You are on page 1of 10

‫ف‬

‫صل اول‬
‫سورۃ البقرہ‪ 129 :‬بعثت نبوی ﷺ) ‪،‬سورہ ۃالبقرہ ‪ 142‬تا ‪144‬‬
‫(تحویِل قبلہ)‬
‫اس فصل میں منتخب آیات قرانیہ کا ذکر ہے جن میں ڈاکٹر اسرار احمد‬
‫ؒاور موالنا اشرف علی تھانویؒ نے آئمہ مفسرین اور محدثین کے اقوال و‬
‫اراء کی روشنی میں بعثت نبوی صلی ہللا علیہ والہ وسلم اور تحویل قبلہ‬
‫ق‬
‫کے متعلق وضاحت کی ہے۔‬
‫ث‬ ‫ت‬ ‫ق‬
‫رآن می ں م اصدِ ب ع تنکا ذکرہ‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ق‬
‫ت‬‫ف رآن کری م میق ں ہللا عالی ے ی ضن م اماتؑمپر آپﷺ کے م اصِد ب عث ُات کو ب ی ان‬
‫اس کا ذکر ہ نوا‪ ،‬ن کی ی ہ م ن ا‬ ‫خن‬ ‫سے‬ ‫ان‬ ‫ب‬‫ز‬ ‫کی‬ ‫ی‬ ‫ت رما اے‪ ،‬پ ہالم ام وہ ے ہاں رت ا راہ‬
‫ب‬ ‫ہ جس ضح‬ ‫ہ خ‬ ‫ی ن‬
‫دان اور سل سے ہ وں ؛‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫کے‬
‫ق‬ ‫ی‬ ‫ہ‬‫ئ‬‫آپ‬ ‫ف‬ ‫ﷺ‬ ‫ت‬ ‫دمحم‬ ‫رت‬ ‫ل‬
‫سی ن ح‬‫الر‬ ‫د‬ ‫الزمان‬ ‫ر‬ ‫آ‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫نھی کہ‬
‫ہ‬
‫ے آپ ےخ ج ب ب ی ت ہللا کی عمی ر رما ی‪ ،‬ی ہ تو ت چ و کہتب ڑی ا می ت کا‬ ‫چ ن ا چ ہ تاس کے ئی‬
‫ل‬
‫ے عمی ر ک ی ا گ ی ا ھا‪ ،‬ناس حسا س اور‬ ‫ئکا پ ہال گھر اس کی ب ن دگی کے ی‬
‫ل‬ ‫اتج می تں دا‬
‫س‬
‫حامل ق ھا‪ ،‬اس کا ن‬
‫ن‬
‫ن‬ ‫م‬
‫ے رکھ کر آپ‬ ‫ے ہ وے اور کری م پروردگار کی ال طاف وع ای ات کو سام‬ ‫اہنم مو ع کی زاکت کو ھ‬
‫ے دعاکی‬
‫َر َّب َن ا َو ٱْب َع ْث ِفيِه ْم َر ُسواًل ِّم ْن ُهْم َي ْت ُلو۟ا َع َلْي ِه ْم َء اَٰي ِتَك َو ُيَع ِّلُمُهُم ٱْلِك َٰت َب َو ٱْلِح ْك َم َة َو ُي َز ِّك يِه ْم ۚ ِإَّن َك َأنَت‬
‫‪1‬‬
‫ٱْلَع ِز يُز ٱْلَح ِكيُم‬
‫ن‬ ‫ب ن ن‬
‫ک ایسا رسول ب ھی یھ ج ا ج و ا ہیعمی ں سے ہ و‪،‬ج و ان کے نسامئ‬
‫ے‬ ‫ت‬ ‫روردگار !ان می ں ای ن‬ ‫ت‬ ‫تہ مارےت پ‬
‫کمت کی لی م دے‪ ،‬اور ان کو پ اکی زہ ب اے‪،‬‬
‫م‬ ‫ی شری آی توں کی الوت تکرے‪ ،‬ا ھی ں کت اب اور ح ق‬
‫ے‪ ،‬جس کی حکمت ب ھی‬ ‫ب‬
‫ے جس کا ا ت دار ھی کا ل ہ‬ ‫ب ی م ک ی ری اور صرف ی ری ذات وہ ہ‬
‫ت‬ ‫کا ل۔ ‘‘‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ﷺ ہ ی ں ۔ ؑمب ینکری م ئﷺ‬ ‫رسول ہللا ض‬ ‫ت‬ ‫دمحم‬
‫اس سے مراد ن‬ ‫فجس ب یتکی تآپ ے م انکی ھی‬
‫ن‬ ‫ہ‬
‫اپ اخب نرا ی م کی دعا نکا ی ج ہ ہ وں ۔ شح رت ابرا ی ے کا ات کی‬‫ہ‬
‫ص‬ ‫ہ‬ ‫ےب ن‬ ‫ے تکہ می ںہ اپ ت‬
‫رمای ا کرے ھ‬
‫ع‬
‫ے سعادت کو حا ل‬ ‫ے ا دان می ں ما گ ل ی ا اور می ہ کے یل‬ ‫سب سے ظ ی م ری ن س ی کو اپ‬
‫کرل ی ا۔‬
‫ق ت ئ ف‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ت‬
‫ے ہ وے رمای ا‬ ‫ے ج اے کو احسان راردی‬ ‫دوسری ج گہ ہللا عالی ے آپ کے یھج‬

