You are on page 1of 25

‫کورس ‪ :‬اسالمک اسٹڈیز ‪3-‬‬

‫کوڈ‪6475:‬‬ ‫سمسٹرخزاں ‪2022:‬‬

‫مشق نمبر‪1:‬‬

‫سوال نمبر‪1‬۔ دین اسالم کی اہمیت پر نوٹ لکھیں؟‬

‫دین اسالم پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول ہللا ﷺ پر جو کچھ بطور دین نازل ہوا ہے ننہ صرف اس‬
‫کی تصدیق کی جائے بلکہ (دل سے)اسے قبول کرنا اور اس کی پیروی کرنا بھی ضروری ہے۔‬

‫چنانچہ رسول ہللا ﷺ جو دین لے کر آئے تھے اس کی تصدیق ‪،‬اور اس بات کی گواہی کہ یہ دین تمام‬
‫دینوں سے بہتر ہے‪،‬ایمان کا الزمی جزہے۔یہی وجہ ہے کہ ابو طالب رسول ہللا ﷺ پر ایمان النے‬
‫والوں میں شامل نہیں ہو سکے۔‬

‫دین اسالم ان تمام مصلحتوں کا ضامن ہے جن کی ضمانت سابقہ ادیان میں موجود تھی۔اس دین کی‬
‫امتیازی خصوصیات یہ ہے کہ یہ ہر زمانہ ‪،‬ہر جگہ ہر امت کے لیے درست اور قابل عمل ہے۔ہللا‬
‫‪:‬تعالی اپنے رسول (ﷺ)کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے‬

‫علَ ْی ِه‬ ‫ص ِد ًۭقا ِل َما َبیْنَ َی َد ْی ِه ِمنَ ٱ ْل ِكتَ ِ‬


‫ب َو ُم َھی ِْمنا َ‬ ‫ب ِبٱ ْل َح ِ‬
‫ق ُم َ‬ ‫َوأَنزَ ْلنَآ ِإ َلیْكَ ٱ ْل ِكتَ َ‬
‫ترجمہ‪":‬اور ہم نے آپ کی طرف ایک ایسی کتاب بازل کی ہے جو خود بھی سچائی کے ساتھ موصوف‬
‫ہے‪،‬اور اس سے پہلے جو (آسمانی)کتابیں ہیں ان کی بھی تصدیق کرتی ہے اور ان کی محافظ‬
‫)ہے۔"(سورۃ المائدہ آیت ‪48‬‬

‫ہر دور‪،‬ہر جگہ اور ہر امت کے لیے دین اسالم کے درست اور قابل عمل ہونے سے مراد یہ ہے کہ‬
‫اس دین کے ساتھ مضبوط تعلق کسی بھی زمانہ ‪،‬مقام اور قوم کی مصلحتوں کے ہر گز منافی نہیں ہو‬
‫سکتا بلکہ یہ تو ان کے عین مطابق ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دین ہر دور ‪،‬ہر جگہ اور ہر قوم‬
‫کا تابع ہے‪،‬جیسا کہ بعض کج فہم لوگ سمجھتے ہیں۔‬

‫دین اسالم بالکل سچا اور برحق دین ہے ‪،‬جو اس کے دامن کو مضبوطی سے تھام لے ‪،‬ہللا تعالی نے‬
‫‪:‬اس کی مدد فرمانے اور اسے غالب کرنے کی ضمانت دی ہے‪،‬ہللا تعالی کا ارشاد ہے‬

‫ین ُك ِل ِهۦ َولَ ْو ك َِر َہ ٱ ْل ُم ْش ِر ُكونَ ﴿‪﴾9‬‬


‫علَى ٱل ِد ِ‬ ‫ق ِلی ْ‬
‫ُظ ِھ َرہُۥ َ‬ ‫ِین ٱ ْل َح ِ‬
‫سولَهُۥ ِبٱ ْل ُھ َدى َود ِ‬ ‫ه َُو ٱلَّذِى أَ ْر َ‬
‫س َل َر ُ‬
‫ترجمہ‪":‬ہللا وہی ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے تمام‬
‫)دینوں پر غالب کر دے‪،‬خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔"(سورہ الصف‪،‬آیت ‪9‬‬

‫ف ٱلَّذِینَ ِمن قَ ْب ِل ِھ ْم َولَیُ َم ِكن ََّن‬ ‫ت لَیَ ْست َْخ ِلفَنَّ ُھ ْم فِى ٱ ْْل َ ْر ِ‬
‫ض َك َما ٱ ْست َْخلَ َ‬ ‫ص ِل َح ِ‬‫وا ٱل َّ‬ ‫ع ِملُ ۟‬ ‫ع َد ٱ ََّللُ ٱلَّذِینَ َءا َمنُ ۟‬
‫وا ِمن ُك ْم َو َ‬ ‫َو َ‬
‫شیْا ۚ َو َمن َكف ََر َب ْع َد َذ ِلكَ‬ ‫ضى لَ ُھ ْم َولَیُ َب ِدلَنَّ ُھم ِم ۢن َب ْع ِد خ َْو ِف ِھ ْم أَ ْم ًۭنا ۚ َی ْعبُدُونَ ِنى َال یُ ْش ِر ُكونَ ِبى َ‬
‫لَ ُھ ْم دِینَ ُھ ُم ٱلَّذِى ٱ ْرتَ َ‬
‫فَأ ُ ۟ولَئِكَ ُه ُم ٱ ْلفَ ِسقُونَ ﴿‪﴾55‬‬

‫ترجمہ‪:‬تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان الئے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں‪،‬ہللا تعالی وعدہ‬
‫فرما چکے ہیں کہ ان کو زمین میں خالفت عطا فرمائے جس طرح ان سے پہلے (اہل ہدایت)لوگوں کو‬
‫خالفت عطا کی تھی اور جس دین کو (ہللا تعالی نے)ان کے لیے پسند فرمایا ہے اس دین کو ان کے‬
‫لیے جما دے گا‪،‬اور ان کے خوف و خطر کو امن و امان میں بدل دے گا۔پس وہ میری عبادت‬
‫کریں‪،‬میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کے بعد بھی جو کفر کریں وہ یقینا فاسق‬
‫)ہیں۔"(سورۃ النور‪،‬آیت ‪55‬‬

‫سوال نمبر‪ 2‬۔ الہ کا مفہوم واضح کرتے ہوئے اسماء الحسنی پر نوٹ لکھیں؟‬

‫الہ کا مفہوم‬

‫معبود اُسے کہتے ہیں جو کسی کا محتاج نہ ہو۔ اُسے کسی کی احتیاج نہ ہو‪ ،‬سب سے بے نیاز و غنی‬
‫و بے پراہ ہو۔ جس کیلئے بھی غنائے ذاتی کو تسلیم کیا گیا گویا اُسے معبود مان لیاگیا۔ اب ایسا کسی‬
‫کو مان کر پھر اُس کیلئے عاجزی اختیار کرتے ہوئے کیا جانے واالہر فعل عبادت ہے۔ اِس عجز کے‬
‫ساتھ خواہ ندا کی جائے ‪ ،‬قیام کیا جائے یا سجدہ ‪،‬طواف کیا جائے یا قربانی ‪ ،‬اُس کے کسی بھی حکم‬
‫پر عمل پیرا ہواجائے ہر بات عبادت کہالئے گی۔ یہی الاِلہ االہللا کا مفہوم ہے کہ ہللا کے سوا ایسا کوئی‬
‫نہیں جو سب سے بے نیاز ہو‪ ،‬اِسی بے نیازی کی وجہ سے وہی الہ ہونے کا مستحق ہے اُس کے سوا‬
‫کوئی الہ نہیں ایک اُسی کی ذات ہے جو سب سے بے نیاز ہے‪ ،‬اُسے کسی کی حاجت نہیں ‪ ،‬نہ اپنا‬
‫وجود قائم رکھنے میں نہ کسی کو وجود بخشنے میں۔ سب کی مشکلیں حل کرنے واالوہی واح ِد حقیقی‬
‫ہے۔ اُس سے بے نیاز ہوکر کوئی نبی ہو یا ولی‪ ،‬پیر ہو یا امام مدد کرنا تو درکنار اپنا وجود بھی قائم‬
‫نہیں رکھ سکتے۔‬

‫اسماء الحسنی‬

‫توحید ِ اسماء و صفات ہللا تعالی کی توحید کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔ یعنی ہللا تعالی کی ذات اور‬
‫اس کی ربوبیت و الوہیت پر ایمان النے کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی ایمان النا کہ ہللا رب العزت‬
‫اپنے تمام ناموں اور صفات میں کامل و اکمل ہے‪ ،‬اس کا ہر نام اور ہر صفت ہر قسم کے نقائص اور‬
‫عیوب سے پاک ہے۔ پوری کائنات میں اس کے نام اور صفات میں کوئی اس کا ہم مثل ہے اور نہ‬
‫شریک۔‬

‫ہللا ذوالجال ِل واالکرام کے تمام اسماء بہترین ہیں‪،‬لہذا ان میں کسی بھی قسم کی تاویل‪ ،‬تعطیل یا تشبیہ یا‬
‫انکار کا عقیدہ رکھنا صریحا الحاد ہے۔ ہللا رب العزت کے کسی بھی نام کو اس سے دعاء میں وسیلہ‬
‫رمان مبارک ہے‬
‫ِ‬ ‫‪:‬بنایا جاسکتا ہے اور یہی سب سے بہترین وسیلہ ہے۔ ہللا تعالی کا ف‬

‫عوہُ ِب َھا َو َذ ُروا الَّذِینَ ی ُْل ِحدُونَ فِي أَ ْس َمائِ ِه ۚ َ‬


‫سیُجْ زَ ْونَ َما كَانُوا َی ْع َملُونَ‬ ‫َو ِللّٰـ ِه ْاْل َ ْس َما ُء ْال ُح ْسنَى فَا ْد ُ‬
‫االعراف – ‪180‬‬

