Professional Documents
Culture Documents
ٰ ٓيا َ ُّي َها : اے الَّ ِذي َْن ٰا َم ُن ْوا : جو لوگ ایمان الئے اَل ُت َق ِّدم ُْوا : نہ آگے بڑھوَ بي َْن َيدَيِ هّٰللا ِ:
ہللا کے آگےَ و َرس ُْولِهٖ : اور اسکے رسول کےَ وا َّتقُوا هّٰللا َ ۭ : اور ڈرو ہللا سے اِنَّ هّٰللا َ:
مومنو ! (کسی بات کے جواب میں) خدا اور اسکے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا
کرو اور خدا سے ڈرتے رہو بیشک خدا سنتا جانتا ہے
اس میں تین مسائل ہیں :۔ مسئلہ نمبر :1علماء نے کہا :عربوں میں نبی کریم ﷺ
سے خطاب میں سختی اور سوء ادبی تھی اسی طرح وہ لوگوں کو القاب دینے میں
بھی یہی رویہ اپناتے تھے یہ سورت Sمکارم اخالق اور آداب کی رعایت کے حکم
کے متعلق ہے۔ ضحاک اور یعقوب نے التقدامر تاء اور دال کے فتحہ کے ساتھ پڑھا
ہے۔ یہ تقدمہ سے مشتق ہے باقی قراء نے تاء کے ضمہ اور دال کے کسرہ کے
ساتھ پڑھا ہے۔ یہ تقدیم سے مشتق ہے دونوں کا معنی ظاہر ہے یعنی تم کوئی ایسا
ٰ
تعالی کے حکم سے متجاوز ہو اور اسی قول نہ کرو اور نہ ایسا فعل کرو جو ہللا
طرح رسول ہللا ﷺ کے قول اور فعل سے آگے نہ بڑھو جس کا حصول نبی کریم
ﷺ کے وسیلہ سے ہو خواہ وہ امر دینی ہو یا دنیاوی ہو۔ جو اپنے قول اور فعل میں
ٰ
تعالی سے آگے بڑھا کیونکہ رسول ہللا ﷺ رسول ہللا ﷺ سے آگے بڑھا اور وہ ہللا
ٰ
تعالی کے حکم سے ہی حکم دیتے ہیں۔ مسئلہ نمبر :2اس کا سبب نزول کیا ہے ہللا
اس بارے میں چھ اقوال Sہیں :۔ ( )1ابن جریج کی حدیث سے واحدی نے اسے ذکر
کیا ہے :کہا :حضرت ابن ملیکہ نے حضرت عبدہللا بن زبیر سے روایت نقل کی
ہے 1۔ کہ بنو تمیم کا ایک وفد رسول ہللا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت
ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی :قعقاع بن معبد کو امیر مقرر کیجئے۔ حضرت عمر
نے عرض کی :اقرع بن حابس کو امیر مقرر کیجئے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے
کہا :تو نے محض میری مخالفت کی وجہ سے یہ بات کی ہے۔ حضرت عمر نے
جواب دیا :میں نے آپ کی مخالفت کا ارادہ نہیں کیا۔ دونوں نے گفتگو لمبی کی یہاں
اسے امام بخاری نے حسن بن عمر بن صباح سے نقل کیا ہے اور مہدوی نے بھی
اسے ذکر کیا ہے ( )2روایت بیان کی گئی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارادہ کیا کہ ایک
آدمی کو مدینہ طیبہ پر نائب بنائیں جب آپ خیبر کی طرف تشریف لے گئے حضرت
عمر نے ایک اور آدمی کے بارے میں مشورہ دیا تو یہ آیات نازل ہوئیں۔ اسے بھی
مہدوی Sنے ذکر کیا ہے۔ ( )3۔ ماوردی نے ضحاک سے وہ حضرت ابن عباس ؓ سے
روایت نقل کرتے ہیں ( )1کہ نبی کریم ﷺ نے چوبیس صحابہ کو بنی عامر کی
طرف بھیجا بنی عامر نے انہیں قتل کردیا مگر تین آدمی پیچھے رہ گئے وہ سالمت
رہے اور مدینہ طیبہ کی طرف واپس لوٹ آئے وہ بنو سلیم کے دو آدمیوں سے ملے
انہوں Sنے ان دو افراد سے ان کے نسب کے بارے میں پوچھا :دونوں نے کہا :بنی
عامر سے تعلق رکھتے ہیں کیوں کہ بنی عامر بنو سالم سے زیادہ معزز شمار ہوتے
تھے۔ ان صحابہ نے ان دونوں کو قتل کردیا۔ بنی سلیم کے کچھ لوگ نبی کریم ﷺ
کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے عرض کی :ہمارے اور آپ کے درمیان
معاہدہ ہے اور ہم میں سے آدمی قتل کردیئے گئے ہیں نبی کریم ﷺ نے ان کی دیت
سو اونٹ عطا فرمائی ،ان دوآدمیوں کے قتل کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں ( )4۔
قتادہ نے کہا :کچھ لوگ کہا کرتے تھے کاش :میرے بارے میں ایسی آیت نازل
ہوتی ،کاش میرے بارے میں ایس آیت نازل ہوتی تو یہ آیت نازل ہوئی ( )2۔ 5۔
حضرت ابن عباس ؓ نے کہا :انہیں منع کیا گیا کہ وہ رسول ہللا ﷺ کے سامنے کالم
ٰ
تعالی اور اس کے رسول سے پہلے ہی حکم نہ دے دیا کریں۔ مجاہد نے کہا :تم ہللا
ٰ
تعالی اپنے رسول کی زبان پر حکم دے ،اسے امام بخاری نے کرو یہاں تک کہ ہللا
بھی ذکر کیا ہے۔ ( )6۔ حضرت حسن بصری نے کہا :یہ آیات ان لوگوں Sکے بارے
میں نازل ہوئیں ( )3جنہوں نے رسول ہللا ﷺ کی جانب سے نماز ادا کرنے سے قبل
ہی قربانیاں کردی تھیں تو رسول ہللا ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ دوبارہ ذبح کریں۔
ابن جریج نے کہا :وہ وقت جس کا حکم ہللا اور اس کے رسول نے دیا ہے اس سے
قبل تم اطاعات کے اعمال نہ کرو۔ میں کہتا ہوں :یہ آخری پانچ اقوال انہیں قاضی
ابوبکر بن عربی نے ذکر کیا اور اس سے قبل ماوردی نے اچھی طرح وضاحت کی
ٰ
تعالی کی ذات قاضی نے کہا :یہ سب صحیح ہیں ( )4عموم کے تحت داخل ہیں ہللا
ہی بہتر جانتی ہے جو ان آیات کے نزول کا سبب ہے ممکن ہے بغیر سبب کے نازل
ٰ
تعالی بہتر جانتا ہے قاضی نے کہا :جب ہم یہ کہیں کہ یہ طاعات کو ان ہوئیں ہو ہللا
کے اوقات Sسے پہلے النے میں نازل ہوئی تو وہ بھی صحیح ہے کیونکہ ہر وہ
عبادت جس کا ایک خاص وقت ہو تو وقت سے پہلے اسے ادا کرنا جائز نہیں ہوتا
جس طرح نماز ،روزہ ،حج یہ سب واضح ہیں مگر علماء نے زکوۃ پر اختالف کیا
ہے جو عبادت مالیہ ہے۔ اور معنی مفہوم Sکے لئے مطلوب ہے وہ فقیر کی حاجت کو
پورا کرتا ہے :کیونکہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عباس سے دو سال کا صدقہ جلدی
لیا جب ایسی روایات آئی ہیں کہ صدقہ فطر کو عیدالفطر سے پہلے جمع کیا جاتا
تاکہ عیدالفطر کے روز مستحق لوگوں Sکو وہ چیز دے دی جائے تو یہ امر سال یا دو
سال پہلے زکوۃ کی ادائیگی کے جواز کو ثابت کرتا ہے اگر سال کا اختتام نہ ہوا اور
نصاب اپنی حالت پر تھا تو زکوۃ کی ادائیگی ہوگئی اگر سال کا اختتام ہوا جبکہ
نصاب تبدیل ہوچکا تھا تو واضح ہوگیا ہے کہ وہ نفلی صدقہ ہے اشہب نے کہا :سال
مکمل ہونے سے ایک گھڑی بھی پہلے دینا جائز نہیں ( )1جس طرح نماز ہے گویا
سے ایک ہے تو نظام اور حسن ترتیب میں اس کا پورا حق ادا کیا باقی ہمارے علماء
کی رائے ہے کہ تھوڑی سی تقدیم جائز ہے کیونکہ اتنی چیز معاف ہے مگر کثیر
معاف نہیں اشہب نے جو باب کہی وہ زیادہ واضح ہے کیونکہ تھوڑی Sچیز کا زیادہ
سے الگ کرنا اصول شریعت میں صحیح ہے لیکن چند مقاصد جو تھوڑی چیز کے
ساتھ خاص ہوں زیادہ کے ساتھ خاص نہ ہوں مگر ہمارے مسئلہ میں دن مہینہ کی
طرح ہے مہینہ سال کی طرح ہے یا کلی تقدیم درست ہوگی جس طرح امام ابوحنیفہ
ٰ
تعالی علیہ نے کہا :جہاں تک عبادت کا تعلق ہے تو وہ اپنے اور امام شافعی (رح)
اوقات پر ہی ادا کی جائے گی جس طرح اشہب نے کہا :مسئلہ نمبر :3۔ نبی کریم
ﷺ کے اقوال Sکے تعرض کو ترک کرنے میں یہ اصل ہے آپ کی اتباع اور آپ کی
اقتداء کے وجوب Sمیں بھی اصل ہے نبی کریم ﷺ نے اپنی بیماری میں ارشاد
فرمایا )2( :ابوبکر صدیق کو حکم دو کہ وہ لوگوں Sکو نماز پڑھائے۔ حضرت عائشہ
صدیقہ ؓ نے حضرت حفصہ سے کہا :آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کرو بیشک
ابوبکر صدیق جلد رونے والے ہیں جب وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے
کی وجہ سے لوگوں Sکو اپنی آواز نہ سنا سکیں گے ،حضرت عمر کو حک دیں کہ
وہ لوگوں کو نماز پڑھائے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ”:تم یوسف والیاں ہو،
ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں Sکو نماز پڑھائے “ تو صاحب یوسف کا معنی ہے وہ
فتنہ جو جائز کو ناجائز کی طرف لوٹانے سے پیدا ہوتا ہے۔ ( )3قیاس کے خالف
بغاوت کرنے والوں Sنے اس آیت سے استدالل کیا ہے یہ ان کی جانب سے باطل ہے
ٰ
تعالی سے آگے نہیں بڑھنا کیونکہ جس امر پر دلیل قائم ہو اس کے بجا النے میں ہللا
ٰ
تعالی تمہارے ہے۔ یعنی اس آگے بڑھنے سے بچو جس سے منع کیا گیا ہے ہللا
ت ال َّن ِبیِّ َو اَل ٰۤیا َ ُّی َها الَّ ِذی َْن ٰا َم ُن ْوا اَل َترْ َفع ۤ ُْوا اَصْ َوا َت ُك ْم َف ْو َق َ
ص ْو ِ
ض اَنْ َتحْ َب َط اَعْ َمالُ ُك ْم َو اَ ْن ُت ْم َتجْ َهر ُْوا َل ٗه ِب ْال َق ْو ِل َك َجه ِْر َبعْ ِ
ض ُك ْم لِ َبعْ ٍ
ٰ ٓيا َ ُّي َها : اے الَّ ِذي َْن : وہ لوگ جوٰ ا َمنُ ْوا : ایمان الئے اَل تَرْ فَع ُْٓوا : نہ اونچی کرو اَصْ َواتَ ُك ْم:
ت النَّبِ ِّي : نبی کی آوازَ واَل تَجْ هَر ُْوا : اور نہ زور سے
ص ْو ِ اپنی آوازیں فَ ْو َ
ق : اوپر ،پرَ
بولو لَهٗ : اس کے سامنے بِ ْالقَ ْو ِل : گفتگو میںَ ك َجه ِْر : جیسے بلند آواز بَ ْع ِ
ض ُك ْم:
ہوجائیں اَ ْع َمالُ ُك ْم : تمہارے عملَ واَ ْنتُ ْم : اور تم اَل تَ ْش ُعر ُْو َن : نہ جانتے (خبر بھی نہ) ہو
اے اہل ایمان ! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس
میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ
بوال کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو
اس میں چھ مسائل ہیں :مسئلہ نمبر :1۔ امام بخ اری اور ام ام ترم ذی نے حض رت ابن
ابی ملیکہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت عبدہللا بن زبیر نے بیان کی ا :اق رع بن
کی :یا رسول ہللا ﷺ اسے اس کی قوم پر عامل بنا دیئجے۔ حضرت عمر ؓ نے ع رض
کی :یارسول ہللا ﷺ ( )1اسے عامل نہ بن ائیں ،دون وں ص حابہ نے ن بی ک ریم ﷺ کی
موجودگی میں گفتگو کی یہاں تک کہ ان دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں حضرت ابوبکر
حضرت عمر نے کہا :میں نے آپ کی مخالفت کا ارادہ نہیں کیا تو یہ آیت نازل ہ وئی۔
سنی نہ جاسکتی یہاں تک کہ ان سے سوال کیا جاتا ؎ حضرت ابن زبیر نے اپنے نان ا
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا ذکر نہیں کیا۔ یہ ح دیث غ ریب حس ن ہے۔ بعض علم اء نے
اسے حضرت ابن ابی ملیکہ سے مرسل نقل کیا ہے۔ اس میں حضرت عب دہللا بن زب یر
کا ذکر نہیں کیا۔ میں کہتا ہوں :وہ امام بخاری ہیں :کہا :یہ روایت ابن ابی ملیکہ سے
مروی ہے ( )2وہ بہترین آدمی حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ق ریب
تھا کہ وہ ہالک ہوج اتے ان دون وں کی آوازیں اس وقت ن بی ک ریم ﷺ کے پ اس بلن د
نے اقرع بن حابس ،جو بنی مجاشع سے تعل ق رکھت ا تھا ک ا مش ورہ دیا دوس رے نے
صدیق نے حضرت عمر سے کہا :تو نے محض میرے ساتھ مخالفت کا ارادہ کی ا ہے۔
حضرت عمر نے کہا :میں نے آپ کی مخالفت کا ارادہ نہیں کیا اس بارے میں دون وں
کہا :اس آیت کے نزول کے بعد حضرت عمر اپنی آواز رسول ہللا ﷺ کو نہیں سناتے
کیا۔ مہدوی نے حضرت علی شیر خدا ؓ کا ذکر کی ا کہ یہ آیت ہم ارے ب ارے میں ن ازل
ہ وئی جب م یری حض رت جعف ر اور حض رت زید بن ح ارثہ کی آواز بلن د ہوگ ئی ہم
حضرت حمزہ کی بیٹی کے بارے میں جھگڑے تھے جب زید اسے مکہ مک رمہ س ے
الئے تھے۔ رسول ہللا ﷺ نے جعفر کے حق میں اس کا فیصلہ کردیا کی ونکہ اس بچی
کی خالہ ان کے عقد میں تھی۔ یہ حدیث آل عم ران میں گ زر چکی ہے۔ ص حیحین میں
کی آواز نبی کریم ﷺ پر بلند ہوجاتی تھی اس کے عمل رائیگاں گ ئے جبکہ وہ جنہمی
)1یہ بخاری کے الفاظ ہیں یہ ثابت ،ثابت بن قیس بن شماس خزرجی ہے جن کی کنیت
ابو محمد تھی یہ کنیت ان کے بیٹے محمد کی وجہ سے تھی۔ ایک قول یہ کیا گی ا ہے :
وہ ابو عبدالرحمن ہے یوم حرہ ک و انہیں ش ہید کی ا گی ا اس کے تین بی ٹے تھے محم د،
یحیی ،عب دہللا ،وہ بہت اچھے خطیب اور بلی غ تھے وہ اس ی وجہ س ے مع روف تھے
ٰ
انہیں رسول ہللا ﷺ کا خطیب کہا جاتا جس طرح حضرت حسان کو رس ول ہللا ﷺ ک ا
شاعر کہا جاتا جب بنو تمیم کا وفد رسول ہللا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور مفاخرہ
کو طلب کیا ان کا خطیب کھڑا ہوا اور اظہار فخر کیا پھر ث ابت بن قیس کھڑے ہ وئے
ایک عظیم وبلیغ خطبہ دیا اور ان پ ر غ الب آگ ئے ان ک ا ش اعر کھڑا ہ وا وہ اق رع بن
حابس تھا اس نے یہ شعر پڑھے۔ ہم آپ کے پاس آئے جس طرح لوگ ج انتے ہیں جب
لوگ مکارم کے ذکر کے وقت ہماری مخالفت کریں۔ ہم ہر قبیلہ کے لوگوں کے سردار
ہیں جبکہ حجاز کی زمین میں دارم جیسا کوئی نہیں۔ ہم ارے ل ئے ہ ر جن گ کے م ال
میں چوتھا حصہ ہوتا ہے وہ جنگ نجد میں ہو یا تہامہ کے عالقہ میں۔ حضرت حس ان
نے کہا ” :اے بنی دارم :تم فخر نہ کرو بیشک تمہارا فخر مکارم کے ذک ر کے وقت
وبال بن جائے گا۔ تم ہالک ہو تم پر فخر کرتے ہوں جبکہ تم ہمارے خ ادم ہ وں یا دایا
اور خادم کے درمیان “ انہوں نے کہا :ان کا خطیب ہمارے خطیب س ے اچھا ہے۔ ان
الی نے اس
کا شاعر ہمارے شاعر س ے اچھا ہے ان کی آوازیں بلن د ہوگ ئیں ت و ہللا تع ٰ
جب یہ آیت نازل ہوئی تو ان ک ا وال د اپ نے کم رے میں داخ ل ہ وا اور اپن ا دروازہ بن د
کرلیا نبی کریم ﷺ نے اسے نہ پایا تو اس ے بال بھیج ا ت اکہ پ وچھیں کی ا مع املہ ہے ؟
انہوں نے عرض کی :میری آواز سخت ہے مجھے ڈر ہے کہ میرا عمل ض ائع ہی نہ
ہوجائے۔ تو رسول ہللا ﷺ نے ارشاد فرمایا ”:ت و ان لوگ وں میں س ے نہیں ت و بھالئی
(النسائ) کو نازل فرمایا ،انہوں نے اپنے دروازے کو بند کرلی ا اور رونے لگے ،ن بی
کریم ﷺ نے نہ پایا تو بال بھیجا اور خبر دی عرض کی :یا رس ول ہللا ﷺ میں جم ال
کو پسند کرتا ہوں اور میں اپنی قوم کا سردار بننا پسند کرت ا ہ وں فرمایا ”:ت و ان میں
سے نہیں بلکہ تو تعریف کی گئی زندگی گزارے گا شہید کی حیثیت سے قتل ہوگ ا اور
جنت میں داخل ہوگا ( )2اس بچی نے کہا :جب یمامہ کی جنگ کا مرحلہ آیا تو مس لمہ
سے مڈ بھیڑ ہوئی تو صحابہ بکھر گئے۔ حضرت ثابت اور حضرت سالم جو حض رت
اب و ح ذیفہ کے غالم تھے نے کہ ا :رس ول ہللا ﷺ کی معیت میں اس ط رح ت و جن گ
نہیں کرتے تھے پھر دونوں نے اپ نے ایک گڑھ ا کھودا اور جن گ کی یہ اں ت ک کہ
