You are on page 1of 20

‫‪ANS 01‬‬

‫دین اسالم پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول ہللا ﷺ پر ج و کچھ بط ور دین ن ازل ہ وا ہے ننہ ص رف‬
‫اس کی تصدیق کی جائے بلکہ (دل سے)اسے قبول کرن ا اور اس کی پ یروی کرن ا بھی ض روری ہے۔‬
‫چنانچہ رسول ہللا ﷺ جو دین لےکرآئےتھے اس کی تص دیق ‪،‬اور اس ب ات کی گ واہی کہ یہ دین تم ام‬
‫دین وں س ے بہ تر ہے‪،‬ایم ان ک ا الزمی ج زہے۔یہی وجہ ہے کہ اب و ط الب رس ول ہللا ﷺ پ ر ایم ان‬
‫کے۔‬ ‫وس‬ ‫امل نہیں ہ‬ ‫وں میں ش‬ ‫النےوال‬

‫دین اسالم ان تمام مصلحتوں ک ا ض امن ہے جن کی ض مانت س ابقہ ادی ان میں موج ود تھی۔اس دین کی‬
‫امتیازی خصوص یات یہ ہے کہ یہ ہرزم انہ ‪،‬ہ ر جگہ ہ ر امت کے ل یے درس ت اور قاب ل عم ل ہے۔ہللا‬
‫اہے‪:‬‬ ‫وئے فرمات‬ ‫اطب کرتےہ‬ ‫و مخ‬ ‫ول (ﷺ)ک‬ ‫نے رس‬ ‫الی اپ‬
‫ٰ‬ ‫تع‬
‫ِه ۖ‬ ‫ِه ِمنَ ٱ ْل ِك ٰتَ ِ‬
‫ب َو ُمهَ ْي ِمنًا َعلَ ْي‬ ‫ِّدقًۭا لِّ َما بَ ْينَ يَ َد ْي‬ ‫ص‬
‫ق ُم َ‬ ‫كَ ٱ ْل ِك ٰتَ َ‬
‫ب بِٱ ْل َح ِّ‬ ‫آ ِإلَ ْي‬ ‫َوَأ ْ‬
‫نزَلنَ‬

‫اور ہم نے آپ کی ط رف ای ک ایس ی کت اب ب ازل کی ہے ج و خ ود بھی س چائی کے س اتھ موص وف‬


‫ہے‪،‬اور اس س ےپہلےجو(آس مانی)کت ابیں ہیں ان کی بھی تص دیق ک رتی ہے اور ان کی محاف ظ ہے۔‬
‫دہ آیت ‪)48‬‬ ‫ورۂ المائ‬ ‫(س‬
‫ہر دور‪،‬ہر جگہ اور ہر امت کے لیے دین اسالم کے درست اور قابل عمل ہ ونے س ے م راد یہ ہے کہ‬
‫اس دین کے ساتھ مضبوط تعلق کسی بھی زمانہ ‪،‬مقام اور قوم کی مصلحتوں کے ہر گز منافی نہیں ہ و‬
‫سکتا بلکہ یہ تو ان کے عین مطابق ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دین ہر دور ‪،‬ہ ر جگہ اور ہ ر ق وم‬
‫مجھتے ہیں۔‬ ‫وگ س‬ ‫ا کہ بعض کج فہم ل‬ ‫ابع ہے‪،‬جیس‬ ‫ات‬ ‫ک‬
‫الی نے‬
‫دین اسالم بالکل سچا اور برحق دین ہے ‪،‬جو اس کے دامن کو مضبوطی س ے تھ ام لے ‪،‬ہللا تع ٰ‬
‫الی ک ا ارش اد ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫اس کی مددفرمانےاوراس ے غ الب ک رنے کی ض مانت دی ہے‪،‬ہللا تع‬
‫ق لِي ْ‬
‫ُظهِ َرهُۥ َعلَى ٱل دِّي ِن ُكلِّ ِهۦ َولَ وْ َك ِرهَ ٱ ْل ُم ْش ِر ُكونَ‬ ‫ين ٱ ْل َح ِّ‬
‫ى َأرْ َس َل َر ُس ولَهُۥ بِٱ ْلهُ َد ٰى َو ِد ِ‬
‫هُ َو ٱلَّ ِذ ٓ‬
‫ہللا وہی ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے ت اکہ اس ے تم ام دین وں‬
‫پ ر غ الب ک ردے‪،‬خ واہ مش رکین ک ویہ کتن ا ہی ن اگوار ہ و۔ (س ورہ الص ف‪،‬آیت ‪)9‬‬

‫ت لَيَ ْس ت َْخلِفَنَّهُ ْم فِى ٱَأْلرْ ِ‬


‫ض َك َما ٱ ْس ت َْخلَفَ ٱلَّ ِذينَ ِمن قَ ْبلِ ِه ْم َولَيُ َم ِّكن ََّن‬ ‫َو َع َد ٱهَّلل ُ ٱلَّ ِذينَ َءا َمنُوا۟ ِمن ُك ْم َو َع ِملُ وا۟ ٱ ٰ َّ‬
‫لص لِ ٰ َح ِ‬
‫ض ٰى لَهُ ْم َولَيُبَ ِّدلَنَّهُم ِّمنۢ بَ ْع ِد خَ وْ فِ ِه ْم َأ ْمنًۭ ا ۚ يَ ْعبُدُونَنِى اَل ي ُْش ِر ُكونَ بِى َش ْيًۭـٔا ۚ َو َمن َكفَ َر بَ ْع َد‬ ‫لَهُ ْم ِدينَهُ ُم ٱلَّ ِذى ٱرْ تَ َ‬
‫ٓ‬
‫قُون‬ ‫ٰ َذلِكَفَُأو۟ ٰلَِئ َ‬
‫ك هُ ُم ٱ ْل ٰفَ ِس‬
‫الی وع دہ فرم ا‬
‫تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایم ان الئے ہیں اور نی ک اعم ال ک رتے ہیں‪،‬ہللا تع ٰ‬
‫چکے ہیں کہ ان ک وزمین میں خالفت عط ا فرم ائے جس ط رح ان س ے پہلے (اہ ل ہ دایت)لوگ وں ک و‬
‫الی نے)انکےلیےپس ندفرمایاہےاس دین ک و ان کے ل یے‬
‫خالفت عطا کی تھی اور جس دین ک و (ہللا تع ٰ‬
‫جما دے گا‪،‬اور ان کے خوف و خطر کو امن و امان میں بدل دےگا۔پس وہ میری عب ادت ک ریں‪،‬م یرے‬
‫ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کے بعد بھی جو کفر کریں وہ یقینا فاسق ہیں۔‪ ‬‬
‫‪ANS 02‬‬
‫ال الہ‪ ‬میں‪ ‬ال‪ ‬الئے نفی جنس ہے اور‪ ‬الہ‪ ‬اس ک ا اس م ہے اور خ بر مخ ذوف ہے ‪،‬یع نی‪ ‬ال الہ‪ ‬حق (نہیں‬
‫ہے کوئی معبود برحق)اال ہللا(مگر ہللا)یہ خبر (حق)سے استثناء ہے۔الہ‪ ‬کے معنی ہیں‪،‬وہ ذات جس کی‬
‫عبادت میں دل و ارفتہ ہو ۔یعنی اس کی طرف دل مائل ہوں اور حصول نفع یا دفع ض ر کے ل ئے اس ی‬
‫کی طرف رجوع اور رغبت کریں۔یہ کلمہ اثبات اور نفی دو چیزوں کا مجموعہ ہے۔تمام مخلوقات سے‬
‫الی ہی معب ود برح ق ہےاور اس کے‬
‫ال وہیت کی نفی اور ہللا کے ل ئے ال وہیت ک ا اثب ات۔یع نی ہللا تع ٰ‬
‫ل ہیں۔‬ ‫ب باط‬ ‫ا رکھے ہیں س‬ ‫ود بن‬ ‫نے بھی معب‬ ‫رکین نے جت‬ ‫س‬ ‫وا ‪،‬مش‬
‫ٰ َذلِكَ بَِأ َّن ٱهَّلل َ هُ َو ٱ ْل َح ُّ‬
‫ق َوَأ َّن َما يَ ْد ُعونَ ِمن ُدونِ ِهۦ هُ َو ٱ ْل ٰبَطِ ُل َوَأ َّن ٱهَّلل َ هُ َو ٱ ْل َعلِ ُّى ٱ ْل َكبِي ُر‪﴾62﴿ ‬‬
‫ترجمعہ‪ :‬یہ اس لیے کہ حق هللا ہی کی ہستی ہے اور جنہیں اس کے سوا پکارتے ہیں وہ باط ل ہیں اور‬
‫ورہ الحج‪،‬آیت ‪)62‬‬ ‫ڑائی واال ہے (س‬ ‫رتبہ ب‬ ‫دم‬ ‫ک هللا ہی بلن‬ ‫بے ش‬
‫یہ ترکیب جس میں پہلے نفی ہے پھر اثبات ‪،‬مثبت ترکیب ہللا الہ (ہللا معبود ہے)سے زی ادہ بلی غ‪،‬م وژر‬
‫اور مفہوم کو زیادہ واضح کرنے والی ہے۔اس لئے کہ مثبت ترکیب ہللا کی ال وہیت ک ا اثب ات ت و ک رتی‬
‫ہے لیکن ماسوا ہللا کی الوہیت کی نفی نہیں کرتی‪،‬جبکہ ال الہ اال ہللا کی ترکیب ‪،‬الوہیت ک و ص رف ہللا‬
‫کے لئے خاص اور دوسروں کی الوہیت کی نفی ک ر دی تی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ق رآن مجی د میں جہ اں‬
‫بھی ہللا کی عبادت کا حکم ہے تو بالعموم ساتھ ہی غ یروں کی عب ادت کی نفی بھی ہے ۔جیس ے فرمایا‪:‬‬
‫ار ِذى ٱ ْلقُ رْ بَ ٰى‬ ‫ٰ‬
‫َوٱ ْعبُ ُدوا۟ ٱهَّلل َ َواَل تُ ْش ِر ُكوا۟ بِ ِهۦ َش يْا ۖ َوبِٱ ْل ٰ َولِ َدي ِْن ِإحْ ٰ َس نًۭا َوبِ ِذى ٱ ْلقُ رْ بَ ٰى َوٱ ْليَتَ َم ٰى َوٱ ْل َم ٰ َس ِكي ِن َوٱ ْل َج ِ‬
‫ت َأ ْي ٰ َمنُ ُك ْم ۗ ِإ َّن ٱهَّلل َ اَل يُ ِحبُّ َمن َكانَ ُم ْختَالًۭا فَ ُخو ًرا﴿‪﴾36‬‬ ‫يل َو َما َملَ َك ْ‬‫ب َوٱ ْب ِن ٱل َّسبِ ِ‬ ‫ب بِٱ ْل َجنۢ ِ‬‫ب َوٱلصَّا ِح ِ‬ ‫ار ٱ ْل ُجنُ ِ‬
‫َوٱ ْل َج ِ‬
‫ترجمعہ‪ :‬اور ہللا ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو ش ریک نہ بن اؤ اور م اں ب اپ اور‬
‫قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسائیوں اور اجن بی ہمس ائیوں اور رفق ائے پہل و‬
‫(یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہ وں س ب کے س اتھ احس ان‬
‫کرو کہ خدا (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبر کرنے والے بڑائی م ارنے والے ک و‬
‫اء‪،‬آیت ‪)36‬‬ ‫ورہ النس‬ ‫ا (س‬ ‫ت نہیں رکھت‬ ‫دوس‬
‫ت َويُْؤ ِمنۢ بِٱهَّلل ِ فَقَ ِد ٱ ْستَ ْم َسكَ بِٱ ْلعُرْ َو ِة ٱ ْل ُو ْثقَ ٰى اَل‬ ‫ٰ‬
‫ِّين ۖ قَد تَّبَيَّنَ ٱلرُّ ْش ُد ِمنَ ٱ ْل َغ ِّى ۚ فَ َمن يَ ْكفُرْ بِٱلطَّ ُغو ِ‬
‫آَل ِإ ْك َراهَ فِى ٱلد ِ‬
‫ِمي ٌع َعلِي ٌم‪﴾256﴿ ‬‬ ‫ا َم لَهَا ۗ َوٱهَّلل ُ َس‬ ‫ص‬
‫ٱنفِ َ‬
‫ترجمعہ‪ :‬دین کے معاملے میں زبردستی نہیں ہے بے شک ہدایت یقینا ً گمراہی سے ممتاز ہ و چکی ہے‬
‫پھر جو شخص شیطان کو نہ مانے اور هللا پر ایمان الئے ت و اس نے مض بوط حلقہ پک ڑ لی اجو ٹوٹ نے‬
‫رہ‪،‬آیت ‪)256‬‬ ‫ورہ البق‬ ‫اننے واال ہے (س‬ ‫ننے واال ج‬ ‫واال نہیں اور هللا س‬
‫ٰ‬
‫لطَّ ُغ وتَ ۖ فَ ِم ْنهُم َّم ْن هَ دَى ٱهَّلل ُ َو ِم ْنهُم َّم ْن َحقَّ ْ‬
‫ت َعلَ ْي ِه‬ ‫َولَقَ ْد بَ َع ْثنَا فِى ُك ِّل ُأ َّم ٍةۢ ر ُ‬
‫َّس واًل َأ ِن ٱ ْعبُ ُدو۟ا ٱهَّلل َ َوٱجْ تَنِبُ وا۟ ٱ‬
‫ِّذبِينَ‪﴾36﴿ ‬‬ ‫ةُ ٱ ْل ُم َك‬ ‫انَ ٰ َعقِبَ‬ ‫فَ َك‬ ‫ٱنظُرُوا۟ َك ْي‬ ‫يرُوا۟ فِى ٱَأْلرْ ِ‬
‫ض فَ‬ ‫ٰلَلَةُ ۚ فَ ِس‬ ‫ٱ َّ‬
‫لض‬
‫ترجمعہ‪ :‬اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ خ دا ہی کی عب ادت ک رو اور بت وں (کی پرس تش)‬
‫سے اجتناب کرو۔ تو ان میں بعض ایس ے ہیں جن ک و خ دا نے ہ دایت دی اور بعض ایس ے ہیں جن پ ر‬