‫اور ہللا تعالی کے لئے اچھے نام ہیں‪ ،‬لہذا انہی کے ساتھ اسے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو ’’‬
‫اس کے ناموں کے بارے میں کج روی کا شکار ہیں‪ ،‬جو کچھ وہ کرتے ہیں اس کا انہیں عنقریب بدلہ‬
‫)دیا جائے گا۔‘‘(مزید حوالہ جات‪ :‬طہ‪:‬آیت‪/8‬بنی اسرائیل‪:‬آیت‪/110‬الحشر‪:‬آیت‪24‬‬

‫رسو ِل اکرم ﷺنے فرمایا‪’’ :‬بے شک ہللا تعالی کے ننانوے نام ہیں جس نے ان ناموں کو یاد کیا وہ جنت‬
‫)میں داخل ہوگا۔‘‘ (صحیح بخاری‪ :‬کتاب التوحید‪ ،‬باب ان ہللا مائۃ اسم اال واحد‪/‬صحیح مسلم‬

‫ہللا تعالی کے صرف ننانوے نام ہی نہیں ہیں‪ ،‬بلکہ یہ تو صرف وہ نام ہیں جن کے بارے میں ہللا‬
‫عزوجل نے ہمیں اپنی وحی کے ذریعے خبر دی ہے‪ ،‬حقیقت میں ہللا تعالی کے بے شمار اور التعداد‬
‫نام ہیں جنہیں اس کے سوا پوری کائنات میں اور کوئی نہیں جانتا۔‬

‫‪:‬خاتم االنبیاء محمد رسول ہللا ﷺہللا تعالی سے ان کلمات کے ذریعے دعا کیا کرتے تھے‬

‫علَّ ْمتَهُ أَ َحدا ِم ْن خ َْلقِكَ ‪ ،‬أَ ْو أَ ْنزَ ْلتَهُ ِفي ِكتَا ِبكَ ‪ ،‬أَ ْو ا ْستَأْثَ ْرتَ ِب ِه ِفي‬
‫سكَ ‪ ،‬أَ ْو َ‬ ‫أَ ْسأَلُكَ ِب ُك ِل اس ٍْم ه َُو لَكَ َ‬
‫س َّمیْتَ ِب ِه نَ ْف َ‬
‫ب‬‫ِع ْل ِم ْالغَ ْی ِ‬

‫اے ہللا! میں تیرے ہر اس نام کے واسطے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں‪ ،‬جو تو نے اپنی ذات کے ’’‬
‫لئے پسند فرمایا‪ ،‬یا اپنی کتاب میں نازل فرمایا‪ ،‬یا اپنی مخلوقات میں کسی کو سکھادیا یا اسے اپنے‬
‫)خزانۂ غیب میں مخفی رکھا۔‘‘ (مسن ِد احمد‪ :‬مسند المکثرین من الصحابۃ‪ ،‬مسند عبدہللا بن مسعود‬

‫‪:‬نبی اکرم ﷺنے ایک آدمی کو سنا وہ ان الفاظ کے ساتھ دعاء کررہا تھا‬

‫اے ہللا! بے شک میں تجھ سے سوال کررہا ہوں؛ اس لئے کہ توہی ہللا ہے تیرے سوا کوئی معبود ’’‬
‫نہیں ہے‪ ،‬تو ایسا اکیال بے نیاز ہے کہ تیرا کوئی باپ نہیں اور نہ کوئی اوالد ہے اور نہ ہی کوئی‬
‫تیرے ہم مثل ہے۔رسو ِل معظم صلی ہللا علیہ و سلم نے فرمایا‪ :‬قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں‬
‫میری جان ہے اس نے ہللا سے ایسے اسم اعظم کے ذریعے سوال کیا ہے کہ جب اس کے واسطے‬
‫سے ہللا سے سوال کیا جائے تو وہ ضرور عطا کرے اور دعاء کی جائے تو وہ ضرور قبول‬
‫)ہو۔(ترمذی‪:‬کتاب الدعوات‪ ،‬باب جامع الدعوات عن النبی ﷺ‬

‫ہللا تعالی ہمیں ان ناموں کو یاد کرنے ‪،‬سمجھنے اور ان پر ایمان النے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔‬

‫اسماء الحسنی‬

‫“ کلمہ جاللہ ” ہللا‬

‫معبودبرحق ہے‪ ،‬تمام مخلوق اسکی الوہیت اور عبودیت میں شامل ہے ‪،‬کیونکہ وہ ان تمام معبودانہ‬
‫ت کمال ہیں۔یہ ہللا تعالی کا خاص ذاتی نام ہے جو اسمائے حسنی میں سب‬
‫صفات کا حامل ہے‪،‬جو صفا ِ‬
‫سے زیادہ شان واال ہے‪ ،‬اس لئے اسے اسم اعظم بھی کہتے ہیں۔‬

‫یَ َ ّٰ‬
‫اللَاُ کہہ کر دعا مانگا کیجئے۔‬

‫الرحْ منُ‬
‫َّ‬
‫بہت زیادہ رحم کرنے واال‪ ،‬دنیا میں اس کی رحمت مومنین اور کفار سب کے لئے ہے لیکن آخرت میں‬
‫یہ رحمت ہللا تعالی کے فرمانبردار بندوں کے لئے ‪،‬خاص ہوگی۔‬

‫الر ِح ْی ُم‬
‫َّ‬
‫نہایت مہربان‪ ،‬جو ہر عمل کرنے والے کو اس کا بے حساب اجر عطا کرنے واالہے۔‬

‫ْال َم ِلكُ‬

‫حقیقی بادشاہ‪،‬جو اپنے ہر حکم کو نافذ کرنے کی مکمل طاقت رکھتا ہے‪،‬جسکی بادشاہی کو کبھی زوال‬
‫نہیں۔‬

‫ْالقُد ُّْو ُ‬
‫س‬

‫پاکیزگی واال‪،‬جو ہرعیب اورنقص سے پاک ہے۔ایسی پاکی جو انسانی تصور سے باال ترہے۔‬

‫الس ََّال ُم‬

‫سالمتی کا سرچشمہ‪،‬جو ہر چیز کو سالمت رکھنے واال‪ ،‬نیک بندوں کی حفاظت اور انہیں سیدهی راہ‬
‫پر چالتاہے۔‬
‫ْال ُمؤْ ِمنُ‬

‫امن دینے واال‪،‬اسکی ذات میں امن ہی امن ہے اس لئے اسی سے امن طلب کیا جاتا ہے۔‬
‫ْال ُم َھ ْی ِمنُ‬
‫نگہبان اور محافظ‪،‬جو اپنی پوری مخلوق کی حفاظت اور نگہبانی کرنے واال ہے ۔‬

‫ْالعَز ْی ُز‬

‫سب پر غالب‪،‬وہ عزت وغلبہ کا سرچشمہ ہے۔وہ جسے چاہتاہے غلبہ عطا فرماتا ہے۔‬

‫ْال َجب ُ‬
‫َّار‬

‫بگڑے کاموں کو بنانے واال‪ ،‬طاقتور‪،‬جس کے سامنے کوئی بولنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔‬

‫ْال ُمتَك َِب ُر‬

‫کبریائی واال‪،‬وہ اتنا عظیم ہے کہ اس کی طرف کسی برائی ‪،‬نقص یا عیب کی نسبت نہیں ہو سکتی۔‬

‫ْالخَا ِل ُق‬

‫ہر چیز کو پیدا کرنے واال‪ ،‬جوپیدا کرنے سے پہلے ہر چیز کی تقدیر لکھنے واالہے۔‬

‫ئ‬ ‫ْالبَ ِ‬
‫ار ُ‬

‫عدم سے وجود میں النے واالجو وجود میں الکر اس کے معاش کی تدبیر کرنے واال ہے۔‬

‫ْال ُم َ‬
‫ص ِو ُر‬

‫صورتیں بنانے واال‪ ،‬جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا اور اپنی حکمت کے ساتھ خوبصورت بنایا۔‬

‫ْالغَفَّ ُ‬
‫ار‬

‫بے انتہابخشنے واال‪ ،‬ڈهانپنے واال‪ ،‬جو دنیا میں گناہوں اور برائیوں پر پردہ ڈال کر آخرت میں عذاب‬
‫دینے کی بجائے در گذر کرتے ہوئے معاف کرنے واال بھی ہے۔‬

‫ْالقَ َّھ ُ‬
‫ار‬

‫ہر چیز پر غالب‪ ،‬جس کے سامنے تمام مخلوقات عاجزہیں۔جو ہر چیز پر اختیار رکھتا ہے۔‬

‫ْال َو َّه ُ‬
‫اب‬

‫بہت زیادہ عطا کرنے واال‪ ،‬وہ بغیر کسی غرض کے اور بغیر مانگے عطا کرنے واال ہے۔‬
‫الر َّز ُ‬
‫اق‬ ‫َّ‬
‫ب رزق مہیا کرنے اور روزی پہنچانے واال ہے۔‬
‫روزی دینے واال‪،‬جو ہر جاندار کے لئے اسبا ِ‬
‫ْالفَتَّا ُح‬
‫مشکالت حل‪ ،‬اپنی رحمت کا دروازہ کھولنے اور حق اور باطل کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرنے‬
‫واال ہے۔‬

‫ْالعَ ِل ْی ُم‬

‫بہت زیادہ علم رکھنے واال‪ ،‬ہر اول اور آخر کو جانتا ہے جوہر چیز کو ہر وقت جاننے واال ہے۔‬

‫ْالقَابِ ُ‬
‫ض‬

‫روزی تنگ کرنے واال‪ ،‬جو ہر چیز پر قابض ہے۔ موت کے وقت روحوں کو قبض کرنے واال ہے۔‬
‫ْالبَا ِس ُ‬
‫ط‬