‫ق‬
‫‪ 1‬الب رہ‪129:‬‬
‫َلَق ْد َم َّن ٱُهَّلل َع َلى ٱْلُمْؤ ِمِنيَن ِإْذ َبَع َث ِفيِه ْم َر ُسواًل ِّمْن َأنُفِس ِه ْم َي ْت ُلو۟ا َع َلْي ِه ْم َء اَٰي ِتِهۦ َو ُي َز ِّك يِه ْم‬
‫َو ُيَع ِّلُمُهُم ٱْلِك َٰت َب َو ٱْلِح ْك َم َة َو ِإن َك اُنو۟ا ِمن َقْبُل َلِفى َض َٰل ٍل ُّم ِبي‬
‫ن‬ ‫ق‬
‫‪1‬‬

‫ن‬
‫ٍن‬
‫ن‬ ‫ح ق‬
‫وں پر ب ڑا اح تسان ک ی ا تکہ ان کے درم ی نان ا ھی ں می ں سے‬
‫ت‬ ‫نم ت‬ ‫مؤ‬ ‫ے‬ ‫ہللا‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ٰ ’’ ی بی ہ‬
‫ہ‬ ‫ت‬
‫وصاف‬
‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ے ہللا ععالی کی آی وں کی الوت کرے‪،‬ا ہی ں پ اکق‬ ‫ک رسولن یھ ج ا ج و ان کے سام‬ ‫ا نی ئ‬
‫ے ی ی ن ا لی‬‫ہ‬
‫اب اور کمت کی لی م دے؛ ج ب کہ ی ہ لوگ اس سے پ ل‬ ‫ح‬ ‫ب ائے اور ا ہی ں کت ت‬
‫ے۔‘‘‬ ‫ہ و ی گمراہ ی می ں مب ت ال ھ‬
‫ت ئ ف‬ ‫ث‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫ہ‬ ‫ب‬
‫یسری ج گہ ہللا عالی ے م اصدِ ع ت کو ب ی ا ن کرے وے رمای ا‪:‬‬
‫ُه َو ٱَّلِذى َبَع َث ِفى ٱُأْلِّم ِّي ۧـ َن َر ُسواًل ِّم ْن ُهْم َي ْت ُلو۟ا َع َلْي ِه ْم َء اَٰي ِتِهۦ َو ُي َز ِّك يِه ْم َو ُيَع ِّلُمُهُم ٱْلِك َٰت َب َو ٱْلِح ْك َم َة‬
‫َو ِإن َك اُنو۟ا ِمن َقْبُل َلِفى َض َٰل ٍل ُّم ِبي‬
‫ن‬ ‫ن ُا‬
‫‪2‬‬
‫ٍن‬
‫ن‬ ‫’’وہ ی ے جس ے می لوگوں می ں ا ھی ں می ں سے ان ک رسول کو ب یھ ا ج و ان ت‬
‫ے‬ ‫کے سام‬ ‫ع‬ ‫ج‬ ‫ی‬ ‫نئ‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫ت‬
‫اس کی آی وں کی الوت کرکی ں اور ان کو پ اکی زہ ب ا ی ں اور ا ھیئں تکت اب و کمت کی لی م دی ں ؛‬
‫ح‬ ‫ئ‬
‫ے۔‘‘‬ ‫ے ھلی ہ و ی گمراہ ی می ں پ خڑے ہ وے ھ‬ ‫ج ب کہ وہ اس سے پہل‬
‫ت ئ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ض‬
‫ح ترت موال ا ع ب د الماج د دری اب ادیؒ م اصِد ب عث ت کو م صر ل ی کن ج امع ا داز می ں ب ی ان کرے ہ وے‬
‫ےہی ں‪:‬‬ ‫لک‬
‫ئ‬ ‫ھ‬
‫ئ‬ ‫ت ن فق‬ ‫ف‬
‫ےہی ں۔‬ ‫گ‬ ‫رسول اعظ مﷺ کے ج ملہ را ض کماِل ای ج از کے سا ھ چ د روں می ں آ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫تنت‬ ‫پن‬ ‫ْو ْم َک‬