‫گمراہی ثابت ہوئی۔ سو زمین پ ر چ ل پھ ر ک ر دیکھ ل و کہ جھٹالنے وال وں ک ا انج ام کیس ا ہ وا (س ورہ‬
‫ل‪،‬آیت ‪)36‬‬ ‫النح‬
‫طاغوت کیا ہے جس سے بچنے کا حکم ہے ؟ہللا کے سوا جس کی بھی عبادت یا اطاعت کی جائے ‪،‬وہ‬
‫طاغوت ہے۔یہ ضروری ہے کہ ہللا کی عبادت اور اطاعت کے ساتھ طاغوت کی عبادت سےانکار اور‬
‫لم نے فرمایا‪:‬‬ ‫لی ہللا علیہ وس‬ ‫بی ک ریم ص‬ ‫دیث میں بھی ن‬ ‫ائے۔اور ح‬ ‫اج‬ ‫اب کی‬ ‫اجتن‬
‫" جس نے کہاہللا کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہللا کے سوا جن کی عبادت کی جاتی ہے ان سب کا اس‬
‫لم)‬ ‫حیح مس‬ ‫ا۔"(ص‬ ‫و گی‬ ‫وظ ہ‬ ‫ان محف‬ ‫ال اور ج‬ ‫ام‬ ‫و اس ک‬ ‫ات‬ ‫ار کی‬ ‫نے انک‬
‫ام دیا‪:‬‬ ‫و یہی پیغ‬ ‫وم ک‬ ‫نی ق‬ ‫بر نے بھی اپ‬ ‫ر پیغم‬ ‫اور ہ‬
‫َظ ٍيمۢ‪﴾59﴿ ‬‬ ‫ال ٰيَقَوْ مِ ٱ ْعبُ ُدوا۟ ٱهَّلل َ َما لَ ُكم ِّم ْن ِإ ٰلَ ٍه َغ ْي ُرهُۥ ِإنِّ ٓى َأخَ ُ‬
‫اف َعلَ ْي ُك ْم َع َذ َ‬
‫اب يَ وْ ٍم ع ِ‬ ‫لَقَ ْد َأرْ َس ْلنَا نُوحًا ِإلَ ٰى قَوْ ِم ِهۦ فَقَ َ‬
‫ترجمعہ‪ :‬بے شک ہم نے نوح کو اس کی ق وم کی ط رف بھیج ا پس اس نے کہ ا اے م یری ق وم هللا کی‬
‫بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں میں تم پ ر ای ک ب ڑے دن کے ع ذاب س ے ڈرت ا ہ وں‬
‫راف‪،‬آیت ‪)59‬‬ ‫ورہ االع‬ ‫(س‬
‫اور یہی وجہ ہے کہ جب رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے مشرکین مکہ سے کہا کہ "ال الہ اال ہللا" کا‬
‫وں نے کہا‪:‬‬ ‫و انہ‬ ‫و ‪،‬ت‬ ‫رل‬ ‫رار ک‬ ‫اق‬
‫ابٌ ۭ‪﴾٥﴿ ‬‬ ‫ْى ٌء ُع َج‬ ‫َذا لَ َش‬ ‫ا ٰ َوحِ دًا ۖ ِإ َّن ٰهَ‬ ‫ةَ ِإ ٰلَهًۭ‬ ‫َل ٱلْ َءالِهَ‬ ‫َأ َج َع‬
‫ترجمعہ‪ :‬کیا اس نے کئی معبودوں کو صرف ای ک معب ود بنای ا ہے بے ش ک یہ ب ڑی عجیب ب ات ہے‬
‫ورہ ص‪،‬آیت ‪)5‬‬ ‫(س‬
‫اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ اس کلمے کے اقرار کا مطلب ایک ہللا کی‬
‫عبادت اور تمام بتوں کی عبادت کی نفی ہے۔اور یہ بات ان ک و پس ند نہیں تھی۔اس ل یے اس کے اق رار‬
‫سے انہوں نے گریز کیا۔‬
‫جب "ال الہ اال ہللا"کے سب قائلین اس کے معنی ومفہوم کو پ ورے ط ور پ ر س مجھتے ہ وئے اس کے‬
‫تقاضوں ک و ب رائے ک ار الئیں گے ‪،‬ت و وہ س ب ای ک ہی معب ود کے پرس تار اور ای ک ہی مط اع کے‬
‫اطاعت گزار ہوں گے۔عقیدہ و عمل کی یہ وحدانیت‪،‬توحید کا سب سے بڑا ثمرہ اور فائدہ ہے۔اس س ے‬
‫سب مسلمان ای ک کلمے پ ر مجتم ع‪،‬تس بیح کے دان وں کی ط رح ای ک ہی ل ڑی میں پ روئے ہ وئے او‬
‫ردشمن کے مقابلے میں ایک دوسرے کے دست و بازو اور معاون ہوں گے۔جیسے قرٓان مجی د میں ہللا‬
‫ا ہے‪:‬‬ ‫و حکم دی‬ ‫لمانوں ک‬ ‫الی نے مس‬
‫ٰ‬ ‫ارک و تع‬ ‫تب‬
‫َص ُموا۟ بِ َح ْب ِل ٱهَّلل ِ َج ِمي ًعۭا َواَل تَفَ َّرقُوا۟ ۚ َوٱ ْذ ُكرُوا۟ نِ ْع َمتَ ٱهَّلل ِ َعلَ ْي ُك ْم ِإ ْذ ُكنتُ ْم َأ ْعدَآ ًءۭ فَ َألَّفَ بَ ْينَ قُلُ وبِ ُك ْم فََأ ْ‬
‫ص بَحْ تُم‬ ‫َوٱ ْعت ِ‬
‫ار فََأنقَ َذ ُكم ِّم ْنهَا ۗ َك َذٰلِ َ‬
‫ك يُبَي ُِّن ٱهَّلل ُ لَ ُك ْم َءا ٰيَتِ ِهۦ لَ َعلَّ ُك ْم تَ ْهتَ ُدونَ ﴿‪﴾103‬‬ ‫بِنِ ْع َمتِ ِهۦ ِإ ْخ ٰ َونًۭ ا َو ُكنتُ ْم َعلَ ٰى َش فَا ُح ْف َر ٍةۢ ِّمنَ ٱلنَّ ِ‬
‫ت رجمعہ‪ :‬اور س ب م ل ک ر ہللا کی رس ی ک و مض بوط پک ڑے رہن ا اور متف رق نہ ہون ا اور ہللا کی اس‬
‫مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دش من تھے ت و اس نے تمہ ارے دل وں میں الفت ڈال دی‬
‫اور تم اس کی مہربانی سے بھ ائی بھ ائی ہوگ ئے اور تم آگ کے گ ڑھے کے کن ارے ت ک پہنچ چکے‬
‫تھے تو تم کو اس سے بچا لیا اس طرح ہللا تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پ اؤ‬
‫ران‪،‬آیت ‪)103‬‬ ‫ورہ آل عم‬ ‫(س‬
‫عقیدہ توحید کو اپنائے بغیرقرٓان کے اس حکم پر عمل ممکن نہیں۔صحابہ ک رام رض ی ہللا عنہ نے اس‬
‫عقیدے کو صحیح معنوں میں اپنایا تو وہ ایک ہو گئے‪،‬جب کہ پہلے وہ ج دا ج دا تھے‪،‬وہ بھ ائی بھ ائی‬
‫بن گئے جب کہ پہلے وہ ایک دوسرے کے دشمن تھے ‪،‬وہ ایک دوسرے پ ر رحم و ک رم ک رنے والے‬
‫تعالی نے ان کی اس باہمی الفت‬
‫ٰ‬ ‫بن گئے ‪،‬جب کہ پہلے وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ہللا‬
‫ارے میں فرمایا‪:‬‬ ‫و محبت کے ب‬
‫ٰ‬
‫ض َج ِمي ًعۭا َّمآ َألَّ ْفتَ بَ ْينَ قُلُوبِ ِه ْم َولَ ِك َّن ٱهَّلل َ َألَّفَ بَ ْينَهُ ْم ۚ ِإنَّهُۥ ع ِ‬
‫َزي ٌز َح ِكي ٌمۭ ﴿‬ ‫َوَألَّفَ بَ ْينَ قُلُوبِ ِه ْم ۚ لَوْ َأنفَ ْقتَ َما فِى ٱَأْلرْ ِ‬
‫‪﴾63‬‬
‫ترجمعہ‪ :‬اور ان کے دلو ں میں الفت ڈال دی جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ ک ر دیت ا ان کے‬
‫دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن هللا نے ان میں الفت ڈال دی بے شک هللا غالب حکمت واال ہے (سورہ‬
‫ال‪،‬آیت ‪)63‬‬ ‫االنف‬
‫ہللا نے یہ الفت کس طرح ڈالی ؟اس عقیدہ توحید کے ذریعے سے۔اس نے انہیں اس عقی دے ک و اپن انے‬
‫کی توفیق دیاور یہ کلمہ توحید ان کی وح دت اور ب اہمی الفت ک ا ذریعہ بن گی ا۔ق رٓان ک ریم میں ہللا نے‬
‫رح فرمایا‪:‬‬ ‫ر اس ط‬ ‫ام پ‬ ‫رے مق‬ ‫ر دوس‬ ‫ا ذک‬ ‫ان اور حقیقت ک‬ ‫نے اس احس‬ ‫اپ‬
‫َص ُموا۟ بِ َحب ِْل ٱهَّلل ِ َج ِمي ًعۭا َواَل تَفَ َّرقُوا۟ ۚ َوٱ ْذ ُكرُوا۟ نِ ْع َمتَ ٱهَّلل ِ َعلَ ْي ُك ْم ِإ ْذ ُكنتُ ْم َأ ْعدَآ ًءۭ فَ َألَّفَ بَ ْينَ قُلُ وبِ ُك ْم فََأ ْ‬
‫ص بَحْ تُم‬ ‫َوٱ ْعت ِ‬
‫ار فََأنقَ َذ ُكم ِّم ْنهَا ۗ َك ٰ َذلِ َ‬
‫ك يُبَي ُِّن ٱهَّلل ُ لَ ُك ْم َءا ٰيَتِ ِهۦ لَ َعلَّ ُك ْم تَ ْهتَ ُدونَ ﴿‪﴾103‬‬ ‫بِنِ ْع َمتِ ِهۦ ِإ ْخ ٰ َونًۭ ا َو ُكنتُ ْم َعلَ ٰى َش فَا ُح ْف َر ٍةۢ ِّمنَ ٱلنَّ ِ‬
‫ت رجمعہ‪ :‬اور س ب م ل ک ر ہللا کی رس ی ک و مض بوط پک ڑے رہن ا اور متف رق نہ ہون ا اور ہللا کی اس‬
‫مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دش من تھے ت و اس نے تمہ ارے دل وں میں الفت ڈال دی‬
‫اور تم اس کی مہربانی سے بھ ائی بھ ائی ہوگ ئے اور تم آگ کے گ ڑھے کے کن ارے ت ک پہنچ چکے‬
‫تھے تو تم کو اس سے بچا لیا اس طرح ہللا تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پ اؤ‬
‫ران‪،‬آیت ‪)103‬‬ ‫ورہ آل عم‬ ‫(س‬
‫وں دی‪:‬‬ ‫واہی ی‬ ‫اہمی الفت اور رحم دلی کی گ‬ ‫ر ان کی ب‬ ‫ام پ‬ ‫ک اور مق‬ ‫ہللا نے ای‬
‫ض لًۭا ِّمنَ ٱهَّلل ِ‬
‫ار ُر َحمَ آ ُء بَ ْينَهُ ْم ۖ تَ َر ٰىهُ ْم ُر َّك ًعۭ ا ُس َّج ًدۭا يَ ْبتَ ُغ ونَ فَ ْ‬ ‫َّس و ُل ٱهَّلل ِ ۚ َوٱلَّ ِذينَ َم َعهُۥ َأ ِش َّدآ ُء َعلَى ٱ ْل ُكفَّ ِ‬
‫ُّم َح َّم ٌدۭ ر ُ‬
‫ع َأ ْخ َر َج‬ ‫ك َمثَلُهُ ْم فِى ٱلتَّوْ َر ٰى ِة ۚ َو َمثَلُهُ ْم فِى ٱِإْل ن ِجي ِل َك زَرْ ٍ‬ ‫َو ِرضْ ٰ َونًۭا ۖ ِسي َماهُ ْم فِى ُوجُو ِه ِهم ِّم ْن َأثَ ِر ٱل ُّسجُو ِد ۚ ٰ َذلِ َ‬
‫ْجبُ ٱل ُّزرَّا َع لِيَ ِغيظَ بِ ِه ُم ٱ ْل ُكفَّ َ‬
‫ار ۗ َو َع َد ٱهَّلل ُ ٱلَّ ِذينَ َءا َمنُ وا۟ َو َع ِملُ وا۟‬ ‫طهُۥ فَازَ َرهُۥ فَٱ ْستَ ْغلَظَ فَٱ ْس تَ َو ٰى َعلَ ٰى ُس وقِ ِهۦ يُع ِ‬ ‫َش ْ‬
‫ا ﴿‪﴾29‬‬ ‫رًا َع ِظي ًمۢ‬ ‫فِرةًۭ َوَأجْ‬
‫َ‬ ‫لِ ٰ َح ِ‬
‫ت ِم ْنهُم َّم ْغ‬ ‫ٱ ٰ َّ‬
‫لص‬
‫ترجمعہ‪ :‬محمد هللا کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں کف ار پ ر س خت ہیں آپس میں رحم دل‬
‫ہیں تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع و سجود کر رہے ہیں هللا کا فضل اوراس کی خوش نودی تالش ک رتے‬
‫ہیں ان کی شناخت ان کے چہرو ں میں سجدہ کا نشان ہے یہی وصف ان کا تو رات میں ہے اور انجیل‬
‫میں ان کا وصف ہے مثل اس کھیتی کے جس نے اپنی سوئی نکالی پھر اسے ق وی ک ر دی ا پھ ر م وٹی‬
‫ہوگئی پھر اپنے تنہ پر کھڑی ہوگئی کسانوں کو خوش ک رنے لگی ت اکہ هللا ان کی وجہ س ے کف ار ک و‬