‫روزی کشادہ کرنے واال‪ ،‬فراخی دینے واال‪ ،‬جو رزق کو وسیع کرتا ہے اور دلوں کوکشادہ کرتا ہے۔‬

‫ْالخَا ِف ُ‬
‫ض‬

‫پست کرنے واال ‪ ،‬جو اپنے دشمنوں کو نیچا دکھاتے ہوئے ذلیل وخوار کردیتا ہے۔‬

‫الرافِ ُع‬
‫َّ‬
‫بلند کرنے واال‪ ،‬اٹھانے واال۔ جو اہ ِل ایمان کوایمان النے کی و جہ سے بلند کرتا ہے۔‬

‫ْال ُم ِع ُّز‬

‫عزت دینے واال‪ ،‬وہ اپنے نیک بندوں کو علم و فضل کے ذریعہ عزت عطا فرماتا ہے۔‬

‫ْال ُم ِذ ُّل‬

‫ذلیل و خوار کرنے واال‪ ،‬سرکشی اور تکبر کرنے والوں کو ذلیل و خوار کردیتاہے۔‬

‫الس َِّم ْی ُع‬

‫بہت زیادہ سننے واال‪ ،‬جوچھوٹی سے چھوٹی مخلوق کی فریاد کو بھی سنتا اورقبول فرماتا ہے۔‬

‫ْالبَ ِ‬
‫ص ْی ُر‬

‫ہر چیزکو خوب دیکھنے واال‪،‬جس کی نظروں سے ذرہ سے بھی چھوٹی کوئی چیز اوجھل نہیں۔‬

‫ْال َح َک ُم‬

‫حاکم‪ ،‬انصاف سے فیصلہ کرنے واال‪ ،‬اس کے حکم کو کوئی ٹال نہینسکتا اور نہ اس میں تبدیلی‬
‫کرسکتا ہے۔‬
‫ْالعَ ْد ُل‬

‫انصاف کرنے واال‪ ،‬جو اپنے بندوں کے درمیان تمام معامالت میں انصاف کرنے واال ہے۔‬

‫اللَّ ِط ْی ُ‬
‫ف‬

‫باریک بین‪ ،‬اپنی مخلوق کوباریک بینی سے پیدا کرنے اور زیادہ نرمی سے پیش آنے واال ہے۔‬

‫ْالخَب ْی ُر‬

‫ہر چیز سے آگاہ‪ ،‬کوئی بھی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے اور وہ ہر وقت ہر چیز سے باخبر رہتا ہے۔‬

‫ْال َح ِل ْی ُم‬

‫بردبار‪ ،‬تحمل(برداشت) واال‪ ،‬وہ لوگوں کی سرکشی کو دیکھنے کے باوجودانہیں اپنی نعمتیں عطا‬
‫فرماتا رہتاہے‬

‫ْال َع ِظ ْی ُم‬

‫سب سے بڑا‪،‬وہ اپنی ہر صفت مینبلند شان اورعظمت واال ہے۔‬

‫ْالغَفُ ْو ُر‬

‫بار بار بخشنے واال‪،‬جو بار بار گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کو بھی بخش دیتا ہے۔‬
‫ش ُ‬
‫ک ْو ُر‬ ‫ال َّ‬

‫قدردان‪،‬بہت زیادہ اجر دینے واال‪،‬جو معمولی عمل کی قدر کرتے ہوئے اسے بھی شرف قبولیت بخشتا‬
‫ہے۔‬

‫ْالعَ ِل ُّ‬
‫ی‬

‫بہت ہی زیادہ بلندمرتبہ واال‪ ،‬جس کی بلندی کی کوئی انتہا نہیں اور نہ ہی کسی کو اس کی بلندی کا‬
‫علمہے۔‬

‫ْالکَب ْی ُر‬

‫بہت ہی بڑا ‪ ،‬جس کی شان و شوکت کے سامنے بڑے سے بڑا بھی حقیر ہے۔‬
‫ْال َح ِف ْی ُ‬
‫ظ‬

‫سب کیحفاظت کرنے واال‪ ،‬جو ہر وقت اپنی مخلوق کی حفاظت کرتا ہے اور وہ اس کی حفاظت میں نہ‬
‫تھکتا ہے اور نہ ہی اکتاتا ہے ‪ ،‬تمام کائنات کا محافظ ہے۔‬
‫ْال ُم ِق ْیتُ‬

‫روزی اور توانائی دینے واال‪،‬جوپوری مخلوق کو اس کی غذا پہنچاتا ہے اور انہیں با آسانی رزق مہیا‬
‫کرتاہے۔‬

‫ْال َح ِس ْی ُ‬
‫ب‬

‫حساب لینے‪ ،‬کافی ہوجانے واال‪ ،‬جو اپنے بندوں سے حساب لینے اور ہر پریشانی سے کافی ہوجاتا‬
‫ہے۔‬

‫ْال َج ِل ْی ُل‬

‫بلند مرتبہ واال‪ ،‬افضل ترین صفات واال‪ ،‬جس کی ذات و صفات میں کوئی اسکے مقابل نہیں ہے۔‬

‫ْالکَر ْی ُم‬

‫عطا کرنے واال‪ ،‬بڑا سخی‪ ،‬جو قدرت کے باوجود معاف کرنے اور امید سے بڑه کر عطا کرنے واال‬
‫ہے۔‬

‫ب‬
‫الرقِ ْی ُ‬
‫َّ‬
‫بڑانگہبان‪ ،‬پاسبان‪ ،‬محافظ ‪،‬جو ہر نفس کا پاسبان اور محافظ اور نگہبان ہے۔‬

‫ْال ُم ِج ْی ُ‬
‫ب‬

‫بے قراروں کی دعا قبول کرنے واال‪ ،‬حاجت روا‪،‬جوسائل کی دعا قبول ‪ ،‬اس کی مدد اور پکارنے‬
‫والوں کی ہرپکار کا جواب دینے واال ہے۔‬

‫ْال َوا ِس ُع‬

‫کشادگی دینے واال‪ ،‬علم و حکمت میں وسیع‪،‬جس کی سلطنت‪،‬علم‪،‬سخاوت اور فضل وکرم بڑا وسیع‬
‫ہے۔‬

‫ْال َح ِک ْی ُم‬

‫حکمت و دانائی واال‪،‬جو ہر چیز کو بہتر انداز میں سمجھنے واال ہے‪،‬اسکا ہر کام حکمت پر مبنی ہے۔‬

‫الود ُْو ُد‬


‫َ‬
‫بہت زیادہ محبت کرنے واال‪،‬جو اپنے انبیا سے محبت رکھنے والوں سے بھی محبت رکھتا ہے۔‬

‫ْال َمج ْی ُد‬


‫بڑی شان واال‪،‬جس کی صفات بہت بلند‪،‬تمام کام بہت ہی عمدہ اور ذات بے مثال ہے۔‬
‫ْالبَا ِع ُ‬
‫ث‬

‫کوبھیجنے واالہے۔‪ُ o‬مردوں کو زندہ کرکے قبروں سے اٹھانے واال‪ ،‬مخلوق کی ہدایت کے لئے انبیا‬

‫ال َّ‬
‫ش ِھ ْی ُد‬

‫حاضروناظر‪،‬جو ہر چیزسے باخبر اور ہر ایک کے اعمال کو جانتا ہے اور ان پر گواہ بھی ہے۔‬

‫ْال َح ُّق‬

‫وہ اپنی ذات و صفات میں سچا ہے‪،‬وہی عبادت کا حقدار ہے‪ ،‬اس کا کوئی شریک نہیں۔‬

‫ْال َو ِک ْی ُل‬

‫بڑا کارساز‪ ،‬مختار‪ ،‬پوری مخلوق اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے اور مکمل با اختیار ہے۔‬

‫ْالقَ ِو ُّ‬
‫ی‬

‫بڑی طاقت واال‪ ،‬جسے پوری کائنات مل کر بھی عاجز نہیں کرسکتی۔‬
‫ْال َمتِ ْینُ‬

‫انتہائی مضبوط و مستحکم‪،‬وہ بڑی زبردست قوتوں واال ہے‪ ،‬اس کی قوت اور قدرت کی کوئی انتہا‬
‫نہیں‬

‫ْال َو ِل ُّ‬
‫ی‬

‫مددگار ‪ ،‬حمایتی‪ ،‬اپنے فرمانبردار بندوں کا دوست ہے اور دشمنوں کا صفایا کرنے واال ہے۔‬

‫ْال َح ِم ْی ُد‬

‫تعریف و توصیف کے الئق‪ ،‬جس کی حمد و ثنا ہر زبان پر ہر حال میں جاری و ساری ہے۔‬

‫ْال ُمحْ ِ‬
‫صی‬

‫اپنے علم اور شمار میں رکھنے واال اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں اس کا علم ہر چیز کو گھیرا‬
‫ہوا ہے۔‬

‫ئ‬
‫ال ُم ْب ِد ُ‬

‫پہلی بار پیدا کرنے واال‪ ،‬جو بغیر کسی نمونہ کے مخلوق کو عدم سے وجود میں النے واال ہے۔‬
‫ْال ُم ِع ْی ُد‬

‫دوبارہ پیدا کرنے واال‪ ،‬جو موت کے بعد دوبارہ زندگی عطا کرنے اور حساب لینے واال ہے۔‬

‫ْال ُمحْ یی‬

‫زندگی اور صحت عطا کرنے واال‪ُ ،‬مردہ دلوں کو زندہ کرنے اور ُمردہ زمین کو آباد کرنے واال ہے۔‬

‫ْال ُم ِم ْیتُ‬

‫موت دینے واال‪ ،‬جو ایک مقررہ وقت کے بعد ہر ایک کو موت دینے واال ہے‪ ،‬جس نے موت کو پیدا‬
‫کیا۔‬

‫ْال َح ُّ‬
‫ی‬

‫ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہنے واال‪ ،‬جسے کبھی فنا اور زوال نہیں جب کہ اسکے عالوہ ہر چیز فنا ہو جائے‬
‫گی۔‬

