Professional Documents
Culture Documents
ن
ام :بینش مب ی ن
ن
19474 مب ر : رول
خ س سٹ
اول زاں ()2021 ئ ر ئن م
قف ق ف
ہ و علوم ال ہ اسا من ٹ براے :
صاحب
ح
عمر را ی ل ن ن
زیر گرا ی :
ف ش
ع
ن شعب ہ ای م ل فلوم اسالمی ہ
م ی ک ص ی ف نٹ ی ن ن ٹ
ر اہ ا ر ل یو ی ورس ی ل آب اد پس
انتساب
میں اپنی اس عظیم علمی کاوش کا انتساب برصغیرپاک وہندکے نامورعلماء کے نام
کرتی ہوں جن کی انتھک محنت ،قربانیوں اورتصنیفات کی وجہ سے نبی کریم صلی
ہللا علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ محبت کی بناء پر آپ صلی ہللا علیہ وسلم 7کی احادیث
ہر قسم کے حوادثات سے محفوظ ہیں۔
ق
م دمہ
خ ق ن ن ئ ت ت ت ف
سے سب نسے م
ے ا ساننکو لو ات می ں ق ن ے ہ ی نں جس ن ف ضمام عرین ی ں اس ہللا ب زرگ و ب ر ر کے ل
ا ل ب ای ا اور اس مادی اس ب اب سےسب ھری د ی ا تمی ں ز ندگی گزارےئکے احکام و وا ی نن نسے وازا
رحمت ب ن ای ا ئاور ا سا ؐی ت کی
ئ ے ل کےن وں
ن ہا
ن ج مام کو
ت ن اور درودو سالم ہ و دمحمصلی ہللا عل نی ہ و لم پرج
ے اور آپ کے ے ع طاک ت کے ل ی اس ا ے عالی ہللا و نا کامات کا عملی مون ہ ب ن ای ا ج کے ان
ہ دای ؓت ج ن
ج ؐ ن ئ ح
ے ان انحکامات کو پو ری کا ات می ں پ ھ ی الی ا اور آپ کی ازواج اور ذری ات پر ن کو نپر ہوں ئ صحاب ہ
ن ن عم
ے لی مو ہ ب ای ا ۔ ہللا ے ہ مارے ل
حمدو صلوۃ کے ب عد :
ص ئ ن خ ن ف ین خ ت ن ن ن ق
ے آ ری ب فی دمحم لی ے اپ الح و ہ دای تشکے ل روی ق غ ت کی د نی خو ا ؐ س ہللا ن عالی فے ا سا ی رآن جم ی د کو
ب ن ت پ ہللا عقلی ہ و لم پر ازل ترماشی ا ،فاور ئ
عوث رمای ا ش،آپے آ ری ی ام ''ش رآن '' کا ارح ب ا تکر م ن آپ کو اپ ق
م ن
ط
ؐے رآن پ تاک کی وف یئ ری ح رما ی و صود و م لوب ری عت ھِی اور ہللا عالی ے اس رح ج ہ
کی اس طرح صدیق رما ی :
ْ ُ َ اَّل ْ َ ْ ٌ ُ ْ َ ْ 1 َْ ْ
'' َو َما َي ْن ِط ُق َع ِن ال َه َو ْى ِإن هو ِإ وحي يوحى''
ف ف ئ ن خ ف تف ن ن
ے ل اء کو وی ض رما ی اور رمای ا : ے ب عد ی ہ ذمہ داری ا ے اپ آپ ﷺ
خف پ ن ن ت
ے '' '' م پر می ری س ت اور می رے ل اء کی س ت کی پ یروی قواج ب ہ
ق خف
اتق رآن پ اک کی ہ دای ن م بنطا کے عات ف ت وا و حاالت کہ داری
ئ ف ذمہئ ہنکی کام اس عد ب کے عہ ب ار
ل ن
ش اء
ع
کی رو ی می ں امت ف لمہ کی ر ِما یف رما ی ں لماء کرام کو وی ض کردی اور ب ی رحمت ﷺ ے س م
اس ذمہ داری کو ان ال اظ می ں ب ی ان رمای ا:
َُ ْ ْ َ
2
''ال ُعل َم ُاء َو َرثة األن ِب َي ِاء''
ع ن ج ت
ف ئ ۔ ں ی ہ وارث کے ء ا ی ب ا ماء ل مہ: ر
ت ن پن ض ت
سن ادا رما ی اور اس ذمہ داریت کا حق فھا ب احت رات ے فا ی ذمہ داری نج شیسا کہ ق ت الحمد للہ ان عمام ح
،اسیں گے خ ف ے رہ یئہللا ش ی امت ک ادا رما ف ےق ہ ی ں ،ا اء ت امتش کے ق لماء آج ک ادانرمار خہ
اصولئ ب ی ان رماے اورق ل اء کے فض ے ودنرآن کریق م کی ت ریش ح ت دمحمﷺ فئ طرح نارح رآن ش
واعد شکی ری ح و و ی ح رما ی اور ان تاصولن و واعد کو را دی فن ی ز علماء امتقو ا مہ سری ن ے ان ت
م
کام کا اس خ راج ب ی کری م
مدون رمای ا ۔ جس طرح رآنش کری م کے احکامات کی ری ح اور آی ات سے احن
کے ب اوج ود ج اری
آج چ ودہ سوسال سے زی ادہ تعرصہ ہ وے ن ﷺکے م ب ارک دور سے روع ہ و کر
ت
ے ب لکہ ے ،اسی تطرح ینہ کام صرف ج زیرہ عرب ک ی ا صرف عربی زب ان ک ہ ی محدود ہی ں ہ ن ہ
ے۔ ہ ہ
ے اور و ر ا ہ ہ ہ
ی ہ د ی ا کے مام کو وں می ں اور اسی طرح ہ ر ا م زب ان می ں وا ہ
1
۔ النجم3،4:
۔ اجلامع الصحيح البخاری،حممد بن إمساعيل بن إبراهيم بن املغرية البخاري،دار الشعب ،القاهرة 1987 ،ج ،1 2
ص 26
Contents
....................................................................................................................................................................... 7تعارف
...........................................................................................................................................................10اہمیت موضوع
.................................................................................................................................................................. 12مفروضہ
.........................................................................................................................................................14مخالف مفروضہ
..............................................................................................................................................................16جدید ریاست
........................................................................................................................................................16سابقہ کام کا جائز
............................................................................................................................................18انیسویں صدی کی جدیدیت
.....................................................................................................................................................19جدیدیت کیا ہے؟
...................................................................................................................................................20اقبال کی ریاست‘‘ ’’
..............................................................................................................................26عالمہ اقبال اور جدید ریاست 7پاکستان
خ
...........................................................................................................34اسالم اورجدیدیت اور ج دی د ری است کے م ت لف نظریات
................................................................................................................................................................ 37حوالہ ج ات:
تعارف
عالمہ اقبال کی آرزو تھی کہ مسلمانوں کوانفرادی خودی اور اجتماعی خودی کی اہمیت کااحساس دال کر ایک جدید طرز کا مسلم
معاشرہ قائم کیا جائے جو رنگ و نسل ،زبان اور عالقہ کی بنیادوں کے بجائے اشتراک ایمان پر قائم ہو اس طرح اشتراک ایم77انی
اور جمہوریت روحانی پر مبنی معاشرہ دور جدید کی تمام تر ضرورتوں کو پورا کریگا جس میں لوگ ٓازادی سے رہ سکیں گے۔
مسلمان قوم کیل77ئے 7آزاد مقت77در مس77تحکم اور ط77اقتور ریاس77ت میں حق77وق العب77اد پ77ورے ک77رنے ک77ا اہتم77ام و انتظ77ام ہ77و ،غالمی کی
زنجیریں ٹوٹیں ،جبر کا زور ختم ہو اور اپنی مرضی سے ہللا کے اصولوں کے مط77ابق خ77یر و ع77افیت س77ے زن77دگی گ77زار س7کیں
اقبال اور جمہوریت کے موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ،لیکن اقبال کی فکری قیادت پر اتفاق رائے کو پہنچنے 7کے بجائے
،فکری الجھن میں اضافہ ہوا ہے۔ اقب77ال کی جمہ77وریت کے خالف مخ77الفت ک77و نہ ص77رف مہ77ر بن77د مظ77اہرین نے بلکہ اع77تراف
ماہرین کے نام سے جانے ج77انے والے دانش77وروں نے بھی چیلنج کی77ا ہے۔ کچھ مطالع77ات ،تن77گ نظ77ری اور تعص77بات ہی ت77وہم
پرستی میں حقیقت کو کھو جانے کا باعث بنے ہیں۔ اس معاملے کا پریشان کن پہلو یہ ہے کہ اقب77ال کی نظم77وں کے مع77نی ،جن
پر سب سے زیادہ تنقید کی گئی ہے ،نہ صرف اقبال کے مخالفین بلکہ اقبال کے ارادوں سے بھی غلط بیانی کی گئی ہے۔ اقب77ال
کے معزز عالم ،پروفیسر محمد منور نے ،اقبال کے دفاع میں ایک مضمون تحریر کیا تھا ،جس کا عنوان اقبال کے آئی77ڈیا آف
ڈیموکریسی تھا ،جو ان کی کتاب طول و عرض کی اقبال میں شامل ہے۔ مضمون اس جملے سے شروع ہوتا ہے:
میں کسی ایسے مضمون سے خطاب کرنے کی جر .ت کرتا ہوں جس نے جذبات سے دوچار تلخ تنازعہ کی ایک شکل اختیار
کرلی ہے۔
اس تلخ جذباتی کشمکش کی ایک وجہ اقبال کی غلط فہمی ہے اور دوسری اقبال کا ج77زوی مط77العہ۔ ح77د ت77و یہ ہے کہ کچھ نے
اقبال کو مغربی جمہوریت کے حامی کی حیثیت سے نشانہ بنایا ہے اور کچھ نے اپنے غیظ و غضب کو غیر جمہوری قرار دی77ا
ہے۔ اس طرح کے مظاہرین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے ،لہذا سب سے پہلے ،اقب77ال کی جمہ77وریت کی مخ77الفت پ77ر مختل77ف
اعتراضات کاپی کیئے جائیں گے تاکہ مظاہرین کا مؤقف پوری طرح س77ے بے نق77اب ہوج77ائے ،پھ77ر عالمہ اقب77ال اور اقب77ال کی
شاعری اور نثر کے متعلق اعتراضات کا مؤقف ہوگا۔
ج دی د ماڈرنائزیشن مغربی یورپ میں شروع ہوئی اور پھر دنیا کے دوسرے حصوں میں پھیل گئی۔ جدیدیت ایک مخصوص
رویہ ،ذہنیت ،ذہنی کیفیت ،اور انداز کے لئے ایک اصطالح سے زیادہ ہے۔ اس میں ،عقل کو امام س77مجھا جات77ا ہے اور تم77ام
چیزوں کو صرف عقل کی روشنی میں آزمایا ،جانچا جاتا ہے اور یہاں تک کہ خدائی وحی ،خدا کے جوہر اور ن77بی ک77ا ج77وہر
صرف امتحان میں ہی جانچ لیا جاتا ہے []1۔
مصر کے حسن العطار ریفا ،محمد عبدو ،جمال ال7دین افغ7انی اور سرس7ید س7ے لے ک7ر غالم احم7د پروی7ز ت7ک ،ان س7ب کی
جدیدیت کی ایک جیس7ی تعری7ف ہے :ق7رآن ،س7ائنس اور فلس7فہ کے م7ابین ک7وئی تض7اد نہیں 7ہے۔ مس7لمانوں کے زوال کی وجہ
مادی ترقی کا زوال ہے ،یعنی سائنس اور ایجادات سے محرومی اور امت مسلمہ کا عروج ویس77ا ہی ہوگ77ا ج77و مغ77رب میں ہے۔
سائنس یونان سے عرب ،عرب سے اسپین ،اور وہاں سے یورپ منتق77ل ہ77وئی۔ یہ ثق7افتی اث77ر و رس7وخ اب بھی موج7ود ہے۔ ان
کے بقول ،قرآن مجید میں جسمانی اور ریاضی کے علوم کے بارے میں مکمل معلوم77ات ہے۔ مس77لم جدی77دیت پس77ندوں ک77ا س77ارا
زور اس حقیقت پر ہے کہ قرآن کے معانی کو سمجھنے کے لئے ب7یرونی ذرائ7ع کی ض7رورت نہیں ہے۔ اس دلی7ل کی اس7اس یہ
ہے کہ قرآن کو مصنف قرآن کے بغیر بھی سمجھا جاسکتا ہے ،یعنی قرآن اور مصنف قرآن دو مختلف چیزیں ہیں۔ اس قول ک77و
تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنی تاریخ ،روایات ،اقدار اور طریق کار سے روابط استوار کردیں جنہوں نے مستقل
طور پر مختلف ذرائع سے امت کی خدمت کی ہے۔ عین وہی نقطہ نظ7ر ہے جس ک7و م7ارٹن ل7وتھر نے پروٹس7ٹنٹ تحری7ک کے
لئے اپنایا اور اس کے نتیجے میں وہ عیسائیت کے لئے موت کا گلہ بن گیا۔ مندرجہ ذیل امور مس77لم معاش77روں میں مکم77ل ط77ور
پر یا جزوی طور پر تمام جدیدیت پسندوں کے افکار میں پائے جاتے ہیں۔
جدیدیت عقلیت پسندی پر مبنی ایک عالمی تہذیب ،ثقافت اور اقدار کا دعوی کرتی ہے۔ وہ اپنے وقت کے غالب رجحانات سے
متاثر ہوکر ،فلسفہ اور سائنس کو مذہب کے برابر اور اس سے بھی اونچی سمجھتی ہے []2۔
جدیدیت کی دلچسپی کا خصوصی میدان کائنات کی فتح اور مادی ترقی ہے ،لیکن انسان ک77و اخالقی اور روح77انی وج77ود ،دین
کی تبلیغ اور تبلیغ میں ک77وئی دلچس77پی نہیں ہے۔ عالمہ اقب77ال کے مط7ابق ،روح7انیت ص7رف ش7ادی ،طالق ،ت77دفین اور ت77دفین
جیسی چند رسومات اور رواج میں رہ گئی ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ ایک ایسی شخصیت تیار کی جائے جس کا مقصد دنیاوی
زندگی کو زیادہ س77ے زی77ادہ خوش77گوار بنان77ا اور زی77ادہ وس77ائل جم77ع کرن77ا ہے۔ وہ اس زمین ک77و جنت بن77انے کے درپے ہے اور
آخرت کی جنت اس کے لئے محض خیالی اور تخیالتی ہے لہذا اسے موت اور قیامت کے مضامین میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
جدیدیت قرآن کو واحد کتاب سمجھتے ہوئے لٹریچر پر زور دیتی ہے۔ قرآن سنت و حدیث کے الف77اظ ک77و لغت ،ع77ربی مح7اورہ
اور وقت اور مقام تک محدود سمجھتا ہے اور نبی .کے معیار اور صحابہ کرام کے مشق کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ہے۔ جدی77دیت
کے مطابق ،قرآن و سنت کی نئی تشریح ضروری ہے کیونکہ قدیم تشریحات صرف عربی کے معاش77رتی تن77اظر میں کی گ77ئیں
اور آج بھی قابل اطالق نہیں ہیں۔ ماڈرنلسٹ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ قرآن کسی خ7اص ہس77تی پ77ر ای77ک خ7اص
وقت میں کسی خاص ترتیب میں نازل ہوا تھا۔
تمام ماڈرنلسٹ مکمل طور پر یا جزوی طور پر ،ان قبول شدہ عقائد اور احادیث کو مسترد کرتے ہیں ج7و ان کے نظری7ات کی
توثیق نہیں 7کرتے ہیں ،اور ان احادیث کو قبول کرتے ہیں جو مباحث کی توثیق ،توثیق اور توثیق پر مبنی ہیں۔ بعض اوق77ات وہ
صاف انکار کی بجائے مسخ اور تشریح کا استعمال کرتے ہیں۔
جدیدیت کی خصوصی خصوصیت اجتہاد اور سلف ،مذہبی اقدار ،روای77ات ،م77دارس اور فک77ر کے ن77ام پ77ر علم77ائے ک77رام کی
تض77حیک کے انح77راف کے ن77ام پ77ر اجتہ77اد ہے۔ ع77روج و زوال کی بحث و مب77احثے میں ،س77ائنس ،ٹیکن77الوجی اور عق77ل س77ے
انحراف کو زوال کی وجہ سمجھا جانا چ7اہئے ،روح7انیت اور تص77وف ک77و م7ادی ت77رقی کی راہ میں حائ7ل رک7اوٹ س77مجھا جان7ا
چاہئے(حیات)10# 2019 ,۔
جدیدیت کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ قرآن اور سنت کو دین کا ماخذ سمجھنے کے باوجود ،اسالم کو کمیونزم ،سوشلزم ،اور
مغربی فالحی نظام میں شامل کرتا ہے ،جس کی بڑی وجہ مغربی افکار اور فلسفہ سے واقفیت نہ ہونا ہے۔
جدیدیت پسند مغربی تہذیب اور فکر کی اسالمائزیشن میں مصروف ہیں۔ وہ اس77المی معاش77روں میں ان اق77دار ک77و مقب77ول بن77انے
اور ان کے بیگانگی کو ختم کرنے کے طریقے تالش کررہے ہیں۔ معافی کے متعدد 7گروہ اور رن77گ ہیں ج77و اس77المی نظری77اتی
فکر میں مغربی طرز زندگی ،سوچنے سمجھنے ،پڑھنے کے طریقے کو فٹ کرنے اور ان ک77ا ج77واز پیش ک77رنے کی کوش77ش
کر رہے ہیں۔
یونانی فلسفہ ابن رشد کے توسط سے مغرب تک پہنچا ،اور پھ77ر مغ77رب نے اس میں مزی77د اض77افہ کی77ا ،س77ترہویں ص77دی میں
جدید مغربی فلسفہ اور سائنس کی بنیاد رکھی۔ اس کے نتیجے میں ،یورپ نے مادی ترقی کے ن7ئے مظ7اہر ک7و متع7ارف کرای7ا۔
اس وقت عالم اسالم کے زوال کی وجہ سے ،کوئی عظیم علمی وجود نہیں تھا ،لہذا مغربی فلسفیانہ حملے اور مادی ت77رقی نے
عالم اسالم کو متاثر کیا۔ اس فکری ،سائنسی اور ثقافتی یلغار سے ترکی ،مصر اور ہندوستان سب سے زیادہ متاثر ہ77وئے تھے۔
نوآبادی77اتی ط77اقتوں کے ذریعے جب جدی77دیت کی لہ77ر ان ممال77ک میں داخ77ل ہ77وئی ت77و مس77لم مفک77رین اس ک77و محض ای77ک اتف77اق
سمجھتے تھے۔ کچھ لوگوں نے ،مغلوب اور مغلوب ہوکر ،حملے کے تمام ثقافتی ،فلسفیانہ اور سائنسی پہلوؤں کو بغ77یر کس77ی
تنقید کے ،بغیر کسی مقدمے کے اور بحث و مباحثے کے ،اسالم کے س77نہری دور کی عکاس7ی کے ط7ور پ7ر قب77ول کی7ا۔ مس7لم
مفکرین نے مغرب کی ت77رقی اور باالدس77تی پ77ر ت77وجہ دی ،اور مس77لمانوں کے زوال کی واح77د وجہ دنی77ا میں م77ادی علم ،ہ77نر ،
فنون ،ترقی اور فتح کی پسماندگی تھی۔ طاقت ،علم ،طاقت ،سائنس ،طاقت عروج کا ہدف تھے []2۔
اسالمی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ سلطنت روم اور ایران کو ٹکن77الوجی کے ذریعہ نہیں ،بلکہ فتح ک77رنے والے گ77دھوں
نے شکست دی تھی ،اور ان کی دعوت نے نہ صرف زمین بلکہ دلوں کو بھی فتح کی77ا تھ77ا۔ ایم77ان قلب کی ای77ک کیفیت ہے ج77و