‫ے‪ ،‬ی ع ی ہللا‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ات‬
‫ِت ی ُم ت َب‬ ‫آ‬ ‫الو‬ ‫ے‬ ‫م‬ ‫سا‬ ‫کے‬ ‫امت‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫کام‬ ‫ال‬ ‫ہ‬ ‫پ‬ ‫کا‬ ‫رسول‬ ‫"َی ْتُل ا َعَلْیِھ ن ٰا نٰیِت‬
‫م‬
‫‘‘‬
‫ے۔ت’’ُیَعِّلُمُھ ا تْلِکٰت ‘‘ ترسول‬ ‫ع‬ ‫ہ‬
‫کا کالم پ ہ چ ا ت ا‪،‬گوی ا رسول کی پن لی خح یت ث ی نت ب لِغ ا ت ظ م کی ہ و ی‬
‫ہ‬
‫رسا ی ر م ہی ں ہ و ا ا‪،‬اس کاکام کت انبِ اٰلہی کی ب لیخ غ کے ب خ‬ ‫کاکام محض ب لی غ وپ ام ت‬ ‫ت‬
‫عد اس‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ج‬ ‫ن‬ ‫پ‬ ‫ع‬ ‫ی‬ ‫ع‬‫ت‬
‫ص‪ ،‬صی ص‬ ‫ص‬ ‫ع‬ ‫کی لی م کا ب ھی ے‪،‬اس لی م کے ا در کت ف‬
‫رح‪ ،‬رجت ما ی‪ ،‬ئمی م می ں ی ن‬ ‫ب‬
‫اب کی‬ ‫ہ ئ‬ ‫مں ع‬
‫ج‬ ‫ہ‬
‫کج موں کی ھی ردی د وگ ی و رسول کا م ع صب‬ ‫ہ‬ ‫ان‬
‫س‬ ‫سے‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫ی‬ ‫اور‬ ‫ی‬ ‫گ‬‫آ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬
‫چ‬ ‫سب‬ ‫م‬ ‫می‬ ‫ی‬
‫جم ت‬ ‫ق‬
‫ے ہ ی ں ‪ ،‬گوی ا رسول کی دوسری ح ی ث ی ت م ل اعظ م‬ ‫ھ‬ ‫طرح‬ ‫کی‬
‫ع‬
‫عاذ ہللا) صرف ڈاک ہ ا اصد ت‬
‫َۃ ی ی‬ ‫َو‬ ‫ئ‬ ‫م‬ ‫(‬
‫ِم‬ ‫م‬
‫کی ہ و ی۔’’ اْلِحْکَم ‘‘ ھر رسول م حض‬
‫لی‬ ‫پ‬
‫ق‬ ‫نئ ت‬
‫ب‬ ‫ن‬
‫گے‪،‬احکام‬ ‫امت کو کری ں خ‬ ‫ب ہ ی کی ہ دی قں گے ب لکہ حکمت و دا ا یخ کی ل ی ن ھی ئ‬ ‫کت ا ئ‬
‫واص کی‬ ‫واص سب کو سکھا ی ں گے اور ئ‬ ‫اعدے اور آداب‪ ،‬عوام و ت‬ ‫ومنسائ ل‪ ،‬دی ن کے‬
‫ع‬ ‫ش‬ ‫ح‬
‫گے‪،‬گوی ا رسول کی یسری ی ث ی ت مر ف دِ ا ظ م کی ہ ظو ی۔‬ ‫ب‬
‫اسرارو رموزمی ں ھی کری ں ف ئ‬ ‫رہ َزما ی‬
‫ت‬ ‫ْم‬
‫کام محض ال خاظ اور احکامِ اہ ری کی‬ ‫ے‪ ،‬رسول کا ن ت‬ ‫ت ش’’ُی ِّک تْیِھ ‘‘ زکی ہ نسے مراد دلوں کی ص ا خی ہ‬
‫ب‬
‫اور ی وں کے ا ئ الص کے ھی‬ ‫ے گا؛ ب لکہ وہ ا تالق کی پ اکی زگی‬ ‫ف ریئ ح ن‬
‫ع‬ ‫ص‬ ‫ک محدود ہی ں رہ‬
‫‪3‬‬
‫را ض ا ج ام دی ں گے‪،‬گوی ا رسول کی ی ہ چ و ھی ح ی ث ی ت م ِحل ا ظ م کی ہ و ی۔‬
‫سورۃ البقرہ ‪( 129:‬بعثت نبویﷺ)‬
‫‪1‬‬