‫ْالقَیُّ ْو ُم‬

‫کائنات کو قائم رکھنے اور سنبھالنے واال‪ ،‬جو پوری کائنات کا محافظ اور نگران ہے۔‬

‫الواج ُد‬
‫َ‬
‫ہر چیز کو پانے واال‪ ،‬جسے ہر چیز کے بارے میں معلومات ہیں اور ہر چیز اس کے سامنے بالکل‬
‫واضح ہے۔‬

‫ْال َماج ُد‬

‫بزرگی اور بڑائی واال‪ ،‬بڑے شرف واال‪ ،‬وہ عزت اور شرف کا مالک اور معزز ہے۔‬

‫الواح ُد‬
‫َ‬
‫بے مثال ‪،‬اکیال‪،‬جو اپنی ذات و صفات میں یکتاہے جس کا ذات‪ ،‬صفات‪ ،‬عبادات میں کوئی شریک نہیں۔‬

‫ص َم ُد‬
‫ال َّ‬
‫بے نیاز‪ ،‬جو کسی کا محتاج نہیں‪،‬جو کائنات کی ہر چیز سے بے نیاز ہے۔‬

‫ْالقَاد ُِر‬

‫مکمل قدرت رکھنے واال‪ ،‬جس کا حکم بغیر کسی واسطہ کے نافذ ہوتا ہے‪ ،‬وہ جو چاہتا ہے کر گذرتا‬
‫ہے۔‬
‫ْال ُم ْقتَد ُِر‬

‫بڑی قدرت رکھنے واال‪ ،‬جو ہر چیز پر قادرہے‪،‬کوئی بھی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں۔‬

‫ْال ُمقَ ِد ُم‬

‫آگے بڑهانے واال‪ ،‬جو عزت و شرف ‪ ،‬علم و عمل میں اپنے نیک بندوں کو آگے بڑهانے واال ہے۔‬

‫ْال ُم َؤ ِخ ُر‬

‫پیچھے ہٹانے واال‪ ،‬جو اپنے اور اپنے دشمنوں کو ذلیل و خوار کرتے ہوئے پیچھے ہٹانے واال ہے۔‬

‫ْاالَ َّو ُل‬

‫سب سے پہلے‪ ،‬جو ہر چیز کے وجود میں آنے سے پہلے بھی موجود تھا۔‬

‫ْاْل ِخ ُر‬

‫سب کے بعد‪ ،‬جو سب کو موت دینے کے بعد بھی زندہ اور موجود رہے گا۔‬
‫َّ‬
‫الظاه ُِر‬

‫ظاہر‪ ،‬سب پر غالب‪ ،‬جو اپنی پوری مخلوق پر غالب اور بلند و باال ہے۔‬

‫ْال َب ِ‬
‫اطنُ‬

‫سب سے پوشیدہ‪ ،‬جسے دنیا کی کوئی آنکھ دیکھنے کی صالحیت نہیں رکھتی ۔‬

‫ْال َوا ِل ُ‬
‫ی‬

‫سر پرست‪ ،‬جو پوری کائنات کا اکیال ہی مالک ہے اور اپنی مرضی سے اس میں تصرف کرنے واال‬
‫ہے۔‬

‫ْال ُمتَ َعا ُل‬

‫سب سے بلند و باال‪ ،‬جو شان اور مقام کے اعتبار سے تمام کائنات سے بلند و برتر ہے۔‬

‫ْال َب ُّر‬

‫تمام اچھائیوں کا سرچشمہ‪ ،‬جو اپنی تمام مخلوق سے اچھائی اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے واال‬
‫ہے۔‬

‫الت َّ َّو ُ‬
‫اب‬
‫توبہ قبول کرنے واال‪ ،‬جو بڑے سے بڑا گناہ کرنے وا لے کی بھی توبہ قبول کرنے واال ہے۔‬

‫ْال ُم ْنتَ ِق ُم‬

‫بدلہ لینے واال‪ ،‬جو سرکش اور نافرمان لوگوں سے بدلہ لینے واال ہے۔‬

‫ْال َعفُ ُّو‬

‫بہت ہی زیادہ در گزرکرنے واال۔جو معافی کو بہت ہی زیادہ پسند اور بہت جلد معاف فرمادیتا ہے۔‬

‫ف‬
‫الر ُء ْو ُ‬
‫َّ‬
‫بڑاہی شفیق و مہربان‪ ،‬جو اپنے بندوں سے نہایت شفقت اور انتہائی نرمی کا برتاؤ کرنے واال ہے۔‬

‫َما ِلكُ ْال ُم ْل ِك‬

‫حقیقی شہنشاہ‪ ،‬جسے چاہے بادشاہت عطا کرے اور جس سے چاہے چھین لے۔دنیا و آخرت اور پوری‬
‫ت الزوال ہے۔‬
‫کائنات کا حقیقی بادشاہ ہے ‪ ،‬پوری کائنات پر جس کی حکوم ِ‬
‫ُذ ْ‬
‫وال َج َال ِل َو ْ ِ‬
‫اال ْک َرام‬

‫عظمت و جالل واال اور انعام و اکرام کرنے واال‪،‬جو عظمت و کبریائی واالہے اور اپنی مخلوق پر‬
‫خوب مہربانی کرنے واال اور ہر عام و خاص پر خوب احسان کرنے واال ہے۔‬
‫ْال ُم ْق ِس ُ‬
‫ط‬

‫عدل و انصاف قائم رکھنے واال‪ ،‬جو اپنے فیصلوں میں مخلوق کے ساتھ مکمل انصاف کرنے واالہے۔‬

‫ْال َج ِ‬
‫ام ُع‬

‫جمع کرنے واال‪ ،‬جوقیامت کے دن اپنی تمام مخلوقات کو جمع کرنے واال ہے۔‬

‫ْالغَنِ ُّ‬
‫ی‬

‫خود کفیل‪ ،‬بے پروا‪ ،‬جو اپنی تمام مخلوق کے افعال سے بے نیاز اور ان سے درگزر کرنے واال ہے۔‬

‫ْال ُم ْغنِی‬

‫مالدار بنانے واال‪ ،‬مال و دولت اور دوسری نعمتوں سے نواز کر محتاجی سے نجات دینے واال ہے۔‬

‫ْال َمانِ ُع‬

‫ہالکت سے روکنے واال‪ ،‬وہ جس سے چاہے اور جو چیز چاہے اس چیزسے اپنی مخلوق کو روک لیتا‬
‫ہے۔‬
‫َّآر‬
‫الض ُّ‬
‫ضرر پہنچانے واال‪ ،‬جوہر چیز کے نفع و نقصان کا مالک ہے۔وہ جسے چاہتا ہے پریشانی میں مبتال‬
‫کرتا ہے۔‬

‫النَّافِ ُع‬

‫نفع پہنچانے واال‪ ،‬جو ایسی اشیا کا خالق ہے جو اچھائیوں سے بھرپور اور نفع بخش ہیں۔‬

‫ْال َھا ِدی‬

‫سیدهی راہ دکھانے واال‪ ،‬جو کامیابی کی راہ دکھاتا ہے اور لوگوں کو ہدایت عطا فرماتا ہے۔‬

‫ْال َب ِد ْی ُع‬

‫بغیر نمونہ کے چیزوں کو پیدا کرنے واال۔جس نے کائنات میں حیرت انگیز چیزیں پیدا کیں۔‬

‫ْال َبا ِقی‬

‫ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی رہنے واال ہے۔ جبکہ اس کے سوا ہر مخلوق کو فنا ہونا ہے۔‬
‫الو ِار ُ‬
‫ث‬ ‫َ‬
‫سب کے بعد موجود رہنے واال‪ ،‬جو تمام چیزوں کا حقیقی وارث ہے۔‬

‫الر ِش ْی ُد‬
‫َّ‬
‫صحیح راہ پر چالنے واال‪ ،‬اپنی مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد انہیں سیدهی راہ دکھانے واال ہے۔‬

‫صب ُْو ُر‬


‫ال َّ‬
‫بڑے صبر واال‪ ،‬جو انسانوں کے گناہوں پر صبر اور گناہ گاروں کو عذاب دینے میں جلدی نہیں‬
‫کرتاہے۔‬

‫سوال نمبر‪3‬۔ ختم نبوت اور اس کے خصائص پر نوٹ لکھیں؟‬

‫قران کریم کی ایک سو کے قریب ایات الہیہ یہ اعالن کرتی ہیں کہ محمد رسول اہللا ﷺ کے بعد کوئی‬
‫نیا نبی و رسول نہیں ائے گا۔ قران مجید فرقان حمید میں ارشاد ربانی ہے۔ (مسلمانو) ’’محمد (ﷺ) تم‬
‫مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں‪ ،‬لیکن وہ اہللا کے رسول ہیں اور تمام نبیوں میں سب سے‬
‫‘‘اخری نبی ہیں اور اہللا ہر بات کو خوب جاننے واال ہے۔‬
‫رسل تشریف الئے تھے وہ کسی خاص قوم اور محدود وقت کے لیے‬ ‫ؑ‬ ‫اپ سے پہلے جو انبیاء اور‬
‫تشریف الئے تھے‪ ،‬خاتم النبیین جناب محمد رسول اہللا ﷺ قیامت تک تمام جنات‪ ،‬انسانوں اور تمام زمان‬
‫و مکاں کے بسنے والوں کے رسول اور نبی ہیں۔ لہذا خاتم النبیین فرمانے سے اپ کے خاتم الرسل ﷺ‬
‫ہونے کا بھی اعالن ہوگیا۔‬

‫سورہ سبا میں فرمایا‪ ’’ :‬اور ہم نے اپ کو نہیں بھیجا مگر تمام انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر‬
‫‘‘لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے۔‬