اسپرٹیو سے متاثر ہوتا ہے۔ جدید مفکرین کے تجزیے میں اسالم اور روحانیت کی اشاعت پر بحث نہیں کی گئی ہے۔
یہ بتانے سے قاصر ہے کہ کس طرح سائنسی تہذیب والی عباسی خالفت کو غیر مہذب منگول77وں نے شکس77ت دی؟ ت77و پھ77ر
شکست خوردہ اسالمی تہذیب محض پچاس س7الوں میں مزی7د م7ادی ت7رقی کے بغ7یر کس ط7رح پھی7ل گ7ئی؟ وہ ک7ون س7ا فلس7فہ ،
سائنس یا ٹکنالوجی تھی جس نے چنگیز خان کے پوتے کو اسالم قبول کرنے کی ترغیب دی()Ahmed, 2019 #40
کینٹ ویل اسمتھ کی کتاب ماڈرن اسالم ان انڈیا پہلی بار میں الہور میں شائع ہوئی۔ اسمتھ نے "نجات دہندہ" 7کے تصور کو اقبال
سے منسوب کرکے ایک بڑی غلطی کا دروازہ کھوال۔ وہ لکھتا ہ
ت قہقری کی ایسی مثال شاید ہی اور کہیں 7مل سکے۔ اقب7ال کے خالف یہ ع7ام ش7کایت ہے کہ وہ ح7ال ی7ا مس7تقبل کی بج7ائے
رجع ِ
ماضی کا شاعر ہے۔ وہ گزشتہ تاریخ کو دہرا کر قوم کو پھر سے وہیں لے جانا چاہتا ہے جہاں سے یہ قافلہ چ77ودہ س77و س77ال پہلے
چال تھا۔
موصوف نے اپنے مضمون کی تان ان جملوں پر توڑی ہے:
دنیا میں جو انقالب بھی آیا ،ماردھاڑ اور قتل و غارت کے بغیر کامیاب نہ ہوس77کا ،روس ک77ا انقالب لینن کی کوشش77وں ک77ا مرہ77ون
منت ہے جو صلح و آشتی سے دنیا میں انقالب النا چاہتا تھا۔ چن77انچہ جب ت77ک زن77دہ رہ77ا اس کی کوشش77یں امن پس77ندانہ انقالب پ77ر
مرکوز رہیں۔ مگر روسی انقالبیوں میں ایک جماعت ایسی بھی تھی جو جبر و تشدد کی قائل تھی تاکہ انسانیت س77رمایہ داری کے
مظالم سے جلد تر نجات پاسکے۔ اقبال بھی اسی تشدد پسند انقالبی جماعت کا فرد ہے۔
کالم اقبال کے حوالے دے کر راجندرناتھ شیدا نے لکھا تھا:
وہی ’جہد ب77رائے ق77وت و برت7ری‘ وہی ’اذیت میں اس77تلذاذ ،وہی ’غلبہ ک77ا اخالق‘ اور ’جن7گ کی تہ77ذیب‘۔ جب نطش7ے ع7وام اور
جمہوریت کا خاکہ اُڑاتا ہے تو اقبال بھی جمہوریت کی جڑیں کھودنے 7لگتے ہیں۔؎۴
اہمیت موضوع
فکر اقبال کا مطالعہ کریں تو پہ چلتا ہے کہ اقبال کی نگاہ میں اسالمی ریاست چالنے کیل77ئے اس77المی اص77ولوں ک77و م77دنظر رکھ77ا
جائیگا۔ اس طرح دین اور ریاس77ت ک77ا آپس میں چ77ولی دامن کاس77اتھ ہ77و گ77ا۔ اس سلس7لہ میں س77ید عبدالواح77د کی م77رتب ک77ردہ کت77اب
’’مقاالت اقبال‘‘ مضمون ’’جغرافی77ائی ح77دود اورمس77لمانان ‘‘میں درج ہے۔ ’’ق77وم رج7ال کی جم77اعت ک7ا ن77ام ہے اور یہ جم77اعت
بااعتبار قبیلہ ،نسل ،رنگ ،زبان ،وطن اور اخالق ہزار جگہ اور ہزار رنگ میں پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن ملت ایسی سب جماعتوں
کو تراش کر ایک نیا اور مشترک کردہ بنائے گی۔ گویا ملت یا امت جاذب ہے اقوام کی۔ خود ان میں جذب نہیں ہو سکتی۔
قرٓان کی رو سے حقیقی سیاسی یا تمدنی معنوں میں قوم دین اسالم سے ہی تقویم پاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرٓان صاف صاف اس
حقیقت کا اعالن کرتا ہے کہ کوئی دستور العمل جو غیر اسالمی ہونا معقول اور مردود ہے۔
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیری
عالمہ اقبال کے خیال میں شوکت یعنی طاقت کا ہونا ضروری ہے شوکت کی بنیاد اسالمی ہو۔ پسماندہ اق77وام ت77رقی ی77افتہ اق77وام ک77ا
مقابلہ نہیں کر سکتیں اب خالفت کا دور بھی واپس نہیں ٓاتا اس لئے مسلم ممالک ٓاپس میں تجارت کر کے اپنے رشتے بہتر ط77ور
پر استوار کر سکتے ہیں۔ ایک تو عالمہ اقبال نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کا نظریہ پیش کیا کیونکہ
عالم اسالم کا اتحاد ہے تمام مسلم ریاستیں ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں۔ کس7ی ای77ک ک7و تکلی77ف پہنچے ت7و س7ب اس م7دد ک77و پہنچ
جائیں اس سے مسلم اتحاد ،یگانگت اور عالمگیر اخوت اجاگر ہوتی ہیں جو اسالمی ثقافت و تعلیمات کے اہم نق77اط ملیں(Ghiyas,
)2013 #11۔
بخاک کا شعر
ِ نیل کے ساحل سے لے کر تا
مسلم اتحاد ایک ایسی طاقت ہے جس کی طرف دیگر اقوام میلی ٓانکھ س77ے نہیں دیکھیں گی۔ عالمہ اقب77ال خطبہ ٰالہ ٓاب77اد س77ے پہلی
بار برصغیر پاک و ہند میں مسلمان کی مشکالت حاالت و واقعات کی گہ77رائی اور م77نزل کی ص77یح نش77اندہی ہ77وئی۔ انہیں احس77اس
ہونے لگا کہ مسلمانوں کی علیحدہ مملکت ہی متعدہ مس7ائل ک7ا ح7ل ہے کی7ونکہ ک7ئی س7و س7ال حک7ومت ک7رنے والی مس7لمان ق7وم
انگریز دور میںدر پردہ ہندوئوں اور انگریزوں کے مسلم دش7من اتح7اد ک7ا نش7انہ ب7نی۔ عالمہ اقب7ال کی تعلیم7ات س7ے انف7رادی اور
اجتماعی خودی کے نظریات کے پیش نظر مسلمان ایک زندہ قوم اور اسالم ایک دستور حقیقت اور نظام زندگی ہے۔
اسی لئے فکر اقبال میں مغربی طرز ریاست اور اسالمی انداز ریاست میں فرق بیان کیا گیا ہے۔ کہ مسلمان دین کی بنیار پر سودا
نہیں کرتا محض جمہوریت کی خاطر دین سے ہاتھ نہیں دھوتا۔ ان کا خیال تھا کہ مغ77ربی جمہ77وری نظ77ام بظ77اہر تابن77اک ہے لیکن
مفروضہ
تصور انسان پر کام کیا۔ مذہب بے زار اور مذہب پرست دونوں طبقوں نے تصور انسان پرتحقیق کی
ِ جدید دور میں اہل دانش نے
ہے۔عیسائی پادری کارل لڈوگ نطشے کے فرزندمعروف مغربی فلسفی فریڈرک ولیم نطش7ے م7ذہب ک7ا انک7ار ک7رتے ہ7وئے س7ب
سے پہلے اخالق پر حملہ ٓاور ہوتے ہیں اور اخالق کے معنی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔وہ انسان کے بارے میں ایک نیا تص77ور پیش
کرتے ہیں۔ مذہبی روایات و اخالقیات کو توہمات سمجھتے ہیں۔ مذہب اور خدا کو ترقی کی راہ میں رک77اوٹ خی77ال ک77رتے ہیں اور
بآالخر خدا اور دین سے بغاوت کرکے خدا کے مرنے کا اعالن کردیتے ہیں۔ان کا نظریہ ہے کہ انسان خود اپنے ٓاپ کا خ77دا ہے ۔
قوت اور طاقت جمع کرنا انسان کا اہم فریضہ ہے۔ جس شخص کے پ7اس ط7اقت ،ق77وت اور دولت زی7ادہ ہ7و وہی حقیقی انس7ان ہے
اور جو ان چیزوں سے محروم ہو وہ انسان کی نسبت بندر سے زیادہ قریب ہے۔نطش7ے کے زم7انے میں ڈارون ک7ا نظ7ریہ ارتق7اء
فکری اساس کا درجہ رکھتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ جسمانی ارتقاء تو مکمل ہوچکا ہے ،اب نئے اخالقی اور نفسیاتی ارتقا ک77ا س77فر
جاری ہے۔وہ جنون کی حد تک انسان پرست تھے اور انسان کوبیک وقت خالق اور مخل7وق ک7ا درجہ دی77تے تھے۔نطش77ے کے تین
بنیادی اصول بہت معروف ہیں۔ انھوں نے خدا کی جگہ سپر مین کو ،خ77دا کی عنای77ات و مہرب77انی کی جگہ ق77وت اور غلبہ حاص7ل
کرنے کی تند و تیز خواہش کو اور ابدی زندگی کی جگہ تکرار مسلسل کو رکھ دیا ۔ سپر مین کو خدا کا درجہ دیا اور کائن77ات ک77و
سپر مین کی ملکیت سمجھا۔ دوسری طرف عظیم مشرقی مفکرعالمہ محمداقبال نطشے کے بالکل برعکس م7ذہب ک7و بنی7اد بن7اتے
ہوئے مسلمانوں کے طرز زندگی اور فکری غالمی پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور ایک جدی77د م77ذہبی تص77ور ِ انس77ان
پیش کرتے ہیں۔انھوں نے اپنی شعر و شاعری اور خطبات کے ذریعے مسلمانوں کے اندر ایک نیاجوش ،جذبہ ،ولولہ اور جن77ون
اور اس عشق و جنون س7ے وہ دنی7ا ک77و مس7خر کرن77ا چ7اہتے ہیں۔اقب77ال م7رد م7ؤمن کے ل77یے اط7اعت ،ض7بط نفس اور نی7ابت ٰالہی
تع7الی ک7ا
ٰ تعالی خالق ہے ،کائنات ایک تخت ہے اور انسان اس تخت پ7ر ہللا
ٰ کوبنیادی اوصاف سمجھتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ ہللا
خلیفہ ہے۔ اوریہ دونوں مخلوق ہیں۔کائنات مجبور محض ہے جبکہ انسان تکوینی امور میں مجبور محض جبکہ تشریعی ام77ورمیں
خود مختار ہے۔ اقبال دنیا میں ربانی نظام کے داعی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ انفرادی اور اجتماعی خودی ایک دوسرے کی تکمیل
کرتی ہے۔فرد اپنی خودی کے ارتقاء اور استحکام کے بعد ملت کا ایک بیش قیمت سرمایہ بنتا ہے۔ان کے نزدی77ک خ77ودی اور بے
خودی کااصل مقصداسالمی ریاست کا قیام ہے۔ تصور انسان کے حوالے سے مشرق کی سب س77ے ب77ڑی غلطی یہ ہے کہ اس نے
سمجھ رکھا ہے کہ انسان تقدیر کا پابند ہے جبکہ مغرب کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اس نے سمجھ رکھ77ا ہے کہ انس77ان ہی
سب کچھ کرتا ہے۔اقبال نے اسالم کی روح کے مط77ابق دون77وں انتہ77اؤں کے درمی77ان اعت77دال کی راہ اپن77ائی۔نطش77ے اور اقب7ال کے
تصور انسان کے تقابلی مطالعے سے انسان کے حقیقی مقام کو جاننے میں مدد ملتی ہے۔ یہی اس مقالے ک77ا مقص77دہے (Ḥ aidar,
)2005 #33۔
مسلم قومی ریاستوں کو پسماندہ اقوام کے طور پر جانا جاتا ہے۔ کیونکہ یہاں اشیائے خ77ورو ن77وش ،پی77نے 7کیل77ئے ص77اف پ77انی کی
نایابی اور سر چھپانے کیلئے 7گھر ،تن ڈھانپنے 7کیلئے کپڑے کی قلت ،ال عالج بیماریاں ،عالج مع77الجہ ک77ا فق77دان ،بے روزگ77اری
اور مہنگائی میں اضافہٓ ،ابادی میں بے حد اضافہ ،جہالت اور نا خواندگی میں اضافہ مہنگ77ائی اور پی77داوار میں کمی مس77لمان میں
عدم تحفظ کا احساس بلند ہو رہا ہے ان سب مشکالت و مسائل کا حل صرف اور صرف صیحح معن77وں میں مس77لم ریاس77ت
مسلسل ِ
کا قیام اور اتحاد بین االقوامی مسلمین میں ہے یہی عالمہ اقبال کا اقتدار ریاست ہے۔ عالمہ اقبال یہ بھی بصیرت رکھ77تے تھے کہ
مستقبل میں ترقی یافتہ اقوام پسماندہ مسلم اقوام کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنیں گی۔ فی زمانہ سوپر پاور ام77ریکہ ہے اور مس77لم
کا اتحاد پارہ پارہ ہے ۔سیاسی اقتصادی اور ٹیکنیکی استحصال سے بچأو کیلئے مسلم اقوام پر مشتمل " جمعیت اقوام" کی بے ح77د
ضرورت ہے۔ روس کے خاتمہ کے بعد امریکہ کا راستہ روکنے واال کوئی نہیں ہے۔ عالمہ اقبال نے "جمعیت اقوام" کی ت77رکیب
عالمہ اقبال مسلمانوں کو جدید معاشرہ قائم ک7رنے کی تلقین ک7رتے ہیں ان ک7ا خی7ال ہے کہ جہ7ان ت7ازہ انکے تص7ورات ک7و عملی
جامہ پہنانے ہی سے وجود میں الیا جاسکتا ہے۔ روحانی جمہوریت کے بع77د عالمہ اقب7ال کے تص77ور اس7المی ریاس7ت ک77ا دوس7را
بنیادی اصولی مساوات ہے جس کے تحت تمام افراد کے بنیادی حقوق کو تحفظ دیا جائے گا۔ تیسرا اصول حریت یا ٓازادی ہے۔ ان
کا خیال یا خواہش تھی کہ منتخب نمائندے اسالمی فقہ اور جدید قوانین سے بھی ٓاشنا ہوں اور ان پر عمل پیرا ہوں۔
مخالف مفروضہ
عالمہ اقبال نے 29دسمبر1928ء کو آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے اجالس منعق77دہ دہلی س77ے خط77اب ک77رتے ہ77وئے فرمای77ا۔ ’’اگ77ر
مسلمانوں کو ہندوستان میں بحیثیت مسلمان زندہ رہنا ہے تو ان کو جلد ازجلد اپنی اصالح و ترقی کے لئے س77عی و کوش77ش ک77رنی
چاہئے۔ اور جلد از جلد ایک علیحدہ پولیٹیکل پروگرام بنانا چاہئے۔ آپ جانتے ہیں ہندوس77تان کے بعض حص77ے ایس77ے ہیں جن میں
مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ان حاالت میں ہم ک77و علیح77دہ ط7ور پ77ر ای77ک پولیٹیک77ل پروگ77رام بن77انے کی ض77رورت ہے۔ عالمہ اقب77ال
روایتی اسالمی ریاست مثالً خالفت ،امامت ،امارت ،سلطانیت یا بادشاہت نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ جدید مسلم ریاست کے قی77ام ک77ا
درس دیتے تھے۔’’ اقبال کے نزدیک توحید اساس ہے ،استحکام انسانیت مس77اوات اور ح77ریت کی اور ازروئے اس77الم ریاس77ت ک77ا
مقصد ہی یہی ہے کہ مسلمان ان عظیم اور مثالی اصولوں کو نہ صرف حاص7ل ک7ریں بلکہ دنی7ا بھ7رمیں انہیں ناف7ذ ک7ر کے ظ7اہر
کریں۔ اقبال نے اپنے تصور ریاس77ت کے پہلے بنی77ادی اص77ول کی وض77احت ک77رتے ہ77وئے مس77لم اس77تحکام کی بج77ائے ’’اس77تحکام
انسانیت‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ انکے خیال میں مس7لمانوں ک7و اپ7نے آپ ک7و روح7انی ط7ور پ7ر دنی7ا کے تم7ام انس7انوں س7ے زی7ادہ آزاد
سمجھنا چاہئے۔ اس بنا پر کہ آئندہ کوئی وحی نازل نہ ہو گی وہ فرماتے ہیں کہ اسالم کامقصد جو اب تک صرف جزوی طور پ77ر
حاصل ہو سکا ہے۔ ’’روحانی جمہوریت‘‘ کا قیام ہے۔ آج کے مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی اجتماعی معاش77رتی زن77دگی ک77و ایس77ے
ہی بنیادی اصولوں کی روشنی میں تعمیر کریں تاکہ اس ’’روحانی جمہوریت‘‘ کا حقیقت میں انعقاد ہو سکے جو اس77الم ک77ا اص77ل
نصب العین ہے۔فکر اقبال میں تمام نقاط کو عملی جامہ پہنانے 7کیلئے اجتہاد پر بے حد زور دیا ہے۔ اس77المی ریاس77ت کی ث77روج و
ترقی کیلئے 7بھی حاالت وواقع77ات ض77روریات کے پیش نظ77ر ق77وانین میں ت77رمیم اجتہ77اد س77ے کی جاس77کتی ہیں۔ اس77الم کے بنی77ادی
اصول وہی رہیں لیکن قدامت پسندی کو پس پشت ڈال کر مسلسل تخلیقی عمل کے لئے اجتہاد کا راستہ اپنایا جائے۔ اجتہ77اد ک77رنے
کے لئے قابل زیرک اور معاملہ فہم مجتہد ہونے ضروری ہیں ()Hussain, 2019 #41۔
عالمہ اقبال نے ریاست کے بارے میں جو کچھ کہ77ا ہے اس تن77اظر میں جمہ77وریت بھی بحث ک77ا موض77وع رہی ہے۔ جمہ77وریت
کے بارے میں اقبال کے خیاالت کے حامی اور اتفاق ہیں۔ مخ7الفین میں مختل7ف نظری7ات کے مص7نفین کے س7اتھ س7اتھ اع7ترافی
ماہرین بھی شامل ہیں۔ نظریہ سے وابستہ افراد کی نظر میں اقبال کے نظریہ کو منہدم کیا جانا تھا ،لیکن اقبالیات پر م77اہرین کی
آراء کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اقبال کے نقطہ نظر کو غلط فہمی میں مبتال کردیا ہے۔ جذبات کو شامل کرنے
والے اس تلخ کشمکش کی ایک وجہ اقبال کی غلط فہمی ہے اور دوسری اقبال ک77ا ج7زوی مط77العہ۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ77وں
نے اقبال کو مغربی جمہوریت کے حامی کی حیثیت سے تنقید کا نشانہ بنایا اور کچھ نے غیر جمہوری ہونے کے ناراض77گی ک77ا
اظہار کیا۔ اس مضمون میں اقبال کی جمہوریت کی مخالفت اور شاعری اور نثر سے متعلق اقبال کے اعتراض77ات ک77ا ج77ائزہ لی77ا
گیا ہے۔
ہندو صاحبا ِن علم میں سے ڈاکٹر راج بہادر گوڑ لکھتے ہیں:
اقبال مغربی سامراج کے تحت بورژوا جمہوری اداروں کے زوال و انحطاط سے اتنے مت77اثر ہ77وئے کہ انھیں جمہ77وریت کے ن77ام
سے نفرت ہوگئی… فرد پر ضرورت سے زی77ادہ زور اور ’انس77ا ِن کام77ل‘ کی تالش و جس77تجو نے اقب77ال کے قلم س77ے یہ مص77رع
فکر انسانی نمی آید۔ اقبال کے ’انسان‘ اور عوام میں جو ت77اریخ س77از ط77اقت ہ77وتے ہیں اتن77ا ب77ڑا
اگلوایا ہے :کہ از مغز د و صدخر ِ
ذہنی بعد تھا۔ اس مسئلہ میں اقبال کا رویہ ’فعال ہیرو اور بے حس و حرکت عوام‘ کی صدائے بازگشت سا لگتا ہے۔؎۵
ڈاکٹر کنورکرشن بالی لکھتے ہیں:
سیاسی لحاظ سے اقبال نے دنیا کو کوئی نیا اور بہتر تصور نہیں دیا اور نہ ہی انھوں نے جدید دور کے جمہوری اور سماج وادی
نظام حکومت کے حامی ہوگئے تھے۔ ان کی پسند کا وہ نظ77ام
ِ تصورات سے اتفاق کیا۔ سیاسی لحاظ سے وہ ایک پرانے انداز کے
نظام خالفت کہا جاتا
ِ نظام حکومت جسے اسالمی اصطالح میں
ِ نظام حکومت تھا اور خصوصا ً ِ
دین اسالم کی اساس پر مبنی ِ دینی
ہے
انہ77وں نے مغ77رب کے افسوس77ناک زوال کی بے ق77دری کی اور س77رمایہ دارانہ جمہ77وریت میں کس77ی ح77د ت77ک دیکھ77تے 7ہ77وئے
جمہوریت کو ایک نظام کی حیثیت سے مذمت کرنے پر مجبور کردیا اور معاشرے ک77و بچ77انے کے ل77ئے ای77ک آم77ر ک77و بچ77انے
والے کی طرف راغب ہوگئے۔ "جرمنی میں ،ہٹلر نے ایک نئے دور کی بنیاد رکھی ہے اور اسی طرح 2 ...