‫غصہ دالئے هللا ان میں سے ایمان داروں اورنیک کام کرنے والوں کے لیے بخشش اور اجر عظیم ک ا‬
‫ورہ الفتح ‪،‬آیت ‪)29‬‬ ‫ا ہے (س‬ ‫دہ کی‬ ‫وع‬
‫آج مسلمانوں کے درمیان باہمی الفت ومحبت کیوں نہیں؟اس کی سب سے ب ڑی وجہ "ال الہ اال ہللا"کے‬
‫مقتضیات سے انحراف اور وحدت عقیدہ کا فقدان ہے۔حاالنکہ ہللا نے اس تفریق کی سختی س ے م ذمت‬
‫ر کے فرمایا‪:‬‬ ‫اب ک‬ ‫ے خط‬ ‫بر س‬ ‫نے پیغم‬ ‫ائی تھی۔ہللا نے اپ‬ ‫ان فرم‬ ‫بی‬
‫ِإ َّن ٱلَّ ِذينَ فَ َّرقُوا۟ ِدينَهُ ْم َو َكانُوا۟ ِشيَ ًعۭا لَّسْتَ ِم ْنهُ ْم فِى َش ْى ٍء ۚ ِإنَّ َمآ َأ ْم ُرهُ ْم ِإلَى ٱهَّلل ِ ثُ َّم يُنَبُِّئهُم بِ َما َكانُوا۟ يَ ْف َعلُونَ ﴿‪﴾159‬‬
‫ترجمعہ‪ :‬جن لوگوں نے اپنے دین میں (بہت سے) رستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہ و گ ئے ان س ے‬
‫تم کو کچھ کام نہیں ان کا کام خدا کے حوالے پھر جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ ان ک و (س ب) بت ائے‬
‫ام‪،‬آیت ‪)159‬‬ ‫ورہ االنع‬ ‫ا (س‬ ‫گ‬
‫یے ہللا نے فرمایا‪:‬‬ ‫ازوں کے ل‬ ‫قب‬ ‫ے تفری‬ ‫ایس‬
‫ونَ ﴿‪﴾53‬‬ ‫َد ْي ِه ْم فَ ِر ُح‬ ‫بۭ بِ َما لَ‬ ‫ْ‬
‫حِز ٍ‬ ‫لُّ‬ ‫ًرۭا ۖ ُك‬ ‫َرهُم بَ ْينَهُ ْم ُزبُ‬ ‫ٓوا۟ َأ ْم‬ ‫فَتَقَطَّ ُع‬
‫ترجمعہ‪ :‬پھر انہوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پ و ج و‬
‫ون‪،‬آیت ‪)53‬‬ ‫ورہ الموم‬ ‫ونے والے ہیں (س‬ ‫وش ہ‬ ‫اس ہے خ‬ ‫ان کے پ‬
‫یہ تفریق دین یا تفریق کلمہ ‪،‬الہ واحد کی وبوبیت و الوہیت سے انحراف ہی کے نتیجے میں ظہور پذیر‬
‫ے پہلے ہللا نے فرمایا‪:‬‬ ‫انچہ اس آیت س‬ ‫وتی ہے۔چن‬ ‫ہ‬
‫ٱتَّقُ ِ‬
‫ون ﴿‪﴾52‬‬ ‫ِذ ِهۦ ُأ َّمتُ ُك ْم ُأ َّمةًۭ ٰ َوحِ َدةًۭ َوَأنَا۠ َربُّ ُك ْم فَ‬ ‫َوِإ َّن ٰهَ‬
‫ترجمعہ‪ :‬اور بے شک یہ تمہاری جماعت ای ک ہی جم اعت ہے اور میں تم س ب ک ا رب ہ وں پس مجھ‬
‫ون‪،‬آیت ‪)52‬‬ ‫ورہ الموم‬ ‫ے ڈرو (س‬ ‫س‬
‫معلوم ہوا کہ وحدت امت کی بنیاد وح دت عقی دہ یع نی رب واح د ہی س ے ڈرن ا اور اس ی کی عب ادت و‬
‫اط اعت کرن ا ہے۔جب س ب ای ک ہی رب کے پج اری اور ای ک ہی رب کے فرم انبردار ہ وں گے ت و‬
‫عقیدے کی اس وحدت سے زندگی کے ہر شعبے میں وح دت کی جل وہ گ ری ہ و گی۔ان کی عب ادت ک ا‬
‫طریقہ ایک ہو گا‪،‬ان کااخالق و کردار ایک ہو گا‪،‬ان کے حالل و حرام کے پیم انے ای ک ہ وں گے‪،‬ان‬
‫کا دشمن ایک ہ و گ ا یع نی ص رف وہ ج و الہ واح د کی عب ادت و اط اعت س ے انک ار ک رنے واال اور‬
‫دوسرے معبودوں کا پرستار ہو گا۔اس طرح عقیدہ توحید سے انسانی معاشرہ امن اخوت کی عط ر ب یز‬
‫ہواؤں سے معمور اور باہم ظلم و عدوان سے مامون(پاک )ہو گا۔اس باہم اتفاق و اتح اد ہی س ے دش من‬
‫بھی لرزاں و ترساں ہو گا اور یہ اجتماعی قوت ہی‪،‬جس کے ساتھ ہللا کی تائید اور نصرت بھی ہو‪،‬دنی ا‬
‫میں عزت و سرفرازی کی اور اختیار و اقتدار س ے س ے بہ رہ ور ہ ونے کی بنی اد ہے۔جیس ے ہللا نے‬
‫فرمایا‪:‬‬

‫ت لَيَ ْس ت َْخلِفَنَّهُ ْم فِى ٱَأْلرْ ِ‬


‫ض َك َما ٱ ْس ت َْخلَفَ ٱلَّ ِذينَ ِمن قَ ْبلِ ِه ْم َولَيُ َم ِّكن ََّن‬ ‫َو َع َد ٱهَّلل ُ ٱلَّ ِذينَ َءا َمنُوا۟ ِمن ُك ْم َو َع ِملُ وا۟ ٱ ٰ َّ‬
‫لص لِ ٰ َح ِ‬
‫ض ٰى لَهُ ْم َولَيُبَ ِّدلَنَّهُم ِّمنۢ بَ ْع ِد َخوْ فِ ِه ْم َأ ْمنًۭا ۚ يَ ْعبُ ُدونَنِى اَل يُ ْش ِر ُكونَ بِى َشيْا ۚ َو َمن َكفَ َر بَ ْع َد ٰ َذلِكَ‬
‫لَهُ ْم ِدينَهُ ُم ٱلَّ ِذى ٱرْ تَ َ‬
‫ٓ‬
‫قُونَ ﴿‪﴾٥٥‬‬ ‫فَُأو۟ ٰلَِئ َ‬
‫ك هُ ُم ٱ ْل ٰفَ ِس‬
‫ترجمعہ‪ :‬هللا نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان الئے اور نیک عم ل ک یے کہ انہیں‬
‫ضرور ملک کی حکومت عطا کرے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو عط ا کی تھی اور ان کے ل یے جس‬
‫دین کو پسند کیا ہے اسے ضرور مستحکم کر دے گا اور البتہ ان کے خوف ک و امن س ے ب دل دے گ ا‬
‫بشرطیکہ میری عبادت ک رتے رہیں اور م یرے س اتھ کس ی ک و ش ریک نہ ک ریں اور ج واس کے بع د‬
‫ور‪،‬آیت ‪)55‬‬ ‫ورہ الن‬ ‫وں گے (س‬ ‫قہ‬ ‫رے وہی فاس‬ ‫کری ک‬ ‫ناش‬
‫اولی میں پ ورا فرمای ا۔کی ونکہ اس دور کے‬
‫الی نے اپن ا یہ وع دہ اس الم کے ق رون ٰ‬
‫ہللا تب ارک و تع ٰ‬
‫مسلمانوں نے اس شرط کو پورا کر دکھایا ‪،‬انہوں نے ایمان اور عمل صالح کی زندگی بھی اختی ار کی‬
‫اور صرف الہ واحد کی عبادت کا اہتمام بھی کیا ‪،‬شرک کے تمام مظاہر کو انہوں نے اکھ اڑ پھینک ا۔ہللا‬
‫نے ان کو اس کے ببدلے میں دنیا و آخرت کی سعادتوں اور کامیابیوں سے ہمکنار کیا۔آج مسلمان اپنے‬
‫عہد رفتہ کی سی عظمت و کامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے وہی نسخہ کیمی اء ہے ج و‬
‫صحابہ و تابعین نے استعمال کیا تھا۔ایمان اور عمل والی زندگی اور بے غبار عقیدہ توحید اور اس کے‬
‫تعالی عمل کی توفیق سے نوازے۔‬
‫ٰ‬ ‫مقتضیات پر عمل۔ہللا‬
‫‪ANS 03‬‬
‫‪ ‬ہللا تعالی کی بندگی اور اطاعت کا نام آتے ہی فطری طور پر ہللا تعالی کے احکام اور رضا ک ا‬
‫سوال سامنے آکھڑا ہوجاتا ہی۔ کیونکہ جب بھی ایک انس ان اپ نے پروردگ ار ک ا اط اعت گ زار بن ک ر‬
‫رہنے کا فیصلہ کرے گا تو وہ جاننا چ اہے گ ا کہ اس کے مال ک کے احک ام کی ا ہی ں۔ وہ کن ب اتوں ک و‬
‫پسند کرتا ہے اور کن باتوں کو ناپسند کرتا ہے۔ اس کا وفادار رہنے کے لئے اسے کیا کرنا چاہئے اور‬
‫اس کی نافرمانی سے محفوظ رہنے کے لئے اسے کیا کرن ا چ اہئے۔ ان س اری ب اتوں ک و ج انے بغ یر‬
‫ت الہی کی راہ میں پہال قدم نہیں اٹھایا جاسکتا۔ اس صورت حال ک ا واض ح مط البہ یہ تھ ا کہ اس‬
‫اطاع ِ‬
‫معاملے میں انسان کو بھٹکنے کے لئے چھ وڑنے کے بج ائے اس کی رہنم ائی کی ج اتی کی ونکہ اس‬
‫کی فکری اور روحانی قوتوں میں یہ صالحیت نہ تھی کہ مراتب‪ ‬اور ھدای ت‪  ‬معلوم کرلیتے حاالنکہ‬
‫انسان کو اس بات کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی پانی‪ ،‬ہوا اور روشنی کی ض رورت ہ وتی ہے۔ ای ک‬
‫طرف تویہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت تھی اور دوسری ہللا کا ع دل اس کی رحمت اور اس کی‬
‫ہرصفت کا مطالبہ یہ تھا کہ وہ انسان کو یوں بھٹکنے کے ل ئے نہ چھ وڑ دے بلکہ وہ انس ان کے ل ئے‬
‫اخالقی‪ ،‬دینی‪ ،‬سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے کےلئے انتظ ام ک رے۔ یہی وہ انتظ ام تھ ا جس ے دین‬
‫کی اصطالح میں رسالت کہاجاتا ہے۔‬
‫رسول کی خصوصیات‬
‫الہام ہدایت ار انبی اءکی تعلیم کی‬
‫‪ ‬انسان کو جس طرح ہوا اور پانی کی ضرورت ہے اسی طرح ِ‬
‫ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ ہللا تعالی نے سب سے پہلے انسان (حض رت آدم ؑ‪ ) ‬ک و بھیج ا اور اس ے‬
‫ب نبوت سے سرفراز کیا۔ حضرت آدم ؑ‪  ‬کے بعد مختلف جگہوں پر مختلف انبیاءکو انسانوں کی‬
‫منص ِ‬
‫ہدایت اور راہمائی پر فائز کیا۔ ان میں حضرت ابراہیم ؑ‪ ، ‬حض رت موس ٰی ؑ‪ ، ‬حض رت عیس ٰی ؑ‪ ، ‬حض رت‬
‫یحی ؑ‪  ‬کے ن ام ہم اچھی ط رح م انوس ہیں۔ ان کے عالوہ ک ئی‬
‫ن وح‪ ، ؑ ‬حض رت اس حق ؑ‪  ‬اور حض رت ٰ‬
‫انبیاءآئے ایک اندازے کے مطابق ان کی تعدادکم و ب یش‪  ‬ایک الکھ چوبیس ہزار ہے۔‬
‫قرآن مجید میں انبیاءکی جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫(‪ )۱‬بشریت‬
‫اگر چہ انبیاءکرام روحانی اعتبار سے عام انسانوں س ے بہ تر تھے اس کے ب اوجود وہ س ب انس ان ہی‬
‫تھے۔ وہ نہ فرشتوں کے گروہ سے تھے اور نہ جنوں کے گروہ سے اس ل ئے ہ ر ن بی نے ہمیش ہ اس‬
‫بات کا اعالن کیا کہ‪:‬‬
‫میں تمہاری طرح کا انسان ہوں۔‬
‫سورة ابراہیم کی آیت میں وضاحت ہوتی ہے‪:‬‬
‫بالشبہ ہم تمہاری طرح انسان ہیں۔‬
‫(‪ )۲‬ودیت( ع طا)‬
‫ویت کے معنی ہیں‪ ‬رسالت کوئی ایسی شے نہیں جو محنت تالش اور جس تجو س ے م ل ج ائے بلکہ وہ‬