‫خالصہ یہ ہے کہ رسول اہللا ﷺ کی ذات گرامی پر وصف ِ نبوت سے متصف ہونا یعنی نبوت ِ جدیدہ‬
‫سلسلہ نبوت اپ کی ذات پر منقطع ہوگیا‪ ،‬ان نبوت جدیدہ سے کوئی‬
‫ٔ‬ ‫سے سرفراز کیا جانا ختم ہوگیا اور‬
‫) شخص بھی متصف نہیں ہوگا۔ (تفسیر انوارالبیان‬

‫مفسر ابن کثیر بہت سی احادیث نقل کرنے کے بعد اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں‪’’ :‬یہ بندوں پر اہللا تعالی‬
‫کی رحمت ہے کہ اس نے حضرت محمد ﷺ کو ان کی طرف بھیجا‪ ،‬پھر حضور ﷺ کی شان ختم نبوت‬
‫بھی اور اپ پر دین حنیف کی تکمیل بھی بندوں پر رحمت ہے اور اہللا تعالی نے اپنی کتاب میں اور‬
‫حضور ﷺ نے اپنی احادیث میں جو کہ متواتر ہیں۔‬

‫خبر دے دی ہے کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے تاکہ سب پر واضح ہوجائے کہ حضور ﷺ‬
‫کے بعد جو اس مقام کا دعوی کرے گا وہ مکار‪ ،‬دجال اور جھوٹا ہے‪ ،‬خود بھی گم راہ ہے اور‬
‫دوسروں کو بھی گم راہ کرنے واال ہے۔ اگر وہ جادو گروں کے کرشمے دکھائے‪ ،‬جو بھی طلسم و‬
‫‘‘نیرنگیاں دکھائے‪ ،‬یہ سب عقل مندوں کے نزدیک بے کار و گم راہی ہیں۔‬

‫اپ کو ختم نبوت سے سرفراز فرما کر اپ پر سلسلہ انعامات و اعزازات کی تکمیل فرما دی گئی اور‬
‫فلسفہ ختم نبوت کی ایک تمثیل کے ساتھ وضاحت نبی کریم ﷺ نے‬
‫ٔ‬ ‫سفر رسالت و نبوت مکمل ہوگیا۔‬
‫اپنے ارشاد میں خود ہی فرما دی۔‬

‫حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ انحضرت ﷺ نے فرمایا‪’’ :‬میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی‬
‫مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا ہو اور اس میں ہر طرح کا حسن و خوب‬
‫صورتی پیدا کی ہو لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی ہو‪ ،‬اب تمام لوگ اتے ہیں اور‬
‫مکان کو چاروں طرف سے گھوم پھر کر دیکھتے ہیں اور حیرت زدہ رہ جاتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے‬
‫جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی ۔۔؟ تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین‬
‫)ہوں۔‘‘ (بخاری‬

‫حضرت ثوبان سے مروی ہے رسول اہللا ﷺ نے فرمایا کہ میں خاتم النبیین (ﷺ) ہوں میرے بعد کوئی‬
‫)نبی نہیں ہوگا۔‘‘ (ترمذی‪ ،‬ابوداؤد‪ ،‬ابن ماجہ‪ ،‬باب مایکون من الفتن‬

‫قران کریم کی ایک اور شہادت حضور نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت پر مالحظہ فرمائیے۔‬
‫اج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا‪ ،‬تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے ’’‬
‫‘‘اسالم کو دین کے طور پر پسند کرلیا۔‬

‫حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اہللا تعالی نے نبی مکرم ﷺ اور مومنوں کو اگاہ کیا کہ ان کے‬
‫لیے ایمان مکمل کردیا گیا‪ ،‬اب تم اس کی زیادتی کے کبھی محتاج نہیں‪ ،‬اہللا تعالی نے اسے مکمل‬
‫کردیا اب اس میں کمی واقع نہیں کی جائے گی‪ ،‬اہللا اس پر راضی ہے اب اس پر ناراض نہیں ہوگا۔‬
‫)(تفسیر درمنثور‬

‫درج باال روایت نے وضاحت کردی کہ اب اہللا تبارک و تعالی کے نزدیک قیامت تک دین اسالم ہی‬
‫قابل عمل و قبول رہے گے‪ ،‬اگر کوئی شخص دین اسالم میں کمی یا بیشی کا مرتکب ہوگا تو اس کی‬
‫کمی یا بیشی سے دین اسالم کو تو نقصان نہیں پہنچے گا‪ ،‬ہاں وہ خود اپنے عمل سے مردود ہوجائے‬
‫گا۔‬

‫کیوں کہ اکملیت ِ دین اسالم کا فرمان اُس رب کریم کا ہے جو ماضی‪ ،‬حال اور مستقبل کو جانتا ہے‪،‬‬
‫جس سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے‪ ،‬جو عالم الغیب ہے۔ اہللا تعالی نے حضور کریم ﷺ کے سر پر‬
‫ختم نبوت کا تاج رکھ کر اپنے بندوں پر احسان فرمایا اور اپنے بندوں پر رحمت نازل فر مائی کہ اب‬
‫دین محمدی ہی قیامت تک باقی رہے گا اور یہی دین انسان کی ابدی نجات کا ضامن ہے۔ بہ فرمان‬
‫‘‘نبوی کہ اگر موس ؑی بھی اجائیں تو انہیں بھی میری پیروی کے بغیر چارہ نہیں ہوگا۔‬

‫روز محشر صرف دین اسالم قبول کیا جائے گا اور دین اسالم وہی ہے جو حضور نبی کریم ﷺ پر اہللا‬ ‫ِ‬
‫تعالی نے نازل کیا اور حضور ﷺ نے اپنے صحابہ کو سکھایا اور صحابہ کرام نے اپنے بعد والوں‬
‫یعنی تابعین کو سکھایا اور اس پر عمل کرکے دکھایا۔ اج بھی جو دین اسالم کو اسی طرح مانے گا وہی‬
‫اُخروی کام یابی پائے گا۔‬

‫سرور کائنات ﷺ اخری نبی ہیں۔ اپ کے بعد کسی‬‫ِ‬ ‫یہ عقیدہ بھی صحابہ کرام نے سکھایا کہ حضور‬
‫نئے نبی نے نہیں انا۔ کوئی بھی شخص نبوت اور رسالت کا اعزاز کسی طور پر بھی خود پر چسپاں‬
‫نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ یہ اعزاز جن مقدس ہستیوں کو عطا ہونے تھے‪ ،‬عطا ہوچکے اور ان مقدس و‬
‫مطہر ہستیوں میں اخری ہستی حضرت رسالت ماب ﷺ کی ہے۔ تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ نیا دین‬
‫نہیں ائے گا اور جب نیا دین نہیں ائے گا تو پھر نیا نبی بھی نہیں ائے گا۔‬

‫سوال نمبر‪4‬۔ عقیدہ آخرت کا مفہوم واضح کرتے ہوئے اس کیلئے آخرت کی منازل کا ذکر کریں؟‬

‫عقیدہ آخرت کا مفہوم‬


‫اسالمی عقیدے کے مطابق ہر شخص کو موت کے بعد زندہ ہو کر ہللا تعالی کی بارگاہ میں اپنے اعمال‬
‫کا حساب دینا ہے‪ ،‬جس کے نتیجے میں وہ جہنم یا جنت (کی صورت میں سزا و جزا) سے ہمکنار ہو‬
‫گا۔ اس زندگی کا نام اُخروی زندگی ہے اور اس زندگی پر ایمان النے کا نام ایمان ِباْلخرت ہے۔‬

‫آخرت توحید و رسالت کے بعد اسالم کا تیسرا بنیادی اور اہم عقیدہ ہے۔ آخرت کے بارے میں تمام‬
‫رسولوں اور انبیاء کی تعلیمات ہمیشہ سے ایک ہی رہی ہیں۔ جن کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ‪ ”:‬یہ دنیا ایک‬
‫امتحان گاہ ہے اور یہاں ہللا نے ہمیں آزمائش کے لیے بھیجا ہے کہ کون ایمان ال کر اچھے اعمال کرتا‬
‫ہے اور جس طرح ہللا نے ہمیں یہاں پیدا فرمایا اسی طرح وہ ہمیں ہماری موت کے بعد قیامت کے دن‬
‫دوبارہ زندگی عطا فرمائے گا اور ہمیں ہللا کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کرنا ہو گی۔ جوانبیاء‬
‫کی تعلیمات پر ایمان الیااور ان کی اطاعت کی اوراعمال صالحہ کیے وہ وہاں کامیاب ہو گا اور جس‬
‫نے نافرمانی کی وہ ناکام۔ جو کامیاب ہوا اسے نعمتوں بھری ابدی جنت ملے گی اور جو ناکام ٹھہرا وہ‬
‫جہنم میں جائے گا اور دردناک سزا بھگتے گا۔“ اصل زندگی کا گھر آخرت ہی کا گھر ہے اور دنیا اس‬
‫سفر میں ایک امتحانی گزرگاہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ اور موت خاتمے کا نہیں بلکہ ایک‬
‫مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل ہونے کا نام ہے‬

‫عقیدہ آخرت پر ایمان النے کا مطلب‬

‫آخر پر ایمان النے کا مفہوم یہ ہے کہ ہم ان پانچ چیزوں پر مکمل ایمان لے آئیں اور بغیر کسی شک و‬
‫شبہ کے ان کو تسلیم‬

‫کرلیں‬

‫ایک دن ہللا تعالی تمام عالم اور اس کی مخلوقات کو مٹا دے گا۔ اس دن کا نام قیامت ہے۔ )‪(۱‬‬

‫پھر وہ سب کو ایک دوسری زندگی بخشے گا اور سب لوگ ہللا کے سا منے حاضر ہونگے۔ )‪(۲‬‬