سرمایہ دارانہ جمہوریت بھی کمیونزم کی مخالف ہے اور یہ عنصر اقبال کی فکر اور کمیونزم میں ع7ام ہے ،لیکن اس77متھ اور
اس کے زمانے کے دیگر کمیونسٹوں نے اقبال کو ختم کرنے کی کوشش کی ،اسی وجہ سے اسمتھ نے اسٹالن کو "نجات دہن77دہ
آمر" کہا۔ اس کے بجائے ،ہٹلر کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس وقت کے دیگر کمیونسٹوں نے بھی اقبال کی جمہوریت پر تنقید پر ت77وجہ
دی تھی۔ اختر حسین رائے پوری نے اقبال پ77ر فاش77زم ک77ا ال77زام لگای77ا۔ غالم رب77انی عزی77ز نے اپ77نے مض77مون "اقب77ال اور نظ77ریہ
جمہوریت (کمیونزم اور کمیونزم)" میں ایک طرف اقبال ک77و "رجعت پس77ندی" کی مث77ال ق77رار دی77ا اور دوس77ری ط77رف "روس77ی
پُرتشدد انقالبی پارٹی" کے رکن کی حیثیت سے جب وہ لینن سے "پ77رامن انقالب" کی وجہ س77ے۔ غالم رب77انی عزی77ز نے عالمہ
اقبال کی کچھ بظاہر غیر جمہ
عالمہ اقبال نے 29دسمبر1928ء کو آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے اجالس منعقدہ دہلی سے خطاب کرتے ہ77وئے فرمای77ا۔ ’’اگ77ر
مسلمانوں کو ہندوستان میں بحیثیت مسلمان زندہ رہنا ہے تو ان کو جلد ازجلد اپنی اصالح و ترقی کے لئے سعی و کوشش ک77رنی
چاہئے۔ اور جلد از جلد ایک علیحدہ پولیٹیکل پروگرام بنانا چاہئے۔ آپ جانتے ہیں ہندوستان کے بعض حصے ایسے ہیں جن میں
مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ان حاالت میں ہم کو علیحدہ طور پر ای7ک پولیٹیک7ل پروگ7رام بن7انے کی ض7رورت ہے۔ (محم7د رفی7ق
افضل ۔گفتار اقبال) عالمہ اقبال روایتی اسالمی ریاست مثالً خالفت ،امامت ،امارت ،سلطانیت یا بادش77اہت نہیں چ77اہتے تھے بلکہ
وہ جدید مسلم ریاست کے قیام کا درس دیتے 7تھے۔ فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی تخلیقی کتاب ’’افکار اقبال‘‘ تشریحات
جاوید میں اس نقطہ کی یوں وضاحت کی ہے۔ ’’اقبال کے نزدیک توحید اس7اس ہے ،اس77تحکام انس7انیت مس7اوات اور ح7ریت کی
اور ازروئے اسالم ریاست کا مقصد ہی یہی ہے کہ مسلمان ان عظیم اور مث7الی اص7ولوں ک7و نہ ص7رف حاص7ل ک7ریں بلکہ دنی7ا
بھرمیں انہیں نافذ کر کے ظاہر کریں۔ اقبال نے اپنے تصور ریاس77ت کے پہلے بنی77ادی اص77ول کی وض77احت ک77رتے ہ77وئے مس77لم
استحکام کی بجائے ’’استحکام انسانیت‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ انکے خیال میں مسلمانوں کو اپنے آپ ک77و روح77انی ط77ور پ77ر دنی77ا کے
تمام انسانوں سے زیادہ آزاد سمجھنا چاہئے۔ اس بنا پر کہ آئندہ کوئی وحی نازل نہ ہو گی وہ فرم7اتے ہیں کہ اس7الم کامقص7د ج7و
اب تک صرف جزوی طور پر حاصل ہو س7کا ہے۔ ’’روح7انی جمہ7وریت‘‘ ک7ا قی7ام ہے۔ آج کے مس7لمانوں ک7و چ7اہئے کہ اپ7نی
اجتماعی معاشرتی زندگی کو ایسے ہی بنیادی اصولوں کی روشنی میں تعمیر کریں ت77اکہ اس ’’روح77انی جمہ77وریت‘‘ ک77ا حقیقت
میں انعقاد ہو سکے جو اسالم کا اصل نصب العین ہے۔ (حوالہ۔ تشکیل جدید ٰالہیات اسالمیہ )
جدید ریاست
تصور پاکستان کی بحث میں عالمہ اقبال کا خطبہ ال ٰہ آباد اور اقبال کے خطوط بنام جن77اح خصوص77ی اہمیت کے حام77ل ہیں۔ ان کے
مشموالت کے تجزیہ و تحلیل سے پہلے کچھ دیگرامورکا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہ77وں۔ اقب77ال کے خطبہ الہٰ آب77اد کی کس ط77رح
معنوی تراش خراش کا سب سے زیادہ عبرت ناک مظاہرہ اقب77ال کے خطبہ الہ آب77اد میں اس77تعمال ہ77ونے والی ای77ک ت77رکیب کے فہم
میں دیکھنے کو ملتاہے۔ اقبال نے جہاں شمال مغربی ہندوستان کو ایک مربوط صوبہ بنانے کے لیے بہت سے سیاس77ی دالئ77ل دیے
اور کہا کہ ہندوئوں کو اس سے خوف زدہ نہیں ہون77ا چ7اہیے وہ7اں اس ص7وبے کے قی77ام کے ح7ق میں ای77ک اور دلی77ل بھی دی ہے۔
فرماتے ہیں :
”میں صرف ہندوستان اور اسالم کے فالح و بہبود کے خیال سے ایک منظم اسالمی ریاست کے قیام ک77ا مط77البہ ک77ر رہ77ا ہ77وں۔ اس
سے ہندوستان کے اندر توازن قوت کی بدولت امن و امان قائم ہو جائے گا۔ اور اسالم کو اس امر کا موق77ع ملے گ77ا کہ وہ ان اث77رات
سے آزاد ہو کر جو عربی شہنشاہیت کی وجہ سے اب ت7ک اس پ7ر ق7ائم ہیں ،اس جم7ود ک7و ت7وڑ ڈالے ج7و اس کی تہ7ذیب و تم7دن،
شریعت اور تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے۔ اس سے نہ صرف ان کے صحیح معانی کی تجدید ہو سکتے گی بلکہ وہ زم77انہ ح77ال
کی روح سے بھی قریب تر ہو جائیں گے۔ (خطبہ الہ آباد۔ اردو ترجمہ از سید نذیر نیازی)
اس عبارت میں سید نذیر نیازی صاحب نے ”عربی شہنشاہیت“ کی ترکیب اقبال کے الفاظ ”ع77رب امپیری77ل ازم“ کے ت77رجمے کے
طور پر استعمال کی ہے۔ ڈاکٹر ندیم شفیق ملک صاحب نے بھی یہی ترکیب استعمال کی ہے مگر جب اقب77ال ”ب77رٹش امپیری77ل ازم“
کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو ندیم شفیق ملک صاحب اس کا ترجمہ برطانوی سامراج کرتے ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ
ایک ہی لفظ کے یہ دو متفاوت معنی کس طرح مراد لیے ج77ا س77کتے ہیں۔ اقب77ال نے جب ”ع77رب امپیری77ل ازم“ کے الف77اظ اس77تعمال
ک77یے ت77و یقین77ا وہ ان کے مض77مرات س77ے بھی واق77ف ہ77وں گے۔ اقب77ال ن77ثر لکھ رہے تھے اس ل77یے ش77عر کی ط77رح وزن کی ک77وئی
مجبوری حائل نہ ہو سکتی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ اقبال نے بے دھی7انی میں یہ الف7اظ اس7تعمال ک7ر ل7یے ہ7وں۔ اس خط7بے س7ے
کوئی ایک دہائی پیشتر وہ نکلسن کے نام اپنے خط میں مس7لم ت7اریخ کے متعل7ق اپ7نے نقطہ نظ7ر ک77و واش77گاف ان7داز میں بی77ان ک7ر
چکے تھے:
”مجھے اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مسلمان بھی دوسری قوم7وں کی ط7رح جن7گ ک7رتے رہے ہیں۔ انہ7وں نے فتوح7ات بھی کی
ہیں۔ مجھے اس امر کا بھی اعتراف ہے کہ ان کے بعض قافلہ ساالر ذاتی خواہشات کو دین و مذہب کے لباس میں جلوہ گ77ر ک77رتے
رہے ہیں لیکن مجھے پوری طرح یقین ہے کہ کشور کشائی اور ملک گیری ابتداً اسالم کے مقاصد میں داخ77ل نہیں 7تھی (Pracha,
)2020 #36۔
’اسالم کو جہاں ستانی اور کشور کشائی میں جو کامیابی حاصل ہوئی ہے میرے نزدی77ک وہ اس کے مقاص77د کے ح77ق میں بے ح77د
مضر تھی۔ اس طرح وہ اقتصادی اور جمہوری اصول نشو و نما نہ پا سکے جن کا ذکر قرآن کریم اور احادیث نبوی میں جابجا آی77ا
ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں نے عظیم الش77ان س77لطنت ق77ائم ک77ر لی لیکن اس کے س77اتھ ہی ان کے سیاس77ی نص77ب العین پ77ر غ77یر
اسالمی رنگ چڑھ گیا اور انہوں نے اس حقیقت کی طرف سے آنکھیں بند ک77ر لیں کہ اس77المی اص77ولوں کی گ77یرائی ک77ا دائ77رہ کس
قدر وسیع ہے۔ “ (اردو ترجمہ از چراغ حسن حسرت)
مندرجہ باال اقتباس یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ اقبال نے وہ لفظ خوب سوچ سمجھ کر استعمال کیا تھ77ا مگ77ر ہم77اری حساس77یت اس
لفظ اور اس کے مضمرات کو قبول کرنے سے انکاری ہے اور ترجمے میں اس کا دف مار دیا جاتا ہے۔ خود حسرت ص77احب نے
جن الفاظ کا یہ ترجمہ ”ان کے سیاسی نص7ب العین پ7ر غ77یر اس77المی رن7گ چ7ڑھ گی7ا“ کی7ا ہے اص7ل میں یہ ہیں they largely :
repaganized their political ideals
گویا اقبال یہ کہہ رہے ہیں کہ مل7وکیت دور ج7اہلیت کی ط7رف رجعت ک7ا ن7ام ہے۔ چن7انچہ مس7لمانوں میں خالفت کے ن7ام پ7ر جس
ملوکیت نے رواج پایا تھا اقبال اس کے سخت خالف تھے۔ خطبہ الہ آباد کے تقریبا سات برس بعد پنڈت نہرو کے ج77واب میں اقب77ال
نے اتاترک کے تنسیخ خالفت کے فیصلے کی ان الفاظ میں تائید کی تھی
عقلیت پسندی مغرب کے جدید علوم میں سب سے گھرا ہوا بنیادی عنصر ہے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق ،انسان خود کفیل اور
بالکل آزاد ہے اور اسے اپنی عقل ،خواہش اور مرضی کے مطابق فیص77لے ک7رنے ک7ا ح7ق حاص7ل ہے۔ ج7و چ7یز اس77تدالل اور
تجربے کی رسائ سے باہر ہے اور ان کی تصدیق نہیں کی جا سکتی وہ غلط ہے اور انکار کرنا ضروری ہے۔ یہ فکر بع77د میں
ایک مربوط سائنسی طریقہ کار بن گئی ،جدید مسلمان مفکرین اس سے مت77اثر ہ77وئے اور اس77ی سائنس77ی ط77ریقہ س77ے اس77الم ک77و
سمجھنے کی کوشش کی۔ لیکن انہوں نے اس حقیقت کو دھی77ان میں نہیں 7رکھ77ا کہ اس ذہ77نیت 7کے پیچھے انس77انیت ک77ا فلس77فہ ہے
جس میں انسان ہللا ٰ
تعالی کی بجائے کائنات کا مرکز بن گیا ہے اور اسے مطلق العنان کا مالک قرار دی77ا گی77ا ہے۔ انس77ان ک77و ج77و
مقام دیا گیا ہے وہ غالم نہیں ،بلکہ خدا کا مق77ام ہے۔ انس77ان دوس77تی ،انس77انی حق77وق ،اور انس77انیت پس77ندی کے اس فلس77فے کے
مطابق ،انسانی روح نے الہامی وحی کی جگہ لی اور انسانی عقل نے انبیاء کا مقام لیا۔ وہ شخص ج77و ن77تیجہ کے ط77ور پ77ر پی77دا
ہوا ہے خواہشات کا غالم ہے ،پوری آزادی کا متالشی ہے اور آزادی کی مادی ص77ورت س77رمائے کے س77وا کچھ نہیں ہے۔ دنی77ا
کی فتح اس دنیا کی محبت اور خوشی کے ل essentialضروری ہے ،تاکہ سرمایہ بڑھ جائے اور تمام خواہشات پوری ہ77وں [
]3۔
ماڈرنسٹ دعوی کرتے ہیں کہ جدید مغربی تہذیب اس77المی تہ77ذیب کی توس77یع ہے۔ ع7الم اس77الم نے اپ77نے ورثے یع77نی س77ائنس ،
ترقی ،ترقی اور عقل کو ترک کردیا ہے۔ مغرب نے اسے گلے لگا لیا اور ترقی کی۔ لہذا ،ہمیں اپنے تاریخی ورثے کو مغ77رب
سے دوبارہ دعوی کرنا اور ایک نئی دنیا کی تعمیر کرنا ہوگی۔ ان مفکرین کو دعوت دین جیس77ے ایم77ان ،دل77وں کی فتح ،م77ذہب
کے لئے سخت محنت ،محبت کا پیغ77ام ،محض عم7ل ،اتح7اد ،اتف7اق اور جہ7اد کی ک77وئی اہمیت نہیں ہے۔ اس کے ل7ئے فتح ک77ا
واحد راستہ مادی ترقی ،جنگ ،رقم اور مادی معلومات سے ہے۔ ان خی77االت کی وجہ س77ے ،امت ق77وم پرس77تی کے دائ77رہ ت77ک
محدود رہی۔ قومیت عالمگیریت سے انکار کرتی ہے اور وقت اور مقام کے دائرے ت77ک مح77دود ہے ،جبکہ اس77الم ق77ومیت س7ے
انکار کرتا ہے اور امت کی تشکیل کرتا ہے۔ قومیت محبت پر مبنی نہیں بلکہ نفرت پر مبنی ہے اور نبی theکی ذات ،اس کے
حسن و جمال ،معیار نبوی ،سنت و حدیث سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اسے نشانہ بنای77ا جات77ا ہے۔ یہ وہ ذرائ77ع ہیں جہ77اں س77ے
اسالمی تہذیب ،تاریخ ،حکومت اور تہذیب کے ماخذ پائے جاتے ہیں۔ جدی77دیت داغ77دار ہ77وئے بغ77یر ع77الم اس77الم میں خوش77حالی
نہیں السکتی ہے []4 ,3۔
جدیدیت کیا ہے؟
مصر کے حسن العطار ریفا ،محمد عبدو ،جمال ال7دین افغ7انی اور سرس7ید س7ے لے ک7ر غالم احم7د پروی7ز ت7ک ،ان س7ب کی
جدیدیت کی یکساں تعریف ہے :قرآن ،س7ائنس اور فلس7فہ کے م7ابین ک77وئی تض7اد نہیں ہے۔ مس7لمانوں کے زوال کی وجہ م77ادی
ترقی کا زوال ہے ،یعنی سائنس اور ایجادات سے محرومی اور امت مسلمہ کا عروج ویسا ہی ہوگا جو مغ77رب میں ہے۔ س77ائنس
یونان سے عرب ،عرب سے اس77پین ،اور وہ7اں س77ے ی77ورپ منتق77ل ہ77وئی۔ یہ ثق7افتی اث77ر و رس77وخ اب بھی موج77ود ہے۔ ان کے