‫ہللا ک و عطیہ ہے اور اس ش خص ک و ملت ا ہے جس کو وہ م رہمت فرمات ا ہے۔ انکی مل نے میں انس انی‬
‫کوششوں کا دخل نہیں ہوتا۔ سورة انعام میں ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫‪ ‬ہللا زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اسے اپنی پیغمبری‪ 8‬کے لئے سپرد کرنی ہے۔‬
‫(‪ )۳‬تعلیمات من جانب ہللا‬
‫پیغمبر دین اور شریعت کے نام پر جو کچھ انس انوں کے س امنے پیش ک رتے ہیں وہ س ب ہللا کی ج انب‬
‫ن‬
‫سے ہوتا ہے۔ وہ ہدایت رب ا ی‪ ‬کے تابع ہوتے ہی ں نہ خود انکی کوئی مرضی ہوتی ہے۔ وہ وہی کرتے‬
‫اور کہتے ہیں جسکا انکو حکم دیا جاتا ہے۔‬
‫‪ ‬وہ اپنی خواہش نفسانی سے کالم نہیں کرتا بلکہ وہی کہتا ہے جو خدا کی طرف سے کیا جات‪88‬ا‬
‫ہے۔‬
‫ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے‪:‬‬
‫(یعنی) جوکچھ (حکم) رسول تمہیں دے اسے مان لو اور جس (چیز) سے منع کردے اس سے‬
‫رک جاو۔‬
‫(‪ )۴‬عصمت‬
‫ن بی معص وم ہ وتے ہ ی ں ‪،‬ان‪ ‬س ے نہ‪ ‬ا‪ ‬فع ال کی غلطی اں ہ وتیں ہیں اور نہ اخالق و اعم ال کی‬
‫لغ زشیں جس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کی فک ر و بص یرت بھی کام ل ہ وتی ہے اور اس کی اخالقی ق وت‬
‫بھی ای ک ط رف ت و وہ احک ام الہی ک ا منش ا س مجھنے اور ان س ے مزی د احک ام نک النے کی بہ ترین‬
‫صالحیتیں رکھتا ہے۔ دوسری طرف اسے اپنے نفس پر پورا ق ابو حاص ل ہوت ا ہے اور اس کی اخالقی‬
‫خوف خدا اور اسکا اندیشہ اس قدر ترقی یافتہ ہ وتے ہیں کہ گن اہ کے محرک ات س ر اٹھ ا ہی‬
‫ِ‬ ‫حس اسکا‬
‫نہیں سکتے۔ اس ی کے س اتھ س اتھ اس پ ر ہللا کی خصوص ی نگ رانی رہ تی ہے اور یہی نگ رانی انہیں‬
‫اخالق و عمل کی کوتاہیوں سے بچائے رکھتی ہے۔ اور اس طرح اس کا ہر ق ول اور ہ ر عم ل ص حیح‬
‫ہوتا ہے اور پوری زندگی ایک صاف اور روشن آبگینے کی طرح ہ وتی ہے جس ے خ الق کائن ات نے‬
‫انسانوں کے لئے اس وقت مثالی نمونہ مقرر فرمایا ہے۔‬
‫ہر قوم کے لئے نبی‬
‫ان باتوں کے عالوہ قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انبیاءہر قوم پ ر بھیجے گ ئے ہیں ق رآن مجی د میں ارش اد‬
‫ہوتا ہے‪:‬‬
‫‪ ‬کوئی بھی ایسی قوم نہیں گزری جس میں کوئی ڈرانے واال (رسول)‪ 8‬نہ آیا ہو۔‬
‫اس کی وجہ ظاہر ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور سب ایک مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ ہللا کی‬
‫بندگی سب کا فریضہ ہے اور آخرت میں اس فرض کے مطابق ہر ایک سے پوچھ گچھ ہوگی۔‬
‫ان تمام انبیاءکو ماننا ہر مسلمان کا فرض ہے اور نہ صرف ماننا بلکہ ان کا احترام کرنا بھی ض روری‬
‫ہے۔‬
‫ت محمدی صلی ہللا علیہ وسلم اور اس کی خصوصیات‬
‫رسال ِ‬
‫حضرت آدم ؑ‪  ‬سے نبوت کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ خاتم النبی حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم پر آکر‬
‫ختم ہوا۔ ہللا تعالی نے پہلے انبیاءکو علیحدہ علیح دہ کم االت عط ا فرم ائے تھے۔ ن بی آخ ری زم اں کی‬
‫ت محمد بڑی نمایاں خصوصیات رکھتی ہے۔ جن میں سے چند یہ‬
‫ذات میں وہ تمام شامل کردئیے۔ رسال ِ‬
‫ہیں‪:‬‬
‫(‪ )۱‬عمومیت‬
‫حضوراکرم صلی ہللا علیہ وسلم سے آنے والے انبیاءکی نبوت کسی خاص قوم یا ملک کے ل ئے ہ وئی‬
‫تھی مگر آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی نبوت قیامت تک تمام انسانوں کے لئے ہے۔ ارشا ِد ربانی ہے کہ‪:‬‬
‫‪ ‬اے محمد صلی ہللا علیہ وسلم! تو کہہ اے لوگوں میں رسول ہوں ہللا کا تم سب کی طرف۔‬
‫(‪ )۲‬پہلی شریعتوں کا نسخہ‬
‫حضوراکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی شریعت نے آپ صلی ہللا علیہ وسلم س ے پہلے کی تم ام ش ریعتوں‬
‫ت محمدی پر عمل کیا جائے گا۔ ہللا تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ‪:‬‬
‫کو منسوخ کردیا۔ اب صرف شریع ِ‬
‫اور جو کوئی اسالم کے سوا کسی اور دین کو تالش کرے گا تو وہ اس سے ہرگز قب‪88‬ول نہ کی‪88‬ا‬
‫جائے گا۔‬
‫(‪ )۳‬کا‪ ‬ملیت‬
‫حضور صلی ہللا علیہ وسلم پر ہللا کے‪ ‬دین کی تکمیل ہوگی۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم ک و وہ دی ِن کام ل‬
‫عطا فرمایاگیا جو تمام انسانوں کے لئے کافی ہے۔ اس لئے اب کس ی اور دین کی ض رورت نہیں رہی۔‬
‫سورة المائدہ میں آتا ہے کہ‪:‬‬
‫‪ ‬آج میں نے مکمل کردیا تمہارے لئے دین تمہارا اور پوری ک‪88‬ردی تم پ‪88‬ر اپ‪88‬نی نعمت اور پس‪88‬ند‬
‫دین اسالم کو۔‬
‫کیا تمہارے واسطے ِ‬
‫(‪ )۴‬قرآنی آیات‬
‫اہل ایم ان ک و‪ ‬زن دگی گ زارنے ک ا مکم ل‬
‫ہللا کے رسول کی ایک صفت‪ ‬یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے ِ‬
‫ضابطہ حیات فراہم کیا۔ یہ ضابطہ حیات نہ صرف مکمل ہے بلکہ انتہائی پراثر بھی ہے۔‬
‫آیات قرآنی اپنی اندر وہ اعجاز رکھتی ہے کہ اس کے آگے تمام طاقتیں جھوٹی رہ جاتی ہیں۔ ہللا تع الی‬
‫فرماتا ہے کہ‪:‬‬
‫‪ ‬اگر یہ قرآن پہاڑوں پر نازل کیا جاتا تو وہ زرہ زرہ ہوجاتا۔‬
‫یہ کالم ایسا ہے کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪:‬‬
‫قرآن کی فضیلت تمام کالموں پر ایسی ہے جیسی ہللا‪ ‬کی‪  ‬مخلوق پر۔‬
‫(‪ )۵‬کتاب و دانائی‬
‫ہللا نے آپ کو ایک ایسی کتاب عطافرمائی جو رہتی دنیا تک اپنی اص ل ش کل میں ب اقی رہے گی۔ اور‬
‫بندگان خدا ہر صبح و ش ام تالوت ک رتے ہی ں۔ اس کی اس ش ان کی بن اءپر اس ک ا ن ام‬
‫ِ‬ ‫جس کی کروڑوں‬
‫قرآن مجید رکھا گیا اور اس کی حفاظت کا خود ذات باری تعالی نے ذمہ لیا۔‬
‫‪ ‬بے شک ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‬
‫اس میں انسانوں کے لئے ایسی ہدایت سمودی گئی ہیں جو زندگی کے ہر معاملے میں اور ہر دور میں‬
‫رہنمائی کرتی رہے گی۔ حضور صلی ہللا علیہ وسلم یہ قرآنی آیات لوگوں کے س امنے پیش ک رتے ہیں‬
‫اور انہیں پ ڑھ ک ر س ناتے ہیں۔ یہ ایس ی آی ات ہیں کہ ان ک ا مق ابلہ دنی ا کی ک وئی زب ان ی ا لغت نہیں‬
‫کرسکتی۔‬
‫حضوراکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل س ے آی ات کی تش ریح و وض احت فرم ائی۔ آی ات‬
‫کے رموز فرمائے۔ تاکہ لوگ کسی دقت کے بغیر قرآن پر عمل پیرا ہوں۔ قرآن مجید میں ارش ا ِد رب انی‬
‫ہے کہ‪:‬‬
‫ہم نے آپ ک‪88‬و اس‪88‬لئے بھیج‪88‬ا ہے کہ آپ ص‪88‬لی ہللا علیہ وس‪88‬لم لوگ‪88‬وں کے س‪88‬امنے ہللا کی ن‪88‬ازل‬
‫کردہ آیات کے مطالب بیان کرسکیں۔‬
‫ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ‪:‬‬
‫‪ ‬حقیقت یہ ہے کہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔‬
‫ختم نبوت‬
‫ِ‬
‫ٗ‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ختم نبوت‪ ‬کے مع ی ہ ی ں کہ دمحم عربی ﷺ ہللا کے ٓاکری ب ی او ر رسول ہ ی ں ٓاپ کے ب عد اب ی امت ت ک کوی‬
‫ِ‬
‫خت ن‬ ‫ئ‬ ‫ن ن‬
‫ب ی ہی ں ٓاے گا۔ م ب وت‪  ‬کی سب سے پہلی دلیل تو سورةاحزاب کی آیت ہی ہے۔ جس میں آپ صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کا ذکر ہے لیکن ہمیں بہت سی احادیث اور قرائن سے پتہ چلت ا ہے‬
‫ث مبارک ہے کہ‪:‬‬
‫کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ حدی ِ‬
‫میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاءکی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے عمارت بنائی‬
‫اور خوب حسین و جمیل بنائی مگر ایک کن‪88‬ارے میں ای‪88‬ک اینٹ کی جگہ خ‪88‬الی چھ‪88‬وڑ دی اور وہ میں‬
‫ہوں۔‬
‫ایک اور جگہ حدیث مےں ارشاد ہوتا ہے کہ‪:‬‬
‫‪ ‬میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔‬
‫ختم نبوت دراصل تکمیل اسالم ہی ہے اور جب ہللا نے اپ نے دین کی تکمی ل ک ردی ت و اس کے نب وت‬
‫ِ‬
‫خ‬
‫کے سلسلے پرا ت ت ام‪  ‬کی مہر لگا دی اور ایک جامع مکمل دین حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم کے‬