ایک آدمی ان کے پاس سے گزرا اور اسے اتار لیا اسی اثن اء میں ایک مس لمان س ویا
ہوا تھا تو حضرت ثابت اسے خواب میں آئے تو فرمایا :میں تجھے ایک وصیت کرت ا
شہید ہوا تو مسلمانوں میں سے ایک آدمی م یرے پ اس س ے گ زرا اس نے م یری زرہ
کے پاس پہنچے تو ان سے عرض کرو مجھ پر فالں فالں ق رض ہے م یرے غالم وں
میں سے فالں فالں آزاد ہے وہ آدمی حضرت خالد کی خ دمت میں حاض ر ہ وا آپ ک و
کو نافذ کردیا ہم کسی کے بارے میں نہیں جانتے کہ حض رت ث ابت کے بع د کس ی کی
کرو ،یا بنی ہللا یا رسول ہللا :مقصود آپ کی عزت ہے ایک قول یہ کیا گی ا ہے من افق
اپنی آوازیں نبی کریم ﷺ کے پاس بلند کیا کرتے تھے تاکہ کمزور مسلمان بھی ان کی
اقتدا کریں تو مسلمانوں کو اس سے منع کردیا گیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے :کے مع نی
ہیں جس طح یہ جملہ کہا جات ا ہے یہ بھی علی کے مع نی میں ہے ک اف ،ک اف ،تش بیہ
منع نہیں کیا گیا یہاں تک کہ ان کے لئے جائز ہی نہ ہو مگر یہ کہ وہ اشارہ اور مخفی
عادی تھی وہ ایسا جہر تھا جس میں نبوت کی قدرومنزل کا خیال نہ ہو اور ب اقی مان دہ
مراتب کا انحطاط ہو اگرچہ نبوت و رسالت تمام سے بڑھ کر مرتبہ ہے۔ اس وجہ س ے
کہ تمہارے اعمال باط ل ہوج ائیں ،یہ بص ریوں ک ا ق ول ہے۔ ک و فی وں نے کہ ا :ت اکہ
تمہ ارے اعم ال رائیگ اں نہ چلے ج ائیں۔ ( )1مس ئلہ نم بر :3۔ آیت ک ا مع نی یہ ہے کہ
رسول ہللا ﷺ کی تعظیم اور توقیر اور حضور ﷺ کی موجودگی اور آپ س ے گفتگ و
کے وقت آواز کو پست رکھنے کا حکم جب آپ بولیں اور تم بولو تو تم پر الزم ہے کہ
فضلیت تم پر نمایاں ہو۔ آپ کی سبقت ظاہر ہو اور آپ کا امتیاز تمہاری بلن د آواز س ے
شوروغل سے آپ کی گفتگ وپر غ الب آ ج ائو۔ حض رت ابن مس عود کی ق رٔات میں ہے
بعض علماء نے آپ (علیہ الصلوۃ والسالم) کی ق بر مب ارک کے نزدیک بھی آواز بلن د
کرنے کو ناپسند کیا ،بعض علماء کی مجلس میں بھی آواز بلن د ک رنے ک و ناپس ند کی ا۔
مقصد ان کی تعظیم ہے کیونکہ وہ انبیاء کے وارث ہیں۔ مسئلہ نمبر :4۔ قاض ی اب وبکر
ایسے ہی ہے جس طرح ظاہری حیات میں آپ کی حرمت تھی ( )2آپ کے وصال کے
پر یوں متبنہ کیا ہے (االعرف )204رسول ہللا ﷺ کا کالم بھی وحی ہے اس میں قرآن
کی حکمت کی مثل حکمت ہے مگر چند مع انی مس تثنی ہیں جن کی وض احت کتب فقہ
میں ہے۔ مس ئلہ نم بر :5۔ آواز بلن د ک رنے اور ع امیہ ان داز میں گفتگ و س ے م راد
استنخفاف اور تحقیر نہیں ( )3کیونکہ ایس ا ام ر ت و کف ر ہے جبکہ مخ اطب م ومن ہیں
بڑے لوگوں کی عزت و توقیر کو پیش نظر رکھا جاتا ہے وہ اس کے پست ک رنے کی
کوشش کرتا ہے اور اسی سطح کی طرف لوٹانے کی سعی کرتا ہے جس سے عزت و
حالت جنگ ،معاند سے مجادلہ ،دشمن کو خوفزدہ کرنے کے لئے ہوتی اگرچہ رس ول
بن عبدالمطلب سے فرمایا :جب لوگ غزوہ حینن کے موقع پر تتر ب تر ہوگ ئے تھے ”
ہے کہ ایک روز شب خون مارا گیا تو حضرت عباس ؓ نے یوں آواز لگائی یا ص باحاۃ
میں نابغہ نے کہا :ابو عروہ کا درندوں کو جھڑکنا ہے جب اسے ڈر ہو تاکہ وہ ریوڑ
سے خلط ملط ہوجائیں گے۔ راویوں نے یہ گمان کیا ہے کہ وہ ریوڑ س ے درن دوں ک و
جھڑکتا تھا تو درندہ کا پتہ پانی ہوجاتا تھا۔ مس ئلہ نم بر :6زج اج نے کہ ا :تق دیر کالم
یوں ہے۔ یعنی تمہارے اعمال ض ائع چلے ج ائیں گے الم مق درہ الم ص یرورت ہے ہللا
تعالی کا فرمان :اس امر کو ثابت نہیں کرت ا کہ انس ان کف ر ک ر بیٹھے جبکہ وہ علم نہ
ٰ
رکھتا ہو جس طرح کافر مومن نہیں ہو سکتا مگ ر اس وقت جب وہ ایم ان ک و کف ر پ ر
باال جماع اسے پسند نہ کرے اسی طرح کافر کافر نہیں ہو سکتا کہ وہ جانتا ہی نہ ہو۔
Al-Qurtubi - Al-Hujuraat : 3
ولِٓئ َ
ك الَّ ِذی َْن ا ْمتَ َح َن هّٰللا ُ اِ َّن الَّ ِذی َْن یَ ُغضُّ ْو َن اَصْ َواتَهُ ْم ِع ْن َد َرس ُْو ِل هّٰللا ِ اُ ٰ
قُلُ ْوبَهُ ْم لِلتَّ ْق ٰوىؕ ١لَهُ ْم َّم ْغفِ َرةٌ َّو اَجْ ٌر َع ِظ ْی ٌم
اِ َّن الَّ ِذي َْن : بیشک جو لوگ يَ ُغضُّ ْو َن : پست رکھتے ہیں اَصْ َواتَهُ ْم : اپنی آوازیںِ ع ْن َد:
ولِٓئ َ
ك : یہ وہ لوگ الَّ ِذي َْن : جو ،جن ا ْمتَ َح َن هّٰللا ُ : آزمایا نزدیکَ رس ُْو ِل هّٰللا ِ : ہللا کا رسول اُ ٰ
ہے ہللا نے قُلُ ْوبَهُ ْم : ان کے دل لِلتَّ ْق ٰوى ۭ : پرہیزگاری کیلئے لَهُ ْم َّم ْغفِ َرةٌ : ان کیلئے
جو لوگ پیغمبر خدا کے سامنے دبی آواز سے بولتے ہیں خدا نے ان کے دل تقوے
کے لئے آزما لیے ہیں ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے
خاطر اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے ( )2جب یہ
بلند نہیں کروں گا مگر رازداری کرنے والے کی ط رح۔ س نید نے ذک ر کی ا :عب اد بن
عوام ،محمد بن عمرو سے وہ ابو سلمہ سے رایت نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت نازل ہ وئی
کالم کرتا ہے ( )3عبدہللا بن زبیر نے کہا :جب یہ آیت ن ازل ہ وئی حض رت عم ر نے
الی نے تق ٰ
وی کے ل ئے ان کے دل وں کرتے تو یہ آیت نازل ہوئی فراء نے کہا :ہللا تع ٰ
کو خاص کردیا۔ ( )4۔ اخفش نے کہا :تقوی کے لئے خاص کردیا۔ حضرت ابن عباس ؓ
تعالی نے ان
ٰ تعالی نے ان کے دلوں کو ہر قبیح امر سے پاک کردیا اور ہللا
ٰ نے کہا ہللا
الی ک ا خ وف اور تق ٰ
وی رکھ دیا ہے حض رت عم ر ؓ نے ان کے کے دل وں میں ہللا تع ٰ
دلوں سے شہوات کو ختم کردیا۔ امتحان یہ سے باب افتعال کا مصدر ہے یعنی میں نے
الی نے ان کے دل وں ک و خ اص کردیا
کردیا پہلے قول کی بناء پر کا مع نی ہے ہللا تع ٰ
مشقت میں ڈالے تو نے اسے امتحان میں ڈاال۔ شاعر نے کہا :کمزور اونٹی اں آئیں جن
کی تھکاوٹیں ظاہر تھیں اور ان کی ڈھاکیں مشقت میں تھیں اور مضطرب تھیں۔
Al-Qurtubi - Al-Hujuraat : 4
جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بےعقل ہیں
مجاہد اور دوسرے علماء نے کہا :یہ آیت بنی تمیمم کے بدئوئوں کے بارے میں ن ازل
ہوئی ان کا ایک وفد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا وہ مسجد میں داخل ہ وئے
اور حجرہ کے باہر سے نبی کریم ﷺ ک و آواز دی کہ ہم ارے پ اس ب اہر آئیں کی ونکہ
ہماری مدح زینت ہے اور ہماری مذمت عیب ہے وہ س تر اف راد تھے انہ وں نے اپ نے
بچوں کا فدیہ پیش کیا نبی کریم ﷺ قیلولہ کرنے کے ل ئے س وئے ہ وئے تھے۔ روایت
مدح زینت اور میری مذمت عیب ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :ذاک ہللا ( )2وہ
ہے۔ حضرت زید بن ارقم نے روایت کیا ہے کچھ ل وگ ن بی ک ریم ﷺ کی خ دمت میں
مند ہوجائیں گے اور اگر وہ بادشاہ ہوا تو ہم اس کے پہل و میں رہیں گے۔ وہ ن بی ک ریم
ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آوازیں دینے لگے جبکہ آپ حجرہ میں موجود
ہے :وہ بنو تمیم تھے ،مقاتل نے کہا :وہ انیس تھے قیس بن عاص م ،زبرق ان بن ب در،
اقرع بن حابس ،سویا بن ہاشم ،خالد بن مالک ،عطا بن حابس ،ققطع بن معبد ،وکی ع بن،
عی نیہ بن حص ن ،یہ احم ق آدمی تھا اس کی اط اعت کی ج اتی تھی یہ س رداروں میں
سے تھا جس کے پیچھے دس ہزار نیزے بردار ہوتے تھے اس کا نام حذیفہ تھا اس ے
عینیہ نام اس لئے دیا گی ا کی ونکہ اس کی ایک پل ک دہ ری ہ وئی تھی عب دالرزاق نے
حاض ر ہ وئے جبکہ رس ول ہللا ﷺ س وئے ہ وئے تھے وہ بالنے لگے :یا محم د :یا
محمد :ہمارے طرف نکلئے رس ول ہللا ﷺ بی دا ہ وئے اور ب اہر تش ریف الئے اور یہ
آیت نازل ہوئی ؎ :رسول ہللا ﷺ سے پوچھا گیا ت و فرمایا ”:یہ ب نی تمیم کے س خت
دل لوگ تھے اگر کانے دجال سے سب سے سخت لڑائی کرنے والے نہ ہوتے تو میں
جمع کی جمع ہے اس میں دو لغتیں ہیں جیم پر ضمہ اور اس پر فتحہ حجرہ سے م راد
زمین کا وہ حصہ ہے جسے ایسی دیوار سے لوگوں کو روک دیا گیا جو اس کا احاطہ
مفعولہ کے معنی میں ہے ابو جفعر بن قعقاع نے پڑھا الحج رات یع نی جیم مفت وح ہے
کیونکہ دونوں پے در پے ضمے ثقیل تھے اسے الحجرات بھی پڑھا گیا ہے یع نی جیم
نے منع کردیا تو تو نے اس پر حجر کردیا پھر احتم ال موج ود ہے کہ من ادی ک ل میں
سے بعض ہوا اسی وجہ سے فرمایا :یعنی جو آپ کو آواز دیتے ہیں وہ ایسی قوم سے
َّح ْی ٌم
ر ِ
ان : البتہ ہوگاَ خ ْيرًا : بہتر لَّهُ ْم ۭ : ان کے لئےَ وهّٰللا ُ : اور
آتے اِلَ ْي ِه ْم : ان کے پاس لَ َك َ
اور اگر وہ صبر کئے رہتے یہاں تک کہ تم خود نکل کر ان کے پاس آتے تو یہ ان
کے لئے بہتر تھا اور خدا تو بخشنے واال مہربان ہے
یعنی اگر وہ آپ ﷺ کے باہر آنے کا انتظار کرتے تو یہ ان کی دنی ا کے ل ئے م وزوں
ہوتا۔ نبی کریم ﷺ لوگوں سے حجاب نہ کرتے مگر چند اوقات میں جن میں ضرورت
مصروف ہوتے ان اوقات میں آپ کو پریشان کرنا سوء اوبی ہوتی ایک قول یہ کی ا گی ا
کردیتے۔
Al-Qurtubi - Al-Hujuraat : 6
بِ َجهَالَ ٍة فَتُصْ بِح ُْوا َع ٰلى َما فَ َع ْلتُ ْم ٰن ِد ِمی َْن
ٰيٓاَيُّهَا : اے الَّ ِذي َْن ٰا َمنُ ْٓوا : جو لوگ ایمان الئے اِ ْن : اگرَ جٓا َء ُك ْم : آئے تمہارے پاس فَ ِ
اس ٌ
قۢ:
کوئی فاسق بدکردار بِنَبَاٍ : خبرلے کر فَتَبَيَّنُ ْٓوا : تو خوب تحقیق کرلیاکرو اَ ْن تُ ِ
ص ْيب ُْوا:
کہیں تم ضرر پہنچاؤ قَ ْو ًمۢا : کسی قوم کو بِ َجهَالَ ٍة : نادانی سے فَتُصْ بِح ُْوا : پھر ہوَ ع ٰلي:
پرَ ما : جو فَ َع ْلتُ ْم : تم نے کیا (اپنا کیا)ٰ ن ِد ِمي َْن : نادم
مومنو ! اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا
کرو (مبادا) کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو پھر تم کو اپنے کئے پر نادم
ہونا پڑے
اس میں سات مسائل ہیں :مس ئلہ نم بر :1ایک ق ول یہ کی ا گی ا ہے کہ یہ آیت ولی د بن
خوفزدہ ہوگیا ایک روایت میں ہے یہ اس کینہ کی وجہ س ے تھا ج و ان کے اور ب نی
مصطلق کے درمیان تھا۔ وہ نبی کریم ﷺ کی طرف لوٹ آیا اس نے نبی کریم ﷺ ک و
خبر دی کہ وہ مرتد ہوگئے ہیں نبی کریم ﷺ نے حضرت خالد بن ولی د ک و بھیج ا اور
انہیں حکم دیا :کہ ”‘ وہ چھان بین کے حملہ میں جلدی نہ کرے ‘ حضرت خال د چلے
جو کچھ ذکر کیا تھا وہ سب کچھ ص حیح پایا حض رت خال د ن بی ک ریم ﷺ کی ط رف
لوٹ آئے اور سب کچھ بتایا تو یہ آیت ن ازل ہ وئی ،ن بی ک ریم ﷺ کہ ا ک رتے تھے۔ ”
بھیجا جبکہ وہ اسالم قبول کرچکے تھے جب انہوں نے اس کے بارے میں س نا ت و وہ
اس کے استقبال کے لئے سواریوں پر نکلے وہ ان س ے خ وفزدہ ہوگی ا اور رس ول ہللا
کیا اسی اثناء میں ان کا وفد رس ول ہللا ﷺ کی بارگ اہ میں حاض ر ہ وا ع رض کی :یا
بجا الئیں اور ہمارے ذمہ جو ص دقات ہیں وہ اس ے ادا ک ریں ت و وہ واپس چال گی ا اور
کو جھوٹا نام دیا گیا۔ ابن زید ،مقات ل ،اور س ہل بن عب دہللا نے کہ ا :فاس ق س ے م راد
کذاب ہے۔ ابو الحسن وراق نے کہا :جو اعالنیہ گناہ کرتا ہو ،ابن ط اہر نے کہ ا :ج و
تعالی سے حیا نہ کرتا ہو۔ حمزہ اور کسائی نے پڑھا۔ یہ ثبت س ے مش تق ہے ب اقی
ٰ ہللا
قراء نے پڑھا ہے۔ جو تبین سے مشتق ہے ان محل نصب میں ہے کیونکہ ح رف ج ار
حذف ہے یعنی خطا کے ساتھ یعنی جلدی کرنے اور آہستہ روی اخیار نہ کرنے پ ر تم
ش رمند ہ وئے مس ئلہ نم بر :2۔ اس آیت میں دلی ل ہے کہ جب روای ع ادل ہ و ت و ایک
راوی کی خبر قبول ہوگی کین کہ فاسق کی خبر پر چھان بین کا حکم ہے جس کا فس ق
ثابت ہوا اس کا قول باال جماع باطل ہوگا کیونکہ خ بر ام انت ہے اور فس ق ایس ا ق رینہ
ہے جو اسے باطل کردیتا ہے اجماع نے اس میں اسے مستنثی کیا ہے ج و دع وی اور
انکار سے متعلق ہو اور غیر پر حق ثابت کرتا ہو جیس ے ک وئی کہت ا ہے اس ک ا ق ول
قبول کیا جائے گا جب کوئی یہ کہے فالں نے یہ امر نافذ کی ا ہے کہ ت یرے ل ئے ہ دیہ
کیا جائے گا تو ام ام ش افعی اور دوس رے علم اء کی رائے ہے وہ نک اح میں ولی نہیں
ہوگا امام ابوحنیفہ اور امام مالک نے کہا :وہ ولی ہوگا کیونکہ اس کا جو کچھ ہے اس
کا ولی ہے تو اس کے وضع کا بھی ولی ہوگا جس طرح عادل ہوت ا ہے اگ رچہ وہ دین
کی حفاظت کرتا ہے وہ مال خرچ کرتا ہے اور حرمت کی حف اظت کرت ا ہے جب م ال
کا ولی ہے تو نکاح کا بدرجہ اولی ولی ہوگا۔ مسئلہ نمبر :3ابن عربی نے کہ ا :تعجب
کی بات یہ ہے ( )1کہ امام ش افعی اور ان کی مث ل ل وگ فاس ق کی ام امت ج ائز ق رار
دیتے ہیں جو آدمی مال کے حسبہ (معم ولی م ال) پ ر ام انت دار نہیں بنایا جاس کتا وہ
دین کے قنطار (بڑا خزانہ) پر امانت دار کیسے بنایا جاس کتا ہے یہ اس کے ل ئے ہے
دین فاسد ہوجائیں اور ان کے پیچھے نماز کا ترک کرنا ممکن نہ ہ و ان ک و ہٹ انے کی
طاقت بھی نہ ہو تو ان کے ساتھ اور ان پیچھے نماز پڑھی جائے گی جس طرح عثمان
اجتناب کر۔ پھر لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جب کوئی آدمی ان کے ساتھ پ اک
میں سے کچھ وہ ہیں جو اسے اپنی نماز بنا لیتے ہیں نماز کے اع ادہ کے ج و وب کے
بارے میں کہتا ہو کسی کے لئے مناسب نہیں کہ آئمہ میں سے جس سے وہ راض ی نہ
اس کا قول قبول نہ کیا جائے گا ( )2یہ اس ضرورت کی وجہ سے جائز ہے جو اس کا
سبب بنتی ہے اگر لوگوں کے درمیان صرف عادل آدمی ہی ان ام ور کی س رانجام دیں
تعالی بہتر جانتا ہے۔ مسئلہ نمبر :6اس میں آدمی کے قول کا فاسد ظاہر ہوجاتا ہے جو
ٰ
یہ کہتا ہے کہ تمام مسلمان عادل ہیں یہاں تک کہ ان کا جرم ثابت ہوج ائے کی ونکہ ہللا
تعالی نے قبول کرنے سے قبل چھان بین کا حکم دیا ہے حکم کے نافذ ک رنے کے بع د
ٰ
چھان بین کرنے کا کوئی مطلب نہیں اگر حاکم چھان بین سے پہلے فیصلے کردے ت و