‫تمام لوگوں نے اس دنیوی زندگی میں جو کچھ کیا ہے اس کا نامہ اعمال خدا کی عدالت میں پیش )‪(۳‬‬
‫ہوگا‬

‫ہللا تعالی ہر شخص کے اچھے اور برے عمل کا وزن فرمائے گا۔ اور اس کے مطابق بخشش یا )‪(۴‬‬
‫سزا ملے گی۔‬

‫)‪(۵‬‬

‫جن لوگوں کی بخشش ہوجائے گی وہ جنت میں جائیں گے۔ اور جن کو سزا دی جائے گی وہ دوزخ‬
‫میں جائیں گے‬

‫تمام مزاہب کی تلقین‬


‫غمبران دین‬
‫ِ‬ ‫حضرت آدم علیہ السالم سے لے کر حضوراکرم صلی ہللا علیہ وسلم تک جتنے بھی پی‬
‫لوگوں تک ہللا کا پیغام لے کر نازل ہوئے ہیں ان سب نے آخرت کا نظریہ بالکل اسی طرح پیش کیا ہی‬
‫جس طرح حضوراقدس صلی ہللا علیہ وسلم نے بتایا ہے۔ ہرزمانے میں اس پر ایمان النا اور اس کے‬
‫مطابق اپنے اعمال کو ترتیب دینا مسلمان ہونے کے لئے الزمی شرط رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ‬
‫ہے کہ عقیدہ آخرت پر ایمان کے بغیر اسالم کی تعلیمات کو ماننا اور اس پر عمل کرنا بالکل بے معنی‬
‫ہوجاتا ہے۔ اور انسان کی ساری زندگی خراب ہوجاتی ہے۔‬

‫انسانی فطرت کا تقاضہ – آخرت‬

‫کسی انسان سے جب کوئی کام کرنے کا کہاجاتا ہے تو اس کے ذہن میں سب سے پہلے یہ سوال ابھرتا‬
‫ہے کہ آخر مجھے اس‬

‫کام کا کیا فائدہ ہوگا؟‬

‫میں اسے کیوں کروں؟‬

‫اور اس کے صلے میں مجھے کیا ملے گا؟‬

‫اگر میں یہ کام نہ کروں تو مجھے کیا نقصان ہوگا؟‬

‫یہ سواالت کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ انسانی فطرت ہر ایسے کام کو لغو اور فضول سمجھتی ہے‬
‫جس کا کوئی حاصل نہ ہو۔ کوئی شخص کوئی ایسا کام ہرگز نہیں کرتا جب تک کہ اس کا کوئی فائدہ‬
‫نہ ہو اور نہ ہی کسی ایسے کام سے پرہیز کرتا ہے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ اس کا کوئی‬
‫نقصان نہیں ہے۔‬

‫اس دنیا میں ہر طبقہ فکر اس بات پر متفق ہے کہ نیکیاں کیا ہیں یا اچھے اور معروف کام کیا ہیں اور‬
‫برے کام یا گناہ کے کام کیا ہیں۔ تاش‪ ،‬ٹی وی اور فضول کاموں کو تمام لوگ متفقہ طور پر لغو اور‬
‫وقت کا زیاں سمجھتے ہیں جاہے وہ ہندو ہوں یا یہودی‪ ،‬نصرانی ہوں یا مسلمان۔ اسی طرح غریبوں کی‬
‫ت‬
‫مدد کرنا‪ ،‬صفائی کا خیال رکھنے اور اچھے اخالق کو لوگ نیکی تسلیم کرتے ہیں۔ یہ سب فطر ِ‬
‫انسانی ہے‬

‫ت انسانی تقاضہ کرتی ہے کہ ہم جو نیک کام کرتے ہیں یا برے کاموں سے بچتے ہیں ان کا‬ ‫اب یہ فطر ِ‬
‫صلہ بھی ضرور ملنا چاہئے۔ چاہے وہ جیسے بھی اور جس صورت میں ہو۔ اسی انسانی فطرت کو‬
‫مدِنظر رکھتے ہوئے دنیا کے واحد مکمل دین نے آخرت کا واضح ترین نقشہ پیش کیا اور انسانی‬
‫تقاضوں کی تسکین کے لئے جنت اور جہنم بنایا اور ان کا نظریہ پیش کیا‬

‫قرآن مجید میں ارشان باری تعالی ہے‬

‫جن لوگوں نے نیک کام کئے پس ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے‬


‫آخرت کے بارے میں تین نظریے‬

‫آخرت کے بارے میں تین مختلف نظریے پائے جاتے ہیں‬

‫ایک گروہ کہتا ہے کہ انسان مرنے کے بعد فنا ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔ یہ )‪(۱‬‬
‫ان لوگوں کا نظریہ ہے جو سائنسدان ہونے کا دعوی کرتے ہیں‬

‫دوسرا گروہ کہتا ہے کہ انسان اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتنے کے لئے باربار اسی دنیا میں جنم لیتا )‪(۲‬‬
‫ہے۔ اگر اس کے اعمال برے ہیں تو دوسرے جنم میں کوئی جانور یا کوئی بدتر درجے کا انسان ہوگا۔‬
‫اگر اجھے اعمال زیادہ ہیں وہ کسی اونچے درجے پر پہنچ جائے گا۔ یہ خیال بعد خام مذاہب میں پایا‬
‫جاتا ہے‬

‫تیسرا گروہ قیامت اور حشر اور خدا کی عدالت میں پیشی اور جزا اور سزا پر ایمان رکھتا ہے۔ یہ )‪(۳‬‬
‫تمام انبیائکرام کا متفقہ عقیدہ ہے‬

‫پہلے گروہ کے عقیدے پر غوروفکر‬

‫ایک گنوار نے اگر ہوائی جہاز نہیں دیکھا ہے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ ہوائی جہاز‬
‫ب‬‫کیا چیز ہے۔ لیکن اگر وہ کہے گا کہ ”میں جانتا ہوں کہ ہوائی جہاز کوئی چیز نہیں ہے۔ “ تو صاح ِ‬
‫فہم افراد اسے احمق اور بےوقوف کہیں گے۔ اس لئے کہ کسی چیز کا نہ دیکھنا یہ معنی ہرگز نہیں‬
‫رکھتا کہ وہ چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے‬

‫کچھ اسی طرح کا حال اس نظریہ کے ماننے والوں کا بھی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے مرنے‬
‫کے بعد کسی دوبارہ زندہ ہوتے نہیں دیکھا۔ ہم تو یہی دیکھتے ہیں کہ جو مرجاتا ہے وہ مٹی میں مل‬
‫جاتا ہے۔ لہذا مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔‬

‫اگر مرنے کے کسی نے نہیں دیکھا کہ کیا ہوگا تو وہ زیادہ سے زیادہ اتنا کہہ سکتا ہے کہ ”میں نہیں‬
‫جانتا کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا۔“ اس سے یہ دعوی کرنا کہ ” ہم جانتے ہیں کہ مرنے کے بعد کچھ نہ‬
‫ہوگا۔“ بالکل بے ثبوت بات ہے اوراس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے‬

‫تاریخ – سوچنے کی بات‬

‫ایک مرتبہ حضرت علی رضی ہللا تعالی عنہ کے پاس ایک شخص آیا جو آخر کے خالف تھا اور یقین‬
‫نہ رکھتا تھا۔ حضرت علی رضی ہللا تعالی عنہ نے اسے آخرت کے بارے میں بہت دالئل دئے اور‬
‫سمجھا نے کی کوشس کی لیکن وہ اپنے نظریے پر اڑا رہا اور بات نہ مانا۔ آخر کار حضرت علی‬
‫رضی ہللا تعالی عنہ نے کہا کہ چلو فرض کرو تمہاری بات درست ہوئی کہ مرنے کے بعد کوئی‬
‫زندگی نہیں ہے تو ہم جو اس عقیدے کی بنیاد پر اعمال کرتے ہیں ہم کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا‬
‫اور ہم بھی مٹی میں ہمیشہ کے لئے مل جائیں گے۔لیکن بالغرض ہمارا نظریہ درست نکال اور ہللا کے‬
‫سامنے حاضری ہوگئی تو پھر تم کیا کرو گے؟‬
‫منکر آخرت الجواب ہوگیا‬
‫ِ‬ ‫یہ سن کر وہ‬

‫دوسرے گروہ کے نظریے پر غورفکر‬

‫اس کے بعد دوسرے نظریے پر غور کریں تو یہ بھی خالءمیں محسوس ہوتا ہے۔ اس عقیدے کی رو‬
‫سے ایک شخص جو اس وقت انسان ہوگیا کہ جب وہ جانور تھا تو اس نے اچھے عمل کئے تھے۔ اور‬
‫ایک جانور جو اس وقت جانور ہے وہ اس لئے جانور ہے کہ جب وہ انسان تھا تو اس نے برے عمل‬
‫کئے تھے‬

‫اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے کیا چیز تھا؟ اگر کہتے ہو کہ انسان تھا تو ماننا پڑے گا کہ اس سے‬
‫پہلے درخت یا حیوان تھا‪ ،‬ورنہ پوچھا جائے گا کہ انسان کس وجہ سے بنا؟ اگر کہتے ہو کہ درخت تھا‬
‫یا حیوان تھا تو ماننا پڑے گا کہ اس سے پہلے انسان تھا! غرض اس عقیدے کے ماننے والے مخلوقات‬
‫کی ابتدا کسی بھی جنم کو قرار نہیں دے سکتے۔ یہ بات صریح عقل کے خالف ہے‬

‫تیسرے گروہ کے نظریے پر غوروفکر‬

‫اب ہم تیسرے نظریے پر غور کرتے ہیں۔ اس نظریے میں بیان کی گیا ہے کہ‬

‫ایک دن قیامت آئے گی اور خدا اپنے اس کارخانے کو توڑ پھوڑ کر نئے سرے سے اعلی درجہ کا‬
‫پائیدار کارخانہ بنائے گا جس میں اچھے اور برے اعمال کا تجزیہ ہوگا اور اس کے مطابق جزاوسزا‬
‫کا فیصلہ ہوگا‬