‫تف‬
‫‪2‬‬

‫‪3‬‬
‫سی ر ماج دئ ج لد اول ص‪66‬‬
‫َر َّب َن ا َو ٱْب َع ْث ِفيِه ْم َر ُسواًل ِّم ْن ُهْم َي ْت ُلو۟ا َع َلْي ِه ْم َء اَٰي ِتَك َو ُيَع ِّلُمُهُم ٱْلِك َٰت َب َو ٱْلِح ْك َم َة َو ُي َز ِّك يِه ْم ۚ ِإَّن َك َأنَت‬
‫ٱْلَع ِز يُز ٱْلَح ِكيُم‬
‫ترجمہ ‪":‬اور اے ہمارے پروردگار ان لوگوں میں اٹھائیو ایک رسول‬
‫خود انہی میں سے جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب‬
‫اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاک کر دے یقینا توہی ہے زبردست‬
‫‪" 1‬اور کمال حکمت واال‬
‫تفسیر بیان القران میں مذکورہ آیت کی ذیل میں بعثت سے متعلق‬
‫واقعات و مسائل سیرت کا تحقیقی جائزہ آپ صلی ہللا علیہ والہ‬
‫وسلم کے بعثت کے لیے ابراہیم علیہ السالم کی دعا کی تفصیل۔‬
‫ڈاکٹر اسرار احمد کے مندرجہ باال آیت کی تفسیر میں حضرت ابراہیم کی دعا کا‬
‫ذکر کرتے ہیں جو کہ نبی اکرم ﷺسے متعلق ہے ۔حضرت ابراہیمؑ اور‬
‫حضرت اسماعیلؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد تین دعائیں مانگی ایک تو یہ‬
‫کہ‬
‫َر َو‬
‫َّبَنا ٱْجَعْلَنا ُمْسِلَمْيِن َلَك ‪" 2‬اے ہمارے پروردگار ہمیں اپنا مطیع و فرمانبردار بنا "‬
‫"ہم دونوں کی نسل سے ایک امت اٹھا جو تیری‬ ‫اور دوسری یہ کہ‬
‫‪3‬‬
‫فرمانبردار ہو"‬
‫اور تیسری دعا "ا ے ہمارے پروردگار ان میں سے ایک رسول اٹھائیو جو‬
‫انہیں تیری ایات پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان‬
‫‪4‬‬
‫کو پاک کر دے یقینا تو ہی زبردست اور کمال حکمت واال ہے "‬
‫حضرت ابراہیم ؑا ور حضرت اسماعیؑل کی نسل سے مراد بنی اسماعیل ہے۔ وہ‬
‫دونوں اپنے پروردگار سے دعا کر رہے تھے کہ اے پروردگار ہماری اسی نسل‬
‫تاکہ ان‬ ‫میں ایک رسول مبعوث فرما جو کہ انہی میں سے ہو باہر کا نہ ہو‬
‫کے اور اس کے درمیان کوئی اجنبیت نہ ہو۔ کتاب کا صرف پڑھ کر سنا دینا تو‬
‫ق‬
‫‪ 1‬سورہ قالب رہ‪129:‬‬
‫‪2‬‬
‫سورہ الب رہ‪128:‬‬
‫ق‬
‫سورہ ا لب رہ‪128:‬‬
‫ق‬
‫‪3‬‬

‫‪4‬‬
‫الب رہ‪129:‬‬
‫بہت آسان کام ہے اس کے بعد کتاب اور اس میں موجود حکمت کی تعلیم دینا‬
‫اور اسے دلوں میں بٹھانا اہم ہے ان کا تزکیہ کرے اور ان کے دلوں میں تیری‬
‫محبت اور آخرت کی طلب کے سوا کوئی طلب باقی نہ رہے اس آیت میں آپ‬
‫ﷺکی عبادت کے چار بڑے مقاصد ہللا تعالی نے ذکر کیے ہیں یعنی تالوت‬
‫کتاب ‪،‬تعلیم وحکمت ‪،‬تعلیم کتاب اور تزکیہ نفوس ہے ہللا تعالی نے ان کی دعا‬
‫قبول کی اور بذریعہ وحی بتال دیا کہ جس رسول صلی ہللا علیہ وسلم کے پیدا‬
‫ہونے کی دعا آپ مانگ رہے ہیں وہ آخر زمانہ میں ظاہر ہوگا اور ملت ابراہیمی‬
‫کی اطاعت کرنے واال ہوگا اس امت کا نام امت مسلمہ ہوگا جیسا کہ ہللا تعالی کا‬
‫ارشاد ہے ُه َو َس َّم ٰى ُك ُم ٱْلُمْس ِلِميَن ‪ 1‬اور چونکہ ایک عظیم امت کا باوجود اختالف آ را‬
‫ءوعقول کے ایک مسلک اور ایک طریقے پر بغیر کسی مربی کے قائم رہنا‬
‫ناممکن ہے۔ اس لیے ان میں سے ایک رسول بھیج دیں جو اس امت مسلمہ کو دین‬
‫اسالم سکھائے۔اس کے عالوہ جب وہ رسول انہی میں سے ہوگا تو لوگ اس کے‬
‫مولد و منشا ‪،‬حسب و نصب ‪،‬امانت و دیانت ‪،‬اخالق و صورت اور سیرت سے بخوبی‬
‫واقف ہوں گے اور اس کے اتباع سے جھجک محسوس نہیں کریں گے اور جب‬
‫نبی صلی ہللا علیہ وسلم کے ساتھ رشتہ داری کی محبت اور مہربانی بھی مل جائے‬
‫گی تو اس رسول کی مدد اور اس کی شریعت کی ترویج اور اشاعت میں کوئی‬
‫مشکل نہ ہوگی ۔اس نبی کو اپنا سمجھ کر معاملہ کریں گے اجنبی اور غیر کا‬
‫معاملہ نہ کریں ۔‬
‫پہال مقصد‪:‬تالوِت قرآن‬
‫رسول ہللاﷺ نے امت میں تالوِت قرآن کی عظمت واہمیت کو عام‬
‫فرمایا اور اس کے فوائد وبرکات سے آگاہ کیا اورانسانوں کے ہاتھ میں خدا کا یہ‬
‫عظیم کالم سونپا جس کی وجہ سے انسانیت ذلت سےنکلی اور تالوِت قرآن کا‬
‫ایسا ذوق ان کو عطا کیا کہ اس سے کسی لمحہ صحابۂ کراؓم کو سیری حاصل‬
‫نہیں ہوتی تھی اور خود آپﷺ جب قرآن کریم کی تالوت فرماتے کتنے ہی‬
‫پتھر دل موم ہوجاتے اور کیسے کیسے سخت مزاج انسان نرم پڑجاتے اور قرآن‬
‫کی حقانیت و عظمت کا اقرار کیے بغیر نہیں رہتے اور بہت سے لوگ اسی قرآن‬
‫کی سماعت سے دائر ہ اسالم میں داخل ہوئے۔دنیا میں جو کچھ انقالب نظر آرہا‬
‫‪1‬‬
‫الحج‪78:‬‬
‫ہے بالشبہ یہ اس عظیم کتاب کی بدولت ہے جو صاحب کتاب سیدنا محمد رسول‬
‫ہللا ﷺ نے بطور امانت انسانوں تک پہنچایا اور اس کے تقاضوں کو عملی‬
‫طور پر پورا کرکے دکھایا۔قرآن کا نزول عرب کی سرزمین پر ہوا لیکن وہ‬
‫پوری دنیا کے لیے اور ہمیشہ کے لیے معجزہ بن کر آیا اور اس کی کرنیں‬
‫سارے عالم میں پھیل گئیں اور جہاں قرآن کا نور پہنچا وہاں اندھیریوں کا خاتمہ‬
‫ہوا اور کفر و شرک نے دم توڑدیا۔ حضرات صحابۂ کرامؓ کی زندگیوں میں‬
‫انقالبی اثرات اسی کالم نے پیدا کیے اور وہ انسانوں کو رہبر اور رہنما بنے بھی‬
‫تو اسی قرآن کی تعلیمات پر عمل کرکے بنے۔‬