‫ذریعے سے ہم تک پہنچا کر نبوت کے طویل سلسلے کا اختتام کردیا۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ‪:‬‬
‫آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تمہارے لئے اپنی نعمت تم پر تم‪88‬ام ک‪88‬ردی‬
‫دین اسالم کو پسند فرمایا۔‬
‫اور تمہارے لئے ِ‬
‫سورة عمران میں ارشاد ہوتا ہے کہ‪:‬‬
‫ن‬
‫ہم نے تم کو امت‪ ِ ‬وسط ( درم ی ا ی امت )‪ ‬بناکر بھیجا تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر‬
‫گواہ ہو۔‬
‫ان آیات کی رو سے یہ بات ثابت ہوتا‪ ‬ہے کہ ہللا تع الی نے ن بی کے ذریعے س ے اپ نے دین کی تکمی ل‬
‫ت‬
‫کردی۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی رسالت آئندہ تمام نسلوں کے ل ئے ک افی ہے۔ اس کے عالوہ حف اظ ِ‬
‫رآن‬
‫ختم نبوت کے سلسلے کی ایک ک ڑی ہے۔ ق ِ‬
‫قرآ‪ ‬ن‪ ‬کے سلسلے میں جو آیت ہمیں ملتی ہے۔ وہ بھی ِ‬
‫پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ‪:‬‬
‫‪ ‬ہم نے ایک ذکر کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‬
‫‪ANS 04‬‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫شخ‬ ‫ق‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫ے‪،‬‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ی‬‫د‬ ‫ساب‬ ‫کا‬ ‫اعمال‬
‫پ ن ُخ ح‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ارگاہ‬ ‫ٰ ب‬ ‫کی‬ ‫عالی‬ ‫ہللا‬ ‫کر‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫دہ‬ ‫ز‬ ‫عد‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫موت‬ ‫کو‬ ‫ص‬ ‫ر‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫طا‬ ‫م‬
‫ن‬
‫کے‬ ‫دے‬ ‫اسالمی ع ن ی‬
‫ت‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫ے اور‬ ‫صورت می ں سزا و ج زا) سے ہ مک ار ہ و گا۔ اس ز دگی کا ام ‪ ‬ا روی ز دگی‪ ‬ہ‬
‫ن‬ ‫ن م ی ا ج ن ت (کی‬ ‫ے می ں وہ ج ہ‬ ‫جس کے یج‬
‫خ‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫اس ز تدگی پر ای مان الے کا ام‪ ‬ای مان ِب اآل رت‪ ‬‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫خ‬ ‫ہ ق‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫خ‬
‫ے۔ آ رت کے ب ارے می ں مام رسولوں اور ا ب ی اء‬ ‫دہ‬
‫ف ی ہ‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫ادی‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫یسرا‬ ‫کا‬ ‫الم‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫عد‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫رسالت‬ ‫و‬ ‫د‬ ‫ی‬ ‫ح‬ ‫و‬ ‫رت‬‫آ ت‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ش‬
‫ے اور ی ہاں ہللا‬ ‫حان گاہ ہ‬ ‫ے کہ‪ ”:‬ی ہ د ی ا ای ک ام ن‬ ‫ہ‬ ‫ن علی مات ہ ئمی ہ سے ای ک ہ ی رہ ی ہ ی ں۔ ج ن کا سادہ م ہوم ہ‬ ‫کی‬
‫ف‬ ‫ی ت‬
‫ئس طرح ہللا ے ہ می ں ی ہاں پ ی دا رمای ا‬ ‫ے اور ج‬ ‫ہ‬ ‫ے اعمال کر ا‬ ‫ے کہ کون ای مان ال کر اچ ھ‬ ‫ہ‬ ‫ے ب یھ ج ا‬ ‫ے ہ می ں آزما ش کے لی‬
‫ن ن‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ق‬
‫ہ‬ ‫ہ‬
‫ے اعمال‬ ‫ے پا‬ ‫م‬ ‫سا‬ ‫کے‬ ‫ہللا‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫اور‬ ‫گا‬ ‫ے‬ ‫رما‬ ‫طا‬ ‫ع‬ ‫دگی‬ ‫ز‬ ‫ارہ‬ ‫ب‬‫دو‬ ‫دن‬ ‫کے‬ ‫امت‬ ‫اسی طرح وہ ن می ں ہ ماری موت تکے ب عد ی‬
‫ن‬
‫ے وہ وہ اںٹکام ی اب ہ و گا اور‬ ‫ااور ان کی اطاعت کی اوراعمال صالحہ کی‬ ‫کی ج واب دہ ی کر ا ہنو گی۔ ج وا ب ی اء کی علی مات پر ای مان الی ن‬
‫جن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫عت‬ ‫ن‬ ‫ن نف‬
‫ھ‬
‫ے گی اور و اکام ہرا وہ نہ م می ں‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫ج‬ ‫ب‬
‫ئے ا رما ی کی وہ اکام۔ و کام ی اب وا اسے م وں ھری اب دی ت ل‬ ‫ہ‬ ‫ج‬ ‫جس‬
‫ت‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ص‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ن‬
‫نی گزرگاہ‬
‫ن‬
‫ے اور د ی ا اس س ر می ں ایت قک ام حا‬ ‫ے گا۔“‪ ‬ا ل زت دگی نکا گھر آ رت ہ ی کا گھر ہ‬ ‫اک سزا ھتگ‬ ‫ن‬ ‫ج اے گا اور درد‬
‫خ‬ ‫ک‬
‫ے می ں من ل ہ وے کا ام‬ ‫ے سے دوسرے مرحل‬ ‫ے کا ہی ں ب لکہ ای ک مرحل‬ ‫سے زی ادہ ح ی ث ی ت ہی ں ر ھ ی۔ اور موت ا م‬
‫ق ق‬
‫خ‬ ‫غف‬ ‫ال‪:‬‬ ‫ے۔ ب ول ا ب‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫م‬‫ج‬ ‫س‬
‫ز دگی‬ ‫ا ت ت ِام‬ ‫ال‬ ‫ہیں‬ ‫ے‬ ‫ھ‬ ‫کو‬ ‫موت‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫ز دگی‬ ‫دوام‬
‫ِ‬ ‫صح‬‫ِب‬ ‫ز دگی‪،‬‬ ‫ش ِام‬ ‫یہ‬ ‫ے‬‫ہ‬

‫ض‬ ‫ق‬
‫ے‪:‬‬ ‫ھا‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ر‬ ‫طور‬ ‫‪ ‬‬ ‫ح‬ ‫وا‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫رآن‬
‫ْ ق اَل َ َ ف َ َّ ث َ ن اَل ع َ‬ ‫ْ ث َّ پ ْ ث َّہ ج ْ‬ ‫ق‬
‫ل‬
‫اس يَ ْ َمُون‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫ل‬
‫ُِل ا لهُ يُثحْيِيكم ُم يُمِ تي ُكم ُم يَ ْمَعُكم ِإلَى يَ و ِم الْ يَِامَ ِة ريب ِي ِه ولَ ِكن َأك َر ال َّ ِ‬
‫ج‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ن بخ‬ ‫(سورۃ الج ا ی ہ‪ )26:‬ت‬
‫ے۔ پ ھر وہ ی م کو اس ی امت کے دن مع‬ ‫موت دی ت ا ہ‬ ‫ان سے کہو ہللا ہ ی مہی ں ز دگی ت ا ہ پ ہ م‬
‫ے‪ ،‬ھر و یث ہی ں ن ت ن‬ ‫ئ ش ن‬ ‫ن‬
‫ے ہی ں ہ ی ں۔‬ ‫م‬
‫کے آے می ں کو ی ک ہی ں ‪ ،‬ق گر اک ر ئلوگ ج ا‬
‫ف ن‬ ‫کن‬ ‫ئ‬ ‫خ‬ ‫قکرے گا جس ق‬
‫ع‬ ‫ح‬
‫ے واال رد ا کار کی‬ ‫ے ہ ی ں کہ سالمت ہ وش گوش قر ھ‬ ‫ےگ‬ ‫دال ل دی‬ ‫ے زوردار لی ت‬ ‫وع آ رت کے ایس‬ ‫رآن کینم می ں و ِ‬
‫ے۔ی ہاں ہ م رآن حکی م کے ب ی ان‬ ‫ے دی ت ا ہ‬ ‫ے چ اہ ت اہ‬ ‫ے کہ ہ دای ت و ہللا ہ ی جس‬ ‫اور ب ات ہ‬ ‫س‬
‫راءت ہخی ں کر کت ا ہ قاں ی ہ ئ‬ ‫ج ق‬
‫ت‬ ‫کردہ و وع آ رت کے ع‬
‫ق‬ ‫گے‪:‬‬
‫َ اَل ْ‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ر‬ ‫ک‬ ‫ذکرہ‬ ‫کا‬ ‫ل‬ ‫دال‬ ‫لی‬ ‫َق ُ ِ ن ُ َ‬
‫ُ َ ْ‬ ‫ن ُ خق‬ ‫ُّ ْ َ خ َ ُ‬
‫ويَ ُول الِْإ سَان َأئ ِذا مَا مِت لَسَوف ُأ ْرج حَيًا ﴿‪َ ﴾66‬أو يَذ ُك ُر الِْإ سَان َأن َّا َلَ ْ ن َاهُ مِن َ ب ْل ولَم يَ ُ‬
‫ك ش َ ْيئ ًا ﴿‪﴾67‬‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫‪)67‬‬ ‫ن(سورۃ مری م‪ – 66:‬ق‬
‫ن‬
‫ے‬ ‫ے کہا وا عی ج ب می ں مر چ کوں گا و پ ھر ز دہ کر کے کال الی ا ج اؤں گا؟ ک ی ا ا سان کو ی اد ہی ں آ ا کہ ہ م پہل‬ ‫ا سان کہت ا ہ‬
‫ب ن ت‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ے ہ ی ں ج ب کہ وہ چک ھ ھیئ ہ ھا؟‬ ‫اس کو پ ی دا کر چ کض‬
‫ب خش‬ ‫ف‬ ‫ت‬
‫اور ہللا ے ہ می ں پ ی دا رما دی ا‪ ،‬وج ود ا اور ہ ماری اس‬ ‫ے‬‫ھ‬ ‫ہ‬ ‫ات الکل وا ح ے ج ب ہ مارا کو ی وج ود ن ہ ھا‪ ،‬ہ م چک ھ ب ھی ن‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ث‬ ‫ہ‬ ‫ب ب‬
‫ب‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫ے اسی طرح دوب ارہ ھی پ ی دا‬ ‫ے تو جس طرح ن می ں ہللا ے اب پ ی دا ر نمای ا ہ‬ ‫ئں موج ودگی ت اس ب ات کا ب وت ہ‬ ‫فد ی ا می‬
‫ع‬ ‫خ‬
‫ے اس کی و کسی سے سب تت ہ ی ک ی ا‪ ،‬ک ی ا ہ م کسی ا سان کے ب ارے می ں ب تھی ی ہ کہہ‬ ‫ہ‬ ‫رماے گا۔ ہللا ون الق ال لی م‬
‫ق‬ ‫ے گا؟ ہ کمپ یوٹ ر ج و ہ‬ ‫ے ہ ں کہ اس ے ب ا ک کام ا ک مرت‬ ‫ت‬
‫ت اس عمال کر‬ ‫و‬ ‫اس‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ے و دوب ارہ ن ہ کر س‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫کر‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ج‬ ‫ی‬ ‫سک‬
‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬
‫ے‬ ‫ے؟ اور اگر کو ی ہ کہ ک‬