‫اس نظریہ میں پہلی بات یہ ہے کہ ایک دن قیامت آئے گی اور یہ تمام نظام کائنات فنا ہوجائے گا۔ اس‬
‫بات کو کوئی بھی شخص عقل پر پرکھنے کے بعد جھٹال نہیں سکتا۔ کیونکہ ہم جتنا اس نظام پر غور‬
‫کریں اتنا ہی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ کائنات فانی ہے اور ایک دن ختم ہوجائے گی۔ سائنس کی رو سے‬
‫یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس کائنات میں جتنی بھی چیزیں ہیں سب محدود ہیں اور ایک دن ختم‬
‫ب علم شخصیات اس بات پر متفق ہیں اور اسے تسلیم کرچکے ہیں کہ ایک دن‬ ‫ہوجائیں گی۔ تمام صاح ِ‬
‫یہ سورج ٹھنڈا ہوجائے گا اور سیارے ایک دوسرے سے ٹکرا کر فنا ہوجائیں گے‬

‫دوسری بات جو بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس سے اعلی درجے کا کارخانہ بنایا جائے گا اور تمام‬
‫لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے۔‬

‫قرآن پاک میں ارشا ِد پاک ہے‬

‫سو کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا‬
‫ہی نہیں ہے‬

‫اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن نہیں ہے؟ اگر ناممکن ہے تو اب جو زندگی حاصل ہے یہ‬
‫کیسے ممکن ہوئی؟ سوچنے کی بات ہے کہ جس خدا نے انسان کو ایک مرتبہ پیدا کیا ہے وہ دوبارہ‬
‫اسے زندگی کیونکر نہیں بخش سکتا؟ اور جس نے یہ کارخانہ قدرت ایک مرتبہ تخلیق کیا ہے وہ‬
‫دوبارہ کیسے نیا کارخانہ نہیں بنا سکتا؟‬

‫تیسری بات جو بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی اس دنیوی زندگی کا اعمال نامہ ہللا تعالی کے‬
‫حضور پیش ہوگا اور اس کے مطابق جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا۔ اب لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ اعمال‬
‫نامہ کیسے بنا رہ گیا یا سب کچھ کیسے محفوظ ہوگیا۔ تو اس کا جواب خود ہی اس کے سامنے آگیا۔‬
‫جدید سائنسی تحقیق کے بعد پتہ چال کے ہمارے منہ سے جو آوازیں نکلتی ہیں وہ ایک خاص‬
‫پر نقش ہوجاتی ہے اور تاقیامت گردوپیش میں محفوظ رہتی ہیں۔ اسی طرح ہماری ہر ‪Frequency‬‬
‫کی صورت میں ہوا میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ یعنی انسان جیسے جیسے ترقی کررہاہے ‪ Images‬حرکت‬
‫اسے اس بات پر پختہ یقین ہوتا جارہا ہے کہ یہ اعمال نامہ پورا کا پورا محفوظ ہے‬

‫تیسرے نظریے کی صداقت‬

‫تیسرے نظریے پر ہم غوروفکر کریں تو سب سے زیادہ دل کو لگتا نظریہ یہ ہی ہے اور اس میں‬


‫خالف عقل یا ناممکن نہیں ہے۔ اگرچہ اس عقیدے پر ہمارا ایمان صرف رسول ہللا صلی ہللا‬
‫ِ‬ ‫کوئی چیز‬
‫علیہ وسلم کے اعتماد پر ہے‪ ،‬عقل پر اس کا مدار نہیں لیکن جب ہم غوروفکر سے کام لیتے ہیں تو‬
‫ق عقل معلوم ہوتا ہے۔‬
‫ہمیں آخرت کے متعلق تمام عقیدوں میں سب سے زیادہ یہی عقیدہ مطاب ِ‬
‫سورۃ البقرہ میں ارشا ِد ربانی ہے‬

‫اور وہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں‬

‫ق دل سے تسلیم کیا جائے‬


‫یعنی مومن ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آخرت کو صد ِ‬
‫۔ بقول اقبال‬

‫اختتام زندگی‬
‫ِ‬ ‫موت کو سمجھتے ہیں کافر‬

‫دوام زندگی‬
‫شام زندگی‪ ،‬صبح ِ‬
‫یہ ہے ِ‬
‫قرآن و حدیث کی روشنی میں‬

‫کالم الہی سے بھی لگا سکتے ہیں۔‬


‫آخرت کی قدرواہمیت کا اندازہ ہم ِ‬
‫ارشا ِد خداوندی ہے‬

‫ب الہی پر بھی ایمان التے ہیں۔‬


‫جو لوگ آخرت پر ایمان التے ہیں وہی کتا ِ‬
‫ایک اورجگہ ہللا تعالی ارشاد فرماتا ہے‬

‫یہ دنیا تو بس عارضی فائدہ ہے اور جو آخرت ہے وہی پائیدار گھڑی ہے‬
‫سرور کائنات حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد ہے‬
‫ِ‬
‫خدا کی قسم دنیا آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی اس انگلی کو سمندر‬
‫میں ڈالے اور اور پھر دیکھے کہ وہ کتنا پانی لے کر لوٹا ہے‬

‫عقیدہ آخرت کے فوائد‬

‫آخرت کا انکار یا اقرار انسان کی زندگی میں فیصلہ کن اثر رکھتا ہے۔ اس کے ماننے والے اور نہ‬
‫ماننے والے میں بہت بڑا فرق ہو جاتا ہے۔ ایک کے نزدیک نیکی وہ ہے جس کوئی اچھا نتیجہ اس دنیا‬
‫کی ذرا سی زندگی میں حاصل ہوجائے۔ مثال کوئی عہدہ مل جائے‪ ،‬کوئی خوشی حاصل ہوجائے۔ اس‬
‫کے مقابلے میں دوسرے شخص کے نزدیک نیکی وہ ہے جس سے خدا خوش ہو اور بدی وہ ہے جس‬
‫سے خدا ناراض ہو۔ اسے اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ اگر وہ اس مختصر زندگی میں سزا سے بچ گیا‬
‫اور چند روز مزے لوٹتا رہا تب بھی آخر کار خدا کے عذاب سے نہ بچے گا۔ غرض یہ کہ عقیدہ‬
‫مان کامل‬
‫آخرت پر ای ِ‬
‫رکھنے والے شخص کو بہت سے اخروی دنیوی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ جن میں سے چند درج ذیل‬
‫ہیں‬

‫بہادری و سرفروشی )‪(۱‬‬

‫ہمیشہ کے لئے مٹ جانے کا ڈر انسان کو بزدل بنادیتا ہے۔ مگر دل میں جب یہ یقین موجود ہو کہ‬
‫دنیوی زندگی ناپائیدار ہے اور اخروی زندگی دائمی ہے تو یہ احساس انسان کو بہادر بنادیتا ہے اور وہ‬
‫ہللا کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے سے بھی نہیں کتراتا‬

‫صبروتحمل )‪(۲‬‬

‫عقیدہ آخرت پر ایمان سے انسان کے دل میں صبروتحمل پیدا ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ حق کی خاطر‬
‫جو بھی تکلیف برداشت کی جائے گی اس کا صلہ آخرت میں ضرور ملے گا۔ لہذا آخرت پر نظر‬
‫رکھتے ہوئے وہ ہر مصیبت کی گھڑی میں صبروتحمل کا مظاہرہ کرتا ہے‬

‫نیکی سے رغبت )‪(۳‬‬

‫جو شخص آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کے تمام اعمال اس کے نامہ اعمال میں‬
‫محفوظ کرلئے جاتے ہیں اور آخرت میں اس کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ یہ احساس اسے نیکی‬
‫کی طرف مائل کرتا ہے‬

‫مال خرچ کرنے کا جذبہ )‪(۴‬‬


‫عقیدہ آخرت انسان کے دل میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ آخرت کی زندگی دائمی زندگی ہے جو‬
‫بعدالموت شروع ہوتی ہے۔ یہ احساس اسے ہللا کی راہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب کرتا ہے تاکہ‬
‫اس کی اخروی زندگی سنور جائے‬

‫احساس ذمہ داری )‪(۵‬‬


‫ِ‬

‫احساس ذمہ داری پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اپنے فرائض‬


‫ِ‬ ‫آخرت پر ایمان رکھنے سے انسان میں‬
‫سے کوتاہی جرم ہے جس کی آخرت میں سزا ملے گی۔ لہذا وہ پوری ذمہ داری سے اپنے فرائض ادا‬
‫کرتا ہے۔‬

‫پاکیزہ معاشرے کی تشکیل )‪(۶‬‬

‫اگر معاشرے کے تمام لوگ عقیدہ آخرت پر پختہ یقین رکھتے ہوں تو اس سے معاشرے میں ایک‬
‫اچھی فضا قائم ہوتی ہے اور ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے‬

‫برائیوں کا خاتمہ )‪(۷‬‬

‫ایسے افراد پر مشتمل معاشرہ جو عقیدہ آخرت کے ماننے والے ہوں برائیوں سے پاک ہوتا ہے۔ آخرت‬
‫پر ایمان رکھنے سے لوگوں مینیہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ جو برائیاں کر رہے ہیں اس کی سزا‬
‫انہیں آخرت میں ملیں گی۔ چنانچہ وہ برائیوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے‬
‫ہیں‬

‫باہمی اخوت و مساوات کا فروغ )‪(۸‬‬

‫عقیدہ آخرت پر یقین رکھنے سے مسلمانوں میں باہمی اخوت و مساوات پیدا ہوتی ہے۔ عقیدہ آخرت ان‬
‫میں یہ احساس اجاگر کرتا ہے کہ تمام انسان ہللا کی نظر میں برابر ہیں۔ بہتر صرف وہ ہے جو زیادہ‬
‫پرہیزگار اور متقی ہے‬