بقول ،قرآن مجید میں جسمانی اور ریاضی کے علوم کے بارے میں مکمل معلومات ہے۔
مسلم جدیدیت پسندوں کا سارا زور اس حقیقت پر ہے کہ قرآن کے معانی سمجھنے کے لئے ب77یرونی ذرائ77ع کی ض77رورت نہیں
ہے۔ اس دلیل کی اساس یہ ہے کہ قرآن کو مصنف ق77رآن کے بغ77یر بھی س77مجھا جاس77کتا ہے ،یع77نی ق77رآن اور مص77نف ق77رآن دو
مختلف چیزیں ہیں۔ اس نقطہ نظر کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنی ت7اریخ ،روای7ات ،اق77دار ،اور ان طری7ق ک7ار
سے روابط توڑ دیتے 7ہیں جنھوں نے مستقل طور پر مختلف ذرائ7ع س7ے امت کی خ7دمت کی ہے۔ م7ارٹین ل7وتھر نے پروٹس7ٹنٹ
تحریک کے ل .یہ بالکل وہی نقطہ نظر اپنائے تھے اور جس کے نتیجے میں وہ عیسائیت کے ل77ئے س7زائے م7وت ک7ا ب77اعث بن
گئے تھے۔ مندرجہ ذیل موضوعات پورے معاشرے یا جزوی طور پر مسلم معاش77روں میں موج77ود تم77ام ماڈرنس77ٹ کے خی77االت
میں پائے جاتے ہیں []5۔
جدیدیت عقلیت پسندی پر مبنی ایک عالمی تہذیب ،ثقافت اور اقدار کا دعوی کرتی ہے۔ وہ اپنے وقت کے غالب رجحانات سے
متاثر ہوکر ،فلسفہ اور سائنس کو مذہب کے برابر اور اس سے بھی باالتر سمجھتی ہے۔
جدیدیت کی دلچسپی کا خصوصی میدان کائنات کی فتح اور مادی ترقی ہے ،لیکن انسان اخالقی اور روحانی وجود ،تبلیغ اور
دین کی تبلیغ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔ ان کے بقول ،شادی ،طالق ،تدفین اور ت77دفین جیس77ی چن77د رس77ومات اور رواج
میں ہی روحانیت کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ ایسی شخصیت تیار کی جائے جس کا مقصد دنیاوی زندگی ک77و
زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنانا اور زیادہ وسائل جم7ع کرن7ا ہے۔ وہ اس زمین ک7و جنت بن7انے کے درپے ہے اور اس س7ے ب7اہر
کی جنت محض خیالی اور تخیالتی ہے لہذا اسے موت اور قیامت کے موضوعات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
جدیدیت لٹریچر پر زور دیتی ہے ،اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ قرآن ای77ک کت77اب ہے۔ ق77رآن س77نت و ح77دیث کے الف77اظ ک77و
لغت ،عربی زبان اور وقت اور مقام تک محدود سمجھتا ہے اور نبی .کے معی77ار اور ص77حابہ ک77رام کے مش77ق ک77و ک77وئی اہمیت
نہیں دیتا ہے۔ جدیدیت کے مطابق ،قرآن و س77نت کی ن7ئی ترجم77انی ض7روری ہے کی77ونکہ پ7رانی تش7ریحات ص7رف ع77ربی کے
معاشرتی تناظر میں کی گئیں اور آج بھی قابل اطالق نہیں ہیں۔ ماڈرنلسٹ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ قرآن کس77ی
خاص ہستی پر ایک خاص وقت میں کسی خ77اص ت77رتیب میں ن77ازل ہ77وا تھ77ا۔ اگ77ر ق77رآن ہللا کی کت77اب ہے ،ت77و انف77رادیت ہللا کے
رسول کی کتاب ہے []6۔
تمام ماڈرنسٹ ،مکمل طور پر یا جزوی طور پر ،ان عقائد اور احادیث کو مسترد کرتے ہیں جو ان کے خیاالت کی تائی77د نہیں
کرتے ہیں ،اور وہ ایسی احادیث کو قبول کرتے ہیں جن کی توثی77ق ،توثی77ق اور ان کے نظری77ات کی حم77ایت ک77رتے ہیں۔ بعض
اوقات وہ واضح نفی کے بجائے مسخ اور تشریح کا استعمال کرتے ہیں۔
جدیدیت کی خصوصی خصوصیت اجتہاد اور سلف ،مذہبی اقدار ،روای77ات ،م77دارس ،اور غ77ور و فک77ر کے ن77ام پ77ر علم77ائے
کرام کی تضحیک کے انحراف کے نام پر اجتہاد ہے۔ عروج و زوال کی بحثوں میں ،سائنس ،ٹیکنالوجی اور عقل کے انحراف
کو زوال کی وجہ کے طور پر دیکھا جانا چاہئے ،روحانیت اور تصوف کو مادی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے طور پر
دیکھا جانا چاہئے۔
جدیدیت کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ قرآن اور سنت کو دین کا ماخذ سمجھنے کے باوجود ،اسالم کو کمیونزم ،سوشلزم ،اور
مغربی فالحی نظام میں شامل کرتا ہے ،جس کی بڑی وجہ اس سے ناواقفیت ہے۔ مغربی افکار اور فلسفہ۔
اس میں کوئی شک نہیں 7کہ اقبال کے کالم اور فلسفہ ہر دور کے مسلمانوں کے لئے ہیں ،لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ اقبال کے
زمانے میں مسلمان طویل عرصے سے انگریزوں کے زیر اقتدار تھے اور غالمی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ اقب77ال نے ای77ک
بار پھر ان مسلمانوں میں یہ سوچ اور آگاہی پیدا کی کہ اگرچہ اب وہ غالم ہیں ،لیکن ان کی مضبوط مذہبی اور معاشرتی اق77دار
ہیں اور ان سب کے لئے انہیں مغرب کی طرف دیکھنا ہوگا یا انگریزوں کو ڈرا جانا ہے۔ .اس طرح ،انہوں نے برص77غیر کے
مسلمانوں کو مختلف زبانیں اور روایات کے باوجود مذہب کی بنیاد پر متحد ہونے کا طریقہ ظاہر کیا ،اور یہ بھی واضح کیا کہ
ان کی اصل منزل تک پہنچنے کا یہی واحد راستہ ہے۔ ب77اقی س77بھی س77ڑکیں م77یرای اور دھ77وکہ دہی ہیں۔ اقب77ال کی تعلیم77ات کے
مطابق ،انفرادی یا مسلم معاشرے ،ریاست یا امت کے بغیر ،خود اعتمادی ،خود آگاہی اور خود انحص77اری کے بغ77یر ،حقیقی
ترقی ممکن نہیں ہے اور دنیا میں ک77وئی مق77ام حاص77ل نہیں ہوس77کتا ہے۔ .یہ ہے .لیکن ان س77ب کے س77اتھ ،اقب77ال جمہ77وریت کے
ماننے والے تھے ،لیکن ان کی جمہوریت مغربی جمہوریت " ،اسالمی جمہوریت" سے بہت دور ہے جس میں اف77راد ک77و اپ77نے
حکمرانوں کا انتخاب کرنے کا حق حاصل ہے ،لیکن ان حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ حکمرانی کریں۔ ریاست .قرآن و ح77دیث
اور اسالمی تعلیمات کے اصول و احکام۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں عالمہ اقبال متعدد مقامات پر اسالمی جمہوریہ کی حمایت کرتے
ہیں اور اسی کے ساتھ مغربی جمہوریت کی بھی مذمت کرتے ہیں اور جاگیردارانہ نظام اور موروثی سیاست اور حک77ومت کے
سخت مخالف ہیں []8۔
یہ امر افسوسناک ہے کہ قیام پاکس77تان کے ص7رف س7ت yearsر س7ال بع77د ہی ہم پاکس7تان کے مص77ور ک77و ش7اعرانہ مق7ام عط7ا
کرکے اس عظیم شخصیت کی اصل تعلیمات اور فلسفہ کو فراموش کر چکے ہیں۔ ایک طرف ،ہم بحیثیت ف77رد خ77ود انحص77اری
کے بجائے دوسروں کا سہارا لیتے ہیں ،دوسری طرف بحی77ثیت ق77وم ہم دوس77ری اق77وام کی تالش ک77رتے ہیں۔ ہمیں نہ ص77رف ان
سے قرضوں کی ضرورت ہے ،بلکہ قرض لینے کے لئے نظام کی بھی ض77رورت ہے۔ ہم یہ بھ77ول چکے ہیں کہ ہم77ارے پ77اس
پہلے ہی ہمارے مذہب کی شکل میں بہترین سیاسی ،معاشرتی ،معاشی اور معاشرتی نظام موجود ہے۔ ہمیں صرف اسے شیلف
سے اتارنا ہے اور اسے اپنے ملک اور اپنی زن77دگی میں ناف77ذ کرن77ا ہے۔ اس سس77ٹم کے عالوہ ،ہم کس77ی بھی درآم77دی نظ77ام پ77ر
کامیابی حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ،بہت سارے تجربات کے باوجود ہم امن ،اس77تحکام اور ت77رقی س77ے دور
ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک پر ہمارا انحصار کم ہونے کی بجائے بڑھت77ا جارہ77ا ہے اور ہم م77ذہبی اور س77یکولر دون77وں
شعبوں میں کم ہورہے ہیں۔ اس وقت کی سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے "قومی شاعر" کے بارے میں محض تقری77ریں
کرنے کی بجائے اپنی تعلیم77ات میں علم77ائے دین ،سیاس77ت دان77وں اور م77اہرین معاش77یات س77ے رہنم77ائی حاص77ل ک77ریں (Qadri,
)2019 #44۔
عالمہ اقبال جدیدیت سے جزوی طور پر متاثر ہوئے لیکن بعد ازاں رجوع کر لیا:
بہت سے جدید مسلم مفکرین اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ممتاز اسالمی شخصیات کے پیچھے چھپ77نے کی کوش77ش ک77رتے
ہیں۔ کچھ لوگ عالمہ اقبال کے نظریات کو قبول مذہبی نظریات کے طور پر پیش ک77رتے ہیں اور یہ اس77تدالل ک77رتے ہیں کہ اقب77ال
نے مغربی تہذیب اور مغربی فکر میں اسالم کے پھیالؤ کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ اسالم اور جدید مغ77ربی
فلسفہ اور سائنس کے مابین کوئی تضاد نہیں ہے ،بلکہ یہ کہ وہ ایک دوس77رے کے س77اتھ مط77ابقت رکھ77تے ہیں۔ عالمہ اقب77ال کے
حوالے سے یہ دلیل درست نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اپ77نے خطب7ات میں آزادی ،نظ7ریہ آزادی ،تقلی7د کے ل7ئے ناپس7ند ،ق77دامت
پسندی سے انکار ،اور نام پر اظہار رائے کی آزادی کے نام پر دنی77ا کی چھ7پی ہ77وئی خط7رات ک7ا ادراک ک77رتے ہ7وئے کہ7ا تھ7ا۔
اجتہاد کے بارے میں اور اس وقت عالم اسالم میں ج7اری ق77وم پرس7تی کے نظری7ات تقس77یم اور تف7رقہ انگ77یز ہیں۔ مزی77د ب7رآں ،یہ
خطرہ ہے کہ ہمارے مذہبی اور سیاسی رہنم77ا آزادی اور آزادی کے ج77ذبے میں اص77الحات کی ج77ائز ح77دوں س77ے آگے نہیں 7ب77ڑھ
پائیں گے []9۔
عالمہ مفتی نے بھی مفتی عبدہللا کی طرح پارلیمنٹ ک77و اتف77اق رائے س77ے ای77ک مح77دود نعمت کے ط77ور پ77ر دیکھ77ا ،بلکہ اپ77نے
تحفظات اور خدشات کا اظہار بھی کیا۔ اور انہوں نے خود عملی طور پر اس تجویز کو مسترد کردیا جب انہوں نے مشورہ دیا کہ
علماء کو مقننہ میں ایک جزو کے طور پر شامل کیا جائے۔ وہ تمام معامالت میں علماء کے پاس جاتا تھا اور ان کے استعمال اور
تقلید کو نجات کا سبب سمجھتا تھا۔ انہوں نے خطبات کے ترجمے کے لئے علمائے کرام کی مدد لینے کا بھی حکم دیا۔ انہ77وں نے
سید سلیمان ندوی کو استاد الکل کی حیثیت سے تحریر کیا اور یہ ایوارڈ کسی ماڈرنلسٹ فلس77فی ی77ا مفک77ر ک77و پیش نہیں کی77ا۔ اقب77ال
Islamاسالم کے ایک شاعر ،عقیدے کے حامل اور پیغمبر .کے عاشق تھے۔ جدیدیت پسند اقبال کو اقب77ال کے اس77الم اور عاش77ق
رسول Prophetپسند نہیں کرتے ،لیکن وہ اس فلسفے کی طرح کرتے ہیں جس کا انہوں نے خود خطاب کیا تھا۔
ڈاکٹر ظفرالحسن نے سرسید اور اقبال کو جدید الہیات کے بانی کہا۔ لیکن سرس77ید اور اقب77ال ای77ک ہی خطے کے مس77افر نہیں ہیں
اور ان کے سارے معامالت ایک جیسے نہیں ہیں۔ عالمہ اقبال قرآن حکیم کو جنت س77ے ن77ازل ک77ردہ کت77اب اور ن77بی پ77اک ofکے
پیغام کو دنیا کا سب سے پیارا شخص سمجھتے ہیں۔ جب حضور کے نام کا ان کے سامنے ذکر ہوا تو انہ77وں نے آنس7و بہ77ا دئ77یے۔
عالمہ اقبال اس بات پر زور دیتے 7ہیں کہ وحی کے ذریعہ حاصل کردہ علم بہترین 7انسانی ذہنوں سے حاصل کردہ علم سے باالتر
ہے۔ وہ اس بنیاد پر مذہب کے جواز کا مظاہرہ کرنا چ77اہتے ہیں کہ سائنس77ی علم اور عب77ارتیں م77ذہب کے س77اتھ مط77ابقت پ77ذیر ہیں۔
لیکن سرسید کے دالئل کے نتیجے میں مذہبی عقائد کمزور ہوگئے۔
عالمہ اقبال نے مغ77ربی ب77ا اث77ر ذہن77وں ک77و اس77الم کے ق7ریب النے کے ل77ئے 'خطب7ات' لکھے ،لیکن س77ید س7لیمان ن77دوی ،موالن77ا
دریاآبادی اور ابوالحسن علی ندوی نے عالمات اقبال کے خطبوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوشش انتہائی خطرناک اور
مشکل ہے۔ یہ دو خطے ہیں جن کی الہیات ،استعارات ،وجود ،منہج اور علم کے ذرائع الگ الگ ہیں اور ان میں اس ک77ا اطالق
نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا خطبات کے بعد ،عالمہ اقبال نے اپنے خطوط ،بیانات ،تقاریر اور تبصروں میں خطبات سے متعلق ام77ور
پر اپنے خیاالت کا اظہار کیا ،اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہ77وں نے خطب7ات کے بہت س77ے خی7االت ک7ا ح7والہ دی7ا ہےRám,(.