‫قرآن نے ہر شعبۂ زندگی میں مثالی انقالب بر پا کیا۔ تالوِت قرآن کی اہمیت کو‬
‫بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا‪ :‬جو قرآن کریم پڑھنے میں اس قدر‬
‫مستغرق ہو کہ اس سے دعا مانگنے کا موقع ملے تو ہللا تعالی نے فرمایا کہ‬
‫‪1‬‬
‫مانگنے والوں سے زیادہ ایسے بندے کو عطاکروں گا۔‬

‫آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی قوم ہللا کے گھروں میں سے کسی گھر میں‬
‫مجتمع ہوکر تالوت کرتی ہے تو ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے اور رحمت ڈھانپ‬
‫لیتی ہے‪ ،‬مالئکۂ رحمت ان کو گھیر لیتے ہیں اور حق تعالی اس کا ذکر مالئکہ‬
‫‪2‬‬
‫کی مجلس میں فرماتے ہیں ۔‬

‫حضرت انس سؓے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ‪:‬جس گھر میں‬
‫قرآن کریم کی تالوت کی جاتی ہے اس میں فرشتے آتے او رشیاطین دور‬
‫ہوجاتے ہیں ‪ ،‬وہ اپنے صاحب خانہ کے لیے کشادہ ہوجاتا ہے اور اس میں‬
‫بھالئی کی بہتات اور شر کی قلت ہوجاتی ہے‪ ،‬اور جس گھر میں قرآن کی تالوت‬
‫نہ ہو اس میں شیاطین آجاتے ہیں ‪ ،‬فرشتے نکل جاتے ہیں اور وہ گھر اپنے‬
‫‪3‬‬
‫باسیوں پر تنگ ہوجا تا ہے‪ ،‬خیرکم اور شر بہت بڑھ جاتا ہے۔‬

