Professional Documents
Culture Documents
مشق نمبر1:
دین اسالم پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول ہللا ﷺ پر جو کچھ بطور دین نازل ہوا ہے ننہ صرف اس
کی تصدیق کی جائے بلکہ (دل سے)اسے قبول کرنا اور اس کی پیروی کرنا بھی ضروری ہے۔
چنانچہ رسول ہللا ﷺ جو دین لے کر آئے تھے اس کی تصدیق ،اور اس بات کی گواہی کہ یہ دین تمام
دینوں سے بہتر ہے،ایمان کا الزمی جزہے۔یہی وجہ ہے کہ ابو طالب رسول ہللا ﷺ پر ایمان النے
والوں میں شامل نہیں ہو سکے۔
دین اسالم ان تمام مصلحتوں کا ضامن ہے جن کی ضمانت سابقہ ادیان میں موجود تھی۔اس دین کی
امتیازی خصوصیات یہ ہے کہ یہ ہر زمانہ ،ہر جگہ ہر امت کے لیے درست اور قابل عمل ہے۔ہللا
:تعالی اپنے رسول (ﷺ)کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے
ہر دور،ہر جگہ اور ہر امت کے لیے دین اسالم کے درست اور قابل عمل ہونے سے مراد یہ ہے کہ
اس دین کے ساتھ مضبوط تعلق کسی بھی زمانہ ،مقام اور قوم کی مصلحتوں کے ہر گز منافی نہیں ہو
سکتا بلکہ یہ تو ان کے عین مطابق ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دین ہر دور ،ہر جگہ اور ہر قوم
کا تابع ہے،جیسا کہ بعض کج فہم لوگ سمجھتے ہیں۔
دین اسالم بالکل سچا اور برحق دین ہے ،جو اس کے دامن کو مضبوطی سے تھام لے ،ہللا تعالی نے
:اس کی مدد فرمانے اور اسے غالب کرنے کی ضمانت دی ہے،ہللا تعالی کا ارشاد ہے
ف ٱلَّذِینَ ِمن قَ ْب ِل ِھ ْم َولَیُ َم ِكن ََّن ت لَیَ ْست َْخ ِلفَنَّ ُھ ْم فِى ٱ ْْل َ ْر ِ
ض َك َما ٱ ْست َْخلَ َ ص ِل َح ِوا ٱل َّ ع ِملُ ۟ ع َد ٱ ََّللُ ٱلَّذِینَ َءا َمنُ ۟
وا ِمن ُك ْم َو َ َو َ
شیْا ۚ َو َمن َكف ََر َب ْع َد َذ ِلكَ ضى لَ ُھ ْم َولَیُ َب ِدلَنَّ ُھم ِم ۢن َب ْع ِد خ َْو ِف ِھ ْم أَ ْم ًۭنا ۚ َی ْعبُدُونَ ِنى َال یُ ْش ِر ُكونَ ِبى َ
لَ ُھ ْم دِینَ ُھ ُم ٱلَّذِى ٱ ْرتَ َ
فَأ ُ ۟ولَئِكَ ُه ُم ٱ ْلفَ ِسقُونَ ﴿﴾55
ترجمہ:تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان الئے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں،ہللا تعالی وعدہ
فرما چکے ہیں کہ ان کو زمین میں خالفت عطا فرمائے جس طرح ان سے پہلے (اہل ہدایت)لوگوں کو
خالفت عطا کی تھی اور جس دین کو (ہللا تعالی نے)ان کے لیے پسند فرمایا ہے اس دین کو ان کے
لیے جما دے گا،اور ان کے خوف و خطر کو امن و امان میں بدل دے گا۔پس وہ میری عبادت
کریں،میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کے بعد بھی جو کفر کریں وہ یقینا فاسق
)ہیں۔"(سورۃ النور،آیت 55
سوال نمبر 2۔ الہ کا مفہوم واضح کرتے ہوئے اسماء الحسنی پر نوٹ لکھیں؟
الہ کا مفہوم
معبود اُسے کہتے ہیں جو کسی کا محتاج نہ ہو۔ اُسے کسی کی احتیاج نہ ہو ،سب سے بے نیاز و غنی
و بے پراہ ہو۔ جس کیلئے بھی غنائے ذاتی کو تسلیم کیا گیا گویا اُسے معبود مان لیاگیا۔ اب ایسا کسی
کو مان کر پھر اُس کیلئے عاجزی اختیار کرتے ہوئے کیا جانے واالہر فعل عبادت ہے۔ اِس عجز کے
ساتھ خواہ ندا کی جائے ،قیام کیا جائے یا سجدہ ،طواف کیا جائے یا قربانی ،اُس کے کسی بھی حکم
پر عمل پیرا ہواجائے ہر بات عبادت کہالئے گی۔ یہی الاِلہ االہللا کا مفہوم ہے کہ ہللا کے سوا ایسا کوئی
نہیں جو سب سے بے نیاز ہو ،اِسی بے نیازی کی وجہ سے وہی الہ ہونے کا مستحق ہے اُس کے سوا
کوئی الہ نہیں ایک اُسی کی ذات ہے جو سب سے بے نیاز ہے ،اُسے کسی کی حاجت نہیں ،نہ اپنا
وجود قائم رکھنے میں نہ کسی کو وجود بخشنے میں۔ سب کی مشکلیں حل کرنے واالوہی واح ِد حقیقی
ہے۔ اُس سے بے نیاز ہوکر کوئی نبی ہو یا ولی ،پیر ہو یا امام مدد کرنا تو درکنار اپنا وجود بھی قائم
نہیں رکھ سکتے۔
اسماء الحسنی
توحید ِ اسماء و صفات ہللا تعالی کی توحید کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔ یعنی ہللا تعالی کی ذات اور
اس کی ربوبیت و الوہیت پر ایمان النے کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی ایمان النا کہ ہللا رب العزت
اپنے تمام ناموں اور صفات میں کامل و اکمل ہے ،اس کا ہر نام اور ہر صفت ہر قسم کے نقائص اور
عیوب سے پاک ہے۔ پوری کائنات میں اس کے نام اور صفات میں کوئی اس کا ہم مثل ہے اور نہ
شریک۔
ہللا ذوالجال ِل واالکرام کے تمام اسماء بہترین ہیں،لہذا ان میں کسی بھی قسم کی تاویل ،تعطیل یا تشبیہ یا
انکار کا عقیدہ رکھنا صریحا الحاد ہے۔ ہللا رب العزت کے کسی بھی نام کو اس سے دعاء میں وسیلہ
رمان مبارک ہے
ِ :بنایا جاسکتا ہے اور یہی سب سے بہترین وسیلہ ہے۔ ہللا تعالی کا ف
اور ہللا تعالی کے لئے اچھے نام ہیں ،لہذا انہی کے ساتھ اسے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو ’’
اس کے ناموں کے بارے میں کج روی کا شکار ہیں ،جو کچھ وہ کرتے ہیں اس کا انہیں عنقریب بدلہ
)دیا جائے گا۔‘‘(مزید حوالہ جات :طہ:آیت/8بنی اسرائیل:آیت/110الحشر:آیت24
رسو ِل اکرم ﷺنے فرمایا’’ :بے شک ہللا تعالی کے ننانوے نام ہیں جس نے ان ناموں کو یاد کیا وہ جنت
)میں داخل ہوگا۔‘‘ (صحیح بخاری :کتاب التوحید ،باب ان ہللا مائۃ اسم اال واحد/صحیح مسلم
ہللا تعالی کے صرف ننانوے نام ہی نہیں ہیں ،بلکہ یہ تو صرف وہ نام ہیں جن کے بارے میں ہللا