‫ے و یسی ب‬ ‫ی‬ ‫نسک‬ ‫ے ہ ی ں کہ اس کے ب ن اے والے اسے دوب ارہ ہی ں ب ن ا‬ ‫ک‬ ‫ے ہ ی ں ک ی ا ہ م ی ہ کہہ س‬ ‫رہ‬
‫چت‬ ‫ض‬ ‫ن‬
‫ے۔ ہللا ے جس حال می ں ج ہاں اور ج ب چ اہ ا‬ ‫ے کہ ہ ماری مر ی ل ی کہاں ہ‬ ‫ے کی ب ات ی ہ ہ‬ ‫ے؟ سوچ‬ ‫ہ ودہ ب ات ہ‬
‫ت‬ ‫ن‬
‫ے ہ ی ں؟ ک ی ا موت‬ ‫ے چک ھ کر سک‬ ‫ے کے لی‬ ‫ے۔ ک ی ا ہ م اسے روک‬ ‫ے موت دی ت اہ‬ ‫ے؟ ج ب چ اہ ت ا ہ‬ ‫پ ی داکر دی ا‪ ،‬ک ی ا ہ م اسے روک سک‬
‫ن‬ ‫ٹ‬ ‫ن‬ ‫مم‬ ‫ف‬
‫ہ‬
‫ے گا دوب ارہ ز دہ کر کے ا ھا ھڑا کر دے گا۔ ک ی ا م اسے ایسا کرے سے روک‬ ‫ک‬ ‫ے؟اور ج ب رب چ اہ‬ ‫سے رار کن ہ‬
‫ت‬ ‫سئکی شںخگے؟‬
‫ے تکہ نج ہاں چک ھ‬ ‫ے ل ی کن اگر کوئغ ي ی ہ کہ‬ ‫ات ہ‬ ‫ب‬ ‫کرسی ب ن ا دے و سادہ سی‬ ‫ت‬ ‫کو ی ن ص اگر کہی ں سے لکڑی لے کر دروازہ‪ ،‬می ز ی ا‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫ب‬
‫ے اگر ہ م ور کری ں و ا سان کی‬ ‫ے؟ ی ی ن ج ا ی‬ ‫ب معج زہ ہ‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ھی ہی ں وہ اں وہ ای ک لکڑی کا دروازہ کھڑا نکر دے گا و کیسا جع‬ ‫ئ‬
‫ن‬ ‫ف‬
‫ےئکی ای ک ب و د سے ک ی ا خم نلوق ب ن ا دی اور اس کے‬ ‫پ ی دا ش انی ک ب ہت بڑے معج زے سے کم ہی ں۔ بس حان ہللا۔ ط‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫ن س ق‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق ن‬ ‫ن ن‬
‫ے۔ اور اس‬ ‫ک‬
‫ے و ا ی ل ب ر رارر ھ‬ ‫پ‬ ‫ج‬ ‫ہ‬ ‫ا در اپ ی سل کے ب ا کا ظ ام رکھ دی ا۔ ک ی ا ا سان ے ھی ھی ا سی کو ی چ یخز ب ا ي‬
‫ی‬ ‫ب‬‫ک‬ ‫ب‬
‫ق‬ ‫ے گا ک‬ ‫ن ن ب‬ ‫ماہ ر خ الق کے ارے می ں ہ کہ ن ا کہ وہ ہ‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫م‬ ‫ح‬ ‫سی‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫س‬ ‫ش‬ ‫ہ‬ ‫دگی‬ ‫ز‬ ‫ارہ‬ ‫ب‬‫دو‬ ‫عد‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫موت‬ ‫ن‬‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ب‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫غ ی ن‬
‫ذرات کہاں پنڑے ہ ی ں؟ زمی ن می ں ہ ی اں؟ و وہ‬ ‫ے کہ آے والی ت لوں کے سموں کے‬ ‫س‬ ‫آپ ذرا اس ب ات پر ور یکج ی‬
‫ن ت‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ے خ‬ ‫ج‬
‫نسا وں‪ ،‬ج ا وروں‪ ،‬تپر دوں‪ ،‬ح رات‪ ،‬ب ا ات اور‬ ‫ے؟ ا‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫کر‬ ‫کام‬ ‫کا‬ ‫ق‬ ‫ل‬‫ی‬ ‫ح‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ر‬ ‫ہ‬ ‫کے‬ ‫کر‬ ‫مع‬ ‫ے ج و ان ذرات کو‬ ‫نکوننہ‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ق‬
‫ک‬ ‫ے ای ک لمح‬ ‫ے ہ ی ارب چ‬ ‫ج اے کن کن مخ لو ات کے ک‬
‫ے‬ ‫ے؟ قو ج و چف د نارب ی ا ھربفگزر گ‬ ‫واال کون ہ‬ ‫ت‬ ‫ے می ں پ ی دا رماے‬
‫ج‬ ‫ق‬ ‫ت‬
‫ت‬
‫ت کے ر ی ی ا ت ہ ا سان سے ی ہ رما رہ ا‬ ‫ے تگا؟ وہ و آج‬ ‫کے ذرات کو ای ک ہ ی و ت می ں مع ن ہ کر سک‬ ‫ت‬ ‫کے ج سن ٹموں‬ ‫ک ی ا ہللا ان ف‬
‫خ‬ ‫ش‬ ‫ٹ‬ ‫ن‬
‫ان کو ب ھی ویسا ہ فی ب ن ا ن ٹدوں‬ ‫ئ‬ ‫ے اس عمال کرے ہ و می ں‬ ‫ے کہ ج ن گر پر س کو م آج کمپ یو ر کے دور می ں ن ا ت کےتلی‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫شنخ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت ٹ‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫مکم‬
‫ے کہ جس کی دی ہ و ی ا ت ( گر پر س‬ ‫گا اورہ ر ای ک کو اس کی ت ل انت کے سا ھ ائھاؤں گا۔ ا ا وسوچ یل ی‬
‫غ‬ ‫جخ ن‬ ‫ی ارجسٹ ری ن) کو ہ م آج اس عمال کرے کے ق اب ل ہ وے وہ خ ود ہ‬
‫ش‬
‫ے۔ ک ی ا اس کے کا ذات‬ ‫ے ب ر یک و کر رہ سکت ا ہ‬ ‫ب‬ ‫سے‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ئ ٹ یش‬
‫ہ‬ ‫ن اور ہ مارا کو ی ری‬ ‫می ں ہ ماری کو ی رجس ر ن‬
‫کارڈ ہی َں و گا؟ ن‬ ‫ق‬ ‫َ‬ ‫ج‬ ‫ُ ن ُ‬
‫ن‬
‫ي ب َ ن َا َهُ﴿‪﴾4‬‬ ‫و‬ ‫س‬
‫َ‬ ‫ُّ‬ ‫َأن‬ ‫ى‬ ‫ل‬
‫َ‬ ‫َ‬ ‫ع‬ ‫ن‬ ‫ي‬ ‫ر‬ ‫د‬ ‫ا‬‫َ‬ ‫ى‬ ‫ل‬
‫َ‬ ‫َ‬ ‫﴾‬‫‪3‬‬ ‫ُ﴿‬ ‫ه‬ ‫م‬
‫َ‬ ‫َا‬ ‫ظ‬‫ِ‬ ‫َع‬ ‫م‬‫ْ‬ ‫َ‬ ‫َّن‬ ‫ل‬ ‫َأ‬ ‫َان‬ ‫َأيَ ْحسَب الِْإ س‬
‫ِّ َ‬ ‫ِِ‬ ‫ب‬ ‫ع‬
‫(سورۃ القیامہ‪)4 – 3:‬‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ن‬
‫گ‬ ‫ہ‬
‫ے کہ م اس کی ہ ڈیوں کو مع ہی ں کر کی ں گے ؟ کی وں ہی ں؟ م و اس کی ا یل وں کی پور پور‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫س‬
‫ک ی ا ا ٹسان ی ہ جم ھ ر ا ہ‬
‫ن ن ق‬ ‫ت‬
‫ے پر ادر ہ ی ں۔‬ ‫ک ھ ی ک ب ا دی‬
‫‪ ‬انسانی زندگی پر عقیدہ آخرت کے اثرات‬
‫عقیدہ آخرت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اس ب ات ک ا پختہ یقین رکھے کہ ای ک دن الزماًایس ا آئے گ اجس‬
‫میں تمام انسانوں کے اعمال کی جانچ پڑت ال ہ و گی ۔ دنی ا ک ا موج ودہ نظ ام اب دی نہیں ہے ‪،‬بلکہ ای ک‬
‫وقت مقررہ پر اس کا خاتمہ ناگزیر ہے۔فرمایا گیا‪:‬‬
‫َأفَ َح ِس ْبتُ ْم َأنَّ َما خَ لَ ْقنَا ُک ْم َعبَثا ً َوَأنَّ ُک ْم ِإلَ ْینَا اَل تُرْ َجعُون۔(المومنون‪)115 :‬‬
‫’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھ ا کہ ہم نے تمہیں فض ول ہی پی دا کی ا ہے اور تمہیں ہم اری ط رف کبھی‬
‫پلٹنا ہی نہیں ہے؟‘‘‬
‫الی دوس را ع الم پی دا‬
‫چناں چہ انسان اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ اس دنیا کے خ اتمے کے بع د ہللا تع ٰ‬
‫کرے گا اور ان کا محاسبہ کرے گا اور اس بات ک ا یقین رکھے کہ ہللا تع الی کے حس اب و کت اب کے‬
‫بعد جو نیک قرار پائیں گے وہ جنت میں جائیں گے اور جو برے اعمال کے ساتھ حاض ر ہ وں گے وہ‬
‫دوزخ میں جائیں گے ۔اور یہی انسان کی کامیابی و ناکامی کا پیمانہ ہے ۔‬
‫آخرت کا مفہوم‪:‬‬
‫ت آخ رت کے‬
‫ت آخ رت بھی کہ تے ہیں۔حی ا ِ‬
‫آخرت سے مراد موت کے بعد کی زن دگی ہے جس ے حی ا ِ‬
‫بارے میں عموماًتین طرح کے عقیدے پائے جاتے ہیں‪:‬‬
‫دہریوں کے مطابق‪:‬‬
‫مرنے کے بعد انسان فنا ہو ج ائے گ ا اس کے بع د نہ ہی ک وئی دوس ری زن دگی ہے اور نہ ہی ج زا و‬
‫سزا۔‬
‫قرآن مجید نے ان کے اس عقیدہ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔‬
‫ک ِم ْن ِع ْل ٍم ِإ ْن ہُ ْم ِإاَّل یَظُنُّونَ ۔‬ ‫َوقَالُوا َم ا ِہ َی ِإاَّل َحیَاتُنَ ا ال ُّد ْنیَا نَ ُم ُ‬
‫وت َونَحْ یَ ا َو َم ا یُ ْہلِ ُکنَ ا ِإاَّل ال َّد ْہ ُر َو َم ا لَہُم بِ َذلِ َ‬
‫(الجاثیہ‪)24 :‬‬
‫’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہم اری دنی ا کی زن دگی ہے‪،‬یہیں ہم ارا جین ا اور مرن ا ہے اور‬
‫گردش ایام کے سوا کوئی چ یز نہیں ج و ہمیں ہالک ک رتی ہ و۔درحقیقت اس مع املے میں ان کے پ اس‬
‫ِ‬
‫کوئی علم نہیں ہے۔یہ محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں۔‘‘‬
‫تعالی نے فرمایا‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫ایک اور جگہ ہللا‬
‫ِإ َّن ہَُؤاَل ء لَیَقُولُونَ ۔ِإ ْن ِہ َی ِإاَّل َموْ تَتُنَا اُأْلولَی َو َما نَحْ ُن بِ ُمن َش ِر ْینَ ۔(الدخان‪34 :‬۔‪)35‬‬
‫’’یہ لوگ تو یہی کہتے ہیں کہ (آخری چیز)یہی ہماری پہلی بار (دنیا سے ) مر جانا ہے اور ہم دوب ارہ‬
‫اٹھائے نہیں جائیں گے ‘‘۔‬
‫اہل تناسخ کے نزدیک‪:‬‬
‫ِ‬
‫انسان اچھے یا برے اعمال کا بدلہ پانے کے لیے دنیا میں بار ب ار جنم لیت ا رہے گ ا۔اچھے اعم ال کے‬
‫اعلی حی ثیت ک ا مال ک بن ک ر جنم لے گ ا اور اگ ر اعم ال ب رے ہیں ت و‬
‫ٰ‬ ‫نتیجے میں عمدہ اوصاف اور‬
‫حیوانات و نباتات اور کیڑے مکوڑے کی شکل میں دنیا میں آئے گا ۔‬
‫تبدیلی جسم کے ہیں۔افسوس کہ نوع انسانی کی کث یر‬
‫ِ‬ ‫معنی فنا نہیں‪ ،‬بلکہ‬
‫ٰ‬ ‫گویا ان کے نزدیک موت کے‬
‫تع داد آج اس ی ط رح کے باط ل عقی دہ میں گرفت ار ہے اور بے راہ روی اور ض اللت و گم راہی کی‬