‫دوسرا مقصد‪ :‬تعلیمِ قرآن‬

‫ت‬
‫‪1‬ی رمذی‪2926:‬‬
‫ص لمس‬
‫‪2‬‬

‫لم‪:‬ج سوم؛‪2356‬‬ ‫ح‬


‫ف یئ ح ا ف ق‬
‫‪3‬‬
‫ض ا ل ح ظ ال رآن‪131:‬‬
‫قرآن کریم کی تالوت کرنے کے ساتھ اس کے معانی ومطالب انسانوں کو‬
‫سمجھانا یہ بھی نبی ﷺ کی عظیم ذمہ داری رہی اور آپ ﷺ نے الفاظِ ‬
‫قرآنی کے ساتھ معانیٔ قرآن بھی بتالئے۔نبی ﷺ نے مراِد خداوندی کو‬
‫سمجھایا اور آیاتِ قرآنی کی تشریح کرکے امت کو اس کے مقصد سے آگاہ کیا‬
‫کہ ہللا تعالی کیا چاہتے ہیں ؛اس لیے صحابۂ کراؓم جہاں الفاِظ قرآنی کے یاد‬
‫کرنے کا اہتمام کیا کرتے تھے‪ ،‬وہیں معانی ومطالب کو بھی سمجھنے میں‬
‫مصروف رہا کرتے تھے۔ قرآن مجید کوپڑھنے کے ساتھ اس کے معانی اور‬
‫مضامین میں تدبر کرنا‪ ،‬اس کے مفہوم میں غور و فکر کرنا‪ ،‬تفاسیر قرآن کی‬
‫روشنی‪ ،‬نبی کریم ﷺ کی تشریحات اور صحابۂ کراؓم کے عمل سے قرآن‬
‫مجید کے مقصود تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے‬
‫کیوں کہ جب تک مطلوب قرآن کو نہیں سمجھا جائے گا تو یقینی طور پر عمل‬
‫آوری کا جذبہ بھی نہیں ابھرے گا اور ہللا تعالی کیا فرمارہاہے اس سے آگہی‬
‫بھی حاصل نہیں ہوگی۔‬

‫ہللا تعالی نے نہایت چونکادینے والے انداز میں فرمایا‪:‬‬


‫‪1‬‬
‫َأَف اَل َي َت َدَّبُروَن ٱْلُقْر َء اَن َأْم َع َلٰى ُقُلوٍب َأْق َف اُلَه ٓا‬

‫(محمد‪ ")۲۴:‬یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پرقفل پڑے ہوئے‬
‫ہیں "‬

‫اس لیے قرآن کریم کو سمجھنا اس کا حق ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق‬
‫عمل کرنا بھی اہِل ایمان کی ذمہ داری ہے۔ قرآن صرف پڑھ کر یا سمجھ کر رکھ‬
‫دینے کی کتاب نہیں ہے؛ بلکہ اس کے مطابق زندگیوں کو بنانے اور سنوارنے‬
‫کی ضرور ت ہے۔ قرآن نے حالل و حرام اور جائز و ناجائز کے لیے اصول‬
‫بتائے اور اس کی تشریخ نبی کریم ﷺ نے فرمائی۔ قرآن کریم میں حکم‬
‫دیتے ہوئے فرمایا‪:‬‬

‫َو َٰه َذ ا ِك َٰت ٌب َأنَز ْلَٰن ُه ُم َب اَر ٌك َفٱَّت ِبُعوُه َو ٱَّتُقو۟ا َلَع َّلُك ْم ُتْر َح ُموَن ‪ (2‬االنعام ‪)۱۵۵ :‬‬

‫‪1‬‬

‫‪2‬‬
‫"یعنی یہ قرآن مبارک کتاب جو ہم نے نازل کی اس کی اتباع کرو۔"‬

‫اور ایک جگہ فرمایا کہ‬


‫‪1‬‬
‫ٱَّت ِبُعو۟ا َم ٓا ُأنِز َل ِإَلْي ُك م ِّمن َّر ِّب ُك ْم َو اَل َت َّت ِبُعو۟ا ِمن ُد وِنِهٓۦ َأْو ِلَي ٓاَء ۗ َقِلياًل َّما َت َذ َّك ُروَن‬

‫"جو کچھ تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے‪ ،‬اس کی‬
‫اتباع کرو۔"‬

‫تیسرا مقصد‪ :‬تزکیۂ نفس‬


‫نبی اکرمﷺ کا تیسرا مقصد دنیا میں بھیجے جانے کا یہ ہے کہ آپ‬
‫ﷺ انسانوں کے دلوں کوپاک صاف کریں ‪ ،‬ان کے دلوں میں کفر وشرک‬
‫کی جو گندگیاں اور اخالق واعمال کی خرابیاں ہیں ان کو نکال باہر کریں اور‬
‫دلوں کو اس قابل بنائیں کہ وہ یادِ اٰل ہی کا مسکن اور محبِت رسول ﷺکا‬
‫مرکز بن سکےچنا نچہ آپﷺ نے جہاں معاشرہ کی اجتماعی اصالحی‬
‫کوششیں کی‪ ،‬وہیں انفرادی طور پر بھی دلوں کی اصالح کا اہتمام فرمایا۔خداکی‬
‫حضوری کا احساس پیداکیا‪،‬روِز قیامت کی بازپرس کی فکر پیداکی‪،‬ہللا تعالی کے‬
‫حاضر وناظر ہونے کا خیال دلوں میں راسخ کروایا۔یہی نتیجہ تھا کہ معمولی‬
‫درجہ کا گناہ بھی سرزد ہوجاتا یا تنہائیوں میں کسی جرم کا ارتکاب کرلیتے تو‬
‫فوری رسالت ماب ﷺ کے حضور حاضر ہوکر اس کی تالفی کروالیتے‬
‫تاکہ آخرت کے سخت ترین عذاب سے حفاظت ہوجائے۔‬