عزوجل نے ہمیں اپنی وحی کے ذریعے خبر دی ہے ،حقیقت میں ہللا تعالی کے بے شمار اور التعداد
نام ہیں جنہیں اس کے سوا پوری کائنات میں اور کوئی نہیں جانتا۔
:خاتم االنبیاء محمد رسول ہللا ﷺہللا تعالی سے ان کلمات کے ذریعے دعا کیا کرتے تھے
علَّ ْمتَهُ أَ َحدا ِم ْن خ َْلقِكَ ،أَ ْو أَ ْنزَ ْلتَهُ ِفي ِكتَا ِبكَ ،أَ ْو ا ْستَأْثَ ْرتَ ِب ِه ِفي
سكَ ،أَ ْو َ أَ ْسأَلُكَ ِب ُك ِل اس ٍْم ه َُو لَكَ َ
س َّمیْتَ ِب ِه نَ ْف َ
بِع ْل ِم ْالغَ ْی ِ
اے ہللا! میں تیرے ہر اس نام کے واسطے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں ،جو تو نے اپنی ذات کے ’’
لئے پسند فرمایا ،یا اپنی کتاب میں نازل فرمایا ،یا اپنی مخلوقات میں کسی کو سکھادیا یا اسے اپنے
)خزانۂ غیب میں مخفی رکھا۔‘‘ (مسن ِد احمد :مسند المکثرین من الصحابۃ ،مسند عبدہللا بن مسعود
:نبی اکرم ﷺنے ایک آدمی کو سنا وہ ان الفاظ کے ساتھ دعاء کررہا تھا
اے ہللا! بے شک میں تجھ سے سوال کررہا ہوں؛ اس لئے کہ توہی ہللا ہے تیرے سوا کوئی معبود ’’
نہیں ہے ،تو ایسا اکیال بے نیاز ہے کہ تیرا کوئی باپ نہیں اور نہ کوئی اوالد ہے اور نہ ہی کوئی
تیرے ہم مثل ہے۔رسو ِل معظم صلی ہللا علیہ و سلم نے فرمایا :قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں
میری جان ہے اس نے ہللا سے ایسے اسم اعظم کے ذریعے سوال کیا ہے کہ جب اس کے واسطے
سے ہللا سے سوال کیا جائے تو وہ ضرور عطا کرے اور دعاء کی جائے تو وہ ضرور قبول
)ہو۔(ترمذی:کتاب الدعوات ،باب جامع الدعوات عن النبی ﷺ
ہللا تعالی ہمیں ان ناموں کو یاد کرنے ،سمجھنے اور ان پر ایمان النے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
اسماء الحسنی
معبودبرحق ہے ،تمام مخلوق اسکی الوہیت اور عبودیت میں شامل ہے ،کیونکہ وہ ان تمام معبودانہ
ت کمال ہیں۔یہ ہللا تعالی کا خاص ذاتی نام ہے جو اسمائے حسنی میں سب
صفات کا حامل ہے،جو صفا ِ
سے زیادہ شان واال ہے ،اس لئے اسے اسم اعظم بھی کہتے ہیں۔
یَ َ ّٰ
اللَاُ کہہ کر دعا مانگا کیجئے۔
الرحْ منُ
َّ
بہت زیادہ رحم کرنے واال ،دنیا میں اس کی رحمت مومنین اور کفار سب کے لئے ہے لیکن آخرت میں
یہ رحمت ہللا تعالی کے فرمانبردار بندوں کے لئے ،خاص ہوگی۔
الر ِح ْی ُم
َّ
نہایت مہربان ،جو ہر عمل کرنے والے کو اس کا بے حساب اجر عطا کرنے واالہے۔
ْال َم ِلكُ
حقیقی بادشاہ،جو اپنے ہر حکم کو نافذ کرنے کی مکمل طاقت رکھتا ہے،جسکی بادشاہی کو کبھی زوال
نہیں۔
ْالقُد ُّْو ُ
س
پاکیزگی واال،جو ہرعیب اورنقص سے پاک ہے۔ایسی پاکی جو انسانی تصور سے باال ترہے۔
سالمتی کا سرچشمہ،جو ہر چیز کو سالمت رکھنے واال ،نیک بندوں کی حفاظت اور انہیں سیدهی راہ
پر چالتاہے۔
ْال ُمؤْ ِمنُ
امن دینے واال،اسکی ذات میں امن ہی امن ہے اس لئے اسی سے امن طلب کیا جاتا ہے۔
ْال ُم َھ ْی ِمنُ
نگہبان اور محافظ،جو اپنی پوری مخلوق کی حفاظت اور نگہبانی کرنے واال ہے ۔
ْالعَز ْی ُز
سب پر غالب،وہ عزت وغلبہ کا سرچشمہ ہے۔وہ جسے چاہتاہے غلبہ عطا فرماتا ہے۔
ْال َجب ُ
َّار
بگڑے کاموں کو بنانے واال ،طاقتور،جس کے سامنے کوئی بولنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔
کبریائی واال،وہ اتنا عظیم ہے کہ اس کی طرف کسی برائی ،نقص یا عیب کی نسبت نہیں ہو سکتی۔
ْالخَا ِل ُق
ہر چیز کو پیدا کرنے واال ،جوپیدا کرنے سے پہلے ہر چیز کی تقدیر لکھنے واالہے۔
ئ ْالبَ ِ
ار ُ
عدم سے وجود میں النے واالجو وجود میں الکر اس کے معاش کی تدبیر کرنے واال ہے۔
ْال ُم َ
ص ِو ُر
صورتیں بنانے واال ،جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا اور اپنی حکمت کے ساتھ خوبصورت بنایا۔
ْالغَفَّ ُ
ار
بے انتہابخشنے واال ،ڈهانپنے واال ،جو دنیا میں گناہوں اور برائیوں پر پردہ ڈال کر آخرت میں عذاب
دینے کی بجائے در گذر کرتے ہوئے معاف کرنے واال بھی ہے۔
ْالقَ َّھ ُ
ار
ہر چیز پر غالب ،جس کے سامنے تمام مخلوقات عاجزہیں۔جو ہر چیز پر اختیار رکھتا ہے۔
ْال َو َّه ُ
اب
بہت زیادہ عطا کرنے واال ،وہ بغیر کسی غرض کے اور بغیر مانگے عطا کرنے واال ہے۔
الر َّز ُ
اق َّ
ب رزق مہیا کرنے اور روزی پہنچانے واال ہے۔
روزی دینے واال،جو ہر جاندار کے لئے اسبا ِ
ْالفَتَّا ُح
مشکالت حل ،اپنی رحمت کا دروازہ کھولنے اور حق اور باطل کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرنے
واال ہے۔
ْالعَ ِل ْی ُم
بہت زیادہ علم رکھنے واال ،ہر اول اور آخر کو جانتا ہے جوہر چیز کو ہر وقت جاننے واال ہے۔
ْالقَابِ ُ
ض
روزی تنگ کرنے واال ،جو ہر چیز پر قابض ہے۔ موت کے وقت روحوں کو قبض کرنے واال ہے۔
ْالبَا ِس ُ
ط
روزی کشادہ کرنے واال ،فراخی دینے واال ،جو رزق کو وسیع کرتا ہے اور دلوں کوکشادہ کرتا ہے۔
ْالخَا ِف ُ
ض
پست کرنے واال ،جو اپنے دشمنوں کو نیچا دکھاتے ہوئے ذلیل وخوار کردیتا ہے۔
الرافِ ُع
َّ
بلند کرنے واال ،اٹھانے واال۔ جو اہ ِل ایمان کوایمان النے کی و جہ سے بلند کرتا ہے۔
ْال ُم ِع ُّز
عزت دینے واال ،وہ اپنے نیک بندوں کو علم و فضل کے ذریعہ عزت عطا فرماتا ہے۔
ْال ُم ِذ ُّل
ذلیل و خوار کرنے واال ،سرکشی اور تکبر کرنے والوں کو ذلیل و خوار کردیتاہے۔
بہت زیادہ سننے واال ،جوچھوٹی سے چھوٹی مخلوق کی فریاد کو بھی سنتا اورقبول فرماتا ہے۔
ْالبَ ِ