اس نے محکوم علیہ پ ر جہ الت کے س اتھ مع املہ کی ا ہے۔ مس ئلہ نم بر :7اگ ر وہ ظن
غالب کی بناء پر فیصلہ کرے تو یہ جہالت پر عمل نہ ہوگا جس طرح دو عادل گواہوں
کی بناء پر فیصلہ کیا جاتا ہے اور مجتہد کے قول کو قبول کیا جاتا ہے جہالت پر عمل
اس وقت ہوگا جب اس آدمی کا قول قبول کیا جائے گا جب اس کا قول قبول کرنے سے
َو ا ْعلَ ُم ۤ ْوا اَ َّن فِ ْی ُك ْم َرس ُْو َل هّٰللا ِؕ ١لَ ْو ی ُِط ْی ُع ُك ْم فِ ْی َكثِی ٍْر ِّم َن ااْل َ ْم ِر لَ َعنِتُّ ْم
هّٰللا
ان َو َزیَّنَ ٗه فِ ْی قُلُ ْوبِ ُك ْم َو َك َّرهَ اِلَ ْی ُك ُم ْال ُك ْف َر َو ٰل ِك َّن َ َحب َ
َّب اِلَ ْی ُك ُم ااْل ِ ْی َم َ
ن ولِٓئ َ
ك هُ ُم ال ٰ ّر ِش ُد ْو َ ۙ انؕ ١اُ ٰ
ق َو ْال ِعصْ یَ َ
َو ْالفُس ُْو َ
َوا ْعلَ ُم ْٓوا : اور جان رکھو اَ َّن فِ ْي ُك ْم : کہ تمہارے درمیانَ رس ُْو َل هّٰللا ِ ۭ : ہللا کے رسول لَ ْو
يُ ِط ْي ُع ُك ْم : اگر وہ تمہارا کہا مانیں فِ ْي َكثِي ٍْر : اکثر میںِّ م َن ااْل َ ْم ِر : کاموں سے،
هّٰللا
میں لَ َعنِتُّ ْم : البتہ تم ایذا میں پڑوَ و ٰل ِك َّن َ : اور لیکن ہللاَ حب َ
َّب : محبت دی اِلَ ْي ُك ُم:
ان : ایمان کیَ و َزيَّنَهٗ : اور اسے آراستہ کردیا فِ ْي قُلُ ْوبِ ُك ْم : تمہارے دلوں
تمہیں ااْل ِ ْي َم َ
میںَ و َك َّرهَ : اور ناپسند کردیا اِلَ ْي ُك ُم : تمہارے سامنےْ ال ُك ْف َر : کفرَ و ْالفُس ُْو َ
ق : اور
ولِٓئ َ
ك : یہی لوگ هُ ُم ال ٰ ّر ِش ُد ْو َن : وہ ہدایت پانیوالے ان ۭ : اور نافرمانی اُ ٰ
گناہَ و ْال ِعصْ يَ َ
اور جان رکھو کہ تم میں خدا کے پیغمبر ہیں اگر بہت سی باتوں میں وہ تمہارا کہا مان
لیا کریں تو تم مشکل میں پڑجاؤ لیکن خدا نے تم کو ایمان عزیز بنادیا اور اس کو
تمہارے دلوں میں سجا دیا اور کفر اور گناہ اور نافرمانی سے تم کو بیزار کردیا یہی
خبریں بتا دے گا۔ کہ تم ذلیل و رسوا ہو جائو گے اگ ر مع املہ ظ اہر ہ ونے س ے پہلے
اس امر کی طرف جلدی کرے جس ک ا تم ارادہ ک رو ت و تمہ ارے ل ئے اس میں مش قت
کھائی ہے تو وہ خطا ہوگی جو آدمی باہمی دشمنی کی وجہ سے انہیں ہالک ک رنے ک ا
آدمی نے گناہ کیا عنت کا معنی فجور اور زنا بھی ہے جس طرح س ورة نس اء میں ہے
بارے میں زیادہ گفتگو گزر چکی ہے۔ یہ مخلص مومنوں کو خطاب ہے جو ن بی ک ریم
تعالی نے
ٰ ﷺ کی بارگاہ میں جھوٹ نہیں بولتے اور باطل خبریں نہیں دیتے یعنی ہللا
الی نے اپ نی توفی ق س ے اس ے
ایمان ک و ان ک ا پس ندیدہ ت رین ام ر بن ا دیا ہے۔ اہللا تع ٰ
تمہ ارے دل وں میں م زین کردیا ہے یہ اں ت ک کہ تم نے اس ے پس ند کی ا اس آیت میں
الی
قدریہ اور امامیہ وغیرہ کا رد ہے جس طرح پہلے ک ئی دفعہ گ زر چک ا ہے ہللا تع ٰ
کی ذات تمام مخلوقات کی ذاتوں ان کے افعال ،صفات ازب انوں اور رنگ وں کی تخلی ق
(فسوق) سے مراد خاص طور پر جھوٹ ہے ( )1یہ ابن زید ک ا ق ول ہے ایک ق ول یہ
سے مشتق ہے جو اپنے چھلکے سے باہر آجائے او چوہیا بل سے ب اہر آج ائے س ورة
بقرہ میں اس بارے میں گفتگو مفصل گزر چکی ہے عصیان یہ معاص ی کی جم ع ہے
الی نے
پھر کالم خطاب سے خبر کی منتقل ہوگی ا فرمایا :یع نی وہ ل وگ جنہیں ہللا تع ٰ
الی نے
نے کہا :ہر چٹان رشاد ہے شاعر نے اس سے چٹان م راد لی ہے۔ یع نی ہللا تع ٰ
یہ تمہارے ساتھ فضل و احسان کے طور پر کیا ہے مراد فضل و نعمت ہے یہ آپ کے
لئے کردیا گیا ہے جو تمہارے حق میں بہتر ہے اسے جانتا ہے اور تمہاری ت دبیر کے
فَضْ اًل ِّم َن هّٰللا ِ : ہللا کے فضل سےَ ونِ ْع َمةً ۭ : اور نعمتَ وهّٰللا ُ َعلِ ْي ٌم : اور ہللا جاننے
(یعنی) خدا کے فضل اور احسان سے اور خدا جاننے واال (اور) حکمت واال ہے
Al-Qurtubi - Al-Hujuraat : 9
َو اِ ْن طَٓاِئفَ ٰت ِن ِم َن ْال ُمْؤ ِمنِی َْن ا ْقتَتَلُ ْوا فَاَصْ لِح ُْوا بَ ْینَهُ َماۚ ١فَاِنْۢ بَ َغ ْ
ت
هّٰللا ٰۤ
اِحْ ٰدىهُ َما َعلَى ااْل ُ ْخ ٰرى فَقَاتِلُوا الَّتِ ْی تَ ْب ِغ ْی َح ٰتّى تَفِ ْٓی َء اِلى ا ْم ِر ِۚ١
َ
ت فَاَصْ لِح ُْوا بَ ْینَهُ َما بِ ْال َع ْد ِل َو اَ ْق ِسطُ ْواؕ ١اِ َّن هّٰللا َ ی ُِحبُّ
فَاِ ْن فَٓا َء ْ
َواِ ْن : اور اگر طَٓاِئفَ ٰت ِن : دو گروہِ م َن ْال ُمْؤ ِمنِي َْن : مومنوں سے ،کے ا ْقتَتَلُ ْوا : باہم
لڑپڑیں فَاَصْ لِح ُْوا : توصلح کرادو تم بَ ْينَهُ َما ۚ : ان دونوں کے درمیان فَاِ ْنۢ : پھر
ت : زیادتی کرے اِحْ ٰدىهُ َما : ان دونوں میں سے ایکَ علَي ااْل ُ ْخ ٰرى : دوسرے
اگر بَ َغ ْ
پر فَقَاتِلُوا : تو تم لڑو الَّتِ ْي : اس سے جو تَ ْب ِغ ْي : زیادتی کرتا ہےَ ح ٰتّى : یہاں تک
کہ تَفِ ْٓي َء : رجوع کرے اِ ٰلٓى اَ ْم ِر هّٰللا ِ ۚ : حکم الہی کی طرف فَاِ ْن : پھر اگر جب فَٓا َء ْ
ت:
وہ رجوع کرلے فَاَصْ لِح ُْوا : تو صلح کرادو تم بَ ْينَهُ َما : ان دونوں کے درمیان بِ ْال َع ْد ِل:
عدل کے ساتھَ واَ ْق ِسطُ ْوا ۭ : اور تم انصاف کیا کرو اِ َّن هّٰللا َ : بیشک ہللا يُ ِحبُّ : دوست
اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو اور
اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے
لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع الئے پس وہ رجوع الئے تو دونوں
فریق میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف
اس میں دس مسائل ہیں :۔ مس ئلہ نم بر :1۔ معتم ر بن س لیمان ،حض رت انس بن مال ک ؓ
سے روایت نقل کرتے ہیں ( )2انہوں نے کہا :میں نے عرض کی :اے ہللا کے ن بی :
آپ گدھے پر سوار ہوئے اور مسلمان س اتھ چ ل رہے تھے۔ یہ س وریدہ زمین تھی جب
نبی کریم ﷺ اس کے پاس آئے تو اس نے کہا :مجھ سے دور ہی رہیئے ہللا کی قسم :
آپ کے گدھے کی بو مجھے اذیت دیتی ہے تو ایک انص اری نے کہ ا :ہللا کی قس م :
رسول ہللا ﷺ کا گدھا خوشبو میں تجھ سے بڑھ کر ہے عبدہللا کے لئے اس کی قوم کا
ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی مجاہد نے کہ ا :اوس اوخ زرج کے ب ارے میں یہ
آیت نازل ہوئی۔ مقاتل نے کہا :انصار کے دو قبیلے ڈنڈوں اور جوتوں سے ب اہم ل ڑے
اوخزرج کے درمیان رسول ہللا ﷺ کے زمانہ میں لڑائی ہوئی جو کھجور کی ش اخوں
قتادہ نے کہا :یہ انصار کے دو آدمیوں کے بارے میں نازل ہ وئی ان دون وں ک ا کس ی
حق کے بارے میں باہم جھگڑا تھا ( )1ان میں سے ایک نے کہ ا میں اپن ا ح ق س ختی
سے لوں گا کیونکہ اس کے خاندان کے افراد زیادہ تھے دوسرے نے اسے دعوت دی
کہ رسول ہللا ﷺ کی بارہگاہ میں مسئلہ پیش کرتے ہیں تو پہلے ساتھی نے ایسا کرنے
سے انکار کردیا معاملہ ان کے درمیان ہی رہا یہاں تک وہ لڑ پ ڑے اور ان میں بعض
نے بعض کو ہاتھوں ،جوتوں اور تلواروں سے م ارا ت و یہ آیت ن ازل ہ وئی۔ کل بی نے
کہا :یہ سمیر اور حاطب کی لڑائی کے ب ارے میں آیت ن ازل ہ وئی س میر نے ح اطب
کو قتل کیا تھا تو اوس خزرج آپس میں لڑ پڑے یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ ان کے پاس
عورت تھی جسے ام زید ﷺ کہا جاتا وہ ایک غیر انصاری کے عقد میں تھی وہ اپنے
خاوند س ے الجھی اس ع ورت نے ارادہ کی ا کہ وہ اپ نی ق وم کے اف راد کے پ اس چلی
جائے اس کے خاوند نے اسے محبوس کردیا اسے دوس ری م نزل میں رکھا جس میں
اس کے خاندان کا کوئی فرد نہ تھا وہ عورت نے اپنی ق وم کے اف راد ک و پیغ ام بھجی ا
اس کی قوم کے لوگ آئے انہوں نے اس ے نیچے ات ارا ت اکہ اس ے لے ج ائیں وہ آدمی
تاکہ عورت اور اس کے گھر والوں کے درمیان حائل ہوجائیں انہوں نے ایک دوسرے
کو دھمکے دیئے اور جوتوں سے ایک دوسرے کو مارا تو یہ آیت ن ازل ہ وئی۔ ط ائفہ
کا لفظ ایک آدمی ،جمع اور دو کو شامل ہوتا ہے یہ معنی پر محم ول ہوت ا ہے لف ظ پ ر
محمول نہیں ہوتا کیونکہ دونوں طائفہ ق وم الن اس کے مع نی میں ہے۔ حض رت عب دہللا
کی قرآت میں بالقسط ہے ابن ابی عملہ نے اقلسستا پڑھا ہے کی ونکہ ط ائفہ دو ہیں اس
تعالی
ٰ کے بارے میں گفتگو سورة برات میں گزر چکی ہے حضرت ابن عباس ؓ نے ہللا
کے فرمان (النور) کے بارے میں کہ ا :م راد ایک اور اس س ے اوپ ر ہے اور ط ائفہ
اور حق پرستوں کو پسند کرتا ہے۔ مس ئلہ نم بر :2۔ علم اء نے کہ ا :مس لمانوں میں دو
جماعتیں قتال کرنے میں دو حالتوں سے خالی نہ ہوں گی یا تو وہ دونوں میں سرکش ی
کے راستہ پر باہم قتال کریں گی یا ایسا نہیں ہوگا اگ ر پہلی ص ورت ہ و ت و اس میں یہ
ضروری ہوگ ا کہ دون وں کے درمی ان ایس ے آدمی ک و الیا ج ائے ج و دوری ک و ختم
کرے اور ایک دو سے سے ہاتھ روک لیں اور الگ الگ ہوج ائیں اگ ر وہ نہیں رک تے
صلح بھی نہیں کرتے اور سرکشی پر ہی کمر بستہ رہتے ہیں تو ان دونوں سے جن گ
کی جائے گی اور دوسری صورت یہ ہے کہ ایک جمات دوسری جم اعت پ ر زیادتی
جائے اور توبہ کرلے اگر وہ ایسا کرے تو اس کے درمیان اور جس کے ساتھ زیادتی
کی گئی اس کے درمیان عدل و انصاف سے مصالحت کرائی جائے اگر کسی ش بہ کی
بناء پر دونوں میں جنگ چھڑ جائے دونوں فریق اپنی جگہ حق پ ر ہ وں ت و ض روری
ہے کہ دالئل اور براہین کے ساتھ شبہ کو زائل کیا ج ائے اور اگ ر وہ ل ڑائی جھگ ڑے
الی نے
جنگ کرنا (عالمت) کفر ہے اگر مومن باغی سے قتال کرنا کفر ہے ت و ہللا تع ٰ
لوگوں کے ساتھ جہاد کیا جو اسالم سے وابستہ رہے اور زک وۃ دینے س ے رک گ ئے
آپ نے حکم دیا :پیٹھ پھیر جانے والوں کا پیچھا نہ کیا جائے کسی زخمی ک و نہ م ارا
جائے ان کے اموال لینا حالل نہیں جبکہ کافر میں یہ چیزیں واجب ہیں۔ طبری نے کہا
:اگ ر ہ ر وہ اختالف ج و دو فریق وں کے درمی ان ہوت ا اس میں واجب بھاگ جات ا اور
گھروں میں بیٹھ رہنا ہوتا تو کوئی حد قائم نہ ہوتی اور نہ باطل ک و باط ل کہ ا جات ا ت و
اہل نفاق اور فسق و فجور کا ارتکاب کرنے والے ہر چ یز ک و حال ک رنے کی راہ اپن ا
عورتوں کو قیدی بنا لینا اور ان کے خون بہانا وہ ان مسلمانوں کے خالف لشکر کش ی
ابوبکر بن عربی نے کہا :یہ آیت مسلمانوں کے ساتھ جنگ ک رنے میں اص ل میں ہے
اور غلط تاویل کرنے والوں کے ساتھ جنگ کرنے میں بنیاد ہے۔ صحابہ نے اس ی پ ر
بھروسہ کیا اور ملت کے بڑے لوگوں نے اسی کی پناہ لی ( )2نبی کریم ﷺ نے اپ نے
ارشاد میں یہی آیت مراد لی عمار کو ایک باغی جماعت قتل ک رے گی خ ارجیوں کے
بارے میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے وہ بہترین جماعت پر خروج ریں گے پہلی روایت
نزدیک یہ ثابت ہے اور دینی دلیل سے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی شیر خ دا
امام تھے اور جس نے بھی ان پر خ روج کی ا وہ ب اغی تھا اور اس کے س اتھ ت و قت ال
حضرت عثمان غنی ؓ نے منع کردیا تھا :فرمایا :میں وہ پہال شخص نہیں بننا چاہتا جو
رسول ہللا ﷺ کی امت میں قتل کے ساتھ نی ابت ک رے آپ نے آزم ائش پ ر ص بر کی ا،
امتحان کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور امت کو اپ نی ج ان ک ا ن ذرانہ دے دیا پھر یہ
ممکن نہ تھا کہ لوگوں کو بےمقصد چھوڑ دیا جاتا حض رت عم ر نے ش وری میں جن
حضرت علی شیر خدا اور اس کے زیادہ حقدار اور اہل تھے تو آپ نے امت پر احتیاط
کی غ رض س ے اس ے لے لی ا کہ ان کے خ ون باط ل ط ریقہ س ے نہ بہ تے رہیں اور
بےمقصد ان کا معاملہ ٹوٹ پھوٹ ک ا ش کار نہ ہوج ائے بعض اوق ات دین میں تب دیلی
رونما ہوگئی اور اسالم کے ستون ٹوٹ گئے جب آپ کی بیعت کی گئی تو اہل ش ام نے
ان پکڑیں اور ان سے قصاص لیں حضرت علی شیر خ دا نے انہیں فرمایا :بعیت میں
دیتے ہیں حضرت علی شیر خدا ؓ کی رائے اس بارے میں درست تھی کیونکہ حضرت
علی شیر خدا اگر ان میں سے فورا قصاص لیتے تو قبائل ان کی عص بیت میں کھڑے
مض بوط ہوج ائے اور بیعت منعق د ہوج ائے اور مجلس حکم میں اولی ا کی ج انب س ے
مطالبہ ہو اور حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ ہوج ائے۔ امت میں اس ب ارے میں ک وئی
اختالف نہیں کہ امام کے لئے یہ جائز ہے کہ قصاص میں تاخیر ک رے خصوص ا ً جب
قصاص فتنہ بڑھاکانے اور جمعیت کو منتشر ک رنے ک ا ب اعث ہ و حض رت طلحہ اور
کیا تھا ان کی رائے۔ یہ تھی کہ حضرت عثم ان غ نی ؓ کے ق اتلیں س ے ب دلہ لین ا یع نی
انہیں پہلے قتل کرنا ضروری ہے۔ ( )1۔ میں کہتا ہوں :ان کے درمیان جو جنگ واق ع
ہوئی اس کا سبب بھی یہی قول تھا جلیل الق در علم اء کہ تے ہیں کہ بص رہ میں ان کے
درمیان جو واقع ہوا وہ جنگ کے ارادہ سے نہ ہ وا تھا بلکہ اچان ک ہ وا تھا ہ ر ایک
فریق نے اپنا دفاع کیا کیونکہ اس کا گمان یہ تھا کہ دوس رے فریق نے اس کے س اتھ
دھوکہ کیا ہے کیونکہ معاملہ ان کے درمیان منظم ہوچکا تھا صلح مکم ل ہ وچکی تھی
باہم رضا مندی سے وہ الگ الگ ہونے والے تھے حضرت عثمان غنی ؓ کے قاتلیں کو
خوف ہوا کہ انہیں پکڑ لیا جائے گا اور ان کو گھیر لیا ج ائے گ ا وہ اکٹھے ہ وئے ب اہم
مشاورت کی اور اختالف کیا پھر ان ک ا اس رائے پ ر اتف اق ہ وا کہ وہ دون وں فریق وں
میں بٹ جائیں اور دونوں لش کروں میں س حری کے وقت جن گ ش روع ک ریں ت یر ان
کے درمیان چلے وہ فریق جو حضرت علی ؓ کے لشکر میں تھا اس نے شور مچایا کہ
کہ اس طرح وہ امر تکمیل پذیر ہوا جس کی انہوں نے تدبیر کی تھی اور جنگ نے ان
میں اپنی جگہ بنا لی ہر فریق اپنے کئے کا اپنے ہاں دفاع کررہ ا تھا اور خ ون بہ ائے
تعالی کے
ٰ جانے سے مانع تھا یہ دونوں فریقوں کی جانب سے درست عمل تھا اور ہللا
حکم کی اطاعت تھی کیونکہ باہم جن گ اور دف اع اس ط ریقہ س ے ہ وا تھا :یہی ق ول