‫نبی کریم ﷺ نے فرمایا‪:‬‬

‫جسمِ انسانی میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہو تو سارا جسم صحیح‬
‫ہوگا اور اگر وہ خراب ہو جائے تو جسم سارا فسا د میں مبتال ہوجائے گا‪ ،‬غور‬
‫‪2‬‬
‫سے سنو ! وہ دل ہے۔‬

‫( بخاری‪ :‬حدیث نمبر؛‪ )۵۱‬۔‬


‫‪1‬‬

‫‪2‬‬
‫چوتھا مقصد‪ :‬تعلیم حکمت‬
‫چوتھا کام آپ صلی ہللا علیہ وسلم کا امت کو حکمت کی تعلیم دینا ہے۔حکمت سے‬
‫مراد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی سنت ہے۔( تفسیر ابن کثیر‪)۳/۲۵۱:‬آپ‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم کی ذاِت گرامی میں انسانوں کے لیے ہر اعتبار سے نمونہ‬
‫موجود ہے۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی تمام تر تعلیمات انسانیت کے لیے سعادت‬
‫وکامیابی کی عالمت ہیں ۔آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایااس پر عمل‬
‫پیرا ہونے میں ہی فالح دارین پوشیدہ ہے؛اس لیے آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫اپنی امت کو سنت کی تعلیمات سے نوازااور طریقۂ زندگی کے اصول وآداب‬
‫بتالئے۔ ہللا تعالی نے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی اتباع پر اپنی محبت کو موقوف‬
‫رکھا ہے۔ چنا نچہ ا رشاد ہے‬
‫‪1‬‬
‫ُقْل ِإن ُك نُتْم ُتِح ُّبوَن ٱَهَّلل َف ٱَّت ِبُعوِنى ُيْح ِبْب ُك ُم ٱُهَّلل َو َي ْغ ِفْر َلُك ْم ُذ ُنوَب ُك ْم ۗ َو ٱُهَّلل َغ ُفوٌر َّر ِحيٌم‬

