور اسے اس کے اصل ٹھکانے تک پہنچا دیتے ہیں)‬

‫ان تمام امور کابیان مسند احمد کی ایک حدیث(‪ )18534‬میں وارد ہے ‪ ،‬جو براء بن عازب ؓ سے بسن ِد حسن مروی ہے ۔‬
‫‪:‬رسول اللہﷺ نے فرمایا‬

‫قطع تعلق اور آخرت کے سفر پر روانگی کا وقت آتا ہے تو آسمان سے روشن چہرہ فرشتے"‬ ‫ِ‬ ‫بندہ مؤمن پر جب دنیا سے‬
‫نازل ہوتے ہیں‪ ،‬شدید روشنی کی وجہ سے ان کے چہرے سورج معلوم ہوتے ہیں ان کے ساتھ جنت کے کفن اور جنت کی‬
‫خوشبو ہوتی ہے ‪ ،‬وہ اس بندے سے نگاہ بھر کے فاصلے پر بیٹھ جاتے ہیں ‪ ،‬پھر ملک الموت ؑ آ جاتا ہے ‪ ،‬اور اس کے‬
‫سرہانے بیٹھ کر کہتا ہے ‪ :‬اے نفس ِ طیبہ اپنے پروردگار کی مغفرت اور رضاء کی طرف نکل جا۔ اس کی روح اس طرح‬
‫نکلتی ہے جیسے مشکیزے کے منہ سے پانی کا قطرہ بہتے ہوئے نکل جاتا ہے ۔ ملک الموت اس روح کو پکڑ لیتا ہے‬
‫اور جونہی پکڑتا ہے وہ فرشتے فورا پہنچ جاتے ہیں اور پلک جھپکنے کے اندر ہی ملک الموت سے اس روح کو لے‬
‫لیتے ہیں ‪ ،‬اور اسے جنت کا کفن پہنچا کر خوشبوؤں سے معطر کر دیتے ہیں‪،‬چنانچہ اس روح سے روئے زمین پر پائی‬
‫جانے والی سب سے عمدہ خوشبو کے بھپکے نکلتے رہتے ہیں۔۔۔۔ (رسول اللہﷺ نے مزید فرمایا) کافر‬
‫پر جب دنیا کو چھوڑ کر آخرت کے سفر پہ روانگی کا وقت آتا ہے تو آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے اپنے ہاتھوں‬
‫میں ٹاٹ لئے اترتے ہیں‪،‬اور اس سے نگاہ بھر کی دوری پہ بیٹھ جاتے ہیں‪ ،‬پھر ملک الموت فرشتہ اترتا ہے اور س کے‬
‫تعالی کی ناراضگی اور غضب کی طرف نکل جا‪ ،‬پھر وہ اس کے جسم‬ ‫ٰ‬ ‫س خبیثہ! تو ہللا‬
‫سرہانے بیٹھ کر کہتا ہے ‪ :‬اے نف ِ‬
‫سے روح کو اس طرح نکالتا ہے جیسے بھیگی ہوئی اون سے لوہے کی سیخ کھینچ کر نکالی جاتی ہے ۔‬

‫جب ملک الموت اس کی روح نکال لیتا ہے ‪ ،‬وہ فرشتے پلک جھپکنے کے اندر اس روح کو لے لیتے ہیں اور اس ٹاٹ‬
‫میں لپیٹ لیتے ہیں‪ ،‬اور اس میں روئے زمین پر موجود سب سے بدبو دار مردار کی بدبو کے بھپکے پھوٹتے ہیں‬

You might also like