ص ْی ُر
ہر چیزکو خوب دیکھنے واال،جس کی نظروں سے ذرہ سے بھی چھوٹی کوئی چیز اوجھل نہیں۔
ْال َح َک ُم
حاکم ،انصاف سے فیصلہ کرنے واال ،اس کے حکم کو کوئی ٹال نہینسکتا اور نہ اس میں تبدیلی
کرسکتا ہے۔
ْالعَ ْد ُل
انصاف کرنے واال ،جو اپنے بندوں کے درمیان تمام معامالت میں انصاف کرنے واال ہے۔
اللَّ ِط ْی ُ
ف
باریک بین ،اپنی مخلوق کوباریک بینی سے پیدا کرنے اور زیادہ نرمی سے پیش آنے واال ہے۔
ْالخَب ْی ُر
ہر چیز سے آگاہ ،کوئی بھی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے اور وہ ہر وقت ہر چیز سے باخبر رہتا ہے۔
ْال َح ِل ْی ُم
بردبار ،تحمل(برداشت) واال ،وہ لوگوں کی سرکشی کو دیکھنے کے باوجودانہیں اپنی نعمتیں عطا
فرماتا رہتاہے
ْال َع ِظ ْی ُم
ْالغَفُ ْو ُر
بار بار بخشنے واال،جو بار بار گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کو بھی بخش دیتا ہے۔
ش ُ
ک ْو ُر ال َّ
قدردان،بہت زیادہ اجر دینے واال،جو معمولی عمل کی قدر کرتے ہوئے اسے بھی شرف قبولیت بخشتا
ہے۔
ْالعَ ِل ُّ
ی
بہت ہی زیادہ بلندمرتبہ واال ،جس کی بلندی کی کوئی انتہا نہیں اور نہ ہی کسی کو اس کی بلندی کا
علمہے۔
ْالکَب ْی ُر
بہت ہی بڑا ،جس کی شان و شوکت کے سامنے بڑے سے بڑا بھی حقیر ہے۔
ْال َح ِف ْی ُ
ظ
سب کیحفاظت کرنے واال ،جو ہر وقت اپنی مخلوق کی حفاظت کرتا ہے اور وہ اس کی حفاظت میں نہ
تھکتا ہے اور نہ ہی اکتاتا ہے ،تمام کائنات کا محافظ ہے۔
ْال ُم ِق ْیتُ
روزی اور توانائی دینے واال،جوپوری مخلوق کو اس کی غذا پہنچاتا ہے اور انہیں با آسانی رزق مہیا
کرتاہے۔
ْال َح ِس ْی ُ
ب
حساب لینے ،کافی ہوجانے واال ،جو اپنے بندوں سے حساب لینے اور ہر پریشانی سے کافی ہوجاتا
ہے۔
ْال َج ِل ْی ُل
بلند مرتبہ واال ،افضل ترین صفات واال ،جس کی ذات و صفات میں کوئی اسکے مقابل نہیں ہے۔
ْالکَر ْی ُم
عطا کرنے واال ،بڑا سخی ،جو قدرت کے باوجود معاف کرنے اور امید سے بڑه کر عطا کرنے واال
ہے۔
ب
الرقِ ْی ُ
َّ
بڑانگہبان ،پاسبان ،محافظ ،جو ہر نفس کا پاسبان اور محافظ اور نگہبان ہے۔
ْال ُم ِج ْی ُ
ب
بے قراروں کی دعا قبول کرنے واال ،حاجت روا،جوسائل کی دعا قبول ،اس کی مدد اور پکارنے
والوں کی ہرپکار کا جواب دینے واال ہے۔
کشادگی دینے واال ،علم و حکمت میں وسیع،جس کی سلطنت،علم،سخاوت اور فضل وکرم بڑا وسیع
ہے۔
ْال َح ِک ْی ُم
حکمت و دانائی واال،جو ہر چیز کو بہتر انداز میں سمجھنے واال ہے،اسکا ہر کام حکمت پر مبنی ہے۔
کوبھیجنے واالہے۔ُ oمردوں کو زندہ کرکے قبروں سے اٹھانے واال ،مخلوق کی ہدایت کے لئے انبیا
ال َّ
ش ِھ ْی ُد
حاضروناظر،جو ہر چیزسے باخبر اور ہر ایک کے اعمال کو جانتا ہے اور ان پر گواہ بھی ہے۔
ْال َح ُّق
وہ اپنی ذات و صفات میں سچا ہے،وہی عبادت کا حقدار ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں۔
ْال َو ِک ْی ُل
بڑا کارساز ،مختار ،پوری مخلوق اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے اور مکمل با اختیار ہے۔
ْالقَ ِو ُّ
ی
بڑی طاقت واال ،جسے پوری کائنات مل کر بھی عاجز نہیں کرسکتی۔
ْال َمتِ ْینُ
انتہائی مضبوط و مستحکم،وہ بڑی زبردست قوتوں واال ہے ،اس کی قوت اور قدرت کی کوئی انتہا
نہیں
ْال َو ِل ُّ
ی
مددگار ،حمایتی ،اپنے فرمانبردار بندوں کا دوست ہے اور دشمنوں کا صفایا کرنے واال ہے۔
ْال َح ِم ْی ُد
تعریف و توصیف کے الئق ،جس کی حمد و ثنا ہر زبان پر ہر حال میں جاری و ساری ہے۔
ْال ُمحْ ِ
صی
اپنے علم اور شمار میں رکھنے واال اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں اس کا علم ہر چیز کو گھیرا
ہوا ہے۔
ئ
ال ُم ْب ِد ُ
پہلی بار پیدا کرنے واال ،جو بغیر کسی نمونہ کے مخلوق کو عدم سے وجود میں النے واال ہے۔
ْال ُم ِع ْی ُد
دوبارہ پیدا کرنے واال ،جو موت کے بعد دوبارہ زندگی عطا کرنے اور حساب لینے واال ہے۔
زندگی اور صحت عطا کرنے واالُ ،مردہ دلوں کو زندہ کرنے اور ُمردہ زمین کو آباد کرنے واال ہے۔
ْال ُم ِم ْیتُ
موت دینے واال ،جو ایک مقررہ وقت کے بعد ہر ایک کو موت دینے واال ہے ،جس نے موت کو پیدا
کیا۔
ْال َح ُّ
ی
ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہنے واال ،جسے کبھی فنا اور زوال نہیں جب کہ اسکے عالوہ ہر چیز فنا ہو جائے
گی۔
ْالقَیُّ ْو ُم
کائنات کو قائم رکھنے اور سنبھالنے واال ،جو پوری کائنات کا محافظ اور نگران ہے۔
الواج ُد
َ
ہر چیز کو پانے واال ،جسے ہر چیز کے بارے میں معلومات ہیں اور ہر چیز اس کے سامنے بالکل
واضح ہے۔
بزرگی اور بڑائی واال ،بڑے شرف واال ،وہ عزت اور شرف کا مالک اور معزز ہے۔
الواح ُد
َ
بے مثال ،اکیال،جو اپنی ذات و صفات میں یکتاہے جس کا ذات ،صفات ،عبادات میں کوئی شریک نہیں۔
ص َم ُد
ال َّ
بے نیاز ،جو کسی کا محتاج نہیں،جو کائنات کی ہر چیز سے بے نیاز ہے۔
ْالقَاد ُِر
مکمل قدرت رکھنے واال ،جس کا حکم بغیر کسی واسطہ کے نافذ ہوتا ہے ،وہ جو چاہتا ہے کر گذرتا
ہے۔
ْال ُم ْقتَد ُِر
بڑی قدرت رکھنے واال ،جو ہر چیز پر قادرہے،کوئی بھی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں۔
آگے بڑهانے واال ،جو عزت و شرف ،علم و عمل میں اپنے نیک بندوں کو آگے بڑهانے واال ہے۔
ْال ُم َؤ ِخ ُر