یہ حکم س اقط ہوگی ا یہی وجہ ہے کہ ص حابہ میں س ے ایک جم اعت اس ی وجہ س ے
عمر اور حضرت محمد بن مسلمہ ؓ وغیرہ۔ حضرت علی شیر خدا نے ان کی رائے ک و
روایت بیان کی جاتی ہے کہ جب یہ معاملہ حضرت امیر معاویہ ؓ تک پہنچ ا ت و انہ وں
گروہ سے جو جنگ نہیں کی میں اس پر شرمند ہوں اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ
ہر ایک نے جو کیا اس کا وہ کامل طور پر ادراک نہیں رکھت ا تھا یہ س ب کچھ اجتہ اد
کے نتیجہ اور شرع کے حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے تھا۔ ( )2مس ئلہ نم بر :6ان
کی صلح میں عدل یہ ہے ( )3کہ ان کے درمیان جو خون خرابہ ہوا اور جال کا ضیاع
اور ان کے مط البہ کی ص ورت میں حقیقت میں یہ ص لح س ے بھاگن ا اور بغ اوت میں
دور تک جانا ہے۔ مصالحت میں یہی اصل و قانون ہے لسان االمت :نے کہا :ص حابہ
کے عمل سے معلوم ہوچکے ہیں۔ مسئلہ نمبر :7۔ جب ک وئی ب اغی خ روج ک رنے واال
کو ساتھ لے کر قتال کرے جو ایس ے کف ایت ک ریں جن گ س ے پہلے وہ انہیں اط اعت
اور جماعت میں داخل ہونے کی دعوت دے اگر وہ اطاعت کی طرف لوٹے اور ص لح
سے انکار کریں تو ان کے ساتھ جنگ کی جائے ان کے قیدیوں کو قتل کی ا ج ائے ،ان
کے بھاگ جانے والے کا پیچھا نہ کیا جائے ،ان کے زخمی کو قت ل ک رنے میں جل دی
بنایا جائے جب عادل (امیر کا وفادار) باغی کو قتل کرے یا باغی عادل ک و قت ل ک رے
بوجھ کر قتل کرنے واال کسی صورت میں وارث نہیں بنے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے
:عادل باغی کا وارث بنے گا :قصاص پر قیاس کیا گیا ہے۔ مسئلہ نم بر :8ب اغیوں او
مواخذہ نہیں ہوگا :امام ابوحنیفہ نے کہا :وہ ضامن ہوں گے ام ام ش افعی کے دو ق ول
توض مانت الزم ہ وگی ہم ارے نزدیک قاب ل اعتم اد ب ات یہ ہے کہ ص حابہ ؓ اپ نی ب اہم
جنگ وں میں بھاگ ج انے والے ک ا پیچھا نہیں ک رتے تھے اور زخمی ک و قت ل نہیں
کرتے تھے اور قیدی کو قتل نہیں ک رتے تھے ج ان کے اتالف اور م ال ض ائع ہ ونے
کی ص ورت میں وہ ض مانت نہیں لی تے تھے وہی مقت داء ہیں۔ حض رت ابن عم ؓر نے
تعالی نے اس
ٰ کہا :نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :اے عبدہللا :کیا تو جانتا ہے کہ ہللا
بارے میں کیا حکم دیا ہے جو اس امت میں س ے بغ اوت کرت ا ہے ( ‘ )1ع رض کی :
ہللا اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے اور فرمایا :اس کے زخمی کو قتل نہ کیا جائے گا
اس کے قیدی کو قتل نہیں کیا جائے گا بھاگ جانے والی کی تالش نہیں کی ج ائے گی
کردیا جائے گا یہ سب کچھ آدمی کے بارے میں ہے جو کسی تاویل کی بناء پر خ روج
کرتا ہے جو تاویل اس خروج کو جائز قرار دیتی تھی۔ زمحش ری نے اپ نی تفس یر میں
ان کی تعداد زیادہ ہو تو وہ قوت و شوکت والے ہوں تو وہ ضامن نہ ہ وگی مگ ر محم د
ہوگی جب وہ رکوع کرے گا مگر جمع ہونے اور لشکر کشی کرنے سے قبل یا جن گ
الی کے
سب کے نزدیک ضامن ہوگا۔ عدل کے ساتھ اصالح پر برانگخ تیہ کرن ا ہللا تع ٰ
اس فرمان :میں امام محمد کے نزدیک واضح ہے آیت کریمہ کے لفظ پر منطبق ہے (
حسن مطابقت نہیں رکھتا :زمحشری نے کہا :اگر تو سوال کرے :دوسرے کے ساتھ
عدل کو مالیا گیا ہے پہلے کے ساتھ نہیں مالیا گی ا ؟ میں اس ک ا ج واب دوں گ ا :آیت
کے شروع میں قتال سے مراد ہے کہ وہ دونوں باغی کی حیثیت میں قتال ک ریں یا ان
میں شبہ پایا جائے کوئی بھی صورت ہ و مس لمانوں پ ر یہ واجب ہے کہ ح ق ک ا ارادہ
کرتے ہوئے شافی مواعظ کے ساتھ اور شبہ کی نفی کرنے کا اہتمام کرتے ہ وئے ج و
جدائی واقع ہوچکی ہے اس میں اصالح احوال کریں آگ ک و ٹھن ڈا ک ریں مگ ر جب وہ
کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ جب ان میں سے ایک ب اغی ہ و ت و مع املہ اس ط رح نہ
ہوگا کیونکہ مذکوہ صورتوں میں ضمانت قابل توجہ ہوگی۔ مسئلہ نمبر :9اگر وہ کس ی
عالقہ پر غلبہ پا لیں اور ص دقات وص ول ک رلیں ح دود ق ائم ک ریں اور ان میں فیص لہ
کریں ان پر نہ تو دوبارہ صدقات الزم کئے جائیں گے اور نہ حدود ق ائم کی ج ائیں گی
اور انہوں نے جو فیصلے کئے ان کے خالف کوئی حکم نہیں دیا ج ائے گ ا مگ ر ج و
:کسی حال میں بھی یہ جائز نہیں ( )1اصبغ سے مروی ہے ،یہ ج ائز ہے ،ان س ے یہ
بھی مروی ہے کہ یہ جائز نہیں جس طرح ابن قاسم کا قول ہے ،ام ام ابوح نیفہ ک ا بھی
جائز نہ ہوتا ہمارے لئے قاب ل اعتم اد وہی ہے ج و ہم پہلے ذک ر ک رچکے ہیں کہ جب
فتنہ فرور ہوگیا اور صلح کی وجہ سے اختالف کیا گیا تو ص حابہ نے کس ی کے حکم
میں کوئی معارضہ نہ کیا ابن عربی نے کہوا :جو چیز میرے پ اس پس ندیدہ ہے کہ یہ
درست نہیں کیونکہ فتنہ جب ختم ہوگی ا ت و ام ام وہی ب اغی تھا ت و وہ اں ک ون تھا ک و
معترض بنتا ( )2۔ مسئلہ نمبر :10۔ یہ جائز نہیں کہ صحابہ میں سے کسی ص حابی کی
طرف قطعی طور پر خطا کو منسوب کیا جائے کیونکہ ہر ایک نے جو بھی عم ل کی ا
ان کا ذکر احسن انداز میں ہی کریں گے کی ونکہ ص حابہ اح ترام کے مس تحق ہیں اور
الی نے ان کی
نبی کریم ﷺ نے انہیں برا بھال کہنے سے منع کر رکھا ہے اور ہللا تع ٰ
اس میں قتل ہونے واال ش ہید نہ ہوت ا اس ط رح اگ ر جس جن گ میں وہ نکلے تھے ت و
تاویل میں غلطی کرتے اور واجب کوتاہی ک رتے کی ونکہ ش ہادت ت و اس ی وقت ہ وتی
اس امر پر محمول کیا جائے جو ہم نے بیان کیا ہے اس امر پ ر ج و چ یز داللت ک رتی
ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علی شیر خدا کی روایات میں صحیح اور عام روایت ہے کہ
حضرت زبیر کو قتل کرنے واال جہنم میں جائے گ اور ان ک ا یہ ق ول ہے کہ میں نے
رسول ہللا ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا :ابن ص فیہ کے قات ل ک و جن ہم کی بش ارت دے
حضرت زبیر نافرمانی کرنے والے اور قتال کے ذریعے گناہ گار نہ تھے کیونکہ اگر
معاملہ اس طرح ہوتا یعنی وہ عاصی اور گناہ گن ار ہ وتے ت و ن بی ک ریم ﷺ حض رت
کا قات ل آگ میں ہے اس ط رح ج و گھر میں بیٹھ گی ا وہ تاویل میں غلطی ک رنے واال
ہے تو یہ ام را نہیں لعن طعن ک رنے اور ان س ے ب رات ک ا اظہ ار ک رنے اور ان ک و
فاسق قرار دینے کو ثابت نہیں کرتا ان کے فضائل اور ان کے جہاد کو باطل نہیں کرتا
اور دین میں جو ان کا عظیم مقام ہے ان کو ختم نہیں کرتا۔ بعض سے اس خون ریزی
کے بارے میں پوچھا گی ا ج و ان کے درمی ان واق ع ہ وئی ت و یہ آیت پ ڑھی (البق رہ) ۔
بعض سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا :وہ ایسی خ ونریزی تھی ہللا
تعالی نے میرا ہاتھ اس سے پاک رکھا میں اپنی زبان کو اس سے آلودہ نہیں ک روں گ ا
ٰ
یعنی خطا میں واقع ہونے اور بعض پ ر ایس ا حکم لگ انے س ے ج و درس ت نہ ہ و اس
سے بچوں گا ابن فورک نے کہا :ہمارے دونوں میں سے کچھ نے کہا کہ صحابہ کے
درمیان جو تنازعہ ہوئے ان کے بارے میں وہی رویہ ا پنائو ج و حض رت یوس ف اور
ان کے بھائیوں کے درمیان تنازعہ ہوا اس میں اپناتے ہوئے اس کے باوجود وہ دالیت
اور نبوت کے دائرہ سے باہر نہ نکلے اور صحابہ کے درمیان جو مع املہ ہ وا وہ بھی
اسی طرح ہے۔ محاسبی نے کہا :جہاں تک خونریزی کا تعل ق ہے ان کے اختالف کی
حاضر ہوئے جبکہ ہم غا ئب تھے وہ عالم تھے ہم جاہل ہیں وہ اکٹھے ہوگئے تو ہم نے
ان کی اتباع کی اور انہوں نے اختالف کیا تو ہم نے توقف کیا ( )1۔ محاس بی نے کہ ا :
داخل ہوئے تھے وہ ہم سے زیادہ علم رکھنے والے تھے جس امر پر انہ وں نے اتف اق
اِنَّ َما ْال ُمْؤ ِمنُ ْو َن اِ ْخ َوةٌ فَاَصْ لِح ُْوا بَی َْن اَ َخ َو ْی ُك ْم َو اتَّقُوا هّٰللا َ لَ َعلَّ ُك ْم
اِنَّ َما : اسکے سوا نہیںْ ال ُمْؤ ِمنُ ْو َن : مومن (جمع) اِ ْخ َوةٌ : بھائی فَاَصْ لِح ُْوا : پس صلح
کرادو بَي َْن : درمیان اَ َخ َو ْي ُك ْم ۚ : اپنے بھائیوں کےَ واتَّقُوا هّٰللا َ : اور ڈرو ہللا سے لَ َعلَّ ُك ْم:
مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو اور خدا
اس میں تین مس ائل ہیں :مس ئلہ نم بر :1یع نی دین و ح رمت میں بھائی بھائی ہیں یہ
زیادہ قوی ہے کیونکہ نس بی اخ وت دینی مخ الفت کی وجہ س ے ختم ہوج اتی ہے اور
دینی اخوت نسبی مخالفت کے باوجود ختم نہیں ہوتی۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ
سے مروی ہے کہ رسول ہللا ﷺ نے ارشاد فرمایا )1( :باہم حسد نہ ک ر ب اہم بغض نہ
کرو جاسوسی نہ کرو خبر معلوم کرنے کی کوشش نہ کرو کیا ب اہم بھائو پ ر بھائو نہ
کیا کروبھائی بھائی بنتے ہوئے ہللا کے بندے بن ج ائو۔ ایک روایت میں ہے کہ ” ب اہم
حسد نہ کیا کرو ،بھائو پر بھائو نہ لگایا کرو ،باہم بغض نہ کی ا ک رو ،آپس میں دش منی
نہ رکھا کرو تم میں س ے ک وئی کس ی کی خریدو ف روخت کے معاہ دے پ ر معاہ دہ نہ
کرے بھائی بھائی بنتے ہوئے ہللا کے بندے بن جائو۔ “ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ
ہے تقوی یہاں “ آپ نے تین دفعہ سینہ کی طرف اشارہ کیا ” ایک انسان کے لئے اتنی
نہ اسے بےیارومددگار چھوڑتا ہے اور نہ گھر بن انے میں اس کے س اتھ مق ابلہ کرت ا
خوشبو سے اسے اذیت نہیں دیتا مگر اس کے لئے چمچہ پھر س الن بھیجت ا ہے اور وہ
جائیں اور اس میں سے انہیں کوئی چیز نہ دیں “ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :یاد
کرلو تم میں سے بہت ہی تھوڑے افراد اسے یاد رکھیں گے۔ “ مسئلہ نمبر :2یعنی جن
دو مسلمان افراد کے درمیان جھگڑا ہے ان میں صلح کرائو۔ ایک ق ول یہ کی ا گی ا ہے
کہ اوس و خزرج مراد ہیں جس طرح یہ ب ات پہلے گ زر چکی ہے اب و علی نے کہ ا :
اخوین سے مراد دو طائفے ہیں کیونکہ ثنیہ کا لفظ ذک ر کی ا جات ا ہے اور م راد ک ثرت
نصر بن عاصم ،اب و الع الیہ ،حج دری اور یعق وب نے بین اخ وتکم پڑھ ا ہے حض رت
حسن بصری نے اخوانکم پڑھا ہے باقی قراء نے اخویکم یاء کے س اتھ ث نیہ ک ا ص یغہ
پڑھا ہے۔ مسئلہ نمبر :3اس آیت اور اس سے قبل والی آیت میں یہ دلیل موجود ہے کہ
باوجود انہیں اخواہ اور مومنین کا نام دیا ہے حارث اعور نے کہا :حضرت علی ش یر
خدا ؓ سے جنگ جم ل اور جن گ ص فین میں ش ریک اف راد کے ب ارے میں پوچھا گی ا
جبکہ ان کے ساتھ جنگ کرنے وال وں کے متق دی تھے کی ا وہ مش رک ہیں ؟ فرمایا :
نہیں وہ ش رک س ے بھاگے تھے ،پوچھا گی ا ،وہ من افق تھے ؟ فرمایا :نہیں کی ونکہ
من افق ہللا ک ا بہت کم ذک ر ک رتے ہیں :پوچھا گی ا :ان ک ا کی ا ح ال ہے ؟ فرمایا :وہ
َو اَل نِ َسٓا ٌء ِّم ْن نِّ َسٓا ٍء َع ٰۤسى اَ ْن یَّ ُك َّن َخ ْیرًا ِّم ْنه َُّنَۚ ١و اَل تَ ْل ِم ُز ۤ ْوا
گروہِّ م ْن قَ ْو ٍم( : دوسرے) گروہ کاَ ع ٰ ٓسى : کیا عجب اَ ْن يَّ ُك ْونُ ْوا : کہ وہ ہوںَ خ ْيرًا ِّم ْنهُ ْم:
بہتر ان سےَ واَل نِ َسٓا ٌء : اور نہ عورتیںِّ م ْن نِّ َسٓا ٍء : عورتوں سے ،کاَ ع ٰ ٓسى : کیا
عجب اَ ْن يَّ ُك َّن : کہ وہ ہوںَ خ ْيرًا ِّم ْنه َُّن ۚ : بہتر ان سےَ واَل تَ ْل ِم ُز ْٓوا : اور نہ عیب
لگاؤ اَ ْنفُ َس ُك ْم : باہم (ایکدوسرے)َ واَل تَنَابَ ُز ْوا : اور باہم نہ چڑاؤ بِااْل َ ْلقَا ِ
ب ۭ : بُرے القاب
مومنو ! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں
اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام (رکھو) ایمان
النے کے بعد برا نام رکھنا گناہ ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں
تعالی کے ہ اں ان س ے بہ تر ہ وں۔
ٰ اس میں چار مسائل ہیں :مسئلہ نمبر :1یعنی وہ ہللا
ایک قول یہ کیا گیا ہے اعتقاد اور باطنی طور پر اطاعت ش عار ہ ونے میں بہ تر ہ وں۔
روی لغت ہے ،اخفش نے کہا :سب نے کہا :یہ کہا جات ا ہے اس ک ا اس م س خریہ اور
سخرہ وہ عمل میں مذاق کرتا ہے یہ کہا جاتا ہے یعنی اس کے ساتھ مذاق کیا جات ا ہے
اختالف ہے حضرت ابن عباس ؓ نے کہا :یہ آیت حضرت ثابت بن قیس بن ش ماس کے
حق میں نازل ہوئی ان کے کان میں گرانی تھی جب ص حابہ ن بی ک ریم ﷺ کی مجلس
کی طرف سبقت کرتے جب وہ مجلس میں آتے ت و ص حابہ ان کی جگہ کھلی کردیتے
یہاں تک کہ وہ آپ کے پہلو میں بیٹھ جاتے تاکہ جو رسول ہللا ﷺ ارش اد فرم ائیں اس
کریم ﷺ فارغ ہوئے تو آپ ﷺ کے حابہ اپنی اپنی جگہ بیٹھ چکے تھے ہر ایک آدمی
نے اپنے آپ کو اپنی جگہ روک لی ا اور اس ی کے س اتھ چمٹ گ ئے۔ ک وئی کس ی کے
لئے جگہ نہیں چھوڑ رہا تھا یہ اں ت ک کہ ج و آدمی جگہ نہ پات ا وہ کھڑا ہوجات ا جب
حضرت ثابت نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے لوگوں کی گردنوں کو پھانگا اور کہتے
کہا :یہ کون ہے ؟ لوگوں نے بتایا :فالں ہے۔ حضرت ثابت نے کہا فالن کا بیٹا ،اسے
آئی تو یہ آیت نازل ہ وئی۔ ض حاک نے کہ ا :یہ بن و تمیم کے وف د کے ب ارے میں آیت
نازل ہوئی جن کا ذکر سورة کے آغاز میں گزر چک ا ہے انہ وں نے فق راء ص حابہ ک ا
مذاق اڑایا جس طرح حض رت عم ارخ حض رت خب اب ،حض رت ابن فہ یرہ ،حض رت
بالل ،حضرت صہیب ،حضرت سلیمان اور حضرت سالم جو ابو حذیفہ کے غالم تھے
سے جو لوگ ایم ان الئے تھے ان کے ب ارے میں یہ آیت ن ازل ہ وئی ( )1۔ مجاہ د نے
الی نے جس کے گن اہ
کہا :مراد غنی کا فقیر سے مذاق کرنا ،ابن زید نے کہ ا :ہللا تع ٰ
تعالی نے ظ اہر
ٰ پوشیدہ رکھے وہ اس آدمی کا مذاق نہ اڑھائے جس کے گناہوں کو ہللا
بہتر ہو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے :یہ آیت عکرمہ بن ابی جہل کے حق میں ن ازل ہ وئی
کرے جو اس کے سامنے آئے جبکہ اس کا حال پراگند ہو اس کے بدن میں کوئی عیب