‫زندگی بسر کر رہی ہے۔جس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ آخرت کی زندگی کا ع دم یقین زن دگی‬
‫کو بے لگام کردیتا ہے اور آخرت کی باز پرس کا احساس آزادانہ زن دگی بس ر ک رنے کی آزادی س لب‬
‫کر لیتا ہے۔ایسے ہی لوگوں کے لیے قرآن نے کہاہے‪:‬‬
‫ضاَل ِل ْالبَ ِعیْد۔(السبا‪)8 :‬‬ ‫بَ ِل الَّ ِذ ْینَ اَل یُْؤ ِمنُونَ بِاآْل ِخ َر ِۃ فِ ْی ْال َع َذا ِ‬
‫ب َوال َّ‬
‫’’(حقیقت یہ ہے کہ )آخرت پر یقین نہ رکھنے والے ہی عذاب میں اور دور کی گمراہی میں ہیں‘‘۔‬
‫انبیاء کے نزدیک ‪:‬‬
‫اہل ایمان ہیں۔یہی وہ عقیدہ ہے جس کی درس تگی ایم ان کی تکمی ل ک رتی ہے۔یہ‬
‫جس کے ماننے والے ِ‬
‫عقیدہ اپنے ماننے والوں پر حشر و نش ر اور ج زا و س زا کے یقین و تص دیق ک و الزم کرت ا ہے‪ ،‬جس‬
‫کے سلسلے میں قرآن کہتا ہے‪:‬‬
‫اح ِد ْالقَہَّ ِ‬
‫ار۔(ابراہیم‪)48 :‬‬ ‫وا ہّلل ِ ْال َو ِ‬
‫ات َوبَ َر ُز ْ‬
‫او ُ‬ ‫یَوْ َم تُبَ َّد ُل اَألرْ ضُ َغی َْر اَألرْ ِ‬
‫ض َوال َّس َم َ‬
‫’’ڈراؤ انہیں اس دن سے جب کہ زمین و آسمان بدل ک ر کچھ س ے کچھ ک ر دیے ج ائیں گے اور س ب‬
‫کے سب ہللا واحد و قھار کے سامنے بے نقاب حاضر ہو جائیں گے۔‘‘‬
‫میدان حشر میں پیشی‪8:‬‬
‫اس وقت تمام لوگوں کی پیشی ہللا رب العزت کے سامنے ہو گی اور حال یہ ہو گا کہ اگر ک وئی انس ان‬
‫چ اہے گ ا کہ وہ ہللا کے س امنے حاض ر نہ ہ و اور زمین و آس مان کے کس ی گوش ے س ے کہیں نک ل‬
‫الی کے س امنے ال کھڑاکی ا‬
‫بھاگے تو ایسا کوئی راستہ نہیں پائے گ ا اور اس ے چ اہے نہ چ اہے ہللا تع ٰ‬
‫جائے گا ۔ رسول ہللاﷺ فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ما منکم من أحداال سیکلمہ ہللا یوم القیامۃ لیس بین ہللا و بینہ ترجمان ۔‬
‫الی اور بن دے کے‬
‫الی قی امت کے دن اس ط رح کالم فرم ائے گ اکہ ہللا تع ٰ‬
‫’’تم میں ہر فرد س ے ہللا تع ٰ‬
‫درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا۔‘‘‬
‫یہ لمحہ ہمیں غور وفکر کی دعوت دیتا ہے کہ دنیا میں تو انسان اپنے حقوق کی وصولیابی کے لیے یا‬
‫پھر دوسروں کے حقوق پر نا حق دست درازی کے لیے اپنے حمایتیوں کا سہارا لیتا ہے ‪،‬ا پنی پ ارٹی‬
‫کے افراد اور ان کی قوت و استحکام پر نظر رکھتا ہے ‪ ،‬ضرورت پ ڑنے پ ر اپ نے سفارش یوں ک و ال‬
‫کھڑا کرتا ہے اور کبھی اپنے مضبوط جتھے کے ساتھ طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے‪ ،‬لیکن آخ رت میں یہ‬
‫تعالی کے سامنے حاضر ہ و گ ا۔‬
‫ٰ‬ ‫سب کہاں؟بندہ ناچیز بے بس و مجبور تن تنہا حشر کے میدان میں ہللا‬
‫اسی لیے قرآن کریم نے انسانیت کو آ خرت کے اس مرحلے سے آگاہ کر دیا ہے اورفرمایا‪:‬‬
‫َولَقَ ْد ِجتُ ُمونَا فُ َرادَی َک َما َخلَ ْقنَا ُک ْم َأ َّو َل َم َّر ٍۃ۔(االنعام‪) 94:‬‬
‫’’تم یقیناًہمارے پاس تنہا ہی آؤ گے جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔‘‘‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫مطلب یہ کہ عقیدۂ آ خرت انسان کو اس تصور کے ساتھ زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے کہ ہللا‬
‫الی کے حض ور ہ ر‬
‫کے عدل و انصاف میں دنیاکی یہ ساری چیزیں کام آنے والی نہیں ہیں‪،‬بلکہ ہللا تع ٰ‬
‫انسان کو بالکل یک و تنہا حاضر ہو کر حساب و کتاب چکانا ہوگا۔ یہ رش تہ داری اں اور آل و اوالد جن‬
‫کی محبت انسان کو اکثر یاد خدا سے بھی غافل کر دیتی ہے اور کبھی نعوذ باہلل راہ حق سے م وڑ ک ر‬
‫باطل کی راہ پر ڈال دیتی ہیں‪ ،‬آخرت میں کچھ کام نہیں آئیں گی ۔اسی کو قرآن کہتا ہے‪:‬‬
‫لَن تَنفَ َع ُک ْم َأرْ َحا ُم ُک ْم َواَل َأوْ اَل ُد ُک ْم یَوْ َم ْالقِیَا َم ِۃ۔(الممتحنہ‪) 3:‬‬
‫’’قیامت کے دن نہ تمھاری رشتہ داریاں کسی کام آئیں گی نہ تمھاری اوالد۔‘‘‬
‫بلکہ اس وقت ہر انسان کو صرف اپنا خیال ہوگ ا۔چن اں چہ اس دن مج رم چ اہے گ اکہ اپ نی اوالد‪،‬اپ نی‬
‫بیوی‪،‬اپنے بھائی‪،‬اپنی حمایت کرنے والے خاندان اور دنیا بھ ر کے لوگ وں ک و بھی اگ ر ف دیہ میں دے‬
‫کر عذاب سے چھو ٹ سکتا ہو تو انہیں بھینٹ چڑھا دے اور خود چھوٹ جائے۔‘‘ (المعارج‪11:‬؍‪)14‬‬
‫حتی کہ آل و اوالد جن کے لیے وال دین ہ ر‬
‫تعالی کی عدالت میں عزیز ترین رشتہ دار ٰ‬
‫ٰ‬ ‫معلوم ہوا کہ ہللا‬
‫تعالی کے اوام ر و ن واہی‬
‫ٰ‬ ‫طرح کی قربانی دیتے ہیں‪ ،‬جن کی آسائشوں و لذتوں کی تکمیل کے لیے ہللا‬
‫سے بھی غافل ہو جاتے ہیں وہ بھی آگے بڑھ کر یہ کہنے والے نہیں ہوں گے کہ انہ وں نے فالں فالں‬
‫گناہ کے کام ہمارے لیے کیے تھے اس لیے اس کی سزا ہمیں ہی دیدی ج ائے ‪ ،‬بلکہ وہ ت و یہی چ اہیں‬
‫گے کہ اپنے گناہوں کی سزا کسی پر ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں اور خ ود ک و نج ات دال لیں ۔لیکن ہللا‬
‫تعالی کے یہاں ہر انسان کے لیے وہی کچھ ہو گا جو اس نے کمایا ہو گا‪ ،‬فرمایاگیا ‪:‬‬
‫ٰ‬
‫ان ِإاَّل َما َس َعی۔ َوَأ َّن َس ْعیَہُ َسوْ فَ ی َُری۔ثُ َّم یُجْ زَاہُ ْال َج َزاء اَأْلوْ فَی۔(النجم‪39:‬۔‪)41‬‬ ‫َوَأن لَّی َ‬
‫ْس لِِإْل ن َس ِ‬
‫’’ اور یہ کہ ہر انسان کے ل یے ص رف وہی ہے جس کی کوش ش خ ود اس نے کی‪،‬اور یہ کہ اس کی‬
‫کوشش عنقریب دیکھی جائے گی‪،‬پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔‘‘‬
‫یہ بدلہ ظاہر ہے انسان کے اعما ل کی نوعیت کے مطابق کما حقہ دی ا ج ائے گ ا‪،‬نہ ہی کس ی ہ ر بغ یر‬
‫الی نے اس سلس لے‬
‫اعمال صالحہ کے نوازشیں ہوں گی اور نہ ہی کسی پر ذرہ برابر ظلم ہو گا ۔ہللا تع ٰ‬
‫میں انسان کو پہلے ہی متنبہ کر دیا ہے ‪:‬‬
‫ُّک بِغَافِ ٍل َع َّما یَ ْع َملُون۔(االنعام‪)132:‬‬ ‫ات ِّم َّما َع ِملُ ْ‬
‫وا َو َما َرب َ‬ ‫َولِ ُکلٍّ َد َر َج ٌ‬
‫’’ہر ایک کے لیے ویسے ہی درجے ہوں گے جیسا انہ وں نے کی ا ہ و گ ا اور تمہ ارا رب ج و کچھ وہ‬
‫کرتے ہیں اس سے غافل نہیں ہے‘‘۔‬
‫آیت اپنے ما قبل سے واضح ک ر رہی ہے کہ اس کے مخ اطب جن و انس کے گ روہ ہیں‪،‬جن کے پ اس‬
‫انبیاء اور رسولوں کی آ مد برابر ہ وتی رہی ۔انبی اء انہیں اپ نی بعثت کے مقص د س ے آگ اہ بھی ک رتے‬
‫رہے ‪،‬اس کے باوجود اگر ان کے اندر عقائد و اعمال کی خرابیاں و بگاڑ پی دا ہ وا ت و وہ اپ نے ج رائم‬
‫کے اعتبار سے سزاؤں کے سزاوار ہ وں گے اور ان کی ب د اعم الیوں کے مط ابق ان کی درجہ بن دی‬
‫کرکے انہیں جہنم رسید کیا جائے گا۔اس کے بر عکس جوعقائد و اعمال کی درس تگی کے س اتھ حش ر‬
‫کے میدان میں قدم رکھے گا اورنیکیوں و بھالئیوں کا ذخیرہ اس کے ساتھ ہو گ ا‪ ،‬وہ اس ی کے مط ابق‬
‫اجر و ثواب سے اپنا دامن بھر لے گا اور بحمدہللا اس کی عظیم تردائمی نعمتوں سے ماالمال ہو گا ۔‬
‫انسان کو احساس ہونا چ اہیے کہ درجہ بن دی ک رنے والی اور فیص لہ ک رنے والی وہ ذات ہ و گی جس‬
‫ت خ ود بھی ہ ر ف رد کے افع ال پ ر‬
‫کے پاس نہ صرف یہ کہ ہر انسان کا ریکاڈ موجود ہے بلکہ وہ بذا ِ‬
‫بہت ب اریکی س ے نظ ر رکھے ہ وئے ہے ۔اس ل یے اپ نے ع دل کے تقاض ے کے مط ا ب ق ا س ی کے‬
‫بقدرسزا سے دو چار کرے گا ۔‬
‫‪ANS 05‬‬
‫الی کی عب ادت ک رنے والی مخل وق ہیں‪،‬ان میں‬
‫"مالئکہ" یع نی فرش تے ای ک پوش یدہ اور ہللا تع ٰ‬
‫الی نے انہیں ن ور س ے پی دا فرمای ا‬
‫"ربوبیت" اور "الوہیت" کی کوئی خصوصیت موجود نہیں‪،‬ہللا تع ٰ‬
‫ہے اور ان کو اپنے تمام احکام پوری ط رح بج ا النے اور انہیں ناف ذ ک رنے کی ق درت و ق وت عط ا‬
‫فرمائی ہے۔‬
‫تعالی کا ارشاد ہے‪:‬اور اسی کا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو اس کے ہ اں ہیں‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫اس کی عبادت س ے تک بر نہیں ک رتےاور نہ تھک تے ہیں رات اور دن تس بیح ک رتے ہیں سس تی نہیں‬
‫کرتے (سورۃ االنبیاء‪ )20-19  :‬۔ ارشاد بارئ تعالی ہے ‪ :‬پھر بھی اگر یہ ک بر و غ رور ک ریں ت و وه‬