پیچھے ہٹانے واال ،جو اپنے اور اپنے دشمنوں کو ذلیل و خوار کرتے ہوئے پیچھے ہٹانے واال ہے۔
سب سے پہلے ،جو ہر چیز کے وجود میں آنے سے پہلے بھی موجود تھا۔
ْاْل ِخ ُر
سب کے بعد ،جو سب کو موت دینے کے بعد بھی زندہ اور موجود رہے گا۔
َّ
الظاه ُِر
ظاہر ،سب پر غالب ،جو اپنی پوری مخلوق پر غالب اور بلند و باال ہے۔
ْال َب ِ
اطنُ
سب سے پوشیدہ ،جسے دنیا کی کوئی آنکھ دیکھنے کی صالحیت نہیں رکھتی ۔
ْال َوا ِل ُ
ی
سر پرست ،جو پوری کائنات کا اکیال ہی مالک ہے اور اپنی مرضی سے اس میں تصرف کرنے واال
ہے۔
سب سے بلند و باال ،جو شان اور مقام کے اعتبار سے تمام کائنات سے بلند و برتر ہے۔
ْال َب ُّر
تمام اچھائیوں کا سرچشمہ ،جو اپنی تمام مخلوق سے اچھائی اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے واال
ہے۔
الت َّ َّو ُ
اب
توبہ قبول کرنے واال ،جو بڑے سے بڑا گناہ کرنے وا لے کی بھی توبہ قبول کرنے واال ہے۔
بدلہ لینے واال ،جو سرکش اور نافرمان لوگوں سے بدلہ لینے واال ہے۔
بہت ہی زیادہ در گزرکرنے واال۔جو معافی کو بہت ہی زیادہ پسند اور بہت جلد معاف فرمادیتا ہے۔
ف
الر ُء ْو ُ
َّ
بڑاہی شفیق و مہربان ،جو اپنے بندوں سے نہایت شفقت اور انتہائی نرمی کا برتاؤ کرنے واال ہے۔
حقیقی شہنشاہ ،جسے چاہے بادشاہت عطا کرے اور جس سے چاہے چھین لے۔دنیا و آخرت اور پوری
ت الزوال ہے۔
کائنات کا حقیقی بادشاہ ہے ،پوری کائنات پر جس کی حکوم ِ
ُذ ْ
وال َج َال ِل َو ْ ِ
اال ْک َرام
عظمت و جالل واال اور انعام و اکرام کرنے واال،جو عظمت و کبریائی واالہے اور اپنی مخلوق پر
خوب مہربانی کرنے واال اور ہر عام و خاص پر خوب احسان کرنے واال ہے۔
ْال ُم ْق ِس ُ
ط
عدل و انصاف قائم رکھنے واال ،جو اپنے فیصلوں میں مخلوق کے ساتھ مکمل انصاف کرنے واالہے۔
ْال َج ِ
ام ُع
جمع کرنے واال ،جوقیامت کے دن اپنی تمام مخلوقات کو جمع کرنے واال ہے۔
ْالغَنِ ُّ
ی
خود کفیل ،بے پروا ،جو اپنی تمام مخلوق کے افعال سے بے نیاز اور ان سے درگزر کرنے واال ہے۔
ْال ُم ْغنِی
مالدار بنانے واال ،مال و دولت اور دوسری نعمتوں سے نواز کر محتاجی سے نجات دینے واال ہے۔
ہالکت سے روکنے واال ،وہ جس سے چاہے اور جو چیز چاہے اس چیزسے اپنی مخلوق کو روک لیتا
ہے۔
َّآر
الض ُّ
ضرر پہنچانے واال ،جوہر چیز کے نفع و نقصان کا مالک ہے۔وہ جسے چاہتا ہے پریشانی میں مبتال
کرتا ہے۔
النَّافِ ُع
نفع پہنچانے واال ،جو ایسی اشیا کا خالق ہے جو اچھائیوں سے بھرپور اور نفع بخش ہیں۔
سیدهی راہ دکھانے واال ،جو کامیابی کی راہ دکھاتا ہے اور لوگوں کو ہدایت عطا فرماتا ہے۔
ْال َب ِد ْی ُع
بغیر نمونہ کے چیزوں کو پیدا کرنے واال۔جس نے کائنات میں حیرت انگیز چیزیں پیدا کیں۔
ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی رہنے واال ہے۔ جبکہ اس کے سوا ہر مخلوق کو فنا ہونا ہے۔
الو ِار ُ
ث َ
سب کے بعد موجود رہنے واال ،جو تمام چیزوں کا حقیقی وارث ہے۔
الر ِش ْی ُد
َّ
صحیح راہ پر چالنے واال ،اپنی مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد انہیں سیدهی راہ دکھانے واال ہے۔
قران کریم کی ایک سو کے قریب ایات الہیہ یہ اعالن کرتی ہیں کہ محمد رسول اہللا ﷺ کے بعد کوئی
نیا نبی و رسول نہیں ائے گا۔ قران مجید فرقان حمید میں ارشاد ربانی ہے۔ (مسلمانو) ’’محمد (ﷺ) تم
مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ،لیکن وہ اہللا کے رسول ہیں اور تمام نبیوں میں سب سے
‘‘اخری نبی ہیں اور اہللا ہر بات کو خوب جاننے واال ہے۔
رسل تشریف الئے تھے وہ کسی خاص قوم اور محدود وقت کے لیے ؑ اپ سے پہلے جو انبیاء اور
تشریف الئے تھے ،خاتم النبیین جناب محمد رسول اہللا ﷺ قیامت تک تمام جنات ،انسانوں اور تمام زمان
و مکاں کے بسنے والوں کے رسول اور نبی ہیں۔ لہذا خاتم النبیین فرمانے سے اپ کے خاتم الرسل ﷺ
ہونے کا بھی اعالن ہوگیا۔
سورہ سبا میں فرمایا ’’ :اور ہم نے اپ کو نہیں بھیجا مگر تمام انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر
‘‘لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے۔
خالصہ یہ ہے کہ رسول اہللا ﷺ کی ذات گرامی پر وصف ِ نبوت سے متصف ہونا یعنی نبوت ِ جدیدہ
سلسلہ نبوت اپ کی ذات پر منقطع ہوگیا ،ان نبوت جدیدہ سے کوئی
ٔ سے سرفراز کیا جانا ختم ہوگیا اور
) شخص بھی متصف نہیں ہوگا۔ (تفسیر انوارالبیان
مفسر ابن کثیر بہت سی احادیث نقل کرنے کے بعد اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں’’ :یہ بندوں پر اہللا تعالی
کی رحمت ہے کہ اس نے حضرت محمد ﷺ کو ان کی طرف بھیجا ،پھر حضور ﷺ کی شان ختم نبوت
بھی اور اپ پر دین حنیف کی تکمیل بھی بندوں پر رحمت ہے اور اہللا تعالی نے اپنی کتاب میں اور
حضور ﷺ نے اپنی احادیث میں جو کہ متواتر ہیں۔
خبر دے دی ہے کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے تاکہ سب پر واضح ہوجائے کہ حضور ﷺ
کے بعد جو اس مقام کا دعوی کرے گا وہ مکار ،دجال اور جھوٹا ہے ،خود بھی گم راہ ہے اور
دوسروں کو بھی گم راہ کرنے واال ہے۔ اگر وہ جادو گروں کے کرشمے دکھائے ،جو بھی طلسم و
‘‘نیرنگیاں دکھائے ،یہ سب عقل مندوں کے نزدیک بے کار و گم راہی ہیں۔
اپ کو ختم نبوت سے سرفراز فرما کر اپ پر سلسلہ انعامات و اعزازات کی تکمیل فرما دی گئی اور