ہو یا وہ زیادہ اچھی طرح گفتگو نہ کرسکتا ہو ممکن ہے ضمیر کے اعتبار سے زیادہ
الی
تعالی نے عزت دی ہے اور اس کے ساتھ مذاق کر رہ ا ہے جس ے ہللا تع ٰ
ٰ جسے ہللا
نے عظیم قراردیا ہے سلف صالحین نے اس امر سے بچنے میں حد درجہ مبالغہ س ے
بکری کے بچے کو بکری کا دودھ پال رہا ہے تو میں اس پ ر ہنس پ ڑوں ت و مجے ڈر
ہے کہ میں وہ کام کروں گا جو اس نے کیا ہے۔ حضرت عبدہللا بن مسعود ؓ سے مروی
ہے :آزمائش بات پر ہی منحصر ہے اگر میں کتے کا مذاق اڑائو تو مجھے ڈر ہے کہ
میں کتنا بنا دیا جائوں قوم کا لفظ مذکرین کے لئے خاص ہے :زہیر نے کہا :میں نہیں
جانتا ممکن ہے میں جان جائو کیا آل حصن مرد ہیں یا عورتیں ہیں۔ انہیں قوم کا نام دیا
گیا ہے کیونکہ وہ مصائب میں داعی کے ساتھ کھڑے ہ وتے ہیں ایک ق ول یہ کی ا گی ا
ہے :یہ قائم کی جمع ہے پھر ہر جماعت میں اس کو استعمال کیا ج انے وال اگ رچہ وہ
کھڑے نہ ہ وں ق وم میں ع ورتیں مج از داخ ل ہوج اتی ہیں س ورة بق رہ میں اس کی
وضاحت پہلے گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر :3عورتوں کا خصوصی ذکر کیا کیونکہ ان
تعالی کا فرمان ہے ( :نوح )1یہ سب کو شامل ہے مفسرین
ٰ سے مذاق اکثر ہوتا ہے ہللا
نے کہا :یہ نبی کریم ﷺ کی دو بیویوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے حضرت
ام سلمہ ؓ سے استہزاء کیا تھا آپ نے اپنی دون وں ڈھ اکوں ک و ایک س فید ک پڑے س ے
باندھ رکھا تھا اور اس کی دونوں طرفوں کو پیچھے لٹکا دیا تھا وہ اس ے گھس یٹ رہی
تھیں حضرت عائشہ نے حضرت حفصہ سے فرمایا :اسے دیکھو یہ اپنے پیچھے کی ا
اور ابن زید نے کہا ا :یہ نبی ک ریم ﷺ کی ازواج کے ب ارے میں ن ازل ہ وئی جنہ وں
نے حضرت امہ سلمہ کو چھوٹے قد کا ہ ونے کی وجہ س ے ع ار دالئی تھی ( )1ایک
قول یہ کیا گیا ہے کہ یہ حضرت صدیقہ کے حق میں نازل ہوئی انہ وں نے اپ نے ہ اتھ
سے حضرت ام سلمہ ؓ کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اے اللے کے ن بی :وہ چھوٹے ق د کی
حیی بن اخطب رسول ہللا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں عرض کی :رس ول ہللا ﷺ
عورتیں مجھے عار دالتی ہیں وہ مجھے کہتی ہیں اے یہودن جو دو یہودیوں کی بی ٹی
ہارون (علیہ السالم) اور میرے چچا حض رت موس ٰی (علیہ الس الم) اور م یرے خاون د
نقل کروں جبکہ میرے لئے یہ ہے “ کہاں میں نے نے عرض کی یا رس ول ہللا ﷺ کہ
حضرت صفیہ چھوٹے قد کی عورت ہے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا فرمایا :ت و نے
ایسی بات کی ہے اگر اسے سمندر میں مالیا جائے تو وہ متغیر ہوجائے “ ( )2بخ اری
میں حضرت عبدہللا بن زمعہ سے روایت مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” :تم
میں سے کوئی ایک اونٹ و مارنے کی طرح کیوں اپنی بیوی کو مارتا ہے پھر اس ے
گلے لگاتا ہے “ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت مروی ہے کہ رس ول
دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دل اور اعمال دیکھتا ہے۔ “ ( )3یہ عظیم ح دیث ہے اس پ ر یہ
الی
اطاعت کے اعمال دیکھے ممکن ہے جو اعمال ظاہرہ کی مخ الفت کرت ا ہے ہللا تع ٰ
الی اس کے
رہتے ہوں ممکن ہے جس میں ہم کوئی نافرمانی اور کوتاہی دیکھیں ہللا تع ٰ
دل میں ایسا وصف محمود جانتا ہو جس کے باعث اس کے گناہ بخش دے اعمال ظ نی
نشانیاں ہیں یہ قطعی ادلہ نہیں جس کے اعمال دیکھیں اس کی تعظیم میں عل ونہ ک ریں
)58میں یہ بحث گزر چکی ہے طبری نے کہا :لمز ہاتھ ،آنکھ زبان اور اشارہ سے ہو
کی مثل ہے یعنی تم میں سے بعض بعض کو قتل نہ ک ریں کی ونکہ موم نین ایک نفس
کی طرح ہیں گویا بھائی کو قت ل ک رنے واال اپ نے آپ ک و قت ل ک رنے واال جس ط رح
مومنین ایک نفس کی طرح ہیں گویا بھائی کو قتل کرنے واال اپ نے ٓپ ک و قت ل ک رنے
عباس ،مجاہد ،قتادہ ،اور سعید بن جبیر نے کہ ا :تم میں س ے بعض بعض پ ر طعن نہ
کریں ضحاک نے کہا :تم میں سے بعض بعض پر طعن نہ کریں اس ے التلم زون بھی
عیب نہیں لگایا اس لئے کسی غیر پ ر بھی عیب نہیں لگان ا چ اہیے کیون د کہ غ یر بھی
اس کی ذات کی طرح ہے رسول ہللا ﷺ نے ارشاد فرمایا :سب مومون ایک جس م کی
ماند ہیں اگر اس میں سے ایک عضو کو بیماری لگتی ہے تو سارا جس م اس کے ل ئے
بیداری اور بخار کے ساتھ ایک دوسرے کو بال لیتا ہے۔ بکر بن عبدہللا مزنی نے کہا :
اگر تو یہ ارادہ کرتا ہے کہ تو ہمت سے عیوب کو دیکھے ت و بہت زیادہ عیب لگ انے
والے غور کر کیونکہ لوگوں پر وہی عیب لگاتا ہے جو اس کے عیوب سے زائ د ہوت ا
ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :تم میں سے کوئی ایک اپنے بھائی میں تنک ا دیکھ
لیتا ہے اور اپنی آنکھ میں شہیتر کو چھوڑ دیتا ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے :انس ان کی
سعادت مندی اس میں ہے کہ دوسروں کے عیوب میں مشغول ہونے کے بجائے اپ نے
ٰ
تقوی اسے عیوب میں مشغول ہوجائے :شاعر نے کہا :انسان اگر عقلمند ہو تو اس کا
اسے تمام لوگوں کے درد سے غافل کردیتا ہے۔ ایک اور ش اعر نے کہ ا :جن عی وب
الی ت یرے عی وب ک و
کو لوگوں نے چھپا رکھا ہے ت و انہیں ظ اہر نہ ک رو ورنہ ہللا تع ٰ
میں ہے وہ عیب کسی پر نہ لگا۔ مسئلہ نمبر :2کا معنی ہے اس کی جمع انباز ہے ن بز
مصدر ہے تو اس کا باب یوں ظاہر کرتا ہے یعنی اسے لقب دیا فالں بچوں کو لقب دیتا
ہے کثرت کو ظاہر کرنے کے لئے اسے مش دد پڑھ ا جات ا ہے یہ بھی ج ائز ہے ب رے
لقب کو کہتے ہیں ان میں سے بعض نے بعض کو لقب دیا۔ ترم ذی میں اب و جب یرہ بن
ضحاک سے مروی ہے کہا :ہم میں سے ایک آدمی کے دو یا تین نام ہ وا ک رتے تھے
ان میں سے کسی ایک نام سے اسے پکارا جاتا ( )1ممکن تھا کہ وہ ناپس ند ک رتے ت و
یہ آیت ن ازل ہ وئی کہ ا :یہ ح دیث حس ن ہے۔ اب و جب یرہ نے کہ ا :وہی اخوث ابت بن
ض حاک بن خلیفہ انص اری ہے ،اب و زید بن س عید بن ربی ع ص احب ہ ر وی ثقہ ہے
مصنف ابی دائود میں ان سے یہ روایت مروی ہے کہ یہ آیت ہمارے ب ارے میں ن ازل
ہوئی کہا :رسول ہللا ﷺ تش ریف الئے ہم میں س ے ک وئی ایس ا آدمی نہ تھا مگ ر اس
کے دو یا تین نام تھے۔ رسول ہللا ﷺ اسے فرمایا ک رتے :اے فالں وہ ع رض ک رتے
یا رسول ہللا ﷺ رک جائیے اور وہ اس نام سے ناراض ہوجاتا تو یہ آیت نازل ہ وئی (
)2ایک قول ہے۔ دوسرا قول ہے :حضرت حسن بصری اور مجاہ د نے کہ ا کہ اس الم
نصرانی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ قتادہ اور ابو الع الیہ اور عک رمہ س ے م روی ہے قت ادہ
نے کہا :اس سے مراد اے فاسق ،اے منافق ،یہ مجاہد اور حض رت حس ن بص ری ک ا
کافر ،جبکہ وہ اسالم قبول کرچکا ہے اور توبہ کرچکا ہے یہ ابن زید کا قول ہے ایک
قول یہ کیا گیا ہے جس نے اپنے بھائی کا لقب ذکر کیا یا اس کے ساتھ مذاق کیا تو ایسا
میں کہا اے کافر :تو یہ قول کسی ایک کی طرف ل وٹے گ ا اگ ر اس ی ط رح ہ وا جس
کریم ﷺ کے پاس تھے ایک آدمی نے ان سے جھگڑا کیا تو حضرت ابو ذر نے اسے
کہا :اے یہودیہ کے بیٹے :نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :ت و یہ اں س رخ اور س یاہ
نہیں دیکھتا تو اس سے افضل نہیں “ یعنی تو تقوی کے ساتھ اس س ے افض ل نہیں ت و
الی نے اس ے س ابقہ
کہ آدمی نے برے اعمال کئے ہ وں پھر وہ ت وبہ ک رلے ت و ہللا تع ٰ
آزمائش میں ڈالے اور اسے دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا کرے۔ “ مسئلہ نمبر :3جس
کا استعمال غالب ہوتا ہے اور وہ اس سے مستثنی ہے جس طرح کا ن ا ،ک بڑا جس میں
اس کا اپنا کوئی عمل دخل نہ ہو امت نے ایسا قول ک رنے کی اج ازت دی ہے اور اہ ل
ہے جس سے میں راضی نہیں وہ گفتگو صالح ج زرہ کے ب ارے میں ہے کی ونکہ اس
نے خزرہ میں تصحیف کی تھی تو اسی کے ساتھ اس کا لقب رکھ دیا گیا اس ط رح ان
پڑے تھے اسی کی مثل اور بھی اق وال ہیں ج و مت اخرین میں غ الب آئے میں دین کے
میں بنائے ان کے نام میں غ الب عین کلمہ ک ا ض مہ تھا ج و قاع دہ اس تم ام بحث ک و
ضبط کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر وہ قول جس ے انس ان ناپس ند ک رے جب اس ے اس کے
تعالی بہتر
ٰ ساتھ ندا کی جائے تو اذیت دینے کی وجہ سے اس کا استعمال جائز نہیں ہللا
جانتا ہے۔ میں کہتا ہوں اسی مع نی میں بخ اری نے ج امع ص حیح میں کت اب االدب ک ا
ایک باب باندھا ہے۔ کہا نبی کریم :نے ارشاد فرمایا :عب دہللا بن خویزمن داد نے کہ ا :
یہ آیت اس چیز کو اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہے کہ انسان کو ایس ا لقب نہ دیا ج ائے
جسے وہ ناپسند کرتا ہے اور جسے وہ پسند کرتا ہے وہ لقب اسے دینا جائز ہے کی ا تم
ص دیق ،حض رت عثم ان ک و ذوالن ورین ،حض رت خ زیمہ ک و ذوش ہاتیں ،کس ی ک و
ذوشمالین اور کسی کو ذویدین وغ یرہ ک ا لقب دیا۔ زمحش ری نے کہ ا :ن بی ک ریم ﷺ
اسے سب سے زیادہ محبوب ہو ،اسی وجہ س ے ک نیت س نت اور ادب حس ن میں س ے
ہے حضرت عمر ؓ نے کہا :کنتیں عام کرو کی ونکہ یہ آگ اہ ک رنے والی ہیں۔ حض رت
ابوبکر صدیق کا لقب عتیق اور صدیق تھا حض رت عم ر ک ا لقب ف اروق تھا حض رت
حمزہ کا لقب اسد ہللا حضرت خالد کا لقب سیف ہللا دور ج اہلیت اور دور اس الم میں کم
ہی ایسا مشہور شخص ہوگا جس کا کوئی لقب نہ ہو عرب و عجم کی تم ام قوم وں میں
ہمیشہ سے اچھے لقب ان کی گفتگ و وں اور مک اتیب میں ج اری ہیں کس ی نے انک ار
نہیں کیا۔ ماوردی نے کہا :جہاں تک مستحب اور مستحسن القاب کا تعل ق ہے۔ ( )2ت و
وہ مکروہ نہیں رسول ہللا ﷺ نے کئی صحابہ کے ایسے اوصاف بیان کئے ہیں جو ان
کے نمایاں لقب بن گئے۔ میں کہتا ہوں :جس کا ظ اہر ناپس ندیدہ ہ و جب اس کے س اتھ
صفت بیان کرنے کا ارادہ کیا ہو عیب کا ارادہ نہ ہو تو یہ اکثر ہوتا ہے حضرت عبدہللا
بن مالک سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو کہہ رہا تھا جمین طویل ،سلیمان
عبدہللا بن سرجس سے مروی ہے :کہا :میں نے گنجے یعنی حضرت عمر ؓ کو دیکھا
جو حجراسود کا بوسہ لے رہے تھے۔ ایک روایت میں اص الیلیح کے الف اظ ہیں۔ یع نی
جو ایسے القاب ذکر ک رنے س ے ت وبہ ت ائب نہ ہ وا جس س ے مس لمان اذیت محس وس
کرتے ہیں وہ ان معن کی گئی چیزوں کو اپنا کر اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔
Al-Qurtubi - Al-Hujuraat : 12
ۤ
ٰیاَیُّهَا الَّ ِذی َْن ٰا َمنُوا اجْ تَنِب ُْوا َكثِ ْیرًا ِّم َن الظَّ ِّن٘ ١اِ َّن بَع َ
ْض الظَّ ِّن اِ ْث ٌم َّو اَل
ٰيٓاَيُّهَا : اے الَّ ِذي َْن ٰا َمنُوا : جو لوگ ایمان الئے اجْ تَنِب ُْوا : بچوَ كثِ ْيرًا : بہت سےِّ م َن الظَّنِّ ۡ:
ْض : بیشک بعض الظَّنِّ : بدگمانیاں اِ ْث ٌم : گناہَّ واَل : اور نہ تَ َج َّسس ُْوا:
(بد) گمانیوں اِ َّن بَع َ
ٹٹول میں رہا کرو ایک دوسرے کیَ واَل يَ ْغتَبْ : اور غیبت نہ کرو بَّ ْع ُ
ض ُك ْم : تم میں
سے (ایک) بَ ْعضًا ۭ : بعض (دوسرے) کی اَيُ ِحبُّ : کیا پسند کرتا ہے اَ َح ُد ُك ْم : تم میں
سے کوئی اَ ْن يَّاْ ُك َل : کہ وہ کھائے لَحْ َم اَ ِخ ْي ِه : اپنے بھائی کا گوشتَ م ْيتًا : مردہ
کا فَ َك ِر ْهتُ ُم ْوهُ ۭ : تو اس سے تم گھن کروگےَ واتَّقُوا هّٰللا َ ۭ : اور ہللا سے ڈرو اِ َّن هّٰللا َ:
اے اہل ایمان ! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک
دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے کیا تم میں
سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے اس
سے تو تم ضرور نفرت کرو گے (تو غیبت نہ کرو) اور خدا کا ڈر رکھو بیشک خدا
اس میں دس مسائل ہیں :مسئلہ نمبر :1۔ ایک ق ول یہ کی ا گی ا ہے :یہ آیت ان دو م رد
صحابہ بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے اپنی ساتھی کی غیبت کی تھی اس کی وجہ یہ
بنی کہ نبی کریم ﷺ کا معمول مبارک یہ تھا جب آپ سفر کرتے تو ایک محت اج آدمی
کو دو خوشحال آدمیوں کے س اتھ مال دیتے وہ ان کی خ دمت کرت ا رس ول ہللا ﷺ نے
نکلے اور نیند غالب آگئے وہ سو گئے اور ان دونوں کے لئے ک وئی چ یز تی ار نہ کی
وہ دون وں آئے ت و کھان ا اور س الن نہ پایا دون وں نے کہ ا :ج ائو ن بی ک ریم ﷺ س ے
ہمارے لئے کھانا اور سالن طلب کرو۔ وہ گئے نبی کریم ﷺ نے انہیں فرمایا ”:اس امہ
بن زید کے پاس جائو اسے کہو :اگر تیرے پ اس زائ د کھان ا ہے ت و تجھے دے دے “
حضرت اسامہ نبی کریم ﷺ کے خازن تھے حضرت سلمان فارسی اس کے پاس گئے
حضرت اسامہ نے کہا :میرے پ اس ت و کچھ بھی نہیں حض رت س لمان واپس آئے اور
ان دونوں کو یہ سب صورتحال بتائی دونوں نے کہا :اس کے پاس کھان ا ت و تھا لیکن
جماعت کی طرف بھیجاتو انہ وں نے ان کے ہ اں بھی ک وئی کھانہ نہ پایا دون وں نے
ﷺ نے انہیں دیکھ لیا اور فرمایا ” :کیا وجہ ہے میں تمہارے مونہوں میں گوشت کی
سبزی دیکھتا ہوں “ دونوں میں عرض کی :اے ہللا کے نبی :ہللا کی قسم آج ہم نے نہ
گوشت کھایا ہے نہ ک وئی اور چ یز کھائی ہے فرمایا :لیکن تم دون وں نے ظلم کی ا تم
سلمان فارسی اور اسامہ کا گوش ت کھاتے ہ و “ ت و یہ آیت ن ازل ہ وئی ( )1ثعل بی نے
اسے ذکر کیا ہے یعنی تم اہل خیبر کے بارے میں برا گمان نہ ک رو اگ ر ان کے ظ اہر
کے بارے میں جانتے ہو مسئلہ نمبر :2صحیحین میں حضرت اب وہریرہ ؓ س ے م روی
ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :ظن سے بچو بیشک ظن سب سے جھوٹی بات
ہے ٹوہ میں نہ رہا کرو ،جاسوسی نہ کیا کرو ،باہم ایک دوس رے کیبھائو پ ر بھائو نہ
