Albums معراج النبی ﷺ قرآن و حدیث کتب سیرت اور مستند دالئل کی روشنی میں photos · Updated 3 years ago 118 اللہ تعالی نے مخلوق کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے حضرات انبیاء کرام علیہم السالم کو مبعوث فرمایا ،ہر نبی کو ان کے دور کے تقاضوں کے مطابق معجزات عطا کئے ،امت جس فن میں کمال رکھتی تھی حضرات انبیاء کرام علیہم السالم بھی اسی صنف سے اس شان کا معجزہ پیش کرتے کہ تمام افراد_ کی عقلیں دنگ ر ہ جاتیں ،صبح قیامت تک آنے والی تمام نسل انسانی چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی کی امت ہے ،اللہ تعالی نے اسی لحاظ سے آپ کو معجزات عطافرمائے ،آج سائنس وٹکنالوجی‘ ترقی اور عروج کی منزلیں طئے کرتی ہوئی اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ انسان سورج کی شعاعوں کو گرفتار کررہاہے،خالئی کائنات کا سفرکرتے ہوئے چاند تک پہنچ گیا ہے،لیکن سائنس اور ماہرین فلکیات اپنی اس حیرت انگیز ترقی کے باوجود حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے معجزۂ معراج کی عظمت ورفعت اور بلندیوں کا تصور نہیں کرسکتے۔ سائنسی دنیا جس قدر ترقی کرتی جارہی ہے اسی قدر حقائق اسالمیہ آشکار ہوتے جارہے ہیں ،آج کم فہم اور سطحی علم رکھنے والے افراد جو اعتراض_ کرتے ہیں کہ ’’یہ کیسے ممکن ہیکہ رات کے مختصر سے حصہ میں اتنا طویل سفر کیا گیا ہو‘‘ ان پر بھی واضح ہوگیا کہ انسان کی بنائی ہوئی ’’بجلی‘‘ کی سرعت کا حال یہ ہے کہ وہ ایک سکنڈ میں تین الکھ کیلومیٹر کا سفرطے کرتی ہے ،جب مخلوق کی بنائی ہوئی ’’روشنی‘‘ قوت سرعت اس شان کی ہے تو قادر مطلق نے جنہیں سراپانور ِ کی طاقت پرواز کا کون ِ سرعت رفتار اور ِ بناکر بھیجاہے اس نورِ کامل کی اندازہ کرسکتا ہے۔ ماہ رجب کی ستائیسویں شب اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت بیداری میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے ساتوں آسمان‘ جنت ودوزخ اور ساتویں آسمان سے عرش بریں ،ماوراء عرش_ جہاں تک اس کومنظورتھاسیرکرائی ‘اپنے قرب خاص و دیدارپرانوارکی سعادت سے مشرف فرمایا اور آپ کی وساطت سے امت کو نماز کا عظیم تحفہ عنایت فرمایا۔ معراج جسمانی قرآن کریم سے ثابت ہے :ارشاد ال ٰہی ہے: صي جد ِ ااْل َقْ َ س ِ ح َرام ِ إِلَی ال ْ َ م ْ جد ِ ال ْ َ س ِ م ْن ال ْ َ م َس ٰری بِعَبْدِه لَيْاًل ِ ن الَّذِیْ ا ْحا َسب ْ َ ُ ير۔ ترجمہ :پاک ہے وہ ص ُ ْ ميعُ الب َ ِ س ِ ه هُوَ ال َّ ٰ ن ايَاتِنَا إِن َّ ُ م ْ ه ِ ه لِنُرِي َ ُ َ ارکْنَا َ حوْل ُ الَّذِي ب َ َ ذات جس نے اپنے بندۂ خاص کو رات کے مختصر سے حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تا کہ انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں‘ بے شک وہی سننے واال دیکھنے واال ہے۔ (سورۃ بنی اسرائیل۔ )1جسمانی معراج کی واضح دلیل آیت معراج میں وارد ’’بعبدہ‘‘ کا لفظ ہے ’’عبد‘‘ کے معنی سے متعلق مفسرین نے فرمایاہے کہ روح اور جسم کے مجموعہ کا نام ’’عبد‘‘ ہے‘ عبد (بندہ) نہ صرف روح کو کہا جاسکتا ہے اور نہ محض جسم کو۔ ل ٰہذا لفظ عبد سے معلوم ہوا کہ معراج روح اقدس و جسم اطہر_ کے ساتھ ہوئی۔ وتقرير الدليل ان العبد اسم لمجموع الجسد والروح ،فوجب ان يکون اإلسراء حاصال ً لمجموع الجسد والروح(.تفسیر رازی‘ سورۃ بنی اسرائیل۔ )1صحیح احادیث میں براق الئے جانے کاذکرملتاہے(،صحیح مسلم شریف حدیث نمبر 429۔ المستدرک علی الصحیحین للحاکم حدیث نمبر 8946۔تہذیب اآلثار للطبری ،حدیث نمبر -2771مستخرج ٔابی عوانۃ ،حدیث نمبر 259مسند ٔابی یعلی الموصلی ،حدیث نمبر 3281مشکل اآلثار للطحاوی ،حدیث نمبر 4377جامع أالحادیث ،حدیث نمبر 553مسند ٔاحمد ،حدیث نمبر12841مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ، حدیث نمبر )237ظاہرہے کہ براق جیسے جانورپرروح اطہرنہیں بلکہ جسم منورکی سواری ہوتی ہے۔ سفرمعراج سے متعلق حضرت مال جیون رحمتہ اللہ علیہ تفسیرات احمد یہ میں آیت معراج کے تحت فرماتے ہیں :واالصح انه کان فی اليقظة وکان بجسده مع روحه وعليه اهل السنة والجماعة فمن قال انه بالروح فقط اوفي النوم فقط فمبتدع ضال مضل فاسق۔ترجمہ:صحیح ترین قول یہ ہیکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کومعراج شریف حالت بیداری میں جسم اطہر اور روح مبارک کے ساتھ ہوئی ‘یہی اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے ل ٰہذا جو شخص کہے کہ معراج صرف جسم کے ساتھ ہوئی یا نیند کی حالت میں ہوئی وہ بدعتی، گمراہ ،گمراہ گراوردائرہ اطاعت سے خارج ہے۔ (تفسیرات احمدیہ ۔ص )330حضرت مال جیون رحمتہ اللہ علیہ نے مزیدلکھا ہے :ولذاقال اهل السنة باجمعهم ان المعراج الي المسجد االقصي قطعي ثابت بالکتاب والي سماء الدنيا ثابت بالخبرالمشهور والی مافوقه من السموات ثابت باالحاد .فمنکراالول_ کافرالبتة ومنکرالثاني مبتدع مضل ومنکرالثالث فاسق ۔ ترجمہ:اسی لئے اہل سنت وجماعت کا اس بات پراتفاق ہے کہ سفر معراج‘ مسجدحرام سے مسجداقصی تک قطعی_ طورپر قرآن کریم سے ثابت ہے اور آسمانی دنیاتک کاسفرحدیث مشہورسے ثابت ہے اورساتوں آسمان سے آگے خبرواحدسے ثابت ہے ۔چنانچہ جوشخص مسجداقصی تک معراج کا انکارکرے وہ بالیقین کافرہے‘ جومسجداقصی سے آسمانی دنیاتک سفر کا انکارکرے وہ بدعتی‘گمراہ گرہے اورآسمانوں کے آگے سفر کا انکارکرنے واال فاسق وفاجرہے ۔(تفسیرات احمد یہ ،ص تعالی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم ٰ )328شب معراج دیدار حق باالکی سیر کرتے ہوئے قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ فرمایا اوراللہ تعالی کے دیدار پرانوار کی نعمت الزوال سے مشرف ہوئے۔ جس کاقرآن کریم واحادیث صحیحہ میںکہیں اشار ًۃاور کہیں صراح ًۃ ذکر موجود ما کَذ َ َب ہے چنانچہ واقعہ معراج کے ضمن میں ارشاد خداوندی ہے َ : ما َراٰی۔ ترجمہ:آپ نے جو مشاہدہ کیا دل نے اسے نہیں جھٹالیا۔ الْفُؤ َاد ُ َ ة اُخ َْري۔ ترجمہ:اور یقینا ً آپ نے اُسے (سورۃ النجم )11:وَلَقَد ْ َراٰه ُ ن َ ْزل َ ً ما طَغَي۔ترجمہ:نہ نگاہ ص ُر وَ َما َزاغ َ الْب َ َ دومرتبہ دیکھا۔(سورۃ النجمَ )13 : ادھر اُدھر متوجہ ہوئی اور نہ جلوۂ حق سے متجاوز ہوئی ۔(سورۃ النجم: )17یعنی آپ کی نظرسوائے جمال محبوب کے کسی پرنہ پڑی ۔لَقَد ْ َراٰي ات َربِّهِ الْکُب ْ َري-ترجمہ:بیشک آپ نے اپنے رب کی نشانیوں میں ن آي َ ِ م ِْ سب سے بڑی نشانی (جلوۂ حق) کامشاہدہ کیا۔ (سورۃ النجم۔ )18کتب صحاح وسنن میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ن اَوْ اب قَوْ َ سي ْ ِ ه قَ َ من ْ ُ ن ِحتّي کَا َ ب الْعِ َّزةِ فَتَدَلَّي َ ار َر ُّ منقول ہے :وَدَنَا ال ْ َ جب َّ ُ اَدْنَي۔ ترجمہ :اور اللہ رب العزت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرب عطا کیا ،مزیداور قرب عطا کیا یہاں تک کہ آپ اس سے دو کمانوں کے فاصلہ پررہے بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہوئے۔ (صحیح بخاری شریف، ما) .حدیث نمبر7517 :۔ سی تَکْلِی ً مو َ م الل َّ ُہ ُ کتاب التوحید،باب قَوْل ِ ِہ ( وَکَل َّ َ مستخرج ٔابی عوانۃ،کتاب اإلیمان،مبتدٔا ٔابواب فی الرد علی الجہمیۃ وبیان ٔان الجنۃ مخلوقۃ ،حدیث نمبر270:۔جامع أالصول من ٔاحادیث الرسول،کتاب النبوۃٔ ،احکام تخص ذاتہ صلی اللہ علیہ وسلم ،اسمہ ونسبہ ،حدیث نمبر )8867:۔ صحیح مسلم‘صحیح ابن حبان ‘مسندابویعلی ‘جامع االحادیث ‘الجامع الکبیر‘مجمع الزوائد ‘کنزل العمال‘مستخرج ابوعوانہ میں حدیث پاک ہے :عن عبدالله بن شقيق قال قلت البي ذر لو رايت رسول الله صلي الله عليه وسلم لسالته فقال عن اي شيء کنت تساله قال کنت اساله هل رايت ربک قال ابو ذر قد سالت فقال رايت نورا۔ ترجمہ:حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا! اگر مجھے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کی سعادت حاصل ہوتی تو ضرورحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتا، انہوں نے فرمایا تم کس چیز سے متعلق دریافت کرتے؟ حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دریافت کرتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کا دیدارکیا ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :میں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں دریافت کیا تھا‘توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں نے دیکھا ،وہ نور ہی نور تھا۔ (صحیح مسلم،کتاب اإلیمان،باب َٔا فی قَول ِ ہ ع َلَی ہ السالَم ن َٔا َٔا ورا.حدیث نمبر462 :۔ ور نَّی َراہ.وَفِی_ قَوْل ِ ِہ َر ی ْ ُ ت نُ ً َّ ُ ُ ٌ ِْ ْ ِ ِ مستخرج ٔابی عوانۃ،کتاب اإلیمان ،حدیث نمبر287:۔صحیح ابن حبان،کتاب اإلسراء ،ذکر الخبر الدال علی صحۃ ما ذکرناہ ،حدیث نمبر: 58۔جامع أالحادیث،حرف الراء_ ،حدیث نمبر12640:۔جمع الجوامع ٔاو الجامع الکبیر للسیوطی ،حرف الراء ،حدیث نمبر12788:۔مجمع الزوائد،حدیث نمبر13840:۔مسند ٔابی یعلی ،حدیث نمبر7163:۔کنز العمال،حرف الفاء ،الفصل الثانی فی المعراج ،حدیث نمبر)31864: صحیح مسلم‘مسنداحمد‘صحیح ابن حبان ‘مسندابویعلی ‘معجم اوسط طبرانی ‘جامع االحادیث ‘الجامع الکبیر ‘کنزل العمال‘مستخرج ابوعوانہ میں حدیث پاک ہے :عن ابي ذر سٔالت رسول الله صلي الله عليه وسلم هل رٔايت ربک؟ قال نوراني اراه ۔ ترجمہ :حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا !کیا آپ نے اپنے رب کا دیدار کیا؟ فرمایا :وہ نور ہے ‘بیشک میں اس کا جلوہ دیکھتا ہوں۔ (صحیح مسلم ،کتاب االیمان ،باب نورانی اراہ ،حدیث نمبر،461:مسند احمد ،مسند ابی بکر حدیث نمبر: )21429!21351اس حدیث شریف میں بھی صراحت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالی کا دیدار کیا‘ صحابہ کرام نے عرض کیا :کیاآپ نے رب کا دیدار کیا ؟ جواباًارشاد فرمایا :نورانی اراہ وہ نور ہے میں ہی توا سکو دیکھتا ہوں ۔ یہ حدیث شریف کتب احادیث میں مختلف الفاظ سے مذکورہے ()1نوراني اراه ۔ (صحیح مسلم ،حدیث نمبر،461:مسند احمد ،حدیث نمبر)2( )21429!21351:فقال نورا اني اراه ۔ترجمہ :میں نے جس شان سے دیکھاوہ نورہی نورہے ۔ (مسنداحمد ،حدیث نمبر)3( )21567:فقال رايت نور ا۔ ترجمہ :میں نے نوردیکھا۔(صحیح مسلم ،حدیث نمبر،462 :مستخرج ٔابی عوانۃ،کتاب اإلیمان،بیان نزول الرب تبارک وتعالی إلی السماء الدنیا ،حدیث نمبر: 287۔صحیح ابن حبان،کتاب اإلسراء_ ،ذکر الخبر الدال علی صحۃ ما ذکرناہ ،حدیث نمبر58:۔