فلسفہ ختم نبوت کی ایک تمثیل کے ساتھ وضاحت نبی کریم ﷺ نے
ٔ سفر رسالت و نبوت مکمل ہوگیا۔
اپنے ارشاد میں خود ہی فرما دی۔
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ انحضرت ﷺ نے فرمایا’’ :میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی
مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا ہو اور اس میں ہر طرح کا حسن و خوب
صورتی پیدا کی ہو لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی ہو ،اب تمام لوگ اتے ہیں اور
مکان کو چاروں طرف سے گھوم پھر کر دیکھتے ہیں اور حیرت زدہ رہ جاتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے
جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی ۔۔؟ تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین
)ہوں۔‘‘ (بخاری
حضرت ثوبان سے مروی ہے رسول اہللا ﷺ نے فرمایا کہ میں خاتم النبیین (ﷺ) ہوں میرے بعد کوئی
)نبی نہیں ہوگا۔‘‘ (ترمذی ،ابوداؤد ،ابن ماجہ ،باب مایکون من الفتن
قران کریم کی ایک اور شہادت حضور نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت پر مالحظہ فرمائیے۔
اج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا ،تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے ’’
‘‘اسالم کو دین کے طور پر پسند کرلیا۔
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اہللا تعالی نے نبی مکرم ﷺ اور مومنوں کو اگاہ کیا کہ ان کے
لیے ایمان مکمل کردیا گیا ،اب تم اس کی زیادتی کے کبھی محتاج نہیں ،اہللا تعالی نے اسے مکمل
کردیا اب اس میں کمی واقع نہیں کی جائے گی ،اہللا اس پر راضی ہے اب اس پر ناراض نہیں ہوگا۔
)(تفسیر درمنثور
درج باال روایت نے وضاحت کردی کہ اب اہللا تبارک و تعالی کے نزدیک قیامت تک دین اسالم ہی
قابل عمل و قبول رہے گے ،اگر کوئی شخص دین اسالم میں کمی یا بیشی کا مرتکب ہوگا تو اس کی
کمی یا بیشی سے دین اسالم کو تو نقصان نہیں پہنچے گا ،ہاں وہ خود اپنے عمل سے مردود ہوجائے
گا۔
کیوں کہ اکملیت ِ دین اسالم کا فرمان اُس رب کریم کا ہے جو ماضی ،حال اور مستقبل کو جانتا ہے،
جس سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے ،جو عالم الغیب ہے۔ اہللا تعالی نے حضور کریم ﷺ کے سر پر
ختم نبوت کا تاج رکھ کر اپنے بندوں پر احسان فرمایا اور اپنے بندوں پر رحمت نازل فر مائی کہ اب
دین محمدی ہی قیامت تک باقی رہے گا اور یہی دین انسان کی ابدی نجات کا ضامن ہے۔ بہ فرمان
‘‘نبوی کہ اگر موس ؑی بھی اجائیں تو انہیں بھی میری پیروی کے بغیر چارہ نہیں ہوگا۔
روز محشر صرف دین اسالم قبول کیا جائے گا اور دین اسالم وہی ہے جو حضور نبی کریم ﷺ پر اہللا ِ
تعالی نے نازل کیا اور حضور ﷺ نے اپنے صحابہ کو سکھایا اور صحابہ کرام نے اپنے بعد والوں
یعنی تابعین کو سکھایا اور اس پر عمل کرکے دکھایا۔ اج بھی جو دین اسالم کو اسی طرح مانے گا وہی
اُخروی کام یابی پائے گا۔
سرور کائنات ﷺ اخری نبی ہیں۔ اپ کے بعد کسیِ یہ عقیدہ بھی صحابہ کرام نے سکھایا کہ حضور
نئے نبی نے نہیں انا۔ کوئی بھی شخص نبوت اور رسالت کا اعزاز کسی طور پر بھی خود پر چسپاں
نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ یہ اعزاز جن مقدس ہستیوں کو عطا ہونے تھے ،عطا ہوچکے اور ان مقدس و
مطہر ہستیوں میں اخری ہستی حضرت رسالت ماب ﷺ کی ہے۔ تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ نیا دین
نہیں ائے گا اور جب نیا دین نہیں ائے گا تو پھر نیا نبی بھی نہیں ائے گا۔
سوال نمبر4۔ عقیدہ آخرت کا مفہوم واضح کرتے ہوئے اس کیلئے آخرت کی منازل کا ذکر کریں؟
آخرت توحید و رسالت کے بعد اسالم کا تیسرا بنیادی اور اہم عقیدہ ہے۔ آخرت کے بارے میں تمام
رسولوں اور انبیاء کی تعلیمات ہمیشہ سے ایک ہی رہی ہیں۔ جن کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ ”:یہ دنیا ایک
امتحان گاہ ہے اور یہاں ہللا نے ہمیں آزمائش کے لیے بھیجا ہے کہ کون ایمان ال کر اچھے اعمال کرتا
ہے اور جس طرح ہللا نے ہمیں یہاں پیدا فرمایا اسی طرح وہ ہمیں ہماری موت کے بعد قیامت کے دن
دوبارہ زندگی عطا فرمائے گا اور ہمیں ہللا کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کرنا ہو گی۔ جوانبیاء
کی تعلیمات پر ایمان الیااور ان کی اطاعت کی اوراعمال صالحہ کیے وہ وہاں کامیاب ہو گا اور جس
نے نافرمانی کی وہ ناکام۔ جو کامیاب ہوا اسے نعمتوں بھری ابدی جنت ملے گی اور جو ناکام ٹھہرا وہ
جہنم میں جائے گا اور دردناک سزا بھگتے گا۔“ اصل زندگی کا گھر آخرت ہی کا گھر ہے اور دنیا اس
سفر میں ایک امتحانی گزرگاہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ اور موت خاتمے کا نہیں بلکہ ایک
مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل ہونے کا نام ہے
آخر پر ایمان النے کا مفہوم یہ ہے کہ ہم ان پانچ چیزوں پر مکمل ایمان لے آئیں اور بغیر کسی شک و
شبہ کے ان کو تسلیم
کرلیں
ایک دن ہللا تعالی تمام عالم اور اس کی مخلوقات کو مٹا دے گا۔ اس دن کا نام قیامت ہے۔ )(۱
پھر وہ سب کو ایک دوسری زندگی بخشے گا اور سب لوگ ہللا کے سا منے حاضر ہونگے۔ )(۲
تمام لوگوں نے اس دنیوی زندگی میں جو کچھ کیا ہے اس کا نامہ اعمال خدا کی عدالت میں پیش )(۳
ہوگا