)1871 #20
اس لحاظ سے ،سید نذیر نیازی کے ساتھ خط و کتابت میں ،خطبات پر نظر ثانی اور دوبارہ لکھ77نے ک77ا اظہ77ار عالمہ اقب77ال کی
تشویش ،اضطراب اور ہمدردی کا بھی اظہار کرتا ہے۔ انہوں نے 1933میں الہور میں اپنی تقریر میں کہا تھ77ا کہ آج کی تہ77ذیب
کے مقابلے میں اسالم کو ایک کمزور قوت کے طور پر پیش نہیں کی77ا جان77ا چ77اہئے ،بلکہ اس ط77رح پیش کی77ا جان77ا چ77اہئے کہ یہ
تہذیب اسالم کے قریب آسکتی ہے۔ عالمہ اقبال نے کبھی بھی عالم دین ہ77ونے ک77ا دع77وی نہیں کی77ا ،لیکن انہ77وں نے ص77وفی غالم
مص77طفی تبس77م ک77و لکھ77ا کہ م77یرے دی77نی علم ک77ا دائ77رہ بہت مح77دود ہے۔ اپ77نے ف77ارغ وقت میں ،میں ان ک77و ذاتی اطمین77ان کے ل
increaseبڑھانے کی کوشش کرتا ہوں نہ کہ تعلیم کے لئے []9۔
ڈاکٹر برہان احمد فاروقی ،سلیم احمد ،مرزا منور ،تحسین ف7ارقی ،پروفیس7ر عبدالحمی7د کم7الی ،ڈاک7ٹر فض7ل ال7رحمن ،ڈاک7ٹر
عشرت انور ،ڈاکٹر منظور احمد ،ڈاکٹر الطاف اعظمی ،ڈاکٹر سلمان رشید اور سہیل عم7ر نے بھی تنقی7دی تنقی7د کی۔ انہ7وں نے
واعظوں کا جائزہ لیا اور سواالت اٹھائے کہ کیا اصلی شاعری ہے یا خطبات اقبال ،شاعری اور خطب77ات میں کی77ا تعل77ق ہے؟ کی77ا
اقبال خطبات میں سوال پوچھ77تے ہیں اور اش77عار میں ان کے جواب77ات دی77تے ہیں؟ کی77ا خطبہ کے بع7د 7کی ش77اعری ک77و خطب77ات ک7ا
منسوخی سمجھا جائے گا یا نہیں؟ کیا شاعری خطبات کے تابع ہے یا یہ متوازی ہے؟ اگر خطبات اور شاعری کو متوازی سمجھا
جائے تو کیا اس سے اقبال کی شخصیت کو نقصان پہنچے گا؟ اس تضاد کی کیسے وض7احت کی گ7ئی ہے؟ خطب7ات اور ش7اعری
میں اطالق کیسے پیدا کریں؟ یہ سارے سواالت اس وقت اٹھتے ہیں جب عالمہ اقبال کے حوالہ کو اہمیت نہیں دی ج7اتی ہے۔ اگ77ر
اس کو مان لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حقیقی اقبال ایک فلسفہ نہیں بلکہ ن77بی Prophetک77ا ای77ک ش77اعر اور عاش77ق
ہے۔
جدیدیت اور روایت متضاد رویوں ،انداز اور سوچنے کے طریقے ہیں اور چودہ صدیوں سے متصادم ہیں۔ جدیدیت کے مقاصد
،امنگوں اور اہداف کو سمجھنا روایت کی صحیح تفہیم کے بغیر حاصل نہیں کی77ا جاس77کتا۔ روایت میں ،وجہ س77ے اط77اعت اور
محبت کو فوقیت حاصل ہے۔ ان کے نزدیک عقل کا مقام قلب ہے ،کی77وں کہ محبت ک77ا سرچش77مہ دل س77ے پھوٹت77ا ہے اور محبت
اطاعت کا باعث ہوتی ہے۔ انبیاء عیاں ہیں ،ان سے محبت ہمارے ایمان کا ایک حصہ ہے اور پیغمبر اس77الم س77ے محبت دین ک77ا
پہال قدم ہے۔ انسان کے اخالقی اور روحانی وجود کی بنیاد خدا کا خوف ،خدائی رضا اور آخ77رت کی فک77ر ہے (آغ77ا# 2017 ,
)42۔
یہ روایت ہر عمر کے مسلمانوں کو جذباتی اور روحانی طور پر ن77بی پ77اک ofکے زم77انے س77ے مرب77وط ک77رتی ہے۔ یہ ج77ذباتی
ربط اس روایت کا تسلسل ہے جو قرآن و سنت ،صحابہ کرام ،اور امت کے تسلسل کے ذریعہ ہمارے پاس آگی77ا ہے۔ اقب77ال کے
مطابق " ،رسول ہاشمی کی قوم اس کی تشکیل میں خاص ہے۔" اگر مسلمان جذباتی طور پر اپنی تاریخ اور تہ77ذیب کے س77نہری
دور سے وابستہ نہیں 7ہوتے تو ان ک7ا وج77ود دنی77ا کی کس77ی بھی ق77وم کے ل77ئے ن77اگوار نہیں 7ہوت77ا۔ مغ77ربی جدی77دیت اور نوآبادی77ات
ماضی کی تمام اقوام کو الگ کرنا چاہتے ہیں اور انہیں مستقبل کے مادہ پرستی کے نظام کے ساتھ متحد کرن77ا چ77اہتے ہیں ،اور
اس خواہش کی سخت ترین عملی مزاحمت اسالمی روایت سے ہی سامنے آتی ہے۔ روایت کسی بھی قیمت پر پیغمبر اکرم (ص)
سے اپنا جذباتی تعلق ترک کرنے کو تیار نہیں ہے۔ روایت کے الزمی عناصر مندرجہ ذیل ہیں۔
روایت وہ عمل ہے جو قرآن ،سنت ،اسوا حسنہ ،حدیث ،مستقل مشق اور امت کے اتفاق رائے پ77ر مب7نی ہے۔ روایت ،ان
ذرائع کو استعمال کرنے کے لئے ،قبول شدہ مکاتب فکر اس77الم ک77ا ح77والہ دی77تے 7ہ77وئے م77ذہب ک77و اپن77اتی ہے اور انف77رادی
نظریات کی بنیاد پر مکاتب فکر سے مکمل طور پر گریز کرتی ہے ،کیوں کہ مذہب کی محفوظ تبلیغ سوالیہ نشان ہے۔
روایت تمام مسلم مکاتب فکر کو درست مانتی ہے ،لیکن دوسرے مکاتب فکر کو کافر نہیں سمجھتی ہے۔ اس کے اصولوں
کے تحت شیعوں اور غیر ملکیوں کو کافر قرار نہیں 7دیا گیا ہے۔
آنحضرت صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا تعلق روایت رکھنے وال77وں کے ش77عور س77ے ہے۔ روایت ماض77ی کے س77اتھ
اپنے تعلقات کو برقرار رکھتی ہے اور مستقبل کی طرف دیکھنے 7کے ل7ئے اجتہ7اد پ7ر یقین رکھ7تی ہے جس س7ے مش7ابہت
ممکن ہوتی ہے۔
روایت ک77ا تعل77ق نہ ص77رف ان77درونی بلکہ ب77یرونی س77ے بھی ہے ،بلکہ وقت کے س77اتھ اس کے ظہ77ور ک77ا تسلس77ل اس کے
تحریک کے اصول ،توحید کے ذریعہ طے ہوتا ہے ،جس کا تعلق وحی اور پیشن گوئی کے ذریعے استعاراتی نظ7ام س77ے
ہے۔ مذہب ،قانون ،اخالقیات ،معاشرے ،سائنس اور ٹکنالوجی ،سائنس اور ٹکنالوجی کے تمام اصولوں سے اخذ کیا گی77ا
ہے اور وہ اس استعاریاتی نظام کے تابع ہیں۔ آپ کی اصل جس77تجو ،مقص77د اور مقص77د قی77امت کی کامی77ابی ہے ،لہ77ذا تم77ام
علوم اور فنون اس جدوجہد کو ممکن بنانے کے لئے کارفرما ہیں۔ زندگی کا محور اور مقصد ہللا کی بندگی کے عالوہ کچھ
نہیں ،علم و فن کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی جو اس راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔
روایت خدا ،انسان اور کائنات کے تین بنیادی رشتوں میں ہم آہنگی پاتی ہے۔ روح اور مادے کے درمیان ک77وئی تض7اد نہیں
ہے ،نہ ہی شریعت اور طریقہ کے مابین کوئی فرق ہے ،بلکہ وہ ای77ک ہی حقیقت ک77ا مظہ77ر ہیں۔ س77چائی ج77اننے ک77ا واح77د
راستہ ایمان ہے۔ بیرونی حواس ،اندرونی حواس ،حواس اور عقلی اور عملی تجرب77ات مطل77ق حقیقت ک77و ج77اننے ک77ا حتمی
ذریعہ نہیں سمجھے جاتے ہیں۔ دل کے ذریعے مطلق حق تک رسائ وحی اور پیشگوئی کے ذریعہ ممکن نہیں ہے۔ باب77ا وہ
ہے جو قرآن و سنت کے تابع ہو۔ کس77ی بھی قس77م ک77ا علم ش77ریعت پ77ر عم77ل ک77یے بغ77یر ممکن نہیں ہے۔ ش77عور ک77و وحی ک77ا
مخالف یا متوازی کہنا غلطی اور جدیدیت ہے۔
روایت خدا ک77ا مرک77ز ہے اور ،اس کے نزدی77ک ،حقیقت اس کے ج7وہر میں مق77دس اور اب77دی ہے۔ جدی77دیت میں ،ص77داقت
مستقل چیز نہیں ہے ،بلکہ ایک عارضی ،اضافی ،سیکولر اور جسمانی چیز ہے اور اس میں تق7دس ک7ا ک7وئی مع77نی نہیں
ہے []10۔
پاک و ہند میں روایتی علماء کی حکمت عملی:
برصغیر پر برطانوی استعمار کے قبضے کے بعد ،مغل سلطنت کا خاتمہ ہوا اور ایک جدی77د س77رمایہ دارانہ نوآبادی77اتی ریاس77ت
میں تبدیل 7ہوگیا۔ روایتی علماء کے ایک گروپ نے دارالسالم میں برطانوی نوآبادیاتی ریاست پر حملہ کرکے جہاد کا اعالن کی77ا
اور برطانوی نوآبادیات کو ہندوستان سے بے دخل کرنے کی پوری کوش7ش کی۔ ان علم77اء نے سائنس77ی ،م77ذہبی ،اور تحری77ری
سطح پر صرف مسلح جہاد کو مغربی جہاد پر ترجیح دی۔ ان کے مجاہدین نے لگن ،قربانی ،خ77ود قرب77انی اور ش77ہادت کی بے
مثال مثالیں قائم کیں اور مسلمانوں کے دلوں میں ایمان کی مرجھی ہوئی چنگاری کو بھڑکانے میں مدد 7کی۔ ان علمائے کرام کی
علمی کوششیں صرف فتووں تک ہی محدود تھیں اور شاہ عبد العزیز اور شاہ عبدالحئی کے فتوے آپس میں مشہور ہوئے۔
جب برطانوی حکومت نے اینگلو مسلم قانون کی شکل میں شریعت قانون میں ترمیم کی ،تو جرم کے ذاتی جرائم کو نجی ج77رم
کے بجائے معاشرتی جرم قرار دیا گیا ،دیت ترک کردی گئی ،اور معاوضے اور جسمانی س77زا کی بج77ائے م77زدوری کی س77زا
نافذ کردی گئی۔ اور بدکاری کو تیس کوڑوں اور قید میں ڈال دیا گیا ،اسالم کو ریاست سے مکمل طور پ7ر بے دخ7ل کردی7ا گی7ا۔
اس تبدیلی کے خالف مہم چالنے والے روایتی اسکالرز کے گروپ میں شاہ ولی ہللا ،بخت خان ،موالنا قاسم ن77انوتوی ،ح77اجی
امداد ہللا مہاجر مکی ،راشد احمد گنگوہی ،فضل حق خیرآبادی ،اور دیگر شامل تھے۔
مشہور روایت پسند اسکالرز کے تیسرے سب سے بڑے گروہ نے برطانوی سامراج کے سیاسی ،سماجی اور ثقافتی نظام س77ے
الگ ہوکر تاتار یلغار کے وقت اپنای7ا ہ77وا الئحہ عم77ل اپنای77ا۔ انہ77وں نے م77دارس اور مس77اجد میں اس77الم ک7ا تحف7ظ ک77رکے مغ77ربی
نظریات کے دخل اندازی کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ مغربی تہ77ذیب ک77ا مط77العہ ،مش77اہدہ اور فیص77لہ ک77رنے کے
بجائے ،اس نے اسالم کی حفاظت پر توجہ دی اور ابتدائی دنوں میں بہت کامیاب رہا۔ لیکن ام7ام الغ7زالی جیس7ے علمی فیص7لے
پر عمل کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی ،لہذا آہستہ آہستہ یہ حکمت عملی کمزور ہونے لگی (حیات)10# 2019 ,۔
قیام پاکستان کے وقت ،صرف چند عظیم مدرسے تھے اور کچھ بڑے روای7تی علم7اء تھے ،لیکن لوگ7وں س7ے ان ک7ا تعل7ق اتن7ا
مضبوط تھا کہ ریاست امور کے اہم امور پر تعاون کے بغیر آسانی س77ے ک77وئی ک77ام نہیں کرس77کتی تھی۔ حک77ومت .پاکس77تان کے
آئین میں قرآن و سنت کو ٰ
اعلی ق7انون ق7رار دین7ا ،ق7وانین ک77و ش7ریعت کے مط7ابق ڈھالن77ا ،اس77المی نظری77اتی کونس7ل ،ش7ریعت
عدالتوں ،قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیتے 7ہوئے ،اور کونسل کے ساتھ ان گنت دیگر معامالت کا فیصلہ کیا گیا۔ علمائے کرام
کی۔ موالنا شبیر احمد عثمانی اور دیگر بہت سارے علماء مس77لم لی77گ کے مم77بر نہیں تھے ،لیکن تحری77ک پاکس77تان میں ان کے
نمایاں کردار کی وجہ سے ،وہ مسلم لیگی افسران کی نسبت زیادہ قابل احترام تھے۔ قیام پاکستان کے فورا بع77د ہی ،مس77لم لی77گ
کا نام تبدیل کرنے کی تجویز کو پارٹی عہدیداروں نے منظور کرلیا ،لیکن موالنا شبیر احمد عثمانی کی مخالفت کی وجہ سے ،
قائداعظم نے اس تجویز کو منظور نہیں کیا[]11۔
پاکستان میں آج الکھوں مساجد اور طلباء ،ہزاروں مدرسے اور سیکڑوں ماہرین تعلیم موجود ہیں ،لیکن ان کی اتنی طاقت نہیں
ہے جو بانی پاکستان کے وقت تھی ،جدیدیت کے مقابلہ میں پختہ عزم کے فقدان کی وجہ س77ے۔ اور لوگ77وں کے س77اتھ مض77بوط
مذہبی روابط کو کمزور کرنا۔ آج کل ماہرین تعلیم کو کسی اہم قومی اور م77ذہبی مس77ئلے پ77ر وزی77ر اعظم س77ے گفتگ77و ک77رنے اور
وقت مانگنے اور سمجھوتہ کی آڑ میں اس سے اجتناب کرنا پڑتا ہے۔ مذہبی رہنمائی کے لئے مساجد اور مدارس ک77ا رخ ک77رنے
کے بجائے ،لوگ اخبارات ،ٹیلی وی77ژن اور سوش77ل می77ڈیا پ77ر انحص77ار ک77رتے ہیں ،جہ77اں وہ جدی77د م77ذہبی تش77ریح کے ن77ام پ77ر
جدیدیت کے نمائندوں کو الجھا رہے ہیں۔ جدیدیت اور سیکولرازم کے مابین گٹھ جوڑ کھل ک77ر الح77اد ،س77یکولرازم ،ل77برل ازم ،
حقوق نسواں اور فحاشی کو فروغ دیتا ہے ،لیکن اس روایت کے نمائندے خاموشی اختیار کر رہے ہیں۔ اگر رواج کے نمائندے
اس نازک موڑ پر اپنا بھرپور اور مکمل کردار ادا نہیں 7کرتے ہیں ت77و ،خ77دا کی خ77واہش ،جدی77دیت اور س77یکولرازم اس77ی ط77رح
زندگی کے تمام شعبوں کو اسی طرح مغرب میں گذشتہ ایک صدی یا دو سال قبل گذارے گی (خان)43# 2014 ,۔ .