‫(فرشتے) جو آپ کے رب کے نزدیک ہیں وه تو رات دن اس کی تسبیح بیان کر رہے ہیں اور (کس ی‬
‫وقت بھی) نہیں اکتاتے(الفصلت‪)38 :‬‬
‫تعالی کے سوا ان کی صحیح تعداد کوئی نہیں جانتا۔حضرت انس‬
‫ٰ‬ ‫فرشتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ‪،‬ہللا‬
‫رض ی ہللا عنہ کی قص ہ مع راج والی ح دیث میں ہے‪":‬ن بی ﷺ جب آس مان پ ر "بیت المعم ور" پ ر‬
‫پہنچے تو دیکھا کہ اس میں ہر روز ستر ہ زار فرش تے نم از پڑھتے ہیں اور ج و اس میں ای ک ب ار‬
‫(نماز پڑھ کر ) چال جاتا ہے دوبارہ اس میں لوٹ کر نہیں آتا‪،‬یعنی پھر کبھی اس کی واپسی کی نوبت‬
‫نہیں آتی۔"(صحیح بخاری ‪،3207:‬صحیح مسلم ‪)164:‬‬
‫ان۔‬ ‫ر ایم‬ ‫ود پ‬ ‫توں کے وج‬ ‫‪ .1‬فرش‬
‫‪ ‬‬
‫‪ .2‬جن فرشتوں کے نام ہمیں معلوم ہیں ان پر ایمان مفص ل اور جن فرش توں کے ن ام معل وم‬
‫ا۔‬ ‫ان الن‬ ‫اال ایم‬ ‫ر اجم‬ ‫بپ‬ ‫نہیں ان س‬
‫‪ ‬‬
‫‪ .3‬فرشتوں کی جن صفات کا ہمیں علم ہے ان پر ایمان النا جیس ا کہ حض رت جبرائی ل علیہ‬
‫السالم کی صفت کے متعلق نبی ﷺ نے بیان فرمایا‪:‬میں نے جبرائی ل علیہ الس الم ک و ان‬
‫کی اصل شکل و صورت میں دیکھا۔ان کے چھ سو پر تھے اور انہ وں نے اف ق ک و بھ ر‬
‫رکھا تھا۔یعنی پوری فضا پر چھائے ہوئے تھے۔(مسند احمد‪1/407،412،460:‬۔)‬
‫الی کے حکم س ے انس انی ش کل و ص ورت میں بھی ظ اہر ہ وتے ہیں جیس ا کہ‬
‫کبھی فرش تے ہللا تع ٰ‬
‫تعالی نے انہیں حض رت م ریم علیھ ا‬
‫ٰ‬ ‫حضرت جبرائیل علیہ السالم کے متعلق معروف ہے کہ جب ہللا‬
‫السالم کے پاس بھیجا تو وہ ان کے پ اس ای ک ع ام انس ان کی ش کل میں آئے تھے۔ اس ی ط رح ای ک‬
‫مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السالم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ‪،‬اس وقت آپ (ﷺ) ص حابہ‬
‫کرام رضی ہللا عنھم کے درمیان تشریف فرما تھے۔وہ ایک ایسے شخص کی ش کل میں آئے تھے کہ‬
‫ان کے کپڑے انتہائی سفید اور سر کے بال غیر معمولی طور پر سیاہ تھے اور ان پ ر س فر کے آث ار‬
‫بھی نہیں تھے‪،‬صحابہ میں سے کوئی بھی انہیں نہیں پہچانتا تھا۔وہ اپنے گھٹنے نبی ﷺ کے گھٹن وں‬
‫س ے مال ک ر بیٹھ گ ئے اور اپ نے ہ اتھ اپ نی ران وں پ ر رکھ ل یے۔انہ وں نے ن بی ﷺ س ے‬
‫اسالم‪،‬ایمان‪،‬احس ان‪،‬قی امت کی گھ ڑی اور اس کی نش انیوں کے ب ارے میں س وال کی ا۔ن بی ﷺ انہیں‬
‫جواب دیتے رہے۔پھر نبی ﷺ نے صحابہ کرام رضی ہللا عنھم سے مخاطب ہو کر فرمایا‪:‬ھذا جبری ل‬
‫اتاکم یعلمکم دینکم"یہ جبرائیل تھے جو تمہیں تمہارا دین س کھانے آئے تھے۔"(ص حیح مس لم‪ )9،10:‬‬
‫تعالی نے حضرت ابراہیم اور حض رت ل وط علیھم الس الم کے پ اس‬
‫ٰ‬ ‫اسی طرح وہ فرشتے جن کو ہللا‬
‫بھیجا تھا وہ بھی انسان ہی کی شکل میں آئےتھے۔‬
‫‪ ‬‬
‫الی کے حکم س ے انج ام‬
‫فرش توں کے ان اعم ال پ ر ایم ان الن ا ج و ہمیں معل وم ہیں اور وہ ہللا تع ٰ‬
‫دیتےہیں‪،‬مثال ہللا عزوجل کی تسبیح کرنا اور دن رات مسلسل بغ یر تھک اوٹ اور اکت اہٹ کے اس کی‬
‫عبادت کرنا وغیرہ۔بعض فرشتے مخصوص اعمال کے لیے مقرر ہیں۔جن کی تفصیل حسب ذیل ہے‪:‬‬
‫‪ ‬‬
‫جبریل امین‬
‫الی نے اپ نی وحی کے س اتھ انہیں اپ نے ن بیوں اور‬
‫تعالی کی وحی پہنچ انے پ ر م امور ہیں۔ہللا تع ٰ‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫رسولوں کے پاس بھیجا ہے۔ہللا تعالی کا ارشاد ہے‪ :‬اسے امانت دار فرشتہ لے کر آی ا ہے‪،‬آپ کے دل‬
‫پر اترا ہے کہ آپ آگاه کر دینے والوں میں سے ہو جائیں‪،‬صاف عربی زبان میں ہے‪(،‬الشعراء‪-193 :‬‬
‫‪)195‬‬
‫‪ ‬‬
‫میکائیل‬
‫ان کے ذمہ بارش اور نباتات (یعنی روزی) پہنچانے کا کام ہے۔ ہللا تعالی ک ا ارش اد ہے‪( :‬ت و ہللا بھی‬
‫اس ک ا دش من ہے) ج و ش خص ہللا ک ا اور اس کے فرش توں اور اس کے رس ولوں اور جبرائی ل اور‬
‫میکائیل کا دشمن ہو‪ ،‬ایسے کافروں کا دشمن خود ہللا ہے۔(البقرۃ‪)98 :‬‬
‫‪ ‬‬
‫اسرافیل‬
‫قیامت کی گھڑی اور مخلوق کو دوبارہ زندہ کیے جانے کے وقت صور پھونکنے پر مامور ہیں۔‬
‫‪ ‬‬
‫موت کا فرشتہ‬
‫موت کے وقت روح قبض کرنے پر م امور ہے۔ارش اد ب ارئ تع الی‪ :‬کہہ دیج ئے! کہ تمہیں م وت ک ا‬
‫فرشتہ فوت کرے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے پھر تم س ب اپ نے پروردگ ار کی ط رف لوٹ ائے ج اؤ‬
‫گے۔(السجدۃ‪)11 :‬‬
‫‪ ‬‬
‫مالک‬
‫یہ فرشتہ داروغہ جہنم ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے‪ :‬اور پکار پک ار ک ر کہیں گے کہ اے مال ک! ت یرا‬
‫رب ہمارا کام ہی تمام کردے‪ ،‬وه کہے گا کہ تمہیں تو (ہمیشہ) رہنا ہے(الزخرف‪)77 :‬‬
‫‪ ‬‬
‫جنین پر مامور فرشتے‬
‫اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو شکم مادر مین جنین (بچے) پر مامور ہیں ۔ انس بن مالک رضی ہللا‬
‫رحم مادر میں ہللا تعالی نے ایک فرشتہ مقرر کر رکھ ا‬
‫عنہ روایت کرتے ہيں کہ نبی ﷺ نے فرمایا‪ِ :‬‬
‫ہے‪ ،‬و کہتا ہے اے رب! اب يہ نطفہ ہے‪ ،‬اے رب! اب يہ جما ہ وا خ ون بن گی ا ہے‪ ،‬اے رب! اب يہ‬
‫گوشت کا ایک لوتھڑا بن گیا ہے‪ ،‬پھ ر جب ہللا تع الی چاہت ا ہے کہ اس کی خلقت پ وری ک رے ت و وہ‬
‫کہتا ہے کہ مذکر ہے یا مؤنث‪ ،‬بد بخت ہے یا نیک بخت‪ ،‬روزی کتنی مق در ہے اور عم ر کت نی ہے‪،‬‬
‫پس م اں کے پيٹ میں ہی فرش تہ يہ تم ام ب اتیں لکھ دیت ا ہے۔(ص حیح البخ اری‪ ،318 :‬ص حيح مس لم‪:‬‬
‫‪)2647‬‬
‫‪ ‬‬
‫نبی آدم کے اعمال کی حفاظت پر مامور فرشتے‬
‫ہر شخص کے اعمال کی حفاظت اور انہیں لکھنے کے لیے دو فرشتے مقرر ہیں جن میں س ے ای ک‬
‫انسان کے دائیں جانب اور دوسرا ب ائیں ج انب رہت ا ہے۔ ارش اد ب ارئ تع الی ہے‪ :‬یقین ا ً تم پ ر نگہب ان‬
‫عزت والے‪،‬لکھنے والے مقرر ہیں ۔(االنفطار‪)10،11 :‬‬
‫‪ ‬‬
‫ُمردوں سے سوال کرنے پر مامور فرشتے‬
‫جب میت ک و ق بر میں رکھ دی ا جات ا ہے ت و اس کے پ اس دو فرش تے آتے ہیں ج و اس س ے اس کے‬
‫رب ‪،‬اس کے دین اور اس کے نبی کی بابت سوال کرتے ہیں۔ اب و ہری رہ رض ی ہللا عنہ س ے روایت‬
‫ہے کہ رسول ہللا ﷺ نے فرمایا‪ :‬جب مردے کو قبر ميں داخل کردیا جاتا ہے تو اس کے پاس دو سیاہ‬
‫رنگ کے فرشتے آتے ہیں‪ ،‬ان کی آنکھیں نیلگوں ہوتی ہیں‪ ،‬ان میں سے ایک کو منکر اور دوس رے‬
‫کو نکیر کہا جاتا ہے۔(صحیح الترمذي‪)1071:‬‬
‫‪ ‬‬
‫وہ فرشتے جو نماز جمعہ میں شرکت کرنے والوں کے نام اندراج کرتے ہیں‬
‫کچھ فرش تے نم از جمعہ میں ش رکت ک رنے وال وں ک ا ان دراج ک رتے ہیں ‪ :‬اب وہریرہ رض ی ہللا عنہ‬
‫روایت ہےکہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ‪  :‬جب جمعہ ک ا دن آت ا ہے ت و فرش تے‪  ‬مس جد‬
‫کے دروازے پر آنے وال وں کے ن ام لکھ تے ہیں ‪ ،‬س ب س ے پہلے آنے واال اونٹ کی قرب انی دی نے‬
‫والے کی ط رح لکھ ا جات ا ہے ۔ اس کے بع د آنے واال گ ائے کی قرب انی دی نے والے کی ط رح پھ ر‬
‫مینڈھے کی قربانی کا ثواب رہتا ہے ۔ اس کے بعد مرغی کا ‪ ،‬اس کے بعد انڈے کا ۔ لیکن جب ام ام (‬
‫خطبہ دینے کے لیے ) باہر آ جاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے دفاتر بند کر دیتے ہیں اور خطبہ سننے میں‬
‫مشغول ہو جاتے ہیں ۔(صحیح البخاری‪ ،929 :‬صحيح مسلم‪)850 :‬‬
‫‪ ‬‬
‫فرشتوں پر ایمان النے کے ثمرات‬
‫‪ ‬اول‪ :‬ہللا تعالی کی عظمت و کبريائی‪ ،‬اس کی قوت اور اس کی س لطنت ک ا علم‪ ،‬ياد رہے کہ مخل وق‬
‫ل ہے۔‬ ‫الق کی عظمت کی دلی‬ ‫کی عظمت خ‬
‫‪ ‬‬
‫دوم‪ :‬بنی آدم پر عنایات وانعامات کرنے پر ہللا تع الی ک ا ش کريہ ادا کرن ا‪ ،‬کہ اس ني ان فرش توں ک و‬
‫ب نی آدم کی حف اظت‪ ،‬ان کے اعم ال ک و لکھ نے اور دیگ ر مص لحتوں پ ر م امور فرمای ا ہے۔‬
‫‪ ‬‬
‫سوم‪:‬فرشتوں سے محبت کہ وہ ہللا تعالی کی عبادت اور اپنے سپرد ک ردہ ف رائض کی انج ام دہی میں‬
‫مصروف ہيں۔‬

You might also like