ہللا تعالی ہر شخص کے اچھے اور برے عمل کا وزن فرمائے گا۔ اور اس کے مطابق بخشش یا )(۴
سزا ملے گی۔
)(۵
جن لوگوں کی بخشش ہوجائے گی وہ جنت میں جائیں گے۔ اور جن کو سزا دی جائے گی وہ دوزخ
میں جائیں گے
کسی انسان سے جب کوئی کام کرنے کا کہاجاتا ہے تو اس کے ذہن میں سب سے پہلے یہ سوال ابھرتا
ہے کہ آخر مجھے اس
یہ سواالت کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ انسانی فطرت ہر ایسے کام کو لغو اور فضول سمجھتی ہے
جس کا کوئی حاصل نہ ہو۔ کوئی شخص کوئی ایسا کام ہرگز نہیں کرتا جب تک کہ اس کا کوئی فائدہ
نہ ہو اور نہ ہی کسی ایسے کام سے پرہیز کرتا ہے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ اس کا کوئی
نقصان نہیں ہے۔
اس دنیا میں ہر طبقہ فکر اس بات پر متفق ہے کہ نیکیاں کیا ہیں یا اچھے اور معروف کام کیا ہیں اور
برے کام یا گناہ کے کام کیا ہیں۔ تاش ،ٹی وی اور فضول کاموں کو تمام لوگ متفقہ طور پر لغو اور
وقت کا زیاں سمجھتے ہیں جاہے وہ ہندو ہوں یا یہودی ،نصرانی ہوں یا مسلمان۔ اسی طرح غریبوں کی
ت
مدد کرنا ،صفائی کا خیال رکھنے اور اچھے اخالق کو لوگ نیکی تسلیم کرتے ہیں۔ یہ سب فطر ِ
انسانی ہے
ت انسانی تقاضہ کرتی ہے کہ ہم جو نیک کام کرتے ہیں یا برے کاموں سے بچتے ہیں ان کا اب یہ فطر ِ
صلہ بھی ضرور ملنا چاہئے۔ چاہے وہ جیسے بھی اور جس صورت میں ہو۔ اسی انسانی فطرت کو
مدِنظر رکھتے ہوئے دنیا کے واحد مکمل دین نے آخرت کا واضح ترین نقشہ پیش کیا اور انسانی
تقاضوں کی تسکین کے لئے جنت اور جہنم بنایا اور ان کا نظریہ پیش کیا
ایک گروہ کہتا ہے کہ انسان مرنے کے بعد فنا ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔ یہ )(۱
ان لوگوں کا نظریہ ہے جو سائنسدان ہونے کا دعوی کرتے ہیں
دوسرا گروہ کہتا ہے کہ انسان اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتنے کے لئے باربار اسی دنیا میں جنم لیتا )(۲
ہے۔ اگر اس کے اعمال برے ہیں تو دوسرے جنم میں کوئی جانور یا کوئی بدتر درجے کا انسان ہوگا۔
اگر اجھے اعمال زیادہ ہیں وہ کسی اونچے درجے پر پہنچ جائے گا۔ یہ خیال بعد خام مذاہب میں پایا
جاتا ہے
تیسرا گروہ قیامت اور حشر اور خدا کی عدالت میں پیشی اور جزا اور سزا پر ایمان رکھتا ہے۔ یہ )(۳
تمام انبیائکرام کا متفقہ عقیدہ ہے
ایک گنوار نے اگر ہوائی جہاز نہیں دیکھا ہے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ ہوائی جہاز
بکیا چیز ہے۔ لیکن اگر وہ کہے گا کہ ”میں جانتا ہوں کہ ہوائی جہاز کوئی چیز نہیں ہے۔ “ تو صاح ِ
فہم افراد اسے احمق اور بےوقوف کہیں گے۔ اس لئے کہ کسی چیز کا نہ دیکھنا یہ معنی ہرگز نہیں
رکھتا کہ وہ چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے
کچھ اسی طرح کا حال اس نظریہ کے ماننے والوں کا بھی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے مرنے
کے بعد کسی دوبارہ زندہ ہوتے نہیں دیکھا۔ ہم تو یہی دیکھتے ہیں کہ جو مرجاتا ہے وہ مٹی میں مل
جاتا ہے۔ لہذا مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔
اگر مرنے کے کسی نے نہیں دیکھا کہ کیا ہوگا تو وہ زیادہ سے زیادہ اتنا کہہ سکتا ہے کہ ”میں نہیں
جانتا کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا۔“ اس سے یہ دعوی کرنا کہ ” ہم جانتے ہیں کہ مرنے کے بعد کچھ نہ
ہوگا۔“ بالکل بے ثبوت بات ہے اوراس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے
ایک مرتبہ حضرت علی رضی ہللا تعالی عنہ کے پاس ایک شخص آیا جو آخر کے خالف تھا اور یقین
نہ رکھتا تھا۔ حضرت علی رضی ہللا تعالی عنہ نے اسے آخرت کے بارے میں بہت دالئل دئے اور
سمجھا نے کی کوشس کی لیکن وہ اپنے نظریے پر اڑا رہا اور بات نہ مانا۔ آخر کار حضرت علی
رضی ہللا تعالی عنہ نے کہا کہ چلو فرض کرو تمہاری بات درست ہوئی کہ مرنے کے بعد کوئی
زندگی نہیں ہے تو ہم جو اس عقیدے کی بنیاد پر اعمال کرتے ہیں ہم کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا
اور ہم بھی مٹی میں ہمیشہ کے لئے مل جائیں گے۔لیکن بالغرض ہمارا نظریہ درست نکال اور ہللا کے
سامنے حاضری ہوگئی تو پھر تم کیا کرو گے؟
منکر آخرت الجواب ہوگیا
ِ یہ سن کر وہ
اس کے بعد دوسرے نظریے پر غور کریں تو یہ بھی خالءمیں محسوس ہوتا ہے۔ اس عقیدے کی رو
سے ایک شخص جو اس وقت انسان ہوگیا کہ جب وہ جانور تھا تو اس نے اچھے عمل کئے تھے۔ اور
ایک جانور جو اس وقت جانور ہے وہ اس لئے جانور ہے کہ جب وہ انسان تھا تو اس نے برے عمل
کئے تھے
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے کیا چیز تھا؟ اگر کہتے ہو کہ انسان تھا تو ماننا پڑے گا کہ اس سے
پہلے درخت یا حیوان تھا ،ورنہ پوچھا جائے گا کہ انسان کس وجہ سے بنا؟ اگر کہتے ہو کہ درخت تھا
یا حیوان تھا تو ماننا پڑے گا کہ اس سے پہلے انسان تھا! غرض اس عقیدے کے ماننے والے مخلوقات
کی ابتدا کسی بھی جنم کو قرار نہیں دے سکتے۔ یہ بات صریح عقل کے خالف ہے
اب ہم تیسرے نظریے پر غور کرتے ہیں۔ اس نظریے میں بیان کی گیا ہے کہ
ایک دن قیامت آئے گی اور خدا اپنے اس کارخانے کو توڑ پھوڑ کر نئے سرے سے اعلی درجہ کا
پائیدار کارخانہ بنائے گا جس میں اچھے اور برے اعمال کا تجزیہ ہوگا اور اس کے مطابق جزاوسزا