لگایا کرو باہم حسد نہ کیا کرو ،باہم بغض نہ رکھا کرو آپس میں دش منی نہ رکھا ک رو
اے ہللا کے بندو :بھائی بھائی بن ج ائو ،یہ الف اظ بخ اری کے ہیں ہم ارے علم اء نے
کہا :یہاں اور آیت میں ظن سے مراد تہمت ہے تخ دیر اور نہی ک ا مح ل وہ تہمت ہے
اس کا وہ عیب نہیں جو اسے ثابت کرتا ہے مثالً کسی پر فاحشہ اور ش راب نوش ی کی
جاسوسی کرتا ہے اور بحث و تحمیض کرت ا ہے وہ ت وجہ س ے دیکھت ا ہے اور ت وجہ
صالحیت دیکھی گئی ہو اور ظ اہر میں ام انت ہی دکھائی دیتی ہ و اس کی ب ارے میں
فساد اور خیانت کا گمان حرام ہے اس آدمی کا معاملہ مختل ف ہے ج و لوگ وں میں اس
ان داز میں مش ہورہو کہ ش ک و ش بہ والے ک ام کرت ا ہ و اور اعالنیہ خ بیث اعم ال ک ا
میں (برا) گمان کرے “ 1حسن سے مروی ہے :ہم ایس ے زم انے میں تھے جس میں
عمل کر اور خاموش رہ اور لوگوں کے بارے میں جو چاہے گمان رکھ مسئلہ نم بر :3
ظن کی دو ح التیں ہیں ایک ح الت ایس ی ہے ج و ج انی پہچ انی ہے اور دالئ ل کی
صورتوں میں سے کسی صورت کے ساتھ قوی ہوجاتی ہے ت و اس کیمواف ق حکم دین ا
واحد وغیرہ دوسری حالت یہ ہے کہ داللت کے بغیرنفس میں کوئی چیز واقع ہوج ائے
تو وہ اپنی ضد سے اولی نہ ہو یہی ش ک ہے اس کے مط ابق حکم دین ا ج ائز نہیں اس
کرنے کے جواز کا انکار کی ا ہے وہ دین میں اپ نی رائے س ے فیص لہ ک رتے ہیں اور
معق والت میں اپن ا دع وی ک رتے ہیں اس میں ک وئی قاع دہ نہیں جس پ ر انحص ار کی ا
کوئی دلیل نہیں کیونکہ شریعت میں ظن کی دو قسمیں ہیں اس میں سے محم ود وہ ہے
جس کے ساتھ ظن کرنے والے ک ا دین اور جس کے ب ارے میں گم ان کی ا جارہ ا ہے۔
جب اس تک پہنچے اس کا دین محفوظ رہتا ہے مذموم اس کے مدمقابل ہے کیونکہ ہللا
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ”:جب تم میں سے کوئی کسی بھائی کی تعریف ک رے
کرے اور جب تو فاعل پکڑے تو کام کو جاری رکھ “ اسے ابودائ ود نے نق ل کی ا ہے۔
اسے اختالف کے ساتھ پڑھا ہے اور دوسرے علماء نے اس ے والتحس و پڑھ ا ہے اس
نے کہا :ان میں سے ایک دوسرے سے بعید نہیں کیونکہ تحسس کا مع نی ایس ی چ یز
کے بارے میں بحث کرنا ہے جو تجھ سے پوشیدہ ہو اور تجس سے م ردا خ بروں ک و
معنی بحث کرنا اسی سے یہ لفظ ذکر کیا جاتا ہے رجل جاسوس جب وہ امور کی کرید
کرتا ہو اور تحسس سے مراد انسان کا کسی حاسہ سے اس چیز کا ادراک کرنا دوس را
ان کی چھان بین کرے اسی معنی میں جاسوس ہے آیت کا معنی ہے جو ام ر ظ اہر ہ و
الی
اپنے بھائی کا عیب تالش نہ کرے یہاں تک کہ اس پ ر مطل ع ہوج ائے جبکہ ہللا تع ٰ
نے اسے مخفی رکھا ہے۔ ابودائود کی کتاب میں حضرت مع اویہ ؓ س ے م روی ہے کہ
میں نے نبی کریم ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :اگر تو لوگوں کے پوشیدہ امور کا
سے روایت کرتے ہیں فرمایا :امیرجب لوگ وں میں ش ک کی تالش ک رے ت و اس نے
انہیں خراب کردیا ( )2زید بن وہب سے مروی ہے کہ کوئی آدمی حضرت ابن مس عود
کی خ دمت میں حاض رہوا اور اس نے ع رض کی یہ فالں ہے ،اس کی داڑھی ش راب
ہمارے لئے کوئی چیز ظاہر ہوگی ت و ہم اس ک و اپن ائیں گے ( )3اب وبرزہ اس لمی س ے
مروی ہے کہ رسول ہللا ﷺ نے ارشاد فرمایا :اے وہ لوگو جو زبان س ے ایم ان الئے
تعالی
ٰ پوشیدہ باتوں کا پیچھا نہ کرو جو انسان ان کی پوشیدہ باتوں کا پیچھا کرے گا ہللا
تعالی جس کی پوشیدہ بات کا پیچھا ک رے
ٰ اس کی پوشیدہ باتوں کا پیچھا کے گا اور ہللا
نے کہا :ایک رات میں نے حضرت عمربن خطاب کے ساتھ مل کر پہرہ دیا کہ ایک
گھر میں ہمارے لئے چراغ ظاہر ہوا دروازہ لوگوں پر کھال ہوا تھا جن کی آوازیں بلند
تھیں اور وہ فضول بات کررہے تھے حضرت عمر ؓ نے کہا :یہ گھرربیعہ بن امیہ بن
خلف کا ہے وہ اس وقت شراب پی رہے ہیں ت یری کی ا رائے ہے میں نے کہ ا :م یری
الی نے
تعالی نے ہمیں منع کی ا ہے ہللا تع ٰ
ٰ رائے ہے ہم نے وہ کام کیا ہے جس سے ہللا
فرمایا :ہم نے تجسس کیا ہے حضرت عمرواپس ہوگئے اور انہیں چھوڑ دیا اب و قالبہ
نے کہا :حضرت عمربن خطاب ؓ کی خدمت میں بی ان کی ا گی ا کہ اب ومجنن ثقفی اپ نے
ساتھیوں کے ساتھ اپنے گھر میں شراب پیتا ہے حض رت عمروہ اں تش ریف لے گ ئے
عمر اور حضرت عبدالرحمن ؓ پہرہ دینے کے لئے نکلے دونوں کے لئے آگ
حضرت ؓ
ظاہرہوئی دونوں نے اجازت طلب کی دروازہ کھوال گیا تو وہاں ایک م رد اور ع ورت
تھی عورت گانا گا رہی تھی اور مرد کے ہاتھ پر پیالہ تھا حض رت عم ر نے فرمایا :
اے فالں تو یہ کام کررہا ہے :اس نے عرض کی :اے امیرالمومنین آپ نے یہ کیا کیا
ہے ؟ حضرت عمرنے پوچھا :یہ ت یری کی ا لگ تی ہے ؟ ع رض کی ا م یری بی وی ہے
کہتا ہوں :اس خبر سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ عورت مرد کی بیوی نہیں تھی کی ونکہ
حضرت عمر زنا کی اجازت دینے والے نہیں تھے اس عورت نے ایسے اش عارپڑھے
جن میں خاوند کا ذکر تھا اس نے یہ اش عار اس کی ع دم موج ودگی میں کہے تھے ہللا
تعالی بہترجانتا ہے عم ر بن دین ارنے کہ ا :اہ ل م دینہ کے ایک آدمی کی بہن تھی وہ
ٰ
بیمار ہوگی وہ اس کی عیادت کرتا تھا وہ فوت ہوگئی اس نے اپ نی بہن ک و دفن کی ا وہ
خود اس کی قبر میں اترا اس کی آستین سے ایک تھیال گرگیا جس میں دین ار تھے اس
نے اپنے خاندان کے کچھ افراد سے مدد لی انہوں نے اس کی قبر ک و کھودا اور تھیلہ
لے لیا پھر اس نے کہا :میں اسے کھولوں گا یہ اں ت ک کہ میں دیکھوں گ ا کہ م یری
بہن کا انجام کیا ہوا اس نے اسے کھوال توق بر آگ س ے بھڑک رہی تھی وہ اپ نی م اں
کے پاس آیا عرض کی :مجھے بتائو میری بہن کا عم ل کیس ا تھا م اں نے کہ ا ت یری
بہن مرچکی ہے اب اس کے عمل کے بارے میں سوال کا فائ دہ وہ لگات ار س وال کرت ا
رہا۔ یہاں تک کہ ماں نے کہا :اس کا یہ عمل تھا کہ وہ نماز کو تاخیر سے پڑھتی جب
کے راز ظاہر کردیتی اس مرد نے کہا :اس وجہ سے وہ ہالک ہوئی مسئلہ نمبر :5ہللا
کے ساتھ ذکر کرے جو اس میں ہیں اگر وہ کسی ایسے عیب کا ذکر کرت ا ہے ج و اس
ہو غیبت کیا ہے ( )1جواب دیا ہللا اور اس کا رسول بہترجانتے ہیں فرمایا :ت یرا اپ نے
بھائی کا ایسی چیز کیساتھ ذکر کرنا جسے وہ ناپسند ک رے ،ع رض کی گ ئی :بت ائیے
اگر وہ عیب میرے بھائی میں موجود ہو جو میں کہتا ہوں فرمایا :اگ ر اس میں وہ ہے
اس پر بہتان لگایا “ جملہ کہا جاتا ہے :جب اس میں واعہ ہو اس کا اسم غیبتۃ ہے اس
غیبت کی تین صورتیں ہیں س ب کت اب ہللا میں ہیں غیبت ،اف ک ،بہت ان ( )2جہ اں ت ک
ہوگی شعبہ نے کہا میں نے اس کا ذکر ابواسحاق سے کیا تو اس نے کہا :اس نے سچ
ہوا اپنے بارے میں زنا کی گواہی دی رسول ہللا ﷺ نے اسے رجم کرن کا حکم دیا یا
رسول ہللا ﷺ نے اپنے دو صحابہ کو سنا ایک دوسرے کو کہہ رہا تھا :اس ے دیکھو
تھی :فرمایا ،اے فالں فالں :دونوں نے عرض کی :یا رسول ہللا ﷺ ہم حاض ر ہیں :
فرمایا ” :اترو اور اس گدھے کا گوشت کھائو “ ع رض کی :اے ہللا کے ن بی :ک ون
الی
ہے اور اس وقت جنت کی نہروں میں غوطہ لگا رہا ہے ( )3۔ مسئلہ نمبر :6ہللا تع ٰ
گوشت حرام اور ناپسندیدہ ہوتا ہے اسی طرح غیبت دین میں حرام اور نفوس میں ق بیح
ہوتی ہے قتادہ نے کہا :جس طرح تم میں سے کوئی ایک اپنے مردہ بھائی ک ا گوش ت
کھانے سے رک جات ا ہے اس ی ط رح ض روری ہے کہ وہ زن دہ کی غیبت س ے رکے
غیبت کی جگہگوشت کھانے کا لفظ استعمال کیا گیا کی ونکہ عرب وں کی یہ ع ادت ع ام
تھی شاعر نے کہا ؎ :اگر وہ میرا گوشت کھائیں تو میں ان کے گوشت ک و بڑھ ا دوں
گا اگر وہ میری بزرگی کو ختم کرنا چاہیں تو میں ان کے لبے بزرگی بنا دوں گی ن بی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :جو لوگوں کے گوشت کھاتا رہا (غیبت کرت ا رہ ا) اس نے
روزہ نہیں رکھا لوگوں کی غیبت ک رنے ک و ان کیگوش ت کھانے س ے تش بیہ دی ہے
کے م ردہ ہ ونے کی ح الت میں گوش ت کھاین کیط رح ہے اب و دائ ود کی کت اب میں
جب مجھے معراج کرائی گئی میں ایک ایسی قوم کے پاس گ زرا جس کے ت انبے کے
ناخن تھے وہ اپنے چہرے پر اور سینے نوچ رہے تھے میں نے پوچھا :اے جبریل :
یہ کون لوگ ہیں :عرض کی یہ وہ لوگ ہیں جو لوگ وں ک ا گوش ت کھایا ک رتے تھے
تعالی
ٰ ﷺ نے ارشاد فرمایا :جس نے کسی مسلمان کا ایک لقمہ کھایا (غیبت کی) ہللا
جہنم میں اسی کی مثل اسے کھالئے گا اور جسے کسی مسلمان ک ا ک پڑا پہنایا گی ا ہللا
تعالی جہنم میں سے اس کی مثل اسے لباس عطا کریگا اور جو شہرت اور ریا ک اری
ٰ
تعالی قیامت کے روز اسے شہرت اور ریاک اری کے مق ام پ ر
ٰ کے مقام پر کھڑا ہو ہللا
کھڑا کرے گا ( )2نبی کریم ﷺ کا ارشاد پہلے گزر چکا ہے اے وہ جم اعت ج و اپ نی
زبان سے ایمان الئی ہے اور ایمان ان کے دل میں داخل نہیں ہ وا مس لمانوں کی غیبت
نہ کیا کرو حضور ﷺ کا دو آدمیوں کو فرمانا :کیا وجہ ہے میں تمہارے مونہوں میں
گوشت کی سبزی دیکھتا ہوں ابو قالبہ رقاشی نے کہا :میں نے ابو عاصم کو یہ کہتے
کی غیبت نہیں کی میمون بن سیاہ کسی غیبت کی نہیں کیا کرتے تھے اور نہ کسی ک و
جاتا تو ٹھیک ورنہ آپ اٹھ کھڑے ہوتے ثعلبی نے حضرت ابورہریرہ ؓ س ے رایت نق ل
میں ضعف دیکھا انہوں نے کہا :یا رسول ہللا ﷺ فالں کتنا عاجز ہے فرمایا :تم اپ نے
علی بن حسین ؓ نے ایک آدمی کو دوسرے آدمی کی غیبت کرتے ہ وئے س نا :فرمایا :
غیبت سے بچو کیونکہ یہ لوگوں کے کتوں کا سالن ہے ۔ عمرو بن عبید سے کہا گی ا :
فالں نے آپ کی غیبت کی یہاں تک کہ ہم نے آپ پ ر رحم کی ا اس پ ر رحم ک رو ایک
غیبت کرتے ہیں فرمایا :تیرا مق ام و م رتبہ م یرے ہ اں اتن ا نہیں میں اپ نی نیکی وں ک ا
صرف دیانتداری کے اعتبار سے ہوتی ہے یہ شکل و صورت اور حسب (اخالق) میں
برعکس قول کیا ہے انہوں نے کہا :غیبت شکل و ص ورت اخالق اور حس ب ہ وا میں
میں عیب لگاتا ہے وہ ص انع میں عیب لگات ا ہے یہ س ب اق وال م ردود ہیں جہ اں ت ک
اسے ارشاد فرمایا :تو نے غیبت کہی ہے اگر اسے سمندر میں مالیا جائے ت و اس کی
حالت بدل جائے اسے ابو دائود نے نقل کیا ہے ام ام ترم ذی نے کہ ا اس ے ح دیث کے
بارے میں کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے ( )2اور ج و روایت اس نے مع نی میں ہ وگی
کا ارادہ کیا جائے تو یہ غیبت ہوتی جہاں ت ک دوس رے ق ول ک ا تعل ق ہے س ب علم اء
کے نزدیک وہ بھی مردود ہے کیونکہ پہلے زمانہ کے علم اء ج و رس ول ہللا ﷺ کے
صحابہ اور ان کے بع د ت ابعین میں س ے تھے ان کے نزدیک دین (دیانت) میں غیبت
کیونکہ ہر مومن اس بات کو زیادہ پسند کرتا ہے کہ اس کی دین کے ب ارے میں ک وئی
ہے :جب تو اپنے بھائی کے بارے میں ایسی بات کرے جسے وہ ناپس ند کرت ا ہے ت و
تو نے اس کی غیبت کی الحدیث :جو آدمی یہ گمان کرے کہ یہ غیبت نہیں ت و اس نے
تمہارے خون تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم (میں ایک دوسرے پر) حرام ہیں یہ
کرالے یعنی ازالہ کرلے خواہ معافی کی صورت میں ہو یا ح ق کی ادائیگی کے س اتھ
کریم ﷺ کا مقابلہ کیا۔ مسئلہ نم بر :8اس میں ک وئی اختالف نہیں کہ غیبت گن اہ کب یرہ
کری کیا غیبت کرنے والے سے بدلہ لینا حالل ہوجاتا ہے اس میں اختالف کی ا گی ا ہے
ایک جماعت کا کہنا ہے اس سے بدلہ لینا حالل نہیں یہ ایسی خطا ہے جو اس کے اور
اس کے رب کے درمیان ہے انہوں نے نے یہ استدالل کیا ہے اس نے دوسرے فرد کا
مال نہیں لیا اور نہ ہی اس کے بدن کو ایس ی تکلی ف پہنچ ائی ہے جس وجہ س ے ب دن
میں کوئی نقص واقع ہوا ہو یہ کوئی ایسا ظلم نہیں ہے جس کے باعث وہ اس کے لئے
حالل ہوجائے وہ ظلم جس کی باعث بدل اور ظلم الزم ہوجات ا ہے وہ م ال اور ب دن ک ا
کا نقطہ نظر یہ ہے جس کی غیبت کی گئی اس کے لئے غیبت کرنے والے س ے ب دلہ
کرا لے جہاں کوئی درہم اور دینار نہیں ہوتا اس روز اس کی نیکیاں لی ج ائیں گی اور
اور غیبت کرنے والے کی برائیوں میں اضافہ کردیا جائے گا “ امام بخاری نے اس ے
نقل کیا ہے یہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے رسول ہلل ﷺ نے ارشاد فرمایا :جس
آدمی پر کسی بھائی نے عزت یا کسی اور چیز میں ظلم کیا ہو تو وہ آج ہی اسے حالل
اس کی نیکیاں نہ ہوں تو جس پر ظلم کیا گیا تھا اس کی برائی اں لے لی ج ائیں اور ظلم
الی کے
ک رنے والے پ ر ڈال دی ج ائیں گی یہ اح ادیث آل عم ران آیت 109میں ہللا تع ٰ
حدیث ہے کہ ایک عورت حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئی جب وہ اٹھی ت و
ایک عورت نے کہا :اس کا دامن کتنا لمب ا ہے ؟ حض رت عائش ہ نے فرمایا :ت و نے
اس کی غیبت کی ہے تو اس سے معافی مانگ۔ نبی کریم سے مروی آثار داللت کرتے
نے یہ کہا کہ غیبت مال اور بدن میں ہوتی ہے ،علماء نے اس بات پر اتفاق کی ا ہے کہ
ہوجائے۔ یہ بدن اور مال میں نہیں اس میں یہ دلی ل موج ود ہے کہ ظلم ع زت ب دن اور
یاتوا بالشھداء فاولئک عند ہللا ھم الک ذبون۔ (الن ور )13 :رس ول ہللا نے ارش اد فرمایا :
الی اس ے طینۃ
جس آدمی نے کسی مومن پر ایسا بہتان لگایا ج و اس میں نہ تھا ہللا تع ٰ
خبال (دوزخیوں کے زخموں کی پیپ) میں قید کردے گا۔ یہ سب چ یزیں م ال اور ب دن
کے عالوہ میں ہیں۔ جس نے یہ کہ ا :یہ ظلم ہے اور ظلم ک ا کف ارہ یہ ہے کہ وہ اس
آدمی کے لیے بخشش طلب ک رے جس کی اس نے غیبت کی ت و اس نے الٹ ب ات کی
بخشش طلب کرے کیونکہ مظلمہ کا لفظ مظلوم کے ساتھ بےانصافی کو ثابت کرتا ہے
جب بےانصافی ثابت ہوگئی تو ظالم سے اس وقت تک زائل نہ ہوگی مگر یہ کہ مظلوم