عالمہ اقبال اور جدید ریاست پاکستان
یہ پاکس7تان میں باض7ابطہ عقی7دہ بن گی7ا ہے کہ عالمہ اقب7ال نے اپ7نے خطبہ الہ آب7اد میں پاکس7تان ک7ا تص7ور پیش کی7ا۔ ای7ک ب7ار
پاکستان نظریاتی اخبار کے اداریہ میں یہ پڑھنے پر اتفاق کیا گیا کہ "پاکس77تان عالمہ اقب77ال کے وژن اور قائ77داعظم کی جدوجہ77د
کے نتیجے میں قائم ہوا تھا۔" ایک بزرگ کالم نگار نے یہ کہا کہ قائداعظم نے عالمہ اقبال کے حکم پ77ر پاکس77تان کی تعم77یر کے
لئے تحریک شروع کی تھی۔ تاریخ میں شاید کبھی ایسا دور نہیں آیا ہو جب کسی پارٹی کے صوبائی صدر نے مرکزی صدر کو
حکم دیا ہو۔ خاما بیگوش کے الفاظ میں ،یہ تاریخ نگاری نہیں ہے ،بلکہ نوادرات ہے۔
میں اس مضمون میں عالمہ اقبال کی نثر تحریروں کا جائزہ لے کر یہ ث77ابت کرن77ا چاہت77ا ہ77وں کہ انہ77وں نے تقس77یم ہن77د ک77ا ک77وئی
نظریہ پیش نہیں کیا اور نہ ہی وہ نظریہ پاکستان کے خالق تھے ،نہ ہی خ77الق بہت کم۔ یہ اقب77ال کے کچھ الف77اظ کی غل77ط تش77ریح
کر کے کیا گیا ہے۔ اس دستار کو اقبال کے سر پر سجانے کی کیا وجوہات تھیں ،میں ان میں سے کچھ کا تذکرہ بھی کروں گا۔
عالمہ اقبال کے ساتھ المیہ یہ تھا کہ قیام پاکستان کے بعد ،اس کی ترجمانی کا کام ان لوگوں نے اٹھایا جو قیام پاکستان سے قب77ل
کانگریس اور احرار سے وابستہ تھے۔ انہوں نے اقب77ال س77ے کچھ مخص77وص اش77عار ک77ا انتخ77اب کی77ا اور ان کی ن77ثر نگ77اری ک77و
نظرانداز کیا یا اپنی من مانی تشریحات کا آغاز کیا۔ بڑی چاالکی کے ساتھ ،اس نے اقبال کے نثر کو اپنی شاعری سے مش77روط
کردیا۔ تاہم ،یہ ایک قائم شدہ اصول ہے کہ سائنسی اور منطقی دالئل کی جگہ شاعری کا استعمال نہیں کی77ا جاس77کتا۔ رش77ید احم77د
صدیقی صاحب نے ایک بار قوم کے طنز کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ دالئل کی بجائے شاعری پ77ڑھ ک77ر ک77وئی یہ س77وچتا ہے
کہ اس نے ایک بہت بڑا سائنسی کارنامہ انجام دیا ہے۔ اگر یہ علم اور حقیقت کے بارے میں ہے تو پھ77ر ج77و کچھ گ77دی میں کہ77ا
جاتا ہے وہ شاعری پر غالب آجائے گا۔
عالمہ اقبال کا خطبہ الہ آباد ،اور جناح کے اقبال کے خطوط ،جنوبی پاکستان کی گفتگ77و میں خصوص77ی اہمیت کے حام77ل ہیں۔
میرے خیال میں اس کے مندرجات کا تجزیہ کرنے سے پہلے کچھ دوسری چیزوں کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ الہ آباد میں خطبہ
اقبال کو کس طرح دیکھا جاس77کتا ہے اس ک77ا س77ب س77ے ذہین مظ77اہرہ ،الہ آب77اد میں خطبہ اقب77ال میں اس77تعمال ہ77ونے والے ای77ک
فارمولے کی تفہیم ہے۔ جبکہ اقبال نے شمال مغربی ہندوستان کو متفقہ صوبہ بنانے کے لئے بہت سارے سیاسی دالئل دیئے 7اور
کہا کہ ہندوؤں کو ان سے خوفزدہ نہیں ہون77ا چ77اہئے ،انہ77وں نے اس ص77وبے کے قی77ام کے ح77ق میں ای77ک اور دلی77ل بھی دی۔ وہ
کہتے ہیں:
“میں صرف ہندوستان اور اسالم کی فالح و بہبود 7کے لئے ایک منظم اس7المی ریاس7ت کے قی7ام ک7ا مط7البہ کرت7ا ہ7وں۔ اس س7ے
طاقت کے توازن کے ذریعے ہندوستان کے اندر امن و امان آئے گا۔ اور اس77الم ک77و یہ موق77ع ملے گ77ا کہ ع77رب بادش77اہت نے اس
تعطل کو توڑنے کے لئے جو اس کی صدیوں سے اپنی تہذیب ،قانون اور تعلیم کو دوچار ک77ر رکھ77ا ہے اس س77ے اپ77نے آپ ک77و
آزاد کرنے کا موقع ملے گ77ا۔ اس س77ے نہ ص77رف ان کے حقیقی مع77نی تجدی7د 7ہ77وں گے بلکہ انہیں عم77ر کی روح کے ق77ریب بھی
کریں گے۔ (الہ آباد خطبہ۔ اردو ترجمہ سید نذیر نیازی)
اس حوالہ میں ،سید نذیر نیازی نے "عرب بادشاہت" کے فقرے کو اقبال کے الفاظ "عرب سامراج" کے ت77رجمے کے ط7ور پ7ر
استعمال کیا ہے۔ ڈاکٹر ندیم شفیق ملک صاحب نے بھی یہی فارموال استعمال کیا ہے ،لیکن جب اقب77ال "برط77انوی س77امراج" کے
الفاظ استعمال کرتے ہیں تو ندیم شفیق ملک صاحب نے ان کا ت77رجمہ برط77انوی س77امراج کے ط77ور پ77ر کی77ا۔ اب س77وال یہ ہے کہ
ای77ک ہی لف77ظ کے ان دو مختل77ف مع77انی کی ترجم77انی کس ط77رح کی جاس77کتی ہے؟ جب اقب77ال نے "ع77رب س77امراج" کے الف77اظ
استعمال کیے تو وہ اس کے مضمرات سے یقینا واقف ہوں گے۔ اقبال نثر لکھ رہے تھے ،اس لئے اس کی کوئی ذمہ داری نہیں
تھی کہ وہ شیر کی طرح وزن کرے۔ ایسا نہیں کہ اقبال نے ان الفاظ کو استعمال کیے بغ7یر اس7تعمال کی7ا۔ اس خط7بے س7ے ای7ک
دہائی قبل نکلسن کو لکھے گئے اپنے خط میں ،انہوں نے مسلم تاریخ کے بارے میں کھ7ل ک7ر اپ7نے خی7االت ک7ا اظہ7ار کی7ا تھ7ا
(شوکت:)35# 2019 ,
"میں اس حقیقت سے انکار نہیں کرتا کہ مسلمان دوسری قوموں کی طرح لڑ رہے ہیں۔ وہ بھی جیت گ77ئے ہیں۔ میں یہ بھی مانت77ا
ہوں کہ ان کے کارواں کے کچھ رہنما مذہب کی آڑ میں اپنی ذاتی خواہشات کا اظہار کرتے رہے ہیں ،لیکن مجھے اس ب77ات ک77ا
یقین ہے کہ جوانی اور حب الوطنی ابتدا میں اسالم کے مقاصد کا حصہ نہیں 7تھے۔
"میری جوانی میں ،جوانی اور جوانی میں اسالم کو جو کامیابی ملی ہے ،وہ اس کے مقاص77د کے ل77ئے انتہ77ائی نقص77ان دہ رہی
ہے۔ لہذا ،قرآن مجید اور احادیث نبوی inمیں مذکورہ معاشی اور جمہ77وری اص77ولوں ک77و ت77رقی نہیں 7م77ل س77کی۔ یہ س77چ ہے کہ
مسلمانوں نے ایک بہت بڑی سلطنت قائم کی لیکن اسی کے ساتھ ہی ان کے سیاسی عزائم نے غ77یر اس77المی رن77گ اختی77ار کرلی77ا
اور اس حقیقت پر نگاہ ڈالی کہ اسالمی اصولوں کے اطالق کا دائرہ اتنا وسیع تھا۔ تحریر چراگ حسن حسرت)
مذکورہ باال اقتباس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اقبال نے یہ لفظ سوچ سمجھ کر استعمال کی77ا ،لیکن ہم77اری حساس77یت اس لف77ظ اور
اس کے مضمرات کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہے اور ترجمہ کٹ جاتا ہے۔ حسرت صاحب نے خود اپ7نے سیاس7ی ایجن77ڈے
میں "غیر اسالمی رنگ" کے الفاظ کا ترجمہ اس طرح کیا ہے :بڑی حد تک ،انہوں نے اپنے سیاسی نظریات کی ادائیگی کی۔
گویا اقبال یہ کہہ رہے ہیں کہ بادشاہت دور جاہلیت کی طرف رجعت کا نام ہے۔ لہذا ،اقبال نے خالفت کے نام پر مسلمانوں میں
پائی جانے والی بادشاہت کی سختی سے مخ7الفت کی۔ الہ آب77اد کے خط77بے کے تقریب77ا sevenس7ات س7ال بع7د ، 7پن77ڈت نہ77رو کے
جواب میں ،اقبال نے اتاترک کے خالفت کے خاتمے کے فیصلے کی ان الفاظ کے ساتھ توثیق کی۔
کیا یہ خالفت کا خاتمہ ہے یا اسالم کے خالف مذہب اور سلطنت کی علیحدگی؟ اسالم اپنے حقیقی معن77وں میں بادش77اہت نہیں ہے۔
خالفت کے خاتمے میں ،جو اموی زمانے سے عملی طور پر ایک سلطنت بن چکے تھے ،اس77الم کی روح اٹ77اترک کے ذریعہ
چل رہی ہے۔ (ترجمہ میر حسن الدین)
الہ آباد کے خطبہ میں ایک اور لفظ کی اص77طالحی تب77دیلی کے دور رس اث77رات ہیں۔ اس خط77بے میں انہ77وں نے ص77رف دو ب77ار
اسالم کا لفظ استعمال کیا ہے (اسالمی یکجہتی کے اسالمی اص77ول) لیکن کہیں بھی اس نے ریاس77ت ی77ا ریاس77ت کے ل77ئے یہ لف77ظ
استعمال نہیں کیا ہے۔ لیکن سید نذیر نیازی صاحب نے جہاں بھی ترجمہ میں مستعمل ملتا ہے اس لفظ کا ترجمہ اسالمی سے کیا
ہے۔ خطبہ کا ایک ذیلی عنوان ہے[ :ہندوستان کے اندر مسلم ہندوس77تان] نی77ازی ص77احب اور ن77دیم مل77ک ص77احب نے بھی اس ک77ا
ترجمہ "ہندوستان کے اندر ایک اسالمی ہندوستان" کے طور پ7ر کی77ا ہے۔ جہ7اں بھی اقب7ال نے مس77لم ریاس7ت ی77ا ریاس7ت ک7ا لف7ظ
استعمال کیا ہے ،نیازی نے اسے اس77المی ریاس7ت ی7ا ریاس77توں س7ے اس77تعمال کی7ا ہے۔ یہی وہ غل7ط فہمی ہے جس نے تحری7ک
پاکستان کی راہ ہموار کی اور مسلمانوں کے سیاسی اور آئینی مطالبات کو اسالمی تقاض77وں میں ب77دل دی77ا۔ تحری77ک پاکس77تان کے
دنوں میں ،مذہبی مخالفین خصوصا جماعت اسالمی کی رائے تھی کہ مسلم لیگ کے مطالبات قومی مطالب77ات ہیں جن ک77ا اس77الم
سے کوئی تعلق نہیں تھا ،بلکہ قیام پاکستان کے بعد۔ ،یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نعرہ بازی شروع کی کہ "یہ اسالم کے نام پر
تشکیل دیا گیا ہے ،لہذا اسے اسالمی ریاست بننا چاہئے۔" اب سوال یہ ہے کہ کیا مسلم ریاست سے اسالمی ریاست کا سفر پاگ77ل
پن کا نتیجہ ہے یا روزے سے کچھ ارادے ظاہر ہوتے ہیں؟
تاہم ،بعض اوقات الفاظ اہم ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس معنی بیان کرنے کے ذرائع ہوتے ہیں۔ الفاظ کے صحیح معنی ک77ا تعین
نہ کرنے کا نتیجہ یہ مشہور تصور ہے کہ عالمہ اقبال نے اپنے خطبہ الہ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کیا۔
مصنف کے اصل مضمون کی بازیابی کے لئے کسی متن کو ص7حیح ط7ور پ7ر پڑھن77ا ض7روری ہے۔ اس س7ے اختالف بع7د میں
ہے۔ لہذا ،ہم الہ آباد خطبہ کی استدالل کو سمجھنے ،متن کو غلط س7مجھنے اور اس7تدالل ک7و نظران7داز ک7رنے کے ن7تیجے میں
پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں (شوکت)35# 2019 ,۔
عالمہ اقبال' sکا خطبہ کسی ش7اعر ک7ا لکھ7ا ہ77وا ادبی مض7مون نہیں 7ہے ،بلکہ آئی77نی اور ق7انونی ام77ور کی بہت اچھی تفہیم کے
ساتھ ایک عملی وکیل اور سیاستدان کے ذریعہ ہندوستان کو درپیش آئینی اور قانونی امور کا تجزیہ ہے۔ چونکہ یہ خطبہ طباعت
میں ہے ،لہذا بہتر ہوگا کہ آپ اس سے مشورہ کریں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ وہ اس میں کیا کہہ رہے ہیں۔
ٰ
صلو recکی تالوت کرنے کے بع77د رک ج77اتے مولویس نے بہت ساری چیزوں کا تذکرہ کیا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو تکبریو
ہیں اور اس کو حکم کا مفید مطلب سمجھتے ہیں۔ مولویس کے الفاظ کو ایک لطیفہ سمجھا جاسکتا ہے ،لیکن اقبال کے ساتھ اس
طرح سلوک کیا گیا ہے کہ لوگ ایک جملہ پڑھنے کے بعد ج77ذبات ک77و ابھارن77ا ش77روع کردی77تے 7ہیں۔ خطبہ کے دوران ،اس نے
صرف یہ جملہ پسند کیا:
میں چاہتا ہوں کہ پنجاب ،شمال مغربی سرحدی صوبہ ،سندھ اور بلوچستان ایک ریاست میں ضم ہوجائیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے
کہ شمال مغربی ہندوستان میں کم از کم ای77ک متح7دہ ہندوس7تانی ریاس7ت ،خ7واہ وہ برط7انوی س7لطنت کے ان77در ای77ک خودمخت77ار
ریاست ہو یا اس سے باہر ،باآلخر شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کا مقدر ہے۔ (اردو ت77رجمہ ڈاک77ٹر ن77دیم ش77فیق مل77ک۔ الہ
آباد خطبہ 1930از عالمہ اقبال۔ صفحہ )111
اس جملے سے دو اہم نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ پہلے ،اقبال نے ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا ،جس کا
نام بعد میں پاکستان رکھا گیا۔ دوس7را ن7تیجہ یہ نکال کہ اقب7ال نے اپ7نے خطبہ الہ آب7اد میں بنگ7ال ک7ا ذک7ر نہیں کی7ا۔ لہ7ذا ،س7انحہ
مشرقی پاکستان کے بعد ،مغربی حصے کے دانش77وروں نے بہت س77ارے اخب77اری مض77امین لکھے ،جس ک77ا خالص77ہ یہ تھ77ا کہ
چونکہ اقبال نے بنگال کا ذکر نہیں کیا تھا اور اس قرارداد میں بھی الہور میں ریاستوں کا ذکر کیا گیا تھا ،لہذا مش7رقی پاکس7تان
علیحدہ تھا۔ اس تاریخی غلطی کو درست کیا گیا ہے۔
اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ تقسیم ہند کی تجویز نہرو کمیٹی ک77و نہیں دی گ77ئی تھی۔ اقب77ال کے مط7ابق ،اس ص7وبے کے قی77ام ک77ا
مقصد موجودہ آئینی تعطل سے نکلنے کی راہ تالش کرنا ہے۔ وہ کہ77تے ہیں" :ص77وبوں کی مناس7ب تقس77یم کے س77اتھ مخل77وط اور
علیحدہ انتخابات کا معاملہ خودبخود آئین ہند کے تنازعہ کو ختم کردے گا(آغا)42# 2017 ,۔
ہندوستان میں ،کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان اصل فرق حکومت کی آئینی شکل تھی۔ مس77لم لی77گ نے مط77البہ کی77ا کہ آئین
ہند وفاق ہو جس میں وفاقی اکائیوں کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری حاصل ہو۔ کانگریس مضبوط مرک77ز کے س77اتھ حک77ومت کی
یکجہتی شکل کے حامی تھی۔ لہذا ،اقب77ال بھی مس77لمانوں کی اس7ی رائے کی تائی77د ک7رتے ہیں" :میں آزاد ہندوس7تان میں یکجہ7تی
حکومت کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ نام نہاد 'باقی اختیارات' خودمختار ریاستوں کو دیئے جائیں۔ مرکزی وفاقی ریاست کے پاس
ص7رف یہ اختی77ارات ہ77ونے چ77اہئیں ج77و وف7اق کی تش7کیل ک7رنے والی ریاس77تیں واض77ح ط7ور پ77ر اس کے س77پرد ک77رتی ہیں۔ میں
ہندوستان کے مسلمانوں کو کبھی سفارش نہیں ک77روں گ77ا کہ وہ حک77ومت ک77ا ک77وئی نظ77ام قب77ول ک77ریں ،خ7واہ وہ برط77انوی ہ77و ی77ا
ہندوستانی ،جو حقیقی وفاق کے اصول سے انکار کرتا ہے یا ان کے الگ الگ سیاسی وجود کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ "
لہذا ،اس خطبے کا سب سے قابل ذکر حصہ وہ سیکشن ہے جس میں ہندوستان کے دفاع کے موض77وع پ77ر تب77ادلہ خی77ال کی77ا گی77ا
ہے۔ اس مسئلے پر گفتگو کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت پین اسالم پسند تحریک کے ب77ارے میں بھی ب77ات کی گ77ئی تھی اور
ہندوؤں کو خوف تھا کہ مسلمان افغانستان اور وسطی ایشیاء اور ایک بار پھر ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلق77ات ق77ائم کرن77ا چ77اہتے
ہیں۔ حملوں کا سلسلہ شروع نہ کریں۔ اقبال نے خطبہ میں مسٹر سرینواس شاستری کے حوالے سے کہا[" :وہ] یقین رکھ77تے ہیں
کہ شمال مغربی سرحد کے ساتھ آزاد اسالمی ریاستوں کے قیام کے لئے مسلمانوں کا مطالبہ ان کی اس خ77واہش ک77ا اظہ77ار کرت77ا
ہے کہ ،اگر ضرورت ہو تو ،حکومت ہند پر دباؤ پڑ س77کتا ہے۔ میں یہ کہ77وں گ77ا کہ مس77لم ہندوس77تان کے دل میں اس ط77رح کی
کوئی روح نہیں ہے ،ان کی واحد فکر اپنی آزادی کے راستے پر آزادانہ ط7ور پ77ر آگے بڑھان77ا ہے ،لیکن یہ مرک77زی حک77ومت
کے تحت ممکن نہیں ہوگی جو ہندو قوم پرست حکمران صرف اس وجہ سے قائم کرنا چ77اہتے ہیں کہ وہ چ77اہتے ہیں ہمیش77ہ کے
لئے دوسری قوموں پر غلبہ حاصل کریں(حیات)10# 2019 ,۔
اسی وقت ،اللہ الجپت رائے کی طرف سے سی آر داس کو خط ،جو شاید 1925میں لکھا گیا تھا اور 1940میں منظر عام پر
آیا تھا ،اس سال کے ساالنہ اجالس میں قائداعظم نے اپنے صدارتی خط77اب میں نق77ل کی77ا تھ77ا۔ .قاب77ل ذک77ر ہے اللہ الجپت رائے
کے خط کا ایک جملہ ہے جس میں وہ کہتے ہیں7:
"میں کروڑ مسلمانوں سے خوفزدہ نہیں ہوں ،لیکن مجھے یقین ہے کہ ہندوستان میں 70ملین مسلمانوں کے ساتھ ،افغانستان ،
وسطی ایشیاء ،عربیہ ،عراق اور ترکی سے مسلح گ7روہ ہ7وں گے جن ک7ا مق7ابلہ نہیں 7کی7ا جاس7کتا ہے۔" یہ س7چ ہے کہ یہ خ7ط
اقبال کی موت کے بعد 7سامنے آیا تھا ،لیکن یہ یقینی طور پر ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت ہندوؤں میں یہ ایک عام جذبہ تھا۔ اس77ی