کا فیصلہ ہوگا
اس نظریہ میں پہلی بات یہ ہے کہ ایک دن قیامت آئے گی اور یہ تمام نظام کائنات فنا ہوجائے گا۔ اس
بات کو کوئی بھی شخص عقل پر پرکھنے کے بعد جھٹال نہیں سکتا۔ کیونکہ ہم جتنا اس نظام پر غور
کریں اتنا ہی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ کائنات فانی ہے اور ایک دن ختم ہوجائے گی۔ سائنس کی رو سے
یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس کائنات میں جتنی بھی چیزیں ہیں سب محدود ہیں اور ایک دن ختم
ب علم شخصیات اس بات پر متفق ہیں اور اسے تسلیم کرچکے ہیں کہ ایک دن ہوجائیں گی۔ تمام صاح ِ
یہ سورج ٹھنڈا ہوجائے گا اور سیارے ایک دوسرے سے ٹکرا کر فنا ہوجائیں گے
دوسری بات جو بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس سے اعلی درجے کا کارخانہ بنایا جائے گا اور تمام
لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے۔
سو کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا
ہی نہیں ہے
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن نہیں ہے؟ اگر ناممکن ہے تو اب جو زندگی حاصل ہے یہ
کیسے ممکن ہوئی؟ سوچنے کی بات ہے کہ جس خدا نے انسان کو ایک مرتبہ پیدا کیا ہے وہ دوبارہ
اسے زندگی کیونکر نہیں بخش سکتا؟ اور جس نے یہ کارخانہ قدرت ایک مرتبہ تخلیق کیا ہے وہ
دوبارہ کیسے نیا کارخانہ نہیں بنا سکتا؟
تیسری بات جو بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی اس دنیوی زندگی کا اعمال نامہ ہللا تعالی کے
حضور پیش ہوگا اور اس کے مطابق جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا۔ اب لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ اعمال
نامہ کیسے بنا رہ گیا یا سب کچھ کیسے محفوظ ہوگیا۔ تو اس کا جواب خود ہی اس کے سامنے آگیا۔
جدید سائنسی تحقیق کے بعد پتہ چال کے ہمارے منہ سے جو آوازیں نکلتی ہیں وہ ایک خاص
پر نقش ہوجاتی ہے اور تاقیامت گردوپیش میں محفوظ رہتی ہیں۔ اسی طرح ہماری ہر Frequency
کی صورت میں ہوا میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ یعنی انسان جیسے جیسے ترقی کررہاہے Imagesحرکت
اسے اس بات پر پختہ یقین ہوتا جارہا ہے کہ یہ اعمال نامہ پورا کا پورا محفوظ ہے
اختتام زندگی
ِ موت کو سمجھتے ہیں کافر
دوام زندگی
شام زندگی ،صبح ِ
یہ ہے ِ
قرآن و حدیث کی روشنی میں
یہ دنیا تو بس عارضی فائدہ ہے اور جو آخرت ہے وہی پائیدار گھڑی ہے
سرور کائنات حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد ہے
ِ
خدا کی قسم دنیا آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی اس انگلی کو سمندر
میں ڈالے اور اور پھر دیکھے کہ وہ کتنا پانی لے کر لوٹا ہے
آخرت کا انکار یا اقرار انسان کی زندگی میں فیصلہ کن اثر رکھتا ہے۔ اس کے ماننے والے اور نہ
ماننے والے میں بہت بڑا فرق ہو جاتا ہے۔ ایک کے نزدیک نیکی وہ ہے جس کوئی اچھا نتیجہ اس دنیا
کی ذرا سی زندگی میں حاصل ہوجائے۔ مثال کوئی عہدہ مل جائے ،کوئی خوشی حاصل ہوجائے۔ اس
کے مقابلے میں دوسرے شخص کے نزدیک نیکی وہ ہے جس سے خدا خوش ہو اور بدی وہ ہے جس
سے خدا ناراض ہو۔ اسے اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ اگر وہ اس مختصر زندگی میں سزا سے بچ گیا
اور چند روز مزے لوٹتا رہا تب بھی آخر کار خدا کے عذاب سے نہ بچے گا۔ غرض یہ کہ عقیدہ
مان کامل
آخرت پر ای ِ
رکھنے والے شخص کو بہت سے اخروی دنیوی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ جن میں سے چند درج ذیل
ہیں
ہمیشہ کے لئے مٹ جانے کا ڈر انسان کو بزدل بنادیتا ہے۔ مگر دل میں جب یہ یقین موجود ہو کہ
دنیوی زندگی ناپائیدار ہے اور اخروی زندگی دائمی ہے تو یہ احساس انسان کو بہادر بنادیتا ہے اور وہ
ہللا کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے سے بھی نہیں کتراتا
صبروتحمل )(۲
عقیدہ آخرت پر ایمان سے انسان کے دل میں صبروتحمل پیدا ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ حق کی خاطر
جو بھی تکلیف برداشت کی جائے گی اس کا صلہ آخرت میں ضرور ملے گا۔ لہذا آخرت پر نظر
رکھتے ہوئے وہ ہر مصیبت کی گھڑی میں صبروتحمل کا مظاہرہ کرتا ہے
جو شخص آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کے تمام اعمال اس کے نامہ اعمال میں
محفوظ کرلئے جاتے ہیں اور آخرت میں اس کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ یہ احساس اسے نیکی
کی طرف مائل کرتا ہے
اگر معاشرے کے تمام لوگ عقیدہ آخرت پر پختہ یقین رکھتے ہوں تو اس سے معاشرے میں ایک
اچھی فضا قائم ہوتی ہے اور ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے
ایسے افراد پر مشتمل معاشرہ جو عقیدہ آخرت کے ماننے والے ہوں برائیوں سے پاک ہوتا ہے۔ آخرت
پر ایمان رکھنے سے لوگوں مینیہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ جو برائیاں کر رہے ہیں اس کی سزا
انہیں آخرت میں ملیں گی۔ چنانچہ وہ برائیوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے
ہیں
عقیدہ آخرت پر یقین رکھنے سے مسلمانوں میں باہمی اخوت و مساوات پیدا ہوتی ہے۔ عقیدہ آخرت ان
میں یہ احساس اجاگر کرتا ہے کہ تمام انسان ہللا کی نظر میں برابر ہیں۔ بہتر صرف وہ ہے جو زیادہ