اس کے لیے اسے حالل نہ کردے۔ جہاں تک حضرت حسن بصری کے قول ک ا تعل ق
ہے تو وہ حجت نہیں ،ن بی ک ریم نے ارش اد فرمایا :من ک ا نت لہ عن د اخیہ مظلمۃ فی
عرض او مال فلیتحللھا منہ۔ جس آدمی کو کسی بھائی کے ہاں ع زت اور م ال میں ظلم
الی
جو آدمی معافی چاہے اور وہ اس ے مع اف نہ ک رے اس کی رائے یہ ہے کہ ہللا تع ٰ
سعید بن مسیب ہیں کہا :جس نے مجھ پر ظلم کیا میں اسے مع اف نہیں ک روں گ ا۔ ابن
سیرین سے کہا گیا :اے ابا بکر یہ ایسا آدمی ہے جو تجھ سے یہ سوال کرتا ہے کہ تو
الی نے اس پ ر
یہ چیز اس پر حرام نہ کی تھی کہ میں اسے اس پر حالل کروں۔ ہللا تع ٰ
حالل نہیں کروں گا۔ یعنی معاف نہیں کروں گا۔ جبکہ نبی کریم ک ا ارش ادمعاف ک رنے
پر داللت کرتا ہے یہی دلیل ہے ،معاف کردینا رحمت پر داللت کرت ا ہے یہ مع افی کی
الی ک ا فرم ان ہے :فمن عف ا و اص لح ف اجرہ علی ہللا۔
ص ورت میں ہی ہے ،ہللا تع ٰ
غیبت کا یہ حکم نہیں کیونکہ ح دیث طیبہ میں ہے :من القی جلب اب العی اء فال غیبۃ لہ۔
جو حیا کی چ ادر ات ار پھینکے اس کی ک وئی غیبت نہیں۔ رس ول ہللا نے ارش اد فرمایا
اذکرو الفاجر مافیہ کی یحذرہ الن اس ،ف اجر میں ج و ب رائی ہے اس ک ا ذک ر ک رو ت اکہ
لوگ اس سے احتیاط کریں۔ ٰغبت تو اس آدمی کے بارے میں ہے جو اپنی پ ردہ پوش ی
ایسے ہیں جن کی کوئی حرمت نہیں۔ خواہش نفس کی غالمی ک رنے واال۔ فاس ق معلن۔
کے عیب کو ختم کردے کیونکہ وہ ہمارے پاس آیا جبکہ وہ رتوند کی بیماری واال اور
کمزور نظر واال تھا ،وہ اپنا ہاتھ چھوٹے پ وروں کے س اتھ بڑھات ا ہللا کی قس م ہللا کی
راہ میں اسے پسینہ نہیں آیا اور نہ اسے غبار پہنچا وہ اپنے بالوں کو کنگھی کرت ا اور
چال میں تکبر کا اظہار کرتا وہ منبر پر چڑھت ا اور نیچے تب اترت ا جب نم از ک ا وقت
فوت ہوچکا ہوتا ،نہ ہللا سے ڈرتا اور نہ لوگوں سے حیا کرتا اس کے اوپر ہللا اور اس
کے زیر کمان ایک الکھ یا زیادہ اف راد تھے اس ے یہ نہ کہت ا :اے انس ان نم از ،پھر
نہیں ،اس طرح تیرا قاضی کو یہ کہنا :جس سے تو اپنے حق کے بارے میں م دد لیت ا
پر ظلم کیا ہے یا مجھ پر غضبناک ہوا ہے یا مجھ س ے خی انت کی ہے یا مجھے م ارا
ہے یا مجھ پر تہمت لگائی ہے یا میرے ساتھ زیادتی کی ہے یہ ک وئی غیبت نہیں۔ امت
کے علماء اس پر متفق ہیں۔ نبی ک ریم نے اس ب ارے میں مجھے کہ ا :لص احب الح ق
مقال۔ صاحب حق کو گفتگو کا حق ہے اور کہا :غنی کا ٹال مٹ ول کرن ا ظلم ہے کہ ا :
لی الواجد یحل عرضہ و عقوبتہ۔ جو آدمی قرضہ ادا کرنے کی صالحیت رکھتا ہ و اس
حضرت ابو س فیان ایک کنج وس آدمی ہے مجھے اتن ا م ال نہیں دیت ا ج و م یرے اور
میرے بچے کے لیے کافی ہو میں اس کے بتائے بغیر مال لے سکتی ہوں ؟ ن بی ک ریم
اس کے بچے کے لیے ہو۔ رسول ہللا نے اسے غیبت کرنے واال شمار نہیں کیا کیونکہ
ارشاد فرمایا ،اسی طرح اگر اس کی برائی کے ذکر میں فائدہ ہو جس طرح ن بی ک ریم
کا ارشاد ہے :اما معاویۃ فصعلوک ال مال لہ وام ا اب وجھم فال یض ع عص اہ عن ع اتقہ۔
جہاں تک معاویہ کا تعلق ہے وہ کنگال ہے اس کے پاس کوئی مال نہیں اور جہاں تک
ابو جہم کا تعلق ہے تو وہ بیوی پر سختی کرتا ہے یا لگا تار سفر پر رہتا ہے۔ یہ ج ائز
ہے مقص د یہ تھا کہ ف اطمہ بنت قیس ان کے ب ارے میں کس ی دھ وکہ میں نہ رہے۔
محاسبی نے یہ سب اقوال ذکر کیے ہیں۔ مسئلہ نمبر :10میت ا اس ے میت ا بھی پڑھ ا گی ا
ہے ،یہ لحم سے حال ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ اخ سے حال ہو اور منصوب ہو۔ جب
ت وج ہیں ہیں۔ ( )1تم م ردار ک و کھان ا ناپس ند ک رتے ہ و اس ی ط رح غیبت کرن ا بھی
تمہارے لیے مک روہ کردیا گی ا ہے۔ مجاہ د س ے بھی یہی مع نی م روی ہے۔ ( )2تم یہ
ناپسند کرو کہ لوگ تمہ اری غیبت ک ریں ت و لوگ وں کی ٰغبت ک و تم بھی ناپس ند ک رو۔
ہے :لفظ تو خبر کا ہے معنی امر کا ہے یعنی تم اسے ناپسند کرو واتقوا ہللا اس پر اس
کا عطف ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے :اس کا عطف اجتنبوا اور ال تجسسوا پر ہے۔
Al-Qurtubi - Al-Hujuraat : 13
ٰۤیاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا َخلَ ْق ٰن ُك ْم ِّم ْن َذ َك ٍر َّو اُ ْن ٰثى َو َج َع ْل ٰن ُك ْم ُشع ُْوبًا َّو قَبَٓاِئ َل
لِتَ َعا َرفُ ْواؕ ١اِ َّن اَ ْك َر َم ُك ْم ِع ْن َد هّٰللا ِ اَ ْت ٰقى ُك ْمؕ ١اِ َّن هّٰللا َ َعلِ ْی ٌم َخبِ ْی ٌر
ٰيٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنَّا َخلَ ْق ٰن ُك ْم : بیشک ہم نے پیدا کیا تمہیںِّ م ْن َذ َك ٍر : ایک مرد
سےَّ واُ ْن ٰثى : اور ایک عورتَ و َج َع ْل ٰن ُك ْم : اور بنایا تمہیںُ شع ُْوبًا َّوقَبَٓاِئ َل : ذاتیں اور
قبیلے لِتَ َعا َرفُ ْوا ۭ : تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرو اِ َّن اَ ْك َر َم ُك ْم : بیشک تم میں سب
سے زیادہ عزت واالِ ع ْن َد هّٰللا ِ : ہللا کے نزدیک اَ ْت ٰقى ُك ْم ۭ : تم میں سب سے بڑا
پرہیزگار اِ َّن هّٰللا َ : بیشک ہللاَ علِ ْي ٌم : جاننے واالَ خبِ ْي ٌر : باخبر
لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور
قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ
عزت واال وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے بیشک خدا سب کچھ جاننے واال (اور) سب
اس میں سات مسائل ہیں :مسئلہ نمبر :1یا ایھا الناس ان ا خلقنکم من ذک ر و ان ثی۔ م راد
حضرت آدم اور حضرت حواء ہے۔ یہ آیت ابی ہند کے بارے میں نازل ہوئی ،اب و داؤد
نے اسے مرسل میں ذکر کیا ہے۔ عمرو بن عثم ان اور کث یر بن عبی د ،بقیہ بن ولی د وہ
زہری سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول ہللا نے بنی بیاض ہ ک و حکم دیا کہ وہ اب و
فرمایا۔ زہری نے کہا :یہ آیت خاص کر ابو ہند کے بارے میں نازل ہوئی۔ ایک قول یہ
رسول ہللا میں۔ نبی کریم نے ارشاد فمرایا :قوم کے چہرے دیکھو۔ اس نے لوگ وں کی
طرف دیکھا فرمایا :تو نے کیا دیکھا ؟ اس نے ع رض کی :میں نے س فید ،س یاہ اور
سرخ رنگ کے چہرے دیکھے ہیں ،فرمایا :تو ان سے تقوی کے بغیر فضیلت حاصل
نہیں کرسکتا ،تو یہ آیت نازل ہوئی :یا ایھا الذین امنوا اذا قیل لکم تفسحوا فی المج الس۔
(المجادلہ )11:حضرت ابن عباس نے کہا :جب مکہ مکرمہ فتح ہوا ت و ن بی ک ریم نے
حضرت بالل کو حکم دیا یہاں تک کہ وہ بیت ہللا شریف کی چھت پر چ ڑھے اور آذان
نے میرے والد کی روح کو قبض کرلیا یہاں تک کہ اس نے یہ دن نہ دیکھا۔ ح ارث بن
ہشام نے کہا :محمد ک و اس ک الے ک وے کے س وا ک وئی مئ وذن نہ مال تھا۔ س ہیل بن
تعالی جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے تب دیل کردیت ا ہے۔ ابوس فیان
ٰ عمرو نے کہا :ہللا
جبریل امین حاضر ہوئے اور انہوں نے جو کہا تھا وہ بتا دیا۔ رسول ہللا نے انہیں بالیا
الی
انہوں نے جو کہا تھا اس کے بارے میں پوچھا س ب نے اس ک ا اق رار کرلی ا ہللا تع ٰ
نے اس آیت کو نازل فرمایا :انہیں نسبوں پر فخ ر ک رنے ،م ال کی ک ثرت میں مق ابلہ
ٰ
تقوی پر ہے یع نی س ب کرنے اور قراء کو ذلیل کرنے سے جھڑکا کیونکہ دار و مدار
حضرت آدم اور حضرت حواء کی اوالد میں سے ہیں بیشک فضیلت تق ٰ
وی کی بن ا پ ر
ہے۔ ترمذی میں حضرت ابن عمر سے مروی ہے ( )1ہ نبی کریم ﷺ نے مکہ مکرمہ
کا سلسلہ ختم کردیا ہے ‘ لوگ دو قس م کے ہیں ( )1ایس ا آدمی ج و نی ک ،متقی اور ہللا
روایت نقل کرتے ہیں کہ ا :مجھے اس نے بتایا ج و اس وقت حاض ر تھا جب رس ول
باہلل ﷺ نے اونٹ پر سوار ہو کر ایام تشریق کے درمیانی دن خطبہ ارشاد فرمایا تھا :
” اے لوگو ! خبردار تمہارا رب ایک ہے ،تمہارا باپ ایک ہے۔ ع ربی ک و عجمی پ ر
کوئی فضیلت حاصل نہیں اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ،سیاہ ک و
سرخ پر کوئی فضیلت نہیں اور سرخ کو سیاہ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تق ٰ
وی کی بن ا
پر۔ کی ا میں نے تمہیں پیغ ام دیا ہے ؟ “ ص حابہ نے ع رض کی :جی ہ اں۔ فرمایا ”:
حاضر غائب کو پہنچ ا د۔ “ اس ب ارے میں مال ک اش عری س ے روایت م روی ہے کہ
تعالی تمہ ارے حس ب ک و دیکھت ا ہے وہ تمہ ارے
ٰ رسول ہللا ﷺ نے ارشاد فرمایا :ہللا
نسب کو نہیں دیکھتا وہ تمہارے جسموں کو نہیں دیکھتا تمہارے دلوں دیکھت ا ہے جس
ہے۔ “ ( )2الناس من جھۃ التمثیل اکفائ ابرھم آدم واالم حواء لوگ ڈھانچے کے اعتب ار
سے برابر ہیں ان کے باپ حضرت آدم اور ماں حواء ہیں۔ نفس کنفس و اور اح مشاکلۃ
و اعظم خلقت فیھم واعض اء نفس نفس کی ط رح ہے اور روحیں ایک جیس ی ہیں ان
میں ہ ڈیاں اور اعض اء بن ائے گ ئے ہیں۔ ف ان یکن لھم من اص لھم حس ب یف اخرون بہ
فالطین والماء اگر ان کی اصل میں کوئی ذی شان چیز ہے جس پ ر وہ فخ ر کرس کتے
ہیں تو وہ مٹی اور پانی ہے۔ ما الفضل اال الھل العلم انھم علی الھدی لمن اس تھدی ادالء
راہنما ہیں۔ وقدرکل امری ما کان یحسنہ وللرجال علی االفعال سیماء ہر انس ان کی ات نی
قدر و منلزت ہے جس قدر وہ اچھا کام کرتا ہے اور افعال پر لوگوں کے نشانات ہوتے
ہیں۔ وضد کل امری ماکان یجھلہ والجھاھلون الھل العلم اعداء انسان کی دشمن وہ چ یز
ہے جس سے وہ جاہل وہتا ہے اور جاہل اہل علم کے دشمن ہ وتے ہیں۔ مس ئلہ نم بر 2۔
کرتا جس طرح حضرت حواء کو پیدا کیا یعنی دو جہتوں میں س ے ایک جہت موج ود
الی
تھی یہ قدرت میں ج ائز ہے وج ود اس کے مط ابق نہیں۔ یہ خ بر آئی ہے کہ ہللا تع ٰ
نے حضرت حواء کو حضرت آدم کی ایک پسلی سے پی دا کی ا :یہ ابن ع ربی ک ا ق ول
تعالی نے مذکر اور مونث میں انساب ،اصہار ،قبائل اور ش عوب
ٰ ہے۔ مسئلہ نمبر 3۔ ہللا
تعالی اس کے بارے میں خوب آگاہ ہے ہر ایک ان کے نسب کو ج امع ک وئی آدمی اس
ٰ
عجمی ! اور عجمی کو کہتا ہے :اے ع ربی ! وغ یرہ جس س ے حقیقت میں نفی واق ع
سے ہوتا ہے اور ماں کے رحم میں پرورش پاتا رہت ا ہے اور اس خ ون س ے م دد لیت ا
الی
آیت سے ثابت ہے کیونکہ یہ ایسی نص ہے جو تاویل کا اجتماع نہیں رکھتی ہللا تع ٰ
کا فرمان ہے :خلق من مآء دافق۔ یخرج من بین الص لب وال ثرآئب۔ (الط ارق) اس س ے
مراد مردوں کی پشتیں اور عورت کی سینے کی ہڈیاں ہیں جس کی وض احت بع د میں
الی
آئی گی۔ جس چیز سے انہوں نے استدالل کیا ہے وہ اس س ے زیادہ نہیں کہ ہللا تع ٰ
نے انسان کو ماء ،ساللہ اور نطفہ سے پی دا کی ا ہے اس ے وال دین میں س ے کس ی کی
طرف منسوب نہیں کیا اس نے اس چیز پر داللت کی کہ ماء (پانی) اور ساللہ (نکل نے
والی چیز) دونوں کا ہے اور نطفہ بھی دونوں کا ہے کیونکہ جو ہم نے ذکر کیا ہے وہ
ٰ
وری منویہ خارج ہوتا ہے اسی وجہ سے مشابہت ہوتی ہے جس کی وضاحت سورة ش
میں گ ذر چکی ہے۔ حض تر ن وح (علیہ الس الم) کے قص ہ میں کہ ا ،ف التقی الم آء علی
امرقدقدر۔ (القمر) مراد آسمان کا پانی اور زمین کا پانی ہے کیونکہ ملنا دو پانیوں س ے
تعالی کا فرمان ہے۔ الم نخلقکم من م آء مھین۔ (المرس الت) مس ئلہ نم بر 5۔
ٰ (السجدۃ) ہللا
وجعلنکم شعو بازو قبآئل لتعارفوا شعوب سے م راد قبائ ل کے رءوس (رٔاس کی جم ع)
مشعب کا لفظ ہے برما ،کیونکہ اس کے ساتھ جمع کیا جاتا ہے۔ شاعر نے کہ ا :فک اب
کیونکہ وہ جدا کرنے والی ہوتی ہے۔ جہاں تک الش عب ک ا تعل ق ہے ت و پہ اڑ میں ج و
شعرب ہے الشعوبیۃ ایسا فرقہ جو عربوں کو عجمیوں پر کوئی فضیلت نہیں دیتا جہ اں
تک اس لفظ کا تعلق ہے ج و ح دیث میں ہے ان رجالً میں الش عوب اس لم۔ م راد عجمی
ہے یعنی عجمیوں میں سے ایک آدمی اسالم الیا۔ شغب س ے م راد عظیم ق بیلہ ہے ،وہ
انہیں اپنے ساتھ مالتا ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا :الشعوب سے م راد جمہ ور ہے
جس طرح مضر ( )1قبائل سے افخاذ ہیں چھوٹا قبیلہ۔ مجاہد نے کہا ،الشعوب جو نس ب
میں دور ہیں قبائ ل اس س ے چھوٹے ہ وتے ہیں ( )2ان س ے یہ بھی م روی ہے کہ
شعوب سے مراد قریبی نسب ہے۔ قتادہ کا قول ہے :مہدوی نے پہال قول اس سے نق ل
کیا ہے ،دوسرا قول ماوردی نے ذکر کیا ہے۔ شاعر نے کہا :رٔایت س عودا من ش عوب
کثیرۃ فلم ارسعداً مثل سعد بن مالک میں نے کث یر قبائ ل س ے س عد دیکھے اور ان میں
سے سعد بن مالک جیسا کوئی سعد نہیں دیکھا۔ ایک اور نے کہ ا :قبائ ل میں ش عوب
لیس فیھم ک ریم ق د یع د وال نجیب ک ئی قبائ ل ایس ے ہیں جن میں ک ریم اور نجیب نہیں
جسے شمار کیا جاسکے۔ ایک قول یہ کیا گی ا ہے :ش عوب س ے م راد یمن کے ع رب
ہیں۔ جو قحطاین ہیں اور قبائل سے مراد ربیعہ ،مضر اور عدنانی ہیں۔ ایک قول یہ کیا
گیا ہے :شعوبیہ سے مراد عجم کے قبائل ہیں اور قبائل سے مراد عرب ہیں۔ حض رت
ابن عباس نے ایک روایت میں کا کہ شعب سے مراد موالی اور قبائل سے مراد ع رب
سے مراد وہ ہو جو اطرفا اور گھاٹیوں کی طرف منسوب ہو اور قبائ ل انہیں کہیں ج و
نسب میں شریک ہوں۔ ش اعر نے کہ ا :تفرق وا ش عبا فک ل جزیرۃ فیھا ام یر الموم نین
ومتبر وہ گھاٹیوں میں بکھر گئے تو ہر جزیرہ میں امیر المومنین اور منبر تھا۔ ابوعبید
نے ابن کلبی سے وہ اپنے باپ سے روایت نقل کرتے ہیں :شعب یہ قبیلہ سے بڑا ہوتا
ہے ،قبیلہ کے بعد فصلیہ ،فص لیہ کے بع د عم ارہ ،عم ارہ کے بع د بطن اور بطن کے
بعد فخذ ہوتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے ،شعب پھر قبیلہ پھر عمارہ پھر بطن پھر فخ ذ
پھر فص لیہ اور پھر عش یرہ ہوت ا ہے۔ ایک ادیب نے یوں منظم کی ا ہے ،کہ ا :اقص د
الشعب فھو اکثر حی عدداً فی الحواء ثم القبیلۃ ثم تتلوھ ا العم ارۃ ثم اک بطن والفخ ذ بع د