وجہ سے ،اس خطبے میں ،اقبال نے بار بار مسلمانوں کی حب الوطنی کا ذک77ر کی77ا ہے اور چ77اہتے ہیں کہ اس کے اس ج77ذبے
سے پوچھ گچھ نہ کی جائے ،لیکن حب الوطنی کا یہ جذبہ مساوی سلوک پر مشروط ہے۔ تو وہ کہتے ہیں:
"مجھے یقین ہے کہ اگر ایک وفاقی ریاست قائم ہوجاتی ہے تو ،مسلم وفاقی ریاستیں ،ہندوستان کی حفاظت کے ل7ئے زمین اور
سمندر میں غیر جانبدار ہندوستانی فوج کے قیام کے لئے ہر ممکن مدد 7فراہم کرنے کے لئے تیار ہ77وں گی۔" مغل77وں کے زم77انے
میں ،ایسے غیر جانبدار فوجی واقعتا .موجود تھے ،لیکن اکبر کے زمانے میں ،ان بارڈر فورس کے تمام افسر ہندو تھے۔ میں
محفوظ طور پر کہہ سکتا ہوں کہ اگر وفاقی نظام حکومت میں غیر جانبدار ہندوستانی فوج تشکیل دی گئی تو اس سے مسلمانوں
کے محب وطن جذبات کو تقویت ملے گی۔ اور اس سے یہ شک دور ہوگا کہ اگر ب7اہر س7ے حملہ ہ7وا ت77و ہندوس7تان میں مس77لمان
اپنے مذاہب میں شامل ہوں گے۔ "
اس خطبہ میں ،اقبال نے آئینی مسئلے کے دو حل تجویز کیے ہیں۔ پہال حل "برٹش انڈیا کو دوب77ارہ تقس77یم کرن77ا" ہے ت77اکہ ف77رقہ
وارانہ مسئلے کا دیرپا حل حاصل کیا جاسکے۔ اور اگر اس کو قبول نہیں کیا گیا ت77و میں ان مس77لمانوں کے ان مطالب77ات کی بھ77ر
پور حمایت کروں گا جن پر آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا مسلم کانفرنس کی طرف سے بار بار زور دی7ا گی7ا ہے۔ ہندوس7تان میں
مسلمان کبھی بھی ایسی آئینی تبدیلی پر راضی نہیں 7ہوں گے جس سے ان ک7ا پنج7اب اور بنگ7ال میں اک7ثریت کے حق7وق پ7ر اث7ر
پڑے گا ،ج77و علیح77دہ انتخاب77ات کے ذریعہ حاص77ل ہوگ77ا ی77ا مرک77زی اس77مبلی میں ان کی 33فیص77د نمائن77دگی کی ض77مانت دی77ئے
بغیر ...اور ہندوستان میں مسلمان وہ راضی نہیں ہوں گے کسی ایسی تبدیلی کے لئے جو سندھ کو ایک علیحدہ صوبہ نہیں بنات77ا
ہے اور شمال مغربی سرحدی صوبے کو سیاس7ی ط77ور پ77ر کم77تر درجہ نہیں دیت77ا ہے۔ م77یرے خی77ال میں ک77وئی وجہ نہیں ہے کہ
صوبہ بنانے کے لئے سندھ کو بلوچستان میں ضم نہیں کرنا چاہئے۔ "
اب ایک بات واضح ہے :اقبال بنگال کا بھی ذکر کررہے ہیں۔ اس وقت ،بنگال اور پنجاب سے مسلم نمائندگی 7کم کردی گئی اور
اقلیتی صوبوں سے نمائن77دگی ب77ڑھ گ77ئی۔ اس کی تفص77یالت ڈاک77ٹر ن77دیم ش77فیق مل77ک ص77احب کی کت77اب میں دیکھی جاس77کتی ہیں۔
دوسرے الفاظ میں ،بنگال اور پنجاب میں مسلمانوں کو ان کی آبادی کے مطابق نمائن77دگی کرن77ا ہ77وگی ،اس کے ن77تیجے میں وہ
واضح مسلمان اکثریت والے صوبے بن جائیں گے اور حکومت کے قیام میں غیر مسلموں کی ضرورت نہیں ہوگی(خان2014 ,
)43#۔
اس تمام گفتگو کا خالصہ یہی ہے کہ اقبال نے خطبہ ال ٰہ آباد میں نہ تقسیم ہند کا ک7وئی تص7ور دی7ا اور نہ کس7ی آزاد خ7ود مخت7ار
مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا۔ اس پر قو ِل فیصل خود عالمہ اقبال کا خطبہ الہ آباد کے دس ماہ بع77د 10اکت77وبر 1931ء ک77و لن77ڈن
ٹائمز کے ایڈیٹر کے نام خط ہے جس میں ٹامسن کا جواب دیتے 7ہوئے لکھتے ہیں :کیا میں ڈاکٹر ٹامسن س77ے یہ کہہ س77کتا ہ77وں
کہ میں نے برطانوی سلطنت س7ے ب7اہر ای7ک مس7لم مملکت ک7ا مط7البہ پیش نہیں کی7ا ہے بلکہ دھن7دلے مس7تقبل میں ان زبردس7ت
قوتوں کی امکانی کارفرمائی کے متعلق یہ ایک تخمینہ ہے ،جو برصغیر ہند 7کے مقدر کی اس وقت صورت گ77ری ک77ر رہی ہیں۔
ادنی سا شائبہ رکھتا ہے ،عملی سیاس77ت کے ای77ک منص77وبہ س77از کی حی77ثیت س77ے برط77انوی کوئی ہندوستانی مسلمان جو عقل کا ٰ
دولت عامہ سے باہر شمال مغربی ہند میں ایک مسلم مملکت یا مملکتوں کے سلسلہ کو قائم کرنے کا خیال نہیں 7کر رہا ہے۔۔۔ میں
ہندوستان کی ایسے صوبہ جات میں ازسرنو تقسیم کا قائل ہوں ،جس میں کسی ایک فرقہ کی اک77ثریت ہ77و ،جس کی وک77الت نہ77رو
رپورٹ اور سائمن رپورٹ نے بھی کی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلم صوبوں کے متعلق میری تجویز اس77ی تخی77ل ک77و آگے بڑھ77اتی
ہے ،ہندوستان کی شمال مغربی سرحد پ77ر مطمئن اور منظم ص77وبوں کاای77ک سلس77لہ ،س77طح مرتف77ع ایش77یا کی بھ77وکی نس77لوں کے
خالف ہندوستان کے لیے ،اور برطانوی سلطنت کے لیے ایک فصیل ثابت ہو گا۔ (زندہ رود ،جلد سوم ،ص )415
اب تک ہم اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ عالمہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں تقسیم ہند 7کا ک77وئی نظ77ریہ پیش نہیں کی77ا تھ77ا۔ ان کے
جس جملے سے یہ مطلب نکاال جا رہا ہے وہ صرف سٹیٹ کے لفظ کے معنی کو درست طور پر نہ سمجھنے کا ن77تیجہ ہے۔ اس
جملے میں اقبال نے سٹیٹ کا لفظ صوبے کے مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ یہ رائے کوئی میری نہیں بلکہ بہت سے ل77وگ اس ک77ا
اظہار کر چکے ہیں تاہم ان میں سے بھی بعض لوگ یہ یقین رکھ77تے ہیں کہ دراص7ل اقب7ال نے جن7اح کے ن7ام خط7وط میں ال7گ
آزاد اور خود مختار مملکت کا تصور پیش کیا تھا۔ اس لیے الزم ہو جاتا ہے کہ ان خطوط کا بھی جائزہ لے کر جانا ج77ائے کہ یہ
موقف کہاں تک درست ہے (خان)43# 2014 ,۔
اقبال کے جناح کے نام کل تیرہ خطوط ہیں جن میں زیادہ ت77ر مس77لم لی77گ کے داخلی مع77امالت ،پنج77اب میں یونینس77ٹ پ77ارٹی کے
ساتھ معامالت اور سکندر جناح پیکٹ کے حوالے سے ہیں۔ ان خطوط سے واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال اتح77اد پ77ارٹی کی سیاس77ت
کو سخت ناپسند کرتے تھے اور سکندر جن77اح پیکٹ کے متعل77ق ان کے ش77دید تحفظ77ات تھے۔ ان ت77یرہ خط77وط کی داخلی ش77ہادت
سے پتہ چلتا ہے کہ پہال خط جناح کے خط کے جواب میں لکھا گیا ہے اور اس کے بعد جناح نے ص77رف دو خط77وط ک77ا ج77واب
دیا ہے ،لیکن سکندر جناح پیکٹ کے بارے میں لکھے گئے کسی خط کا جواب نہیں دیا گیا۔ اس مضمون میں زی77ر بحث مس77ئلے
کے بارے میں تین خطوط بہت اہم ہیں۔ لیکن ان خطوط کا جائزہ لینے سے پیشتر یہ مناسب ہو گ77ا کہ ان کے پس منظ77ر ک77ا ای77ک
طائرانہ جائزہ لے لیا جائے۔
اقبال کے خطبہ الہ آباد کے بعد ہندوستان کی سیاست میں جوہری تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔ 1935کے ایکٹ کا نف77اذ ہ77و چک77ا
تھا جو مسلمانوں کے نقطہ نظر سے مایوس کن تھ77ا۔ اس ایکٹ کے تحت ص77وبائی اس77مبلیوں کے انتخاب77ات بھی منعق77د ہ77و چکے
تھے جن میں کانگرس نے شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔ مسلم لی77گ کی ک7ارکردگی اقلی77تی ص77وبوں میں ت77و ب77ری نہ تھی مگ77ر
اکثریتی صوبوں میں بہت خراب رہی تھی۔ صوبوں میں کانگرسی حکومتوں کے قیام کے بعد ہندووں ک77ا رویہ بہت جارح77انہ ہ77و
چکا تھا۔ حتی کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کے خالف ان کی سرگرمیاں شدت اختی77ار ک77رتی ج77ا رہی تھیں۔ اقب77ال کے
خیال میں وہ مسلمانوں کو دہشت زدہ کر دینا چاہتے تھے۔ مسلمانوں کے بارے میں کانگرس کا رویہ منیر نی77ازی کے الف77اظ میں
یہ تھا کہ
کانگرس نے 19مارچ 1937ء کو دہلی میں ای7ک ک7ل ہن7د 7ق7ومی کنونش7ن ک7ا انعق7اد کی7ا جس میں ص7وبائی اس7مبلیوں کے آٹھ س7و
کانگرسی ارکان نے شرکت کی تھی۔ پنڈت نہرو نے اس کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مسلم عوام س77ے رابطہ ک77رنے کی مہم
چالنے کا اعالن کیا۔ پنڈت جی کو اعتراف تھا کہ اس وقت تک کانگرس مسلم عوام کا اعتماد حاصل ک77رنے میں ناک77ام رہی تھی۔
ان کے نزدیک اس ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ کانگرس اب تک فرقہ پرست رہنمائوں س77ے ب77ات چیت ک77رتی رہی ہے۔ اب وقت آ
گیا تھا کہ مسلمانوں سے براہ راست رابطہ کرے انہیں کانگرس میں شامل ہونے پ77ر آم7ادہ کی77ا ج7ائے۔ اس تقری7ر میں انہ7وں نے
فرمایا:
حیرت کی بات یہ ہے کہ اب بھی ایسے لوگ ہیں جو مسلمانوں کو ایک الگ گروہ سمجھ کر ہندوؤں کے س77اتھ س77مجھوتہ ک77رنے
کا خواب دیکھتے 7ہیں۔ اگر یہ سوچ قرون وسطی میں رائج تھی ،جدید دور میں کوئی اس کے ب77ارے میں نہیں پوچھت77ا۔ آج ک77ل ،
ہر چیز کو معاشی نقط .نظر سے سمجھا جات7ا ہے۔ جہ7اں ت7ک غ7ربت ،بے روزگ7اری اور ق7ومی آزادی ک7ا تعل7ق ہے ت7و ہن7دو ،
مسلمان ،سکھوں اور عیسائیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اعلی فرقہ پرست رہنما ہمیشہ تقس77یم اور تقس77یم کی ب77ات ک77رتے رہ77تے
ہیں ،ان کی قوم ک77و نوکری77وں میں کتن77ا فائ77دہ ملے گ77ا اور اس77مبلی میں کت77نی نشس77تیں ملیں گی۔ ان رہنم77اؤں کے عالوہ ،جب ہم
لوگوں سے براہ راست ملتے ہیں ،تو ہم وہی مشترکہ مسائل دیکھتے 7ہیں جن کا میں نے ابھی ذک77ر کی77ا ہے ،یع77نی غ77ربت ،بے
روزگاری اور قومی آزادی کے عزم کا۔ ”(اقبال کے سیاسی کام کے حوالے سے) تحریر :محمد احمد خان ،صفحہ456 ...۔ میں
نے خطوط کے ترجمے کے لئے اسی کتاب پر انحصار کیا ہے ،لیکن کچھ جگہوں پر الفاظ کو تبدیل کردیا ہے۔
میرے پیارے جناب جناح! ہوسکتا ہے کہ آپ نے پنڈت جواہر الل نہرو کا خطبہ پڑھا ہو ،جو انہوں نے آل ان77ڈیا نیش77نل کنونش77ن
میں دیا تھا ،اور آپ نے اس پالیسی کو پوری طرح سے سمجھا ہوگا جو مسلمانوں کے بارے میں اس خطبے میں بی77ان ہ77وا تھ77ا۔
ہے مجھے یقین ہے کہ آپ پوری طرح واقف ہیں کہ ن77ئے آئین نے کم از کم ہندوس77تان میں مس77لمانوں ک77و مس77تقبل میں ہندوس77تان
اور مسلم ایشیاء میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں 7کے پیش نظر خود کو منظم کرنے کا ایک انوکھا طریقہ دیا ہے۔ موقع فراہم کی77ا
گیا۔ ہم واقعتا theملک میں دیگر ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تی77ار ہیں ،لیکن ہمیں اس حقیقت ک77و نظ77ر
انداز نہیں کرنا چاہئے کہ اخالقی اور سیاسی قوت کی حیثیت سے اسالم کا پورا مستقبل ہندوستان میں مسلمانوں کی مکم77ل تنظیم
پر منحصر ہے۔ ہے لہذا ،میں نے آل انڈیا نیشنل کنونشن کے لئے موثر جواب کی تجویز پیش کی ہے۔
آپ جلد سے جلد دہلی میں آل انڈیا مسلم کنونشن طلب کریں ،جس میں نئی صوبائی اسمبلیوں کے ممبروں کے س77اتھ س77اتھ دیگ77ر
ممتاز مسلم رہنماؤں کو بھی مدعو کیا جائے۔ آپ کو اس کنونشن کے ذریعہ پوری طاقت اور واضح وضاحت کے ساتھ ہندوستان
میں مسلمانوں کے الگ ،الگ الگ سیاسی اتحاد کا ہدف قرار دینا چاہئے۔ یہ ضروری ہے کہ ہندوستان اور بیرون مل77ک دون77وں
ہی دنیا پر یہ واضح کردے کہ ہندوستان کا مسئلہ صرف معاشی ہی نہیں ہے ،بلکہ اس کے دور رس نتائج کے ساتھ مس77لم نقطہ
نظر سے ایک ثقافت اور تہذیب ہے۔ معاشی مسئلے سے کم اہم نہیں۔ اگر آپ اس طرح کے کنونشن کا انعق7اد کرس7کتے ہیں ت7و ،
مسلم ارکان اسمبلی کا پول کھل جائے گا ،جنھوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی خواہشات اور خواہشات کے خالف اپ77نی ال77گ
جماعتیں تشکیل دی ہیں۔ مزید برآں ،یہ کنونشن ہندوؤں پر واضح کردے گا کہ کوئی سیاسی چال ،چاہے کت77نی گہ77ری ہی کی77وں
نہ ہو ،ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے ثقافتی اتحاد سے دور کرسکے۔ “
28مئی کو ،اقبال نے جناح کو ایک اور طویل خط لکھا جس میں اس نے زیربحث اس موضوع پر دو اہم ریمارکس دی77ئے۔ ان
کے مطابق ،مسلمانوں کو درپیش مسائل کا حل ایک یا زیادہ آزاد مسلم ریاس77توں کے بغ77یر ممکن نہیں ہے۔ ک77ئی س77الوں س77ے یہ
میری ایماندارانہ یقین ہے اور میں اب بھی اسے مسلمان روٹی کے مسئلے کو ح7ل ک7رنے اور پ7رامن ہندوس7تان کے حص7ول ک7ا
واحد راستہ سمجھتا ہوں۔ مسلم ہندوستان میں ان مسائل [معاشی اور معاشرتی جمہوریت] کے حل کے ل ، theمل77ک ک77و دوب77ارہ
تقسیم کرنا اور ایک یا زیادہ مسلم ریاستیں قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں (مسلم) اکثریت مطل77ق ہے۔ آپ کی رائے میں ،کی77ا
یہ مطالبہ کرنے کا وقت نہیں ہے؟ ”(ابید۔ ،صفحہ )5-474
اس خط میں ملک کی مجوزہ تقسیم کو صوبوں کی ایک نئی حد بندی کا مطلب ہے تاکہ مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں ک77و
واضح اکثریت حاصل ہو اور وہ ایک مؤثر حکومت تشکیل دے سکے جس سے غیر مسلموں کو زندہ رہنے ک7ا موق77ع ملے۔ م77دد
کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اقبال کے خیال میں " ،پرامن ہندوس77تان کے حص77ول" ک77ا یہی واح77د راس77تہ ہے۔ وہ تقس77یم ہن77د ک77ا
کوئی فارموال پیش نہیں کررہے ہیں (شوکت)35# 2019 ,۔
اس خط کا جواب ملنے پر ،اقبال نے 21جون کو ایک اور لمبا خط ،باصغہ راز لکھا ،جو شاید اس سیریز کا سب سے اہم خط
ہے جس میں اقبال ایک قدم آگے بڑھ گیا ہے۔
"مجھے ایسا لگتا ہے کہ آئین جدید ہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے تیار کی77ا گی77ا ہے۔ ہن77دو اکثری77تی ص77وبوں میں ،ہن77دووں ک77و
مطلق اکثریت حاصل ہے اور وہ وہاں کے مسلمانوں کو یکسر نظرانداز کرسکتے ہیں۔ اس کے برعکس ،مسلم اکثریتی صوبوں
میں ،مسلمانوں کو رکھا گیا ہے ہندوئوں کے ہاتھ۔مجھے شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ موج77ودہ آئین ہندوس77تانی مس77لمانوں
کے لئے زہر تجویز کرتا ہے۔ مزید برآں ،یہ آئین ان معاش77ی مش77کالت ک77ا عالج نہیں ہے ج77و مس77لمانوں میں خ77راب ہورہ77ا ہے۔
فرقہ وارانہ ایوارڈ ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی شناخت کو تسلیم کرتا ہے ،لیکن وہ اس قوم کی سیاسی ش77ناخت ک77و تس77لیم
نہیں کرتا جو اپنی معاشی پسماندگی کا حل تجویز نہیں کرتا اور نہیں کرسکتا۔
اس خط میں اقبال نے دو بہت اہم باتیں کی ہیں جو بہت دوررس نتائج کی حامل ہیں۔ اوالً مسلم صوبوں کے علیح77دہ فیڈریش77ن کی
تجویز پیش کی ہے جس میں وہ ایک آزاد ملک کے مط77البے کے بہت ق7ریب آ گ77ئے ہیں لیکن اقب77ال اس تج7ویز ک77و ای77ک پ77رامن
ہندوستان کے حصول کی شرط قرار دے رہے ہیں۔ بعد کے ح7االت اور ہن7دووں کے رویے نے ح7االت ک7و اس ڈگ7ر پ7ر ڈال دی7ا
جہاں تقسیم کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا۔
ان کی دوسری تجویز اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے بارے میں ہے کہ فی الحال اکثری7تی ص7وبوں ک7و انہیں نظ7ر ان7داز کرن7ا
پڑے گا۔ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں بھی پاسنگ کے تصور کو رد ک77ر کے پنج77اب اور بنگ77ال میں ان کی اک77ثریت کی بح7الی ک77ا
مطالبہ کیا تھا۔ میثاق لکھنﺅ میں بنگ7ال اور پنج77اب کے مس7لمانوں کی اک77ثریت کم ک77ر کے ی77و پی ،بہ77ار اور دیگ77ر ص7وبوں کے
مسلمانوں کی نشستوں میں اضافہ کیا گیا تھا جس کا اقلیتی صوبوں کو تو کوئی فائدہ نہ ہوا لیکن اکثریتی صوبوں کو بہت نقصان
اٹھانا پڑا۔ چنانچہ اقبال اس پاسنگ کو رد کرکے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کو آب77ادی کے تناس77ب