‫( آل عمران ‪"۳۱:‬اے پیغمبر ! لوگوں سے ) کہہ دو کہ اگر تم ہللا سے محبت‬


‫رکھتے ہو تو میری اتباع کرو‪ ،‬ہللا تم سے بھی محبت کرے گا اور تمہاری خاطر‬
‫تمہارے گناہ معاف کردے گا۔"‬
‫ن‬
‫ج امع کت اب کا زول‬
‫ق‬ ‫خ ن‬ ‫لک ت‬ ‫ٹ‬
‫ے کہ جس پر ج امع کت اب( ترآن‬ ‫ہ‬ ‫ئ‬ ‫رسول‬ ‫دمحمﷺایسا‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ری‬ ‫آ‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬‫ھ‬ ‫احمد‬ ‫اسرار‬
‫ن‬ ‫ر‬ ‫ڈاک‬
‫ہ‬ ‫ن‬
‫ئآ ری ن می ں اس کی کو ی مث ال ہ نو غاور نپ ھر وہ رسول ی ری‬ ‫ے جس کی اولی ن اور‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫جم ی د ) ازل وا ی تہ‬
‫ئ س ا ا ب ی ر زول کت اب کے‬ ‫ات کا پڑھ کر‬ ‫ے کہ آی ن‬ ‫اس کت اب کی آ ی ں پڑھ کر ان کو س اے۔ اس یل‬ ‫ن‬
‫ک‬
‫اب کے معا تی سن ھاےن تاورتاس کے اسرار سے‬ ‫ت‬ ‫مم‬
‫وہ رسولﷺ ان کو باس کت ت‬ ‫ے اور ت‬ ‫ب ا خکن ہ‬
‫ساری‬
‫ے اوری ہ ق ن‬ ‫ے ھ‬ ‫ے کہ ج و م ہیضں ج ا‬ ‫ن قہی ں وہ چ یزی ں ھی سک تھا ا ہ‬ ‫م‬ ‫ھی ب ر دار کرے اکہ‬
‫غ‬
‫ے۔ لوگ و و اور طہارت کا طری ہ ہی ں‬
‫ن‬ ‫س‬ ‫ے سکعھای ا ہ‬‫ے نرآن جم یند کے ذری ع‬ ‫آپﷺ ن‬ ‫ت‬ ‫ں‬
‫چ ینزیت ت‬
‫ت کے‬ ‫ا۔ لوگ ل ج اب ق‬ ‫ےن سکھای‬ ‫ے۔نہللاق عالیتے ان ہی ں ت ب یﷺ کی لی م ت‬
‫کے ذری ع‬
‫ن‬ ‫ع‬
‫ے ھ‬ ‫ق‬ ‫جا‬
‫ندی نگر ع ب ادات کا طری ہ‬ ‫ے۔ ا ہی ں تعداد رک تعات م لوم ہ ھی ں ماز اور‬ ‫سے اوات ف ھ‬ ‫طری ہ ن‬
‫ے‬
‫یﷺ کے ذری ع‬ ‫ن‬ ‫ئہللا ے ب‬ ‫ن‬
‫حرام ئکی می ز ہ ھی۔ ی ہ سب چ یزی ں‬ ‫لوم ہی ں ھا۔ حالل و‬
‫ن‬ ‫مع‬
‫ق‬ ‫ئ‬
‫اور پ ھر پ یش آےواٹلے‬ ‫اصول ب ت ا نے ق‬‫سقکھا ی ں۔ آپﷺ ے ع اند کی اصالح کے ق‬
‫ن‬
‫وا عات کو ب ی ان ک ی ا مث ال ی ہ کہ مرے کے ب عد ک ی ا ہ و گا۔ ب ر کی ز دگی‪ ،‬ی امت کو دوب ارہ ا ھ ا‪ ،‬پ ل‬
‫‪1‬‬
‫خ‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ن خ‬
‫نکی من زل‪ ،‬می زان عدل کا ی ام قاور پ ھر ہللا خت‬
‫عالی کا آ ری‬ ‫ے‬ ‫فصراط پر سے گزر تا اور آ ن ر می ں محاسب‬
‫ں۔ اس طرح ئ‬
‫رآن جم ی د کی ری قج اور‬ ‫امت کو ب ت ا دین ن‬
‫ت‬ ‫ﷺے‬ ‫یضصلہ ی ہ نسب ب ا ی ں ب یت ن‬
‫و ت احت ب یﷺکی ذا ی ہی ں ب لکہ ہللا عالی ےئ ب یﷺخکو ب ت ا ی اور اس پر رآن جم ی د تکی‬
‫ےو‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ب ل‬
‫ہ‬‫ں۔ ۔ اسی طرح اگر کو ی د ی ا اور آ ترت می ں کام ی ابی چ اہ ت ا ق‬ ‫م عدد آی ات طور د ی ل مو ود ہ ی ع‬
‫ے۔ ر‬ ‫مکمکرام کی ا ب اع اور اطاعت ہ‬ ‫آپﷺ کی لی م اور ان کے صحاب ہ‬ ‫ن‬ ‫اس کا واحد ذری عہ‬
‫ے۔‬ ‫ے ای ک ج امع اور ل کت اب ہ‬ ‫آن ام ی د ج و آپ ﷺپر ازل وا ہ‬
‫ہ‬
‫ب عث ت محمد صلی ہللا علیہ والہ وسلم مومنوں پر احسان‬
‫ڈاکٹر اسرار احمد نے ذکر کیا ہے کہ محمد صلی ہللا علیہ وسلم کو ہللا تعالی‬
‫نے مبعوث فرما کر مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے ۔کیونکہ نبی کی سیرت‬
‫انسانوں کے لیے نمونہ ہوتی ہے ۔جیسا کہ قران مجید میں ارشاد ہے َلَق ْد َم َّن ٱُهَّلل‬
‫َع َلى ٱْلُمْؤ ِمِنيَن ِإْذ َبَع َث ِفيِه ْم َر ُسواًل ِّمْن َأنُفِس ِه ْم َي ْت ُلو۟ا َع َلْي ِه ْم َء اَٰي ِتِهۦ َو ُيَز ِّك يِه ْم َو ُيَع ِّلُمُهُم ٱْلِك َٰت َب‬
‫َٰل‬
‫‪1‬‬
‫َو ٱْلِح ْك َم َة َو ِإن َك اُنو۟ا ِمن َقْبُل َلِفى َض ٍل ُّم ِبيٍن‬
‫" یقینا ہللا نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان میں سے ایک رسول‬
‫بھیجا یعنی ان کے اندر ایک عظیم الشان رسول مبعوث کیا "‬
‫جس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی بعثت مومنوں پر بڑا‬
‫احسان ہے یہاں پر بھی لفظ رسول بطور اسم نکرہ آیاہے اور اس کا معنی یہ ہے‬
‫کہ ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا جو کہ منکم تم میں سے ہے اور اس‬
‫کی سیرت انسانوں کے لیے ن‬
‫نمونہ ہے۔‬
‫ن‬
‫ب ی کری م ﷺ کا وج ود ای ک عمت‬
‫ڈاکٹر اسرار احمد لکھتے ہیں کہ قران مجید نے آپ ﷺکے وجود کو نعمت‬
‫سے تعبیر کیا ۔‬
‫ہللا تعالی کا ارشاد ہے۔‬
‫َأ ۟ا‬ ‫۟ا‬ ‫َأ‬
‫َلْم َت َر ِإَلى ٱَّلِذيَن َب َّد ُلو ِنْع َم َت ٱِهَّلل ُكْف ًر ا َو َح ُّلو َقْو َم ُهْم َد اَر ٱْلَبَو اِر‬
‫‪2‬‬

‫"یعنی کیا آپﷺ نے قریش مکہ اور مشرکین عرب کو نہیں دیکھا جنہوں‬
‫نے ہللا تعالی کے انعام کی ناشکری کی گویا کہ نعمت کو کفر سے بدل دیا "‬
‫‪1‬‬
‫سورہ العمرآن‪164:‬‬
‫‪2‬‬
‫سورہ اب راھی م‪28:‬‬

You might also like