ھا والفصیلۃ ثم من بعدھا العش یرۃ لکن ھی فی جنب ماذکرن اہ قلیلۃ اور ایک ش اعر نے
کہا :قبیلۃ قبلھا شعب وبعدھما عمارۃ ثم بطن تلوہ فخذ ولیس یووی الفتیء اال فص یلۃ وال
بطن ہے اس کے پیچھے فخذ ہے نوجوان کو پناہ فصیلہ دیت ا ہے ،جس ت یر کے پ ر نہ
ہوں وہ سیدھا نہیں جاتا۔ مسئلہ نمبر 6۔ ان اکرمکم عند ہللا اتقکم س وروہ زح رف میں یہ
بحث و انہ لذکر لک ولقومک کے تحت گذر چکی ہے۔ اس آیت میں یہ چیز موجود ہے
ٰ
فتوی تعالی اور اس کے رسول کے ہاں
ٰ جو تیری اس امر پر راہنمائی کرتی ہے کہ ہللا
کی ہی رعایت کی جاتلی ہے حسب اور سنب کی رعایت نہیں کی جاتی۔ اسے ان پڑھ ا
تعالی
ٰ گیا ہے گویا کہا گیا :وہ انساب اول فخر کرتے ہیں ؟ ایک قول یہ کیا گیا ہے ،ہللا
ٰ
تقوی ہے ( “ )1کہا :یہ حدیث غریب ص حیح ہے ،یہ فرمایا ”:حسب مال ہے اور کرم
……یکون اکرم الناس فلیتق ہللا جو یہ پسند کرے کہ وہ لوگوں میں سے زیادہ مح ترم
الی کی ح دود
تعالی سے ڈرے۔ ھوی س ے م راد ہے ام ر و نہی میں ہللا تع ٰ
ٰ ہو تو وہ ہللا
کی رعایت کرنا اور اس چیز سے متصف ہونا جس سے متصف ہونے کا حکم دیا اور
اس سے …جس سے تجھے منع کیا۔ یہ بحث ک ئی مواق ع پ ر گ ذر چکی ہے۔ حض رت
الی یق ول یوم
ابوہریرہ س ے ایک روایت م روی ہے۔ …نے ارش اد فرمایا :ان ہللا تع ٰ
القیمۃ انی جعلت نسبا ً وجعلتم نسبا فجعلت اکرمکم ……تقول وا فالن بن فالن وان ا الی وم
میں نے نسب کو بلند کروں گا اور تمہارے نسبوں کو پست کروں گ ا متقی کہ اں ہیں ؟
نے ارشاد فرمایا ”:قیامت کے روز م یرے اولی اء متقین ہ وں گے اگ رچہ ک وئی نس ب
میرے نسب کے زیادہ قریبی ہو لوگ اعمال الئیں گے اور تم دنیا الئو کے گجو تم اپنی
کروں گا “ اور اپنی دونوں جانب اع راض کی ا۔ ص حیح مس لم میں حض رت عب دہللا بن
عمرو کی حدیث ہے کہ میں نے راز داری کے ع الم میں نہیں بلکہ بلن د آواز س ے آپ
ک و کہ تے ہ وئے س نا :ان آل ابی لیس والی باولی اء انم ا ولی ہللا و ص الح الموم نین ()3
میرے والد کی آل میرے اولیاء نہیں بیشک میرا ولی ہللا اور نیک م ومن ہیں۔ حض رت
الی کے
ابراہیم۔ “ عرض کی ہم نے اس بارے میں آپ سے نہیں پوچھا فرمایا ”:ہللا تع ٰ
ہاں سب سے معزز ان میں سے متقی ہیں “ عرض کی :ہم یہ بھی آپ سے نہیں پ وچھ
علماء نے یہ اشعارپ ڑھے :مایصنع العبد بعز الغنی والعز کل الع ز للمتقی من ع رف
ہللا فلم تغنہ معرفۃ ہللا فذاک الشقی بندہ مال و دولت کی عزت کو کیا کرے گا ع زت ت و
تعالی کی مع رفت
ٰ تعالی کو پہچانا اور ہللا
ٰ سب کی سب متقی کے لئے ہے۔ جس نے ہللا
اسے کوئی فائدہ نہ دے تو وہ بدبخت ہے۔ مسئلہ نمبر 7۔ ط بری نے یہ ذک ر کی ا ہے کہ
وہ سالم بن ابی جعد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک انصاری نے ایک عورت س ے
شادی کی تو اس عورت پر اس کے حسب میں طعن کیا گیا اس آدی نے کہ ا :میں نے
دین اور خلق کی وجہ سے کی ہے۔ نبی ک ریم ﷺ نے ارش اد فرمایا ”:تجھے یہ چ یز
بلند کردیا ،ناقصہ کو مکمل کردیا ہے اس کے ذریعے مالمت ک و دور کردیا مس لمان
پ ر ک وئی مالمت نہیں مالمت ت و ج اہلیت کی عالمت ہے۔ “ ن بی ک ریم ﷺ نے ارش اد
فرمایا :انی الرجوان اکون اخشاکم و اعلمکم بما اتقی ( )1میں امید کرتا ہ وں کہ میں تم
تعالی کے ہ اں س ب س ے زیادہ
ٰ بارے میں تم سے زیادہ آگاہ ہوں۔ اسیو جہ سے آپ ہللا
معزز تھے۔ ابن عربی نے کہا ،یہی وہ چیز ہے جس ے ام ام مال ک نے نک اح میں کف و
عربی عورت سے شادی کرسکتا ہے اور اس آیت سے استدالل کیا۔ ام ام ابوح نیفہ اور
امام شافعی نے کہا ،حسب اور مال کا بھی خیال رکھا ج ائے گ ا۔ ص حیح میں حض رت
صحابہ میں سے تھے جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے نے حضرت سالم ک و اپن ا
متنبی بنایا اور اس کی شادی اپنی بھتیجی یعنی ہند بنت ولید ج و ان کے بھائی ولی د بن
عتبہ بن ربیعہ کی بی ٹی تھی س ے ک ردی یہ ایک انص اری ع ورت کے غالم تھے
حضرت ضباء بنت زبیر یہ ضحرت مقداد بن اسود کے عقد میں تھیں۔ میں کہت ا ہ وں :
حضرت عبدالرحمٰ ن بن عوف کی بہن حضرت بالل کے عقد میں تھیں۔ حض رت زینب
بنت حجش حضرت زید بن ح ارثہ کے عق د میں تھیں۔ اس س ے یہ معل وم ہوت ا ہے کہ
غالموں کا عقد نکاح عربی عورت سے جائز ہے دین میں کفو کا اعتبار کی ا ج ائے گ ا
اس پر دلیل وہ روایت ہے جو سہل بن سعد سے صحیح بخاری میں م روی ہے ( )2کہ
نبی کریم ﷺ کے پاس ایک آدمی گذرا پوچھا ”:تم اس کے بارے میں کیا کہ تے ہ و ؟
نکاح کیا جائے ،اگر سفارش کرے تو مانی جائے ،اگر بات کرے تو اس کی بات س نی
یہ اس الئق ہے اگر دعوت نکاح دے تو اس کے ساتھ نکاح نہ کیا جائے ،اگ ر س فارش
رسول ہللا ﷺ نے ارشاد فرمایا ”:یہ آدی دوس رے کی بنس بت زمین بھر کے لوگ وں
سے بہتر ہے۔ “ رسول ہللا ﷺ نے ارشاد فرمایا ”:ع ورت س ے نک اح اس کے م ال،
جمال اور دین کی وجہ سے کیا جاتا ہے ( “ )3ایک روایت میں ہے اس کے حسب کی
وجہ سے کیا جاتا ہے تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں تو دیندار کو الزم پکڑ۔ حضرت سلمان
نے توجہ نہ کی پھر حضرت عمر نے حضرت سلمان فارسی سے مطالبہ کیا کہ وہ ان
کی بیٹی سے نکاح کرلیں تو حضرت سلمان فاسری نے ایسا نہ کی ا۔ حض رت بالل نے
بکیر کی بیٹی کو دعوت نکاح بھتیجی تو اس کے بھائیوں نے ایس ا ک رنے س ے انک ار
کردیا۔ حضرت بالل نے عرض کی :یا رسول ہللا ﷺ میں نے بنی بکیر س ے کی ا پایا
ہے میں نے انہیں ان کی بہن کے بارے میں دعوت نکاح دی تو انہوں نے ایسا ک رنے
ناراض ہوگئے۔ بنی بکیر کو یہ خبر پہنچی وہ اپنی بہن کے پاس آئے انہ وں نے کہ ا :
فرمایا ” :ابو ہند کی شادی کر دو ،ان کی شادی کردو “ یہ بنو بیاضہ کا غالم تھا۔ ( )1
دارق طنی میں زہری کی حدیث عروہ سے وہ وہ حضر عائشہ صدیقہ سے روایت نقل
کی تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :جسے یہ بات خوش کرے کہ اس ے دیکھے کہ
قشیری ابو نصر نے کہا :نکاح کرتے وقت کفو میں نسب کا اعتبار کیا اجت ا ہے جبکہ
نکاح شجر نبوت کے ساتھ اتصال ہے یا علم اء کے س اتھ ج و انبی اء کے وارث ہیں یا
جو زہد اور الحیت میں قابل قدر ہیں متقی مومن فاجر اعلی نس ب والے س ے بہ تر ہے۔
کی امامت کے لئے نوجوان کو بوڑھے پر مقدم کیا جاتا ہے جب تقوی میں برابر ہوں۔
ان فِ ْی قُلُ ْوبِ ُك ْمَؕ ١و اِ ْن تُ ِط ْیعُوا هّٰللا َ َو َرس ُْولَ ٗه اَل یَلِ ْت ُك ْم ِّم ْن
ااْل ِ ْی َم ُ
هّٰللا
اَ ْع َمالِ ُك ْم َش ْیًئاؕ ١اِ َّن َ َغفُ ْو ٌر ر ِ
َّح ْی ٌم
ت : کہتے ہیں ااْل َ ْع َرابُ : دیہاتیٰ ا َمنَّا ۭ : ہم ایمان الئے قُلْ : فرمادیں لَّ ْم تُْؤ ِمنُ ْوا : تم
قَالَ ِ
ایمان نہیں الئےَ و ٰل ِك ْن : اور لیکن قُ ْولُ ْٓوا : تم کہو اَ ْسلَ ْمنَا : ہم اسالم الئے ہیںَ ولَ َّما : اور
ان : داخل ہوا ایمان فِ ْي قُلُ ْوبِ ُك ْم ۭ : تمہارے دلوں میںَ واِ ْن : اور
ابھی نہیں يَ ْد ُخ ِل ااْل ِ ْي َم ُ
اگر تُ ِط ْيعُوا : تم اطاعت کروگے هّٰللا َ َو َرس ُْولَهٗ : ہللا اور اس کے رسول کی اَل يَلِ ْت ُك ْم:
تمہیں کمی نہ کرے گاِّ م ْن اَ ْع َمالِ ُك ْم : تمہارے اعمال سےَ ش ْيًئا ۭ : کچھ بھی اِ َّن هّٰللا َ:
اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہہ دو کہ تم ایمان نہیں الئے (بلکہ) یوں کہو
کہ ہم اسالم الئے ہیں اور ایمان تو ہنوز تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا اور اگر
تم خدا اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرو گے تو خدا تمہارے اعمال میں سے
یہ آیت بنی اسد بن خ زینہ کے ب دوؤں کے ب ارے میں ن ازل ہ وئی ،۔ وہ رس ول ہللا کی
بارگاہ میں خشک سالی کے دور میں آئے انہوں نے ایمان النے کا اظہار کی ا وہ مخفی
طور پر مومن نہ تھے انہوں نے مدینہ طیبہ کے راستے غالظتوں میں بھر دیئے اور
بھائو کو بڑھا دیا۔ وہ رسول ہللا ﷺ سے یہ کہ ا ک رتے تھے ،ہم س امان اور عی ال کے
الی نے ان کے
جن گ کی ہمیں ص دقہ دیج یے وہ آپ پ ر احس ان جتالنے لگے ہللا تع ٰ
بارے میں یہ آیت نازل کی۔ حضرت ابن عباس نے کہ ا ،یہ ان ب دوئوں کے ب ارے میں
تعالی نے آگ اہ کردیا
ٰ نازل ہوئی کہ ہجرت سے قبل ہی انہیں مہاجر کا نام دیا جائے ہللا
میں نازل ہوئی جن کا ذکر سورة فتح میں ہے یعنی مزینہ ،تہینہ ،اسلم ،غف ار ،ویل اور
اشجع ( )2انہوں نے ہا ،ہم ایمان الئے ،تاکہ ان کی جانیں اور مال محفوظ ہوجائیں جب
انہیں مدینہ طیبہ کی طرف آنے کو کہا گیا تو وہ نہ آئے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ خالص ہ
کالم یہ ہے :آیت بعض عربوں کے لئے خ اص ہے کی ونکہ ان میں س ے کچھ ہللا اور
اسلمنا کا معنی ہے ہم نے قتل اور قیدی بنائے جانے کے خ وف س ے تابع داری کی۔ یہ
نہیں الئے تھے جبکہ ایمان کی حقیقت تصدیق قلبی ہے جہاں تک اسالم کا تعلق ہے تو
عط ا کرت ا ہے۔ وان تطیع وا ہللا و رس ولہ یع نی اگ ر تم ایم ان میں اخالص ک ا مظ اہرہ
کرتے الیلتکم تو تمہیں کوئی نقصان نہ دیتا یہ ب اب اس ط رح ہے التہ یلیتہ ویل وتہ اس
میں کمی کرنا۔ ابو عمرو نے اسے الیالتکم پڑھا ہے یعنی ہم زہ ہے اس وقت یہ الت یا
لتالتا سے مشتق ہے ،یہ ابو حاتم کا پسندیدہ نقطہ نظر ہے وہ اس قول پر اعتبار ک رتے
ہیں :وما التنھم من عملھم من شیئ (الط ور )12 :ش اعر نے کہ ا :ابل غ ب نی ثع ل ع نی
مغلغلۃ جھد الرسالۃ ال التا وال کذبا میری جانب سے بنی ثعل کو سختی سے پیغام پہنچ ا
دو نہ اس میں کمی ہو اور نہ ہی کوئی جھوٹ مال ہو۔ پہال ق ول اب و عبی د نے پس ند کی ا
ہے۔ رئوبہ نے کہا :ولیلۃ ذات ندی سریت ولم یلتنی عن سراھا لیت ( )3یعنی ان رات وں
میں چلنے سے مجھے کسی مانع نے نہیں روکا :اس ی ط رح االتہ عن وجھہ ہے فع ل
اور افعل دونوں ایک معنی میں ہیں یہ جملہ بھی کہا جات ا ہے :م ا االتہ من عملہ ش یاء
یعنی میں نے اس میں کمی نہیں کی ،یہ التمہ کی مثل ہے ،یہ فراء کا قول ہے۔ یہ شعر
پڑھا :و یاکلن ما اعنی الواع فلم یلت۔۔۔ کان بحافات النھاء الم ذارعا اس میں اع نی انیت
کے معنی میں ہے اور فلم یلت لم ینقص منہ شیئا کے معنی میں ہے یہ جملہ ب وال جات ا
ہے :ما اعنت االرض شیا زمین نے ک وئی چ یز نہیں اگ ائی۔ ال ولی س ے م راد وس می
(موسم بہار کی پہلی بارش) کے بعد جو بارش ہوتی ہے۔ اسے ولی اس لیے کہ تے ہیں
الی کی
کی ونکہ یہ وس می کے بع د ہ وتی ہے یہ نہیں فرمایا :ال یالتکم کی ونکہ ہللا تع ٰ
ولِٓئ َ
ك هُ ُم ال ٰ ّ
ص ِدقُ ْو َن بِا َ ْم َوالِ ِه ْم َو اَ ْنفُ ِس ِه ْم فِ ْی َسبِی ِْل هّٰللا ِؕ ١اُ ٰ
اِنَّ َما : اسکے سوا نہیںْ ال ُمْؤ ِمنُ ْو َن : مومن (جمع) الَّ ِذي َْن : وہ لوگ جوٰ ا َمنُ ْوا : ایمان
الئے بِاهّٰلل ِ : ہللا پرَ و َرس ُْولِ ٖه : اور اس کا رسول ثُ َّم : پھر لَ ْم يَرْ تَاب ُْوا : نہ پڑے شک میں
وہَ و ٰجهَ ُد ْوا : اور انہوں نے جہاد کیاِ با َ ْم َوالِ ِه ْم : اپنے مالوں سےَ واَ ْنفُ ِس ِه ْم : اور اپنی
ولِٓئ َ
ك : یہی لوگ هُ ُم : وہ ال ٰ ّ
ص ِدقُ ْو َن : سچے جانوں سے فِ ْي َسبِ ْي ِل هّٰللا ِ ۭ : ہللا کی راہ میں اُ ٰ
مومن تو وہ ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان الئے پھر شک میں نہ پڑے اور
خدا کی راہ میں مال اور جان سے لڑے یہی لوگ (ایمان کے) سچے ہیں
اور مال کی امید کی وجہ سے مسلمان ہوئے جب یہ آیت نازل ہوئی تو بدوئوں نے قسم
اٹھائی کہ وہ مخفی اور اعالنیہ ایماندار ہیں اور جھوٹ بوال تو یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی
تعالی آس مان و
ٰ تعالی کو اس کے بارے میں بتاتے ہو جبکہ ہللا
ٰ جس دین پر تم ہو تم ہللا
میںَ وهّٰللا ُ : اور ہللاِ ب ُك ِّل َش ْي ٍء : ہر ایک چیز کاَ علِ ْي ٌم : جاننے و اال
ان سے کہو کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتالتے ہو ؟ اور خدا تو آسمانوں اور زمین کی
فرمادیں اَّل تَ ُمنُّ ْوا : نہ احسان رکھو تمَ علَ َّي : مجھ پر اِ ْساَل َم ُك ْم ۚ : اپنے اسالم النے کا بَ ِل
هّٰللا ُ : بلکہ ہللا يَ ُم ُّن : احسان رکھتا ہےَ علَ ْي ُك ْم : تم پر اَ ْن هَ ٰدى ُك ْم : کہ اس نے ہدایت دی
تمہیں لِاْل ِ ْي َما ِن : ایمان کی طرف اِ ْن : اگرُ ك ْنتُ ْم : تم ہوٰ
ص ِدقِي َْن : سچے
یہ لوگ تم پر احسان رکھتے ہیں کہ مسلمان ہوگئے ہیں کہہ دو کہ اپنے مسلمان ہونے
کا مجھ پر احسان نہ رکھو بلکہ خدا تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا
یہ ان کے اس قول کی طرف اشارہ ہے ہم آپ کی خدمت میں کل سازو سامان اور ب ال
بچے لے کر آگئے ہیں محل نصب میں ہے تقدیر کالم یہ ہوگی یہاں علی باء کے معنی
میں ہے محل نصب میں ہے تقدیر کالم بان ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے تق دیر کالم الن
ہے۔ ابن کثر ،ابن محصین اور ابو عمرو نے یاء کے ساتھ خبر کے طور پ ر پڑھ ا ہے
پڑھا ہے۔ اس جلد کے ت رجمہ کے اختت ام ب روز منگ ل 18س تمبر 2007ء بع د از نم از
ظہر کو ہوا۔
Al-Qurtubi - Al-Hujuraat : 18
ص ْی ٌرۢ بِ َما تَ ْع َملُ ْو َن۠ هّٰللا رَْ اْل ٰ َّ َ َ ْ ا َّن هّٰللا
ضَؕ ١و ُ بَ ِِ ا و
َ ت
ِ و مٰ س ال ْب
َ یغ م
ُ لع َ ی َ ِ
هّٰللا
اِ َّن َ : بیشک ہللا يَ ْعلَ ُم : وہ جانتا ہےَ غي َ
ْب : پوشیدہ باتیں السَّمٰ ٰو ِ
ت :
هّٰللا
ص ْي ٌرۢ : دیکھنے واال بِ َما آسمانوں کیَ وااْل َرْ ِ
ض ۭ : اور زمینَ و ُ : اور ہللا بَ ِ
بیشک خدا آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے اور جو کچھ