پرہیزگار اور متقی ہے
حروف آخر
ِ
عقیدہ آخرت اسالم کا وہ بنیادی عقیدہ ہے جس پر ایمان الکر انسان دنیاوآخرت میں رضائے الہی کے
ت الہی کا
مطابق زندگی بسر کرسکتا ہے اور ایک ایسا کردار تشکیل کرتا ہے جس سے اسے قرب ِ
روز
حصول ہو۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس عقیدہ کو بنیاد بنا کر اپنی زندگی کا ہر فعل تشکیل دیں تاکہ ِ
آخرت جنت کے مستحق ٹہریں۔ ہللا تعالی کبھی وعدہ خالفی نہیں فرماتا اور ہللا کا وعدہ ہے کہ
بے شک نیک لوگ بہشت میں ہوں گے اور بے شک گناہ گار دوزخ میں
فاروق اعظم
رضی ہللا تعالی عنہ کے یہ الفاظ بار بار پڑهنے کے الئق ہیں ،جن سے عقیدہ آخرت پر مکمل ایمان
نظر آتا ہے۔ اور جس کی بنیاد پر آپ صلی ہللا علیہ وسلم مسلمانوں کے عظیم خلیفہ بنے۔ ہمیں چاہئے
کہ ہم بھی اپنے اندر آخرت کے لئے یہی کیفیت پیدا کریں تاکہ رضائے الہی ہمارا مقدر بنے اور ہم
آخرت میں سرخرو ہوسکیں۔
فرشتوں کے وجود پر دل سے یقین رکھنا اور یہ کہ وہ ،بر خالف انسانوں اور جنوں کے ،عالم غیبی
سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ معزز پرہیزگار بندے ہیں ،ہللا کی عبودیت بجا التے ہیں ،جیسا کہ اس کا
حق بنتا ہے ،ہللا کے احکام کو نافذ کرتے ہیں اورکبھی نافرمانی نہیں کرتے۔
جیسا کہ ہللا تعالی نے فرمایا:۔(( بلکہ وہ سب اس کے باعزت بندے ہیں۔ کسی بات میں ہللا پر پیش دستی
)نہیں کرتے بلکہ اس کے فرمان پر عمل پیرا ہیں)۔ (اال نبیاء 27-26 :
ان پر ایمان النا ایمان کے چھ ( )6ارکان میں سے ایک ہے ،ہللا تعالی نے فرمایا :۔((رسول ایمان الئے
اس چیز پر جواس کی طرف ہللا تعالی کی جانب سے اتری اور مومن بھی ایمان الئے ،یہ سب ایمان
الئے ہللا تعالی پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر))۔ (البقرۃ
)285:
آپ ﷺ نے ایمان کے بارے میں فرمایا ((:تم ہللا پرایمان الؤ ،اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں
اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر ،اور ایمان الؤ تقدیر کے اچھے اور برے پر))۔ (مسلم :
)8
ان کے وجود پر ایمان رکھنا :ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ وہ ہللا تعالی کی مخلوق ہیں ،ان کا وجود
حقیقت پر مبنی ہے ،انھیں نور سے پیدا فرمایا اور ان کی فطرت میں ڈال دیا کہ وہ اس کی عبادت اور
اطاعت کریں۔
1. جن کے ناموں کا ہمیں علم ہے جیسے جبریل علیہ السالم ،ان پر ایمان رکھنا اور جن کے
ناموں کا ہمیں علم نہیں ہے ان پر مجمل طور پر ایمان رکھنا۔
• وہ عالم غیبی سے تعلق رکھتے ہیں،ہللا کی عبادت کرنے والی مخلوق ہیں ،ہللا تعالی کے بندے
ہیں ،وہ ربوبیت ،والوهیت کی کسی چیز کے مالک نہیں ،وہ تو ہللا کی اطاعت کے مکمل طور پر تابع
ہیں جیسا کہ ہللا سبحانہ نے فرمایا:۔((انہیں جو حکم ہللا تعالی دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ
)جو حکم دیا جائے بجا التے ہیں))۔ (التحریم 6:
• انھیں نور سے پیدا کیا گیا،آپ ﷺ نے فرمایا ((:فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا)) (مسلم :
)2996
• ان کے پر ہیں ،ہللا تعالی نے یہ بات بتائى کہ فرشتوں کے لیے بازو بنائے ،یہ اپنی تعداد کے
لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ہللا سبحا نہ نے فرمایا :۔((اس ہللا کے لیے تمام تعریفیں
الئق وزیبا ہیں جو (ابتداء) آسمانوں اورزمین کا پیدا کرنے واال اور دو دو تین تین چار چار پروں والے
فرشتوں کو اپنا پیغمبر(قاصد) بنانے واال ہے ،مخلوق میں جو چاہے زیادتی کرتا ہے ،ہللا تعالی یقینا ہر
)چیز پر قادر ہے))۔ (فاطر1 :
1. ہللا تعالی کی طرف سے جو کام انھیں سونپے گئے ہیں جن کو ہم جانتے ہیں اس پر ایمان رکھنا
:
• پیغمبروں تک ہللا تعالی کے پیغام پہنچانے کا کام جن کے ذمہ ہے وہ جبریل علیہ السالم ہیں۔
• جان نکالنے کا کام جن کے ذمہ ہے وہ موت کا فرشتہ اور ان کے مدد گار فرشتے ہیں۔
• بند وں کے اعمال چاہے وہ خیر ہوں یا شر ہوں ان کو لکھنے اور محفوظ کر نے کا کام -کراما
کاتبین( -لکھنے والے پاک باز فرشتے) کے ذمہ ہے۔
بندہ مومن کی زندگی میں فرشتوں پر ایمان النے کے بڑے ہی عظیم فوائد ہیں جن میں سے ہم چند کا
:تذکرہ کررہے ہیں
ہللا کی عظمت وقوت اور کمال قدرت کا اندازہ ہوتا ہے کیو نکہ مخلوق کی عظمت سے خالق
کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں مؤ من کے نز دیک ہللا کی قدر اوراس کی عظمت
میں اضافہ ہوتا ہے،اس حیثیت سے کہ ہللا تعالی نے بازوؤں والے .فرشتوں کو نور سےپیدا فرمایا
.1ہے۔
ہللا تعالی کی فرمانبرداری میں استقامت آتی ہے کیونکہ کوئیبھی آدمی جب یہ ایمان رکھتا ہے
کہ فرشتے اس کے سارے اعمال کو لکھتے ہیں تو یہ بات اس آدمی کے اندر ہللا تعالی کے ڈر کا سبب
.2بنتی ہے چنانچہ وہ کھلے اور چھپے اس کی نافرمانی سے بچتا ہے۔
بندہ مومن ہللا کی فر مانبرداری میں صبر سے کام لیتا ہے اور اسے انسیت واطمینان کا احساس ہوتا .
ہے جب وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ اس بڑی کائنات میں اس کے ساتھ ہزاروں فرشتے ہیں جو ہللا تعالی
.3کی فرمانبرداری احسن واکمل طریقے سے انجام دیتے ہیں۔
انسانوں پر ہللا تعالی کی عنایت کی بدولت اس کا شکر بجا النا ،جب کہ فرشتوں میں بعض کو انسانوں کی حفاظت کا کام سونپا
.4ہے۔