سے نمائندگی دی جائے۔
خطبہ الہ آباد اور خطوط کے مطالعے سے دو نتائج اخذ ہوتے ہیں۔
( ) 1اقبال نے خطبہ الہ آباد میں ہندوستان کو تقسیم کرکے کسی علیحدہ مملکت کے قیام کا کوئی تصور پیش نہیں کیا تھا۔
( )2جناح کے نام 21جون 1937کو تحریر کردہ خط میں وہ اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ ”مسلم صوبوں کے ای77ک علیح77دہ
وفاق ( ) separate federationکی تشکیل ہی وہ واحد طریقہ عمل ہے ،جس کے ذریعے ہم ایک پ77رامن ہندوس77تان حاص77ل ک77ر
سکتے ہیں اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے تسلط س77ے بچ7ا س7کتے ہیں “۔ یہ77اں اقب7ال کے علیح77دہ فیڈریش77ن کے الف7اظ ک77و یہ
معنی پہنائے 7جا سکتے ہیں کہ وہ ایک الگ مملکت کے قیام ک77ا مط77البہ پیش ک77ر رہے ہیں ،س77یاق کالم اگ77رچہ اس کی تائی77د نہیں
کرتا۔ اگر یہ بات تسلیم کر بھی لی جائے تو ایک خط میں بیان کردہ رائے کیا اتنی اہم ہو جاتی ہے کہ اقبال کو تصور پاکستان کا
خالق قرار دے دیا جائے۔
اب یہاں ایک اہم سوال سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے کہ آیا مسلم لیگ کی قیادت نے تحریک پاکستان کے دوران میں کبھی اس ب77ات
کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کا تصور عالمہ اقبال نے پیش کیا تھا اور وہ ان کے تصور کے مطابق ایک ن77ئی مملکت کی تش77کیل
کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم مسلم لیگ کی دستاویزات سے رجوع کریں اور یہ ہماری خوش
قس77متی ہے کہ مس77لم لی77گ کے س77االنہ جلس77وں کی رودادیں مطب77وعہ ص77ورت میں دس77تیاب ہیں۔ ان کے مط77العے س77ے تحری77ک
پاکستان کے بارے میں مسلم لیگ کی جدوجہد کو جاننے کے لیے ہمیں بنیادی آگاہی میسر آتی ہے۔
1938 ءکا سال مسلمانان ہند 7پر بہت بھاری تھا کہ اس برس عالمہ اقبال اور موالنا شوکت علی دنیا سے رخصت ہ77و گ77ئے۔ اس77ی
برس دسمبر میں پٹنہ کے مقام پر مسلم لیگ کا ساالنہ اجالس منعقد ہوا اور اس موقع پر موالن77ا ش77وکت علی کے انتق77ال پ77ر 234
الفاظ پر مشتمل قرارداد تعزیت منظور کی گئی جس میں ان کی سیاسی خدمات ک77و بے پن77اہ خ77راج تحس77ین پیش کی77ا گی77ا۔ اس کے
ساتھ ہی عالمہ اقبال کے لیے جو قرارداد تعزیت منظور کی گئی وہ صرف 96الف77اظ پ77ر مش77تمل ہے اور اس ق77رارداد میں انہیں
بطور فلسفی اسالم اور ایک عظیم قومی شاعر کی حیثیت سے خراج تہنیت پیش کیا گیا ہے تاہم ان کی سیاس77ی خ77دمات ک77ا ک77وئی
تذکرہ نہیں 7کیا گیا۔
اسی اجالس میں قائد اعظم نے اپنی صدارتی تقریر میں موالنا ش77وکت علی ک77ا ت77ذکرہ زی77ادہ تفص77یل کے س77اتھ کی77ا اور اس س77ے
مختصر تر الفاظ میں عالمہ اقبال کو خراج تحسین پیش کیا جس میں ان کی شاعرانہ عظمت کا ذک77ر ت77و کی77ا مگ77ر ان کی سیاس77ی
خدمات کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ اس کے بعد مارچ 1940ء میں مسلم لیگ کا اجالس الہور میں منعقد ہ77وا جس میں مش7ہور زم7انہ
ق77رارداد الہ77ور منظ77ور کی گ77ئی اور مس77لمانوں کے ل77یے علیح77دہ ریاس77توں کے قی77ام ک77ا مط77البہ کی77ا گی77ا۔ اس اجالس کی پ77وری
کارروائی کے دوران میں کسی مقرر نے اور نہ جناح صاحب نے اپ7نی تقری7ر میں اس ب7ات ک7ا ک7وئی ذک7ر کی7ا کہ وہ اقب7ال کے
خواب کو شرمندہ تعبیر کر رہے ہیں۔ حتی کہ مسلم لیگ کے 1947ء تک منعقد ہونے والے ساالنہ اجالس77وں میں کبھی اقب77ال ک77ا
کوئی تذکرہ نہیں 7ہوا نہ کسی مقرر نے انہیں تصور پاکستان کا خالق قرار دیا۔
البتہ دو مواقع ایس77ے ہیں جب جن77اح ص77احب نے اقب77ال کے متعل77ق اس رائے ک77ا اظہ77ار کی77ا ہے کہ انہ77وں نے بھی ای77ک علیح77دہ
مملکت کا خیال ظاہر کیا تھا۔ خطوط اقبال بنام جناح ،جو 1942میں پہلی دفعہ شائع ہوئے ،کے پیش لفظ میں انہوں نے لکھ77ا ہے
:
"مجھے یقین ہے کہ یہ خطوط بڑی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں ،خاص کر ان لوگوں کے لئے جو مسلم ہندوس77تان کے مس77تقبل
کے بارے میں واضح اور غیر واضح انداز میں اپنے خیاالت کا اظہار کرتے ہیں۔ میرے خیاالت بنیادی طور پر ان کے خی77االت
اور امور کے محتاط مطالعہ کے مطابق تھے۔ آئینی قوانین ہندوستان کا سامنا کرنا پڑا اور قریب سے جانچ پڑت77ال کے نت77ائج نے
آخر کار مجھے اسی نتیجے پر پہنچایا ،اور یہ خیاالت بعد میں مسلم ہند کی متحدہ مرضی سے ظاہر ہوئے۔ کل ،ہند مس7لم لی7گ
کی ایک قرارداد منظر عام پر آئی ۔الہور میں ،جسے عام ط7ور پ7ر پاکس7تان ق7رار داد کہ7ا جات7ا ہے۔ ،ج7و 24م7ارچ 1940ک7و
منظور کیا گیا تھا۔ (اقبال کے جناح سے خط ،صفحہ )7-6
1944میں یوم اقبال کے موقع پر اپنے پیغام میں دوسری بار انہوں نے کہا:
ایک عظیم شاعر اور مفکر کی حیثیت س77ے ،وہ ای77ک عملی سیاس77تدان س77ے کم نہیں تھے۔ اس77الم کے اص77ولوں پ77ر ان کے پختہ
عقیدے 7اور اعتقاد کی بدولت ،وہ ان چند لوگ77وں میں ش77امل تھے ج77و مس77لمانوں کے ت77اریخی آب77ائی وطن ،ہندوس77تان کے ش77مال
مغربی اور شمال مشرقی عالقوں میں اسالمی ریاست کے ممکنہ قیام پر غور کرتے تھے۔ ڈاکٹر جاوی77د اقب77ال ،زن77دہ روڈ ،جل77د
سوم۔ ص )423
کیا مذکورہ دو حوالوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اقبال پاکستان کے تصور کے واحد تخلیق کار تھے؟ محمد احمد خ77ان
نے اپنی بہت بڑی کتاب ،اقبال پولیٹیکل اچیومنٹ میں ،اصرار کیا ہے کہ صرف اقبال کو پاکستان کے تصور ک7ا خ7الق کہالنے
کا حق ہے۔ 20ویں صدی میں ،جب ہندوستان میں جمہوری ادارے ابھرنے لگے ،تو یہ خواب دیکھنے 7وال77وں کے ل77ئے ک77وئی
راز نہیں تھا کہ ہندوستان جیسے متنوع ملک میں برطانوی طرز کی جمہوریت کا قیام آسان نہیں ہوگا۔ لہذا ،مختلف لوگ مختلف
اوقات میں اس طرح کے خیاالت کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین ای77ک ت77وازن ک77ا ف77ارموال دری77افت
کیا جانا چاہئے۔ قائداعظم کا کہنا ہے کہ ،ہندوستان کو درپیش آئینی مس77ائل کے ح77ل کے ب77ارے میں اقب77ال کی رائے ہے ،جہ77اں
برطانوی ،ہندو اور مسلمان سمیت بہت سے لوگوں نے اپنے خیاالت کا اظہار کیا ہے۔
اس پس منظر کے ساتھ تحریک پاکستان کے ایک نامور رہنما اور قائد اعظم کے دست راست ،ایم۔ اے۔ ایچ۔ اصفہانی ،کا یہ بیان
بہت اہمیت کا حامل ہے جسے ڈاکٹر جاوید اقبال نے احسان فراموشی کی مثال قرار دیا ہے:
”اس بات سے بالشبہ انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ڈاکٹر اقبال کا فکر ،شاعری اور خطبات بھی اسی سمت میں اش77ارہ ک77رتے تھے
(یعنی مسلم ریاست کے قیام کی طرف) لیکن یہ کہنا کہ وہ مسلم ریاست کے تصور کے خالق تھے ،تاریخ ک77و مس77خ کرن77ا ہے۔ “
(زندہ رود ،جلد سوم ،ص )389
ان تمام شواہد کی روشنی میں یہ سوال بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ عالمہ اقبال کو کب اور کن لوگ77وں نے تص77ور پاکس77تان
کا خالق قرار دیا اور اس کی وجوہ کیا ہیں۔
میرا خیال ہے کہ اس تصور کا پرچار ک7رنے میں پنج7اب کے بعض ص7حافیوں اور م7ذہبی طبقے نے نمای7اں ک7ردار ادا کی7ا ہے۔
پنجاب کے بعض صحافی جو عالمہ اقبال سے قرب رکھتے تھے وہ بوجوہ جناح کی قیادت ک77و ناپس77ند ک77رتے تھے اور اس کے
بارے میں تحفظات کا شکار تھے۔ مذہبی طبقے کے لیے جناح کی قیادت کو تسلیم کرن7ا ک77وئی آس7ان ک7ام نہیں تھ77ا کی77ونکہ جن77اح
اپنے حلیے ،لباس اور طرز بود و باش میں مذہبی طبقے سے کوسوں کے فاصلے پر تھے اور نہ کسی طرح اسے موالنا محم77د
علی جناح بنانا ممکن تھا۔
بیسویں صدی کے آغاز سے مسلمانوں کی قیادت زیادہ تر مذہبی طبقے کے ہاتھ میں تھی یا اس میں وہ صحافی نمایاں تھے ج77و
مذہبی رجحان رکھتے تھے۔ حتی کہ علی برادران کو سیاست میں آنے کے ل77یے اور قی77ادت کی ص77ف اول میں کھ77ڑا ہ77ونے کے
لیے مولویوں کی شباہت اور لباس اختیار کرنا پڑا۔ اسی دوران میں ہندوستان میں خالفت کے نام پر ای77ک انتہ77ائی بے مقص77د اور
جذباتی تحریک شروع کر دی گئی۔ اس سے پہلے ریشمی رومال تحریک اور موالنا ابو الکالم آزاد نے ہندوستان سے ہجرت ک77ا
فتوی بھی دے دیا تھا جس کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان خاندان تباہ و برباد ہو گئے۔ خالفت کی تحریک میں مسلمانوں ٰ تباہ کن
نے بے پناہ مالی قربانی دی حاالنکہ اس وقت مسلمانوں کی اقتصادی حالت بہت خوار و خستہ تھی۔ اس کے ب7اوجود اس زم7انے
میں الکھوں روپے کا چندہ جمع کیا گیا۔ باآلخر ایک دن یہ جذباتی تحریک اپنی موت آپ مر گئی۔ اس تحریک کا ای77ک اچھ77ا اور
پائیدار نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اس کے بعد مسلمانان ہند نے کبھی بھی مولویوں کی سیاسی بصیرت پر اعتم77اد نہیں کی77ا اور ان کی
سیاسی قیادت کو ہمیشہ کے لیے رد کر دیا (آغا)42# 2017 ,۔
اس مایوسی کے عالم میں مسلمانان ہند کو جناح کی صورت میں ایک ایسا لیڈر نظر آیا جو جدید زمانے کے تقاض77وں ک77و خ77وب
سمجھتا تھا ،جو انگریزوں اور ہندووں کی چالوں کو سمجھنے اور ان کا توڑ کر نے کی صالحیت رکھتا تھا۔ وہ دی77انت و ام77انت
میں بے مثال کردار کا مالک تھا کیونکہ اس سے قبل جو بھی قیادت تھی اس پر تحریک کے بعد چندے کھانے کا الزام عائ7د کی7ا
جاتا تھا۔ جو مذہبی طبقہ کانگرس کے جارحانہ رویے سے دل برداشتہ ہوا اس کے لیے جناح کی قیادت کو قبول کرنے کے سوا
کوئی چارہ ک77ار نہ رہ77ا۔ ت77اہم وہ اس ب77اب میں نفس77یاتی الجھن ک77ا ش77کار رہے اس ل77یے انہیں اپ77نے فیص77لے کے ج77واز میں کبھی
خوابوں کا سہارا لینا پڑتا تھا اور کبھی دیگر عذر تراشنے پڑتے تھے۔
"اگر پادریوں کے ایک بڑے حصے نے اپنی سیاسی قیادت کے لئے قائداعظم کا انتخاب کی7ا ت7و کی77وں؟" اس ک77ا ج7واب جم7اعت
علی شاہ صاحب نے دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت مسلم قوم ایک مقدمے ک77ا س77امنا ک77ر رہی ہے اور اس77ے وکی77ل کی ض77رورت
ہے۔ ایک وکیل کے پاس ایماندار اور قابل ہونے کے لئے خصوصیات ہونی چاہئیں۔ قائداعظم کی دونوں خصوصیات ہیں۔ "
پیر جماعت علی شاہ صاحب کا یہ جواب بہت اہم ہے اور زیادہ تر مذہبی طبقے نے یہ سوچا تھا کہ جن77اح ان کے بس وکی77ل ہیں۔
یہ بات ہر ایک پر عیاں ہے کہ وکیل کو اس کیس کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ مقدمہ جیت گیا اور وکی7ل ک7ا ک7ردار کھ77و گی77ا۔ اب یہ
مدعیوں پر منحصر ہے کہ وہ جائیداد کے ساتھ کس طرح سلوک کرتے ہیں۔
یہ اس سوال کا جواب ہے کہ عالمہ اقبال کو تصور پاکستان کا خالق کیوں کہا جاتا ہے؟ اگرچہ اقبال اپنی پ77وری زن77دگی مال دین
کے خالف گانے گاتے رہے ہیں ،لیکن ان کی شاعری کا ای77ک حص77ہ ایس77ا بھی ہے جس77ے مول77وی اس77تعمال کرس77کتے ہیں اور
اپنی پسند کے مطابق استعمال کرسکتے ہیں۔ اب یہ ان کی شاعرانہ عظمت کا ح77یرت ہے کہ ان کے خالف فت77وے ج7اری ک77رنے
والے بھی ان کی نظموں کی تالوت کیے بغیر نہیں جی سکتے(حیات)10# 2019 ,۔
اس ساری گفتگو کا مضمر یہ ہے کہ اس دع77وے کی ک77وئی بنی77اد نہیں ہے کہ اقب77ال Pakistanپاکس77تان کے تص7ور پاکس77تان ک7ا
اصل ہے۔ اس سارے افسانے کا اصل مقصد قائداعظم کے کردار کو کم کرنا ہے اور ایسا کرنے کی وجہ اقب77ال س77ے محبت نہیں
بلکہ جناح سے نفرت ہے۔ تاہم ،اس حقیقت س77ے انک77ار نہیں کی77ا جاس77کتا ہے کہ کچھ س77مجھدار اف77راد ،ج77و کہ اقب77ال اور جن77اح
دونوں سے سرشار ہیں ،نادانستہ اس قیمت پر دھوکہ دیا گیا ہے۔
خ
اسالم اورجدیدیت اور ج دی د ری است کے م ت لف نظریات
اسالمی ثقافت میں سوانح عمری لکھنے کا آغاز نویں ص77دی میں ہ77وا تھ77ا اور وہ ق77دیم س77وانحی روای77ات س77ے
متاثر ہے ،جس کی مثال ترجم translationاور سیرت ہیں۔ اسالمی کاموں کی ہ77ائگرافی خ77اص ط77ور پ77ر ن77بی from
سے آنے والی بجلی کی منتقلی کی زنجیر سے متعلق ہے۔ عربی زبان کی ابتدائی س7وانح عم7ری میں س7ے کچھ بنی7ادی
طور پر ان سوانح حیات کی مثالیں ہیں۔ چونکہ اسالمی مورخین عینی شاہدین کے اک77اؤنٹوں ک77و بہت اہمیت دی77تے ہیں ،
لہذا بعد کے اوقات میں خود نوشت سوانح کو ایک قابل اعتماد اور اہم وسیلہ سمجھا جات77ا تھ77ا۔ رینال77ڈس ڈوائٹ نے اپ77نی
کتاب انرپریٹنگ دی سیلف میں ،نویں اور 19ویں صدی کے درمیان لکھی گئی تین س7ے زی7ادہ ع7ربی س7وانح عم7ری
کی نشاندہی کی اور چھ نمائندوں کے کاموں کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔
اکثر اوقات ،ق77رآن کی ای77ک خ7اص آیت خ77ود اظہ77ار خی77ال کی موج77ودگی ک77ا م77ذہبی ج7واز پیش ک77رتی ہے۔ (
" )93:11اور اپنے رب کی نعمتوں کو یاد کرو۔" سخاوت کی صفات کو بیان کرنا تھا۔ مصنفین اکثر ماضی کی مش77ہور
شخصیات کا حوالہ دیتے ہیں یا مصنف کی تعلیمات کی روحانی نسب کی تصدیق کرتے ہیں۔ کھلی قاری کے لئے ایک
مثال پیش کریں ۔
دوسری روایات کی طرح ،کسی خاص مذہبی موضوع پر زور خ77ود س77وانح عم77ری لکھ77نے کی ای77ک خ77اص
سطح یا صنف سے وابستہ ہے۔ مومن حقائق بتاتے ہیں کہ کس طرح ایک مسیحی یا یہ77ودی مس77لمان ہ77وا ی77ا نس77بتا care
الپرواہ مسلمان کس طرح زیادہ متقی ہوگیا یا صوفیاء کی راہ یا صوفیوں کے طریقوں پر چل پڑا۔ حج کے واقعات مکہ
کے سفر کے اثرات کو بیان کرتے ہیں جس نے زندگیوں کو تبدیل کردیا۔ صوفیاء کی تصنیف میں صوفیانہ حاالت اور
روحانی مقامات تک رسائ کے وسائل کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ سلطنت کے ب77انی نے لکھ77ا
تھا []11۔
۔
حوالہ ج ات:
:Internet Links
https://en.wikipedia.org/wiki/Mircea_Eliade .1
https://comparativestudies.osu.edu/people/jones.70 .2
https://comparativestudies.osu.edu/people/jones.70 .3
/https://www.britannica.com .4
https://en.wikipedia.org/wiki/Louis_Jacobs .5
/https://www.wikipedia.org .6
/https://databases.uba.uva.nl .7
/https://dominicanfriars.org/william-joseph-hill-o-p-s-t-m .8
https://fr.wikipedia.org/wiki/Georges_Chehata_Anawati .9
manfred- https://www.ioa.unibonn.de/de/abteilungen/religionswissenschaft/mitarbeiter/ .10
hutter
http://www.adyannet.com/fa .11
http://articles.islamweb.net .12
/http://www.bahai.org .13
https://en.wikipedia.org/wiki/Rita_Gross .14
https://en.wikipedia.org/wiki/Andrew_Rippin .15
http://en.m.wikipedia.org .16
http://ur.n.m.wikipedia.org .17
http://www.bgu.ac.il/~lasker/index.htm. .18
https://en.wikipedia.org/wiki/Leonard_Levy .19
alfeker.net .20
https://islamhouse.com .21
/http://alibrary.org .22
http://waqfeya.com .23