‫حروف آخر‬
‫ِ‬
‫عقیدہ آخرت اسالم کا وہ بنیادی عقیدہ ہے جس پر ایمان الکر انسان دنیاوآخرت میں رضائے الہی کے‬
‫ت الہی کا‬
‫مطابق زندگی بسر کرسکتا ہے اور ایک ایسا کردار تشکیل کرتا ہے جس سے اسے قرب ِ‬
‫روز‬
‫حصول ہو۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس عقیدہ کو بنیاد بنا کر اپنی زندگی کا ہر فعل تشکیل دیں تاکہ ِ‬
‫آخرت جنت کے مستحق ٹہریں۔ ہللا تعالی کبھی وعدہ خالفی نہیں فرماتا اور ہللا کا وعدہ ہے کہ‬

‫بے شک نیک لوگ بہشت میں ہوں گے اور بے شک گناہ گار دوزخ میں‬

‫ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق‬

‫‪:‬رضی ہللا تعالی عنہ نے فرمایا‬


‫کل حشر کے میدان میں اگر یہ اعالن کہ ایک شخص کے سوا سب کو جہنم میں جھونک دو‪ ،‬تو‬
‫مجھے خدا کی رحمت سے امید ہی کہ جہنم سے بچنے واال وہ شخص میں ہی ہوں گا۔ اور اگر یہ‬
‫عالن ہوجائے کہ ایک شخص کے سوا سب کو جنت میں لے جاو‪ ،‬تو اپنے اعمال کو دیکھتے ہوئے‬
‫مجھے یہی اندیشہ ہے کہ خدانخواستہ وہ شخص میں ہی ہوں گا۔‬

‫فاروق اعظم‬

‫رضی ہللا تعالی عنہ کے یہ الفاظ بار بار پڑهنے کے الئق ہیں‪ ،‬جن سے عقیدہ آخرت پر مکمل ایمان‬
‫نظر آتا ہے۔ اور جس کی بنیاد پر آپ صلی ہللا علیہ وسلم مسلمانوں کے عظیم خلیفہ بنے۔ ہمیں چاہئے‬
‫کہ ہم بھی اپنے اندر آخرت کے لئے یہی کیفیت پیدا کریں تاکہ رضائے الہی ہمارا مقدر بنے اور ہم‬
‫آخرت میں سرخرو ہوسکیں۔‬

‫سوال نمبر‪5‬۔ فرشتوں پر ایمان کی وضاحت کریں؟‬

‫‪:‬فرشتوں پر ایمان النے کا مفہوم‬

‫فرشتوں کے وجود پر دل سے یقین رکھنا اور یہ کہ وہ‪ ،‬بر خالف انسانوں اور جنوں کے‪ ،‬عالم غیبی‬
‫سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ معزز پرہیزگار بندے ہیں‪ ،‬ہللا کی عبودیت بجا التے ہیں‪ ،‬جیسا کہ اس کا‬
‫حق بنتا ہے‪ ،‬ہللا کے احکام کو نافذ کرتے ہیں اورکبھی نافرمانی نہیں کرتے۔‬

‫جیسا کہ ہللا تعالی نے فرمایا‪:‬۔(( بلکہ وہ سب اس کے باعزت بندے ہیں۔ کسی بات میں ہللا پر پیش دستی‬
‫)نہیں کرتے بلکہ اس کے فرمان پر عمل پیرا ہیں)۔ (اال نبیاء ‪27-26 :‬‬

‫ان پر ایمان النا ایمان کے چھ (‪ )6‬ارکان میں سے ایک ہے‪ ،‬ہللا تعالی نے فرمایا ‪:‬۔((رسول ایمان الئے‬
‫اس چیز پر جواس کی طرف ہللا تعالی کی جانب سے اتری اور مومن بھی ایمان الئے‪ ،‬یہ سب ایمان‬
‫الئے ہللا تعالی پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر))۔ (البقرۃ‬
‫)‪285:‬‬

‫آپ ﷺ نے ایمان کے بارے میں فرمایا‪ ((:‬تم ہللا پرایمان الؤ‪ ،‬اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں‬
‫اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر‪ ،‬اور ایمان الؤ تقدیر کے اچھے اور برے پر))۔ (مسلم ‪:‬‬
‫)‪8‬‬

‫فرشتوں پر ایمان النا کن باتوں پر مشتمل ہے؟‬

‫ان کے وجود پر ایمان رکھنا‪ :‬ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ وہ ہللا تعالی کی مخلوق ہیں‪ ،‬ان کا وجود‬
‫حقیقت پر مبنی ہے‪ ،‬انھیں نور سے پیدا فرمایا اور ان کی فطرت میں ڈال دیا کہ وہ اس کی عبادت اور‬
‫اطاعت کریں۔‬
‫‪1.‬‬ ‫جن کے ناموں کا ہمیں علم ہے جیسے جبریل علیہ السالم‪ ،‬ان پر ایمان رکھنا اور جن کے‬
‫ناموں کا ہمیں علم نہیں ہے ان پر مجمل طور پر ایمان رکھنا۔‬

‫•‬ ‫‪ :‬ان کی صفات میں سے جن صفات کا ہمیں علم ہے ان پر ایمان رکھنا‬

‫•‬ ‫وہ عالم غیبی سے تعلق رکھتے ہیں‪،‬ہللا کی عبادت کرنے والی مخلوق ہیں‪ ،‬ہللا تعالی کے بندے‬
‫ہیں‪ ،‬وہ ربوبیت‪ ،‬والوهیت کی کسی چیز کے مالک نہیں‪ ،‬وہ تو ہللا کی اطاعت کے مکمل طور پر تابع‬
‫ہیں جیسا کہ ہللا سبحانہ نے فرمایا‪:‬۔((انہیں جو حکم ہللا تعالی دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ‬
‫)جو حکم دیا جائے بجا التے ہیں))۔ (التحریم ‪6:‬‬

‫•‬ ‫انھیں نور سے پیدا کیا گیا‪،‬آپ ﷺ نے فرمایا ‪((:‬فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا)) (مسلم ‪:‬‬
‫)‪2996‬‬

‫•‬ ‫ان کے پر ہیں‪ ،‬ہللا تعالی نے یہ بات بتائى کہ فرشتوں کے لیے بازو بنائے‪ ،‬یہ اپنی تعداد کے‬
‫لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ہللا سبحا نہ نے فرمایا ‪:‬۔((اس ہللا کے لیے تمام تعریفیں‬
‫الئق وزیبا ہیں جو (ابتداء) آسمانوں اورزمین کا پیدا کرنے واال اور دو دو تین تین چار چار پروں والے‬
‫فرشتوں کو اپنا پیغمبر(قاصد) بنانے واال ہے‪ ،‬مخلوق میں جو چاہے زیادتی کرتا ہے‪ ،‬ہللا تعالی یقینا ہر‬
‫)چیز پر قادر ہے))۔ (فاطر‪1 :‬‬

‫‪1.‬‬ ‫ہللا تعالی کی طرف سے جو کام انھیں سونپے گئے ہیں جن کو ہم جانتے ہیں اس پر ایمان رکھنا‬
‫‪:‬‬

‫•‬ ‫پیغمبروں تک ہللا تعالی کے پیغام پہنچانے کا کام جن کے ذمہ ہے وہ جبریل علیہ السالم ہیں۔‬

‫•‬ ‫جان نکالنے کا کام جن کے ذمہ ہے وہ موت کا فرشتہ اور ان کے مدد گار فرشتے ہیں۔‬

‫•‬ ‫بند وں کے اعمال چاہے وہ خیر ہوں یا شر ہوں ان کو لکھنے اور محفوظ کر نے کا کام ‪-‬کراما‬
‫کاتبین‪( -‬لکھنے والے پاک باز فرشتے) کے ذمہ ہے۔‬

‫‪:‬فرشتوں پر ایمان النے کے فائدے‬

‫بندہ مومن کی زندگی میں فرشتوں پر ایمان النے کے بڑے ہی عظیم فوائد ہیں جن میں سے ہم چند کا‬
‫‪:‬تذکرہ کررہے ہیں‬
‫ہللا کی عظمت وقوت اور کمال قدرت کا اندازہ ہوتا ہے کیو نکہ مخلوق کی عظمت سے خالق‬
‫کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں مؤ من کے نز دیک ہللا کی قدر اوراس کی عظمت‬
‫میں اضافہ ہوتا ہے‪،‬اس حیثیت سے کہ ہللا تعالی نے بازوؤں والے‪ .‬فرشتوں کو نور سےپیدا فرمایا‬
‫‪.1‬ہے۔‬

‫ہللا تعالی کی فرمانبرداری میں استقامت آتی ہے کیونکہ کوئیبھی آدمی جب یہ ایمان رکھتا ہے‬
‫کہ فرشتے اس کے سارے اعمال کو لکھتے ہیں تو یہ بات اس آدمی کے اندر ہللا تعالی کے ڈر کا سبب‬
‫‪.2‬بنتی ہے چنانچہ وہ کھلے اور چھپے اس کی نافرمانی سے بچتا ہے۔‬

‫بندہ مومن ہللا کی فر مانبرداری میں صبر سے کام لیتا ہے اور اسے انسیت واطمینان کا احساس ہوتا ‪.‬‬
‫ہے جب وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ اس بڑی کائنات میں اس کے ساتھ ہزاروں فرشتے ہیں جو ہللا تعالی‬
‫‪.3‬کی فرمانبرداری احسن واکمل طریقے سے انجام دیتے ہیں۔‬

‫انسانوں پر ہللا تعالی کی عنایت کی بدولت اس کا شکر بجا النا‪ ،‬جب کہ فرشتوں میں بعض کو انسانوں کی حفاظت کا کام سونپا‬
‫‪.4‬ہے۔‬

You might also like