طبرانی معجم اوسط،حدیث نمبر،8300:مسنداحمد ،حدیث نمبر21537:۔جامع أالحادیث،حرف الراء_ ،حدیث نمبر12640:۔ جمع الجوامع ٔاو الجامع الکبیر للسیوطی ،حرف الراء ،حدیث نمبر: 12788۔صحیح ابن حبان،کتاب اإلسراء ،حدیث نمبر255:۔مجمع الزوائد،حدیث نمبر13840:۔مسند ٔابی یعلی ،حدیث نمبر7163:۔کنز العمال،حرف الفاء ،الفصل الثانی فی المعراج ،حدیث نمبر)31864: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا مفہوم صحیح بخاری شریف میں روایت ہے:عن مسروق عن عائشة رضي الله عنها قالت من حدثک ٔان محمدا صلی الله عليه و سلم رٔاي ربه فقد کذب وهو يقول ( ال تدرکه االبصار ) ترجمہ :مسروق بیان کرتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :جو شخص تم کو یہ بتائے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کواحاطہ کے ساتھ دیکھا ہے تواس نے جھوٹ کہا اللہ تعالی کا ارشاد ہے ال تدرکه االبصار۔ آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔ (انعام( ):103صحیح بخاری شریف کتاب التوحید باب قول اللہ تعالی عالم الغیب فال یظہر علی غیبہ احدا،حدیث نمبر ) 7380:اس حدیث پاک میں مطلق دیدار الہی کی نفی نہیں ہے بلکہ احاطہ کے ساتھ دیدار کرنے کی نفی ہے اللہ تعالی کا دیدار احاطہ کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ اللہ تعالی کی ذات اور اُس کی صفات المحدود ہیں ‘اس لئے احاطہ کے ساتھ دیدارِخداوندی محال ہے ۔حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیراحاطہ کے اپنے رب کا دیدارکیا ہے ۔ جامع ترمذی‘مسند احمد‘مستدرک علی الصحیحین‘عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری‘ ،تفسیر ابن کثیر‘‘سبل الہدی والرشاد میں حدیث پاک ہے :عن عکرمة عن ابن عباس قال راي محمد ربه قلت اليس الله يقول ال تدرکه االبصار و هو يدرک االبصار قال و يحک اذا_ تجلي بنوره الذي هو نوره و قد راٰي محمد ربه مرتين ۔ترجمہ:حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا :حضرت سیدنا محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کادیدارکیاہے۔ میں نے تعالی نے یہ نہیں فرمایا :نگاہیں اس کا احاطہ نہیں ٰ عرض کیا:کیا اللہ کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک_ واحاطہ کرتا ہے؟تو حضرت عبداللہ بن تعالی اپنے ٰ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:تم پر تعجب ہے! جب اللہ اُس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو اُس کا غیر متناہی نور ہے اور بے شک سیدنا محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا دو مرتبہ دیدارکیاہے۔ (جامع ترمذی ،ابواب التفسیر ‘باب ومن سورۃ النجم ‘حدیث نمبر3590:۔ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ،کتاب تفسیر القرآن ،سورۃ والنجم،تفسیر ابن کثیر ،سورۃ النجم،5ج،7ص-442سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ،جماع ٔابواب معراجہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج،3ص -61مستدرک علی الصحیحین ،کتاب التفسیر ،تفسیرسورۃ االنعام ، حدیث نمبر3191:۔مسند احمد،معجم کبیر،تفسیرابن ابی حاتم ،سورۃ االنعام ،قولہ التدرکہ االبصار،حدیث نمبر )7767:قال ابن عباس قد راه النبي صلي الله عليه وسلم۔ ترجمہ :حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے فرمایا :حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کادیدارکیا ہے۔ (جامع ترمذی شریف ،ج ،2ابواب التفسیر ص ، 164 حدیث نمبر)3202:۔ مسند امام احمد میں یہ الفاظ مذکور ہیں:عن عکرمة عن ابن عباس قال رسول الله صلي الله عليه وسلم رايت ربي تعالي ۔ ترجمہ :سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیانٰ تبارک و فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں نے تعالی کادیدارکیا ۔ یہ حدیث پاک مسند امام احمد میںٰ اپنے رب تبارک و دو جگہ مذکور ہے۔ (مسند امام احمد ،حدیث نمبر )2502-2449:وقال کعب ان الله قسم رؤيته وکالمه بين محمدوموسي فکلم موسی مرتين وراه محمد مرتين۔ترجمہ :حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا :اللہ تعالی نے رؤیت اور کالم کو حضرت سید نامحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسی علیہ السالم کے درمیان تقسیم فرمایا دوبار حضرت موسی علیہ السالم سے کالم فرمایا اور دومرتبہ حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رب کا دیدار کیا۔ (جامع ترمذی ،حدیث نمبر ‘3678:ابواب تفسیر القرآن) امام طبرانی کی معجم اوسط میں ہے:عن الشعبي ٔان عبد الله بن عباس کان يقول :إن محمدا صلي الله عليه وسلم رٔاي ربه مرتين۔ ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:بے شک سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کادو مرتبہ دیدار کیا۔ (معجم اوسط طبرانی ،باب المیم من اسمہ:محمد ،حدیث نمبر5922:مواہب اللدنیہ۔ج8۔ص )248لقي ابن عباس کعبابعرفة فساله عن شي فکبرحتي جاوبته الجبال فقال ابن عباس انا بنوهاشم نزعم اونقول ان محمدا قدراي ربه مرتين فقال کعب ان الله قسم رؤيته وکالمه بين موسي ومحمد عليه ماالسالم فراي_ محمد ربه مرتين وکلم موسي مرتين۔ ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت کعب سے مقام عرفہ میں مالقات کی توانہوں نے ایک چیز کے بارے میں سوال کیا تو حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے اتنا بلند نعرہ لگایا کہ پہاڑ گونجنے لگا اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے اپنی رؤیت اور کالم کو سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا موسی علیہ موسی علیہ السالم نے اللہ کا ٰ السالم کے درمیان رکھدیا ہے ،حضرت کالم سنا اور سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے رب کادیدارکیا ۔ (تفسیر ابن کثیر‘ سورۃ النجم۔ )5حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کا دیدارکیا۔ عن معاذ عن النبي صلي الله عليه وسلم قال رايت ربي۔ (کتاب الشفاء ،ج )1،196/197حضرت امام عبدالرزاق_ رحمتہ اللہ علیہ جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دادا_ استاذہیں ،روایت فرماتے ہیں :کان الحسن يحلف بالله ثالثة لقد راي محمد ربه۔ ترجمہ:حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ اس بات پر تین مرتبہ قسم کھاتے تھے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کادیدارکیا ۔(تفسیر عبد الرزاق،حدیث نمبر2940:المواہب اللدنیہ۔ج،8ص )266،الروض االنف میں ہے:عن ابن حنبل انه سئل هل راي محمدربه فقال راه راه راه حتي انقطع صوته ۔ ترجمہ:حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ آپ سے سوال کیا گیا:کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کا دیدار کیا؟ آپ نے فرمایا :دیدار کیا ،دیدار کیا ،دیدار کیا، اتنی دیر تک فرمایا کہ سانس ٹوٹ گئی۔ (الروض_ االنف‘ رؤیۃ النبی ربہ